پیر، 29 اکتوبر، 2018

کراچی کے ایک مثبت سمت میں سفر کا آغاز

نومبر کی فلکیاتی صورت حال ایک مثبت اثر تعمیری مہینہ
کراچی کو پاکستان کا معاشی ہب کہا جاتا ہے، ماضی میں اس شہر کو عروس البلاد بھی کہتے تھے، پھر وہ وقت بھی دیکھا جب انسانی زندگی بے وقت ہوکر رہ گئی اور روزانہ کتنی ہی لاشیں اٹھائی جاتی رہیں، بے شک کراچی میں امن و امان کے قیام میں پاکستان رینجرز نے غیر معمولی کردار ادا کیا لیکن اب بھی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے، اسٹریٹ کرائمز آج بھی روز کا معمول ہیں، گزشتہ دس سال سے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی حکمران ہے، ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ سندھ اسمبلی اور حکومت کی دس سال میں کارکردگی کیا رہی لیکن کرپشن کے حوالے سے سندھ کو ایک نمایاں حیثیت دی جارہی ہے،سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی منی لانڈرنگ کے ایک کیس میں ہر روز حیران کن انکشافات کرتی ہے،بعض اہم شخصیات کو گرفتار کرکے تفتیش کی جارہی ہے، زمینوں پر قبضے اور ناجائز تجاوزات کے مسائل اپنی جگہ ہیں، پینے کے پانی کا مسئلہ خوف ناک صورت اختیار کرچکا ہے،کراچی کی نمائندہ جماعت جو موجودہ الیکشن 2018 ء سے پہلے ایم کیو ایم تھی، اب تحریک انصاف بن چکی ہے، سندھ میں گورنر بھی تحریک انصاف سے لیا گیا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم تو اب ایک قصہ ء پارینہ ہوکر رہ گئی ہے۔
ہم طویل عرصے سے کراچی کے زائچے کے حوالے سے وقتاً فوقتاً گفتگو کرتے رہے ہیں، اسی طرح ایم کیو ایم کے حوالے سے بھی کئی بار اظہار خیال کیا ہے اور جن اندیشوں کا اکثر اظہار کرتے رہے ہیں، بالآخر وہ سامنے آکے رہے،فروری 2017 ء کے بعد ایسا وقت تھا جس میں ایم کیو ایم کی پوزیشن کو مزید بہتر کیا جاسکتا تھا لیکن ہر پارٹی کے ساتھ بہر حال انفرادی سوچ کے حامل افراد بھی ہوتے ہیں اور ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور ایسی ہی غلطیاں بعض سنبھلنے کے مواقع ضائع کردیتی ہیں۔
گزشتہ سال ہی نومبر میں جناب فاروق ستار صاحب کا زائچہ شائع کیا تھا اور بہت سے خدشات کا اظہار کیا تھا، یہ بھی عرض کیا تھا کہ فاروق صاحب کو مصلحت و مصالحت کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر وہ اس پوزیشن پر پہنچ سکتے ہیں، جب اپنی سیٹ بھی نہ بچاسکیں، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔
کراچی کا طالع پیدائش برج حوت ہے، یہ بڑا ہی بوالعجب برج ہے،اس برج کے تحت پیدا ہونے والے لوگ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزارتے،ان کی زندگی میں ہمیشہ اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، یہی کچھ یکم جولائی 1970 ء کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں، کراچی میں رہنے والے پرانے لوگ جانتے ہیں کہ کراچی 70 ء سے پہلے ایسا نہیں تھا کیوں کہ یہ وفاق کے زیر انتظام ایک شہر تھا، یہاں شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیا کرتے تھے،تہذیب و تمدن کا مرکز تھا، عروس البلاد کہلاتا تھا، ہر قسم کی علمی ، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں اس شہر کا طرۂ امتیاز تھیں، تعلیمی معیار کراچی کا پنجاب اور دیگر صوبوں سے بہتر تھا، 25 مارچ 1969 ء کو پاکستان میں جنرل یحیٰ خان نے مارشل لا لگایا اور ون یونٹ توڑ دیا، کراچی کو سندھ میں شامل کرکے سندھ کا دارالحکومت بنادیا گیا، کسی تاریخ کے مطابق کراچی کا زائچہ وجود میں آیا جس کے اثرات 70 ء کے بعد سے ہمارے مشاہدے میں آرہے ہیں اور ہمارے پڑھنے والے بھی دیکھ رہے ہیں، اس حوالے سے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
زائچہ ء کراچی کے مطابق مشتری کا دور اکبر جاری ہے،مشتری زائچے کے آٹھویں گھر میں مصیبت زدہ ہے،کراچی کے لوگوں کے لیے اور حکومت کے لیے ہمارا روحانی مشورہ ہے کہ کراچی میں یلو کلر کا استعمال بڑھائیں، عمارتوں کے رنگ اور دیگر معاملات میں بھی اس رنگ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں، اس کے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے،دوسرے نمبر پر گرین اور سُرخ کلر زیادہ استعمال کریں، بلیک، آف وہائٹ اور اورنج کلر سے پرہیز کیا جائے،کراچی کی گرینری کب اور کیسے ختم کی گئی، یہ بحث بھی اب فضول ہے، کراچی میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، اس سلسلے میں بعض لوگ کوششیں بھی کر رہے ہیں مگر عوامی حمایت و دلچسپی کے بغیر لگائے گئے درخت عموماً ضائع ہوجاتے ہیں، عام لوگوں کو اس پر توجہ دینا چاہیے۔
5 جون 2017 ء سے مشتری کے دور اکبر میں راہو کا دور اصغر جاری ہے،راہو زائچے میں نہایت خراب پوزیشن رکھتا ہے،یہ سیاست کا ستارہ ہے لیکن دھوکا اور فریب اس سے منسوب ہے،اسی دور میں کراچی کی سیاست نے ایک ایسی کروٹ لی جس کے بارے میں پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، موجودہ الیکشن بھی راہو کے اسی دور میں ہوئے ہیں، یہ دور 31 اکتوبر 2019 ء تک جاری رہے گا۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے سیارہ مشتری جو زائچے کا نہایت اہم سعد اثرات کا حامل سیارہ ہے وہ اپنی پیدائشی پوزیشن پر یعنی آٹھویں گھر میں ٹرانزٹ کر رہا تھا لیکن اسی اکتوبر میں اب نویں گھر میں داخل ہوچکا ہے،یہ کراچی والوں کے لیے خوش خبری ہے،مشتری آئندہ تین سال تک زائچے میں اچھی پوزیشن میں رہے گا لہٰذا اپنے مثبت اثر سے حالات میں بہتری لائے گا، فی الوقت زائچے کی پوزیشن خاصی خراب ہے،گزشتہ دو ماہ سے زائچے کے مختلف گھروں پر جو دباؤ راہو کیتو ڈال رہے تھے ، اس کے نتائج اب آنا شروع ہوچکے ہیں، ان میں مزید تیزی آئے گی،جن لوگوں نے غلط کام کیے ہیں وہ بہر حال اپنا بویا ہوا کاٹیں گے،موجودہ حکومت اور سندھ اسمبلی کو بھی مثبت انداز اختیار کرنا ہوگا ورنہ انجام بخیر نہ ہوگا، مشتری نویں گھر میں رہتے ہوئے قانونی طریقے سے کراچی اور سندھ کو لوٹنے والوں پر گرفت کرنے میں معاون ثابت ہوگا، سیارہ زحل زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم اور فعلی منحوس سیارہ ہے،گزشتہ سال اکتوبر کے بعد سے دسویں گھر میں حرکت کر رہا ہے،اب حکومت میں صاف ستھرے کردار کے حامل افراد ہی رہ سکیں گے،یہی زحل کی موجودہ پوزیشن کا ثمرہ ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)
تازہ ہوا کی چاپ سے تیرہ بنوں میں لو اٹھی
روحِ تغیرِ جہاں آگ سے فال لے گئی
نومبر کے ستارے
سیارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے، 22 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، آسمانی قونصل کا وزیراطلاعات سیارہ عطارد برج قوس میں ہے،17 نومبر کو اسے رجعت ہوگی،یکم دسمبر کو واپس برج عقرب میں آجائے گا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج عقرب میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے،16 نومبر کو مستقیم ہوکر اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، سیارہ مشتری برج عقرب میں ہے اور 8 نومبر کو اپنے ذاتی برج قوس میں داخل ہوگا، سیارہ زحل برج جدی میں اور یورینس برج ثور میں حرکت کر رہا ہے، 6 نومبر کو بحالت رجعت یورینس برج حمل میں آجائے گا اور پورا مہینہ یہیں رہے گا، سیارہ نیپچون برج حوت میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے، 25 نومبر کو مستقیم ہوگا، پلوٹو برج جدی میں اور راس و ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں حرکت کر رہے ہیں، اس ماہ راس 6 نومبر کو برج سرطان میں داخل ہوگا اور ذنب اسی تاریخ کو برج جدی میں، یہ رفتار سیارگان یونانی علم نجوم کے مطابق ہیں۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
