پیر، 23 فروری، 2015

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

مارچ کی فلکیاتی پوزیشن اور پیپلز پارٹی اپنے زائچے کی روشنی میں

 ملک میں کئی بار حکومت کرنے والی پاکستان کی نمائندہ سیاسی جماعت جسے معروف دانشور اور کالم نگار حسن نثار ایک ”سیاسی فرقہ“ قرار دیتے ہیں‘ آج کل ایک اندرونی خلفشار کا شکار ہے‘ بہت دن بعد پچھلے دنوں پارٹی کے ایک اہم رہنما اور سابقہ وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا اپنے روایتی جوشیلے انداز میں ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے اور اس بار ان کا ہدف پارٹی کے شریک چیئرمین اور ان کے دیرینہ عزیز ترین دوست آصف علی زرداری تھے۔

ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مرزا صاحب کی گل افشانی گفتار کا عالم کیا تھا‘ انہوں نے زرداری صاحب پر کون کون سے الزامات لگائے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی کس انداز میں خبر لی ‘ یہ تمام باتیں ٹی وی ٹاک شوز میں محفوظ ہو چکی ہیں اور تمام اخبارات کی زینت بن چکی ہیں‘ اس سے پہلے مخدوم امین فہیم کی ناراضگی سے متعلق خبریں بھی میڈیا میں آ چکی ہیں اور جنرل پرویز مشرف سے ان کی ملاقات کو خاصا معنی خیز قرار دیا گیا تھا مگر عین وقت پر غالباً زرداری صاحب کی خصوصی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔

پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ وہ ناراض ہو کر لندن چلے گئے ہیں اور اپنی والدہ کی برسی میں بھی شریک نہیں ہوئے ‘ وہ موجودہ سندھ حکومت کے معاملات سے مطمئن نہیں ہیں‘ اپنے والد سے بھی ان کے اختلافات ہیں‘ اگرچہ اس قسم کی افواہوں کی تردید پارٹی کے ذمہ داران کی جانب سے آتی رہتی ہے اور ایک تازہ ٹوئٹ بھی ذوالفقار مرزا کے لگائے ہوئے الزامات کے جواب میں پیش کیا جا رہا ہے جو بلاول بھٹو سے منسوب ہے مگر ان وضاحتوں کے باوجود باخبر حلقے پارٹی کے اندر موجود خلفشار اور انتشار کی باتیں کر رہے ہیں‘ بہتر ہوگا کہ اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے اس صورت حال کو فلکیاتی اشاروں کی روشنی میں دیکھا جائے ۔

گزشتہ سال عام انتخابات سے قبل ہم نے تمام نمایاں سیاسی پارٹیوں کے زائچوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور بڑی محنت اور تحقیق کے بعد یہ زائچے تیار کیے تھے جس میں پیپلز پارٹی کا اولین اور نیا زائچہ بھی شامل تھا‘ دونوں زائچوں کی روشنی میں ہم نے نشاندہی کردی تھی کہ پیپلزپارٹی یہ الیکشن نہیں جیت سکے گی اور سندھ تک محدود ہو کر رہ جائے گی‘ اس سے پہلے جب محترمہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تھا اور نئے پارٹی چیئرمین کی نامزدگی لاڑکانہ میں ہوئی تھی تو اس وقت کا زائچہ بھی ہم نے پیش کیا تھا اور یہی پیپلز پارٹی کا دوسرا اہم زائچہ ہے‘ ہم نے اسی وقت یعنی ۲۰۰۸ ؁میں کہا تھا کہ اس نئے زائچے کے نتیجے میں پارٹی تقسیم ہو سکتی ہے اور کوئی دوسرا گروپ بھی وجود میں آ سکتا ہے‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا ‘ سب سے پہلے ناہید خان اور صفدر عباسی پارٹی سے الگ ہوئے ‘ ان کے ساتھ بھی کچھ ان کے ہم خیال موجود ہیں‘ پانچ سال پارٹی برسر اقتدار رہی اور زرداری صاحب ملک کے صدر رہے ‘ لہٰذا اختلافات رکھنے والے افراد کی زبانیں بند رہیں‘ اب وفاق میں پارٹی اپوزیشن میں ہے اور سندھ کی جو صورت حال ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ‘ اس صورت حال میں بلاول بھٹو کی غیر حاضری‘ مخدوم امین کی ناراضی اور تازہ ترین واردات جناب ذوالفقار مرزا کا زرداری صاحب پربراہ راست حملہ خاصا غور طلب ہے۔


پیپلزپارٹی کا نیا زائچہ ۳۰دسمبر ۲۰۰۷ ؁شام  ۷:۱۵ بمقام لاڑکانہ ہے جس میں برج سرطان ۵درجہ ۳۴ دقیقہ طالع میں طلوع ہے اور اس کا حاکم سیارہ قمر زائچے کے تیسرے گھر میں کمزور پوزیشن رکھتا ہے‘ اس زائچے میں راہو اور کیتو کے علاوہ سیارہ مشتری اور زحل فعلی منحوس سیارے بن گئے کیوں کہ یہ دونوں سیارے زائچے کے منحوس گھروں کے حاکم ہیں یعنی چھٹا گھر (اختلافات اور تنازعات) اور آٹھواں گھر (حادثات اور رکاوٹیں) ۔

زائچے کے آغاز سے ہی سیارہ زحل کی ساڑھ ستی بھی شروع ہو گئی تھی جو ۲ نومبر ۲۰۱۴؁ تک جاری رہی لہٰذا پارٹی نے اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنی پوزیشن کو مستحکم نہیں کیا جس کے نتیجے میں ۲۰۱۳ ؁ کا الیکشن نہیں جیت سکی اور سندھ میں حکومت بنانے تک محدود ہو گئی‘ پنجاب اور کے پی کے میں اس کی پوزیشن بے حد کمزور ہوئی‘ سندھ میں بھی حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی اور مستقل طور پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے رہے ۔

گزشتہ چند سالوں سے زحل کی ساڑھ ستی کے علاوہ ۲۰ جنوری ۲۰۱۱ ؁سے قمر کے دور اکبر میں راہو کا دور اصغر ۲۱ جولائی ۲۰۱۲ ؁تک جاری رہا‘ راہو زائچے کے آٹھویں گھر میں ہے اور سیاست کا منسوبی سیارہ ہے، ہر قسم کا فریب اور ہیرا پھیری بھی راہو سے منسوب ہے لہٰذا اس کے دور نے بڑے پیمانے کی کرپشن کو فروغ دیا جس کی وجہ سے حکومت بدنام ہوئی ‘ بڑے بڑے مالیاتی اسکینڈل سامنے آئے اور بڑے بڑے لیڈروں پر مقدمات بنے جو ابھی تک چل رہے ہیں۔

۲۱ جولائی ۲۰۱۲ ؁ سےمشتری کا دور اصغر شروع ہوا جو ۲۰ نومبر ۲۰۱۳ ؁تک جاری رہا جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ مشتری زائچے کا فعلی منحوس سیارہ اور اختلافات اور تنازعات کے گھر کا حاکم ہے لہٰذا پارٹی میں اختلافات نمایاں ہونے لگے‘ الیکشن کے وقت بھی مشتری ہی کا دور اصغر جاری تھا جس کی وجہ سے پارٹی کو اپنے مخالفین کی طرف سے زبردست خطرات کا سامنا رہا اور وہ کھل کر انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکی‘ اسی پیریڈ میں ایک وزیراعظم کی قربانی بھی دینا پڑی۔

۲۱ نومبر ۲۰۱۳ ؁سے دوسرے فعلی منحوس زحل کا سب پیریڈ شروع ہوا جو اس سال ۲۲جون تک جاری رہے گا‘ یہ زائچے کا منحوس ترین سیارہ ہے لہٰذا پارٹی میں تنازعات کے علاوہ دیگر معاملات بھی ابتری کا شکار ہیں جن کا نتیجہ بہر حال اچھا نظر نہیں آتا‘ ۹جنوری ۲۰۱۵ ؁سے شروع ہونے والا وقت خاصا مخدوش ہے جو ۲۲جون ۲۰۱۵ ؁تک جاری رہے گا‘ اگر اس دوران میں سندھ حکومت بھی ہاتھ سے نکل جائے تو حیرت کی بات نہیں ہوگی ‘ اب یہ زرداری صاحب کی ذہانت اور فطانت پر منحصر ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں حالات کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔

عزیزان من! یہ تو زائچے کی گزشتہ اور تازہ صورت حال ہے ، اس زائچے میں دوسرے گھر کا حاکم شمس اور تیسرے گھر کا حاکم عطارد چھٹے گھر میں ہیں، مشتری بھی یہاں موجود ہے اور اس گھر کا حاکم ہے، یہی وہ خاص امتزاج ہے جو پارٹی میں اندرونی اختلافات کی نشان دہی کرتا ہے۔زائچے کی دوسری اہم پوزیشن سیارہ مریخ کی بارہویں گھر میں موجودگی ہے، وہ پانچویں(شعور) اور دسویں (عہدہ و مرتبہ) کے گھر کا حاکم ہے، بارھویں گھر میں خراب اور مصیبت زدہ ہے، مزید طرفہ تماشا اس پر چھٹے گھر کے حاکم کی نظر ہے جس نے پارٹی کو گزشتہ چند سالوں میں عوام کی نظروں سے گرادیا ہے، دسواں گھر پارٹی کے سربراہ کا بھی ہے اور عملی طور پر یہ سربراہی جناب آصف علی زرداری اور ان کے چند قریبی ساتھیوں نے سنبھالی ہوئی ہے۔مریخ کی پوزیشن ظاہر کر رہی ہے کہ وہ اس ذمے داری کو بہ حسن و خوبی پارٹی کی گزشتہ روایات کے مطابق ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، انہوں نے جس ”مک مکا“ کی سیاست کو فروغ دیا وہ ایک ”بزنس مین“ کی ضرورت تو ہوسکتی ہے لیکن ایک لیڈر کے شایان شان ہر گز نہیں ہے، لیڈر کی شان تو یہی ہے کہ میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے موجودہ سال ۲۰۱۵ ؁ ایک نہایت ہی سخت سال ہے جس کا اندازہ ممکن ہے کہ پارٹی کے رہنماؤں اور خود زرداری صاحب کو شاید ابھی نہیں ہو، البتہ جولائی کے آخر اور اگست سے جو بادِ مخالف چلے گی وہ شاید سب کچھ اڑا کر لے جائے اور پھر پارٹی کو متحد کرنے اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے محترمہ کے حقیقی جانشینوں کو ایک بار پھر سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔آخر میں ہم زرداری صاحب کی خدمت میں ایک مشہور شعر ضرور پیش کرنا چاہیں گے۔

سن تو سہی جہاں میں ہے تِرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

 مارچ کے ستارے

 شاہی سیارہ شمس برج حوت میں حرکت کر رہا ہے اور ۲۱ مارچ کو اپنے شرف کے برج حمل میں داخل ہوگا‘ ۲۱ مارچ کو نو روز ہے جو نئے کوکبی سال کا آغاز بھی ہے گویا سورج اپنا سالانہ گردشی دائرہ مکمل کرنے کے بعد ایک نئے سفر کا آغاز کرتا ہے اور پہلے برج حمل کے پہلے زینے پر قدم رکھتا ہے‘ یہ اس کے شرف کا برج بھی ہے یہاں یہ زیادہ طاقت ور اثرات ظاہر کرتا ہے‘ عاملین اور کاملین‘ ماہرین جفر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں اور قوت و اقتدار کے حصول ‘ عزت و مرتبہ میں اضافے کے لیے نقوش و طلسمات تیار کرتے ہیں۔

 ذہانت اور اطلاعات کا ستارہ عطارد برج دلو میں ہے اور ۱۳ مارچ کو اپنے برج ہبوط میں داخل ہوگا‘ سیارہ عطارد گزشتہ ماہ رجعت میں رہا اور اس دوران میں شمس کی قربت کے باعث تحت الشاع بھی ہوا‘ اب برج ہبوط میں چلا جائے گا گویا عطاردی منسوبات گزشتہ ماہ سے ہی کمزوری کا شکار ہیں اور ۳۱ مارچ تک یہی صورت حال رہے گی‘ اس دوران میں عطاردی منسوبات کے حوالے سے کامیابیاں ملنا مشکل ہوگا‘ وہ لوگ جن کا پیدائشی برج جوزا یا سنبلہ ہے وہ بھی اپنے کاموں میں رکاوٹ اور زندگی میں مسائل محسوس کریں گے‘ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے بدھ کے روزگرین کلر کی اشیاءکا صدقہ دینا چاہیے‘ غریبوں کو سبزیاں اور مویشیوں کو سبز چارہ ڈالنا چاہیے‘ غریب اسٹوڈنٹ کی مدد کرنی چاہیے۔

