پیر، 12 اکتوبر، 2015

اے خاک کربلا تو اس احسان کو نہ بھول

یوم عاشورہ سے متعلق اہم واقعات‘علامہ اقبال ؒاور علم نجوم ‘جسٹس جاوید اقبال کا زائچہ

پندرہویں صدی ہجری کے 37 ویں سال کا آغاز 15 یا 16 اکتوبر سے ہورہا ہے،سن ہجری کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے، اگرچہ ہجری سال کے بعض دیگر مہینے بھی کسی نہ کسی اعتبار سے اہمیت کے متقاضی ،مبارک اور مقدس سمجھے جاتے ہیں جیسے ربیع الاول سرکار دو عالمﷺ کی آمد کا مہینہ یا رمضان المبارک ، ذی الحج وغیرہ لیکن پہلا مہینہ محرم اپنی ایک جداگانہ تاریخ رکھتا ہے جو صدیوں پر محیط ہے اور اس کی وجہ ماہ محرم کی 10 تاریخ ہے جسے یوم عاشورہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،اسی روز دریائے فرات کے کنارے میدان کربلا میں اللہ کے سب سے پیارے اور برگزیدہ نبیﷺ کے نواسے امام عالی مقام حضرت حسینؑ عین حالت سجدہ میں شہید ہوئے اور دین اسلام میں قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان ایک امتیاز پیدا ہوگیا ۔امام عالی مقام کا قیامت تک کے لیے امت مسلمہ پر یہ احسان عظیم تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے، مولانا ظفر خان (مرحوم) فرماتے ہیں۔

اے خاک کربلا تو اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ لاشِ جگر گوشہ ءرسول

10 محرم الحرام یوم عاشورہ اس عظیم شہادت کے بعد شاید ہمیشہ کے لیے ایک ایسا یادگار دن بن گیا جس کی یاد کبھی دلوں سے نہیں نکل سکتی اور تمام عالم اسلام میں ہر سال اس دن کو یاد رکھا جاتا ہے، حالاں کہ اس دن کی اہمیت ماضی میں بھی کم نہ تھی، سلسلہ ءنبوت کے بہت سے اہم ترین واقعات یوم عاشور 10 محرم سے منسوب ہےں، کہا جاتا ہے کہ اسی روز حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی اور آپ کی ملاقات حضرت حوا سے ہوئی، طوفان نوح کے بعد حضرت نوح ؑ کی کشتی کوہِ جودی پر اسی روز ٹھہری، حضرت موسیٰ ؑ نے جب مصر سے ہجرت کی تو یہ بھی یوم عاشور تھا، حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے اسی روز نجات ملی، اگر تاریخ کو کھنگالا جائے تو اور بھی بہت سے واقعات اس تاریخ سے منسوب ہیں لیکن فی الحال ہمارے پیش نظر ایک ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے، تمام مؤرخ اس پر متفق ہیں۔

قریش مکہ نے تمام قبائل کو اکٹھا کرکے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت قبیلہ بنو ہاشم اور بنو مُطّلب کا سوشل بائیکاٹ کردیا، اس معاہدے کے تحت کوئی فرد اُن سے میل جول نہیں رکھ سکتا تھا، ان سے کسی قسم کا لین دین یا کاروبار نہیں کرسکتا تھا، ان سے شادی بیاہ بھی نہیں ہوسکتا تھا، اس صورت حال کی وجہ سے حضور اکرمﷺ کو اپنے محترم چچا کے ساتھ مکہ کے مضافات میں شعب ابی طالب کی گھاٹی میں پناہ لینا پڑی، یہ سوشل بائیکاٹ نہایت تکلیف دہ تھا جو تین سال تک جاری رہا،تاریخ عرب میں اس سے پہلے ایسا کوئی واقعہ قبائل کے درمیان دیکھنے میں نہیں آیا تھا،بالآخر تین سال بعد جب 10 محرم کا دن آیا تو حضور اکرمﷺ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے کہا کہ آپ حرم کعبہ جائیں اور آپ کو ایک خوش خبری بھی سنادی۔

