جمعہ، 24 ستمبر، 2021

آتی جاتی سانس کی پراسرار کرشمہ کاریاں(3)

زندگی کے روزمرہ مسائل کا حل اور صحت مندی کا راز


اب تک ہم علم النفس کے حوالے سے کافی معلومات اپنے قارئین کی نذر کرچکے ہیں ۔ آیئے اس موضوع کے مزید اسرار و رموز کی جانب چلتے ہیں۔

اگر کسی دن خلاف معمول قمری سُر چلنے کے بجائے شمسی سُر چل گیا یعنی چاند کی تاریخوں کے مطابق قمری سُر چلنا چاہئے تھا لیکن شمسی چل پڑا اور 2 گھنٹے تک برابر چلتا رہا تو کوئی چیز گم ہوجائے گی اور کسی جھگڑے فساد کا امکان بھی ہوسکتا ہے ۔ اگر خلاف معمول سُر 2 گھنٹے کے بجائے 3 گھنٹے تک جاری رہا تو کسی دوست سے صدمہ پہنچے گا ، اگر 4 گھنٹہ چلے تو عزیزواقارب سے کوئی رنج پہنچے گا ،اگر پانچ گھنٹہ تک جاری رہا تو بیماری کا خطرہ ہے ۔اگر 6 گھنٹہ جاری رہے تو کسی دشمن سے خطرہ ہوگا، اگر 24 گھنٹے تک جاری رہے تو یہ بہت ہی خطرناک بات ہوگی ، سمجھ لیں کہ موت قریب ہے ۔

اسی طرح اگر اصولی طورپر شمسی سُر جاری ہونا تھا لیکن قمری چل پڑا تو یہ تبدیلی کوئی خوشی لائے گی ، جتنے زیادہ وقت تک یہ سانس چلے گی ، اتنی ہی بڑی خوشی حاصل ہوگی لیکن کوئی تنزلی بھی ہوگی کیونکہ یہ تبدیلی ترقی بہ تنزلی کہلاتی ہے۔

علاج بالنفس

اگر کسی شخص کو حرارت ہوجائے یعنی بخار کا غلبہ ہو تو چونکہ حرارت کا تعلق شمسی نفس سے ہے اس لئے مریض کا شمسی سانس نہ چلنے دیں بلکہ داہنے نتھنے میں روئی رکھ دیں اور مریض کو داہنی کروٹ پر لٹائے رکھیں تاکہ قمری سُر چلتا رہے ، اس عمل سے بخار کی شدت کم ہوجائے گی اور اگر یہ عمل مستقل جاری رکھا گیا تو بخار ختم ہوجائے گا ۔ اسی طرح اگر نزلہ زکام گرمی کے سبب ہوا ہو تو بھی شمسی سُر کو روکیں اور قمری سُر جاری کریں تو فوری افاقہ ہوگا ۔ جگر کی گرمی ، معدے کی گرمی یا اور بھی ایسی بیماریاں جس کا تعلق گرمی یا گرم اشیا کے استعمال سے ہو، اس طریقے پر درست کی جاسکتی ہےں۔

بالکل اسی طرح ایسی بیماریاں جن کا تعلق سردی یا ٹھنڈی اشیا کے استعمال سے ہو ، ان کے علاج کے لئے قمری سُر کو روکیں اور شمسی سُر چلائیں ۔ شمسی سُر چلانے کے لئے بائیں نتھنے میں روئی وغیرہ ڈالیں اور بائیں کروٹ سے لیٹیں، شمسی سُر کا چلتے رہنا سردی سے متعلق شکایات اور بیماریوں میں آرام دے گا ۔ اسی طرح شدید گرمی کے موسم میں قمری سُر چلانے سے ٹھنڈک رہتی ہے جبکہ شدید سردی میں اگر شمسی سُر جاری ہوجائے تو بدن گرم ہوجائے گا ۔ ہیضے یا دستوں کی صورت میں اکثر جسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے جو ایک خطرناک علامت ہے ایسی صورت میں مریض کو فوراً بائیں کروٹ سے لٹائیں تاکہ اس کا شمسی سُر جاری ہوجائے تو تھوڑ ی دیر میں جسم گرم ہونے لگے گا اور مرض کی شدت میں کمی آئے گی ۔ 

بدہضمی ، معدے کی کمزوری ، گیسٹرک ، معدے کا بھاری پن ایسی بیماریاں ہیں جو عام ہیں ، اکثر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ کھانا کھانے سے پہلے دیکھیں کہ کون سا سُر چل رہا ہے ۔ اگر قمری سُر چل رہا ہو تو اسے تبدیل کریں اور شمسی سُر میں کھانا کھائیں اور کھانا کھانے کے بعد ہمیشہ پانچ منٹ کے لئے داہنی کروٹ پر لیٹ جایا کریں ۔ اس مختصر سے عمل سے معدے کی تکالیف دور ہوجائیں گی ، اپنا یہ اصول بنالیں کہ ہمیشہ کھانا شمسی سُر میں کھایا کریں اور پانی قمری سُر میں پیا کریں ، اسی طرح پیشاب کرنا بھی قمری سُر میں فائدہ مند رہتا ہے ۔ 

جسمانی تھکاوٹ ، اعضا ¿شکنی ، غصہ اور پیاس کی شدت وغیرہ اگر ہو تو قمری سُر جاری کریں ، آرام آجائے گا ۔ ہرنیا کی بیماری قمری سُر سے منسوب ہے ، اگر شمسی سُر چلائیں تو ہرنیا یعنی آنت اترنے کی شکایت نہیں ہوگی ۔ 

بہت سے لوگ بے خوابی کے مریض ہوتے ہیں بستر پر لیٹنے کے بعد بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہتے ہیں لیکن نیند نہیں آتی ۔ مجبوراً خواب آور دوائیں استعمال کرتے ہیں ۔ اگر وہ بستر پر لیٹنے سے پہلے قمری سُر چلائیں اور پہلے ایک گلاس پانی کا پی لیں پھر داہنی کروٹ سے لیٹ کر آنکھیں بند کر کے چاند کا تصور قائم کریں گویا وہ اپنے تصور میں ایک روشن چاند کو دیکھ رہے ہیں تو چند لمحوں میں نیند آجائے گی ۔ بے خوابی کے پرانے مریضوں کو ابتدا میں کچھ دشواری پیش آسکتی ہے لیکن وہ مستقل مشق کریں تو چند روزہ مشق کے بعد اس طریقے سے اپنی بے خوابی پر قابو پالیں گے اور خواب آور دواﺅں سے نجات حاصل کرلیں گے ۔ 

سوال و جواب ِنفس

اگر کوئی آپ سے سوال کرے کہ حاملہ کے ہاں لڑکا ہوگا یا لڑکی؟ تو سوال کرنے والے سے معلوم کریں کہ اس کی ناک کا دایاں نتھننا چل رہا ہے یا بایاں ؟ اگر دایاں یعنی شمسی سُر چل رہا ہو تو لڑکا ہوگا اور اگر بایاں قمری سُر چل رہا ہو تو لڑکی ہوگی ۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ خود آپ کا بھی سوال کرنے والے کے ساتھ شمسی سُر ہی چل رہا ہو تو جواب اور بھی مستند ہوجائے گا ، بصورت دیگر کچھ شک کی گنجائش ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح اگر سوال کرنے والے کا بایاں یعنی قمری سُر چل رہا ہو اور آپ کا بھی قمری سُر جاری ہے تو یقینی لڑکی ہونے کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے ۔

اگر کوئی سوال کرے کہ کاروبار میں فائدہ ہوگا یا نقصان تو پہلے اس کا سُر معلوم کریں کہ کون سا چل رہا ہے ۔ اگر قمری چل رہا ہے تو فائدہ ہوگا ، شمسی چل رہا ہوتو فائدے کی امید نہیں ہے اور اگر متاساویہ سانس جاری ہو تو نفع و نقصان برابر ہوگا ۔ 

اگر سوال کیا جائے کہ بیماری سے صحت کب ہوگی ؟ اور سوال کرنے والے کا شمسی سُر چل رہا ہو اور آپ کا بھی شمسی سُر چل رہا ہو تو صحت جلد ہوجائے گی ۔ اگر آپ کا قمری سُر اور سوال کرنے والے کا شمسی سُر چل رہا ہو تو صحت پانے میں تاخیر ہوگی ، اگر دونوں کا قمری سُر چل رہا ہو تو بیماری بہت گہری اور خطرناک ہوگی ۔ اگر نفس متاساویہ چل رہا ہو تو بیماری مہلک یعنی جان لیوا ہوسکتی ہے ۔

