پیر، 27 مارچ، 2017

اپریل کی فلکیاتی صورت حال طاقت ور اثرات کا مہینہ


شرف شمس کا نادر موقع اور نقشِ فتح نامہ کی تیاری کا طریقہ
اپریل کے ستارے
20 مارچ سے سیارہ شمس دائرئہ بروج کے پہلے برج حمل میں داخل ہوچکا ہے، گویا دنیا میں موسم بہار کا آغاز۔ اپریل کی 20 تاریخ تک شمس اپنے شرف کے برج حمل ہی میں رہے گا، سات اور آٹھ اپریل کو درجہ ءشرف پر ہوگا، 20 اپریل کو برج ثور میں داخل ہوگا، پیغام رساں عطارد برج حمل میں حرکت کررہا ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں گزارے گا، 31 مارچ کی رات کو برج ثور میں داخل ہوگا۔
توازن اور ہم آہنگی کا سیارہ زہرہ بحالت رجعت برج حمل میں ہے اور اسی پوزیشن میں 3اپریل کو واپس برج حوت میں آجائے گا، 13 اپریل سے 17 اپریل تک دوبارہ درجہ ءشرف پر ہوگا، اسی دوران میں، اسی درجے پر 15 اپریل کو مستقیم ہوگا یعنی اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، اس اعتبار سے اس بار زہرہ کے شرف کی قوت بہت زیادہ ہوگی۔
توانائی کا ستارہ مریخ برج ثور میں حرکت کر رہا ہے،21 اپریل کو برج جوزا میں داخل ہوگا، سیارہ مشتری بحالتِ رجعت برج میزان میں ہے اور مہینے کے آخر تک یہیں رہے گا،سیارہ زحل برج قوس میں حرکت کر رہا ہے اور 6 اپریل کو اسے رجعت ہوجائے گی،سیارہ یورینس برج حمل میں، پراسرار نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں حرکت کر رہا ہے،اسے 20 اپریل کو رجعت ہوگی، راس اور ذنب بالترتیب برج سنبلہ اور حوت میں ہےں۔
نظرات و اثرات سیارگان
اپریل کے مہینے میں سیارگان کی پوزیشن بہتر ہورہی ہے،شمس اور زہرہ شرف یافتہ ہوں گے،البتہ عطارد کو رجعت ہوگی اور سیارہ زحل بھی رجعت میں چلا جائے گا،مشتری پہلے ہی اپنی الٹی چال پر ہے،زہرہ اپنے شرف کے برج میں مستقیم ہوگا، اس دوران میں سیاروں کے درمیان باہمی زاویے خاصے اہم ہیں، تثلیث کے تین زاویے اور قران کے تین زاویے ، تربیع کے تین زاویے جب کہ تسدیس کا صرف ایک زاویہ اور ایک مقابلے کی نظر ہوگی، تفصیل درج ذیل ہے۔
6اپریل: مریخ اور پلوٹو کے درمیان تثلیث کا زاویہ عام طور پر کوئی پاور پلے سامنے لاتا ہے، بین الاقوامی طور پر بھی اور پاکستان میں بھی ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جس میں طاقت ور اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد ہوں، وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی مرضی کے فیصلے دوسروں پر مسلط کرسکتے ہیں،عام افراد کے لیے یہ زاویہ زیادہ اہم نہیں ہے۔
9 اپریل: زہرہ اور زحل کے درمیان تربیع کی نظر قائم ہوگی، یہ نظر توازن اور ہم آہنگی میں خرابی لاتی ہے،اگر کسی معاملے میں توازن نہ رہے،باہمی طور پر اختلافات کی فضا سامنے آئے تو اسی زاویے کا شاخسانہ ہوگا، یہ صورت حال پاکستان کے زائچے میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم توازن اور اختلاف رائے کا سبب ہوسکتی ہے،اسی دوران میں عدلیہ کے فیصلے بھی اہمیت اختیار کرسکتے ہیں اور موضوعِ بحث بن سکتے ہیں،عام آدمی کی زندگی میں یہ وقت ازدواجی زندگی میں مسائل اور الجھنیں لاتا ہے،ایسے مسائل کو ٹھنڈے دل و دماغ سے اور دانش مندانہ طور پر حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے،پاکستان میں صحت کے مسائل پریشان کرسکتے ہیں،اس زاویے کے زیرِاثر خواتین اور مزدور پیشہ افراد متاثر ہوں گے۔
اسی تاریخ کو شمس اور پلوٹو کے درمیان بھی تربیع کا زاویہ ہوگا، یہ بھی کسی پاور پلے کی نشان دہی کر رہا ہے،حکومت اپنے ذاتی مفادات کے لیے فیصلے اور اقدام کرسکتی ہے، ایسے آرڈیننس جاری ہوسکتے ہیں جو متنازع یا اختلاف رائے پیدا کرنے کا باعث ہوں،عام افراد کے لیے حکومت کے فیصلے اور اقدام ناپسندیدہ ہوں گے۔
11 اپریل: شمس اور مشتری کے درمیان مقابلے کی نظر نحس سمجھی جاتی ہے،حکومت نئے ٹیکس یا مالیاتی امور میں دیگر ناخوش گوار فیصلے کرسکتی ہے،حکومت کے منصوبوں میں تعطل یا رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں،عام افراد کو اس دوران میں حکومت کی پیدا کردہ مالی دشواریوں کا سامنا ہوسکتا ہے،کاروباری سیکٹر متاثر ہوسکتا ہے،بینکنگ اور اسٹاک ایکسچینج کے معاملات میں اُتار چڑھاو ¿ پیدا ہوسکتا ہے، اس دوران میں نئی سرمایہ کاری یا اسٹاک مارکیٹ میں پیسا لگانا فائدہ بخش ثابت نہیں ہوگا۔
14 اپریل: شمس اور یورینس کا قران بڑا ہی غیر معمولی اور غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے والا زاویہ ہے، خصوصاًاعلیٰ عہدوں پر فائز افراد اور صاحب حیثیت افراد اس وقت متاثر ہوسکتے ہیں، اپنے انفرادی زائچوں کی بنیاد پر اُن کی زندگی میں مثبت یا منفی واقعات رونما ہوسکتے ہیں، یہ وقت عام طور سے غیر متوقع صورت حال اور اچانک حالات کی نئی کروٹ کو ظاہر کرتا ہے، اس وقت عام افراد کو بھی اپنے پروگرام میں لچک رکھنی چاہیے ، ضروری نہیں ہے کہ اُن کی منصوبہ بندی اور پروگرام کسی نئی صورت حال سے دوچار نہ ہوں، اس وقت متبادل حکمت عملی پر پہلے سے سوچ بچار کرلینا چاہیے۔
17 اپریل: زہرہ اور مریخ کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ لوگوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مددگار ہوسکتا ہے،خاص طور پر عورت اور مرد کے تعلقات میں خصوصی اثر رکھتا ہے،اس وقت میں نئے تعلق اور رشتے قائم ہوسکتے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا چاہیے،واضح رہے کہ زہرہ اس موقع پر شرف یافتہ ہوگا لہٰذا اعمالِ محبت و تسخیر کے لیے نہایت مو ¿ثر وقت ہوگا۔
اسی تاریخ کو شمس اور زحل کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ بھی ہوگا، حکومت کو عوام سے رابطے کی ضرورت محسوس ہوسکتی ہے، دوسرے معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا خیال آسکتا ہے،عام افراد کے لیے یہ سعد وقت حکومت سے فوائد کے حصول کے لیے موزوں ہوگا، خصوصاً سرکاری نوعیت کے کاموں سے فوائد حاصل ہوں گے،پراپرٹی سے متعلق کاروبار بہتر ہوگا اور اس دوران میں پراپرٹی کی خریدوفروخت بہتر رہے گی۔
