ہفتہ، 25 نومبر، 2017

دسمبر کی فلکیاتی پوزیشن، حالات میں نئی کروٹ کا امکان

سندھ اور کراچی میں آپریشن کی رفتار مزید تیز ، اہم شخصیات زیر عتاب 
کراچی سے خیبر تک ملک کا جو حال ہے،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ہمیں روز ہی نت نئے افسوس ناک واقعات و تماشے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں، ملک کا دارالحکومت اسلام آباد دھرنے کی وجہ سے مفلوج ہے،حکومت نام کی کوئی شے اگر ہے تو خدا معلوم کیا کر رہی ہے؟ ملکی معیشت کے بارے میں روز بہ روز پریشان کن خبریں آرہی ہیں، لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،کرائم اور حادثات میں اضافہ ہورہا ہے،سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں، بیوروکریسی ایک غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے،فوج سرحدوں پر موجود خطرات اور داخلی طور پر دہشت گردی جیسے مسائل میں الجھی ہوئی ہے،دسمبر کا آغاز ملکی صورت حال میں خاصی دھما چوکڑی کی کیفیت لاسکتا ہے،اہم اور سنگین نوعیت کے واقعات اور حالات اس ماہ میں متوقع ہےں، سندھ اور کراچی کے زائچے کے مطابق دسمبر میں صورت حال کوئی نیا ٹرننگ پوائنٹ لاسکتی ہے،آپریشن کی رفتار مزید تیز ہوگی، اہم اور مشہور شخصیات اس کی زد میں آسکتی ہے،وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ کے لیے بھی سنگین خطرات ہوسکتے ہیں، عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، مہنگائی کا نیا طوفان آسکتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔
دسمبر کے ستارے
سیارہ شمس برج قوس میں حرکت کر رہا ہے،21 دسمبر کو برج جدی میں داخل ہوگا،سیارہ عطارد برج قوس میں ہے، 3 دسمبر کو اسے رجعت ہوگی اور پھر 23 دسمبر کو مستقیم ہوگا، توازن و ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ یکم دسمبر کو برج قوس میں داخل ہوگا اور پھر 25 دسمبر کو برج جدی میں چلا جائے گا، 29 نومبر سے سیارہ زہرہ شمس کے قریب ہونے کی وجہ سے غروب ہے اور آئندہ سال 20 فروری تک غروب رہے گا، اس دوران میں شمس سے بہت زیادہ قریب ہوکر مکمل طور پر اپنی قوت کھودے گا، قوت و توانائی کا ستارہ مریخ برج میزان میں ہے،9 دسمبر کو اپنے برج عقرب میں داخل ہوگا اور پورا مہینہ اسی برج میں حرکت کرے گا، سیارہ مشتری برج عقرب میں رہے گا،سیارہ زحل برج قوس میں ہے،20 دسمبر کو اپنے ذاتی برج جدی میں داخل ہوگا اور آئندہ ڈھائی سال تک اسی برج میں قیام کرے گا،سیارہ یورینس برج حمل میں حرکت کر رہا ہے جب کہ نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں بدستور رہیں گے،راس و ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں حرکت کریں گے، دسمبر کے مہینے میں سیارگان کی یہ پوزیشن یونانی یا ویسٹرن سسٹم کے مطابق ہے۔
نظرات و اثرات سیارگان
دسمبر میں اہم سیارگان کے درمیان باہمی طور پر جو زائچے تشکیل پارہے ہیں وہ آنے والے نئے سال کا استقبالیہ ہےں، اس مہینے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیارگان کے درمیان 6 قرانات ہوں گے،ایسا عام طور پر بہت کم ہوتا ہے،باہمی طور پر دو سیارگان کے ملاپ کو قران کہا جاتا ہے اور یہ قرانات نئے کاموں یا نئے معاملات یا مسائل کی بنیاد رکھتے ہیں جو اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی اس کا انحصار سیارگان کی باہمی خصوصیات کے مطابق ہوتا ہے،مزید یہ کہ اس مہینے سے توازن و ہم آہنگی، محبت و دوستی، منگنی اور شادی سے متعلق سیارہ زہرہ غروب حالت میں رہے گا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے،خصوصاً خواتین کے لیے یہ اچھا وقت نہیں ہوگا،اس عرصے میں منگنی یا نکاح وغیرہ کرنا موافق نہیں ہوگا۔
 اس مہینے میں تثلیث کے چار سعد زاویے اور تسدیس کے دو سعد زاویے ہوں گے جب کہ ایک مقابلے کا زاویہ اور دو اسکوائر کے زاویے ہوں گے جو عام طور پر نحس اثر کے حامل خیال کیے جاتے ہیں، 6 قرانات میں ایک انتہائی نحس ہوگا، دسمبر میں تشکیل پانے والے سیاروی زاویوں کی تفصیل ترتیب وار درج ذیل ہے۔
یکم دسمبر: مریخ اور یورینس کے درمیان مقابلے کا زاویہ سخت نحس اثر رکھتا ہے،یہ وقت حادثات و سانحات کا امکان ظاہر کرتا ہے،اس زاویے میں یورینس کی موجودگی غیر متوقع اور اچانک سامنے آنے والے حادثات و سانحات کا خدشہ ظاہر کرتی ہے،بین الاقوامی یا ملکی سطح پر حادثات و سانحات کے علاوہ اچانک پیدا ہونے والی کسی کشیدگی یا جنگ و جدل کا امکان ہوتا ہے،عام افراد کو اس دوران میں ڈرائیونگ میں احتیاط کرنا چاہیے،کسی ایڈونچر سے دور رہنا چاہیے۔
3 دسمبر: مشتری اور نیپچون کا قران ایک سعد اثر رکھتا ہے،اس وقت وجدانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے،پیچیدہ قانونی معاملات میں نئے راستے سامنے آتے ہیں، عبادات و روحانی مشاغل کے لیے بہتر وقت ہوتا ہے، علمی اور تخلیقی نوعیت کے کاموں میں غیر معمولی کارکردگی کا نظارہ ہوسکتا ہے۔
اسی تاریخ کو شمس اور نیپچون کے درمیان اسکوائر کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،گورنمنٹ کے نامناسب فیصلے اور اقدام ظاہر ہوتے ہیں، گورنمنٹ سے متعلق کاموں میں رکاوٹیں سامنے آتی ہیں، اعلیٰ عہدے اور مرتبے کے حامل افراد تنزلی یا عتاب کا شکار ہوتے ہیں، عام افراد کو اس وقت میں اعلیٰ افسران یا صاحب حیثیت افراد سے اچھی توقع نہیں رکھنا چاہیے، گورنمنٹ سے متعلق کاموں کو بھی آئندہ کسی بہتر وقت کے لیے اُٹھا رکھنا چاہیے۔
6 دسمبر: عطارد اور زحل کے درمیان قران کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،اس وقت رکے ہوئے کاموں میں پیش رفت ہوسکتی ہے، ضروری نوعیت کے ایگریمنٹس کرنا بہتر ہوتا ہے،اہم دستاویزات کی تیاری، پراپرٹی سے متعلق امور بہتر طور پر انجام پاتے ہیں،علاج معالجے کے لیے بھی یہ وقت معاون و مددگار ہوسکتا ہے۔
اسی تاریخ کو عطارد و مریخ کے درمیان تسدیس کا زاویہ بھی سعد اثرات کا حامل ہے،اس وقت مشینری یا ٹرانسپورٹ سے متعلق کاروبار سے فائدہ ہوگا، ٹیکنیکل نوعیت کے کاموں کی انجام دہی بہتر رہے گی،سفر سے متعلق مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں آسانی ہوگی،کوئی نیا سفر پیش آسکتا ہے۔
7 دسمبر: مریخ اور زحل کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،یہ وقت کان کنی اور زمین سے حاصل ہونے والی معدنیات کی تلاش یا ان کے حصول میں مددگار ہوگا، ایسے کاموں سے فائدہ ہوگا جن میں مشینری استعمال ہو، کنسٹرکشن کے لیے موزوں وقت ہے۔
10 دسمبر: عطارد اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ غیر معمولی نوعیت کی معلومات اور انکشافات سامنے لاتا ہے،میڈیا میں چونکا دینے والی خبریں گردش کرتی ہیں، اچانک سفر درپیش ہوتے ہیں، انٹرنیٹ اور الیکٹرونکس سے متعلق کام یا کاروبار کے ذریعے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں، نت نئی الیکٹرونکس پروڈکٹس سامنے آتی ہیں، یہ وقت نئی تبدیلیوں کے لیے بھی معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اسی تاریخ کو زہرہ اور نیپچون کے درمیان اسکوائر کا نحس زاویہ قائم ہوگا، اس وقت میں دھوکے یا فراڈ سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے خصوصاً خواتین کے معاملات میں محتاط ہوکر فیصلے کریں، ان کا رویہ اور طرز عمل گمراہ کن ہوسکتا ہے،خواتین کو بھی اس وقت میں جذباتی طرز عمل اور سوچ سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنا چاہیے۔