کسی مقابلہ آرائی میں اگر یہ سوال ہو کہ فتح کس کو ہوگی اور شکست کسے ؟ تو دونوں فریقین میں سے جس کا شمسی سُر چل رہا ہو ، اسے غلبہ حاصل ہوگا ۔

اگر یہ معلوم کرنا مقصود ہو کہ خبر جھوٹی ہے یا سچی ؟ تو خبر لانے والے کا اگر قمری سُر جاری ہے تو خبرسچی ہے ۔ اگر شمسی سُر چل رہا ہے تو خبر جھوٹی ہے ۔

سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ آپ کسی ایسی جگہ بیٹھیں جہاں آپ کے پاس آنے جانے والے آزادی سے اور اپنی مرضی سے آپ کے ارد گرد یعنی دائیں بائیں بیٹھ سکیں ۔ تب ہی آپ درست جواب تک پہنچ سکیں گے ، سوال کرنے والا اگر آپ کے جاری سُر کی طرف سے آیا ہے یا اس طرف آکر بیٹھا ہے جس طرف کا سُر چل رہا تھا تو جواب اس کے حق میں ہوگا اگر وہ بند سُر کی طرف سے آیا ہے یا آکر بیٹھا ہے تو نتیجہ خلاف ہوگا ۔ مثلاً آپ کا داہنا سُر چل رہا ہے اور ایک شخص داہنی طرف سے ہی آیا ہے اور داہنی طرف ہی بیٹھا ہے تو یہ اشارہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوگا جو سوال وہ پوچھے گا اس کا جواب اثبات میں ہوگا ۔ اگر آپ اپنے سُر کے ساتھ اس کے جاری سُر کا بھی مطالعہ کریں اور دونوں کی موافقت یا نا موافقت کو مدنظر رکھ کر جواب دیں تو جواب 100 فیصد درست ثابت ہوگا ۔ 

جواب حاصل کرنے کا ایک خاص طریقہ

سوال کرنے والے کا نام اور اس دن کا نام لکھیں جب سوال کیا جارہا ہے اس کے سوال کو بھی لکھ لیں اب دیکھیں کہ تینوں کے کُل حرف کتنے ہیں مثلاً سائل کا نام ارشد ہے اور سوال ملازمت کا ہے اس روز دن پیر ہے تو ان تینوں کے کُل حروف کا مجموعہ 13 ہوا۔ ارشد کے حرف 4 ہیں، ملازمت کے حرف 6 ہیں اور پیر کے حرف 3 ہیں، گویا حروف کا مجموعہ طاق ہے ۔ اب اگر آپ کا شمسی سُر چل رہا ہے اور حروف کا مجموعہ طاق ہے تو جواب اثبات میں ہے یعنی کامیابی ہوگی ، ملازمت مل جائے گی یا ملازمت کے حوالے سے جو بھی سوال ہے وہ پورا ہوگا ۔ اگر حروف جفت ہوں اور قمری سُر چل رہا ہو تو بھی جواب اثبات میں ہوگا یعنی کامیابی ہوگی ، اگر صورت حال اس کے برعکس ہو یعنی حروف طاق ہوں اور قمری سُر چل رہا ہو تو جواب انکار میں ہوگا ، کامیابی نہیں ہوگی ، مشکلات پیش آئیں گی۔ اسی طرح اگر حروف جفت ہوں اور شمسی سُر چل رہا ہو تو بھی جواب انکار میں ہوگا ۔ اگر نفس متاساویہ چل رہا ہو تو کامیابی دیر سے ہوگی ۔

حبس دم کی مشق ‘ بے مثال عمل محبت 

عزیزان من! اب تک علم النفس کے موضوع پر خاصی بھرپور گفتگو ہوچکی ہے اور آتی جاتی سانس کی تاثیرات اور اس سے کام لینے کے مفید طریقے بھی زیر بحث آچکے ہیں لیکن نفس انسانی کے حوالے سے ایک اہم موضوع کا تذکرہ ابھی باقی ہے ، یہ حبس دم ہے ۔

قدیم زمانے سے مسلم صوفیا ہوں یا دیگر مذاہب کے یوگی ، راہب یا بھکشو ، حبس دم کو پہلے درجے پر اہمیت دیتے آئے ہیں ۔ وہ اسے زندگی کو طویل کرنے کا فن قرار دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ حبس دم کی مشقوں کے ذریعے روحانی قوتوں کا حصول بھی ان کا مطمع نظر رہا ہے ، لہٰذا حبس دم کے موضوع پر بات کئے بغیر علم النفس کا موضوع نا مکمل رہے گا ۔آیئے پہلے اس اہم ترین معاملے کو بھی سمجھ لیا جائے ۔ 

حبس ِدم

علم النفس میں حبس دم کی مشقوں کی بڑی اہمیت ہے جو لوگ علم النفس کے طریقوں پر کاربند ہوتے ہیں اور اپنی نفسی قوت سے کام لینا چاہتے ہیں وہ حبس دم کی مشقیں ضرور کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ دیر تک سانس روک سکیں ۔ اس کے لئے مشق کرنی چاہئے کیونکہ ایک منٹ تک سانس روکنا بھی عام آدمی کے لئے آسان کام نہیں ہے البتہ جو لوگ مشق کرتے ہیں وہ بہت لمبی مدت تک سانس روک سکتے ہیں ۔ 

حبس دم کی مشق کے فوائد بے شمار ہیں۔ اس مشق سے عمر بڑھتی ہے ، جسم میں دوران خون تیز ہوتا ہے ، اعضائے رئیسہ و خبیثہ جوان رہتے ہیں ۔ قوت حیات تیز ہوتی ہے ، بال سیاہ رہتے ہیں اور گرنا بند ہوجاتے ہیں ، نظر تمام عمر درست رہتی ہے، دانت مضبوط ہوتے ہیں ، سر ، سینہ اور پیٹ کی بیماریوں سے نجات ملتی ہے ۔

حبس دم کی مشق کے لئے گرمیوں کا موسم ہو تو قمری سُر کی حالت میں مغرب کی طرف منہ کرکے بیٹھیں اور سردیوں کا موسم ہو تو شمسی سُر کی حالت میں مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھیں ، بیٹھنے کا انداز وہ اختیار کریں جو آپ کے لئے آرادم دہ ہو ، تمام ذہنی تفکرات کو فراموش کردیں اور پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ اللہ کے نام کا ورد کرتے ہوئے سانس کو حتی الامکان سینے میں روکنے کی کوشش کریں ، بدن کو سیدھا رکھیں ، جسم پر سخت اور چست کپڑا نہ ہو یعنی ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں ، کمرے میں خاموشی ہو شور و غل کی آوازیں موجود نہ ہوں ، سانس روکنے کے بعد کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ دیر تک روک سکیں اور اس دوران میں اسم اعظم اللہ کا ورد کرتے رہیں تاکہ آپ کا ذہن اللہ ہی کی طرف متوجہ رہے ۔ سانس آہستہ آہستہ اندر کی طرف کھینچیں اور پھیپھڑوں کو پوری طرح آکسیجن سے بھر لیں پھر سانس روک لیں جب سانس روکنا ممکن نہ رہے یعنی آپ کی برداشت سے باہر ہوجائے تو آہستہ آہستہ اسے ناک کے ذریعے خارج کردیں ۔ چند لمحہ سکون سے بیٹھیں اور پھر دوبارہ یہی عمل دہرائیں۔ اس طرح جتنی دیر بھی حبس دم کی مشق کرسکتے ہیں، کریں ۔ ابتدا میں کچھ وقت مقرر کرلیں کہ اتنی دیر تک مشق کرنی ہے مثلاً پندرہ منٹ ، بیس منٹ یا آدھا گھنٹہ الغرض جتنی دیر بھی آپ یہ مشق کرسکتے ہیں ، کریں بعد میں وقفہ بڑھا سکتے ہیں ۔ یہ بھی مد نظر رکھیں کہ چند ہفتوں میں آپ کتنی دیر تک سانس روکنے کے قابل ہوسکے ہیں۔ اگر ایک منٹ سانس روکنا بھی ممکن ہوگیا تو یہ بڑی کامیابی ہوگی ۔ اس کے بعد مزید وقفہ بڑھانا آسان ہوتا چلا جائے گا ۔ اس مشق سے لوگ ایک ایک گھنٹہ تک سانس روکنے کے قابل ہوجاتے ہیں ، اس مشق سے ایسا لطف اور سکون آئے گا جو بیان سے باہر ہے اور آپ خود محسوس کرنے لگیں گے کہ آپ کے معاملات میں کیسی بہتری آرہی ہے ، خاص طورپر جسمانی طور سے آپ خود کو بہت بہتر اور روحانی طورپر توانا محسوس کریں گے ۔ واضح رہے کہ عام لوگ اگر پانچ منٹ تک بھی سانس روکنے کے قابل ہوجائیں تو یہ بہت عظیم کامیابی ہوگی اور اس کے نتیجے میں بدن کے تمام چکر کھل جائیں گے ۔ خیال رہے کہ باطنی قوتوں کو بیدار کرنے کے لئے دنیا بھر میں حبس دم کی مشق رائج ہے ۔ 

