پیر، 4 دسمبر، 2017

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

پاکستان 2018 ءکے امکانات ، پاکستان کس طرف جارہا ہے؟

2017 ءکو ہم نے تبدیلی کا سال قرار دیا تھا اور عرض کیا تھا کہ یہ ایک نئے آغاز کا سال نظر آتا ہے جس میں نئے انتخابات کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،28 جولائی کو سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر ان کی حکومت ختم کردی، اگرچہ ن لیگ کی حکومت کو برقرار رکھا گیا اور اسمبلی نے نئے وزیراعظم کا انتخاب کرلیا ہے مگر حقیقتاً موجودہ حکومت ایسی بحرانی صورت حال سے دوچار ہے کہ نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے،تحریک لبیک کے دھرنے اور اس کے سامنے حکومت کی ناکامی نے صورت حال کو مزید واضح کردیا ہے کہ اب نئے انتخابات انتہائی ضروری ہوچکے ہیں۔
 سال 2018 ءکو گزشتہ سال 2017 ءکا تسلسل کہا جاسکتا ہے، اس سال تبدیلی اور ایک نئے آغاز کی جو لہر شروع ہوئی ہے وہ امکان ہے کہ 2018 ءمیں بھی جاری رہے گی، گویا پاکستان کا نیا سال جو 14ا گست سے شروع ہوتا ہے، دھلائی، صفائی اور پاکستان دشمن قوتوں سے لڑائی کا سال ہے۔
اصولی طور پر 2018 ءکو الیکشن کا سال قرار دیا گیا تھا کیوں کہ اس سال ن لیگ حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے لیکن نئے سال میں سیارگان کی نشست و برخاست ظاہر کر رہی ہے کہ بعض وجوہات کی بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں یا ان میں کچھ زیادہ تاخیر ہوسکتی ہے، ان وجوہات میں ملک کے انتخابی نظام کی اصلاح و درستگی سرفہرست ہوگی اور یہ جب ہی ممکن ہوسکے گا کہ ایک عبوری حکومت تین ماہ سے زیادہ عرصہ قائم رہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ 2017 ء ایک نئے آغاز اور تبدیلی کا سال ہے، ایسا ہی ہوا،پہلی مرتبہ ملک کی برسراقتدار اور طاقت ور سیاسی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان کے خلاف عدالت عالیہ نے فیصلہ دیا اور کہا کہ وہ صادق و امین نہیں ہیں، ان کی فیملی کے اکثر افراد کے خلاف نیب کورٹ مین ریفرنسز دائر کیے گئے اور اب انہیں عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہے،اس سال بہت سے کام ایسے ہوئے جو اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ عدالت کی طرف سے جے آئی ٹی تشکیل دینا،آئینی ترامیم کا متنازع ہونا اور اس کے نتیجے میں وزیرقانون کا استعفیٰ وغیرہ، تبدیلی کا عمل جاری ہے،سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی آنے والی تبدیلیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ شاید اس ملک کی سیاست اور طرز حکومت ایک نیا رُخ اختیار کرنے جارہی ہے، سال 2018 ءایک غیر معمولی سال ہے جس میں ایسی تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں جو موجودہ پورے نظام کو ایک نیا رنگ دےنے کا باعث ہوسکتی ہیں،اس سال موجودہ آئین کے بارے میں بھی بہت سے سوال اُٹھ سکتے ہیں اور نئی آئین سازی یا موجودہ آئین میں مزید ترامیم کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے زائچے میں مشتری کے دور اکبر میں زہرہ کا دور اصغر جون 2019 ءتک جاری رہے گا اور اس دور میں عدلیہ اور فوج کی فعالیت بھی جاری رہے گی، نئے فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کئی بار نہایت لطیف پیرائے میں اپنے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، اب تک فوج نے سیاست میں مداخلت نہیں کی، یہ بات پاکستان کے اکثر معتبر و غیر جانب دار صحافی حلقے بھی کہہ رہے ہیں، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف خاصے نرم طبیعت انسان تھے لیکن سیاست کے ساتھ جرم کو وہ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، شاید یہی پالیسی موجودہ جنرل باجوہ کی بھی ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ عدالتوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے اور پورا تحفظ فراہم کیا جائے، ہماری سیاسی اشرافیہ اسے بھی اسٹیبلشمنٹ کی سازش سمجھتی ہے، اکثر صحافتی حلقوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے مگر ہمارا مو ¿قف یہی ہے کہ سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور قدرت اپنی چال چل رہی ہے جس نے جو بویا ہے، وہی اسے کاٹنا ہے، قانون مکافات عمل ایک اٹل حقیقت ہے، برسوں پہلے سلیم احمد نے کہا تھا