سیارگان کی اکثریت کا اجتماع میزان ، عقرب اور قوس میں ہے لہٰذا نومبر میں باہمی قرانات زیادہ ہیں اور دیگر نظرات کم ہیں، اس ماہ سیارگان کے درمیان چار قرانات، تثلیث کے دو زاویے،تربیع کی ایک نظر قائم ہوگی جب کہ تسدیس کے تین زاویے بنیں گے،اس اعتبار سے نومبر کا مہینہ تعمیری رجحانات رکھتا ہے، نئے خیال ، نئے آئیڈیے، نئے منصوبے اور مستقبل کی منصوبہ بندی اس ماہ نمایاں ہوسکتی ہے،آئیے ترتیب وار اس ماہ قائم ہونے والے زاویوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
6 نومبر: شمس اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا زاویہ تخلیقی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے،حکمران اہم اقدام اور فیصلے کرتے ہیں، عام افراد کو اس دوران میں گورنمنٹ کے ذریعے فوائد حاصل ہوتے ہیں، تخلیقی اور فنکارانہ نوعیت کی سرگرمیاں عمدہ نتائج دیتی ہیں۔
9 نومبر: زہرہ اور مریخ کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ عورت اور مرد کے درمیان ہم آہنگی اور توازن کا باعث ہوتا ہے،باہمی طور پر کشش محسوس ہوتی ہے، دلوں میں نئے پھول کھلتے ہیں، اس وقت میں نئے تعلقات ، منگنی یا شادی باہمی محبت اور یگانگت کے لیے کوشش کرنا چاہیے، ماہرین جفر اس وقت کو محبت و تسخیر کے اعمال کے لیے زود اثر سمجھتے ہیں۔
11 نومبر: شمس و پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ عام لوگوں کو متاثر نہیں کرتا، البتہ ملکوں اور قوموں کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
15 نومبر: مریخ اور یورینس کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ نئی اختراعات اور ایجادات کے لیے مددگار ہے،خاص طور پر ٹیکنیکل سائڈ پر کارکردگی بہتر ہوتی ہے،مشینری اور الیکٹرونکس سے متعلق کاروبار سے فائدہ ہوتا ہے،نت نئی پروڈکٹس سامنے آتی ہیں۔
20 نومبر: مریخ اور مشتری کے درمیان تربیع کی نظر نحس اثر رکھتی ہے،مالی امور میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، وعدے پورے کرنا مشکل ہوجاتا ہے،اخراجات بڑھ جاتے ہیں، قرض کے معاملات میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس وقت نئی سرمایہ کاری سے گریز کرنا چاہیے،قانونی معاملات میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے،عدالتی فیصلہ خلاف آسکتا ہے۔
26 نومبر: شمس اور مشتری کا قران ایک ناموافق زاویہ ہے،سیارہ مشتری جب شمس کے قریب ہوتا ہے تو غروب ہوجاتا ہے،اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے،یہ وقت بھی مالی معاملات اور قانونی امور میں محتاط رہنے کا ہے،کوئی نئی انویسٹمنٹ نہ کریں، قسمت پر زیادہ بھروسا نہ کریں، اپنی کوششوں اور صلاحیتوں پر انحصار کریں،یہ وقت بینکنگ سیکٹر میں مندی کا رجحان لاتا ہے،یہی صورت حال اسٹاک ایکسچینج کی ہوتی ہے۔
27 نومبر: شمس اور عطارد کا قران نحس اثر رکھتا ہے،سفر میں رکاوٹ یا کوئی پریشانی آسکتی ہے،لوگوں سے رابطے میں دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے،تحریری اور تقریری کاموں میں غلطیوں کا امکان رہتا ہے،اہم دستاویزات پر دستخط کرنے سے پہلے اچھی طرح غوروفکر ضرور کرلیں،تعلیمی سرگرمیاں بھی اس عرصے میں متاثر ہوتی ہیں، یہ زاویہ پانچ روز قبل اور پانچ روز بعد تک اپنے اثرات دیتا ہے۔
28 نومبر: مریخ اور زحل کے درمیان تسدیس کی نظر سعد ہے،تعمیری نوعیت کی سرگرمیاں سامنے آتی ہیں، کاموں کو آگے بڑھانا ممکن ہوتا ہے،زمین اور مشینری سے متعلق کاموں سے فائدہ ہوتا ہے،مزدور پیشہ افراد کی آمدنی میں اضافے کے لیے اچھا وقت ہے۔
اسی تاریخ کو عطارد اور مشتری کے درمیان قران کا زاویہ ہوگا، اگرچہ یہ ایک سعد نظر ہے لیکن دونوں سیارگان کی ذاتی پوزیشن بہتر نہیں ہے پھر بھی تحریروتقریر اور علمی نوعیت کے کاموں میں مدد ملے گی، قانونی مسائل جو بہت پیچیدہ ہوں انھیں حل کرنے میں آسانی ہوگی، ضروری معلومات حاصل ہوسکیں گے۔
قمر در عقرب
قمر اپنے درجہ ء ہبوط پر اس ماہ پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 6 نومبر کو 09:33pm سے 11:19 pm تک رہے گا، یہ انتہائی نحوست کا وقت ہے،جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 04:33 pm سے 06:19 pm تک درجہ ء ہبوط پر ہوگا۔
عام طور پر قمر در عقرب کے وقت میں بندش اور بری عادتوں سے نجات کے لیے عملیات دیے جاتے ہیں، اس بار ایک موذی اور پریشان کن بیماری مرگی سے نجات کے لیے ایک عمل دیا جارہا ہے،وقت سے پہلے تانبے کی ایک چھوٹی تختی اچھی طرح صاف اور پاک کرکے اپنے پاس رکھیں اور مقررہ وقت پر مندرجہ ذیل حروف نورانی اور آیت اس پر لکھ لیں، اس کام کے لیے چھوٹی انگریور مشین استعمال کی جاسکتی ہے۔
اآم اآمر اآرٰ طہٰ طٓس طٓسم کٓھٰیٰعٓصٓ
حمعٓسقٓ یٰسٓ والقرآن الحکیم
نٓ والْقلمِ وَما یَسْطُروْنَ
جب یہ تختی تیار ہوجائے تو عرق گلاب خالص اور شہد منگوالیں، ایک کپ عرق گلاب میں ایک چمچہ شہد ملاکر یہ تختی اس میں ڈال دیا کریں اور چند منٹ کے بعد عرق گلاب مریض کو پلادیں، دن میں تین مرتبہ یہ عمل کریں، دورے کی شدت کو کم کرنے کے لیے مندرجہ بالا حروف مقطعات اور آیت تین بار پڑھ کر دم کیا کریں۔
عرق النساء 
عرق النساء جسے لنگڑی کا درد بھی کہتے ہیں اور میڈیکل کی زبان میں شیاٹیکا کہلاتا ہے،عام طور سے یہ درد کولہے کی ہڈی سے شروع ہوکر نیچے گھٹنے تک یا پاؤں تک جاتا ہے،یہ درد دائیں سائیڈ بھی ہوسکتا ہے اور بائیں سائیڈ بھی، اس سے نجات کے لیے بندش کا ایک عمل دیا جارہا ہے۔
عین قمر در عقرب کے وقت جو اوپر دیا گیا ہے، سیسے (سکّہ) کی چھوٹی سی پلیٹ پر جو نرم ہوتی ہے، مندرجہ ذیل الفاظ لکھ لیں اور مریض کی اس ٹانگ میں جو مرض سے متاثر ہے، گھٹنے سے اوپر باندھیں، اگر سیسے کی تختی نہ ملے تو کسی صاف کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھ لیں، نقش کو تہ کرکے موم جامہ کرلیں یا پلاسٹک کوٹڈ کرالیں اور پھر کسی کپڑے میں لپیٹ کر سلائی کرلیں تاکہ باندھنے میں آسانی ہو۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لادیا یا غفور یا غفور بستم درد شدید فلاں بن فلاں ابداً بحق یا قابض یا جبارُ العجل العجل العجل الساعۃ الساعۃ الساعۃ یا حراکیلُ۔
شرف قمر
قمر اس ماہ اپنے درجہ ء شرف پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 21 نومبر کو 08:18 am سے 10:05 am تک رہے گا، جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق اس وقت کا آغاز 03:18 am سے ہوگا اور اختتام 05:05 am پر ہوگا، دیگر ممالک کے لوگ جی ایم ٹی ٹائم سے اپنے ملک کے فرق کو نفی یا جمع کرکے اصل وقت معلوم کرسکتے ہیں۔
قمر جب شرف یافتہ ہوتا ہے تو سعد اثر دیتا ہے،اس وقت سے متعلق مشہور طریقے ہم اکثر دیتے رہتے ہیں،اس بار جو طریقہ دیا جارہا ہے وہ تقریباً ہر مشکل کو آسان کرنے کے لیے مجرب ہے،خاص طور سے جب کسی سے کوئی اہم کام درپیش ہو اور وہ شخص نہایت مغرور یا آپ کا مخالف ہو ، یہ ڈر ہو کہ وہ کام کو بگاڑ دے گا تو اس عمل کو شرائط کے مطابق انجام دیں، اسی طرح یہ عمل جائز حدود میں پسند کی شادی کے لیے بھی مجرب ہے،خیال رہے کہ جائز حدود سے مراد یہ ہے کہ آپ اس رشتے کے اہل ہیں، لڑکی یا لڑکا راضی نہیں ہے یا دونوں راضی ہیں اور کوئی تیسرا درمیان میں خرابی پیدا کر رہا ہے تو اس عمل کو ضرور کریں، ان شاء اللہ کامیابی حاصل ہوگی۔