13 دسمبر: شمس و عطارد کا قران ایک نحس اثر رکھتا ہے،اس وقت ضروری معلومات کے حصول میں دشواری ہوتی ہے یا غلط معلومات حاصل ہوتی ہیں،سفر میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے،لوگوں سے رابطے میں اور بات چیت میں مشکل پیش آتی ہے،اس وقت کسی بھی معاملے میں بحث و تکرار سے گریز کرنا چاہیے۔
15 دسمبر: زہرہ اور عطارد کے درمیان قران کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،یہ وقت باہمی طور پر افہام و تفہیم کے لیے بہتر ہے،خصوصاً محبت، دوستی، منگنی یا شادی کے معاملات کو طے کرنے کے لیے لیکن چوں کہ زہرہ غروب ہوگا لہٰذا غلط فیصلے بھی ہوسکتے ہیں، دو افراد کے درمیان مصالحت یا تنازعات کو ختم کرنے کے لیے کوششیں بارآور ہوسکتی ہیں،اس وقت میں آرٹسٹک نوعیت کے کام اچھے نتائج دیتے ہیں، تحریروتقریر کے لیے بھی بہتر وقت ہوگا۔
16 دسمبر: شمس اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت گورنمنٹ کے غیر متوقع اور اچانک فیصلے یا اقدام سامنے لاتا ہے،عام افراد کو اس وقت میں گورنمنٹ سے متعلق کاموں میں کامیابی مل سکتی ہے،الیکٹرونکس کے کاروبار میں غیر معمولی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
21 دسمبر: زہرہ اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ چونکا دینے والے اور غیر متوقع نئے تعلقات سامنے لاتا ہے،ایسے لوگوں سے اچانک ملاقات ہوجاتی ہے جن سے ملنے کی امید نہ رہی ہو، محبت کے معاملات میں بھی یہ نظر غیر متوقع یا اچانک نئی دلچسپیاں سامنے لاتی ہے،بعض لوگوں کی منگنی یا اچانک شادی کا پروگرام بن سکتا ہے،پہلی نظر کی محبت و پسندیدگی ایسے ہی اوقات میں رنگ دکھاتی ہے۔
22 دسمبر: شمس اور زحل کا قران ایک نہایت منحوس اثر کا حامل زاویہ ہے،یہ وقت حکومتوں کے خلاف عوامی احتجاج لاتا ہے،اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد یا سرکاری افسران وقت کی سختی اور حالات کی گردش کا شکار ہوتے ہیں، ایسی قانون سازی کا امکان ہوتا ہے جو عوامی مفاد میں نہ ہو، نئے ٹیکس یا مہنگائی میں اضافے کا امکان ہوتا ہے،عام افراد گورنمنٹ سے متعلق کاموں یا مقدمات میں پریشانی کا سامنا کرتے ہیں، پراپرٹی سے متعلق سودے یا دستاویزات کی تیاری اس وقت ناموافق ہوگی۔
25 دسمبر: زہرہ اور زحل کے درمیان قران کا زاویہ اگرچہ سعد اثر کا حامل ہے لیکن زہرہ کی پوزیشن اس وقت بہتر نہیں ہوگی جس کی وجہ سے مثبت نتائج کا حصول ممکن نہیں ہوگا،خصوصاً خواتین سے متعلق معاملات پیچیدگی یا تنازعات پیدا کرسکتے ہیں، ازدواجی زندگی میں کوئی بدمزگی یا تلخی ماحول کو متاثر کرسکتی ہے، خواتین کے ساتھ نامناسب یا ظالمانہ سلوک دیکھنے میں آسکتا ہے۔
28 دسمبر: مریخ اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا زاویہ اگرچہ سعد اثر رکھتا ہے لیکن مثبت نوعیت کے کاموں کے لیے بہتر نہیں ہوگا، البتہ منفی دلچسپیوں اور سرگرمیوں میں مددگار ہوگا، شپنگ کے معاملات میں فوائد حاصل ہوں گے،اس وقت ٹیکنیکل نوعیت کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں اچھے نتائج دیں گی۔
قمر در عقرب
قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 13 دسمبر کو شام 06:58 pm کو داخل ہوگا اور 16 دسمبر کو صبح 06:07 am تک برج عقرب میں رہے گا،اس دوران میں اپنے درجہ ءہبوط پر 13 دسمبر رات 10:51 pm سے 14 دسمبر 12:48 am تک رہے گا، یہی وقت زیادہ اہم اور مو ¿ثر ہوتا ہے۔
جی ایم ٹی ٹائم (لندن) کے مطابق برج عقرب میں قمر کا داخلہ 13 دسمبر کو دوپہر 01:58 pm پر ہوگا اور 16 دسمبر 01:07 am تک اسی برج میں رہے گا جب کہ اپنے درجہ ءہبوط پر 13 دسمبر کو 05:51 pm سے 07: 48pm تک رہے گا۔
عزیزان من! جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق قمر در عقرب کی نشان دہی اس لیے کی جارہی ہے کہ دنیا بھر میں رہنے والے افراد اپنے اپنے ملک اور شہر سے لندن ٹائم کی کمی و بیشی کو مدنظر رکھ کر اس وقت کو اپنے شہر کے وقت کے مطابق تبدیل کرسکتے ہیں۔
قمر در عقرب کی مناسبت سے پہلے بھی بہت سے عملیات اور نقوش دیے گئے ہیں اس بار بھی ایک عمل دیا جارہا ہے، اسے طریقے کے مطابق اس وقت کیا جائے جب قمر اپنے درجہ ءہبوط پر ہو۔
دو افراد کے درمیان عداوت و دشمنی
اکثر دو افراد کے درمیان عداوت یا دشمنی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتی ہے،اس کا خاتمہ ضروری ہے، اکثر تو اس بنیاد پر باہمی قریبی رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی صورت حال کے لیے درج ذیل عمل مفید ثابت ہوگا، دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون کر رہا ہے؟ لہٰذا نقش لکھتے ہوئے پہلے اُس فریق کا نام مع والدہ لکھیں جو ظلم و زیادتی کر رہا ہو اور بعد میں اس کا نام لکھیں جو حق پر ہو اور اس ساری دشمنی میں اپنا دفاع کر رہا ہو۔
احدرسص طعک لموہ لادیایا غفور یا غفور بستم اختلاف و عداوت فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں بحق صمُ بکمُ عمیُ فہم لایعقلون یا حراکیل العجل العجل العجل الساعة الساعة الساعة الوحا الوحا الوحا
کسی صاف کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے دو نقش گہن کے وقت لکھیں اور موم جامہ یا اسکاچ ٹیپ لپیٹ کر اُس راستے میں دائیں بائیں کسی سائیڈ دفن کردیں، جہاں سے اُن کا گزر ہوتا ہو، زمین میں دفن کرنے سے پہلے نقش پر کوئی وزنی پتھر بھی رکھ دیں، بعد ازاں کچھ مٹھائی پر فاتحہ دے کر بچوں میں تقسیم کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔
مخالف کی زبان بندی
عین ہبوط کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں۔ انشاءاﷲ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل
برائے خواب بندی
خواب بندی سے مراد یہی ہے کہ کسی کی توجہ حاصل کی جائے یعنی وہ ہمیشہ آپ کے لیے بے چین اور بے قرار رہے ، اس مقصد کے لیے درج ذیل نقش لکھ کر کسی وزنی چیز کے نیچے دبائیں ،یہ نقش قمر در عقرب یا سورج یا چاند گہن میں لکھا جائے گا۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور بستم خواب و خود فلاں بن فلاں (یہاں اس کا نام مع والدہ لکھیں جس کے دل میںمحبت پیدا کرنا ہے) علے حب فلاں بن فلاں( اپنا نام مع والدہ) یا حراکیل
شرف قمر
اس ماہ چاند اپنے درجہ ءشرف پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق دو مرتبہ درجہ ءشرف پر آئے گا اور دونوں مرتبہ عروج ماہ ہوگا یعنی چاند کی پہلی سے 14 تاریخ کے درمیان، اس عرصے کو علم جفر کی اصطلاح میں عروج ماہ اور عام زبان میں چڑھتا چاند کہا جاتا ہے،اس عرصے میں شروع کیے گئے کام بہتر نتائج دیتے ہیں جب کہ چاند کی 14 کے بعد کا وقت زوال ماہ کہلاتا ہے اور اس دوران میں شروع کیے گئے کاموں میں سعادت کا حصول ممکن خیال نہیں کیا جاتا، قدیم زمانے سے شادی بیاہ جیسے معاملات میں چاند کی شروع تاریخوں کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی ہے۔
چاند ہمارا سب سے قریبی سیارہ ہے،اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زمین پر اس کے اثرات نہایت قوی اور فوری نوعیت کے ہوتے ہیں جیسا کہ سمندر میں مدجزر چاند ہی کی گردش کا نتیجہ ہے، چڑھتے چاند میں سمندر چڑھتا ہے اور اترتے چاند میں اترتا ہے، یہ ایک عام مشاہدہ ہے جو کوئی بھی شخص کرسکتا ہے،دنیا میں پہلی مرتبہ سمندر یا پانی پر چاند کے اس اثر کا مشاہدہ شہرہ آفاق پینٹنگ مونا لیزا کے خالق لیونارڈ ڈاو ¿نجی نے کیا تھا۔
