ہفتہ، 27 جنوری، 2018

فروری کے مہینے کا فلکیاتی جائزہ،ایک تیز رفتار مہینہ

ملک میں سیاسی اور صحافتی سرگرمیاں اپنے عروج پر رہیں گی
نئے سال 2018 ءکا پہلا مہینہ ختم ہورہا ہے،نئے سال کے حوالے سے ہم نے اپنے فلکیاتی تجزیے میں عرض کیا تھا ”جنوری کا مہینہ پاکستان کے لیے ایک مشکل مہینہ ثابت ہوسکتا ہے“ چناں چہ پورا مہینہ ہی جس انداز میں گزرا ہے، وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے،ہم نے نشان دہی کی تھی کہ ”راہو کیتو کی نئی پوزیشن اس حوالے سے خاصی معنی خیز ہے، راہو زائچے کے تیسرے گھر میں رہتے ہوئے پیدائشی عطارد سے ناظر ہے، یہ صورت حال پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد کرتی نظر آتی ہے“ مزید اس اندیشے کا بھی اظہار کیا تھا ”عطارد زائچے کے پانچویں گھر کا حاکم ہے، جس کا تعلق انٹرٹینمنٹ، شعور، انعامی اسکیموں، اعلیٰ تعلیم اور بچوں کے معاملات سے ہے لہٰذا راہو کی نظر ان معاملات پر بھی اثر انداز ہوگی“
اسی مہینے میں بچوں پر تشدد اور ظلم و زیادتی میں اضافہ ہوا، زینب کیس میڈیا اور سوشل میڈیا کی خصوصی توجہ کا باعث رہا، اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب نے خصوصی نوٹس لیا، قصہ مختصر یہ کہ جنوری خاصا ہنگامہ خیز مہینہ ثابت ہوا، فروری کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور اس سے پہلے ہی 31 جنوری کو چاند گہن زائچہ ءپاکستان کے تیسرے گھر میں لگ رہا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ فروری کا مہینہ رواں صورت حال میں مزید تیزی لائے گا، نئے فیصلے اور اقدام دیکھنے میں آئیں گے،حکومت کو اور دیگر حکومتی اداروں کو زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے دیکھیں گے،وزیراعظم اور ان کی کابینہ بدستور ایک دباو ¿ کی کیفیت میں رہے گی، صوبائی حکومتیں بھی بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہےں گی،کسی صوبائی حکومت یا صوبائی وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا اسمبلی ٹوٹنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے جیسا کہ ابھی بلوچستان میں ہوا۔
16 فروری کو سورج گہن پاکستان کے زائچے میں دسویں گھر میں لگے گا اور صوبائی حکومتوں کے بارھویں گھر میں،یہ صورت حال بھی تشویش ناک ہے،گویا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں پر خطرے کی تلوار فروری میں بھی لٹکتی رہے گی۔
سال 2018 ءکی فلکیاتی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم نے اس سال کو ”دھلائی، صفائی اور لڑائی کا سال“ قرار دیا ہے،سال کا آغاز ہی ہمارے اندازوں کی تائید کر رہا ہے،جس تیزی سے اعلیٰ عدلیہ دھلائی صفائی کے کاموں پر توجہ دے رہی ہے،وہ یقیناً قابل تحسین ہے،عوام کے بنیادی مسائل عدلیہ کے پیش نظر ہےں جن میں پانی، تعلیم، صحت جیسے امور نمایاں ہیں،ہمارے چیف جسٹس محترم ثاقب نثار صاحب ہفتہ اتوار کی چھٹی بھی ختم کرکے مسلسل کام کر رہے ہیں، یہ بڑی ہی خوش آئند بات ہے،کم از کم ملک کا کوئی ادارہ تو اپنی ذمے داریوں کو محسوس کر رہا ہے لیکن یہ ساری صورت حال ہماری سیاسی اشرافیہ کے لیے ناپسندیدہ ہے،ن لیگ اور خصوصاً میاں صاحب تو بہت سخت الفاظ میں عدلیہ پر تنقید کر رہے ہیں،پیپلز پارٹی بھی اس صورت حال سے خوش نہیں ہے،سیاسی مافیا کے زرخرید صحافی اور وکلا حضرات بھی حق نمک ادا کر رہے ہیں لیکن جوابی طور پر ملک و قوم کا حقیقی درد رکھنے والے بھی کم نہیں ہےں،گویا پاکستان ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں ہر سطح پر ایک محاذ آرائی جاری ہے، اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی اور یہی پاکستان کے زائچے میں جاری چھٹے گھر کے حاکم سیارہ زہرہ کے دور اصغر اور مشتری کے دور اکبر کا ثمرہ ہے ، زہرہ کا دور تو 2019 ءتک جاری رہے گا تو کیا یہ پورا سال ایسی ہی معرکہ آرائی میں گزرے گا؟ 
دام ہر موج میں ہے حلقہ ءصدکامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہیں قطرے پہ گوہر ہونے تک
فروری کے ستارے
سیارہ شمس ہوائی برج دلو میں حرکت کر رہا ہے،18 فروری کو آبی برج حوت میں داخل ہوگا، منشی ءفلک سیارہ عطارد بھی برج دلو میں حرکت کر رہا ہے اور 18 فروری کو اپنے برج ہبوط میں داخل ہوگا، برج حوت میں عطارد کی پوزیشن انتہائی کمزور اور ناقص ہوتی ہے،اس دوران میں دستاویزات کی تیاری یا کسی اہم معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے محتاط رہیں، عطارد اس برج میں 6 مارچ تک رہے گا۔
توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج دلو میں حرکت کر رہا ہے اور 11 فروری کو اپنے شرف کے برج حوت میں داخل ہوگا، 3 مارچ کو درجہ ءشرف پر پہنچے گا، اس وقت کا ماہرین جفر سال بھر انتظار کرتے ہیں کیوں کہ یہ تسخیر کی قوت رکھتا ہے، اس وقت محبت، دوستی اور شادی جیسے معاملات کے لیے نقش و طلسم تیار کیے جاتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جن کی شادی میں رکاوٹ ہو یا ازدواجی زندگی میں مسائل ہوں۔
سیارہ مریخ برج قوس میں حرکت کررہا ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں رہے گا، سیارہ مشتری برج عقرب میں اور سیارہ زحل پورا مہینہ برج جدی میں حرکت کریں گے،یورینس برج حمل میں جب کہ نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں اپنا سفر جاری رکھیں گے،راس اور ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں حرکت کریں گے،14 جنوری سے راس و ذنب اسٹیشنری پوزیشن پر آچکے ہیں جو مارچ تک جاری رہے گی،اس پوزیشن میں راس و ذنب کے غیر معمولی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
نظرات و اثرات سیارگان
فروری میں اہم سیارگان کے درمیان تشکیل پانے والے زاویے مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات ظاہر کر رہے ہیں،اس ماہ میں تربیع کا منفی زاویہ 5 بار قائم ہوگا، جب کہ مقابلے کا منفی زاویہ کوئی نہیں ہے،تثلیث کا سعد زاویہ صرف ایک ہے جب کہ تسدیس کے سعد زاویے 7 ہیں،3 قرانات ہوں گے، ان نظرات کی تفصیل درج ذیل ہے۔
3 فروری: زہرہ اور مشتری کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ قائم ہوگا، یہ زاویہ اختلافات کو بڑھاوا دیتا ہے،خصوصاً عورت و مرد کے درمیان عدم موافقت اور اختلاف رائے پیدا ہوتا ہے،بعض اوقات قانونی مسائل بھی دیکھنے میں آتے ہیں،ملکی صورت حال میں یہ نظر آئینی و قانونی امور میں عدم توازن کا باعث ہوتی ہے،عدلیہ، فوج اور سول بیوروکریسی کی ذمے داریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
7 فروری: عطارد اور یورینس کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ بہتر معلومات کا ذریعہ بنتا ہے،نئے انکشافات ہوتے ہیں،نئی ایجادات سامنے آتی ہیں، خصوصاً الیکٹرونکس سے متعلق نئی پروڈکٹس متعارف ہوتی ہیں، می ©ڈیا کی کارکردگی غیر معمولی ہوتی ہے،عام افراد کے لیے یہ وقت کسی بڑی تبدیلی یا کسی نئے آغاز کے لیے بہتر ثابت ہوتا ہے،سفر کے امکانات پیدا ہوتے ہیں یا اچانک کوئی سفر سامنے آتا ہے،ضروری معلومات کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔
اسی تاریخ کو عطارد اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ لاتا ہے لہٰذا ایسے کاموں کی انجام دہی فائدہ مند ہوتی ہے جس میں آرٹسٹک ٹیلنٹ کی ضرورت ہو، پیچیدہ اور مشکل ترین مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے، نت نئی راہیں کھلتی ہیں۔
11 فروری: شمس اور مشتری کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان اختلاف رائے یا تنازعات لاتا ہے،گورنمنٹ نئے آرڈیننس جاری کرتی ہے جو ناپسندیدہ ہوسکتے ہیں، عام افراد کو اس دوران میں قانونی مسائل سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے،مقدمات میں فیصلے خلاف آسکتے ہیں لہٰذا اس وقت کو ٹالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
14 فروری: عطارد اور مشتری کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ کاموں میں رکاوٹ لاتا ہے،سفر ملتوی ہوتے ہیں یا کوئی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے،اس وقت انٹرویو نہیں دینا چاہیے ورنہ نتائج توقع کے خلاف آسکتے ہیں، اپنے مالی معاملات اور حسابات کو چیک کرنا چاہیے، کوئی کمزوری یا غلطی آئندہ کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔
اسی تاریخ کو شمس اور یورینس کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ ہوگا، اس وقت گورنمنٹ سے مثبت اقدام یا فیصلوں کی امید رکھنا چاہیے،جدید ترقیاتی امور میں بہتر فی ©صلے ہوتے ہیں، آئی ٹی یا انٹرنیٹ سے متعلق انڈسٹری کے لیے بہتر فیصلے سامنے آسکتے ہیں،عام افراد کو ضروری معلومات کے حصول میں اور الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے میں مدد مل سکتی ہے، غیر متوقع طور پر ان کے کام ہوسکتے ہیں جب کہ وہ ناامید ہورہے ہوں۔
15 فروری: عطارد اور یورینس کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ مزید اہمیت کا حامل ہے لیکن خیال رہے کہ عطارد اس وقت غروب حالت میں ہوگا لہٰذا سفر یا ضروری معلومات کے حصول میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی،اس وقت آپ کوئی غلطی بھی کرسکتے ہیں،کسی بدگمانی کا شکار ہوسکتے ہیں،الیکٹرونکس میڈیا میں افواہیں یا غلط خبریں سامنے آسکتی ہیں، بہر حال اپنے معاملات میں یا حالات میں تبدیلی کے لیے کوئی فیصلہ کرنا یا قدم اٹھانا اس وقت ممکن ہوتا ہے لیکن آنکھیں بند کرکے اور دوسروں پر بھروسا کرکے یہ کام نہ کریں۔
16 فروری: عطارد اور مشتری کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ اگرچہ فائدہ مند ہے لیکن بہت زیادہ نہیں ہے،کام ہوں گے مگر ادھورے ہوسکتے ہیں یا ان کاموں سے آپ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوں گے۔
17 فروری: مریخ اور نیپچون کے درمیان تربیع کا نحس ترین زاویہ قائم ہوگا، پاکستان کے زائچے کے مطابق یہ نظر جرائم میں اضافہ لاسکتی ہے،چوریاں ڈکیتیاں اور قتل و غارت اس نظر کا شاخسانہ ہوسکتا ہے،عام لوگوں کو اس وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی اور غیر ضروری سرگرمیوں یا دلچسپیوں سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔
اسی تاریخ کو شمس و عطارد کے درمیان قران کا زاویہ بھی ایک نحس نظر ہے،یہ وقت سفر اور ضروری معلومات کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے، اس وقت لوگوں سے رابطے میں مشکلات پیش آتی ہیں،تحریری اور تقریری کاموں میں رکاوٹ یا دشواری پیش آتی ہے۔
21 فروری: عطارد اور نیپچون کا قران اگرچہ ایک سعد نظر ہے لیکن عطارد کی کمزور پوزیشن سعادت افزا نہیں ہے،یہ وقت ڈپریشن اور مایوسی لاسکتا ہے،افواہیں پھیلتی ہیں، اہم کاموں میں بھول چوک ہوتی ہے،لوگ اپنا وقت غیر ضروری فضول مصروفیات میں ضائع کرتے ہیں۔
22 فروری: عطارد اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت مستقبل کی پلاننگ کے لیے بہتر ہے،نئے معاہدات کیے جاسکتے ہیں،اس وقت مہلک بیماریوں سے نجات کے لیے کوشش کرنا چاہیے،اس سلسلے میں روحانی عملیات بھی اس وقت مفید ثابت ہوتے ہیں۔
25 فروری: عطارد اور مریخ کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ حادثات کی نشان دہی کرتا ہے،بچوں سے متعلق حادثات اور سانحات کا اندیشہ رہتا ہے،غصے اور اشتعال کی فضا پیدا ہوتی ہے،ڈرائیونگ کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، میڈیا میں سنسنی خیز خبریں نشر ہوتی ہیں۔
اسی تاریخ کو عطارد اور نیپچون کے درمیان قران بھی ہوگا، یہ بھی ذہنی انتشار اور پریشانی لانے والی نظر ہے،اس وقت اہم معاملات میں فیصلے نہ کریں،اس وقت کو گزر جانے دیں، تعلیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے،لوگوں پر آنکھ بند کرکے بھروسا نہ کریں، وہ نامناسب مشورہ دے سکتے ہیں یا غلط رہنمائی کرسکتے ہیں،چوریاں اور فراڈ کی وارداتیں بڑھ سکتی ہیں۔
اسی تاریخ کو شمس اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ گورنمنٹ کے مثبت اقدام یا فیصلوں کی نشان دہی کرتا ہے،عام افراد اس وقت رہائش یا پراپرٹی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے کوشش کرسکتے ہیں،پراپرٹی کی خریدوفروخت کے لیے بھی اچھا وقت ہوگا۔
27 فروری: زہرہ اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ جذبات میں جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے، خصوصاً رومانی تعلقات میں ہم زیادہ سرگرم اور پرجوش ہوسکتے ہیں، عورت و مرد کے باہمی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی ہے اور تنازعات کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
قمر در عقرب
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں اس ماہ 6 فروری کو 12:41 pm سے 02:34 pm تک رہے گا، یہ وقت انتہائی نحوست کا ہے،اس وقت کسی بھی قسم کی بندش ، بیماریوں یا بری عادتوں سے نجات کے لیے نقش و وظائف کیے جاسکتے ہیں، گہن کے موقع پر جو عملیات دیے گئے ہیں وہ بھی اس وقت انجام دیے جاسکتے ہیں۔
لندن جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق قمر در عقرب کا وقت 6 فروری کو 07:41 am پر شروع ہوگا اور 09:34 am تک رہے گا، دیگر ممالک اور شہروں کے لوگ لندن ٹائم سے اپنے ملک یا شہر کا فرق نفی یا جمع کرکے اس ٹائم کو درست کرسکتے ہیں۔
بچوں کا رونا
چھوٹے بچے بعض اوقات بلا کسی خاص وجہ یا بیماری کے بے تحاشاروتے ہیں،اکثر تو اس کی وجہ ان کی کوئی جسمانی تکلیف ہوتی ہے مثلاً ریاحی تکالیف، پیٹ میں درد وغیرہ ، اس صورت میں معقول علاج ہونا چاہیے، بعض اوقات نظربد کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے، بہر حال درج ذیل نقش کسی سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھ کر بچے کے گلے میں ڈالنا مفید ثابت ہوگا، یہ کام دیے گئے قمر در عقرب یا چاند ، سورج گہن میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ط ط ط ط ط ط ط ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی قدوس قدوس قدوس قدوس قدوس قدوس قدوس برحمتک یا ارحم الرحمین۔
شرف قمر
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اس ماہ قمر برج ثور میں 21 فروری کو 03:47 am پر درجہءشرف پر ہوگا اور 05:36 am تک رہے گا، یہ سعد اور موافق وقت ہے، اس وقت نیک اعمال کرنے چاہئیں، چوں کہ شرف قمر کا یہ وقت عروج ماہ میں ہوگا لہٰذا زیادہ مو ¿ثر ثابت ہوگا، اس وقت میں لوح قمر نورانی اور برکاتی انگوٹھی بھی تیار کی جاسکتی ہے، یاد رہے کہ برکاتی انگوٹھی آمدن میں اضافے کے لیے پہنی جاتی ہے، یہ انگوٹھی پہننے والے کا ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتا، ہر مہینے اس وقت کے حوالے سے بسم اللہ الرحمن الرحیم اور اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم کا وظیفہ بھی ہم دیتے رہے ہیں، وہ بھی اس وقت میں کرسکتے ہیں۔
عمل برائے ہرمقصد
کوئی بھی مشکل یا مہم درپیش ہو تو یہ عمل کام دیتا ہے، عروج ماہ میں کسی بھی نوچندے جمعرات یا جمعہ ، اتوار یا پیر سے شروع کیا جاسکتا ہے لیکن شرف قمر میں کیا جائے تو زیادہ مو ¿ثر ثابت ہوسکتا ہے،اس عمل کی مدت 12 دن ہے۔
یا بدیعُ العَجائب بِالخیر یا بَدیعُ
روزانہ 800 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھیں اور اللہ سے اپنے مقصد کے لیے عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کریں،اگر ایک مہینے میں کامیابی نہ ملے تو اس عمل کو ہر ماہ شرف قمر میں یا عروج ماہ کے مذکورہ دنوں میں تین ماہ تک جاری رکھیں، انشاءاللہ یقینی کامیابی ملے گی، ہر گز دل میں کوئی مایوسی اور بداعتمادی نہ لائیں، ساتھ ہی حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کرتے رہیں۔
برائے کُند ذہنی
بعض بچے کُند ذہن ہوتے ہیں اور انہیں تعلیمی معاملات میں خاصی دشواری کا سامنا رہتا ہے، جو کچھ پڑھتے ہیں ، یاد نہیں ہوتا، ایسے بچوں کے لیے درج ذیل عمل کریں۔
نوچندے بدھ کے روز یا شرف قمر میں یہ عمل کیا جائے، اس کے علاوہ شرف عطارد یا اوج عطار دمیں شروع کیا جاسکتا ہے۔
پاک پانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم 786 مرتبہ پڑھ کر دم کریں اور چالیس روز تک یہ پانی ایک چمچا روز نہار منہ اور شام کو عصر و مغرب کے درمیان پلادیا کریں، انشاءاللہ کچھ دن بعد ہی ذہنی کُشادگی پیدا ہونے لگے گی اور سبق یاد ہونے لگے گا، پانی ختم ہونے لگے اور بوتل میں تھوڑا سا رہ جائے تو مزید پاک پانی سے بوتل بھرلیں اور استعمال جاری رکھیں۔

پیر، 22 جنوری، 2018

نئے سال کے پہلے چاند اور سورج گہن،تبدیلی کے نقیب

موجودہ حکومت کے لیے نئی مشکلات اور نئے چیلنجز کی نشان دہی
نئے سال کا آغاز کسی طرح بھی اطمینان بخش نظر نہیں آتا، یکے بعد دیگرے مختلف حادثات و سانحات، سیاسی محاذ آرائیاں، عدالتی کارروائیاں جاری ہیں، بلوچستان میں وزارت اعلیٰ تبدیل ہوگئی، قصور میں جو سانحہ پیش آیا اس کی باز گشت تادم تحریر جاری ہے،ابھی تک قاتل گرفتار نہیں ہوا، تقریباً تمام ہی اپوزیشن پارٹیوں نے مولانا طاہر القادری کے ساتھ لاہور میں احتجاجی جلسہ بھی منعقد کرلیا جو نشستند، گفتند، برخاستند کے مصداق رہا، قصہ مختصر یہ کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا، موجودہ حکومت کے خاتمے کا وقت بھی زیادہ دور نہیں ہے،اس سے پہلے سینیٹ میں الیکشن کا مرحلہ بھی موجود ہے،شاید اپوزیشن پارٹیاں چاہتی ہیں کہ حکومت وقت سے پہلے ہی رخصت ہوجائے۔
زائچہ ءپاکستان کے مطابق 30, 31 جنوری اور اس کے بعد 16 فروری کی تاریخیں نہایت اہم ہیں جب کہ سیارگان کی پوزیشن کسی بڑی تبدیلی، فتنہ و فساد یا کسی نئے حادثے یا سانحے کی نشان دہی کرتی ہے، سیارگان زائچے کے نویں گھر میں داخل ہورہے ہیں جس کا تعلق آئین و قانون، عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے ہے، مزید یہ کہ نویں گھر میں پیدائشی زائچے میں اہم سیارگان موجود ہیں خصوصاً تیسرے گھر کا حاکم قمر بھی اسی گھر میں ہے،31 جنوری کا چاند گہن تیسرے گھر میں لگے گا جب کہ 16 فروری کا سورج گہن زائچے کے دسویں گھر میں ہوگا، یہ تمام علامتیں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے لیے خطرات کی نشان دہی کر رہی ہے،مزید یہ کہ ملک کی داخلی صورت حال میں شدید انتشار اور افراتفری کا امکان ظاہر ہورہا ہے،16 فروری کا سورج گہن چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لیے نحس اثر رکھتا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنا مشکل ہوجائے گا (واللہ اعلم بالصواب)
چاند گہن
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اس سال کا پہلا چاند گہن 31 جنوری کو بہ حساب یونانی 9 درجہ 22 دقیقہ برج اسد میں لگے گا، اس کا آغاز سہ پہر 03:51 pm پر ہوگا اور نقطہ ءعروج 06:31 pm ہوگا جب کہ خاتمہ رات 09:08 pm پر ہے۔
گرین وچ ٹائم کے مطابق چاند گہن کا آغاز 31 جنوری کو 10:51 am پر ہوگا اور نقطہ ءعروج 01:31 pm جب کہ اختتام 06:08 pm پر ہوگا، دیگر ممالک کے افراد گرین وچ ٹائم سے اپنے ملک اور شہر کا فرق اس وقت میں سے نفی یا جمع کرکے گہن کا درست ٹائم معلوم کرسکتے ہیں۔
سورج گہن
سال کا پہلا سورج گہن پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 16 فروری کو برج دلو کے 2 درجہ 27 دقیقہ پر لگے گا، اس گہن کا آغاز 15 فروری کو رات 11:55 pm پر ہوگا اور نقطہ ءعروج 16 فروری 01:51am پر ہوگا جب کہ اختتام 03:47 am پر ہوگا۔
گرین وچ ٹائم کے مطابق اس گہن کا آغاز 15 فروری کو 06:55 pm پر ہوگا اور نقطہ ءعروج 08:51 pm پر اور اختتام 10:47 pm پر ہوگا۔
دونوں گہن مکمل طور پر پاکستان میں نظر نہیں آئیں گے البتہ چاند گہن کا کچھ حصہ مغرب کے بعد دیکھا جاسکے گا۔
اثرات و اعمالِ گہن
قدیم و جدید تحقیق کے مطابق سیارہ شمس قوت حیات کا نمائندہ ہے جب کہ چاند ہماری زمین کا قریبی ہمسایہ ہونے کی وجہ سے کرئہ ارض پر گہرے اثرات ڈالتا ہے،خصوصاً مائع اشیا پر اس کا اثر نمایاں طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے،سمندر میں مدجزر اس کی واضح مثال ہے،انسانی جسم میں رطوبات زندگی سے متعلق گلینڈز اور دوران خون بھی اس کے زیر اثر ہیں،چناں چہ چاند یا سورج گہن کی حالت میں اپنی مثبت توانائی زمین تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں لہٰذا انسانی زندگی پر اس کے اثرات پڑتے ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت میں حاملہ خواتین کو خصوصی احتیاط کرنا چاہیے، گہن کے وقت کوئی کام نہ کرےں اور آرام دہ بستر پر آرام سے دراز ہوکر کثرت سے استغفار پڑھیں۔
عام افراد کے لیے بھی چاند یا سورج گہن کے ناقص اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کثرت سے استغفار کا ورد کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے،اس کے علاوہ ہفتہ اور منگل کے روز صدقات دینا بھی گہن کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے، یہ صدقات چاند گہن کے دوران میں مسلسل ایک ماہ تک اور سورج گہن کے دوران میں تقریباً تین ماہ تک دینا چاہیے،جہاں تک چاند اور سورج کے ناقص اثرات کی نشان دہی کا تعلق ہے تو یہ اثرات ہر شخص کے انفرادی زائچہ ءپیدائش یا زائچہ ءنکاح کے مطابق دیکھے جاسکتے ہیں، عام طور پر لوگ اپنے شمسی برج (Sun sign) سے واقف ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنے حالات و واقعات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک غلط رجحان ہے،شمسی برج صرف ہماری شخصیت کے مختلف پہلوو ¿ں پر روشنی ڈالتا ہے،حالات وواقعات کے اتار چڑھاو ¿ کا جائزہ لینے کے لیے پیدائشی برج (birth sign) اہم ہے اور اسے معلوم کرنے کے لیے پیدائش کا وقت معلوم ہونا بھی ضروری ہے، جو لوگ اپنا زائچہ (birth chart) بنواکر پاس رکھتے ہیں ، وہ ہی اپنے پیدائشی برج سے واقف ہوتے ہیں اور علم نجوم کے ذریعے درست رہنمائی حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
سورہ کوثر کا تالے والا عمل
سورج اور چاند گہن سے متعلق جو اعمال دیئے گئے ان کے حوالے سے اکثر ہمارے قارئین نے ای میل اور ٹیلی فون کے ذریعے بعض سوالات پوچھے ہیں اور ساتھ ہی بعض لوگوں نے فرمائش کی ہے کہ سورہ کوثر کا عمل دوبارہ شائع کیا جائے کیوں کہ گزشتہ سال کے اخبارات ان کے پاس محفوظ نہیں ہیں۔
اس عمل کے لیے گہن کے وقت سے پہلے ایک نیا غیر استعمال شدہ تالا لا کر رکھ لیں۔ تالا لوہے یا اسٹیل کا ہو۔ بہترین بات یہ ہو گی کہ ایسا تالا ہو جو چابی سے کھلتا اور بند ہوتا ہو لیکن اگر ایسا تالا نہ ملے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ آپ وہی تالا لے لیں جو بغیر چابی کے کھٹکے سے بند ہوتا ہو۔ مکمل گرہن کے وقت باوضو علیحدہ کمرے میں مغرب (West) کی طرف منہ کر کے بیٹھیں (مغرب سے مراد قبلہ شریف نہیں ہے) اور بسم اﷲ پوری پڑھنے کے بعد سات مرتبہ سورہ کوثر پوری پڑھیں اور پھر زبان سے اپنے مقصد کا اظہار کریں۔ اس کے بعد تالے کے سوراخ میں پھونک مار کر تالا بند کر دیں۔ خیال رہے کہ اس سارے کام کے دوران اپنی ذہنی اور روحانی قوت کو اپنے مقصد پر مرتکز کریں۔ یعنی دل میں یہ یقین پیدا کر یں کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اور جس مقصد سے کر رہے ہیں وہ یقینا انجام پائے گا۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رکھیں۔ مقصد کے حوالے سے سورہ کوثر پڑھنے کے بعد آپ کا جملہ اس طرح ہونا چاہیے۔
مثلاً کسی کے دل میں جگہ اور محبت پیدا کرنا مقصود ہے تو یوں کہیں۔ ”میں نے باندھا خواب و خیال کو فلاں بن فلاں کے جب تک مجھے نہ دیکھے، چین نہ پائے۔“
اگر مقصد کسی بری عادت یا حرکت سے روکنا ہے تو اس طرح کہیں ”میں نے باندھا عادت بدگوئی اور جھوٹ کو فلاں بن فلاں کے کبھی جھوٹ نہ بولے اور خراب کلمات منہ سے نہ نکالے۔“
اگر نشے یا جوئے کی عادت سے روکنا ہو تو جملہ اس طرح کہیں۔ ”میں نے باندھا عادت نشہ یا جوا فلاں بن فلاں کا، کبھی نشہ نہ کرے یا کبھی جوا نہ کھیلے۔“
الغرض کسی بھی برے کام یا بری عادت سے روکنے کے لیے اپنے مقصد کا اظہار ایک مختصر سے جملے میں اس طرح کریںکہ آپ کی کوشش کا اثبات ظاہر ہو اور اس کام کی نفی کی جائے جسے روکنا مقصود ہے۔
بعض لوگوں نے رجال الغیب کی سمت کے بارے میں سوال کیا ہے، ہماری ویب سائٹ www.maseeha.com کا وزٹ کریں اور علم جفر کا کالم کھول لیں تو رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا نقشہ مل جائے گا، اس سے کام لیں۔
رجال الغیب چاند کی تاریخوں کے حساب سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ عمل کے وقت جس سمت میں رجال الغیب ہوں ادھر رخ کر کے نہ بیٹھا جائے بلکہ اپنا رخ ایسی سمت میں رکھیں کہ آپ کی پشت رجال الغیب کی طرف ہو یا پھر وہ آپ کے بائیں ہاتھ کی طرف ہوں۔ اس اعتبار سے اگر وہ مشرق میں ہوں تو مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھیں اور شمال مشرق میں ہوں تو جنوب کی طرف منہ کر لیں۔ بس اتنی سی احتیاط کافی ہو گی۔ آخری بات یہ کہ وہ تمام افراد جو اعمال گہن سے مستفید ہونا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ عمل کرنے کے بعد صدقہ خیرات ضرور کریں۔
میاں بیوی میں محبت کے لیے عمل خاص
زن و شوہر میں اختلافات، مزاجی ناہمواری، باہمی لڑائی جھگڑا، محبت کی کمی وغیرہ کے لیے یہ ایک مجرب طریقہ ہے اور صرف شادی شدہ خواتین و حضرات ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نہایت آسان بھی ہے۔ گرہن کے درمیانی وقت میں ایک سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے پوری بسم اﷲ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔
والقیت علیک محبة فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبة فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمد و خدیجة الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً
اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ ( چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔
خیال رہے کہ مندرجہ بالا نقوش لکھتے ہوئے باوضو رہیں، پاک صاف کپڑے پہنیں، علیحدہ کمرے کا انتخاب کریں، لکھنے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنے مقصد کو ذہن میں واضح رکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، رجال الغیب کا خیال رکھیں کہ آپ جس طرف رخ کر کے بیٹھے ہوں وہ آپ کے سامنے نہ ہوں۔
مخالف کی زبان بندی
عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں۔ انشاءاﷲ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل
ناجائزو ناپسندیدہ تعلق کا خاتمہ
اکثر والدین اپنے بیٹے یا بیٹی کی ایسی محبت یا وابستگی سے پریشان رہتے ہیں جو ان کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لڑکا یا لڑکی ایک غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ 
 ایسی صورت میں طریقہ یہ ہے کہ گہن کے وقت کسی علیحدہ کمرے میں باوضو بیٹھ کر مندرجہ ذیل سطور کسی سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں اور کا غذ کو تہہ کر کے تعویذ کی شکل بنا لیں اور پھر اس کاغذ کو کسی بھاری وزنی چیز کے نیچے دبا دیں یا قبرستان میں دفن کردیں، اگر ایسے دو نقش تیار کیے جائیں اور دونوں کو لڑکا اور لڑکی کے راستے میں دفن کردیا جائے تو انشاءاللہ دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجائے گی۔
”احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم تعلق فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں عَقدَت قُلوبِھم ابداً یا حراکیل بحق یا قابض یا مانع العجل العجل الساعة الساعة“
بھاگنے والے کو روکنا یامفرور کی واپسی
اگر کوئی بچہ یا بڑا گھر سے بھاگتا ہو یا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہو تو اس کے لیے سورج یا چاند گہن کے وقت نقش بنانے کا طریقہ یہ ہے۔
 حسب دستور علیحدہ کمرے میں بیٹھ کر سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے اس طرح نقش لکھیں۔ حروف صوامت کی چار سطریں دائیں بائیں اور اوپر نیچے اس طرح لکھیں کہ درمیان کی جگہ خالی رہے اور حروف کی سطروں سے ایک چوکور خانہ بن جائے۔ پھر اس خانے کے درمیان بیچ میں بھاگنے والے کا نام مع والدہ لکھیں۔ اس کے بعد حروف صوامت کی سطور کے اوپر سات سات مرتبہ یہ چار آیات لکھ دیں۔ 
صُم بُکم عُمی فَھُم لا یَرجعُون ۔ صُم بُکم عُمی فَھُم لا یَعقِلُون۔ صُم بُکم عُمی فَھُم لا یُبصِرُون۔ صُم بُکم عُمی فَھُم لایُتکَلِمُون۔
اب اگر بھاگنے والے کو روکنا مقصود ہے تو بیچ کے خانے میں اس کے نام کے ساتھ اس جملے کا اضافہ کردیں ” بستم قدم درون خانہ“۔ اس تعویذ کو اس کے تکیے میں یا سرہانے کسی جگہ رکھ دیں۔ انشاءاللہ گھر سے بھاگنے سے باز آجائے گا اور زیادہ وقت گھر میں ہی گزارے گا۔ اگر بھاگے ہوئے کو واپس بلانا مقصود ہے تو اس نقش کو کسی لکڑی کے تختے یا موٹے گتےّ پر چپکادیں اور پھر اسے گھر کی جنوبی دیوار پر ایک کیل ٹھونک کر لٹکادیں۔ بھاگنے والے کا نام جو درمیان میں لکھا ہے،اس کے پہلے حرف پر کوئی سوئی یا آل پن چبھو دیں۔ انشاءاللہ 13 دن میں واپس آئے گا یا اس کی کوئی خبر ملے گی۔ عمل کے بعد مٹھائی پر فاتحہ ضرور دیں اور 300روپے خیرات کردیں۔ 
دو افراد کے درمیان عداوت و دشمنی
اکثر دو افراد کے درمیان عداوت یا دشمنی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتی ہے،اس کا خاتمہ ضروری ہے، اکثر تو اس بنیاد پر باہمی قریبی رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی صورت حال کے لیے درج ذیل عمل مفید ثابت ہوگا، دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون کر رہا ہے؟ لہٰذا نقش لکھتے ہوئے پہلے اُس فریق کا نام مع والدہ لکھیں جو ظلم و زیادتی کر رہا ہو اور بعد میں اس کا نام لکھیں جو حق پر ہو اور اس ساری دشمنی میں اپنا دفاع کر رہا ہو۔
احدرسص طعک لموہ لادیایا غفور یا غفور بستم اختلاف و عداوت فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں بحق صمُ بکمُ عمیُ فہم لایعقلون یا حراکیل العجل العجل العجل الساعة الساعة الساعة الوحا الوحا الوحا
کسی صاف کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے دو نقش گہن کے وقت لکھیں اور موم جامہ یا کالی ٹیپ لپیٹ کر اُس راستے میں دائیں بائیں کسی سائیڈ دفن کردیں، جہاں سے اُن کا گزر ہوتا ہو، زمین میں دفن کرنے سے پہلے نقش پر کوئی وزنی پتھر بھی رکھ دیں، بعد ازاں کچھ مٹھائی پر فاتحہ دے کر بچوں میں تقسیم کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

چند مسائل علم نجوم و علم الاعداد

نام کے حروف و اعداد مقرر کرنے کے بنیادی اصول و قواعد
مقصود حسین صدیقی صاحب نے علم الاعداد اور علم نجوم کے حوالے سے کچھ مسائل کا تذکرہ کیا ہے، صدیقی صاحب کی بزرگانہ محبت اور ہم پر اعتماد نے مجبور کردیا ہے کہ ان مسائل کا جواب دیا جائے، ویسے بھی یہ مسائل ایسے ہیں کہ یقیناً دیگر افراد کے ذہنوں میں بھی الجھن کا سبب بنتے ہوں گے لہٰذا پہلے آپ ان کا خط ملاحظہ کیجیے پھر اس پر بات ہوگی، وہ لکھتے ہیں۔
”علم الاعداد کے حوالے سے آپ کا پرانا قاری ہوں، میری الجھنوں کو دور کردیں تاکہ میں بچوں کے نام صحیح طرح نکال سکوں، عرض یہ ہے کہ علم الاعداد ایک حساب ہے اور سائنس بھی، حسابات کے جواب بھی ایک ہی ہوں گے، کتاب ”رہنمائے تسمیہ“ میں تاریخ پیدائش سے اعداد نکالنے کے لیے دنوں کے اعداد کو بھی شامل کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے اور اتوار کا عدد ایک سے شروع کرکے بتدریج ہفتے تک سات کا عدد شمار کرتے ہیں، اس کے طریقے کے مطابق ایک بچہ بروز ہفتہ سترہ نومبر 1984 ءکو پیدا ہوا، مکمل تاریخ پیدائش کے اعداد کا مجموعہ 32 اور مفرد عدد 5 نکلا، اب وہ اس میں ہفتے کا عدد 7 بھی شامل کرتے ہیں، اس طرح مفرد عدد 3 ہوجاتا ہے، آپ بتائیں یہ فرق کیوں ہے؟ کون سا طریقہ مانا جائے، وضاحت کردیں تاکہ تشنگی باقی نہ رہے“۔
محترم! آپ کے مندرجہ بالا سوال کا جواب دے کر پھر باقی سوالات کی طرف آئیں گے، آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے ہماری نظر سے نہیں گزری، اس کتاب میں جو طریقہ بھی دیا گیا ہے وہ مصنف کی اپنی اختراع یا اپنا ذاتی تجربہ ہوسکتا ہے لیکن یہ طریقہ معروف ہر گز نہیں ہے، قدیم و جدید علمائے علم الاعداد کی جو کتابیں ہماری نظر سے اب تک گزری ہیں، ان کے مطابق درست طریقہ وہی ہے جو ہم نے لکھا تھا یعنی تاریخ پیدائش، مہینہ اور سال کے اعداد سے عدد قسمت حاصل کیا جاتا ہے،البتہ مشہور پامسٹ اور ماہر علم الاعداد کیرو کا عقیدہ و تجربہ اس کے برعکس ہے، وہ صرف تاریخ پیدائش کے عدد ہی کو عدد قسمت قرار دیتا ہے لیکن علم الاعداد کے ماہرین کی اکثریت نے اس سے اختلاف کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ صرف تاریخ پیدائش کا عدد، عدد قسمت نہیں ہوسکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ عدد بھی انسان کی زندگی پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے، وہ اسے ”عدد سعد“ قرار دیتے ہیں لیکن عدد قسمت مکمل تاریخ پیدائش کے عدد کو ہی مانتے ہیں، اس موضوع پر حضرت کاش البرنیؒ نے اپنی کتاب ”عددوں کی حکومت“ میں تفصیلی بحث کی ہے، آپ اس کا مطالعہ ضرور کریں۔
اب ایک اور بات بھی سمجھ لیں جو ہمارے ذاتی مطالعے اور تجربے کا نچوڑ ہے، ہم نام رکھنے کے سلسلے میں مکمل تاریخ پیدائش کے مفرد عدد یعنی عدد قسمت کے ساتھ صرف تاریخ پیدائش کے مفرد عدد یعنی عدد ذات کو بھی اہمیت دیتے ہیں یعنی موقع محل کی مناسبت سے دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیتے ہیں اور یہ طریقہ زیادہ مفید رہتا ہے، اب اس کی وجہ بھی جان لیجیے، پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مکمل تاریخ پیدائش کا عدد مفرد 8 آئے تو ہم ہر گز آٹھ نمبر کا نام نہیں رکھتے کیوں کہ اس عدد کے بارے میں ہماری رائے بہت خراب ہے جس کا اظہار پہلے کرچکے ہیں، ہاں اگر زائچہ پیدائش میں زحل باقوت اور سعد ہو تو یہ رسک لیا جاسکتا ہے، ایسی صورت میں ہم صرف تاریخ پیدائش کے عدد کے مطابق نام تجویز کرتے ہیں، ایک دوسرے صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کسی کی تاریخ پیدائش اور مکمل تاریخ پیدائش دونوں کا عدد آٹھ آئے تو کیا کریں؟ پھر یہ کریں کہ تین نمبرکا نام رکھ دیں یا اگر علم نجوم سے واقفیت ہو اور زائچہ بھی سامنے موجود ہو تو طالع پیدائش کے برج کے عدد کو لیں یا زائچے میں جو سیارہ باقوت و سعد ہو اس سے منسوب عدد کو لیں، ہمارا طریقہ کار تو یہی ہے اور یہی ماہرین کی اکثریت میں معروف طریقہ ہے۔
اسی طرح ہم اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے کہ عدد سعد یا عدد قسمت میں جو موافق عدد ہو، اس کے مطابق نام رکھ دیا جائے، مثلاً عدد دو اور سات ایک دوسرے کے موافق ہیں اور ایک اور چار بھی، اب اگر عدد قسمت یا تاریخ پیدائش کا عدد سات ہو تو دو نمبر کا نام رکھنا بہت بہتر ہوگا یا تاریخ کا عدد دو ہو تو سات نمبر کا نام بھی تجویز کیا جاسکتا ہے۔
آخری بات، اعداد کی دنیا بہت وسیع اور علم الاعداد بہت پیچیدہ علم ہے، انسانی زندگی میں اعداد کے تماشے کس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں، یہ ایک ازحد طولانی باب ہے، تاریخ پیدائش کا عدد، مکمل تاریخ پیدائش کا عدد، نام کا عدد، عرفیت کا عدد، لقب کا عدد، خطاب کا عدد، بروج و سیارگان کے اعداد الغرض اور بھی بہت سی اقسام جن میں روز پیدائش کا عدد بھی شامل ہے، زندگی پر کس طرح اور کب اثر انداز ہوتے ہیں یہ بڑے تفصیلی مطالعے کے بعد ہی سمجھ میں آسکتا ہے اور اس معاملے میں خود کو زیادہ الجھانے کی عام آدمی کو ضرورت بھی نہیں ہے، سادہ اور معروف طریقہ کار جو ہم نے لکھ دیا ہے، یہ کافی ہے اور تجربہ شدہ ہے، اس کے مطابق نام رکھ دیا جائے تو آگے کوئی الجھن پیدا نہیں ہوتی، کم از کم عددی معاملات میں اب آگے چلیے، آپ کا دوسرا مسئلہ۔
”ایک مسئلہ برجوں کے اوقات کا ہے، آپ نے گزشتہ کالموں میں پورے سال کا ایک چارٹ چھاپا تھا، کیا یہ چارٹ ہر سال کے لیے کارآمد ہے؟ کیا لیپ کے سال میں جب کہ فروری 29 دن کا ہوگا برج حوت 20 فروری سے 20 مارچ تک ہی رہے گا؟ برجوں اور ان کے سیاروں اور اوقات برج متعلقہ الفاظ کے بارے میں بھی کچھ تشنگی ہے، میں دوسرے صفحے پر چارٹ کی نقل دے رہا ہوں، جہاں جہاں آپ کے چارٹ سے ”ایک بڑے اخبار“ اور ایک کتاب میں مطابقت نہیں ہے وہ سرخ روشنائی سے لکھ رہا ہوں تاکہ موازنے میں آسانی ہو، برجوں کے حروف متعلقہ جو آپ نے دیے تھے ان کا مقصد تو ظاہر میں یہی ہے کہ ان ہی کے مطابق نام کا پہلا حرف آئے، میرے مطالعے میں یہ آرہا ہے کہ برج کے عنصر اور متعلقہ حروف کے عنصر میں نظریہ دوستی و دشمنی کے تحت اختلاف پایا جاتا ہے، کیا برج کے مخالف عنصر کے حرف سے نام رکھنا مناسب ہوسکتا ہے، ایک اور گزارش یہ کہ کیا علم الاعداد کے ذریعے نام کے اعداد نکالتے وقت مندرجہ ذیل ناموں میں کیا ہمزہ (ئ) کا ایک نمبر لیا جائے گا؟ اسی طرح کیا طوبیٰ اور رحمن کے کھڑے الف کا عدد ایک لیا جائے گا؟ مجھے امید ہے کہ آپ رہنمائی کریں گے تاکہ میں اس علم کو سمجھ سکوں اور دوسروں کی کچھ مدد کرسکوں“۔
محترم! ہر چند کہ ان سوالوں کے جواب مفصل طور پر بہت طول پکڑسکتے ہیں مگر ہم اختصار سے آپ کی تسلی کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہم نے جو چارٹ بروج کے حوالے سے تاریخوں کا دیا تھا، وہ درست ہے اور ہر سال کے لیے کارآمد ہے، خصوصاً پاکستان کے لیے ، لیپ کے سال میں فروری کا ایک دن اسی لیے بڑھایا جاتا ہے کہ چار سال میں جو کمی آہستہ آہستہ واقع ہورہی ہوتی ہے اسے پورا کرلیا جائے لیکن شمس کے برج حوت میں داخلے کی تاریخوں میں کبھی کبھار فرق آجاتا ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔
آپ نے جس اخبار اور کتاب کے حوالے سے ہمارے دیے ہوئے چارٹ کا موازنہ پیش کیا ہے، اس میں مغربی وقت کی پیروی کی گئی ہے جو پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم سے پانچ گھنٹے کم ہے یعنی گرین وچ مین ٹائم، ہمارے ملک میں اکثر اخبار و رسائل چوں کہ باقاعدہ ماہرین کی خدمت ان کاموں کے لیے حاصل نہیں کرتے بلکہ مغرب سے کتابیں منگاکر ان کا ترجمہ شائع کرنے پر اکتفا کرتے ہیں لہٰذا ترجمہ کرنے والے کو ٹیکنیکل امور کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ اس فرق کو بھی نہیں سمجھ سکتا جو وقت کی کمی بیشی سے دور دراز ملکوں کے معاملات میں ہوتا ہے، ایک مثال سے اسے سمجھ لیں، سیاروں کی رفتاریں اور ان کا متعلقہ بروج میں داخلہ ہر ماہ گرین وچ ٹائم کے مطابق مغرب میں شائع شدہ کتب و رسائل میں دیا جاتا ہے اور یہ ان ممالک کے لیے درست ہے جو برطانیہ سے قریبی ہیں لیکن بہت زیادہ فاصلے پر جو ملک ہیں وہاں اس میں فرق آجاتا ہے اور پھران ممالک کے ماہرین نجوم اپنے ملک کے وقت مطابق اسے تبدیل کرلیتے ہیں، یہی تبدیلی سیاروں کے بروج میں داخلے کی تاریخ میں بھی تبدیلی لاسکتی ہے۔
اس تبدیلی کو مدنظر رکھ کر اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق تمام بروج میں شمس کے داخلے کا چارٹ بنایا جاتا ہے۔ اس چارٹ میں ایک لحاظ یہ رکھنا پڑتا ہے کہ جو تاریخ دی جائے وہ پوری طرح متعلق بروج کا احاطہ کرتی ہو یعنی ادھوری نہ ہو۔ ادھوری سے مراد یہ ہے کہ اگر شمس 20 مارچ کو برج حمل کے درجہ اول پر آرہا ہے اور اس کے داخلے کا درست وقت پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق شام 5 بج کر 32 منٹ ہے تو اصولاً اس مقررہ وقت سے پہلے تو وہ برج حوت کے آخری درجے پر ہوا۔ اب اگر کسی بچے کی پیدائش 20 مارچ کو اس وقت سے قبل دن میں کسی وقت یا صبح سے پہلے ہوئی ہے تو اس کا شمسی برج حوت ہوگا، حمل نہیں۔ اسی طرح کسی سال میں اگر برج حمل میں تحویل آفتاب 20 مارچ کو دوپہر 12 بج کر 36 منٹ پر ہوئی تھی تو ایسے دن کو بھی ادھورا دن ہی کہیں گے۔ 20 مارچ 2000ءکو 12 بج کر 36 منٹ سے قبل پیدا ہونے والے برج حوت کے زیر اثر اور بعد میں پیدا ہونے والا برج حمل کے ماتحت۔ ہم نے اوپر جو اوقات دیے ہیں ان میں 5 گھنٹے کم کردیں تو گرین وچ مین ٹائم نکل آئے گا یعنی 20 مارچ 2000ءکو شمس G.M.T کے مطابق صبح سات بج کر 32 پر برج حمل میں داخل ہوا۔ اب ایسے مشکوک دن کی بنیاد پر مستقل استعمال میں آنے والا چارٹ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس تناظر میں 21 مارچ ہی حتمی تاریخ رہے گی کہ اس تاریخ کو شمس کی برج حمل میں موجودگی یقینی ہے۔ بس یہی فرق دیگر بروج کی ابتدائی تاریخوں میں بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ امریکا کے اوقات کے مطابق تو یہ فرق اور بھی واضح ہوجاتا ہے اور ہمارے ملک میں امریکا سے بھی کتب و رسائل منگا کر ان کا ترجمہ شایع کیا جاتا ہے۔ بلکہ ”یہ ہفتہ کیسا گزرے گا“ کے عنوان سے ترجمہ شدہ مواد پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ باتیں ہمارے ملک اور معاشرے کے لیے نہیں لکھی گئی ہیں۔ ہمارے مسائل اور دلچسپیاں کچھ اور ہیں، چھٹی اور تفریح کے دن کچھ اور ہیں۔ ہمارے مسائل اور مشاغل کچھ اور ہیں جبکہ ترجمہ شدہ پیش گوئیوں اور مشوروں میں ہمیں ویک اینڈ کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہوتا ہے، ہفتے یا اتوار کو ”گارڈننگ“ کا مشورہ دیا جا رہا ہوتا ہے۔ خیر یہ تو ضمناً ذکر نکل آیا، اصل بات وہی ہے کہ ایسے کالموں میں بروج کی ابتدائی و انتہائی تاریخیں بھی وہی لکھ دی جاتی ہیں جو وہاں کے اوقات کے مطابق ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک کے پڑھنے والے اس کی وجہ سے الجھن کا شکار ہوتے ہیں۔
اب اس سلسلے میں ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے ، وہ افراد جو ایسی تاریخوں میں پیدا ہوتے ہیں جب شمس برج تبدیل کر رہا ہوتا ہے تو انھیں اپنے درست برج کے سلسلے میں کسی ماہر نجوم سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے اور اس درستی کے لیے وقت پیدائش کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔
برجوں سے متعلق حروف کا مسئلہ بھی خاصہ متنازعہ ہے۔مغرب میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہاں علم نجوم سے متعلق امور صرف تاریخ پیدائش کی بنیاد پر طے کیے جاتے ہیں، یہ مسئلہ صرف برصغیر کی پیداوار ہے اس کی وجہ ہندی جوتش کے اصول و قواعد ہیں جن کی رو سے ہندی زبان کے حروف تہجی کو مختلف بروج سے منسوب کردیا گیا ہے اور جواب میں مسلمان منجمین نے بھی اس کی تقلید کی اور اپنے الگ اصول و قواعد مقرر کرلیے۔ الگ اس لیے کہ ہندی اور اردو زبان کے حروف تہجی میں فرق ہے۔ اب یہ ہمیں تحقیق نہیں ہوسکا کہ برصغیر میں آنے سے پہلے مسلمان (عرب اور ایرانی) منجمین کا اس معاملے میں کیا موقف تھا اور وہ حروف و بروج کے باہمی تعلق کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ علم جعفر کے تحت اس سلسلے میں جو اصول و قواعد ہیں انھیں علم نجوم کے معاملات سے الگ ہی رکھنا چاہیے۔ اسی طرح حروف کا بروج سے تعلق اور اثر بھی ہمارے تجربے پر پورا نہیں اترا، اس لیے ہم بھی اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ پاکستان کے معتبر اور مستند منجمین کی کتابوں اور جنتریوں میں ہرچند کہ بروج کے ساتھ حروف بھی دیے جاتے ہیں لیکن اولیت تاریخ پیدائش سے برج معلوم کرنے کو ہی دی جاتی ہے اور یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اگر تاریخ پیدائش معلوم نہ ہو تو نام کے پہلے حرف سے کام چلائیں۔
ہمارا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ چونکہ ہمارے ملک میں اپنی تاریخ پیدائش وغیرہ کا ریکارڈ رکھنے کا رواج نہیں رہا ہے لہٰذا پیشہ ور حضرات نے ضرورت مندوں کو نام کے پہلے حرف کے چکر میں پھنسانے کی کوشش کی ہے جو رواج پاگئی ہے۔ خصوصاً اخبار و رسائل، جنتریوں وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ایسے سلسلہ ¿ مضامین کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح نام کے پہلے حرف سے موافق نگینہ تجویز کرنا بھی ہم مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اسے بہت بڑا فراڈ تصور کرتے ہیں۔ نگینہ تجویز کرنا بالکل ایسا ہے جیسے کسی بیمار کے لیے دوا تجویز کرنا اور دوا اس وقت تک درست تجویز نہیں ہوسکتی جب تک مرض کی تشخیص بالکل درست نہ ہوجائے اور یہ کام صرف نام کے پہلے حرف سے تو کجاصرف تاریخ پیدائش سے بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو باقاعدہ مکمل زائچہ بناکر زائچہ میں موجود سیارگان کے ناقص اثرات اور زائچے کے مختلف خانوں کی قوت و ضعف کو جانچنا ضروری ہے اور اس کے مطابق ہی کوئی پتھر، صدقہ یا دعا، وظیفہ یا نقش و طلسم تجویز کیا جائے۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔
آپ نے بروج کے عنصر اور حروف کے عناصر میں اختلاف کا ذکر کیا ہے تو ہماری مذکورہ بالا تشریح کے بعد اس کی اہمیت ویسے بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن آپ کی مزید تسلی کے لیے یہ بھی عرض کردیں کہ حروف کے درمیان عناصر کی تقسیم کا فارمولا علم جعفر کے تحت ہے، نہ کہ علم نجوم کے تحت، حروف کی بلحاظ عناصر باہمی دشمنی اور دوستی کو آپ بروج کی عنصری تقسیم کے تناظر میں نہ دیکھیں۔ بہرحال ہم تو اپنے ذاتی نظریات کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں۔
علم الاعداد کے ذریعے نام کے اعداد نکالتے وقت ہمزہ (ئ) کا عدد ایک شمار ہوگا، مثلاً رئیس، عائشہ، صائمہ، شائستہ وغیرہ میں لیکن علم جعفر کے مسائل میں جب آپ ابجد قمری سے کام لیں گے جو ایک سے ایک ہزار تک حروف کی قیمتیں بتاتی ہے اور اسم اعظم کے استخراج کے لیے ہم دے چکے ہیں تو ان ناموں میں ہمزہ کے دس عدد لیے جائیں گے۔ کیونکہ ہمزہ ”ی“ کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ طوبیٰ یا رحمن وغیرہ میں کھڑے الف کے اعداد نہیں لیے جائیں گے۔ بلکہ کسی لفظ میں بھی کھڑا حرف آئے تو اس کے اعداد نہیں شمار کریں گے۔
محترم! امید ہے کہ آپ کی تسلی و تشفی ہوگئی ہوگی، آپ نے واقعی بہت عمدہ سوالات اٹھائے جن کی وجہ سے ہمارے دیگر قارئین بھی ان الجھنوں کے پھیر سے نکل سکیں گے جو آپ کو درپیش تھیں۔

ہفتہ، 6 جنوری، 2018

بڑھی ہوئی حساسیت سے جنم لینے والے امراض اور ان کا علاج

پیشہ ور معالجین اس حوالے سے جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے 
ایران میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں، دسمبر کے آغاز پر ہی ہم نے دنیا کے چار ممالک امریکا ، ایران، اسرائیل اور چین کے زائچوں پر سیاروی گردش کے حوالے سے اپنی گزارشات پیش کی تھیں اور نشان دہی کی تھی کہ ایران کو مارچ تک نئے چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے،یہ صورت حال اب ہمارے سامنے ہے ، ایران کا پیدائشی برج سرطان ہے اور چوتھے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ ہے،زائچے کا چوتھا گھر داخلی معاملات اور عوامی دکھ، تکلیف اور پریشانیوں کی نشان دہی کرتا ہے،سیارہ زہرہ گزشتہ تقریباً نومبر سے غروب حالت میں ہے اور 20 فروری تک غروب رہے گا، مزید یہ کہ سیارہ مشتری زائچے کے چوتھے گھر میں حرکت کرتے ہوئے حساس پوائنٹ پر آگیا ہے، سیارہ زحل جو زائچے کا دوسرا سب سے منحوس سیارہ ہے وہ چھٹے گھر میں رہتے ہوئے پیدائشی زہرہ پر نحس اثر ڈال رہا ہے جو پہلے ہی آٹھویں گھر میں ہے،یہ صورت حال عوامی اضطراب، بے چینی کو ظاہر کرتی ہے،موجودہ احتجاج آئندہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے، صورت حال کسی خانہ جنگی کی طرف جاسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت اور حکومت سے متعلق اعلیٰ شخصیات کو شدید دباو ¿ کے بعد اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