 توازن اور ہم آہنگی کا سیارہ زہرہ برج حمل میں حرکت کر رہا ہے اور ۱۷ مارچ کو اپنے ذاتی برج ثور میں داخل ہوگا ‘ یہاں زہرہ کی پوزیشن اچھی ہوگی۔

قوت و توانائی اور مہم جوئی کا سیارہ مریخ اپنے ذاتی برج حمل میں ہے اور باقوت ہے‘ پورا مہینہ اسی برج میں قیام کرے گا‘ وسعت وترقی کا سیارہ مشتری برج اسد میں بحالتِ رجعت حرکت کر رہا ہے‘ پورے مہینے اس کی یہ پوزیشن برقرار رہے گی۔

 استادِ زمانہ سیارہ زحل اپنے برج اوج میں ہے‘ ۱۴ مارچ کو اسے رجعت ہوگی اور اپنی الٹی چال پر ۲اگست تک قائم رہے گا‘ ایجادات اور انکشافات کا سیارہ یورنیس برج حمل میں ہے ‘ پُراسرار نیپچون اپنے ذاتی برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں ہے‘ راس میزان میں اور ذنب برج عقرب میں حرکت کر رہے ہیں ‘ یہ دونوں ”پرچھائیں سیارے“ کہلاتے ہیں یعنی حقیقت میں یہ سیارے نہیں ہیں لیکن ان کی اہمیت اور اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے ‘ اب یہ ” اسٹیشنری“ پوزیشن میں آ گئے ہیں جو مناسب خیال نہیں کی جاتی‘ اس پوزیشن کی وجہ سے مختلف بروج سے تعلق رکھنے والے افراد یا ممالک سخت حالات و واقعات کا سامنا کر سکتے ہیں‘ اس حوالے سے جون تک بعض لوگوں کے حالات میں دباؤ اور تناؤ آ سکتا ہے‘ ان کے کاموں میں رکاوٹ یا کسی نوعیت کا بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے‘ اگر پابندی کے ساتھ ہفتے کے روز زیادہ عمر کے معمر افراد یا مجذوب و معذور افراد کو اپنا صدقہ دیا جائے اور منگل کے روز آوارہ کتوں کو خوراک ڈالی جائے تو راس و ذنب کی اسٹیشنری پوزیشن سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی کاٹ ہو سکے گی‘کثرت سے استغفار کا ورد بھی اپنے معمولات میں شامل کریں۔

 اثرات و نظرات سیارگان

 مارچ کے مہینے میں سیارگان کے درمیان قائم ہونے والے زاویے خاصے اہم ہیں‘ ان میں بعض بہت سخت نظرات بھی ہیں ‘ اس ماہ چار سعد زاویے تسدیس اور تثلیث کے ہوں گے جبکہ پانچ نحس زاویے تربیع کے ہوں گے‘ ایک مقابلہ اور تین قرانات ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 یکم مارچ: عطارد اور یورنیس کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثرات کا حامل ہے‘ یہ وقت کمیونیکیشن سے متعلق امور کے لیے موافق ہوگا‘ الیکٹرونکس کے کاروبار کو فروغ ہوگا‘ سفر میں کامیابی اور سفری امور میں بہتری‘ معلومات میں اضافے کے لیے سعد وقت ہے۔

۲ مارچ: عطارد اور مشتری کے درمیان مقابلے کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے‘ یہ وقت پبلسٹی کے لیے نامناسب ہوگا‘ تعلیمی نوعیت کی سرگرمیوں میں دشواریاں سامنے آ سکتی ہیں‘ اسٹاک مارکیٹ کی صورت حال غیر یقینی نظر آئے گی‘ اس وقت میں حسابات کو چیک کرنا چاہیے اور آئندہ کے مالی منصوبوں کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

۳ مارچ: مشتری اور یورنس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ بنے گا‘ یہ بہت طاقت ور اور مبارک نظر ہے‘ نئی قانون سازی کا رحجان پیدا ہوتا ہے ‘ قانونی مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے‘ مالی اور کاروباری ترقی کے لیے اس وقت فیصلے اور اقدام بہتر ہوں گے ‘ اہل علم افراد سے رابطہ اورمشورہ مفید ثابت ہوگا‘ نئی ایجادات سامنے آ سکتی ہیں‘ الیکٹرونکس کے میدان میں نئی پروڈکٹس متعارف ہوں گی‘یہ زاویہ تقریباً پورا سال اپنا اثر دے گا۔

۴ مارچ  : زہرہ اور مشتری کے درمیان تثلیث کی نظر سعد اکبر تصور کی جاتی ہے‘ دوسروں سے تعلقات بہتر بنانے اورکاروباری امور میں ترقی‘ جاب میں پروموشن کے مواقع پیدا ہوتے ہیں‘ یہ وقت دو افراد خصوصاً عورت اور مرد کے درمیان ہم آہنگی اور ہم مزاجی لاتا ہے‘ اس وقت میں علمائے جفر محبت و تسخیر اور دولت کے حصول خصوصاً انعامی اسکیموں میں کامیابی کے لیے الواح و طلسم تیارکرتے ہیں۔ اسی تاریخ کو زہرہ اور یورنس کے درمیان قران کا زاویہ ہوگا‘ یہ زاویہ پہلی نظرکی محبت اور رومانی سرگرمیوں میں غیر متوقع کامیابیوں کی نشان دہی کرتا ہے لیکن ایسی کامیابیوںکا انجام بھی پھر غیرمتوقع ہوسکتا ہے۔

۵ مارچ : زہرہ اور پلوٹو کے درمیان تربیع کی نظر جنسی جرائم کا رحجان لاتی ہے‘ خاص طور پر خواتین کو اس عرصے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی‘ ان دنوں میں زہرہ مشتری‘ زہرہ یورینس اور زہرہ پلوٹو کے نظرات قریب قریب تشکیل پا رہے ہیں‘ ان میں سعد اثرات کے ساتھ زہرہ پلوٹو کی تربیع ایک نحس زاویہ ہے جو خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور ظلم و زیادتی کے رحجان کو فروغ دے سکتا ہے۔

۶ مارچ : شمس پلوٹو کی تسدیس حکومت کے بہتر اقدام اور فیصلوں کی نشان دہی کرتی ہے لیکن ایسے فیصلے آمرانہ ہو سکتے ہیں‘ عام افراد کے مزاج میں انا اور ضد کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

