ہفتہ، 10 نومبر، 2018

جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا


انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا بہترین ذریعہ علم نجوم ہے
کائنات عجائبات سے بھری پڑی ہے جس طرف بھی نظر ڈالئے قدرت خداوندی کا کوئی نہ کوئی عجوبہ نظر آجائے گا۔ نظام فلکی میں گردش کرتے ہوئے سیارے اور زمین پر پھیلے ہوئے دست قدرت کے عقل کو حیران کر دینے والے شاہکار پہاڑ، دریا، جنگل، ریگستان، سمندر اور پھر رنگ برنگی مخلوقات عالم۔ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر چیز انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی نظر آتی ہے لیکن ان تمام چیزوں کے درمیان یا یوں کہیں کہ ان تمام عجائبات عالم کے درمیان سب سے بڑا عجوبہ خود انسان ہے لہٰذا سب سے زیادہ غور و فکر اور مطالعے و مشاہدے کی ضرورت انسانی ذات اور صفات کو ہے۔
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے شاید اسی وقت سے انسانی ذات و صفات کے مطالعے اور مشاہدے کا عمل شروع ہو گیا تھا جو آج تک جاری ہے اور شاید قیامت تک جاری رہے گا۔ اس کام کی ضرورت تو دینی نکتہ نظر سے بھی ایک مسلم الثبوت اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ حدیث شریف میں یہ ارشاد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم موجود ہے۔
’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔‘‘
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا سب سے بہترین ذریعہ علم نجوم ہے جس کے نتائج صدیوں کی تحقیق، تجربے اور مشاہدے کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ آج ساری دنیا اس علم کی افادیت کی قائل ہے اور اس سے استفادہ کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے معاشرے میں یہ علم عطائیوں اور دھوکے بازوں کی وجہ سے بہت بدنام ہے۔ اسے قسمت کا حال یا غیب کا علم سمجھا جانے لگا نتیجتاً مسلمانوں نے اس سے گریز کیا اور اسے طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا۔ یہ روایت ہمارے ہاں آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ لوگ اس علم کو محض شعبدہ بازی اور قیاس آرائی یا پھر غیب دانی سمجھتے ہیں۔ اکثر نئے لوگ جب ہم سے ملتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس علم کا شوق رکھتے ہیں تو وہ بڑے خوش ہو کر نہایت بے قراری سے یہ ضرر کہتے ہیں۔ ’’اچھا تو جناب پھر کچھ ہمارے بارے میں بھی بتایئے۔‘‘
تب ہمیں خیال آتا ہے کہ لوگوں کو اس علم کی حسابی پے چیدگی، نازک مزاجی اور سنجیدگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ یقیناًایسا سوال ہر گز نہیں کرتے۔ لوگ کسی ایسٹرولوجسٹ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں وہ سب کچھ چند منٹ میں بتا دے گا جو کہ وہ خود بھی جانتے ہیں اور پھر وہ بے اختیار تعریفی انداز میں کہیں گے۔ ’’واقعی آپ نے تو کمال کر دیا‘‘ لیکن اس کے برعکس اگر وہ انہیں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہے جو پہلے انہیں معلوم ہی نہیں تھیں یعنی ان کی شخصیت و کردار کے اسرار، ان کے چال چلن کے رنگ ڈھنگ، اچھے یا برے طور طریقوں، کامیابیوں یا ناکامیوں کے اسباب، وقت کے اتار چڑھاؤ کے اثرات اور وقت کی مہربانیوں یا سفاکیوں کے رنگ وغیرہ تو یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسے موقع پر ان پر اپنے جذبات و احساسات، ان کی اپنی پسند و ناپسند اور اکثر انا غالب آجاتی ہے اور وہ مطمئن نہ ہونے والے انداز میں یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کوئی خاص بات تو بتائی ہی نہیں۔
عزیزان من! اس ساری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ علم نجوم سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس علم کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم اس سے بھرپور فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
