ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

2018
 امریکا، چین، اسرائیل اور ایران کے لیے نئے چیلنج
گزشتہ ہفتے آنے والے سال 2018 کے حوالے سے علم فلکیات کی روشنی میں امکانات اور رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نیا سال 2018ءکے بارے میں ہم جو کچھ محسوس کر رہے ہیں وہ مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کامیاب رہے، بہت سی باتیں ناگفتنی ہوتی ہیں اور بہت کچھ سمجھنے اور پھر اسے بیان کرنے میں دشواریاں بھی پیش آتی ہیں، پورے ایک سال کے 12 مہینوں پر نہایت باریک بینی سے تفصیلی نظر ڈالنا اکثر ممکن نہیں ہوتا، سال بھر کی سیاروی گردش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ بنیادی اثرات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے،اس حوالے سے آنے والا سال ہمیں نہایت اختلافی، فتنہ پرور اور شر انگیز نظر آتا ہے،باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سال کے حقیقی ثمرات کیا ہوں گے؟
اپنے گزشتہ ہفتے کے سالانہ مضمون میں ہم نے خصوصی طور پر زائچہ ءپاکستان کو موضوع بنایا اور زیادہ گفتگو پاکستان کے حوالے سے ہی ہوئی، جب کہ بیرونی عناصر اور عوامل کو بھی مدنظر رکھنا ضرور ہوتا ہے،دنیا کس طرف جارہی ہے؟ دیگر ممالک آج کس مقام پر کھڑے ہیں اور ان کے اپنے اہداف کیا ہیں؟مزید یہ کہ دیگر ممالک کے سربراہان مملکت کون لوگ ہیں اور اپنے مزاج اور فطرت میں کیسی اچھی یا بری خصوصیات کے حامل ہیں، اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے،ہم بہت پہلے اپنے ایک مضمون میں یہ حوالہ دے چکے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ جب شروع ہوئی تو بین الاقوامی ماحول کیا تھا اور کس قسم کے لوگ اس ماحول میں طاقت ور کردار ادا کر رہے تھے،بعد میں ثابت ہوا کہ جنگ کی آگ بھڑکانے والے ہٹلرمسولینی منفی سوچ اور انتہا پسندانہ فطرت کے حامل تھے۔
گزشتہ سال جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ الیکشن میں کامیاب ہوئے اور ہم نے ان کا زائچہ پیش کیا تو اس وقت بھی اس حقیقت کی نشان دہی کی تھی کہ وہ ایک منفی سوچ رکھنے والے انتہا پسند ہیں،ساتھ ہی دیگر ملکوں کے بعض سربراہان کے حوالے سے بھی نشان دہی کی تھی جن میں بھارت کے نریندر مودی، مصر کے عبدالفتح السیسی، شام کے بشار الاسد، کوریا کے کم جون اُن وغیرہ شامل ہیں۔
اسی تناظر میں ان ملکوں کے زائچوں پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے جو آنے والے سالوں میں تیسری عالمی جنگ کے آغاز میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،ایسے ملکوں میں ہماری تحقیق کے مطابق سرفہرست امریکا ، چین، اسرائیل، جاپان، ایران، شام، یمن، پاکستان، بھارت، مصر وغیرہ نمایاں ہوں گے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں سے اکثر ملکوں کا پیدائشی برج سرطان، جدی یا ثور ہے اور 2019 میں خطرناک نوعیت کی سیاروی پوزیشن ان ہی تین برجوں پر اثر انداز ہوگی،فی الحال زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے،انشاءاللہ آئندہ اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوگی۔
امریکی زائچے کا منظر نامہ
عزیزان من! جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بین الاقوامی منظر نامے میں امریکا بہادر کو دنیا کا چوہدری بننے کا خبط ہے اور اس کی وجہ اس کی مضبوط معاشی پوزیشن اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی ہے،مزید یہ کہ ہم نے امریکی زائچے کی روشنی میں عرض کیا تھا کہ امریکی قوم کی فطرت جنگ جویانہ ہے،دنیا میں جہاں جہاں بھی فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے،وہاں کسی نہ کسی حوالے سے امریکا کی موجودگی بھی ضروری ہے،جنوبی ایشیا میں چین سے امریکی محاذ آرائی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، کہا جاتا ہے کہ بھارت سے امریکا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کے پیچھے بھی چین دشمنی سرفہرست ہے،دوسری طرف چین کے ”برخوردار“ شمالی کوریا کا کردار امریکا یعنی مسٹر ٹرمپ کے لیے ناقابل برداشت ہوتا چلا جارہا ہے،شمالی کوریا کے سربراہ کم جون اُن ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی بہت آگے کی چیز ہیں، ان کے لیے اگر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے تو بھارت کے نریندر مودی اور مصر کے جنرل السیسی ہیں کیوں کہ تینوں افراد کا پیدائشی برج عقرب ہے، مسٹر ٹرمپ کا پیدائشی برج اسد ہے اور اسدی افراد کی انا بہت بلند ہوتی ہے،وہ صرف فرماں برداری اور انکساری پسند کرتے ہیں، یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے سامنے کوئی سر اٹھائے، سرکشی کا مظاہرہ کرے،عقربی کِم جون نہایت خاموشی سے اپنا زہریلا ڈنک استعمال کرکے مسٹر ٹرمپ کو بے چین و بے آرام کرتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اکثر امریکی شیر کی دھاڑ سنائی دیتی رہتی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں شیر کی قوت برداشت جواب دینے والی ہے۔
دسمبر سے امریکی زائچے کے مطابق ایک سخت وقت کا آغاز ہورہا ہے جو نہ صرف امریکا کے لیے بلکہ امریکی صدر کے لیے بھی نئے مسائل اور نئے چیلنج سامنے لائے گا جس کا آغاز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی صدر نے کردیا ہے، زائچے میں سیارہ مشتری کی پوزیشن اور راہو کیتو کی پوزیشن آئندہ سال تقریباً مارچ تک بہت اہم نظر آتی ہے،امریکا کو مختلف محاذوں پر غیر معمولی مخالفت اور دباو ¿ کا سامنا ہوگا، ممکن ہے دنیا بھر میں رائے عامہ بہت زیادہ امریکا کے خلاف ہوجائے خصوصاً عالم اسلام یروشلم کا اسرائیلی دارالحکومت ہونا کسی طور بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہو،یہ صورت حال امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کے لیے بھی پریشان کن ہوگی،امریکی معیشت کو بھی کوئی بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے،اس دوران میں کیے گئے سخت فیصلے بعد میں امریکا کے گلے پڑسکتے ہیں اور امریکی زائچے کی آئندہ چند ماہ کے دوران میں پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا خاصے جارحانہ موڈ میں ہوگا، ایسے فیصلوں میں شمالی کوریا کے خلاف کارروائی ، مڈل ایسٹ میں غیر معمولی نوعیت کی مداخلت اور اسرائیل نوازی، افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے مسٹر ٹرمپ کی پالیسیوں کے مطابق کوئی بڑی کارروائی کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ اک دم نہیں ہوتا
یہ مشہور شعر ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے،ملکوں اور قوموں پر اچھے یا برے وقت اچانک ہی نمودار نہیں ہوتے،ان کے پیچھے مختلف حالات و واقعات کی کڑیاں باہم ایک دوسرے سے جڑتی چلی جارہی ہوتی ہیں، ہمارے خیال سے دسمبر سے مارچ تک کا وقت امریکا کے لیے درحقیقت نئی الجھنیں ، نئے تنازعات اور نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے،ایسے وقتوں میں تدبر اور تحمل کے ساتھ قوم کی رہنمائی ضروری ہوتی ہے اور یہی کام مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نہیں جانتے، حالاں کہ ان کے اقدام اور فیصلے خود امریکا میں بھی متنازع خیال کیے جارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں امریکی دانش ور انہیں مزید تنقید کا نشانہ بنائیں گے،اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنے بعض اقدام اور فیصلوں کے نتیجے میں اپنی رہی سہی مقبولیت بھی کھو بیٹھیں اور ان کے خلاف امریکی کانگریس یا عدلیہ بعض سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوجائے۔
عوامی جمہوریہ چین
چین پاکستان کے گہرے دوستوں میں شامل ہے اور ایک بڑے عظیم الشان منصوبے پر کام کا آغاز کرچکا ہے جسے سی پیک کا نام دیا جارہا ہے، امریکا ، بھارت اور ان کے اتحادی اس منصوبے کے خلاف ہیں، کچھ عرصہ پہلے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بڑے تصادم کا خطرہ نظر آنے لگا تھا لیکن چینی قیادت نے دانش مندی اور تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن ایک بار پھر چین کے زائچے میں ایسے اثرات کی نشان دہی ہورہی ہے جس کے نتیجے میں امریکا اور بھارت سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا، دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کا پیدائشی برج سرطان ہے اور چین کا جدی، یہ دونوں برج ایک دوسرے کے مقابل ہیں لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا اور چین کے درمیان کبھی بھی خوش گوار اور دوستانہ تعلقات نہیں رہے،حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ زبردست تجارتی روابط و تعلقات رکھتے ہیں لیکن دونوں کے سیاسی نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، چین کے زائچے میں بھی ایسے وقت کا آغاز ہوچکا ہے جو اس کے لیے مستقبل میں بڑے چیلنج لاسکتا ہے،یہ چیلنج اندرونی طور پر بھی پریشان کن ہوں گے اور بیرونی طور پر بھی،اندرونی طور پر موجودہ گورنمنٹ کو باہمی اختلافات اور سیاسی خلفشار کا سامنا ہوسکتا ہے جب کہ بیرونی طور پر امریکی اقدامات اور فیصلے پریشان کن ہوں گے، اچھی بات یہ ہے کہ چینی قیادت اپنے ملک اور قوم سے مخلص ہے اور محب وطن ہے،ملک کی معیشت بہترین پوزیشن میں ہے لہٰذا آنے والے چیلنج اس کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ نہیں بنیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران
امریکا کی طرح ایران کا برتھ سائن بھی برج سرطان ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تازہ ایرانی زائچے کی روشنی میں امریکا سے ملتے جلتے چیلنجز ایران کو بھی درپیش ہیں، راہو کیتو ایران کے زائچے میں پہلے اور ساتویں گھر میں نہایت حساس درجات کے قریب ہیں اور یہ صورت حال گزشتہ نومبر سے جاری ہے،سیارہ مشتری بھی چوتھے گھر سے گزر رہا ہے جس کی آٹھویں گھر میں موجود زہرہ اور کیتو سے نظر حادثات و سانحات کی نشان دہی کرتی ہے،نومبر میں آنے والا زلزلہ بھی اسی سیاروی پوزیشن کا شاخسانہ ہے،ایران کے زائچے میں راہو کے دور اکبر میں مشتری ہی کا دور اصغر جاری ہے جو اختلافات ، تنازعات میں شدت لاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایران گزشتہ سال جولائی کے بعد سے مسلسل تنازعات کا شکار ہے، امریکا سے تعلقات میں بھی مسٹر ٹرمپ کے آنے کے بعد دوبارہ اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، ایران کے لیے بھی آئندہ سال مارچ تک کا وقت نت نئے چیلنجز کی نشان دہی کر رہا ہے، مزید یہ کہ مڈل ایسٹ کی صورت حال میں ایران ایسے فیصلے اور اقدام کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عربیہ میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے اتحادی عرب ممالک ایران پر برہمی کا اظہار کرسکتے ہیں،اسرائیل کے حوالے سے بھی ایران کی طرف سے سخت رویہ اور فیصلے سامنے آسکتے ہیں۔
اسرائیل
اسرائیل کا برتھ سائن 20 درجہ 56 دقیقہ جدی ہے،سیارہ مشتری زائچے کے دسویں گھر سے گزر رہا ہے جو زائچے کا فعلی منحوس سیارہ ہے،دوسرا سب سے زیادہ منحوس سیارہ شمس ہے،یہ بھی 15 نومبر تک دسویں گھر میں رہا جس کا تعلق وزیراعظم اور اس کی کابینہ سے ہے اور ملک کے عزت و وقار سے ہے،گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات لگے،اسرائیل یروشلم کو دارالحکومت بنانا چاہتا تھا اور امریکا خصوصاً مسٹر ٹرمپ نے اس حوالے سے اسرائیل کی مدد کی،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے،اگر ایک طرف اسرائیل میں اس واقعے کے بعد جشن کا سماں ہے تو دوسری طرف عالم اسلام کے لیے اس سے بڑا سوگ کوئی اور نہیں ہے،کچھ عرصہ پہلے ہی امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو نسلاً کٹّر یہودی ہیں، یہ پیش گوئی کرچکے ہیں کہ اسرائیل تمام عرب ممالک پر قبضہ کرلے گا اور زبردست قتل و غارت کے بعد عربوں کا نام و نشان تک مٹادیا جائے گا، ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ قریب ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے،وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں نہیں معلوم مسٹر کسنجر کی یہ پیش گوئی کس بنیاد پر ہے؟ان کا تعلق صیہونی تنظیم فری میسن سے ہے جو برس ہا برس سے ایسے ہی خواب دیکھ رہی ہے،اسلام دشمنی ان کے خمیر میں شامل ہے،اسی طرح احسان فروشی بھی یہودیت کا طرئہ امتیاز ہے،وہ بھول گئے کہ جب اسپین سے انہیں نکالا گیا تھا اور وہ دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہورہے تھے تو ترکوں نے انہیں پناہ دی،سلطان سلیمان ذیشان نے استنبول کے دروازے ان پر کھول دیے حالاں کہ یہ پھر بھی سلاطین ترکیہ کے خلاف سازشوں میں پیش پیش رہے،بہر حال قبر میں پاو ¿ں لٹکائے مسٹر ہنری کسنجر کا یہ خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا۔
اسرائیل کا برتھ سائن جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ برج جدی تقریباً 21 درجہ ہے، اس زائچے میں فعلی منحوس سیارہ مشتری اور شمس ہےں، مشتری آئندہ سال اکتوبر تک زائچے کے دسویں گھر میں رہے گا اور بالکل اسی طرح کیتو سے جنوری تا مارچ قران کرے گا جیسے امریکا کے زائچے میں چوتھے گھر میں کیتو سے قران کر رہا ہے،مزید یہ کہ راہو کیتو بھی اسی طرح زائچے کو متاثر کریں گے جیسے امریکی زائچے کو متاثر کر رہے ہیں،مزید طرفہ تماشا یہ ہے کہ زائچے میں راہو کا دور اکبر جاری ہے اور دور اصغر بھی راہو کا ہے،راہو بے شک ورگوتم ہے لیکن کمزور ہے، ہم یہاں ایسٹرولوجیکل اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے مختصراً یہ عرض کریں گے کہ اسرائیل کے زائچے کی پوزیشن آئندہ سال مارچ تک اتنی اچھی نہیں ہے جیسا کہ مسٹر کسنجر خواب دیکھ رہے ہیں، مزید یہ کہ 26 جنوری 2019 سے زائچے میں مشتری کا سب پیریڈ شروع ہوگا اور اگر عالمی جنگ 2019 میں ہونا ہے تو اس جنگ میں اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصانات ، تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، فی الحال ہم اس موضوع پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے کہ عربوں کا مستقبل کیا ہے؟ صرف اتنا عرض کریں گے کہ اسرائیل کا مستقبل 2019 سے 2020 تک تاریک نظر آتا ہے، واضح رہے کہ جنگ کوئی اچھی چیز بہر حال نہیں ہے اور اسرائیل کو امریکا ، برطانیہ اور دیگر اسرائیل نواز ممالک کی سپورٹ حاصل رہے گی لیکن خود اسرائیل کے زائچے کی پوزیشن ہر گز ایسی نہیں ہوگی جو اسے ایک فاتح کی حیثیت سے عربوں پر برتری دلاسکے، انشاءاللہ عرب ممالک اور دیگر اہم ملکوں کے زائچوں پر بھی آئندہ تجزیاتی نظر ڈالی جائے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں