ہفتہ، 29 اپریل، 2017

جنات کے ذریعے الٹرا ساونڈ رپورٹ اور صحابی جن


حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ شاہِ جنات کے دربار میں
جنات کے حوالے سے جو گفتگو چل رہی تھی، اس کے تناظر میں ضروری ہے کہ بعض خطوط بھی شامل اشاعت کیے جائیں جو ہمیں وقتاً فوقتاً موصول ہوتے رہے ہیں، آئیے پہلے ایک خط ملاحظہ کیجیے۔
اے، کیو، کے لکھتے ہیں ” یہ آج سے تقریباً پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ میں شدید بیمار ہوا، اس دوران میں میں ایک ڈاکٹر کے پاس زیر علاج تھا، انہی دنوں والد صاحب کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ مجھے کسی عالم صاحب کو بھی دکھایا جائے، ہوسکتا ہے کسی جادو سحر یا جنات وغیرہ کے اثرات ہوں، اس لیے انہوں نے ہمارے محلے کی مسجد کے پیش امام صاحب سے مشورہ کیا، مولانا کے ایک واقف کار تھے جو اس وقت جیل روڈ پر واقع آنکھوں کے اسپتال کے عقب میں ایک مسجد میں پیش امام کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے، انتہائی قابلیت کے حامل تھے اور بڑا نام رکھتے تھے، طے یہ پایا کہ مجھے ان کے پاس لے جایا جائے، پروگرام کے مطابق ہم سب ان کے پاس عصر کے وقت پہنچے، نماز کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے حجرے میں بلا لیا جو مسجد کے باہر برابر ہی میں تھا، تمام حال سن کر انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی سے بروہی زبان میں کچھ کہا اور وہ اٹھ کر حجرے سے باہر چلے گئے، کچھ دیر جب وہ واپس لوٹے تو ان کے ایک ہاتھ میں پانی کا جگ گلاس اور دوسرے میں ایک کپ تھا، یہ سب لاکر انہوں نے میرے سامنے رکھ دیا اور گلاس پانی سے بھر دیا، کپ میں چائے نہیں تھی، سرسوں کا تیل یا اس سے مشابہ کوئی چیز تھی، مولانا آگے آئے اور عین میرے سامنے بیٹھ گئے، ایک ہاتھ سے کپ اٹھایا اور دوسرے سے میرے بائیں ہاتھ کی چھنگلی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دل ہی دل میں کچھ پڑھنے لگے، وہ پڑھتے جاتے اور ایک پھونک کپ میں اور دوسری میرے سینے کی جانب مارتے جاتے، جوں جوں یہ عمل ہوتا رہا، مجھ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوتی گئی، کچھ دیر بعد میرا ذہن ایسا ہوگیا کہ میں دیکھ تو سب کچھ رہا تھا مگر سمجھنے کی طاقت نہیں تھی، بدن میں قوت یا احساس نام کی کوئی شے نہیں تھی، اپنے بدن کے کسی حصے کو حرکت دینے کی طاقت ختم ہوچکی تھی یا یوں کہہ لیں کہ جسم کا اور ذہن کا تعلق ٹوٹ چکا تھا اور ذہن بھی بے اختیار ہوچکا تھا ، بس گم صم بیٹھا مسلسل مولانا صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا، پھر مولانا صاحب نے میرے سر سے دم کرنا شروع کیا، وہ کچھ پڑھ کر ایک پھونک میرے بدن کے کسی حصے پر مارتے اور دوسری کپ میں، اس کے بعد کپ میں بغور دیکھتے،آخری دم انہوں نے میرے پیروں کی جانب کیا پھر کچھ پڑھنے کے بعد دو تین دفعہ میرے سینے کی جانب دم کیا اور میری چھنگلی چھوڑدی۔
چھنگلی چھوڑتے ہی میرے ذہن میں ہلکی سی سنسناہٹ سی ہوئی اور مجھے ایسا لگا کہ میں کسی گہری نیند سے جاگا ہوں، پورے بدن میں گرمی کا احساس ہوا، حلق خشک ہوگیا اور اتنی شدت سے پیاس کا احساس ابھرا کہ بے اختیار میرے منہ سے لفظ”پانی “ نکلا، مولانا صاحب نے سامنے رکھا ہوا پانی سے بھرا گلاس فوراً میرے سامنے رکھ دیا اور میں نے ان حضرات کے سامنے انتہائی بے صبری اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ہی سانس میں سارا پانی پی لیا، پانی پینے کے بعد آہستہ آہستہ مجھے کچھ سکون محسوس ہونے لگا، بعد میں مولانا نے والد صاحب کو بتایا کہ انہیں کوئی جادو، سحر یا جنات وغیرہ کے اثرات تو نہیں ہےں، البتہ انہوں نے میری پسلیوں کے نچلے حصے سے ناف تک اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حصے میں کوئی تکلیف ہے جس کا میڈیکل علاج ممکن ہے، اب آپ چاہے اس کا الٹرا ساو ¿نڈ کرائیں یا اسے لندن لے جائیں، تکلیف انہیں بدن کے اسی حصے میں ہے (بعد میں ایسا ہی ہوا، میڈیکل رپورٹس کے مطابق میرے جگر میں خرابی تھی ) پھر انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسا جادو نہیں جس سے میں مرض کا علاج کروں، چند تعویذ شفا کے لیے دیتا ہوں،باقی شفا دینے والی اللہ کی ذات ہے۔
مختصر یہ کہ میڈیکل علاج کے ساتھ میرا بذریعہ تعویذ علاج بھی چلتا رہا اور میں چند ماہ میں شفایاب ہوگیا، اسی روز واپسی پر ہماری مسجد کے پیش امام صاحب نے بتایا کہ مذکورہ مولانا کے پاس کسی عالم صاحب کا بخشا ہوا جن ہے،علاج کے دوران میں وہ جن مریض کے جسم میں داخل کرتے ہیں اور جن مریض کے جسم میں رہ کر کپ کے اندر مولانا صاحب کو تمام اندرونی حالات سے آگاہ کرتا ہے، یہ ایک طرح کا الٹرا ساو ¿نڈ بھی ہوتا ہے جس سے ساری حقیقت کا بہ خوبی علم ہوجاتا ہے۔
یہ بات اگر مجھے پہلے معلوم ہوجاتی تو شاید میں اس تجربے کے لیے تیار نہ ہوتا کہ کوئی جن میرے جسم میں داخل ہو کیوں کہ میں اتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہر گز نہ تھا، اگر یہ سارا واقعہ خود میرے ساتھ پیش نہ آیا ہو تا تو شاید میں بھی اسے من گھڑت یا ڈراما ہی سمجھتا مگر مجھے ان باتوں پر یقین ہوگیا ہے اور یقینا ایسی مخلوقات کا وجود برحق ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسی مخلوقات کا وجود ہے اور جب ہمارے عالم اتنی قابلیت رکھتے ہیں کہ یہ مخلوقات ان کے اشاروں پر کام کریں تو اس دنیا میں ہونے والے مسلمانوں پر مظالم سے کون آگاہ نہیں، ہمارے عامل و کامل حضرات ان کے مظالم کے خلاف ان اعمال کا عملی مظاہرہ کرنے سے گریز کیوں کرتے ہیں؟ مجھے آپ سے امید ہے کہ میرے سوال پر آپ ذرا باریک بینی سے غور فرماکر جواب ضرور تحریر کریں گے“۔
عزیزم! جو مولانا صاحب آپ کو اپنے واقف مولانا صاحب کے پاس لے گئے تھے، ہمیں ان کی نیکی اور شرافت پر کوئی شبہ نہیں، البتہ ان کی سادہ لوحی اور کم علمی میں کوئی کلام نہیں، خدا معلوم انہوں نے آپ کے والد سے یہ کیوں کہا کہ مذکورہ مولانا کے پاس کسی کا بخشا ہوا جن ہے جسے وہ مریض کے جسم میں داخل کرکے ”روحانی الٹراساو ¿نڈ“ کا کارنامہ انجام دیتے ہیں، اب جنات سے ایسے کام لیے جائیں گے؟ یہ تو جنات کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، حضرت سلیمان ؑ نے تو اس مخلوق سے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا تھا، بہر حال آپ کا اور پیش امام صاحب کا خیال غلط ہے، مذکورہ مولانا صاحب نے یقینا اپنی روحانی صلاحیت سے کام لے کر آپ کے جسم میں موجود تکلیف اور متاثرہ حصے کا اندازہ کیا ہوگا اور آپ کی جو کیفیت بھی اس وقت ہوئی ، وہ ان کے روحانی عمل کی بدولت ہوئی ہوگی لیکن اس میں ہمیں کسی جن کی موجودگی نظر نہیں آتی۔
کپ میں موجود تیل میں دیکھنا حاضرات کی ایک قسم ہے، وہ اس عمل کے عامل رہے ہوں گے، بعض جفری طریقے اور نجوم کے کلیے جسم میں بیماری کی قسم یا متاثرہ حصے کی نشان دہی کردیتے ہیں، اس کے علاوہ ہیپناٹزم کے ذریعے بھی انسان کو ٹرانس میں لاکر ایسی کیفیت طاری کی جاسکتی ہے، جیسی آپ پر طاری ہوئی۔
آپ کا آخری سوال خاصا دلچسپ اور توجہ طلب ہے اور آپ کے اس سوال میں ہی آپ کے لیے ایک اور سوال موجود ہے، وہ لوگ جو جنات پر قابض ہونے اور انہیں اپنے اشاروں پر چلانے کے دعوے دار ہوں، آپ کے سوال کا جواب تو دراصل ان پر ہی قرض ہے، آپ یہ غور کریں کہ جو مخلوق آپ کے جسم میں داخل ہوسکتی ہے، کیا وہ صرف اندرونی اعضا کے بارے میں اطلاع ہی دے سکتی ہے؟ ان کی اصلاح و درستی نہیں کرسکتی؟ مولانا کو اس سلسلے میں کون سا امر مانع تھا کہ وہ اپنے غلام جن سے آپ کا علاج بھی کرادیتے؟ اس سوال پر آپ غور فرمائیے۔
ہمارے نزدیک تویہ مفروضہ ہی لغو ہے کہ کوئی کسی کو جن بخش دے، مو ¿کل عطا فرمائے، جنات و مو ¿کلات کی تسخیر آسان کام نہیں، لوگ اس راستے میں پوری زندگی تباہ کرلیتے ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر کسی کو کامیابی نصیب بھی ہوجائے تو اس کی اپنی زندگی بڑی محدود ہوکر رہ جاتی ہے، وہ خود سخت پابندیوں کا شکار رہتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسی قوتوں کو اپنا پابند بنانے کے لیے خود بھی کچھ پابندیوں کو قبول کرنا پڑتا ہے جو کم از کم ہماری معلومات کے مطابق کسی دنیا دار انسان کے بس کا کام نہیں، ایسے لوگ دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور اپنا راز کسی پر ظاہر نہیں کرتے۔
اب رہ گئی دوسری شکل، جس کا ہم ایک بار محمد یونس صاحب اور مولانا جان محمد صاحب کے حوالے سے تذکرہ کرچکے ہیں کہ محمد علی آتشی نامی جن ان کے پاس تھا، وہ صورت خود مختارانہ اور آزادانہ ہے، اس میں پابندی نہیں ہے، جان محمد صاحب کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہوا اور ان کے ساتھ رہنے لگا، ان کے انتقال کے بعد کبھی کبھی یونس صاحب سے بھی رابطہ کرلیتا تھا مگر اپنی مرضی سے، ایسے واقعات بہت ہیں کہ اپنی مرضی سے جنات انسانوں سے رابطہ کرلیتے ہیں، وہ ان کے اشاروں کے پابند نہیں ہوتے یعنی ان کے محکوم یا غلام نہیں ہوتے، بعض کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور بعض پر مہربان بھی ہوتے ہیں مگر ان کی مہربانیوں کے پیچھے پھر ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔
مشہور ہے اور ہم نے کئی معتبر افرادسے سنا کہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (مرحوم و مغفور بانی جامعہ دارالعلوم ،کورنگی کراچی) کے پاس جنات کے بچے قرآن شریف پڑھنے آیا کرتے تھے، بعض لوگ بتاتے ہیں کہ اکثر رات کو آپ کے حجرے سے قرآن پڑھنے اور کبھی کبھار بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی آوازیں آیا کرتی تھیں، آپ ؒ نے خود کبھی اس حوالے سے کوئی اظہار نہیں کیا، آپ کے لائق و فائق صاحب زادگان مفتی محمد رفیع عثمانی، محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد ولی رازی صاحب آج بھی بقید حیات ہیں اور وہ یقینا اس بات سے آگاہ ہوں گے ، دیگر علماءکے حوالے سے بھی جنات سے ربط و ضبط کی خبریں ملتی ہیں مگر یہ صورت ہمیشہ آزادانہ اور اختیارانہ رہی ہے۔
صحابی جن
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا وہ واقعہ تو بہت ہی مشہور ہے جس میں آپ نے ایک صحابیءرسول جن کو دیکھا، یہ واقعہ آپ نے اپنی کسی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے، کتاب کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک سانپ کا بچہ اندر آگیا، میں نے چاقو سے اس کے دو ٹکڑے کردیے اور باہر پھینک دیا، دوسری رات دروازے پر دستک ہوئی، دو افراد موجود تھے اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تھے تاکہ کسی شرعی مسئلہ پر بات کرسکیں، شاہ صاحب ان کے ساتھ چلے گئے، یہ واقعہ دہلی کا ہے، وہ دونوں شاہ صاحب کو دہلی میں کوٹلہ فیروز شاہ کے عقب میں لے گئے اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی، باقی راستہ اسی طرح طے ہوا۔
بقول شاہ صاحب، جب ہم کسی منزل پر پہنچ کر رکے اور میری آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی تو میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑے ہال میں کھڑا ہوں اور وہاں کسی بادشاہ کے دربار کا سا ماحول ہے، سامنے تخت شاہی موجود تھا جس پر ایک بادشاہ اور اس کے سامنے دونوں اطراف میں امراءوغیرہ با ادب بیٹھے تھے۔
شاہ صاحب کو دیکھ کر بادشاہ نے سلام کیا اور نہایت نرم لہجے میں کہا ”آپ کو اس طرح زحمت دینے کی وجہ ایک شرعی مسئلے میں آپ سے رہنمائی درکار ہے“ 
شاہ صاحب نے فرمایا” پوچھیے“ تو بادشاہ نے پوچھا کہ قتل عمد کی شریعت میں کیا سزا ہے؟ شاہ صاحب نے بلا تامل جواب دیا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی مسلمان کا خون بہاتا ہے، سزا کے طور پر اسے بھی ہلاک کیا جائے گا، بادشاہ نے پھر تنبیہ کے انداز میں پوچھا، ایک بار اور غور کرلیجیے، آپ نے پھر وہی دو ٹوک جواب دیا تو بادشاہ کے اشارے پر ایک سفید چادر اٹھا دی گئی جس کے نیچے ایک بچے کی دو ٹکڑے ہوئی لاش موجود تھی۔
شاہ صاحب نے لاش کی جانب دیکھا اور مسکرائے، پھر فرمایا” کل یہ ایک ایسی شکل میں میرے سامنے آیا کہ اس کا قتل مجھ پر واجب ہوگیا“ پھر سانپ کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کی حدیث سنائی۔
”قتل الموذی قبل الایذائ“ موذی کو ایذا دینے سے پہلے قتل کردو۔
شاہ صاحب کے اس ارشاد کے بعد پورے دربار میں سرگوشیاں شروع ہوگئیں، اچانک پچھلی صفوں سے ایک جن بزرگ کھڑے ہوئے، بقول شاہ صاحب ان کی پلکیں بھی سفید تھیں اور چہرا نورانی تھا، انہوں نے با آواز بلند فرمایا”شاہ صاحب درست فرمارہے ہیں، یہ حدیث میں نے خود رسالت مآب کی زبانی سنی ہے“۔
بقول شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ان بزرگ کی اس تصدیق پر میں حیران رہ گیا کہ اس دربار میں ایک صحابی بھی موجود ہیں اور میرے لیے تو یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ ان کی زیارت کر رہا ہوں، شاید اسی اعزاز و سعادت کی وجہ سے جو خود کو تابعی بھی کہتے تھے۔
بہر حال اس کے بعد دربار میں سناٹا چھاگیا اور بادشاہ نے شاہ صاحب سے زحمت کے لیے معذرت کی پھر نہایت عزت و احترام سے آپ کو واپس روانہ کردیا، یہ واقعہ بعض کتب میں دوسرے انداز میں بھی بیان ہوا ہے، برسبیل تذکرہ درمیان میں آگیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جنات کی عمر یں بہت زیادہ ہوتی ہیں، ظاہر ہے کہ شاہ عبدالعزیزؒ کے دور میں مذکورہ بالا بزرگ جن کی عمر یقینا ہزار سال سے تو اوپر ہی ہوگی۔

ہفتہ، 15 اپریل، 2017

نے ہاتھ باگ پہ ہے،نہ پا ہے رکاب میں

ہمزاد یا شیطان کی اصلیت و حیثیت اور کارگزاریاں
15 اپریل سے ایسے وقت کا آغاز ہوچکا ہے جو پاکستان کے زائچے میں منفی اور مثبت دونوں اعتبار سے نمایاں اثرات سامنے لائے گا، خاص طور پر 15 مئی تک بہت سے غیر معمولی حالات و واقعات سامنے آنے کی توقع کی جاسکتی ہے،ممکن ہے مشہور زمانہ پاناما کیس کا فیصلہ بھی اسی دوران میں سامنے آجائے، سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ایک یادگار اور ہمیشہ یاد رہنے والا فیصلہ قرار دیا ہے،اگرچہ فریقین اپنی اپنی فتح و کامیابی کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت دونوں ہی خوف زدہ ہیں، تحریک انصاف کم اور ن لیگ زیادہ کیوں کہ تحریک انصاف کے نقصان کا معاملہ تو بقول غالب یہ ہے 
گھر میں تھا کیا کہ تِرا غم اسے غارت کرتا
وہ جو ہم رکھتے تھے اِک حسرت تعمیر سو ہے
البتہ دوسری جانب خوف و خطر زیادہ ہیں لہٰذا پیش بندیاں بھی زیادہ کی جارہی ہیں، بہر حال جیسا کہ ہم نے اس سال کی ابتدا میں بھی نشان دہی کی تھی کہ جون کے بعد حکومت کے حوالے سے خاصا عدم استحکام نظر آتا ہے اور نئے الیکشن کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر عمران خان موجودہ الیکشن کمیشن سے مطمئن نہیں ہیں،وہ انتخابی طریق کار میں اصلاح چاہتے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ موجودہ انتخابی طریق کار کو ہی اپنے لیے مفید سمجھتی ہے،بہر حال جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ سیاسی تماشا شروع ہوا چاہتا ہے،تمام مداری اپنے کھیل تماشوں کے ساتھ میدان میں کودنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں، اپنے اپنے پینتریں بدل رہے ہیں مگر آسمانی کونسل کے فیصلے اپنی جگہ ہیں ، اس موقع پر مرزا غالب کا ایک اور شعر قابل غور ہے 
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پہ ہے،نہ پا ہے رکاب میں 
ہمزاد یا شیطان 
ہمزاد، قرین نسمہ جسے انگریزی میں اورا (Aura) کہا جاتا ہے، یہ انسان کے ساتھ پیدا ہونے والا شیطان یا جن ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف قرآن و حدیث سے ثابت ہے بلکہ موجودہ دور میں سائنسی ذرائع سے بھی اس کا وجود ثابت ہوچکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ غیر مسلم ماہر روحیات اسے انسانی روح ہی قرار دیتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے، وہ روح جسے اللہ نے آدم اور اولاد آدم میں پھونک دیا ہے کچھ اور ہی شے ہے اور قرآنی الفاظ میں امر ربی ہے جس کے بارے میں جاننا ہَما شُما کا کام نہیں، بس اللہ جسے توفیق دے۔
روح تمام جان داروں میں زندگی کی علامت اور سبب ہے، علماءاور مفسرین اس سلسلے میں آیات و احادیث کی جو تشریحات کرتے ہیں، اس میں خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ انسان روح، نفس اور جسد خاکی سے مرکب ہے ، بعض کا خیال ہے کہ روح اور نفس ایک ہی ہیں، بعض انسانی جسم میں دو روحوں کی بات کرتے ہیں اور ایک کو نہایت لطیف قرار دیتے ہیں جو تمام بدن میں جاری و ساری ہے جب کہ دوسری انسانی جسم کے گرد حصار کیے ہوئے ایک ہالے (پیکر نور) کی شکل میں ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روح شکم مادر کے اندر بچہ میں فرشتہ پھونکتا ہے وہ جسم سے ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم سے متصل روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جاسکتا، اسی طرح نفس بھی نہیں کہا جاسکتا۔
قصہ مختصر یہ کہ روح نفس اور مادے کی اصل ہے اور نفس اس کے بدن کے ساتھ اتصال سے مرکب ہے، پس روح ایک وجہ سے نفس ہے نہ کہ تمام وجوہ سے، یہ تو تھے نظریات و اقوال مفسرین۔
ہمارا مو ¿قف وہی ہے جو مستند صوفیاءو اولیاءکا ہے یعنی روح چوں کہ امر ربی ہے، ہمارے رب کا حکم ہے لہٰذا دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے ، اس سلسلے میں حضرت بابا تاج الدین اولیائ، قلندر بابا اولیاؒ کے ارشادات و تحقیق زیادہ معتبر اور قابل قبول ہیں، ماضی میں اس حوالے سے شیخ اکبر ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ارشادات قابل توجہ ہیں۔
یہاں کتب احادیث سنن اور داو ¿د، جامع ترمذی، موطا امام مالک اور مشکوٰة میں یہ حدیث بھی ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ میدان عرفات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو قیامت تک پیدا ہونے والی تمام روحیں چیونٹیوں کی شکل میں زرد و سفید اور سیاہ نمودار ہوگئیں اور مسند احمد اور مشکوٰة میں ہے کہ ان کی الگ الگ جماعتیں نبیوں اور ولیوں کی قائم کیں، اسی طرح مسلمانوں اور کافروں ، نیکوں اور بدکاروں کی الگ الگ جماعتیں کرکے سب کی وہی صورتیں بنائیں جو دنیا میں ہوں گی، اس سے ثابت ہوا کہ روح ایک جداگانہ مخلوق ہے جو پیدا شدہ ہے۔
 اسلام میں ایک عقیدہ معاد ہے، معاد کے معنی ہیں جائے باز گشت یعنی لوٹنے اور واپس جانے کی جگہ،اس عقیدے سے مراد یہی ہے کہ جو روح اس مادی دنیا میں آئی ہے وہ پھر واپس چلی جائے گی اور مادی جسم جو اس دنیا سے منسوب ہے اسی دنیا میں رہ جائے گا، روح سے ہی ”عہد الست“ لیا گیا ہے یعنی اللہ نے تمام روحوں کو تخلیق کرنے کے بعد پوچھا”الست بربکم؟“ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب روحوں نے بیک زبان جواب دیا ”قالو بلیٰ شھدنا“ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے لہٰذا اسی بنیاد پر روح سے ہی اعمال کی باز پرس بھی ہوگی۔
 اب آئیے دوبارہ ہمزاد کی طرف جسے ہمارا ساتھی جن یا شیطان بھی کہا گیا ہے اور ہم ابتدا میں عرض کرچکے ہیں کہ اس کا وجود حضور اکرم ﷺ کے ارشادات سے بھی ثابت ہے اور قرآن حکیم کے فرمودات سے بھی، اسے شیطان یا جن اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ بخاری شریف میں یہ حدیث موجود ہے” شیطان انسان میں خون کی جگہ دوڑتا ہے “ مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ”اے عائشہ! تجھ پر تیرا شیطان غالب آگیا“
میں نے کہا ”یا رسول اللہ ﷺ کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟“
 فرمایا ” ہاں“
 میں نے کہا کہ کیا ہرآدمی کے ساتھ شیطان ہے؟ فرمایا ”ہاں، میرے ساتھ بھی مگر میرے پروردگار نے مجھ کو اس پر غالب کردیا یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے“۔
 ان احادیث میں اکثر شیطان اور قرین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جہاں انسان کے ساتھی ہمزاد کا ذکر آیا ہے، مسلمان صوفیائے کرام نے اسے نسمہ، پیکر نور، پیکر مثالی وغیرہ کا نام دیا، مغرب یا غیر مسلم ماہرینِ روحیات اسے اورا ،اسٹرل باڈی، ہالہ نورانی، جسم لطیف وغیرہ کا نام بھی دیتے ہیں، انسان کی موت کے بعد روح اپنے مقررہ مقام کی طرف واپس چلی جاتی ہے جہاں اس کے لیے مخصوص احکام ہیں، دنیا کا اس سے کوئی رابطہ نہیں رہتا، نہ ہوسکتا ہے، نہ ہی دوبارہ دنیا اور دنیا والوں سے رابطے کی اسے ضرورت رہتی ہے، البتہ یہ ساتھی جن یا ہمزاد انسان کی موت کے بعد آزاد ہوجاتا ہے، ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر مرنے والے کی تجہیز و تکفین اسلامی طریقے پر کی جائے اور دفن کرتے وقت تین مٹھی مٹی پر مخصوص دعا پڑھ کر قبر میں ڈال دی جائے، جیسا کہ طریقہ ہے تو مرنے والے کا ہمزاد بھی قبر میں محصور ہوجاتا ہے اور بھٹکنے سے بچ جاتا ہے، بہ صورت دیگر وہ غول بیابانی یا اپنے ہی جیسے آوارہ شیاطین کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے، بعض اوقات انسان یا جنات عاملین بھی ایسے ہمزاد کو اپنے تابع کرلیتے ہیں، خصوصاً ہندو ¿ں کے ہمزاد کو، خیال رہے کہ ہندو مذہب میں چوں کہ مردے کو جلانے کی رسم ہے لہٰذا اس عمل سے مردے کا ہمزاد بھی غسل آتشی کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ جنات سے قریب ہوجاتا ہے، یہی صورت دریا میں بہانے یا لاش کو بے گوروکفن گدھوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دینے سے پیدا ہوتی ہے، ہمزاد آزاد ہوکر اپنی من مانی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
عملِ ہمزاد 
اس سلسلے میں ایک عمل بہت مشہور ہے جو ماہرین سفلیات کا پسندیدہ ہے، کسی نابالغ ہندو لڑکے کی لاش کو مٹی کے کونڈے میں غسل دے کر مخصوص عمل پڑھا جاتا ہے اور بعد ازاں وہ تیل کسی بوتل میں محفوظ کرلیتے ہیں، اب جب بھی لڑکے کے ہمزاد کو طلب کرنا ہو تو تیل چراغ میں ڈال کر چراغ روشن کیا جاتا ہے تو اس لڑکے کا ہمزاد حاضر ہوجاتا ہے پھر اس سے مخصوص کام لیے جاتے ہیں، خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی۔
قرین یا ہمزاد اپنی آزادی کے بعد سخت عذاب ناک حالت میں رہتا ہے اور خلق خدا میں شروفساد پھیلانے پر آمادہ ہوتا ہے ، البتہ اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی زندگی میں نیک اور صالح تھے جنہوں نے اپنے تقویٰ، اطاعت الٰہی اور اتباع رسول ﷺ سے اپنے ہمزاد پر غلبہ حاصل کرلیا تھا ان کا ہمزاد ان کی موت کے بعد کسی فتنہ و فساد اور شر میں ملوث نہیں ہوتا اور اپنی قبر تک ہی محدود رہتا ہے، شیاطین کے گروہ سے بھی دور رہتا ہے لیکن اس کے برعکس صورت میں وہ موقع ملنے پر کسی شرارت سے باز نہیں آتا، خلق خدا کو نقصان پہنچانا، گمراہ کرنا اس کا مشغلہ بن جاتا ہے، خواتین خصوصاً اس کا ہدف بنتی ہیں، ایسے مرد اور عورتیں جو قرین کا شکار یا آلہ کار بنتے ہیں ”مقرون“ کہلاتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں حاضری سواری کے کیسوں میں یہ صورت دیکھنے میں آتی ہے۔
دوسری قسم کا جن
ایک دس بارہ سالہ لڑکا آسیب زدہ تھا، اس پر بے ہوشی کی کیفیت طاری تھی ، اسی عالم میں جب اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا گیا تو اس نے بتایا کہ میں جن ہوں، پوچھا گیا کہ کس قبیلے سے تعلق ہے؟ تیرے خاندان والے کہاں ہیں تو جواب میں اس نے کہا کہ میرا کوئی قبیلہ اور خاندان نہیں ہے، میں دوسری قسم کا جن ہوں، پھر دوسری قسم کی تفصیل یہ بتائی کہ پہلی قسم کے جنات وہ ہوتے ہیں جو ایک خاص طرز بودوباش رکھتے ہیں، آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں اولاد بھی ہوتی ہے، ان کا خاندان بھی ہوتا ہے لیکن دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو کسی انسان سے تعلق رکھتی ہے یعنی انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے لہٰذا میں دوسری قسم سے ہوں، میرا باقاعدہ کوئی خاندان نہیں ہے، جیسا کہ پہلی قسم کے جنوں کا ہوتا ہے، قرین کی ایک قسم جو خواتین کے لیے مسئلہ بنتی ہے، وہ ”مسان“ کہلاتی ہے، اس کی وجہ سے بے اولادی یا بچوں کا پیدا ہونے سے قبل یا بعد میں مرجانا ہوتا ہے ، غیر تسلی بخش صحت کے معاملات اگر زمانہ ءحمل میں بھی جاری رہیں اور نوماہ کی مدت سے پہلے بھی اسقاط حمل یا وضع حمل ہوجائے تو مردہ بچے کا قرین اس وقت تک تنگ کرتا رہتا ہے جب تک معقول علاج معالجہ نہ کرالیا جائے، یہ قرین بچوں کی پیدائش عمل کو بھی روکتا ہے اور عورت کی صحت تباہ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے، ایسے قرین عامل کی کوششوں سے بھی نہیں بولتے کیوں کہ بولنا ، بات کرنا تو اسے آتا ہی نہ تھا۔
