ہفتہ، 28 جولائی، 2018

ہر آسماں کو آج زمیں کر رہے ہیں ہم

اگست کی فلکیاتی صورت حال ، ایک مشکل اور سخت مہینہ 
تمام تر خدشات کے باوجود بالآخر الیکشن 2018 ء اپنے وقت پر منعقد ہوگئے، تحریک انصاف اس انتخاب میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے جب کہ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) اور تیسری پوزیشن پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہوئی ہے۔
ہم نے اس خدشے کا بارہا اظہار کیا تھا کہ سیاروی صورت حال الیکشن کو ملتوی کراسکتی ہے یا الیکشن کی تاریخ آگے بڑھ سکتی ہے کیوں کہ زائچہ ء پاکستان میں کیتو اور مریخ کا قران نویں گھر میں جاری ہے جس کی وجہ سے جولائی میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات ہوئے خصوصاً بلوچستان میں اس کا زور رہا لیکن پاکستان کی مسلح افواج اور عدلیہ مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے انتہائی خراب صورت حال کے باوجود الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا، یہ الگ بات ہے کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید کرنے والے آج بھی اپنے کام میں مصروف ہیں اور الیکشن کے نتائج پر بھی انگلیاں اٹھارہے ہیں،ہم نے پاکستان کی تینوں نمایاں سیاسی پارٹیوں اور ان کے سربراہوں کے زائچے گزشتہ دنوں پیش کیے تھے اور اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے زائچے کی پوزیشن دیگر جماعتوں کے مقابلے میں بہتر ہے،حقیقت یہ ہے کہ 2013 ء میں تحریک انصاف کے زائچے کی جو خراب پوزیشن تھی وہ اس سال مسلم لیگ ن کے زائچے میں نظر آرہی تھی، اسی طرح 2013 ء میں نواز شریف صاحب کے زائچے کی جو پوزیشن تھی وہ اس بار عمران خان کے زائچے کی تھی۔
الیکشن سے پہلے ہم لاہور اور راولپنڈی گئے تھے، راولپنڈی میں ہمارا قیام جناب انتظار حسین زنجانی صاحب کے ساتھ رہا، ان کی فرمائش پر ہم نے الیکشن کی صورت حال پر ایک پروگرام بھی ریکارڈ کرایا جو یوٹیوب پر موجود ہے، اس پروگرام میں بھی ہم نے واضح طور پر نشان دہی کردی تھی کہ اس بار الیکشن کے نتائج نہایت غیر متوقع اور چونکا دینے والے ہوں گے، سیاسی تجزیہ کار جو تجزیے پیش کر رہے ہیں یہ غلط ثابت ہوں گے، مزید یہ کہ موجودہ انتخابات ماضی میں ہونے والے 1977 ء کے انتخاب جیسے ہوسکتے ہیں،اس وقت بھی جو صورت حال پیدا ہوئی تھی وہ 2018 ء کے انتخابات کے نتائج پر سامنے آسکتی ہے چناں چہ ایسا ہی ہوا، ہارنے والی سیاسی پارٹیوں نے نتائج پر نہ صرف یہ کہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ انھیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اب تمام جماعتیں اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اکٹھا ہورہی ہیں، دیکھتے ہیں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے، کیا نتائج کو مکمل طور سے مسترد کرکے نئے الیکشن کا مطالبہ کیا جائے گا جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا اور نئی بننے والی حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلائی جائے گی؟
مسلم لیگ ن کسی احتجاجی تحریک کے لیے شاید تیار نہ ہو لیکن ایم ایم اے جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں اس تجویز کی حمایت کرسکتے ہیں لیکن ایسی کوئی تحریک بہر حال کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، بے شک تحریک انصاف حکومت بنانے کی اچھی پوزیشن میں آچکی ہے اور امکان ہے کہ پنجاب میں بھی اپنی حکومت تشکیل دے سکے، اس طرح کے پی کے، پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف کو موقع مل سکتا ہے جب کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر ہے۔
عزیزان من! زائچہ ء پاکستان کی پوزیشن وہی ہے جس کا ہم بارہا اظہار کرتے رہے ہیں، ہم نے اس سال کو ’’دھلائی، صفائی اور لڑائی کا سال‘‘ قرار دیا تھا، اگر غور کریں تو سال 2018 ء کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے، گزشتہ چالیس سال سے برسراقتدار آنے والی جمہوری قوتیں اچانک منظر سے ہٹ گئی ہیں اور ایک نئی قیادت سامنے آئی ہے، ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم 2010 ء سے جب سیارہ یورینس برج حمل میں داخل ہوا تھا، یہ کہہ رہے ہیں کہ نئی قیادت کا ظہور ناگزیر ہے، سیارہ یورینس سات سال برج حمل میں گزار کر اب برج ثور میں اپنے نئے سفر کا آغاز کر رہا ہے، گزشتہ سات سال میں ایک نئی سیاسی جماعت اور قیادت نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے جس کا پہلا اظہار 2013 ء کے الیکشن میں ہوا تھا، تحریک انصاف ملک کی دوسری اہم جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی، آج وہ پہلی پوزیشن پر ہے۔
اس سال دھلائی، صفائی اور لڑائی کا جو عمل جاری رہا ہے وہ آئندہ بھی جاری رہے گا بلکہ اس میں مزید تیزی آئے گی،موجودہ الیکشن میں بڑے بڑے نامور سیاست داں شکست سے دو چار ہوئے ہیں، مولانا فضل الرحمن، اسفند یارولی، غلام احمد بلور، چوہدری نثار، سعد رفیق، فاروق ستار، رانا ثناء اللہ، مصطفیٰ کمال، سراج الحق اور بہت سے لوگ پارلیمنٹ سے دور ہوگئے ہیں،کراچی نے ایک نئی کروٹ لی ہے، ایک نیا شعور کراچی میں نمودار ہوا ہے اور انھوں نے اس بار ایک قومی سطح کی پارٹی کو ووٹ دے کر کامیابی حاصل کرنے میں مدد دی ہے، علاقائی اور لسانی سیاست سے خود کو الگ کرلیا ہے، یہ بڑی مثبت تبدیلی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی سیاست میں شمولیت کے لیے کراچی والوں نے ن لیگ یا پیپلز پارٹی کا انتخاب نہیں کیا، شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ برسوں سے ان پارٹیوں کے دور اقتدار کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں اور اب ایک نئی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
عمران خان اور ان کی پارٹی حکومت بنانے کے بعد کس طرح اپنے وعدے پورے کرے گی یا نہیں کرے گی ، یہ آنے والا وقت بتائے گا، تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میں کیا تبدیلیاں لاسکتی ہے اور اسے مستقبل میں کیسے چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں، اس پر ان شاء اللہ آئندہ کسی موقع پر بات کریں گے کیوں کہ ابھی تک نئی اسمبلی وجود میں نہیں آئی ہے ، ممبران اسمبلی نے حلف نہیں اٹھایا ہے اور خود عمران خان نے بھی بہ حیثیت وزیراعظم حلف نہیں لیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ نئے وزیراعظم کے حلف کی تاریخ اور وقت ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا ہے، جب جون 2013 ء میں نواز شریف صاحب نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تھا تو ہم نے لکھا تھا کہ حلف کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے اور یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ انھیں چاہیے ، وہ دوبارہ کسی اچھے اور سعد وقت پر حلف اٹھائیں لیکن ایسا نہیں ہوا چناں چہ ان کا پورا دور اقتدار شدید مشکلات اور پریشانیوں کا باعث رہا، خراب وقت پر حلف اٹھانے کے نتائج نہ صرف حلف اٹھانے والے کو بلکہ ملک کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس انتہائی اہم معاملے کو نہایت غیر اہم خیال کیا جاتا ہے،بہتر ہوگا کہ عمران خان ابتدا ہی میں ایسی کسی غلطی کا شکار نہ ہوں، ہم ان کی کامیابی کے لیے دعا ہی کرسکتے ہیں،فی الحال اپنا ایک شعر عمران خان کی نظر کرتے ہیں ؂
کل جو گماں تھا، اس کو یقیں کر رہے ہیں ہم
ہر آسماں کو آج زمیں کر رہے ہیں ہم
اگست کے ستارے
سیارہ شمس اپنے ذاتی برج اسد میں حرکت کر رہا ہے،23 اگست کو برج سنبلہ میں داخل ہوگا، سیارہ عطارد بھی برج اسد میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے،19 اگست کو مستقیم ہوگا، شمس کے قریب ہونے کی وجہ سے غروب رہے گا، سیارہ زہرہ اپنے برج ہبوط سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے،7 اگست کو اپنے ذاتی برج میزان میں داخل ہوگا، سیارہ مریخ برج دلو میں بحالت رجعت حرکت کررہا ہے، 13 اگست کو برج جدی میں داخل ہوگا اور اسی برج میں 27 اگست کو مستقیم ہوگا، سیارہ مشتری برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں رہے گا، سیارہ زحل بحالت رجعت برج جدی میں ہے،یورینس برج ثور میں حرکت کررہا ہے،7 اگست کو اسے رجعت ہوجائے گی،نیپچون بھی بحالت رجعت برج حوت میں حرکت کرے گا اور پلوٹو برج جدی میں بحالت رجعت رہے گا، راس و ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں رہیں گے،یہ سیاروی پوزیشن یونانی علم نجوم کے مطابق ہے۔
نظرات و اثرات سیارگان
اگست کے مہینے میں سیارگان کے درمیان تثلیث کے چار زاویے اور تسدیس کا ایک سعد زاویہ قائم ہوگا جب کہ تربیع کے 6 نحس زاویے اور قران کا ایک زاویہ ہوگا، مجموعی طور پر اس مہینے میں نحس اثرات کا غلبہ رہے گا، عام افراد کو اس مہینے میں صدقات و خیرات اور کثرت سے استغفار پر توجہ دینی چاہیے، جولائی میں 2 سورج اور چاند گہن لگ چکے ہیں ، گیارہ اگست کو اس سال کا آخری سورج گہن ہوگا۔
2 اگست: مریخ اور یورینس کے درمیان نحس زاویہ ہے، یہ نظر غیر متوقع اور اچانک حادثات کی نشان دہی کرتی ہے،دہشت گردی کے واقعات اور روڈ ایکسیڈنٹس میں اضافہ ہوسکتا ہے، بیرون ملک سے داخلی معاملات میں مداخلت بڑھ سکتی ہے،پاکستان کی سرحدوں پر مسلح افواج کو چوکس رہنے کی ضرورت ہوگی۔
7 اگست: شمس اور مشتری کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ نئے آئینی اور قانونی تنازعات کو جنم دے سکتا ہے،عام افراد مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہوسکتے ہیں،گورنمنٹ سے متعلق کاموں میں رکاوٹوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
8 اگست: زہرہ اور مریخ کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ سعد نظر ہے،عورت و مرد کے درمیان تعلقات میں بہتری لاتی ہے،اس وقت دونوں کے درمیان محبت اور کشش کے لیے جفری اعمال کیے جاتے ہیں، اس وقت میں مشینری سے متعلق خریدوفروخت کا کاروبار ترقی کرسکتا ہے۔
9 اگست: شمس اور عطارد کے درمیان قران کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،تعلیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے،اس وقت امتحان یا کوئی انٹرویو وغیرہ دینا بہتر نہیں ہوگا، سفر میں رکاوٹ یا التوا کا سامنا ہوسکتا ہے،لوگوں سے رابطے اور بات چیت میں مشکلات پیش آسکتی ہیں،انھیں اپنی بات سمجھانا مشکل ہوگا، پاکستان میں بچوں اور نوجوانوں سے متعلق مسائل میں اضافہ ہوگا۔
اسی روز زہرہ اور زحل کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ قائم ہوگا، یہ نحس نظر باہمی تعلقات میں کشیدگی لائے گی خصوصاً ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
11 اگست: عطارد اور مشتری کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ کاروباری معاملات میں رکاوٹیں اور پریشانی لاسکتا ہے، ترقیاتی کام متاثر ہوں گے، سفر میں مشکلات یا التوا کا سامنا ہوسکتا ہے،اس وقت تحریری اور تقریری معاملے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اچھی طرح غوروفکر کرلیں۔
18 اگست: عطارد اور زہرہ کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ ہوگا،یہ وقت معاملات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے،بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں،لوگوں سے میل ملاقات خوش گوار ہوگی، تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی،تخلیقی نوعیت کے کام عمدہ طور پر انجام پائیں گے،فنکارانہ صلاحیتوں کا بہتر اظہار ہوسکے گا۔
19 اگست: مشتری اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، پیچیدہ نوعیت کے مسائل کا حل سامنے آسکتا ہے،مائع اشیا کے کاروبار سے فوائد حاصل ہوں گے،یہ زاویہ طویل المدت ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرنے کے لیے موافق ثابت ہوتا ہے۔
25 اگست: شمس اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ حکومت کی طرف سے اچھے اقدام اور فیصلے لاسکتا ہے،عام افراد کے لیے سرپرائز کے مواقع نکلتے ہیں، اس وقت میں غیر روایتی طریقوں سے اور نئے آئیڈیاز سے کام لینے میں فائدہ ہوگا،لکیر کے فقیر نہ بنیں، اپنے طرز زندگی یا کام کے حوالے سے طریق کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔
26 اگست: شمس اور زحل کے درمیان تثلیث کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،تعمیری اور ترقیاتی کاموں کے لیے بہتر وقت ہوگا، اس وقت گورنمنٹ سے متعلق کاموں میں کامیابی ملتی ہے، پراپرٹی کی خریدوفروخت کے لیے بھی یہ اچھا وقت ہوگا،گورنمنٹ سے کیے گئے معاہدات فائدہ دیں گے، گورنمنٹ سے کنسٹرکشن کے ٹھیکے وغیرہ کا حصول آسان ہوگا۔
27 اگست: زہرہ اور پلوٹو کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ جذبات میں شدت لاتا ہے،اس وقت اپنے جذبات پر قابو رکھیں، خواتین جلد غصے اور اشتعال کا شکار ہوسکتی ہیں،ان کی کوئی لغزش یا کوتاہی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
28 اگست: عطارد و مشتری کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ دوسری بار قائم ہوگا، کاروباری یا ترقیاتی امور میں رکاوٹ یا تاخیر کا سامنا ہوسکتا ہے،سفر میں التوا یا پریشانی اور لوگوں سے معاملات کرنے میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
شرف قمر
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق قمر اپنے شرف کے درجے پر چار اگست کو 04:32 am سے 06:22 am تک رہے گا، جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 3 اگست رات 11:32 pm سے 4 اگست 01:22 am تک ہوگا، دیگر ممالک کے لوگ جی ایم ٹی ٹائم سے اپنے ملک کا فرق نفی یا جمع کرکے درست وقت حاصل کرسکتے ہیں۔
شرف قمر کا وقت سعد اور مبارک ہوتا ہے،اس وقت نیک اعمال کرنا چاہئیں، اگر بسم اللہ الرحمن الرحیم 786 مرتبہ پڑھ کر کچھ چینی پر دم کردیں اور پھر یہ چینی گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں تاکہ گھر کے تمام افراد استعمال کرسکیں،اس کے استعمال سے تمام اہل خانہ کے درمیان محبت و خلوص پیدا ہوگا اور گھر میں خیروبرکت کا باعث ہوگا، اس چینی کو ختم نہ ہونے دیں، جب کم ہوجائے تو مزید چینی ملالیا کریں۔
قمر درعقرب
قمر اپنے ہبوط کے درجے پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 16 اگست 05:30 pm پر پہنچے گا اور 07:18 pm تک ہبوط یافتہ رہے گا، یہ انتہائی نحس وقت ہوتا ہے،اس وقت کیے گئے کاموں کے خراب نتائج نکلتے ہیں،خصوصاً کوئی بھی نیا کام قمر در عقرب کے دوران میں نہیں کرناچاہیے، البتہ علاج معالجہ بہتر رہتا ہے۔
اس وقت میں ایسے عملیات مناسب ہوتے ہیں جو بیماریوں سے نجات، بری عادتوں کو روکنے یا مخالفین کی زبان بندی وغیرہ کے لیے کیے جاتے ہیں، سورج اور چاند گہن کے موقع پر جو عملیات دیے گئے تھے،وہ بھی اس وقت کیے جاسکتے ہیں۔
سورج گہن
اس سال کا آخری سورج گہن پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق گیارہ اگست کو لگے گا، اس کا آغازدوپہر 01:02 pm پر ہوگا اور مکمل گہن 02:46 pm پر ہوگا جب کہ گہن کا اختتام شام 04:30 pm پر ہوگا، یہ گہن برج اسد کے 18 درجہ 37 دقیقہ پر لگے گا اور جزوی ہوگا، گہن کا مکمل نظارہ گرین لینڈ ، فن لینڈ، ناروے، کنیڈا، روس، کوریا اور چین میں کیا جاسکے گا، جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق اس گہن کا آغاز 08:02 am پر ہوگا جب کہ مکمل گہن 09:46 am پر ہوگا، گہن کا خاتمہ 11:30 am پر ہوگا۔
سورج گہن سے متلعق عملیات گزشتہ ماہ دیے گئے تھے ، اپنی ضرورت کے مطابق ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

پیر، 23 جولائی، 2018

ایمان کی کمزوری غیر اللہ کی طرف لے جاتی ہے


نام نہاد عامل اور بزرگ سادہ لوح افراد کو گمراہ کر تے ہیں 
معاشرے میں سحرو جادو کی وباء اس قدر پھیل گئی ہے کہ گھر میں مرا ہوا چوہا بھی نکل آئے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی نے ان پر کچھ کرایا ہے اور پھر اپنے کسی بھی دکھ تکلیف یا پریشانی کو اسی تناظر میں دیکھنے لگتے ہیں۔ہم اس موضوع پر سالہا سال سے لکھ رہے ہیں اور حتی الامکان یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سحرو جادو کے معاملات اتنے آسان اور اس قدر عام نہیں ہوتے کہ جس کا دل چاہے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا رہے۔بے شک سحرو جادو کی حقیقت اپنی جگہ مسلّم الثبوت ہے مگر اس علم کا جاننا اور اس پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ہم اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس راستے پر چلنے والا کبھی فلاح نہیں پاسکتا اور اس ذریعے سے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لیے وہ کسی کو پریشان کرسکتا ہے مگر اس کی قیمت بھی اُسے بہت بھاری ادا کرنا پڑتی ہے لہٰذا اس علم کے حقیقی ماہرین بڑے محتاط ہوتے ہیں۔وہ بھی جائز و ناجائز کی تمیز رکھتے ہیں اور ایسے کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتے جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ایمان نہایت کمزور ہوچکے ہیں اور ہمیں اللہ پر، اُس کے رسولﷺ کے فرمان پر اور اُس کے کلام پر یقین نہیں رہا ہے۔ہم بے تحاشہ عبادات کرتے ہیں، کلام الہٰی کی تلاوت کرتے ہیں مگر یہ یقین نہیں رکھتے کہ ہمارے یہ اعمال ہمارے لیے فائدہ بخش ہیں اور ہمیں ہر برائی سے اور مصیبت سے بچاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمیں یہ یقین فوراً ہوجاتا ہے کہ ہم پر جو سحرو جادو کیا گیا ہے وہ ہم پر مؤثر ہوگیا ہے،ہمارے سارے کام اُس کی وجہ سے خراب ہورہے ہیں، ہمیں جو نقصانات ہورہے ہیں اُس کی وجہ بھی کسی کا کیا کرایا عمل ہے۔حد یہ کہ ہمیں جو دکھ بیماریاں لاحق ہوگئی ہیں اُن کی وجہ بھی سحری اثرات ہی ہیں۔ مزید جاہل اور جعلی پیروں، عاملوں اور جھاڑ پھونک کرنے والے بزرگوں نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈا بھی کر رکھا ہے کہ گندے اور سفلی عمل کا توڑ،گندے اور سفلی طریقوں سے ہی ممکن ہے، اس معاملے میں نورانی طریقے کارآمد نہیں ہوتے۔ اس بیان کی جس قدر بھی مذمت کی جائے ،کم ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سورج کے چہرے پر دھول ڈال دی جائے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے سادہ لوح عوام ایسے پروپیگنڈے پر یقین بھی کر لیتے ہیں اور بڑی سادگی کے ساتھ ہمیں آکر بتاتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے یہ فرمایا ہے۔ 
ہمارے نزدیک تو ایسے بزرگوں کی بزرگی ہی مشکوک ہے۔ محض ظاہری حلیہ اور پیچیدہ گفتگو ، کیا یہی بزرگی کی نشانیاں ہیں، ہمارے نام نہاد عامل اور بظاہر بزرگ نظر آنے والے افراد جو اپنی روحانیت کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں عموماً طریقت کے فلسفے کی آڑ میں سخت گمراہیاں پھیلاتے ہیں ، ایسے ایسے شگوفے چھوڑتے ہیں کہ جنہیں سن کر عقل حیران رہ جاتی ہے اور ایک لمحے میں ان کی علمیت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے ۔
تھوڑے دن پہلے ایک صاحب ایک مریضہ کو ہمارے پاس لائے، اُن کے ہمراہ ایک اور صاحب بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ بھی روحانیت سے شغف رکھتے ہیں اور مریضہ کا معاملہ ان کی سمجھ سے باہر ہے ، بڑے بڑے نامی گرامی عامل و کامل بھی اس کا علاج نہیں کرسکے ، نعتوں کی کیسٹ سنتے ہی یا مصلے پر کھڑے ہوتے ہی حاضری ہوجاتی ہے اور پھر یہ کسی کے قابو میں نہیں آتی ۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ نعتوں کی کیسٹ یا مصلے پر کھڑے ہونے کی صورت میں حاضری کا کیا مطلب ہے ، دوسرے معنوں میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اس پر کسی بزرگ کی سواری آتی ہے کیونکہ نعتیں سن کر کوئی شیطان تو حاضر نہیں ہوسکتا ، دوسری طرف وہ اس حاضری سے اور لڑکی کی خراب حالت سے پریشان بھی تھے مگر یہ سوچنے کے لیے ایک لمحے کوبھی تیار نہیں تھے کہ معاملہ کسی آسیب و جنات یا کسی بزرگ کی روح کی مداخلت کا نہیں ہے بلکہ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے ، وہ اس لڑکی کو مختلف مزارات پر بھی لے جاتے رہے تھے ۔
بات صرف اتنی تھی کہ لڑکی شیزوفرینیا کی مریض تھی اور اُس پر دورے پڑتے تھے۔ شیزو فرینیا میں انسان کی شخصیت تقسیم ہوجاتی ہے اور دورے کے دوران میں وہ اپنی شعوری حقیقت کو فراموش کردیتا ہے ، لاشعور کی دنیا میں چلا جاتا ہے اور اُس کے لاشعور یا تحت الشعور میں جو کچھ جمع ہوتا ہے وہ اس کے مطابق ایکٹ کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کیفیت کو کم علمی اور عدم واقفیت کے سبب آسیب یا جنات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ایسی لاشعوری کیفیت میں مریض بے پناہ طاقت ور بھی ہوسکتا ہے اور حیرت انگیز باتیں یا حرکات بھی کرسکتا ہے۔
ہمارے نزدیک وہ سیدھا سادہ کیس تھا اور ہومیو پیتھک ٹریٹمنٹ سے ٹھیک ہوسکتا تھا۔ چناں چہ ہم نے اُنہیں یہی بتایا مگر شاید اُن کی سمجھ میں ہماری بات نہیں آئی اور آ بھی نہیں سکتی تھی۔ ایسے لوگ اپنی تسلی کے لیے بڑے سوال و جواب کرتے ہیں ، یہ اور بھی غلط رویہ ہے۔ خاص طور پر مریض کے سامنے اس طرح کی گفتگو کیس کو خراب کرتی ہے لہذا ہم نے انہیں سختی سے منع کیا کہ آپ خود کو اس الجھن میں نہ ڈالیں کہ مسئلہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ آپ کی سمجھ میں اس لیے بھی نہیں آسکتا کہ آپ نے نفسیات بھی نہیں پڑھی اور میڈیکل کے بارے میں بھی آپ کا علم محدود ہے۔ آپ صرف ہماری ہدایات پر عمل کریں لیکن ہم نے محسوس کیا کہ وہ مطمئن نہیں ہوسکے اور بادل نا خواستہ دوا تو لے لی لیکن اُس کے بعد دوبارہ واپس نہیں آئے۔ یقیناً کسی نئے بزرگ یا عامل کی تلاش میں ہوں گے۔
ایسے کیسوں میں مریض یا مریضہ نہایت بے بس اور لاچار ہوتی ہے۔اُسے مستقل طور پر مختلف علاج معالجے کے بہانے تختہ مشق بنایا جاتا ہے اور ایسے ایسے مراحل سے گزارا جاتا ہے جن کے نتیجے میں اُس کی بیماری اور بھی پیچیدہ بلکہ لا علاج ہوتی چلی جاتی ہے اورمریضہ خود بھی یقین کی حد تک یہ سمجھ لیتی ہے کہ اس کے ساتھ واقعی کوئی پراسرار معاملہ ہے۔ ایسی ہی صورت حال اُن لوگوں کی بھی ہے جو اپنے حالات کی خرابی کی وجہ سحروجادو کو سمجھتے ہیں اور دوسروں کے کیے کرائے پر اللہ سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حالات بھی کبھی نہیں بدلتے اور ہم نے انہیں ساری زندگی ناکام و نا مراد ہی دیکھا ہے۔ درحقیقت ایسے لوگ شرک جیسے گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں جو کہ اللہ کے نزدیک ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ ہم اس صورت حال کو شرک اس لیے سمجھتے ہیں کہ انسان اللہ سے زیادہ سحروجادو کے اثرات پر یقین رکھتا ہے۔
انسان کی زندگی میں حالات کی دھوپ چھاؤں جاری رہتی ہے۔ہم اللہ کے بنائے ہوئے جس نظام میں سانس لے رہے ہیں وہ کوئی جامد و ساکت نظام نہیں ہیں بلکہ جاری و ساری نظام ہے اور اس نظام میں زندگی کے اتار چڑھاؤ ہی کی بدولت زندگی کا حسن قائم ہے۔ غم اور خوشی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔کسی پرانے شاعر نے کیا خوب کہا تھا ؂جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں۔
زندگی کی یہ دھوپ چھاؤں اللہ کے قائم کردہ نظام میں سیارگان کی گردش کی وجہ سے جاری و ساری ہے ۔ اگر سیاروں کی گردش روک دی جائے تو پوری کائنات ساکت و جامد ہوجائے گی اور شاید زندگی کا جاری و ساری عمل بھی رک جائے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے اس نظام کو اُس کے حکم کے مطابق ابھی چلتے رہنا ہے تاوقت یہ کہ اللہ ہی کا مقرر کردہ وقتِ اختتام نہ آجائے جسے ہم قیامت کہتے ہیں۔
انسان ازل ہی سے بڑا بے صبرا اور نا شکرا ہے بلکہ عموماً تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔بے شک اللہ نے انسان کو بے پناہ خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ بنایا ہے۔ شاید یہ امتزاج ہی دنیا کی رنگا رنگی کا سبب ہے اگر صرف خوبیاں ہی ہوتیں تو دنیا میں کوئی مسئلہ،کوئی ہنگامہ، کوئی فساد نہ ہوتا۔گویا انسان فرشتہ بن جاتا ہے مگر فرشتے تو پہلے سے موجود تھے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا کہ وہ فرشتوں جیسے طور طریقے اختیار کرے ۔ اسی لیے خوبیوں کے ساتھ خامیاں اور کمزوریاں بھی اُسے اپنے جدِّامجد سے ورثے میں ملیں اور یہ خامیاں اورکمزوریاں ہی تمام مخلوقات کے درمیان میں اُس کے شرف کا باعث ہیں کیوں کہ ان کی موجودگی میں بھی جب وہ اعلیٰ ترین صفات کا اظہار کرتا ہے تو اُس کا مقام فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انسان کو اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پانے کی جدوجہد کرنا چاہیے تب ہی یہ ممکن ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ صفات اور عمدہ صلاحیتیوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ وقت کی دھوپ چھاؤں میں ہماری خوبیوں اور خامیوں کا امتحان ہوتا ہے اور اس امتحان میں ہم کبھی فیل ہوتے ہیں اور کبھی پاس۔ جب فیل ہوتے ہیں تو اپنی خامیوں کا احساس کرنے کے بجائے دوسروں کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے ہمارے پیچیدہ مسائل کا آغاز ہوتا ہے اور ہم ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی کی طرف قدم بڑھانا شروع کرتے ہیں اگر اس مرحلے پر ہم بغور اپنی ناکامی کی درست وجوہات کا جائزہ لے کر اپنی کمزوریوں کے بارے میں جان لیں اور پھر اُن پر قابو پانے کی مثبت کوششیں شروع کردیں تو یقیناً کوئی دوسری ناکامی ہماری زندگی میں نہیں آسکتی لیکن افسوس ہم یہی تو نہیں کرتے۔آیئے اس ساری گفتگو کے تناظر میں ایک خط کا جائزہ لیتے ہیں لیکن یہ اس حوالے سے کوئی پہلا خط نہیں ہے۔ایسے منظر نامے ہم پہلے بھی آپ کو دکھاتے رہے ہیں۔
اس خط کے سلسلے میں نام اور جگہ کا اظہار ممکن نہیں ہے،وہ لکھتے ہیں ’’اللہ پاک آپ کو صحت و تندرستی، سکون و راحت نصیب کرے۔ محترم! میں نے آپ کا کالم پڑھا اور اُس کے مطابق لوح شمس تیار کی۔ ہمارے ایک بزرگ جو روحانی علاج کا کام 30 سال سے کر رہے ہیں، انہیں دکھائی تو انہوں نے بہت عقیدت سے اُسے چوم کر میرے والد کو تنبیہ کی کہ اس لوح کو اپنے پاس ضرور رکھیں۔ پہلے ہمارا کاروبار بہت عروج پہ تھا اور فرصت نہیں ملتی تھی کہ ہم کچھ اور کرسکیں۔ اللہ نے بہت کرم کیا تھا لیکن پھر ہمارے برابر میں ایک دوسری دکان کھل گئی ، وہ کئی بھائی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ وہ تمام بھائی تعویز گنڈے وغیرہ کرتے اور کرواتے ہیں ، میرے والد صاحب اور میں کالے علم وغیرہ پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے اور ہم نے ان کے بارے میں کبھی کوئی غلط بات بھی کسی سے نہیں کی ، آہستہ آہستہ ہمارا کام کم ہوتا چلا گیا ،آئے دن ہمارے گھر میں لڑائی جھگڑا ، بے سکونی اور دیگر پرابلم ہوتے ہوتے بہت حالت بگڑی اور حال یہ ہوا کہ والد صاحب بیمار رہنے لگے ، ان کے بعد والدہ کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تو ہم نے روحانی علاج کروایا تو پتا چلا کہ ہمارے کاروبار پر سخت بندش اور والد صاحب پر سفلی کسی ہندو سے کروایا گیا ہے اور والد کے ساتھ والدہ پر بھی اثرات کا بتایا ہے ، پچھلے چار سال سے ایک عامل کو چھوڑ دوسرے عامل کے پاس آنا جانا لگ گیا ، طبیعت آئے دن خراب رہتی ہے ، جب بھی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو والد صاحب کی طبیعت مزید خراب ہوجاتی ہے ، میں سب کا تو نہیں کہتا پر دو عامل حضرات جنہیں صرف میں نہیں بلکہ پورا علاقہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والے لوگ نہیں ، انہوں نے بھی یہی بتایا اور ساتھ ساتھ صرف ہمارے برابر والے دکان دار کے بارے میں ہی نہیں ہمارے رشتہ داروں میں سے بھی کچھ لوگوں کے بارے میں بتایا کہ وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ آخر میں ان دونوں حضرات نے جہاں ہمارا دل مطمئن تھا یہ کہہ کہ ہم سے معذرت کرلی کہ ہمارے بیوی بچے ہیں اور یہ گندا کام گندا کرنے والے آسانی سے اتار سکتے ہیں ، ہمیں جس نے جو بتایا وہ پڑھا ، پڑھائی میں کبھی پیچھے نہیں رہے حتیٰ کہ 313 مرتبہ روز آیت الکرسی 41 دن پڑھی ، سورہ الناس، سورہ الفلق 1100 بار پڑھی ، یٰس شریف 41 بار 7 دن تک پڑھی ، دعائے حزب البحرپچھلے ایک سال سے بغیر ناغہ روز پڑھ رہا ہوں ، میرے پاؤں میں پڑھائی کر کر کے سوجن ہونے لگی ہے ، قرآن پاک کی تلاوت ، یٰس شریف کا ورد روز کرتا ہوں ، سارے گھر والے نمازی ہیں ، پاکی ناپاکی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، کام دھندہ بالکل ختم ہوچکا ہے ، کسی نے بتایا سورہ رحمن پڑھو ، نکلتے سورج کی طرف اشارہ کرکے ، وہ بھی کیا ، سورہ اخلاص ایک ہزار بار روز صبح فجر میں پڑھی ، کسی عامل کے پاس جاؤ تو کچھ دن معاملا ت ٹھیک رہتے ہیں ، پھر وہی حال ، اکثر عامل حضرات یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دروازے کے چکر کاٹتے رہیں ، ان کو دیتے دلاتے رہیں ، اب بہت پریشان آگیا ہوں ، کب تک پڑھوں ، کب تک ان عامل حضرات کے چکر لگاؤں ، مجھے اسٹار وغیرہ پر تو کوئی زیادہ عقیدہ نہیں لیکن جب سے میں نے لوح شمس بنائی ہے اور اسے چیک کروایا اور خاص طور پر آپ کے کالم پڑھے تو مجھے شرک اور بدعت سے بالکل پاک اور اسٹیٹ فارورڈ لگے ، آپ کی دل سے رسپیکٹ کرنے لگا ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کچھ ایسا سکھا دیں کہ میں سب کئے کرائے کا توڑ کرسکوں ، مجھے کوئی ایسا حل بتا دیں کہ مستقل مسئلہ حل ہوجائے ۔‘‘ 
جواب : عزیزم ! خدا معلوم آپ کون سی دنیا میں رہتے ہیں اور آپ کی سوچ کس قسم کی ہے ، اتنی محنت ، چلے وظیفے کرنے کے بجائے سب سے آسان حل تو یہی تھا کہ آپ وہ علاقہ ہی چھوڑ دیتے ، کسی اور جگہ دکان لے لیتے لیکن اس سلسلے میں بھی آپ کی اور آپ کے والد کی ضد یہ ہے کہ ہم کیوں جگہ چھوڑیں ، گویا آپ نے اپنے طور پر مقابلہ آرائی کی ٹھان لی ہے ، حالانکہ اس مقابلے میں خود اپنے بیان کی روشنی میں آپ بری طرح شکست کھا چکے ہیں اور اب حقیقت یہ ہے کہ جان کے لالے پڑ گئے ہیں ۔
آپ کے والد کے کاروبار میں خرابی اور ان کی بیماری ، والدہ کی بیماری، گھر میں لڑائی جھگڑے ان تمام باتوں کا ذمہ دار آپ اپنی قریبی دکان کے مالک کو سمجھتے ہیں اور یہ بھی اس وقت سے سمجھ رہے ہیں جب سے آپ روحانی علاج کے چکر میں عاملوں کے پاس گئے اور انہوں نے بتایا کہ بڑی سخت بندش ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہ وہ عامل پیش کرسکتے ہیں اور نہ آپ ، بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کا کاروبار آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے اور صحت بھی خراب رہنے لگتی ہے ، صحت کی خرابی کے اور بھی بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں ، عمر کا تقاضا ، غم و فکر ، مالی پریشانیاں وغیرہ ۔ والدہ کی بیماری بھی اسی سلسلے سے جڑی ہوئی ہے کہ اول تو عمر کا تقاضا پھر شوہر کی بیماری اور شوہر کے کاروبار کی خرابیوں کی وجہ سے معاشی پریشانی وغیرہ ۔ یہ صورت حال گھر میں لڑائی جھگڑوں کو بھی جنم دیتی ہے ، لہٰذا صرف ان بنیادوں پر سحر ، جادو ، سفلی عمل وغیرہ کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا ، پھر ایک ایسے گھرانے پر جہاں سب نماز کے پابند ، قرآن کی تلاوت کرنے والے اور پاک صاف رہنے والے لوگ رہتے ہوں ، اس کے برعکس آپ کے دشمن بقول آپ کے گندے اور سفلی عمل کرتے اور کراتے ہیں وہ نہایت خوش حال ہیں بلکہ عیش کر رہے ہیں اور جب چاہتے ہیں آپ کے خلاف کوئی کارروائی کر ڈالتے ہیں مگر آپ کے بے پناہ ورد و وظائف جن میں ایسی ایسی زبردست سورتیں اور آیات الٰہی شامل ہیں ، آپ کا کوئی تحفظ نہیں کررہیں ! نعوذباللہ اس طرح تو آپ اللہ اور اس کے کلام پر بڑا خوف ناک الزام لگا رہے ہیں جیسا کہ ہم ابتدا میں لکھ چکے ہیں کہ آپ کو اللہ اور اس کے کلام پر تو یقین نہیں ہے ، معمولی اور گھٹیا کام کرنے والے لوگوں کے گھٹیا کاموں پر پورا یقین ہے ، یعنی جس دن والد کی طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے آپ یہ طے کرلیتے ہیں کہ مخالفوں نے کوئی کارروائی کی ہے ، ہمیں یقین ہے کہ روحانی علاج معالجے کے چکروں میں اور معاشی پریشانی کی وجہ سے آپ نے یا آپ کے والد صاحب نے کبھی ڈھنگ سے اپنا یا والدہ کا علاج نہیں کرایا ہوگا ، کبھی معقولیت سے سارے ٹیسٹ نہیں کرائے ہوں گے کہ بیماری کا اصل سبب معلوم ہوسکے کیونکہ آپ تو یہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے بجائے آپ کے دشمن کر رہے ہیں ، معاذ اللہ ۔۔۔معاذ اللہ ۔
خدا کے بندے ! جہالت کے اندھیرے میں سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، آپ جن قابل اعتبار سچ بولنے والے بزرگوں کا حوالے دے رہے ہیں ہماری نظر میں تو وہ کتنے ہی سچے ، نیک اور پرہیز گار کیوں نہ ہوں مگر ان کی جہالت پر کو ئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ انہوں نے جو نشان دہی فرمائی ہے اور آپ کے رشتہ داروں کو بھی اس میں شامل کردیا ہے وہ بھی ان کے فراڈ ہونے کا ثبوت ہے ۔ ان کا یہ مشورہ بھی کہ گندہ کام ،گندہ کرنے والے آسانی سے اتار کر سکتے ہیں انہیں جہنم کا راستہ دکھا سکتا ہے ، کیونکہ اس طرح وہ اللہ کی سادہ لو ح مخلوق کو کفر کا راستہ دکھا رہے ہیں اور خود ان کے روحانی ڈھونگ کا پول بھی ان کی اس بات سے کھل جاتا ہے کہ ’’ ہمارے بیوی بچے ہیں ‘‘ گویا انہیں خود بھی اللہ اور اس کے کلام پر کوئی یقین نہیں ہے ، شیطانی قوتوں سے وہ بھی ڈرتے ہیں بلکہ ان پر ایمان رکھتے ہیں ، یاد رکھیں ایک سچا مسلمان کبھی کسی شیطانی قوت سے خوفزدہ نہیں ہوتا ، وہ تو اس کے مقابلے پر ڈٹ جاتا ہے اور بالآخر فتح اسی کی ہوتی ہے کیونکہ اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے ، اللہ کبھی اس کا ساتھ نہیں دے گا جو غیر اللہ کی طرف جائے گا ، ایسے بزرگ کون سے علم کے ذریعے اس طرح کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں ؟ کیا انہیں کوئی غیب کا علم ہے ؟ علم جفر ، علم الاعداد ، فال ، رمل ، استخارہ الغرض جتنے بھی ذرائع ہوسکتے ہیں ان کے ذریعے وہ ایسی باتیں نہیں بتا سکتے ، استخارے کو تو حد درجہ بد نام کردیا گیا ہے ، مندرجہ بالا تمام طریقے نہایت کم زور جواب دیتے ہیں جن پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، فال اور رمل کے لیے تو شریعت میں پابندی آئی ہے اور استخارہ صرف اس لیے ہے کہ کسی مسئلے میں اللہ کی رضا معلوم کی جائے ، آج کل لوگ استخارے کے نام پر بندش اور سحر جادو کا حال معلوم کر رہے ہیں ۔اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے یہ تو فرمان رسول ﷺ سے بھی انحراف ہے ۔دوسری صورت میں ایسے لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ کاہن ہیں جو غیب کی باتیں بتا رہے ہیں ، انہیں کون سے ذرائع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا فلاں پڑوسی یا رشتہ دار آپ پر گندے عملیات کسی ہندو سے کرا رہا ہے ؟ 
آپ کی کم علمی کا ایک اور ثبوت آپ کا یہ جملہ ہے ’’ مجھے اسٹارز وغیرہ پر بھی کوئی زیادہ عقیدہ نہیں ‘‘ عزیزم ! اسٹارز یا علم نجوم کوئی عقیدہ نہیں ہے نہ یہ کوئی مذہب ہے ، جس قسم کے لوگوں میں آپ کی تربیت ہوئی ہے وہ اپنی جہالت کے سبب علم نجوم کو قسمت کا حال ، غیب کاحال اور نا معلوم کیا کیا کہتے ہیں اور خود غیب دانی اور کشف و کرامات کا دعویٰ رکھتے ہیں، حالانکہ علم نجوم ایک سائنس ہے ، بالکل اسی طرح جیسے میڈیکل سائنس ، آپ اسے مانیں یا نہ مانیں اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ، کروڑوں لوگ دنیا میں جدید سائنس کی ترقی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بے شمار ایسے بھی ہیں جو اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں ، یہی صورت دیگر علوم کی بھی ہے ۔ 
آخر میں آپ نے جو فرمائشیں کی ہیں ہم انہیں آپ کے مسئلے کا حل نہیں سمجھتے ، آپ کے مسائل کا درست حل یہ ہے کہ والد اور والدہ کا درست علاج کرائیں ، فرضی مقابلہ آرائی اور دشمنی کی فضا کو ختم کریں ، اپنی خامیوں کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کاروباری معاملات میں آپ کی کوتاہیاں کیا ہیں اور آپ کے حریف کو کاروباری معاملات میں آپ پر کیا برتری حاصل ہے ،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نیا دکان دار آپ کے قریب جب دکان کھولتا ہے تو وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ آپ کے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آپ سے بہتر کوالٹی کا سامان اپنی دکان میں رکھیں یا آپ کے مقابلے میں اپنے مال کی قیمت کم رکھے، ایسی صورت میں آپ کو بھی نئی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے، لوح شمس آپ نے بنالی ہے اسے اپنے پاس رکھیں ، اسمائے الٰہی ’’ یا حی یا قیوم ‘‘ کا ورد رکھیں، روزانہ صبح کم از کم تین مرتبہ سورۂ شمس کی تلاوت کرکے لوح پر دم کردیا کریں اور اللہ سے دعا کیا کریں، بہت زیادہ پڑھائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ اسمائے الٰہی اسم اعظم کا درجہ رکھتے ہیں ، کسی کا کیا کرایا آپ پر اثر نہیں کرسکتا ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جعلی عاملوں کی باتوں میں آکر ایک ایسے مرض کا علاج کررہے ہیں جو کہ اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتا ، لہٰذا جو دوائیں بھی کھا رہے ہیں وہ کچھ نئے امراض پیدا کر رہی ہیں ، آخر میں ہم آپ کو دعا ہی دے سکتے ہیں کہ اللہ آپ کی آنکھیں کھول دے اور آپ کو ایمان دے ۔

ہفتہ، 14 جولائی، 2018

زمانہ ساز کوئی دوسرا ہے، میں نہیں ہوں

جن، بھوت، آسیب اور سحروجادو کا شکار مریضوں کے لیے خصوصی تحریر
ہمارے اندیشے درست نکلے، کے پی کے اور بلوچستان سے دہشت گردی کے واقعات کی اطلاعات آرہی ہیں، مزید یہ کہ نواز شریف اور ان کی صاحب زادی کی وطن واپسی اور گرفتاری کے نتیجے میں ن لیگی رہنما اور ووٹرز خاصے جذباتی موڈ میں نظر آرہے ہیں، تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے،وجہ یہی ہے کہ الیکشن کی تاریخ ایسی سیاروی صورت حال کے درمیان رکھی گئی ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، 13 جولائی کا سورج گہن اور پھر 28 جولائی کا چاند گہن ہر گز کسی مثبت اور تعمیری کام کے لیے موافق نہیں ہیں، دو گہنوں کے درمیان جو کام کیے جاتے ہیں ان کے نتائج بہتر نہیں نکلتے، مزید یہ بھی کہ دو منحوسوں کیتو اور مریخ کا قران سونے پر سہاگہ ہے ،تیسرا سورج گہن 11 اگست کو لگے گا، راہو کیتو کا تیسرا قران ستمبر میں ہوگا گویا صرف 25 جولائی تک ہی موجودہ سیاسی یا غیر سیاسی معرکہ آرائیاں نہیں ہیں، الیکشن ہو بھی گئے تو ملک میں استحکام اور قوم کے لیے سکون کا حصول ممکن نظر نہیں آتا، جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ نزدیک آرہی ہے، حادثات و سانحات میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ سلسلہ الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گا۔
دوسری طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ اس بار ان کی پوزیشن کمزور ہے اور میدان تحریک انصاف کے ہاتھ میں رہے گا، پیپلز پارٹی میں زیادہ تجربے کار اور جہاں دیدہ لوگ موجود ہیں، وہ اس صورت حال میں بھی اپنے لیے کوئی مناسب راستہ تلاش کرسکتے ہیں لیکن ن لیگ کا مسئلہ نواز شریف ہیں جو اصولی طور پر سیاسی منظر نامے سے آؤٹ ہوچکے ہیں، ان کی ہر ممکن آرزو اور کوشش یہی تھی کہ زیادہ بہتر پوزیشن میں اقتدار سنبھالیں تاکہ آئینی تبدیلی کے ذریعے نواز شریف کے دامن پر لگے داغ دھل سکیں، چوں کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا لہٰذا ان کے لیے موجودہ الیکشن بے معنی ہوکر رہ گیا ہے،اگرچہ وہ بائیکاٹ کی بات نہیں کر رہے لیکن یقیناً ان کی خواہش یہ ہوسکتی ہے کہ اگر ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں، اگلے الیکشن میں خاصے دن باقی ہیں، اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مرحلے پر ن لیگ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردے، اگر ایسا ہوگا تو موجودہ الیکشن کی حیثیت خاصی مشکوک ہوجائے گی اور بین الاقوامی طور پر بھی پاکستان کے دشمنوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملے گا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ نگراں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس وقت خاصی مشکل اور پریشانی کا شکار ہے،سارے مسائل سے نکلنے کے لیے وہ کیا حکمت عملی اختیار کریں گے ، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،کہانی الجھتی جارہی ہے، جمہوریت کا راگ بھی ایک بھونڈے تماشے میں بدلتا جارہا ہے ؂
یہ وقت صرف مِرا آئینہ ہے، میں نہیں ہوں
زمانہ ساز کوئی دوسرا ہے، میں نہیں ہوں
لاکھ جنات کا ایک جن، ہسٹیریا
جنات ، آسیب اور سحروجادو کے حوالے سے ہم ماضی میں لکھتے رہے ہیں لیکن ایک اور حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے جو ہمارے معاشرے میں بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ آسیبی مریض پیدا کرتا ہے، کچھ اس کے بارے میں بھی بیان کردیا جائے، یہ مرض ہسٹیریا ہے،گزشتہ تقریباً 25 سال کے عرصے میں ذاتی طور پر اور خطوط یا ای میلز کے ذریعے ہسٹیریا کے بے شمار مریض ہمارے مشاہدے میں آئے ہیں، مریض کے گھر والے عام طور پر ایسے کیسوں کو جنات و غیرہ کا معاملہ ہی سمجھتے ہیں اور فوری طور پر اس سلسلے میں مولوی حضرات یا عامل حضرات سے رجوع کرتے ہیں، پچھلے دنوں تقریباً پانچ کیس ایسے ہی ہمارے مشاہدے میں آئے چناں چہ اس موضوع پر لکھنے کا خیال بھی آیا، آپ یقین کریں کہ پانچوں افراد جن میں دو لڑکے اور تین لڑکیاں شامل ہیں، ہر گز کسی جن یا آسیب کا شکار نہیں تھے، ان کا مسئلہ سو فیصد ہسٹیریا تھا۔
ہسٹیریا کے بارے میں ماہرین نفسیات ور ماہرین طب کے درمیان خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے، قدیم حکماء اسے اختناق الرحم یعنی بچہ دانی کی بندش قرار دیتے ہیں اور اسے صرف خواتین کا مرض تصور کرتے ہیں، تمام طبی ماہرین نے یہ تصور آج سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل کے یونانی حکیموں اور دانش وروں کی تحقیق سے لیا ہے، ان کا خیال تھا کہ ہسٹیریا صرف عورتوں کی بیماری ہے اور اس کے دوروں کا تعلق بنیادی طور پر خواتین کے تناسلی اعضا سے ہے، ان اعضا میں بھی ’’رحم‘‘ کی خرابیوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
ڈھائی ہزار سال پرانا یہ تصور تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ آج بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور موجودہ صدی کے ابتدائی دس سالوں تک تو یہ بھی یقین کیا جاتا رہا ہے کہ صرف خواتین ہی ہسٹریا کے مرض کا شکار ہوتی ہیں لیکن جب جنگ عظیم اول کے دوران میں محاذ جنگ پر بے شمار فوجی جوان ہسٹریا کے دورے میں مبتلا ہوئے تو ماہرین نفسیات کو بھی اپنے نظریات تبدیل کرنا پڑے، البتہ دوسرا قدیم نظریہ کہ جنسی عدم مطابقت ہسٹریا کا باعث بنتی ہے، آج بھی مقبول و مشہور ہے اور تحلیل نفسی کے پیروکار ماہرین نفسیات کا یہی بنیادی فلسفہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہسٹیریا ایک نفسیاتی مرض ہے، جنسی عدم مطابقت کے علاوہ مختلف اقسام کی ذہنی پے چیدگیاں اور ذہنی دباؤ اس مرض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے کسی عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ہے، ہر عمر کے مرد، عورتیں اور بچے اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں، ایک سروے رپورٹ کے مطابق سولہ برس سے 33 برس تک کے افراد ہسٹریا کا زیادہ شکار پائے گئے ہیں اور ان کی تعداد 67 فیصد تک پہنچتی ہے۔
عظیم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے ہسٹریا پر قابل قدر تحقیق کی ہے، اس نے لاشعور میں پناہ گزیں تضادات اور محرومیوں کو اس مرض کی علت قرار دیا، اس کی تحقیق کے مطابق روز مرہ زندگی میں ہماری جبلی ضروریات بھوک، پیاس اور جنس وغیرہ اپنی تسکین کے لیے مصروف عمل رہتی ہیں، اس عمل کے دوران میں جب یہ ’’جبلی ضروریات‘‘ انسان کے شعور کا حصہ بنتی ہیں تو ماحول اور سماج کی عائد کردہ پابندیوں، مجبوریوں اور رکاوٹوں کی بنیاد پر ان جبلی ضروریات کی تسکین نہیں ہوپاتی لہٰذا انسان کے ذہن میں ایک تضاد جنم لیتا ہے جسے (Odd)نفس امارہ اور انا (Ego) کے تضاد سے منسوب کیا جاتا ہے۔
فرائڈ کے نظریے کے مطابق ہسٹریا انسان کے کسی ذاتی مسئلے کے اظہار کا طریقہ ہے، ہسٹریا کا مریض اپنا مسئلہ بعض وجوہات کی بناء پر الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کرتا بلکہ جسمانی اشاروں کے ذریعے اس کے اظہار کی کوشش کرتا ہے۔
فرائڈ کی تشریح کے مطابق ’’اعصابی مریض اپنے افعال کے نتیجے میں اس مرض کا شکار نہیں ہوتے بلکہ جو کچھ ان کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ اس مرض کا سبب بنتا ہے‘‘ یہاں فرائڈ سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا، بہر حال اس کا اشارہ واضح طور پر ان اخلاقی، سماجی اور مذہبی پابندیوں کی طرف ہے جن کے باعث جنسی تحریکیں اور جبلی خواہشات دب کر نفس امارہ کا حصہ بن جاتی ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے یعنی جب بھی انا کمزور پڑتی ہے، نفس امارہ اس پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے، اس کشمکش کے نتیجے میں انسان اعصابی مریض بن جاتا ہے، آئیے اس مسئلے کو مزید وضاحت سے بیان کریں۔
معاشرتی حوالے سے فرد کی بقا اور عزت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات کو کچل دے، دبادے، جن کی تسکین و تکمیل ماحول اور سماج کی عائد کردہ پابندیوں، مجبوریوں اور کاوشوں کی وجہ سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ دوسری صورت میں فرد کی سماجی حیثیت اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی نظر میں اپنے وقار اور حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، خواہشات کو دبانے اور کچلنے کا عمل لاشعوری ہوتا ہے، اس عمل میں غیر تسکین شدہ جبلی خواہشات شعور سے نکل کر لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں (ہمارے خوابوں کی رنگین و سنگین کہانیاں بھی اسی صورت لاشعور سے جنم لیتی ہیں)
اگر سمندر کی سطح کو ہم شعور سے تشبیہ دیں تو اس کی اتھاہ گہرائی کو ہم لاشعور کہہ سکتے ہیں یعنی لاشعور ہمارے ذہن کا ایک ایسا ہی گہرا حصہ ہے جس کی ماہیت اور بناوٹ سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہوتے، ہمارے بے شمار خیالات، احساسات اور محرومیاں اس گہرے حصے میں ایسی خاموشی سے دفن ہوتے رہتے ہیں کہ ہمیں خبربھی نہیں ہوپاتی اور نہ ہم کبھی اپنے لاشعور میں موجود احساسات اور خیالات سے آگاہ ہوپاتے ہیں جو کہ عموماً محرومیوں کی تلخی اور تندی کا رنگ لیے ہوئے ہوتے ہیں مگر ہمارے ذہن کا یہ حصہ یعنی ہمارا لاشعور ہمارے کردار کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول ضرور کرتا رہتا ہے اور ایک ذہنی عدم مطابقت کا باعث بنتا ہے۔
فرائڈ کے اخذ کردہ نتائج کے مطابق لاشعور میں دھکیلا جانے والا مواد یا خواہشات اپنے اظہار یا تسکین کے لیے راستہ تلاش کرتا رہتا ہے اور بالآخر یہ اظہار براہ راست ہسٹریا کی جسمانی اور ذہنی علامتوں کی صورتوں میں ہوتا ہے۔
ہسٹیریا کی اقسام
ہسٹریا کی تشخیص میں اس مرض کی دو اقسام تسلیم شدہ اور مشہور ہیں، پہلی قسم ’’تحویلی یا افعالی ہسٹریا‘‘ اور دوسری ’’اختراقی ہسٹریا‘‘
تحویلی ہسٹریا میں حواس اور خود ارادی نظام عصبی کے اعمال میں نقص پیدا ہوتے ہیں، یہ نقائص احساسات اور حرکات دونوں اقسام کے ہوسکتے ہیں مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ان نقائص کے باوجود طبی تشخیص انسان کے جسمانی نظام میں کوئی عضویاتی اور کیمائی خرابی کی نشان دہی نہیں کرپاتی، ہسٹریا اور دیگر عضویاتی نقائص کی وجہ سے پیدا ہونے والے امراض مثلاً مرگی میں بنیادی فرق یہی ہے۔
تحویلی ہسٹریا کی شناخت میں مندرجہ ذیل علامات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، مریض کی جلد بے حس ہوجاتی ہے، اسے درد، تکلیف، گرمی، سردی کا احساس نہیں ہوتا، بینائی میں نقص آجاتا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا رہتا ہے یا دھندلا دکھائی دیتا ہے، بولنے کی طاقت کم محسوس ہوتی ہے یا بالکل ختم ہوجاتی ہے اور سنائی بھی کم دیتا ہے، جسم کا کوئی حصہ مفلوج و ناکارہ ہوجاتا ہے مگر یہ فالج مخصوص نوعیت کا ہوتا ہے مثلاً شانے تک بازو ، کلائی تک ہاتھ یا کبھی صرف انگلیاں حرکت سے معذور ہوجاتی ہیں، اس طرح ایک یا دونوں ٹانگوں کا فالج، صرف گھٹنے تک یا کولہے کے جوڑ تک مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان لیٹے ہونے کی حالت میں اپنی ٹانگوں کو حرکت دینے کے قابل ہوتا ہے، اگر مکمل فالج کی کیفیت نہ ہو تو اکثر چلنے پھرنے کی قوت کم ہوجاتی ہے، دوسری صورت میں ہسٹریا عمومی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جو ہمارے عام مشاہدے میں آتی رہتی ہیں، جسم کو جھٹکے لگتے ہیں، مریض کو ایسے دورے پڑتے ہیں جن سے ہاتھ پاؤں اور جسم اکڑ جاتا ہے، دم گھٹنے کی کیفیت حلق میں پھندا سا لگ جانا، لکنت کی شکایت، بہت زیادہ پسینہ آنا، متلی کی کیفیت اور بھوک کا ختم ہوجانا یا بے تحاشا بڑھ جانا وغیرہ یہ تمام جسمانی علامات کسی بھی اعصابی نقص کے بغیر ہوتی ہیں، یعنی تحویلی ہسٹریا میں لاشعوری محرکات ان جسمانی نقائص کی علت ہوتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اختراقی ہسٹریا میں یہ لاشعوری محرکات ذہنی نقائص کا باعث ہوتے ہیں۔
اختراقی ہسٹریا کے مظاہرے میں یاد داشت اور شعور کی خرابیاں اہمیت کی حامل ہیں، ان خرابیوں اور نقائص کے ذریعے انسان لاشعوری طور پر ایسے واقعات و حادثات سے جنھیں اس کا شعور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، فرار حاصل کر رہا ہوتا ہے یا پھر وہ اپنی کسی دبی ہوئی خواہش کی تسکین کر رہا ہوتا ہے، اختراقی ہسٹریا کی علامتیں یہ ہوسکتی ہیں، یادداشت کی کمزوری یا بالکل ختم ہوجانا یہ جزوی یا مکمل طور پر بھی ہوسکتی ہیں لیکن اس خرابی کی کوئی عضویاتی وجہ نہیں ہوتی، اس حالت میں انسان اپنی پہچان،اپنا نام، پتا، خاندان اور ماضی فراموش کردیتا ہے، اسے سماجی عادات و اطوار اور اپنی ذلت کے علاوہ بے شمار باتیں یاد رہتی ہیں، نیند کی حالت میں چلنا بھی اختراقی ہسٹریا کی ایک قسم ہے۔
ایک اور قسم فیوگ (FUGE) کہلاتی ہے، اس میں انسان مکمل طور پر اپنی پہچان بھول جاتا ہے اور ایک بالکل مختلف قسم کی شخصیت بن جاتا ہے، یہ کوئی جناتی یا روحانی شخصیت بھی ہوسکتی ہے، فیوگ یادداشت کی خرابی کی ایک حالت ہے جو کسی سخت ذہنی جذباتی دباؤ کے بعد جنم لیتی ہے، فیوگ کا مریض ٹھیک ہونے کے بعد یعنی دورے سے نجات پانے کے بعد خود فراموشی کی حالت میں کیے گئے تجربات یاد نہیں رکھ سکتا، یہ مشکلات اور تلخیوں سے فرار کی ایک حالت ہوتی ہے کیوں کہ فرد کا شعور پیش آنے والے تلخ واقعات اور مسائل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
اختراقی ہسٹریا کی ایک قسم وہ ہے ’’جسے کثیر شخصیتی‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں انسان دو یا دو سے زیادہ شخصیتوں کا روپ دھار لیتا ہے، ہر شخصیت میں انسان کا کردار علیحدہ اور مخصوص نوعیت کا ہوتا ہے اور وہ خود اس بات سے بالکل بے خبر ہوتا ہے۔
ہسٹیریا کی مندرجہ بالا اقسام علم نفسیات کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق بیان کی گئی ہیں، اس سلسلے میں خالص طبی نکتہ ء نظر سے اختلاف ممکن ہے اور پیراسائیکولوجی (مابعد النفسیات) کے ماہرین کی تحقیقات اور مشاہدہ مزید اقسام پر روشنی ڈالتا ہے، شعبہ ء نفسیات گورنمنٹ کالج جھنگ کے ایک سروے کے مطابق جو 1986 ء میں کرایا گیا تھا، آبادی میں ہسٹریا کے مریضوں کا تناسب ستائیس فیصد تھا، اب یقیناً یہ تناسب مزید بڑھ چکا ہے، خصوصاً کراچی میں یہ بات ہم اپنے ذاتی سروے کی بنیاد پر بھی کہہ رہے ہیں جس کی بنیاد وہ بے شمار خطوط میں جو پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ہمیں موصول ہوتے ہیں، ایسے معاشرے میں جہاں افراد جذباتی گھٹن اور دباؤ کا مستقل طور پر شکار رہتے ہوں، ہسٹریا، شیزوفرینیا، مالیخولیا، مراق اور مرگی کے مریضوں کا تناسب بڑھنا کوئی حیران کن بات نہیں ہے، آخر میں ایک اہم نکتہ اور ذہن نشین کرلیجیے، اوپر جن نفسیاتی امراض کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان سب کی والدہ ماجدہ کا نام ہے’’افسردگی‘‘ یعنی ’’مس ڈپریشن‘‘ اور والد ماجد ہم ’’تناؤ‘‘ یعنی ’’مسٹر ٹینشن‘‘ کو قرار دیں گے کہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہی وہ تمام امراض ہیں جو بالآخر کسی آسیبی، جناتی یا جادوئی سلسلے سے جڑجاتے ہیں۔

ہفتہ، 7 جولائی، 2018

انسانی جسم میں مرض کا ظہور روح کے ذریعے



نواز شریف کے زائچے کی روشنی میں کیا گیا تجزیہ درست ثابت ہوا
بالآخر جس فیصلے کا انتطار تھا، وہ آگیا اور ن لیگ کے قائد جناب نواز شریف ، ان کی صاحب زادی مریم اور داماد کیپٹن صفدر کو نہایت سخت سزائیں سنا دی گئی ہیں، کیپٹن صفدر پاکستان میں موجود ہیں جب کہ نواز شریف صاحب اور ان کی صاحب زادی لندن میں ہیں، انھوں نے بہت جلد واپس آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن پاکستان آنے کے لیے فی الحال کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، اس فیصلے پر اور اس کے نتائج پر سیاسی اور صحافتی حلقوں میں جو تبصرے اور قیاس آرائیاں ہورہی ہیں اس سے قطع نظر ہم نواز شریف صاحب کے زائچے پر کیے گئے اپنے تجزیے کا حوالہ دیں گے،مئی کے آخری ہفتے میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور پارٹی کے قائدین کے حوالے سے جب ہم نے نواز شریف صاحب کے زائچے کی موجودہ پوزیشن کا جائزہ لیا تھا تو عرض کیا تھا۔
’’اگرچہ دور اکبر اور دور اصغر اتنے خراب نہیں ہیں لیکن زائچے میں سیارگان کے ٹرانزٹ کی پوزیشن خاصی تشویش ناک ہے،چھٹے اختلاف و تنازعات اور فتنہ و فساد کا حاکم سیارہ زحل زائچے کے چوتھے گھر میں حرکت کر رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ بارھویں گھر کے حاکم شمس سے قران کر رہا ہے بلکہ مشتری اور زہرہ پر بھی منحوس اثر ڈال رہا ہے،یہ صورت حال قید و بند کے علاوہ جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھونے کے مترادف ہے،زحل ابھی رجعت میں ہے،مستقیم ہونے کے بعد دوبارہ انہی درجات سے گزرے گا تو مزید پریشانیوں کا باعث ہوگا، دوسری طرف زائچے کا سب سے منحوس سیارہ مریخ تین مئی کو پانچویں گھر میں داخل ہوا، یہاں کیتو پہلے سے موجود ہے، مریخ کے داخلے کے بعد ہی جناب نواز شریف نے ایک ایسا بیان دے دیا جس نے پورے ملک میں ہلچل مچادی ہے،پانچواں گھر شعور سے متعلق ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں درست اندازے لگالیے ہیں اور اب انھیں شاید کسی بات کا خوف نہیں رہا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ آنے والے مہینے ان کے لیے بہت مشکل ثابت ہوں گے،پاکستانی سیاست میں وہ تنہا ہوچکے ہیں، ان کی پارٹی بھی انتشار کا شکار ہے،پارٹی کی صدارت بھی جناب شہباز شریف کے پاس ہے لہٰذا آنے والے الیکشن میں ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ اپنا مزید وقت عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزاریں‘‘
عزیزان من! موجودہ فیصلہ ہمارے اس تجزیے کی تائید کرتا نظر آتا ہے کیوں کہ دس سال کی سزا کے علاوہ ایک ارب روپے سے زیادہ کا جرمانہ اور لندن کی جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم عدالت نے دے دیا ہے، بے شک اب وہ ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے اور پاکستان آنے کی صورت میں فوری گرفتاری کا اندیشہ بھی ہے،دوسری طرف انتخابات میں ن لیگ کی پوزیشن کمزور ہورہی ہے اور پی ٹی آئی کی بہتر ہورہی ہے،پی ٹی آئی اور ن لیگ کے زائچوں کی روشنی میں بھی ہم نے عرض کیا تھا کہ 2013 ء میں ن لیگ کے زائچے کی پوزیشن بہتر تھی اور پی ٹی آئی کے زائچے کی کمزور تھی، اس بار صورت حال اس کے برعکس ہے،بہر حال 25 جولائی قریب آرہی ہے اور اس وقت تک اور بھی بہت سی چونکا دینے والی غیر متوقع خبریں سامنے آئیں گی، پاکستان پیپلز پارٹی اور جناب آصف علی زرداری کے بارے میں بھی ان کے زائچے کی روشنی میں کسی خیر کی توقع ظاہر نہیں کی گئی تھی اور اب سیاروی پوزیشن زرداری صاحب کے بھی خلاف ہورہی ہے۔
جسمانی امراض کا انسانی روح سے تعلق
اکثر و بیشتر ایسے خواتین و حضرات سے رابطہ ہوتا ہے جو طویل عرصے سے مختلف تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، بے شمار ڈاکٹروں ، حکیموں اور روحانی معالجین سے علاج کراچکے ہوتے ہیں اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں ، ان کی بیماری کا علاج ممکن نہیں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بیماری کسی جادوئی اثر یا آسیبی ، جناتی اثر کا نتیجہ ہے چناں چہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے بارے میں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت پہنچے ہوئے اور زبردست روحانی قوتوں کے حامل ہیں، بے شمار ایسے لوگوں کے ہاتھوں لٹنے اور علاج میں ناکامی کے باوجود بھی ان کی یہ تلاش جاری رہتی ہے،بھٹکتے بھٹکاتے ہماری طرف بھی آ نکلتے ہیں اور اگر ہم انھیں یہ بتانے کی کوشش کریں کہ آپ کی بیماری وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں تو وہ یقین نہیں کرتے، اپنی بات پر قائم رہتے ہیں، ایسے بے شمار مریضوں سے گزشتہ تقریباً 30 سال میں ہمارا واسطہ پڑتا رہا ہے،چند روز پیشتر ہمیں طویل خط موصول ہوا، خط لکھنے والے ہمارے پرانے قاری ہیں،بہت طویل عرصے سے ہمارے کالم پڑھتے رہے ہیں اور خاص طور پر ایسے کالم جو ہم نے علاج معالجے یا مختلف پیچیدہ امراض کے حوالے سے لکھے ہیں کیوں کہ ہم یہ بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ جسمانی اور روحانی بیماریوں کا شافی علاج ہمارے نزدیک ہومیو پیتھک دواؤں سے ممکن ہے اور ہم ہومیو پیتھی کو روحانی طریقہ ء علاج سمجھتے ہیں لہٰذا خط میں ہم سے یہی سوال کیا گیا ہے کہ آپ کن بنیادوں پر یہ دعویٰ کرتے ہیں ، کسی بھی دوا کا روح سے کیا تعلق ہے؟خط بہت طویل ہے جو یہاں مکمل طور پر شائع نہیں کیا جاسکتا لیکن خط کا جواب دینے کی کوشش ضرور کی جائے گی۔
ہومیو دوا کی روحی حیثیت
ہومیو پیتھک دوا کو عام طور پر اس کی خالص حیثیت میں استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی پوٹینسیاں تیار کی جاتی ہیں یعنی ایک قطرہ دوا اور 99 قطرے الکوحل ملاکر سو جھٹکے دیے جاتے ہیں تو ایک پوٹینسی بنتی ہے پھر اس میں سے ایک قطرہ لے کر مزید ننانوے قطرے الکوحل کے ملائے جاتے ہیں اور پھر سو جھٹکے دیے جاتے ہیں تو اس طرح دوسری پوٹینسی تیار ہوتی ہے یہی طریقہ مستقل دہرایا جاتا ہے اور پوٹینسی کو 30 ، 200 ، 1000 یا ایک لاکھ تک بڑھایا جاتا ہے، اس صورت میں دوا کا پہلا قطرہ جو الکوحل میں شامل کیا گیا ہوتا ہے ، 200 یا 1000 کی پوٹینسی تک پہنچتے پہنچتے درحقیقت اپنا وجود کھودیتا ہے،اگر کسی لیبارٹری سے دو سو کی پوٹینسی کا تجزیہ کرایا جائے تو اصل دوا کا وجود ثابت نہیں ہوسکے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ الکوحل میں اصل دوا کی صرف روح موجود رہتی ہے،چناں چہ ہومیو پیتھک دوا کو ایک روحی حیثیت دی جاسکتی ہے۔
ہمارے مروجہ طریقہ ہائے علاج میں امراض کی روحی حیثیت پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی ، صرف ظاہری جسمانی تکالیف کے علاج پر ہی زور دیا جاتا ہے جب کہ روحیات اور بعض دیگر طریقہ علاج سے وابستہ ماہرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مرض کی ابتدا درحقیقت روح پر وارد ہونے والی مختلف ناگوار اور ضرور رساں کیفیات سے ہوتی ہے، پیراسائیکالوجی کے ماہرین(قدیم ہوں یا جدید) اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی جسم میں مرض کا ظہور اس کی روح کے ذریعے ہوتا ہے لہٰذا وہ روحانی علاج پر زور دیتے ہیں اور ایسے طریقے تجویز کرتے ہیں جو روح پر اثر انداز ہوں۔
روح کے ذکر سے یہاں یہ بحث چھڑ سکتی ہے کہ روح سے کیا مراد ہے یا یہ کہ روح کیا ہے؟ اس کا انسانی جسم سے کیا تعلق ہے؟
اس موضوع پر اہل تصوف و مذہب کے نظریات اور تشریحات موجود ہیں، ہم بھی بہت پہلے اسی کالم کے ذریعے اس موضوع پر لکھ چکے ہیں اور انسانی روح کی اقسام پر بھی اظہار خیال کرچکے ہیں جس میں نسمہ، جسم مثالی، پیکر نور یا ہمزاد (Aura) کے حوالے سے خاصی تفصیلی بحث ہوچکی ہے اور روحیات یا روحانیات سے تعلق رکھنے والا مکتبہ ء فکر( وہ جدید پیراسائیکولوجی سے تعلق رکھنے والے اہل مغرب ہوں یا مشرق کے اہل تصوف) اسی جسم مثالی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے پر زور دیتا ہے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ہر مرض کی ابتدا اس جسم مثالی یا پیکر نور سے ہوتی ہے، بعد میں اس کا ظہور مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں کی شکل میں انسانی جسم میں ہوتا ہے لہٰذا اگر بنیادی خرابی کو درست کردیا جائے تو جسم میں ظاہر ہونے والے خطرناک سے خطرناک مرض کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
کلر تھراپی (رنگ و روشنی سے علاج) کے ماہرین کا نظریہ یہ ہے کہ انسانی جسم کے ارد گرد (موجود ہالہ ء نور (Aura) رنگوں اور روشنی کی مخصوص مقدار ور ترتیب رکھتا ہے، اس مقدار میں کمی بیشی اور ترتیب میں بگاڑ ذہنی جسمانی امراض کے ظہور کا سبب بنتا ہے لہٰذا مقدار کی کمی بیشی اور ترتیب کے بگاڑ کو وہ رنگ و روشنی سے علاج کے ذریعے درست کرنے پر زور دیتے ہیں۔
ہپناٹزم کے حوالے سے بھی ہم پہلے سیلف ہپناٹزم کی ایک مشق پر گفتگو کرتے ہوئے لکھ چکے ہیں کہ اس طریقے پرعمل کرکے انسان اپنے جسم میں موجود خفیہ دفاعی سسٹم کو متحرک اور فعال بناتا ہے، وہ خفیہ دفاعی سسٹم روحیات کے ماہرین کے نزدیک انسان کا جسم مثالی بھی ہوسکتا ہے،اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لیے ہماری کتاب ’’مظاہر نفس‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
ہومیو پیتھی کو علاج بالمثل کہا جاتا ہے یعنی ایسا علاج جو جسم میں خرابیاں اور فساد پیدا کرنے والے اندرونی اور بیرونی عوامل ہی کے ذریعے کیا جائے مثلاً اگر کوئی شخص کسی زہر کے استعمال سے کسی موذی مرض میں مبتلا ہوجائے تو اسی زہر کی نہایت قلیل مقدار ایک خاص طریقے سے اس کے جسم میں داخل کرکے اس مرض کا علاج کیا جاتا ہے، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ایلو پیتھک طریقہ ء علاج میں مختلف بیماریوں کے ٹیکے وغیرہ لگاکر ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے تدابیر کی جاتی ہیں مثلاً پولیو کے ٹیکے کے ذریعے جو دوا جسم میں داخل کی جاتی ہیں وہ انسانی جسم کے اس دفاعی سسٹم کو بیدار کردیتی ہے جو پولیو کے جراثیم کا مقابلہ کرسکتا ہے، ہومیو پیتھک طریقہء علاج کی بنیاد تقریباً یہی نظریہ ہے اور اس کی ایجاد کا سبب بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھا،
ہومیو پیتھک کے بانی ہنی مین کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ جس دوا کو کھانے سے کوئی مرض دور ہوسکتا ہے، کیا اسی دوا کے بہت زیادہ استعمال سے وہ مرض پید ابھی ہوسکتا ہے، چناں چہ اس نے اس نظریے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اوپر تجربات کیے اور نتیجتاً حقیقت کو پالیا کہ وہ تمام جسمانی اور ذہنی بیماریاں جو انسان کو اذیت اور تکلیف میں مبتلا کرتی ہیں ان کے بیرونی اور اندرونی عوامل کا سراغ لگاکر ان ہی عوامل کی نہایت قلیل اور انتہائی لطیف مقدار انسانی جسم میں داخل کی جائے تو اس بیماری کے خلاف انسان کا مخصوص دفاعی سسٹم حرکت میں آجاتا ہے اور حملہ آور بیماری کو شکست سے دو چار کردیتا ہے۔
اب تک کی مثالوں میں مختلف نظریات کی نشان دہی کے بعد ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مختلف طریقہ ہائے علاج کی اکثریت کا زور روحی یا روحانی خرابیوں اور ان کے علاج پر ہے ، ہومیو پیتھی میں بھی پرانے اور گہرے امراض کے حوالے سے انسان کے اندر موجود تین خفیہ قوتوں کی کارفرمائی پر نظر رکھی جاتی ہے اور انھیں انسانی جسم میں پیدا ہونے والی تمام بیماریوں کی جڑ تصور کیا جاتا ہے ، یہ تین خفیہ قوتیں اپنے اصطلاحی ناموں میں ’’سورا‘‘ ’’سفلس‘‘ اور ’’سائیکوسس‘‘ ہر انسان میں پیدائش کے وقت سے ہی موجود ہیں ، ان کی کمی یا بیشی مختلف بیماریوں میں شدید نوعیت کی پیچیدگی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، عام ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کی دلچسپی کے لیے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ موجودہ دور میں جدید ہومیو پیتھک تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ خفیہ قوتیں جنھیں اصطلاحاً ’’میازم‘‘کہا جاتا ہے تین نہیں، چار ہیں، انڈین ہومیو پیتھک ماہرین نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ چوتھا ’’میازم‘‘ ٹیوبر کولیسز ہے، اس انکشاف کے بعد ہومیو پیتھی کی بنیادی فلاسفی میں خاصا بڑا انقلاب آیا ہے، بہر حال ہم یہاں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کیوں کہ یہ ہمارے عام قاری کا مسئلہ بھی نہیں ہے، ہم تو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کیا مندرجہ بالا ہومیو پیتھک نظریات ان نظریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں جو مرض اور مریض اور دوا کے روحانی یا روحی تعلق سے منسوب ہے؟
جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ یہ بڑا طولانی اور تفصیل طلب موضوع ہے، ہم نے چند نکات کی نشان دہی کردی ہے، اہل علم حضرات اس پر غورو فکر کرسکتے ہیں اور ہماری طرف سے انھیں اظہار خیال کی بھی دعوت ہے، بہر حال ہم اپنی ذاتی حیثیت میں اس نظریے کے قائل ہیں کہ مرض کے بجائے مریض کا علاج کیا جائے اور مریض سے مراد صرف گوشت و پوست، ہڈیوں اور دیگر رطوبات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان کی روحی اور روحانی حیثیت ہے، جب تک اس کی روح بیمار اور مجروح ہے، وہ جسمانی طور پر تندرست نہیں ہوسکتا، اب اس کے علاج کے لیے طریقہ علاج خواہ کوئی بھی اختیار کیا جائے، ہمیں اس سے غرض نہیں، ہاں یہ ضرور دیکھنا پڑے گا کہ جو طریقہ اختیار کیا جارہا ہے وہ مطلوبہ مقاصد پورے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں ہمیں ایلو پیتھک طریقہ علاج میں کچھ نہیں ملتا کیوں کہ اس کی بنیادی فلاسفی صرف انسانی جسم تک محدود ہے، روح کے حوالے سے وہاں کوئی بات نہیں ہوتی، نہ ہی روحی مسائل کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے بلکہ انھیں واہمہ قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے، البتہ ہومیو پیتھی ایسی کسی بات کو نظر انداز نہیں کرتی، وہ انسانی خوابوں، واہموں اور دیگر تمام احساسات، جذبات اور خواہشات تک کو مرض کی تشخیص میں مدنظر رکھتی ہے، ہومیو پیتھی کا ایک اچھا طالب علم اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرے گا کہ مریض خواب میں سانپ، چھپکلیاں، کتے، بلیاں یا دیگر حشرات الارض اور جانوروں کو اکثر دیکھتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ان علامات کے لیے ہومیو پیتھی میں دوائیں موجود ہیں۔
ایک خاتون بہت سی بیماریوں میں مبتلا تھیں، بہت سے ڈاکٹروں، حکیموں اور پیروں فقیروں سے علاج کراچکی تھیں اور اس اسٹیج پر پہنچ گئی تھیں جہاں انھیں اور ان کے گھر والوں کو یہ یقین ہوچکا تھا کہ معاملہ کسی عام بیماری کا نہیں بلکہ کوئی اوپری اثر ہے، کوئی جن بھوت ان پر مسلط ہوچکا ہے جو ان کو صحت مند نہیں ہونے دیتا، طویل بیماری نے انھیں بے حد حساس بھی بنادیا تھا اور یہ حساسیت بہت سے واہموں کو بھی جنم دیتی رہتی تھی، وہ اکثر غیر معمولی قسم کے خواب بھی دیکھتی تھیں اور تنہائی میں کچھ اجنبی آوازیں یا آہٹیں بھی انھیں سنائی دیتی تھیں، ایسے مریض طویل عرصہ تک مختلف ڈاکٹروں اور روحانی معالجوں سے واسطہ رہنے کے سبب خود بھی آدھے ڈاکٹر ہوچکے ہوتے ہیں اور عموماً کسی نئے معالج کے پاس جاتے ہیں تو اس کو اپنی مرض کے علاج پر راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی اپنے مرض کی تشخیص خود ہی کرتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ اسی مرض کا علاج کیا جائے جو ان کے خیال میں انھیں لاحق ہے یا صرف اس تکلیف پر توجہ دی جائے جس کی وجہ سے وہ فوری طور پر پریشان ہیں، ایسی صورت میں وہ بعض اہم علامات کا اظہار ہی نہیں کرتے اور عام ڈاکٹروں کو بھی اتنی فرصت کہاں کہ وہ مریض سے طویل گفتگو کرکے اصل خرابی کی وجہ معلوم کرے۔
یہ خاتون جب ہمارے زیر علاج آئیں تو تقریباً تین ماہ تک انھوں نے ہمیں خاصا پریشان کیا، معاملہ کسی صورت قابو میں نہیں آرہا تھا، اتفاق سے ایک روز ہم نے ان سے آسیب و جن کے حوالے سے گفتگو شروع کردی اور اس کے نتیجے میں ایک موقع پر ان کے منہ سے ایک ایسی بات نکل گئی جو اب تک انھوں نے ہمیں نہیں بتائی تھی کہ رات کو روز ٹھیک تین بجے ان کی آنکھ کھلتی ہے، وہ گھڑی پر نظر التی ہیں تو پورے تین ہی بجے ہوتے ہیں، ایک منٹ کم نہ زیادہ، بس اس کے بعد ان کی طبیعت مزید بگڑ جاتی ہے، ان کا اپنا خیال یہی تھا کہ ان پر مسلط جن یا آسیب رات ٹھیک تین بجے ان کے پاس آتا تھا، انھیں جگاتا تھا اور پھر تنگ کرتا تھا۔
ہومیو پیتھک ڈاکٹر خوب جانتے ہیں کہ یہ کس دوا کی علامت ہے، چناں چہ ہم نے کسی تاخیر کے بغیر انھیں مشہور ہومیو پیتھک دوا کالی کارب استعمال کرادی اور پھر اس کے حیرت انگیز مفید نتائج بھی دیکھے، خاتون کو یقین آگیا کہ وہ جن ان کا پیچھا چھوڑ گیا ہے، ایسے بے شمار واقعات ہومیو ڈاکٹروں کے تجربات میں محفوظ ہوں گے اور پریکٹس کرنے والوں کو پیش آتے رہتے ہیں، ہمارا کالم پڑھنے والے اگر تجربات بیان کرنا چاہیں تو ہمیں خوشی ہوگی اور انھیں لوگوں کے فائدے کے لیے اس کالم میں بھی شائع کیا جاسکتا ہے۔