20 اپریل: شمس اور عطارد کے درمیان قران کی نظر عام طور سے نحس ہوتی ہے،ملکی معاملات میں یہ ذرائع ابلاغ پر دباو ¿ لاتا ہے، درست خبریں سامنے نہیں آتیں اور لوگوں میں کنفیوژن پھیلتا ہے،ضروری معلومات کا حصول مشکل یا پیچیدہ ہوجاتا ہے،تحریری یا تقریری کاموں میں غلطیاں ہوتی ہیں،اس دوران میں اہم کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے، عام افراد کو سفر سے متعلق امور میں رکاوٹ یا تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،سفر میں پریشانیاں یا مسائل پیدا ہوتے ہیں، اپنے انفرادی زائچے کے مطابق بعض لوگوں کے لیے یہ نظر فائدہ بخش بھی ہوسکتی ہے۔
21 اپریل: زہرہ اور زحل کے درمیان تربیع کا زاویہ اس مہینے دوسری بار قائم ہوگا، اس زاویے کے حوالے سے پہلے بھی وضاحت کردی گئی ہے،اس کے نتائج بہر حال مثبت نہیں ہوتے۔
24 اپریل: عطارد اور زحل کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ نہایت مبارک ہے،یہ وقت پراپرٹی ، سفر اور ضروری معلومات کے حصول میں بہتر ثابت ہوتا ہے،اس وقت طویل المیعاد منصوبوں پر کام شروع کرنا چاہیے اور مستقبل کی پلاننگ کرنی چاہیے،اہم دستاویزی کاموں کو مکمل کرنا چاہیے،باہمی گفت و شنید سے پیچیدہ مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے،یہ وقت علاج معالجے کے لیے بھی بہتر ہوتا ہے۔
28 اپریل: عطارد اور یورینس کے درمیان قران کا زاویہ کوئی دلچسپ صورت حال سامنے لاسکتا ہے،خصوصاً میڈیا میں چونکا دینے والی نئی خبریں اور انکشافات سامنے آتے ہیں،اس وقت نئی ایجادات اور اختراعات ہوتی ہیں، راز فاش ہوتے ہیں، اچانک سفر کے پروگرام بنتے ہیں، نئے چانس کے امکانات پیدا ہوتے ہیں جن سے فائدہ اٹھانا کبھی ممکن ہوتا ہے اور کبھی نہیں، چوں کہ اس دوران میں عطارد اور زحل کے درمیان بھی سعد زاویہ قائم ہوگا لہٰذا یہ نظر مثبت امکانات کو نمایاں کرے گی۔
قمر در عقرب
قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں بدھ 12 اپریل کو 03:41am پر داخل ہوگا اور 14 اپریل 03:26 pm تک اسی برج میں رہے گا،اس دوران میں اپنے درجہ ءہبوط پر 12 اپریل بروز بدھ صبح 07:37 am سے 09:38 am تک ہوگا، یہ وقت نہایت نحوست کا تصور کیا جاتا ہے،اس وقت میں برائیوں اور بیماریوں سے نجات کے لیے اعمال کیے جاتے ہیں، بندش کے تقریباً تمام کاموں کے لیے یہ وقت موزوں ہوتا ہے،اس حوالے سے مختلف ضروریات کے تحت عملیات پہلے بھی دیے جاتے رہے ہیں۔
شرف قمر
چاند اس ماہ اپنے شرف کے برج ثور میں 26 اپریل بروز بدھ صبح 06:56 am پر داخل ہوگا اور 28 اپریل بروز جمعہ صبح 06:36 تک اسی برج میں حرکت کرے گا، اس دوران میں اپنے درجہ ءشرف پر صبح 10:08 سے 11:45 تک رہے گا لیکن واضح رہے کہ اس بار شرف کا وقت زیادہ باقوت نہیں ہوگا کیوں کہ اسی روز قمر شمس سے قران کرے گا اور تحت الشاع ہوگا۔
شرف شمس
سیارہ شمس کو ہماری کہکشاں میں ایک بادشاہ کی حیثیت حاصل ہے،برج حمل کے 19 درجے پر اسے شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے اور یہ موقع سال میں ایک بار آتا ہے،اس سال شمس اپنے درجہ ءشرف پر 7 اپریل رات 8:37 pm سے 8 اپریل رات 08: 53 pm تک رہے گا۔
شرفِ شمس اور فتح نامہ
شمس اپنے درجہ ¿ شرف پر ہر سال آتا ہے اور ماہرین علم جفراس وقت کا نہایت شدت سے انتظار کرتے ہیں کیوں کہ شمس کا تعلق توانائی ، اقتدار اور عزت و مرتبہ سے ہے ، سرکاری محکمہ اور تمام کارِ سرکار سیارہ شمس کے زیراثر ہےں،صحت اور توانائی کے اصول کے لیے بھی اس وقت کو مو ¿ثر اور فائدہ بخش تسلیم کیا جاتا ہے،چناں چہ اس وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے سال بھر انتظار کیا جاتا ہے،اس وقت لوحِ اسم اعظم یا خاتم اسمِ اعظم اور لوح شمس وغیرہ تیار کی جاتی ہیں جو زندگی میں عروج و کامیابی ، اعلیٰ پوزیشن کے حصول ، اعلیٰ حکام یا مالکان کے روبرو عزت و وقار اور مرتبے میں اضافے کے لیے مو ¿ثر ہوتی ہے لیکن اس بار ہم نقشِ فتح نامہ کی تیاری پر زور دیں گے۔
فتح نامہ کے فوائد مےں کامےابی‘حالات کی سختی سے نجات اور ہر طرح کی نحوست سے چھٹکارہ ،کاروبار میں ترقی‘ قرض کی ادائےگی‘ ملازمت مےں ترقی ےا بہتر ملازمت کا حصول‘ مالکان یا اعلیٰ افسران کے رویے میں نرمی اور عمدہ سلوک ، گھرےلو حالات کی بہتری ‘ سحر و جادو‘ آسےب و جنات سے نجات‘ دشمنوں سے بچاﺅ‘ مقدمے میں کامیابی ، صحت مےں بہتری‘ بےماری سے شفا‘ شادی مےں کوئی بندش یا رکاوٹ ہو تو اس کا خاتمہ‘ الغرض بے شمار مقاصد ”فتح نامہ“کے دائرہ کار مےں آتے ہےں ۔
فتح نامے کی تیاری یقیناً تھوڑا سا مشکل کام ضرور ہے مگر جو لوگ اسے درست اصول و قواعد کے مطابق تیار کرلیں گے وہ سمجھ لیں کہ انہوں نے دنیا فتح کرلی ہے، ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ مشکل طریقہءکار کو آسان الفاظ میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیں اس کے بعد بھی اگر طریقہ ¿ کار کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آئے تو براہِ راست رابطہ کرکے سمجھ سکتے ہیں۔
اصول و قواعد فتح نامہ 
سب سے پہلے اپنے پورے نام کے اعداد ابجدِ قمری سے حاصل کریں پھر اپنی والدہ کے نام کے اعداد بھی نکالےں۔ اس کے بعد سات پےغمبروں کے نام لےں اور ان کے اعداد حاصل کریں۔ مثلاً آدم ؑ‘ نوح ؑ‘ سلےمانؑ‘ موسیؑ ‘ داو ¿دؑ‘ ےوسفؑ اور محمدﷺ ۔ اس کے بعد آےات فتوحات کے اعداد لےں۔ آےات فتوحات ےہ ہیں، آیات و فتوحات سے پہلے دُعائے فتح ہے۔
1 ۔اَف ±تِح اَب ±وَابِ فَت ±حَکَ لِی ± ےَا مُفَتِّحُ ال ±ا ب ±وَابِِ ´۔
 2 ۔ اِنَّاا فَتَح ±نَالَکَ فَت ±حاً مُّبِے ±نَا۔ ( سورہ فتح)۔
3 ۔ رَبَّنَااف ±تَح ± بَے ±نَنَاوَ بَےنَ قَو ± مِنَا بِا ل ±حَقِّ وَاَن ±تَ خَے ±رُ ال ±فَا تِحِےنَ ´ ( سورہ اعراف)۔ 
4 ۔ نَص ±رُ مِّنَ اﷲ وَ فَت ±ح قَرِےب ( سورہ صف)۔
تینوں آےات اور دعا کے اعداد کا مجموعہ سات ہزار دو سو پچھتر (7275 ) ہوا۔ آپ کی سہولت کے لےے سات انبےاءکے ناموںکے اعداد کا مجموعہ بھی لکھ رہے ہےں جو 679 ہے۔ اب آپ کو صرف اپنے نام اور والد کے نام کے اعداد ہی معلوم کرنا ہیں اور پھر تمام اعداد کو باہم جمع کرنا ہے۔ مثلاً آپ کے نام مع والدہ کے اعداد کل 343 برآمد ہوئے تو کل مجموعہ ء اعداد 8288 ہو جائے گا۔ 
اعداد آےت = 7275 
اعداد نام انبےاء= 679 
اعداد مفروضہ نام مع والدہ= 334 
مجموعہ = 8288 
اس مجموعہ ءاعداد کا 7x7 خانوں کا نقش تےار کریں یعنی ایسا نقش جس میں 49 خانے ہوں جس کا طرےقہ یہ ہے کہ کل مجموعہ اعداد مےں سے 168 عدد کم کریں اور پھر باقی اعداد کو 7 پر تقسےم کردےں۔ اب جو باقی حاصل قسمت آئے اُسے نقش کے خانہ اول مےں رکھ کر باقی خانوں مےں ترتےب وار ایک عدد کے اضافے سے نقش بھرتے چلے جائیں۔ مثلاً مندرجہ ذےل مجموعہ اعداد 8288 مےں سے 168 عدد کم کرےں تو باقی بچے 8120۔ اس کو 7پر تقسےم کےا تو جواب آےا 1160 ۔
سات درسات کی چال کا نقش ہم دے رہے ہےں۔ اس مےں پہلا خانہ وہ ہے جس مےں نمبر ایک لکھا ہے۔ اسی خانے سے نقش کی ابتدا ہوگی۔ 1160 اسی خانے مےں لکھےں پھر جس خانے مےں نمبر 2 ہے اس مےں 1161 لکھیں پھر نمبر 3 مےں 1162 ۔ الغرض اسی طرح ایک عدد کے اضافے سے 49 خانوں کا یہ نقش مکمل کر لیں۔ تمام کام وقت سے پہلے ہی تےار کرنا ہوگا تاکہ شرفِ شمس کے اوقات مےں اور ساعتِ شمس مےں صرف چال کے مطابق نقل کرنا ہی باقی رہ جائے گا ، نقش کے چاروں کونوں پر قولہ الحق ولہ الملک لکھیں اور چاروں ملائیکہ جبرائیل ، عزرائیل ، میکائیکل، اسرافیل لکھیں نقش کے دائیں بائیں کھیعص ، حمعسق لکھیں اور نقش مکمل کرنے کے بعد پشت پر یاروقیائیل ابو عبداللہ المذہب لکھیں ۔
نقش کی چال

اب ایک مسئلہ اور باقی رہ گےا ہے اسے بھی سمجھ لیں۔ کل مجوعہء اعداد کو جب آپ 7 پر تقسےم کرےں گے تو ضر وری نہیں کہ وہ برابر تقسےم ہو جائے۔ برابر تقسیم ہونے کی صورت مےں تو ایک بہترےن بات ہوگی لےکن تقسیم کے بعد اگر کوئی عدد باقی بچے تو پھر نقش مےں کسر دےنا ہوگی تب ہی وہ درست ہوگا۔ اس کا طرےقہ یہ ہے کہ تقسیم کرنے کے بعد اگر ایک عدد باقی بچے تو نقش کے خانہ نمبر43 مےں 1عدد کا اضافہ کرنا ہوگا۔ 2 باقی رہےں تو خانہ نمبر 36 میں 1کا اضافہ کریں۔ 3 باقی ہوں تو خانہ نمبر 29میں 1عدد بڑھا دیں۔ 4باقی رہیں تو 22ویں خانے میں 1عدد بڑھائیں۔ 5باقی ہوں تو خانہ نمبر 15میں 1عدد بڑھائیں اور اگر 6باقی ہوں توآٹھویں خانے میں 1عدد کا اضافہ کریں۔ یہاں ایک عدد کا اضافہ کرنے کا مطلب بھی سمجھ لیں۔ مثلاً آپ نقش کے خانے ایک ایک عدد کے اضافے سے بھرتے چلے جا رہے ہیں تو جب کسر کا خانہ آئے تو اس میں 1کے بجائے 2کا اضافہ کر دیں۔ باقی نقش اسی طرح بھرتے چلے جائیں۔ نقش کے درست بھرے جانے کی پہچان یہ ہو گی کہ نقش کے ہر سات خانوں کی میزان وہی آنی چاہیے جو آپ کے نام مع والدہ کے اعداد، آیتوں کے اعداد اور اسمائے انبیاءکے اعداد کامجموعہ ہو گا۔ اگر اس مجموعے کے مطابق نقش کے ہر سات خانوں کا مجموعہ نہیں ہے تو سمجھ لیں نقش غلط بھرا گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں آپ سے حساب میں غلطی ہوئی ہے۔
نقش کی تیاری کے لیے مزید اصول و قواعد بھی سمجھ لیں۔یہ نقش ہرن کی جِھلّی یا ایسے کاغذ پر لکھیں جو ایک طرف سے گولڈن کلر کا ہو، روشنائی اگر مشک و زعفران سے تیار کی گئی ہو تو کیا کہنے مگر آج کے دور میں شاید یہ ممکن نہ ہو ، ایسی صورت میں زرد یا سرخ رنگ استعمال کریں، شرف کا وقت تقریباً 24 گھنٹے رہے گا، اس تمام عرصے میں صرف شمس کی ساعتیں نقش لکھنے کے لیے مو ¿ثر ہوں گی، مقررہ وقت سے پہلے غسل کرکے پاک صاف لباس پہنےں اور زعفران یا مشک کے عطر کی خوشبو لگائیں، علیحدہ کمرے میں رجال الغیب کا خیال کرکے بیٹھیں کہ آپ کا رخ رجال الغیب کی طرف نہ ہو، کمرے میں عود و لوبان کا بخور جلا کر خوشبو کریں،یہ میسر نہ ہو تو عمدہ خوشبو دار اگربتیاں جلائیں،بہتر ہوگا کہ سرخ یا زرد لباس پہنیں یا پھر اس رنگ کا کوئی کپڑا نیچے بچھالیں،کوئی زرد رنگ کی مٹھائی مثلا بےسن کے لڈو وغیرہ پاس رکھیں تاکہ کام ختم ہونے کے بعد فاتحہ دی جاسکے، تمام کام بہ خیرو خوبی انجام پاجائے تو سمجھ لیں کہ آپ نے ایک عظیم تحفہ حاصل کرلیا ہے، نقش کو تہہ کرکے موم جامہ یا پلاسٹک کوٹڈ کرلیں اور کسی بھی نوچندے اتوار کو صبح سورج نکلنے کے فوراً بعد پاس رکھیں یا بازو پر باندھ لیں، حسبِ توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

اتوار، 19 مارچ، 2017

انسانی ذہن کی کرشمہ کاریاں اور اکبر شاہ جن


انسان کو کسی بھی دوسری مخلوق سے کمتر یا کمزور سمجھنا غلط ہے
ملک کی صورت حال جوں کی توں ہے، اگرچہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی مصروفیات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے،اپنے خطابات میں وہ عوام کو خوش خبریاں دے رہے ہیں، مستقبل کے روشن منصوبوں سے ملک میں پھیلنے والی ترقی کی لہر سے آگاہ کر رہے ہیں ۔
حالات کے ایک ہی جگہ ٹھہر جانے کی سب سے بڑی وجہ پاناما کیس کا فیصلہ ہے جو معزز جج صاحبان نے تادم تحریر نہیں سنایا ہے، شنید ہے کہ شاید آئندہ ہفتے تک یہ فیصلہ سنادیا جائے،اس حوالے سے ایسی ایسی باتیں کہی جارہی ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے لیے نہایت چیلنجنگ ہیں، اپوزیشن یعنی عمران خان گروپ کیا کہہ رہا ہے، اسے تو نظر انداز کردیجیے لیکن دیگر اہلِ نظروفکر اس فیصلے کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں،ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تاریخی ہوگا اور یہ بات جج صاحبان بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم ایسا فیصلہ دیں گے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
گویا اس فیصلے کے بعد پاکستانی سیاست کا نیا رُخ مقرر ہوگا، پاکستان کے زائچے کے مطابق سیارہ زحل حکومت اور وزیراعظم کی نشان دہی کرتا ہے جو اس وقت زائچے میں اچھی پوزیشن میں نہیں ہے،مزید یہ کہ سیارہ شمس بھی وزیراعظم اور دیگر صاحب عہدہ و مرتبہ یا صاحبانِ اقتدار کی نمائندگی کرتا ہے،اس کی پوزیشن بھی اطمینان بخش نہیں ہے،پاکستان کے زائچے میں سیارہ مشتری کا دور اکبر اور سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،یہ دونوں زائچے کے ضرر رساں گویا فعلی منحوس سیارگان ہیں،اس سارے تناظر میں جو بھی فیصلہ آئے گا وہ کسی طور بھی حکومت اور وزیراعظم کے لیے اطمینان بخش نظر نہیں آتا، خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف کی پوزیشن خاصی نازک نظر آتی ہے اور اس حوالے سے آنے والا وقت ان کے لیے مزید مشکلات میں اضافے کا باعث ہوسکتا ہے۔
زائچہ ءپاکستان کے مطابق پاکستان کی داخلی اور خارجی صورت حال میں بھی کوئی اطمینان بخش صورت 15 مئی تک نظر نہیں آتی لہٰذا بقول فیض اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔
اس مختصر اشاریے کے بعد آئیے اُس موضوع کی طرف جو تاحال ادھورا ہے یعنی جنات اور انسان کے درمیان روابط و تعلقات، اس سے پہلے مضامین میں بھی اس حوالے سے کافی تفصیلی گفتگو ہوتی رہی ہے جسے ہمارے قارئین نے پسند بھی کیا ہے اور اس موضوع پر مزید واقفیت کے خواہش مند ہیں۔
اب تک جنات کے موضوع پر جس قدر گفتگو ہوئی اس کا لب لباب یہ ہے کہ جن ایک آتشی مخلوق ہے اور اس کا وجود مذہب کی رو سے ہی نہیں، سائنس کی روشنی میں بھی ثابت ہے، یہ مخلوق اللہ کی پیدا کردہ اور انسان سے بھی قدیم ہے، ان کے درمیان مختلف قومیں، نسلیں، مذہبی عقائد و نظریات اور قبائلی نظام موجود ہیں، ہر قبیلہ یا نسل اپنی مخصوص طرز بود وباش، پسند نا پسند وغیرہ رکھتی ہے، انسانوں سے ان کے مراسم و تعلقات ممکن ہیں، حد یہ ہے کہ دونوں مخلوقات کے مو ¿نث اور مذکر افراد باہم ازدواجی تعلقات بھی قائم کرسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اولاد کی پیدائش بھی ممکن ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کوئی عام بات ہے؟ انسانوں اور جنات کے درمیان روابط و تعلقات عام زندگی کا حصہ ہیں اور اگر حصہ ہیں جیسا کہ بعض واقعات سے ثابت ہے تو کتنے فیصد؟
اس سوال کا جواب ہم اس بحث کے آغاز میں ہی دے چکے ہیں کہ صرف ایک فیصد، بعض ماہرین کے نزدیک تو اس سے بھی کم یعنی ہزاروں بلکہ لاکھوں آسیب و جنات کے کیسوں میں غالب اکثریت تو ذہنی و نفسیاتی امراض کی ہوتی ہے، انسانی ذہن بھی تو کسی جناتی پُراسراریت سے کم درجہ نہیں رکھتا، اس کا ثبوت وہ انسانی کارنامے ہیں جن پر دنیا آج تک حیران ہے یا انسان پر وارد ہونے والی ایسی کیفیات ہیں جن کے زیر اثر وہ سپر نیچرل قوتوں کا اظہار کرتا ہے۔ کیا مارشل آرٹ کا ماہر اپنی جسمانی قوت کے بل بوتے پر ہاتھ کی ہتھیلی کے ایک ہی وار سے برف کی سل کے دو ٹکڑے کرتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
ایک عام یا خاص جسمانی قوت رکھنے والے انسان کے لیے یہ ممکن نہیں، خواہ وہ رستم زماں ہی کیوں نہ ہو، مارشل آرٹ کا ماہر اپنے خیال اور ارادے کی قوت کو ایک مرکز پر مرتکز کرکے یہ کام اپنے ذہن سے لیتا ہے، اس کی قوتِ خیال یہ کارنامہ انجام دیتی ہے،یاد رکھیے !کائنات میں قوتِ خیال سے بڑی کوئی قوت نہیں ہے اور اس قوت کو مو ¿ثر طور پر رو بہ عمل لانے کے لیے کامل یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔
انسانی ذہن کتنا پیچیدہ ہے، کتنا گہرا اور کتنا تہ دار ہے، اس کا اندازہ ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی اور مستقبل بینی کے مظاہرے دیکھنے والے بہ خوبی کرسکتے ہیں، ایک مثال ملاحظہ کیجیے کہ اگر ہپناٹزم کے ذریعے کسی شخص پر تنویمی نیند طاری کردی جائے اور اس نیند کو گہرا اور گہرا اور گہرا کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ معمول کی پوری ذہنی، دماغی اور اعصابی شخصیت آپ کی گرفت میں آجائے اور وہ آپ کی نگرانی اور حکم پر چلنے لگے، اس عالم میں آپ معمول کے جسم اور نفس پر جو کیفیت اور حالت طاری کرنا چاہیں گے، وہ طاری ہوجائے گی، آپ اس کا آپریشن کردیجیے(مغرب میں بذریعہ ہپناٹزم آپریشن کیے گئے ہیں) اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی، آپ اس کے جسم پر جو مشق ستم چاہے کریں، اسے کوئی احساس نہ ہوگا اور یہ سب کچھ وہ ان ہپناٹک سجیشنز کی وجہ سے برداشت کرجائے گا جو اسے دیے گئے تھے، اس کے جسم پر دہکتے ہوئے انگارے رکھ دیجیے اور کہیے کہ تمہارا جسم قطعی طور پر جلنے سے محفوظ ہے، پھر دیکھیے، وہ واقعی محفوظ رہے گا۔اس کے برخلاف یہ سجیشن دیجیے کہ میں تمہارے سر پر ہتھوڑا مار رہا ہوں جس سے تم سخت اذیت محسوس کروگے اور پھر صرف انگلی سے ہلکی سی ضرب اس کی پیشانی پر لگائیے، وہ چیخ اٹھے گا، تکلیف سے تڑپے گا جیسے کہ واقعی اس کا سر پھٹ گیا ہو۔
ایسے تجربات اور مشاہدات کی کوئی کمی نہیں، جب کسی انسان پر تنویمی نیند طاری کردی گئی یا خود بہ خود (سیلف ہپناٹزم کے ذریعے طاری ہوگئی) اور اس کے جسم کا کوئی حصہ ساکت یا شل ہوگیا، جسم اکڑ کر پتھر کی طرح سخت ہوگیا۔
 پولینڈ کے غیر آباد علاقوں میں ایک ایسی قوم کا سراغ بعض سائنس دانوں نے لگایا تھا جو خطرہ محسوس کرتے ہی خود پر تنویمی نیند طاری کرکے مردہ بن جاتے تھے۔ حد یہ کہ ان کی نبض اور دل کی دھڑکن تک رک جاتی تھی اور خطرہ ٹل جانے کی صورت میں وہ ایک خود کار طریقے سے اپنی اصل حالت میں واپس آجاتے، ماضی میں ہندو جوگیوں اور سادھوو ¿ں کے بھی ایسے واقعات ملتے ہیں اور صوفیائے اسلام کے کشف و کرامات میں بھی ایسے محیر العقول واقعات کی کمی نہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم ایسے واقعات و کرامات کو منجانب اللہ تصور کرتے ہوئے ان کی سائنٹفک توجیہہ اور تحقیق کے چکر میں نہیں پڑتے کیوں کہ عقیدت و ایمان کے مسائل درمیان میں حائل ہوتے ہیں، حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ صوفیائے کرام کی روحانی طاقتوں کی پشت پر توفیق و اجازت الٰہی کے ساتھ ان کی طویل روحانی تربیت و ریاضت بھی کارفرما ہے جس کے تحت وہ حبسِ دم (سانس کی مشق) ذکر و فکر الٰہی کی تکرار و تسلسل (مراقبہ) وغیرہ کے مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں، الغرض یہ ساری صورتیں اور مظاہر، انسان کی جسمانی قوت کا اظہار نہیں ہیں، ذہنی قوت کا اظہار ہیں جسے آپ روح کے کنٹرول میں سمجھتے ہوئے روحانی قوت کا اظہار بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہم نے اوپر عمل تنویمی کے ان اثرات کی نشان دہی کی ہے جو انسانی جسم پر پڑسکتے ہیں اور اس میں غیر معمولی قوتیں یا صلاحیتیں بے دار کردیتے ہیں، اب آئیے ذہن کی طرف۔
 تنویمی کیفیت میں معمول، عامل کے اشارے پر غیر معمولی کیفیات کا مظاہرہ کرتا ہے،اس قسم کا ایک مظاہرہ ملاحظہ کیجیے، معمول کو تنویمی نیند کے عالم میں حکم دیا گیا کہ تم یہ محسوس کرو کہ میں اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں، وہ اس حکم یا ترغیب کو کئی بار دہراتا گیا، آخر معمول نے اقرار کیا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہے، عامل یہی فقہر دہرائے جارہا تھا کہ تم محسوس کرو کہ میں اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں، باہر نکل گیا ہوں۔
پانچ سات منٹ کے بعد معمول نے اطلاع دی کہ میں اپنے جسم سے باہر آگیا ہوں اور یہ میرے سامنے صوفے پر میرا جسم پڑا ہے، معمول سے سوال کیا گیا کہ تم اس حالت میں یعنی جسم سے باہر آکر کیا کیفیت محسوس کر رہے؟ اس نے کہا بالکل ہلکا پھلکا جیسے میرے اندر وزن ہی نہیں ہے جیسے میں ہوا کی طرح لطیف ہوں، اس کے بعد عامل نے کہا کہ تم برق رفتاری کے ساتھ لاہور چلے جاو ¿، چلے گئے؟ جواب ملا ”جی ہاں! میں چشم زون میں لاہور پہنچ گیا اور اب میں گلی نمبر فلاں اور فلاں محلے سے گزر رہا ہوں اور فلاں صاحب کا مکان میرے سامنے ہے“
عامل نے کہا ”مکان کے اندر داخل ہوجاو ¿ اور تفصیل کے ساتھ بتاو ¿ کہ فلاں صاحب اس وقت کیا کر رہے ہیں؟ ان کی بیوی کہاں ہے؟ بڑی بچی کہاں ہے اور جو ان کے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟“
معمول نے کہا، فلاں صاحب باتھ روم میں ہیں، بھابی شاپنگ کے لیے گئی ہوئی ہیں، بڑی بچی کو بخار ہے اور مہمان چلے گئے ہیں، جب معمول یہ تفصیل بیان کرچکا تو اسے حکم دیا گیا کہ اب واپس آجاو ¿، آگئے واپس؟ جواب ملا ”جی ہاں، آگیا“ کہا گیا کہ اب اپنے جسم میں داخل ہوجاو ¿، ”داخل ہوگیا“ جواب ملا۔
اس کے بعد سجیشنز کے ذریعے معمول کی نیند ختم کردی گئی، چند لمحے بعد معمول بالکل ہوش و حواس میں تھا، فوراً ہی لاہور ٹیلی فون کرکے مذکورہ گھر سے معلومات حاصل کی گئیں اور پوچھا گیا کہ کیا آپ چند لمحے پہلے غسل خانے میں تھے؟ کیا بھابھی خریداری کے لیے بازار گئی ہیں؟ کیا بڑی بچی کو بخار ہے؟ کیا آپ کے مہمان چلے گئے؟ انہوں نے ایک ایک بات کی تصدیق کی اور حیرت کا اظہار کیا کہ یہ ساری باتیں آپ کو کیسے معلوم ہوئیں، کیا اس واقعے سے اندازہ نہیں ہوتا کہ نفس انسانی کتنے عجائبات کا ذخیرہ ہے اور ایسی کسی صورت کو جو کسی عامل یعنی ماہر ہپناٹسٹ کی تخلیق کردہ ہو یا کسی سیلف ہپناٹزم کے ماہر نے خود تخلیق کی ہو، اسے کسی ماورائی جناتی صورت حال سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی؟ یقیناً دی جاسکتی ہے اور اکثر دی جاتی ہے۔
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق جن گرفتہ یا جن زدہ افراد کی اکثریت مالی خولیا، ہسٹیریا اور شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی امراض کا شکار ہوتی ہے،صرف ایک فیصد کیس حقیقی طور پر جناتی ہوتے ہیں اور ان ایک فیصد میں بھی زیادہ تعداد ایسی ہوتی ہے جو ظاہر نہیں ہوتی،جنات عام طور پر انسانوں سے اپنے روابط کو خفیہ رکھنا پسند کرتے ہیں، خصوصاً جب وہ کسی کو پسند کریں یعنی عاشق ہوجائیں، باقی شریر اور ایذا پہنچانے والے جنات شدید نوعیت کی تکالیف اور پریشانیوں میں مبتلا کرتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک حقیقی جن گرفتہ کی صورت حال کیا ہوسکتی ہے کہ ہم اسے حقیقی جنات کا کیس تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں، یہ کیس ہم مرحوم جناب رئیس امروہی کے خطوط سے نقل کر رہے ہیں۔
رئیس صاحب کو اس کی اطلاع سرگودھا کے ایک ڈاکٹر مسعود چشتی نے دی تھی، وہ لکھتے ہیں۔
”ایک نوجوان لڑکی کو ہر سال ایک سانپ مقررہ تاریخ یعنی 29 اگست کو ڈستا ہے، اس سے پہلے تین چار سانپ مارے جاچکے ہیں مگر ڈسنے والے سانپ کا پتا نہیں چلتا، خط و کتابت کے بعد آپ کے مشورے سے لڑکی کو چراغوں کے سامنے بٹھایا گیا، دیے روشن کیے گئے اور جن گرفتہ مریضہ کو سرخ کپڑے پہنا کر چراغاں کے سامنے بٹھایا گیا، لڑکی سے کہا گیا کہ وہ چراغ پر پلک جھپکائے بغیر نظریں جمائے، اس کے بعد سورة جن کی تلاوت شروع کی گئی، جب سورئہ جن کی تلاوت دوسری بار کی جارہی تھی تو لڑکی پٹخنی کھاکر زمین پر گر پڑی جیسے کسی نادیدہ ہاتھ نے اسے زمین پر دے پٹکا ہے، لڑکی نے اس حیران کن حالات میں اعلان کیا کہ میرا نام ”اکبر شاہ جن“ ہے اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے خدام میں شامل ہوں۔
 جن سے کہا گیا کہ وہ لڑکی کو پراسرار سانپ کے ڈسنے سے نجات دلادے لیکن کوئی تشفی بخش جواب نہ ملا، اب اس جن گرفتہ لڑکی کی حرکات ملاحظہ کیجیے۔پورا گھڑا جس میں چھ سات سیر پانی تھا غٹاگٹ چڑھا گئی، چائے کی چھ پیالیوں والی کیتلی کی ٹونٹی منہ سے لگاکر گرم گرم پانی پی گئی، دورے کی حالت میں مریضہ چھلانگیں لگاتی ہے، شور مچاتی ہے، اکبر شاہ جن نے جو مریضہ پر مسلط ہے ہمارے دوست محمد اقبال سے مطالبہ کیا کہ پانچ سو روپے لاو ¿، لڑکی کو بتائے بغیر ایک شخص کو بھیجا گیا کہ عامل (جن اتارنے والے) کو بلا لائے، لڑکی نے چیخ چیخ کر کہاکہ عامل کو بلانے کی ضرورت نہیں، کوئی فائدہ نہ ہوگا، وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
 ڈاکٹر اس دورے کو ہسٹیریا کا دورہ قرار دیتے ہیں، چناں چہ ایک شخص کو چپکے سے برومائڈ(ہسٹیریا کی دوا) لانے کو کہا گیا، لڑکی بول پڑی ”میں ہسٹیریا کی مریضہ نہیں ہوں، برومائڈ سے کیا ہوگا؟ مریضہ کو بتائے بغیر چپکے سے سادہ پانی میں برومائڈ ملاکردیا گیا، لڑکی نے تھپڑ مار کر اس گلاس کو توڑ دیا کہ مجھے سادہ پانی میں برومائڈ ملاکر پلاتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی؟
ڈاکٹر مسعود چشتی رقم طراز ہیں کہ آپ کو ان حالات سے مطلع کیا گیا تو آپ نے ہدایت دی کہ فلاں سورئہ پانی پر دم کرکے مریضہ کو پلاو ¿، اس ہدایت پر عمل کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، اس علاقے میں جتنے عامل رہتے تھے سب کو بلایا گیا اور آزمایا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، پیر سیال شریف اور دوسرے بزرگوں نے اکبر شاہ جن پر قابو پانے کی اور اسے بھگانے کی تدبیریں کیں لیکن وہ اب تک اس لڑکی پر مسلط ہے، مریضہ اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ پہچاننا مشکل ہے، اس کے بعد کے واقعات بے حد غم انگیز ہیں اور دردناک بھی۔
جن گرفتہ مریضہ کا گھر بالکل تباہ ہوچکا ہے، جن کے جنون میں مبتلا ہوکر اس نے چارپائیاں توڑ ڈالیں، ماں بہنوں کی زبردست بے حرمتی کی ، چھلانگ لگاکر چھت پر چڑھ گئی اور پھر چھلانگ لگاکر چارپائی پر کودی اور اسے توڑدیا، مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ جن گرفتہ لڑکی جس گھر میں جاتی ہے وہاں تباہی مچ جاتی ہے، مثلاً محمد حسین دودھ والے کے گھر جانا آنا شروع کیا تو وہ ڈاکا زنی کے شبہے میں پکڑ اگیا، تلاشی پر اس کے گھر سے مال مسروقہ برآمد نہیں ہوا تاہم جیل کی ہوا کھارہا ہے، محمد حسین کی بیوی پر فالج گرگیا، منجھلے لڑکے کی ٹانگ ٹوٹ گئی، خود ڈاکٹر مسعود چشتی جنہوں نے لڑکی کے علاج معالجے میں کافی دلچسپی لی تھی، اکبر شاہ جن کی ہلاکت انگیزی سے نہ بچ سکے، ان کی صحت مند گریجویٹ بیوی وفات پاگئیں، ملکیتی مکان چھوڑنا پڑا، اب کرائے کے مکان میں سکونت ہے،پہلے کلینک خوب چل رہا تھا، اب الّوبول رہے ہیں، اکبر شاہ جن کا کہنا تھا کہ وہ جنوں کے ڈھائی لاکھ جنوں پر مشتمل قبیلے کا سردار ہے، یہ وہ قبیلہ ہے جو حضرت سید علی حجویریؒ کے دستِ مبارک پر اسلام لایا، اکبر شاہ جن کے قبیلے کے افراد خود عمل ، وظیفے اور ذکروافکار میں مشغول رہتے ہیں لہٰذا ان پر معمولی عملیات اثر انداز نہیں ہوتے“۔
یہ وہ مقام ہے جہاں عقل دنگ رہ جائے اور سائنس و میڈیکل یا نفسیات کی ساری موشگافیاں بغلیں جھانکنے لگیں، انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ معاملات اور صورت احوال ماورائے عقل و شعور ہیں، اس پردئہ نگاری کے پیچھے یقیناً کوئی معشوقہءعجیبہ و نادیدہ جلوہ فرما ہے۔

ہفتہ، 4 مارچ، 2017

انسان اور جنات میں شادی بیاہ اور تعلقات کے چند نمونے


رات اچھی بھلی سوئی تھی، صبح اٹھی تو دلہن بنی ہوئی تھی
پاکستان کو اگر دنیا کے عجیب ترین ممالک میں سے ایک کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا،اس ملک اور قوم کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں، ایک طرف پورا ملک بم دھماکوں کی گھن گھرج سے گونج رہا ہے،دہشت گردی کے خلاف ملک کی مسلح افواج اور دیگر تمام ایجنسیاں مصروف کار ہیں، ابھی حال ہی میں آپریشن ردّالفساد پنجاب میں شروع کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور کارروائی کا آغاز بھی ہوگیا ہے،ہم دنیا بھر کو بتارہے ہیں کہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے اور کروارہے ہیں لیکن دوسری طرف لاہور میں کرکٹ کا فائنل منعقد کراکے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے اور امن و امان کی فضا ہر طرح سے بہتر ہے،کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
اس حوالے سے ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ ہم دشمنوں کو بتادینا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا کچھ نہیںبگاڑ سکتے اور ہم ان کے خوف کی وجہ سے اپنا ایک اہم پروگرام ملتوی نہیں کرسکتے،اس کمزور اور احمقانہ دلیل کا کوئی جواب نہیں ہے،دہشت گرد جب چاہتے ہیں اپنی مرضی کے اہداف مقرر کرکے بے شمار انسانی جانوں کا ضیاع کرتے ہوئے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں اور تمام ادارے اور ایجنسیاں منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں،جس نوعیت کے انتظامات لاہور میں کیے جارہے ہیں اس کے بعد دہشت گردوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ لاہور کا رُخ کریں، وہ کوئی اور ٹارگٹ مقرر کرسکتے ہیں، انہیں تو کسی نہ کسی طرح ہمیں تکلیف دینا اور نقصان پہنچانا ہے،بہر حال حکومت چاہتی تھی کہ یہ فائنل لاہور ہی میں منعقد کیا جائے،خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے لہٰذا اب فائنل دیکھیے جس کے لیے نہایت زبردست نوعیت کے حفاظتی اقدام کیے گئے ہیں، کیا ایسے اقدام مستقل بنیادوں پر ہر شہر کے لیے کیے جاسکتے ہیں؟
دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتیں ہیں جو ہر روز نت نئے دلچسپ تماشے دکھاتی رہتی ہیں،ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب عرفان اللہ مروت کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان ہوا،فوری طور پر محترمہ کی صاحب زادیوں نے اس پر احتجاج کیا، گویا والد صاحب کی حکمت عملی سے اختلاف ، بعد ازاں یہ احتجاج کارآمد ثابت ہوا اور عرفان اللہ مروت کی پارٹی میں شمولیت کی تردید کردی گئی،اس حوالے سے سوشل میڈیا پر سب سے دلچسپ تبصرہ یہ تھا ”اگر جنرل ضیاءالحق زندہ ہوتے تو جناب آصف علی زرداری انہیں بھی پیپلز پارٹی میں شامل کرلیتے“
عزیزان من! ہم نئے سال کی پیش گوئیوں میں یہ اظہار کرچکے ہیں کہ اس سال کے آخر میں نئے الیکشن ہوسکتے ہیں،شاید زرداری صاحب بھی یہ محسوس کر رہے ہیں ، اسی لیے ابھی سے مضبوط امیدواروں کو پارٹی میں لارہے ہیں،جھنگ سے فیصل صالح حیات، کراچی سے نبیل گبول وغیرہ اس کی مثال ہیں،شاید عرفان اللہ مروت بھی ایسی ہی کسی حکمت عملی کا حصہ ہوں لیکن زرداری صاحب بڑے دانا و بینا سیاست داں ہونے کے باوجود اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ساری شاطرانہ چالیں دھری رہ جاتی ہیں جب وقت خلاف ہوتا ہے اور یہ ایک زرداری صاحب پر ہی موقوف نہیں ہے،اکثر لوگ اس حقیقت کو نظراندازکرتے ہیں،زرداری صاحب نے اپنے 5 سالہ وفاقی دور اقتدار اور 8 سالہ صوبائی دور اقتدار میں جو کچھ بویا ہے، وہی انہیں کاٹنا ہے،قانون مکافات عمل اٹل ہے، اس سے مفر ممکن نہیں،اس حقیقت کو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے
تو منکر قانونِ مکافات عمل تھا
لے دیکھ تِرا عرصہ ءمحشر بھی یہیں ہے
گزشتہ دنوں انسان اور جنات کے باہمی روابط و تعلقات پر کچھ حقائق بیان کیے گئے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا تو آئیے اس حوالے سے گفتگو کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
شریف جنات
ایک اور دلچسپ واقعہ قاضی جلال الدین احمد بن حسام الدین رازی سے روایت ہوا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مشرق سے اپنے سفر کا آغاز کیا، کچھ دور چلے کہ ہم لوگوں کو بارش کی وجہ سے ایک غار میں سونا پڑا، میرے ساتھ دیگر افراد بھی تھے، ابھی میں سویا ہی تھا کہ کسی نے جگادیا، دیکھا تو وہ ایک عورت تھی جس کی ایک ہی آنکھ چہرے پر لمبائی میں موجود تھی، میں سہم گیا تو عورت نے کہا ”گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، میں اس لیے آئی ہوں کہ تم میری حسین و خوبصورت بیٹی سے شادی کرلو“۔
میں سہما ہوا تھا ہی، میں نے کہا ”اللہ کے اختیار پر ہے“ پھر میں نے کچھ لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا، وہ لوگ پہلی عورت سے مشابہ تھے یعنی چہرے پر صرف ایک آنکھ تھی اور وہ بھی لمبائی میں یعنی ہم انسانوں سے مختلف، ان میں قاضی اور گواہ بھی تھے، قاضی نے خطبہ ءنکاح پڑھا اور ایجاب و قبول کرایا، میں نے قبول کرلیا، وہ لوگ چلے گئے، پھر وہی عورت ایک خوب صورت لڑکی کو اپنے ہمراہ لے کر آئی اور میرے پاس چھوڑ کر چلی گئی، اس لڑکی کی آنکھ بھی اپنی ماں کی طرح تھی، میرا خوف پھر بڑھ گیا، میں نے اپنے ساتھیوں کو بے دار کرنے کے لیے پتھر پھینکنے شروع کردیے لیکن کوئی بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا تھا، آخر کار میں اللہ سے دعا و گریہ زاری کرنے لگا اور رات گزر گئی۔
 صبح کوچ کا وقت ہوا اور ہم روانہ ہوئے تو وہ لڑکی میرے ساتھ تھی مگر میرے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل رہتی،انہیں نظر نہ آتی، وہ برابر تین دن میرے ساتھ رہی، چوتھے دن اس کی ماں آئی اور مجھ سے کہنے لگی ”لگتا ہے تمہیں یہ لڑکی پسند نہیں ہے، شاید تم اسے چھوڑنا چاہتے ہو؟ “
میں نے کہا ”ہاں، بخدا یہی بات ہے“۔
 اس نے کہا ”اسے طلاق دے دو“ میں نے اسے فوراً طلاق دے دی اور وہ چلی گئی، اس کے بعد میں نے ان دونوں کو کبھی نہیں دیکھا۔
یہ روایات ہم نے بہت سی روایات میں سے منتخب کی ہیں، ورنہ ایسے واقعات بہ کثرت مستند اور معتبر کتابوں میں مل جاتے ہیں جن سے باقاعدہ شادی کی رسوم ادا ہونے کا بھی پتا چلتا ہے۔
سِکھ جن
بہت پرانی بات ہے، کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں نظامی مسجد کے پاس مولانا جان محمد صاحب (اللہ ان کی مغفرت کرے) رہا کرتے تھے، جنات کے اُتار کے کام میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، بعض کافر جن ان کے ہاتھ پر اسلام بھی لائے، جیکب لائن اور جٹ لائن کے پرانے رہنے والے شاید اب بھی ان کے نام سے واقف ہوں، ان کے ایک شاگرد محمد یونس بھی تھے جن کا دو سال قبل 98 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا،ہمارے محبت کرنے والوں میں سے تھے، جان محمد صاحب کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے ایک جن ان کے انتقال کے بعد یونس صاحب سے رابطے میں رہتے تھے، ان کا نام محمد علی آتشی تھا، محمد یونس صاحب نے اپنے استاد کا یہ واقعہ ہمیں سنایا کہ ان کے پاس ایک نہایت حسین لڑکی کو لایا گیا جو رات کو اچھی بھلی سوئی تھی، صبح اٹھی تو دلہن بنی ہوئی تھی، ہاتھ میں مہندی رچی ہوئی، زیورات سے لدی پھندی، سہاگ کا سرخ جوڑا پہنے بیٹھی تھی ، گھر والے بہت حیران و پریشان ہوئے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟لڑکی سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہوا ہے تو جواب ملا کہ یہ آج سے ہماری بیوی ہے، ہم نے اس سے اپنے مذہب کے مطابق شادی کرلی ہے۔
یہ جواب بظاہر لڑکی ہی نے دیا تھا یعنی آواز اس کے منہ سے نکلی جو مردانہ تھی مگر درحقیقت وہ کوئی جن تھا جو اس پر مسلط تھا، اس نے اپنا نام منگل سنگھ بتایا جس سے اس کے مذہب کا اندازہ ہوتا ہے، الغرض لڑکی کے والدین اسے علاج معالجے کی غرض سے دنیا بھر میں لے کر پھرے اور تقریباً کئی سال گزرنے کے باوجود اس جن نے لڑکی کا پیچھا نہیں چھوڑا، لڑکی ہمیشہ اسی طرح بنی سنوری دلہن کی طرح رہتی تھی، بالآخر یہ کیس جان محمد صاحب تک کسی طرح پہنچا، محمد یونس صاحب وہاں حاضر رہتے تھے لہٰذا دوران علاج جو کچھ معاملات رہتے تھے، ان سب کے چشم دید گواہ تھے، بڑے جتن کے بعد بہر حال جان محمد صاحب نے اس لڑکی کو اس جن سے نجات دلائی،بقول یونس بھائی اس لڑکی کا علاج تقریباً ایک سال تک جاری رہا، اس دوران میں جان محمد صاحب نے اُس جن کے بھائی بندوں اور رشتے داروں کو بھی بلایا اور کہا کہ اسے سمجھائیں تاکہ یہ لڑکی کا پیچھا چھوڑ دے،بہ صورت دیگر میں اس کے ساتھ کوئی سخت کارروائی کروں گا،اُس صورت میں آپ لوگ ناراض نہ ہوں لیکن وہ ضدی جن اپنے عزیزوں کی بات بھی نہ مانا اور وہ لوگ یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ اس کے ساتھ کچھ بھی کریں، ہم درمیان میں نہیں آئیں گے، تب جان محمد صاحب نے کوئی سخت قسم کا عمل کرکے اُسے ختم کردیا اور اس طرح لڑکی آزاد ہوگئی، ہم نے یونس بھائی سے سوال کیا کہ ختم کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا اُسے جان سے مار دیا؟ تو یونس بھائی بڑے سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسان تھے،اپنے کام سے کام رکھنے والے، کہنے لگے، اب یہ تو پوچھنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ آپ نے اس کا کیا حشر کیا ہے؟ لیکن یہ میں نے ضرور دیکھا کہ وہ ایک چھری کی مدد سے اُس لڑکی کے تمام جسم پر کوئی عمل کرتے رہے جس میں کافی وقت لگا اور اُس کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی، جب ہوش میں آئی تو بھلی چنگی تھی۔
ملکہ سبا کی ماں
ایک دلچسپ بات ملکہ سبا جس کا نام بلقیس تھا کہ بارے میں بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس کی ماں جنّی تھی اور ملکہ بلقیس کے پاو ¿ں کا پچھلا حصہ، یعنی ایڑھی چوپایوں کے کُھر کی طرح تھی، اس حقیقت کو جاننے کے لیے حضرت سلیمانؑ نے شیشے کا فرش بنوایا تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے مگر اس آیت کی تفسیر میں علماءمیں اختلاف پایا جاتا ہے یعنی شیشے کے فرش کی تعمیر کے مقصد پر ، البتہ اس کی ماں کے جنّی ہونے کو بعض مفسر تسلیم کرتے ہیں۔
بہر حال یہ حقیقت ثابت ہے کہ جنات اور انسانوں کے درمیان عام اور خاص دونوں طرح کے روابط و تعلقات ممکن ہیں اور اس حوالے سے بے شمار واقعات کتابوں میں بھی موجود ہیں اور تجربے و مشاہدے میں بھی آئے ہیں۔
عاشق جنّی
ہمارے ایک واقف نے ایک بار ہمیں بتایا کہ اس کے ایک جنّی سے ایسے تعلقات ہیں جیسے میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں، وہ موصوف نہایت ٹھاٹ باٹ کی زندگی بسر کرتے تھے، ہم نے انہیں کبھی کوئی کام دھندا کرتے نہیں دیکھا، ہر قسم کا جوا اور ریس کھیلنا ان کا مشغلہ تھا، اکثر جیت انہی کی ہوتی، جب کبھی ہار جاتے تو بہت بری طرح ہارتے اور پائی پائی کو محتاج ہوجاتے، ایسی حالت میں اکثر اپنی آشنا جنّی کو مستقل گالیاں بکتے رہتے کہ اس نے دھوکا دیا ہے، ہم پوچھ لیتے کہ اس نے دھوکا کیوں دیا تو جواب دیتے آج کل میرا اس سے جھگڑا چل رہا ہے۔
جھگڑے کی وجہ کبھی نہ بتاتے، ہم سے ان کے مراسم کی وجہ ہمارا اور ان کا مشترکہ شوق یعنی مچھلی کا شکار تھا، یہ ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا، اس وقت ایسے معاملات کی بہت زیادہ سمجھ بھی نہ تھی، بعد میں وہ ملک سے باہر چلے گئے تو ان کی کوئی خیر خبر برسوں نہ مل سکی، 1981 ءمیں ہمیں ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کراچی میں ہی ہیں، ان کے اور ہمارے ایک مشترکہ دوست نے خبر دی اور ہمیں ان سے ملانے لے گئے، برسوں بعد ہم نے انہیں جس حالت میں دیکھا وہ قابل عبرت اور نہایت افسوس ناک تھی، اپنے وقت کا جوان رعنا تقریباً ساٹھ ستر برس کا نحیف و نزار بوڑھا نظر آتا تھا، حالاں کہ ہمارے حساب سے اس وقت وہ صرف تیس سال کے تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ خون کے کینسر میں مبتلا ہیں اور یہ عارضہ انہیں اپنے سعودیہ میں قیام کے دوران ہوا، ہم نے بے تکلفی سے ان کی دوست جنّی کے بارے میں پوچھا تو سخت بے زاری کا اظہار کیا اور صرف اتنا کہا کہ اسی کی وجہ سے تو اس حال کو پہنچا ہوں، زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا لیکن اب ہمیں بھی مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی، ساری بات ہماری سمجھ میں آچکی تھی، اسی سال ان کا انتقال ہوگیا۔
خفیہ تعلقات
ایک اور ذاتی واقعہ بھی بیان کرتے چلیں، یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارا اٹھنا بیٹھنا محمد یونس صاحب کے ساتھ زیادہ تھا، وہ بھی اپنے استاد جان محمد صاحب کی طرح جنات کے اتار کا کام فی سبیل اللہ کرتے تھے اور ان دنوں وہ ہم سے علم جفر کے رموز و نکات سیکھنے کے لیے بضد رہتے، ہم یہاں یہ بھی وضاحت کردیں کہ یونس صاحب عمر میں ہم سے بہت بڑے تھے،وہ ”محمد یونس برتن والے“ مشہور تھے کیوں کہ رزق حلال کے لیے وہ زندگی بھر ٹھیلے پر سلور کے برتن بیچا کرتے تھے۔
اسی زمانے میں ایک عورت یونس صاحب کی معرفت ہمارے پاس آئی کہ یونس صاحب نے اس کی مدد کرنے سے انکار کرکے اسے ہمارے پیچھے لگادیا تھا، ہم نے اس سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے تو اس نے عجیب بات بتائی جو اس سے پہلے کسی نے ہم سے نہیں کہی تھی، اس کا کہنا تھا کہ وہ ایک جن سے مراسم رکھتی ہے یا یوں کہ ایک جن اس سے مراسم رکھتا ہے لیکن اب وہ ناراض ہوگیا ہے، اس نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے، ہم نے کہا کہ چلو یہ تو اچھی بات ہے کہ خود بخود تمہارا پیچھا چھوٹ گیا تو وہ جواباً بولی کہ نہیں یہ اچھی بات نہیں ہے، اس کے ناراض ہونے کے بعد سے ہمارے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں، شوہر کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے، گھر میں بچے بیمار رہنے لگے ہیں اور اب تو نوبت فاقوں تک آگئی ہے، خدا کے لیے کچھ بھی کیجیے مگر کسی طرح اسے واپس آنے پر مجبور کردیجیے۔
یہ سب سن کر ہم نے اس سے مزید تفتیشی سوالات کیے تو ہمارے شبہے کی تصدیق ہوگئی، اس عورت کے اُس جن سے ناجائز تعلقات تھے، حالاں کہ اس معاملے میں وہ صرف اتنی ہی قصور وار تھی کہ اس نے یہ تعلق جو زبردستی قائم ہوا تھا، برقرار رکھا اور اپنے علاج معالجے کی طرف توجہ نہ دی نہ ہی کسی کو ہمراز بنایا، اس کا کہنا تھا کہ وہ ڈرتی تھی کہ اس نے کوئی بھی ایسا قدم اٹھایا تو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے جب کہ خاموشی اور رضا مندی کی صورت میں گھریلو اور معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے تھے، شوہر کا کاروبار ترقی کر رہا تھا، شوہر شرابی بھی تھا اور اسے مارتا پیٹتا تھا، اب یہ ہوا کہ اس نے شراب تو نہ چھوڑی البتہ مار پیٹ سے یوں توبہ کی کہ اب وہ جب بھی شراب کے نشے میں دھت ہوکر دست درازی کرتا، الٹا بیوی کے ہاتھوں پٹتا اور ایسا کہ پھر کئی دن بستر پر پڑا رہتا،ہم نے پوچھا کہ تم اتنی حوصلہ مند اور طاقت ور کیسے ہوجاتی ہو کہ اُس کی بری طرح پٹائی کردیتی ہو؟ تو وہ بولی” مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہوتا ہے بلکہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میں نے اُسے مارا ہے، بعد میں اُس کی بری حالت دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے“
 جن کی ناراضی کی وجہ یہ ہوئی کہ شوہر کو اس راز سے ایک دن اس نے آگاہ کردیا کہ تمہاری خوش حالی میری وجہ سے ممکن ہوئی اور تمہارے غلط رویے اور مار پیٹ کے نتیجے میں تمہاری پٹائی بھی میری وجہ سے ہوتی ہے، تمام صورت حال جان کر شوہر الگ برہم ہوا اور جن صاحب بھی راز فاش کرنے کی وجہ سے ناراض ہوگئے۔انہوں نے اقرار کرلیا کہ ان کے اور جن کے درمیان میاں بیوی والا خاص تعلق تھا اور وہ اس طرح کہ اچانک ہی انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی بھاری بوجھ سے دب گئی ہے اور حرکت بھی نہیں کرسکتیں، پھر اس کے بقول ان کے سارے احساسات وہی ہوتے تھے جو شوہر کے ساتھ وہ محسوس کرتی تھیں، ہم نے جن کی واپسی کے سلسلے میں تو کوئی مدد نہیں کی کیوں کہ ہمیں اندازہ تھا کہ وہ کہیں نہیں گیا؟ صرف شرارت پر آمادہ ہے، البتہ انہیں بتائے بغیر ایسا بندوبست کردیا کہ ان کی اس سے مستقبل جان چھوٹ جائے۔