۱۰  مارچ : مریخ اور مشتری کے درمیان تثلیث کی سعد نظر انڈسٹریل سرگرمیوں میں ترقی کی نشان دہی کرتی ہے‘ نئی سرمایہ کاری کے لیے مناسب و موزوں وقت ہو گا‘ اس عرصے میں مشینری سے متعلق کام اور خرید و فروخت فائدہ بخش ہوگی‘ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رحجان دیکھنے میں آئے گا ‘ خصوصاً ٹیکنیکل نوعیت کے کاموں میں دوسروں سے مدد و تعاون حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔

۱۱ مارچ: مریخ اور یورینس کا قران مشینری اور الیکٹرونکس کے شعبے میں نئی ایجادات اور نئے انکشافات کی نشاندہی کرتا ہے‘ انجینئرنگ کے میدان میں نمایاں ترقی ہوتی ہے ‘ ٹیکنیکل شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بے حد معاون و مدد گار وقت ہوگا ‘ ان کی کارکردگی بہتر ہوگی اور انہیں نئے مواقع ملیں گے۔

۱۲ مارچ : مریخ اورپلوٹو کے درمیان اسکوائر کا زاویہ اس ماہ کا سب سے اہم اور خطرناک اثرات کا حامل زاویہ ہے‘ یہ پُرتشدد رحجانات کوبڑھاوا دیتا ہے ‘طبعیت میں غصہ اور اشتعال پیدا ہوتا ہے اور دو افراد یا دو ملکوں کے درمیان باہمی متنازع امور پر تناپیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں صورت حال جنگ و جدل تک جا سکتی ہے‘ حکومت کا رویہ بھی جارحانہ اور آمرانہ ہوگا۔

۱۶ مارچ:عطارد اور زحل کے درمیان اسکوائر کا نحس زاویہ اہم معاہدات اور پراپرٹی سے متعلق امور میں رکاوٹیں‘ تاخیر یا دیگر نوعیت کی غلطیاں لاتا ہے‘ اس وقت میں روزگار سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں اور محنت کش طبقہ پریشانیوں میں مبتلا ہو تا ہے‘ تحریری معاہدات کرتے ہوئے سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی۔
۱۷ مارچ : شمس اور پلوٹو کے درمیان تربیع کی نظر بھی ایک سخت زاویہ ہے‘ یہ بھی حکومتی رویے میں سختی اور انا کے مسائل پیدا کرتا ہے‘ حکومت کے فیصلے اور اقدام آمرانہ رحجان کے حامل ہو سکتے ہیں‘ عام آدمی بھی اس نظر کے اثر سے جارحانہ انداز اختیار کر سکتا ہے۔

۱۸ مارچ : عطارد اور نیپچون کے درمیان قران کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے‘ یہ وقت تحقیق اور تفتیش کے لیے موافق ہے‘ تخلیقی اور وجدانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ پیچیدہ نوعیت کے مسائل اور معمے حل ہو سکتے ہیں‘ اس وقت مستقبل کے حوالے سے نئی منصوبہ بندی کرنا بہتر ہوتا ہے۔

۲۳ مارچ :عطارد اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کی نظر سعد اثر رکھتی ہے لیکن عام لوگوںکی زندگی پر زیادہ مؤثر نہیں ہے‘کمیونی کیشن کے شعبے میں ترقی کا رحجان لاتی ہے۔

۲۴ مارچ :زہرہ اور نیپچون کی تسدیس خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں لے جاتی ہے‘ رومانی تعلقات میں جنونی کیفیات اور خواہشات میں شدت کی نشان دہی ہوتی ہے‘ خواتین کا بے حد جذباتی رویہ سامنے آتا ہے‘ مرد حضرات بھی رومانی تفریحات کی جانب راغب ہوتے ہیں۔

۲۶ مارچ :شمس اور زحل کے درمیان تثلیث کی سعد نظر پراپرٹی سے متعلق کاروبار کو ترقی دینے میں مدد گار ہے‘ خاص طور پر ایسے کام تکمیل پاتے ہیں جن کا تعلق سرکاری اداروں سے ہو‘ اس وقت میں پراپرٹی کی خرید و فروخت اور کنسٹرکشن سے متعلق کاموں سے فائدہ ہوتا ہے‘ زمین و جائیداد سے متعلق سرکاری معاملات کو نمٹانے میں مدد ملتی ہے‘ یہ وقت طویل المدت منصوبہ بندی کے لیے بھی موافق ہے۔

۲۸ مارچ: زہرہ اور مشتری کے درمیان تربیع کی نحس نظر باہمی تعلقات میں تناؤ اور کسی تنازع کاباعث ہو سکتی ہے‘ یہ وقت بے آرامی اور دوسروں سے عدم تعاون کی نشان دہی کرتا ہے‘ خاص طور پر خواتین سے تعلقات میں خرابیاں جنم لیتی ہیں انہیں کوئی بات سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔

 ۳۰ مارچ: زہرہ اورپلوٹو کے درمیان تثلیث کی سعد نظر محبت کے معاملات میں گرم جوشی لاتی ہے‘ اس وقت ازدواجی نوعیت کے تنازعات کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 قمر در عقرب

 اس نحس وقت کا آغاز پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق ۹ مارچ کو شام ۶:۳۰ سے ہوگا اور قمر برج عقرب میں ۱۲مارچ کی صبح ۴:۳۲ تک قیام کرے گا‘ نہایت منحوس وقت کی ابتدأ ۹مارچ کو رات ۱۰:۱۰  سے ہوگی اور رات ۱۲:۸ تک قمر اپنے درجہ ہبوط پر رہے گا۔

ہبوط قمر کا وقت نحس اعمال کے لیے مؤثر ہے‘ اس وقت بندش وغیرہ کے عملیات کیے جاتے ہیں اس حوالے سے مثبت نوعیت کے عمل کرنے چاہیے‘ مثلاً بری عادتوں کی بندش‘ ظلم و زیادتی کو روکنے یا کسی ظالم کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے‘ اس سلسلے میں ضرورت کے مطابق عملیات ہماری ویب سائٹ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

 شرف قمر

مارچ کے مہینے میں شرف قمرکا سعد وقت ۲۲ مارچ کو شام ۶:۵۹سے شروع ہوگا اور۸:۳۷  تک رہے گا‘ اس وقت نیک اور کار خیرکے عمل مؤثر ہوتے ہیں‘ گزشتہ ماہ بھی ایک اہم عمل دیا گیا تھا اور مزید اعمال کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھی جا سکتی ہے۔