قمر کو برج ثور کے تین درجے پر شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے، اس ماہ پہلا شرف قمر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق یکم دسمبر کو 4:58 am سے 06:38 am تک ہوگا جب کہ دوسرا موقع 28 دسمبر کو 02:50 pm سے 04:35 pm تک ملے گا۔
جی ایم ٹی (لندن) ٹائم کے مطابق پہلا شرف قمر 31 دسمبر رات 11:58 pm سے شروع ہوگا اور یم دسمبر 01:38 am تک رہے گا جب کہ 28 دسمبر کو 09:50 am سے 11:35 am تک قمر اپنے درجہ ءشرف پر ہوگا۔اپنے ملک اور شہر سے لندن ٹائم کا فرق اس ٹائم میں جمع یا تفریق کرلیں۔
عزیزان من! چوں کہ دسمبر میں شرف قمر 2 بار ہوگا اور سونے پر سہاگا یہ کہ عروج ماہ میں ہوگا، اس سعد اور مو ¿ثر ترین وقت پر اگر لوح قمر نورانی تیار کی جائے تو یہ ایک بےش بہا تحفہ ہوگا لہٰذا اس لوح کی تیاری کے تمام اصول و قواعد یہاں دیے جارہے ہیں اور لوح بھی دی جارہی ہے، امید ہے کہ ضرورت مند اس تحفہ ءخاص سے فائدہ اٹھائیں گے، جو لوگ کسی مجبوری کے تحت خود تیار نہ کرسکیں وہ براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔
لوح قمر نورانی

حروف نورانی کا یہ نقشِ معظم ایک بیش بہا قیمتی تحفہ ہے، اس کے فوائد بے شمار ہیں جو لوگ وقتِ مقررہ پر تیارکرکے پاس رکھیں گے وہی اس کا لُطف بھی اُٹھائیں گے۔
واضح رہے کہ سیارہ قمر کا تعلق ملائکہ میں حضرت جبرائیل ؑ سے ہے اور اسماءالحسنیٰ یا رحمن یا رحیم ہیں،نقش مذکورہ کے ہر تین خانوں کی میزان 708 ہے اور یا ملک الرحمن الرحیم کے اعداد بھی 708 ہیں،حروف نورانی میں طٰسٓمٓ نٓ سیارہ قمر سے منسوب ہیں،الٓمٓرٰ سیارہ شمس سے اور حٰمٓعٓسٓقٓ سیارہ زہرہ سے منسوب ہیں،نقش کے درمیان میں انگریزی ہندسے نقش کی چال کو ظاہر کرتے ہیں یعنی پہلا خانہ کون سا ہے اور دوسرا، تیسرا کون سا ہے؟یہ اعداد نقش میں نہیں لکھے جائیں گے ۔
نویں خانے میں 313کے اعداد ہیں جو فتح و نصرت اور کامیابی سے متعلق ہےں،یہ راز بھی غور طلب ہے کہ تاریخ اسلام کا پہلا معرکہ ءحق و باطل غزوئہ بدر ہے جس میں شرکائے اسلام کی تعداد 313 تھی، صدیوں قبل حضرت داو ¿دؑ نے جالوت کے زبردست لشکر کو شکت دی، کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے دوران میں بھی آپؑ کے ساتھیوں کی تعداد 313 تھی، اگر 313 کا مفرد عدد حاصل کیا جائے تو 3+1+3=7 ، گویا مفرد عدد 7 ظاہر ہوا، اس کی پراسراریت اپنی جگہ،اسے ایک مقدس عدد بھی تسلیم کیا جاتا ہے، دنیا بھر کے تمام مذاہب میں 7 کے عدد کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں اولیت دی جاتی ہے،اس کی تفصیل میں جانے کی ہم ضرورت محسوس نہیں کرتے، اہل اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب بھی اس حقیقت سے باخبر ہیں۔
لوح قمر نورانی کو شرف قمر کے دوران میں چاندی کی پلیٹ پر لکھا جائے کیوں کہ قمر کی دھات چاندی ہے۔ باوضو ہوکر رجال الغیب کی سمت کا خیال رکھتے ہوئے، لوبان ‘کافور یا عود کی اگربتی کمرے میں جلائی جائے اور لباس میں کیوڑہ یا عرق گلاب کا عطر لگائیں۔
 نقش کی پُشت پر قمر کے مو ¿کلاتِ علوی و سماوی تحریر کریں اور اپنا نام مع والدہ بھی لکھیں،بعد ازاں کچھ مٹھائی پر فاتحہ دیں اور بچوں میں تقسیم کردیں،نقش کو موم جامع یا پلاسٹک کوٹڈ کرالیں اور نوچندے پیر کے روز صبح سورج نکلنے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر 708 مرتبہ یا مالک الرحمن الرحیم کا ورد کرکے لوح پر دم کریں اور اپنے پاس رکھیں،یہ کام نقش لکھنے کے فوراً بعد بھی کیا جاسکتا ہے، اب ان اسمائے الٰہی کو اپنے ورد میں شامل کرلیں یعنی روزانہ 708 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھنا اپنا معمول بنالیں اور اللہ سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دعا کریں۔
 قمر کے مو ¿کلاتِ ارضی و سماوی یہ ہیں ۔یامیکائل ، یا شدحائل ابوالنور مرة الابیض بن الحارث 

ہفتہ، 18 نومبر، 2017

ایک شعلہ و شبنم فطرت و کردار کے مالک ڈاکٹر فاروق ستار

علم نجوم کی روشنی میں ایک تجزیاتی رپورٹ، خوبیاں، خامیاں، فطری میلان و رجحانات
مشہور ماہر نفسیات کارل یونگ کا قول ہے کہ میں نے انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ایسٹرولوجی سے مدد لی ہے،ان کی وفات کے بعد ایسٹرولوجی کے مخالف گروپ نے کارل یونگ کے اس قول کی صحت سے انکار کیا لیکن ثبوت و شواہد موجود تھے،اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہ تھا۔
اس میں کوئی شک و شبہے کی کی گنجائش نہیں کہ علم نجوم درحقیقت ایک ایسی سائنس ہے جو انسان کی شخصیت و کردار پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے اور ہماری پیچیدہ نفسیات کی پیچ در پیچ گتھیوں کو عیاں کرتی ہے، مزید آگے بڑھ کر ہم شخصیت و کردار کے مطالعے کے بعد اس علم کی مدد سے وقت کی اہمیت اور خوبیوں یا خرابیوں یعنی سعادت و نحوست کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں، دنیا بھر میں اس علم سے ایسے ہی مفید کام لیے جارہے ہیں، ہماری بات اور ہے کہ ہمارے ملک میں اس سائنٹیفک علم کو علم غیب یا قسمت کا حال سمجھا جاتا ہے اور پھر مذہبی انتہا پسند اس کے خلاف فتوے دیتے ہیں، بڑے بڑے ثقہ مفتیان کرام نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث علم نجوم کے خلاف پیش کرتے ہیں، حالاں کہ وہ حدیث علم نجوم کے نہیں بلکہ کہانت کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے ”جس نے کاہن کی بات مانی وہ ہم میں سے نہیں ہے“ اس مفہوم کی ایک سے زیادہ احادیث ہوسکتی ہیں، ہمارے مفتیان کرام کاہن کا ترجمہ نجومی کردیتے ہیںکیوں کہ وہ اپنی کم علمی کے سبب علم نجوم کو بھی غیب دانی کا علم سمجھتے ہیں، حالاں کہ موجودہ دور میں تو یہ بات مزید پایہ ءثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ علم نجوم علم ریاضی اور فلکیاتی سائنس کا علم ہے ، آج دنیا بھر میں اس علم پر اعلیٰ درجے کے ایسٹرولوجیکل سوفٹ ویئرز تیار ہوچکے ہیں، کسی غیب دانی کے علم پر کوئی سافٹ ویئر تیار نہیں ہوسکتا۔
کہانت یقیناًغیب دانی کے زمرے میں آتی ہے، عربوں میں کاہنوں سے مشورے لینے کا رواج تھا، زمانہ ءجاہلیت میں خانہ ءکعبہ میں بھی کاہن تعینات تھے جو اہم معاملات میں تیروں کے ذریعے فال نکال کر پیش گوئی کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے محترم والد حضرت عبداللہ کی قربانی حضرت عبدالمطلب کرنا چاہتے تھے، تمام عزیز رشتے دار اور پورا قبیلہ اس قربانی کے خلاف تھا لیکن حضرت مطلب اپنی منت اور خدا سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا چاہتے تھے،آخر کاہن کے ذریعے فال نکالی گئی تو حضرت عبداللہ ہی کا نام آیا، آخر کار کسی نے مشورہ دیا کہ مدینے میں ایک کاہنہ سے رجوع کیا جائے وہ اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کرے گی،چناں چہ ایسا ہی کیا گیا اور کاہنہ نے بھی تیروں کے ذریعے فال نکالنے کا ایک منفرد طریقہ تجویز کیا، اس نے کہا کہ ایک تیر پر حضرت عبداللہ کا نام لکھا جائے اور دوسرے تیر پر دس اونٹ مقرر کیے جائیں، اگر اونٹ والا تیر نکل آئے تو دس اونٹوں کی قربانی دے کر آپ اپنی منت پوری کرلیں اور حضرت عبداللہ کی قربانی سے رک جائیں لیکن اگر پھر بھی حضرت عبداللہ ہی کا انعام نکلے تو دوسری مرتبہ قرعہ اندازی کی جائے اور اونٹوں کی تعداد بڑھادی جائے اور اس وقت تک یہ تعداد بڑھاتے رہےں جب تک اللہ راضی نہ ہوجائے لہٰذا سو اونٹوں پر فیصلہ ہوگیا، حضرت عبداللہ کی جان بچ گئی۔
کہانت کی اور بھی بہت سی اقسام عرب میں اور دیگر ممالک میں رائج رہی ہےں،کاہن مختلف مندروں، عبادت گاہوں وغیرہ میں اپنی پیش گوئیوں کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے تھے،کہانت بنیادی طور پر اپنی روحی یا روحانی صلاحیت کے ذریعے پیش گوئی کرنے کا نام ہے،یہ کام آج کے دور میں بھی جاری و ساری ہے،مکاشفہ یا استخارہ اسی کہانت کی ایک شکل ہے جس کی اسلامائزیشن کرلی گئی ہے۔
عزیزان من! گفتگو کا رُخ ایسی جانب مڑ گیا جو ہمارا فی الحال موضوع نہیں ہے، ہماری گزارش یہ ہے کہ خود کو اور دوسروں کو سمجھنے اور جاننے پہچاننے کے لیے اس سائنٹیفک علم سے استفادہ کرنا چاہیے،دنیا بھر میں اس علم سے ایسے ہی کام لیے جارہے ہیں،بڑی بڑی کمپنیاں اعلیٰ عہدوں پر کسی کی تعیناتی سے قبل اس کے ایسٹرولوجیکل بائیو ڈیٹا کو مدنظر رکھتی ہیں کہ وہ متعلقہ عہدے کے لیے موزوں امید وار ہے یا نہیں؟
ہماری کتاب ”آپ شناسی“ اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے،کم از کم عام لوگ جو ایسٹرولوجی کی باریکیوں اور زائچہ ریڈنگ کی الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتے،ان کے لیے یہ کتاب صرف شمسی برج (sun sign) کو بنیاد بناکر لکھی گئی ہے،ہر شخص کو اپنی تاریخ پیدائش معلوم ہے،وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کا شمسی برج کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے برج کو اپنا ”اسٹار “ کہتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے رہنما
اس تمام گفتگو کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہم زیادہ حساس اور نازک موضوع کو چھیڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اگرچہ یہ چھیڑ چھاڑ پہلے بھی جاری رہی ہے لیکن بہت مختصر اور اکثر اشاروں کنایوں میں ، کیوں کہ مشہور شخصیات پر بات کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے،پہلے بھی ہم بعض سیاسی یا فوجی اہم شخصیات کے زائچوں پر بات کرتے ہوئے ان کی خوبیوں ، صلاحیتوں اور خامیوں وغیرہ پر روشنی ڈالتے رہے ہیں، اس بار ہمارے پیش نظر کراچی کی دو مشہور شخصیات ہیں جو گزشتہ دنوں پورے پاکستانی میڈیا پر چھائی ہوئی تھیں یعنی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ جناب فاروق ستار صاحب اور پی ایس پی کے جناب سید مصطفیٰ کمال۔
ایم کیو ایم کراچی ، حیدرآباد اور میرپورخاص وغیرہ کی ایک نمائندہ جماعت ہے، اس کی ابتدا آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ فیڈریشن سے ہوئی تھی اور پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوگئی،گزشتہ سال سے ایک بار پھر نئے مرحلوں اور نئے ناموں کا دور دورہ جاری ہے،22 اگست 2016 ءکے بعد ایم کیو ایم کے سربراہ جناب فاروق ستار ہوگئے ہیں لیکن اس سے پہلے ہی ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما جناب مصطفیٰ کمال کی 3 جون 2016 ءکو آمد نے کراچی کی سیاست میں ایک نیا محاذ کھول دیا اور انہوں نے ایک نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے قیام کا اعلان کردیا، دونوں پارٹیاں سندھ کے شہروں کی اردو اسپیکنگ آبادی کے حقوق کا حصول ممکن بنانے کے لیے میدان سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہےں۔
 اصولی طور پر تو ان کی کارکردگی اور مستقبل کے حوالے سے پارٹی کے زائچے کو مدنظر رکھنا ضروری ہے،ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ 2013 ءکے انتخابات سے قبل فروری مارچ میں ہم نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے زائچے خاصی تحقیق اور محنت کے بعد پیش کیے تھے جس میں ایم کیو ایم کا زائچہ بھی تھا اور اس کی روشنی میں ہم نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ایم کیو ایم 2013 ءکا انتخاب جیت لے گی لیکن اس کے بعد پارٹی میں انتشار و خلفشار کا جو عمل شروع ہوگا اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کو 2017 ءتک اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوگی، آج تقریباً5 سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے ایسٹرولوجیکل اندوزوں کے مطابق ہی سامنے آیا ہے اور ابھی یہ عمل جاری ہے،ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ 2017 ءسے ایک بہتر دور کا آٓغاز ہوگا تو شاید یہ سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
ہم کراچی میں رہتے ہیں اور کراچی ہی میں پیدا ہوئے ، ہمارا تعلق بھی انہی لوگوں میں سے ہے جو 1947 ءمیں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی ، سندھ اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز کرکے ہم خوش اور مطمئن رہیں،اکثرو بیشتر اس حوالے سے جو بھی اچھا برا ذہن میں آتا ہے،ا س کا اظہار کرتے رہتے ہیں ، جناب فاروق ستار اور مصطفی کمال کے زائچوں پر بھی نظر ڈالنے کا خیال اسی لیے آیا ہے کہ اپنے ان قائدین کی خوبیوں ، خامیوں، صلاحیتوں سے آگاہی حاصل ہوسکے، آپ کو یاد ہوگا کچھ دن پہلے ہی جناب شہباز شریف اور پاک آرمی کے چیف جناب جنرل قمر باجوہ کے زائچے پر بھی اسی جذبے کے تحت اظہار خیال کیا گیا تھا، ماضی میں دیگر مشہور شخصیات پر بھی گفتگو ہوتی رہی ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہی ہے کہ ہم جان سکیں کہ ہماری باگ دوڑ اور ہمارا مستقبل کن ہاتھوں میں ہے کیوں کہ 70 سال بعد بھی مندرجہ ذیل شعر ایک سوالیہ نشان کی طرح ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے
قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے
موجودہ سربراہ ایم کیو ایم پاکستان
جناب فاروق ستار صاحب کی دستیاب تاریخ پیدائش 9 اپریل 1959 ہے، ہمارے اندازے کے مطابق ان کا وقت پیدائش صبح 5:29 am ہوسکتا ہے،اس طرح زائچے کے پہلے گھر میں برج حوت (pieses) کے سات درجہ 49 دقیقہ طلوع ہےں، اس کا حاکم سیارہ مشتری ہے، جب کہ جنم راشی یعنی قمری برج حمل ہے ، اس کا حاکم سیارہ ڈائنامک مریخ ہے اور قمری منزل اشونی ہے جس پر غضب ناک کیتو حکمران ہے۔
زائچے کے سعد اور فائدہ بخش سیارگان میں مشتری ، مریخ، عطارد، قمر شامل ہیں جب کہ نحس اور نقصان دہ سیارگان میں راہو کیتو کے علاوہ زہرہ ، شمس اور زحل ہےں، مشتری اور مریخ نہایت باقوت پوزیشن رکھتے ہیں، البتہ قمر اور عطارد کمزور ہےں، عطارد اپنے برج ہبوط میں ہے ، راہو کیتو بالترتیب ساتویں اور پہلے گھر میں بیٹھے ہیں، طالع برج حوت اگر زائچے میں طلوع ہو تو مشتری اور مریخ کی باقوت پوزیشن صاحب زائچہ کو اسٹیٹس اور پیشہ ورانہ معاملات میں ایک کامیاب انسان بناتی ہے،چھٹے گھر کا حاکم سیارہ شمس کمزور ہو تو صحت قابل رشک نہیں ہوتی، قمر کی کمزوری زندگی میں مسائل کی زیادتی اور شدید نوعیت کے ذہنی دباو ¿ لاتی ہے،زائچے میں شمس اور قمر دونوں کمزور ہیں،سیارہ عطارد کچھ زیادہ ہی کمزور ہے کیوں کہ ہبوط یافتہ ہے، یہ صورت حال سائنس جیسے سبجیکٹ میں میتھ میٹکس کی کمزوری کے سبب پریشانی کا باعث ہوتی ہے،فاروق صاحب ڈاکٹر ہیں، یقیناً انہیں ایم بی بی ایس کرنے کے دوران میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا ہوگا لیکن عطارد کی یہ پوزیشن زبردست قسم کی اسپریچوئل پاور ڈیولپ کرتی ہے اور ایسے لوگ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں مگر ہم انہیں غیر معمولی طور پر ذہین نہیں کہہ سکتے،وہ اپنے کام میں ماہر ہوسکتے ہیں اور ہدایت کے مطابق عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں مگر اعلیٰ درجے کی قوت فیصلہ سے محروم ہوتے ہیں،سونے پر سہاگا یہ کہ طالع پیدائش برج حوت ایک ڈبل باڈی سائن ہے اور اپنی ماہیت کے اعتبار سے آبی ہے، اس برج کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد رومانوی، تخیلاتی ، بامروت اور فیاض ہوتے ہیں، لطف اندوزی اور حساسیت اس برج کا طرئہ امتیاز ہے،یہ لوگ خوش مزاج، ہمدرد خیال رکھنے والے ، فرض شناس، جذباتی، پُرجوش، آدرش وادی، وجدانی، اخلاقی قدروں کے حامل، صوفیانہ، فلسفیانہ، برداشت کرنے والے یا بزدل، غیر محفوظ اور آرام طلب ہوتے ہیں،فطری طور پر بے چین اور ہمیشہ حرکت میں رہنے والے،عطارد کی کمزوری کے سبب اچھے مشیر ثابت نہیں ہوتے، اگر عطارد مضبوط ہو تو بہتر مشورہ دے سکتے ہیں، جناب فاروق ستار اپنے کردار و عمل میں کیسے نظر آسکتے ہیں اس کا اندازہ مندرجہ بالا خصوصیات کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
فطری میلانات
سیارہ قمر کسی بھی صاحب زائچہ کے فطری میلانات و رجحانات پر روشنی ڈالتا ہے اور مزید یہ کہ قمری منزل بھی فطری تقاضوں کی نشان دہی کرتی ہے،فاروق ستار صاحب کا قمر برج حمل میں ہے اور قمری منزل اشونی ہے،جناب عمران خان صاحب کا قمر بھی اسی پوزیشن پر ہے،دنیا کی دیگر مشہور شخصیات میں بھارتی صدر ذاکر حسین، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، برطانوی پرنس چارلس وغیرہ کے زائچوں میں بھی قمر کی پوزیشن یہی ہے۔
برج حمل اور اس کا حاکم سیارہ مریخ ڈائنامک خصوصیات کے حامل ہیں، ہمیشہ ایکشن میں رہنا اس برج کا خاصا ہے،یہ لوگ توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں،برج حمل منقلب اور آتشی برج ہے، اس طرح حوت اور حمل کا امتزاج ڈاکٹر صاحب کو ایک شعلہ و شبنم فطرت و شخصیت سے نوازتا ہے،مزاجی طور پر غصہ ور اور جلد اشتعال میں آنے والی فطرت یہاں موجود ہے،متحرک ، ہوشیار، سخت مزاج اور ممتاز رہنے کی خواہش نہایت شدت کے ساتھ برج حمل کا خاصہ ہے،ہمیشہ نمبر ون پوزیشن کی خواہش اور اس کے لیے کوشش و جدوجہد ، حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اور ہوائی قلعے بنانے کا رجحان بھی قمر کی اس پوزیشن سے ظاہر ہوتا ہے،برج حمل قائدانہ صلاحیتیں بھی دیتا ہے، یہ لوگ اپنے اہداف حاصل کرلیتے ہیں۔
قمر کی اس پوزیشن کے منفی پہلوو ¿ں میں ہیجان، جارحیت، ضد، گھمنڈ جیسی خصوصیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،یہ ممکن ہے کہ زائچے کے کچھ دوسرے عوامل منفی پہلوو ¿ں کو کنٹرول کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں لیکن انہیں یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
شخصیت و کردار اور فطرت سے متعلق اہم نکات پر نظر ڈالنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ صاحب زائچہ ایک اچھا بزنس مین ، صنعت کار، ڈاکٹر، ڈیلر، فوجی،پولیس مین،کرمنل کورٹ کا لائر، سیلزمین، میوزیشن تو ہوسکتا ہے لیکن ملک و قوم کی رہنمائی کا فرض ادا کرنا اس کے لیے خاصا مشکل ترین کام ثابت ہوسکتا ہے۔
جناب فاروق ستار نے 1987 ءمیں کوچہ ءسیاست میں قدم رکھا تھا اور وہ متحدہ قومی موومنٹ کے جھنڈے تلے ایک طویل کامیاب کرئر کے حامل ہیں،مندرجہ بالا تمام تجزیاتی عوامل کے پیش نظر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے پیچھے کون کون سے عوامل کار فرما رہے ہیں، اس طویل عرصے میں وہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے اور خراب وقتوں میں سخت حالات کا بھی سامنا کیا،قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،گزشتہ سال 22 اگست کے بعد ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کا آیا،وہ اس ذمے داری کو نبھانے میں کس حد تک کامیاب رہیں گے،اس کا اندازہ مستقبل میں ہونے والی سیاروی گردش سے لگایا جاسکتا ہے۔
زائچے میں راہو کا دور اکبر جاری ہے جس کی ابتدا 19 اکتوبر 2006 ءسے ہوئی،راہو کا تعلق سیاست سے ہے اور یہ زائچے کے چھٹے گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے،راہو کا دور 18 اکتوبر 2024 ءتک جاری رہے گا اور اس کے بعد سیارہ مشتری کا دور اکبر شروع ہوگا۔
راہو کے اس طویل دور میں فی الحال 19 اپریل 2017 سے کیتو کا دور اصغر چل رہا ہے،راہو کیتو ہمیشہ زائچے میں ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں اور عام طور پر انہیں منحوس تصور کیا جاتا ہے،اگر زائچے کے اچھے گھروں میں ہوں تو اچھی ٹرانزٹ پوزیشن میں بہتر نتائج بھی دیتے ہیں لیکن مجموعی طور پر صاحب زائچہ مختلف مسائل اور پریشانیوں میں گھرا نظر آتا ہے اور عموماً اس دور میں وہی کچھ کاٹتا ہے جو اس نے بویا ہو،چناں چہ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ڈاکٹر فاروق ستار کر رہے ہیں، 13 ستمبر 2017 ءسے سیارہ مشتری جو ان کے کرئر کا اہم ترین سیارہ ہے،زائچے میں ایک انتہائی خراب پوزیشن میں چلا گیا ہے اور آئندہ سال ستمبر تک اسی پوزیشن میں رہے گا، یہ صورت حال ڈاکٹر صاحب کے لیے ہر گز خوش کن نہیں ہے،انہیں پارٹی میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں اور سیاسی میدان میں اپنی حیثیت کو مضبوط اور نمایاں کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا رہے گا، اگر آئندہ انتخابات ستمبر 2018 ءسے پہلے ہوں تو ان کے لیے اپنی نشست برقرار رکھنا بھی مشکل ہوسکتا ہے،ایسا ہی خطرہ 2013 ءمیں بھی موجود تھا لیکن اس وقت مشتری کی پوزیشن زائچے میں موافق و مددگار تھی۔
عزیزان من!انشاءاللہ آئندہ پی ایس پی کے چیئرمین جناب سید مصطفیٰ کمال کے زائچے پر گفتگو ہوگی۔

پیر، 13 نومبر، 2017

نومبر، دسمبر ملک میں کسی ایمرجنسی کا امکان ظاہر کرتے ہیں

تیسری عالمی جنگ کے لیے میدان تیار ہورہا ہے، نئی صف بندی ہورہی ہے
جیسے جیسے کوئی اہم ترین تاریخی واقعہ اپنی رونمائی کے قریب ہوتا جاتا ہے، حالات کی تبدیلیاں بھی تیز تر ہوتی چلی جاتی ہیں، کچھ ایسی ہی صورت حال پوری دنیا اور پاکستان میں بھی نظر آرہی ہے۔
 ہم گزشتہ ایک سال سے اس امکان کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ 2019 ءمیں ہوگی اور 2016 ءسے دنیا میں ایسے واقعات کا ظہور شروع ہوچکا ہے جو متوقع عالمی جنگ سے کسی نہ کسی طرح پیوستہ نظر آتے ہیں، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی ، یمن اور سعودی عرب کے درمیان جنگ اور اس کے نتیجے میں ایران عرب تنازع، شام کے حالات، داعش کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ اور پھیلاو ¿، افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات،چین کا سی پیک پروگرام، کوریا کا سخت رویہ اور ہائیڈروجن بم کا تجربہ، انڈوپاک کشیدگی میں اضافہ، پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال وغیرہ اور اس تمام منظر نامے کا پس منظر نہایت معنی خیز ہے۔
پاکستان میں اس سال پاناما کیس کا فیصلہ اور بعد ازاں سابق وزیراعظم کی نا اہلی کا فیصلہ جو اس وقت بھی ملک میں ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے،معاشی بحران، کرپشن کے خلاف عوامی غم و غصہ، مہنگائی کا طوفان اور ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار، کراچی میں کے الیکٹرک کی لوٹ مار اور بھی بہت سے دیگر مسائل اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں، سیاسی پارٹیاں اپنی اہمیت کھورہی ہیں، لوگ عدالتوں یا فوج کی طرف دیکھنے پر مجبور ہورہے ہیں، جمہوریت ناپسندیدہ ہوتی جارہی ہے،ٹیکنو کریٹس حکومت کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے،ایک پرانا نعرہ ”پہلے احتساب اور پھر انتخاب“ دوبارہ گونج رہا ہے۔
