ہفتہ، 28 نومبر، 2020

دسمبر کی فلکیاتی صورت حال، وقت کی سختی عروج پر

دگرگوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

 سال 2020 ء کا آخری مہینہ شروع ہورہا ہے، بے شک اس مہینے میں سیارہ شمس اور زہرہ کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لیکن سیارہ مشتری کی پوزیشن نہایت خراب ہوچکی ہے، 20 نومبر کو وہ اپنے برج ہبوط میں داخل ہوگیا تھا، نہ صرف یہ کہ مشتری اپنی خراب پوزیشن نقصان دہ ہے بلکہ پاکستان کے زائچے میں بھی مشتری زائچے کا سب سے زیادہ منحوس اثر رکھنے والا سیارہ ہے، چناں چہ 20 نومبر کے بعد سے زائچے کے پہلے، تیسرے، پانچویں اور نویں گھروں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اور دسویں گھر کے حاکم زحل کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہا ہے جس کا دباؤ حکومت اور وزیراعظم پر ہوگا، اسی طرح زائچے کے نویں گھر میں سیارہ زہرہ اور قمر بھی موجود ہیں، مشتری انھیں بھی متاثر کرے گا جس کی وجہ سے خدشات ہیں کہ غلط فیصلے اور اقدام دیکھنے میں آسکتے ہیں، سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اس دوران میں ان محکموں میں تبدیلیوں کا امکان بھی موجود ہے۔

زائچہ ء پاکستان کے مطابق ہر سال تقریباً 15,16 دسمبر سے تقریباً 15 جنوری تک کا عرصہ ایک مشکل وقت ہوتا ہے، اس سال بھی یہ وقت قریب ہے، اگر مشکل اوقات میں دانش مندی اور تدبر کے ساتھ فیصلے اور اقدام کیے جائیں تو مشکلات آسان ہوجاتی ہیں، افسوس کہ ہمارے ہاں نہ ایسے دانش ور ہیں اور نہ مدبر، اس ملک کی سیاست میں وہ لوگ فعال ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار بنا رکھا ہے، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے کیا ہونا چاہیے، ہماری یہ سیاسی اشرافیہ اس بری طرح اس ملک کے سیاہ و سفید پر حاوی ہوچکی ہے کہ اب کوئی بڑا انقلاب ہی ان سے نجات کا باعث ہوسکتا ہے جس کا فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
نئے سال 2021 کی نمود انتہائی قریب ہے، 15 جنوری سے زائچہ ء پاکستان میں سیاروی پوزیشن بہتر ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی سال کے شروع ہی میں ایک بڑا سیاروی اجتماع بھی ہونے جارہا ہے، یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی 26 دسمبر کو سعد سیارگان برج قوس میں جمع ہوئے تھے اور ہم نے نشان دہی کی تھی کہ اب دنیا نظریاتی طور پر تبدیل ہونے جارہی ہے،برج قوس مذہب، آئین و قانون اور مستقبل کے ترقیاتی امور سے متعلق برج ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ سال 2020 میں بہت بڑی نظریاتی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اسرائیل کے متحدہ عرب امارات، سوڈان اور سعودیہ عربیہ سے تعلقات میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی، مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ جس طرح پچھلے کئی سال سے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے تھے اس کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے، ان کی جگہ نئے امریکی صدر مسٹر جوبائیڈن الیکشن جیت چکے ہیں، خیال رہے کہ مسٹر جوبائیڈن کا طالع پیدائش بھی میزان ہے جو عمران خان اور روس کے صدر مسٹر پیوٹن کا ہے، اس طرح اب دنیا میں تین میزانی افراد حکمران ہوں گے۔
اس سال جنوری فروری میں جو عظیم سیاروی اجتماع ہورہا ہے اس پر ہم نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ ہفتے سال 2021 کے حوالے سے ہمارا مضمون آپ کے سامنے ہوگا ؎

دگرگوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرّہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی

دسمبر کی سیاروی پوزیشن

سیارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے اور 16 دسمبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، دونوں برجوں میں اس کی پوزیشن بہتر ہوگی،البتہ برج حمل، جوزا، قوس والوں کے لیے 16 دسمبر تک کچھ مشکل وقت رہے گا، 16 دسمبر سے 16 جنوری تک برج ثور، سرطان اور جدی والوں کے لیے مشکل وقت ہوگا۔
سیارہ عطارد بھی برج عقرب میں ہے اور شمس سے قریب ہونے کی وجہ سے غروب حالت میں ہے، 18 دسمبر کو برج قوس میں داخل ہوگا اور سارا مہینہ اسی برج میں رہے گا، گویا اس کی پوزیشن ناقص اور کمزور ہے جس کی وجہ سے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، عطارد کی خراب پوزیشن 13 جنوری 2021 ء تک رہے گی۔
سیارہ زہرہ اپنے ذاتی برج میزان میں ہے اور طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے، 12 دسمبر کو برج عقرب میں داخل ہوگا اور مہینے کے آخر تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ وقت دوسروں سے تعلقات بہتر بنانے اور ناراضیاں دور کرنے میں مددگار ہوگا، اس وقت میں دوستی، محبت اور منگنی جیسے امور کی انجام دہی بہتر ہوگی۔
سیارہ مریخ برج حوت میں حرکت کر رہا ہے، 25 دسمبر کو اپنے ذاتی برج حمل میں داخل ہوگا جہاں اس کی پوزیشن بہتر ہوگی، سیارہ مشتری اپنے ہبوط کے برج جدی میں داخل ہوچکا ہے اور آئندہ سال مارچ تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ مشتری کی انتہائی خراب پوزیشن ہے، ترقیاتی امور میں رکاوٹ لاتی ہے، سیارہ زحل اپنے ذاتی برج جدی میں ہے، 10 دسمبر سے زیادہ باقوت پوزیشن میں ہوگا، راہو کیتو اپنے شرف کے بروج ثور اور عقرب میں حرکت کر رہے ہیں اور مستقیم حالت میں ہیں، یہ سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق دی جارہی ہیں۔

قمر در عقرب

قمر ماہ دسمبر میں اپنے ہبوط کے برج میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 12 دسمبر کو رات تقریباً10:25 pm پر داخل ہوگا، برج عقرب میں اس کا قیام 14 دسمبر شب 10:55 pm تک رہے گا، یہ نہایت نحس اثرات کا حامل وقت ہے، اس وقت کسی نئے کام کی ابتدا نہ کریں ورنہ نتائج توقع کے مطابق حاصل نہیں ہوں گے بلکہ کچھ نئی پریشانیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں، اس نحس وقت میں علاج معالجہ کرانا،بیماریوں سے نجات،بری عادتوں کی روک تھام اور ظالموں کے خلاف کارروائی کے اعمال کیے جاسکتے ہیں، اس ماہ میں قمر در عقرب کے علاوہ ایک چاند اور ایک سورج گہن بھی ہے لہٰذا ایسے ضروری عملیات دیے جارہے ہیں جو ان اوقات میں کیے جاسکتے ہیں۔
میاں بیوی میں محبت کے لیے عمل خاص
زن و شوہر میں اختلافات، مزاجی ناہمواری، باہمی لڑائی جھگڑا، محبت کی کمی وغیرہ کے لیے یہ ایک مجرب طریقہ ہے اور صرف شادی شدہ خواتین و حضرات ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نہایت آسان بھی ہے۔ گرہن کے درمیانی وقت میں ایک سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے پوری بسم اللہ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔
والقیت علیک محبۃ فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبۃ فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمدؐ و خدیجۃ الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً
اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ (چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔
خیال رہے کہ مندرجہ بالا نقوش لکھتے ہوئے باوضو رہیں، پاک صاف کپڑے پہنیں، علیحدہ کمرے کا انتخاب کریں، لکھنے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنے مقصد کو ذہن میں واضح رکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، رجال الغیب کا خیال رکھیں کہ آپ جس طرف رخ کر کے بیٹھے ہوں وہ آپ کے سامنے نہ ہوں، رجال الغیب کا نقشہ اس کتاب میں دیا جارہا ہے، اس سے مدد لیں۔
ناجائزو ناپسندیدہ تعلق کا خاتمہ
اکثر والدین اپنے بیٹے یا بیٹی کی ایسی محبت یا وابستگی سے پریشان رہتے ہیں جو ان کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لڑکا یا لڑکی ایک غلط راستے پر چل رہے ہیں۔
ایسی صورت میں طریقہ یہ ہے کہ گہن کے وقت کسی علیحدہ کمرے میں باوضو بیٹھ کر مندرجہ ذیل سطور کسی سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں اور کا غذ کو تہہ کر کے تعویذ کی شکل بنا لیں اور پھر اس کاغذ کو کسی بھاری وزنی چیز کے نیچے دبا دیں یا قبرستان میں دفن کردیں، اگر ایسے دو نقش تیار کیے جائیں اور دونوں کو لڑکا اور لڑکی انشاء اللہ دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجائے گی۔
”احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم تعلق فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں عَقدَت قُلوبِھم ابداً یا حراکیل بحق یا قابض یا مانع العجل العجل الساعۃ الساعۃ“