آئیے اپنے سوالات اور جوابات کی طرف:

لوح زہرہ اور طلسم زہرہ

ایاز شاہ، شکار پور: آپ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور لوح زہرہ نورانی کے ساتھ طلسم زہرہ بھی تیار کرلیا، ہماری طرف سے مبارک باد قبول کریں، انہیں استعمال کرنے کے لیے بہتر وقت تو نوچندہ جمعہ اور صبح جمعہ کی پہلی ساعت زہرہ ہے ، اس کے علاوہ دوسری ساعت ہر جمعہ کو دوپہر تقریباً ڈیڑھ بجے سے ڈھائی بجے تک ہوتی ہے، اس میں بھی پہن سکتے ہیں، جہاں تک پرہیز اور احتیاط کا تعلق ہے تو لوح نورانی اسمائے الٰہی اور حروف مقطعات سے تیار کی گئی ہے لہٰذا ناپاکی کی حالت میں اسے پاس نہ رکھیں، بہتر ہوگا کہ رات کو سونے سے قبل احتیاط کے ساتھ کسی محفوظ جگہ رکھ دیا کریں اور صبح فجر کی نماز کے بعد دوبارہ پاس رکھ لیا کریں، لوح کو موم جامہ یا پلاسٹک کوٹڈ ضرور کرلیں تاکہ جسم کے ساتھ رہے تو پسینے وغیرہ سے محفوظ رہے، زہرہ کا عطر سہاگ ہے جسے عطرِ حنا بھی کہا جاتا ہے، ہر جمعہ کو صبح زہرہ کی ساعت میں اس کپڑے کو معطر کردیا کریں جس میں لوح لپیٹی گئی ہو، امید ہے کہ آپ کے تمام سوالوں کا جواب مل گیا ہوگا۔

جہاں میں چاہتا ہوں!

رفیق احمد، سکھر سے لکھتے ہیں”میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس سے میری شادی ہوجائے ، آپ بتائیں کہ میری شادی ہوسکتی ہے یا نہیں اور اگر کوئی رکاوٹ ہے تو کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟

جواب: بغیر کسی حساب کتاب کے ہمارا جواب یہ ہے ”یہ شادی نہیں ہوسکتی“ اب آپ پوچھیں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ رکاوٹ کیا ہے اور حل کیا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کے سوالات کرتے ہیں وہ ہماری نظر میں اپنی پسند کی جگہ شادی کرنے کے اہل ہی نہیں ہوتے، پسند اور محبت کرنے والے کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ میری شادی وہاں ہوگی یا نہیں؟ وہ تو اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں اور انہیں پورا یقین ہوتا ہے کہ میری شادی جہاں میں چاہتا ہوں وہاں ہونا چاہیے اور میں ضرور یہ کام کروں گا، خواہ کچھ بھی ہوجائے۔

ہمارا مشورہ ہے کہ پہلے خود کو اس کا اہل بنائیں کہ لڑکی اور لڑکی والے آپ کو پسند کریں اور خواہش کریں کہ آپ ان کے داماد اور لڑکی کے شوہر بنیں۔

جمعرات، 19 فروری، 2015

خود احتسابی اور خیالات و احساسات کا دباؤ

اپنے مسائل کا جائزہ لیجیے‘ آپ خود انہیں حل کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

معاشرے میں نت نئے مسائل کا اضافہ کوئی نئی بات نہیں، نہ ہی یہ کوئی انوکھا معاملہ ہے مگر فی زمانہ یہ معاملہ پیچیدہ ترین ضرور ہوتا جارہا ہے اور یہی پیچیدگی مسائل کا ناطہ سحر و جادو اور آسیب و جنات سے جوڑ دیتی ہیں۔

 ظاہر ہے کہ جب کوئی مسئلہ حل ہی نہ ہوسکے اور لاکھ کوششوں کے بعد بھی انسان اپنی تباہ حالی سے نجات نہ پاسکے تو اس کا ذہن قدرتی طور پر کسی نادیدہ ماورائی ہاتھ کی کارفرمائی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور بالآخر یہ سوچ اسے کسی عامل، کامل، ماہر روحانیات، بزرگ، بابا جی وغیرہ کے پاس لے جاتی ہے جہاں اس کے شک کو یقین میں بدل دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں علاج معالجے کے حوالے سے روحانی کمالات کا وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا‘ مریض اس دوران میں مادّی اور روحانی علاج کے درمیان فٹ بال ہی بنا رہتا ہے اور بالآخر خود کو لا علاج قرار دے کر حالات کے جبر اور اپنی بد قسمتی کا یقین کرکے صبر کرلیتا ہے۔



ہم اکثر ایسے افراد کو کوئی نہ کوئی مادی یا روحانی مشورہ دیتے رہتے ہیں‘ ایسے مریضوں یا پریشان حال لوگوں کی اکثریت طویل بیماریاں یا دیگر پریشانیاں جھیلتے جھیلتے شدید اعصابی و ذہنی کمزوری کا شکار ہوجاتی ہے پھر علاج میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے ایسے لوگ دوا اور دعا دونوں پر اعتماد و یقین کرنا چھوڑ بیٹھتے ہیں‘ ان میں قوت ارادی کا فقدان ہوتا ہے‘ ہر نئے معالج سے پہلے اس بات کی ضمانت طلب کرنے لگتے ہیں کہ وہ ٹھیک بھی ہوجائیں گے یا نہیں‘ ان کے حالات میں کبھی کوئی تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟

ایسے تمام پریشان حال لوگوں کے علاج کے سلسلے میں پہلی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان کی اعصابی کمزوری کو دور کیا جائے، انہیں ذہنی انتشار سے نجات دلانے کے لیے کوئی تدبیرکی جائے تاکہ ان کی قوت ارادی مضبوط ہوسکے اور ان کے اندر زندہ رہنے کی لگن کے ساتھ حالات کی سختی کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوسکے۔

ایسے مریضوں کی اکثریت کے لیے ہم یہاں کچھ علامات درج کر رہے ہیں‘ انہیں غور سے پڑھیے اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا تجزیہ کیجیے کہ کیا آپ تو ایسی کسی علامت کے زیر اثر نہیں ہیں؟ ہمیں یقین ہے کہ مندرجہ ذیل علامات میں سے کچھ علامات آپ اپنے اندر ضرور پائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو یقینا آپ کو اپنی ذہنی و اعصابی اصلاح پر سب سے پہلے توجہ دینا ہوگی، ورنہ دنیا کا کوئی بھی مادّی یا روحانی علاج آپ کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔

آئیے ترتیب واران علامات کا مطالعہ کریں۔

1 ۔ کیا آپ کسی بھی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہیں؟
2 ۔ کیا آپ ایک منتشر الخیال شخصیت ہیں؟
3 ۔ کیا آپ کی قوتِ ارادی، قوتِ فیصلہ، قوتِ اظہار، قوتِ مزاحمت کمزور ہے؟
4 ۔ کیا آپ اپنے موجودہ پیشے یا حالات سے ناخوش ہیں؟
5 ۔ آپ حسد یا غیبت کا شکار تو نہیں ہیں؟
6 ۔کیا آپ چغل خوری کی عادت سے نالاں ہیں؟
7 ۔ کیا آپ منشیات کے عادی ہیں اور اس عادت کو ترک کرنا چاہتے ہیں؟
8 ۔ کیا کوئی ایسی وجہ آپ کے علم میں ہے جس کی بنا پر لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں؟
9 ۔ کیا آپ واہموں اور اَن دیکھے خدشات میں مبتلا ہیں؟
10 ۔ کیا آپ خود کو قابل رحم انسان سمجھتے ہیں؟
11 ۔ کیا آپ اپنی لڑکپن کی عاداتِ بد سے ابھی تک چھٹکارا حاصل نہیں کرپائے ہیں۔
12 ۔ کیا آپ کا وزن اپنی عمر اور قد سے کافی زیادہ ہے؟
13 ۔ کیا آپ بات چیت کرتے ہوئے ہکلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں؟
14 ۔ کیا آپ اپنا ذاتی گھر نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتے ہیں؟
15 ۔ کیا آپ اکثر مقروض رہتے ہیں؟
16 ۔ اگر آپ مرد ہیں تو کیا 70 سال سے کم عمر میں بھی خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں؟اوراگر خاتون ہیں تو کیا 50 سال سے کم عمر میں خود کو بوڑھا تصور کرنے لگی ہیں؟
17 ۔ آپ مرد ہیں یا عورت، کیا خود کو بدصورت سمجھتے ہیں یا اپنے کسی جسمانی نقص کی وجہ سے لوگوں سے گھبراتے ہیں؟
18 ۔ کیا آپ بہت جلد بدحواس ہوجاتے ہیں اور اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتے؟
19 ۔ کیا کم عمری میں آپ کا حافظہ کمزور ہے؟
20 ۔ کیا آپ نظر کا چشمہ اتارنا چاہتے ہیں؟
21۔ آپ ڈپریشن سے نجات چاہتے ہیں؟ (کیا آپ کی صبح کی نماز خصوصاً اور دوسری نمازیں عموماً سستی کی وجہ سے قضا ہوجاتی ہیں؟
22 ۔ کیا آپ اپنے دفتر اسکول یا کالج یا کارخانے میں صحیح وقت پر حاضری نہیں دیتے؟
23 ۔ کیا آپ کے افسر یا ماتحت آپ سے نالاں رہتے ہیں؟
24 ۔ کیا آپ جھوٹ، چوری اور کنجوسی کی عادت میں مبتلا ہیں اور اسے چھوڑنا چاہتے ہیں؟
25 ۔ کیا آپ سوچے بغیر بولتے ہیں اور پھر شرمندگی اٹھاتے ہیں؟

عزیزان من! اگر ایسا ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی بیماریوں اور الجھنوں اور پریشانیوں کا علاج بہت مشکل ہے۔ آپ کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ کامیابیاں آپ سے دور اور ناکامیاں ساتھ ساتھ لگی رہیں گی۔

مندرجہ بالا علامتوں سے نجات کے لیے ہم ایک چھوٹی سی اور نہایت آسان ترکیب یہاں لکھ رہے ہیں، اگر آپ نے اس پر عمل شروع کردیا تو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھیں گے۔


ایک پُرسکون کمرہ منتخب کیجیے جس میں ہوا کا گزر ہوتا ہو۔  اگر رات کا وقت ہے تو تمام بتیاں بجھا کر ایک موم بتی جلا لیجیے‘ اگر آپ کو خوشبو پسند ہے تو پھر من پسند خوشبو کا چھڑکاؤ بھی کرلیں اور اگر موسیقی سے دلچسپی ہے تو اپنی پسندیدہ موسیقی کا بھی دھیمی آواز میں اہتمام کرلیجیے‘ شمال کی طرف رخ کرکے ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ جایئے‘ چند گہری گہری سانسیں ناک سے لیجیے اور منہ سے خارج کیجیے تاکہ جسم کا تناؤ ختم ہوجائے اور وہ ڈھیلا پڑ جائے‘ اب اپنی آنکھیں بند کرکے اپنے تصور کے پردے پر خود کو اسی کمرے اور اسی کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھیے، اپنے حقیقی مسائل اور ان کی وجوہات کو تلاش کیجیے یعنی عام حالات میں جسے آپ نے مسئلہ الجھن یا بیماری بنا رکھا ہے وہ واقعی حقیقت میں ویسا ہی مسئلہ یا الجھن ہے جیسا آپ نے سمجھ رکھا ہے؟ مسئلے سے متعلق ممکن حد تک خود سے سوال کیجیے اور پھر اس کا جواب ڈھونڈ لیجیے۔

چند سوال درج ذیل بھی قابل غور ہیں، ان پر بھی غورو فکر کیجیے۔

میں کس قسم کا انسان ہوں؟ میرا انداز فکر مثبت ہے یا منفی؟
میرے انداز فکر نے میری صحت اور زندگی کو کس حد تک متاثر کر رکھا ہے؟
کیا میں حد سے زیادہ حساس واقع ہوا ہوں؟
میں نے جن مسئلوں کو اپنی جان کا روگ بنالیا ہے، کیا وہ نظر انداز کیے جاسکتے ہیں؟ کس حد تک اور کیوں کر؟
کیا میں در حقیقت زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں اور ترقی کرنا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں؟
جو کچھ میرے پاس نہیں ہے، اس کے بغیر باقی لوگ کیسے زندگی بسر کرتے ہیں اور جو کچھ میں چاہتا ہوں کیا اس کے بغیر با عزت زندگی گزاری جاسکتی ہے؟
اپنے مستقبل کے لیے میرے پاس کیا منصوبے اور عزائم ہیں؟
کیا میں اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں؟ کیا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ذمے دار دوسروں کو سمجھتا ہوں؟
میرا رویہ میرے اہل خانہ ، پڑوسیوں، محلہ داروں، دفتری یا کاروباری ساتھیوں، عزیزوں، رشتہ داروں، استادوں، کلاس فیلوز، بازار میں خریدوفروخت کرتے وقت دکان داری کرتے وقت گاہکوں کے ساتھ ، کھیل کے میدان میں اور گاڑی چلاتے وقت کیا ہوتا ہے اور درحقیقت کیا ہونا چاہیے؟ مجھے کس کے ساتھ کس قسم کا برتاؤکرنا چاہیے؟
کیا میری جسمانی بیماری کے پیچھے کوئی ذہنی الجھن پوشیدہ ہے؟

ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ نے ان سوالات پر غور شروع کردیا اور ان کے سچے اور حقیقی جواب پالیے تو آپ اپنے حقیقی مسئلے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے اور جب الجھن یا مسئلے یا بیماری کا درست سراغ مل جائے تو پھر اس سے نمٹنے کے طریقے بھی ذہن خود بخود نکال لیتا ہے بلکہ یہ بھی امکان ہے کہ اس غورو فکر کے بعد وہ مسئلہ جسے آپ نے جان کا عذاب بنا رکھا ہے خود بخود ختم ہی ہوجائے تاہم جب آپ اپنی حقیقی تکلیف اور اس کی حقیقی وجوہات جان لیں تو پھر ان کو رفع کرنے کے لیے سیلف ہپنائزم کے ذریعے اپنے لاشعور سے مدد لیں‘ آپ کا شعور اپنے مضبوط اور وسیع و عریض بازو پھیلا کر آپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے، آپ ذرا اس کو پکار کر تو دیکھیں۔

خود احتسابی کے اس عمل سے گزرنے کے بعد آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کے لیے یقین اور اعتماد سے سجے خود ترغیبی جملوں کا اپنے لیے انتخاب کرلیں تاکہ وہ جملے شعوری راہ سے لاشعور تک پہنچائے جائیں۔ ایسے جملوں کے انتخاب میں کافی سمجھ داری اور توجہ کی ضرورت ہوگی اور کوشش کریں کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم کی ادائیگی ہوسکے مثلاً اگر آپ ایک خاتون خانہ ہیں اور اس کی وجہ شوہر کا غلط رویہ اور طرز عمل ہے تو آپ نے یہ جان لیا ہوگا کہ شوہر کا طرز عمل آپ ہی کے ساتھ غلط کیوں ہے؟ ہوسکتا ہے، اس”کیوں“ میں آپ کی ہی کچھ کوتاہیاں شامل ہوں چناں چہ سب سے پہلے تو یہ ارادہ کرلیں کہ آئندہ وہ کوتاہیاں آپ سے سر زد نہ ہوں گی اور جب کوتاہیاں ہی آپ سے سر زد نہ ہوں گی تو شوہر کا طرز عمل بھی تبدیل ہونے لگے گا‘ اس تبدیلی سے آپ کے اعصاب کا دباؤ بھی ختم ہوجائے گا‘ اگر اس کے برعکس صورت حال ہے یعنی آپ کی کوتاہیاں شامل نہیں ہیں تو پھر شوہر کے ناجائز برتاؤ کو تبدیل کرنے کے ممکنہ طریقے اور ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذات کو حالات سے مقابلے کے لیے تیار کرنا پڑے گا اور اس تیاری میں لاشعور کی مدد سحبیشنز کے ذریعے حاصل کرنا ہوگی۔

 خیالات و احساسات کے دباؤ سے نجات کا ذریعہ

 انسان فطرت سے نہیں لڑ سکتا‘ فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا‘ فطرت کے تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیانک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔

 عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہو کر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی نا پسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہو کر ملول یا غمزدہ ہونا‘ غصے میں آنا وغیرہ۔

ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغّیر رونما ہوتا ہے‘ یہ نئے جذبات و احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین ان جذبات و احساسات کے برہنہ اظہار پر معترض ہوتے ہیں‘ انہیں مخصوص حدود و قیود کا پابند کرتے ہیں تاکہ جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔

 اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہاپسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں‘ اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے‘ ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انہیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں‘ دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے‘ الغرض ہر طرف سے گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ پچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں ‘ گندگی اور ناپاکی‘ گناہ و ثواب‘ جائز و ناجائز کے گہرے احساسات‘ حالات اور ماحول کے جبر کی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے‘ اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں‘ گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے‘ اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے‘ شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحر و جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔

ناپاک خیالات

 اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں ‘ نام و پتا ہم راز داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے‘ وہ لکھتی ہیں۔
خدا آپ کو صحت دے‘ آپ دُکھی لوگوں کے مسئلے اسی طرح حل کرتے رہیں‘ اس دُکھی بہن کو بھی کچھ بتا دیجیے‘ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں‘ ایسے کہ نعوذ باللہ ۔ ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے ‘ کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے‘ میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں‘ کلمہ پڑھتی ہوں‘ توبہ استغفارکثرت سے کرتی ہوں‘ درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے‘ اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہو گیا ہے‘ میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے ۔

 ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی ‘ فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں‘ اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا‘ کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیاپڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے‘ میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں‘ مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے‘ آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟

عزیز بہن ‘ آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں‘ مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذکرنے کی کوشش نہ کریں‘ انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا‘ فرض عبادات کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصور اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے‘ دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں‘ ہمیں ان کے درمیان ہی زندگی گزارنی ہے۔

 اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غور و فکر کر کے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے ‘ یہ ممکن نہیں کہ آپ انہیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کر کے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں۔
 یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رُخ سے فرارکے مترادف ہوگی‘آئیے‘ ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں‘ اس طریقے کو ماہرین نفیسات ”آزاد نگاری“ یا ” خود نویسی“ کہتے ہیں۔

 جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے‘ کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آ رہے ہیں انہیں لکھنا شروع کردیں‘ ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں ‘ انہیں کاغذ پرمنتقل کرنا شروع کردیں‘ خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے‘ اس وقت تک لکھتی رہیں جب تک ذہن تھک نہ جائے‘ اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں‘ یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں‘ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کوپہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے ‘ جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے‘ اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔

 اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں‘ شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پرگناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیر یا حد شرعی مقرر نہیں ہے‘ لہٰذا اس وہم میںبھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہگار ہو رہی ہیں‘ گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔

 فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباؤ میں ہو‘ یہ دباؤ حالات کے مناسب اور نا گوار ہونے کا ہو یا کسی اور اندازکا‘ ہرصورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی مثلاً ہائی بلڈ پریشر (اگر کسی جذباتی الجھن اور تناؤکی وجہ سے ہو) ڈپریشن خوف‘ محبت‘ نفرت‘ غصہ یا انتقام‘ احساس کمتری‘ ہسٹریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں ان امراض کے علاج میں دیگرطریقہ علاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہو جاتے ہیں‘ مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے”مشق تنفس نور“ بہترین ثابت ہوتی ہے اور طریقہ علاج اگر ہومیوپیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔

بدبختی کا آغاز

ش، ر، نواب شاہ سے لکھتی ہیں” آپ کا کالم کافی عرصے سے پڑھ رہی ہوں،پہلی بار خط لکھنے کی ہمت کی ہے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب میں زیر تعلیم تھی تو ہمارے ایک رشتہ دار کے گھر سے رشتہ آیا لیکن میرے والدین نے انکار کردیا،وہ لوگ خاصے ناراض ہوئے اور بعد میں ایک دوسرے رشتہ دار کے ذریعے معلوم ہوا کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر ہمارے بیٹے سے شادی نہیں ہوگی تو کہیں نہیں ہوگی، میرے والدین نے اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا مگر کچھ عرصے بعد ہی میری صحت خراب رہنے لگی اور میں سخت بیمار ہوئی، گویا میری بدبختی کا آغاز ہوگیا،اس کے بعد سے آج تک صحت کے مسائل مسلسل رہتے ہیں، ہر کام میں رکاوٹ ہوتی ہے، تعلیم بھی ادھوری رہ گئی، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ کسی نے سخت بندش کرادی ہے جس کی وجہ سے صحت کی خرابی بھی ہے اور کاموں میں رکاوٹ بھی۔شادی کے لیے اس کے بعد بھی رشتے آتے رہے مگر کہیں بات نہیں بن سکی۔اب میری عمر 30 سال ہورہی ہے اور شادی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا،میں نے ایک جاب کرلی ہے کیوں کہ بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور میں ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی،آپ رہنمائی کریں کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے ، کیا وہ لوگ جنہیں رشتے سے انکار کیا گیا تھا اور انہوں نے جو کہا تھا ، وہ صحیح ہے ، انہوں نے کوئی بندش کرائی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کا حل بھی بتایئے؟

جواب: عام طور پر گھٹیا ذہنیت کے لوگ ایسی صورت حال میں اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں،ایسی باتیں کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے گھر میں بھی کوئی بہن یا بیٹی موجود ہے،بہر حال ہمیں اس پر یقین نہیں ہے کہ انہوں نے غصے میں جو کچھ کہا ہوگا اس پر عمل بھی کیا ہوگا کیوں کہ سب سے افضل و برتر تو اللہ کی ذات ہے اور وہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم و زیادتی برداشت نہیں کرسکتا،اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی شادی ہی تاخیر سے ہے، اسے اتفاق کہہ لیں کہ جب یہ واقعہ ہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد آپ کے زائچے میں ایک خراب دور شروع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے صحت کی خرابیاں شروع ہوگئیں اور تعلیمی سلسلہ بھی جاری نہیں رہ سکا۔

آپ کا شمسی برج حمل اور پیدائشی برج ثور ہے، برج ثور ایک بہت ہی سخت برج ہے، عام طور پر پیدائشی برج ثور والے افراد ایک سخت زندگی گزارتے ہیں، خال خال ہی ایسے زائچے ہماری نظر سے گزرے ہیں جو زندگی کی سختیوں اور مسائل سے آزاد ہوں، ہم یہاں ٹیکنیکل نوعیت کی گفتگو نہیں کریں گے، اس حوالے سے ہماری نئی کتاب ”پیش گوئی کا فن“ بہتر رہنمائی کرسکتی ہے۔

طالع ثور کے لیے شادی کا اہم نمائندہ سیارہ شمس ہے، اگر یہ زائچے میں کمزور اور خراب گھر میں ہو تو شادی میں تاخیر اور بعض صورتوں میں شادی ہی نہیں ہوتی،آپ کے زائچے میں شمس اگرچہ برج حمل میں اپنے شرف کے گھر میں ہے لیکن بارھویں منحوس گھر میں ہے اور شادی کا اہم نمائندہ زہرہ بھی بارھویں گھر میں شمس کے ساتھ کمزور ہے، یہی وجہ شادی میں تاخیر کا باعث ہے، آپ کو چاہیے کہ جمعہ کے روز سفید رنگ کی چیزوں کا صدقہ دیا کریں اور جمعرات کے روز چنے کی دال وغیرہ کا صدقہ دیں، روبی یعنی سرخ یاقوت کا نگینہ کسی موافق وقت پر پہن لیں، موافق وقت کے لیے براہ راست رابطہ کریں، اس سال 24 مارچ سے ایسا وقت شروع ہوگا جو شادی کی نشان دہی کر رہا ہے ، اگر آپ نے ہدایت پر عمل کیا تو یقینا شادی ہوجائے گی،شادی کے لیے موافق وقت جنوری 2018؁  تک رہے گا۔

ساعاتِ شرفِ زہرہ

شرفِ زہرہ سے متعلق مضمون میں زہرہ کی ساعتیں نہیں دی گئی تھیں، اب نوٹ کرلیں، شرف کا آغاز 17 فروری کو رات  09:33   سے ہوگا اور 18 فروری کو دوپہر 02:59 تک زہرہ درجہ شرف پر رہے گا،شرف کا وقت شروع ہونے کے بعد پہلی ساعت رات  10:39   سے رات 11:42   تک ہوگی۔

18 فروری بروز بدھ زہرہ کی پہلی ساعت قبل طلوع آفتاب 06:00   سے صبح 07:03   تک ہوگی،اس کے بعد دوپہر 12:46 سے دوپہر 01:43   تک ایک ساعت ملے گی، شرف کے کل وقت میں یہی تین ساعتیں میسر آئیں گی۔

رجال الغیب


شرف کے کل وقت میں رجال الغیب شمال مشرق میں ہوں گے،لہٰذا جنوب مغرب کی طرف رُخ کرکے بیٹھنا مناسب ہوگا،اگر مغرب کی طرف رُخ کریں تو یہ بھی درست ہوگا۔