10 محرم کی صبح لوگ حسب معمول حرم کعبہ کے ایک مقام حطیم میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص ریشمی لباس زیب تن کیے حرم میں آیا ، اُس نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا، کعبے کے طواف میں سات چکر لگائے، پھر رؤسائے قریش کے درمیان آکھڑا ہوا، لوگوں کو مخاطب کرکے بولا ”اے اہلِ مکہ! کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم تو کھائیں پئیں، کپڑے پہنیں، خوشبو لگائیں اور بنو ہاشم فاقے کریں، نہ اُن سے خریدا جائے، نہ انہیں کچھ بیچا جائے، خدا کی قسم جب تک یہ ظالمانہ عہد نامہ تار تار نہ کردوں، میں اس مجلس میں نہیں بیٹھوں گا،واضح رہے کہ اس شخص کا نام زہیر مخزومی تھا اور ابو جہل کا تعلق بھی اسی کے قبیلے سے تھا، چناں چہ ابو جہل سخت ناراض ہوا اور کہا ”بیٹھ جاؤ کوئی نہیں پھاڑ سکتا وہ عہد نامہ“ اس مجلس کے لوگوں میں کھسر پھسر شروع ہوگئی،اچانک ایک اور شخص زمعہ بن الاسود کھڑا ہوا اور برہم لہجے میں بولا ”ابوالحکم! (ابوجہل کی کنیت ابوالحکم تھی) تم غلط کہتے ہو، بکواس کرتے ہو، جس وقت وہ عہد نامہ تم نے لکھوایا، ہم اُس وقت بھی اس سے خوش نہ تھے، بہتر یہی ہے کہ اب اس کوپھاڑ دیا جائے“ اس کے بعد مزید آوازیں بھی اٹھنے لگیں تو ابو جہل غصے سے آگ بگولا ہوگیا اور بولا ”یہ سب پہلے کہیں طے کیا ہوا معاملہ لگتا ہے، تم سب نے کوئی سازش کی ہے مگر میں یہ عہد نامہ کسی کو پھاڑنے نہیں دوں گا، اس پر سب قبیلوں کے سرداروں کے دستخط ہیں“ کچھ فاصلے پر بیٹھے حضرت ابو طالب یہ ماجرا دیکھ رہے تھے، آپ نے اس مجلس کی طرف اپنا رُخ پھیرا اور انہیں مخاطب کیا ، تمام امراءاور سردار سیدنا ابو طالب کی طرف متوجہ ہوگئے، آپ نے فرمایا ”تم لوگ جس معاہدے کو پھاڑنے اور نہ پھاڑنے پر جھگڑ رہے ہو، اُس کے بارے میں میرے بھتیجے الاامین الصادقﷺ نے کچھ بتایا ہے

کیا بتایا ہے؟“ قریش کے کئی سردار ایک ساتھ بولے ۔ سیدنا ابو طالب نے فرمایا ” میرا بھتیجا جسے آسمان سے خبریں آتی ہیں، اُسے خبر ملی ہے کہ جس معاہدے کی تم بات کر رہے ہو، اس پر خدا نے پہلے ہی دیمک مسلط کردی ہے، ساری لکھی ہوئی تحریر اور تمہارے سرداروں کے دستخط دیمک نے چاٹ لیے ہیں، کاغذ پر صرف ایک ہی لکھی ہوئی سطر باقی ہے ”شروع اللہ کے نام سے“ سارے ہجوم میں ایک بار پھر بھنبھناہٹ شروع ہوگئی، آپ نے پھر فرمایا ” تم جانتے ہو میں یا بنوہاشم کا کوئی فرد ان تین برسوں میں حرم کے اندر نہیں گیا،میں نے جو کہا وہ میں نے اپنے بھتیجے سے سنا ہے جس کی خبر آسمان والے نے آسمان سے بھیجی ہے۔ اب اگر وہ خبر سچی ہے تو لکھا گیا تمہارا عہد نامہ ختم ہوگیا اور اگر یہ بات غلط نکلی تو میں درمیان سے ہٹ جاؤں گا، تمہارا جو جی چاہے، پھر تم کرنا اور تم جانتے ہو کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا
مجلس میں سناٹا چھا گیا، ابو جہل کے علاوہ قریش کے سب سرداروں نے کہا ”سردار تم نے انصاف کی بات کی

عہد نامے کا حال دیکھنے کے لیے سب بے تاب تھے ، سب سے پہلے مطعم بن عدی اُٹھا اور کعبے کے دروازے سے اندر گیا، اُس کے ساتھ قریش کے کئی سردار بھی گئے، سیدنا ابو طالب جہاں بیٹھے تھے ، وہیں بیٹھے مسکراتے رہے،جیسے جانتے ہوں کہ آسمان سے اُتری خبر کبھی بھتیجا غلط نہیں بتاتا۔ قریش کے سردار کعبے کی دیوار پر لگے اپنے لکھوائے ہوئے عہد نامے کے پاس پہنچے تو سب کی آنکھیں حیرانی سے ابلنے لگیں ، سارا عہد نامہ دیمک کھاچکی تھی، سارا کاغذ ختم ہوچکا تھا، صرف عہد نامے کے اوپر لکھی ایک سطر ”باسمک اللھم“ شروع اللہ کے نام سے۔قریش کے سرداروں کی گردنیں شرمندگی اور ندامت سے جھک گئیں، یہ 10 محرم الحرام یوم عاشورہ کا دن تھا جو ہر سال کے آغاز میں اب ہمارے دلوں میں ایک غم لازوال کو تازہ کرتا اور ہمیں حق و باطل میں تمیز کرنے کا شعور دیتا ہے ، شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس موضوع پر جو شعر کہا ہے ، وہ گویا کوزے میں سمندر کو بند کرنے کے مترادف ہے، آپ نے فرمایا

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

علامہ اقبال ؒ اور علم نجوم

علامہ اقبال کے لائق اور قابل فخر فرزند جسٹس جاوید اقبال 3 اکتوبر کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے، ان کی تاریخ پیدائش 5 اکتوبر 1924 تھی ، گویا تقریباً 91 برس کی طویل عمر پائی، جسٹس جاوید اقبال نہ صرف یہ کہ ایک ماہر قانون تھے بلکہ دیگر دینی و دنیاوی علوم پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے، علامہ کی سوانح حیات تحریر کی اور اپنی سرگزشت بھی لکھی، بے شک وہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی، اللہ اُن کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔

بہت عرصہ پہلے جب ہم علامہ اقبال کے زائچہ پیدائش پر کام کر رہے تھے تو جسٹس جاوید اقبال کا زائچہ بھی ہماری نظر سے گزرا جو جنوبی ہندوستان کے کسی ویدک ایسٹرولوجر بی آر سری نیواسایا (B.R. SRINIVASAIYA) نے بنایا تھا،اس کا تعلق میسور سے تھا، یہ زائچہ یعنی جنم پتری اقبال اکیڈمی لاہور کے ریکارڈ میں محفوظ ہے، ہمیں حیرت ہوئی کہ علامہ اقبال کو علم نجوم سے کیوں کر دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے کیوں یہ جنم پتری تیار کروائی؟علامہ کو اس علم سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی بلکہ اپنے ایک شعر میں فرمایا

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل عمر ہمارے دوستوں میں شامل ہیں اور ڈپٹی ڈائریکٹر احمد جاوید ہمارے نوجوانی کے دوستوں میں سے ہیں لہٰذا ہم نے ڈاکٹر سہیل عمر سے بات کی، انہوں نے ایک کتاب کا ایک صفحہ فوٹو کاپی کرکے ہمیں روانہ کردیا، یہ کتاب محمود نظامی صاحب کے ملفوظات کا غالباً مجموعہ ہے جس میں علامہ اقبال کے بہت سے واقعات بیان کیے گئے ہیں، جو صفحہ ہمیں بھیجا گیا ، اس میں جسٹس جاوید اقبال کی جنم پتری کا ماجرا خود علامہ اقبال کی زبانی موجود ہے۔


علامہ فرماتے ہیں ”میرے ایک پنڈت دوست نے اپنے استاد سے جو بنارس میں اس فن کا بہت ماہر تسلیم کیا جاتا تھا،جاوید کی ولادت پر جنم پتری بنوائی، میں اس کا قائل نہیں ہوں، اس لیے میں نے اس پر کچھ توجہ نہ کی، چند دن گزرے ، بڑے بھائی صاحب نے وہ پتری نکال کر دیکھی اور مجھے بھی دکھائی ، اس میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ بچہ اتنے سال کی عمر کو پہنچے گا تو اس کا والد لمبی بیماری میں مبتلا ہوجائے گا اور یہ خود کئی سال تک معدے (یا شاید جگر) کے مرض میں مبتلا رہے گا، تعجب ہے کہ یہ دونوں باتیں صحیح ہورہی ہیں