شرف قمر کا جو وقت دیا گیا ہے ، اس سے ایک گھنٹہ پہلے ہی عمل شروع کرسکتے ہیں اور جب تک عمل ختم نہ ہوجائے، جاری رکھیں،غسل کرنے کے بعد سفید لباس زیب تن کریں اور قبلہ رُخ بیٹھ جائیں، کوئی اچھی خوشبواستعمال کریں، گیارہ بار درود شریف پڑھیں اور پھر مندرجہ ذیل اسم 1200 مرتبہ پڑھیں، آخر میں پھر گیارہ بار درود شریف پڑھیں اور اپنے جائز مقصد کے لیے دعا کریں،سفید رنگ کی مٹھائی پاس رکھیں ، اس پر فاتحہ دیں اور بعد میں خود بھی کھائیں اور دیگر لوگوں میں تقسیم کریں۔
یا رحمٰنُ کُلِّ شَیُ وَ وَارِثَہُ وَرَاحمَہُ یَا رحمٰنُ
اس کام کے بعد روزانہ ہر نماز کے بعد یہ اسما 111 مرتبہ پڑھنا اپنا معمول بنالیں، اس وقت تک جب تک مقصد حاصل نہ ہوجائے۔

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

حالات کی سختیاں اور پراسرار ہاتھ

اپنے حالات و مسائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ بہت کم لوگ کرتے ہیں
ایک بہت ہی دکھی بہن کا خط ملاحظہ کیجیے، ہمیں یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہنوں کی کوئی کمی نہیں جو حالات کی چکی میں مستقل پس رہی ہیں لیکن درست رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے حالات کے بھنور سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔
کراچی سے آر، پی لکھتی ہیں ’’تقریباً تیرہ سال قبل میری شادی ہوئی، یہ ارینج میرج تھی، شادی ہوتے ہی کاروبار ٹھپ ہوگیا، شوہر کی دکان میں کام نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگئی، دوسری طرف سسرال والوں نے مسائل اس قدر پیدا کردیے جس کی کوئی حد نہیں، اوپر سے یہ کہنے لگے کہ جب سے یہ منحوس آئی ہے، ہمارا بیٹا تباہ ہوگیا ہے، میرے شوہر میرے ساتھ اچھے ہیں مگر نہ جم کر کماتے ہیں اور نہ کوئی بات مانتے ہیں اور نہ ہی کسی بات کو راز رکھتے ہیں، دوسرے کی بات جلد مان لیتے ہیں، یہ سلسلہ ہنوز چل رہا ہے، اتنا کام مل جاتا ہے کہ روٹی پانی چل جائے مگر تنگ دستی کے ساتھ، مجھے اللہ نے صبروشکر سے نوازا ہے لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی مگر بچوں کا چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ترسنا نہیں دیکھا جاتا، آپ کے کالم پڑھنے سے اتنا شعور ملا ہے کہ اس کی روشنی میں اپنے حالات پر غور کیا تو کافی باتیں معلوم ہوئیں ہیں اور دوسرے لوگوں سے بھی پتا چلا ہے کہ جادو اور بندش وغیرہ کی کیا اہمیت ہے، میں جب شادی کے بعد اپنے سسرال آئی تو تقریباً ایک مہینے کے بعد کمرے کی سیٹنگ تبدیل کی تو میرے بیڈ کے نیچے سے چھوٹی ثابت مرچیں نکلیں، تعداد یاد نہیں، اس کے بعد حالات اتنے بگڑے کہ بس اللہ کے کرم سے گھر بچ گیا مگر بیچ کے لوگوں نے تفرقہ اس قدر ڈال دیا کہ اس کے اثرات اب تک ہیں، سب سے بڑا روزگار کا مستقل نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے، کام ایک ہفتہ مل جاتا ہے پھر کئی ہفتے تک نہیں ملتا، کسی نے بتایا تھا کہ کسی عورت نے روزگار باندھ دیا ہے، شوہر کے خاندان میں دو تین گھر ایسے ہیں جہاں یہ کام ہوتے ہیں ، میرے شوہر کی ان سے بنتی بھی نہیں ہے۔
رمضان سے ایک ہفتے قبل کی بات ہے کہ کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں اور کپڑے تہ کر رہی تھی، وقت تقریباً عصر سے کچھ پہلے کا تھا تو یوں لگا جیسے کوئی کمرے کے ساتھ والی گیلری میں کودا ہے، میں نے حیرت سے پیچھے دیکھا کیوں کہ ہمارا فلیٹ پانچویں منزل پر ہے پھر کوئی چلتا ہوا آیا اور میرے پیچھے سے سیدھے ہاتھ کے اوپر سے، سینے سے ہوتے ہوئے الٹے ہاتھ کے کاندھے کو دبوچ لیا، واضح طور پر بھاری مردانہ ہاتھ محسوس ہوا، پہلے تو میرا دل بیٹھ گیا پھر میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کردی تو وہ ہاتھ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا اور پھر چلتے ہوئے واپس چلا گیا، یہ میں باہوش و حواس لکھ رہی ہوں، نہ میں وہمی ہوں نہ تو ہم پرست مگر بچپن سے اس طرح کے حالات پیش آتے رہے ہیں کہ ان چیزوں کو ماننے پر مجبور ہوگئی ہوں، میری والدہ پر بھی گندہ علم کرایا گیا تھا اور وہ پاگل ہوگئی تھیں، اسی میں ان کا انتقال ہوا۔
محترم بھائی صاحب! شادی کے بعد تیرہ سالوں میں ہم نے آٹھ مکان کرائے کے بدلے اور اب نواں گھر ہمارا اپنا ہے، جو شوہر کے بڑے بھائی نے دلایا ہے، اب سارا زیور بیچ کر سوزوکی خریدی مگر وہ آئے دن خراب رہتی ہے، آج کل سوزوکی بیچ کر کوئی کھانے پینے کا کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
آپ کا کالم پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنا سگا بھائی مخاطب ہے، کالم میں یہ بات پڑھی تھی کہ اگر نحس اثرات سیارے کے ہوں تو ساڑھ ستی ہوتی ہے جو ساڑھے سات سال تک رہتی ہے مگر میری شادی کو تو تیرہ سال ہوگئے ہیں، اب تک یہ اثرات کیوں ہیں؟ آپ سے میری درخواست ہے کہ میرا زائچہ بناکر یہ بتادیں کہ میری زندگی میں سکون اور پیسہ ہے کہ نہیں، میں خود سلائی وغیرہ کرکے گزارا کرتی ہوں مگر کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں، کسی نے ہمارا روزگار باندھ تو نہیں دیا؟
جس وقت ہاتھ والا واقعہ ہوا تو میں کسی کتاب میں سے دیکھ کر ایک وظیفہ پڑھ رہی تھی، روز عشاء کے بعد اور مجھے وظیفہ پڑھتے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہوگیا تھا، آج کل سب بند کردیا ہے صرف نماز اور قرآن پڑھتی ہوں، نام کے اعداد میں نے سب گھر والوں کے نکالے ہیں، ان پر نظر ثانی کرلیجیے گا، بیٹی بارہ سال کی ہوگئی ہے، کانوں سے پانچ فیصد سنتی ہے لیکن دماغی طور پر بہت ذہین ہے، کیا کوئی نقش اس کی بیماری دور کرسکتا ہے؟ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق وہ لہریں جو آواز کو قبول کرتی ہیں، کمزور ہیں، یہ بھی بتائیں کہ جنوب مشرق کا اتصال کیا ہوتا ہے؟ ہم جیسے کم عقل نہیں سمجھ سکتے، میں نے امی کے علاج کے سلسلے میں جو کچھ کیا(اس کی تفصیل خط میں موجود ہے) کیا اس کے کچھ اثرات تو مجھ پر نہیں ہیں؟ شوہر کے لیے کون سا کام بہتر رہے گا، میرا اصل نام تو وہی ہے جو خط میں لکھا ہے مگر پکارتے دوسرے نام سے ہیں، اس سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ میرا اسم اعظم بھی چیک کرلیں، درست ہے یا نہیں، میری تاریخ پیدائش کا نمبر 9 ہے، کیا نو کی انگوٹھی مناسب رہے گی؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے طویل خط کا جواب ہم تفصیل سے دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ آپ کے مسائل ہمیں معلوم ہیں کہ یہ اکثر گھروں کے مسائل ہیں، سب سے پہلے تو ایک بات یہ سمجھ لیں کہ جس مکان کی بنیاد ہی غلط اصولوں پر رکھ دی جائے اس کی کوئی دیوار سیدھی نہیں رہتی، شادی کے فوراً بعد ہی جب یہ تصور کرلیا گیا کہ آپ منحوس ہیں تو بس ابتدا ہی غلط ہوگئی، شادی سے پہلے آپ کے شوہر کون سا عظیم کارنامہ انجام دے چکے تھے جو شادی کے بعد نہ دے سکے، اپنی رہائش کے لیے ایک مکان بھی علیحدہ نہیں بناسکے، دکان سے جو آمدن ہوتی تھی وہ بس اتنی کہ گزارہ ہوجائے، اس آمدن سے کچھ بس انداز کیا ہوتا، کچھ کاروبار کو مزید بڑھایا ہوتا تو شادی کے بعد یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، کاروبار میں بھی اتار چڑھاؤ سب کے ساتھ آتے ہیں ، جن دنوں آپ کی شادی ہوئی ، خود آپ کے شوہر زحل کی نحوست کا شکار چل رہے تھے یعنی سیارہ زحل ان کے زائچہ پیدائش کے بارھویں گھر میں موجود تھا، ان کا شمسی برج بھی دلو ہے اور قمری برج بھی دلو، ان کی پیدائش کے وقت چاند کی آخری تاریخیں 29 یا 30 ہوں گی، زحل کی ساڑھ ستی کے تین دور ہوتے ہیں، ہر دور ڈھائی سال کا ہوتا ہے، پہلے دور میں انسان کو اس کی سختی زیادہ محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اپنے ماضی کی کامیابیوں کے نشے میں بدمست ہوتا ہے اور غلط اقدام کرتا ہے، غلط صحبتیں اختیار کرتا ہے، اپنے حقیقی ہمدردوں کو نہیں مانتا، غیروں کی باتوں میں جلد آجاتا ہے،اپنا ذاتی گھر ہو تو اسے فروخت کرنے کی سوچتا ہے، کاروبار یا ملازمت تبدیل کرتا ہے، مختلف بہانے بناکر اپنے سیٹ اپ کو خراب کرتا ہے، دوسرے ڈھائی سالہ دور میں اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کس مقام پر پہنچ چکا ہے لیکن اس وقت بھی وہ حقیقت پسندی اختیار نہیں کرتا، اپنی سستی، کاہلی، عاقبت نا اندیشی کے غلط رویے اور غلط اقدامات پر غور نہیں کرتا بلکہ اپنی ناکامیوں کے بارے یں دوسروں کو موردالزام ٹھہراتا ہے، خود شدید مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر محنت سے جی چراتا ہے اور فضول مشغلوں میں وقت برباد کرتا ہے، تیسرا اور آخری دور شدید نوعیت کی مالی تنگی لاتا ہے، اگر بے روزگار ہو تو دوبارہ روزگار ملنا مشکل ترین ہوجاتا ہے، برسرروزگار ہو تو آمدن محدود ہوکر رہ جاتی ہے، بے انتہا محنت کرنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوتا، قرض بڑھتا ہے، لوگ مدد نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ، ان ساڑھے سات سالوں میں اگر معقول رہنمائی نہ ملے تو انسان بہت ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور بعد میں بھی اسے سنبھلنے میں اکثر اوقات برسوں لگ جاتے ہیں، کچھ لوگ جو عقل مندی اور سمجھ بوجھ سے کام نہ لیں، حقیقت پسندی اختیار نہ کریں بلکہ کسی منفی راستے پر بھی چل پڑیں تو پھر وہ کبھی نہیں سنبھلتے، زندگی برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اپنے شوہر کو حوصلہ دلائیں کہ وہ مستقل مزاجی سے جم کر کام کریں، خراب وقت گزر گیا ہے مگر گزشتہ خراب وقت کی دھول آہستہ آہستہ ہی صاف ہوگی اور اس کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی، ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ وہ بنیادی طور پر برسوں سے جو کام کر رہے ہیں وہی کام کریں، ایسے کسی کام میں ہاتھ نہ ڈالیں جس کا انھیں پہلے سے تجربہ نہ ہو، وہ نہایت ذہین اور سیلز مین شپ کی عمدہ صلاحیت رکھتے ہیں، برج دلو والوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ لوگ سائبیریا میں فریج فروخت کرسکتے ہیں لہٰذا یہ کاروبار خواہ کوئی بھی کریں، مستقل مزاجی شرط ہے، یہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
اب آئیے اپنے زائچے کی طرف، آپ کا شمسی برج حوت اور قمری برج عقرب ہے، آپ غیر معمولی طور پر حساس ہیں، پیراسائیکولوجی کی زبان میں عمدہ معمول (میڈیم) ہیں، آپ نے جو واقعہ لکھا وہ اس کا ثبوت ہے، چوں کہ آپ ان دونوں ایک مخصوص وظیفہ کر رہی تھیں لہٰذا وظیفے سے متعلق منفی و مثبت ماورائی قوتوں کا آپ کی طرف متوجہ ہونا ضروری تھا، یاد رکھیں کہ جب ہم کوئی مخصوص عمل کرتے ہیں اور کوئی مخصوص اسم، آیت، سورت یا الفاظ کی شکل میں منتر وغیرہ تواتر کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس سے وابستہ مؤکلات علوی و سفلی متحرک ہوجاتے ہیں، اب کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ آپ اسے اپنے زیر تصرف لائیں، آسانی سے آپ کے کام کے لیے تیار نہیں ہوگا، کچھ نہ کچھ مزاحمت کرے گا، اگر آپ زیادہ باقوت ہیں تو آپ کے تابع ہوجائے گا ورنہ آپ پر حاوی ہونے کی کوشش کرے گا، تابع ہونے کی صورت میں آپ کا مطلوبہ کام کردے گا، ورنہ آپ کو پریشان بھی کرسکتا ہے، اکثر وظائف میں یہ مؤکلات کوشش کرتے ہیں کہ عامل کو اس وظیفے یا عمل کی تکمیل سے روک دیں لہٰذا ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ وہ ڈرجائے یا پریشان ہوکر عمل ترک کردے، ایسے ہی موقعوں پر کسی استاد کی رہنمائی اور نگرانی ضروری ہوتی ہے، دوران وظیفہ و عمل میں مخصوص حصار اور دیگر احتیاطیں بھی اسی لیے کی جاتی ہیں، اسی لیے ہم منع کرتے ہیں کہ ہر جگہ سے اندھا دھند وظیفے اور اعمال پڑھ کر ان پر عمل نہ کریں مگر آج کل ہم نے دیکھا ہے کہ خواتین کا یہ محبوب مشغلہ بن چکا ہے، بہر حال جو ہوا سو ہوا چوں کہ آپ کا وہ وظیفہ اتنا زیادہ نقصان دہ نہ تھا لہٰذا زیادہ نقصان نہیں ہوا مگر اسے ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، بعض اوقات ادھورے عمل عمر بھر پریشان کرتے ہیں، آپ کے لیے صدقہ یہ ہے ، ہفتے کے روز بوڑھے یا معذور افراد کی مدد کیا کریں،اتوار کے روز کسی غریب بال بچے دار کی مدد کریں اور جمعہ کو سفید رنگ کی چیزوں کا صدقہ دیا کریں مثلاً سفید چاول، انڈے، سفید کپڑا وغیرہ، مزید یہ کہ سچا موتی کم از کم 5 کیرٹ وزن میں دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں کسی نوچندے پیر کو صبح سورج نکلنے کے فوراً بعد پہن لیں ، آپ کے شوہر کو نیلم کا نگینہ پہننا چاہیے تاکہ ان میں مستقل مزاجی آئے۔
دوسری شادی؟
یو ایم‘کراچی سے لکھتی ہیں’’میری شادی 2005 ء میں ناکام ہوئی‘ایک بچی اس دوران میں ہوئی تھی جو میرے ساتھ ہے‘میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میری دوسری شادی کب ہوگی؟کس سال ہوگی؟ پاکستان میں ہوگی یا آؤٹ آف کنٹری ہوگی‘ شادی کے بعد کی لائف کیسی ہے ؟ ان صاحب کے نام کا پہلا حرف کیا ہوگا؟‘‘
جواب: چوں کہ آپ کا سارا زور دوسری شادی پر ہے‘پہلی شادی کی ناکامی وغیرہ سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا ہم بھی اس موضوع کو نہیں چھیڑنا چاہتے‘صرف اتنا ضرور بتائیں گے کہ دوسری شادی بھی ناکام ہوسکتی ہے کیوں کہ نکاح یا شادی کا بندھن زائچے کے جس گھر سے تعلق رکھتا ہے وہاں مریخ اور زہرہ کا قران ایک منحوس اثر رکھتا ہے‘زائچے کے چوتھے اور ساتویں گھر کا مالک عطارد زحل کی نحس نظر کا شکار ہے لہٰذا ازدواجی زندگی کی خوشیاں اور گھریلو سکون حاصل ہونا مشکل نظر آتا ہے‘ اگر ضروری فلکیاتی ریمیڈیز پر توجہ نہ دی گئی تو دوسری شادی کا انجام بھی پہلی شادی جیسا ہی ہوگا‘ آپ کو پابندی سے جمعہ کو سفید رنگ کی چیزوں کا اور ہفتے کو بلیک کلر کی چیزوں کا صدقہ دینا چاہیے یا ہفتے کو کسی معذور یا بیمار اور معمر شخص کی مدد کرنی چاہیے‘ مرجان اور فیروزہ کسی اچھے اور مناسب وقت میں پہننا چاہیے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ کا پیدائش کا وقت کنفرم نہیں ہے‘آپ نے جو وقت لکھا ہے ‘ یہ ہمیں دُرست معلوم نہیں ہورہا ‘ بہر حال جہاں تک گزشتہ حالات کی روشنی میں اسے درست کیا جاسکتا تھا وہ ہم نے کیا ہے جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ آپ کے زائچے میں شمس ‘عطارد‘ مریخ اور زہرہ ایک ہی برج میں آٹھویں گھر میں ہیں اور آٹھواں گھر عورت کے زائچے میں نکاح کا بندھن‘ ازدواجی زندگی کی خوشیاں ظاہر کرتا ہے‘ مریخ اور زہرہ کا قران پہلی شادی لو میرج ظاہر کرتا ہے اور اس کی ناکامی کا بھی امکان ہے‘دوسری شادی بھی لو میرج ہی ہوسکتی ہے اور پاکستان ہی میں ہوگی‘کسی غیر ملکی کے خواب نہ دیکھیں تو اچھا ہوگا‘نام کا پہلا حرف بتانے والے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ بات ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں‘آپ اتنی ذہین نہیں ہیں جتنی کری ایٹیو ہیں لہٰذا آسانی سے دھوکا کھاسکتی ہیں اور دوسری شادی بھی کسی غلط بندے سے کرسکتی ہیں جس کا نتیجہ پہلے جیسا ہی ہوسکتا ہے‘اس سال 14 جون سے ایسا ٹائم شروع ہوچکا ہے جس میں آپ کا کوئی افیئر اسٹارٹ ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ اکتوبر 2020 ء میں شادی کی صورت میں نکل سکتا ہے‘امید ہے آپ کے تمام سوالوں کے جواب مل گئے ہوں گے‘جواب میں اتنی تاخیر کے لیے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔

پیر، 15 اکتوبر، 2018

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!