ماضی میں ہم نے سانس کی مشقوں وغیرہ کے بارے میں کافی لکھا ہے ۔ حبس دم کے علاوہ سانس کی دیگر مشقیں بھی موجود ہیں ۔ اگر ان سے بھی استفادہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ ہماری تمام روحانی صلاحیتیں بیدار ہونے لگتی ہیں اور ہمارے تمام اعمال میں اثر پیدا ہونے لگتا ہے ۔ اب تک عمل تنفس کے جتنے بھی طریقے بتائے گئے ہیں ان سے کام لینے اور انہیں زیادہ موثر بنانے کے لئے حبس دم کی مشق ضروری ہے۔ یہاں ہم ایک عمل تنفس کا چٹکلا بیان کررہے ہیں ۔ یہ بظاہر بہت آسان ہے لیکن اس کی درست طورپر انجام دہی اتنی آسان نہیں ہے ۔ البتہ جو لوگ حبس دم کی مشق کرتے ہوں گے ان کے لئے بہت آسان ثابت ہوگا اور موثر بھی ۔ 

ایک عمل حُب

اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی کو اپنی محبت میں گرفتار کریں ، وہ آپ کی طرف متوجہ ہو اور آپ سے کشش محسوس کرے تو ایک چھوٹا سا عملِ نفس ہم لکھ رہے ہیں اس پر عمل کریں اور اپنی نفسی قوت کا مظاہرہ دیکھیں ۔ 

صبح کے وقت جب قمری سُر جاری ہو تو سات گھونٹ پانی اس وقت پئیں جب سانس اندر جارہی ہو یعنی جب سانس اندر کھینچی جائے، اس وقت ایک گھونٹ یا ساتوں گھونٹ ایک ساتھ پی لیں ، اگر سات گھونٹ ایک ساتھ نہیں پی سکتے تو ایک ایک گھونٹ کر کے سات مرتبہ پی لیں لیکن شرط یہی ہے کہ سانس اندر کھینچتے ہوئے ایک ایک گھونٹ حلق سے اتاریں ۔ اس وقت محبوب کا تصور قائم کریں اور یہ خیال کریں کہ ہر گھونٹ کے ساتھ وہ اندر جا رہا ہے ۔ یہ عمل سات روز تک کریں ، اس کا اثر ضرور ہوگا اور مطلوبہ شخص یقینا آپ کی محبت میں گرفتار ہوگا ۔ (جاری ہے)


parashyclogy,BreathingMystery,Wonderfulness


جمعہ، 17 ستمبر، 2021

آتی جاتی سانس کی پراسرار کرشمہ کاریاں(2)

زندگی کے روزمرہ مسائل کا حل اور صحت مندی کا راز 


علم ا لنفس کے حو ا لے سے گفتگو جا ر ی ہے ا ب تک ہم ا س علم سے کا م لینے کے بعض طر یقو ں پر با ت کرچکے ہیں ا سی حو ا لے سے ا ب ا یک ا ہم ا و ر بنیا د ی نکتہ سمجھ لیں۔ یہ نکتہ ان لو گو ں کے لیے خصوصی تو جہ کا حا مل ہے جو علوم ر و حا نیا ں کا شو ق و شغل ر کھتے ہیں۔ 

ہمارے د ا ئیں نتھنے سے چلنے و ا لی سا نس چو نکہ شمسی کہلا تی ہے لہٰذ ا ا س کا تعلق ما دّ ی ا شیاءا و ر د نیا و ی ا مو ر سے ہے، انسانی ذہن و عقل ا و ر فہم سے ہے، عا ر ضی نو عیت کے کا مو ں سے ہے، انسانی شعور اور حالت بیداری سے ہے۔ جب کہ ناک کے بائیں نتھنے سے چلنے والی سانس جو قمری ہے اس کا تعلق روحانیت سے ہے۔ انسانی روح اور وجدان اس کے زیر اثر آتے ہیں۔ ہمارے لاشعوری حواس اور اعمال کا تعلق بھی قمری سانس کی رَو سے ہے۔ اگر آپ کی سونے سے قبل قمری سانس چل رہی ہو تو نیند جلد ا و ر آ سا نی سے آ جا ئے گی ا و ر بہت عمد ہ و پر سکو ن ہو گی۔ قمر ی سا نس جاری ہو تو اس وقت میں عبادت یا اعمال روحانی کی انجام دہی کی جائے تو کامیابی یقینی ہو گی۔ اعمال میں اثر پذیری بڑھ جائے گی۔ تخلیقی نوعیت کے کاموں میں بھی مددگار و معاون ثابت ہوگی۔ جب کہ شمسی سانس دنیاوی امور کی انجام دہی، جسمانی مشقت کے کاموں میں معاون ہو گی۔ اگر آپ دنیاوی امور کی انجام دہی میں غلطیاں کرتے ہیں، اپنے کام کو بہتر طور پر نہیں انجام دے پاتے تو غور کریں کہ آپ کا قمری سانس تو زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہتا؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً دنیاوی امور کی انجام دہی میں آپ سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوں گی۔ 

خصوصاً دوران مطالعہ میں، حساب کتاب کرتے ہوئے یا کوئی اور ذہنی سرگرمی کا کام کرتے ہوئے، اگر شمسی سانس چل رہا ہو تو بہتر ہوتا ہے، اس دوران میں حسابی مسائل آسان ہو جائیں گے۔ پڑھا ہوا سبق آسانی سے یاد ہو جائے گا، ذہن نشین رہے گا مگر اس دوران میں ایسے ہی کام کریں جو وقتی ضرورت کے ہوں اور جن میں پائیداری و استحکام کی زیادہ ضرورت نہ ہو۔ البتہ ان کاموں کو انجام دینے یا شروع کرنے کے لیے جن میں پائیداری مطلوب ہو، قمری سانس کی روانی کا خیال رکھیں۔ مثلاً مکان کی بنیاد رکھنا، کاروبار کا آغاز، اہم مسائل پر غور و فکر وغیرہ۔ عبادات میں مشغول ہونا، دعا کرنا، عملیات و نقوش کا کام یا روحانیات سے متعلق مشق و ریاضت کے امور کی انجام دہی۔ 

جن لوگوں کو بے خوابی کی شکایت رہتی ہو، وہ رات کو بستر پر لیٹ کر یہ معلوم کریں کہ ان کا بایاں نتھنا چل رہا ہے یا دایاں؟ اگر دایاں چل رہا ہو تو اسے بند کر لیں اور بایاں جاری کرنے کے لیے کوشش کریں جیسے ہی بایاں سانس جاری ہو گا غنودگی کی کیفیت طاری ہونے لگے گی اور پھر نیند آجائے گی۔

سانس کی قسمیں


بہتر ہوگا ایک بار پھر آتی جاتی سانس کی قسموں پر روشنی ڈالی جائے تاکہ آپ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ سانس کی کتنی قسمیں ہیں اور ان کے کیا اثرات ہیں۔

ناک کے بائیں نتھنے سے سانس جاری ہو تو اسے ”قمری سُر“ کہتے ہیں۔ 

اگر دائیں نتھنے سے سانس جاری ہو تو اسے ”شمسی سُر“ کہتے ہیں۔ جب دونوں نتھنوں سے سانس برابر چل رہی ہو تو اسے مُتاساویہ کہتے ہیں اور اس کا تعلق سیارہ عطارد سے ہے۔

جب سانس دائیں نتھنے سے بائیں نتھنے کی طرف یا بائیں سے دائیں کی طرف منتقل ہوتی ہے تو اس انتقال النفس کے وقت تقریباً دس منٹ تک نفس مُتاساویہ جاری رہتا ہے۔ نفس متاساویہ ختم ہوجانے کے بعد سانس ایک سے دوسرے نتھنے کی جانب منتقل ہوجاتی ہے۔ 

جب سانس دائیں نتھنے سے بائیں کی طرف منتقل ہونا چاہتی ہے تو نفس متاساویہ چلنے سے کچھ لمحہ پہلے کچھ ایسی صورت اختیار کرلیتی ہے جس کا تعلق ستارہ زہرہ سے ہے۔ 