تو منکر قانونِ مکافاتِ عمل تھا
لے دیکھ تِرا عرصہ ءمحشر بھی یہیں ہے
زائچہ ءپاکستان اور 2018 ئ


 زائچہ ءپاکستان میں طالع پیدائش برج ثور ہے اور اس زائچے کے مطابق زہرہ مشتری اور مریخ کے علاوہ راہو کیتو فعلی منحوس اثر رکھنے والے سیارے ہیں، پاکستان 11 دسمبر 2008 ءسے سیارہ مشتری کے دور اکبر سے گزر رہا ہے،مشتری زائچے کے آٹھویں گھر کا حاکم ہوکر زائچے کا سب سے زیادہ نقصان دہ اور نحس سیارہ بن گیا ہے،اگر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد سے پاکستان مستقل کسی نہ کسی مصیبت یا پریشانی کا شکار ہے، اسامہ بن لادن کی پاکستان سے برآمدگی ، بجلی، پیٹرول اور دیگر نوعیت کے بحران ، مہنگائی کا طوفان، عام آدمی پریشان، بے شک مشتری کا دور خاصا طویل ہے، اللہ پاکستان پر اور پاکستان کے عوام پر رحم فرمائے۔
اکتوبر 2016 ءسے مشتری کے دور اکبر میں زہرہ کا دور اصغر شروع ہوا، زہرہ چھٹے گھر کا حاکم ہوکر دوسرا فعلی منحوس ہے، اختلافات، تنازعات، جنگ، بیماریاں، اس گھر کی شناخت ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کی ابتدا کے بعد ہی پاناما کیس عدالت تک پہنچا اور پھر 2017 ءکا پورا سال اسی کیس کی نذر ہوگیا، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، اس دوران میں اختلاف رائے اور تنازعات کا بھی ایسا بازار گرم رہا ہے جس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حلقے تو بہر حال کسی نہ کسی مسئلے میں ایک دوسرے سے اختلاف رائے کرتے ہی رہتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں میں بھی اختلافات اور تنازعات شدید رہے خصوصاً تحریک انصاف اور ن لیگ مسلسل برسرپیکار نظر آئیں، زہرہ کا دور اصغر ابھی جاری ہے اور جون 2019 ءتک جاری رہے گا، اس دور میں مزید اختلافات اور تنازعات پیدا ہوں گے جن کے منفی پہلوو ¿ں سے قطع نظر مثبت پہلو بھی قابل غور ہیں یعنی باہمی اختلاف رائے اور تنازعات کے نتیجے میں بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں اور ہوں گے، ان کی اصلیت خاصی حد تک عوام کے سامنے آچکی ہے اور مزید آئے گی۔
سیارہ مشتری پاکستان کے زائچے کا سب سے زیادہ خطرناک اثر ڈالنے والا سیارہ ہے، یہ اب ویدک سسٹم کے مطابق برج میزان میں داخل ہوچکا ہے اور تقریباً پورا سال زائچے کے چھٹے گھر میں حرکت کرے گا جس کا تعلق وہی اختلافات و تنازعات، جنگ، الیکشن جیسے معاملات سے ہے، یکم دسمبر 2017 سے ہی زائچے کا دوسرا منحوس یعنی بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ بھی چھٹے گھر میں حرکت کر رہا ہے اور دونوں باہمی قران کی جانب بڑھ رہے ہیں، دو منحوسوں کا چھٹے گھر میں قران سول اور ملٹری سروسز کی ذمہ داریوں میں اضافے کرتا ہے اور انہیں مزید فعال بناتا ہے، مزید اس بات کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ بے حد سخت فیصلے اور اقدام سامنے آسکتے ہیں، گویا نئے سال کی ابتدا بہت خوش گوار نظر نہیں آتی، نومبر میں فیض آباد دھرنا حکومت کے گلے پڑگیا اور ابھی اس حوالے سے صورت حال مکمل طور پر صاف نہیں ہوسکی ہے،لاہور میں ایک دوسرا گروپ اپنا دھرنا جاری رکھنے پر بضد ہے،دسمبر میں صورت حال مزید خراب ہوتی نظر آتی ہے،حکومت بے بسی کا نمونہ بنی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی کوئی نیا سیٹ اپ سامنے آسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی نشان دہی کرچکے ہیں کہ دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اب آئندہ ڈھائی سال تک زائچے کے آٹھویں گھر میں قیام کرے گا، گویا یہ صورت حال ملک کے سربراہ ، کابینہ اور ملک کے عزت و وقار کے لیے خوش آئند نہیں ہے،گزشتہ سالوں میں ہماری سیاسی اشرافیہ نے جمہوری تماشے کے نام پر جو بویا ہے ، اس نے ہمیں دنیا میں بہت رسوا کیا ہے،انڈیا کے بعد اب امریکا اور دیگر ممالک بھی ہم پر مختلف الزامات لگارہے ہیں، حالاں کہ ہم نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔
جنوری میں سیارہ زحل کے علاوہ عطارد، شمس اور زہرہ بھی زائچے کے آٹھویں گھر میں ہوں گے لہٰذا جنوری کا مہینہ پاکستان کے لیے ایک مشکل مہینہ ثابت ہوسکتا ہے۔
زائچہ ءپاکستان میں پانچویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد زائچے کے ساتویں گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے لیکن راہو کیتو کی نئی پوزیشن اس حوالے سے خاصی معنی خیز ہے، راہو زائچے کے تیسرے گھر میں رہتے ہوئے پیدائشی عطارد سے گزشتہ سال ہی سے ناظر ہے جس کی ایک جھلک 25 نومبر کو سامنے آئی تھی ، تمام ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور یوٹیوب وغیرہ بند کردیے گئے تھے، یہ اسی زاویے کا کمال تھا، راہو کی نظر عطارد پر خاصے لمبے عرصے تک اثر انداز رہے گی جس کے نتیجے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر دباو ¿ بھی آئے گا اور اس کی کارکردگی بھی اطمینان بخش نہیں رہے گی لیکن موقع ملنے پر میڈیا منفی کردار ادا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے گا لہٰذا اس پر پابندیاں اور قدغن لگ سکتے ہیں۔
بے شک پہلے بھی ایسے قوانین یا آرڈیننس لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کسی طرح میڈیا پر قابو پایا جائے مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا، سال 2018 ءکے آغاز سے ہی میڈیا اپنا طاقت ور کردار ادا کرتا نظر آتا ہے جو مثبت کم ہے اور منفی زیادہ۔میڈیا میں جو گروپ بندی ہوچکی ہے یہ 2018 ءمیں مزید محاذ آرائی کا سبب بنے گی اور اس کا نتیجہ آگے چل کر پاکستانی میڈیا کی رسوائی اور ذلت کا سبب ہوگا۔
چوں کہ عطارد زائچے کے پانچویں گھر کی مول ترکون کا حاکم ہے جس کا تعلق انٹرٹینمنٹ، شعور، انعامی اسکیموں، اعلیٰ تعلیم اور بچوں کے معاملات سے ہے لہٰذا راہو کی نظر ان معاملات پر بھی اثر انداز ہوگی، شوبزنس میں بہت سی حدود قیود ٹوٹ سکتی ہیں، فلم اور ڈراموں میں نئے اور انوکھے تجربات کیے جاسکتے ہیں، دیگر انٹرٹینمنٹ کے معاملات، جوئے، سٹے وغیرہ سے متعلق معاملات میں بھی تیزی آسکتی ہے،یہ شعبے بے لگام ہوسکتے ہیں، تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ پرائیویٹ اسکولوں نے جاری رکھا ہوا ہے،اس میں بھی اضافہ ہوگا، اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیز کا ماحول مزید خراب ہوسکتا ہے،2018 ءکی ابتدا میں یعنی پہلے 6 ماہ میں طلبہ میں سیاسی رجحان بڑھ جائے گا، اسٹوڈنٹس یونینز فعال ہوسکتی ہیں۔
مجموعی طور پر جنوری کے مہینے سے بہت ذیادہ مثبت توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔
فروری
فروری میں کثرت سیارگان زائچے کے نویں گھر میں ہوگی لہٰذا اس مہینے کو مثبت ترقیاتی سرگرمیوں کا مہینہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ساتھ ہی منفی پہلو بھی نمایاں رہیں گے خصوصاً نئی قانون سازی مثبت سوچ کے بجائے اور عوامی بھلائی کو نظر انداز کرکے ذاتی مفادات کے تحت ہوگی،مستقبل کی نئی منصوبہ بندی، آئینی اور قانونی معاملات پر توجہ، خارجہ پالیسی میں مثبت پیش رفت،سینٹ الیکشن کے سلسلے میں سرگرمیاں اس مہینے کا خاصہ ہوں گی، زائچہ ءپاکستان کے نویں گھر میں پیدائشی طور پر راہو، قمر اور زہرہ موجود ہیں لہٰذا ٹرانزٹ پوزیشن میں جب عطارد، شمس ، زہرہ اور کیتو اس گھر پر اثرات ڈالیں گے تو آئینی اور قانونی معاملات میں نئی ترامیم کا چرچا ہوگا،آئندہ انتخابات کے حوالے سے آئین ساز اسمبلی اور نئی آئین سازی کا شوشا سامنے آسکتا ہے، حکومت چاہے گی کہ آئین میں اپنی ضرورتوں اور مفادات کے مطابق مزید ترامیم کرے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوگا، بے لگام میڈیا اور مقتدر حلقے اس کوشش میں حارج ہوں گے،اس بات کا امکان موجود ہے کہ فروری سے آئینی اور قانونی حوالوں سے نت نئے مباحثے شروع ہوجائیں، اسی مہینے میں خارجہ پالیسی کے نئے رُخ بھی سامنے آئیں گے اور وفاقی سطح پر بیوروکریسی میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

مارچ، اپریل

مارچ سینیٹ کے الیکشن کا مہینہ ہے جس کے لیے تیاریاں فروری ہی سے شروع ہوجاتی ہیں، اس مہینے میں سیارہ مریخ زائچہ ءپاکستان میں آٹھویں گھر میں داخل ہوگا اور فوری طور پر پیدائشی مریخ اور گیارھویں گھر کو متاثر کرے گا ، ساتھ ہی دوسرے یا تیسرے گھر بھی اس کی زد میں آئیں گے، جس کے نتیجے میں سینٹ کے الیکشن میں بھی التوا کا خدشہ موجود ہے اور اسمبلیوں کے لیے بھی خطرات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے، اگر الیکشن ہوئے تو حسب معمول دولت کا بے تحاشا استعمال یقینی ہے لیکن اس کے علاوہ غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی، مریخ کی یہاں موجودگی اس بار کچھ نئے گُل کھلائے گی، بعض معززین اور صاحب عہدہ و مرتبہ افراد کی پگڑیاں اچھلیں گی اور وہ ذلت کا سامنا کریں گے، اس مہینے میں معاشی صورت حال خاصی خراب ہوسکتی ہے، بعض حادثات و سانحات کا بھی خطرہ موجود ہے، کوئی اہم صاحب حیثیت شخصیت کسی حادثے یا سانحے کا شکار ہوسکتی ہے۔
اپریل کا مہینہ سیاسی طور پر خاصا پرجوش اور ہنگامہ خیز ہوسکتا ہے کیوں کہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد کی صورت حال ایک نیا رُخ سامنے لائے گی، اسی مہینے میں آئینی ترامیم کے لیے کوششیں تیز ہوں گی لیکن زہرہ کا دور اصغر ان کوششوں کے بارآور ہونے میں رکاوٹ ثابت ہوگا، باہمی تنازعات و اختلافات حسب معمول جاری رہیں گے، حکومت اور حقیقی اپوزیشن تحریک انصاف کے درمیان بھی رسا کشی ہوتی رہے گی،اپریل میں مریخ اور زحل کا آٹھویں گھر میں قران کسی بڑے قومی سانحے یا کسی صاحب عہدہ و مرتبہ کی موت کا اندیشہ ظاہر کرتا ہے۔

مئی

مئی کی ابتدا ہی میں بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ نویں گھر میں داخل ہوگا اور فوری طور پر نویں ، بارھویں، تیسرے اور چوتھے گھر سے ناظر ہوگا، یہ نظر نئے آئینی اور قانونی پنڈورا باکس کھولے گی، بہت سے گڑھے مردے اکھڑےں گے، اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ مئی کے مہینے میں شروع ہونے والی سرگرمیاں ایسی صورت حال پیدا کریں گی جن کا اختتام سال کے آخر تک نہ ہوسکے گا، اس اعتبار سے مئی کو ایک ہنگامہ خیز وقت کے آغاز کا مہینہ کہا جاسکتا ہے، اس مہینے تک عدلیہ کے اہم فیصلے بھی متوقع ہوں گے،واضح رہے کہ زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم اور منحوس اثرات کا حامل سیارہ مریخ اپنے شرف کے گھر برج جدی میں داخل ہوگا جو پاکستان کے زائچے کا نواں گھر ہے اور اس گھر میں مریخ کا قیام اس سال خاصا طویل اور غیر معمولی اثرات کا حامل ہے۔

جون

مئی کے بعد جون کا مہینہ بھی خاصا سنسنی خیز نظر آتا ہے کیوں کہ نئی عبوری حکومت اگر اس دوران میں قائم ہوئی تو نئے تنازعات جنم لیں گے اور یہ تنازعات اس قدر بڑھ سکتے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوجائے، میدان سیاست کی دو اہم پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) موجودہ سسٹم کو برقرار رکھنے کے لیے پوری کوشش کریں گی جب کہ تحریک انصاف اسے بدلنے پر زور دے گی جیسا کہ اس کا نعرہ ہے ، یہ محاذ آرائی جب حد سے بڑھے گی تو ایک بار پھر عدلیہ کو درمیان میں آنا پڑے گا۔
2018 ءمیں عدلیہ کا کردار خاصا نمایاں نظر آرہا ہے کیوں کہ سیارہ مریخ سال 2018ءمیں ایک طویل عرصہ زائچہ پاکستان کے نویں گھر میں گزارے گا اور خیال رہے کہ برج جدی سیارہ مریخ کے شرف کا گھر ہے، اس گھر میں پیدائشی زائچے میں چھٹے گھر کا حاکم زہرہ اور تیسرے گھر کا حاکم قمر پہلے سے موجود ہےں، ایک نہایت سنگین صورت حال کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کیوں کہ کیتو بھی اسی گھر میں ٹرانزٹ کرے گا جب کہ سیاست کا ستارہ راہو بھی پیدائشی زائچے میں اسی گھر میں موجود ہے، سال 2018 ءکی یہ سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ صورت حال ہے جس کا آغاز مئی سے ہوگا، 8 جون کو مریخ اور کیتو کا پہلا قران ہوگا جب کہ 20 جولائی کو دوسری بار یہ دونوں قران کریں گے اور پھر تیسری بار 26 ستمبر کو مریخ اور کیتو قران کریں گے۔
بیرونی قوتوں اور ہمارے اہل سیاست کی کارروائیاں اس دوران میں تیز ہوجائیں گی،اہل سیاست کی کوشش ہوگی کہ عدلیہ کو مخصوص حدود و قیود میں رکھا جائے، بیرونی قوتیں اس مرحلے پر کوشش کرسکتی ہیں کہ ملک سے جمہوریت کی بساط لپٹ جائے اور پاکستان ایک غیر جمہوری ملک کہلائے، اس طرح وہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے میں کامیاب ہوسکیں لیکن ان کا یہ خواب انشاءاللہ کبھی پورا نہیں ہوگا،عدلیہ کا کردار اور فیصلے اس سال بہت زیادہ اہمیت اختیار کریں گے اور تنازعات کا سبب بھی بنیں گے۔