دو افراد کے درمیان عداوت و دشمنی

اکثر دو افراد کے درمیان عداوت یا دشمنی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتی ہے،اس کا خاتمہ ضروری ہے، اکثر تو اس بنیاد پر باہمی قریبی رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی صورت حال کے لیے درج ذیل عمل مفید ثابت ہوگا، دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون کر رہا ہے؟ لہٰذا نقش لکھتے ہوئے پہلے اُس فریق کا نام مع والدہ لکھیں جو ظلم و زیادتی کر رہا ہو اور بعد میں اس کا نام لکھیں جو حق پر ہو اور اس ساری دشمنی میں اپنا دفاع کر رہا ہو۔
احدرسص طعک لموہ لادیایا غفور یا غفور بستم اختلاف و عداوت فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں بحق صمُ بکمُ عمیُ فہم لایعقلون یا حراکیل العجل العجل العجل الساعۃ الساعۃ الساعۃ الوحا الوحا الوحا
کسی صاف کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے دو نقش گہن کے وقت لکھیں اور موم جامہ یا اسکاچ ٹیپ لپیٹ کر اُس راستے میں دائیں بائیں کسی سائیڈ دفن کردیں، جہاں سے اُن کا گزر ہوتا ہو، زمین میں دفن کرنے سے پہلے نقش پر کوئی وزنی پتھر بھی رکھ دیں، بعد ازاں کچھ مٹھائی پر فاتحہ دے کر بچوں میں تقسیم کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

مخالف کی زبان بندی

عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں۔ انشاء اللہ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل

شرف قمر

دسمبر میں قمر اپنے شرف کے برج ثور میں 26 دسمبر شام تقریباً 5 بجے داخل ہوگا اور 29 دسمبر تقریباً 4 بجے صبح تک رہے گا، یہ نہایت سعد اور مبارک اوقات ہیں، اس وقت میں اپنے جائز مقاصد کے لیے نیک اعمال کیے جاسکتے ہیں، اس حوالے سے خصوصی وقت برائے شرف قمر 27 دسمبر کو دوپہر تقریباً ایک بجے سے 2 بجے تک ہوگا، اس وقت میں ضروری اعمال و وظائف کیے جاسکتے ہیں،اس موقع پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عمل جو 786 مرتبہ پڑھا جاتا ہے اور گھر میں محبت، اتفاق، خیروبرکت کے لیے بہت مؤثر ہے اور ہم اکثر دیتے رہتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھائیں، دوسرا اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم کا عمل بھی اس وقت میں کیا جاسکتا ہے، شرف قمر میں برکاتی انگوٹھی یا لوح قمر نورانی بھی تیار کی جاتی ہے، ہماری کتاب مسیحا حصہ سوم میں ان کی تیاری کا طریقہ دیا گیا ہے، جو لوگ عمل و وظائف کے شائق ہے انھیں یہ کتاب ضرور اپنے پاس رکھنا چاہیے۔

چاند گہن

پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 30 نومبر کو جزوی چاند گہن ہوگا، گہن کا آغاز دن کے وقت 12:32:22 pm پر ہوگا اور انتہائی نکتہ ء عروج دوپہر 02:42:53 pm پر ہے جب کہ گہن کا اختتام 04:53:22 pm کے بعد ہوگا، دن ہونے کی وجہ سے یہ گہن پاکستان میں نظر نہیں آئے گا جب کہ چلی، فلپائن، امریکا، کنیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں دیکھا جاسکے گا۔

سورج گہن

اس سال کا آخری سورج گہن 14 دسمبر کوہوگا، گہن کا آغاز 06:33:55 pm پر ہوگا جب کہ 07:52:34 pm سے گہن نظر آنا شروع ہوگا، اس کا نکتہ عروج 09:13:28 pm پر ہوگا اور اختتام رات 11:53:03 پر ہوگا، پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں یہ گہن نظر نہیں آئے گا۔

بھاگنے والے کو روکنے کے لیے

اس وقت کسی کو روکنے، ملازمت یا مکان میں مستقل قیام وغیرہ کے لیے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم قدم دریں مکان فلاں بن فلاں بیرون قرار نہ باید العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔
اگر علم جفر سے تھوڑی بہت واقفیت ہے اور نقش وغیرہ بنانے کی صلاحیت بھی ہے تو مندرجہ بالا عمل کا نقش بھی تیار کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے مقصد کی سطر کے اعداد نکال کر ایک مثلث خاکی چال سے پُر کرلی جائے اور باقی حروف نقش کے چاروں طرف لکھ دیے جائیں۔

خواب بندی یا دشمنوں سے نجات

گہن کے وقت میں دشمن سے نجات، دشمن کے خلاف کارروائی اور خواب بندی وغیرہ کے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم خواب خود فلاں بن فلاں فی حق فلاں بن فلاں، قرار نہ باشد العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔

عمل دیگر

مخالفین، حاسد، اور دشمنی کرنے والے یا کسی قسم کا نقصان پہچانے والوں کا تصور کیا جائے تو وہ سب ہاتھ باندھے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک مرتبہ سورۂ عبث پڑھ کر ان پر پھونک ماری جائے اور زبان سے کہا جائے یا رب العالمین ان سب کے شر سے محفوظ رکھ۔

تسخیر حکام

گہن کے اوقات میں اعلیٰ حکام یا افسران بالا کی زبان بندی یا ان کے ظلم و زیادتی سے نجات کے لیے عمل کرنا چاہیے، اگر اس وقت ساعتِ شمس بھی میسر ہو تو سونے پہ سہاگا ہوگا۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم عقل و خرد فلاں بن فلاں فی حق فلاں بن فلاں العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔

ناجائز تعلق سے روکنا

گہن کے اوقات میں خواتین کی خواب بندی، ان کے دل میں جگہ بنانے کے لیے یا کسی بدکار عورت کو ناجائز تعلق سے روکنے کے لیے عمل کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم عقد التعلق عاشقی فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں لا تزنی العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔
زبان بندی
گہن کے اوقات میں زبان بندی، مخالف بولنے والے کے خلاف کارروائی، دو افراد کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے عمل، سفر پر جانے والے کو روکنے یا ذہنی خرابیوں مثلاً جھوٹ بولنا اور بری عادتوں میں مبتلا ہونا، کے لیے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور عقد السان فلاں بن فلاں فی حق فلاں بن فلاں صم بکم عمی فھم لایرجعون العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔

دماغی خرابیوں کے لیے

گہن کے اوقات میں ساعتِ قمر کا انتخاب کیا جائے،اس وقت مہلک بیماریوں سے نجات اور خصوصاً دماغی خرابیوں کے علاج کے لیے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم دورۂ مرگی فلاں بن فلاں ابداً العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔
عزیزان من! قمر در عقرب یا سورج اور چاند گہن سے درست طریقے پر فوائد کا حصول مندرجہ بالا اصول و قواعد کے مطابق ہوسکتا ہے، ہمارے اس طریق کار کو آپ نہایت مجرب پائیں گے، اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے مزید ساعتیں بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہیں، ساعت نکالنے کے طریقے کار کو سمجھنے کے لیے ہماری کتاب مسیحا حصہ اول آپ کے پاس ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ہماری ویب سائٹ پر بھی ساعت معلوم کرنے کے طریق کار کو واضح کیا گیا ہے۔

پیر، 23 نومبر، 2020

دنیا کے معروف کاہن اور ان کے پراسرار واقعات

 

ایران میں جادو

یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران میں جادو کی ابتدا کس طرح ہوئی لیکن تاریخی واقعات و شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عراق کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہاں بھی اہلِ بابل کے ذریعے ہی جادو رائج ہوا ہوگا، زرتشت جسے پارسی مذہب کا بانی قرار دیا جاتا ہے، اندازاً پندرہ سو قبلِ مسیح تک زندہ تھا، تاہم بعض دیگر کتب ”ژند اوستا“ وغیرہ کے مطابق جس میں اس کا نام بھی موجود ہے وہ شاید اس سے بھی کافی پہلے وجود رکھتا تھا، اس کے مذہب کے بنیادی اصول میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں دو عظیم قوتوں، خیر اور شر کا تصادم برپا ہے جو ازلی اور ابدی ہے، آخر کار خیر، شر پر غالب آجائے گا۔
پارسی 591 قبلِ مسیح میں موجود تھے، وہ جادو گر یا دانا انسانوں کی حیثیت سے مشہور تھے اور زرتشت کے افکار و نظریات کا پرچار کرتے تھے اور جس زمانے میں سائرس اعظم نے عظیم ایرانی سلطنت قائم کی تو اس زمانے میں بھی موجود تھے اور اسی زمانے میں بنی اسرائیل بھی بابل میں قیدیوں کی حیثیت میں موجود تھے کیوں کہ ماضی کا عظیم کلدانی شہنشاہ بختِ نصر جب فلسطین پر حملہ آور ہوا اور بنی اسرائیل کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس نے ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کردیا تو بنی اسرائیل کو غلام بنا کر بابل لے آیا، تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے تک ”چاہِ بابل“ بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے موجود تھے جہاں دو فرشتے ہاروت اور ماروت اپنی دنیاوی سزا بھگت رہے تھے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ بابل کا علم و فن کسی دور میں بابل سے نکل کر یونان و مصر تک اور مشرق میں ایران و ہندوستان تک پھیلا ہوگا کیوں کہ سائرس جسے بعض لوگ غلط فہمی کی وجہ سے سکندر ذوالقرنین بھی سمجھتے ہیں، ایک بہت بڑی سلطنت کا فرماں روا تھا جو مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی، اسے بلاشبہ فاتح اعظم ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی کے دور میں یہودیوں کو بابل سے رہائی ملی۔
یہ وہ دور تھا جب سحریات اور دوسرے علوم اپنے عروج پر تھے، مصر اور یونان میں پراسرار علوم کے ماہرین کی تنظیموں کے ریاستی معاملات پر عموماً بہت گہرے اثرات ہوتے تھے، ایران میں بھی انہیں مکمل سیاسی غلبہ حاصل تھا،مقدس مذہبی فلسفہ اور سائنس ان کے ہاتھ میں تھے اور وہ بیماروں کا روحانی اور جسمانی علاج کیا کرتے تھے، تاریخ میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہرین مختلف وجوہات کی بنیاد پر مختلف ادوار میں مشرق اور مغرب کی طرف ہجرت کرتے گئے اور عرب میں بھی ان کے اثرات زمانہ ء جاہلیت میں نظر آتے ہیں لیکن یہ طے کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ بابل اور مصری تہذیبوں میں اس حوالے سے کس کو اولیت حاصل ہے،اگر بہت باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور ساتھ میں الہامی کتب سے بھی مدد لی جائے تو نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا پہلا مرکز ارضِ فلسطین اور عراق و عرب قرار پائیں گے کیوں کہ دنیا کے پہلے انسان یعنی ابوالبشر حضرت آدم ؑ نے خانہء کعبہ کی بنیاد رکھی، گویا نسل انسانی کا پھیلاؤ مکہء معظمہ سے شروع ہوا مگر اس حقیقت کو دیگر مذاہب تسلیم نہیں کرتے اور حضرت آدم ؑ کے زمین پر قیام کے سلسلے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے اور غیر مذہبی یا جدید سائنسی نظریہ تو انسان کا وجود حضرت آدم ؑ سے پہلے بھی تسلیم کرتا ہے لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑناچاہتے۔

معلوم تاریخ کی پہلی ہجرت

بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ عراق و فلسطین حضرت آدم ؑ کے بعد اولادِ آدم کا قدیم ترین مرکز رہے ہیں، ہابیل و قابیل کے واقعے نے انسانوں کے درمیان خیر و شر کی فصیل کھڑی کردی تھی اور اس طرح اولادِ آدم دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک گروہ وہ تھا جو حضرت آدم ؑ کے بعد سلسلہء نبوت سے سرفراز تھا اور دوسرا اس کا مخالف تھا اور گمراہی کا راستہ اختیار کرچکا تھا، آخر کار حضرت ادریس ؑ کے دور میں شرکی قوت اتنی بڑھ گئی کہ آپ کو فلسطین سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مصر چلے گئے ۔
روایات سے اور آسمانی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علمِ نجوم حضرت ادریس کو معجزے کے طور پر عطا ہوا تھا، اس کے علاوہ بھی آپؑ دنیا میں بہت سی چیزوں کے مؤجد سمجھے جاتے ہیں، قلم اور تحریر بھی آپ کی ایجاد ہے، آپ نے مصر میں زراعت کو فروغ دیا، دریا سے نہریں نکالنے اور پتھروں سے عمارتیں تیار کرنے کا خیال بھی آپ کا ہے۔
اس ابتدائی انسانی تقسیم کے بعد بابل اور مصر کے لوگوں نے بہت تیز رفتار ترقی کی لیکن انبیاء کے نزول کا سلسلہ عراق و فلسطین میں زیادہ نظر آتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ معلوم تاریخ میں ہم ان علاقوں میں آنے والے انبیاء سے زیادہ واقف ہیں اور نمایاں طور پر حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد ہماری نظر میں ہے۔

جادو اور دیومالا

جادو کا دنیا کے مختلف علاقوں کی دیومالاؤں سے گہرا تعلق ہے، نیز فلسفے کے قدیم عقائد سے بھی ۔ پُراسرار ”کابیری“ کی پرستش بہت قدیم زمانوں میں بھی کی جاتی تھی اور فونیقی بھی کرتے تھے، اس کی پوجا کا آغاز مصر سے ہوا تھا اور میمفس کا معبد اس کے لیے مخصوص تھا، یہ قدیم روم میں بھی موجود ہے، لیمنوس کا جزیرہ کابیری کی پرستش کے حوالے سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے، یہاں ولکن کی پرستش بھی کی جاتی تھی جس کی علامت آگ تھی، اس جزیرے میں کابیری اور ولکن کے سامنے پراسرار رسوم ادا کی جاتی تھیں،کابیری پوجا کی پراسرار رسومات یونان کے دیگر شہروں میں بھی موجود تھیں،کہا جاتا ہے کہ یہ رسوم رات کی تاریکی میں ادا کی جاتی تھیں،اس مسلک میں شامل ہونے کے خواہش مند کے سر پر زیتون کے پتوں کا تاج رکھا جاتا اور اس کی کمر کے گرد سرخ رنگ کی پیٹی باندھ دی جاتی، اسے ایک روشن تخت پر بٹھا دیا جاتا اور دیگر لوگ مستانہ وار اس کے گرد رقص کرتے،ان تقریبات میں جو عمومی نظریہ پیش کیا جاتا تھا وہ تھا موت کے ذریعے اعلیٰ ترین زندگی تک رسائی، امکان ہے کہ جب مذبی پیشوا تنویمی اثر میں ہوتے، تب ان پر مختلف چیزوں کے حوالے سے انکشافات ہوتے اور وہ پیش گوئیاں کرتے، آج کے زمانے کی جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہمارے ارد گرد ان فضا میں اگر کسی طریقے سے ارتعاش پیدا کیا جائے تو مافوق الفطرت مظاہر کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا بھرپور ارتکاز توجہ کے ساتھ خاص نوعیت کی حرکات و سکنات یا لفظی تکرار بھی کائنات کی فضا میں کسی ارتعاش کا باعث ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں محیّر العقول کیفیات یا نظارہ مشاہدے میں آسکتا ہے، اسی صورت حال کو تنویمی اثر بھی کہا جاسکتا ہے اور اس کے زیر اثر انسان پیش گوئی یا کوئی سحری کمال بھی دکھا سکتا ہے۔

ڈیلفی کا دارالاستخارہ

پیشن گوئیوں کے پر اسرار فن میں ”ہاتفوں“یعنی کاہنوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، یہ بنیادی طور پر سحری اثرات کے زیرِ اثر ایک ٹرانس کی کیفیت میں پیش گوئی کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں بعض معبد بہت مشہور ہوئے اور ان کے مخصوص کاہن یا کاہنائیں بھی مشہور ہوئیں،تاریخ میں ”ڈیلفی کا دارالاستخارہ“ نہایت مشہور ہے اور اس کی کاہنہ کا بھی بہت چرچا ہے، یہ دارالاستخارہ کئی سو سال قبل مسیح سے ساری دنیا کی نظروں کا مرکز تھا، سائرس اعظم سے جس یونانی بادشاہ نے مقابلہ کیا اس نے ہی اسی استخارہ سینٹر سے رہنمائی لی تھی جو الٹی ہوگئی، اسے بتایا گیا تھا ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کو شکست دے کر اپنا غلام بناکر ساتھ لے جائے گا، اس نے سمجھا کہ وہ سائرس کو شکست دے کر اپنا غلام بنائے گا لیکن نتیجہ اس کے برعکس تھا یعنی اسے شکست ہوئی اور سائرس اسے اپنا غلام بناکر ایران لے گیا۔
روایات سے پتہ چلتا ہے ڈیلفی کے اس استخارہ سینٹر کو کوری ٹاس نامی چرواہے نے ایک غار سے نکلتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے دریافت کیا تھا، یہ دھواں فطری تھا یا نہیں اس کا کچھ پتہ نہیں ہے، چرواہا وہیں کا وہیں ہکا بکا رہ گیا ہے،اُس کی آنکھوں کے سامنے زمین کے ایک سوراخ سے نکلنے والا دھواں حیرت انگیز تھا، وہ خو د بخود کچھ الفاظ ادا کرنے لگا پھر وہاں ایک تپائی رکھ دی گئی، جوابات کے وسیلے کے طور پر ایک لڑکی کو منتخب کیا گیا جو معمول کے طور پر خدمات انجام دیتی تھی، یہ فرض کیاگیا تھا کہ اس لڑکی کے ذریعے جوابات غیب سے آئیں گے (ہمارے ہاں آج بھی حاضرات کے ایسے طریقے مروج ہیں جن میں کسی معصوم بچے پر حاضرات کھلوائی جاتی ہے، کیا یہ کسی قدیم روایت کی کڑی نہیں ہیں؟)
بعد ازاں اس مقام پر لارل کے پتوں سے ایک کُٹیا بنادی گئی اس کے بعد مذہبی پیشواؤں نے سنگِ مرمر کا شاندار معبد بنادیا اور پیتھونیس نامی لڑکی کو معمول مقرر کردیا گیا، کہاجاتا ہے کہ اس کاہنہ نے مقدس فوارے کا پانی پیا تھا جوکہ صرف اس کے لیے مخصوص تھا اور لارل کا پتا چبایا تھا، اس کے سر پر لارل کے پتوں کا تاج رکھا گیا تھا جو شخص اس سے کچھ پوچھنا چاہتا پہلے اسے کسی جانور کی بھینٹ دینی ہوتی تھی اس کے بعد وہ ایک سوال لکھ کر اس لڑکی کو دے دیتا وہ سوال کو ہاتھ میں لے کر سونے کی چوکی پر بیٹھ جاتی جو غار کے منہ پر رکھی گئی تھی، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ یہ کاہنہ سال میں صرف ایک خاص مہینے میں بولا کرتی تھی اور شروع شروع میں تو وہ صرف ایک مخصوص مہینے کی ساتویں تاریخ کو بولا کرتی تھی، یہ دن ایک یونانی دیوتا اپالو کی پیدائش کا دن تھا۔
اسی طرح ایک اور یونانی معبد کشف یا استخارے کے لیے مشہور تھا، مذہبی پیشوا دیوتا کی شبیہہ باہر لے جاتے تھے لیکن وہ شبیہہ بولتی نہیں تھی صرف سر ہلاکر جواب دیتی تھی، بعض اوقات مذہبی پیشوا خود اس کے اشاروں کو نہ سمجھ پانے کا اعتراف کرتے تھے چناں چہ سر کے اشاروں سے دیے گئے جوابات کے نتیجے میں سوال کنندہ تشنہ ہی رہ جاتا۔
مقدونیہ کے فاتح اعظم سکندر دی گریٹ کی پیدائش بھی ایک کاہن کی پیش گوئی کے مطابق ہوئی تھی، یونان میں ڈیانا دیوی کے مندر (واضح رہے کہ ڈیانا دیوی کا معبد قدیم دنیا کے سات عجائبات میں شامل رہا ہے اور اسے معبد مشتری بھی کہا جاتا ہے اور مشتری کو قدیم یونانی زبان میں زیوس کہتے تھے) کے مذہبی پیشوا نے اس کی ماں کو بتایا کہ زیوس کا بیٹا اس کی کوکھ سے جنم لے گا (یونان میں ستارہ پرستی عام تھی) چناں چہ اپنی زچگی کے آخری دنوں میں اس کا قیام مستقل معبد مشتری میں رہا جہاں سکندر پیدا ہوا، وہ زندگی بھر سکندر کو دیوتا زیوس کا بیٹا سمجھتی رہی، اپنے شوہر سے ہمیشہ اُس کے تعلقات خراب رہے۔
قصہ مختصر یہ کہ زمانہئ قدیم میں کہانت بھی جادو کی ایک شاخ تھی، اس کے ذریعے مستقبل کے بارے میں سوالوں کے جواب حاصل کیے جاتے تھے، حضور اکرم ؐ کی مشہور حدیث اسی کہانت کے بارے میں ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے کاہن کی بات پر دھیان دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے، قبل اسلام عرب میں بھی کہانت کا بہت زور تھا۔

چند مشہور کاہن

یونان ہی میں پازا نیاس نے جوپیٹرٹروفونیئس کے کاہن کا تذکرہ کیاہے، وہ اپنے زمانے کا سب سے زیادہ ماہر معمار تصور کیاجاتا تھا، ایک روایت کے مطابق ایک زلزلے کے دوران وہ ایک غار میں گم ہوگیا، اس کے بعد وہ غار پیش گوئیاں کرنے لگا، سوال کاجواب دریافت کرنے والے کو غار کے اندر جاکر بھینٹ دینی پڑتی تھی اور ٹروفونیئس یا اُس کی روح کبھی خواب میں اور کبھی بلند آواز میں سوال کا جواب دیتی تھی، بہ ظاہر یہ ایک عجیب نوعیت کا پراسرار معاملہ ہے لیکن جو لوگ روحیت اور ہمزاد کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے آگاہ ہیں، ان کے لیے اس میں کوئی پراسراریت نہیں ہونی چاہیے، ایک اوریجنل کاہن یا اعلیٰ درجے کا معمول (Medium) اپنی موت کے بعد بھی اپنے ہمزاد کے ذریعے دنیا میں متحرک ہوسکتا ہے اور دوسروں کی مثبت یا منفی رہنمائی اپنی سابقہ نالج کے مطابق کرسکتا ہے،ایسے واقعات آج بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں، ہماری تحقیق کے مطابق آواگون کا مسئلہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے، وہ لوگ جو اپنے پچھلے جنموں کی باتیں کرتے پائے گئے ہیں تو یقیناً کسی قدیم ہمزاد کے رابطے میں رہے ہیں اور وہ ہمزاد انھیں اپنی زندگی کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے جب کہ وہ اسے اپنے پچھلے جنم کی کتھا سمجھ کر دوسروں کو سناتے اور حیران کرتے ہیں ورنہ درحقیقت آواگون اور پچھلے جنم جیسے نظریے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ڈیلوس اور برانچس کے کاہن بھی بہت اعلیٰ ساکھ کے حامل تھے، سوالوں کے جواب ایک کاہنہ 3 دن کے بعد دیا کرتی تھی، وہ عورت ایک خوب صورت چھڑی پکڑے ایک دوسری سلاخ پر بیٹھ جاتی جوکہ ایک ابلتے ہوئے چشمے کے آر پار نصب ہوتی تھی، وہ وہاں بیٹھ کر بھاپ کو سانس کے ساتھ سینے میں سمو لیا کرتی اس سے جواب حاصل کرنے کے لیے خصوصی تقریب اور بھینٹ ضروری ہوتی تھی، سوال کنندہ کو غسل کرکے فاقہ کرنا پڑتا اور تنہائی میں رہنا پڑتا۔
مصر میں بھی یہی صورت حال تھی، کاہنوں نے پرانے زمانے کے لوگوں کے ذہنوں پر زبردست اثرات ڈالے تھے، کاہنوں یا کاہناؤں کا انتخاب مذہبی پیشواؤں کے طبقے سے کیا جاتا تھا، انہیں باقاعدہ غیب دانی کی تعلیم دی جاتی تھی، وہ ساری زندگی اس مذہبی منصب پر فائز رہتے اور کوئی جرم خواہ کتنا ہی گھناؤنا کیوں نہ ہوتا ان کی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا اور انہیں ان کے منصب سے محروم نہیں کرسکتا تھا، وہ قدرتی احکامات کی تعبیر بھی بتایا کرتے، دیوتاؤں کو چڑھائی جانے والی بھینٹ کے جانوروں کا تعین کرتے اور رسومات منانے کا اہتمام کرتے، ان کااثر رسوخ بہت زیادہ تھا، چھوٹے افسروں سے لے کر حاکموں تک کے عہدوں کی توثیق کیا کرتے تھے، جنگ لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ وہ کرتے تھے، عوامی ذہنوں پر ان کا غلبہ مکمل تھا اور کوئی شخص ان کے فیصلوں کو رد نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ان کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ وہ دیوتاؤں کے مقرب خاص ہیں، یہ کاہن مختلف چیزوں اور واقعات سے شگون بھی لیا کرتے تھے، جیسے پوجا یا کسی اور رسم کی ادائیگی کے وقت کسی پرندے کا اچانک آجانا یا بلی وغیرہ کا آجانا جیسا کہ ہمارے یہاں بھی بلی کا سامنے سے گزر جانا برا شگون مانا جاتا ہے۔
کاہنوں کے حوالے سے یہ عقیدہ بھی مشہور تھا کہ ان کا رابطہ جنات، ارواح یا دیگر ماورائی قوتوں سے رہتا ہے اور اس کے لیے وہ خصوصی عبادات و ریاضت بھی کیا کرتے تھے، گویا یہ لوگ یقیناً اعلیٰ درجے کے معمول ہوا کرتے تھے جن کے لیے جنات، ارواح یا بھٹکے ہوئے کسی ہمزاد سے رابطہ کرنا آسان ہوتا تھا، مزید مختلف ریاضتیں بھی انھیں اس قابل بناتی تھیں، بالکل آج ہی کی طرح جیسے کہ آج کل بھی لوگ ایسے ہی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، اگرچہ ان کی اکثریت ناکامی کی شکار ہوتی ہے کیوں کہ اکثریت کو خود اپنے بارے میں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس کام کے لیے مناسب اور موزوں بھی ہیں یا نہیں، ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس راستے پر جانے والے اکثر افراد فطری طور پر مادہ پرست ہوتے ہیں، دولت اور اقتدار کی ہوس انھیں ایسے کاموں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور عام طور پر وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہوتے، ایک اعلیٰ درجے کے معمول میں کیا خصوصیات ہونا چاہئیں یہ صرف علم نجوم ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے۔(جاری ہے)

ہفتہ، 14 نومبر، 2020

انسانی معاشرے میں جادو کی ضرورت،ابتدأ اور انتہا(6)

اہل بابل کا جادو، شہر نمرود کے چھ عجیب طلسمات

 مغربی محققین کی نظر میں جادو کے کردار اور نظریات پر پہلے بات ہوچکی ہے اور اس حوالے سے زمانہ قدیم میں جادو اور مذہب کے درمیان جو تعلق رہا ہے اس کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قدیم اقوام عالم جادو کو مذہب کا حصہ سمجھتی تھیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک اہم ضرورت خیال کرتی تھیں کیونکہ ان کے تمام مسائل جادو کے ذریعے ہی حل کیے جاتے تھے، یہاں تک کہ عبادات کے سلسلے میں بھی جادو سے متعلق رسومات ادا کی جاتی تھیں، ان کے مذہبی و روحانی پیشوا عموماً اعلیٰ درجے کے جادو کے ماہرین ہوا کرتے تھے، وہ کہانت کے ذریعے لوگوں کو ان کے حال و مستقبل کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے اور آنے والی پریشانیوں، حادثات و سانحات سے نمٹنے کے لیے جادوئی طریقے اختیار کرتے تھے، بادشاہِ وقت کے بعد ان کا مقام و مرتبہ نہایت اہم اور قابل تعظیم ہوا کرتا تھا بلکہ بعض معاشروں میں بادشاہ کو بھی ان کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی تھی، تقریباً تمام ہی معبدوں اور مندروں میں ایسے راہب، پنڈت یا کاہن ہوا کرتے تھے۔


ابتدائی انسان کے مسائل

مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انسان کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی، اگرچہ آپ اللہ کے نبی تھے مگر ابتدائی دور میں انسان کو زمین پر جن مسائل کاسامنا تھا اور جو مشکلات درپیش تھیں ان کا حل اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق نکالنا تھا، لہٰذا وہ اللہ کے احکامات اور نبی کی تعلیمات سے انحراف بھی کر بیٹھتا تھا خصوصاً اپنی خواہشات کا غلام ہوکر جیساکہ ہابیل اور قابیل کے واقعے سے ظاہر ہے، گویا غلط روی اور جرم کی ابتدا بھی خود انسان ہی نے کی، غیر مذہبی نظریات کے مطابق بھی انسان نے جب دنیا میں آنکھ کھولی تو اسے یہ ایک بھول بھلیاں نظر آئی، اِدھر وہ پیدا ہوا اور اُدھر الف لیلیٰ اور فسانہ عجائب کے تمام طلسم خانے اس پر ٹوٹ پڑے، وہ بہت پریشان ہوا اور حیران بھی، اس کی سمجھ میں خاک نہ آیا، پھر بھی وہ ہاتھ پاؤں مارے بغیر نہ رہا، فطرت نے اس میں تجسس اور تفکر کی خُو ڈالی تھی، چناں چہ وہ حیات و کائنات کی ٹوہ میں لگ گیا، اس نے اپنی محدود عقل کے دائرے میں رہ کر سوچنا شروع کیا، ابھی تجربے کی دانش نہ ہونے کے برابر تھی، لہٰذا جس طرف منہ اٹھا، چل پڑا۔

بقول پروفیسر گلبرٹ مرے ”ہر کہیں دور اوّل کی نسل ہر مظہر حیات اور دستور کائنات کی سوجھ بوجھ کے ضمن میں ذاتی نظریہ وضع کرتی رہی، ہوا چلتی تو آدمی سمجھتا کہ کوئی مافوق الفطرت انسان نما ہستی مصروف عمل ہے اور اس کے ہانپنے سے ہوا کے جھکڑ چل رہے ہیں، اگر بجلی گرنے سے کوئی درخت زمین پر آرہتا تو سمجھاجاتا کہ کسی غیبی قوت نے اس پر کلہاڑا چلایا ہے، بعض لوگ طبعی موت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کے نزدیک بدروح آدمی کو ہلاک کردیتی تھی، اسی طرح آدمی نے ہر صبح سورج کی روشنی کو پھیلتے اور شام کے بعد ختم ہوتے دیکھا، پھر یہ بھی دیکھا کہ بارش اچانک شروع ہوتی اور اچانک ختم ہوجاتی ہے یہ بھی اس کے اختیار سے باہر ایک معاملہ تھا، قصہ مختصر یہ کہ ایسی بے شمار چیزیں اور واقعات اسے رفتہ رفتہ حیران و پریشان کرتے رہے ہیں، کائنات اس کے لیے ناقابل فہم اور لاینحل مسئلہ بن گئی، اس کی حیرت اور بے چارگی لاعلاج تھی۔“

ماورائی قوت

تواتر کے ساتھ نہ سمجھ میں آنے والی باتوں اور مظاہر کا سامنا کرنے والے انسان کی بالآخر یہ سمجھ میں آیا کہ اس کائنات میں ایک پراسرار مخفی، غیبی قوت موجود ہے جو بے پناہ طاقت کی مالک ہے اور کائنات کے ذرے ذرے میں اس کی کارفرمائی جاری و ساری ہے، جو محیط کُل ہے اور سب پر مسلط ہے، جب کسی پہاڑی پر سے پتھر اچانک لڑھک آتا تو اس کے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا قدرتی اور ناگزیر تھا کہ پتھر نے جان بوجھ کر حرکت کی ہے ورنہ پہلے تو یونہی ساکت و جامد تھا، اسی طرح دیگر مظاہر قدرت کو اس نے اپنے طورپر معنیٰ پہنا دیے، اسے یہ محسوس ہوا کہ اس کائنات میں وہ ایک پراسرار مخفی، غیبی اور بے پناہ قوت کے سامنے بے دست و پا اور انجان بنا کھڑا ہے، اس قوت سے شناسائی اور رابطے کا کوئی ذریعہ اس کے پاس نہیں تھا، (شاید اسی لیے اللہ نے قوموں کے درمیان اپنے نبی بھیجنے کا سلسلہ دراز کیا تاکہ وہ انسان کی اپنے مالک حقیقی سے شناسائی کا ذریعہ بن سکیں، یہ الگ بات ہے کہ انسان نے انہیں جھٹلایا اور اپنی محدود و ناقص عقل پر زیادہ انحصار کیا) چناں چہ وہ اس کھوج میں لگ گیا کہ کس طرح غیبی قوت سے فائدہ اٹھائے، حیات و کائنات اور مظاہر قدرت تو پراسرار ہیں ہی، خود اس کی ذات بھی کسی اندھے پاتال سے کم نہ تھی، ویسے وہ بھی قوت محسوس کرتا تھا، اس میں بھی رس تھا، اس پر بھی رنگ روپ آتا اور پھر دھرتی کے مانند وہ بھی خزاں کی نذر ہوجاتا، اس بھری دنیا میں وہ خود بھی ایک سوالیہ علامت تھا، نہ جانے وہ کب تک تاریک راستوں پر بھٹکتا رہا اور پھر نہ جانے کب اسے اس طلسم کدے کی چابی مل گئی۔

نادیدہ قوتوں کی پرستش

یہ سب کچھ ایک شاعرانہ اسلوب میں ہوا یعنی کائنات ایک شعری صداقت بن گئی اور آدمی نے اسے اسی پیرائے میں سمجھا، یوں تو یہ دنیا زندگی کی تجربہ گاہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ ایسا میدان ہے جہاں خیال کے گھوڑے زیادہ آسانی سے دوڑائے جاتے ہیں، پھر انسان نے یہ جان لیا کہ کائنات میں ایک مخفی اور غیبی قوت موجود ہے جو نہایت طاقت ور اور کرشمہ ساز بھی ہے تو اس نے اس طاقت کے آگے سر جھکادیا اور اس کی پرستش شروع کردی، مگر یہ سب کچھ اس نے اپنے تخیل کے وسیلے سے قیاس وقیافے کی بنیاد پر کیا اور توہمات سے ناطہ جوڑ لیا، اس طرح زندگی، موت اور کائنات نیز اس کی اشیا کے اسرار و رموز سمجھنے کے علم کا نام جادو پڑ گیا، جادوگر ان اسرار و رموز کا عالم ہوتا، اسی قدر نہیں بلکہ وہ عالم باعمل ہوتا، وہ دعویٰ کرتا کہ مخفی، پراسرار، مافوق الفطرت اور غیبی قوت اس کے قبضہئ قدرت میں ہے، وہ اسی قوت کی مدد سے غیر فانی ہستیوں کے اعمال اور ان کی منشا میں دخل رکھتا، جادو اس کا آلہ کار تھا، گویا جادو وہ فن تھا جس پر عمل کرنے والا عامل پراسرار غیبی قوت تک رسائی حاصل کرلیتا تھا اور اس کی مدد سے لوگوں کے مشکل کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ داری ادا کرتا تھا۔
سر پال ہاروے کے الفاظ میں جادو وہ جھوٹا فن تھا جس کی بابت یقین کیا جاتا کہ قدرتی واقعات پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کی اصل وہ غلط فہمی ہے جو اولین دور کی نسل کو قوانین فطرت سمجھنے میں ہوئی، انسان نے علم و عرفان کے ابتدائی مدارج میں سخت خطا کھائی اور پھر اس عالم گیر عقیدے نے اور بھی غلط فہمی پھیلائی کہ ارواح کائنات میں اثر و نفوذ رکھتی ہیں اور معمولات فطرت میں دخیل ہوتی ہیں۔
ارواح آدمی کو خوف زدہ کرتی رہتیں، اچھے لوگوں کی ارواح تو خیر کچھ نہ کہتیں لیکن بقول مین کین نہ ان سے کسی کو پالا پڑتا نہ ان کی کبھی کوئی خبر ملتی اور نہ وہ دکھائی دیتیں، وہ تو ایک جگہ جاکر چپ چاپ رہنے بسنے لگتیں، جیسا کہ اسلامی نقطہ نظر بھی ہے، البتہ برے لوگوں کی ارواح بہت تنگ کرتیں، رات کے وقت چلتی پھرتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر سہم جاتے، جادوگر ان بد ارواح کو تابع کرکے ان سے تخریبی کام کرواتا۔
ایک اور مغربی مصنف جیمز ایچ لوبا لکھتا ہے ”قدیم قبائل اور مذہب کی تحقیق و تفتیش کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھوت پریت کا عقیدہ کچھ یوں بھی پختہ ہوا کہ آدمی کے ساتھ ساتھ اس کا سایہ اور عکس موجود ہوتا ہے، گویا مرنے کے بعد یہی سایہ اور عکس بھوت پریت کی شکل میں منتقل ہوجاتا اور پھر خواب میں بھی نظر آتا، خواب میں یہ زندوں کے ہم شکل ہوتے اور پھر جب زندہ لوگ خواب میں آتے تو وہ فرق مٹا دیتے جو بصورت دیگر زندوں اور مردوں میں قائم ہے۔“
بھوت ایک طرح سے روح کا غیر ترقی یافتہ جد امجد ہے، اس کے جنم لیتے ہی لوگ اس سے ڈرنے اور سہمنے لگتے ہیں، اس کی پیدائش سب سے پہلے انسان کے خیال و قیاس میں ہوتی ہے، پھر یہ اتنا توانا ہوجاتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر پوری طرح قبضہ جما لیتا ہے۔
مین کین نے ارواح، بھوت پریت، چڑیل اور جن وغیرہ کو چھوٹے خدا کہا ہے، انہیں ہم خداؤں کے خدام کہہ سکتے ہیں، یہ چھوٹے خدا مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے اور ان گروہوں کے کام اور نام بھی الگ الگ ہوتے، یونانیوں کے یہاں چھوٹے چھوٹے دیوی دیوتاؤں اور عظیم خداؤں کے غلاموں کا ایک پوا لشکر صف آرا ہوتا، قسمت کی دیویاں، علم و ہنر کی دیویاں، انتقام کی دیوی نیز رب الارباب کے خدام ”زور دیو“ اور ”طاقت دیو“ اسی قبیل سے ہیں اور یہ روایت آج بھی جاری ہے، آج بھی یہ جن، پری، بھوت پریت، چڑیل وغیرہ ہمارے معاشرے میں لکھی جانے والی کہانیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، تقریباً یہی صورت حال ہندو اور دیگر قوموں کی دیومالا کا ہے۔
زمانہء جاہلیت کے مذہبی نظریات شاید غیر معمولی قسم کی آفات کے سلسلہئ حوادث سے پیدا ہوئے، معمولی معمولی باتوں اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کی تو کسی کو پروا بھی نہ ہوتی، جب بارش پڑتی تو قریب میں کوئی پناہ گاہ نہ ملتی تو انسان جانوروں کی طرح چپ چاپ بھیگ جاتا، خوراک کی کمی پڑتی تو پتے یا ٹہنیاں چبا چبا کر کھاجاتا، جاڑا لگتا تو اُسے بھی برداشت کرلیتا، کوئی مکار دشمن اس کی شریکِ حیات کو اغوا کرکے لے جاتا تو یہ بات بھی قابلِ برداشت تھی، وہ ان باتوں سے پریشان ضرور ہوتا لیکن ان وجوہات کی بنیاد پر مر نہ جاتا، ہر چند کہ وہ ان کے تدارک کے لیے غیر معمولی جدوجہد کرتا لیکن بعض حادثات سے اس کی جان جاتی، وہ ڈوبنے سے بہت ڈرتا اور سمجھتا کہ کوئی مخفی طاقت تیرتے وقت آدمی کو سمندر کی تہہ میں کھینچ لیتی ہے، اسی طرح وہ آسمانی بجلی سے ڈرتا اور اسے قدرتی حادثات و آفات کی پشت پر مرعوب کُن اور خوف ناک قوتیں کارفرما معلوم ہوتیں۔
انسان میں فطری طور پر توہمات کا غیر معمولی رجحان موجود تھا اور اُس کا ذہن بھی اُن کی پرورش کے لیے بے حد زرخیز تھا،انہی توہمات کی وجہ سے خداؤں اور نیم خداؤں یا دیوی دیوتاؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہوا اور ان سب سے نمٹنے کے لیے جادو کی دریافت ہوئی، ابتدائی اقوام میں جادو ہی مذہب تھا، یہی ضابطہ ء حیات تھا،اسے عالم گیر قبولیت حاصل تھی،اس کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگ سکتا ہے کہ آدمی نے سب سے پہلے علم و فن کا یہی شعبہ قائم کیا، اس کی ابتدا تاریخ سے پہلے ہوئی،دنیا کے متعدد عجائب خانوں میں جو دستاویزات، مخطوطے اور دیگر اشکال محفوظ پڑے ہیں وہ ہمیں صرف چند ہزار سال پیچھے لے آتے ہیں،ان سے تاریخی اعتبار سے سحریاتی ادوار کا پتہ ملتا ہے، قرآنِ حکیم میں حضرت موسیٰ ؑ کے علاوہ دیگر انبیاء کے زمانوں میں بھی سحرو جادو کا زور نظر آتا ہے، حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں بھی جادو کا فن عروج پر تھا، شہرِ نمرود کے چھ سحری عجائبات مشہور ہیں اور ان کا تذکرہ قدیم تاریخی مواد میں موجود ہے۔

شہر بابل کے عجائبات

معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کلدانی سحریات کے زبردست ماہر تھے اور نمرود کے زمانے میں بابل کے جادوگروں نے چھ طلسمات ایسے تیار کیے تھے جو عقل و فہم سے بالاتر تھے انہوں نے تانبے کی ایک ایسی بطخ بنائی تھی جو کسی چور یا جاسوس کی خبر دیتی تھی، جب بھی کوئی چور یا جاسوس شہر کی چار دیواری میں داخل ہوتا تھا تو یہ بطخ خود بخود بولنے لگتی تھی اور لوگ سمجھ جاتے تھے کہ شہر میں کوئی بدنیت شخص داخل ہوا ہے، لوگ اس کی تلاش میں لگ جاتے، آخر کار اسے گرفتار کرلیا جاتا۔
دوسرا طلسم ایک عجیب نقارہ تھا، اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اگر کسی شخص کا مال یا اور کوئی شے گم ہوجاتی تھی تو وہ شخص نقارہ بجاتا تھا تو اُس سے آواز آتی تھی کہ تمہاری گم شدہ شے فلاں جگہ یا فلاں شخص کے پاس ہے۔
تیسرا طلسم ایک حوض تھا، جب لوگ کسی جشن کے موقعے پر اس حوض پر جمع ہوتے تو مختلف قسم کے شربت اس میں ڈال دیتے تھے اور جس وقت ان کو ضرورت ہوتی ان کا پسندیدہ مشروب انہیں مل جاتا۔
چوتھا طلسم ایک آئینہ تھا اور جب کوئی شخص غائب ہوجاتا یا گم ہوجاتا تو اس کے عزیزو اقارب آئینے کے سامنے جاکر سوال کرتے اور آئینے میں نظر آجاتا کہ وہ شخص کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔
پانچواں طلسم پانی کا ایک تالاب تھا جو لوگوں کے متنازع مسائل حل کرتا مثلاً اگر دو افراد کسی ایک چیز کے دعوے دار ہوتے تو دونوں کو اس تالاب میں اتار دیا جاتا جو حق پر ہوتا تھا، تالاب کا پانی اس کی ناف تک آتا تھا اور جو غلط ہوتا تھا وہ اس تالاب میں ڈوب جاتا تھا۔
چھٹا طلسم ایک درخت تھا جو نمرود کے محل کے دروازے کے سامنے لگایا گیا تھا، جس کا سایہ آدمیوں کی تعداد کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا تھا، غالباً کسی بڑے جلسے کے انعقاد کے سلسلے میں یہ بندوبست کیا گیا تھا، یہ تمام طلسمات نمرود کے دارالحکومت بابل میں موجود تھے لیکن بہر حال غور طلب بات یہ ہے کہ ان طلسمات کی تعمیر میں پوشیدہ غرض و غائیت مثبت اور تعمیری تھی۔

اہل بابل کا جادو

سحریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کلدانیوں کا سحر بہت ہی مشکل ہے اور اس کے حاصل کرنے میں نہایت سخت محنت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس علم کا عامل اپنے علمی کمالات سے زبردست کام لے سکتا ہے جن کو عقل و فہم بھی سمجھنے سے قاصر رہ جائے،اس زمانے میں جادو ایک عظیم سائنس کی حیثیت رکھتا تھا اور اسے مثبت یا منفی کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا۔
الہامی کتابوں اور انبیاء کی تعلیمات نے قدیم جادوئی سائنس کی حد بندی کی اور خاص طور پر شرکیہ اعمال اور شیاطین کی مدد سے انجام دیے گئے سحری اثرات کی سختی کے ساتھ ممانعت کی، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے مسلمان یا دیگر اہل کتاب بھی اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر آج بھی سحریات کے اس قدیم کھیل میں مصروف رہتے ہیں لیکن وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔
اہلِ بابل یعنی کلدانی ہاروت و ماروت کی تعلیم کے مطابق تسخیر روحانیاتِ علویہ، سفلیہ اور جسمانیہ وغیرہ کرتے تھے جب کہ اہلِ یونان تسخیرِ روحانیاتِ علویہ پر اکتفا کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ روحانیاتِ علویہ کی تسخیر کے بعد روحانیات سفلیہ کی تسخیر کی ضرورت نہیں ہے، زمانہ ء قدیم میں ہندوستان میں بھی اہلِ بابل کا طریقہء سحر رائج تھا، بعد میں یونانی اعتقادات بھی شامل ہوگئے۔(جاری ہے)

جمعہ، 6 نومبر، 2020

سحرِحرام و سحرِ حلال،جادو اور مذہب کا گٹھ جوڑ(5)


اہلِ مغرب کی نظر میں جادوکا قدیم کردار اور معاشرتی عمل دخل

 جادو کے موضوع پر اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ سحر یا جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے حیرت انگیز اور عجیب اعمال امدادِ الٰہی کے بغیر ظہور پذیر ہوتے ہیں، یہی اعمال اگر اللہ کی رضا اور امداد کے ذریعے انجام پائیں تو ہر گز جادو نہیں کہلائیں گے، چناں چہ اعمالِ قرآنی و اسمائے الٰہی کے واسطے سے جو افعالِ عجیبہ یا کرامات و کرشمات ظہور پذیر ہوتے ہیں انہیں سحر یا جادو قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ ان کا کوئی بھی مادّی سبب موجود نہ ہو، مسلم صوفیا اور علماء اسی لیے ایسے اعمال کو سحرو جادو قرار دیتے ہیں جن میں جنات و شیاطین یا ارواحِ خبیثہ کی کارفرمائی موجود ہو تو لازمی طور پر شرک اور کفر کا پہلو بھی موجود ہوگا لیکن اگر مادّی اشیاء کے ہنر مندانہ اور سائنسی استعمال کے نتیجے میں حیرت انگیز اور عجیب نتائج سامنے آئیں تو انہیں سحرو جادو یا شرک و کفر کی صف میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ حکیم اور کتبِ حدیث میں بھی ایسے ہی اعمال و افعال کو جادو قرار دیا گیا ہے جن میں جنات و شیاطین کی کارفرمائی ہوتی ہے، اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دیگر مادّی و کائناتی اسباب کے ذریعے اگر حیرت انگیز و عجیب نتائج حاصل کیے جائیں تو اُس پر شریعت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا،بالکل اسی طرح جیسے کسی مریض کی جان بچانے کے لیے معالج شرک اور کُفر سے بچ کر جو طریقے بھی اختیار کرتا ہے، وہ جائز قرار پائیں گے، اس سلسلے میں مسلم صوفیا کا مؤقف تو واضح ہے البتہ علماء کے مختلف طبقات میں کچھ اختلاف ہوسکتا ہے۔ہم صوفیا کے اقوال و افعال کی پیروی کے قائل ہیں کیوں کہ انسانی روح کے مسائل کو علماء کی بہ نسبت صوفیا نے زیادہ بہتر طور پر سمجھا ہے اور انسانی نفسیات کے پیچیدہ مسائل کی تشریح بھی صوفیا نے ہی زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں کی ہے۔
جادو کے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے کے سلسلے میں ہم ابتدا ہی سے انسان اور انسانیت کے معاملات پر زور دے رہے ہیں، آیئے اسی حوالے سے مزید بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

عناصر کے درمیان باہمی ربط

اب ایک اور نکتے کی وضاحت ضروری ہے اور اگر آپ نے اسے سمجھ لیا تو پھر سارا مسئلہ نہایت آسان ہوجائے گا، یاد رکھیے عالمِ محسوسات و اجسام میں پائے جانے والے تمام عناصرایک دوسرے سے نہایت لطیف رابطہ رکھتے ہیں، ہر عنصر اپنے ما قبل و ما بعد میں بدل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اوپر والا یا بالائی عنصر ماتحت عنصر سے لطیف تر ہوتا ہے، حتیٰ کہ دنیائے افلاک جو تمام عناصر سے اوپر ہے، ان سے زیادہ لطیف تر ہے۔
تخلیقی درجہ بندی میں بعض علماء کے نزدیک ابتدا دھاتوں سے ہوتی ہے پھر نباتات کی تخلیق کا درجہ ہے اور پھر حیوانات کا، یہ تمام مظاہر ایک عجیب ربط اور نادر تدریجی ہیّت سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں،مثلاً معدنیات کا آخری کنارہ نباتات کے اول کنارے سے ملا ہوا ہے جیسے گھاس وغیرہ اور بلا تخم اگنے والے نباتات کے آخری کنارے جیسے کھجور و انگور اور حیوانات وغیرہ کے اول کنارے سے متصل ہیں مثلاً گھونگھے اور سیپ وغیرہ کہ ان میں بجز قوتِ لمس و احساس جانداروں جیسے ترقی یافتہ افعال نہیں پائے جاتے، ان تمام عناصر و مخلوقات میں پائے جانے والے نقطہ ء اتصال کا مطلب ہے کہ ان کا آخری کنارہ اپنے مابعد کے اول کنارے میں بدل جانے کی صلاحیت بہر حال رکھتا ہے،انسان اس تمام تخلیقی چکر کا نقطہء کمال ہے، مگر انسان تو صاحبِ فکروادراک اور غورو فکر ہے،انسان میں حس وادراک دونوں جمع ہیں جب کہ اونچے درجے کے حیوانات بھی اس صلاحیت سے محروم ہیں،انسانی ذات میں موجود ”احساس نفس“ اور اس نفس کے ذریعے پائے جانے والے یا رونما ہونے والے مظاہر اتنے نادر اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی ایسی دنیا سے لگتا ہے جو انسان کے بھی اوپر ہے۔
انسان کے بھی اوپر ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ کائنات انسان کے حواسِ خمسہ کے حد وادراک سے باہر ہے۔

سحرِ حرام و حلال

پیرا سائیکولوجی کے نقطہئ نظر سے یا دوسرے معنوں میں صوفیا کی تشریحات کے مطابق تمام کائنات نور کی لہروں یا روشنی کے اخلاط سے وجود میں آئی ہے، حتیٰ کہ مادّہ بھی روشنی ہی کی کثیف شکل کا نام ہے، اب تو جدید سائنس بھی اس حد تک رسائی پاچکی ہے کہ مادّے کو نور میں بدلتا ہوا دیکھ سکے۔”نیوٹرون“ کیا ہیں؟ اسی حقیقت کے آئینہ دار ذرات ہیں،مادّے کی وہ آخری شکل ہیں یا وہ آخری کنارہ ہے جہاں مادّہ روشنی میں تحلیل ہوجاتا ہے،ایسے لوگ جو مسلسل روحانی مشقوں اور ارتکازی طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان میں یہ صلاحیت بے دار ہوجاتی ہے کہ وہ روشنی کی لہروں میں تصرف کرسکیں اور ان میں ردوبدل کے ذریعے تعمیرو تخریب کا عمل انجام دے سکیں،اسی کلّیے کے تحت ایک اوریجنل جادو گر بھی ارتکازی قوتوں کے ذریعے تخریب کا کام انجام دے سکتا ہے، جب کہ ایک اللہ کا ولی بھی اسی کلیے کے تحت تعمیر کا کام خدا کی رضا کے مطابق انجام دیتا ہے، یہی نکتہ سحرِ حلال اور سحرِ حرام کے درمیان فرق کرتا ہے۔
یہاں ایک بزرگ کا واقعہ یاد آرہا ہے جس کے راوی ہمارے عزیزازجان مرحوم دوست خان آصف ہیں جن کا تعلق ہندوستان کی ریاست رام پور سے تھا، بقول خان صاحب ایک بار شدید قحط پڑا اور بارش نہیں ہوئی تو ریاست کے کچھ معزز افراد ایک بزرگ کے پاس گئے جو عام لوگوں سے الگ تھلگ رہا کرتے تھے، ان کی کیفیات کسی حد تک مجذوبانہ تھیں،معززین نے درخواست کی کہ حضرت! بارش کے لیے دعا فرمایئے تاکہ قحط سالی سے نجات ملے۔
بزرگ نے فرمایا ”آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ میرا تو اللہ میاں سے جھگڑا چل رہا ہے، میں جو دعا بھی کرتا ہوں وہ اُس کے الٹ کام کرتا ہے،اگر میں نے بارش کے لیے دعا کی تو قحط اور شدید ہوجائے گا لہٰذا آپ لوگ مجھے معاف رکھیں اور کسی دوسرے سے دعا کرائیں“
لوگ بڑے حیران ہوئے اور بزرگ کی بات پر یقین نہیں کیا،زیادہ شدت سے اصرار کرنے لگے، آخر بزرگ نے کہا ”تم لوگ شاید مجھے جھوٹا سمجھ رہے ہو، اچھا! اب خود ہی دیکھ لو“یہ کہہ کر کاندھے سے چادر اتاری اور دھونے بیٹھ گئے، چادر دھو کر سکھانے کے لیے پھیلا دی اور بولے ”اب دیکھنا تماشا، وہ اسے سوکھنے نہیں دے گا“
تھوڑی ہی دیر میں بادل امنڈنے لگے اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی، لوگ مسکرائے اور بزرگ کا شکریہ ادا کرکے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ واقعہ کسی سحری و جادوئی کمال سے کم نہیں ہے کہ جہاں دور دور تک موسم خشک تھا، لوگ بارش کو ترس رہے تھے، کھیتیاں سوکھ رہی تھیں، قحط کا عالم تھا، خلق خدا پریشان تھی کہ ایک صاحبِ عرفان نے تعمیری پہلو سے ایسی کرامت دکھائی جو یقیناً رضائے الٰہی کے عین مطابق تھی، فلسفہء مذہب ایسے محیّر العقول واقعات کو کرامت کا نام دیتا ہے،بالکل اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقع میں مصر کے عظیم جادوگروں کی کارگزاری اپنے علم و فن کا شاہ کار تھی مگر انہیں تائیدو امدادِ الٰہی حاصل نہیں تھی ان کے مقابلے میں حضرت موسیٰ ؑ تائیدو رضائے الٰہی کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔
یاد رکھیے دنیا میں پیش آنے والے حیرت انگیز اور محیّر العقول افعال و کمالات قریب قریب ایک ہی کلّیے کے تحت انجام پاتے ہیں،البتہ ان کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں، نبوت اور ولایت کے ذریعے ظاہر ہونے والے حیرت انگیز کمالات منجانب اللہ ہوتے ہیں اور معجزہ یا کرامت کہلاتے ہیں کیوں کہ انبیاء یا اولیا انسانی و اخلاقی اصولوں کی اعلیٰ ترین قدروں پر فائض ہوتے ہیں جب کہ جادو گر یا کاہن بالکل ان کے برعکس یا ان کی ضد ہوتے ہیں۔
جادو گروں یا کاہنوں کو جب کوئی ایسا محیّر العقول کام کرنا ہو تو وہ قوت فکریہ کی مدد سے قوت عقلیہ کو حرکت میں لاکر اپنے ناسوتی حواس سے علیحدہ ہوجاتے ہیں مگر منفی و تخریبی سوچ کی وجہ سے انہیں یہ صلاحیت کلّی طور پر (انبیاء اور اولیا کی طرح) حاصل نہیں ہوتی کیوں کہ سوچ کی محدودیت بھی ایک نقص ہے سو وہ اس نقص کی وجہ سے ناسوتی حواس سے پوری طرح چھٹکارا پانے میں جب دشواری محسوس کرتے ہیں تو دیگر غیر مرئی چیزوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور یہ غیر مرئی قوتیں یقیناً شیطان کی ذرّیات ہوتی ہیں، چناں چہ انہیں شیطان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے،اس کی اطاعت و فرماں برداری کا اقرار کرنا پڑتا ہے،گویا وہ اپنی روح کا سودا شیطان اور اس کی ذرّیات سے کرلیتے ہیں اور شرک و کفر کی دلدل میں گر جاتے ہیں،ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشادِ باری تعالی ہے کہ جادوگر کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔
پیرا سائیکولوجی یا روحانی نظریات کے مشرقی طرز فکر کی رو سے حواس کی گرفت کو توڑنے کے لیے مادّی یا ناسوتی مظاہر سے کام لینا نقص کی علامت ہے مگر مغرب میں یا یوں کہہ لیں کہ غیر مسلم دنیا میں اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا،چناں چہ روحی یا روحانی تجربات کی ریاضتوں میں تعمیر کے ساتھ تخریب کا پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے۔
عزیزان من! اب تک کی گفتگو میں اس بات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے کہ جادو سے متعلق مسائل و معاملات کو مذہب اور خصوصاً اسلامی نظریات کی روشنی میں دیکھا جائے مگر ضروری ہوگا کہ جادو کے علم و فن سے متعلق قدیم تاریخ پر بھی نظر ڈال لی جائے۔

جادو مغرب کی نظر میں

اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ مغرب کے محققین اور مصنفین جادو کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، مغرب میں جادو کی حقیقت اور اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جادو ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے واقعات کے بہاؤ کو متاثر کیا جاتا ہے اور محیر العقول طبیعی مظاہر کو جنم دیا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے جو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ان میں مافوق الفطرت ہستیوں کو یا فطرت کی مخفی قوتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، چنانچہ جادو کا بنیادی مقصد فطری مظاہر کے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی ٹھہرا۔
سی جے ایس تھامسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
”نوح انسان پر جادو کا گہرا اثر ابتدا سے ہی رہا ہے، بابل اور مصر میں تو اسے مذہب کا حصہ بنا لیا گیا تھا، توہم پرستی کی طرح جادو پر یقین کی جڑیں بھی خوف میں پوشیدہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ”نامعلوم“ کے خوف کا شکار رہا ہے، قدیم جادوگر مذہبی پیشوائی کا دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ دکھائی نہ دینے والی طاقتوں مثلاً دیوی، دیوتاؤں پر کنٹرول رکھتے ہیں، اس طرح وہ لوگوں کے خوف سے فائدہ اٹھاتے تھے، ابتدا میں جہالت یا کم علمی، نامعلوم مستقبل کے خوف سے پیدا ہوئی لیکن بعد میں لوگ رفتہ رفتہ ان رازوں کو سمجھ گئے اور انہوں نے پراسرار اشیا پر یقین کو اپنے مفاد میں استعمال کیا، جادوگروں کو فطرت کے معمول کے کا موں میں دخل اندازی کرنے کے لیے پہلے کسی دیوی دیوتا کی پوجا کرکے اور اسے مختلف قسم کی قربانیاں پیش کرکے خوش کرنے کا ڈرامہ کرنا پڑتا تھا تاکہ ان کے بقول وہ اسے اچھی یا بری مافوق الفطرت قوتیں عطا کردے۔“

جادو اور قدیم مذاہب

مغرب کے بعض مستند محققین کا کہنا ہے کہ جادو مذہب کی اولین صورت ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ جادو ہر قوم میں، ہر عہد میں موجود رہا ہے، نیز ارواح پر عقیدے سے بھی زیادہ قدیم جادو کا وجود ہے، ایک مغربی مصنف وائیڈ مین کے بقول جادو مکمل طورپر توہمات سے تشکیل پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ تو قدیم مذہبی عقائد کا ایک بنیادی حصہ ہوتا تھا، اس کا کہنا ہے کہ مذہب کافی حد تک جادو پر براہِ راست استوار تھا اور ہمیشہ اس سے قریبی ربط رکھتا تھا، اس کے برعکس جادو پر تحقیق کرنے والے مشہور محقق جیمس فریزر کا کہنا ہے کہ انسانی فکر کے ارتقا میں پست دانش ورانہ سطح کی عکاسی کرتے ہوئے جادو ہر مقام پر مذہب سے پہلے موجود تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے اپنے ماحول کے جذباتی ردِعمل، اشیا کو جاندار سمجھنے اور انہیں خفیہ طاقتوں کا حامل قرار دینے سے جادو پیدا ہوا تھا۔

جادو کی رسومات

قدیم زمانے میں جادو کی کچھ خاص رسومات ہوا کرتی تھیں جنہیں ایک محیر العقول کام کرنے والی طاقت کو بروئے کار لانے والے روایتی عمل کا حصہ تصور کیا جاتا تھا، تاہم ایسی جادوئی رسومات جو پہلے سے جاری اور منظم مسلک یا عقیدے کا حصہ نہیں ہوتی تھیں، معاشرہ انہیں غیر قانونی تصور کرتا تھا۔
ونڈٹ لکھتا ہے کہ تمام رسومات کے پیچھے ایک ہی اساطیری تصور موجود ہے یعنی روح کا تصور، اسی تصور سے مسالک کی تین صورتیں پیدا ہوئی ہیں، جادو، بت پرستی اور شیطان پرستی، چناں چہ جادو کی ابتدائی صورت میں یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ ایک روح دوسری روح پر بلاواسطہ عمل کرتی ہے، جادو کی ثانوی صورت میں یہ بھی تسلیم شدہ امر تھا کہ ایک روح دور فاصلے سے کسی علامت کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے، جوں جوں وقت گزرتا گیا زیادہ ذہین لوگ سمجھتے گئے کہ جادوئی رسومات، تقریبات اور ٹونے ٹوٹکے حقیقتاً ویسے اثرات کو جنم نہیں دیتے جیساکہ فرض کیا جاتا ہے اور ایک طرح رفتہ رفتہ عقیدے میں تقسیم رونما ہوئی، جاہل افراد جادوئی طاقتوں پر عقیدے اور توہمات سے چمٹے رہے جبکہ زیادہ ذہین افراد نے تمام کائنات میں ایک عظیم ترین طاقت کے ہاتھ کو کارفرما دیکھا اور انہوں نے خدا کو ماننا شروع کردیا (جاری ہے)