علامہ کے اس بیان سے یہ تو ظاہر ہوگیا کہ جنم پتری انہوں نے خود نہیں بنوائی تھی بلکہ ان کے کسی واقف اور مربّی نے ازخود یہ کارنامہ انجام دے کر علامہ کی خدمت میں پیش کردیا تھا جس پر علامہ نے کوئی توجہ بھی نہ دی تھی۔ جسٹس جاوید اقبال کی پیدائش 1924 کی ہے اور علامہ کا انتقال 1938 میں ہوا اور وہ اس سے پہلے کافی عرصہ بیمار رہے، ہم نے اس جنم پتری کی فوٹو کاپی اقبال اکیڈمی سے حاصل کی اور اس کا مطالعہ کیا ۔  جنوبی ہندوستان میں ٹھیٹ کلاسیکل ویدک ایسٹرولوجی برسوں سے رائج ہے اور پروفیسر بینگلور وینکٹ رامن کے نام کا ڈنکا ہمیشہ بجتا رہا ہے جو یونانی اور ویدک سسٹم میں ایانامسا کے حوالے سے بھی دیگر ویدک ایسٹرولوجرز سے اختلاف رکھتے تھے اور اس اختلاف کی بنیاد پر بھارت کے تمام دیگر ماہرین نجوم سے اُن کے اختلافات نہایت شدید رہے مگر جنوبی ہندوستان میں اُن کے ایانامسا کے مطابق ہی دیگر ایسٹرولوجر صاحبان پریکٹس کرتے رہے، حالاں کہ بعد میں اُن کے بعض اہم شاگردوں اور خود اُن کی بیٹی نے بھی اس حوالے سے اختلاف کیا۔

 جنم پتری بنانے والے ایسٹرولوجر سے ہم واقف نہیں ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ایانامسا رامن کا استعمال کیا ہے یا لہری کا جو پوری دنیا میں درست تسلیم کیا جاتا ہے اور دنیا بھر کے تمام ویدک ایسٹرولوجرز پروفیسر لہری کی تقلید کرتے ہیں ، انڈیا میں سرکاری طور پر بھی لہری کا ایانامسا مستند تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے جو زائچے کی ریڈنگ کی ہے وہ بھی روایتی اور بہت ہی عام قسم کی ہے جس میں چند باتیں ضرور درست ثابت ہوئیں جن پر علامہ نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے لیکن دیگر حالاتِ زندگی میں خاصا تضاد موجود ہے، انہوں نے ایک بہترین تعلیمی کیرئر کی نشان دہی کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ خاصے پڑھاکو ، لٹریچر اور قانون کے شعبے سے دلچسپی لینے والے ہوں گے، یہ بات درست ہے، اختلافی امر یہ ہے کہ انہوں نے طالع لگن ثور لیا ہے، جب کہ برج ثور کے تحت پیدا ہونے والے افراد عام طور پر زیادہ قد آور نہیں ہوتے، جسٹس جاوید اقبال کا شمار اگر طویل قامت افراد میں نہیں ہوتا تو انہیں پستہ قامت بھی نہیں کہا جاسکتا، طالع ثور ایک نہایت سخت اور مشکل طالع ہے ، اس کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد زندگی بھر سخت محنت اور جدوجہد کے بعد ہی کسی مقام پر پہنچتے ہیں، جسٹس جاوید اقبال کے سلسلے میں علامہ اقبال ایسے انتظامات کر گئے تھے کہ وہ سہولت کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کرسکیں اور اس حوالے سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی بعد میں کرئر کے حوالے سے بھی وہ خاصے خوش قسمت رہے، بہر حال ہم ان کے بنائے ہوئے زائچے کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں جسٹس صاحب کا درست زائچہ پیش کر رہے ہیں ۔

5 اکتوبر 1924 ءبمقام سیالکوٹ تقریباً رات 10:31:10 pm کے مطابق طالع جوزا طلوع ہے، طالع کا حاکم عطارد چوتھے گھر میں شرف یافتہ ہے،اسی گھر میں سیارہ شمس بھی موجود ہے اور عطارد سے خاصے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے عطارد غروب نہیں ہے، یہ پوزیشن مہاپنچم یوگ میں سے ”بھدرا یوگ“ بناتی ہے، اس یوگ کے تحت پیدا ہونے والے افراد خوب صورت، وجیہہ اور پرکشش شخصیت کے مالک ہوتے ہیں،وہ علمی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیتے ہیں،خصوصاً ریسرچ ورک وغیرہ میں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بھدرا یوگ کے حامل افراد کا اوڑھنا بچھونا زندگی بھر لکھنا پڑھنا ہی رہتا ہے،چنانچہ جسٹس جاوید صاحب اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے علاوہ تحریر اور تحقیق کے میدان میں بھی نمایاں رہے۔