دوسری شش ماہی

عزیزان من! موجودہ سال 2017 ءکی طرح آئندہ سال بھی 27 جون سے 12ستمبر تک کا وقت نہایت اہمیت کا حامل اور سنسنی خیز ہوگا کیوں کہ راہو کیتو دوسری بار 11 درجہ برج سرطان و جدی پر اسٹیشنری پوزیشن میں ہوںگے، زائچہ ءپاکستان میں نویں گھر برج جدی میں قمر تقریباً 6 درجہ اور زہرہ تین درجہ جب کہ راہو 12 درجہ قابض ہےں، ٹرانزٹ راہو کیتو 11 درجے پر اسٹیشنری ہوں گے اور اسی دوران میں اسی گھر میں مریخ کو رجعت ہوگی، یہ صورت حال نہایت خطرناک ہے، جمہوریت کے ساتھ آئین و قانون کی بساط بھی لپٹ سکتی ہے اور اس صورت میں الیکشن ایک خواب بن سکتے ہیں، خدا کرے کہ ہمارے اہل سیاست حالات کو ایسے رُخ پر نہ لے جائیں کہ ملک کسی غیر آئینی اقدام کا شکار ہو۔
اگر منفی سوچ کے ساتھ 2018 ءمیں بھی کام لیا گیا تو صورت حال مختلف ہوگی پھر جو خدا دکھائے سو لاچار دیکھیے۔
زائچے کے نویں گھر کی نہایت پیچیدہ اور سنگین سیاروی پوزیشن ہماری خارجہ پالیسی میں بھی کسی نئے یوٹرن کی نشان دہی کرتی ہے، مزید یہ کہ دیگر ممالک سے خصوصاً بھارت، افغانستان، امریکا وغیرہ سے تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم ایک غیر محسوس طریقے سے ایک نئی صف بندی میں شامل ہوجائیں گے،واضح رہے کہ 2018ءدنیا میں ایک نئی صف بندی کا سال ہے،اس سال کا مفرد عدد 2 ہے، دنیا 2 متحارب گروپوں میں تقسیم ہوجائے گی،پاکستان کو کسی ایک گروپ میں شامل ہونا پڑے گا جب کہ 2019 ءمیں تیسری عالمی جنگ کے امکانات بہت واضح ہیں۔
ستمبر 2018ءکے بعد کا پاکستان یقیناً ایک بدلہ ہوا پاکستان ہوگا، ملک نئے انتخابات کی طرف جائے گا یا کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت ایک طویل عرصے کے لیے قائم ہوگی یا پھر ایک اور مارشل لا اس کا مقدر بنے گا، ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے اہل سیاست کے آئندہ رویے اور طرز عمل پر ہے، اگر انہوں نے اب بھی صرف اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات تک خود کو محدود رکھا تو انتخابات اُن سے بہت دور چلے جائیں گے، ایک سخت احتسابی عمل شروع ہوجائے گا، کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ بین الاقوامی قوتیں ہمارے ملک میں جمہوری نظام کو سپورٹ کریں گی اور مارشل لائی نظام کی مخالفت کی جائے گی، امریکا میں ری پبلکن برسراقتدار ہےں اور امریکی صدر مسٹر ٹرمپ ایک بڑی انوکھی شخصیت کے مالک ہیں، ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا مارشل لا، وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھیں گے۔
جولائی اگست اور ستمبر کے مہینے ایک بالکل بدلے ہوئے عوامی موڈ کی نشان دہی کرتے ہیں جن میں اہل سیاست سے شدید نفرت و بے زاری اور انتخابات کے بجائے احتساب کا مطالبہ شدید ہوگا، موجودہ آئین سے بھی بے زاری کا کھلا اظہار دیکھنے میں آئے گا اور شاید یہ مطالبہ زور پکڑ جائے کہ آئین کی ازسر نواصلاح کی جائے اور اس سلسلے میں آئندہ الیکشن وہ جب بھی ہوں آئین ساز اسمبلی کے لیے کیے جائیں، ممکن ہے اس حوالے سے کسی ریفرنڈم کا مطالبہ بھی سامنے آئے، اگست کا مہینہ جشن آزادی کا مہینہ ہے لیکن اسی ماہ سے پاکستان کا نیا سال بھی شروع ہوتا ہے اور اسی مہینے سے پاکستان میں تبدیلیوں کی ایک نئی لہر بھی شروع ہوتی ہے جو آنے والے سال اگست تک جاری رہتی ہے،اگر ضروری اصلاحات کرلی گئیں تو نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی بہ صورت دیگر انتخابات کی تاریخ آگے بڑھائی جاسکتی ہے اور یہ تمام معاملات عدلیہ کی زیر نگرانی طے ہوں گے۔
دسمبر 2018 ءسے ایک بار پھر راہو کیتو زائچہ ءپاکستان میں ایسی پوزیشن پر ہوں گے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لاسکتی ہے،اس وقت بھی پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات خاصے پریشان کن ہوسکتے ہیں، گویا سال ختم ہونے سے پہلے ہی ہمیں ایک نئی بین الاقوامی صف بندی کا سامنا ہوگا جس سے الگ رہنا ممکن نظر نہیں آتا، اکتوبر 2018 اس اعتبار سے نہایت اہم مہینہ ہوگا جس میں پڑوسی ممالک سے جنگی محاذ آرائی کا امکان نظر آتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی چھوٹی موٹی سرحدی جھڑپ نہیں ہوگی بلکہ جنگی محاذ خاصا وسیع ہوسکتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سال 2018 ءموجودہ سیاسی اشرافیہ کے لیے تو کسی طور پر بہتر نظر نہیں آتا لیکن پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے یہ ایک بہتر سال ہوگا جس میں زیادہ سے زیادہ زور اصلاح و درستگی پر دیا جائے گا (واللہ اعلم بالصواب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں