پیر، 30 جنوری، 2017

فروری کی فلکیاتی پوزیشن، ایک تیز رفتار مہینہ

سال کے پہلے چاند اور سورج گہن، نئی تبدیلیوں کے اشارے
نئے سال کے سب سے چھوٹے مہینے کا آغاز ہورہا ہے اور اس مہینے کی نہایت اہم فلکیاتی تبدیلی یہ ہے کہ سیارہ زحل تقریباً 2 سال بعد اپنا برج تبدیل کرکے نئے گھر میں آچکا ہے، نیا گھر پاکستان کے زائچے کا آٹھواں خانہ ہے جسے مصیبت کا گھر بھی کہا جاتا ہے، زائچہ ءپاکستان میں سیارہ زحل کا تعلق وزیراعظم اور کابینہ سے ہے لہٰذا زحل کی یہ پوزیشن وزیراعظم اور کابینہ کے لیے خوش کن نہیں ہے،اس سال سیارہ زحل تقریباً پورا سال ہی کمزور پوزیشن میں رہے گا، مزید یہ کہ سال کا کچھ حصہ یعنی فروری تا جون زائچے کے آٹھویں گھر میں ہوگا اور یہی عرصہ وزیراعظم اور ان کی حکومت کے لیے نت نئے مسائل اور مشکلات لائے گا، جون کے بعد زحل واپس زائچے کے ساتویں گھر میں آجائے گا اور نومبر تک اسی گھر میں رہے گا مگر نومبر کے بعد پھر دوبارہ تقریباً دو سوا دو سال کے لیے آٹھویں گھر میں چلا جائے گا، اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آنے والے سالوں میں کوئی حکمران بھی سکون و اطمینان سے حکومت نہیں کرسکے گا،اسے آئے روز نت نئے مسائل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فروری کے مہینے میں سیارہ زحل کے علاوہ دیگر سیارگان کی پوزیشن زائچے میں بہتر ہے،البتہ بعض اہم سیارگان کی اسٹیشنری پوزیشن حالات میں تناو ¿ اور کشیدگی لانے کا باعث ہوسکتی ہے، یہ تناو ¿ اور کشیدگی اگرچہ پہلے ہی سے موجود ہے جس کی وجہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان جاری محاذ آرائی ہے، اگرچہ دونوں پارٹیاں سپریم کورٹ میں حاضر ہیں لیکن کورٹ سے باہر دونوں کی گرما گرمی عروج پر ہیں،آئندہ اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے،مقدمے کا فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پانامہ لیکس اسکینڈل نے وزیراعظم اور ان کی فیملی کے لیے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں جو آنے والے انتخابات تک انہیں پریشان کرتے رہیں گے،اپنے زائچہ ءحلف کے مطابق وہ ایک خراب دور سے گزر رہے ہیں جو خاصا طویل ہے،انہیں چاہیے کہ صدقہ و خیرات کے علاوہ عام لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اقدام کریں، میٹرو بسیں چلانے کے بجائے مہنگائی کے طوفان کو روکیں تاکہ عام آدمی کچھ سکون کا سانس لے سکے، پیٹرول، گیس، الیکٹرک کے بل غریب طبقے کی زندگی عذاب کر رہے ہیں،کھانے پینے کی اشیا قوت خرید سے باہر نکل گئی ہیں اور آپ کے بھائی صاحب میٹرو کی دھن میں مگن ہیں،اگر نچلے طبقے کے لیے رعایات کا کوئی پیکج دے دیا گیا تو یقین کریں ، آپ کا موجودہ سخت وقت آسان ہوجائے گا ورنہ پانامہ لیکس جیسی کوئی دوسری آسمانی بجلی بھی نمودار ہوسکتی ہے، ہم بہت چھوٹی عمر سے ایک بڑا سادہ سا شعر سنتے آرہے ہیں 
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
فروری کے ستارے
یکم فروری سے سیارہ شمس برج دلو میں حرکت کرے گا اور 18 فروری کو برج حوت میں داخل ہوجائے گا،سیارہ عطارد برج جدی میں حرکت کر رہا ہے، 7 فروری کو برج دلو میں داخل ہوگا،سیارہ زہرہ اپنے شرف کے برج حوت میں ہے، 3 فروری کو برج حمل میں داخل ہوگا اور تقریباً 2 ماہ اسی برج میں قیام کرے گا کیوں کہ برج حمل میں قیام کے دوران میں اسے رجعت ہوگی، سیارہ مریخ اپنے ذاتی برج حمل میں ہے اور پورا ماہ اسی برج میں حرکت کرے گا، سیارہ مشتری برج میزان میں نہایت سست رفتار ہے،6 فروری سے اسے رجعت ہوجائے گی لہٰذا اپنی الٹی چال پر پورا مہینہ اسی برج میں حرکت کرے گا، سیارہ زحل برج قوس میں، یورینس حمل میں، نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں سارا ماہ حرکت کریں گے،راس برج سنبلہ میں اور ذنب برج حوت میں رہیں گے۔
فروری کا مہینہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے،اس ماہ راس و ذنب، زحل و مشتری اسٹیشنری پوزیشن میں آئیں گے، یہ پوزیشن خاصی اہم ہوتی ہے اور گہرے سیاروی اثرات کی حامل ہوتی ہے،جن بروج میں یہ سیارگان حرکت کر رہے ہوں گے،وہ لوگ اپنے انفرادی زائچے کے مطابق اچھے یا برے اثرات محسوس کریں گے۔
نظرات و اثرات سیارگان
اگرچہ فروری کے مہینے میں اچھے اور برے نظرات میں توازن ہے لیکن اہم سیارگان کی اسٹیشنری پوزیشن کی وجہ سے جو زاویے بھی بنیں گے، وہ بھی غیر معمولی اثر دیں گے، فروری میں 3 تثلیثات ، 3 تربیعات، 6 تسدیسات، ایک قران اور ایک مقابلے کا زاویہ تشکیل پائے گا جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
یکم فروری: عطارد اور یورینس کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ غیر متوقع اور چونکا دینے والی خبریں یا صورت حال سامنے لاسکتا ہے، یہ نظر نئے انکشافات کا باعث بھی بنتی ہے، عام افراد کو اس دوران میں اپنے کاموں کے حوالے سے کسی نئی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے اور متبادل طریقہ ءکار پر نظر رکھنی چاہیے،اہم دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے محتاط ہونا چاہیے، یہ زاویہ وعدہ خلافیاں اور بحث و تکرار کے ذریعے مسائل میں الجھاو ¿ لاسکتا ہے۔
دو فروری: عطارد اور مشتری کے درمیان تربیع کا زاویہ بھی نحس اثر رکھتا ہے،اس وقت کسی بھی چمکنے والی چیز کو سونا نہیں سمجھنا چاہیے،دوسروں سے لین دین یا کوئی تحریری معاہدہ کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے،اصول و قواعد اور نظم و ضبط کی سخت پابندی نقصانات سے بچائے گی،یہ وقت اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاو ¿ لاتا ہے،سفر میں التوا یا سفر سے متعلق کاموں میں کوئی الجھن پیدا ہوسکتی ہے۔
دس فروری: شمس اور یورینس کے درمیان تسدیس کی نظر سعد اثر رکھتی ہے،یہ وقت گورنمنٹ سے یا گورنمنٹ سے متعلق کاموں سے فائدہ اٹھانے کا ہے،اعلیٰ حکام یا صاحب حیثیت افراد سے مددو تعاون حاصل ہوسکتا ہے،دوستوں سے مشاورت بہتر ہوگی، وہ آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔
گیارہ فروری: عطارد اور زہرہ کے درمیان تسدیس کی نظر سعد ہے، سفر کے لیے اچھا وقت ہوگا یا سفر سے متعلق مسائل کے حل میں مدد ملے گی،لوگوں سے میل جول خوش گوار ہوگا،نئے تعلقات فائدہ بخش رہیں گے اور انہیں پائیدار بنایا جاسکتا ہے،محبت و دوستی جیسے معاملات میں خوش گوار ماحول مل سکتا ہے،فنکارانہ یا آرٹسٹک نوعیت کی سرگرمیوں کے لیے بھی یہ زاویہ مددگار ثابت ہوگا،اسی روز شمس اور مشتری کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ نہایت خوش بختی کا باعث ہوگا، اس وقت اہم کاموں کی ابتدا کرنا اور ترقیاتی پروگرام کو آگے بڑھانا بہتر ہوگا، مقدمات یا قانونی نوعیت کے مسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے،بعض افراد کو پروموشن کے مواقع مل سکتے ہیں۔
چودہ فروری: شمس اور زحل کے درمیان تسدیس کی نظر ہوگی،یہ بھی ایک سعد زاویہ ہے،ٹھوس بنیادوں پر طویل المیعاد منصوبوں کے لیے کوشش کرنا چاہیے،اس وقت میں شروع کیے گئے کام ضرور پایہ ءتکمیل تک پہنچیں گے،عوامی نوعیت کے مسائل پر حکومت توجہ دے گی،خصوصاً مزدور طبقے کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے،پراپرٹی سے متعلق معاملات کے نتائج بہتر ہوسکتے ہیں،نئی خریدوفروخت اور معاہدات فائدہ بخش ہوں گے۔
سولہ فروری: عطارد اور مریخ کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،اس وقت مشینری سے متعلق معاملات فائدہ بخش رہیں گے، ہر قسم کی مشینری میں خریدوفروخت بہتر رہے گی، ٹیکنیکل نوعیت کے کاموں کی انجام دہی تسلی بخش ہوگی،ٹرانسپورٹ کے کاموں سے فائدہ ہوگا اور سفر وغیرہ میں بہتر سہولتیں دستیاب ہوسکیں گی۔
اکیس فروری: عطارد اور یورینس کے درمیان دوسری بار تسدیس کا سعد زاویہ قائم ہوگا جو نہایت فائدہ بخش اور غیر متوقع فوائد کا باعث ہوسکتا ہے، بعض کام جو عرصے سے رکے ہوئے تھے، آپ کی توقع کے خلاف انجام پائیں گے،یہ زاویہ سفر سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی مددگار ہوسکتا ہے۔
اسی تاریخ کو عطارد اور مشتری کے درمیان تثلیث کا زاویہ سونے پر سہاگا ہے،ترقیاتی نوعیت کے کام اور مسائل پر توجہ دےں،آپ کی توقع کے مطابق نتائج حاصل ہوسکتے ہیں،آپ کی کوششوں کے بارآور ہونے کا وقت ہے،پہلے سے جاری کاموں میں تیز رفتاری دیکھنے میں آئے گی۔
بائس فروری: مریخ اور پلوٹو کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ قائم ہوگا،یہ وقت مزاج میں سختی اور اشتعال لاتا ہے،جارحانہ اقدام یا فیصلے ہوسکتے ہیں،محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی کیوں کہ ایسے فیصلے آئندہ کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوتے،یہ وقت افراد کے علاوہ ملکوں کے باہمی تعلقات میں بھی اشتعال انگیزی لاسکتا ہے،شدت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔
24 فروری: عطارد اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ ہے،اس وقت نئے معاہدات کو تحریری شکل دینا فائدہ بخش ہوگا،طویل المدت منصوبوں کا آغاز بہتر رہے گا،علاج معالجے کے لیے بھی اچھا وقت ہوگا، پراپرٹی سے متعلق کاموں میں تیزی آئے گی۔
ستائس فروری: مریخ اور یورینس کا قران ایک نہایت نحس زاویہ ہے،چونکا دینے والے غیر متوقع واقعات اور حادثات کا اندیشہ ہوگا، دہشت گردی اور پاور پلے کا رجحان سامنے آتا ہے،کسی ایسے ناخوش گوار واقعے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی وجہ سے دو ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوجائے،عام افراد کی زندگی میں جوش اور ولولہ ، بے چینی اور اضطراب نمایاں ہوتا ہے،جائز و ناجائز کی پروا کیے بغیر جارحانہ اقدام یا فیصلے ہوسکتے ہیں،بہتر یہی ہوگا کہ ایسے وقت میں خود پر کنٹرول رکھا جائے۔
اسی تاریخ کو مریخ اور مشتری کے درمیان مقابلے کی نظر قائم ہوگی لہٰذا مریخ اور یورینس کا قران مزید خطرات کا باعث ہوسکتا ہے،مشتری بڑھاوا دیتا ہے اور صورت حال کو ناقابل برداشت یا آو ¿ف آف کنٹرول بنادیتا ہے،مشتری کے اثرات کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹس کا متاثر ہونا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مالیاتی اداروں میں کوئی بحرانی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
شرف قمر
اس ماہ قمر اپنے شرف کے برج ثور میں 3 فروری کو صبح 06:49 am پر داخل ہوگا لیکن درجہ ءشرف پر صبح 10:15am سے 11:18 am تک رہے گا،اس سعد وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے جائز مقاصد کے لیے دعا کرنی چاہیے، گھر میں خیروبرکت اور اتحاد و اتفاق کے لیے چینی پر 786 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دم کرنے والا عمل بھی اس وقت میں کیا جاسکتا ہے۔
قمر در عقرب
قمر کو برج عقرب میں ہبوط ہوتا ہے گویا یہ قمر کے لیے ایک انتہائی خراب پوزیشن ہے،اس وقت کو نحس تسلیم کیا جاتا ہے اور اس دوران میں کیے گئے کاموں کے نتائج اچھے نہیں ہوتے،اس لیے اہم اور ضروری نوعیت کے کاموں کی ابتدا اس وقت میں نہیں کرنی چاہیے،اس ماہ قمر برج عقرب میں 16 فروری کو 11:40 am پر داخل ہوگا اور 18 فروری رات 11:52pm تک رہے گا لیکن اس دوران میں اپنے درجہ ءہبوط پر 16 فروری کو 03:38 pm سے 05:37 pm تک ہوگا، یہ وقت نہایت منحوس اثرات رکھتا ہے،البتہ اس وقت میں علاج معالجہ یعنی بیماریوں سے نجات ، بری عادتوں اور برے کاموں سے روکنے کے لیے کوشش کی جاسکتی ہے،ایسے ہی وقت میں بندش کے عملیات کیے جاتے ہیں۔
سال کے پہلے چاند اور سورج گہن
نئے سال 2017 ءمیں 2 چاند اور 2 سورج گہن ہوں گے،ایک چاند گہن اور سورج گہن فروری میں اور باقی اگست میں لگیں گے۔
پہلا چاند گہن بروز ہفتہ 11 فروری کو ہوگا، یہ جزوی گہن ہے،اس کا آغاز پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق صبح 03:34 am پر ہوگا، مکمل گہن 05:43 am پر ہوگا، اس کا خاتمہ صبح 07:53 am پر ہوگا،فلکیاتی حساب سے یہ گہن تقریباً 23 درجہ برج اسد میں لگے گا،وہ لوگ جن کے انفرادی زائچے میں طالع پیدائش تقریباً 23 ڈگری ہوگا،وہ اس گہن سے خصوصی طور پر متاثر ہوں گے،ان کی زندگی میں مثبت یا منفی تبدیلیاں شروع ہوں گی۔
چاند گہن کا آغاز یورپ سے ہوگا اور اس کا سایہ مشرق کی طرف بڑھے گا لہٰذا انڈیا اور پاکستان میں بھی یہ گہن دیکھا جاسکے گا،جن علاقوں میں طلوع آفتاب جلد ہوگا یعنی تقریباً ساڑھے چھ اور ساڑھے سات بجے کے دوران میں وہاں مکمل گہن کا مشاہدہ نہیں ہوسکے گا۔
دوسرا گہن سورج کو لگے گا جو بروز اتوار 26 فروری کو ہوگا،اس کا آغاز پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق شام 05:10 pm پر ہوگا جب کہ مکمل گہن شام 07:58 pm پر اور گہن کا اختتام 10:33 pm پر ہوگا،یہ گہن برج حوت کے تقریباً 9 درجہ پر لگے گا،پاکستان اور انڈیا کی ساحلی پٹی کے علاقوں میں اس کا کچھ حصہ دیکھا جاسکتا ہے کیوں کہ غروب آفتاب کے بعد یہ نظر نہیں آئے گا۔
اثرات و اعمالِ گہن
قدیم و جدید تحقیق کے مطابق سیارہ شمس قوت حیات کا نمائندہ ہے جب کہ چاند ہماری زمین کا قریبی ہمسایہ ہونے کی وجہ سے کرئہ ارض پر گہرے اثرات ڈالتا ہے،خصوصاً مائع اشیا پر اس کا اثر نمایاں طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے،سمندر میں مدجزر اس کی واضح مثال ہے،انسانی جسم میں رطوبات زندگی سے متعلق گلینڈز اور دوران خون بھی اس کے زیر اثر ہیں،چناں چہ چاند یا سورج گہن کی حالت میں اپنی مثبت توانائی زمین تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں لہٰذا انسانی زندگی پر اس کے اثرات پڑتے ہیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت میں حاملہ خواتین کو خصوصی احتیاط کرنا چاہیے، گہن کے وقت کوئی کام نہ کرےں اور آرام دہ بستر پر آرام سے دراز ہوکر کثرت سے استغفار پڑھیں۔
عام افراد کے لیے بھی چاند یا سورج گہن کے ناقص اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے کثرت سے استغفار کا ورد کرنا سنت نبوی سے ثابت ہے،اس کے علاوہ ہفتہ اور منگل کے روز صدقات دینا بھی گہن کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے، یہ صدقات چاند گہن کے دوران میں مسلسل ایک ماہ تک اور سورج گہن کے دوران میں تقریباً تین ماہ تک دینا چاہیے،جہاں تک چاند اور سورج کے ناقص اثرات کی نشان دہی کا تعلق ہے تو یہ اثرات ہر شخص کے انفرادی زائچہ ءپیدائش یا زائچہ ءنکاح کے مطابق دیکھے جاسکتے ہیں، عام طور پر لوگ اپنے شمسی برج (Sun sign) سے واقف ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنے حالات و واقعات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک غلط رجحان ہے،شمسی برج صرف ہماری شخصیت کے مختلف پہلوو ¿ں پر روشنی ڈالتا ہے،حالات وواقعات کے اتار چڑھاو ¿ کا جائزہ لینے کے لیے پیدائشی برج (birth sign) اہم ہے اور اسے معلوم کرنے کے لیے پیدائش کا وقت معلوم ہونا بھی ضروری ہے، جو لوگ اپنا زائچہ (birth chart) بنواکر پاس رکھتے ہیں ، وہ ہی اپنے پیدائشی برج سے واقف ہوتے ہیں اور علم نجوم کے ذریعے درست رہنمائی حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
سورہ کوثر کا تالے والا عمل
سورج اور چاند گہن سے متعلق جو اعمال دیئے گئے ان کے حوالے سے اکثر ہمارے قارئین نے ای میل اور ٹیلی فون کے ذریعے بعض سوالات پوچھے ہیں اور ساتھ ہی بعض لوگوں نے فرمائش کی ہے کہ سورہ کوثر کا عمل دوبارہ شائع کیا جائے کیوں کہ گزشتہ سال کے اخبارات ان کے پاس محفوظ نہیں ہیں۔
اس عمل کے لئے گہن کے وقت سے پہلے ایک نیا غیر استعمال شدہ تالا لا کر رکھ لیں۔ تالا لوہے یا اسٹیل کا ہو۔ بہترین بات یہ ہو گی کہ ایسا تالا ہو جو چابی سے کھلتا اور بند ہوتا ہو لیکن اگر ایسا تالا نہ ملے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ آپ وہی تالا لے لیں جو بغیر چابی کے کھٹکے سے بند ہوتا ہو۔ مکمل گرہن کے وقت باوضو علیحدہ کمرے میں مغرب (West) کی طرف منہ کر کے بیٹھیں (مغرب سے مراد قبلہ شریف نہیں ہے) اور بسم اﷲ پوری پڑھنے کے بعد سات مرتبہ سورہ کوثر پوری پڑھیں اور پھر زبان سے اپنے مقصد کا اظہار کریں۔ اس کے بعد تالے کے سوراخ میں پھونک مار کر تالا بند کر دیں۔ خیال رہے کہ اس سارے کام کے دوران اپنی ذہنی اور روحانی قوت کو اپنے مقصد پر مرتکز کریں۔ یعنی دل میں یہ یقین پیدا کر یں کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اور جس مقصد سے کر رہے ہیں وہ یقینا انجام پائے گا۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رکھیں۔ مقصد کے حوالے سے سورہ کوثر پڑھنے کے بعد آپ کا جملہ اس طرح ہونا چاہئے۔
مثلاً کسی کے دل میں جگہ اور محبت پیدا کرنا مقصود ہے تو یوں کہیں۔ ”میں نے باندھا خواب و خیال کو فلاں بن فلاں کے جب تک مجھے نہ دیکھے، چین نہ پائے۔“
اگر مقصد کسی بری عادت یا حرکت سے روکنا ہے تو اس طرح کہیں ”میں نے باندھا عادت بدگوئی اور جھوٹ کو فلاں بن فلاں کے کبھی جھوٹ نہ بولے اور خراب کلمات منہ سے نہ نکالے۔“
اگر نشے یا جوئے کی عادت سے روکنا ہو تو جملہ اس طرح کہیں۔ ”میں نے باندھا عادت نشہ یا جوا فلاں بن فلاں کا، کبھی نشہ نہ کرے یا کبھی جوا نہ کھیلے۔“
الغرض کسی بھی برے کام یا بری عادت سے روکنے کے لئے اپنے مقصد کا اظہار ایک مختصر سے جملے میں اس طرح کریںکہ آپ کی کوشش کا اثبات ظاہر ہو اور اس کام کی نفی کی جائے جسے روکنا مقصود ہے۔
بعض لوگوں نے رجال الغیب کی سمت کے بارے میں سوال کیا ہے، انہیں شاید رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا نقشہ ہماری ویب سائٹ پر نہیں ملا۔ انشاءاﷲ اسے آئندہ کسی نمایاں جگہ دیا جائے گا فی الحال ہم سورج گہن کے وقت کے مطابق یہاں رجال الغیب کی سمت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
رجال الغیب چاند کی تاریخوں کے حساب سے معلوم کئے جاتے ہیں۔ چاند کی 28 تاریخ کو یہ شمال مشرق میں ہوں گے جب کہ 29 کو مشرق میں اور 30 تاریخ کو شمال میں۔ اصول یہ ہے کہ عمل کے وقت جس سمت میں رجال الغیب ہوں ادھر رخ کر کے نہ بیٹھا جائے بلکہ اپنا رخ ایسی سمت میں رکھیں کہ آپ کی پشت رجال الغیب کی طرف ہو یا پھر وہ آپ کے بائیں ہاتھ کی طرف ہوں۔ اس اعتبار سے اگر وہ مشرق میں ہوں تو مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھیں اور شمال مشرق میں ہوں تو جنوب کی طرف منہ کر لیں۔ بس اتنی سی احتیاط کافی ہو گی۔ آخری بات یہ کہ وہ تمام افراد جو اعمال گہن سے مستفید ہونا چاہتے ہیں، انہیں چاہئے کہ عمل کرنے کے بعد صدقہ خیرات ضرور کریں۔ آئیے اپنے سوالات کی طرف۔
میاں بیوی میں محبت کے لیے عمل خاص
زن و شوہر میں اختلافات، مزاجی ناہمواری، باہمی لڑائی جھگڑا، محبت کی کمی وغیرہ کے لیے یہ ایک مجرب طریقہ ہے اور صرف شادی شدہ خواتین و حضرات ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نہایت آسان بھی ہے۔ گرہن کے درمیانی وقت میں ایک سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے پوری بسم اﷲ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔
والقیت علیک محبة فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبة فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمد و خدیجة الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً
اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ ( چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔
خیال رہے کہ مندرجہ بالا نقوش لکھتے ہوئے باوضو رہیں، پاک صاف کپڑے پہنیں، علیحدہ کمرے کا انتخاب کریں، لکھنے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنے مقصد کو ذہن میں واضح رکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، رجال الغیب کا خیال رکھیں کہ آپ جس طرف رخ کر کے بیٹھے ہوں وہ آپ کے سامنے نہ ہوں، رجال الغیب کا نقشہ اس کتاب میں دیا جارہا ہے ، اس سے مدد لیں۔
مخالف کی زبان بندی
عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں۔ انشاءاﷲ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل

ہفتہ، 21 جنوری، 2017

آئینے کے رو برو آ اپنے ڈر سے بات کر

مروجہ طریقہ ءعلاج میں درپیش مسائل اور حقیقی علاج 
ہمارا آج کا موضوع بھی ”خوف“ ہے، اس موضوع پر اظہار خیال کے نتیجے میں بے شمار ایسے لوگوں نے ہم سے ذاتی طور پر رابطہ کیا جو کسی نہ کسی خوف کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں نت نئی پریشانیاں اور الجھنیں اور بیماریاں لاحق ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک طویل عرصے سے کسی خوف کے زیر اثر آنے کے بعد مختلف طریقہ ءعلاج کو آزما چکے ہیں، ڈاکٹر، حکیم، ہومیو پیتھ، ماہرین نفسیات، عاملین و کاملین، پیر فقیر وغیرہ سے انہوں نے اپنا علاج کروانے کی کوشش کی مگر نتیجہ صفر اور بقول ایک شاعر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
ایسے مریضوں کی اکثریت کا انجام ایک ہی نظر آیا کہ ڈاکٹروں نے بالآخر انہیں زندگی بھر کے لیے مسکن، نشہ آور ادویات پر ڈال دیا جس کے بغیر ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہے، اب مخصوص دواو ¿ں کے بغیر یہ لوگ ایک دن بھی سکون سے نہیں گزار سکتے، نہ ہی کوئی کام کرسکتے ہیں لیکن اسی پر بس نہیں، صورت حال اس وقت بد سے بدتر ہوجاتی ہے کہ جب ان دواو ¿ں کا مسلسل استعمال دیگر ذہنی اور جسمانی امراض کو جنم دیتا ہے اور بالآخر وہ اسٹیج بھی آجاتا ہے جب یہ دوائیں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہیں، ایسے لوگوں کا علاج مزید مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان کے اصل مرض کے علاج کے ساتھ ساتھ نہ صرف وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والی دیگر جسمانی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدام کرنے پڑتے ہیں بلکہ ان دواو ¿ں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھی ایک صبر آزما اور دشوار گزار مرحلے سے مریض کو گزرنا پڑتا ہے جن کا اس کا جسم اسی طرح عادی ہوچکا ہوتا ہے جس طرح شراب، ہیروئن، افیون اور تمباکو نوشی جیسے نشوں کا ، اب یہ سارے کام مرحلہ وار یا ساتھ ساتھ خاصی محنت، ریاضت اور صبر آزما انتظار کے متقاضی ہوتے ہیں جس کے لیے اکثر مریض خود کو تیار نہیں کرپاتے، وہ ہفتہ دو ہفتہ یا مہینے دو مہینے کے اندر کسی نمایاں کامیابی کے خواہش مند ہوتے ہیں جو خاصا دشوار کام ہے۔
دشوار اس لیے کہ علاج میں تیزی پیدا نہیں کی جاسکتی بلکہ دشوار اس لیے بھی ہوتا ہے کہ مریض اپنی بہت سی مجبوریوں کے سبب کسی تیز رفتار طریقہ علاج کا متحمل نہیں ہوسکتا، ان دشواریوں میں سرفہرست معاشی مسائل، گھریلو حالات اور عزیزوں، رشتے داروں یا دوست احباب کا عدم تعاون ہوتا ہے، خراب معاشی حالات کی وجہ سے وہ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکتے اور بالکل اسی طرح اپنے گھر کے ماحول کو مرضی کے مطابق نہیں بناسکتے، عزیزوں، رشتے داروں، دوست احباب کو ان احتیاطوں کے بارے میں نہیں سمجھاسکتے جو اس کے لیے ضروری ہیں۔
بہت عرصہ پہلے ہم نے ایک لڑکی کے علاج سے صرف اس لیے ہاتھ اٹھالیا تھا کہ ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اس لڑکی کی صحت یابی کے درمیان اس کے گھر والے اپنی جہالت کے سبب حارج تھے، ہماری کوششوں سے جب بھی اس کی طبیعت بہتر ہوتی، گھر کا کوئی فرد ایسی حرکت کرتا جس کی وجہ سے اسے دوبارہ دورے پڑنا شروع ہوجاتے۔
 یہ لڑکی تقریباً ایک سال تک وقتاً فوقتاً ہمارے زیر علاج رہی، دیگر وجوہات کے علاوہ جو بنیادی سبب اس کی حالت کے بگڑنے کا ہمارے سامنے آیا وہ یہی تھا، یعنی گھر کے افراد میں سے کوئی نہ کوئی فرد خصوصاً اس کی ماں کوئی ایسی حرکت اچانک کر بیٹھتی تھی جو اس لڑکی کے کمزور اعصاب پر انتہائی ناخوشگوار اثر ڈالتی اور نتیجتاً دوبارہ اس کی حالت خراب ہوجاتی، آخر تنگ آکر ہم نے اس کے علاج سے صاف انکار کردیا تھا۔
یہ بھی ایک دلچسپ کیس ہے جسے سب سے زیادہ پیروں اور مولویوں نے اور ان کے ساتھ ایلوپیتھک ڈاکٹروں نے بگاڑ دیا ، تقریباً سولہ سترہ سال سے اس لڑکی پر ہسٹیریا کے دورے پڑتے رہے اور گھر والوں کی جہالت نے ان دوروں کو آسیب و جنات کی کارفرمائی قرار دے کر لڑکی کو جھاڑ پھونک اور نقش تعویذ کے لیے عاملوں، کاملوں اور پیروں فقیروں کے حوالے کردیا، جب معاملہ ان کے قابو میں نہ آیا تو ڈاکٹروں سے رجوع کیا، انہوں نے حسب روایت فوری طور پر آرام و سکون پہنچانے والی ادویات استعمال کروائیں اور گھر روانہ کردیا ، کسی ڈاکٹر کا زیادہ دن علاج جاری رہا تو اس نے آخر کار اپنی جان چھڑانے کے لیے کچھ مستقل نوعیت کی مسکن ادویات تجویز فرمائیں اور مزید علاج سے معذرت کرلی، نتیجتاً وہی کچھ ہوا جس کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔
ہم نے جب اس کیس کی مکمل ہسٹری تیاری کی تو معلوم ہوا کہ پانچ چھ سال کی عمر میں وہ لڑکی کسی دیوار سے گرنے کے سبب سر پر گہری چوٹ کھاچکی تھی، اس وقت معمولی مرہم پٹی کے علاوہ اور کسی بات پر توجہ ہی نہیں دی گئی، عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے کیوں کہ میڈیکل کے علم سے ناواقفیت کے سبب لوگوں کو یہ بات معلوم ہی نہیں کہ سر پر آنے والی چوٹیں اکثر دماغ کے خلیات اور ریڑھ کی ہڈی کے ستون تک اپنے اثرات منتقل کرتی ہیں اور یہ اثرات اکثر کسی بھی ٹیسٹ کی رینج سے باہر بھی ہوسکتے ہیں، بہر حال سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد مزید خرابی یہ پیدا ہوئی کہ وہ لڑکی دیگر نسوانی بیماریوں کا شکار بھی ہوگئی جن کی طرف کبھی کوئی توجہ نہ دی گئی، نتیجتاً اس پر تشنجی نوعیت کے دورے پڑنے لگے، اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ آغاز جوانی ہی سے وہ اپنے ایک کزن کو پسند بھی کرنے لگی، یہ پسندیدگی بھی دو طرفہ تھی، وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے مگر دونوں کے والدین اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے اس شادی کے خلاف تھے۔
عزیزان من! ہمارے خیال سے اس ساری صورت حال سے آپ نے بخوبی اندازہ لگالیا ہوگا کہ مریض اور اس کے امراض کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے اور پھر ان امراض کی طوالت جو سالوں پر محیط ہے وہ کس اسٹیج تک پہنچا سکتی ہے۔
ہمارے لیے اس کیس میں سب سے پہلی دشواری تو یہ تھی کہ مریض کے والدین پوری طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ لڑکی کسی سحر و آسیب کے زیر اثر ہے اور اس کا علاج صرف روحانی طور پر ہی ممکن ہے جو وہ کروا بھی رہے تھے ہم نے ابتدا میں کچھ دوائیں دیں تو روحانی علاج کرنے والوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ہمارے علاج کے دوران کوئی دوا استعمال نہ کروائی جائے لہٰذا پہلی مرتبہ یہ سلسلہ کچھ عرصے کے لیے موقوف ہوگیا۔
 دوسری بار یہ سلسلہ ان روحانی بزرگ کے کہنے پر شروع ہوا جو لڑکی کا روحانی علاج کر رہے تھے کیوں کہ بعد میں انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ دوائیں دینے والے ہم تھے تو انہوں نے ہم ہی سے مکمل علاج کروانے کی ہدایت دے دی۔دراصل وہ ہمارے کالموں کے حوالے سے ہم سے اچھی طرح واقف تھے، اس کے بعد تقریباً ایک سال ہم اپنی سی کوششیں کرتے رہے مگر جیسا کہ اوپر بیان کرچکے ہیں لڑکی ہنوز وہیں پر ہے جہاں اول دن تھی بلکہ اس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہے، یہاں اگر ہم نے علاج اور اس کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تفصیل بیان کردی تو یہ کالم کئی قسطوں پر محیط ہوجائے گا لیکن مختصراً ساری صورت حال کے جو اہم نکات ہم بیان کرچکے ہیں ، ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ اس کیس میں ہماری ناکامی کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ آخری بات اس کیس کے حوالے سے ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ اب وہ لڑکی مستقبل کے خوف کا شکار ہے اور ہر وقت اس خوف میں بھی مبتلا رہتی ہے کہ کب اس پر اچانک دورہ پڑجائے ، اس خوف کے سبب وہ اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بھی ڈرتی ہے اور کمرے میں بھی تنہا نہیں رہ سکتی۔
کب تلک چھپتا رہے گا یوں ہی اپنے آپ سے
آئینے کے رو برو آ اپنے ڈر سے بات کر
اس شعر میں شاعر نے خوف کے مریضوں کے لیے علاج تجویز کیا ہے، اگر آپ غور کریں تو حقیقت یہی ہے کہ خوف کے مریضوں کا علاج درحقیقت یہی ہے کہ وہ بے یقینی کی اس منزل سے گزر جائیں جس میں زندگی اور موت کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، کسی خوف کو اس بات کی اجازت ہر گز نہ دیں کہ وہ آپ کو پل پل مارتا اور زندہ کرتا رہے، اس سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے ٹکرا جائیں، وہ کام ضرور کریں جس سے آپ کو ڈر لگتا ہے، یقین مانیں اگر ایک بار آپ نے ایسا کرلیا تو آپ کا خوف ختم ہوجائے گا، خوف سے ٹکرانے کے لیے یقیناً آپ کو خاصے سخت مرحلے سے گزرنا پڑے گا لیکن اگر یقین کی طاقت ساتھ ہو تو یہ ناممکن نہیں ہے، ممکن ہے کچھ حضرات یہاں پر یہ اعتراض اٹھائیں کہ جناب اگر ہم آپ کے اس مشورے پر عمل کرنے کے قابل ہوتے تو رونا ہی کس بات کا تھا، یہ صحیح ہے کہ بعض مریض اس حالت کو پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ جہاں خود سے کوئی کوشش کرنا، ان کے بس میں ہی نہیں رہتا، ایسے مریضوں کو یقیناً دواو ¿ں کی مدد اور دوسرے روحانی طریقوں سے یا نفسیاتی سجیشن سے مدد دی جاسکتی ہے مگر ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مریض موجود ہیں جو ابھی آخری اسٹیج تک نہیں پہنچے ہیں لیکن لاتعداد چھوٹے بڑے خوف ان کے ذہنوں میں پل رہے ہیں، وہ اگر چاہیں تو اپنے ذہنوں میں پلنے والے خوف کے ان سانپوں کا سر کچل سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اچانک کسی خاص جذبے کے تحت یا کسی خاص کیفیت کے زیر اثر انسان کبھی کبھی غیر معمولی کارنامہ انجام دے بیٹھتا ہے۔
خوف اور بے خوفی
یہ کیسے ممکن ہے کہ خوف کے موضوع پر گفتگو ہو اور ایسٹرولوجی کو نظرانداز کردیا جائے جب کہ ہم پہلے بھی شاید کبھی یہ ذکر کرچکے ہیں کہ معروف ماہر نفسیات کارل یونگ نے اعتراف کیا تھا کہ اُس نے انسانی نفسیات کی تحقیق میں علم نجوم سے مدد لی، چناں چہ مختصر طور پر یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دائرئہ بروج کے کون سے برج زیادہ خوف زدگی کا شکار ہوتے ہیں اور کون سے برج بے خوف ہوتے ہیں یعنی نڈر۔
دائرئہ بروج کا پہلا برج حمل نہایت بے خوف اور نڈر ہے، دوسرا برج ثور مفلسی سے ڈرتا ہے،تیسرا جوزا کسی سے نہیں ڈرتا اور ہر خوف کو چٹکیوں میں اڑانے کا فن جانتا ہے۔
چوتھا برج سرطان آبی برج ہونے کی وجہ سے بے حد حساس ہے، اسے ہمیشہ مستقبل کے مختلف خوف لاحق رہتے ہیں مثلاً کم عمری میں ماں سے دوری کا خوف، جوانی میں مستقبل کے بہت سے انجانے خوف جن کی بنیاد اکثر مفروضات پر ہوتی ہے،بے گھری کا خوف، الغرض برج سرطان بہت سے خوفوں کا گڑھ ہے، یہ لوگ کسی تبدیلی سے بھی ڈرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ تبدیلی کے نتیجے میں موجودہ خراب صورت حال مزید خراب نہ ہوجائے لہٰذا جس تکلیف یا مصیبت میں ہےں وہی غنیمت ہے۔
پانچواں برج اسد بے عزتی یا عزت نفس کے مجروح ہونے سے ڈرتا ہے، اس کے علاوہ اسے کوئی خوف نہیں ہوتا جب کہ چھٹا برج سنبلہ صحت کی خرابیوں سے ڈرتا ہے،معذور ہونے سے ڈرتا ہے،اکثر سنبلہ افراد کسی اچھی جاب سے محروم ہونے کے خوف میں بھی مبتلا ہوتے ہیں لہٰذا آفس میں خواہ کیسی ہی تکلیف دہ صورت حال ہو وہ اسے برداشت کرتے رہتے ہیں،ساتواں برج میزان بڑا خوش امید ہے، یہ بھی کسی خوف کو قریب نہیں آنے دیتا،البتہ کسی معاملے میں توازن بگڑنے سے خوف زدہ رہتا ہے اور اسی وجہ سے مخالفانہ یا بولڈ رویہ نہیں اپناتا، کمپرومائز کرتا رہتا ہے اور اپنی خوش امیدی قائم رکھتا ہے کہ کبھی تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔
آٹھواں برج عقرب بھی آبی ہے،یہ نڈر اور بے باک ہے لیکن اس کے خوف نہایت خفیہ، پیچیدہ اور پراسرار ہیں، عام طور پر ان کے خوف لاشعوری ہوتے ہیں جن کا یہ کبھی اظہار نہیں کرتے،اپنے خوف کو ہی نہیں، ہر بات کو یا ہر مسئلے کو یہ کسی نامعلوم خوف کے تحت چھپاتے ہیں، اسی لیے رازداری کو بڑی اہمیت دیتے ہیں،البتہ جب کسی پر مکمل بھروسا کرلیں تو کسی حد تک اظہار پر آمادہ ہوجاتے ہیں مگر پوری طرح نہیں، مثل مشہور ہے کہ عقربی افراد کبھی پورے پتے شو نہیں کرتے،اپنے لاشعوری ڈر اور خوف پر اندر ہی اندر قابو پانے کی کوششوں میں یہ بعض نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوجاتے ہیں اور ان کے سارے مسائل کی بنیادی وجہ ان کا کھل کر اظہار نہ کرنا اور بہت کچھ خفیہ رکھنا ہے۔
نواں برج قوس نڈر ، بے باک اور بے خوف ہے،یہ ایک فطری مہم جو ہے، گویا خطرات کا کھلاڑی،یہ لوگ اکثر قسمت سے ڈرتے ہیں،کسی ناکامی کی صورت میں قسمت کی خرابی کا رونا روتے نظر آئیں گے۔
دسواں برج جدی بڑا قنوطی ہے، اس کی حد سے بڑھی ہوئی احتیاط پسندی اور محتاط روی اس کے لاشعوری خوف کا سراغ دیتی ہے،یہ لوگ کبھی رسک لینے پر تیار نہیں ہوتے،ترقی کا سفر کسی بکری کی طرح ٹہلتے ہوئے طے کرتے ہیں،ان کا سب سے بڑا خوف ”ناکامی“ ہے، کسی صورت بھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
گیارھواں برج دلو بھی ہوائی ہے لہٰذا یہ لوگ بھی ہر قسم کے خوف کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں لیکن کسی بھی قسم کی پابندیوں کا خوف ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،اس خوف سے نجات کے لیے یہ ہمیشہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں، جیسے ہی انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں پابند کیا جارہا ہے گویا ان کے ہاتھ پاو ¿ں باندھے جارہے ہیں، یہ بھاگنے کی ترکیبیں سوچنے لگیں گے۔
بارھواں برج حوت آبی ہے اور شاید سب سے زیادہ وہم و گمان کے مسائل بھی اس سے ہی وابستہ ہیں،اس کے خوف لامحدود ہوسکتے ہیں،کب اور کون سا خوف ان کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے،یہ قبل از وقت بتانا مشکل ہے،ماہرین نجوم کی تحقیق کے مطابق ان کے لاشعور میں پہلا پیدائشی خوف موت کا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ ابتدائی زندگی سے ہی مرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں،گویا موت کا خوف لاشعور میں ہر وقت موجود رہتا ہے، مثلاً اکثر مختصر زندگی کا احساس غالب رہتا ہے، بہر حال جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف خوف روپ بدلتے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ صرف ہمارے شمسی برج (Sun sign) ہی ہماری شخصیت اور فطرت کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ قمری برج (moon sign) اور برتھ سائن بھی اہمیت رکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اگر کوئی حمل شخصیت کسی خوف میں مبتلا ہو تو یقیناً اس کا قمری یا برتھ سائن بھی دیکھنا ضروری ہوگا۔

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

خوف اور یقین....دو متضاد اور برسرِ پیکار قوتیں

دماغ کی دنیا میں خوف اور یقین کے درمیان بالا دستی کی جنگ
خوف، ڈر، وسوسے اور اندیشے کے حوالے سے پہلے کچھ باتیں آپ کے گوش گزار کی تھیں، اکثر خطوط اور ای میلز میں اس موضوع پر اظہار خیال کو بہت پسند کیا گیا اور فرمائش کی گئی کہ اس سلسلے میں مزید پیش رفت کی جائے کہ یہ آج کے دور کا اور اکثر مسائل کے شکار افراد کا مشترکہ عذاب ہے۔
 ہمارے اکثر مسائل کسی نہ کسی قسم کے خوف کی وجہ سے ہی جنم لیتے ہیں لہٰذا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خوف، ڈر، وسوسوں اور اندیشوں سے کیسے چھٹکارا پائے اور وہ چھٹکارا پا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ وہ کون سی قوت ہے جو انسان کو اس موذی سانپ سے محفوظ رکھ سکتی ہے، آئیے! اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
انسانی ذہن ایک نہایت ہی عجیب شے ہے، یہ ہر لحاظ، ہر لمحہ نت نئی کیفیات کا شکار ہوتا رہتا ہے اور ان کیفیات کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہتی ہے، پل پل رنگ بدلتی ہوئی ان کیفیتوں میں کبھی بھی ہم آہنگی نہیں رہتی بلکہ یہ متواتر ایک دوسرے کا اثر زائل کرنے میں مصروف رہتی ہیں، ان میں کبھی ایک ہم پر غالب آجاتی ہے تو کبھی دوسری پہلی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتی ہے، ان کیفیات کی یہ جنگ ہار اور جیت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، اسی بار جیت کے درمیان انسان زندگی گزارتا چلا جاتا ہے اور مختلف مواقع پر مختلف کیفیات و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔”موڈ“ کا لفظ بھی درحقیقت انہی کیفیات کے بدلتے رہنے کا نام ہے تاہم وہ دو بڑی قوتیں جو ان کیفیات میں تبدل و تغیر کا سبب بنتی ہیں، ان کو اپنے اشارے پر چلاتی، انہیں آگے بڑھاتی اور پیچھے ہٹاتی ہیں، وہ خوف اور یقین ہیں، اب یہی ہمارا موضوع بحث ہیں۔
خوف اور یقین کی ہمارے ذہن پر قابضانہ کوششوں کو ہم ماضی میں امریکا اور روس کی دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں سے تشبیہہ دے سکتے ہیں، یہ دونوں ملک دنیا بھر میں اپنے اپنے اتحادی رکھتے تھے، انہیں ہر قسم کی امداد اور رہنمائی مہیا کیا کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر انہی اتحادیوں کے ذریعے دوسرے بلاک کے ممالک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے، یوں دنیا کی بساط پر مہرے تو بہت سے متحرک نظر آتے تھے مگر انہیں متحرک صرف دو ہاتھ ہی کرتے تھے۔
دماغ اور کامیابی کا راز 
دماغ کی دنیا میں بھی خوف اور یقین کے درمیان بالا دستی کی جنگ جاری رہتی ہے لیکن ان میں ایک فریق اپنے اتحادی کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ اس پر قبضہ کرنے کے بعد اسے شعوری اور لاشعوری طور پر تباہ و برباد کرکے ہی دم لیتا ہے، یہ اندر ہی اندر اپنے اتحادی کے وجود میں دراڑیں ڈالتا ہے، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا رہتا ہے اور نتیجتاً کسی بھی ایک معمولی سے واقعے پر اس کے اتحادی کا وجود محض ایک ہلکے سے جھٹکے سے ہی زمین بوس ہوجاتا ہے، یہ پہلا فریق”خوف“ ہے اور اس پر کسی فرد کا حد سے بڑھا ہوا انحصار اسے کہیں کا بھی نہیں رہنے دیتا۔
دوسرے فریق کا نام یقین، اعتماد اور ایمان ہے، یہ خوف کے بالکل برعکس اثرات رکھتا ہے اور اپنے اتحادی کو شعوری اور لاشعوری طور پر ہر موقع کے لیے تیار کرتا ہے۔ ”یقین“ ایک طرح کا پاور جنریٹر ہے جو چوبیس گھنٹے توانائی پیدا کرکے اپنے اتحادی کو سپلائی کرتا ہے تاکہ اس پر زندگی کی مقدار زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے۔ اگر کوئی اپنے یقین پر مکمل انحصار کرتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کامیابی اور ناکامی کے درمیان فاصلہ متعین کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی اور موت کے درمیان بھی حدِّ فاضل مقرر کردیتا ہے، غرض ایک شخص کا کامل یقین اسے آسمانوں سے بھی بلند کرسکتا ہے اور خوف جیسے موذی اژدھے کے مقابل فتح سے ہم کنار کرسکتا ہے، یوں تعمیری اور تخریبی قوتوں کے درمیان اس نمایاں فرق کو سمجھنے کے بعد آپ کے لیے یہ بات اخذ کرنی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کے یقین میں ہی آپ کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
علاج آپ کے پاس
 اگر آپ اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھرپور اور فتوحات سے لبریز اور آسائشوں سے مالا مال دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ پر یقین رکھیے اور جان لیجیے کہ آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں، آپ اگر خوف زدہ بھی ہیں تو کوئی بات نہیں، اس لیے کہ آپ کا علاج آپ کے اپنے پاس موجود ہے، آپ اپنے یقین سے ہر خوف کو شکست دے سکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ آپ یہ راز جانتے ہوں کہ یقین کو کس طرح خوف پر غالب کیا جاتا ہے، اسے کس طرح خوف کے سدِّباب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
 یقین اور خوف کے درمیان کش مکش کی سب سے عمدہ مثال ہمیں پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والے اس شخص کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئے گی جو فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے، اگر ایک لمحے کے لیے بھی اس کا یقین متزلزل ہوجائے اور یہ خوف دل میں گھر کرلے کہ چھلانگ لگانے کے بعد پیراشوٹ نہیں کھلے گا تو وہ کبھی نیچے کودنے کی جرا ¿ت نہ کرے مگر اسے پیراشوٹ پر کامل یقین ہوتا ہے کہ وہ چھلانگ لگانے کے بعد اسے بخیروعافیت زمین تک پہنچادے گا۔بس یہی یقین اسے ہزاروں فٹ بلندی سے کود کر ایک کارنامہ انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔
خوف اور یقین کی اس ہزاروں فٹ بلند مثال سے آپ یقینا یہ بات جان چکے ہوں گے کہ خوف محض وہم، عدم اعتماد، کمزوری اور ارادے کے فقدان کی بنا پر ہی جنم لیتا ہے، جب کسی فرد کو اپنے اوپر بھروسا نہیں رہتا تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور خوف کی بھرپور گرفت میں کوئی کام بھی درست طریقے پر انجام نہیں دے پاتا، نتیجتاً ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے اور زندگی ایک عذاب ہوکر رہ جاتی ہے، ایسے افراد عموماً پھر اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیں یا پھر دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا الزام دھرتے ہیں۔
خوف زدہ افراد
ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ خوف کی ایک سو ایک اقسام باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ہیں تاہم ان اقسام کی بھی بے شمار طفیلی قسمیں ہیں، ایسے ہی جیسے کسی درخت کی بے شمار چھوٹی چھوٹی شاخیں، خوف کی یہ چھوٹی چھوٹی اقسام بھی اپنی جگہ منفرد حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے اثرات کسی فرد کی شخصیت پر ایک مکمل بیماری سے کم نہیں ہوتے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا یا اگر انہیں اپنے خوف کے بارے میں معلوم بھی ہوتا ہے ، تب بھی وہ اس کے تدارک کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے، وہ خوف کے ماخذ کا سراغ نہیں لگاتے، ان وجوہات کو تلاش نہیں کرتے جن کی بنا پر ان میں کسی شے یا خیال کے بارے میں خوف کے احساس نے جنم لیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ اسی خوف کے سائے میں ساری زندگی گزاردےتے ہیں اور اپنی شخصیت کو تباہ کرلیتے ہیں۔
خوف سے نجات پانے کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ وہ کس شے سے خوف زدہ ہے؟ خوف کی وجہ کا تعین ہی دراصل اس بیماری کا نصف خاتمہ ہے، درحقیقت بیشتر خوف زدہ افراد غیر ارادی طور پر انجانے میں ہی اس بیماری کو اپنے اندر پالیتے ہیں اور لاشعوری طور پر یہ ان کے اندر جڑ پکڑتی جاتی ہے پھر اس کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک روز یہ کھل کر سامنے آجاتا ہے اور خوف زدہ آدمی کی شخصیت کو مضحکہ خیز یا قابل نفرت بنادیتا ہے۔
 ایک مثال دیکھیے، یہ ہمیں ملنے والے بے شمار خطوط میں سے ایک ہے،خط لکھنے والی صاحبہ کا نام وغیرہ ہم ظاہر نہیں کرسکتے، وہ لکھتی ہیں ” میں ایک مصیبتوں کی ماری لڑکی ہوں، ہوسکتا ہے یہ ساری مصیبتیں میری اپنی پیدا کردہ ہوں، ہمارے گھر کے حالات ابتدا ہی سے کچھ اچھے نہیں رہے، میرے ابو ایک دوسرے شہر میں کام کرتے تھے، پھر وہ ملک سے باہر چلے گئے، ان کے جانے کے بعد میری امی اور ہمارے ساتھ وہی سلوک ہوتا رہا جو اکثر شوہر اور باپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس کی بیوی اور بچوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ظلم کی حد تو شاید میرے اوپر ختم ہوئی، میرے چھوٹے چچا نے مجھے پڑھانا شروع کیا لیکن وہ اتنا مارتے تھے کہ میں آج بھی ان کی مار نہیں بھولی اور اسی چیز نے مجھے پڑھائی سے بے زار کردیا ہے، میں نے اپنے چچا کا ہر کام چھوٹی سی عمر سے کیا ہے اور مجھے بچپن سے یہ احساس رہا ہے کہ میرے ابو ہوتے تو شاید میں کسی اچھے اسکول میں پڑھتی اور مار سے بچتی لیکن خیر! پھر جب میں پانچویں میں تھی تو میرے چچا نے اپنا ایک اسکول کھول لیا اور مجھے بھی وہاں پڑھانے پر لگادیا، میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں پڑھانے لگی کیوں کہ میں اپنے چچا کی مار سے بہت ڈرتی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ میرے منع کرنے سے کچھ ہوگا نہیں، پھر میں نے پرائیویٹ میٹرک بھی کرلیا تو پورے اسکول کی ذمے داری اور چچا کے گھر کا تمام کام میرے ذمے ہی تھا، اس دوران میں میرے ابو واپس آگئے مگر ان کے آنے سے بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، میرے چچا کا رویہ ابو سے بہت اچھا تھا لہٰذا وہ ان کے آگے کسی کی بات نہیں سنتے تھے، اوپر سے دادا دادی بھی ابو کے کان بھرتے اور امی کے خلاف ابو کو بھڑکاتے رہتے کہ یہ عورت تمہیں مروانا چاہتی ہے، ابو پر دادا دادی کا حکم ہی چلتا ہے، اس لیے اکثر امی ابو کے درمیان جھگڑا رہتا تھا، ابو نے مجھے چچا کے پاس ہی چھوڑ رکھا تھا، اس ساری صورت حال نے مجھے ہمیشہ شدید اذیت میں مبتلا رکھا، ابو کے سامنے یا کسی کے سامنے بھی اپنی کوئی بات کہنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، یہ خوف رہتا تھا کہ بعد میں چچا ماریں گے اور ابو بھی ان کی بات کو ہی اہمیت دیں گے لہٰذا میں چچا کی خدمت کرتی رہی اور ان کا اسکول چلاتی رہی، اب نئی مصیبت مجھ پر ان کی بیوی نے توڑی ہے، وہ ایک بہت مغرور اور بدزبان بلکہ جھگڑالو عورت ہے، اس کے بھائیوں کی وجہ سے چچا بھی اس سے داب کھاتے ہیں، اسے کچھ نہیں کہتے، وہ میرے ساتھ بہت برا سلوک کرتی ہے، چچا میرے گھر پر تین ہزار روپے مہینہ میری تنخواہ کا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ابو بھی مجھے زور دیتے ہیں کہ پڑھانے جاو ¿ں،حالاں کہ میری چچی مجھ سے نفرت کرتی ہے اور چچا پر زور ڈالتی ہے کہ مجھے اسکول سے نکال دیں لیکن وہ اس کی بات نہیں مانتے ، مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اپنا کام کرو، وہ کہتی ہے تو کہنے دو، اب میری چچی لڑ کر اپنے میکے چلی گئی ہے اور مجھے بدنام کر رہی ہے کہ یہ لڑکی میرا گھر برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ نوکری کرنی ہے تو کہیں اور کرلو، میں بھی یہی چاہتی ہوں مگر خوف کی وجہ سے ابو سے یہ بات نہیں کہہ سکتی، آپ کوئی وظیفہ بتادیں کہ ان مصیبتوں سے میری جان چھوٹ جائے ورنہ اب صورت حال یہ ہے کہ میرا خود کشی کرنے کو دل چاہتا ہے“
عزیزان من! ہم نے یہ خط بہت اختصار کے ساتھ شائع کیا ہے کہ اس سے زیادہ کی گنجائش بھی نہیں تھی، صرف آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ خوف کے سائے میں پلنے والی لڑکی کی زندگی کس طرح تباہ ہورہی ہے، یہاں اس موضوع پر بحث کی گنجائش نہیں کہ ایسا کیوں ہوا ، وہ خط میں بیان کیے گئے حالات سے ظاہر ہے، بات صرف اتنی غور طلب ہے کہ لڑکی اگر خوف کے چنگل سے نکل آئے تو اس کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، باپ یا چچا اسے جان سے نہیں ماریں گے مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خوف کے سائے میں پل کر اپنی اصل شخصیت ہی مسخ کر بیٹھی ہے اور اس کی مثال کنویں کے اس مینڈک کی سی ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ سمندر کیا شے ہے؟
ہم دیگر تفاصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ بعد ازاں اس خوف زدہ لڑکی کو کیسے خوف سے نجات ملی،اس حوالے سے سائیکولوجی اور پیراسائیکولوجی کے ماہرین مناسب ہدایات اور علاج تجویز کرتے ہیں جن میں خاص طور پر فری رائٹنگ کی مشق اور مراقبہ نہایت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہومیوپیتھک ٹریٹمنٹ بھی ایسے مختلف خوف کا شکار افراد کے لیے نہایت مو ¿ثر ثابت ہوتا ہے، ایسٹرولوجی اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے، اس موضوع پر انشاءاللہ پھر کبھی گفتگو ہوگی۔
لوح شرفِ زہرہ نورانی 
سیارہ زہرہ عشق و محبت ، حسن و خوبصورتی اور دوستی و تعلقات کا ستارہ کہلاتا ہے،یہ مالی اُمور پر بھی اثر انداز ہے،آمدن میں اضافے اور انعامی اسکیموں میں زہرہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ دائرئہ بروج میں زہرہ دوسرے گھر یعنی خانہ ءمال کا حاکم ہے اور دائرئہ بروج کے ساتویں گھر برج میزان پر بھی اس کی حکمرانی ہے،ساتواں گھر انسانی زندگی میں تعلقات پر زور دیتا ہے لہٰذا ہر قسم کی پارٹنر شپ خواہ کاروباری ہو یا ازدواجی ، ساتویں گھر کے زیر اثر ہے۔
کسی بھی زائچے میں سیارہ زہرہ محبت ، شادی اور دیگر نوعیت کے تعلقات کی نشان دہی کرتا ہے،اگر زائچے میں زہرہ کمزور ہو یا نحس اثرات کا شکار ہو تو ایسے خواتین و حضرات کی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں،محبت میں ناکامی ، شادی میں تاخیر ، عملی زندگی میں عزیزو اقارب ، ملازمت یا کاروبار میں دوسروں سے تعلقات میں خرابی کی نشان دہی ہوتی ہے،ایسے افراد عموماً خشک مزاجی کا شکار رہتے ہیں،زائچے میں سیارہ زہرہ کی خرابیاں بعض اوقات نہایت پیچیدہ نوعیت کی بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں جن میں جنسی و نفسیاتی امراض اور بانجھ پن جیسے مسائل شامل ہیں ۔
سیارہ زہرہ اگر زائچے میں طاقت ور ہو اور نحس اثرات سے پاک ہو تو انسان معاشرے میں محبوبیت اور مقبولیت حاصل کرتا ہے،دوسرے لوگ اُس کی قربت سے خوشی و شادمانی محسوس کرتے ہیں اور پروانہ وار اس پر نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں،محبت یا شادی اس کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے،عام زندگی میں بھی لوگوں سے بہتر تعلقات استوار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملازمت یا کاروباری معاملات میں ترقی ملتی ہے اور خوش قسمتی ساتھ چلتی ہے،ایسے لوگوں کو کبھی کوئی مالی پریشانی نہیں ہوتی بلکہ تحفہ تحائف ملتے رہتے ہیں اور انعامی اسکیموں میں بھی کامیابی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
زائچے میں زہرہ کی کمزوری دور کرنے اور ناقص اثرات سے نجات کے لیے عام طور سے ڈائمنڈ تجویز کیا جاتا ہے جو آج کے زمانے میں عام آدمی کے لیے خاصی نا ممکن سی بات ہے اور شاید ماضی میں بھی ڈائمنڈ کا استعمال عام آدمی کے بس کی بات نہ رہی ہوگی،ایسے قیمتی جواہرات تو امراءاور بادشاہوں کے زیر استعمال ہی ہوسکتے ہیں۔
علم جفر اور علم نجوم کے اشتراک سے ماہرین نجوم و جفر ایسے طلسم و نقوش ترتیب دینے میں کامیاب رہے ہیں جو پیدائشی زائچے کی کمزوریوں اور نحس اثرات کو دور کرسکیں،اس سلسلے میں سیارہ زہرہ کے اوج ، شرف یا دیگر باقوت سعد نظرات سے مدد لی جاتی ہے اور ایسا مادّہ مہیا کیا جاتا ہے جو زہرہ کے سعد و باقوت اثر کو قبول کرلے پھر مقررہ وقت پر زہرہ سے منسوب دھات پر مرتب شدہ نقوش و طلسمات نقش کرلیے جاتے ہیں ضرورت مند ایسی الواح کے استعمال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں،اس سال سیارہ زہرہ دو بار شرف یافتہ ہوگا، پہلی مرتبہ 30 جنوری رات 12:20 am سے 31 جنوری 04:35 am تک اور دوسری مرتبہ 13 اپریل سے 17 اپریل تک، 30 جنوری کے وقت کی نشان دہی پہلے بھی کی جاچکی ہے،البتہ اپریل میں شرف کا وقت زیادہ طویل ہوگا، اس کے حوالے سے انشاءاللہ اپریل کے آغاز میں ہی بات ہوگی۔
عزیزان من! اگرچہ شرفِ زہرہ کے حوالے سے بہت سے اعمال و نقوش مروج ہیں اور مختلف کتابوں میں بھی درج ہےں، ماہرین جفر ہر سال ایسے اعمال سے آگاہ کرتے رہتے ہیں جو یقیناً مو ¿ثر و مفید بھی ہوتے ہیں لیکن ہم پہلی بار ”لوح شرفِ زہرہ نورانی“ پیش کر رہے ہیں جس کے سریع التاثیر ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے،قرآنی حروف مقطعات کی یہ لوحِ مبارکہ اپنی صفات و تاثیر میں عجیب ہے جو لوگ اسے شرفِ زہرہ کے موقع پر تیار کرکے پاس رکھیں گے وہ خود اس کے فیوض و برکات کا مشاہدہ کرلیں گے،لوح مبارک یہ ہے ۔

عزیزان من! اس لوحِ مبارک کو شرفِ زہرہ یا اوج زہرہ کے اوقات میں ساعتِ زہرہ میں چاندی یا تانبے کی لوح پر کندہ کیا جائے اور تمام قواعدِ عملیات کا خیال رکھا جائے یعنی رجال الغیب سامنے نہ ہوں، سفید لباس پہن کر باوضو ہوکر زہرہ کا بخور صندل سفید ، کافور وغیرہ جلائیں یا عمدہ قسم کی صندل کی اگربتیاں کام میں لائیں،لباس میں عطرِ حنا کی خوشبو لگائیں، فاتحہ کے لیے کچھ سفید یا سبز رنگ کی مٹھائی پاس رکھیں اور نقش مکمل کرنے کے بعد 719 مرتبہ اسمائے الٰہی یالطیف الرحیم الکریمُ کا ورد کرکے لوح پر دم کریں اور مٹھائی پر فاتحہ دے کر بعدازاں خود بھی کھائیں اور دیگر احباب میں بھی تقسیم کردیں ،فاتحہ کے بعد ایصال ثواب کرتے ہوئے ہمارے دادا حضرت کمبل پوشؒ کو بھی یاد رکھیں۔
 ہر شخص کو اپنی ذات کے لیے ایک لوح تیار کرنے کی اجازتِ عام ہے، لوح کو پاس رکھنے یا پہننے کے بعد اگر تسخیر خاص یا تسخیر خلق مقصود ہو تو روزانہ یا لطیفُ الرحیمُ الکریمُ کا ورد 719مرتبہ 80 روز تک کریں اور اگر رزق و روزگار یا کاروباری ترقی ، ملازمت کا حصول مقصود ہو تو اسمائے الٰہی یا اللہُ الرزاقُ الباسطُ السمیعُ کا ورد 719 مرتبہ 80 دن تک جاری رکھیں انشاءاللہ آپ کا مقصد پورا ہوگا۔
نقش کے خانوں میں چال کو سمجھنے کے لیے ہر خانے کے کونے میں انگریزی ہندسے دیے گئے ہیں، انہیں نقش کے اندر لکھنے کی غلطی نہ کریں،یہ نقش کی رفتار ظاہر کرتے ہیں، ان کی پیروی کرتے ہوئے نقش کے خانے پُر کیے جائیں گے،پہلے خانے میں زہرہ کے حروفِ مقطعات کھیعص اور 23 ویں خانے میں حمعسق نقش کی پیشانی پر موجود ہےں،اسمِ ذات اللہ نقش کے قلب میں قائم ہے،نقش کی کاملیت اور خوبیوں پر ہم کیا روشنی ڈالیں، اہلِ نظر ہی اس کا عرفان کرسکتے ہیں۔
نقش مکمل کرنے کے بعد پُشت پر زہرہ کے مو ¿کلات و طلسم اور اپنا نام مع والدہ لکھیں اور ساتھ ہی نقش کے مو ¿کل کا نام لکھیں جو یہ ہے ”یا طیذائل“ 
مو ¿کلاتِ زہرہ اور طلسم یہ ہے 
خاتم طلسم زہرہ

شرف یا اوج زہرہ کے موقع پر خاتم طلسم زہرہ بھی تیار کی جاسکتی ہے،اس خاتم کو تیار کرنے کے لیے مزید مواقع بھی حاصل ہوسکتے ہیں، اگر عروج ماہ میں قمر و زہرہ ، عطارد و زہرہ، مریخ و زہرہ یا مشتری و زہرہ کے درمیان تثلیث یا تسدیس کی نظر ہو اور قمر یا نظر میں شامل دیگر سیارگان نحوست سے پاک ہوں تو یہ خاتم تیار کی جاسکتی ہے۔
اس وقت چاندی کی انگوٹھی پر طلسم کندہ کر کے آپ ایک ایسا تمغہ حاصل کرسکتے ہیں جسکاکوئی ثانی نہیں۔ اس طلسم کو زہرہ کے مخصوص پتھر یا کسی بھی زرد، سبز یا سفید پتھر پر بھی کندہ کیا جاسکتا ہے۔ کندہ کرتے وقت برادہ سفید صندل اور لوبان ملا کر جلائیں اور انگوٹھی یا پتھر کو زہرہ کی سعد ساعتوں میں دھونی دیں۔ جب اس کام سے فارغ ہوجائیں تو پھر کسی بھی جمعے یا جمعرات کو ساعتِ زہرہ میں دائیں ہاتھ میں پہن لیں۔ بعدازاں اس طلسم کی قوت تسخیر کا آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا۔ 
رزق میں کشادگی، ملازمت کا حصول یا ترقی، شادی میں رکاوٹ، محبت میں کامیابی، لوگوں میں مقبولیت اور شہرت، الغرض ایسے بے شمار فوائد اس طلسم زہرہ کی تاثیرات میں شامل ہیں۔ اس طلسم کو کندہ کرنے سے پہلے اس کی زکوٰة و صدقات کا طریقہ سمجھ لیں۔