ستاروں اور برجوں کے اشارے بڑی وسعت و گہرائی رکھتے ہیں۔ جو لوگ علم نجوم سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان اشاروں کو سمجھ کر ایک شاعرانہ پیرائے میں بیان کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ یہ اشارے نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ ان کا اظہار کرتے ہوئے لفظوں کے خوبصورت پیرہن کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر ان کا برہنہ اظہار ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔
قدیم زمانوں سے پیش گوئی کا انداز شاعرانہ ہی رہا ہے۔ دنیا کے عظیم پیش گو ناسٹرا ڈیمس کو جب یہ خوف ہوا کہ لوگ اس کی پیش گوئیاں سن کر کہیں اسے پاگل نہ سمجھنے لگیں یا وہ مقتدر حلقوں کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائے تو اس نے اپنی تمام پیش گوئیاں اشعار کی شکل میں لکھ دیں جو آج تک محفوظ ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے کسی بھی پیش گو کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے جب وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کی بات دوسروں کی سمجھ میں نہیں آئے گی یا وہ اس بات کا کوئی برا مفہوم لے لیں گے اور بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں وہ خود کوئی واضح نام یا عنوان نہیں دیتے۔ مثلاً ناسٹرا ڈیمس ہی کی مثال لے لیجئے کہ اس نے اٹلی کے بادشاہ کے انجام کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ اس کی لاش ایک لوہے کے بڑے سے تابوت میں ڈالی جائے گی جس میں 4 پہیے بھی لگے ہوں گے اور وہ تابوت خود بخود حرکت کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کی موت سے 400 سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت تک نہ انجن دریافت ہوا تھا نہ موٹر کاریں بنائی گئی تھیں نہ ہی کوئی وین یا ایمبولینس ٹائپ سواری موجود تھی۔ اسی طرح پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے بارے میں اس نے پیش گوئی کرتے ہوئے بتایا کہ ان جنگوں میں لوہے کے بڑے بڑے پرندے آسمان سے آگ برسائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
ناسٹرا ڈیمس بہت قدیم پیش گو تھا موجودہ دور میں بلکہ گزشتہ کئی صدیوں میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم باتوں ہی باتوں میں اٹک کر ناسٹرا ڈیمس تک جا پہنچے۔
عزیزان من! ہم صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ علم نجوم کو غیب دانی کا علم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ ایک حسابی علم ہے اور اس کے ذریعے سب سے پہلے اپنی ذات و صفات کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کے بعد وقت کی موافقت اور ناموافقت اس علم کا موضوع ہے۔ ان ہی دو باتوں پر ماضی، حال اور مستقبل کی پیش گوئیاں ممکن ہیں۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ انسان کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور اس عجوبے کے مسائل بھی عجیب ہی ہوتے ہیں جو انسان کے اندر موجود خیر اور شر کی قوتوں کے درمیان تصادم کے بعد وجود میں آتے ہیں لیکن اکثر انسان یا تو اس کا ادراک نہیں رکھتے اور اگر ادراک ہو بھی جائے تو اپنی ذات کے مسائل سے نظریں چرانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
خیالات اور احساسات کے دباؤ سے نجات کا ذریعہ
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، ان تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیناک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات اور احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین، ان جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار، انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انھیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپا کی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات، حالات اور ماحول کے جبرکی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انھیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں ، نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے ہیں، وہ لکھتی ہیں۔
’’خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اس طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا۔
فرض عبادت کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انھیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں۔
یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات’’آزاد نگاری‘‘ یا ’’خود نویسی‘‘ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں ، انھیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انھیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیر یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباؤ میں ہو، یہ دباؤ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ، ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر(اگر کسی جذباتی الجھن اور تناؤ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ء علاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ’’مشق تنفس نور‘‘ بہترین ثابت ہوتی ہے اور طریقہء علاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔
کون بہتر ؟
ایف، اے لکھتی ہیں۔’’میں آپ کو دو افراد کی تاریخ پیدائش دے رہی ہوں۔ ان میں سے میرے لیے کون بہتر ہے جس سے میں شادی کرسکوں؟
پہلا شخص کیتھولک غیر مسلم ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ میں نے اس کے لیے کئی مرتبہ دعا کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ اس کا دل بدل سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کو سمجھ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن میں نے جب اسے اسلام کے اصولوں کے بارے میں بتایا تو اس نے ان کی تعریف کی۔ ہم دونوں کے درمیان خاصے طویل عرصے سے بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔
دوسرا شخص مسلمان ہے۔ میں امید کرتی ہوں آپ میری مدد کریں گے تاکہ میں درست لائف پارٹنر کا انتخاب کر سکوں۔‘‘
جواب:۔ عزیزم! مختصر الفاظ میں آپ کے سوالات کا جواب صرف دو جملوں میں دیا جا سکتا ہے کہ فلاں موزوں ہے اور فلاں ناموزوں لیکن شاید اس طرح آپ کی تسلی نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس کالم میں ہمارا مقصد صرف سوالوں کے جواب دینا ہی نہیں بلکہ علم نجوم کے تجزیہ سے متعلق دلائل کا اظہار کرنا بھی ہے لہٰذا ہم دونوں افراد کی تجزیاتی رپورٹ یہاں پیش کر رہے ہیں۔ فریق اول جو غیر مسلم ہے اگرچہ آپ کے لیے ناموزوں نہیں ہے کیوں کہ آپ کا شمسی برج جوزا اور اس کا میزان ہے۔ دونوں کے درمیان معقول ذہنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے لیکن جہاں تک اس کے مذہب تبدیل کرنے کا سوال ہے اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی باتوں سے بقول آپ کے وہ خاصا متاثر ہے اور اسلامی اصولوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور آپ نے یہ بھی کہا کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ میزانی افراد توازن پسند اور ہم آہنگی برقرار رکھنے والے ہوتے ہیں خصوصاً تعلقات میں وہ کوئی ایسی بدمزگی نہیں چاہتے جس سے تعلقات متاثر ہوں لہٰذا اکثر ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اکثر مصلحت پسندی سے بھی کام لیتے ہیں اور اس خیال سے کہ کوئی تنازع نہ پیدا ہو، کبھی کبھی اپنے اصل نظریات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ بے حد انصاف پسند ہوتے ہیں اس لئے ہر قسم کے نظریات پر غور و فکر کر لیتے ہیں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ دوسروں کا موقف سنتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے یا ان کے خیالات سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اس کا قمری برج عقرب ہے لہٰذا وہ اپنی فطرت میں نہایت گہری اور اپنے ذاتی نظریات میں بہت شدت پسندانہ مضبوط سوچ رکھنے والا انسان ہے اور اس حوالے سے اس کی سوچ کو تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے پیدائشی مذہب سے مطمئن نہ ہو اور دیگر مذاہب عالم کے حوالے سے بھی اس کی سوچ بے اعتمادی کا شکار ہو لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ اس کے زائچے کی دیگر صورت حال بھی اس امکان کی نفی کرتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک رومان پرست اور اپنی خواہشات کا غلام انسان ہے۔ ممکن ہے آپ سے شادی کی خاطر یا کسی اور مقصد کے تحت مذہب تبدیل کر لے مگر یہ تبدیلی دائمی نہیں ہو گی چنانچہ یہ بات آپ کو بہرحال ذہن میں رکھنا ہو گی۔ زائچۂ پیدائش میں سیارہ عطارد الٹا پڑا ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی سوچ اور خیال نظریۂ ضرورت کے تحت اکثر و بیشتر بدلتا رہتا ہے اور آئندہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ بہرحال آپ بھی ایک بڑا قلابازیاں کھانے والا ذہن رکھتی ہیں لہٰذا ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔‘‘