دوسرے گھر کا حاکم قمر زائچے کے ساتویں گھر برج قوس میں ہے جس کا حاکم عقل و دانش کا سیارہ مشتری ہے لیکن مشتری نوامسا چارٹ میں اپنے برج ہبوط میں ہے، پیدائشی قمری منزل پروشدھ ہے جس پر فن و آرٹ کا سیارہ زہرہ حکمران ہے، قمری برج قوس آئین و قانون ، مذہب سے متعلق ہے، دوسری طرف اعلیٰ تعلیم کے گھر کا حاکم سیارہ زحل پانچویں گھر میں شرف یافتہ ہے اور دہ بہرہ (D-10) چارٹ میں زحل برج جدی میں ہے،  D-10  کا طالع اسد ہے، یہ تمام صورت حال قانون کی تعلیم اور پھر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعیناتی ، جسٹس کے عہدے تک ترقی کا باعث ہے،دہ بہرہ (D-10) زائچے کے طالع میں برج اسد کا طلوع ہونا اعلیٰ سرکاری عہدہ و مراتب کی نشان دہی ہے۔

زائچے کے دوسرے گھر میں راہو، تیسرے گھر میں زہرہ ، چھٹے گھر میں مشتری، آٹھویں گھر میں کیتو اور نویں گھر میں سیارہ مریخ قابض ہیں،زحل کے علاوہ زہرہ بھی نہایت باقوت پوزیشن رکھتا ہے،پانچویں گھر کا مالک ہونے کی وجہ سے اعلیٰ ترین شعور ، اچھی اور قابل فخر اولاد اور زندگی میں بھرپور خوشیاں اس کا ثمرہ ہیں۔ مشتری کی زائچے میں پوزیشن جسٹس صاحب کی مذہبی اور فلسفیانہ سوچ میں ”ٹیڑھ“ کی مظہر ہے، اول تو مشتری نوامسا میں اپنی برج ہبوط میں ہے ، دوم یہ کہ زائچے کے چھٹے گھر میں ہے جو اختلاف و تنازعات کا گھر ہے،جسٹس صاحب اپنے مذہبی یا فلسفیانہ نظریات میں ایک جداگانہ سوچ اور نظریہ رکھتے تھے،اسلامی تعلیمات یا فقہی امور پر بھی ان کا زاویۂ نظر دیگر علماءیا صوفیا سے اختلافی رہا، ملائیت سے ان کے والد بھی بے زار رہتے تھے اور وہ بھی، وہ دین ملّا فی سبیل اللہ فساد۔ کے قائل تھے، اکثر علمی معاملات میں ان کی اپنی مجتہدانہ مو شگافیاں نمایاں رہتی تھیں، واضح رہے کہ برج قوس جو اُن کی جنم راشی ہے، آئین و قانون ، مذہب و فلسفہ کا برج ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ان موضوعات سے دور ہوتے۔ مشتری زائچے میں ساتویں گھر کا حاکم ہے اور اس کی پوزیشن شادی میں تاخیر بھی ظاہر کرتی ہے لیکن ساتویں گھر پر برج قوس اور مشتری کے باعث شریک حیات کا تعلق بھی آئین و قانون سے ہے ، وہ بھی ایک قابل فخر جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔

پروشدھ

قمری منزل پروشدھ کے معنی ناقابل شکست یا نہ جھکنے والا کے ہیں، اس نچھتر پر زہرہ کی حکمرانی مقبولیت کی عکاسی کرتی ہے یعنی صاحب زائچہ مقبول ہوتا ہے، اس کا بنیادی محرک روحانی آزادی اور فطرت انسانی ہے ، اس نچھتر میں پیدا ہونے والے افراد ایک گہری فلسفیانہ اور روحانی فطرت کو ظاہر کرتے ہیں، یہ لوگ بحث و مباحثہ کرنے والے آزاد فطرت کے مالک اور بحث میں کسی کو بھی شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ہٹیلے اور ضدی ہوتے ہیں،کسی کی بھی نہیں سنتے،انانیت بھی اس نچھتر کا ایک پہلو ہے،ان لوگوں کو اپنی بڑائی کا بڑا احساس رہتا ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ دوسروں کو مشورے دے سکتے ہیں لیکن دوسری طرف خود کسی سے مشورہ نہیں لے سکتے اور دوسروں کے مشوروں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں،ایک بار کوئی نظریہ یا عقیدہ ان کے دل و دماغ میں راسخ ہوجائے تو پھر اُس پر سمجھوتا کرنا ان کے لیے تقریباً نا ممکن کام بن جاتا ہے،اگرچہ یہ نچھتر مذہبی رجحانات کا حامل ہے اور بعض لوگ مذہب میں نہایت شدت پسند ہوسکتے ہیں لیکن صورت حال اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے یعنی یہ لوگ کسی ذاتی نظریے اور فلسفے کے پیروکار ہوجائیں، مذہب سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کردیں، جیسا کہ غلام احمد پرویز اور گورو رجنیش کے کیس میں دیکھا گیا ہے، جسٹس جاوید اقبال بھی اپنے مذہبی نظریات میں بعض دیگر علما کے مقابلے میں اپنا الگ فلسفۂ مذہب رکھتے تھے اور شاید یہ علامہ کی اُس نصیحت کا اثر بھی ہوسکتا ہے جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

طالع جوزا بنیادی طور پر ”نالج“ کا برج ہے، یہ لوگ زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں اور ساری عمر علم کے حصول اور پھر اُسے پھیلانے کے لیے یا دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوششوں میں مصروف رہتے ہیں، طالع جوزا تمام برجوں میں سب سے بہتر طالع ہے کیوں کہ راہو کیتو کے علاوہ کوئی سیارہ اس طالع کے لیے منحوس اثر نہیں رکھتا، چنانچہ عام طور پر طالع جوزا والے ایک اچھی اور کامیاب زندگی گزارتے ہیں، اگر زائچے میں سیارگان اچھے گھروں میں ہوں، جسٹس صاحب نے بھی ایک بھرپور اور کامیاب زندگی گزاری، سیارہ زحل عمر کا نمائندہ بھی ہے اور اُس کی مضبوط ترین پوزیشن اور شرف یافتہ حیثیت کے باعث انہوں نے طویل عمر پائی۔

جسٹس جاوید اقبال کی زندگی کا پہلا سانحہ 21 اپریل 1938 کو بہ عمر 13 سال 5 ماہ میں پیش آیا ، اُس وقت شمس کا دور اکبر جاری تھا جو باپ کا نمائندہ ہے اور کیتو کے دور اصغر اور دور صغیر کی ابتدا ہوئی، اسی تاریخ کو والد محترم نے وفات پائی، کیتو کا دور 27 اگست 1938 ءتک جاری رہا، یقیناً یہ ایک تکلیف دہ دور تھا،کیتو زائچے میں آٹھویں گھر میں قابض ہے اور آٹھویں گھر کا حاکم یا قابض اکثر والد کے لیے یا صاحب زائچہ کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اُس کے فوری بعد زہرہ کا دور اصغر ایک نئے حوصلے اور نئی لگن کی نشان دہی کرتا ہے جو ظاہر ہے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی کے عزم سے متعلق ہے۔

جاوید اقبال بمقابلہ ذوالفقار علی بھٹو

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ساتویں گھر کا حاکم زہرہ تیسرے گھر میں بہت عمدہ پوزیشن رکھتا ہے، تیسرا گھر پہل کاری اور کوشش سے متعلق ہے،راہو کے دور اکبر میں جسٹس صاحب عملی طور پر سیاست کے میدان میں داخل ہوئے، 15 مارچ 1968 ءسے راہو کے دور اکبر میں زہرہ کا دور اصغر شروع ہوا تو انہوں نے 70 کے الیکشن میں لاہور کے ایک حلقے سے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے پر الیکشن لڑا ، اگرچہ وہ کامیاب نہ ہوسکے کیوں کہ اُس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ستارہ عروج پر تھا لیکن سیاست سے اُن کی دلچسپی راہو کے دور اکبر میں جاری رہی اور پھر عملی طور پر نہ سہی لیکن تفریح طبع کے لیے ایک مشق سخن جاری رہی، سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد زحل کے دور اکبر میں انہوں نے ایک بہت ہی پرسکون اور اطمینان بخش زندگی گزاری، زحل کا دور اکبر 27 اگست 1990 سے شروع ہوا، زحل چوں کہ نویں گھر کا حاکم اور پانچویں گھر میں قابض شرف یافتہ سیارہ ہے لہٰذا 1990 کے بعد ان کا زیادہ وقت تصنیف و تالیف اور دیگر علمی نوعیت کے کاموں میں گزرا۔

22 ستمبر سے زائچے میں عطارد کے دور اکبر میں زہرہ ہی کا دور اصغر جاری تھا لیکن دور صغیر کیتو کا چل رہا تھا،زائچے کے منحوس ترین راہو کیتو چوتھے اور دسویں گھر میں رہتے ہوئے دوسرے ، چوتھے، چھٹے ، آٹھویں، دسویں اور بارھویں گھروں کو مکمل ناظر تھے،ساتھ ہی چوتھے گھر کے حاکم عطارد کو بھی متاثر کر رہے تھے، نویں بھاگیا استھان کا حاکم چھٹے گھر میں اور دوسرے گھر کا حاکم بارھویں گھرمیں تھا،جب تین اکتوبر کو وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے، گویا عمر طبعی کو پہنچ گئے، اتنی طویل عمر اور بھرپور زندگی کی خوشیاں کم کم لوگوں کا نصیب ہوتی ہیں حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

آئیے اپنے خطوط اور ان کے جوابات کی طرف:

رشتہ مناسب ہے یا نا منا سب؟

این،اے نے رشتے کے حوالے سے مشورہ طلب کیا ہے اور نام اور مقام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے۔

عزیزم ! آپ کی تاریخ پیدائش اور فریق ثانی کی تاریخ پیدائش کے مطابق آپ کا شمسی برج جدی اور قمری برج اسد ہے جب کہ فریق ثانی (ٹی اے) کا شمسی برج سنبلہ اور قمری برج حوت ہے۔آپ دونوں کے شمسی برج اپنے عنصر کے اعتبار سے خاکی ہیں اور دائرةالبروج میں باہم دوستی کی نظر رکھتے ہیں برج جدی سے سنبلہ 9ویں نمبر پر ہے جو برج جدی کا خانہ قسمت بھی ہے اور مستقبل بھی ۔جب کہ برج سنبلہ سے برج جدی 5ویں نمبر پر ہے 5واں خانہ محبوب اور رومانی سرگرمیوں کو ظاہر کرتا ہے ۔ گویا سنبلہ کے لیے کوئی جدی شخص محبوب کا درجہ رکھتا ہے اور آپ دونوں کی شخصیت اور مزاج میں ظاہر ی ہم آہنگی موجود ہے ۔دونوں ایک دوسرے کے مزاج آشنا ثابت ہوں گے ۔ دونوں علمی سوچ کے حامل ہیں اور زندگی کے مادی حقائق کو سمجھتے ہیں اس اعتبار سے آپ کی جوڑی مناسب رہے گی۔

اور دوسری طرف آپ کا قمری برج اسد اور فریق ثانی کا حوت ہے۔ یہ دونوں برج نہایت گہرائی میں آپ دونوں کے فطری رجحانات کی نشان دہی کرتے ہیں ۔اسد آتشی برج ہے جب کہ حوت کا عنصر پانی ہے اور آگ اور پانی میں موافقت نہیں ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ دونوں بظاہر ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزاریں گے لیکن آپ کو فطری میلانات رحجانات کا اختلاف زندگی میں اکثر و بیش تر پریشان کرتا رہے گا جس کی وجہ سے کبھی کبھی چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہیں گی اور کبھی کوئی بڑا اہم تنازع بھی جگہ لے سکتا ہے ۔

زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ تنازع آپ کی وجہ سے کوئی خطرناک صورت اختیار کرے کیوں کہ آپ فطری طور پر زیادہ انا پرست ہیں، آپ دونوں کے قمری بروج سے جو فطری اختلافات جنم لے سکتے ہیں وہ یہ ہوں گے ۔

قمری برج اسد کے تحت آپ بہت زیادہ انا پرست ،ضدی ، اپنی عزت اور وقار کو بہت زیادہ اہمیت دینے والی، دنیاوی نمود و نمائش سے متاثر ہونے والی ، بہتر اور عمدہ ماحول میں زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں۔ جب کہ قمری برج حوت کے تحت فریق ثانی اپنی فطرت میں بہت آئیڈیل پرست ، گہری جذباتی وابستگی رکھنے والا ، اور صرف اپنے کام سے کام رکھنے والا ، مالی معاملات میںمخصوص حدود قیود کا پابند ، کچھ ”حال مست “قسم کا انسان، بے حد حساس ، کسی حد تک شکی و وہمی ہوسکتا ہے ۔

اب ہمارے اس تجزیے کی روشنی میں اگر دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھ کر زندگی گزارنے کی کوشش کریں تو کبھی کوئی گڑبڑ پیدا نہیں ہو گی، اپنی خامیوں کی اصلاح کریں ، دوسرے کو اس کی خامیوں کا الاؤنس دیں ۔ انتہا پسندانہ طرز عمل سے گریز کریں تو انشاءا ﷲ آپ کی ازدواجی زندگی خوشگوار رہے گی ۔

ہندی جوتش اور ہندی رسم الخط

عبدالصمد، حیدرآباد : محترم ! آپ نے جو زائچہ ہمیں روانہ کیا ہے وہ ہندی جوتش کا ہے ۔ ہمارے لیے ہندی جوتش کو سمجھنا مشکل نہیں ہے، خدا کے فضل وکرم سے یہ بھی ہماری پریکٹس میں ہے لیکن ہندی رسم الخط سے ہمیں کوئی واقفیت نہیں ہے اور آپ کا مکمل زائچہ ہندی رسم الخط میں تحریر کیا گیا ہے اگر اس کا ترجمہ کوئی ہندی سمجھنے والا کر دے تو باقی کام ہمارے لیے آسان ہو جائے گا، بے شک برسوں پہلے جس ماہر جوتش نے اسے تیار کیا ہے وہ اس علم کا عالم ہو گا اردو ترجمے سے اس کے ذریعے رہنمائی لی جاسکتی ہے، باقی آپ کی تاریخ پیدائش جو آپ نے لکھی ہے، اگر درست ہے تو اس کی بنیاد پر زائچہ یا جنم کنڈلی بنائی جاسکتی ہے، اگر آپ ہندی جاننے والے سے ترجمہ کرواکر ہمیں روانہ کر دیں تو بہتر ہو گا۔

کیا کاروبار پر بندش ہے؟

اے، آر، ایم جگہ نامعلوم، لکھتے ہیں۔ ”میں اپنے کاروبار کے متعلق جاننا چاہتا ہوں اور اپنے بارے میں بھی۔ پہلے ہمارا کاروبار بہت اچھا چلتا تھا لیکن اب بہت ہی ڈاؤن ہے۔ کچھ لوگوں سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ کسی نے آپ پر کاروباری بندش کی ہوئی ہے۔ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر جانا چاہتا تھا لیکن گھر والوں نے روک دیا۔ کیا میں باہر جا سکوں گا؟

جواب: عزیزم! آپ کے کاروبار پر بندش وغیرہ تو کوئی نظر نہیں آتی، البتہ آپ کے زائچے کے مطابق چونکہ آپ تقریباً گزشتہ ڈھائی سال سے سیارہ زحل کی ساڑھ ستی کا شکار ہیں لہٰذا کاموں میں رکاوٹ اور خرابیاں خود آپ کی کوتاہیوں اور غلطیوں کے سبب نظر آ رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اندازہ ہے کہ آپ کے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، آپ مزاجاً خاصے منہ پھٹ اور دوٹوک بات کرنے والے آدمی ہیں جو کچھ صحیح سمجھتے ہیں وہ کسی کا لحاظ کیے بغیر اور مصلحت کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کیوں کہ آپ کا پیدائشی برج سنبلہ ہے اور قمری برج قوس ہے، آپ فطرتاً خاصا تنقیدی رویہ رکھتے ہیں، اپنی دانست میں آپ دوسروں کی اصلاح اور بھلائی چاہتے ہیں لیکن ضروری تو نہیں ہے کہ دوسرے آپ کی رائے یا آپ کے اختلافی نظریات سے اتفاق کریں، ہمارے خیال میں آپ ایک اچھے سیلز مین بھی نہیں ہیں، ممکن ہے آپ کے پاس آنے والے خریداروں کو بھی آپ سے شکایات ہوں اور وہ آپ کو ایک اکھڑ اور سخت مزاج آدمی سمجھتے ہوں۔ اگر آپ اپنی ان خامیوں پر قابو پائیں تو آپ کا کاروبار بہتر ہو سکتا ہے۔ اس سال دسمبر سے ایسا وقت شروع ہو رہا ہے کہ آپ بیرون ملک جانے کی کوششوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بہت سی اچھی باتوں کے ساتھ خراب بات یہ ہے کہ سیارہ زحل کی ساڑھ ستی کے ابھی 5 سال باقی ہیں۔ اگر آپ نے دانشمندی، صبر و تحمل اور برداشت سے کام نہ لیا تو ناکامیاں اور پریشانیاں بڑھ جائیں گی اور آپ خواہ کہیں بھی ہوں، پریشانیوںکا شکار رہیں گے۔

سرکاری نوکری ملے گی یا نہیں؟

زیڈ، ایچ، شہداد پور : عزیزم! ابھی آپ کی تعلیم تو مکمل ہوئی نہیں تو آپ سرکاری نوکری کی شرائط کیسے پوری کریں گے۔ بہتر ہو گاکہ تعلیم مکمل کرنے پر دھیان دیں اور آگے ایل ایل بی کا ارادہ درست ہے۔ نیا سال تعلیمی معاملات میں معاون ثابت ہو گا۔ اگر روزگار آپ کے لیے بہت ضروری ہے تو کسی پرائیویٹ جاب کے لیے کوشش کریں۔ دسمبر، فروری اور اپریل کے مہینے کامیابی لائیں گے لیکن جاب کے چکر میں تعلیمی معاملات سے غفلت نہ برتیں۔ 2017  تک محنت اور جدوجہد کا وقت ہے۔ اس عرصے میں تعلیم مکمل کریں تاکہ آئندہ آپ کا کیرئر شاندار ہو سکے۔