ایک طالب علم کو پیش آنے والے پراسرار واقعات اور پراسرار مرض
کائنات رب عظیم کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کا مطالعہ روز بہ روزعقل انسانی کے لیے حیرتوں کے نت نئے باب کھولتا رہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی صرف کرہ ارض پر موجود زندگی کے اسرارو رموز ہی سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکا۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں ابھی انسان کے قدم ہی نہیں پہنچ سکے۔ انسان کی بے بسی اور کم علمی تو اکثر زندگی کے روزمرہ مسائل کے مقابلے میں ہی نظر آجاتی ہے۔ وہ اپنی سی ہر کوشش کرنے کے بعد بھی جب ناکام ہوتا ہے تو سخت جھنجلاہٹ اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں یا بعض موذی اور تکلیف دہ بیماریوں کا ذمے دار کسی ماورائی نادیدہ پراسرار قوت کو ٹھہراتا ہے۔ ایک بار جب انسان حوصلہ اور ہمت ہار دے اور یہ سوچ لے کہ کوئی نادیدہ قوت اس پر اثرانداز ہورہی ہے تو پھر اسے ہر معاملے میں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، دنیا میں انسان سے زیادہ با صلاحیت اور کرشمہ ساز کوئی اور مخلوق نہیں ہے۔ سحروجادو یا آسیب وجنات کوئی بھی ماورائی اثر زیادہ عرصے تک انسان کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ تاوقتیکہ وہ اپنا حوصلہ نہ ہار جائے اورذہنی طور پر شکست نہ تسلیم کرلے۔ 
ہمارے مشاہدے میں ایسے معاملات آتے رہتے ہیں جو حوصلے کی کمی کی وجہ سے اور غلط سوچ کی وجہ سے نت نئی پے چیدگیاں اختیار کر لیتے ہیں۔ کوئی ناکامی یا کوئی مشکل یا کوئی بیماری انسان کو ایسا پست ہمت اور توہم کا شکار بنا دیتی ہے کہ پھر وہ کوئی مثبت بات سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتا ہے۔
چند روز پہلے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو اپنا مسئلہ لے کر آئے تھے۔ ان کی عمر تقریبا 35 سال کے قریب ہوگی۔ تعلیم زیادہ حاصل نہیں کرسکے تھے مگر بہت سے ہنر جانتے تھے۔ اب تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کوئی نادیدہ قوت ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے جو انہیں کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ وہ کاروبار کرتے ہیں تو اس میں نقصان ہوتا ہے۔ جاب کرتے ہیں تو زیادہ عرصے نہیں چلتی۔ شادی کے لیے بہت کوشش کی مگر شادی نہیں ہوتی۔ ایک جگہ دو سال پہلے منگنی ہوگئی تھی وہ ابھی تک قائم ہے مگر شادی کی نوبت نہیں آتی۔ لڑکی والے جب بھی شادی کی تاریخ دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بار لڑکی کی دادی کا انتقال ہوگیا۔ ایک مرتبہ لڑکی کے بھائی کو کاروبار میں نقصان ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ ان کے اپنے گھریلو حالات بھی بہت خراب تھے۔ دوسال سے خود بھی بیروزگار بیٹھے تھے۔ بس گھوم پھر کر کوئی کام مل جاتا تو کرلیتے۔ دو سال پہلے تک کسی فیکٹری میں اچھی خاصی جاب تھی جو صرف اس وجہ سے چھوڑنا پڑی کہ فیکٹری کے کچھ سینیئر افسران ان سے ناجائز کام لینا چاہتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کا خیال یہی تھا کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ کسی پراسرار نادیدہ قوت کی کارفرمائی ہے۔
جب ان کا زائچہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ موصوف اول درجے کے بے فکرے ، غیر ذمے دار ، کام چور ، آرام طلب اور فضول کاموں میں دلچسپی لینے والے انسان ہیں۔ ان کی غیر مستقل مزاجی اور غیر ذمے داری کا شاخسانہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے کام سیکھنے اور کرنے کے باوجود آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ابتدائی عمر میں کھڑے تھے۔ اب اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بہانے گھڑ لیے ہیں کہ میرے ساتھ کوئی پراسرار مسئلہ ہے۔ میں تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے کرنے نہیں دیا جاتا۔ پھر اپنے دعوے کے ثبوت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی۔ بولے ’’ میں نے چائے کا ہوٹل کھولا تو چائے بنانے کے لیے چولہے پر جو پانی رکھاوہ گرم ہی نہیں ہوتا تھا۔ خواہ کتنی دیر بھی آگ پر رکھا رہے مگر گرم نہیں ہوتا تھا۔ اب آپ بتائیں یہ سب کیا ہے؟‘‘
ہمارے لیے ممکن نہیں تھاکہ ان سے کہتے’’ یہ سب جھوٹ اور آپ کی ڈرامے بازی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے ایسے بہت سے واقعات سنائے کہ ان کے کھانے میں سے کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں۔ کبھی لال بیگ ، کبھی مکھی اور حد یہ کہ ایک مرتبہ چھپکلی نکل آئی وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے ان سے عرض کیا ’’ آپ الیکٹرک اور ایئر کنڈیشننگ کا اچھا کام جانتے ہیں اور اس کام کی ڈیمانڈ بھی بہت ہے پھر آپ نے یہ کام چھوڑ کر چائے کا ہوٹل کیوں کھول لیا؟‘‘
کہنے لگے ’’ اس کام میں بے ایمانی کرنا پڑتی ہے اور جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے اور چونکہ میں سخت مذہبی آدمی ہوں ، ایک سلسلے سے بیعت ہوں لہذا یہ کام چھوڑدیا۔ ‘‘
ہم نے عرض کیا ’’ جب آپ مذہبی بھی ہیں اور صاحب سلسلہ ہیں، بیعت کرچکے ہیں تو یقیناًآپ کے پیرومرشد بھی ہوں گے؟ تو پھر آپ کے پیچھے جو چیز لگی ہوئی ہے اس سے نجات کیوں نہیں ملتی؟‘‘
بولے’’وہ ہمیں نماز نہیں پڑھنے دیتی اور اسی وجہ سے ہمارے پیر صاحب بھی ہم سے ناراض رہتے ہیں اور اس معاملے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتے۔‘‘
عزیزان من، یہ گفتگو اس لیے نقل کردی گئی ہے کہ آپ خود اندازہ لگالیں کہ مسئلہ کیا ہے اور صاحب مسئلہ کی کیفیت کیا ہے۔ دراصل ہم یہاں ایک اور مسئلے پر گفتگو کرنا چاہتے تھے مگر درمیان میں یہ واقعہ یاد آگیا۔ آئیے ایک خط کی جانب جو ای میل کے ذریعے ہمیں ملا ہے۔ نام اور جگہ ہم ظاہر نہیں کررہے۔
’’میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ میٹرک کے بعد میں نے جاب کے بارے میں سوچا لیکن والد نے مزید تعلیم جاری رکھنے پر زور دیا۔ والد اور گھر والوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے محنت کی اور اچھی پوزیشن لے کر یونیورسٹی تک آگیا۔ اس دوران میں ٹیوشن بھی کرتا رہا، گریجویشن کرنے کے بعد اب دوسال ہونے کو ہیں مجھے جاب نہ ملنا تھی، نہ ملی۔
’’یہ دسمبر کی بات ہے۔ میں ٹیوشن پڑھا کر واپس گھر آرہا تھا ، راستے میں ایک سنسان گلی میں مجھے زور کا پیشاب محسوس ہوا اور میں وہیں سائیڈ میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ ابھی پیشاب کررہا تھا کہ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے میرے سر میں ہتھوڑا مار دیا ہو اور میرا سر بھاری ہوگیا۔ حالانکہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں جیسے تیسے گھر پہنچا اور آکر بستر پر لیٹ گیا۔ میری حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ جس جگہ چوٹ لگی تھی، وہ جگہ سن ہوتی جارہی تھی۔ آنکھیں لال پیلی ہوچکی تھیں اور جسم بھاری ہوگیا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر سارے گھر والوں نے رونا شروع کردیا اور ابو پڑوس کی مسجد کے قاری صاحب کو لے کر آئے۔ انہوں نے پورا واقعہ پوچھا،وہ اسی وقت ابو امی کو لے کر اس جگہ پر گئے اور تقریبا دو گھنٹے بعد واپس آکر انہوں نے کہا کہ جس جگہ آپ نے پیشاب کیا ہے وہاں جنات کی ایک فیملی بیٹھی تھی اور پیشاب کی چھینٹیں ان کو لگی ہیں۔ جس پر اس فیملی کی ایک نوجوان لڑکی نے غصے میں آکر آپ پر حملہ کردیا ہے۔ آپ کے سر پرپچھلی طرف تھپڑ مارا ہے۔ میں ان جنات سے بات کرکے آیا ہوں۔ کل صبح دو کالی مرغیاں لے کر ان سے معافی مانگنی ہوگی۔ پھر انہوں نے کچھ قرانی آیات پڑھ کر مجھ پر دم کیا۔ اس کے بعد میری حالت کچھ سنبھل گئی۔ دوسرے دن صبح دو کالی مرغیاں لے کر ہم وہاں گئے اور ان سے معافی مانگ لی، ان سب نے مجھے معاف کردیا مگر شاید جس جن لڑکی نے مجھ پر حملہ کیا تھا اس نے معاف نہیں کیا اور وہ تکلیف آج تک مجھے ہوتی ہے۔ سر بھاری اور سن ہوجاتا ہے۔ تعلیم کے دوران میں میرا سر اتنا بھاری ہوجاتا کہ سیدھا رکھنا مشکل ہوجاتا۔ اتنی تکلیف کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد مجھے اور بھی تکلیفیں شروع ہوئیں جو ابھی تک جاری ہیں۔ دوسال پہلے یہ مسئلہ شروع ہوا کہ جسم سے بدبو آنے لگی حالانکہ میں صفائی اور پاکی کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ اس بدبو کے عذاب نے جینا دوبھر کردیا ہے۔ میری سوشل لائف ختم ہوچکی ہے۔ شرم کے مارے کسی سے ملتا نہیں ہوں۔ سارا دن گھر میں پڑا رہتا ہوں۔ اب ناامیدی حد سے بڑھ چکی ہے اور خودکشی کے خیالات زور پکڑ رہے ہیں۔ میرے گھر والے سب مایوس ہوچکے ہیں۔ مگر اس مایوسی کی سیاہ کالی رات میں بھی ابھی ایک امید کی کرن باقی ہے۔ میں اللہ کی مدد کی روشنی کے انتظار میں ہوں۔ میں نے آپ کی کتاب مسیحا پارٹ ون میں اسم اعظم نکالنے کا طریقہ دیکھ کر اپنے نام کے اعداد 174کا اسم اعظم نکالا ہے جو یہ ہے۔ ’’یا وہاب اللطیف۔‘‘ اس کے علاوہ ’’ یا اللہ الوکیل‘‘ ،’’ ھوالطبیب الحکیم‘‘ اور ’’یا طیب القوی‘‘ سب کے اعداد 174ہیں۔ اب آپ بتائیں انہیں کس طرح پڑھا جائے۔ میں نے مختلف مقاصد کے تحت مختلف اسم اعظم نکالے ہیں۔ میں اس کی زکات سوا لاکھ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی آپ اجازت دیں۔‘‘
جواب : عزیزم، آپ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ یقیناًقابل غور ہے۔ بے شک سنسان اور ویران جگہوں پر جنات ہوسکتے ہیں لیکن اس طرح آبادی کے گلی کوچوں میں جنات کی فیمیلیز قیام نہیں کرتیں۔ بے شک کسی بھی جگہ پیشاب کرنا دوسرے معنوں میں گندگی پھیلانا ایک نامناسب اور غیر اخلاقی بات ہے۔ قاری صاحب نے آپ کی بروقت مدد کی اور قرانی آیات پڑھ کر دم کیں جن کی وجہ سے آپ کو تقویت حاصل ہوئی، ڈر اور خوف دور ہوگیا لیکن کالی مرغیوں کا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا، معافی کی حد تک بات ٹھیک ہے۔ آپ کو اپنے سر درد یا سر کی تکلیف کے سلسلے میں بھی قاری صاحب سے مزید رجوع کرنا چاہیے تھا۔
آپ کی دیگر بیماریوں کا تعلق اس واقعے سے الگ نظر آتا ہے۔ آپ نے جو مسائل اور تکالیف لکھی ہیں یہ عموما سفلس اور سائیکوٹک امراض میں پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر جسم یا پسینے اور دیگر اخراجات میں بدبوکا پایا جانا۔ ایک اور رہنما علامت آپ نے یہ بھی لکھی ہے کہ آپ کو صفائی اور پاکی کا بہت خیال رہتا ہے۔ یہ بھی سفلس کی علامت ہے۔
سفلس کی بیماریاں عموما غیر فطری مشاغل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں مگر ان کی ایک وجہ کسی نامناسب جگہ پر پیشاب کرنا بھی ہوسکتاہے خصوصا جلتی دوپہر میں تپتی زمین یا پتھر پر یا ایسی جگہ جہاں زمین میں چونا موجود ہو ۔ بہرحال وجوہات کچھ بھی رہی ہوں آپ کو معقول علاج معالجے پر توجہ دینا چاہیے۔ایسی بیماریوں کا شافی و کافی علاج ہومیو پیتھک طریقہ ء کار میں موجود ہے۔ آپ کی بیماری اب خاصی پیچیدہ ہوچکی ہے لیکن لاعلاج نہیں ہے۔گھر میں منہ چھپا کر بیٹھنے کے بجائے کسی تجربے کار ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنے ذہن سے یہ وہم نکال دیں کہ ’’جن لڑکی‘‘ کا تھپڑ ابھی تک آپ کے لیے ایک سزا بنا ہوا ہے اور اس کا آپ کو معاف نہ کرنا آپ کے لیے عذاب کا سبب ہے۔ ایسے واقعات زیادہ عرصے تک اپنا اثر نہیں رکھتے اور جو غلطی آپ سے ہوئی تھی ، وہ بھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ جس کی سزا آپ کو عمر بھر بھگتنا پڑے۔ اللہ نے اتنا اختیار کسی کو نہیں دیا کہ معمولی باتوں پر غصے میں آکر زندگی بھر کسی کو عذاب میں مبتلا کرے۔ ایسا کرنے والا پھر خود بھی قہر خداوندی کا شکار ہوتا ہے۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو اس جن فیملی سے بھی یہ پوچھا جاسکتا تھا کہ آپ لوگ ایک راہ گزر میں دھرنا دیے کیوں بیٹھے تھے اور کیوں ایک شخص کے پیشاب کرنے کا نظارہ فرما رہے تھے جبکہ قانون قدرت کے مطابق وہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر آپ تو اس کو دیکھ رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے۔ اس کی حرکت تو غیر اخلاقی اس صورت میں ہوگی جب وہ آپ کو دیکھ کر اور جان بوجھ کر پیشاب کرتا۔ آپ کو ناپاک ہونے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا کہ اس جگہ سے دور ہٹ جاتے۔ بہرحال اب یہ بحث فضول ہے اور آپ اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دیں۔ آپ نے یہ نہیں لکھا کہ جسم سے آنے والی بدبو صرف آپ کو محسوس ہوتی ہے یا دوسروں کو بھی؟ ہمیں یقین ہے کہ یہ بدبو صرف آپ کو ہی محسوس ہوتی ہوگی۔ اگر دوسروں کو محسوس ہوتی تو آپ کے گھر والے ضرور اس کا نوٹس لیتے اور آپ کو کسی معالج کے پاس لے جاتے۔
آپ کا زائچہ دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ نے کچھ باتیں ہم سے بھی پوشیدہ رکھی ہیں اور اپنی بیماریوں کے سلسلے میں بعض وجوہات کو راز میں رکھا ہے کیونکہ آپ کا پیدائشی برج عقرب ہے اور طالع کا حاکم مریخ بارہویں گھر میں بیٹھا ہے جبکہ بارہویں گھر کا حاکم زہرہ طالع میں ذنب کے ساتھ ہے۔ یہ ’’پری ورتن یوگ‘‘ ہے اور یوگ بنانے والے اسٹار زہرہ اور مریخ پہلے بارہویں اور چھٹے ساتویں گھروں سے تعلق رکھتے ہیں لہذا پیچیدہ نوعیت کی ذہنی اور دماغی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ خفیہ راز ضرور ہوتے ہیں۔ ہم بھی ان کی نقاب کشائی نہیں کریں گے۔
آپ نے جو اسم اعظم ترتیب دیے ہیں وہ بلاشبہہ بہت شان دار ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا اسم اعظم ’’ یا حی یاقیوم ‘‘ بھی ہے کیونکہ دونوں اسمائے الہی کے اعداد 174 ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ آپ کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔ آپ کا پہلا مسئلہ صحت یابی ہے اور یا حی یاقیوم کا ورد صرف نفع بخش ہی نہیں، صحت بخش بھی ہے۔ باقی فی الحال زکات ادا کرنے کی مہم میں خود کو نہ ڈالیں۔ آپ کی موجودہ حالت اور صحت ایسے وظیفوں اور چلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ صرف ہومیو پیتھک علاج ہی آپ کی بگڑی ہوئی کیمسٹری کو درست کرسکتا ہے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!

جمعہ، 5 اکتوبر، 2018

روحانیات کے نام پر گمراہ کن طرز عمل کی ایک جھلک

اکلٹ سائنسز کے حوالے سے نت نئے تماشے سامنے آتے رہتے ہیں
محکمہ جاتی طور پر ملک میں خاصی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری ہے، سول و ملٹری سروسز میں انتظامی نوعیت کی تبدیلیاں شروع ہوچکی ہیں، یہ عمل آئندہ ایک ماہ تک مزید تیز ہوگا، شاید اس کی ضرورت بھی ہے، نئی حکومت سمجھتی ہے کہ گزشتہ حکومت کے جمائے ہوئے مہرے ان کے لیے زیادہ کارآمد یا معاون ثابت نہیں ہوں گے،اسی طرح پورے ملک میں ناجائز قبضے کے خلاف بھی کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں، دوسری طرف موجودہ ہفتہ عدالتی کارروائی کے اعتبار سے بھی نہایت اہم نظر آتا ہے،وزیراعظم کو مسلسل ایک سخت وقت کا سامنا ہے اور اس وقت یہ مصرع ان پر صادق ہے ؂جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں۔
ان کے نامزد وزیراعلیٰ پنجاب کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن مجموعی طور پر ایسی صورت حال نہیں ہے جس پر بہت زیادہ تشویش کا اظہار کیا جائے،جیسا کہ زائچہ ء حلف کے حوالے سے ہم لکھ چکے ہیں، نئی حکومت کو آئندہ سال مئی تک ایسے ہی حالات و واقعات کا سامنا رہے گا لیکن اپوزیشن کے لیے بھی زیادہ سازگار وقت نہیں ہے،ان کے باہمی اختلافات اور ماضی کے فیصلے اور اقدام ان کے لیے قانونی مسائل پیدا کرتے رہیں گے،سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور قدرت اپنی چالیں چل رہی ہے، گھمسان کا معرکہ دسمبر کے آخر سے شروع ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)
مسلمان جب ہندوستان آئے تو اُن کا سابقہ ہندو مذہب اور کلچر سے پڑا۔ ہندو مذہب خاصا قدیم ہے۔ہندو مذہب کے علاوہ برصغیر پاک و ہند میں بدھ مذہب اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔بدھ مذہب اور سکھ مذہب کے بانی اور مبلغین کا تعلق چوں کہ ہندو مذہب ہی سے تھا لہٰذا آخر الذکر دونوں مذاہب میں بہت سی روایات اور رسومات ہندو ازم سے مماثل نظر آتی ہیں۔
ترکِ دنیا کا نظریہ بھی ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور بدھ مذہب کی تو بنیادی اساس ہی اس پر قائم ہے۔بدھ مذہب کے بانی گوتم بدھ ایک ریاست کے شہزادے تھے اور انہوں نے عین نوجوانی میں اپنا راج پاٹ اور عیش و آرام چھوڑ کر جنگل کی راہ لی ۔
قصہ مختصر یہ کہ ہندوستان میں آباد ہونے کے بعد مسلمانوں میں بھی ترکِ دنیا کا نظریہ شدت اختیار کرنے لگا ۔ اس سے پہلے مسلم صوفیہ بھی یہ راستہ اختیار کرنے میں پیش پیش رہے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ عبادت و ریاضت میں زیادہ یکسوئی حاصل کرنا رہی ہوگی لیکن اُن کی تقلید میں بہت سے دیگر افراد بھی دنیا سے بے زاری اور کنارہ کشی کو پسند کرنے لگے ۔ ایسے لوگ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں یا پھر اپنی حالت ایسی بنالیتے ہیں جس سے دنیا بے زاری ظاہر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ عام لوگوں سے دور دور رہتے ہیں ۔ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور خود کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتے ہیں ۔ دنیا دار لوگ ایسے لوگوں کو اللہ کے نزدیک خیال کرکے اپنی حاجتوں کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں اور دعا کے طالب ہوتے ہیں ۔ عام لوگوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، ماضی میں بادشاہوں نے بھی ایسے اللہ کے نیک بندوں سے دعا کی درخواست کی ہے اور اُن کے دروازے پر پاپیادہ حاضری دینے کو اپنی خوش قسمتی جانا ہے جیسا کہ مغلِ اعظم جلال الدین محمد اکبر پاپیادہ حضرت سلیم الدین چشتی ؒ کے پاس حاضر ہوا تھا ۔
بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کا دنیا سے دوری اختیار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اُن کی نقل میں بہت سے لوگ اپنا حال اور حلیہ ایسا ہی بنالیتے ہیں تاکہ خلقِ خدا کو فریب دے سکیں اور پھر ایسا ہی طرز عمل بھی اختیار کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں ۔ ایسے لوگوں سے سوائے نقصان اور گمراہی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ہمیں اکثر خطوط کے ذریعے یا ذاتی ملاقاتوں کے ذریعے ایسے قصے سننے کو ملتے ہیں جن میں کسی سفید پوش، بزرگ صورت افراد کی فنکاری کا مظاہرہ سامنے آتا ہے ۔ خود ہم نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا بھی ہے اور اُن سے ملاقات بھی کی ہے۔ایسے لوگوں میں اکثریت عموماً دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک وہ جن کا کام ہی لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو زندگی میں ناکام اور مایوس ہوکر اپنی حقیقی ذمہ داریوں اور فرائض سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔
پہلی قسم تو یقیناً فراڈ اور بے ایمانی کے ذیل میں آتی ہے لیکن دوسری قسم حماقت ، جہالت، نا اہلی، نکما پن اور ہڈ حرامی کے سبب وجود میں آتی ہے ۔ ایسے لوگ خود کو کوئی روحانی شخصیت ظاہر کرکے مفت میں عیش کرتے ہیں اور معاشرے میں معزز ہوجاتے ہیں ، دوسرے معنوں میں مذہب اور روحانیت کی آڑ میں یہ بھی ایک دھوکہ دہی ہے ، ایسے لوگوں کی علمیت مشکوک ہوتی ہے ۔ ان کا طرۂ امتیاز ہی جہالت ہے ، وہ کم علم لوگوں کو ہی بے وقوف بناتے ہیں ۔
برسوں پہلے کا واقع ہے کہ ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ ایک بڑے پہنچے ہوئے بزرگ کھوکھرا پار سے آگے کسی ویران جگہ پر رہتے ہیں ، ان سے ملنا چاہیے ، ہمیں بھی اشتیاق ہوا اور جیسے تیسے وہاں پہنچ گئے ۔ لوگوں کا کافی ہجوم تھا ۔ آبادی سے الگ تھلگ ایک جھونپڑی بنی ہوئی تھی جس میں وہ صاحب مقیم تھے ۔ دو تین مفت کے خدمت گار بھی انہیں مل گئے تھے لیکن جب ملاقات ہوئی اور اُن کے طور طریقے دیکھے، گفتگو سنی تو اندازہ ہوگیا کہ بھائی صاحب جاہلِ مطلق ہیں اور خدا معلوم کیا افتاد آپڑی تھی کہ یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔
اکثر لوگ ایسے قصے بھی سناتے ہیں کہ ان کے دروازے پر کوئی بزرگ صورت صاحب تشریف لائے اور پینے کے لیے پانی مانگا اور پھر صورت دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا ۔ کوئی ایسی بات کہہ دی جو صاحبِ خانہ( عورت یا مرد) کے دل میں اتر گئی۔مثلاً یہ کہہ دیا کہ تم پر تو بڑی سختی نظر آرہی ہے یا ایسی ہی کوئی بات جسے سن کر صاحب خانہ متاثر ہوجائے اور اُن کی آؤ بھگت شروع کردے ۔ نتیجے کے طور پر وہ اُس گھر کے مکینوں پر اثر انداز ہوکر کوئی نہ کوئی ہنر دکھا دیتے ہیں ۔ ایسے افراد مزارات پر بھی بکثرت پائے جاتے ہیں اور ہمارے گلی محلوں میں بھی اور بازاروں اور ہوٹلوں میں بھی ۔
عزیزان من ! اس لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک خط نے ہمارے ذہن میں ایسے بہت سے واقعات کو تازہ کردیا ۔ آیئے اس خط کا مطالعہ کیجیے ۔
یہ ایک ایسی خاتون نے لکھا ہے جو برسوں سے ہمارے رابطے میں ہیں یعنی اپنے اکثر مسائل و علاج معالجے کے سلسلے میں ہمارے پاس ان کا آنا جانا رہتا ہے ، وہ لکھتی ہیں ۔