قرین کے پریشان کرنے کی ایک صورت اور بہت عام ہے جس میں کسی شخص کا قرین اس کی زندگی میں اس کے لیے عذاب بن جاتا ہے، اسے بگڑا ہوا قرین کہتے ہیں، ایسا کسی ذہنی و نفسیاتی بیماری یا کسی چلے وظیفے میں رجعت کے سبب ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں انسان کا ذہنی توازن درست نہیں رہتا، وہ مجنون اور فاتر العقل ہوکر رہ جاتا ہے یا مجذوب کہلاتا ہے، آپ نے اکثر ایسے لوگوں کو کچرا چنتے یا سڑکوں پر چیختے چلاتے عجیب عجیب حرکتیں کرتے دیکھا ہوگا، ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی جسمانی قوت اور برداشت غیر معمولی حد تک بڑھی ہوئی ہوتی ہے مثلاً شدید سردی میں برہنہ یا شدید گرمی میں نہایت گرم لباس میں ملبوس نظر آئیں گے ، نہ کسی سے کچھ لینا، نہ کھانا پینا یا اگر کھانے پر آجائیں تو کئی افراد کی خوراک اکیلے کھا جائیں، ان کی زبان سے نکلی ہوئی مہمل اور بے معنی باتیں اکثر پوری ہوجاتی ہیں اور لوگ ان سے عقیدتیں بھی وابستہ کرلیتے ہیں، الغرض یہ بھی بگڑے ہوئے قرین کی ایک شکل ہے مگر ان کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان کی تیمار داری ایک فل ٹائم جاب ہے۔
دنیا بھر میں ہمزاد یا اورا کے بارے میں تحقیق و تفتیش صرف ماہر روحیات نے ہی نہیں کی بلکہ سائنس دانوں نے بھی اس موضوع پر داد تحقیق دی ہے، سب سے پہلے سابقہ سویت یونین میں اس حوالے سے اورا کی تصویر لینے کا اہتمام کیا گیا، اس مقصد کے لیے مخصوص کیمیکلز استعمال کیے گئے اور مخصوص کیمرا تیار کیا گیا، چناں چہ پہلی مرتبہ ہمزاد کی ہفت رنگ تصویر سامنے آئی بعد ازاں بہت زیادہ جدید کیمرے سامنے آگئے اور ایسی کمپیوٹرائزڈ مشینیں تیار ہوگئیں جو باآسانی آپ کے ہمزاد کی خرابیوں پر روشنی ڈالتی ہے،دنیا کے بے شمار ممالک میں ان مشینوں سے کام لیا جاتا ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ہمزاد کو قابو کرنے کے عمل ڈھونڈتے پھرتے ہیں، کتابوں اور رسالوں میں ایسے عملیات کی بھرمار ہے لیکن ایک بھی ایسا دعوے دار سامنے نہیں آتا جو اپنا دعوی ثابت کرسکے، ہمارے ایک شاگرد نے بتایا کہ آپ کے پاس آنے سے پہلے میں بہت سے ایسے افراد سے ملا جو بڑے بڑے زبردست قسم کے ہمزاد اور جنات کو قابو میں کرنے کے عملیات رسالوں میں یا اپنی کتابوں میں دیتے ہیں،انہی میں سے ایک عامل سے میں نے رابطہ کیا اور فرمائش کی کہ آپ کا عمل ہمزاد کی تعلیم دینے کا ہدیہ نذرانہ میں اُس وقت پیش کروں گا جب آپ اپنے قابو کیے ہوئے ہمزاد سے میری ملاقات کرادیں، انہوں نے انکار کردیا، واضح رہے کہ عمل ہمزاد کی تعلیم اور تربیت کے لیے انہوں نے اپنی فیس کے پچاس ہزار روپے طلب کیے تھے۔
ہماری نئی نسل کے ناکام و نامراد افراد جو بنیادی طور پر سہل پسندی کا شکار ہیں اور راتوں رات دولت مند بننا چاہتے ہیں یا اپنے دشمنوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں، عملیات ، چلّے، وظائف کی طرف اسی ہمزاد کے چکر میں متوجہ ہوتے ہیں،ایسے بہت سے نوجوانوں سے ہمارا رابطہ ہوا ہے،انہوں نے جعلی نام نہاد عاملوں اور کاملوں کے چکر میں پڑکر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لٹائے اور تباہ و برباد ہوگئے، اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جنہوں نے تسخیر ہمزاد کے چکر میں ادھر اُدھر سے سنے سنائے یا کسی کے بتائے ہوئے عمل پڑھے اور پھر اپنا حال اور مستقبل دونوں برباد کرلیے،حدیہ کہ نفسیاتی مریض بن گئے، اللہ بس باقی ہوس۔

ہفتہ، 1 اپریل، 2017

اپریل میں شرفِ زہرہ و شمس کا نادر و موثر موقع


لوح تسخیر اعظم کے نایاب و مجرب نقش کا تحفہ ءخاص
نئے سال 2017 ءمیں سیارہ زہرہ کو دو بار شرف کی قوت حاصل ہورہی ہے،پہلی بار 30 تا 31 جنوری زہرہ درجہ ءشرف پر رہا بعد ازاں 4 مارچ کو برج حمل میں اسے رجعت ہوگئی اور بحالت رجعت اپنے شرف کے برج کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوگیا، چناں چہ دوسری بار پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 13 اپریل 12:22 pm سے شرف کے درجے پر دوبارہ آمد ہوگی اور یہ آمد عام معمول سے مختلف ہوگی یعنی 17 اپریل 18:47 pm تک سیارہ زہرہ درجہ ءشرف پر رہے گا۔
13 اپریل کو درجہ ءشرف پر واپسی بحالت رجعت ہوگی اور اسی درجے پر استقامت کا عمل ہوگا، گویا یہ زہرہ کی اسٹیشنری پوزیشن ہوگی جو 17 اپریل تک جاری رہے گی، ہمارے نزدیک کسی سیارے کا ایک ہی درجے پر مستقیم حالت میں دیر تک قیام نہایت طاقت ور اثرات کا حامل ہے،اتفاق سے یہ زہرہ کے شرف کا درجہ بھی ہے۔
قدیم اصول و قواعد کے مطابق حالت رجعت میں سیارے کو کمزور قرار دیا گیا ہے،واضح رہے کہ یہ قدیم اصول و قواعد تقریباً دو ہزار سال پہلے یونانی علم نجوم کے باوا آدم بطلیموس کے مرتب کردہ ہیں اور بعد میں ان میں کبھی کوئی ترمیم و اضافہ نہیں کیا گیا لیکن مختلف زمانوں میں بعض ماہرین فلکیات نے بعض اصولوں پر اعتراض ضرور کیا ہے،یہاں تک کہ شرف و ہبوط کے درجات بھی بعض ماہرین کے نزدیک متنازع ہیں۔
عزیزان من! قدیم زمانے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، وہ حرف آخر نہیں ہیں، اگر علم نجوم ایک سائنس ہے، کوئی غیب کا علم نہیں ہے تو اس میں نئے نظریات اور نئے اصولوں کو جدید تحقیق کی روشنی میں اختیار کرنا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ علمی اصولوں کو بہتر اور زیادہ کارآمد بنانے کے مترادف ہے،لکیر کے فقیر بنے رہنا کسی بھی علم و فن کی ترقی کا باعث نہیں ہوسکتا۔
ہمارے نزدیک سیارہ زہرہ کا دوسرا شرف جو اس سال اپریل میں ہوگا، بہت سے ماضی کے شرفات سے زیادہ مو ¿ثر اور باقوت ہوگا کیوں کہ زہرہ اپنے شرف کے درجے پر معمول کے وقت سے زیادہ عرصے تک قیام کرے گا، اس مو ¿ثر ترین شرف کے موقع پر ہم ایک نادر روزگار نقش قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں جو اپنی تاثیر اور افادیت میں لاجواب ہے، ہمارا مجرب المجرب ہے اور ہم نے کبھی اس نقش کے اثرات کو فیل ہوتے نہیں دیکھا، اس لوح کا نام ہم نے ”لوح تسخیر اعظم“ رکھا ہے کیوں کہ سورئہ توبہ کی جو آیت مبارکہ اس نقش میں استعمال ہوئی ہے اس کے بارے میں تقریباً تمام ہی علمائے جفر کا اتفاق ہے کہ یہ تسخیر کی سب سے زیادہ مو ¿ثر ترین آیت ہے، اس آیت کا نمبر سورئہ توبہ میں 128,129 ہے اور سورئہ توبہ کی آخری دو آیات میں شمار ہوتی ہے۔
لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم باالمومنین رو ¿ف رحیم فان تولوا فقل حسبی اللہ لاالہ الا ھوا علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم
زیر نظر لوح اسی آیتِ مبارکہ سے مرتب کی گئی ہے جو یہ ہے
نقش کی چال کے لیے درمیان کے چار خانے رہنمائی کریں گے،خانہ نمبر 1 سے شروع ہونے والی آیت خود اپنا رُخ متعین کرتی ہے اور آخری خانے تک ترتیب وار پُر کی جائے گی،اسی طرح خانہ نمبر 2 سے جو آغاز ہوگا وہ بھی ترتیب وار نقش کے کسی کونے تک جائے گا، گویا مکمل آیت نقش میں چار بار لکھی جائے گی،آیت کا آغاز درمیان سے ہوگا اور اختتام چاروں کونوں میں سے کسی ایک کونے پر ، یہی اس نقش کی چال ہے۔
ہم نے یہاں سادہ نقش دیا ہے لیکن اصول نقش اور قواعد عملیات کی مکمل پابندی ضروری ہوگی یعنی قولہ الحق ولہ الملک کے ساتھ نقش کے دائیں بائیں حمعسق اور کھیعص کے ساتھ تمام ملائکہ و دیگر مو ¿کلات بھی لکھے جائیں گے۔
13 اپریل کو شرف کا آغاز ہوگا تو قمر در عقرب ہوگا لہٰذا 14 اپریل سے جب قمر برج قوس میں داخل ہوجائے گا تو سیارہ زہرہ کی ساعتیں اس نقش کو تیار کرنے میں معاون ہوں گی، یہی نقش شرف شمس میں بھی تیار کیا جاسکتا ہے،اس سلسلے میں فرق یہ ہوگا کہ اگر تسخیر امراءو حکام مقصود ہو ، دنیا میں اعلیٰ مقام و مرتبہ درکار ہو تو اس نقش کو شرف شمس میں تیار کریں،کاغذ پر لکھیں تو عرق گلاب میں مشک و زعفران و امبر ملالیں،چاندی یا سونے پر بھی تیار کرسکتے ہیں اور تانبے پر بھی لکھا جاسکتا ہے،بخورات شرف کی مناسبت سے جلائے جائیں اور خوشبویات بھی اسی مناسبت سے یعنی زہرہ کے وقت پر زہرہ کے بخور اور خوشبو اور شمس کے وقت پر شمس کے بخور اور خوشبو، رجال الغیب کا خیال رکھا جائے۔
شرف زہرہ میں تیار کردہ نقش تسخیر عام کے لیے کارآمد ہوگا،کاروباری ترقی ، عام لوگوں میں مقبولیت اور شہرت ، شادی میں رکاوٹ اور بندش وغیرہ کے لیے مجرب ہے،اگر کاغذ پر لکھ کر فریم کراکے دکان یا مکان میں لگائیں تو کاروبار ترقی کرے گا اور گھر میں محبت و اتفاق اور خیروبرکت خوب ہوگی، الا ماشاءاللہ۔یہ ایک ایسا تحفہ جسے آپ کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔
نقش یا لوح کی تیاری کے بعد کسی بھی نوچندی جمعرات کو 111 مرتبہ مکمل آیت شریف پڑھ کر لوح پر دم کریں اور پہن لیں، بعد ازاں روزانہ 111 مرتبہ اپنے ورد میں رکھیں،انشاءاللہ حیرت انگیز نتائج ملاحظے میں آئیں گے۔