زائچے کی پوزیشن ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ صورت حال اچانک نہیں پیدا ہوئی،اس کے پیچھے حکومت کی بعض غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کی دشمن قوتیں موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرےں، غیر ملکی ہاتھ اس سارے کھیل میں موجود ہے،ایران کی اعلیٰ قیادت کو بہت سوچ سمجھ کر اور بڑی تحمل مزاجی کے ساتھ ساری صورت حال کو کنٹرول کرنا ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)
(گزشتہ سے پیوستہ)
چوتھی وجہ جو کسی بھی عمر میں پیش آسکتی ہے وہ کسی طویل بیماری کا حملہ ہوسکتا ہے، طویل عرصہ کسی بیماری کا شکار رہنے کے سبب انسان جسمانی اور اعصابی طور پر کمزور ہوکر بے حد حساس ہوجاتا ہے، بیماری سے نجات کے بعد اگر جسمانی اور اعصابی توانائی کے لیے معقول خوراک، ورزشیں اور دوائیں نہ استعمال کی جائیں تو یہ کمزوریاں نہ صرف حساسیت کو بڑھا دیتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ اس میں پختگی بھی آجاتی ہے، ایسی بیماریوں میں سرفہرست ٹی بی، ملیریا، ٹائیفائیڈ، نمونیا، دمہ، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، خواتین میں ماہانہ نظام کی خرابی سے پیدا ہونے والے امراض، فالج، مرگی، اور یرقان وغیرہ ہیں، مزید طرفہ تماشہ یہ ہوتا ہے کہ ان تمام بیماریوں کا علاج عموماً ایلوپیتھک طریقہ کار کے طور پر کیا جاتا ہے، جو درحقیقت ایک مکمل علاج ہی نہیں ہے، نتیجے کے طور پر یہ بیماریاں مصنوعی طریقے سے جسم کے اندر دبا دی جاتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں اور وقتاً فوقتاً دوبارہ ابھر کر سامنے آتی رہتی ہیں، ان بیماریوں کے زہریلے مادے جسم میں دفن ہونے کے بعد اندر ہی اندر انسان کو گھن کی طرح کھانا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان مختلف نت نئی بیماریوں کا شکار ہوتا رہتا ہے، جن کا علاج بھی وہ کبھی مکمل طور پر نہیں کرا پاتا کیونکہ جس انداز میں ہمارے ہاں ایلوپیتھک علاج مروج ہے اس میں اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان زیادہ دن اس کے اخراجات برداشت کرے بلکہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی تو زیادہ دن کیا، چند دن بھی ایلوپیتھک علاج کے اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی، نتیجے کے طور پر بڑے بڑے خطرناک امراض ایک بار جسم و جاں پر اپنا قبضہ جمانے کے بعد ہمیشہ کے لیے قیام پذیر ہوجاتے ہیں، طب و صحت کے حقیقی اصولوں سے ناواقف اکثریت بے صبرے پن اور جلد بازی میں ان کا عارضی علاج عمر بھر کراتی رہتی ہے، مگر ان سے مکمل نجات نہیں مل پاتی بلکہ اب تو صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ کسی کہنہ یا گہرے مرض کے علاج کے لیے اگر کوئی مخلص ڈاکٹر یا حکیم کوشش بھی کرنا چاہے تو مریض اس سے تعاون نہیں کرتا کیونکہ نہ تو اس کے پاس اتنا وقت ہے اور نہ فالتو پیسہ کہ وہ طویل عرصے کے لیے خود کو کسی ایسے علاج کے لیے وقف کرے اور اس دوران میں مرض کے اتار چڑھا ¶ کی پریشانیاں مول لے۔
ہمارے ملک میں ایلوپیتھک طریقہ علاج کی شدید یلغار کے بعد جب طب یونانی کا زوال شروع ہوا (طب یونانی کے زوال سے مراد اعلیٰ درجے کے حکیموں اور طبیبوں کی کمی اور جعلی و نیم حکیموں کی زیادتی ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طب یونانی کی اہمیت افادیت ختم ہوگئی ہے) تو ہم نے نزلے جیسے مرض کو بھی لوگوں میں دائمی طور پر برسوں پروان چڑھتے اور پھر سینے، حلق، ناک، کان، آنکھ یا دماغ کی کسی مہلک بیماری میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے، یہی صورت حال دیگر تمام امراض کی بھی مشاہدے میں آتی ہے، الغرض مختلف بیماریوں میں پھنس کر جب انسان جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے تو اس کمزوری کی وجہ سے اس کے اعصاب بھی متاثر ہوتے ہیں، اعصاب کا متاثر ہونا حساسیت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
پانچویں وجہ اقتصادی مسائل میں طویل عرصے الجھ کر ناگوار ماحول میں زندگی بسر کرنا اور عمر کا آخری حصہ ہے، جب نہ جسم میں زائد توانائیاں ہوتی ہیں اور نہ اعصاب میں قوت۔ عمر کا یہ زمانہ بھی حساسیت میں اضافہ لاتا ہے، حساسیت کے اسباب پر فی الحال گفتگو یہیں ختم کرتے ہوئے آئندہ ہفتے تک کے لیے اجازت دیجیے۔
ایک اہم معاملے میں غفلت کا رجحان اور اس کے نتائج بد
حساسیت کا موضوع خاصی طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے بعض قارئین پر اس کی طوالت گراں گزر رہی ہو۔ مگر ہمارے نزدیک یہ ایک نہایت اہم اور ہمہ جہت موضوع ہے۔ کیونکہ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انسان درحقیقت احساسات اور جذبات سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر انسان صرف گوشت و پوست اور ہڈیوں کا ایک پتلا ہی رہ جائے گا۔ یہ احساسات اور جذبات ہی تو ہیں کہ جو اسے ہر دم مصروف عمل اور سرگرم رکھتے ہیں مگر جب یہی احساسات اور جذبات کسی بھی اندرونی یا بیرونی دبا ¶ کے تحت ابتری اور انتشار کا شکار ہوتے ہیں تو انسان نت نئی جسمانی، نفسیاتی یا روحانی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے۔
گزشتہ کالموں میں انسانی جذبات و احساسات کے ایسے ہی پہلو ¶ں کا جائزہ لیا گیا تھا اور یہ ایک بے حد مختصر جائزہ تھا۔ اس سے پہلے خوف کا موضوع بھی انسان کے احساسات ہی کے ذیل میں تھا اور شاید آئندہ بھی احساسات کا یہ معاملہ وقتاً فوقتاً زیر بحث آتا رہے گا۔ اس موضوع سے فرار ممکن نہیں ہے۔ 
لیکن درحقیقت بڑھی ہوئی حساسیت ہی کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً ہسٹریا، براق، مالیخولیا، مرگی، جنون، خبط، شیزو فرینیا وغیرہ انشا اللہ بہت جلد ان سب حوالوں سے گفتگو کا آغاز ہوگا۔ کیونکہ ہمارے بہت سے پڑھنے والوں کی فرمائش بھی ہے۔
اس ہفتے ہم ایک خط کے کچھ اقتباسات اور جوابات پیش کر رہے ہیں۔ یہ بھی ہم پر ایک قرض ہے۔ اور ہمارے پیش نظر خط لکھنے والی کی یہ مجبوری بھی ہے کہ وہ جوابی لفافہ نہیں بھیج سکتیں۔ اور براہ راست جواب منگوانے سے معذور ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کا ایک اور خط ان کالموں میں شایع ہوچکا ہے۔
ش۔ الف، شیر شاہ کراچی سے لکھتی ہیں ”میں بالکل خیریت سے ہوں۔ آپ کی خیریت رب العزت سے نیک مطلوب ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ مجھے تقریباً تین ماہ سے دورہ نہیں پڑا۔ امید ہے کہ آئندہ کبھی نہیں پڑے گا۔ یہ فائدہ مجھے آپ کی تجویز کردہ مشق سے ہوا ہے۔ اب مجھ میں قوت ارادی بہت بڑھ گئی ہے۔ صبر و تحمل میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اور میرے کاندھے کا درد بھی بالکل ختم ہوگیا ہے۔ گلا بھی بہت بہتر ہو رہا ہے۔ ہاں سر میں درد بدستور جاری ہے۔ ایک موضوع پر ذرا تفصیل سے بتائیں۔ چڑیلوں کے بارے میں۔ یہ کس خاندان سے ہیں اور ان سے کیسے بچیں۔ یہ کیوں تنگ کرتی ہیں۔ کیا چڑیلوں کا تعلق جنوں کے خاندان سے ہے؟ ہمارے گھر کے سامنے ایک نالہ ہے اس طرف گھر بھی بنے ہوئے ہیں جس میں لوگ رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان گھروں میں سے ایک گھر میں چڑیل پیدا ہوئی تھی۔ گھر والوں نے اسے نالے میں دفن کردیا۔ یہ بات آج سے دس بارہ سال قبل کی ہے۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں چڑیلوں کا اثر ہے۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہم ہے۔ میں ایک خواب مسلسل دیکھ رہی ہوں جس کی تفصیل لکھ رہی ہوں۔ آپ اس کے بارے میں اپنی رائے دیں۔ اس کے علاوہ مجھے تنفس نور والیمشق بھی چاہیے۔ ورنہ پھر میں جامنی رنگ والی مشق شروع کردوں گی۔ میں نے آپ سے متبادل طرز تنفسکی مشق کی اجازت بھی مانگی تھی۔ مگر اس میں، میں روزانہ رات کو نہا نہیں سکوں گی، کیا صرف وضو سے کام نہیں چل سکتا۔ مجھے مشق کرتے ہوئے تقریباً 6 سال ہونے کو ہیں، مشق کرتے وقت گہرے گہرے سانس، کسی کے آہں بھرنے اور چلنے کی آواز آئی تھی، اب نہیں آتی، خوشبو گلان کے پھولوں کی مسلسل آرہی تھی، میرے جسم سے بھی آتی ہے، مشق کرتے وقت سر میں شدید درد ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سر دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، جسم بے جان لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں کاغذ ہوں اور ابھی اڑ جاو ¿ں گی، تصور بالکل صاف اور واضح قائم ہوجاتا ہے، اکثر وضو کرتے وقت یا صبح جاگتے وقت میرے پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے، جو وضو کرتے اور نماز پڑھتے وقت بھی رہتا ہے لیکن جب مشق شروع کرتی ہوں تو جیسے ہی سانس کا عمل دو تین بار کتی ہوں درد فوراً غائب ہوجاتا ہے، ایک اور نئی بات یہ پیدا ہوئی ہے کہ جب دروازے پر کھٹکا ہوتا ہے تو مجھے اندازہ ہوجاتا ہے، دروازہ کھٹکانے والے کی عمر کیا ہوگی؟ اور وہ بچہ ہوگا یا بڑا یعنی لڑکی یا لڑکا اور عورت یا آدمی ؟ پہلے کبھی ایسا عجیب معاملہ نہیں ہوتا تھا“۔
عزیزم ش، الف، خوشی ہوئی کہ آپ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے، آپ کو سانس کی مشق کے ساتھ اپنے جسمانی علاج پر بھی توجہ دینی چاہیے، آپ نے اپنے طویل خط میں کبھی بھی اپنی جسمانی تکالیف کے حوالے سے اپنی کسی خاص بیماری کا تذکرہ نہیں کیا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایسی صورتوں میں کچھ جسمانی بیماریاں بھی اپنا مخصوص کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں، خصوصاً خواتین میں اور خاص طور پر نوجوان کنواری لڑکیوں کے بعض پیچیدہ امراض میں ان کے ماہانہ نظام کی خرابیوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور بدقسمتی سے اس سلسلے میں ان کی اپنی معلومات نہایت ناقص یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے لہٰذا اس ناواقفیت کی بنیاد پر یہ مسائل مزید پیچیدہ اور اکثر اوقات تو نہایت بھیانک صورت اختیار کرجاتے ہیں، فطری شرم و حیا کی وجہ سے وہ اپنی ایسی تکالیف کا گھر والوں کے سامنے بھی اظہار نہیں کرپاتیں یا پھر اکثر گھرانوں میں گھر کے بڑے خصوصاً مائیں بھی ان خرابیوں کا مکمل شعور نہ ہونے کی وجہ سے معقول علاج معالجے پر توجہ نہیں دیتیں، نتیجے کے طور پر نت نئی پیچیدہ قسم کی بیماریاں اور مسائل جنم لیتے رہتے ہیں اور لڑکی کی شادی کے بعد تک مسئلہ بنے رہتے ہیں ، یاد رہے کہ اکثر بے اولادی کے کیسوں میں بھی برسوں پرانا یہی مسئلہ اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے اور ہسٹریا، جن بھوت، ماورائی اثرات، مرگی، عراق، جنونی دورے، شدید غصہ اور چڑچڑاپن ، شدید حساسیت جیسی بیماریاں بھی ماہانہ نظام کی خرابیوں کے باعث جنم لیتی ہیں، الغرض یوں سمجھ لیں کہ ہر عورت خواہ وہ کسی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہوں، اس کی مکمل ذہنی ، روحانی اور جسمانی صحت مندی کا راز اس سسٹم کی مکمل صحت مندی سے مشروط ہے، عمر کے آخری حصے یعنی تقریباً پینتالیس سال کی عمر کے بعد ”سن یاس“ کا زمانہ شروع ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا نازک وقت ہوتا ہے کیوں کہ اس وقت یہ نظام جسمانی اختتام پذیر ہورہا ہوتا ہے یعنی عورت کی زرخیزی ختم ہورہی ہوتی ہے، اس وقت بھی اگر معقول احتیاط اور علاج معالجہ نہ کیا جائے تو ایسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں جو قبر تک ساتھ جاتی ہیں لیکن وہ وقت اگر معقول احتیاط کے ساتھ گزار لیا جائے تو عورت مزید صحت مند و توانا ہوجاتی ہے اور اسے کوئی مہلک بیماری لاحق ہونے کا خطرہ بہت کم ہوجاتا ہے۔
بات ہی بات میں گفتگو کا رخ اس احساس اور نازک مسئلے کی طرف مڑ گیا لیکن درحقیقت یہ کتنا اہم مسئلہ ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس سے دوچار ہوتے ہیں لہٰذا ہم اپنی تمام بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس معاملے کو کبھی معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں اور فطری شرم و حیا، معاشرتی رسم و روایات، گھریلو جاہلانہ ماحول کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کے معقول علاج پر فوری توجہ دیا کریں، ایلو پیتھک علاج ہمارے ملک میں اس حوالے سے بھی ناکام اور سخت نقصان دہ ثابت ہوا ہے بلکہ اب تک کا ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ان کے پاس اس حوالے سے معقول دوائیں ہی نہیں ہیں، اکثر ویلوپیتھک ڈاکٹر صاحبان مجبوراً اس معاملے میں بھی ایک مشہور ہومیو پیتھک دوا کا سہارا لیتے ہیں جو پہلے امریکا سے اور اب چائنا سے بھی آرہی ہے یعنی ”الیٹرس کارڈئیل“ اس دوا کا بنیادی جڑ ہومیو پیتھک دوا الیٹرس فیری نوسا ہے لہٰذا ہمارے نزدیک طب یونانی کے بعد صرف ہومیو پیتھک علاج ہی ان معاملات میں مو ¿ثر اور معتبر ہے۔
عزیز بیٹی! ش، الف، آپ کے لیے چند دوائیں ہم تجویز کر رہے ہیں ، اگر استعمال کرسکو تو ضرور کرلینا کیوں کہ اپنے جو حالات تم لکھ چکی ہو ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم شاید اپنے لیے اگنیشیا 200 ہے، یہ دوا پندرہ دن میں ایک مرتبہ صرف ایک خوراک استعمال کریں، دوسری دوا کا نام نیٹرم میور 30 ہے، یہ دوا دن میں تین مرتبہ روزانہ تقریباً پندرہ دن تک استعمال کریں، اس کے علاوہ بائیو کیمک سالٹ فائیو فاسس بھی دن میں تین مرتبہ استعمال کریں، یہ آپ کو جرمنی شعابے یا فرانس کی کسی کمپنی کے مل جائیں گے، جرمنی شعابے والے اسے بایوپلاسین 24 نمبر کے نام سے بناتے ہیں، جس طرح بچوں کے دانتوں وغیرہ کے لیے 21 نمبر مشہور ہے، اسی طرح یہ 24 نمبر مشہور ہے اور جنرل ٹانک کا کام کرتی ہے، اب آئیے آپ اپنے دیگر سوالوں کی طرف۔
”مشق تنفس نور“ فی الحال دوبارہ شائع نہیں کی جاسکتی، آپ پہلی مشق اور مراقبہ بدستور جاری رکھیں، متبادل طرز تنفس کی مشق آپ کے پاس موجود ہے، وہ آپ شروع کرسکتی ہیں، ہماری طرف سے اجازت ہے مگر ابتدا صرف تین چکر سے کریں، اگر اس پر بھی سر کا درد بڑھ جائے یا کوئی اور پریشانی ہونے لگے تو ہمیں اطلاع دیں، خوراک میں سبزیاں اور دالیں وغیرہ زیادہ استعمال کریں لیکن ماش کی دال سے پرہیز کریں، غسل کرنے کی شرط متبادل طرز تنفس کی مشق میں نہیں تھی، بہر حال جس مشق میں تھی اس میں بھی نہایت ضروری نہیں ہے، چڑیلوں کی حقیقت آئندہ کالموں میں آجائے گی جب جنات کا موضوع آئے گا، آپ نے جو واقعہ لکھا ہے وہ محض افواہ معلوم ہوتا ہے، آپ کے خوابوں میں پانی کا کثرت سے نظر آنا ایک خاص نفسیاتی بیماری کی علامت ہے، مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنی جنسی خواہشات میں نا آسودہ ہوتے ہیں، ان کو خواب میں پانی بہت نظر آتا ہے، انتہائی مذہبی گھرانوں میں جہاں جنس کے موضوع کو گناہ اور جرم خیال کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے ایک لاشعوری خوف ذہن مسلط کرلیا جاتا ہے ، اس قسم کی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں جس کی انتہائی صورت ہسٹیریا کا دورہ بھی ہوسکتی ہے، امید ہے کہ فی الحال آپ کے ضروری سوالوں کا جواب کافی و شافی مل گیا ہوگا۔