’’ آپ کی طرف بہت عرصے سے آنا نہیں ہوا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کوئی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ، چھوٹے موٹے معاملات میں فون پر آپ سے مشورہ ہوجاتا ہے ، گزشتہ دنوں بڑی بہن کراچی آئی ہوئی تھیں آپ سے ملنا بھی چاہتی تھیں مگر شادیوں میں شرکت نے اس کا موقع ہی نہیں دیا ، بہر حال ان کا سلام قبول کریں ، دسمبر میں وہ پھر آئیں گی تو ضرور آپ سے ملاقات ہوگی ، یہ خط لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہم بیٹھے بٹھائے ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں ، ہوا یوں کہ بہن نے اپنی دو انگوٹھیاں ہمیں دی تھیں کہ سنار سے پالش کرالیں کیونکہ انگلینڈ میں یہ کام ان کے لیے بڑا مشکل ہے ، ہماری بھی ایک انگوٹھی کالی پڑ گئی تھی چنانچہ ہم نے ایک سنار صاحب کی دکان کا رخ کیا اور انگوٹھیاں انہیں اس شرط پر پالش کے لیے دیں کہ فوری چاہئیں ، انہوں نے کہاکہ آپ کو ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا تو وہیں دکان میں بیٹھ گئے ، میرے ساتھ میری بیٹی بھی تھی ۔ ہماری انگوٹھی میں مرجان کا نگینہ ہے اور بہن کی انگوٹھی میں فیروزہ ہے ، یہ نگینے ہم نے آپ کے مشورے سے پہنے تھے ، بہن کی دوسری انگوٹھی بھی آپ کی دی ہوئی ہے جس پر اعداد متحابہ 120 کا نقش ہے ، یہ انگوٹھی آپ بہت پہلے اخبار میں دے چکے ہیں ۔
’’ سنار صاحب کی دکان میں ایک اور صاحب آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے جیسے کسی سوچ میں گم ہوں ، ہم بھی ان کے قریب ہی بیٹھ گئے تو انہوں نے فوراًً آنکھیں کھول کر ہماری طرف غور سے دیکھا اور تھوڑی سی اونچی آواز میں ’’ حق اللہ ‘‘ کہا ، پھر ہمارے چہرے پر نظریں جمادیں ، ان کے اس طرح دیکھنے سے ہمیں کچھ بے چینی اور گھبراہٹ ہونے لگی ، ہم نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا ، سنار صاحب سمجھ گئے کہ ہمیں ان کا اس طرح گھورنا ناگوار گزرا ہے ، انہوں نے کچھ صفائی پیش کرنے کے انداز میں ہم سے کہا ’’ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ، آپ پریشان نہ ہوں ‘‘ پھر بزرگ صاحب سے مخاطب ہوکر بولے ’’ بابا ان کے لیے دعا کردیں ‘‘ ۔
با با جی نے ان کی بات سن کر ایک گہری سانس لی اور بولے ’’ کیا دعا کریں ، یہ تو بڑے خطرے میں نظر آتی ہیں ‘‘ ان کی یہ بات سن کر ہمیں کچھ تشویش ہوئی اور ہم نے پوچھا ۔
’’ با با جی! آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی ، آپ کس خطرے کی بات کر رہے ہیں ؟ ‘‘
انہوں نے وہ انگوٹھیاں سنار سے مانگیں اور پھر ہم سے پوچھا ’’ یہ تینوں انگوٹھیاں تمہاری ہیں ؟ ‘‘
ہم نے جواب دیا ’’ ایک ہماری ہے اور 2 ہماری بہن کی ہیں جو انگلینڈ سے آئی ہوئی ہیں ۔‘‘ پھر ان کے پوچھنے پر ہم نے بتا دیا کہ کون سی انگوٹھی ہماری ہے اور کون سی ہماری بہن کی ہیں ، اس پر انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس کے مشورے پر یہ انگوٹھیاں پہنی ہیں ؟ ہم نے بلا جھجک آپ کا نام لے دیا ، جسے سن کر انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا اور فرمایا کہ یہ انگوٹھیاں تم دونوں بہنوں پر بہت بھاری ہیں ، آئندہ انہیں نہ پہننا، تو ہم نے کہا کہ ہم تو کئی سال سے یہ انگوٹھیاں پہنے ہوئے ہیں ، جس پر انہوں نے کہا کہ تمہاری بیماری کی وجہ یہ انگوٹھی ہے اور تمہاری بہن کو بھی جو تکلیفیں ہیں وہ ان انگوٹھیوں کی وجہ سے ہیں ۔
’’ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں جوڑوں کے دردوں کی شکایت پرانی ہے اور جب بھی ہم بد پرہیزی کرلیں تو تکلیف بڑھ جاتی ہے، آج کل بھی اس تکلیف میں زیادتی ہے ، ہماری بہن دمے کی پرانی مریضہ ہیں اور اپنی یہ تکالیف ہم انہیں بتا چکے تھے ، بہر حال انہوں نے ہمیں اسی وقت دو تعویذ دیئے اور کہا کہ اگر آنے والے خطرات سے بچنا چاہتی ہو تو یہ تعویذ بازو پر باندھ لینا اور دوسرا اپنی بہن کو دے دینا ، سچی بات یہ ہے کہ ہم کچھ مرعوب بھی ہوگئے تھے اور پریشان بھی ، لہٰذا تعویذ لے لیے۔ ہمارا کام ہوگیا اور ہم چلنے لگے تو سنار صاحب نے آہستگی سے ہم سے کہا ’’بابا جی نے آپ کی بڑی مدد کی ہے ، وہ کسی سے بات نہیں کرتے، پتا نہیں آپ کو دیکھ کر انہیں کیا ہوا کہ تعویذ بھی دے دیے ، آپ بھی انہیں نیاز فاتحہ کے لیے کچھ نذرانہ دے دیں ۔‘‘
ہم نے پوچھا ’’ کیا دیں ؟ تو انہوں نے 500 روپے کا اشارہ دیا ، بہر حال ہم نے ان کی بات نہیں ٹالی ، گھر آکر جب بہن کو بتایا وہ سخت ناراض ہوئیں ، آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کی بات کو کتنی اہمیت دیتی ہیں ، اب ہمیں بھی کچھ ندامت اور پشیمانی ہوئی لیکن دل میں وہم بھی گھر کر چکا تھا لہٰذا دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے یہ خط آپ کو لکھ دیا ہے ، اب آپ ہی فرمائیں کہ ہم ان بابا صاحب کی باتوں کو کیا سمجھیں ، کیا واقعی یہ انگوٹھیاں ہمارے اور بہن کے لیے صحت کی خرابی کا سبب ہوسکتی ہیں ؟ ‘‘
جواب : آپ کا خط پڑھ کر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی بلکہ تھوڑی سی ہنسی آئی۔ اسی لیے آپ کے خط سے پہلے اتنی لمبی چوڑی تمحید کی ضرورت پیش آئی ہے ، جب آپ کا خط ملا اس سے پہلے ہی آپ کی بہن سے فون پر بات ہوگئی تھی اور ہم نے ان سے کہہ دیا تھا کہ آپ کو سمجھا دیں کہ کسی وہم میں نہ پڑیں ، پہلی بات تو یہ کہ جہاں تک ہمیں یاد ہے آپ کی بیماری مرجان کی انگوٹھی پہننے سے بہت پہلے کی ہے اس کے علاج کے سلسلے میں بھی آپ ہمارے پاس آچکی ہیں لیکن اول تو آپ اول درجے کی بدپرہیز ہیں ، چاول دیکھ کر آپ کی رال ٹپکنے لگتی ہے جو اس بیماری میں زہر کی حیثیت رکھتا ہے ، پھر جم کر لمبے عرصے علاج نہیں کراتیں ، پین کلرز پر گزارا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں ، دوسری بات یہ کہ شاید کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو کہ مرجان ہر طرح کی جسمانی صحت کے لیے ایک مفید پتھر تسلیم کیا جاتا ہے ، آخری بات یہ کہ مرجان آپ کا لکی اسٹون ہے مگر ہم جس طرح لکی اسٹون تجویز کرتے ہیں وہ رائج الوقت طریقہ کار سے مختلف ہے ، اس حوالے سے ہم ایک طویل مضمون بھی لکھ چکے ہیں اور مروجہ طریقہ کار پر تنقید بھی کرچکے ہیں ، آپ کی بہن ہمارے پاس پہلی بار اس وقت آئی تھیں جب ان کی ازدواجی زندگی خطرے میں تھی اور یہ غالباً 1995ء کی بات ہے ، آج اللہ کا کرم ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں اور گزشتہ پانچ سال سے بیرون ملک مقیم ہیں ، پتھر ہم نے انہیں اس وقت پہنایا تھا جب میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے ہو رہے تھے اور 120 کی انگوٹھی انہوں نے اس وقت منگوائی تھی جب پہلی مرتبہ غالباً 1998ء میں ہم نے اس انگوٹھی کا تعارف اپنے کالم میں کرایا تھا ، وہ تو اس انگوٹھی کو اپنے لیے لکی انگوٹھی سمجھتی ہیں اور وہ کیا ہمارے کالم کے بے شمار قارئین اس کرشماتی انگوٹھی کے کرشمے دیکھ چکے ہیں ، آپ یہ ساری باتیں جانتی ہیں پھر آپ کا گھبرانا اور وہم میں پڑنا کیا معنی رکھتا ہے ، بہتر ہوگا کہ ذہن سے ہر وہم کو جھٹک دیں اور با با جی نے جو تعویذ دیے ہیں انہیں کھول کر دیکھیں ، ہمیں یقین ہے کہ آپ کو ان کی جہالت کا کوئی نمونہ نظر آجائے گا ، اس کے بعد انہیں پھاڑ کر پھینک دیں اور آئندہ ایسے لوگوں سے محتاط رہیں ، آپ کا خط آپ کی فرمائش پر شائع کیا گیا ہے تاکہ دیگر افراد بھی اس طرح وہم کے بیج بونے والے رنگے سیّاروں سے محتاط رہیں ۔