کراچی میں گزشتہ سال سے ایم کیو ایم شدید انتشار اور خلفشار کا شکار ہے، پیپلز پارٹی سے لوگ پی ٹی آئی کی طرف جارہے ہیں، ن لیگ بھی ایک سے زیادہ گروپس میں تقسیم ہورہی ہے، قصہ مختصر یہ کہ ہونے کو تو بہت کچھ ہورہا ہے مگر ایک غیر یقینی کی کیفیت ہر معاملے میں موجود ہے،زائچہ ءپاکستان کے مطابق نومبر دسمبر کے مہینے غیر معمولی حالات و واقعات کی نشان دہی کر رہے ہیں، 3 نومبر کے بعد سے صورت حال روز بہ روز سنسنی خیز ہوتی چلی جارہی ہے،نیب کورٹ میں کیسز کی سماعت، ریویو پٹیشن پر سپریم کورٹ کا سخت ترین فیصلہ، کراچی میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی مفاہمت اور علیحدگی ، الغرض یہ کہ ہر روز ایک نیا تماشا عبرت سامانی کا باعث بن رہا ہے،دسمبر کے پہلے ہفتے میں سندھ گورنمنٹ اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صاحب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، 30 نومبر سے سیارہ مریخ زائچے کے چھٹے گھر میں داخل ہوگا تو پاکستان مزید تبدیلیوں کا شکار ہوگا، عدلیہ، بیوروکریسی اور ملٹری سے متعلق اداروں کے زیادہ فعال کردار کا مشاہدہ ہوسکے گا، یہ وقت کسی ایمرجنسی کی نشان دہی کر رہا ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔
بین الاقوامی تناظر میں صدر ٹرمپ کے تازہ دورے کو ایک غیر معمولی موومنٹ قرار دیا جارہا ہے،وہ شمالی کوریا سے مذاکرات کے لیے بھی تیار نظر آرہے ہیں، ساتھ ہی سعودی عرب میں بھی کرپشن کے خلاف ایک سخت کریک ڈاو ¿ن شروع ہوچکا ہے،ابھی 2017 ءاپنے اختتام کو نہیں پہنچا، 2018 ءکی آمد آمد ہے،دنیا کس طرف جارہی ہے اور ہم کس طرف جارہے ہیں؟ نئے سال کے حوالے سے ہمارا تازہ آرٹیکل زنجانی جنتری 2018 ءمیں شائع ہوچکا ہے۔
خیالات اور احساسات کے دباو سے نجات 
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، فطرت کے تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیانک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات اور احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات و احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین ان جذبات و احساسات کے برہنہ اظہار پر معترض ہوتے ہیں، انہیں مخصوص حدودوقیود کا پابند کرتے ہیں تاکہ جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انہیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپاکی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات حالات اور ماحول کے جبر کی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے ، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے، وہ لکھتی ہیں۔
”خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اسی طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟“
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا، فرض عبادات کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان ہی زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انہیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں، یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات ”آزاد نگاری“ یا ”خود نویسی“ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں انہیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انہیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں، جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیز یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباو ¿ میں ہو، یہ دباو ¿ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر (اگر کسی جذباتی الجھن اور تناو ¿ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ءعلاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ”مشق تنفس و تصور“ بہترین ثابت ہوتی ہے(یہ مشق ہماری کتاب ”مظاہرنفس“ میں موجود ہے) اور طریقہ ءعلاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔
ش،الف، حیدرآباد سے لکھتے ہیں ” آپ نے نیلے دھاگے کا جو عمل دیا تھا وہ میں نے کیا، اس میں چراند بھی تھی اور چنگاری بھی تھی، میں نے بہت علاج کرایا ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، گھر کے تمام افراد دونوں وقت قرآن پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم محفوظ ہیں ورنہ دشمن ہمیں زیادہ نقصان دینا چاہتا ہے، اس میں اس کو کامیابی نہیں ہے لیکن کاروبار بند کردیا ہے“
برادرم! جب دھاگہ جلنے میں چراند اور چنگاری موجود تھی تو آپ کو یہ عمل پورے گیارہ دن تک اور اگر اس کے بعد بھی بو یا چراند باقی رہتی ہے تو کرتے رہنا چاہیے تھا تاوقت یہ کہ بو یا چراند نہ ختم ہوجائے، اس کے علاوہ بھی جو صدقات وغیرہ کا طریقہ لکھا تھا، اس پر بھی عمل کریں، پھر نتائج سے مطلع کریں، آپ نے اپنے حالات بھی زیادہ تفصیل سے نہیں لکھے کہ ان کی روشنی میں مزید مشورہ دیا جاسکے، اپنے دشمن اور اس سے دشمنی کی نوعیت کے بارے میں بھی کچھ نہیں لکھا، آپ جو پڑھائی وغیرہ مسلسل کر رہے ہیں وہ کس نوعیت کی ہے؟ بہتر ہوگا کہ مکمل تفصیلات کے ساتھ خط لکھیں۔
ایس، اے لکھتی ہیں ” مجھے 16 سال کی عمر سے چکر آتے ہیں اور یہ مسلسل رہتے ہیں، چکر اس طرح شروع ہوئے تھے کہ ایک دن میں بیٹھی ہوئی تھی کہ بیٹھے بیٹھے اچانک ایسا لگا کہ جیسے کسی نے اوپر سے نیچے تک میری جان کھینچ لی اور پھر چکر آنے لگے، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے زمین نیچے کو دھنس رہی ہو اور کبھی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے زمین چل رہی ہو، لیٹے بیٹھے کھڑے ہر طرح سے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا، اب بھی کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے جان کھینچ لی ہو، پورے جسم میں درد رہتا ہے اور کھڑی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ گر جاو ¿ں گی، نہ ہی کوئی کام کیا جاتا ہے اور اس کیفیت کی وجہ سے عبادت میں بھی دل نہیں لگتا، دیکھنے میں بالکل ٹھیک ٹھاک اور صحت مند لگتی ہوں لیکن اندر سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں بالکل خالی ہوں، کھوکھلی ہوں جیسے اندر سے کوئی دیمک لگی ہوئی ہے، ہر وقت بے چینی اور بے سکونی رہتی ہے، ہر طرح کا علاج کروالیا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، پورے جسم کا ایکسرے ہوا، ہر طرح کے ٹیسٹ بھی ہوچکے ہیں، سب کلیئر ہیں، کوئی بیماری نہیں ہے، بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے لیکن چکر مسلسل رہتے ہیں، مہربانی فرماکر میرے مسئلے کو حل کریں“۔
جواب: عزیز بہن! آپ کا علاج درست نہیں ہوا، نہ ہی تشخیص درست ہوسکی ہے، ایلوپیتھک طریقہ ءعلاج میں تو ویسے بھی ایسے کیسوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی جہاں تمام ٹیسٹ کلیئر ہوں، اگر آپ نے ہومیو پیتھک علاج بھی کرایا ہے تو ڈاکٹر مناسب نہیں تھا ورنہ آپ ٹھیک ہوجاتیں، آپ بہتر ہوگا کہ براہ راست رابطہ کریں، باقی یہ وہم دل سے نکال دیں کہ آپ پر کوئی سحر یا ماورائی اثرات ہیں جو آپ کو پریشان کر رہے ہیں۔

ہفتہ، 4 نومبر، 2017

ہمارے خواب اور خواہشات کے نت نئے روپ بہروپ

ہر ذی شعور انسان ایک رات میں تین خواب ضرور دیکھتا ہے
ملک کی صورت حال پر ایسٹرولوجیکل تجزیہ اکثر ہوتا رہتا ہے، نومبر اور دسمبر اس حوالے سے خاصے اہم مہینے ہیں، خاص طور پر سندھ میں کسی بڑی تبدیلی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے بعد نئے سال 2018 ءکا آغاز ہوگا،نومبر دسمبر کی ایسٹرولوجیکل صورت حال سندھ اور کراچی کے حوالے سے غیر معمولی حالات و واقعات کی طرف اشارہ کر رہی ہے خصوصاً 20 نومبر سے ایک ایسے وقت کا آغاز ہورہا ہے جو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے لیے موافق و مددگار نہیں ہوگا،انہیں بہت زیادہ دباو ¿ کا سامنا ہوگا جس کے نتیجے میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں آسکتی ہے۔
کراچی کی سیاست میں بھی ایک بھونچالی کیفیت موجود ہے،ایم کیو ایم شدید انتشار اور ابتری سے دوچار ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایم کیو ایم پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہو، بعض سیاسی تجزیہ کار موجودہ ایم کیو ایم کے خاتمے اور ایک نئی جماعت کے وجود میں آنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں، اس امکان پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ ایم کیو ایم کے حوالے سے 2013 ءمیں انقلابی تبدیلی کی جس لہر کی ہم نے نشان دہی کی تھی وہ اب آخری مرحلے میں ہے اور بقول شاعر 
جان لیوا ہے محبت کا سماں آج کی رات
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
 آج کی نشست میں خوابوں کی دنیا کے کچھ اسرار و رموز پر بات ہوگی، اس حوالے سے پہلے ایک خط پیش خدمت ہے۔
ایس، آر لکھتی ہیں ” پہلی بار آپ کو خط لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں، جواب دے کر ممنون فرمائیے گا، میں نے رات ایک عجیب اور حیرت انگیز خواب دیکھا جس نے مجھے آپ کو خط لکھنے پر مجبور کردیا لیکن اپنا خواب لکھنے سے پہلے کچھ اپنے بارے میں واضح کرنا چاہتی ہوں، میری عمر 35 سال ہے، چودہ سال کی عمر میں مجھے نفسیاتی بیماری ہوگئی تھی، وہ اس طرح کہ میں امتحان کا بہت ٹینشن لیتی تھی، بیماری کے باعث بی اے کا امتحان بھی پاس نہ کرسکی پھر میں ایک مشہور کھلاڑی کی بے حد فین ہوں اس لیے بھی ایک الگ خیالی دنیا میں رہنے لگی تھی، ڈاکٹروں کے مطابق مجھے شیزوفرینیا ہوگیا ، میرا کافی علاج ہوا ہے، کئی مرتبہ شاک بھی لگائے گئے، اب خدا کے فضل سے میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں، امی نے تین ماہ قبل علاج کے لیے تعویذ کروایا تھا جو کہ میں ہر وقت گلے میں ڈالے رکھتی ہوں۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا گھر ہے، ساٹھ گز کا ڈبل منزلہ، میں اوپر کی منزل میں گئی، دیکھا کہ وہاں کمرے کے ایک کونے میں زیورات کا ڈبا رکھا ہوا تھا جس میں کئی ناک کی لونگیں اور کانوں کے بندے رکھے ہوئے تھے، میں نے زیور دیکھتے ہی پانچ چھ لونگیں اٹھالیں، بندے بھی دو سیٹ اٹھالیے لیکن باقی چیزیں مجھے زیادہ نہیں بھائیں، پھر میں نے دیکھا کہ ایک خاتون نیچے باورچی خانے میں کھانا پکارہی تھیں، انہوں نے کھانے کے لیے بلایا، میں باورچی خانے ہی میں بیٹھ گئی، ایک پتیلی کا ڈھکنا کھولا تو دیکھا، اس میں مچھلیاں پکی ہوئی تھیں، میں نے جوں ہی چمچہ چلایا، معلوم ہوا کہ مچھلیاں زندہ ہیں،پھر میں نے گھبرا کر دوستی پتیلی کا ڈھکنا کھول کر دیکھا تو مرغی کا گوشت بھنا ہوا پکا تھا، جب چمچہ چلایا تو پتا چلا کہ کھال اتری ہوئی ثابت مرغیاں تھیں۔
پھر میں نے دیکھا کہ ہم نے گھر بدل لیا ہے، وہ ہمارے گھر سے بھی بڑا اور صاف ستھرا گھر تھا اور اس گھر میں کمرے بہت سارے تھے، اچانک منظر پھر بدل جاتا ہے، میں نے پھر وہی پرانا گھر دیکھا، بتایا گیا کہ یہ انہی صاحب کا گھر تھا جنہوں نے تمہیں تعویذ دیا تھا اور وہ خاتون جو باورچی خانے میں تھیں، مولوی صاحب کی بیوی تھیں، جب میں گھر سے باہر نکلنے کے لیے باہر کے دروازے سے قدم باہر نکالتی ہوں تو تین سیڑھیوں کی اترائی پر ایک چھ ماہ کی بچی پڑی ہوئی رو رہی ہوتی ہے، ایک آواز آتی ہے کہ یہ تیری چوتھی اولاد ہے، تین ضائع ہونے کے بعد، اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے“۔
جواب: خوابوں کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہے، ماہرین نفسیات اس حوالے سے مستقل تحقیقات میں مصروف عمل ہیں، اس حوالے سے علم نفسیات کے باوا آدم سگمنڈ فرائڈ سے لے کر آج تک بے شمار ماہرین نفسیات اس پراسرار دنیا کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے۔
فرائڈ نے کہا تھا ”انسانی خواہشات خوابوں میں نت نئے روپ دھار کر سامنے آتی ہیں“ مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ خواب بہر حال معنی رکھتے ہیں، ان کے ذریعے امراض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔
اس کے مخالفین نے فرائڈ کے نظریات کو غیر سائنٹیفک قرار دیا، اس اختلاف رائے کے باوجود علم نفسیات کے ماہرین فرائڈ کے نظریات کو یک لخت مسترد نہیں کرتے، فرائڈ کے نظریے کے مطابق انسان کا دماغ دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک شعور اور دوسرا لاشعور، ہمارے شعوری تجربات و مشاہدات ہمارے لاشعور میں ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں لہٰذا ہمارا لاشعور ایک ایسا ریکارڈ روم ہے جس میں ہماری زندگی سے متعلق یادوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود رہتا ہے، بقول فرائڈ یہی لاشعور ہمارے شعور کی بے خبری میں ہم پر حکم چلاتا ہے اور ہم اپنی لاشعوری حالت میں خیالات، تہذیب اور تمدن کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں، فرائڈ کی تحقیق کے مطابق ہماری تشنہ خواہشات اور بچپن کی ناآسودہ خواہشیں ہمارے لاشعور میں مسلسل سرگرم عمل رہتی ہیں اور وہ ہر اس موقع کی تلاش میں رہتی ہیں جب خود کو سیراب کرسکیں لہٰذا لاشعور میں رہائش پذیر یہ تشنگیاں اور نا آسودہ خواہشیں نیند کی حالت میں شعور کی سطح پر آجاتی ہیں۔
اس وضاحت کی روشنی میں ضروری ہوجاتا ہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے خواب دیکھنے والے کا کردار واضح ہو۔
مابعد النفسیات
علم نفسیات کے بعد ماہرین مابعد النفسیات کی تحقیق کے حوالے سے بھی مختصراً عرض کرتے چلیں۔
وہ خوابوں کو کئی اقسام میں بانٹ دیتے ہیں اور یہ تقسیم بھی خواب دیکھنے والے کے ظاہری و باطنی کردار و کیفیات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان دو رخوں سے مرکب ہے، ایک رخ اس کے ظاہری حواس ہیں اور دوسرا رخ اس کے باطنی حواس کا ہے۔( علم نفسیات کی اصطلاح میں ظاہری حواس کو شعور اور باطنی حواس کو لاشعور ہی کہا جائے گا) نیند کی حالت میں ظاہری حواس معطل ہوجاتے ہیں اور باطنی حواس حرکت میں آجاتے ہیں، باطنی حواس کی حرکت ہی خوابوں کا سبب بنتی ہے، اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کون سا انسان کس قسم کے خواب دیکھے گا اور اس کے خوابوں کو کیا تعبیر دی جائے گی، ایک جنرل اصول یہ ہے کہ ہمارا لاشعور، پیراسائیکولوجی کی زبان میں جسم مثالی یا ہمزاد جس قدر عمدہ حالت میں ہوگا، ہمارے خواب بھی اتنے ہی روشن اور صاف ستھرے ہوں گے جب کہ اس کے برعکس جسم مثالی یا ہمزاد کی حالت جس قدر تباہ وگمراہ ہوگی، خواب بھی اسی قدر پے چیدہ اور بے ربط و عجیب و غریب ہوں گے۔
ہمارے خیال سے اس طویل وضاحت کے بعد آپ اور بہت سی دوسری خواتین خوابوں کے مسئلے سے کسی حد تک آگاہ ہوگئی ہوں گی۔ 
علم نجوم اور خواب
اس مسئلے میں علم نجوم کا حوالہ انتہائی اہم اور ضروری ہے کیوں کہ یہی وہ واحد علم ہے جو ہمارے شعور و لاشعور یا ظاہری و باطنی حواس پر مستند اور حقیقی روشنی ڈالتا ہے۔
دائرئہ بروج کے 12 برج (Sign) اپنی ایک علیحدہ کیمسٹری رکھتے ہیں، بارہ برجوں کو ماہیت اور عناصر کی بنیادی پر تقسیم کیا گیا ہے، چار برج (حمل، سرطان، میزان اور جدی) منقلب (cardnial) ہیں، چار ثابت (Fixed) ہیں اور چار ذوجسدین (Moovable)، اسی طرح عنصری تقسیم جس میں تین آتشی (Fire sign) تین خاکی (Earth sign) ، تین آبی (water sign) اور تین ہوائی (air sign) کہلاتے ہیں۔
شعوری مشاہدے کا سب سے بڑا لاشعوری ذخیرہ آبی اور ہوائی برجوں کے حامل افراد کرتے ہیں، دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ آبی برج (سرطان، عقرب اور حوت) کا مشاہدہ بہت گہرا اور پائیدار ہوتا ہے،وہ بہت چھوٹی عمر کے مشاہدات و تجربات بھی طویل عرصے تک اپنے لاشعوری ریکارڈ میں جمع رکھتے ہیں اور یہ ریکارڈ وقتاً فوقتاً عمر کے مختلف حصوںمیں خوابوں کے ذریعے ڈسپلے ہوتا رہتا ہے،ہوائی بروج جوزا ، میزان اور دلو کا مشاہدہ اور تجربہ زیادہ گہرا اور پائیدار نہیں ہوتا لہٰذا ان کا لاشعوری ریکارڈ دوسرے برجوں کے مقابلے میں اگرچہ سب سے زیادہ وسیع ہوتا ہے مگر اپنی وسعت کے سبب اس قدر گڈمڈ ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ نہایت بے ترتیب، الجھے ہوئے اور بے معنی یا فضول خوابوں کی ایک لمبی سیریل دیکھتے رہتے ہیں۔سب سے کم خواب ثابت بروج دیکھتے ہیں یا یوں کہیں کہ انہیں اپنے خواب یاد ہی نہیں رہتے، البتہ ثابت بروج میں برج عقرب کے خواب بڑے اہم اور معنی خیز ہوتے ہیں، دیگر دو بروج ثور اور اسد کا معاملہ مختلف ہے، یہ لوگ کسی مخصوص صورت حال کے باعث ہی خواب دیکھتے ہیں ورنہ نہیں۔
 اب آئیے اپنے خواب کی تعبیر کی طرف۔
آپ نے اپنی جس بیماری اور علاج کا تذکرہ کیا ہے، وہ اس خواب میں نمایاں ہے،آپ تیزی سے صحت مندی کی طرف جارہی ہیں مگر ابھی مکمل طور پر صحت مند نہیں ہیں، البتہ آپ کے خواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مایوسی کے گڑھے سے نکل آئی ہیں، خوش امیدی جیسی شفا بخش قوت آپ کو حاصل ہوچکی ہے اور آپ بہت جلد مکمل طور پر شفایاب ہوجائیں گی، انشاءاللہ لیکن اس بات کا اندیشہ بھی موجود ہے کہ آپ علاج معالجے میں کوئی دھوکا کھاسکتی ہیں لہٰذا محتاط رہیں اور اس علاج کو ہر گز نہ چھوڑیں جس سے آپ کو حقیقی معنوں میں فائدہ ہوا ہے، اس سلسلے میں خواہ کوئی کتنا ہی سبز باغ دکھا کر اپنی طرف بلائے، اس کی باتوں میں نہ آئیں۔
خوابوں کی دنیا
دوسرا خط ایک اور کرم فرما کا ہے، لکھتے ہیں ”میرا ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ میری والدہ محترمہ کو وفات پائے عرصہ گزر گیا، میری خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ وہ مجھے خواب میں نظر آئیں مگر وہ خواب میں نظر نہیں آتیں بلکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی دو سال سے مجھے کوئی خواب ہی نظر نہیں آیا، کوئی طریقہ ایسا ہو کہ والدہ صاحبہ کا دیدار ہوجائے تو میں آپ کے لیے دعا گو رہوں گا“
برادرم! کالم کی پسندیدگی کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں، آپ نے اپنا جو مسئلہ بیان فرمایا ہے اس کے حوالے سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ آپ خواب کیوں نہیں دیکھتے، یقینا آپ نہایت گہری نیند سوتے ہیں یا پھر سونے کے لیے مسکن ادویات کا استعمال کرتے ہیں، گہری اور نہایت پرسکون نیند بہترین ذہنی یکسوئی اور بے فکری کی علامت ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ روزانہ ضرورت کے مطابق نیند نہ لیتے ہوں یعنی دیر سے سونا اور پھر جلدی اٹھنا، اس صورت میں بھی نیند کی شکل میں انسان پر گہری مدہوشی طاری ہوجاتی ہے۔
جدید نفسیاتی اور سائنسی تحقیق کے مطابق ہر ذی شعور انسان روزانہ کم از کم تین خواب ایک رات میں ضرور دیکھتا ہے ، پہلا خواب وہ نیند کے ابتدائی غلبے کے فوراً بعد دیکھتا ہے اور دوسرا خواب اس وقت دیکھتا ہے جب آدھی نیند لے چکا ہوتا ہے یعنی بہت گہری نیند سورہا ہوتا ہے، یہ دونوں خواب انسان کو یاد نہیں رہتے یا ان لوگوں کو یاد رہتے ہیں جو گہری نیند نہیں سوتے، ذہنی انتشار کی زیادتی کی وجہ سے نیند کی حالت میں بھی بے چین اور ہوشیار رہتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی بھی وجہ سے ان کی آنکھ کھلتی رہتی ہے اور وہ اپنے خوابوں پر خصوصی توجہ دیتے، انہیں یاد رکھنے کی پریکٹس کرتے ہیں یعنی آنکھ کھلتے ہی جو کچھ خواب میں دیکھا اسے ذہن میں تازہ کرنا شروع کردیا، خواب کی جزئیات پر غوروفکر شروع کردیا، خواب غیر معمولی نوعیت کا ہو تو انسان ایسا ضرور کرتا ہے اور پھر وہ خواب اسے صبح بھی یاد ہوتا ہے۔
تیسرا خواب انسان اپنی نیند کے آخری مرحلے میں یعنی صبح کے قریب دیکھتا ہے، اس مرحلے میں تھکے ہوئے اعصاب بھرپور نیند کے سبب تازہ دم ہوچکے ہوتے ہیں اور شعور کی بیداری شروع ہوچکی ہوتی ہے یعنی گہری نیند نہیں ہوتی، لاشعور کی دنیا سے واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا یہ خواب عموماً یاد رہ جاتا ہے،آنکھ کھلتے ہی انسان بستر پر کسمسانے کے دوران میں اس پر نظرثانی کرتا، خواب کی باتوں کو ذہن میں شعوری طور پر دہراتا اور پھر ذہن میں نقش کرتا ہے لیکن اس کے برعکس بھی ہوتا ہے، وہ لوگ جو بہت زیادہ مصروفیت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور آنکھ کھلتے ہی فوراً ان کا ذہن کسی اور طرف متوجہ ہوکر مصروف عمل ہوجاتا ہے، یہ آخری مرحلے کا خواب بھی بھول جاتے ہیں، مثلاً دیر سے سونے کے بعد نامکمل نیند میں انہیں زبردستی اٹھنا اور فوراً کسی ضروری کام یا ڈیوٹی کے لیے بھاگنا پڑے، ایسی صورت میں دیکھے ہوئے خواب کو ذہن میں تازہ کرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی لہٰذا وہ یاد بھی نہیں رہتا۔
اس تمام تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ انسان خواب ضرور دیکھتا ہے، تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صرف پاگل خواب نہیں دیکھتے یعنی ذہنی خرابیوں کا شکار اور دماغی امراض میں مبتلا افراد، باقی ہر شخص جو اپنی شعوری دنیا کے ساتھ لاشعوری دنیا بھی رکھتا ہے، خواب دیکھتا ہے، خواہ بے داری کے بعد اسے وہ یاد نہ رہیں، یاد نہ رہنے کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے، کچھ وجوہات پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔
اب آپ کا یہ سوال کہ والدہ محترمہ کبھی خواب میں نہیں آتیں تو اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر روشنی ڈالنے کے لیے آپ کے بعض حالات زندگی سے واقف ہونا ضروری ہے،والدہ کو خواب میں نہ دیکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ کی خواہش ناپختہ ہو یعنی جس لگن اور بے قراری کی اس خواہش کے لیے ضرورت ہے، وہ ناپید ہو، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنی والدہ کو خواب میں دیکھیں تو سب سے پہلے ان کی کوئی اچھی سی تصویر اپنے کمرے میں اس طرح لگائیں کہ مستقل آپ کی نظر اس تصویر پر پڑھتی رہے،اس کے بعد تقریباً ہر جمعرات کو خصوصی اہتمام کے ساتھ عصر و مغرب کے درمیان کلمے شریف کا ختم اس طرح کرائیں کہ ایک مہینے یعنی چار یا پانچ جمعراتوں میں سوا لاکھ کی تعداد مکمل ہوجائے جمعرات کو والدہ کی پسندیدہ کوئی ڈش تیار کرائیں اور غریبوں میں تقسیم کردیا کریں، یقین کرلیں کہ آپ اپنی والدہ کو خواب میں دیکھ سکیں گے۔