اگر طلوع شمس سے غروب شمس تک کے تمام وقت کا شمار گھنٹوں اورمنٹوں میں کیا جائے تو اس کے عین درمیانی وقت جو سانس چلتی ہے اس سے ”ضحوائے کبریٰ“ کہا جاتا ہے اس کا تعلق مریخ سے ہے۔

جب سورج غروب ہو رہا ہو اور اس کی پہلی ساعت مشتری کی ہو، اس وقت کا نفس بھی مشتری سے تعلق رکھتا ہے ۔ساعت مشتری اور نفس مشتری سعد اکبر ہے۔ اس وقت ہر قسم کے کاموں کی انجام دہی مبارک ثابت ہوگی۔

زہرہ کی سانس کے وقت محبت کے عملیات تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں، مریخ کی سانس جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے منحوس ترین ہے، اس وقت کوئی کام نہ کیا جائے ورنہ عمر پھر پچھتانا پڑے گا۔ 

جس وقت زحل کی سانس چل رہی ہو اگر اس وقت درد والی جگہ کو مس کیا جائے تو بغیر کسی علاج کے شفا ہوگی۔ 

سانس اور نیا چاند

ہماری سانس کی رفتار کا قانون قطعی طورپر یہ ہے کہ چاند کی پہلی تاریخ کو سورج نکلنے کے وقت ہمیشہ بایاں نتھنا چلتا ہوگا یعنی قمری سُر ہوگا ۔یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ اس میں کبھی فرق نہیں آئے گا۔ چاند کی پہلی تاریخ سے 3 تاریخ تک برابر طلوع آفتاب کے وقت قمری سُر چلے گا اس کے بعد 3 دن تک برابر شمسی سُر چلے گا اور پھر 3 دن کے لئے قمری سُر جاری ہوجائے گا۔ آپ صبح سورج نکلنے کے وقت اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔

اگر رویت ہلال میں مغالطہ ہوجائے جیساکہ اکثر ہمارے یہاں ہوتا ہے اور یہ شک پیدا ہوجائے کہ چاند ہوا یا نہیں تو آپ صبح سویرے طلوع آفتاب کے وقت اپنے ناک سے جاری ہونے والی سانس کا مشاہدہ کریں اگر قمری سر چل رہا ہے تو یقینا چاند ہوگیا ہے اگر داہنا نتھنا یعنی شمسی سر چل رہا ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ چاند نہیں ہوا ہے۔ 

آپ نے دیکھا اللہ رب العزت نے اپنی سب سے زیادہ اہم اور معرکہ آرا تخلیق انسان کے اندر کائناتی مظاہر سے ہم آہنگی کے لئے کیسا مضبوط اور منظم بندوبست قائم کیا ہے اور انسانی سانس کی آمد و رفت جو نہ صرف یہ کہ اس کی زندگی کی ضمانت ہے بلکہ اپنے اندر کیسے راز اور اسرار رکھتی ہے۔ 

چاند کی پہلی تاریخ سے 3 دن تک طلوع آفتاب کے وقت سے قمری سُر چلے گا اور ہر 2 گھنٹے کے بعد اپنے مقررہ قانون کے مطابق تبدیل ہوتا رہے گا اس حساب سے قمری اور شمسی تاریخیں ہر ماہ حسب ذیل ہوں گی۔

ہر ماہ چاند کی 1، 2، 3 ،7، 8 ، 9، 13، 14، 15، 19، 20، 21، 25، 26، 27 ،تاریخیں قمری سر کے لئے مخصوص ہیں۔

ہر ماہ چاند کی 4، 5، 6 ،10، 11، 12 ، 16، 17، 18، 22، 23 ، 24، 28، 29، 30 تاریخیں شمسی سُر کے لئے مخصوص ہیں۔

ان تاریخوں کو یاد کرلیں تاکہ اپنے روزانہ کے سانس کے شیڈول کو سمجھ سکیں۔ اگر سانس مقررہ تاریخوں کے مطابق درست چل رہی ہے تو آپ ایک کامیاب دور سے گزر رہے ہیں اور آپ کو کوئی روحانی یا جسمانی پریشانی کا خطرہ نہیں ہے۔ اگر خدا نخواستہ مقررہ تاریخوں کے مطابق سانس نہیں چل رہی اور اس کا شیڈول اپنے فطری تقاضوں کے مطابق نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ زندگی کے معاملات میں کچھ گڑبڑ ہے ،آپ کسی نقصان، بیماری یا کسی اور نوعیت کے اپ سیٹ سے دو چار ہونے والے ہیں جس روز ترتیب اور اصول کے خلاف سانس کا سُر چل پڑے اسی دن کوئی نہ کوئی گڑبڑ روز مرہ کے معاملات میں واقع ہوسکتی ہے ایسی صورت میں جب آپ محسوس کریں کہ سانس خلاف اصول چل پڑا ہے تو فوری طورپر اسے درست کرلیا جائے یعنی اسے صحیح طورپر جاری کرلیا جائے جس کا طریقہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں تو معاملات میں زیادہ خرابی پیدا نہیں ہوتی یا اگر خرابی پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔ 

نیا چاند دیکھنے پر اگر صبح طلوع آفتاب کے وقت قمری سُر چل رہا ہو تو 15 روز تک بے فکری کی زندگی گزاریئے ،آپ کو خوشی، کامیابی اور عزت ملے گی اگر شمسی سُر چل رہا ہو تو 15 دن تک فکر مندی اور پریشانی کا دور دورہ رہے گا۔

اسی طرح چاند کی 15 تاریخ کی صبح کو اگر شمسی سُر چل رہا ہو تو خوشی اور کامیابی کی واضح دلیل ہے لیکن قمری سُر چل پڑے تو نقصان اور غم کی علامت ہے، تجربہ کرکے دیکھ لیجئے۔

نفس متاساویہ یعنی عطاردی سانس غصے، رنجیدگی، ملال، لڑائی جھگڑے وغیرہ سے متعلق ہے، دنیا میں جتنے غم و غصے کے یا لڑائی جھگڑے کے واقعات جنم لیتے ہیں یہ سب اسی نفس مُتاساویہ کے زیر اثر ہوتے ہیں لہٰذا اس وقت کو خاص طور سے نوٹ کریں اور اپنے اوپر کنٹرول رکھیں جب محسوس کریں گے نفس مُتاساویہ جاری ہے تو اسے تبدیل کریں یا پھر اس وقت گوشہ نشینی اختیار کریں۔

انسانی زندگی کا تمام دار و مدار سانس پر ہے ۔ ہمارے صبح و شام سانس لینے کا نام ہی زندگی ہے ۔ جب یہ سانس بند ہوجائے گی تو زندگی بھی ختم ہوجائے گی، گویا سانس کے بند ہونے کا نام موت ہے ۔ آخر جس چیز اور جس عمل کا انحصار زندگی اور موت پر ہے، وہ بجائے خود ایک عجیب و غریب شے کیوں نہ ہوگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری ناقص و نامکمل عقل اس معمے کو نہ سمجھ سکے اور ہمیں یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اس ہم ترین چیز میں کیا کیا خواص اور خوبیاں پوشیدہ ہیں۔ (جاری ہے)


#parashyclogy #BreathingMystery #Wonderfulness


جمعہ، 10 ستمبر، 2021

آتی جاتی سانس کی پراسرار کرشمہ کاریاں(1)

زندگی کے روزمرہ مسائل کا حل اور صحت مندی کا راز 


علم النفس بڑا وسیع و وقیع علم ہے۔ اب اس کے جاننے والے اور اس سے کام لینے والے کم کم نظر آتے ہیں لیکن جو لوگ اس علم سے پوری واقفیت رکھتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں، ان کے بہت سے مسائل اسی ذریعے سے حل ہو جاتے ہیں۔ انہیں پھر کسی دوسرے علم کی ضرورت نہیں رہتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سمجھنا بھی آسان ہے۔ اس علم سے کام لینے میں ہماری جیب سے کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ صرف ہمیں اپنی سانس کی آمد رفت کے نظام پر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نظام دو راستوں سے جاری و ساری ہے۔ ایک راستہ عارضی کہلاتا ہے اور دوسرا حقیقی۔