جس روز ساعتِ زہرہ میں طلسم لکھنا ہے۔ اس سے چند روز پہلے یا دو تین روز پیشتر اس کی زکوٰة کے لیے تیاری کریں۔ وہ اس طرح کہ روزانہ زہرہ کی جو ساعتیں بھی مل رہی ہیں ان میں سے 6 ساعتوں میں جو سعد ترین ہوں، ایک سفید کاغذ پر سبز روشنائی سے 6 بار اس طلسم کو لکھ لیں۔ اس طرح 6 ساعتوں میں 36 مرتبہ لکھا جائے گا۔ کسی ایک ہی کاغذ پر مقررہ ساعات میں 6 بار لکھ لیا کریں۔ بعد میں اسے حفاظت سے رکھ دیا کریں۔ جب 6 ساعتوں میں 36 مرتبہ ہوجائے تو علیحدہ علیحدہ کاٹ کر آٹے میں ملا کر گولیاں بنالیں اور دریا یا سمندر پر جاکر مچھلیوں کو ڈال دیں۔ بعدازاں واپسی پر 6 قسم کا اناج لیں مثلاً گندم، چاول، چنے کی دال، ماش کی دال، مونگ کی دال، مسور کی دال وغیرہ۔ حسب توفیق برابر وزن میں لے لیں چاہے ایک ایک پاﺅ ہی کیوں نہ ہو۔ گھر لا کر اسے جس طرح مناسب سمجھیں عمدہ طریقے سے پکالیں۔ اگر حلیم بنائیں تو مرغی یا بکرے کا گوشت ڈالیں یا جس طرح مناسب سمجھتے ہوں میٹھا یا نمکین پکالیں اور اس پر فاتحہ دے کر خود بھی کھائیں دوسروں کو بھی کھلائیں۔ بس یہی اس عمل کی زکوٰة و صدقہ ہے، اس کے بعد شرف کے موقع پر ساعتِ زہرہ میں یہ طلسم چاندی کی انگوٹھی پر کندہ کرلیں۔ اگر وہ بھی بھی میسر نہ ہو تو ہرن کی جھلی پر سبز قلم سے لکھ کر رکھ لیں اور بعد میں کسی انگوٹھی میں رکھ کر اس کے اوپر سبز، سفید یا زرد رنگ کا نگینہ جڑوالیں۔ طلسم درج ذیل ہے:

ہفتہ، 7 جنوری، 2017

رنگ جو ہماری زندگی پر پوری طرح اثر انداز ہیں

برج حمل سے حوت تک رقصاں رنگوں کی بہار کا دلچسپ تماش
رنگوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود حضرت انسان کی تاریخ، رنگ ازل سے ہم پر نفسیاتی اور جذباتی طور پر اثر انداز ہوتا رہا ہے، آپ غور کریں کہ رنگوں سے ہر جگہ ہمارا سامنا ہوتا ہے، اس کے باوجود ہم اب تک ان سے اتنے واقف نہیں ہوسکے ہیں کہ ان کے استعمال سے اپنے بدن کو جسمانی اور روحانی اعتبار سے متوازن رکھ سکیں۔
رنگ کا تعلق روشنی سے ہے اور شعاع ریزی کا یہ عمل ماورائے احمر شعاو ¿ں سے لے کر ماورائے بنفشی کے مابین پھیلا ہوا ہے،یہ شعاع ریزی برج حمل (سرخ) سے شروع ہوکر برج حوت (بنفشی) پر ختم ہوتی ہے، دوسرے معنوں میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دائرئہ بروج کے بارہ برج مختلف رنگوں سے مزیّن ہےں ، سورج کی روشنی ان رنگوں کو ہم تک پہنچاتی ہے۔
سورج کی روشنی صحت اور تندرستی کے لیے اہم ہے کیوں کہ اس میں کائناتی شعاع ریزی کے سارے رنگ موجود ہیں، ہم میں سے جو لوگ روشنی سے محروم ہیں، وہ نہ صرف طرح طرح کی بیماریوں کا آسانی سے شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے جب کہ روشنی میں رہنے والے بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کی بینائی بھی متاثر نہیں ہوتی۔
رنگ، حرکت سے جنم لیتاہے، روشنی کی لہریں رنگوں کا تعین کرتی ہیں، اگر ایک ستارہ زمین سے دور ہوتا جاتا ہے تو اس کی فریکوئنسی بڑھ جاتی ہے اور یہ سرخ نظر آسکتا ہے، اگر یہ زمین کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس کی فریکوئنسی گھٹ جائے گی اور یہ نظر نہیں آئے گا۔
ہم رنگوں کے بارے میں جانے بغیر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں، رنگ ہر جگہ موجود ہےں اور یہ ہم پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہےں، رنگ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے تیزی سے صحت یاب ہونے، اسکولوں میں توجہ مرکوز رکھنے اور اشتہارات میں بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے صارفین کو اپنی جانب مائل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہےں۔
یونان اور مصر میں پجاریوں پر ایک خاص اثر ڈالنے کی غرض سے عبادت گاہوں کو مختلف رنگوں میں رنگا جاتا تھا، تبت میں رنگوں کی شعاعوں کو مراقبہ میں بطور ایک آلہ استعمال کیا جاتا تھا، رنگوں کا استعمال ہماری زندگی کے تمام پہلوو ¿ں پر بہت لطیف اور غیر محسوس طریقے سے نفسیاتی اثر ڈالتا ہے، ہم جو شے بھی خریدتے ہیں، جس طرح دیکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور سوچتے ہیں غرض یہ کہ ہمارا ہر فعل اس کے تابع ہے۔
ڈاکٹر میکس لوشر نے 1947 ءمیں اپنا پہلا کلر ٹیسٹ ایک بین الاقوامی میڈیکل کانفرنس میں پیش کیا تھا جس میں انہوں نے رنگین کارڈز اور تختیوں سے شعا ریزی کا طریقہ متعارف کرایا تھا جس سے رنگوں کے انتخاب کے ذریعے شخصیت کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے، تب سے یہ کلر ٹیسٹ کارخانوں، ملازمتوں، مارکیٹنگ، پیکجنگ غرض یہ کہ ہر شعبے میں استعمال ہورہا ہے۔
ہر فرد و بشر کا ایک مخصوص رنگ ہے جو اس کی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے،جہاں بھی ہمارا بس چلتا ہے، ہم اپنے پسندیدہ رنگ کا انتخاب کرنے میں قطعی نہیں ہچکچاتے، ہمارا گھر، ہمارا لباس، ہماری پھلواری، ہماری کار، ہر شے سے ہماری شخصیت کے رنگ کا اظہار ہوتا ہے، اگر آپ کو کوئی رنگ طویل عرصے تک کے لیے پسند نہ ہو تو اس رنگ کا انتخاب نہ ہی کریں کیوں کہ اس سے آپ کی صحت پر الٹا اثر پڑنے کا احتمال ہے۔
مغربی اسکولوں میں بچوں کو رنگوں کے اثرات سے آگاہ کیا جاتا ہے، نو عمر لڑکوں کی کلاسوں میں شوخ،بھڑکیلے اور پرکشش رنگ کرائے جاتے ہیں اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں اور اپنی تعلیم کی طرف توجہ دینے لگتے ہیں، ان کے لیے زرد رنگ استعمال کیا جاتا ہے، پھر جب وہ امتحانات میں بیٹھنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو سبز اور نیلے رنگ استعمال کیے جاتے ہیں۔
فن مصوری میں شبیہہ کو نمایاں کرنے کے لیے رنگوں پر انحصار کیا جاتا ہے، یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بعض مخصوص مصور سورج اور چاند کی توانائی کی عکاسی کرتے ہیں، پکاسو کی زمینی علامتوں میں سات سیاروں کے ساتھ سورج میزان اور چاند سنبلہ میں نظر آتا ہے اور یہ اس کی عملیت پسندی، عام لوگوں سے اس کی محبت اور انسانیت کی عکاسی کرتا ہے، اس کی تنقیدی، تجزیاتی خصوصیت اس کی پینٹنگز کے نیلے دور میں اور بعد ازاں جب اس نے کیوب ازم کو اپنایا، اس میں دیکھی جاسکتی ہے۔
مصور کلاڈ مونیٹ انتہائی خوش نما اور خوش رنگ آبی کنول کی پینٹنگز کے لیے مشہور ہے، اس کا پیدائشی شمس عقرب اور چاند سرطان میں ہے گویا دو آبی برج (water sign) اس پر اثر انداز تھے، پانی اور روشنی سے اس کا رشتہ اور ان دونوں کی ماہیت نے اس کے طرز کی نمائندگی کی ہے اور اسے روشنی کی اثر آفرینی کی عکاسی کرنے والے مصوروں میں ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔
اسی طرح ونسنٹ وین گوگ کا شمس برج عقرب میں اور قمر برج قوس میں تھا،چناں چہ اس نے شعلہ فشاں اور بھڑکیلی پینٹنگز کے ذریعے اپنی فعال اور متحرک توانائی کا اظہار کیا اور اس نے اپنے انتخاب اور رنگوں کے استعمال کے ذریعے اپنے اسٹائل کو ایک معنی پہنا کر لوگوں تک پہنچایا جو اس کے شوخ اور بھڑکیلے رنگ کی حامل مشہورو معروف سورج مکھی کی پینٹنگ میں نظر آتا ہے۔
اسی طرح دیگر مصوروں اور فیشن ڈیزائنر نے رنگوں کے انتخاب کے ذریعے اپنی شخصیت کا اظہار کیا ہے، اگر اُن کے پیدائشی زائچوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس حوالے سے مخصوص برج اور سیارے ان کی شخصیت پر اپنا اثر ڈال رہے ہیں، یہ سلسلہ صرف مصوروں تک ہی محدود نہیں ہے ، انسان خواہ دنیا کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، اُس پر اثر انداز ہونے والے رنگ اس کی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں، شاعری ، موسیقی، اداکاری، کوئی بھی ایسا شعبہ جس میں انسان اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے، اس کے مخصوص رنگوں سے عبارت ہوتے ہیں،ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا شمس برج عقرب میں تھا اور قمر قوس میں لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں نہایت گہرائی کے ساتھ ایسی شعلہ فشانی اور اثر پذیری ہے جو پڑھنے یا سننے والے کو اپنے ٹرانس میں لے لیتی ہے۔
زائچے میں رنگ
اپنے پیدائش کے زائچے سے واقفیت آپ کی کاسمک توانائی کی تصویر میں رنگ بھردے گی، آپ یہ دیکھیں کہ آپ میں کس عنصر کی کمی ہے، کیا آگ، مٹی، پانی اور ہوا میں کوئی عنصر غیر متوازن ہے؟ اگر ایسا ہے تو رنگوں کی مدد سے اس کے توازن کو بحال کرنے کی کوشش کریں جو آپ کی زندگی میں آرائش خانہ، ملبوسات، کرسٹل جوئلری حتیٰ کہ آپ کے باغ میں کھلے ہوئے پھولوں کے ذریعے متوازن عنصر کی عکاسی کرے، اگر آپ اس حقیقت سے واقف ہوجائیں کہ کون سے رنگ آپ کی صلاحیتوں کو اور صحت کو توانائی بخشتے ہیں اور کون سے رنگ نقصان دہ یا ضرر رساں ہیں تو آپ با آسانی اپنا معقول علاج کرسکتے ہیں،عام طور پر ایک اچھا ایسٹرولوجسٹ زائچے کی ایسی ہی خرابیوں کو دیکھنے کے بعد مختلف رنگوں کے پتھر استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے اور موافق و مفید رنگوں کے روز مرہ استعمال پر بھی زور دیتا ہے۔
ہر شے اور کوئی بھی شے رنگ کا ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اگر آپ کا اس سے بخوبی رابطہ ہوجائے تو یہ آپ پر اثر انداز ہوگی، جن لوگوں میں آگ کے عنصر کی کمی ہے، انہیں سرخ اور نارنجی رنگ کی ضرورت ہوگی جب کہ پانی کے عنصر کی کمی ہلکے نیلے اور گلابی رنگ کی طالب ہوتی ہے اور مٹی کے عنصر کی کمی سبز رنگ سے پوری کی جاسکتی ہے اور ہوا کے عنصر کی کمی کو زرد رنگ سے پورا کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف آگ کے عنصر کی زیادتی والوں کو نیلا رنگ استعمال کرنا چاہیے جب کہ سرخ رنگ پانی کی زیادتی کو، مٹی کے عنصر کی زیادتی کو بنفشی اور نیلے بنفشی سے متوازن کیا جاتا ہے اور ہوا کی زیادتی کو نیلا اور سبز رنگ درست کرتا ہے۔
ہر برج کا اپنا حاکم سیارہ ہوتا ہے اور اس برج کی انفرادی خصوصیات اس سیارے سے خارج ہوتی ہیں، ہر برج کا اپنا رنگ اور شیڈ ہوتا ہے، ہر برج کے رنگوں کی شعاع ریزی کا اس برج کی نفسیاتی، روحانی اور جسمانی توانائی سے خصوصی تعلق ہوتا ہے، آئیے اس تناظر میں دائرئہ بروج کے بارہ برجوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
برج حمل، حاکم سیارہ مریخ
سُرخ رنگ، سُرخ سیارہ مریخ کا رنگ ہے، یہ محبت، زرخیزی اور توانائی کا رنگ ہے، یہ حرکت کے اشارے دیتا ہے اور آپ کو ہوشیار اور چوکنا رکھتا ہے یا بوقت ضرورت اضافی توانائی فراہم کرتا ہے، جس طرح مینڈھا سرخ رنگ دیکھ کر مشتعل ہوجاتا ہے، اسی طرح یہ رنگ آپ کو قوتِ ارادی عطا کرتا ہے، اگر آپ سرخ کپڑے پہنیں تو آپ کے درجہ ءحرارت میں اضافہ ہوگا اور جسم کی تپش بڑھے گی، غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق فشار خون سے اور خون کی گردش سے ہے، یہ رنگ ان لوگوں کے لیے بہت مناسب ہے جن کے خون میں سرخ ذرات کی کمی ہے لیکن ایسے لوگوں کے لیے ہر گز مناسب نہیں جو ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوں کیوں کہ سرخ رنگ ہیجان انگیز ہوتا ہے اور خون میں کلوی رطوبت خارج کرتا ہے، سرخ رنگ خون یا جسم میں شامل زہریلے اثرات کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور انفکشن سے بچاتا ہے، قدیم زمانے سے دلہن کے لیے سُرخ رنگ کے جوڑے کا استعمال بلاوجہ نہیں ہے۔
برج ثور، حاکم سیارہ زہرہ
گلابی، سرخ سے کم فعال اور دھیما رنگ ہے، اس کی خصوصیات بڑی پیاری اور قابل قدر ہیں، نفسیاتی اعتبار سے یہ رنگ ان لوگوں کا انتخاب ہے جو محبت اور خلوص کے متلاشی ہیں اور بے لوث محبت کرنے کے اہل ہیں، یہ خصوصیت ثور لوگوں میں پائی جاتی ہے جنہیں گھریلو خوشیاں عزیز ہوتی ہیں، یہ حفاظت کرتا ہے اور ذہنی سکون بالخصوص کسی عزیز کی موت پر صبر عطا کرتا ہے، گلابی رنگ ثور کے پرسکون حلقے کا مظہر ہے کیوں کہ اس کی شعاعیں سکون آور لہریں خارج کرتی ہیں۔
برج جوزا، حاکم سیارہ عطارد
اس کا شگفتہ رنگ پیلا ہے جو ذہانت، فراست اور تخلیقی سوچ کا مظہر ہے، اگر آپ مایوسی کا شکار ہیں اور شرمیلا پن محسوس کر رہے ہیں تو آپ کے لیے پیلے رنگ کے کپڑے پہننا بہتر ہوگا کیوں کہ یہ رنگ امید اور حوصلے کے احساسات پیدا کرتا ہے، جذباتی و جسمانی پراگندگی کو بھی خارج کرتا ہے، پیلے شیڈ کا لباس وزن کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہوتا ہے کیوں کہ یہ جسم کی رطوبت کو متوازن رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، یہ رنگ جلد کی بیماریوں مثلاً ایگزیمہ کے علاج میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
برج سرطان، حاکم سیارہ قمر
سفید، چاندی حتیٰ کہ خاکستری، چاند کے رنگ ہیں، سفید رنگ پاکیزگی، سکون اور امن و آشتی کا احساس جگاتا ہے، اس رنگ کو دوسرے رنگوں کے بغیر نہیں استعمال کرنا چاہیے کیوں کہ تنہا سفید رنگ نفسیاتی اور جسمانی دونوں اعتبار سے جامد اور ساکت ہوتا ہے جب کہ خاکستری رنگ سفید اور سیاہ کے درمیان ایک پل بناتا ہے اور خوش گوار موڈ کا دروازہ کھولتا ہے، چاندی کا رنگ اپنے اندر اور بھی ہمہ گیری رکھتا ہے، اس کا چمکیلا، انعکاسی ارتعاش حال کی پر امیدی کا مظہر تو ہے، ساتھ میں یہ پانی کی جھلک بھی دکھاتا ہے، چاندی کے رنگ میں کسی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندی رات کا کیف اور سرور ہے۔
برج اسد، حاکم سیارہ شمس
اسد کے رنگ جن میں شوخ نارنجی، سنہری شعاعیں پھوٹتی رہتی ہیں،اس کے رنگ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک چمکتے رہتے ہیں، ان سے خوش حالی، گرم جوشی، حوصلہ مندی اور پر امیدی کی مثبت لہریں مرتعش ہوتی ہیں، نارنجی رنگ خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے، اگر آپ حد سے زیادہ جذباتی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر رہے ہوں، مثلاً طلاق تو شوخ نارنجی سنہرے رنگ کے درمیان رہیں، یہ رنگ آپ کے جذبات کو استحکام اور مضبوطی عطا کرے گا، اسد کے رنگ بھوک میں اضافہ کرتے ہیں اور ہاضمے کی خرابی کو بھی دور کرتے ہیں۔
برج سنبلہ، حاکم سیارہ عطارد
مٹیالا رنگ جیسے گہرا بھورا، سبز حتیٰ کہ نیوی بلیو، سنبلہ کے شیڈ ہیں، نیوی بلیو ایک توانا، ٹھنڈا رنگ ہے جو خود اعتمادی عطا کرتا ہے نیز اعصاب میں مستقل مزاجی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، سبز رنگ تقریباً تمام چیزوں کو متوازن کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، نیز اس میں صحت عطا کرنے کی عجیب و غریب صلاحیت ہے، نیلا اور سبز منتشر اعصاب کو سکون پہچانے میں بہت عمدہ کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور سے جب کوئی خوف، اندیشہ یا نروس بریک ڈاو ¿ن کا خدشہ ہو، اپنے نروس سسٹم کو ان رنگوں سے استحکام بخشیں۔
برج میزان، حاکم سیارہ زہرہ
نرم و ملائم ہلکے شیڈ، نیلے سے زردی مائل سبز تک، ان پر وینس یعنی زہرہ کی حکمرانی ہے اور یہ نسوانیت کا مظہر ہیں تاہم یہ بہت لطیف انداز میں توازن اور زرخیزی کا پیغام خارج کرتے ہیں، ہلکا نیلا رنگ صحت یاب کرتا ہے، ساتھ ہی سکون اور طمانیت عطا کرتا ہے، زردی مائل سبز رنگ نہ تو گرم ہوتے ہیں اور نہ ہی ٹھنڈے، تاہم یہ دماغ، جسم اور روح میں توازن قائم کرنے میں ٹانک کا کام کرتے ہیں، میزان کے رنگ اس پر آشوب دنیا سے دور کوئی پاکیزہ مقام عطا کرتے ہیں چوں کہ میزان ہوا کا عنصر ہے لہٰذا میزان کے رنگوں کا تصور کرکے سانس کی ورزش کرنا صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔
برج عقرب، حاکم سیارہ پلوٹو
گہرے سرخ سے لے کر قرمزی تک جو، خزاں کے بیریارس بھری کی عکاسی کرتے ہیں، عقرب کے شیڈ ہیں جن پر پلوٹو کی حکمرانی ہے، خون کے مانند سرخ ان رنگوں میں اگرچہ آرین یعنی برج حمل والوں کے مقابلے میں کم ارتعاش، چمک اور سرخی ہے تاہم ان میں محبت کی بہت پرجوش مخفی حرارت دوڑتی رہتی ہے،عقرب کے رنگ متحرک اور فعال ہیں اور سماجی سرگرمیوں کا مظہر ہیں جن کی تہہ میں اسرار کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں، سیاہ رنگ بھی عقرب کا ہے، عقرب کے رنگ، طاقت، قوت، سطوت اور ملنساری کی علامت ہیں جن سے جنس کی اثر آفرینی پھوٹتی رہتی ہے۔
برج قوس، حاکم سیارہ مشتری
برج قوس کے رنگ گہرے نیلے سے ارغوانی تک ہیں، ان سے ٹھنڈی خود اعتمادی خارج ہوتی ہے، یہ شیڈ کلر چارٹ کی ٹھنڈی شعاع ریزی کے عکاس ہیں اور اس وقت کام آتے ہیں جب راز دارانہ خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہو یا اس وقت جب کسی کو اس کی پریشانیوں میں تسکین پہچانا مقصود ہو، ارغوانی رنگ تخلیقی توانائی اور روحی فراست سے عبارت ہے جو افراد اس رنگ کے متلاشی ہوتے ہیں وہ بلاشرکت غیرے بلند مرتبہ اور طاقت کے حصول کا تجربہ کرنے کے متمنی ہوتے ہیں اور زندگی کے سفر کا صحیح معنی و مطلب اور مقصد سمجھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔
برج جدی، حاکم سیارہ زحل
جیسا کہ آپ زحل سے توقع کرسکتے ہیں جو جدی کا حکمران سیارہ ہے،اس کے رنگ طاقت کی نمائندگی کرتے ہیں اور حد بندیوں کا تعین کرتے ہیں، آخر بیشتر پولیس فورس سیاہ یا خاکی وردی کیوں پہنتی ہے؟ عقرب چوں کہ حد بندی کا ساجھی ہے لہٰذا سیاہ، گہرے مٹیالے اور بھورے رنگ حد بندی حتیٰ کہ ساری دنیا سے کٹ کر خود کو محدود ہونے کا مظہر ہیں، اگر آپ تحفظ اور اپنی حد بندی کا احساس چاہتے ہیں تو ان رنگوں کو منتخب کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔
سیاہ رنگ بہت سی تہذیبوں میں بنجر پن کی علامت ہے، نیز یہ موت کی بھی نمائندگی کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ وقت اور فطرت کے، زندگی اور موت کے کبھی زخم ہونے والے چکر کی تفہیم کا شعور بھی عطا کرتا ہے۔
برج دلو، حاکم سیارہ یورینس
فیروزی رنگ امن اور نظم و ضبط سے عبارت ہے اور یہ موجودہ وقت کا رنگ ہے، اس رنگ کو پہن کر ذہن اور روح کو سکون پہنچایا جاسکتا ہے، دماغ پر اس کی تاثیر ٹھنڈی حتیٰ کہ مصفی ہے،فیروزی رنگ ذہنی انتشار اور بے خوابی کو دور کرنے میں فعال ہے، بہت سے اسپتال اس کی تاثیر کے باعث یہ رنگ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ یہ صحت یابی کی رفتار میں تیزی لاتا ہے اور دمہ اور سانس کی علامتوں میں کمی کرکے آرام پہنچاتا ہے، اس کی شعاعیں نروس سسٹم کو ٹھنڈا کرتی ہیں نیز دماغ کو سکون پہنچاتی ہیں۔
برج حوت، حاکم سیارہ نیپچون
نرم و ملائم، ہلکا، ٹھنڈا سبز، نیلگوں اور بنفشی آپ کے لیے کیا کرسکتا ہے؟اگر آپ اپنی ذات سے محبت کرنا سیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی عزت نفس میں اضافہ کے متمنی ہیں تو نیپچون کے آبی رنگوں کو دیکھیں، گہرا نیلگوں علم، عزت نفس، دولت اور روحانیت کی نمائندگی کرتا ہے، اس سے زیادہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ بنفشی تاج کا رنگ ہے جو جسم میں توانائی کا مرکز ہے، بنفشی رنگ میں سرکی چوٹ اور جِلد کے پھٹنے میں، اعصابی نظام سے گزر کر راحت پہچاننے کی تاثیر ہے، نیز یہ رنگ سلانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