جمعہ، 25 دسمبر، 2020

نئے سال 2021 ء کا آغاز اور عظیم سیاروی اجتماع

دنیا تبدیلی کی ایک نئی لہر کی طرف گامزن


 کورونا وائرس کا دنیا پر حملہ نومبر 2019 سے شروع ہوا، ہمارے قارئین اگر ہماری ویب سائٹ پر جائیں تو سال 2020 کو ہم نے جنگ و جدل، عالمی معاشی بحران اور معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا سال قرار دیا تھا، کورونا وائرس کی وبا نے بلاشبہ دنیا بھر میں ایک بڑے معاشی بحران اور معاشرتی انحطاط کی صورت حال پیدا کردی ہے، دسمبر 2019 کو برج قوس میں سات سیارگان کا اجتماع ہوا تھا، اس حوالے سے بھی ہم نے لکھا تھا کہ دنیا نظریاتی طور پر تبدیل ہونے جارہی ہے،کورونا وائرس نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ اب مستقبل میں آنے والی تبدیلیاں انسانوں کو نئے انداز میں سوچنے اور نئے اصول و قوانین کی طرف لے جانے کا باعث بنیں گی، سال 2020 ایک ایسا سال ثابت ہوا جسے تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکتا، ساری دنیا جس نوعیت کے حالات سے گزر رہی ہے،اس پر فیض صاحب کا شہر آشوب یاد آرہا ہے ؎

اب بزم سخن صحبت لب سوختگاں ہے
اب حلقہ ء مے طائفہ ء بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانی ء دل کھانے کو آوے
راہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے

دسمبر 2019 کے بعد ایک بار پھر یعنی تقریباً 13 ماہ بعد ہی سات سیارگان ایک ہی برج جدی میں 11 فروری کو جمع ہورہے ہیں، یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال موجود ہو، عام طور پر ایسے اجتماعات تقریباً 19,20 سال کے بعد ہوتے ہیں، بہتر ہوگا کہ ایسے اجتماع کی مختصر تاریخ پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
گزشتہ صدی میں 21 ستمبر 1921 میں سیارہ زحل اور مشتری کے ساتھ شمس، عطارد اور راہو برج سنبلہ میں اکٹھا ہوئے تھے، سنبلہ بھی ایک خاکی برج ہے گویا ارضیاتی تبدیلیاں اور زمینی مسائل اس کے زیر اثر ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور بہت سے نئے ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگئے، اس کے ساتھ ہی برطانیہ عظمیٰ کا کالونیل سسٹم بھی زوال پذیر ہوا، برطانیہ کے زیر قبضہ علاقوں میں آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا، جن کے نتیجے میں برصغیر ہندوپاک تقسیم ہوا اور دیگر بہت سے ممالک بھی بالآخر آزاد ہوئے۔
اس کے بعد 26 اپریل 1941 کو ایک بار پھر شمس و قمر، زہرہ، عطارد اور مشتری و زحل برج حمل میں جمع ہوئے، خیال رہے کہ یہ انرجی سے متعلق برج ہے چناں چہ دوسری جنگ عظیم کاآغاز ہوچکا تھا اور اس کا اختتام ایٹمی توانائی کے استعمال پر ہوا، جب امریکا نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے۔
5 فروری 1962 کو برج جدی میں یہ عظیم سیاروی اجتماع ہوا جس میں کیتو سمیت تقریباً 8 سیارگان شمس و قمر، زہرہ، مریخ، عطارد، مشتری اور زحل اکٹھا ہوئے، ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد تقریباً بیس سال میں یعنی 1981 ء تک دنیا سرد جنگ کے آزار میں مبتلا رہی کیوں کہ یہ اجتماع خاکی برج جدی میں تھا، کوئی بڑی عالم گیر جنگ نہیں ہوئی لیکن دیگر ممالک کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں، خاکی برج کی وجہ سے دنیا مذہب سے دور ہوئی اور سائنس کے زیادہ قریب ہوتی چلی گئی، رسم و رواج تبدیل ہوئے، دنیا میں حد سے زیادہ خود غرضی اور مفاد پرستی کا فروغ ہوا، پاکستان دولخت ہوا، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل عرب جنگ کے نتیجے میں بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اور بالآخر دنیا کی دو سپر پاورز کے درمیان تنازعات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ ایک سپر پاور سویت یونین کا خاتمہ ہوا۔
یکم ستمبر 1981 ء کو ایک بار پھر عظیم سیاروی قران برج سنبلہ میں ہوا،یہ بھی خاکی برج ہے،اس کے نتیجے میں وہی کچھ ہوا جو ماضی میں ہوا تھا یعنی ایک سپر پاور کا خاتمہ، دیوار برلن کا ٹوٹنا، ایران میں انقلاب اور ایران عراق جنگ کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات جو ارضیاتی تبدیلیوں کا باعث بنے۔
24 مئی 2000 ء کو یہ عظیم اجتماع برج حمل میں ہوا جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی ہے کہ برج حمل کا تعلق انرجی سے ہے، اس کا حاکم سیارہ مریخ ہے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا رجحان طاقت کے اظہار کی طرف رہا، نائن الیون ہوا اور پھر امریکا افغان وار شروع ہوئی، امریکا عراق پر بھی حملہ آور ہوا گویا بیس سال تک دنیا میں طاقت کا اظہار جاری رہا۔
اب 21 ویں صدی میں برج قوس کے بعد ایک بار پھر برج جدی میں سات سیارگان کا عظیم اجتماع ہورہا ہے یعنی پلوٹو، زحل، مشتری، شمس، عطارد، زہرہ اور قمر ایک ہی برج میں ہوں گے، اس قران کے نتیجے میں ایک بار پھر دنیا عظیم ارضیاتی تبدیلیوں سے گزرے گی، آنے والے بیس سال بہت سے ملکوں کی سرحدیں تبدیل کریں گے، زلزلے، آفاتِ ارضی و سماوی، جنگ و جدل کا بازار گرم رہے گا، بہت سے ممالک ابھر کر دنیا میں نمایاں ہوں گے اور کئی ایک ممالک زوال پذیر ہوں گے، خاکی برج جدی کی وجہ سے دنیا بہت زیادہ حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوگی، سائنٹیفک سوچ پروان چڑھے گی، ایسے نظریات جن کی کوئی سائنٹیفک توجیہ نہ ہو،نظرانداز کیے جائیں گے، روایتی تصورات وہ کسی فلسفے کے تحت ہوں یا مذہب اور عقیدے کے تحت ان پر سوال اٹھیں گے،حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ ان کی اصلاح پر توجہ دی جائے گی، اہم ترین بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں عوامی سطح پر یا قومی سطح پر خود غرضی بڑھے گی جس کے نتیجے میں روایتی خاندانی ماحول بری طرح متاثر ہوگا، رشتے ناتے کمزور پڑیں گے، ہر شخص نفسہ نفسی کا شکار ہوگا۔
ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، 1962 ء میں جب یہ قران برج جدی میں ہوا تو ہم دیکھ سکتے ہیں اس کے بعد بیس سالوں میں دنیا کس طرح تبدیل ہوئی، ایسا ہی آئندہ بھی ہوگا۔

پاکستان

پاکستان کے زائچے میں یہ قران نویں گھر میں ہوگا جو مستقبل میں ترقی اور عملی منصوبوں، آئین و قانون، عدلیہ، الیکشن کمیشن، مذہب کا گھر ہے، بھارت اور ملائیشیا، مصر وغیرہ کے زائچوں میں بھی یہ قران زائچے کے نویں گھر میں ہوگا لہٰذا یہ ممالک بھی پاکستان جیسے حالات سے گزریں گے۔
نویں گھر میں اس عظیم اجتماع کے نتیجے میں پاکستان میں حقیقت پسندانہ تبدیلیاں آئیں گی، ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے عملی اقدام ہوں گے اور آئینی طور پر اصلاح و درستگی کا کام کیا جائے گا، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں ہوں گی، مذہبی انتہا پسندی کا زور ٹوٹے گا اور سائنسی نظریات کو نہ صرف یہ کہ فروغ ملے گا بلکہ عملی طور پر بھی اس پر توجہ دی جائے گی، ماضی میں اس ملک میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس صورت حال کا خاتمہ اب قریب ہے، گزشتہ 35 سال سے ملک میں جو کچھ ہوتا رہا اور جو لوگ اس کے ذمے دار تھے وہ بالآخر منظر سے غائب ہوجائیں گے (وما علینا الالبلاغ)
نئے سال کا پہلا مہینہ جنوری خاصا تیز رفتار اور ہنگامہ خیز نظر آتا ہے، اس مہینے میں سیارہ مشتری اور زحل کا قران جاری ہے جو حکومت کے لیے ایک سخت وقت کی نشان دہی کر رہا ہے، خصوصاً وزیراعظم پاکستان اور ان کی کابینہ جنوری کے مہینے میں نہ صرف یہ کہ اپوزیشن کے دباؤ کا سامنا کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے منصوبہ بندی ہورہی ہے لیکن حکومت بالآخر اس دباؤ سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی، ع ظیم سیاروی اجتماع کا آغاز اسی ماہ کی 14 تاریخ سے شروع ہوجائے گا، تقریباً تمام ہی سیارگان برج جدی میں داخل ہوچکے ہوں گے اور امکان ہے کہ فروری کا آغاز ایک ایسی نئی صورت حال سامنے لائے گا جو بہت سے لوگوں کے لیے چونکا دینے والی یعنی حیران کن ہوگی یعنی سینٹ کے قبل از وقت الیکشن اور ضمنی انتخابات اور اس کے بعد یقیناً صورت حال وہ نہیں رہے گی جو آج نظر آرہی ہے (واللہ اعلم بالصواب)

جنوری کی سیاروی پوزیشن

سیارہ شمس برج قوس میں حرکت کر رہا ہے، 14 جنوری کو برج جدی میں داخل ہوگا اور جنوری کے آخر تک برج جدی ہی میں حرکت کرے گا۔
سیارہ عطارد بھی برج قوس میں ہے، 5 جنوری کو برج جدی میں داخل ہوگا اور اپنی تیز رفتاری کے سبب 25 جنوری کو برج دلو میں داخل ہوجائے گا، 30 جنوری کو اسے رجعت ہوگی اور پھر 4 فروری کو دوبارہ برج جدی میں آئے گا۔
سیارہ زہرہ برج عقرب میں ہے، 4 جنوری کو برج قوس میں داخل ہوگا اور پھر 28 جنوری کو برج جدی میں داخل ہوجائے گا۔
سیارہ مریخ برج حمل میں حرکت کر رہا ہے جو اس کا ذاتی برج ہے،پورا مہینہ اسی برج میں حرکت کرے گا۔
سیارہ مشتری برج جدی میں جب کہ سیارہ زحل بھی برج جدی میں حرکت کر رہے ہیں اور تقریباً حالت قران میں ہیں، مشتری اور زحل کا یہ قران گزشتہ ماہ دسمبر سے جاری ہے اور تقریباً 29 جنوری تک جاری رہے گا، خیال رہے کہ زحل اور مشتری کا قران برسوں بعد ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا نئی تبدیلیوں کا سامنا کرتی ہے، مختلف افراد کے ذاتی زائچے میں ایسے قرانات کے اثرات کا جائزہ انفرادی طور پر لیا جاسکتا ہے۔
راہو اور کیتو اپنے شرف کے برج ثور اور عقرب میں ہیں، ان کی مستقیم پوزیشن 19 فروری کو ختم ہوگی۔مندرجہ بالا سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق دی گئی ہیں۔

قمر در عقرب

نئے سال کا پہلا قمر در عقرب پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 9 جنوری 2021 صبح 06:30 am سے شروع ہوگا اور 11 جنوری صبح 08:42 am تک قمر اپنے برج ہبوط عقرب میں رہے گا، یہ مکمل طور پر نحس وقت ہے،اس وقت میں کوئی کام کرنا مناسب نہیں ہوتا، خصوصاً کوئی نیا کام یا کسی کام کی ابتدا، رشتہ طے کرنا، شادی و نکاح، نئے کاروبار کا آغاز یا نئی جاب کی ابتدا وغیرہ۔
البتہ یہ وقت علاج معالجے کے لیے اور برائیوں یا بری عادات وغیرہ سے نجات کے لیے معاون و مددگار ہوتا ہے، اس وقت میں ایسے عملیات و نقوش تیار کیے جاتے ہیں جو عادات بد یا کسی کے ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے مؤثر ثابت ہوتے ہیں، ایسے عملیات ہم برسوں سے دے رہے ہیں، ہماری کتابوں میں بھی موجود ہیں اور ویب سائٹ پر بھی، ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔

شرف قمر

سیارہ قمر کو برج ثور میں شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے، پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اس ماہ قمر اپنے شرف کے برج ثور میں 23 جنوری کو تقریباً رات ایک بجے داخل ہوگا اور 25 جنوری 12:35 pm تک برج ثور میں رہے گا، اس دوران میں اپنے جائز مقاصد کے لیے عملیات و نقوش کیے جاسکتے ہیں، اس حوالے سے مناسب وقت 23 جنوری کو 12:45 pm سے 01:36 pm تک ہوگا۔

جمعہ، 18 دسمبر، 2020

 ایک سے نو تک عددی قوتیں ہمارے ناموں میں نت نئے رنگ بھرتی ہیں


کائنات میں کوئی جان دار یا بے جان ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نام نہ ہو‘ نام ہر جان دار یا بے جان کی شناخت کا فرض ادا کرتا ہے‘ ہم معاشرے میں اپنے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں‘کوئی بھی نام انسان کی پیدائش کے بعد تجویز ہوتا ہے اور پھر اس کی ذات کا ایک لازمی حصہ قرارپاتا ہے‘ دنیا میں انبیاء کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کے نام کسی انسان نے نہیں بلکہ خود خالق کائنات اللہ جل جلالہ نے تجویز فرمائے جیسا کہ محمدﷺ۔مشہور شاعر محترم حنیف اسعدی نے کیا خوب صورت بات کی ہے ؎

نام نامی بھی صدا ہو جیسے
سب زمانوں نے سنا ہو جیسے

عام طور پر بچوں کے نام ان کے والدین یا دیگر اہل خانہ اپنی پسند کے مطابق رکھتے ہیں۔ قدیم زمانوں میں یہ فریضہ مذہبی یا بزرگ شخصیات کے ذمہ بھی رہا ہے‘ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ”بچوں کے نام اچھے معنوں کے رکھے جائیں“ لیکن فی زمانہ معنویت پر توجہ کم ہو گئی ہے‘نام ہماری ذات سے منسلک ہونے کے بعد ہماری شخصیت پر اور ہمارے کردار پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی وجہ نام کے حروف اور اعداد ہیں۔
ہمارے ہاں نام کے حوالے سے بہت سے غلط تصورات بھی رائج ہیں‘ مثلاً نام کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کیا جاتا ہے یا حالات زندگی کا حساب کتاب کیا جاتا ہے اور یہ کام ہر ایسا شخص باآسانی نہایت ذوق وشوق سے کرتا ہے جس کی اپنی علمی سطح مشکوک ہوتی ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر نام نہاد روحانی علاج کا دعویٰ کرنے والے خواتین و حضرات‘ نام کے ذریعے جادو ٹونے‘ بندش‘ آسیب وجنا ت کے اثرات کی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں۔ بہر حال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ نام کی اہمیت کا ہمارے معاشرے میں غلط استعمال بھی مرّوج ہے اور اکثر نام نہاد ماہرین نجوم و جفر یا علم ا لاعداد صرف نام کی بنیاد پر بڑے بڑے دعوے کرتے اور مسائل حل کرتے نظر آتے ہیں لیکن انہیں خود بھی نہیں معلوم ہوتا کہ نام کی اصل حقیقت کیا ہے اور اس کا دائرہ کار کتنا وسیع یا محدود ہے‘ اس حوالے سے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہماری قسمت اور حالات زندگی کا راز ہماری درست تاریخ پیدائش‘ وقت پیدائش میں پوشیدہ ہے‘ نام کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں جبکہ نام ایک اختیاری شے ہے جو ابتدا میں ہمیں اپنے والدین کی طرف سے ملتا ہے اور بعد میں اکثر ہم اسے تبدیل بھی کرلیتے ہیں گویا نا م کے اثرات تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن تاریخ پیدائش کے اثرات کبھی نہیں بدل سکتے کیوں کہ ہم دوبارہ اس تاریخ اور وقت پر پیدا نہیں ہو سکتے‘ یہی ہماری قسمت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نام اپنے حروف اور اعداد کی طاقت کے ساتھ ہماری شخصیت اور کردار پر اثر اندار ہوتا ہے اور یہ کام وہ ہماری تاریخ پیدائش کی عددی طاقت کے ساتھ مل کر انجام دیتا ہے‘ اگر تاریخ پیدائش اور نام کے اعداد باہمی طور پر ہم آہنگ نہ ہوں‘ ایک دوسرے سے متضاد ہوں تو شخصیت میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے‘ ہم آہنگی کی صورت میں پیدائش کے اعداد مزید تقویت پاتے ہیں اور ان کی کارکردگی یا اثر بڑھ جاتا ہے‘ اس کے علاوہ نام کے حروف سے تشکیل پانے والا لفظ بھی اپنی معنوی حیثیت میں اثر انداز ہوتا ہے اور اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ”اچھے معنوں کے نام رکھو“۔
بعض لوگوں نے نام کی تبدیلی کو عجیب تماشا بنا رکھا ہے‘ ذرا کسی بچے کو زیادہ سرکش‘ نافرمان یا شرارتی دیکھا یا صحت کی خرابی کے مسائل زیادہ نظر آئے فوراً نام کو مورد الزام ٹھہرا دیا گیا اور ایسے نام نہاد سیانے بھی موجود ہیں جو فوراً ایسی صورت حال میں فتویٰ جاری کردیتے ہیں کہ نام ”بھاری“ ہے۔ اس حوالے سے جومثالیں پیش کی جاتی ہیں وہ بھی کم فہمی اور کم علمی پر مبنی ہیں۔
نام کے حروف اور اعداد چوں کہ ہماری شخصیت اور کردار پر اثر انداز ہوتے ہیں اور تاریخ پیدائش سے ان کی ہم آہنگی بھی ضروری ہوتی ہے‘ لہٰذا کسی تضاد کی صورت میں نام اپنے ناقص اثرات شخصیت اور کردار پر ڈال رہا ہوتا ہے اس کی درستگی بہرحال ضروری ہوتی ہے۔
آئیے نام کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے چندبنیادی اصول آپ کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ آپ خود اپنے نام کے بارے میں جان سکیں کہ وہ کیسا ہے؟

آپ کا نام اورآپ

علم الاعداد اور علم الحروف ایک قدیم علم ہے جو برسوں کی تحقیق اور تجربے کے بعد آج بھی دنیا میں رائج ہے‘ اہل علم وعرفان اس سے رہ نمائی حاصل کرتے ہیں‘ہم یہاں جو طریقے کار دے رہے ہیں یہ انتہائی قدیم ہے‘ لہٰذا اردو حروف تہجی اور عربی ابجد کے اصول و قواعد اس طریقے کار میں استعمال نہیں ہوں گے بلکہ انگریزی حروف تہجی اور ان کی مقررہ قیمت استعمال کی جائے گی جس کی ٹیبل ہم ذیل میں دے رہے ہیں۔

 

 



  

نام خواہ کوئی بھی ہو‘حروف تہجی اور اعداد یہی رہیں گے‘ دنیا کے تمام نام ان حروف اور نمبروں کے محتاج ہیں‘ بنیادی اہمیت اعداد کو حاصل ہے اور اعداد ہی طاقت اور اثر رکھتے ہیں‘ ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں جیسا کہ قدیم دانشور اور ریاضی داں فیثاغورث کا قول ہے”دنیا اعداد کی قوت پر تعبیر کی گئی ہے“۔
ہر عدد یا نمبر اپنی مخصوص طاقت‘خصوصیت اور دائرہ اثر رکھتا ہے جس کے بارے میں جاننا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ ہم اپنے نام کے حروف کا درست تجزیہ کر سکیں‘ اس تجزیہ میں ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ہمارے مکمل نام میں موجود حروف کی قیمتیں کیا ہیں؟اور نمبر ہمارے نام کو کس نوعیت کی قوت اور خصوصیت سے نواز رہے ہیں‘ کون سے نمبر نام میں زیادہ ہیں اور کون سے کم ہیں یا کون سے نمبر ایسے ہیں جن کا ہمارے نام میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
ہمیں ایک سادہ سے اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا‘ ان نمبروں پر خصوصی نظر رکھنا ہوگی جو ہمارے نام میں اکثریت رکھتے ہیں اور نا م کے حروف میں ان کی مسلسل تکرار موجود ہے‘ گویا یہ نمبر ہمارے نام کی زیادہ بااثر قوت ہیں‘ دوسرے نمبر پر ان نمبروں پر بھی نظر رکھنا ہوگی جو ہمارے نام میں موجود ہی نہیں ہیں‘ تیسرے نمبر پر وہ نمبر ہوں گے جو صرف ایک بار نام میں اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں۔
آئیے ایک مثال کے ذریعے اس سارے عمل کا جائزہ لیا جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا نام ابرار علی(ABRAR ALI) ہے‘ نام میں موجود حروف کے اعداد کی تفصیل یہ ہوگی 1+2+1+1+1+1+3+1=11
اب غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ نمبر 1 پورے نام میں غالب اکثریت کا حامل ہے اور اس کی تکرار یا ارتعاش بہت زیادہ ہے جبکہ نمبر2اور 3 صرف ایک مرتبہ جلوہ فرما ہیں۔اس کا مطلب یہ ہواکہ نا م کی حاکم قوت 1ہے جبکہ 4,5,6,7,8,9, نمبر نام سے خارج یاغائب ہیں‘ گویا نام ان غائب اعداد کی قوت اور خصوصیات سے محروم ہے‘2اور 3 نام میں موجود ہیں اور ان کے اثر سے انکار ممکن نہیں ہے‘نام میں موجود اکثریتی نمبر اپنے بھرپور اثر وطاقت کا مظاہرہ کرے گا جبکہ غائب اعداد کی قوت اور اثر سے محرومی اس نام میں کسی کمزوری یا خامی کا پتہ دیتی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ جن کا آگے چل کر جائزہ لیا جائے گا، مکمل نام کا مرکب عدد گیارہ ہے گویا یہاں بھی 1 نمبر کی تکرار ہے، 11 کے مرکب عدد کی تاثیر بھی پیش نظر رہنی چاہیے جب کہ نام مفرد عدد 2 ہوگا لہٰذا عدد 2 ظاہر کرے گا کہ ابرار علی کا کردار ظاہری طور پر کیسا ہے جب کہ نام کے دیگر اعداد ظاہرکریں گے کہ ابرار علی اپنے باطن میں کیسا کردار رکھتا ہے، اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ اپنے باطن میں کچھ اور ہوتے ہیں اور ظاہر میں کچھ اور۔
مندرجہ بالا مثال میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے، عدد2 ظاہر کرتا ہے کہ ابرار علی لوگوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے وہ ملن سار، خوش مزاج شخصیت کا مالک ہے لیکن اپنے باطن میں 1 نمبر کی تکرار اور اس سے پیدا ہونے والا ارتعاش اسے بہت زیادہ انانیت اور ذاتی غرور و مفادات کا حامل بناتا ہے، امید ہے کہ آپ اس طریقے سے اپنے نام کا تجزیہ کرکے اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔

نام اور نیا سال

اپنے گزشتہ مضمون میں ہم نے کسی بھی سال کی مجموعی کیفیت اور خصوصیت معلوم کرنے کا طریقہ بیان کیا تھا جس کے لیے تاریخ پیدائش اور پیدائش کے مہینے کا عدد معلوم کر کے مطلوبہ سال میں جمع کیا جاتا ہے اور پھر اس سال کا ذاتی نمبر حاصل کیا جاتا ہے جو سال کے بار ے میں ہماری رہ نمائی کرتا ہے۔ اگر ذاتی سال کا نمبر ہمارے نام کے حروف میں موجود نہیں ہوگا تو وہ سال ہمارے لیے ایک مشکل سال ثابت ہو سکتا ہے اس کے برعکس اگر سال کا ذاتی نمبر ہمارے نام میں موجود ہے تو اس عدد سے وابستہ فطری صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملے گا اور اگر وہ عدد اکثریت رکھتا ہے تو یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ ہم مطلوبہ سال میں اس عدد کے زیر اثر غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور نہایت کامیاب رہیں گے۔
مثلاً موجودہ سال 2021ء در حقیقت 5 نمبر کا سال ہے اور تاریخ پیدائش‘ مہینے کے اعداد بھی اس میں جمع کردیے جائیں تو جو بھی ذاتی سال کا نمبر حاصل ہوگا وہ ہمارے نام میں ہونا چاہیے‘ بصورت دیگر موجودہ سال ایک مشکل سال ثابت ہو سکتا ہے لیکن اگر ذاتی سال کا نمبر نام میں موجود ہے تو یقیناً اس عدد کے حوالے سے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ سامنے آئے گا، اس حوالے سے علم الاعداد کے موضوع پر دوسرا مضمون ان شاء اللہ آئندہ ہفتے پیش کیا جائے گا۔

نام کے اعداد کا اثرو رسوخ

نمبر 1
اگر عدد ایک آپ کے نام میں موجود ہے یا ایک سے زیادہ مرتبہ اس کی تکرار موجود ہے تو آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہیں‘ کم یا زیادہ عزت نفس کا احساس آپ کے اندر موجود ہے‘ جرأت اور مردانگی کے حامل ہیں‘ آزادی پسند ہیں‘ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دبنگ ہیں، انا کے مسائل کا شکار بھی ہوتے ہیں۔
بہتر ہوگا کہ حاکمیت پسندی‘ انا پرستی اور دوسروں پر دباؤ ڈالنے سے گریز کریں۔
غائب عدد: اگر نمبر 1 آپ کے نام میں موجود نہیں ہے تو آپ کی ذات اولین اہمیت کی حامل نہیں ہے‘آپ کے کردار میں لگن‘ پہل کرنے اور خود اعتمادی کا فقدان ہے‘ آپ دبنگ نہیں ہیں‘ جرأت کی کمی ہے‘ وقت کی مناسبت کا شعور نہیں رکھتے‘ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے‘ آگے بڑھ کر نمایاں ہونا‘ اگلی صفوں میں رہنا‘ پہل کرنا نہیں جانتے‘ آپ حد سے زیادہ محتاط ہیں‘ رسک لینے سے ڈرتے ہیں اور یہ کمزوریاں یا خامیاں آپ کو بھرپور فوائد حاصل کرنے سے روک سکتی ہیں‘خاص طور پر ذاتی نمبر 1 کے سال میں۔
حاکم عدد: اگر نمبر 1 آپ کے نام کا اکثریتی عدد ہے تو ”حاکم عدد“ کہلائے گا اور ایسی صورت میں آپ کی خود اعتمادی بڑھ جائے گی‘ قائدانہ صلاحیتوں کا اعلیٰ اظہار ہوگا‘ آپ اپنی ذات سے اور اپنے کام سے لطف اندوز ہوں گے لیکن حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اور تکبر پر قابو رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
نمبر 2
نمبر 2 کی نام میں موجودگی یا تکرار آپ کو ملن سار اور تعاون کرنے والا بناتی ہے‘ آپ دوسروں کا لحاظ کرتے ہیں‘ حساس ہیں‘ موقع شناس ہیں‘ شراکت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ تال میل کا شعور رکھتے ہیں اور کسی معاملت میں بہتر رویہ اپناتے ہیں‘ وقت کی مناسبت سے قدم اٹھاتے ہیں لیکن ڈر پوک ہیں۔
بہتر ہوگا کہ دوسروں کو بہت زیادہ خوش کرنے‘ نرم خُو ہونے اور حد سے زیادہ حساس ہونے سے گریز کریں۔
غائب عدد: اگر 2 نمبر آپ کے نام میں موجود نہیں ہے تو جذبات کو آسانی سے ٹھیس لگتی ہے‘ آپ تفصیلات کے معاملے میں بے پروا ہو سکتے ہیں‘ زود رنج ہو سکتے ہیں‘ صبر وتحمل‘ تدبیر اور حکمت عملی کا فقدان ہو سکتا ہے‘ شراکتی نوعیت کے معاملات میں پریشانی ہو سکتی ہے۔
حاکم عدد:اگر نمبر 2 آپ کے نام کا حاکم عدد ہے تو آپ دوسروں کے ساتھ کام کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ چیزیں جمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں‘ شراکتی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور ان سے اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں‘موسیقی‘ رقص اور شاعری سے شغف ہے‘ فن کارانہ قدردانی ہے،ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ آپ زندگی کی رنگینیوں میں خود کو بہت زیادہ ملوث نہ کرلیں۔
نمبر 3
اگر نام میں عدد 3 موجود ہے یا اس کی تکرار ہے تو آپ اپنے آپ کو اور اپنے آئیڈیوں کو دوسروں کے ہاتھ فروخت کر سکتے ہیں‘بے فکر‘ تخّیل پرست اور ملن سار ہیں‘ رابطے کا ہنر جانتے ہیں اور تخلیق کار ہیں۔
اپنی توانائیوں کو بکھیرنے‘ فضول خرچ ہونے‘ باتونی ہونے‘ شیخی بگھارنے‘ بے صبری کا مظاہرہ کرنے اور خوش فہم ہونے سے گریز کریں۔
غائب عدد: اگر 3کا عدد نام میں موجود نہیں ہے تو آپ کو آگے بڑھنے میں دشواری ہو سکتی ہے‘ آپ احساس کمتری کا شکار ہو سکتے ہیں‘ اظہار ذات میں دشواری محسوس کر سکتے ہیں‘ ڈرپوک اور پست ہمت ہو سکتے ہیں۔
حاکم عدد: اگر نا م کا حاکم عدد 3ہے تو آپ تقریر اورتحریر کے ذریعے اظہار کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ خوش رہنا جانتے ہیں‘ اثر قبول کرتے ہیں‘ تخّیل پرست ہیں‘ پرجوش‘ خوش مزاج‘ تخلیق کار اور بے تکلف ہیں، آپ کو جنسی معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
نمبر 4
آپ سخت محنت‘ کاوش‘ توجہ مرکوز کرنے اور ارتکاز کو قائم رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘ ایک عملی‘ حقیقت پسند‘ منظم اور نظم و ضبط کے پابند انسان ہیں‘ تحمل اور برداشت رکھتے ہیں۔
سخت گیر‘ بے لچک‘ بے حس‘ ہٹ دھرم‘ تنگ نظر یا حد سے زیادہ لکیر کے فقیر ہونے سے گریز کریں۔
غائب عدد: اگر 4 نمبر آپ کے نام میں نہیں ہے تو آپ کے اندر بے صبری اور عاقبت نااندیشی پائی جاتی ہے‘ ترتیب اور سسٹم کا فقدان ہے‘آپ من موجی ہیں‘ روز مرہ کے امور پر پابند نہیں رہ سکتے‘ کام چور اور کاہل ہیں یا الٹا سیدھا کام کر کے جلد از جلد اپنی جان چھڑا لیتے ہیں یا سرے سے کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاتے‘ آپ مکمل نہیں ہیں‘ شارٹ کٹ ڈھونڈنے اور محنت سے جی چرانے کا رحجان رکھتے ہیں۔
حاکم عدد:اگر آپ کے نام میں عدد 4 کی تکرار اور ارتعاش زیادہ ہے تو آپ کام کو کام سمجھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں‘ اچھا کام کر کے فخر محسوس کرتے ہیں‘ سلیقہ مند‘ ترتیب اور سسٹم پسند ہیں‘محنتی‘ فرض شناس اور با ضمیر ہیں۔
نمبر 5
اگر آپ کے نام میں نمبر 5 ایک یا زیادہ بار موجود ہے تو آپ آزادی‘ تبدیلی‘ ایڈونچر‘ تفریح‘ اسپورٹس‘ آؤٹ ڈور سفر‘ سیکس اور لوگوں سے ملنے جلنے کے شائق ہیں۔ با تدبیر ہیں‘متجسس ذہن رکھتے ہیں اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنا جانتے ہیں۔
حد سے زیادہ من موجی پن‘ بے چینی‘ عجلت پسندی‘ شہوانیت‘ اندھا دھند کام کرنے اور حد سے زیادہ رنگ رلیاں منانے سے پرہیز کرنا چاہیے‘ آپ کے ہاں پرانے دوستوں کو چھوڑ کر نئے دوست بنانے کا رحجان پایا جاتا ہے۔
غائب عدد:اگر پانچ نمبر آپ کے نام میں موجود نہیں ہے تو آپ کے لیے کسی تبدیلی کو قبول کرنا بہت مشکل ہے‘ ہجوم میں بے اطمینانی محسوس کریں گے‘ تجسس اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا یا ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوگا‘ آپ دبے ہوئے یا آزادانہ جنسی تعلقات کے حامی ہو سکتے ہیں‘ زندگی کا تجربہ محدود ہوگا‘ آئین نو سے خوف محسوس کریں گے‘ عوامی آدمی نہیں ہوں گے اور تجربے سے سیکھنے میں ناکام رہیں گے‘ ماضی کی غلطیاں دھرا سکتے ہیں۔
حاکم عدد: اگر نمبر 5 آپ کا حاکم عدد ہے تو آپ زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہوں گے‘ آپ کی ورسٹائل خصوصیات آپ کو نت نئے تجربات سے آشنا کریں گی۔
نمبر 6
آپ کے نام میں چھ کا عدد آپ کو گھریلو‘ مہمان نواز‘ پروش کرنے والا‘ خیال رکھنے والا اور ذمہ دار بناتا ہے۔آپ دوسروں کے لیے خود کو وقف کر سکتے ہیں اور دوسروں کی ذمہ داریاں بھی اپنے سر لے سکتے ہیں‘ آپ کے لیے انکار کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
مداخلت کرنے‘ اپنے آپ کو درست سمجھنے‘ خود کو دوسروں سے زیادہ نیک سمجھنے‘ ہٹ دھرمی‘ ملکیت جتانے‘ بے لچک ہونے‘ ناصح بننے سے گریز کریں۔
غائب عدد:عدد نمبر 6آپ کے نام سے غائب ہے تو آپ ذمہ داریوں سے بھاگنے والے ہوں گے‘ آپ کے مزاج میں بچگانہ پن ہو سکتا ہے‘ آپ کو ایک اچھا شریک حیات یا ماں باپ ہونا سیکھنا پڑے گا‘ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہوگی‘ آپ کام شروع کرتے ہیں لیکن مکمل نہیں کرتے‘گھریلو مسائل آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہیں‘ اس حقیقت سے آزردہ رہتے ہیں کہ دوسرے آپ پر تکیہ کرتے ہیں‘ آپ کو بندش یاپابندیوں کا خوف لاحق رہتا ہے۔
حاکم عدد: آپ کو گھر اور خاندان سے محبت ہے‘ اس بات سے مطمئن اور لطف اندوز ہوں گے کہ دوسرے آپ پر انحصار کرتے ہیں‘ وہ آپ کے بغیر نہیں رہ سکتے‘ آپ محبت کرنے والے اورقابل بھروسہ ہیں۔
نمبر7
عدد 7کی موجودگی یازیادتی آپ کو ایک تجزیہ کار بناتی ہے‘ آپ کا دماغ تیز اور متجسس ہے‘ آپ گُھنّے‘ انتخاب کے اہل‘ خلوت نشین‘ تحقیق کرنے والے اور مشاہدہ نفس کرنے والے ہو سکتے ہیں‘ اپنی ہی صحبت میں خوش رہ سکتے ہیں‘ تخلیہ اور سکوت پسند ہیں۔
کیڑے نکالنے‘ افسردہ رہنے‘ راز مخفی رکھنے‘ گوشہ نشینی‘ عیاری‘ منشیات یا الکوحل کا عادی ہونے سے پرہیز کریں۔
غائب عدد:آپ عدد 7 کی غیر موجودگی کے باعث پریشان ہوتے رہتے ہیں‘ آپ کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ تنہا ہو ئے بغیر بھی تنہا کیسے ہوا جاتا ہے‘ روحانی آگہی کو ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے‘ آپ کے ”فلسفہ حیات“ کی آزمائش 7سال میں ہوجائے گی۔
حاکم عدد: آپ ذہنی یا دانشورانہ دلچسپیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ مطالعہ کرنے‘ زندگی کے اسرار و رموز کو کُریدنے‘ صلاح و مشورہ کرنے‘ غور و فکر کرنے اور سوچنے میں آپ کو لطف آتا ہے۔
نمبر 8
ایک یا زیادہ 8کا عدد آپ کو شاندار صلاحیتوں کا مالک بناتا ہے‘ آپ کامیابی حاصل کرنے اور پیسا کمانے کے اہل ہیں‘لائق‘ خطرہ مول لینے والے‘ باتدبیر اور منظم ہیں‘ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حد سے زیادہ مادّہ پرست ہونے سے گریز کریں اور یاد رکھیں کہ زندگی کی تمام خوشیاں صرف اور صرف دولت کے ذریعے حاصل نہیں ہوتیں۔
غائب عدد: اگر 8نمبر نام میں موجود نہیں ہے تو عمدہ مالی سوجھ بوجھ کا فقدان ہوگا‘پیسہ آتا ہے مگر خرچ ہوجاتا ہے‘پیسے اور کامیابی کی یا تو بہت فکر رہتی ہے یا پھر اس طرف سے بالکل بے پروا اور بے فکر رہتے ہیں‘ عام طور پر معاملات کو سنبھالنے‘ مالی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
حاکم عدد:اگر آپ کے نام کا حاکم عدد 8 ہے تو آپ کی سوچ بڑی ہے اور آپ کسی بڑی مہم جوئی سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘مادی کامیابی کے حصول کی شدیدلگن رکھتے ہیں‘ نمایاں مقام حاصل کرتے ہیں اور ہر اس شے سے لطف اندوز ہوتے ہیں جوپیسے سے خریدی جا سکتی ہے۔
نمبر 9
عدد 9کی موجودگی آپ کو انسانیت نواز بناتی ہے‘ آپ مہربان ہیں‘ آپ کی سوچ عالمی ہے‘ رحم دل‘ رومینٹک‘محبت میں پرتپاک‘ فراخ دل ہیں‘ آپ میں فنکارانہ صلاحیتیں ہیں اور آپ سیاست‘ تہذیبی وثقافتی معاملات اور سماجی مسائل میں دلچسپی لیتے ہیں۔
حد سے زیادہ جذباتی ہونے‘ دوسروں پرضرورت سے زیادہ اثر انداز ہونے ‘ خود کو قانون سمجھنے‘ سب پر چھا جانے یا چھائے رہنے اور طوفانی ہونے سے پرہیز کریں۔
غائب عدد:اگر 9 کا عدد نام میں موجود نہیں ہے تو آپ کو صرف اپنی ذات اور اپنے حلقے سے دلچسپی ہے‘ دنیاوی معاملات یا غیروں کی خوشی اور غم سے برائے نام سروکار ہے‘ آپ کے لیے دوسروں کے جذبات و احساسات اور ضروریات کو سمجھنا مشکل ہے‘ ہمدردی اوررحم دلی مفقودہو سکتی ہے‘ ایک نو سالہ چکر میں دنیا آپ کا دروازہ پیٹنے لگے گی کیوں کہ آپ کو بنی نوع انسان کے مسائل سے دوچارہونا پڑے گا اور آپ کے لیے صورت حال خاصی پریشان کن ہوجائے گی‘ زندگی آپ کو مجبور کردے گی کہ آپ انسانیت کے لیے کچھ کریں‘ سیکھنے کے لیے باہر ایک وسیع دنیا پھیلی ہوئی ہے‘ دنیا صرف وہی نہیں ہے جو آپ کے گرد صرف آپ کی خاطر گھومتی ہے۔
حاکم عدد: اگر 9 نمبر حاکم عدد کی حیثیت رکھتا ہے تو آپ دوسروں کے کام آ کر لطف اندوز ہوتے ہیں‘ آپ کو فن‘ تہذیب وثقافت اور سیاست سے دلچسپی ہے۔

 

جمعہ، 4 دسمبر، 2020

نظم و ضبط، عملی اقدام اور اہم فیصلوں کا سال

خود غرضی اور مفاد پرستی میں اضافہ، پاکستان میں نیا نظام‘ آئینی ترامیم

 ہماری دنیا میں آنے والا ہر نیا سال زندگی کے لیے کچھ نئے چیلنج، نئی تبدیلیاں اور نیا ماحول لاتا ہے، علم فلکیات اپنی سیاروی گردش سے ہمیں ہر سال کے بارے میں نہایت لطیف اور معنی خیز اشارے فراہم کرتا ہے،ان اشاروں کو سمجھنا اور ان کے معنی پر غور کرنا ماہرین فلکیات کا کام ہے، بے شک ہمارے علاوہ دنیا بھر کے دیگر منجمین بھی یہ کام پوری ذمے داری اور مہارت کے ساتھ کرتے ہیں، ہم بھی گزشتہ کئی سالوں سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں، 2021 کا آغاز ہوا چاہتا ہے، اس سے پہلے کہ اس نئے سال پر گفتگو کا آغاز کیا جائے، بہتر ہوگا کہ گزشتہ سال 2020 کے حوالے سے تھوڑی سی یادداشت تازہ کرلی جائے۔

2020 کے بارے میں ہم نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، صورت حال تقریباً اس کے مطابق رہی، ہم نے لکھا تھا ”2020 جنگ و جدل، عالمی معاشی بحران، معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کا سال ہوگا اور پاکستان ایک نئے نظام کی طرف بڑھے گا“
بے شک عالمی صورت حال کچھ ایسی ہی رہی، چین اور امریکا کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے، چینی مسلح افواج بھارت کی سرحدوں پر بھارتی فوج کے مقابل کھڑی ہیں اور چین لداخ کے تقریبا ایک ہزار کلو میٹر علاقے پر قابض ہوچکا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے کوئی بڑی جوابی کارروائی کرنے کے بجائے روس میں مذاکرات کی ٹیبل پر اپنی شکست تسلیم کرلی لیکن یہ معاملہ یہاں نہیں رکے گا، بھارت کو اس صورت حال کی مزید قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان بھی خاموش محاذ آرائی جاری ہے، سیاسی طور پر نئی گروپ بندیاں ہورہی ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلیاں شروع ہوچکی ہیں، بعض عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، یورپ کی صورت حال بھی انتشار اور اضطراب کی آئینہ دار ہے، ترکی اور یونان کے درمیان تنازع خاصا سنجیدہ ہوچکا ہے جس میں فرانس بھی ترکی کے مقابل آچکا ہے، قصہ مختصر یہ کہ ہر نیا سال دنیا کو ایک نئی سمت کی جانب لے جارہا ہے اور یہی اس متحرک نظام کائنات کا خاصہ ہے۔

غیر معمولی سیاروی اجتماعات

26 دسمبر 2019 کو تقریباً 7 سیارگان کا ایک بڑا اجتماع برج قوس میں ہوا تھا اور ہم نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا تھا کہ اب دنیا نظریاتی طور پر تبدیل ہونے جارہی ہے،عالمی معاشی بحران کے ساتھ معاشرتی ٹوٹ پھوٹ بھی اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے، 2020 میں یہ مشاہدہ بھی ہوا،کورونا وائرس نے پوری دنیا کی فضا تبدیل کردی، معاشی بحران کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیاں بھی محدود ہوکر رہ گئیں، اکثر ممالک ابھی تک اس صورت حال سے دوچار ہیں،نظریاتی طور پر بھی دنیا تبدیل ہورہی ہے یعنی عرب ممالک اسرائیل سے دوستانہ معاہدے کر رہے ہیں، اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، سعودی عرب جو عالم اسلام میں ایک قائدانہ کردار کا حامل رہا ہے وہ بھی اسرائیل کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کر رہا ہے، دنیا جو ہمیشہ امریکا اور یورپ کی طرف دیکھتی تھی، اب چین اور روس کی طرف دیکھ رہی ہے۔
ہم نے 2020 کے بارے میں لکھا تھا ”فطری زائچے کے مطابق یہ قران اگر ایک طرف دنیا بھرمیں مذہبی انتہا پسندی، آئین و قانون سے ماورا فیصلے و اقدام اور معاشی بحران لائے گا تو دوسری طرف عالمی زائچے کے مطابق قوموں اور ملکوں کی نئی حد بندیوں اور اندرونی انتشار کا باعث ہوگا“
بین الاقوامی زائچے کے مطابق 11 فروری 2021 بمقام لندن 01:13 pm پر قران شمس و قمر ہوگا، نیو مون کا یہ زائچہ ظاہر کرتا ہے کہ سات سیارگان کا اجتماع اس بین الاقوامی زائچے میں آٹھویں گھر میں ہوگا، شمس و قمر، زہرہ،عطارد، مشتری اور زحل برج جدی میں اکٹھا ہوں گے،سیارہ مریخ اس اجتماع میں شریک نہیں ہوگا، جب کہ راہو کیتو ایسی پوزیشن میں ہوں گے جسے ایک انتہائی منحوس اثر کا حامل یوگ کہا جاتا ہے یعنی ”کال سرپ یوگ“گویا ویدک علم نجوم کے مطابق کال سرپ یوگ کی وجہ سے سال 2021 گویا ایک انتہائی نحوست کا سال ہوگا، ہم روایتی ویدک سسٹم کے اس یوگ کو تسلیم نہیں کرتے، یہ ضرور ہے کہ بین الاقوامی زائچے کے آٹھویں گھر میں اس اجتماع کے غیر معمولی اور ناموافق اثرات ممکن ہیں۔
برج جدی ایک خاکی اور منقلب برج (Earth sign) ہے، دسمبر 2019 میں ہونے والا سات سیارگان کا اجتماع برج قوس میں ہوا تھا جو آتشی اور ذوجسدین برج (Fire Sign) ہے، برج قوس مذہبی نظریات اور دنیاوی آئینی و قانونی نظریات یا فلسفے کا برج ہے، چناں چہ ہم نے 2020 میں دیکھا کہ دنیا کس طرح نظریاتی طور پر تبدیلی کی طرف گامزن ہوئی ہے، فروری 2021 میں ہونے والا سیاروی اجتماع ایک بالکل برعکس صورت حال کی نشان دہی کرتا ہے۔
اس اجتماع میں شریک سیارہ قمر، عطارد، مشتری غروب ہوں گے، مجموعی طور پر اس اجتماع کا اثر دنیا بھر میں عملیت پسندی اور تبدیلی کا رجحان لائے گا اور یہ تبدیلیاں مفادات کی بنیاد پر ہوں گی، نظم و ضبط اور اصول و قواعد پر زور دیا جائے گا، لوگ زیادہ پریکٹیکل ہوجائیں گے، خیالی دنیا سے نکل کر میدان عمل میں سرگرم ہوں گے، توہماتی،قیاسی باتوں سے زیادہ حقیقت پسندانہ یا دوسرے معنوں میں سائنسی سوچ اور فکر پر توجہ دی جائے گی اور یہ ایک مثبت رجحان ہوگا، بہت سے جذباتی رویوں، نظریوں اور فلسفوں کا خاتمہ ہوگا اور ایسی رسومات و روایات کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے گی جو عملی طور پر عام انسان کے لیے محض وقت کا زیاں ہوں اور بے فائدہ ہوں مگر اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں خود پرستی اور خود غرضی بہت زیادہ بڑھ جائے گی، لوگ صرف نفع و نقصان کی بنیاد پر قدم آگے بڑھانے کو ترجیح دیں گے، اس سے قریبی رشتے ناتے بھی بری طرح متاثر ہوں گے،یہی صورت حال ملکوں اور قوموں کی بھی ہوگی،کسی ملک یا قوم کے حوالے سے اس سیاروی اجتماع کا جائزہ اس کے ذاتی برتھ چارٹ کے مطابق ہی درست ہوگا، یہاں ہم صرف اس اہم اجتماع سیارگان کے پوری دنیا کے لیے مجموعی اثرات پیش کر رہے ہیں۔
مختصراً ہم نشان دہی کرتے چلیں کہ طالع برج حمل کے تحت افراد یا ممالک کے زائچے میں یہ اجتماع دسویں (تجارت اور انتظامی امور) گھر میں ہوگا، برج ثور سے متعلق افراد و ممالک کے نویں گھر(ترقیاتی اور آئینی امور) میں، برج جوزا سے آٹھویں گھر (حادثات و سانحات) میں،برج سرطان سے ساتویں گھر(تعلقات) میں، برج اسد سے چھٹے گھر(فوجی اور سویلین سرگرمیاں) میں، برج سنبلہ سے پانچویں گھر(اعلیٰ تعلیمی اور دانش ورانہ سرگرمیاں) میں، برج میزان سے چوتھے گھر(داخلی اور عوامی امور) میں، برج عقرب سے تیسرے گھر (قائدانہ فیصلے اور تبدیلیاں) میں، برج قوس سے دوسرے گھر(معاشی حیثیت) میں، برج جدی کے پہلے گھر(ذاتی مفادات) میں ہوگا، چناں چہ مختلف افراد یا ممالک کو اسی حوالے سے دیکھا جائے گا اور مخصوص اثرات نوٹ کیے جائیں گے۔

پاکستان

پاکستان کا طالع پیدائش برج ثور ہے، پاکستان گزشتہ تقریباً 12 سال سے اپنے زائچے کے سب سے منحوس سیارے مشتری کے دور اکبر سے گزر رہا ہے، سیارہ مشتری کا دور اکبر 16 سال کے عرصے پر محیط ہوتا ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ دسمبر 2008 سے اب تک اس دور کے منفی اثرات ہمارے ملک پر نمایاں ہیں، معاشی، اخلاقی، سیاسی، انتظامی، تعمیری،ترقیاتی اور بھی دیگر ہر لحاظ سے ہمارے حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، سونے پر سہاگا ہر سال کی سیاروی گردش بھی نت نئے مسائل اور مصائب کا باعث رہی ہے، تقریباً 2017 سے سیارہ زحل زائچے کے آٹھویں گھر میں آگیا تھا، زحل زائچے کا نہایت اہم ترین سیارہ ہے، دسویں گھر کا مالک ہے جس کا تعلق اعلیٰ عہدے داروں، حکومت اور تجارتی امور سے ہے،سیارہ زحل کی یہ پوزیشن 2019 سے مزید خراب ہوئی کیوں کہ اس پورے سال میں کیتو بھی زحل کے ساتھ حالت قران میں رہا، بے شک جنوری 2020 سے یہ بدترین پوزیشن تبدیل ہوئی اور زحل نے زائچے کے نویں گھر برج جدی میں قدم رکھا جو اس کا اپنا ذاتی برج ہے اور نواں گھر بھی سعادت افروز ہے لیکن زحل کی جس بھرپور توانائی کی ضرورت تھی، وہ 2020 میں حاصل نہیں ہوسکی کیوں کہ زائچے میں پورا سال اس کی موجودگی ابتدائی درجات پر عالم طفولیت کی رہی۔
نئے سال 2021 کے آغاز سے پہلے ہی یعنی تقریباً 20 نومبر 2019 کے بعد سے سیارہ مشتری بھی برج جدی میں داخل ہوگا اور اس طرح مشتری اور زحل کے درمیان ایک ایسے قران کا آغاز ہوگا جو حکومت، تجارت اور اعلیٰ عہدے داران کے لیے کسی طور بھی بہتر نہیں ہوگا، دسمبر ہی سے سیارہ زحل شمس کی قربت کے سبب غروب بھی ہوجائے گا اور یہ صورت حال تقریباً جنوری تک رہے گی، گویا رواں سال کے آخری مہینے نومبر دسمبر بھی زیادہ خوش کن نہیں ہیں، حکومت کے لیے اور عوام کے لیے بھی نئے چیلنج ان مہینوں میں موجود ہیں۔
نئے سال کے آغاز پر سیارہ مشتری کے دور اکبر میں سیارہ قمر کا دور اصغر جاری ہے جو فنکشنل اثرات کا حامل ہے، قمر زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم اور نویں گھر میں قابض ہے، چھٹے گھر کے حاکم سیارہ زہرہ سے قریبی قران رکھتا ہے، اس کی وجہ سے قائدانہ باگ دوڑ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے، یہ دور 7 اگست 2021 تک جاری رہے گا اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انتظامی امور میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی برقرار رہے گی، اگست سے زائچے کے بارھویں گھر کے حاکم سیارہ مریخ کا دور اصغر شروع ہوگا جسے کسی طرح بھی موافق اور بہتر نہیں کہا جاسکتا، مریخ زائچے میں نقصانات کی نشان دہی کرتا ہے اور دنیاوی علم نجوم میں فوج، پولیس سے متعلق ہے، اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ مریخ کا یہ دور جو 7 اگست 2021 سے 14 جولائی 2022 تک جاری رہے گا، ملک میں مکمل فوجی اور بیوروکریٹ عمل داری کا باعث ثابت ہو، گویا سیاسی بساط ہی لپٹ جائے۔
نئے سال کے آغاز میں دسمبر سے جاری کشیدہ سیاسی صورت حال اور بین الاقوامی صورت حال مزید پیچیدہ ہوتی نظر آتی ہے، بہت زیادہ دباؤ حکومت اور وزیراعظم پر ہوگا،ساتھ ہی فوج اور بیوروکریسی بھی دباؤ میں آئے گی،پڑوسی ملک بھارت سے محاذ آرائی اور کسی متوقع جنگ کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،صورت حال کے اس شدید دباؤ کے نتیجے میں موجودہ نظام کے خاتمے اور کسی نئے نظام کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ جائیں گی، اندرون خانہ اس حوالے سے تیاریاں بھی ممکن ہیں۔
فروری میں جیسا کہ سات سیاروں کے نویں گھر میں اجتماع کا ذکر ہوچکا ہے اور اسی مہینے میں پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات بھی متوقع ہیں، چناں چہ سیاسی محاذ آرائی عروج پر نظر آئے گی،سیارہ زحل کی پوزیشن بہتر ہوگی جس کی وجہ سے حکومت اپنی من مانی کرسکے گی لیکن خیال رہے کہ موجودہ سال میں سیارہ زحل مسلسل وقتاً فوقتاً راہو کے نحس اثر سے متاثر رہے گا اور اس کے نتیجے میں کرپشن بڑھے گی اور حکومتی وزرا یا مشیروں کے نت نئے اسکینڈل بھی سامنے آتے رہیں گے، سینیٹ میں بھی حکومت کی پوزیشن بہتر ہوجائے گی لیکن میڈیا اور عوام کے لیے سہولیات کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔
مارچ کے مہینے سے آئین سازی کے معاملات پر زیادہ زور ہوگا، نئے قوانین کے لیے کوششیں تیز ہوں گی،اٹھارہویں آئینی ترمیم میں مزید ترامیم ہوسکتی ہیں، اپوزیشن کا حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور نئی محاذ آرائیاں سیاسی میدان میں نظر آئیں گی مارچ کا مہینہ قدرتی اور غیر قدرتی حادثات و سانحات کے علاوہ وبائی امراض کے خدشات بھی ظاہرکرتا ہے لیکن ساتھ ہی اس مہینے میں عوامی مسائل کے حل کے لیے اور عوامی مفادات کے لیے بھی حکومت کے اقدام سامنے آئیں گے، ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت ہوگی، مارچ کی ابتدا اہم صاحب حیثیت افراد اور اعلیٰ عہدوں پر متمکن شخصیات کے لیے ناموافق نظر آتی ہے۔
اپریل پاکستان اور حکومت پاکستان کے لیے ایک سخت مہینہ نظر آتا ہے جس میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن کی کوششیں تیز ہوں گی،خفیہ ذرائع بروئے کار ہوں گے، پارلیمنٹ کی صورت حال انتہائی متنازع ہوجائے گی، اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اسمبلیوں کو ختم کرنے کے بارے میں سوچا جائے یا ملک میں کسی ریفرنڈم کی ضرورت پر زور دیا جائے جو موجودہ پارلیمانی نظام کو ختم کرنے اور صدارتی نظام لانے کے بارے میں ہوسکتا ہے، اپریل کا مہینہ خصوصاً 15 اپریل سے 15مئی خاصا مشکل اور چیلنجنگ ثابت ہوگا۔
مئی کا دوسرا ہاف ملک میں اہم واقعات لاسکتا ہے، حکومت کی پوزیشن بہتر ہوگی، تجارتی معاملات میں بھی نئے امکانات سامنے آئیں گے اور ملکی ترقی کے لیے اہم فیصلے اور اقدام ہوسکیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی جرائم کی رفتار میں اضافہ ہوگا،عوام کی بہتری کے لیے سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں آئیں گی، میڈیا اور سوشل میڈیا کی بہتری کے لیے بھی نئے امکانات پر غور کیا جائے گا، خیال رہے کہ سال 2021 پاکستان میں میڈیا کے معاملات میں غیر معمولی تبدیلیوں کا سال ہے،میڈیا پر جو غیر ذمے دارانہ رویے دیکھنے میں آتے ہیں اس کے پیش نظر بہت سی نئی تبدیلیاں اس سال متوقع ہیں۔
جون کا مہینہ اہم صاحب حیثیت شخصیات خصوصاً وزیراعظم یا وزراء اور مشیروں کے لیے ایک مشکل مہینہ ثابت ہوگا، اسی طرح میڈیا کے حوالے سے بھی بعض ناخوش گوار واقعات سامنے آسکتے ہیں، عوام اور اپوزیشن دونوں کے لیے یہ ایک بدترین مہینہ ہوگا، عوام کو موسمی حالات کی سختی کا بھی سامنا ہوگا، اسی مہینے میں ملکی قائدین کے غلط فیصلے بھی ان کے اپنے لیے نئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
جولائی کا آغاز اگرچہ خاصا اطمینان بخش نظر آتا ہے لیکن 15 جولائی کے بعد سے صورت حال تبدیل ہوگی، حکومت اور وزیراعظم کے لیے نئے چیلنج سامنے آئیں گے،ساتھ ہی فوجی اور سول بیوروکریسی سے متعلق نئے مسائل اور نئی تبدیلیاں بھی متوقع ہوں گی، خیال رہے کہ سال 2021 فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا آخری سال ہے، اس حوالے سے چہ مہ گوئیاں سامنے آسکتی ہیں کہ وہ اب ریٹائر ہوں گے یا مزید ایکسٹینشن انھیں ملے گی، جولائی کے آخر میں خاص طور پر یہ موضوعات زیر بحث آسکتے ہیں، مزید یہ کہ مون سون کا آغاز ہوگا اور اس سال بھی سابقہ سال کی طرح شدید نوعیت کی بارشیں، سیلابی صورت حال اور دیگر آفات ارضی و سماوی کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اگست سے ایسے وقت کا آغاز ہورہا ہے جو کرپشن سے متعلق اور غیر ذمے دارانہ رویوں سے متعلق صورت حال کو انتہا پر لے جاسکتا ہے، بہت سے غیر معمولی اسکینڈلز اگست کے دوران میں یا بعد میں سامنے آنا شروع ہوں گے جوحکومت کی بدنامی کا باعث ہوں گے، یقیناً اس معاملے میں وزیراعظم اور دیگر مقتدر حلقے اہم اقدام اور فیصلے کرسکتے ہیں، احتساب کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا جائے گا یا پھر پورے نظام ہی کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے، خیال رہے کہ یہ ایسا وقت ہوگا جس میں ایک بار پھر اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے خدشات پیدا ہوسکتے ہیں، وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کی باتیں ہوسکتی ہیں، اگست کا مہینہ ان حوالوں سے بہت ہی اہم نظر آتا ہے،یہ بھی ذہن میں رہے کہ 7 اگست سے زائچہ پاکستان میں سیارہ مریخ کا دور اصغر شروع ہوجائے گا اور جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی ہے کہ مریخ فوج پولیس کا خصوصی نمائندہ ہے، کیا اگست میں حالات کسی ایسے رخ پر جاسکتے ہیں جس کا منطقی انجام جمہوریت کی بساط کو لپیٹ کر ملک میں کوئی ایمرجنسی یا مارشل لا ہوگا؟
اگست کی 12 تاریخ سے 6 ستمبر تک وزیراعظم کے لیے بھی سخت ناموافق وقت ہوگا، ستمبر کا مہینہ حسب سابق بہت زیادہ چیلنجنگ تو نہیں ہوگا لیکن سربراہ مملکت اور ان کی کابینہ کے لیے ضرور دشواریوں کا باعث ہوسکتا ہے جیسا کہ پہلے نشان دہی کی جاچکی ہے کہ اس سال کرپشن اوربے ضابطگیاں بہت زیادہ بڑھ جائیں گی، وزیراعظم کے لیے اپنے ہی لوگوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجائے گا، اس بات کا امکان موجود ہے کہ ستمبر میں کابینہ میں زیادہ بہتر لوگوں کو لایا جائے، اسی طرح سول بیوروکریسی میں بھی اچھی شہرت رکھنے والے ایمان دار لوگوں کو آگے لایا جائے گا،اس اعتبار سے پاکستان کے لیے یہ ایک مثبت اثرات کا حامل مہینہ ہوسکتا ہے۔
اکتوبر کا آغاز پاکستان کے زائچے میں مزید مثبت تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے، خاص طور پر 15 یا 16 اکتوبر تک ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اہم فیصلے اور اقدام ہوں گے،اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں فوجی حلقوں میں خصوصی سرگرمی دیکھنے میں آئے گی اور شاید اس کی وجہ نئے فوجی سربراہ کے انتخاب کا مسئلہ ہوگا، تقریباً 20 اکتوبر سے 15 نومبر تک خاصا ہنگامہ خیز وقت ہوسکتا ہے، پاکستان کے اہم اداروں میں خاصی اکھاڑ پچھاڑ کا امکان موجود ہے، بہت سے سینئر لوگ ریٹائر ہوں گے اور بعض کو شاید جبری طور پر گھر بھیج دیا جائے۔
نومبر کا مہینہ بھی جیسا کہ پہلے نشان دہی کی ہے، خاصی افرا تفری کا مہینہ ہوگا جس میں اہم فیصلے اور اقدام دیکھنے میں آئیں گے،مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ 15 اکتوبر سے شروع ہونے والا وقت تقریباً 15 دسمبر تک بہت زیادہ فعال رہے گا، اس عرصے میں بہت سے عدالتی فیصلے بھی متوقع ہوں گے، بہت کچھ تبدیل ہونے کا امکان موجود ہے، خاص طور پر نومبر کی 15 تاریخ کے بعد خارجہ پالیسی اور بیرون ملک تعلقات میں بہت نمایاں طور پر بہتری کا امکان موجود ہے۔
دسمبر کاابتدائی ہفتہ یقیناً ملکی معاملات میں مثبت پیش رفت کا آئینہ دار ہوگا لیکن 15 دسمبر کے بعد سے کوئی نہایت ناخوش گوار صورت حال سامنے آسکتی ہے،معاشی،داخلی، شدید نوعیت کے اختلافی اور حکومت کے لیے چیلنجنگ ثابت ہونے والے معاملات 15 دسمبر سے 15جنوری تک جاری رہیں گے، واضح رہے کہ سیارہ مشتری دسویں گھر برج دلو میں داخل ہوگا اور جنوری تک اس کی پوزیشن زائچے میں مخدوش حالات کی نشان دہی کرتی ہے چناں چہ 15 جنوری 2021 ء کے بعد ہی پاکستان کا نیا اور تروتازہ چہرہ ہمارے سامنے آسکے گا، ان شاء اللہ۔

ہفتہ، 28 نومبر، 2020

دسمبر کی فلکیاتی صورت حال، وقت کی سختی عروج پر

دگرگوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

 سال 2020 ء کا آخری مہینہ شروع ہورہا ہے، بے شک اس مہینے میں سیارہ شمس اور زہرہ کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لیکن سیارہ مشتری کی پوزیشن نہایت خراب ہوچکی ہے، 20 نومبر کو وہ اپنے برج ہبوط میں داخل ہوگیا تھا، نہ صرف یہ کہ مشتری اپنی خراب پوزیشن نقصان دہ ہے بلکہ پاکستان کے زائچے میں بھی مشتری زائچے کا سب سے زیادہ منحوس اثر رکھنے والا سیارہ ہے، چناں چہ 20 نومبر کے بعد سے زائچے کے پہلے، تیسرے، پانچویں اور نویں گھروں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اور دسویں گھر کے حاکم زحل کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہا ہے جس کا دباؤ حکومت اور وزیراعظم پر ہوگا، اسی طرح زائچے کے نویں گھر میں سیارہ زہرہ اور قمر بھی موجود ہیں، مشتری انھیں بھی متاثر کرے گا جس کی وجہ سے خدشات ہیں کہ غلط فیصلے اور اقدام دیکھنے میں آسکتے ہیں، سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اس دوران میں ان محکموں میں تبدیلیوں کا امکان بھی موجود ہے۔

زائچہ ء پاکستان کے مطابق ہر سال تقریباً 15,16 دسمبر سے تقریباً 15 جنوری تک کا عرصہ ایک مشکل وقت ہوتا ہے، اس سال بھی یہ وقت قریب ہے، اگر مشکل اوقات میں دانش مندی اور تدبر کے ساتھ فیصلے اور اقدام کیے جائیں تو مشکلات آسان ہوجاتی ہیں، افسوس کہ ہمارے ہاں نہ ایسے دانش ور ہیں اور نہ مدبر، اس ملک کی سیاست میں وہ لوگ فعال ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار بنا رکھا ہے، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے کیا ہونا چاہیے، ہماری یہ سیاسی اشرافیہ اس بری طرح اس ملک کے سیاہ و سفید پر حاوی ہوچکی ہے کہ اب کوئی بڑا انقلاب ہی ان سے نجات کا باعث ہوسکتا ہے جس کا فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
نئے سال 2021 کی نمود انتہائی قریب ہے، 15 جنوری سے زائچہ ء پاکستان میں سیاروی پوزیشن بہتر ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی سال کے شروع ہی میں ایک بڑا سیاروی اجتماع بھی ہونے جارہا ہے، یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی 26 دسمبر کو سعد سیارگان برج قوس میں جمع ہوئے تھے اور ہم نے نشان دہی کی تھی کہ اب دنیا نظریاتی طور پر تبدیل ہونے جارہی ہے،برج قوس مذہب، آئین و قانون اور مستقبل کے ترقیاتی امور سے متعلق برج ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ سال 2020 میں بہت بڑی نظریاتی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، اسرائیل کے متحدہ عرب امارات، سوڈان اور سعودیہ عربیہ سے تعلقات میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی، مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ جس طرح پچھلے کئی سال سے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے تھے اس کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے، ان کی جگہ نئے امریکی صدر مسٹر جوبائیڈن الیکشن جیت چکے ہیں، خیال رہے کہ مسٹر جوبائیڈن کا طالع پیدائش بھی میزان ہے جو عمران خان اور روس کے صدر مسٹر پیوٹن کا ہے، اس طرح اب دنیا میں تین میزانی افراد حکمران ہوں گے۔
اس سال جنوری فروری میں جو عظیم سیاروی اجتماع ہورہا ہے اس پر ہم نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ان شاء اللہ آئندہ ہفتے سال 2021 کے حوالے سے ہمارا مضمون آپ کے سامنے ہوگا ؎

دگرگوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرّہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی

دسمبر کی سیاروی پوزیشن

سیارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے اور 16 دسمبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، دونوں برجوں میں اس کی پوزیشن بہتر ہوگی،البتہ برج حمل، جوزا، قوس والوں کے لیے 16 دسمبر تک کچھ مشکل وقت رہے گا، 16 دسمبر سے 16 جنوری تک برج ثور، سرطان اور جدی والوں کے لیے مشکل وقت ہوگا۔
سیارہ عطارد بھی برج عقرب میں ہے اور شمس سے قریب ہونے کی وجہ سے غروب حالت میں ہے، 18 دسمبر کو برج قوس میں داخل ہوگا اور سارا مہینہ اسی برج میں رہے گا، گویا اس کی پوزیشن ناقص اور کمزور ہے جس کی وجہ سے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، عطارد کی خراب پوزیشن 13 جنوری 2021 ء تک رہے گی۔
سیارہ زہرہ اپنے ذاتی برج میزان میں ہے اور طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے، 12 دسمبر کو برج عقرب میں داخل ہوگا اور مہینے کے آخر تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ وقت دوسروں سے تعلقات بہتر بنانے اور ناراضیاں دور کرنے میں مددگار ہوگا، اس وقت میں دوستی، محبت اور منگنی جیسے امور کی انجام دہی بہتر ہوگی۔
سیارہ مریخ برج حوت میں حرکت کر رہا ہے، 25 دسمبر کو اپنے ذاتی برج حمل میں داخل ہوگا جہاں اس کی پوزیشن بہتر ہوگی، سیارہ مشتری اپنے ہبوط کے برج جدی میں داخل ہوچکا ہے اور آئندہ سال مارچ تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ مشتری کی انتہائی خراب پوزیشن ہے، ترقیاتی امور میں رکاوٹ لاتی ہے، سیارہ زحل اپنے ذاتی برج جدی میں ہے، 10 دسمبر سے زیادہ باقوت پوزیشن میں ہوگا، راہو کیتو اپنے شرف کے بروج ثور اور عقرب میں حرکت کر رہے ہیں اور مستقیم حالت میں ہیں، یہ سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق دی جارہی ہیں۔

قمر در عقرب

قمر ماہ دسمبر میں اپنے ہبوط کے برج میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 12 دسمبر کو رات تقریباً10:25 pm پر داخل ہوگا، برج عقرب میں اس کا قیام 14 دسمبر شب 10:55 pm تک رہے گا، یہ نہایت نحس اثرات کا حامل وقت ہے، اس وقت کسی نئے کام کی ابتدا نہ کریں ورنہ نتائج توقع کے مطابق حاصل نہیں ہوں گے بلکہ کچھ نئی پریشانیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں، اس نحس وقت میں علاج معالجہ کرانا،بیماریوں سے نجات،بری عادتوں کی روک تھام اور ظالموں کے خلاف کارروائی کے اعمال کیے جاسکتے ہیں، اس ماہ میں قمر در عقرب کے علاوہ ایک چاند اور ایک سورج گہن بھی ہے لہٰذا ایسے ضروری عملیات دیے جارہے ہیں جو ان اوقات میں کیے جاسکتے ہیں۔
میاں بیوی میں محبت کے لیے عمل خاص
زن و شوہر میں اختلافات، مزاجی ناہمواری، باہمی لڑائی جھگڑا، محبت کی کمی وغیرہ کے لیے یہ ایک مجرب طریقہ ہے اور صرف شادی شدہ خواتین و حضرات ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نہایت آسان بھی ہے۔ گرہن کے درمیانی وقت میں ایک سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے پوری بسم اللہ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔
والقیت علیک محبۃ فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبۃ فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمدؐ و خدیجۃ الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً
اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ (چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔
خیال رہے کہ مندرجہ بالا نقوش لکھتے ہوئے باوضو رہیں، پاک صاف کپڑے پہنیں، علیحدہ کمرے کا انتخاب کریں، لکھنے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنے مقصد کو ذہن میں واضح رکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، رجال الغیب کا خیال رکھیں کہ آپ جس طرف رخ کر کے بیٹھے ہوں وہ آپ کے سامنے نہ ہوں، رجال الغیب کا نقشہ اس کتاب میں دیا جارہا ہے، اس سے مدد لیں۔
ناجائزو ناپسندیدہ تعلق کا خاتمہ
اکثر والدین اپنے بیٹے یا بیٹی کی ایسی محبت یا وابستگی سے پریشان رہتے ہیں جو ان کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لڑکا یا لڑکی ایک غلط راستے پر چل رہے ہیں۔
ایسی صورت میں طریقہ یہ ہے کہ گہن کے وقت کسی علیحدہ کمرے میں باوضو بیٹھ کر مندرجہ ذیل سطور کسی سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں اور کا غذ کو تہہ کر کے تعویذ کی شکل بنا لیں اور پھر اس کاغذ کو کسی بھاری وزنی چیز کے نیچے دبا دیں یا قبرستان میں دفن کردیں، اگر ایسے دو نقش تیار کیے جائیں اور دونوں کو لڑکا اور لڑکی انشاء اللہ دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجائے گی۔
”احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم تعلق فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں عَقدَت قُلوبِھم ابداً یا حراکیل بحق یا قابض یا مانع العجل العجل الساعۃ الساعۃ“

دو افراد کے درمیان عداوت و دشمنی

اکثر دو افراد کے درمیان عداوت یا دشمنی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتی ہے،اس کا خاتمہ ضروری ہے، اکثر تو اس بنیاد پر باہمی قریبی رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی صورت حال کے لیے درج ذیل عمل مفید ثابت ہوگا، دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون کر رہا ہے؟ لہٰذا نقش لکھتے ہوئے پہلے اُس فریق کا نام مع والدہ لکھیں جو ظلم و زیادتی کر رہا ہو اور بعد میں اس کا نام لکھیں جو حق پر ہو اور اس ساری دشمنی میں اپنا دفاع کر رہا ہو۔
احدرسص طعک لموہ لادیایا غفور یا غفور بستم اختلاف و عداوت فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں بحق صمُ بکمُ عمیُ فہم لایعقلون یا حراکیل العجل العجل العجل الساعۃ الساعۃ الساعۃ الوحا الوحا الوحا
کسی صاف کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے دو نقش گہن کے وقت لکھیں اور موم جامہ یا اسکاچ ٹیپ لپیٹ کر اُس راستے میں دائیں بائیں کسی سائیڈ دفن کردیں، جہاں سے اُن کا گزر ہوتا ہو، زمین میں دفن کرنے سے پہلے نقش پر کوئی وزنی پتھر بھی رکھ دیں، بعد ازاں کچھ مٹھائی پر فاتحہ دے کر بچوں میں تقسیم کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔

مخالف کی زبان بندی

عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں۔ انشاء اللہ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل

شرف قمر

دسمبر میں قمر اپنے شرف کے برج ثور میں 26 دسمبر شام تقریباً 5 بجے داخل ہوگا اور 29 دسمبر تقریباً 4 بجے صبح تک رہے گا، یہ نہایت سعد اور مبارک اوقات ہیں، اس وقت میں اپنے جائز مقاصد کے لیے نیک اعمال کیے جاسکتے ہیں، اس حوالے سے خصوصی وقت برائے شرف قمر 27 دسمبر کو دوپہر تقریباً ایک بجے سے 2 بجے تک ہوگا، اس وقت میں ضروری اعمال و وظائف کیے جاسکتے ہیں،اس موقع پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عمل جو 786 مرتبہ پڑھا جاتا ہے اور گھر میں محبت، اتفاق، خیروبرکت کے لیے بہت مؤثر ہے اور ہم اکثر دیتے رہتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھائیں، دوسرا اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم کا عمل بھی اس وقت میں کیا جاسکتا ہے، شرف قمر میں برکاتی انگوٹھی یا لوح قمر نورانی بھی تیار کی جاتی ہے، ہماری کتاب مسیحا حصہ سوم میں ان کی تیاری کا طریقہ دیا گیا ہے، جو لوگ عمل و وظائف کے شائق ہے انھیں یہ کتاب ضرور اپنے پاس رکھنا چاہیے۔

چاند گہن

پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 30 نومبر کو جزوی چاند گہن ہوگا، گہن کا آغاز دن کے وقت 12:32:22 pm پر ہوگا اور انتہائی نکتہ ء عروج دوپہر 02:42:53 pm پر ہے جب کہ گہن کا اختتام 04:53:22 pm کے بعد ہوگا، دن ہونے کی وجہ سے یہ گہن پاکستان میں نظر نہیں آئے گا جب کہ چلی، فلپائن، امریکا، کنیڈا، آسٹریلیا وغیرہ میں دیکھا جاسکے گا۔

سورج گہن

اس سال کا آخری سورج گہن 14 دسمبر کوہوگا، گہن کا آغاز 06:33:55 pm پر ہوگا جب کہ 07:52:34 pm سے گہن نظر آنا شروع ہوگا، اس کا نکتہ عروج 09:13:28 pm پر ہوگا اور اختتام رات 11:53:03 پر ہوگا، پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں یہ گہن نظر نہیں آئے گا۔

بھاگنے والے کو روکنے کے لیے

اس وقت کسی کو روکنے، ملازمت یا مکان میں مستقل قیام وغیرہ کے لیے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم قدم دریں مکان فلاں بن فلاں بیرون قرار نہ باید العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔
اگر علم جفر سے تھوڑی بہت واقفیت ہے اور نقش وغیرہ بنانے کی صلاحیت بھی ہے تو مندرجہ بالا عمل کا نقش بھی تیار کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے مقصد کی سطر کے اعداد نکال کر ایک مثلث خاکی چال سے پُر کرلی جائے اور باقی حروف نقش کے چاروں طرف لکھ دیے جائیں۔

خواب بندی یا دشمنوں سے نجات

گہن کے وقت میں دشمن سے نجات، دشمن کے خلاف کارروائی اور خواب بندی وغیرہ کے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم خواب خود فلاں بن فلاں فی حق فلاں بن فلاں، قرار نہ باشد العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔

عمل دیگر

مخالفین، حاسد، اور دشمنی کرنے والے یا کسی قسم کا نقصان پہچانے والوں کا تصور کیا جائے تو وہ سب ہاتھ باندھے ہوئے کھڑے ہیں اور ایک مرتبہ سورۂ عبث پڑھ کر ان پر پھونک ماری جائے اور زبان سے کہا جائے یا رب العالمین ان سب کے شر سے محفوظ رکھ۔

تسخیر حکام

گہن کے اوقات میں اعلیٰ حکام یا افسران بالا کی زبان بندی یا ان کے ظلم و زیادتی سے نجات کے لیے عمل کرنا چاہیے، اگر اس وقت ساعتِ شمس بھی میسر ہو تو سونے پہ سہاگا ہوگا۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم عقل و خرد فلاں بن فلاں فی حق فلاں بن فلاں العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔

ناجائز تعلق سے روکنا

گہن کے اوقات میں خواتین کی خواب بندی، ان کے دل میں جگہ بنانے کے لیے یا کسی بدکار عورت کو ناجائز تعلق سے روکنے کے لیے عمل کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم عقد التعلق عاشقی فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں لا تزنی العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔
زبان بندی
گہن کے اوقات میں زبان بندی، مخالف بولنے والے کے خلاف کارروائی، دو افراد کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے عمل، سفر پر جانے والے کو روکنے یا ذہنی خرابیوں مثلاً جھوٹ بولنا اور بری عادتوں میں مبتلا ہونا، کے لیے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور عقد السان فلاں بن فلاں فی حق فلاں بن فلاں صم بکم عمی فھم لایرجعون العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔

دماغی خرابیوں کے لیے

گہن کے اوقات میں ساعتِ قمر کا انتخاب کیا جائے،اس وقت مہلک بیماریوں سے نجات اور خصوصاً دماغی خرابیوں کے علاج کے لیے نقش و طلسم تیار کرنا چاہیے۔
احد رسص طعک لموہ لادیا یا غفور یا غفور بستم دورۂ مرگی فلاں بن فلاں ابداً العجل العجل الساعۃ الساعۃ یا حراکیل۔
عزیزان من! قمر در عقرب یا سورج اور چاند گہن سے درست طریقے پر فوائد کا حصول مندرجہ بالا اصول و قواعد کے مطابق ہوسکتا ہے، ہمارے اس طریق کار کو آپ نہایت مجرب پائیں گے، اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے مزید ساعتیں بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہیں، ساعت نکالنے کے طریقے کار کو سمجھنے کے لیے ہماری کتاب مسیحا حصہ اول آپ کے پاس ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ہماری ویب سائٹ پر بھی ساعت معلوم کرنے کے طریق کار کو واضح کیا گیا ہے۔

پیر، 23 نومبر، 2020

دنیا کے معروف کاہن اور ان کے پراسرار واقعات

 

ایران میں جادو

یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران میں جادو کی ابتدا کس طرح ہوئی لیکن تاریخی واقعات و شواہد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عراق کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہاں بھی اہلِ بابل کے ذریعے ہی جادو رائج ہوا ہوگا، زرتشت جسے پارسی مذہب کا بانی قرار دیا جاتا ہے، اندازاً پندرہ سو قبلِ مسیح تک زندہ تھا، تاہم بعض دیگر کتب ”ژند اوستا“ وغیرہ کے مطابق جس میں اس کا نام بھی موجود ہے وہ شاید اس سے بھی کافی پہلے وجود رکھتا تھا، اس کے مذہب کے بنیادی اصول میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں دو عظیم قوتوں، خیر اور شر کا تصادم برپا ہے جو ازلی اور ابدی ہے، آخر کار خیر، شر پر غالب آجائے گا۔
پارسی 591 قبلِ مسیح میں موجود تھے، وہ جادو گر یا دانا انسانوں کی حیثیت سے مشہور تھے اور زرتشت کے افکار و نظریات کا پرچار کرتے تھے اور جس زمانے میں سائرس اعظم نے عظیم ایرانی سلطنت قائم کی تو اس زمانے میں بھی موجود تھے اور اسی زمانے میں بنی اسرائیل بھی بابل میں قیدیوں کی حیثیت میں موجود تھے کیوں کہ ماضی کا عظیم کلدانی شہنشاہ بختِ نصر جب فلسطین پر حملہ آور ہوا اور بنی اسرائیل کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس نے ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کردیا تو بنی اسرائیل کو غلام بنا کر بابل لے آیا، تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے تک ”چاہِ بابل“ بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے موجود تھے جہاں دو فرشتے ہاروت اور ماروت اپنی دنیاوی سزا بھگت رہے تھے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ بابل کا علم و فن کسی دور میں بابل سے نکل کر یونان و مصر تک اور مشرق میں ایران و ہندوستان تک پھیلا ہوگا کیوں کہ سائرس جسے بعض لوگ غلط فہمی کی وجہ سے سکندر ذوالقرنین بھی سمجھتے ہیں، ایک بہت بڑی سلطنت کا فرماں روا تھا جو مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی، اسے بلاشبہ فاتح اعظم ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی کے دور میں یہودیوں کو بابل سے رہائی ملی۔
یہ وہ دور تھا جب سحریات اور دوسرے علوم اپنے عروج پر تھے، مصر اور یونان میں پراسرار علوم کے ماہرین کی تنظیموں کے ریاستی معاملات پر عموماً بہت گہرے اثرات ہوتے تھے، ایران میں بھی انہیں مکمل سیاسی غلبہ حاصل تھا،مقدس مذہبی فلسفہ اور سائنس ان کے ہاتھ میں تھے اور وہ بیماروں کا روحانی اور جسمانی علاج کیا کرتے تھے، تاریخ میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ماہرین مختلف وجوہات کی بنیاد پر مختلف ادوار میں مشرق اور مغرب کی طرف ہجرت کرتے گئے اور عرب میں بھی ان کے اثرات زمانہ ء جاہلیت میں نظر آتے ہیں لیکن یہ طے کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ بابل اور مصری تہذیبوں میں اس حوالے سے کس کو اولیت حاصل ہے،اگر بہت باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور ساتھ میں الہامی کتب سے بھی مدد لی جائے تو نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا پہلا مرکز ارضِ فلسطین اور عراق و عرب قرار پائیں گے کیوں کہ دنیا کے پہلے انسان یعنی ابوالبشر حضرت آدم ؑ نے خانہء کعبہ کی بنیاد رکھی، گویا نسل انسانی کا پھیلاؤ مکہء معظمہ سے شروع ہوا مگر اس حقیقت کو دیگر مذاہب تسلیم نہیں کرتے اور حضرت آدم ؑ کے زمین پر قیام کے سلسلے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے اور غیر مذہبی یا جدید سائنسی نظریہ تو انسان کا وجود حضرت آدم ؑ سے پہلے بھی تسلیم کرتا ہے لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑناچاہتے۔

معلوم تاریخ کی پہلی ہجرت

بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ عراق و فلسطین حضرت آدم ؑ کے بعد اولادِ آدم کا قدیم ترین مرکز رہے ہیں، ہابیل و قابیل کے واقعے نے انسانوں کے درمیان خیر و شر کی فصیل کھڑی کردی تھی اور اس طرح اولادِ آدم دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک گروہ وہ تھا جو حضرت آدم ؑ کے بعد سلسلہء نبوت سے سرفراز تھا اور دوسرا اس کا مخالف تھا اور گمراہی کا راستہ اختیار کرچکا تھا، آخر کار حضرت ادریس ؑ کے دور میں شرکی قوت اتنی بڑھ گئی کہ آپ کو فلسطین سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا اور آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مصر چلے گئے ۔
روایات سے اور آسمانی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علمِ نجوم حضرت ادریس کو معجزے کے طور پر عطا ہوا تھا، اس کے علاوہ بھی آپؑ دنیا میں بہت سی چیزوں کے مؤجد سمجھے جاتے ہیں، قلم اور تحریر بھی آپ کی ایجاد ہے، آپ نے مصر میں زراعت کو فروغ دیا، دریا سے نہریں نکالنے اور پتھروں سے عمارتیں تیار کرنے کا خیال بھی آپ کا ہے۔
اس ابتدائی انسانی تقسیم کے بعد بابل اور مصر کے لوگوں نے بہت تیز رفتار ترقی کی لیکن انبیاء کے نزول کا سلسلہ عراق و فلسطین میں زیادہ نظر آتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ معلوم تاریخ میں ہم ان علاقوں میں آنے والے انبیاء سے زیادہ واقف ہیں اور نمایاں طور پر حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد ہماری نظر میں ہے۔

جادو اور دیومالا

جادو کا دنیا کے مختلف علاقوں کی دیومالاؤں سے گہرا تعلق ہے، نیز فلسفے کے قدیم عقائد سے بھی ۔ پُراسرار ”کابیری“ کی پرستش بہت قدیم زمانوں میں بھی کی جاتی تھی اور فونیقی بھی کرتے تھے، اس کی پوجا کا آغاز مصر سے ہوا تھا اور میمفس کا معبد اس کے لیے مخصوص تھا، یہ قدیم روم میں بھی موجود ہے، لیمنوس کا جزیرہ کابیری کی پرستش کے حوالے سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے، یہاں ولکن کی پرستش بھی کی جاتی تھی جس کی علامت آگ تھی، اس جزیرے میں کابیری اور ولکن کے سامنے پراسرار رسوم ادا کی جاتی تھیں،کابیری پوجا کی پراسرار رسومات یونان کے دیگر شہروں میں بھی موجود تھیں،کہا جاتا ہے کہ یہ رسوم رات کی تاریکی میں ادا کی جاتی تھیں،اس مسلک میں شامل ہونے کے خواہش مند کے سر پر زیتون کے پتوں کا تاج رکھا جاتا اور اس کی کمر کے گرد سرخ رنگ کی پیٹی باندھ دی جاتی، اسے ایک روشن تخت پر بٹھا دیا جاتا اور دیگر لوگ مستانہ وار اس کے گرد رقص کرتے،ان تقریبات میں جو عمومی نظریہ پیش کیا جاتا تھا وہ تھا موت کے ذریعے اعلیٰ ترین زندگی تک رسائی، امکان ہے کہ جب مذبی پیشوا تنویمی اثر میں ہوتے، تب ان پر مختلف چیزوں کے حوالے سے انکشافات ہوتے اور وہ پیش گوئیاں کرتے، آج کے زمانے کی جدید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہمارے ارد گرد ان فضا میں اگر کسی طریقے سے ارتعاش پیدا کیا جائے تو مافوق الفطرت مظاہر کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا بھرپور ارتکاز توجہ کے ساتھ خاص نوعیت کی حرکات و سکنات یا لفظی تکرار بھی کائنات کی فضا میں کسی ارتعاش کا باعث ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں محیّر العقول کیفیات یا نظارہ مشاہدے میں آسکتا ہے، اسی صورت حال کو تنویمی اثر بھی کہا جاسکتا ہے اور اس کے زیر اثر انسان پیش گوئی یا کوئی سحری کمال بھی دکھا سکتا ہے۔

ڈیلفی کا دارالاستخارہ

پیشن گوئیوں کے پر اسرار فن میں ”ہاتفوں“یعنی کاہنوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، یہ بنیادی طور پر سحری اثرات کے زیرِ اثر ایک ٹرانس کی کیفیت میں پیش گوئی کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں بعض معبد بہت مشہور ہوئے اور ان کے مخصوص کاہن یا کاہنائیں بھی مشہور ہوئیں،تاریخ میں ”ڈیلفی کا دارالاستخارہ“ نہایت مشہور ہے اور اس کی کاہنہ کا بھی بہت چرچا ہے، یہ دارالاستخارہ کئی سو سال قبل مسیح سے ساری دنیا کی نظروں کا مرکز تھا، سائرس اعظم سے جس یونانی بادشاہ نے مقابلہ کیا اس نے ہی اسی استخارہ سینٹر سے رہنمائی لی تھی جو الٹی ہوگئی، اسے بتایا گیا تھا ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کو شکست دے کر اپنا غلام بناکر ساتھ لے جائے گا، اس نے سمجھا کہ وہ سائرس کو شکست دے کر اپنا غلام بنائے گا لیکن نتیجہ اس کے برعکس تھا یعنی اسے شکست ہوئی اور سائرس اسے اپنا غلام بناکر ایران لے گیا۔
روایات سے پتہ چلتا ہے ڈیلفی کے اس استخارہ سینٹر کو کوری ٹاس نامی چرواہے نے ایک غار سے نکلتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے دریافت کیا تھا، یہ دھواں فطری تھا یا نہیں اس کا کچھ پتہ نہیں ہے، چرواہا وہیں کا وہیں ہکا بکا رہ گیا ہے،اُس کی آنکھوں کے سامنے زمین کے ایک سوراخ سے نکلنے والا دھواں حیرت انگیز تھا، وہ خو د بخود کچھ الفاظ ادا کرنے لگا پھر وہاں ایک تپائی رکھ دی گئی، جوابات کے وسیلے کے طور پر ایک لڑکی کو منتخب کیا گیا جو معمول کے طور پر خدمات انجام دیتی تھی، یہ فرض کیاگیا تھا کہ اس لڑکی کے ذریعے جوابات غیب سے آئیں گے (ہمارے ہاں آج بھی حاضرات کے ایسے طریقے مروج ہیں جن میں کسی معصوم بچے پر حاضرات کھلوائی جاتی ہے، کیا یہ کسی قدیم روایت کی کڑی نہیں ہیں؟)
بعد ازاں اس مقام پر لارل کے پتوں سے ایک کُٹیا بنادی گئی اس کے بعد مذہبی پیشواؤں نے سنگِ مرمر کا شاندار معبد بنادیا اور پیتھونیس نامی لڑکی کو معمول مقرر کردیا گیا، کہاجاتا ہے کہ اس کاہنہ نے مقدس فوارے کا پانی پیا تھا جوکہ صرف اس کے لیے مخصوص تھا اور لارل کا پتا چبایا تھا، اس کے سر پر لارل کے پتوں کا تاج رکھا گیا تھا جو شخص اس سے کچھ پوچھنا چاہتا پہلے اسے کسی جانور کی بھینٹ دینی ہوتی تھی اس کے بعد وہ ایک سوال لکھ کر اس لڑکی کو دے دیتا وہ سوال کو ہاتھ میں لے کر سونے کی چوکی پر بیٹھ جاتی جو غار کے منہ پر رکھی گئی تھی، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ یہ کاہنہ سال میں صرف ایک خاص مہینے میں بولا کرتی تھی اور شروع شروع میں تو وہ صرف ایک مخصوص مہینے کی ساتویں تاریخ کو بولا کرتی تھی، یہ دن ایک یونانی دیوتا اپالو کی پیدائش کا دن تھا۔
اسی طرح ایک اور یونانی معبد کشف یا استخارے کے لیے مشہور تھا، مذہبی پیشوا دیوتا کی شبیہہ باہر لے جاتے تھے لیکن وہ شبیہہ بولتی نہیں تھی صرف سر ہلاکر جواب دیتی تھی، بعض اوقات مذہبی پیشوا خود اس کے اشاروں کو نہ سمجھ پانے کا اعتراف کرتے تھے چناں چہ سر کے اشاروں سے دیے گئے جوابات کے نتیجے میں سوال کنندہ تشنہ ہی رہ جاتا۔
مقدونیہ کے فاتح اعظم سکندر دی گریٹ کی پیدائش بھی ایک کاہن کی پیش گوئی کے مطابق ہوئی تھی، یونان میں ڈیانا دیوی کے مندر (واضح رہے کہ ڈیانا دیوی کا معبد قدیم دنیا کے سات عجائبات میں شامل رہا ہے اور اسے معبد مشتری بھی کہا جاتا ہے اور مشتری کو قدیم یونانی زبان میں زیوس کہتے تھے) کے مذہبی پیشوا نے اس کی ماں کو بتایا کہ زیوس کا بیٹا اس کی کوکھ سے جنم لے گا (یونان میں ستارہ پرستی عام تھی) چناں چہ اپنی زچگی کے آخری دنوں میں اس کا قیام مستقل معبد مشتری میں رہا جہاں سکندر پیدا ہوا، وہ زندگی بھر سکندر کو دیوتا زیوس کا بیٹا سمجھتی رہی، اپنے شوہر سے ہمیشہ اُس کے تعلقات خراب رہے۔
قصہ مختصر یہ کہ زمانہئ قدیم میں کہانت بھی جادو کی ایک شاخ تھی، اس کے ذریعے مستقبل کے بارے میں سوالوں کے جواب حاصل کیے جاتے تھے، حضور اکرم ؐ کی مشہور حدیث اسی کہانت کے بارے میں ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے کاہن کی بات پر دھیان دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے، قبل اسلام عرب میں بھی کہانت کا بہت زور تھا۔

چند مشہور کاہن

یونان ہی میں پازا نیاس نے جوپیٹرٹروفونیئس کے کاہن کا تذکرہ کیاہے، وہ اپنے زمانے کا سب سے زیادہ ماہر معمار تصور کیاجاتا تھا، ایک روایت کے مطابق ایک زلزلے کے دوران وہ ایک غار میں گم ہوگیا، اس کے بعد وہ غار پیش گوئیاں کرنے لگا، سوال کاجواب دریافت کرنے والے کو غار کے اندر جاکر بھینٹ دینی پڑتی تھی اور ٹروفونیئس یا اُس کی روح کبھی خواب میں اور کبھی بلند آواز میں سوال کا جواب دیتی تھی، بہ ظاہر یہ ایک عجیب نوعیت کا پراسرار معاملہ ہے لیکن جو لوگ روحیت اور ہمزاد کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے آگاہ ہیں، ان کے لیے اس میں کوئی پراسراریت نہیں ہونی چاہیے، ایک اوریجنل کاہن یا اعلیٰ درجے کا معمول (Medium) اپنی موت کے بعد بھی اپنے ہمزاد کے ذریعے دنیا میں متحرک ہوسکتا ہے اور دوسروں کی مثبت یا منفی رہنمائی اپنی سابقہ نالج کے مطابق کرسکتا ہے،ایسے واقعات آج بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں، ہماری تحقیق کے مطابق آواگون کا مسئلہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے، وہ لوگ جو اپنے پچھلے جنموں کی باتیں کرتے پائے گئے ہیں تو یقیناً کسی قدیم ہمزاد کے رابطے میں رہے ہیں اور وہ ہمزاد انھیں اپنی زندگی کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا ہے جب کہ وہ اسے اپنے پچھلے جنم کی کتھا سمجھ کر دوسروں کو سناتے اور حیران کرتے ہیں ورنہ درحقیقت آواگون اور پچھلے جنم جیسے نظریے کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ڈیلوس اور برانچس کے کاہن بھی بہت اعلیٰ ساکھ کے حامل تھے، سوالوں کے جواب ایک کاہنہ 3 دن کے بعد دیا کرتی تھی، وہ عورت ایک خوب صورت چھڑی پکڑے ایک دوسری سلاخ پر بیٹھ جاتی جوکہ ایک ابلتے ہوئے چشمے کے آر پار نصب ہوتی تھی، وہ وہاں بیٹھ کر بھاپ کو سانس کے ساتھ سینے میں سمو لیا کرتی اس سے جواب حاصل کرنے کے لیے خصوصی تقریب اور بھینٹ ضروری ہوتی تھی، سوال کنندہ کو غسل کرکے فاقہ کرنا پڑتا اور تنہائی میں رہنا پڑتا۔
مصر میں بھی یہی صورت حال تھی، کاہنوں نے پرانے زمانے کے لوگوں کے ذہنوں پر زبردست اثرات ڈالے تھے، کاہنوں یا کاہناؤں کا انتخاب مذہبی پیشواؤں کے طبقے سے کیا جاتا تھا، انہیں باقاعدہ غیب دانی کی تعلیم دی جاتی تھی، وہ ساری زندگی اس مذہبی منصب پر فائز رہتے اور کوئی جرم خواہ کتنا ہی گھناؤنا کیوں نہ ہوتا ان کی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا اور انہیں ان کے منصب سے محروم نہیں کرسکتا تھا، وہ قدرتی احکامات کی تعبیر بھی بتایا کرتے، دیوتاؤں کو چڑھائی جانے والی بھینٹ کے جانوروں کا تعین کرتے اور رسومات منانے کا اہتمام کرتے، ان کااثر رسوخ بہت زیادہ تھا، چھوٹے افسروں سے لے کر حاکموں تک کے عہدوں کی توثیق کیا کرتے تھے، جنگ لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ وہ کرتے تھے، عوامی ذہنوں پر ان کا غلبہ مکمل تھا اور کوئی شخص ان کے فیصلوں کو رد نہیں کرسکتا تھا کیونکہ ان کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ وہ دیوتاؤں کے مقرب خاص ہیں، یہ کاہن مختلف چیزوں اور واقعات سے شگون بھی لیا کرتے تھے، جیسے پوجا یا کسی اور رسم کی ادائیگی کے وقت کسی پرندے کا اچانک آجانا یا بلی وغیرہ کا آجانا جیسا کہ ہمارے یہاں بھی بلی کا سامنے سے گزر جانا برا شگون مانا جاتا ہے۔
کاہنوں کے حوالے سے یہ عقیدہ بھی مشہور تھا کہ ان کا رابطہ جنات، ارواح یا دیگر ماورائی قوتوں سے رہتا ہے اور اس کے لیے وہ خصوصی عبادات و ریاضت بھی کیا کرتے تھے، گویا یہ لوگ یقیناً اعلیٰ درجے کے معمول ہوا کرتے تھے جن کے لیے جنات، ارواح یا بھٹکے ہوئے کسی ہمزاد سے رابطہ کرنا آسان ہوتا تھا، مزید مختلف ریاضتیں بھی انھیں اس قابل بناتی تھیں، بالکل آج ہی کی طرح جیسے کہ آج کل بھی لوگ ایسے ہی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، اگرچہ ان کی اکثریت ناکامی کی شکار ہوتی ہے کیوں کہ اکثریت کو خود اپنے بارے میں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس کام کے لیے مناسب اور موزوں بھی ہیں یا نہیں، ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس راستے پر جانے والے اکثر افراد فطری طور پر مادہ پرست ہوتے ہیں، دولت اور اقتدار کی ہوس انھیں ایسے کاموں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور عام طور پر وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہوتے، ایک اعلیٰ درجے کے معمول میں کیا خصوصیات ہونا چاہئیں یہ صرف علم نجوم ہی کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے۔(جاری ہے)

ہفتہ، 14 نومبر، 2020

انسانی معاشرے میں جادو کی ضرورت،ابتدأ اور انتہا(6)

اہل بابل کا جادو، شہر نمرود کے چھ عجیب طلسمات

 مغربی محققین کی نظر میں جادو کے کردار اور نظریات پر پہلے بات ہوچکی ہے اور اس حوالے سے زمانہ قدیم میں جادو اور مذہب کے درمیان جو تعلق رہا ہے اس کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قدیم اقوام عالم جادو کو مذہب کا حصہ سمجھتی تھیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک اہم ضرورت خیال کرتی تھیں کیونکہ ان کے تمام مسائل جادو کے ذریعے ہی حل کیے جاتے تھے، یہاں تک کہ عبادات کے سلسلے میں بھی جادو سے متعلق رسومات ادا کی جاتی تھیں، ان کے مذہبی و روحانی پیشوا عموماً اعلیٰ درجے کے جادو کے ماہرین ہوا کرتے تھے، وہ کہانت کے ذریعے لوگوں کو ان کے حال و مستقبل کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے اور آنے والی پریشانیوں، حادثات و سانحات سے نمٹنے کے لیے جادوئی طریقے اختیار کرتے تھے، بادشاہِ وقت کے بعد ان کا مقام و مرتبہ نہایت اہم اور قابل تعظیم ہوا کرتا تھا بلکہ بعض معاشروں میں بادشاہ کو بھی ان کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی تھی، تقریباً تمام ہی معبدوں اور مندروں میں ایسے راہب، پنڈت یا کاہن ہوا کرتے تھے۔


ابتدائی انسان کے مسائل

مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انسان کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی، اگرچہ آپ اللہ کے نبی تھے مگر ابتدائی دور میں انسان کو زمین پر جن مسائل کاسامنا تھا اور جو مشکلات درپیش تھیں ان کا حل اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق نکالنا تھا، لہٰذا وہ اللہ کے احکامات اور نبی کی تعلیمات سے انحراف بھی کر بیٹھتا تھا خصوصاً اپنی خواہشات کا غلام ہوکر جیساکہ ہابیل اور قابیل کے واقعے سے ظاہر ہے، گویا غلط روی اور جرم کی ابتدا بھی خود انسان ہی نے کی، غیر مذہبی نظریات کے مطابق بھی انسان نے جب دنیا میں آنکھ کھولی تو اسے یہ ایک بھول بھلیاں نظر آئی، اِدھر وہ پیدا ہوا اور اُدھر الف لیلیٰ اور فسانہ عجائب کے تمام طلسم خانے اس پر ٹوٹ پڑے، وہ بہت پریشان ہوا اور حیران بھی، اس کی سمجھ میں خاک نہ آیا، پھر بھی وہ ہاتھ پاؤں مارے بغیر نہ رہا، فطرت نے اس میں تجسس اور تفکر کی خُو ڈالی تھی، چناں چہ وہ حیات و کائنات کی ٹوہ میں لگ گیا، اس نے اپنی محدود عقل کے دائرے میں رہ کر سوچنا شروع کیا، ابھی تجربے کی دانش نہ ہونے کے برابر تھی، لہٰذا جس طرف منہ اٹھا، چل پڑا۔

بقول پروفیسر گلبرٹ مرے ”ہر کہیں دور اوّل کی نسل ہر مظہر حیات اور دستور کائنات کی سوجھ بوجھ کے ضمن میں ذاتی نظریہ وضع کرتی رہی، ہوا چلتی تو آدمی سمجھتا کہ کوئی مافوق الفطرت انسان نما ہستی مصروف عمل ہے اور اس کے ہانپنے سے ہوا کے جھکڑ چل رہے ہیں، اگر بجلی گرنے سے کوئی درخت زمین پر آرہتا تو سمجھاجاتا کہ کسی غیبی قوت نے اس پر کلہاڑا چلایا ہے، بعض لوگ طبعی موت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کے نزدیک بدروح آدمی کو ہلاک کردیتی تھی، اسی طرح آدمی نے ہر صبح سورج کی روشنی کو پھیلتے اور شام کے بعد ختم ہوتے دیکھا، پھر یہ بھی دیکھا کہ بارش اچانک شروع ہوتی اور اچانک ختم ہوجاتی ہے یہ بھی اس کے اختیار سے باہر ایک معاملہ تھا، قصہ مختصر یہ کہ ایسی بے شمار چیزیں اور واقعات اسے رفتہ رفتہ حیران و پریشان کرتے رہے ہیں، کائنات اس کے لیے ناقابل فہم اور لاینحل مسئلہ بن گئی، اس کی حیرت اور بے چارگی لاعلاج تھی۔“

ماورائی قوت

تواتر کے ساتھ نہ سمجھ میں آنے والی باتوں اور مظاہر کا سامنا کرنے والے انسان کی بالآخر یہ سمجھ میں آیا کہ اس کائنات میں ایک پراسرار مخفی، غیبی قوت موجود ہے جو بے پناہ طاقت کی مالک ہے اور کائنات کے ذرے ذرے میں اس کی کارفرمائی جاری و ساری ہے، جو محیط کُل ہے اور سب پر مسلط ہے، جب کسی پہاڑی پر سے پتھر اچانک لڑھک آتا تو اس کے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا قدرتی اور ناگزیر تھا کہ پتھر نے جان بوجھ کر حرکت کی ہے ورنہ پہلے تو یونہی ساکت و جامد تھا، اسی طرح دیگر مظاہر قدرت کو اس نے اپنے طورپر معنیٰ پہنا دیے، اسے یہ محسوس ہوا کہ اس کائنات میں وہ ایک پراسرار مخفی، غیبی اور بے پناہ قوت کے سامنے بے دست و پا اور انجان بنا کھڑا ہے، اس قوت سے شناسائی اور رابطے کا کوئی ذریعہ اس کے پاس نہیں تھا، (شاید اسی لیے اللہ نے قوموں کے درمیان اپنے نبی بھیجنے کا سلسلہ دراز کیا تاکہ وہ انسان کی اپنے مالک حقیقی سے شناسائی کا ذریعہ بن سکیں، یہ الگ بات ہے کہ انسان نے انہیں جھٹلایا اور اپنی محدود و ناقص عقل پر زیادہ انحصار کیا) چناں چہ وہ اس کھوج میں لگ گیا کہ کس طرح غیبی قوت سے فائدہ اٹھائے، حیات و کائنات اور مظاہر قدرت تو پراسرار ہیں ہی، خود اس کی ذات بھی کسی اندھے پاتال سے کم نہ تھی، ویسے وہ بھی قوت محسوس کرتا تھا، اس میں بھی رس تھا، اس پر بھی رنگ روپ آتا اور پھر دھرتی کے مانند وہ بھی خزاں کی نذر ہوجاتا، اس بھری دنیا میں وہ خود بھی ایک سوالیہ علامت تھا، نہ جانے وہ کب تک تاریک راستوں پر بھٹکتا رہا اور پھر نہ جانے کب اسے اس طلسم کدے کی چابی مل گئی۔

نادیدہ قوتوں کی پرستش

یہ سب کچھ ایک شاعرانہ اسلوب میں ہوا یعنی کائنات ایک شعری صداقت بن گئی اور آدمی نے اسے اسی پیرائے میں سمجھا، یوں تو یہ دنیا زندگی کی تجربہ گاہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ ایسا میدان ہے جہاں خیال کے گھوڑے زیادہ آسانی سے دوڑائے جاتے ہیں، پھر انسان نے یہ جان لیا کہ کائنات میں ایک مخفی اور غیبی قوت موجود ہے جو نہایت طاقت ور اور کرشمہ ساز بھی ہے تو اس نے اس طاقت کے آگے سر جھکادیا اور اس کی پرستش شروع کردی، مگر یہ سب کچھ اس نے اپنے تخیل کے وسیلے سے قیاس وقیافے کی بنیاد پر کیا اور توہمات سے ناطہ جوڑ لیا، اس طرح زندگی، موت اور کائنات نیز اس کی اشیا کے اسرار و رموز سمجھنے کے علم کا نام جادو پڑ گیا، جادوگر ان اسرار و رموز کا عالم ہوتا، اسی قدر نہیں بلکہ وہ عالم باعمل ہوتا، وہ دعویٰ کرتا کہ مخفی، پراسرار، مافوق الفطرت اور غیبی قوت اس کے قبضہئ قدرت میں ہے، وہ اسی قوت کی مدد سے غیر فانی ہستیوں کے اعمال اور ان کی منشا میں دخل رکھتا، جادو اس کا آلہ کار تھا، گویا جادو وہ فن تھا جس پر عمل کرنے والا عامل پراسرار غیبی قوت تک رسائی حاصل کرلیتا تھا اور اس کی مدد سے لوگوں کے مشکل کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ داری ادا کرتا تھا۔
سر پال ہاروے کے الفاظ میں جادو وہ جھوٹا فن تھا جس کی بابت یقین کیا جاتا کہ قدرتی واقعات پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کی اصل وہ غلط فہمی ہے جو اولین دور کی نسل کو قوانین فطرت سمجھنے میں ہوئی، انسان نے علم و عرفان کے ابتدائی مدارج میں سخت خطا کھائی اور پھر اس عالم گیر عقیدے نے اور بھی غلط فہمی پھیلائی کہ ارواح کائنات میں اثر و نفوذ رکھتی ہیں اور معمولات فطرت میں دخیل ہوتی ہیں۔
ارواح آدمی کو خوف زدہ کرتی رہتیں، اچھے لوگوں کی ارواح تو خیر کچھ نہ کہتیں لیکن بقول مین کین نہ ان سے کسی کو پالا پڑتا نہ ان کی کبھی کوئی خبر ملتی اور نہ وہ دکھائی دیتیں، وہ تو ایک جگہ جاکر چپ چاپ رہنے بسنے لگتیں، جیسا کہ اسلامی نقطہ نظر بھی ہے، البتہ برے لوگوں کی ارواح بہت تنگ کرتیں، رات کے وقت چلتی پھرتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر سہم جاتے، جادوگر ان بد ارواح کو تابع کرکے ان سے تخریبی کام کرواتا۔
ایک اور مغربی مصنف جیمز ایچ لوبا لکھتا ہے ”قدیم قبائل اور مذہب کی تحقیق و تفتیش کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھوت پریت کا عقیدہ کچھ یوں بھی پختہ ہوا کہ آدمی کے ساتھ ساتھ اس کا سایہ اور عکس موجود ہوتا ہے، گویا مرنے کے بعد یہی سایہ اور عکس بھوت پریت کی شکل میں منتقل ہوجاتا اور پھر خواب میں بھی نظر آتا، خواب میں یہ زندوں کے ہم شکل ہوتے اور پھر جب زندہ لوگ خواب میں آتے تو وہ فرق مٹا دیتے جو بصورت دیگر زندوں اور مردوں میں قائم ہے۔“
بھوت ایک طرح سے روح کا غیر ترقی یافتہ جد امجد ہے، اس کے جنم لیتے ہی لوگ اس سے ڈرنے اور سہمنے لگتے ہیں، اس کی پیدائش سب سے پہلے انسان کے خیال و قیاس میں ہوتی ہے، پھر یہ اتنا توانا ہوجاتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر پوری طرح قبضہ جما لیتا ہے۔
مین کین نے ارواح، بھوت پریت، چڑیل اور جن وغیرہ کو چھوٹے خدا کہا ہے، انہیں ہم خداؤں کے خدام کہہ سکتے ہیں، یہ چھوٹے خدا مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے اور ان گروہوں کے کام اور نام بھی الگ الگ ہوتے، یونانیوں کے یہاں چھوٹے چھوٹے دیوی دیوتاؤں اور عظیم خداؤں کے غلاموں کا ایک پوا لشکر صف آرا ہوتا، قسمت کی دیویاں، علم و ہنر کی دیویاں، انتقام کی دیوی نیز رب الارباب کے خدام ”زور دیو“ اور ”طاقت دیو“ اسی قبیل سے ہیں اور یہ روایت آج بھی جاری ہے، آج بھی یہ جن، پری، بھوت پریت، چڑیل وغیرہ ہمارے معاشرے میں لکھی جانے والی کہانیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، تقریباً یہی صورت حال ہندو اور دیگر قوموں کی دیومالا کا ہے۔
زمانہء جاہلیت کے مذہبی نظریات شاید غیر معمولی قسم کی آفات کے سلسلہئ حوادث سے پیدا ہوئے، معمولی معمولی باتوں اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کی تو کسی کو پروا بھی نہ ہوتی، جب بارش پڑتی تو قریب میں کوئی پناہ گاہ نہ ملتی تو انسان جانوروں کی طرح چپ چاپ بھیگ جاتا، خوراک کی کمی پڑتی تو پتے یا ٹہنیاں چبا چبا کر کھاجاتا، جاڑا لگتا تو اُسے بھی برداشت کرلیتا، کوئی مکار دشمن اس کی شریکِ حیات کو اغوا کرکے لے جاتا تو یہ بات بھی قابلِ برداشت تھی، وہ ان باتوں سے پریشان ضرور ہوتا لیکن ان وجوہات کی بنیاد پر مر نہ جاتا، ہر چند کہ وہ ان کے تدارک کے لیے غیر معمولی جدوجہد کرتا لیکن بعض حادثات سے اس کی جان جاتی، وہ ڈوبنے سے بہت ڈرتا اور سمجھتا کہ کوئی مخفی طاقت تیرتے وقت آدمی کو سمندر کی تہہ میں کھینچ لیتی ہے، اسی طرح وہ آسمانی بجلی سے ڈرتا اور اسے قدرتی حادثات و آفات کی پشت پر مرعوب کُن اور خوف ناک قوتیں کارفرما معلوم ہوتیں۔
انسان میں فطری طور پر توہمات کا غیر معمولی رجحان موجود تھا اور اُس کا ذہن بھی اُن کی پرورش کے لیے بے حد زرخیز تھا،انہی توہمات کی وجہ سے خداؤں اور نیم خداؤں یا دیوی دیوتاؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہوا اور ان سب سے نمٹنے کے لیے جادو کی دریافت ہوئی، ابتدائی اقوام میں جادو ہی مذہب تھا، یہی ضابطہ ء حیات تھا،اسے عالم گیر قبولیت حاصل تھی،اس کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگ سکتا ہے کہ آدمی نے سب سے پہلے علم و فن کا یہی شعبہ قائم کیا، اس کی ابتدا تاریخ سے پہلے ہوئی،دنیا کے متعدد عجائب خانوں میں جو دستاویزات، مخطوطے اور دیگر اشکال محفوظ پڑے ہیں وہ ہمیں صرف چند ہزار سال پیچھے لے آتے ہیں،ان سے تاریخی اعتبار سے سحریاتی ادوار کا پتہ ملتا ہے، قرآنِ حکیم میں حضرت موسیٰ ؑ کے علاوہ دیگر انبیاء کے زمانوں میں بھی سحرو جادو کا زور نظر آتا ہے، حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں بھی جادو کا فن عروج پر تھا، شہرِ نمرود کے چھ سحری عجائبات مشہور ہیں اور ان کا تذکرہ قدیم تاریخی مواد میں موجود ہے۔

شہر بابل کے عجائبات

معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کلدانی سحریات کے زبردست ماہر تھے اور نمرود کے زمانے میں بابل کے جادوگروں نے چھ طلسمات ایسے تیار کیے تھے جو عقل و فہم سے بالاتر تھے انہوں نے تانبے کی ایک ایسی بطخ بنائی تھی جو کسی چور یا جاسوس کی خبر دیتی تھی، جب بھی کوئی چور یا جاسوس شہر کی چار دیواری میں داخل ہوتا تھا تو یہ بطخ خود بخود بولنے لگتی تھی اور لوگ سمجھ جاتے تھے کہ شہر میں کوئی بدنیت شخص داخل ہوا ہے، لوگ اس کی تلاش میں لگ جاتے، آخر کار اسے گرفتار کرلیا جاتا۔
دوسرا طلسم ایک عجیب نقارہ تھا، اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اگر کسی شخص کا مال یا اور کوئی شے گم ہوجاتی تھی تو وہ شخص نقارہ بجاتا تھا تو اُس سے آواز آتی تھی کہ تمہاری گم شدہ شے فلاں جگہ یا فلاں شخص کے پاس ہے۔
تیسرا طلسم ایک حوض تھا، جب لوگ کسی جشن کے موقعے پر اس حوض پر جمع ہوتے تو مختلف قسم کے شربت اس میں ڈال دیتے تھے اور جس وقت ان کو ضرورت ہوتی ان کا پسندیدہ مشروب انہیں مل جاتا۔
چوتھا طلسم ایک آئینہ تھا اور جب کوئی شخص غائب ہوجاتا یا گم ہوجاتا تو اس کے عزیزو اقارب آئینے کے سامنے جاکر سوال کرتے اور آئینے میں نظر آجاتا کہ وہ شخص کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔
پانچواں طلسم پانی کا ایک تالاب تھا جو لوگوں کے متنازع مسائل حل کرتا مثلاً اگر دو افراد کسی ایک چیز کے دعوے دار ہوتے تو دونوں کو اس تالاب میں اتار دیا جاتا جو حق پر ہوتا تھا، تالاب کا پانی اس کی ناف تک آتا تھا اور جو غلط ہوتا تھا وہ اس تالاب میں ڈوب جاتا تھا۔
چھٹا طلسم ایک درخت تھا جو نمرود کے محل کے دروازے کے سامنے لگایا گیا تھا، جس کا سایہ آدمیوں کی تعداد کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا تھا، غالباً کسی بڑے جلسے کے انعقاد کے سلسلے میں یہ بندوبست کیا گیا تھا، یہ تمام طلسمات نمرود کے دارالحکومت بابل میں موجود تھے لیکن بہر حال غور طلب بات یہ ہے کہ ان طلسمات کی تعمیر میں پوشیدہ غرض و غائیت مثبت اور تعمیری تھی۔

اہل بابل کا جادو

سحریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کلدانیوں کا سحر بہت ہی مشکل ہے اور اس کے حاصل کرنے میں نہایت سخت محنت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس علم کا عامل اپنے علمی کمالات سے زبردست کام لے سکتا ہے جن کو عقل و فہم بھی سمجھنے سے قاصر رہ جائے،اس زمانے میں جادو ایک عظیم سائنس کی حیثیت رکھتا تھا اور اسے مثبت یا منفی کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا۔
الہامی کتابوں اور انبیاء کی تعلیمات نے قدیم جادوئی سائنس کی حد بندی کی اور خاص طور پر شرکیہ اعمال اور شیاطین کی مدد سے انجام دیے گئے سحری اثرات کی سختی کے ساتھ ممانعت کی، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے مسلمان یا دیگر اہل کتاب بھی اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر آج بھی سحریات کے اس قدیم کھیل میں مصروف رہتے ہیں لیکن وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔
اہلِ بابل یعنی کلدانی ہاروت و ماروت کی تعلیم کے مطابق تسخیر روحانیاتِ علویہ، سفلیہ اور جسمانیہ وغیرہ کرتے تھے جب کہ اہلِ یونان تسخیرِ روحانیاتِ علویہ پر اکتفا کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ روحانیاتِ علویہ کی تسخیر کے بعد روحانیات سفلیہ کی تسخیر کی ضرورت نہیں ہے، زمانہ ء قدیم میں ہندوستان میں بھی اہلِ بابل کا طریقہء سحر رائج تھا، بعد میں یونانی اعتقادات بھی شامل ہوگئے۔(جاری ہے)

جمعہ، 6 نومبر، 2020

سحرِحرام و سحرِ حلال،جادو اور مذہب کا گٹھ جوڑ(5)


اہلِ مغرب کی نظر میں جادوکا قدیم کردار اور معاشرتی عمل دخل

 جادو کے موضوع پر اب تک جو گفتگو ہوچکی ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ سحر یا جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے حیرت انگیز اور عجیب اعمال امدادِ الٰہی کے بغیر ظہور پذیر ہوتے ہیں، یہی اعمال اگر اللہ کی رضا اور امداد کے ذریعے انجام پائیں تو ہر گز جادو نہیں کہلائیں گے، چناں چہ اعمالِ قرآنی و اسمائے الٰہی کے واسطے سے جو افعالِ عجیبہ یا کرامات و کرشمات ظہور پذیر ہوتے ہیں انہیں سحر یا جادو قرار نہیں دیا جاسکتا، خواہ ان کا کوئی بھی مادّی سبب موجود نہ ہو، مسلم صوفیا اور علماء اسی لیے ایسے اعمال کو سحرو جادو قرار دیتے ہیں جن میں جنات و شیاطین یا ارواحِ خبیثہ کی کارفرمائی موجود ہو تو لازمی طور پر شرک اور کفر کا پہلو بھی موجود ہوگا لیکن اگر مادّی اشیاء کے ہنر مندانہ اور سائنسی استعمال کے نتیجے میں حیرت انگیز اور عجیب نتائج سامنے آئیں تو انہیں سحرو جادو یا شرک و کفر کی صف میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ حکیم اور کتبِ حدیث میں بھی ایسے ہی اعمال و افعال کو جادو قرار دیا گیا ہے جن میں جنات و شیاطین کی کارفرمائی ہوتی ہے، اس طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ دیگر مادّی و کائناتی اسباب کے ذریعے اگر حیرت انگیز و عجیب نتائج حاصل کیے جائیں تو اُس پر شریعت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا،بالکل اسی طرح جیسے کسی مریض کی جان بچانے کے لیے معالج شرک اور کُفر سے بچ کر جو طریقے بھی اختیار کرتا ہے، وہ جائز قرار پائیں گے، اس سلسلے میں مسلم صوفیا کا مؤقف تو واضح ہے البتہ علماء کے مختلف طبقات میں کچھ اختلاف ہوسکتا ہے۔ہم صوفیا کے اقوال و افعال کی پیروی کے قائل ہیں کیوں کہ انسانی روح کے مسائل کو علماء کی بہ نسبت صوفیا نے زیادہ بہتر طور پر سمجھا ہے اور انسانی نفسیات کے پیچیدہ مسائل کی تشریح بھی صوفیا نے ہی زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں کی ہے۔
جادو کے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے کے سلسلے میں ہم ابتدا ہی سے انسان اور انسانیت کے معاملات پر زور دے رہے ہیں، آیئے اسی حوالے سے مزید بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

عناصر کے درمیان باہمی ربط

اب ایک اور نکتے کی وضاحت ضروری ہے اور اگر آپ نے اسے سمجھ لیا تو پھر سارا مسئلہ نہایت آسان ہوجائے گا، یاد رکھیے عالمِ محسوسات و اجسام میں پائے جانے والے تمام عناصرایک دوسرے سے نہایت لطیف رابطہ رکھتے ہیں، ہر عنصر اپنے ما قبل و ما بعد میں بدل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اوپر والا یا بالائی عنصر ماتحت عنصر سے لطیف تر ہوتا ہے، حتیٰ کہ دنیائے افلاک جو تمام عناصر سے اوپر ہے، ان سے زیادہ لطیف تر ہے۔
تخلیقی درجہ بندی میں بعض علماء کے نزدیک ابتدا دھاتوں سے ہوتی ہے پھر نباتات کی تخلیق کا درجہ ہے اور پھر حیوانات کا، یہ تمام مظاہر ایک عجیب ربط اور نادر تدریجی ہیّت سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں،مثلاً معدنیات کا آخری کنارہ نباتات کے اول کنارے سے ملا ہوا ہے جیسے گھاس وغیرہ اور بلا تخم اگنے والے نباتات کے آخری کنارے جیسے کھجور و انگور اور حیوانات وغیرہ کے اول کنارے سے متصل ہیں مثلاً گھونگھے اور سیپ وغیرہ کہ ان میں بجز قوتِ لمس و احساس جانداروں جیسے ترقی یافتہ افعال نہیں پائے جاتے، ان تمام عناصر و مخلوقات میں پائے جانے والے نقطہ ء اتصال کا مطلب ہے کہ ان کا آخری کنارہ اپنے مابعد کے اول کنارے میں بدل جانے کی صلاحیت بہر حال رکھتا ہے،انسان اس تمام تخلیقی چکر کا نقطہء کمال ہے، مگر انسان تو صاحبِ فکروادراک اور غورو فکر ہے،انسان میں حس وادراک دونوں جمع ہیں جب کہ اونچے درجے کے حیوانات بھی اس صلاحیت سے محروم ہیں،انسانی ذات میں موجود ”احساس نفس“ اور اس نفس کے ذریعے پائے جانے والے یا رونما ہونے والے مظاہر اتنے نادر اور پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی ایسی دنیا سے لگتا ہے جو انسان کے بھی اوپر ہے۔
انسان کے بھی اوپر ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ کائنات انسان کے حواسِ خمسہ کے حد وادراک سے باہر ہے۔

سحرِ حرام و حلال

پیرا سائیکولوجی کے نقطہئ نظر سے یا دوسرے معنوں میں صوفیا کی تشریحات کے مطابق تمام کائنات نور کی لہروں یا روشنی کے اخلاط سے وجود میں آئی ہے، حتیٰ کہ مادّہ بھی روشنی ہی کی کثیف شکل کا نام ہے، اب تو جدید سائنس بھی اس حد تک رسائی پاچکی ہے کہ مادّے کو نور میں بدلتا ہوا دیکھ سکے۔”نیوٹرون“ کیا ہیں؟ اسی حقیقت کے آئینہ دار ذرات ہیں،مادّے کی وہ آخری شکل ہیں یا وہ آخری کنارہ ہے جہاں مادّہ روشنی میں تحلیل ہوجاتا ہے،ایسے لوگ جو مسلسل روحانی مشقوں اور ارتکازی طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان میں یہ صلاحیت بے دار ہوجاتی ہے کہ وہ روشنی کی لہروں میں تصرف کرسکیں اور ان میں ردوبدل کے ذریعے تعمیرو تخریب کا عمل انجام دے سکیں،اسی کلّیے کے تحت ایک اوریجنل جادو گر بھی ارتکازی قوتوں کے ذریعے تخریب کا کام انجام دے سکتا ہے، جب کہ ایک اللہ کا ولی بھی اسی کلیے کے تحت تعمیر کا کام خدا کی رضا کے مطابق انجام دیتا ہے، یہی نکتہ سحرِ حلال اور سحرِ حرام کے درمیان فرق کرتا ہے۔
یہاں ایک بزرگ کا واقعہ یاد آرہا ہے جس کے راوی ہمارے عزیزازجان مرحوم دوست خان آصف ہیں جن کا تعلق ہندوستان کی ریاست رام پور سے تھا، بقول خان صاحب ایک بار شدید قحط پڑا اور بارش نہیں ہوئی تو ریاست کے کچھ معزز افراد ایک بزرگ کے پاس گئے جو عام لوگوں سے الگ تھلگ رہا کرتے تھے، ان کی کیفیات کسی حد تک مجذوبانہ تھیں،معززین نے درخواست کی کہ حضرت! بارش کے لیے دعا فرمایئے تاکہ قحط سالی سے نجات ملے۔
بزرگ نے فرمایا ”آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ میرا تو اللہ میاں سے جھگڑا چل رہا ہے، میں جو دعا بھی کرتا ہوں وہ اُس کے الٹ کام کرتا ہے،اگر میں نے بارش کے لیے دعا کی تو قحط اور شدید ہوجائے گا لہٰذا آپ لوگ مجھے معاف رکھیں اور کسی دوسرے سے دعا کرائیں“
لوگ بڑے حیران ہوئے اور بزرگ کی بات پر یقین نہیں کیا،زیادہ شدت سے اصرار کرنے لگے، آخر بزرگ نے کہا ”تم لوگ شاید مجھے جھوٹا سمجھ رہے ہو، اچھا! اب خود ہی دیکھ لو“یہ کہہ کر کاندھے سے چادر اتاری اور دھونے بیٹھ گئے، چادر دھو کر سکھانے کے لیے پھیلا دی اور بولے ”اب دیکھنا تماشا، وہ اسے سوکھنے نہیں دے گا“
تھوڑی ہی دیر میں بادل امنڈنے لگے اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی، لوگ مسکرائے اور بزرگ کا شکریہ ادا کرکے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ واقعہ کسی سحری و جادوئی کمال سے کم نہیں ہے کہ جہاں دور دور تک موسم خشک تھا، لوگ بارش کو ترس رہے تھے، کھیتیاں سوکھ رہی تھیں، قحط کا عالم تھا، خلق خدا پریشان تھی کہ ایک صاحبِ عرفان نے تعمیری پہلو سے ایسی کرامت دکھائی جو یقیناً رضائے الٰہی کے عین مطابق تھی، فلسفہء مذہب ایسے محیّر العقول واقعات کو کرامت کا نام دیتا ہے،بالکل اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقع میں مصر کے عظیم جادوگروں کی کارگزاری اپنے علم و فن کا شاہ کار تھی مگر انہیں تائیدو امدادِ الٰہی حاصل نہیں تھی ان کے مقابلے میں حضرت موسیٰ ؑ تائیدو رضائے الٰہی کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔
یاد رکھیے دنیا میں پیش آنے والے حیرت انگیز اور محیّر العقول افعال و کمالات قریب قریب ایک ہی کلّیے کے تحت انجام پاتے ہیں،البتہ ان کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں، نبوت اور ولایت کے ذریعے ظاہر ہونے والے حیرت انگیز کمالات منجانب اللہ ہوتے ہیں اور معجزہ یا کرامت کہلاتے ہیں کیوں کہ انبیاء یا اولیا انسانی و اخلاقی اصولوں کی اعلیٰ ترین قدروں پر فائض ہوتے ہیں جب کہ جادو گر یا کاہن بالکل ان کے برعکس یا ان کی ضد ہوتے ہیں۔
جادو گروں یا کاہنوں کو جب کوئی ایسا محیّر العقول کام کرنا ہو تو وہ قوت فکریہ کی مدد سے قوت عقلیہ کو حرکت میں لاکر اپنے ناسوتی حواس سے علیحدہ ہوجاتے ہیں مگر منفی و تخریبی سوچ کی وجہ سے انہیں یہ صلاحیت کلّی طور پر (انبیاء اور اولیا کی طرح) حاصل نہیں ہوتی کیوں کہ سوچ کی محدودیت بھی ایک نقص ہے سو وہ اس نقص کی وجہ سے ناسوتی حواس سے پوری طرح چھٹکارا پانے میں جب دشواری محسوس کرتے ہیں تو دیگر غیر مرئی چیزوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اور یہ غیر مرئی قوتیں یقیناً شیطان کی ذرّیات ہوتی ہیں، چناں چہ انہیں شیطان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے،اس کی اطاعت و فرماں برداری کا اقرار کرنا پڑتا ہے،گویا وہ اپنی روح کا سودا شیطان اور اس کی ذرّیات سے کرلیتے ہیں اور شرک و کفر کی دلدل میں گر جاتے ہیں،ایسے ہی لوگوں کے لیے ارشادِ باری تعالی ہے کہ جادوگر کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔
پیرا سائیکولوجی یا روحانی نظریات کے مشرقی طرز فکر کی رو سے حواس کی گرفت کو توڑنے کے لیے مادّی یا ناسوتی مظاہر سے کام لینا نقص کی علامت ہے مگر مغرب میں یا یوں کہہ لیں کہ غیر مسلم دنیا میں اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا،چناں چہ روحی یا روحانی تجربات کی ریاضتوں میں تعمیر کے ساتھ تخریب کا پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے۔
عزیزان من! اب تک کی گفتگو میں اس بات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے کہ جادو سے متعلق مسائل و معاملات کو مذہب اور خصوصاً اسلامی نظریات کی روشنی میں دیکھا جائے مگر ضروری ہوگا کہ جادو کے علم و فن سے متعلق قدیم تاریخ پر بھی نظر ڈال لی جائے۔

جادو مغرب کی نظر میں

اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ مغرب کے محققین اور مصنفین جادو کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، مغرب میں جادو کی حقیقت اور اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جادو ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے واقعات کے بہاؤ کو متاثر کیا جاتا ہے اور محیر العقول طبیعی مظاہر کو جنم دیا جاتا ہے، اس مقصد کے لیے جو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں ان میں مافوق الفطرت ہستیوں کو یا فطرت کی مخفی قوتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، چنانچہ جادو کا بنیادی مقصد فطری مظاہر کے قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی ٹھہرا۔
سی جے ایس تھامسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
”نوح انسان پر جادو کا گہرا اثر ابتدا سے ہی رہا ہے، بابل اور مصر میں تو اسے مذہب کا حصہ بنا لیا گیا تھا، توہم پرستی کی طرح جادو پر یقین کی جڑیں بھی خوف میں پوشیدہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ”نامعلوم“ کے خوف کا شکار رہا ہے، قدیم جادوگر مذہبی پیشوائی کا دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ دکھائی نہ دینے والی طاقتوں مثلاً دیوی، دیوتاؤں پر کنٹرول رکھتے ہیں، اس طرح وہ لوگوں کے خوف سے فائدہ اٹھاتے تھے، ابتدا میں جہالت یا کم علمی، نامعلوم مستقبل کے خوف سے پیدا ہوئی لیکن بعد میں لوگ رفتہ رفتہ ان رازوں کو سمجھ گئے اور انہوں نے پراسرار اشیا پر یقین کو اپنے مفاد میں استعمال کیا، جادوگروں کو فطرت کے معمول کے کا موں میں دخل اندازی کرنے کے لیے پہلے کسی دیوی دیوتا کی پوجا کرکے اور اسے مختلف قسم کی قربانیاں پیش کرکے خوش کرنے کا ڈرامہ کرنا پڑتا تھا تاکہ ان کے بقول وہ اسے اچھی یا بری مافوق الفطرت قوتیں عطا کردے۔“

جادو اور قدیم مذاہب

مغرب کے بعض مستند محققین کا کہنا ہے کہ جادو مذہب کی اولین صورت ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ جادو ہر قوم میں، ہر عہد میں موجود رہا ہے، نیز ارواح پر عقیدے سے بھی زیادہ قدیم جادو کا وجود ہے، ایک مغربی مصنف وائیڈ مین کے بقول جادو مکمل طورپر توہمات سے تشکیل پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ تو قدیم مذہبی عقائد کا ایک بنیادی حصہ ہوتا تھا، اس کا کہنا ہے کہ مذہب کافی حد تک جادو پر براہِ راست استوار تھا اور ہمیشہ اس سے قریبی ربط رکھتا تھا، اس کے برعکس جادو پر تحقیق کرنے والے مشہور محقق جیمس فریزر کا کہنا ہے کہ انسانی فکر کے ارتقا میں پست دانش ورانہ سطح کی عکاسی کرتے ہوئے جادو ہر مقام پر مذہب سے پہلے موجود تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے اپنے ماحول کے جذباتی ردِعمل، اشیا کو جاندار سمجھنے اور انہیں خفیہ طاقتوں کا حامل قرار دینے سے جادو پیدا ہوا تھا۔

جادو کی رسومات

قدیم زمانے میں جادو کی کچھ خاص رسومات ہوا کرتی تھیں جنہیں ایک محیر العقول کام کرنے والی طاقت کو بروئے کار لانے والے روایتی عمل کا حصہ تصور کیا جاتا تھا، تاہم ایسی جادوئی رسومات جو پہلے سے جاری اور منظم مسلک یا عقیدے کا حصہ نہیں ہوتی تھیں، معاشرہ انہیں غیر قانونی تصور کرتا تھا۔
ونڈٹ لکھتا ہے کہ تمام رسومات کے پیچھے ایک ہی اساطیری تصور موجود ہے یعنی روح کا تصور، اسی تصور سے مسالک کی تین صورتیں پیدا ہوئی ہیں، جادو، بت پرستی اور شیطان پرستی، چناں چہ جادو کی ابتدائی صورت میں یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ ایک روح دوسری روح پر بلاواسطہ عمل کرتی ہے، جادو کی ثانوی صورت میں یہ بھی تسلیم شدہ امر تھا کہ ایک روح دور فاصلے سے کسی علامت کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے، جوں جوں وقت گزرتا گیا زیادہ ذہین لوگ سمجھتے گئے کہ جادوئی رسومات، تقریبات اور ٹونے ٹوٹکے حقیقتاً ویسے اثرات کو جنم نہیں دیتے جیساکہ فرض کیا جاتا ہے اور ایک طرح رفتہ رفتہ عقیدے میں تقسیم رونما ہوئی، جاہل افراد جادوئی طاقتوں پر عقیدے اور توہمات سے چمٹے رہے جبکہ زیادہ ذہین افراد نے تمام کائنات میں ایک عظیم ترین طاقت کے ہاتھ کو کارفرما دیکھا اور انہوں نے خدا کو ماننا شروع کردیا (جاری ہے)

ہفتہ، 31 اکتوبر، 2020

اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری

نومبر کی فلکیاتی صورت حال، موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی

 

 سال کے آخری مہینے خصوصاً اگست سے شروع ہونے والا وقت عموماً پاکستان کے لیے مشکل اور چیلنجنگ رہا ہے، اکثر اہم واقعات انہی مہینوں میں پیش آئے ہیں، اس سال اکتوبر کے دوسرے ہاف سے سیارہ شمس اپنے برج ہبوط میں چلا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی سیارہ زہرہ بھی اپنے برج ہبوط میں ہے، خیال رہے کہ شمس زائچہ ء پاکستان میں چوتھے گھر کا حاکم ہے اور زہرہ چھٹے گھر کا حاکم ہے، شمس تقریباً 16 نومبر تک ہبوط یافتہ رہے گا اور یہ وقت اکثر اعلیٰ عہدے اور مرتبے رکھنے والے افراد کے لیے مشکل اور پریشان کن ثابت ہوگا، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، سیارہ زہرہ 17 نومبر تک اپنے برج ہبوط میں رہے گا، گویا سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی متاثر اور متنازع رہے گی اور ان کے لیے نئے مسائل اور چیلنج درپیش رہیں گے، سیارہ عطارد جو زائچے کا اہم سیارہ اور پانچویں گھر کا حاکم ہے، گزشتہ ماہ سے مسلسل زائچے کے چھٹے گھر میں حرکت کر رہا ہے، اس دوران میں اسے رجعت بھی ہوئی اور وہ شمس کی قربت کے سبب غروب بھی رہا، 3 نومبر سے طلوع ہوگا لیکن پاکستان کے زائچے میں بدستور چھٹے گھر میں ہی رہے گا، عطارد کی یہ پوزیشن ملک کے دانش ور طبقے کی عقل کو خبط کردینے والی رہے گی جس کا مظاہرہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے، ایسے ایسے بیانات اور تبصرے سامنے آرہے ہیں جنہیں سن کر حیرت ہوتی ہے، خاص طور سے حکومتی اور ن لیگی رہنما جن میں خود میاں نواز شریف سرفہرست ہیں، ملکی و قومی مفاد کی پروا کیے بغیر بیانات دے رہے ہیں، شاید وہ فرسٹریشن کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔

ہماری تحقیق کے مطابق میاں نواز شریف کا برتھ سائن سنبلہ ہے اور زائچے میں سنبلہ کے تقریباً تین درجے طلوع ہیں، گویا زائچے کا ہر گھر تین درجے سے شروع ہورہا ہے، سنبلہ افراد کام اور مسلسل کام کرنے والے اور بہت زیادہ مادّی سوچ کے حامل (بزنس مین) ہوتے ہیں، سونے پر سہاگا ان کا قمری برج بھی سنبلہ ہے لہٰذا کاروباری سوچ ہمیشہ ذہن پر غالب رہتی ہے اور ایسے لوگ اپنا کاروباری نقصان برداشت نہیں کرسکتے، صاف ظاہر ہے کہ مقتدر حلقوں سے مثبت رسپانس نہ ملنے کی وجہ سے وہ فرسٹریشن کا شکار نظر آتے ہیں، ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے 2016 ء میں ان کے زوال اور وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی کی پیش گوئی کی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ برج سنبلہ کے لیے سیارہ مریخ، شمس اور زحل فنکشنل منحوس سیارے ہیں اور گزشتہ تقریباً ڈھائی سال زحل ان کے زائچے کے چوتھے گھر میں رہا، اس سال جنوری سے پانچویں گھر میں داخل ہوچکا ہے، اسی طرح زائچے میں دور اصغر بھی سیارہ زحل ہی کا جاری ہے، یہ وہ صورت حال ہے جو ان کے زوال کا باعث بنی ہے اور تاحال جاری ہے، گزشتہ دنوں ستمبر میں سیارہ زحل زائچے کے پانچویں گھر میں ابتدائی درجات پر رہا اور اب تک ہے، جس کی وجہ سے پانچواں گھر جو شعور اور دانش کا ہے متاثر ہوا، اسی طرح ساتواں گھر، گیارھواں گھر اور دوسرا گھر متاثر ہیں، سیارہ زحل ان کے زائچے میں اختلاف اور تنازعات کا سیارہ ہے، چناں چہ موصوف نے اختلافات کی تمام حدیں پار کرلی ہیں اور یہ کوئی معاون و مددگار صورت حال نہیں ہے، ان کی پارٹی کا زائچہ بھی اچھی پوزیشن میں نہیں ہے، چناں چہ ن لیگ اور میاں نواز شریف جس مہم جوئی میں مصروف ہیں اس کے نتائج بہتر نظر نہیں آتے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا برتھ سائن میزان ہے، ان کا سیارہ زہرہ ہے جو اپنے برج ہبوط میں ہے، ان کے مفادات کا حاکم سیارہ شمس بھی برج ہبوط میں ہے، ان کے زائچے میں بھی خراب دور کا آغاز ہوچکا ہے، چناں چہ بلاشبہ اپوزیشن جماعتیں اور ملکی صورت حال ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے لیکن امکان ہے کہ 17 نومبر کے بعد سے صورت حال بہتر ہوجائے گی، جب سیارہ زہرہ ان کے پہلے گھر برج میزان میں داخل ہوگا اور شمس بھی زائچے کے دوسرے گھر میں آجائے گا۔

زائچہ پاکستان کے مطابق پاکستان ایک مشکل وقت میں داخل ہوچکا ہے، جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی گئی ہے، شمس اور زہرہ کی پوزیشن تو بہر حال جلد بہتر ہوجائے گی یعنی 17 نومبر کے بعد لیکن اس سے زیادہ اہم اور چیلنجنگ دور موجودہ حکومت کے لیے 20 نومبر سے شروع ہوگا جب سیارہ مشتری اپنے ہبوط کے برج جدی میں داخل ہوگا، یہاں پہلے سے دسویں گھر کا حاکم زحل موجود ہے، جس کا تعلق حکومت اور خود وزیراعظم سے ہے، مشتری پاکستان کے زائچے کا سب سے زیادہ منحوس اثر رکھنے والا سیارہ ہے جو برج جدی میں داخل ہوتے ہی سیارہ زحل سے حالت قران میں آجائے گا اور یہ صورت حال حکومت وقت کے لیے شدید نوعیت کے نئے چیلنج سامنے لائے گی جن کے نتیجے میں ترقیاتی امور بری طرح متاثر ہوں گے اور کوئی نیا آئینی بحران جنم لے گا، حکومت اس سے کس طرح نمٹے گی اور اپوزیشن اس کا کس طرح فائدہ اٹھائے گی اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، خیال رہے کہ سیارہ مشتری اور زحل کا یہ قران جنوری 2021 تک جاری رہے گا، دو بڑے سست رفتار سیارگان کا نحس اثر رکھنے والا قران اکثر حالات و واقعات میں نمایاں طور پر نئی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)

اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری

گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے

نومبر کی سیاروی پوزیشن

حیثیت و اقتدار کا سیارہ شمس اپنے برج ہبوط میزان میں حرکت کر رہا ہے، یہ اس کی انتہائی کمزور اور ناقص پوزیشن ہے، اس وقت میں صاحبان اقتدار اور اعلیٰ پوزیشن پر فائز افراد پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں،17 نومبر سے سیارہ شمس برج عقرب میں داخل ہوگا تو اس کی پوزیشن بہتر ہوجائے گی۔

سیارہ عطارد بھی بحالت رجعت برج میزان میں حرکت کر رہا ہے اور شمس کی قربت کے سبب غروب ہے، 2 نومبر کو طلوع ہوگا اور 3 نومبر کو مستقیم ہوجائے گا،عطارد کی کمزور اور خراب پوزیشن تحریر و تقریر یا دیگر دستاویزی نوعیت کے کاموں میں مسائل لاتی ہے، سفر سے متعلق امور میں بھی الجھن اور پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔

سیارہ زہرہ برج سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے، اس برج میں زہرہ کو ہبوط ہوتا ہے، چناں چہ زہرہ کی پوزیشن بھی نہایت خراب اور ناقص ہے، زہرہ توازن اور باہمی تعلقات پر اثر انداز ہے، اس کے علاوہ محبت کے معاملات، منگنی، شادی و نکاح وغیرہ یا ازدواجی زندگی کی خوشیاں بھی اس سے متعلق ہیں، زہرہ کی موجودہ پوزیشن ان تمام معاملات کے لیے ناموافق ہے، اس دوران میں منگنی و نکاح وغیرہ سے گریز کرنا چاہیے، 17 نومبر سے زہرہ اپنے ذاتی برج میزان میں داخل ہوگا، یہ زہرہ کے لیے اچھی پوزیشن ہوگی،17 نومبر سے 19 نومبر تک شادی و نکاح کے لیے موافق وقت ہوگا۔

سیارہ مریخ بدستور بحالت رجعت برج حوت میں حرکت کر رہا ہے، کیتو کی اس پر نظر ہے جو اکثر حادثات اور تنازعات کا باعث ثابت ہوتی ہے، 15 نومبر سے سیارہ مریخ مستقیم ہوگا اور اپنی سیدھی چال پر آجائے گا لیکن کیتو کی نظر سے نجات نہیں ملے گی، تقریباً 25 دسمبر تک کیتو کی نظر میں رہے گا، اس دوران میں غصے اور اشتعال پر کنٹرول رکھیں، ڈرائیونگ میں محتاط رہیں اور کسی مہم جوئی سے اجتناب کریں۔

سیارہ مشتری برج قوس میں حرکت کر رہا ہے، 20 نومبر کو اپنے برج ہبوط جدی میں داخل ہوگا اور تقریباً آئندہ سال 2021 ء میں مارچ کے آخر تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ مشتری کی انتہائی ناقص اور خراب پوزیشن ہے، اس سال اپریل سے جون تک مشتری اپنے برج ہبوط میں رہا، اب دوبارہ یہ صورت حال سامنے آرہی ہے، مشتری کی خراب پوزیشن ترقیاتی امور میں رکاوٹ، مالی معاملات میں پریشانی لاتی ہے، مزید یہ کہ اس عرصے میں نکاح و شادی سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ مشتری کی ہبوط یافتہ پوزیشن شوہر کے لیے خرابی کا باعث ثابت ہوتی ہے۔

سیارہ زحل برج جدی میں پورا ماہ رہے گا، مشتری جدی میں داخل ہوکر سیارہ زحل سے قران کرے گا، یہ قران طالع برج ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، دلو اور حوت والوں کے لیے مختلف نوعیت کے مسائل اور چیلنج لائے گا، خیال رہے کہ اس قران کا دورانیہ تقریباً جنوری 2021 ء تک ہوگا، مندرجہ بالا بروج سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی میں اہم نوعیت کی تبدیلیاں آئیں گی، اس قران کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں سے حقیقی اور درست آگاہی کے لیے اپنے انفرادی زائچہ ء پیدائش سے مدد لینی چاہیے۔

راہو اور کیتو اپنے شرف کے برج ثور اور عقرب میں حرکت کررہے ہیں، 14 نومبر 2020 سے 18 جنوری 2021 تک راہو کیتو مستقیم پوزیشن میں رہیں گے یعنی 26 درجہ ثور و عقرب پر مستقل قیام رہے گا، راہو کیتو کی یہ پوزیشن نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے،وہ لوگ اور ممالک جن کے زائچہ ء پیدائش میں پیدائشی برج کے درجات 21 سے تقریباً 30 کے درمیان ہیں، وہ راہو کیتو کی اس ناقص پوزیشن سے بری طرح متاثر ہوں گے، اس صورت حال سے درست آگاہی حاصل کرنے کے لیے بھی اپنے انفرادی زائچہ ء پیدائش کا جائزہ لینا چاہیے۔

مندرجہ بالا سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق دی گئی ہیں۔

قمر در عقرب

سیارہ قمر اپنے برج ہبوط عقرب میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 15 نومبر بہ روز اتوار 11:30am پر داخل ہوگا اور 17 نومبر بہ روز منگل دوپہر تقریباً 12 بجے تک برج عقرب میں رہے گا، یہ تمام عرصہ نحوست آثار ہے،اس دوران میں کوئی نیا کام شروع نہ کریں کیوں کہ اس وقت میں کیے گئے کاموں کے بہتر نتائج سامنے نہیں آتے، البتہ اس وقت علاج معالجہ کرانا مخالفین کے خلاف کارروائی وغیرہ بہتر ہوتی ہے، مزید یہ کہ اس وقت ایسے اعمال کرنا فائدہ بخش ہوتا ہے جن کے ذریعے دوسروں کو بری عادتوں سے یا ظلم و ستم سے روکا جاسکے، اس حوالے سے ہم ضرورت کے مطابق مختلف عملیات و وظائف دیتے رہے ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، فی الحال دو عمل یہاں دیے جارہے ہیں، وہ لوگ جو جفری عملیات کا شوق رکھتے ہیں، انھیں چاہیے کہ ہماری کتابوں، مسیحا حصہ اول، دوم اور سوم کا مطالعہ کریں، ان کتابوں میں ایسے تمام اہم نوعیت کے عملیات دیے گئے ہیں۔

عداوت و دشمنی کا خاتمہ

اکثر دو افراد کے درمیان عداوت یا دشمنی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتی ہے،اس کا خاتمہ ضروری ہے، اکثر تو اس بنیاد پر باہمی قریبی رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی صورت حال کے لیے درج ذیل عمل مفید ثابت ہوگا، دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون کر رہا ہے؟ لہٰذا نقش لکھتے ہوئے پہلے اُس فریق کا نام مع والدہ لکھیں جو ظلم و زیادتی کر رہا ہو اور بعد میں اس کا نام لکھیں جو حق پر ہو اور اس ساری دشمنی میں اپنا دفاع کر رہا ہو، یہ عمل قمر در عقرم کے دوران میں قمر کی ساعت میں کیا جائے یا پھر خواتین کے درمیان مخالفت ہو تو زہرہ کی ساعت لی جائے اور اگر مرد افراد کے درمیان مخالفت ہو تو مشتری کی ساعت لی جائے۔

احدرسص طعک لموہ لادیایا غفور یا غفور بستم اختلاف و عداوت فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں بحق صمُ بکمُ عمیُ فہم لایعقلون یا حراکیل العجل العجل العجل الساعۃ الساعۃ الساعۃ الوحا الوحا الوحا

کسی صاف کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے دو نقش گہن کے وقت لکھیں اور موم جامہ یا اسکاچ ٹیپ لپیٹ کر اُس راستے میں دائیں بائیں کسی سائیڈ دفن کردیں، جہاں سے اُن کا گزر ہوتا ہو، زمین میں دفن کرنے سے پہلے نقش پر کوئی وزنی پتھر بھی رکھ دیں، اگر دونوں فریق ایک ہی گھر میں مقیم ہیں تو گھر میں کسی وزنی چیز کے نیچے یہ نقش اس طرح دبائے جائیں کہ دونوں فریقین کے کمروں میں ہوں، بعد ازاں 5 کلو چینی اور سوجی صدقے کے طور پر کسی قبرستان میں چیونٹیوں یا دیگر حشرات الارض کے لیے ڈال دیں۔

مخالف کی زبان بندی

عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں، یہ عمل قمر در عقرب کے دوران میں عطارد کی ساعت میں کرنا چاہیے، انشاء اللہ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔

ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل

اکثر دیکھا گیا ہے کہ دفتر یا روزگار کی جگہ پر کچھ شرپسند طبیعت کے افراد پریشانی کا باعث بنتے ہیں اور اپنی خباثت کے سبب دوسروں کے خلاف بدگوئی، چغلی یا بدزمانی کرتے ہیں مندرجہ بالا نقش ایسے لوگوں کے لیے کارآمد ہوگا، نقش کو دفتر میں یا روزگار کی جگہ پر پوشیدہ طور پر کسی وزنی چیز کے نیچے دبادیں، مزید یہ کریں کہ جب بھی اس شخص سے سامنا ہو تو دل ہی دل میں اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم لاحولہ ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد شروع کردیں۔

شرف قمر

سیارہ قمر اپنے شرف کے برج ثور میں ہے، پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 29 نومبر بہ روز اتوار صبح 09:35 am پر داخل ہوگا اور یکم دسمبر بہ روز منگل صبح 09:10 am تک برج سنبلہ میں رہے گا، یہ نہایت مبارک اور سعد وقت ہے، اس وقت میں نئے کاموں کا آغاز بہتر ہوتا ہے، خیروبرکت اور ترقی یا باہمی محبت و یگانگت کے لیے اہم اعمال کیے جاسکتے ہیں۔

30 نومبر بروز پیر سیارہ قمر شرف یافتہ ہوگا اور پیر کا دن قمر ہی کا دن ہے، اس روز صبح پہلی ساعات قمر کی ہوگی جو تقریباً 06:57 am سے 07:57 am تک رہے گی،قمری پوزیشن نہایت عمدہ ہوگی، اس وقت میں اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر رزق میں کشادگی یا حصول ملازمت اور کاروبار میں ترقی کے لیے دعا کریں، ان شاء اللہ عمدہ نتائج کا حصول ممکن ہوسکے گا۔

اس کے علاوہ وہ لوگ جو باہمی ناچاقیوں کا شکار ہیں، گھر میں یا خاندان میں اختلافات بہت ہیں، انھیں چاہیے کہ اس وقت میں 786 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر کچھ چینی پر اور سفید رنگ کی مٹھائی پر دم کرلیں، چینی کو گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں ِ تاکہ پورے گھر کے استعمال میں آسکے، مٹھائی کو ان لوگوں کے گھر بھیج دیں جن سے اختلافات یا تنازعات ہیں، ان شاء اللہ اس کے نتائج مثبت ظاہر ہوں گے۔

اگر میاں بیوی کے درمیان یا دو محبت کرنے والوں کے درمیان کسی وجہ سے اختلافات ہوگئے ہوں تو انھیں بھی یہ مٹھائی کھلائی جائے، ان شاء اللہ مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