عارضی راستہ ہمارا منہ ہے اور حقیقی راستہ ناک کے دونوں سوراخ ہیں۔ منہ سے ہم کبھی کبھی خاص ضرورت یا مجبوری کی وجہ سے سانس لیتے ہیں جب کہ ہمارے جسم کے اندر سانس کی حقیقی آمد و رفت کا سلسلہ ناک سے جاری رہتا ہے۔ ہماری ناک کے دونوں سوراخ (دایاں اور بایاں) اس عمل تنفس کا ذریعہ ہیں۔ دائیں طرف سے چلنے والی سانس شمسی کہلاتی ہے یعنی سورج سے منسوب ہے اور بائیں طرف سے چلنے والی سانس قمری کہلاتی ہے یعنی چاند سے منسوب ہے۔ گویا قدرت نے ہمارے چہرے پر چاند، سورج سجا دیے ہیں۔ ہماری ناک کے دونوں نتھنے در حقیقت چاند اور سورج ہیں اور ان نتھنوں سے چلنے والی سانس اپنے اندر بے پناہ اسرار و رموز رکھتی ہے۔

علم النفس کی اصطلاح میں داہنے سوراخ کی شمسی سانس کو "گرم سُر" کہا جاتا ہے اور ناک کے بائیں سوراخ سے چلنے والی سانس کو "ٹھنڈا سر" کہتے ہیں۔ ناک کے دونوں سوراخوں سے یہ سُر ایک خاص نظام کے تحت جاری و ساری رہتے ہیں۔ اگر اس مقررہ نظام میں خلل واقع ہونے لگے تو یہ اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہمارے جسمانی یا روحانی نظام میں کوئی گڑ بڑ ہونے والی ہے یا ہو رہی ہے۔

ناک سے سانس کی آمد رفت کا یہ نظام اور بھی بہت سے امور حیات میں ہمارا معاون و مددگار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس نظام کا علم رکھتے ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب آپ اس علم سے کام لینے لگیں گے تو اس کے حیرت انگیز نتائج کے قائل ہو جائیں گے۔

یاد رہنا چاہیے کہ شمسی اور قمری سُر چاند کی تاریخوں سے مطابقت رکھتے ہیںاور چاند کی پہلی تاریخ کو صبح طلوع آفتاب کے وقت سب سے پہلے گھنٹے میں قمری سر چلتا ہے اور پھر یہ ہر دوگھنٹے کے بعد تبدیل ہوتا رہتا ہے یعنی پہلے قمری اور پھر شمسی اور پھر قمری۔ چاند کی پہلی تاریخ سے شروع ہونے والا یہ قمری سر قاعدے کے مطابق مسلسل تین روز تک چلتا ہے۔ چوتھے روز سے شمسی سر شروع ہوجاتا ہے یعنی صبح طلوع آفتاب کے وقت دایاں شمسی سر جاری ہوگا۔ پھر یہ شمسی سر بھی تین روز چلے گا اور چاند کی سات تاریخ سے دوبارہ تین دن کے لیے قمری سر جاری ہوجائے گا۔ اسی ترتیب سے پورا مہینہ شمسی اور قمری سر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اگر اس قاعدے اور ترتیب کے مطابق پورا مہینہ سانس جاری رہے تو یہ ایک نارمل بات ہے۔ زندگی میںکوئی الجھن یا پریشانی نہیں ہوگی، تمام کام بخیروخوبی انجام پائیں گے لیکن اگراس قاعدے کے خلاف سانس چل رہی ہو تو اس کے غلط نتائج سامنے آتے ہیں۔ کوئی دکھ بیماری ، حادثہ یا زندگی کے معاملات میں کوئی اچھی یا بری نئی تبدیلی آنے والی ہے ۔ آئیے علم النفس سے کام لینے کے لیے اس علم کے کچھ رموز و نکات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

بہتر ہو گا کہ صبح سے شام تک اور شام سے رات تک ہم اپنی شمسی اور قمری سانسوں کو اور اس کی رفتار میں آنے والی تبدیلیوں کو چیک کرتے رہےں تاکہ روز مرہ کی انجام دہی میں مفید نتائج لانے کی کوشش کی جا سکے۔ مثلاً جب آپ کسی اہم مقصد کے تحت اپنے گھر سے روانہ ہونے لگیں تو دیکھیں کہ کون سا سُر چل رہا ہے۔ دایاں یا بایاں؟ اگر دائیں نتھنے سے شمسی سُر چل رہا ہے تو تمام کام دائیں طرف سے انجام دیں۔ مثلاً لباس تبدیل کریں تو شلوار یا پتلون کے دائیں پائنچے میں پہلے پاوں ڈالیں، قمیض کی داہنی آستین پہلے استعمال میں لائیں۔ موزہ یا جوتا پہلے دائیں پاوں میں پہنیں، اب گھر سے باہر جانا ہے تو پہلے دروازے سے دایاں قدم باہر نکالیں اور پھر گھر سے دائیں طرف کو ہی مڑ جائیں۔ اگر بایاں سر چل رہا ہے تو تمام کاموں میں جسم کے بائیں حصے اور بائیں سمت کو اوّلیت دیں۔

بعض ماہرین علم النفس تو یہ شرط بھی لگاتے ہیں کہ گھر سے باہر نکل کر سات قدم تک پہلے دایاں پاو¿ں ہی آگے بڑھائیں۔ اگر آپ کا مکان ایسے رخ پر واقع ہے کہ آپ کو ہر صورت میں گھر سے نکل کر کسی ایک مخصوص سمت (دائیں یا بائیں) ہی مڑنا ضروری ہوتا ہے تو بھی اگر شمسی سر چل رہا ہو تو پہلے دائیں طرف ہی مڑیں اور چند قدم چل کر پھر بائیں طرف پلٹ جائیں۔ اب جس اہم مقصد سے جا رہے ہیں اس میں کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے ورنہ ناکامی ہو گی۔

اگر قمری سانس چل رہی ہو تو تمام کام بائیں طرف سے کئے جائیں۔ جب اپنے شہر سے کسی دوسرے شہر یا ملک کی طرف روانگی کا ارادہ ہو تو بھی اس اصول کو مدنظر رکھیں۔ اس سلسلے میں شمسی اور قمری سُر سے متعلق سمتیں بھی مقرر ہیں۔

اگر قمری سانس چل رہی ہو تو مشرق یا شمال کی طرف نہ جائیں۔ اگر شمسی سانس جاری ہو تو مغرب کی طرف رخ نہ کریں۔ جب دونوں سانس برابر ساتھ ساتھ چل رہے ہوں تو سفر ملتوی کر دیں۔ کسی سمت جانا بھی مناسب نہ ہو گا۔ اگر سفر نہایت ضروری ہے تو سانس تبدیل کرنے کے طریقے پر عمل کریں اور جس سمت جانا مقصود ہو، اس طرف کی سانس جاری کر لیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس سمت کی یعنی جس نتھنے کی سانس جاری کرنی ہو اس کے خلاف سمت میں کروٹ لے کر لیٹ جائیں اور ہاتھ بغل کے نیچے دبا لیں۔ تھوڑی دیر میں مطلوبہ سُر جاری ہو جائے گا۔ مثلاً آپ کا دایاں سر چل رہا ہے اور آپ کو ضرورت ہے کہ بایاں سر چلے تو آپ داہنی جانب کروٹ لے کر لیٹ جائیں اور اپنا بایاں ہاتھ دائیں بغل میں دبا لیں۔ چند منٹ اسی طرح لیٹے رہیں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دایاں سُر بند ہو جائے گا اور بایاں چلنے لگے گا۔ اسی طرح اگر بائیں کو بند کر کے دایاں شروع کرنا چاہتے ہیں تو بائیں طرف کروٹ لے کر لیٹیں اور دایاں ہاتھ بائیں بغل میں دبایں۔ آنکھیں بند کر لیں۔ چند منٹ بعد مطلوبہ مقصد حاصل ہو جائے گا۔ 

علم النفس کی دو دھاری تلوار کا کرشماتی استعمال

 کچھ سوال بھی اس حوالے سے پیدا ہوسکتے ہیں مثلاً یہ کہ اگر زکام اور نزلہ چل رہا ہو یا کسی اور بیماری کی وجہ سے ناک کا ایک نتھنا یا دونوں بند ہو جائیں، تو کیا کیا جائے؟

جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں علاج پر توجہ دی جائے اور اس بیماری کی صورت میں سانسوں کی آمد و رفت کے علم سے کام نہ لیا جائے ورنہ اطمینان بخش تصور نہ ہو گا۔ نزلہ و زکام یا جب پھیپڑوں سے متعلق کسی بیماری یا کسی اور مہلک بیماری کی صورت میں یقیناً سانس کی قدرتی آمد رفت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کی بے ترتیبی اور غیر فطری انداز پر غور کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ اسے

فطری انداز پر لانے کی کوشش کی جائے۔ ایسا کرنا علم النفس کے ذریعے اپنا علاج کرنے کے مترادف ہو گا۔

ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ ہر انسان ناک کے دونوں سوراخوں سے ہر وقت سانس لیتا رہتا ہے۔ علم النفس کا دارومدار ناک سے سانس لینے کے اسی عمل سے ہے۔ دونوں نتھنوں سے سانس کے اخراج کی کمی بیشی ہی اس علم کی بنیاد ہے۔ ہمارے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ ہمارے کون سے نتھنے سے ہوا زیادہ خارج ہو رہی ہے اور کس نتھنے سے کم اخراج ہو رہا ہے۔ بھرپور انداز میں سانس لیتے ہوئے اگر ہم اپنے ہاتھ کو ناک کے قریب لے جائےں تو چند لمحوں میں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ہوا دائیں نتھنے سے زیادہ واضح اور تیزی سے خارج ہو رہی ہے یا بائیں طرف سے۔ بس یہ معلوم ہونے کے بعد ہم سمجھ لیں گے کہ اس وقت ہم شمسی رو کے زیر اثر ہیں یا قمری رو کے ماتحت ہیں۔ اگر دونوں نتھنے برابر چل رہے ہوں تو علم النفس کی اصطلاح میں اسے نفس متساویہ کہتے ہیں اور ہندی میں سکھمنا۔ یہ صورت عطارد سے منسوب ہے اور ذو جسدین ہونے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ہوتی یعنی اس دوران میں جو کام بھی انجام دیا جائے گا، وہ قابل بھروسہ نہ ہو گا۔ اس کا نتیجہ اچھا یا برا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

تمام ماہرین علم النفس کے نزدیک انسان کے ساتھ جتنے بھی حادثے ، رنج و غم اور لڑائی جھگڑوں کے واقعات پیش آتے ہیں وہ سب مُتساویہ اور شمسی سُروں کے دوران میں واقع ہوتے ہیں لہذا جب مُتساویہ سُر یا شمسی سُر جاری ہو تواحتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ، ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لینا چاہیے ، ہمارا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ غصے، اشتعال اور کسی نا پسندیدہ یا ناگوار صورت حال میں دایاں سُر چلنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر ٹال مٹول اور درگزر سے کام لینا بہتر ہوتا ہے اور مصیبتوں اور مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔ 

 شمسی سُر کے برعکس قمری سُر ٹھنڈا ہوتا ہے ۔ اس دوران میں خوشی اور خوش امیدی ، کامیابی اور مال و دولت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا ، محبت ، منگنی ، شادی وغیرہ کے معاملات طے کرنا قمری سُر کے دوران میں موافق ہوگا۔ 

 ایک معمولی سا چُٹکلہ یہ ہے کہ جب بھی صبح جاگیں تو فوراً چیک کریں کہ کون سا سُر چل رہا ہے یعنی ناک کے کون سے نتھنے سے سانس کی آمدورفت واضح اور تیز ہے؟ جو سُر بھی چل رہا ہو اسی جانب کے ہاتھ کی ہتھیلی کو فوراً چوم لیں اور دوسرے نتھنے کو انگلی سے بند کرکے چلتے سُر سے ایک لمبا سانس کھینچیں۔ اس معمولی سے عمل سے آپ کا سارا دن خوش و خرم گزر سکتا ہے۔ آپ اس عمل کو اپنا روزانہ کا معمول بنا سکتے ہیں تاکہ زندگی میں کچھ نہ کچھ آسانیاں پیدا ہوجائیں۔ 

 جب کوئی آپ سے ملنے آئے یا آپ کسی سے ملنے جائیں اور آپ کو اس سے اپنی بات منوانی ہو تواسے اپنے بند سُر کی طرف رکھ کر بات کریں۔ یعنی اگر بایاں سُر چل رہا ہے تو اسے اپنے داہنے ہاتھ پر رکھیں اور اگر دایاں سُر چل رہا ہے تو اسے اپنے بائیں ہاتھ کی سمت رکھیں اس طرح آپ کو اس سے گفت و شنید میں اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ 

 سفر ہمیشہ شمسی سُر کے دوران شروع کریں۔ کسی کو مشورہ دے رہے ہوں یا اس کی رہنمائی مقصود ہو، بچوں کو کوئی بات سمجھانی ہو یا آپ ڈاکٹر ہیں اور مریض کے لیے دوائیں تجویز کررہے ہوں تو اس وقت شمسی سُر نہایت موثر اور مفید ثابت ہوگا۔ ماہرین کا یہ بھی دعوی ہے کہ مرد کا دایاں سُر چل رہا ہو اور عورت کا بایاں تو اس وقت قرار پانے والا نطفہ مذکر ہوگا یعنی اولاد نرینہ کی خوش خبری مل سکتی ہے۔ اس کے برعکس صورت حال میں نطفہ مونث قرار پائے گا۔ 

 مریض دواﺅں کا استعمال قمری سُر میں کریں تو زیادہ فائدہ بخش ثابت ہوںگی۔ صحت کی خرابی یا بہتری کے لیے اپنی سانس کا ٹیسٹ کریں جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی میز پر نرم روئی کے چھوٹے چھوٹے دو تین پھوئے رکھ دیں اور ناک کے نتھنے ان کی سیدھ میں رکھتے ہوئے نارمل انداز میں سانس لیں اور چیک کریں کہ وہ فاصلہ کتنا ہے جس میں سانس روئی کے پھوئے تک پہنچ رہی ہے اور وہ سانس کی وجہ سے ہل رہا ہے۔ اگر یہ فاصلہ ناک اور روئی کے پھوئے کے درمیان تقریبا سات سے نو انچ ہے تو آپ بالکل صحت مند اور تندرست و توانا ہیں لیکن اگر یہ فاصلہ نو انچ سے زیادہ ہے یعنی آپ کی سانس زیادہ لمبی رینج رکھتی ہے تو معاملہ گڑ بڑ ہے پھر یقینا صحت کی خرابی اور کسی بیماری کا امکان موجود ہے۔ پندرہ انچ لمبائی خرابی صحت کی انتہا کا نشان ہوسکتی ہے۔ کوئی بیماری یا تکلیف اگر شمسی یا قمری کسی ایک سُر میں شروع ہوئی ہے تو سُر بدل لینے سے آرام آجائے گا۔ سُر بدلنے کا طریقہ (کروٹ بدل کر) ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ معدے کی خرابیاں دور کرنے کے لیے کھانا ہمیشہ اس وقت کھائیں جب شمسی سُر چل رہا ہو۔ اگر بایاں یعنی قمری سُر چل رہا ہوتو اسے پہلے تبدیل کرلیں۔ پانی یا کوئی مشروب وغیرہ قمری سُر میں استعمال کرنا بہتر رہتا ہے۔ وہ بیماریاں جو گرمی یا گرم اشیا کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ان کا علاج کرنے کے لیے شمسی سُر کو بند رکھیں اور جو بیماریاں سردی یا ٹھنڈی اشیا کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں ان پر قابو پانے کے لیے قمری سُر کو بند رکھیں اور شمسی سُر زیادہ سے زیادہ چلائیں۔ اس طرح شفا یابی کا عمل تیز ہوجائے گا۔ 

 شمسی سانس نیند کی دشمن ہے اور بے خوابی لاتی ہے۔ لہذا دائیں طرف کروٹ لے کر لیٹیں اور قمری سُر جاری کریں تو جلدی نیند آجائے گی۔ 

اب علم النفس سے کام لینے کا ایک اور طریقہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کو پوری توجہ سے ذہن نشین کر لیں۔ اکثر اہل علم و دانش صرف اس علم سے کام لے کر لوگوں کے سوالات کا جواب اور مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ملاقات کے کمرے میں نشست کا انتظام کچھ اس طرح رکھتے ہیں کہ خود ان کی نشست کے دائیں بائیں آنے والوں کے بیٹھنے کے لیے نشست کا اہتمام ہو اور آنے والا کمرے میں داخل ہونے کے بعد اپنی مرضی سے ان کے دائیں یا بائیں طرف بیٹھ جائے۔ وہ خود اسے ہاتھ سے کسی خاص سمت بیٹھنے کا اشارہ نہیں دیتے کہ علم النفس کے ذریعے کسی جواب کے لیے یہ شرط لازمی ہے۔ لہذا جب آپ کے پاس کوئی شخص آئے تو اسے دائیں یا بائیں طرف بیٹھنے کا اشارہ نہ دےں بلکہ دیکھےں وہ خود کس طرف بیٹھتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اپنی نشست کے سامنے بھی ملاقاتی کے لیے بیٹھنے کا کوئی اہتمام نہ رکھےں تاکہ وہ آپ کے دائیں یا بائیں ہی بیٹھنے کا فیصلہ کرے۔

جب وہ اپنا مسئلہ بیان کرے اور اس حوالے سے کامیابی یا ناکامی کے بارے میں سوال کرے تو جواب دینے کا اصول یہ ہو گا۔ مثلاً وہ اپنے کسی کام کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ وہ ہو گا کہ نہیں؟ تو دیکھےں کہ آپ کاکون سا نتھنا چل رہا ہے۔ اگر دائیں طرف کی سانس چل رہی ہے اور آنے والا اسی طرف سے آ کر بائیں طرف بیٹھا ہے تو بے تکلف جواب دے دو کہ کامیابی تو ضرور ہو گی مگر کچھ تاخیر کے بعد۔

اگر وہ بائیں طرف سے آیا ہے اور دائیں طرف یعنی جاری سانس والے نتھنے کی طرف بیٹھا ہے تو کامیابی مشکوک ہے اورکوئی رکاوٹ ہے، یہ کام نہ ہو گا۔ اگر وہ دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے آ کر اسی طرف بیٹھ جائے جدھر سے آیا ہو اور آپ کا وہی نتھنا چل رہا ہو تو جواب دو کہ اس کا کام ہو جائے گا۔ کوئی بڑی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ مزید اپنے جواب کو اطمینان بخش بنانے کے لیے اس سے پوچھیں کہ اس وقت اس کی ناک کے کون سے نتھنے سے سانس کا بھرپور اخراج ہو رہا ہے۔ اگر اس کا اور آپ کا ایک ہی سمت کا سانس چل رہا ہو یعنی دونوں کا دایاں یا بایاں نتھنا جاری ہو تو کامیابی یقینی ہے ورنہ کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔

اگر وہ سوال کرے کہ مسافر سفر سے کب لوٹے گا؟ وطن کب واپس آئے گا؟ اور اس وقت کس حال میں ہے؟ تو دیکھو کہ اس کی کون سی سانس چل رہی ہے اگر شمسی سانس چل رہی ہے اور آپ کی بھی شمسی چل رہی ہے تو جواب تسلی بخش ہو گا کہ وہ جلد آرہا ہے اور وہ خیریت سے ہے۔ اگر قمری سانس چل رہی ہے تو جواب نفی میں ہو گا کہ اس کے آنے میں کافی تاخیر ہے۔ فی الحال اس کا آنے کا ارادہ نہیں ہے مگر خیریت سے ہے۔ اگر دونوں نتھنے برابر چل رہے ہوں تو بھی آنے میں تاخیر کی نشاندہی ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ وہ خیریت سے نہیں اور کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔

اسی طرح اپنے ذاتی معاملات میں بھی علم النفس کے ذریعے جواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آپ کو معلوم کرنا ہے کہ فلاں شخص جس کا آپ کو انتظار ہے وہ آپ کے پاس آئے گا یا نہیں یا کب آئے گا اور کس حال میں ہے؟ یا پھر کوئی اور بھی سوال ہو سکتا ہے۔ ایسے سوالات کے جواب معلوم کرنے کے لیے اس علم سے زیادہ کام نہ لیں یعنی اسے کھیل نہ بنائیں کہ سوال سوچ سوچ کر ان کے جواب معلوم کرتے رہیں بلکہ جب اچانک ضرورت محسوس کریں اور اس بات کا خیال ذہن میں خصوصی ارادے کے بغیر آئے تو فوراً اپنے سوال کو کاغذ پر لکھیں اور پھر دیکھیں کہ آپ کا کون سا نتھنا جاری ہے؟ اگر دایاں یعنی شمسی سانس جاری ہے تو آنے والا جلد آئے گا یا کسی جگہ اس سے ملاقات ہو گی یا اس کی کوئی خبر جلد ملے گی۔ اگر بایاں یعنی قمری سانس جاری ہو تو اس سے ملاقات میں تاخیر کا امکان ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں وہ خیریت سے ہو گا۔ اگر شمسی اور قمری دونوں نتھنے جاری اور دونوں میں رفتار سانس برابر ہے تو مطلوبہ شخص کی آمد میں تاخیر ہے اور اس سے ملاقات کا جلد کوئی امکان نہیں۔ ساتھ ہی یہ امکان بھی ہے کہ وہ کسی پریشانی میں ہے۔ وہ خیریت سے نہیں ہے۔

اگر آپ کی کوئی شے گم ہو گئی ہے اور آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ملے گی یا نہیں تو دیکھےں کہ اس وقت شمسی سانس جاری ہے یا قمری۔ اگر شمسی سانس چل رہی ہے تو گمشدہ چیز کا ملنا مشکل ہے مگر تھوڑے ہی عرصے میں یہ ضرور معلوم ہو جائے گا کہ وہ چیز جو چوری ہوئی ہے، وہ کس نے چرائی ہے اور پھر کافی تاخیر کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ کوشش سے وہ چیز مل بھی جائے۔

اگر وقت سوال قمری سانس جاری ہے یعنی بایاں نتھنا چل رہا ہے تو سمجھ لو وہ شے چوری نہیں ہوئی بلکہ کہیں ادھر اُدھر ہو گئی ہے یا کہیں رکھ کر بھول گئے ہیں اور وہ آخر کار مل جائے گی اور با لفرض کسی کے ہاتھ لگ گئی ہے یا کسی نے شرارت کی ہے تو بھی وہ چیز واپس مل جائے گی۔ اگر دونوں ناک کے نتھنوں سے سانس برابر جاری ہو تو سمجھ لو کہ اس گمشدہ شے کا ملنا بھی دشوار ترین ہے اور چور کا سراغ بھی نہیں ملے گا۔

علم النفس میں ناک کے دونوں سوراخوں سے سانس کا برابر رفتار سے چلنا نحس تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا ایسے وقت میں کسی سوال کا جواب بھی مثبت نہیں ہو گا۔ اسی طرح اس وقت جو کام کیا جائے گا اس کا نتیجہ بھی بہتر اور موافق نہ ہو گا بلکہ ناقص و نقصان دہ اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسے وقت عبادت کی طرف متوجہ ہونا بہتر ہوتا ہے۔(جاری ہے)


#parashyclogy #BreathingMystery #Wonderfulness


ہفتہ، 4 ستمبر، 2021

برصغیر کا نیلسن منڈیلا سید علی گیلانی، علم نجوم کی روشنی میں


اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے


 دنیا میںایسے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی جو نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی خلق خدا کے دلوں میں اپنی دائمی جگہ بنالیتے ہیں،ایسی ہی نابغہ ءروزگار شخصیت کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے مجاہد سید علی گیلانی کی ہے۔

سیاست جیسے مکروہ فریب شعبے میں رہتے ہوئے بھی ایک بے داغ کردار کا حامل ہونا فی زمانہ بہت بڑی بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم برصغیر انڈوپاک میں سیاست اس قدر گندی ہوچکی ہے کہ لوگ سیاست دانوں کے نام ہی سے متنفر ہیں، بے شک سید علی گیلانی نے ایک طویل عرصہ سیاسی میدان میں جدوجہد کرتے ہوئے گزارا مگر ان کے حریف اور سخت ترین دشمن بھی ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھاسکتے، وہ ابتدا ہی سے جو موقف لے کر چلے تھے، تاحیات اس پر قائم رہے، کوئی لالچ، کوئی فریب، کوئی دباو انھیں اپنے منتخب کردہ راستوں سے ہٹا نہیں سکا پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔

 

 

 

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 ءکو کشمیر کے ایک چھوٹے سے قصبے باندی پورہ میں پیدا ہوئے، ان کے والد محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے، انھوں نے ہوش سنبھالا اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ان کے وطن پر بھارتی جارحیت مسلط ہوچکی تھی، ایک روز جب وہ اسکول جارہے تھے، ایک بھارتی فوجی نے انھیں راستے میں روک لیا اور پوچھا ”کہاں جارہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟“
سید نے پوری جرات سے کہا ”میں یہاں کا باشندہ ہوں تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے ؟“یہ ایک نوجوان کے سینے میں روشن حریت کا شعلہ تھا جو اچانک بھڑک اٹھا اور پھر ساری زندگی روشن رہا، انھوں نے زندگی کے 32 سال سے زیادہ عرصہ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزارا اس اعتبار سے اگر انھیں برصغیر کا نیلسن منڈیلا کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
آئیے علم نجوم کی روشنی میں ایک مختصر سا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ایسے صاحب کردار اور انوکھے لوگ اپنی پیدائش کے وقت کیسی سیاروی آراستگی رکھتے ہیں۔
29 ستمبر کے مطابق شمسی برج (Sun sign) سنبلہ، پیدائشی برج (Birth sign) دلو اور قمری برج سرطان ہمارے سامنے آتا ہے، زائچے میں طالع کا حاکم سیارہ زحل گیارھویں گھر برج قوس میں ہے ، راہو تیسرے گھر برج حمل میں ، مشتری دوسرے گھر میں، قمر چھٹے گھر برج سرطان میں ، سیارہ زہرہ ساتویں گھر برج اسد میں طالع سے ناظر ہے ،شمس اور عطارد آٹھویں گھر برج سنبلہ میں جب کہ مریخ اور کیتو نویں گھر برج میزان میں قابض ہیں،راہوکیتو زائچے کے پہلے ، تیسرے ، ساتویں ، نویں اور گیارھویں گھر کو متاثر کر رہے ہیں، کیتو کی نظر طالع پر جوش و جذبے سے سرشار کرتی ہے، دیگر گھروں سے راہو کیتو کے متاثر ہونے کی وجہ سے زندگی میں مشکلات اور سختیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں،کیتو ساتویں گھر کوبھی متاثر کرتا ہے، چناں چہ آپ نے دو شادیاں کیں۔
طالع برج دلو کے لیے قمر و عطارد کے علاوہ راہو اور کیتو فعلی منحوس سیارے ہیں جب کہ باقی سیارگان سعد اثر کے حامل ہیں، پیدائش کے وقت فعلی منحوس مرکری کا دور اکبر اور مشتری کا دور اصغر جاری تھا۔
شمسی برج سنبلہ سوچنے، سمجھنے اور کسی بھی معاملے یا مسئلے کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت دیتا ہے، سنبلہ افراد خاکی برج ہونے کی وجہ سے بے حد عملی ہوتے ہیں، وہ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں نہیں رہتے، ان کی زندگی کا مقصد کام ، کام اور صرف کام ہوتا ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے جیل میں گزارے ہوئے ایام کوبھی بامقصد بنایا اور عربی زبان جیل ہی میں سیکھی، سیاست جیسی مصروفیات کے باوجود تقریباً 30 کتابیں بھی تصنیف کیں۔
سنبلہ افراد کو جھکانا یا دبانا یا کسی غلط بات پر آمادہ کرنا تقریباً ناممکن کام ہے، کہا جاتا ہے کہ بارہ برجوں میں سنبلہ واحد سائن ہے جو کاملیت (perfection) کابہت خیال رکھتا ہے، اپنے طویل سیاسی کرئر میں بے شمار کوششوں کے باوجود حکومت یا دیگر سیاسی شخصیات انھیں اپنے موقف سے منحرف کرنے میں ناکام رہیں۔
طالع پیدائش برج دلو کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ لوگ انوکھی سوچ اور دور دراز کے آئیڈیاز لانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، خدمت خلق اور جذبہ ءہمدردی بھی ان سے زیادہ کسی برج میں نہیں ہے، بے لوث اپنی کاز کے لیے ہمیشہ مصروف عمل رہنا برج دلو کا طرئہ امتیازہے، جدت پسندی اور روایت شکنی بھی سب سے زیادہ اسی برج میں پائی جاتی ہے، برج دلو کا عنصر ہوا اور ماہیت ثابت ہے، یہ لوگ نہایت مستقل مزاج ، آزادی پسند ہوتے ہیں، اپنی آزادی کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا اور اس کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہنا برج دلو کا وصف ہے، گویا جذبہ ءحریت بھی اس برج کا خاصہ ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ طالع کے درجات نچھتر دھنشٹا میں گرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ دولت ان لوگوں کے پیچھے بھاگتی ہے لیکن انھیں دولت کی کوئی پروا نہیں ہوتی، بے شک جس نوعیت کی پیشکش اکثر و بیشتر بھارتی حکومت کی طرف سے انھیں کی جاتی رہی، وہ چاہتے تو بے پناہ دولت اکٹھا کرسکتے تھے۔
فطری خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی قمری برج اور قمری منزل سے کی جاتی ہے، قمر زائچے میں برج سرطان میںہے، یہ برج اپنی خصوصیات میں انٹرنیشنل مدر کہلاتا ہے، سرطانی افراد کی زندگی میں ماں، گھر اور فیملی کی بڑی اہمیت ہے، اسی طرح ہر اس چیز کی اہمیت ہے جسے وہ اپنی سمجھتے ہیں ، خاص طور سے اپنے گھر کے علاوہ اپنا شہر ، اپنا وطن وغیرہ ، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ وطن کی محبت ان کے دل میں بہت سے دیگر سیاسی رہنماو¿ں سے کہیں زیادہ تھی اور اس پر وہ کوئی نامناسب سمجھوتا کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے، سرطانی افراد فطرتاً بہت سادہ مزاج ہوتے ہیں، زندگی کے تمام معاملات میں سادگی ، وفاداری اور خلوص کو بے حد اہمیت دیتے ہیں، قمری منزل اشلیشا ہے جس پر ذہانت کے سیارے عطارد کی حکمرانی ہے، اس منزل کا ایک مثبت پہلو عارفانہ قوت ، روحانی آگہی اور برقیاتی صلاحیت کا اظہار بھی ہے، برج سرطان اور منزل اشلیشا گویا قمر اور عطارد کا اشتراک مکمل طور پر ذہن اور دماغ کی نمود سے تعلق رکھتا، اس صورت حال میں ایک درشت و گوشہ نشین آزاد اور خود دار رویے کا مشاہدہ ہوسکتا ہے، ایک مقناطیسی کشش ایسے لوگوں میں موجود ہوتی ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، یہ لوگ زندگی بھر نوجوان اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، دلیر ، فقرے بازیعنی حاضر جواب ٹائپ اگر منفی رخ اختیار کرلیں جس کا امکان زائچے کے دیگر عوامل پر ہوتا ہے تو جرائم کے میدان میں غیر معمولی کارنامے انجام دے سکتے ہیں اور ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہ دین و مذہب سے بھی دوری اختیار کرلیں لیکن سید صاحب ابتدا ہی سے دینی رجحان رکھنے والے انسان تھے،اس کی وجہ نویں گھر کے حاکم کی اور کیتو کی طالع پر نظر ہے، ابتدا ہی میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی فکر سے متاثر ہوکر ان سے رابطے میں رہے اور ساری زندگی وطن کے بعد انھوں نے دین اسلام کی سربلند ی کے لیے جدوجہد کی، ابتدا ہی سے علامہ اقبال ان کے آئیڈیل رہے۔
نو دس سال کی عمر میں زائچے میں سیارہ زہرہ کا دور اکبر شروع ہوگیا تھا جو مارچ 1959 ءتک جاری رہا،1950 میں وہ سیاسی میدان میںآگئے تھے، بعد ازاں سیارہ شمس کا دور اکبر جو مارچ 1965 ءتک رہا اس میں پہلی بار 1962 ءمیں گرفتار ہوکر جیل گئے،شمس زائچے میں آٹھویں گھر میں ہے اور ساتویں گھر کا حاکم ہے، 1965 ءسے 1975 ءتک فعلی منحوس چھٹے گھر کے حاکم قمر کا دس سالہ دور جاری رہا، اس دور میں بھی انھیں قیدو بند کے علاوہ دیگر سختیاں بھی برداشت کرنا پڑیں، ان کا گھر جلا دیا گیا، جائیداد ضبط کرلی گئی بعد ازاں 1982 ءسے مارچ 2000 ءتک راہو کا دور جاری رہا، اسی دور میں وہ ایک طویل عرصے کے لیے ”جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی“ کے رکن کی حیثیت سے کام کیا، سیارہ مشتری زائچے کا نہایت طاقت ور سیارہ ہے، مشتری کا دور اکبر مارچ 2000 ءسے مارچ 2016 ءتک جاری رہا، بعدازاں سیارہ زحل کا طویل دور شروع ہوا ، زحل اگرچہ زائچے کا سعد سیارہ اور طالع کا حاکم ہے لیکن نوامسا چارٹ میں ہبوط یافتہ ہے، گویا یہ دور جسمانی صحت کے اعتبار سے پریشان کن رہا، زحل کے دور اکبر ہی میں عطارد کے دور اصغر کا آغاز مارچ 2019 ءسے ہوا، اسی عرصے میں 19 دسمبر کو شدید علالت کے سبب انھیں اسپتال لے جایا گیا، اپنی شدید علالت کے باوجود وہ اپنی سیاسی ذمے داریوں سے کبھی غافل نہیں رہے، بالآخر یہ عہد ساز شخصیت یکم ستمبر 2021 ءکو اپنے مالک حقیقی سے جاملی اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