ہفتہ، 26 اکتوبر، 2019

ہمارے ذہنی مسائل ہی ہمارے روحانی مسائل ہیں

ذہنی اور روحانی مسائل کا شکار ایک مریضہ کے سوالات کا جواب

روحانی یا روحی یا نفسیاتی بیماریوں کی اصطلاح عام ہے اور لوگ اس میں اس طرح فرق کرتے ہیں کہ روحانی امراض کو ماورائی یعنی نادیدہ قوتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں یا پھر سحر و جادو اور عملیات و تعویذات کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ نفسیاتی بیماریوں کو ذہنی فتور یا دوسرے معنوں میں دماغ کا خلل قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح بیماریوں کی دو اقسام وجود میں آگئی ہیں یعنی روحانی یا روحی اور نفسیاتی۔ اکثر لوگ روحانی یا روحی میں بھی فرق کرتے ہیں حالانکہ اصولاً دونوں کا ماخذ ایک ہی ہے یعنی روح، انگریزی زبان میں ان دونوں لفظوں کے لیے یا ایسے روحانی معاملات کے لیے ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور وہ ہے ”اسپریچول ازم“، یعنی روحانیات یا روحیات۔
نفسیات جسے انگریزی میں سائیکلوجی کہا جاتا ہے صرف انسان کے ذہن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے یعنی وہ تمام مسائل جن کا تعلق انسان کے ذہنی میلان و رجحانات سے ہے علم نفسیات کے ماتحت کر دیے گئے ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح انسانی ذہن اور روح کو الگ الگ کر دیا گیا ہے تو کیا واقعی ایسا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا نظریات کی ضرورت اس لیے پیش آئی تاکہ جدید علم نفسیات کو سائنس کے جدید تجرباتی اصولوں تک محدود کر دیا جائے۔ کیوں کہ اس کے بغیر جدید سائنس کے مبلغین علم نفسیات کو سائنسی علم ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اور انسانی نفسیات کے حوالے سے جو مابعد الطبیعاتی مسئلے موجود تھے، انہیں تجربات کی کسوٹی پر پرکھنا بھی ممکن نہیں تھا، لہٰذا وہ انہیں قابل توجہ نہیں سمجھتے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ قدیم ترین فلاسفہ میں افلاطون نے انسانی نفسیات کے حوالے سے مابعدالطبیعاتی مسائل کو نفسیات کے علم سے علیحدہ نہیں رکھا اور وہ انسانی ذہن و روح کے معاملات میں کوئی تقسیم نہیں کرتا۔
اصل میں بنیادی جھگڑا اس وقت شروع ہوتا ہے جب مذہبی عقائد اور مادیت کے نظریات ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں، مذہبی عقائد ایک انسانی روح کا تصور پیش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں گوشت پوست، خون اور ہڈیوں کے پیکر انسانی کو نہ صرف متحرک رکھتی ہے بلکہ اسے برے بھلے کا شعور بھی دیتی ہے، اس کے مقابلے میں جدید سائنس چوں کہ روح کو ناقابل تجربہ سمجھتے ہوئے نظرانداز کرتی ہے لہٰذا وہ اس کی جگہ انسانی دماغ کی اس قوت و کارکردگی سے بحث کرتی ہے جسے ذہن کہا جاتا ہے لہٰذا اس سارے جھگڑے نے انسان کی روحانی بیماریوں کو دو حصوں میں تقسیم کرد یا ہے۔
انگریزی زبان میں علم نفسیات کے لیے سائیکلوجی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا ڈکشنری کے مطابق ترجمہ روح کا علم ہوگا، اُردو میں ”نفسیات“ کا لفظ مروج ہے جو ”نفس“ سے لیا گیا ہے اور نفس کیا ہے؟ ہمارے اندر آتی جاتی سانس، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانس کیا ہے؟ کیا ہم اسے صرف ناک سے اندر جاتی اور باہر آتی ہوا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، سانس، دم ، جان یا روح کے معنوں میں ہی مستعمل ہے، کسی انسان کی موت کے بعد ہمارے ہاں جو جملے بولے جاتے ہیں ان میں ”روح کا جسم سے پرواز کر جانا“ یا ”دم نکل جانا“ یا پھر ”سانس ٹوٹ جانا“ تقریباً ایک ہی معنی رکھتا ہے۔
عزیزانِ من! اب تک کی ساری گفتگو ممکن ہے ہمارے پڑھنے والوں کو بے سروپا، نہایت مشکل اور عجیب محسوس ہو رہی ہو۔ ہم نے اپنے طور پر کوشش تو کی ہے کہ روح اور ذہن میں جو فرق واقع ہوگیا ہے اس کی تھوڑی سی وضاحت کر سکیں اور یہ بتا سکیں کہ درحقیقت ہمارے ذہنی مسائل ہی ہمارے روحانی مسائل ہیں اور ہمارے روحانی مسائل درحقیقت ہمارے ذہنی مسائل ہیں، ایک ہی بات کو ہم دو مختلف طریقوں پر بیان کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کیوں کہ اس مسئلے کو سمجھے بغیر ہمار ا معاشرہ جو حد سے زیادہ ماورائیت اور سحر و جادو کے مسائل میں الجھتا چلا جار ہا ہے درست طور پر اپنی بیماریوں اور جملہ تکلیفات کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے ساتھ ہی آیئے ایک خط کے چیدہ چیدہ اقتباسات کی طرف جس میں ہم سے کچھ ایسے سوالات کیے گئے ہیں جن کے جوابات مندرجہ بالا تشریح کے بغیر دینا ممکن نہ تھا۔ 
خط بھیجنے والی شخصیت کا نام و مقام ہم ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے بارے میں صرف اتنا حوالہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ وہ روحانی علاج و معالجے کے سلسلے میں کئی روحانی معالجین کے رابطے میں رہی ہیں اور خود بھی علم نجوم و جفر، پامسٹری اور دیگر علوم خفیہ سے دلچسپی رکھنے کی وجہ سے خاصی صاحبِ مطالعہ ہیں، اپنے طویل خط میں وہ لکھتی ہیں”مجھے اس لائن کے لوگوں کی ذہنیت کا قطعی اندازہ نہیں اور ان کی قدروقیمت کیا ہے، یہ کس طرح تربیت کرتے ہیں، یہ کس طرح سے بندے کو ہینڈل کرتے ہیں، ان کے پاس جانے کا مطلب ایک لمبی قید ہوتی ہے، یہی چیز پریشان کر رہی ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ہمیں بچا رہے ہیں یا ڈبور رہے ہیں؟ جو کچھ ہو رہا ہے اسے جادو میں شمار کیا جائے گا یا نہیں؟ دماغی بیماریاں ہیں تو اس کا علاج علم جفر سے ممکن ہے یا نہیں؟ اتنی علمی اور عملی قوتوں کے باوجود ان معاملات میں پھنس جانا کیا معنی رکھتا ہے کہ کوئی دشمنی کر رہا ہے! یہ کون سے اسماءالحسنہ کا علم و عرفان رکھتے ہیں؟ اور ان سے کیسے چھٹکارا ممکن ہے؟ پہلے تو شیطانی قوت سے حفاظت اور پھر جان و مال اور عزت کی حفاظت، مجھے وہ حرکت صاف محسوس ہوتی ہے جو آنکھوں کے ذریعے اثر ڈال کر اندھا کر دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر کوئی حرکت کی جا رہی ہے اور جیسے کوئی شخصیت ہمارے ساتھ ہے جو متحرک ہے۔ یقینا کوئی نادیدہ چیز ہمارے ساتھ کر دی گئی ہے، ہمیں اس ظلم سے نجات کب ملے گی؟ ان لوگوں کے اختیارات کے بارے میں کیسے علم ہوا؟ ان سے بازپرس کرنے والا کون ہے؟ میرا رابطہ اگرچہ اپنے روحانی معالج سے منقطع ہے لیکن میں دوبار خواب میں دیکھ چکی ہوں کہ میں انہیں فون کر رہی ہوں۔ اپنی پریشانی بتا رہی ہوں۔ کیا وہ میرے مددگار نہیں؟ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کی داڑھی ہے وہ ہمارے گھر میں بیٹھا ہے اور میں اس سے کہہ رہی ہوں کہ تم یہاں سے جاتے کیوں نہیں؟ اس کے علاوہ جاگتی حالت میں بھی مجھے اپنے پیچھے ایک جسم محسوس ہوتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ بعض اوقات میں خود کو مصیبت میں دیکھتی ہوں مگر حقیقت میں میری کوئی بہن یا عزیز اس پریشانی میں ہوتا ہے۔ کیا مختلف لوگ مختلف حالات و واقعات دکھاتے ہیں؟ ان تمام باتوں کو کیسے سمجھا جائے؟ اکثر مجھے غلاظت میں لپٹا کوئی جسم نظر آتا ہے اور وہ اپنی ایک رشتے دار کا محسوس ہوتا ہے، ہیں تو وہ بہت فسادی مگر اس کا مطلب کیا ہے؟ کڑی سے کڑی بندھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میری چھوٹی بہن بتاتی ہے کہ اسے آواز آتی ہے یعنی اسے بھی ایسا ہی کر دیا جائے گا، کیا کوئی ہمارے خاندان سے بدلہ لے رہا ہے؟ سب کے کام بگڑ ہی رہے ہیں۔“
جواب: عزیزم! ہم نے ابتدا میں روح ، ذہن اور روحانی و ذہنی امراض کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اسے غور سے پڑھ لیں اور ہمارا مشورہ ہے کہ ایک بار نہیں بار بار پڑھیں اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ انسانی ذہن یا روح میں جب پےچیدگیاں جنم لیتی ہیں تو ہمارے اردگرد ایک جہانِ حیرت وجود میں آجاتا ہے جسے سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں ہوتا، اس کی بھول بھلیوں میں پھنس کر ہم ایسے ایسے تجربات و مشاہدات سے گزرتے ہیں جن کی عقلی توجیہہ ناممکن ہو کر رہ جاتی ہے اور پھر لامحالہ ذہن نادیدہ قوتوں کی کارفرمائی کی طرف چلا جاتا ہے۔ آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جسے آپ کی حد سے بڑھی ہوئی انانیت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہم اس بحث میں تو پڑنا نہیں چاہتے کہ اس راستے میں آپ کی جن معالجین سے ملاقات ہوئی اور ان کا جو سلوک اور طرزعمل رہا اس کی کیا حیثیت ہے لیکن ہم یہ وضاحت ضرور کریں گے کہ ان لوگوں سے آپ کو بہرحال درست رہنمائی نہیں ملی مثلاً آپ نے علم نجوم کے بارے میں جو کچھ سیکھا اور پڑھا وہ آپ کے ذہن کو مزید الجھانے اور گم راہ کرنے کا سبب بنا، یہی حال پامسٹری، علم جفر اور دیگر علوم کا بھی ہے۔آپ کی اکثر باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شخصیت پرستی کا فریب آپ کو لے ڈوبا اور آپ پہلے مختلف شخصیات کے ٹرانس میں آئیں اور بعد میں مختلف علوم کے ٹرانس میں خو دکو دے دیا۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کی درست معلومات نہیں رکھتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور ہستی کو بالائے طاق رکھ کر مختلف علوم کے دعوے داروں کی ذات اور شخصیت ہی کو سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں انہیں گم راہ ہوتے دیر نہیں لگتی اور پھر کوئی بھی مسئلہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا، وہ لاکھ کڑی سے کڑی ملاتے رہیں، ان کے خیالات کی زنجیر روز بہ روز الجھتی ہی چلی جاتی ہے۔ آپ کے سوالات میں الجھاﺅ کے ساتھ یہ کم علمی جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً آپ نے طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ چوں کہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا لہٰذا اگر اسے جادو میں شمار نہیں کیا جائے تو کیا کہا جائے؟ آپ دماغی بیماریوں کا علاج علم جفر سے ڈھونڈ رہی ہیں یا یہ کہ آپ کے ذہن میں علم جفر کے حوالے سے الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔
جن شخصیات سے آپ ذہنی طور پر متاثر ہوئی ہیں ان سے مایوس ہونے کے بعد بھی ان کی علمی اور روحانی قوت سے خوف زدہ ہیں اور چھٹکارے کی خواہش مند ہیں، آپ کے خواب بھی آپ کی اسی الجھی ہوئی منتشر ذہنی اور روحانی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً آپ غلاظت میں لپٹی ہوئی ایک ایسی شخصیت کو دیکھتی ہیں جس کے بارے میں آپ کی رائے اچھی نہیں ہے۔ اپنے سابق معالج کو خواب میں فون کرنا اور ان سے اپنی پریشانی بیان کرنا اور پھر اس خواب کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ معالج کی کوئی کارستانی ہے۔ وہ اپنی سحری قوت سے آپ کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، آپ کے لاشعور میں چھپا ہوا وہ چور ہے جس سے آپ خود حالتِ شعور میں نظریں چرا رہی ہیں۔ یہی حال دیگر خوابوں کا بھی ہے، یہاں ہمیں صوفی غلام مصطفی تبسم کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو آپ کی ذہنی، نفسیاتی، روحانی کیفیات کی نہایت دلچسپ اور خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔ ذرا اس پر غور کیجیے 
اللہ کرے جہاں کو میری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
اب آیئے اپنے اصل مسئلے اور اپنی تازہ صورتِ حال کی طرف۔ مگر اس سے پہلے چند باتیں آپ کے زائچے کے حوالے سے کیوں کہ آپ خود بھی علم نجوم سے شغف رکھتی ہیں تو کم از کم ہماری ان باتوں سے انکار نہیں کر سکیں گی۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اپنے شمسی، قمری برج کے علاوہ طالع پیدائش سے بھی آپ واقف ہیں اور اس سے متعلق مثبت اور منفی خصوصیات کا بھی یقینا علم ہوگا مگر جس اہم نکتے کی طرف ہم توجہ دلا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ زائچے کے پہلے گھر میں یعنی طالع پیدائش میں شمس کی موجودگی کبھی کبھی تو انانیت کا ایسا طوفان کھڑا کرتی ہے کہ انسان اگر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے تو ایک اچھے ماہر نجوم کو تعجب نہیں ہوگا۔ ہمارے مشاہدے میں تو ایسے ہزاروں زائچے آچکے ہیں کہ اگر شمس طالع میں موجود ہو اور باقوت بھی ہو تو صاحب زائچہ کی انا آسمان کو چھوتی ہے اور اس پر طرفہ تماشا حالات کی ناسازگاری، زندگی کی محرومیاں بھی ساتھ میں ہوں تو انسان کی سائیکی بری طرح بگڑ جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہسٹریا یاشیزوفرینیا وغیرہ جیسی بیماریاں اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور آپ درحقیقت شیزوفرینیا کی مریضہ ہیں۔ اس بیماری میں تقسیم شخصیت کا مرحلہ ایسے ہی حیرت انگیز تماشے دکھاتا ہے جن سے آپ دوچار ہو رہی ہیں۔ شیزوفرینیا کے مریض کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ہر وقت اس کے ساتھ ہے اور وہ نادیدہ آوازیں سنتا ہے۔ الغرض یہ کہ ہر وہ بات اسے محسوس ہوتی ہے جس کے بارے میں وہ شعور رکھتا ہے اور کسی وقت اس کا ذہن بھٹک کر اس طرف چلا جاتا ہے۔
شیزوفرینیا ایک ایسا نفسیاتی عارضہ ہے جس میں انسان کی تقسیم شدہ شخصیت کئی بہروپ دھار لیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات عام ہیں جن میں لوگ نادیدہ مخلوق کی اپنی زندگی میں مداخلت کی نشان دہی کرتے ہیں اور عام طور پر ایسے معاملات کو جن بھوت یا کسی روح وغیرہ کی کارروائی خیال کیا جاتا ہے یا عام زبان میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی نے سحر و جادو کے ذریعے ہم پر گندی چیزیں مسلط کر دی ہیں۔ اس بیماری میں عورت یا مرد، دونوں ایسی کیفیات سے بھی گزر سکتے ہیں جن میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے ساتھ موجود نادیدہ وجود ان پر غلبہ پا رہا ہے۔ اکثر خواتین نے ایسے کیسوں میں یہ شکایت بھی کی ہے کہ وہ خلوت میں بالکل اس صورتِ حال سے دوچار ہوتی ہیں جو اپنے شوہر سے ملنے کے وقت ہوتی ہے۔ اس معاملے میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی تخصیص نہیں ہے۔ ہم بارہا ایسے کیسوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ الغرض ”شیزوفرنییا“ ایک ایسی بیماری ہے جس کے ہزار روپ ہو سکتے ہیں اگرچہ ماہرینِ نفسیات اسے صرف انسانی شخصیت کے بگاڑ تک محدود رکھتے ہیں اور ایک ذہنی عارضہ قرار دیتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ روحانی یا روحی عارضہ بھی ہے۔ بے شک اس کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ ہوتی ہے کہ اکثر تو مریض معالج سے تعاون ہی نہیں کرتا اور دوسری بات یہ کہ مریض کو اپنے گھر میں معقول اور مناسب ماحول میسر نہیں ہوتا اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس بیماری کے پیدا ہونے کی بنیادی اور اصل وجوہات جن کا تعلق مریض کے ماضی سے ہوتا ہے جوں کی توں برقرار رہتی ہیں۔
عزیزانِ من! یہ موضوع ناختم ہونے والا ہے۔ ماضی میں بھی ہم نے اس حوالے سے بہت لکھا ہے اور بہت سے کیسوں کا تجزیہ پیش کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے امراض کے علاج معالجے کے لیے اعلیٰ سطح پر نہایت معیاری اسپتال قائم ہونے چاہئیں۔ جن میں ہر قسم کے معالجین کی نگرانی میں علاج معالجے کی تمام سہولتیں موجود ہوں۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج ایسی پے چیدہ بیماریوں کے علاج میں قطعی طور پر ناکام رہا ہے۔ وہ فوری نوعیت کی روک تھام تو کر سکتے ہیں مگر مکمل صحت و تندرستی کے عمل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوتی بلکہ ان بیماریوں کے حوالے سے جو ایلوپیتھک دوائیں استعمال ہو رہی ہیں ان کا زیادہ اور طویل عرصے استعمال کچھ دوسرے عوارض کا سبب ثابت ہوا۔ ہمارے نزدیک ایسی بیماریوں کے علاج میں پیراسائیکالوجی کی جدید تحقیقات اور تجربات سے مدد لینا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ہومیوپیتھک طریقہ علاج اختیار کرنا چاہیے۔ لوگ روحانی طریقہ ¿ علاج کے نام پرجو اعمال و وظائف نقش و تعویذ یا جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ اس سے ایسے کیس مزید خراب ہوتے ہیں۔ ہم نے ان طریقوں سے کبھی مریض کو مکمل طور پر صحت یاب ہوتے نہیں دیکھا بلکہ ایسی صورتوں میں مریض کے ساتھ دیگر اہل خانہ کو بھی اسی مرض کی لپیٹ میں آتے دیکھا ہے۔


ہفتہ، 19 اکتوبر، 2019

نومبر کی فلکیاتی صورت حال ، ایک نہایت چیلنجنگ مہینہ

ملکی ، سیاسی اور عوامی معاملات پر ایک تجزیاتی نظر، نومبر کے امکانات

گزشتہ ماہ اکتوبر کے حوالے سے ملک کی سیاسی صورت حال میں جن اندیشوں کا اظہار کیا گیا تھا، صورت حال اسی جانب بڑھ رہی ہے، وزیراعظم عمران خان بھی اپنی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں،یہی صورت سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بھی نظر آتی ہے، دوسری طرف اپوزیشن بھی بھرپور محاذ آرائی پر آمادہ ہے، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں،ان کی تیاریاں توجہ طلب ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر صورت میں حکومت کی تبدیلی اور نئے الیکشن چاہتے ہیں۔
 فلکیاتی صورت حال بھی ناموافق ہے، اقتدار کا ستارہ شمس کمزور پوزیشن میں ہے، اس ماہ 6 نومبر کو سیارہ مشتری پاکستان کے زائچے کے آٹھویں گھرمیں داخل ہوگا تو ملک کے داخلی معاملات میں غیر ملکی قوتوں کی سرگرمیاں بڑھنے کا امکان موجود ہے، نئے حادثات و سانحات جنم لے سکتے ہیں، معاشی صورت حال بھی مزید خرابی کی طرف جائے گی، حکومت کے لیے نئے چیلنج اور سنجیدہ نوعیت کی پریشانیاں پیدا ہوسکتی ہیں، البتہ نئی تبدیلیاں بہتر نتائج لائیں گی، وزیروں اور مشیروں کی کارکردگی بہتر ہوگی۔
اس مہینے میں 10 نومبر سے 25 نومبر تک کا وقت خاصا تشویش ناک نظر آتا ہے کیوں کہ سیارہ مریخ زائچے کے چھٹے گھر میں داخل ہوجائے گا،اس دوران میں ملک میں کسی ایمرجنسی جیسی صورت حال کے پیدا ہونے کا اندیشہ موجود ہے اور اس کے نتیجے میں سخت قسم کے آئینی یا غیر آئینی اقدام و فیصلے ہوسکتے ہیں، مزید یہ کہ غیر ملکی قوتیں بھی بھرپور طریقے سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتی ہیں، چناں چہ حکومت اور وزیراعظم کی بہتر صلاحیتوں کا امتحان ہوگا کہ وہ کس طرح اس صورت حال سے عہدہ برآ ہوتے ہیں، امکان یہی ہے کہ 16 نومبر کے بعد صورت حال میں بہتری کے آثار نمودار ہوں گے اور بالآخر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے میں آسانی ہوسکے گی (واللہ اعلم بالصواب)
اس موقع پر فیض صاحب کا مشہور یاد آرہا ہے 

اس جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجیے
جو راہ اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے

 نومبر کے ستارے

گردش سیارگان ہمارے نظام شمسی کی ایک اٹل حقیقت ہے، مختلف سیارگان مسلسل حرکت میں رہتے ہوئے دائرئہ بروج میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور اس طرح ان کے اثرات ہماری زمین کو متاثر کرتے ہیں، روز و شب کی تبدیلی ، موسموں کی تبدیلی اور زمانوں کی تبدیلی ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہے، انسانی زندگی بھی سیاروی گردش سے متاثر ہوتی ہے، یہ اثرات قوت بخش اور فائدہ مند بھی ہوتے ہیں جب کہ بعض صورتوں میں نقصان دہ اور کمزوریاں لانے والی بھی ثابت ہوتے ہیں، اللہ کے قائم کردہ نظام میں فلکیاتی مشاہدات سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
نومبر کا آغاز ہونے والا ہے، اس ماہ اقتدار کا سیارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے، 22 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا اور اس ماہ کے آخر تک اسی برج میں رہے گا، ذرائع ابلاغ اور پیغام رسانی کا سیارہ عطارد بحالت رجعت برج عقرب میں ہے، پورا مہینہ اسی برج میں حرکت کرے گا اور 21 نومبر کو مستقیم ہوکر اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، خیال رہے کہ عطارد کی الٹی چال میڈیا ، سفری امور اور ضروری معلومات کے حصول میں رکاوٹ ، التوا اور گفت و شنید میں مسائل کا باعث ہوتی ہے، اس عرصے میں نئے کاموں کا آغاز نہیں کرنا چاہیے۔
توازن اور ہم آہنگی کا سیارہ زہرہ برج عقرب میں ہے اور 2 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، یہاں اس کی پوزیشن بہتر ہوگی، توانائی اور محاذ آرائی کا سیارہ مریخ برج میزان میں حرکت کر رہا ہے، اس برج میں اس کی شدت پسندی کم ہوتی ہے،19 نومبر کو برج عقرب میں داخل ہوگا، اس وقت یہ زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوگا، ترقی اور وسعت کا سیارہ مشتری اپنے ذاتی برج قوس میں حرکت کر رہا ہے اور اچھی پوزیشن رکھتا ہے، محنت اور کام سے متعلق سیارہ زحل اپنے ذاتی برج جدی میں ہے اور بہتر پوزیشن رکھتا ہے، ایجاد و اختراع کا سیارہ یورینس بحالت رجعت برج ثور میں حرکت کر رہا ہے،پراسرار نیپچون بحالت رجعت برج حوت میں ہے اور 27 نومبر کو مستقیم ہوگا، کایا کلپ کا سیارہ پلوٹو برج جدی میں حرکت کرے گا جب کہ راس اور ذنب بالترتیب برج سرطان اور جدی میں حرکت کریں گے،یہ سیاروی پوزیشن یونانی سسٹم کے مطابق ہے۔

اثرات و نظراتِ سیارگان

عزیزان من! ہماری کہکشاں میں ، اپنے اپنے دائروں نے تیرتے ہوئے سیارے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کے جیومیٹریکل زاویے باہمی طور پر تشکیل دیتے ہیں، ان زاویوں کی علم فلکیات میں بڑی اہمیت ہے، سالہا سال کے مشاہدات اور تجربات سے ان زاویوں کے اثرات ریکارڈ کیے گئے ہیں، اصطلاحی طور پر ان زاویوں کو ”نظرات“ کہا جاتا ہے، نومبر کے مہینے میں اہم سیارگان باہمی طور پر تثلیث کے چار سعد زاویے تشکیل دیں گے اور تسدیس کے سات زاویے بنیں گے، یہ بھی سعد اثر رکھتے ہیں جب کہ اسکوائر کے دو زاویے ہوں گے اور مقابلے کا ایک زاویہ اس کا اثر نحس یا ناموافق ہوتا ہے، دو سیارے جب باہم ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں تو اسے مقابلے کی نظر کہا جاتا ہے، اس ماہ مقابلے کا ایک زاویہ بنے گا، جب دونوں ایک ہی برج میں ایک ہی درجے پر اکٹھا ہوں تو اسے ”قران“ کہتے ہیں، اس ماہ دو قرانات بھی ہوں گے، مختلف سیاروں کے اس ماہ تشکیل پانے والے زاویوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
5 نومبر: سیارہ مریخ اور پلوٹو کے درمیان اسکوائر کا نحس زاویہ تشکیل پائے گا، دونوں سیارے طاقت اور توانائی کا اظہار کرتے ہیں، جارحانہ صورت حال پیدا ہوتی ہے، اس وقت میں تنازعات بڑھتے ہیں اور اکثر حادثات و سانحات یا جنگ و جدل کی صورت حال کا اندیشہ رہتا ہے، ملکی اور بین الاقوامی صورت حال میں پاور پلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عام آدمی اس زاویے سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا، واضح رہے کہ ایسے زاویے بہت پہلے سے اپنا اثر شروع کرتے ہیں اور بہت بعد تک یہ اثرات جاری رہتے ہیں۔
8 نومبر: سیارہ شمس اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ اور ساتھ ہی سیارہ شمس اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہورہا ہے، یہ صورت حال حکومت کے لیے معاون و مددگار ہوگی، انھیں اپنے مسائل یا مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی، عام افراد کے لیے یہ وقت موافق ہوگا جس میں سرکاری ملازمین کو بہتر مواقع مل سکتے ہیں، غیر سرکاری افراد ایسے کاموں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں جن کا تعلق گورنمنٹ سے ہو، اس وقت علاج معالجہ بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔
9 نومبر: سیارہ زحل اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ فوری نوعیت کے اثرات ظاہر نہیں کرتا، ایسے زاویے مستقبل میں غیر معمولی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں، کان کنی اور دیگر زمین سے متعلق کاموں مثلاً زراعت وغیرہ میں نئے رجحانات اور امکانات کو فروغ ملتا ہے۔
10 نومبر: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ میڈیا کی فعالیت اور جارحانہ کارکردگی ظاہر کرتا ہے، عام افراد اس وقت بات چیت اور گفت و شنید میں بھی اپنی بات پر زور دیتے اور اپنی بات منوانے کے لیے دباو ¿ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
11 نومبر: شمس اور عطارد کا قران مختلف لوگوں کے لیے مختلف اثرات کا حامل ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر نحس اثرات رکھتا ہے، یہ وقت سفر میں رکاوٹ یا التوا لاتا ہے، کسی بھی نوعیت کی بات چیت یا مذاکرات کے لیے مثبت اثر نہیں رکھتا، اس وقت کسی نئی پیش رفت سے باز رہنے کی ضرورت ہوگی۔
12 نومبر: مریخ و مشتری کے درمیان تسدیس کی نظر سعد اثر رکھتی ہے،مشینری اور ٹیکنیکل نوعیت کے معاملات میں بہتری آتی ہے، البتہ ملک میں یہ زاویہ نئے آئینی تنازعات لاسکتا ہے، بیرونی دشمن زیادہ فعال ہوں گے، عام افراد کو مالی اور دیگر ترقیاتی کاموں میں فائدہ ہوگا۔
13 نومبر: سیارہ عطارد و زحل کے درمیان تسدیس کا زاویہ اور شمش و پلوٹو کے درمیان بھی تسدیس کا زاویہ قائم ہوگا، عوامی بہتری سے متعلق فیصلے و اقدام ہوسکتے ہیں، میڈیا میں دلچسپ خبریں سامنے آئیں گی، یہ وقت عام افراد کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی میں معاون و مددگار ہوگا، نئے معاہدات پائیدار اور مفید ثابت ہوں گے۔
14 نومبر: عطارد اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ ، نشرواشاعت سے متعلق معاملات میں بہتری لائے گا، عام افراد کے لیے یہ وقت سفری امور کو آگے بڑھانے یا نیا سفر کرنے کے لیے بہتر ہے، اس وقت میں تحریری ، تقریری صلاحیتوں کا بہتر اظہار ہوسکتا ہے، تخلیقی سرگرمیاں بہتر رہیں گی۔
اسی روز زہرہ و نیپچون کے درمیان اسکوائر کا نحس زاویہ ہے، رومانی معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، کوئی دھوکا یا فراڈ ہوسکتا ہے،منگنی و نکاح وغیرہ میں بھی دیکھ بھال کے فیصلے کیے جائیں، جیسا نظر آرہا ہوگا درحقیقت ویسا نہیں ہوگا۔
24 نومبر: زہرہ اور مشتری کے درمیان قران کا زاویہ نہایت اہمیت رکھتا ہے، اسے ”قران السعدین“ بھی کہا جاتا ہے، عام افراد کے لیے یہ وقت ترقیاتی دلچسپیاں لاتا ہے، دو افراد کے باہمی تعلقات میں بہتری آتی ہے لیکن پاکستان کے زائچے کے مطابق یہ بہتر وقت نہیں ہوگا، نئے حادثات جنم لے سکتے ہیں۔
اسی تاریخ کو مریخ اور یورینس کے درمیان مقابلے کی نظر قائم ہوگی، غیر معمولی اثرات اور چونکا دینے والے واقعات سامنے آسکتے ہیں، کوئی غیر ملکی فیصلہ یا اقدام اہمیت اختیار کرے گا، ہماری توقع کے خلاف اچانک کوئی نئی صورت حال سامنے آسکتی ہے، عام افراد کو بھی اس نحس نظر میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، کسی ایکسیڈنٹ کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یا کوئی اور بڑا حادثہ رواں صورت حال کا رخ بدل سکتا ہے۔
28 نومبر: عطارد اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا زاویہ دوسری بار قائم ہوگا، یہ سعد اثر رکھتا ہے اور اس وقت تخلیقی نوعیت کی سرگرمیاں فائدہ بخش رہی ہوں گی، تحریر و تقریر یا پیچیدہ نوعیت کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی،اسی تاریخ کو عطارد اور یورینس کے درمیان بھی تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا اور میڈیا میں اچھی ، خوش گوار خبروں کی توقع رکھنا چاہیے، عام افراد کے لیے یہ وقت غیر متوقع طور پر فوائد لاسکتا ہے، کسی نئے سفر کا امکان اور نئے آئیڈیاز یا نئی اطلاعات کا حصول ممکن ہوگا۔
30 نومبر: عطارد اور زحل کے درمیان تسدیس کا زاویہ بھی دوبارہ قائم ہوگا، یہ بھی سعد اثر رکھتا ہے اور اس وقت نئے ایگریمنٹ یا طویل مدت کے منصوبوں کے لیے کام کرنا چاہیے، علاج معالجے کے لیے بھی بہتر وقت ہوگا۔

شرف قمر

سیارہ قمر کو برج ثور میں اعلیٰ پوزیشن حاصل ہوتی ہے جسے شرف کہتے ہیں، ہر ماہ یہ سعد اور مبارک وقت آتا ہے،اس ماہ قمر اپنے شرف کے برج میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 11 نومبر بروز پیر 04:17 am پر داخل ہوگا اور 13 نومبر بروز بدھ دوپہر 01:45 pm تک رہے گا لیکن اس تمام عرصے میں درجہ ءشرف پر 11 نومبر کو 08:12 am سے 10:08 am تک ہوگا، تقریباً 2 گھنٹے کا یہ وقت نہایت مبارک تسلیم کیا گیا ہے، اس وقت اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ اول آخر درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے جائز مقاصد کے لیے دعا کرنا چاہیے، خیال رہے کہ پیر کا دن بھی سیارہ قمر سے منسوب ہے اور عروج ماہ بھی ہے لہٰذا یہ نہایت ہی مو ¿ثر وقت ہے، اس وقت میں سیارہ قمر سے متعلق دیگر اعمال بھی کیے جاسکتے ہیں، خصوصاً لوح قمر نورانی یا برکاتی انگوٹھی وغیرہ اس وقت میں تیار کی جاسکتی ہے۔

قمر در عقرب

قمر جب برج عقرب کے تین درجے پر پہنچتا ہے اس کی قوت ختم ہوجاتی ہے، اس وقت کو انتہائی ناقص اور منحوس خیال کیا جاتا ہے، اس دوران میں کوئی اچھا ، ترقیاتی یا منگنی بیاہ وغیرہ کا کام نہیں کرنا چاہیے،اس ماہ قمر اپنے برج ہبوط میں بروز اتوار 24 نومبر کو پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 10:58 am پر داخل ہوگا اور 26 نومبر بروز منگل 01:10 pm تک برج عقرب میں رہے گا، اپنے درجہ ءہبوط پر 24 نومبر کو 02:17 pm سے 15:56 pm تک رہے گا۔
اس خراب وقت سے بھی ایسے کام لیے جاسکتے ہیں جن میں بیماریوں سے نجات ، بری عادتوں سے چھٹکارا اور دشمنوں سے تحفظ کے لیے عمل کیے جاتے ہیں، اس وقت علاج معالجہ کرانا بہتر ہوتا ہے،ایک چھوٹا سا آسان عمل یہاں دیا جارہا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

مخالف کی زبان بندی

عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں۔ انشاءاﷲ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2019

رات دن گردش میں ہیں سیارگاں

20 سال بعد اہم سیاروی اجتماع، نئے رنگ ڈھنگ ، نئے نظریات

علم نجوم فلکیاتی سائنس ہے جس میں کرئہ قرض کے سات حرکت کرتے ہوئے دیگر اجرام فلکی کی گردش کا مطالعہ کیا جاتا ہے، ہماری کہکشاں کے معلوم سیارگان کی پوزیشن اور ان کے درمیان قائم ہونے والے باہمی زاویے اس مطالع میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، علم ہیئت (Astronomy) اگر فلکیاتی مشاہدات کا نام ہے تو علم نجوم (Astrology) فلکیاتی مشاہدات سے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی کا نام ہے، یہ سائنس ہزاروں سال سے مشاہداتی اور تجرباتی مراحل سے گزر کر اب اس مقام پر ہے کہ ماضی کے سیاروی اجتماعات یا زاویوں کی روشنی میں حال کے ایسے ہی اجتماعات اور زاویوں پر گفتگو کی جاسکتی ہے، یہ بالکل ایک تجزیاتی اور حسابی عمل ہے، اس میں ہر گز کسی غیب دانی کا کوئی عنصر شامل نہیں ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس قسم کی باتیں علم نجوم کے حوالے سے پھیلائی جاتی ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے، یاد رہے کہ ستارہ شناسی اور ستارہ پرستی میں بڑا فرق ہے، ماضی بعید میں دنیا بھر میں ستارہ پرستی عام رہی ہے اسی لیے دوسرے خلیفہ ءراشد حضرت عمر ؓ نے جب محسوس کیا کہ سمندر میں جہاز رانی ضروری ہے اور اس ضرورت کے لیے علم ہیئت سے واقفیت بھی ضروری ہے تو آپ نے فرمایا ”لوگوں علم نجوم سیکھو مگر رک جاو ¿، مبادہ ستارہ پرستی میں مبتلا نہ ہوجاو ¿“
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اللہ رب العزت کا قائم کردہ نظام کائنات ایک مخصوص حسابی سسٹم کے تحت چل رہا ہے، وہ خود فرماتا ہے کہ سیارے اپنے اپنے دائروں میں تیر رہے ہیں اور سورج کی مجال نہیں کہ قمر کو پکڑ لے اور قمر بھی ایسا نہیں کرسکتا، مفہوم یہ ہے کہ تمام سیارے اللہ کے قائم کردہ نظام کے تابع ہےں اور اپنی اپنی گردش میں مصروف ہیں، ان کی گردش صرف دن اور رات یا موسمیاتی تغیر و تبدل تک محدود نہیں ہیں بلکہ زمانوں کی تبدیلی بھی ان کی گردش کا طویل مدتی نتیجہ ہوتی ہے، یہ حقیقت سالہا سال کے ایسٹرولوجیکل مشاہدے اور مطالع سے ثابت ہوچکی ہے۔
اکثر یہ سیارگان جب کسی ایسی خاص پوزیشن میں آتے ہیں جو معمول کے خلاف اور برسوں میں کبھی تشکیل پاتی ہے تو ماہرین فلکیات ان پر ضرور غوروفکر کرتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آنے والے زمانوں میں کیا توقعات کی جاسکتی ہیں، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا نظام کائنات منجمد نہیں ہے، ازل سے ہی اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، یہ تبدیلیاں صرف ارضیاتی ہی نہیں معاشرتی، نظریاتی اور علمی ہوتی ہیں، قوموں کے عروج و زوال ان تبدیلیوں کے مظہر ہیں۔
26 دسمبر 2019 ءکو ایسا ہی ایک اہم سیاروی اجتماع ہونے والا ہے یعنی تقریباً سات اجرام فلکی ایک ہی برج قوس میں جمع ہوں گے،یونانی سسٹم کے مطابق یہ اجتماع برج جدی میں ہوگا،جب کہ ویدک سسٹم کے مطابق برج قوس میں، دونوں صورتوں میں برج کا حاکم سیارہ اس اجتماع میں شامل ہوگا۔
عزیزان من! ایسے سیاروی اجتماعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اجتماعات کے بعد دنیا بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے مراحل سے گزرتی ہے، گویا ایک نئے دور یا زمانے کا آغاز ہوتا ہے، موجودہ اجتماع سے قبل ایسا ہی اجتماع برج حمل میں 4 مئی 2000 ءمیں ہوا تھا، ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد دنیا کس طرح تبدیل ہوئی، برج حمل کا حاکم سیارہ مریخ طاقت و توانائی سے متعلق ہے لہٰذا دنیا بھر میں طاقت کا استعمال گزشتہ بیس سال سے جاری ہے، اس کے بعد نائن الیون کا خوف ناک واقعہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، عراق پر امریکی حملہ بھی اس اجتماع کے بعد ہی ہوا، ساری دنیا میں عالم اسلام کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کیا گیا، امریکا جو کہ فطری طور پر ایک جنگ جو قوم ہے، اپنی طاقت اور اثرورسوخ کی بنیاد پر دنیا بھر میں کوئی نہ کوئی تنازع کھڑا کرتا رہتا ہے، بہر حال سن 2000 ءسے اور 2019ءتک دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں اور جو حالات و واقعات رہے، سب کے سامنے ہیں، اس سے بھی پیچھے ہم جائیں تو تقریباً بیس سال قبل یکم ستمبر 1981 ءکو ایسا ہی سیاروی اجتماع برج سنبلہ میں ہوا جس کے نتیجے میں روس افغانستان میں داخل ہوا اور پھر مسلسل جنگ جس میں امریکا پوری طرح شامل رہا، روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، بعد میں مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی ایک ہوگئے،ایران ، عراق جنگ، کویت پر عراقی حملہ اور پھر امریکا کی ایران کے خلاف کارروائی گویا بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں سامنے آئیں۔
مزید ماضی میں دیکھیں تو ایسا سیاروی اجتماع 5 فروری 1962 ءکو برج جدی میں نظر آتا ہے جس کے بعد روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر پہنچی، دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان زمینی تنازعات پر جنگ و جدل کا بازار گرم رہا، پاکستان اور بھارت کے درمیان دو جنگیں ہوئیں، پاکستان دولخت ہوگیا، اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان دو جنگیں ہوئیں، بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا، ایسا ہی اجتماع 26 اپریل 1941 ءمیں برج حمل میں نظر آتا ہے جس کے بعد دنیا یکسر تبدیل ہوگئی تھی ، ایک بار پھر طاقت و توانائی کا بھرپور اظہار ہوا جس میں پہلی بار ایٹمی طاقت بھی استعمال کی گئی۔
26 دسمبر 2019 ءکو ہونے والا سیاروی اجتماع اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اسی وقت سورج گہن بھی ہوگا، یہ ایک الگ بحث ہوگی ، اہم بات یہ ہے کہ یہ اجتماع اس بار آئین و قانون ، مذہب اور نظریات کے برج قوس میں ہورہا ہے، موجودہ سیاروی اجتماع دنیا میں کیا تبدیلیاں لائے گا ؟ اس کا انحصار دنیا کے مختلف ممالک کے انفرادی زائچوں پر ہوگا، اس حوالے سے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے جو بہت جلد آپ کی نظر سے گزرے گا، بنیادی بات بہر حال یہ ہے کہ اب دنیا نئے نظریات ، نئے قوانین اور آئینی ضروریات پر زور دے گی، طاقت کے استعمال کے بجائے نظریاتی اور آئینی محاذ آرائی نمایاں ہوگی، مذہبی انتہا پسندی یا کسی بھی نظریے کی انتہا پسندی اور شدت میں اضافہ ہوگا۔
فی الوقت ہمارا موضوع صرف پاکستان ہے اور پاکستان کا پیدائشی برج ثور تین درجہ 55 دقیقہ ہے، چناں چہ یہ اہم سیاروی اجتماع پاکستان کے آٹھویں گھر میں ہوگا، اس گھر کو کایا کلپ کا گھر بھی سمجھا جاتا ہے یعنی نئی زندگی بعد از موت۔
واضح رہے کہ پاکستان کے علاوہ بھارت ، مصر، ملائیشیا، بحرین اور میکسیکو کا پیدائشی برج بھی ثور ہے لیکن دیگر ملکوں کے زائچے اپنی پیدائشی سیاروی پوزیشن کے اعتبار سے ہی زیر بحث آسکتے ہیں، پاکستان کے زائچے میں اس سیاروی اجتماع کے اثرات کسی حد تک دوسرے ممالک سے مختلف ہوسکتے ہیں، اس اجتماع کے وقت راہو دوسرے گھر میں ، مریخ ساتویں گھر میں اور نہایت حساس پوزیشن میں ہوگا جب کہ شمس ، قمر ، عطارد، مشتری، زحل ،پلوٹو اور دیگر آٹھویں گھر میں ہوں گے، راہو کیتو کی موجودگی کے سبب قران شمس و قمر سورج گہن کا باعث بھی ہوگا، گویا زائچے کے اہم گھروں یعنی تیسرے، چوتھے، پانچویں ، آٹھویں، دسویں گھروں کے مالکان اس اجتماع میں شریک ہوں گے، تیسرا گھر ایکشن ، نئے فیصلوں اور اقدام کا ہے، اس کا تعلق ذرائع ابلاغ سے بھی ہے، اس کا حاکم قمر شمس سے قران کے سبب غروب ہوگا، چوتھے کا حاکم شمس ہے جس کا تعلق داخلی امور سے ہے، یہ راہو کیتو سے قریبی قران کی وجہ سے متاثرہ ہوگا، پانچویں گھر کا حاکم عطارد بھی غروب ہوگا اور آٹھویں گھر کا حاکم مشتری نہ صرف یہ کہ غروب ہوگا بلکہ راہو کیتو سے بھی متاثر ہوگا، زحل اور پلوٹو باہم قریبی قران میں ہوں گے، گویا زائچہ ءپاکستان کے تیسرے ، چوتھے ، پانچویں، آٹھویں اور دسویں گھر کے سیارگان بری طرح متاثر ہوں گے اور ان گھروں سے متعلق منسوبات بھی متاثر ہوں گی، مزید یہ کہ سیارہ مریخ زائچے کے ساتویں گھر میں رہتے ہوئے ساتویں، دسویں، پہلے اور دوسرے گھر کو متاثر کر رہا ہوگا، یہ صورت حال کسی طرح بھی ملک و قوم اور موجودہ حکومت کے لیے بہتر نہیں ہے، وزیراعظم عمران خان پہلے ہی حالات کی سختی کا شکار ہیں جس میں دیگر سیکورٹی کے خطرات بھی شامل ہیں، اس صورت حال میں وہ کیا فیصلے کرتے ہیں اور ان فیصلوں کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس حوالے سے کئی امکانات موجود ہیں جن پر اظہار خیال مناسب نہیں ہے،صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو کسی مقابلے میں کمزوری دکھائیں اور ہتھیار ڈال دیں، آج کل میڈیا میں اس قسم کی باتیں بھی ہورہی ہیں کہ کوئی مائنس ون فارمولا زیر بحث ہے، اسمبلی ہی کے ذریعے تبدیلی لانے کے منصوبے زیر غور ہیں، وغیرہ وغیرہ، ہم پہلے اس اندیشے کا کئی بار اظہار کرچکے ہیں کہ عمران خان کسی انتہائی ناپسندیدہ صورت حال میں اسمبلی توڑنے کا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔
سیارہ زہرہ جو زائچہ ءپاکستان میں چھٹے گھر کا حاکم اور فوج و بیوروکریسی ، عدلیہ، الیکشن کمیشن کے عملی فیصلوں اور اقدام کو ظاہر کرتا ہے، اس موقع پر نویں گھر میں اور حساس مقام پر ہوگا، گویا کسی ایمرجنسی کے نفاذ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

سیاروی اجتماع کے طویل المدت اثرات

قدیم کلاسیکل ویدک ایسٹرولوجی میں ایسی پوزیشن کسی مخصوص ”یوگ“ کو ظاہر کرتی ہے، ویدک یوگ ودّیا کی قدیم کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ جب تمام سیارگان کسی ایک برج یا دو یا تین برجوں میں قابض ہوں ، اس صورت حال کو ”سولہ یا گولا یوگ“ کہا جاتا ہے، کسی شخص کے انفرادی زائچے میں ایسا یوگ نہایت منحوس تصور کیا جاتا ہے، وہ صاحب زائچہ کو ظالم بناتا ہے، دولت اور ہمت سے محروم کرتا ہے، جنگ جویانہ رجحان اور اس کے ساتھ ہی زخمی ہونے کا امکان ظاہر کرتا ہے لیکن ایسے یوگ کو جب کسی ملک یا قوم کے زائچے میں دیکھا جائے گا تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملک یا قوم ظالمانہ روش اختیار کرے گی، معاشی بدحالی کا شکار ہوگی اور کسی جنگ کے نتیجے میں نقصان اٹھائے گی، کسی بھی یوگ کی مزید وضاحت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ وہ یوگ ملک کے زائچے میں کون سے گھروں میں تشکیل پارہا ہے جیسا کہ پہلے ہم بتاچکے ہیں کہ برج ثور سے تعلق رکھنے والے ممالک کا آٹھواں گھر اس سیاروی اجتماع کا مرکز ہے جب کہ دیگر ملکوں کے زائچوں میں اس کی پوزیشن مختلف ہوگی لیکن یہ طے ہے کہ موجودہ یوگ دیگر ممالک کے زائچوں میں خواہ کسی بھی گھر میں ہو ، سعد اثرات کا حامل نہیں ہوگا۔
برج ثور سے متعلق ممالک کی ہم نشان دہی کرچکے ہیں، دیگر اہم ممالک میں برج سرطان کے زیر اثر ممالک میں امریکا ، روس، فرانس، ایران، ترکی شامل ہیں، ان ملکوں کے چھٹے گھر میں یہ سیاروی اجتماع ہوگا جس کے نتیجے میں نئے تنازعات جنم لیں گے اور نئی محاذ آرائیاں سامنے آئیں گی۔
برج سنبلہ کے زیر اثر انگلینڈ ، جرمنی، کنیڈا، برما، لبنان اور افغانستان ہیں، ان ملکوں کے زائچوں میں یہ اجتماع چوتھے گھر میں ہوگا، داخلی صورت حال میں انتشار اور بدنظمی دیکھنے میں آئے گی، عوام کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔
برج عقرب کے تحت شام ، شمالی کوریا اور لیبیا ہے،موجودہ اجتماع زائچے کے دوسرے گھر میں ہوگا جس کا تعلق اسٹیٹس ، معاشی اور اقتصادی صورت حال سے ہے، اچھی بات یہ ہے کہ سیارہ مریخ اور زہرہ اس قران میں شامل نہیں ہوں گے لہٰذا ان ملکوں میں صورت حال کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی لیکن ایک صبر آزما وقت گزرنے کے بعد۔
برج قوس کے زیر اثر سعودی عربیہ ہے، اس کے زائچے میں موجودہ اجتماع زائچے کے پہلے گھر میں ہوگا اور زائچے کا حاکم سیارہ مشتری غروب ہوگا، مستقبل میں نمایاں طور پر آئینی و نظریاتی تبدیلیاں سعودیہ عرب میں آسکتی ہیں، ملک کسی عوامی احتجاج کی طرف بڑھ سکتا ہے، مذہبی شدت پسندی میں کمی آئے گی، شاہی نظام کو خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
برج جدی کے زیر اثر چین، جاپان، اسرائیل اور یوکرائن ہیں، موجودہ اجتماع زائچے کے بارھویں گھر میں ہوگا اور انتہائی نقصان دہ اثرات ڈالے گا، دیگر ممالک سے تنازعات بڑھیں گے اور اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عزیزان من! یہ موضوع خاصا تفصیل طلب ہے، اس پر تفصیلی گفتگو کے لیے ہر ملک کے زائچے پر علیحدہ تجزیاتی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، چناں چہ ہم نے اختصار کے ساتھ اہم نکات بیان کردیے ہیں، ممکن ہوا تو آئندہ علیحدہ علیحدہ مختلف ممالک کے زائچوں پر تجزیاتی نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔


ہفتہ، 5 اکتوبر، 2019

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی متنازع شخصیت

وہ زندگی کے ہر معاملے کو کاروباری نظر سے دیکھتے ہیںامریکا درحقیقت ایک مشکل اور چیلنجنگ دور سے گزر رہا ہے



متنازع شخصیت کے مالک مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ 14 جون 1946 ءکو جمیکا میں صبح 10:54 am پر اس جہان فانی میں تشریف لائے، ویدک سسٹم کے مطابق ان کا شمسی برج ثور ہے اور برتھ سائن اسد (Leo) ہے جب کہ قمری برج عقرب اور پیدائشی نچھتر جیشیٹھا ہے۔
برج اسد کو بادشاہوں کا برج کہا جاتا ہے،طالع کے درجات 6 درجہ 51 دقیقہ ہیں اور سیارہ مریخ برج اسد میں طالع کے درجات سے قران کر رہا ہے،مشتری دوسرے گھر میں برج سنبلہ میں ہے اور راہو کی نظر کا شکار ہے،یہ اس بات کی نشان دہی ہے کہ صاحب زائچہ ایک گیمبلر ہیں، ان کی زندگی میں داو ¿ لگانے ، بلف کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
چوتھے گھر میں کیتو اور قمر حالت قران میں ہےں،دسویں گھر میں راہو اور شمس حالت قران میں ہیں گویا راہو کیتو محور کے ساتھ زائچے کے دو اہم سیارگان قمر اور شمس بری طرح متاثرہ ہیں، دوسرے گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر میں طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے،گویا اس زائچے کے سب سے زیادہ سعد و باقوت سیارے عطارد اور مشتری ہےں،زہرہ اور زحل بارھویں گھر میں ہیں، زحل کی بارھویں گھر میں موجودگی ان کے مشیروں کے مشوروں کو مشکوک بناتی ہے اور مسٹر ٹرمپ کے لوگوں سے تعلقات کو بھی غیر مخلصانہ ظاہر کرتی ہے۔
سیارہ قمر کا تعلق انسانی زندگی میں دماغ سے ہے، جب کہ سیارہ عطارد ذہن سے اور ذہانت سے وابستہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ غیر معمولی ذہین ، ہوشیار، چالاک شخصیت کے مالک ہیں لیکن قمر کی برج عقرب میں موجودگی اور راہو کیتو سے اشتراک دماغی کجروی ، کسی حد تک پاگل پن ظاہر کرتا ہے، قمر زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم ہے، اس کی یہ پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ مسٹر ٹرمپ کی زندگی میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے ، وہ جیسے نظر آتے ہیں درحقیقت ویسے نہیں ہیں۔
بے شک اسد افراد شاہانہ مزاج ، فیاض، بالغ نظر اور بہت سی دیگر اعلیٰ صفات کے حامل ہوتے ہیں،خاص طور پر انتظامی صلاحیتیں بھرپور ہوتی ہیں، یہ لوگ بزنس مائنڈ ہوتے ہیں اور اپنے ذاتی بزنس میں بہت ترقی کرتے ہیں لیکن کسی بھی زائچے میں کسی بھی برج کی بنیادی خصوصیات میں منفی یا مثبت اثرات کا جائزہ لینے کے لیے اس برج کے حاکم کی پوزیشن دیکھی جاتی ہے،مزید یہ کہ اس برج پر دیگر سیارگان کے اثرات کس نوعیت کے ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ برج اسد کا حاکم سیارہ شمس کمزور ہے اور راہو کیتو محور میں پھنس کر برج اسد کی مثبت خصوصیات کو تباہ کر رہا ہے،راہو سے قران اور کیتو سے مقابلہ ، بالغ نظری کے بجائے کینہ پروری اور دیگر منفی کمزوریوں کی نشان دہی کر رہا ہے،راہو کی مشتری پر بھی نظر ہے جو پانچویں شعور کے گھر کا حاکم ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صاحب زائچہ کا شعور بھی منفی اثرات سے پاک نہیں ہے، البتہ راہو اور مشتری کی نظر ایسے بزنس میں بے پناہ کامیابی کا باعث ہوسکتی ہے جو اخلاقی نظریات کے مطابق ناجائز قرار پاتے ہیں، پیدائشی برج کے حاکم شمس کی متاثرہ پوزیشن صاحب زائچہ کے نزدیک جائز و ناجائز کے فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، صرف اپنے ذاتی مفاد کو اولیت دی جاتی ہے،اس کے علاوہ برج اسد کی انا پرستی بھی عروج پر پہنچتی ہے، ایسے لوگ تنقید برداشت نہیں کرسکتے اور تعریف کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
مریخ نویں گھر کا حاکم ہوکر طالع کے درجات سے قران کر رہا ہے،جس کے نتیجے میں مذہبی اور نظریاتی انتہا پسندی نمایاں ہوتی ہے، قمر اور شمس کے ساتھ کیتو کے نظرات بھی ہیں جو نظریاتی طور پر زیادہ شدت پسندی لاتے ہیں، مثبت پہلو یہ ہے کہ ایسے شخص پر قسمت ہمیشہ مہربان رہتی ہے۔
قمر برج عقرب میں ہبوط یافتہ اور راہو کیتو سے متاثرہ ہوکر فطری طور پر حسد ، جیلسی ، تنگ نظری اور دیگر اخلاقی برائیوں کو جنم دیتا ہے،چوں کہ برج عقرب ایک واٹر سائن ہے اور قمر یہاں ہبوط کا شکار ہوتا ہے،قمر کا تعلق دماغ سے ہے لہٰذا ایسے افراد راہو، کیتو کے اثرات کی وجہ سے اگر ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، اب تک اخبارات میں موصوف کے بارے میں جو جنونی نوعیت کے قصے سامنے آئے ہیں وہ قمر کی اس خرابی کی وجہ سے ہےں۔
سونے پر سہاگا یہ کہ قمر چاند کی منزل جیشٹھا میں ہے،یہ بڑا ہی جارح اور جنونی نچھتر ہے،اگرچہ اس پر ذہانت کے سیارے عطارد کی حکمرانی ہے لیکن زائچے کی دیگر آراستگی کا رُخ منفی ہے لہٰذا غیر معمولی ذہانت کا رُخ بھی منفی ہوگا، مشہور امریکی ارب پتی ہاورڈ ہیوز کی پیدائش بھی اسی نچھتر میں ہوئی تھی جو ”خبطی ارب پتی“ کے نام سے مشہور ہوا، ان لوگوں میں منفی اثرات کی وجہ سے عجیب و غریب عادتیں یا رجحانات پیدا ہوتے ہیں جو ابتدائی زندگی میں ہی نمایاں ہونے لگتے ہیں، ان کا حلقہ ءاحباب محدود ہوسکتا ہے یا وہ تنہائی پسند اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں،ایک گُھنی یا منافقانہ فطرت کا مشاہدہ اس نچھتر کی خصوصیات میں کیا جاسکتا ہے،ایک عجیب تضاد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سختی سے مذہبی رجحان ظاہر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مادّی آسائشوں کے متوالے بھی ہوتے ہیں،اکثر کیسوں میں مادّیت کے زیر اثر مذہب سے لاتعلق بھی ہوسکتے ہیں۔
اس نچھتر کا بنیادی محرک مادّی ترقی ہے، یہ لوگ خود خیالی اور خود توقیری کے مابین ایک باطنی جنگ میں مصروف رہتے ہیں،ایسٹرولوجی ایسے لوگوں کو گھمنڈ ، تکبر اور انانیت کی روک تھام کرنے کا مشورہ دیتی ہے،یہ لوگ چڑچڑے، بدمزاج اور جھگڑالو فطرت کے ہوسکتے ہیں،بے شک یہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں،اپنی فطرت میں یہ قمری منزل غیر انسانی (راکھشش) ہے، ایسے لوگ زندگی میں غیر معمولی کارنامے انجام دینے کے لیے بے چین ہوتے ہیں گویا وہ ایک عام زندگی پسند نہیں کرتے، دوسروں کے مقابلے میں کچھ نیا اور سب سے الگ کرنے یا کرکے دکھانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں، گرم مزاج اور ہٹ دھرم ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اپنے اندازوں پر انحصار کرتے ہیں، دوسروں سے مشورہ لیتے ہوئے انھیں شرمندگی ہوتی ہے، فوری فیصلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
اس نچھتر (قمری منزل)کے زیر اثر پیدا ہونے والی دیگر مشہور شخصیات میں عیسائی فرقے کا بانی مارٹن لوتھر، ماہر فلکیات کوپر نیکس، اطالوی فلسفی نطشے، جرمن موسیقار موزارٹ، عظیم مصور ونسٹ وین گوگ، خبطی ارب پتی ہاورڈ ہیوز، بدنام زمانہ لارنس آف عربیہ،الپسینو، بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واج پائی،پاکستانی سیاست داں اور دانش ور رسول بخش پلیچو وغیرہ شامل ہیں۔ 
خیال رہے کہ فطری رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے مکمل زائچے کی ساخت پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے، مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ جس قمری منزل میں پیدا ہوئے ہیں ، اس میں پیدا ہونے والے بعض دیگر مشہور افراد کی بھی ہم نے نشان دہی کی ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ تمام لوگ اپنی فطرت میں مکمل طور سے مسٹر ٹرمپ جیسے ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تقریباً 75 فیصد خصوصیات مشترک ہوں گی اور اس فرق کی وجہ کسی کے انفرادی زائچے کی جداگانہ ساخت ہوسکتی ہے،دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہماری بعض خوبیاں دنیاوی معاملات میں اکثر خامیاں بن جاتی ہیں اور بعض خامیاں خوبیاں بن جاتی ہیں، مثلاً فیاضی، داد و دہش اگر ایک طرف عمدہ خصوصیات میں شمار ہوگی لیکن دنیاوی اعتبار سے کبھی کبھی سخت نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے، رسک لینے کی فطرت اگر نقصان دہ ہوسکتی ہے تو کامیابی کی صورت میں غیر معمولی کارنامے انجام دینے میں بھی معاون ہوسکتی ہے، وہ مشہور شعر کو ضرور آپ نے سنا ہوگا 

گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا لڑیں گے جو گھنٹوں کے بل چلیں

مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ رسک لینے والے اور نت نئے تجربات کرنے والے انسان ہیں، ان کے زائچے کی ساخت و پرداخت اگرچہ انھیں کچھ زیادہ ہی رسک لینے والا ، گیمبلر، بہت زیادہ اوور کانفیڈنس کا شکار بناتی ہے مگر ایسے ہی لوگ مثبت یا منفی کوئی غیر معمولی قدم بھی اٹھاسکتے ہیں، مسٹر ٹرمپ کی ظاہری و باطنی شخصیت سے آشنائی کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔
جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی ہے کہ وہ ایک بزنس مائنڈ شخصیت کے مالک ہیں، اپنے کردار و عمل میں بھی بزنس کو اولیت دیتے ہیں اور ایک کامیاب بزنس مین ہیں،امریکا کا صدر بننے کے بعد انھوں نے امریکا کی معاشی ترقی کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا اور دیگر ملکوں سے اہم تجارتی معاہدات کیے، جب وہ سیاست میں آئے تو زائچے میں راہو کا مین پیریڈ (دور اکبر) جاری تھا، ان کا باقاعدہ رابطہ امریکا کی کسی پارٹی سے نہیں تھا، ماضی میں وہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کو وقتاً فوقتاً سپورٹ کرتے رہے ہیں،بہرحال صدارت کے لیے ان کی نام زدگی ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ہوئی، سال 2016 ءمیں جب انھوں نے الیکشن میں حصہ لیا تو راہو کے مین پیریڈ میں سیارہ مریخ کا سب پیریڈ (دور اصغر) جاری تھا، مریخ ان کے زائچے کا لکی سیارہ ہے کیوں کہ نویں گھر (بھاگیہ استھان) کا مالک اور زائچے کے پہلے گھر میں براجمان ہے، انھیں الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر 16 نومبر 2016 ءسے زائچے میں سیارہ مشتری کا مین پیریڈ اور سب پیریڈ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے، مشتری کی پوزیشن زائچے میں بہت بہتر ہے اور وہ زائچے کے دوسرے گھر میں موجود ہے، جب کہ پانچویں گھر کا حاکم ہے، چناں چہ ان کے اسٹیٹس میں اضافہ ہوا اور انھوں نے گزشتہ سالوں میں اپنے مزاج اور فطرت کے مطابق جو اقدام اور فیصلے کیے وہ ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا باعث بن گئے، تاحال وہ اسی روش پر قائم ہیں، اس سال 4 جنوری 2019 ءسے زائچے میں سیارہ زحل کا سب پیریڈ شروع ہوا جو اگرچہ زائچے کا سعد سیارہ ہے لیکن زائچے کے بارھویں گھر میں موجود ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو بہت اچھے مشیر میسر نہیں آتے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اکثر اپنے مشیروں اور وزیروں سے خوش نہیں رہتے، انھیں تبدیل کرتے رہتے ہیں، موجودہ سال میں چوں کہ سیارہ زحل تقریباً سارا سال ہی راہو کیتومحور میں پھنسا رہا ہے لہٰذا اس سال بھی یقیناً انھیں اپنے مشیروں سے معقول مدد و معاونت نہیں ملی ہوگی، اسی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ سے بھی ان کے اختلافات سامنے آتے رہے ہیں اور ابھی تک ہیں۔ 
اگر زائچے کے پہلے گھر کا حاکم سیارہ متاثرہ ہو تو ایسے افراد اکثر عجیب و غریب حرکات کرتے نظر آتے ہیں، یہ پہلو بھی مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کی لائف میں نمایاں ہیں اور آئندہ بھی رہے گا، اگلے سال وہ دوبارہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں، ان کی کامیابی یا ناکامی کا درست فیصلہ تو اسی صورت میں ہوسکے گا جب ان کے مخالف امیدوار کے برتھ چارٹ کو بھی سامنے رکھا جائے لیکن خود ان کے برتھ چارٹ کی پوزیشن آئندہ سال بہت بہتر نظر نہیں آتی، خصوصاً ستمبر سے نومبر 2020 ءتک ، آئندہ سال ان کے زائچے میں زحل اگرچہ چھٹے گھر میں ہوگا اور اپریل ، مئی، جون میں سیارہ مشتری بھی چھٹے گھر میں ہبوط یافتہ ہوگا ، شاید انہی دنوں میں پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ ہوگا، ممکن ہے انھیں پارٹی ٹکٹ سے بھی محروم ہونا پڑے، چناں چہ ان کی کامیابی کے بارے میں قوی امکانات نظر نہیں آتے، بہر حال امریکا کی تاریخ میں انھوں نے اپنا نام ایسے امریکی صدور کی فہرست میں لکھوالیا ہے جنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ آج کل ایک اسکینڈل کی زد میں ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع ہوچکی ہے، یہ مسئلہ خاصی سنگین نوعیت اختیار کرسکتا ہے، ماضی میں صدر نکسن ایسی ہی صورت حال میں اپنے عہدے سے استعفا دینے پر مجبور ہوگئے تھے، یہ کارروائی اگر زیادہ طول پکڑے گی اور نومبر تک دراز ہوگی تو امکان ہے کہ وہ اس مواخذے سے بچنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کیوں کہ نومبر میں سیارہ مشتری زائچے میں سپورٹنگ پوزیشن میں آچکا ہوگا لیکن نومبر سے جنوری تک تین مہینے ان کی شہرت اور حیثیت کو چیلنج کرنے والے خاصے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
جہاں تک آنے والے سال 2020 ءمیں ان کی ذاتی کارکردگی کا سوال ہے تو نئے سال میں ان کا سارا زور آنے والے الیکشن پر ہی رہے گا جس میں کامیابی کے امکانات بہت کمزور نظر آتے ہیں۔

امریکی برتھ چارٹ



صدر امریکا کے ساتھ ہی ایک نظر امریکی زائچے پر بھی ڈالنا ضروری ہے جو درحقیقت اس سال جون سے اچھی پوزیشن میں نہیں ہے، امریکا کے زائچے میں سیارہ شمس کا دور اکبر جاری ہے، شمس زائچے کا نہایت طاقت ور اور سعد سیارہ ہے لیکن اس سال فروری سے شمس کے دور اکبر میں سیارہ زحل کا دور اصغر چل رہا ہے جو آئندہ سال 26 جنوری تک جاری رہے گا، زحل امریکی زائچے کا سب سے زیادہ فعلی منحوس سیارہ ہے، دیگر سیارگان کی پوزیشن بھی خاصی خراب نظر آتی ہے، چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سال امریکا کے لیے بہت اچھا سال نہیں رہا ہے اور ابھی تک صورت حال بہتر نہیں ہے، اندرونی خلفشار، حادثات، سمندری طوفان، عوام میں بے چینی اور اضطراب کے علاوہ بیرون ملک معاملات بھی اطمینان بخش نہیں ہیں ، ایران سے محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے اور اس اندیشے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکا ایران کے خلاف کوئی سخت کارروائی کر بیٹھے، افغانستان میں بھی طالبان سے جو معاہدہ ہونے والا تھا اسی خراب صورت حال کی وجہ سے نہیں ہوسکا اور آنے والے مہینوں میں اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا، افغانستان میں امریکا کے لیے مزید مسائل بڑھ سکتے ہیں، اسی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی امریکی کردار پر نئے سوالات اٹھیں گے جو اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوں گے، امریکی خارجہ پالیسی بھی نئے تنازعات اور مسائل کا شکار ہوگی، امریکی زائچے کے مطابق 15 نومبر سے 15 دسمبر تک امریکا کے لیے خاصا مشکل اور نئے چیلنج لانے والا وقت ہوگا جس میں صدر ٹرمپ کا کردار پہلے سے بھی کچھ زیادہ ہی متنازع ہوسکتا ہے۔
26 جنوری 2020 ءسے امریکی زائچے میں سیارہ عطارد کا دور اصغر شروع ہوگا تو صورت حال تبدیل ہوگی اور امریکا موجودہ دورانی صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوسکے گا، مرکری کا سب پیریڈ 2 دسمبر 2020 ءتک جاری رہے گا اور امکان یہی ہے کہ اس عرصے میں امریکا کو افغانستان سے نکلنے کا موقع بھی مل سکے گا، امریکا کی خارجہ پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئیں گی جو مثبت ہوں گی (واللہ اعلم بالصواب)