فریق ثانی ہمارے نزدیک آپ کے لیے زیادہ موزوں شخصیت ہے۔ اس کا شمسی برج قوس ہے جو آپ کے برج جوزا سے مقابلے کا برج بھی ہے اور شراکت کا بھی۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے اچھے شریک کار اور شریک حیات ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جتنی بے چینیاں اور بے قراریاں، جلد بازیاں اور ذہنی قلابازیاں آپ کے اندر موجود ہیں اتنی ہی دوسری جانب بھی ہیں۔ گویا یہ نہلے پر دہلا ہے۔ آپ کو جن خوبیوں کی تلاش ہے وہ برج قوس میں موجود ہیں اور برج قوس کو جو باتیں لبھاتی ہیں اور جن حرکتوں سے وہ خوش ہوتا ہے وہ سب آپ کے اندر موجود ہیں۔ آپ دونوں بہت پرامید، خوش مزاج اور نہایت بے فکرے ہیں۔ ایک دوسرے کی رفاقت میں خوب انجوائے کریں گے۔ دونوں غیر معمولی طور پر ذہین ہیں اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو سراہنے والے اور خامیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کر دینے والے ہیں لہٰذا بہتر ہو گا کہ اپنی اسلامی مہم جوئی کو چھوڑ کر فریق ثانی کو لائف پارٹنر منتخب کر لیں۔
تعلیم اور شادی
ایس، ایچ لکھتی ہیں’’میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پہلے پری میڈیکل کا شعبہ اپنے لیے منتخب کیا تھا لیکن مالی حالات کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ پائی۔ اب میرا ارادہ پھر سے سخت جدوجہد کے ساتھ آگے پڑھنے کا ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی کیجیے اور بتائیے کہ میرے لیے کون سا شعبہ صحیح رہے گا؟‘‘
جواب:۔ پیاری بیٹی! تم بہت بہادر اور ہمت والی ہو۔ تمہارے دو برج جدی اور سنبلہ خاکی عنصر رکھتے ہیں اور زائچے میں سیارہ زحل بھی اپنے برج عروج جدی میں ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہاری سوچ بہت عملی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ تم یقیناًاپنے والدین کے لئے ایک بیٹے کا کردار ادا کر سکتی ہو۔
بہتر ہو گا کہ اب اپنے لیے کامرس یا آرٹس کا شعبہ منتخب کرو۔ اگر آرٹس کا شعبہ لیتی ہو تو بعد میں ایل ایل بی کر سکتی ہو۔ قانون، اکاؤنٹس وغیرہ تمہارے لیے مناسب شعبے ہوں گے اور دوران تعلیم تمہیں وہ پریشانیاں بھی نہیں ہوں گی جو پری میڈیکل میں پیش آئیں۔ باقی تمہارے والد اگر تمہاری شادی کے لیے اصرار کر رہے ہیں تو اپنی دانست میں وہ بہرحال بہتر ہی سوچ رہے ہیں لیکن ہمارے خیال سے وہ ایسا کر کے غلطی کریں گے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے مزید یہ کہ خراب وقت چل رہا ہے۔ اس دوران میں اگر شادی ہوئی تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کم از کم تین چار سال تمہاری شادی نہ کی جائے اور تمہیں تعلیم مکمل کرنے اور کرئر بنانے کا موقع دیا جائے۔ تقریباً 2020۔ 2021 سے تمہارا بہتر وقت شروع ہو گا اس وقت تک تمہیں محنت اور جدوجہد کر کے اپنا تعلیمی کرئر مضبوط کرنا ہو گا۔ ہفتہ کے روز اپنا صدقہ کسی کالی چیز کا دیا کرو اور نیلم، ترملین یا گارنیٹ کا نگینہ بائیں ہاتھ کی سب سی چھوٹی انگلی میں پہن لیں۔
خاندانی شراکت
این، آر: عزیزم! آپ دونوں میاں بیوی کا شمسی برج جدی ہے لیکن چونکہ آپ کے قمری برج جدا جدا ہیں یعنی آپ کے شوہر کا قمری برج سرطان ہے اور آپ کا سنبلہ۔ یہ بہت اچھی بات ہے آپ دونوں کے درمیان اسی وجہ سے محبت اور ہم آہنگی ہے۔ دونوں عملی سوچ رکھتے ہیں مگر شوہر کا جھکاؤ اپنے خاندان کی طرف زیادہ ہے۔ قمری برج سرطان ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ماں، بہن، بھائیوں سے دور رہ کر خوش نہیں رہ سکتے۔ یہی چیز انہیں علیحدہ ہونے سے روک رہی ہے اور بنیادی طور پر آپ دونوں نہایت ضدی اور اپنی حاکمیت قائم کرنے والے ہیں۔ آپ اپنے شوہر کے مقابلے میں زیادہ سخت مزاج ہیں۔ مزید یہ کہ آپ کے قمری برج سے زحل کی ساڑھ ستی بھی چل رہی ہے لہٰذا ہمارا مشورہ یہی ہے کہ فی الحال معاملات کو زیادہ بگاڑنے کی کوشش نہ کریں، شوہر کی بات مان لیں اور جیسے تیسے ایک ہی گھر میں گزارا کریں۔ اپنے تنقیدی مزاج اور سخت رویہ پر نظر ثانی کریں۔ آپ کا شوہر بہت محبت کرنے والا اور نرم دل انسان ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سخت رویے اور دو ٹوک انداز میں اسے آپ سے کسی حد تک بدگمان کر دیا ہے اسی لیے وہ آپ کے ہاتھ میں پیسے بھی نہیں دیتا۔ آپ بے شک اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی ہیں اور نہایت ذمہ دار بھی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ محبت کے اظہار کی قائل نہیں ہیں، آپ کے عمل سے تو محبت ظاہر ہوتی ہے لیکن زبان سے اس کا اظہار کرنا ضروری نہیں سمجھتیں جب کہ آپ کا شوہر آپ سے یہی کچھ چاہتا ہے۔ آپ کا روکھا اور خشک انداز اور آپ کا بہت زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میاں بیوی کے درمیان رومانس کا قاتل ہے۔ اسی طرح قمری برج سنبلہ کی وجہ سے آپ سے کوئی غلطی برداشت ہی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کی غلطیوں کی بھی اصلاح کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اس طرح آپ دوست کم اور دشمن زیادہ بناتی ہیں۔ بہرحال آپ کے لئے بھی ہفتہ کے روز صدقہ دینا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر نیلم، گرین یا براؤن ترملین یا گارنیٹ میں سے کوئی پتھر بھی پہن لیں تو آپ کے مسائل کے حل میں آسانی ہو گی بصورت دیگر یاد رکھیں یہ سال آپ کو کسی بڑے جذباتی صدمے سے بھی دوچار کر سکتا ہے۔

ہفتہ، 3 نومبر، 2018

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
کیا پاکستان کسی سویلین ایمرجنسی کی جانب بڑھ رہا ہے؟
وزیراعظم عمران خان کے زائچہ ء حلف کا تجزیہ کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ آئندہ سال مئی تک مشکلات اور رکاوٹیں حکومت کو پریشان کریں گی اور خاص طور پر 19 دسمبر سے 23 فروری تک کا عرصہ نہایت سخت اور کٹھن ثابت ہوگا، زائچہ ء حلف کا طالع میزان ہے جو وزیراعظم کے پیدائشی زائچے کا بھی طالع ہے، اس اعتبار سے سیارہ زہرہ دونوں زائچوں کا حاکم ہے،پیدائشی زائچے میں تو یہ نہایت طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے لیکن زائچہ ء حلف میں اس کے برعکس نہایت کمزور ہے، گزشتہ ماہ 20 اکتوبر سے یکم نومبر تک سیارہ زہرہ، شمس کے انتہائی قریب رہا، اس صورت حال کو اصطلاحاً کسی ستارے کا غروب ہونا کہا جاتا ہے، صاحب زائچہ کی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے، اسی عرصے میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ سنادیا جس کے نتیجے میں پورے ملک میں شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی، 2 نومبر کو ملک گیر احتجاج ہوا اور اسی روز جمیعت العلمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے (انا للہ وانا الہ راجعون)
وزیراعظم برادر ملک چین کے دورے پر گئے ہوئے ہیں، پاکستان کے زائچے کی صورت حال روز بہ روز بگڑتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں مسائل اور حادثات مسلسل جاری ہیں اور بہ حیثیت وزیراعظم عمران خان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے،اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نیک نیتی اور سچائی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کوششوں میں غلطیوں سے بچنے کی ضرورت ہے کیوں کہ مخالفین اور ملک دشمن قوتیں ان غلطیوں ہی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
سویلین ایمرجنسی کی ضرورت
زائچہ ء پاکستان کے مطابق 19 دسمبر سے ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے کہ ملک میں سویلین ایمرجنسی نافذ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے،کیا وزیراعظم اس آپشن پر غور کریں گے؟اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین جناب آصف علی زرداری نے حکومت سے تعاون کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسمبلی میں کہا ’’قدم بڑھاؤ عمران خان، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔بظاہر یہ بڑی خوش آئند باتیں ہیں، ان پر کسی حد تک عمل ہوگا، اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہم زائچہ ء پاکستان کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں کہ حالات روز بہ روز مزید خراب سے خراب تر ہونے کا امکان موجود ہے،پاکستان کا معاشی بحران بھی اپنی جگہ ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان عوام کو پاگل کر رہا ہے،اس بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جارہا ہے، دوسرا آپشن ان لوگوں سے وصولی کا ہے جنھوں نے ملک میں ناجائز طور پر لوٹ مار کرکے اربوں کھربوں کے اثاثے بنالیے ہیں اور پاکستانی عام قوانین اتنے طاقت ور نہیں ہیں کہ ایسے لوگوں سے بھرپور طریقے سے نمٹا جاسکے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک میں کچھ خصوصی قوانین نافذ کیے جائیں جو اسمبلی کے ذریعے ممکن نہیں ہیں، کسی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ہی ایسا ممکن ہوسکے گا، اسی طرح سیاسی کھیل میں انتہا پسند عناصر جو کردار ادا کررہے ہیں انھیں بھی کنٹرول کرنے میں خصوصی قوانین معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
19 دسمبر سے 23 فروری کے درمیان زائچہ ء پاکستان اور زائچہ ء حلف وزیراعظم کی کیفیت نہایت تشویش ناک نظر آتی ہے،اس سے پہلے ہی اگر معقول احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو بہتر ہوگا، واضح رہے کہ برسوں پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے حکومت چلاتے رہے ہیں اور اس طرح انھوں نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ، بے شک یہ ایک خطرناک ہتھیار ہے جس کا غلط استعمال نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے مگر ضرورت ایجاد کی ماں ہے، یہ ہتھیار عارضی طور پر چند مہینوں سے زیادہ استعمال نہیں ہونا چاہیے، گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوا ، اس تناظر میں مشہور شاعر جمیل مظہری کا شہرہ آفاق شعر بہت یاد آیا ؂
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار
برسوں سے ہزاروں خطوط ہمیں موصول ہوتے رہے ہیں، ایسے ہی خطوط میں سے ایک خط پیش نظر ہے، ہمیں یقین ہے کہ بے شمار نوجوان اس نوعیت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اس خط سے یقیناً انھیں رہنمائی مل سکتی ہے۔
’’اس وقت میری عمر 21 سال سے زائد ہے، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہی اپنے آپ کو سمجھ نہیں پایا، مجھ میں ہر وقت ایک اندرونی خوف رہتا ہے، میری سوچ بھی منفی ہے، وجہ صرف یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو اپنے دماغ کو ، اپنے چہرے کو کنٹرول نہیں کرپاتا، بس خوف ہی خوف ہے، اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں بناپاتا، اگر بنا بھی لیتا ہوں تو اس پر عمل کرنا میرے جسم کے لیے بالکل ناممکن ہے، بس اسی سوچ میں صحت بھی گرتی جارہی ہے، میں نے میٹرک پاس کیا ہے اور بہت آگے تک پڑھنے کا ارادہ تھا، میں کچھ بننا چاہتا تھا، جب نویں میں تھا جب ہی سے یہ حال تھا اور میرے لیے مزید پڑھنا محال تھا لیکن خدا خدا کرکے میٹرک کر ہی لیا لیکن اب صورت حال بہت خراب ہے، اب آپ بتائیں میں اپنے آپ کو کنٹرول کروں یا پڑھائی پر توجہ دوں، میں سنجیدگی اور ہمت سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن ایک طرح سے ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکا ہوں، میں انتہائی بے بس اور پریشان ہوں، سوچتا ہوں کہ کوئی خدا کا قابل بندہ ملے تو اس کی رہنمائی حاصل کروں، شاید کہ وہ آپ ہوں، میں خدا کی بندگی سے بہت دور ہوں، پہلے میں پابندی سے نماز پڑھتا تھا لیکن بے بسی بڑھتی گئی، نماز میں کھڑے ہوئے بہت شرم آتی ہے، مجمع میں خوف و ڈر محسوس ہوتا ہے، لوگوں سے بات کرتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے، نہایت ہی بے اعتماد ہوں اور اپنے آپ پر بالکل بھی بھروسا نہیں، کیفیت ہی ایسی ہوگئی ہے، ہر کام سے فرار چاہتا ہوں، میں کسی بھی کام یا مسئلے کے بارے میں ہمیشہ منفی زیادہ اور مثبت کم سوچتا ہوں، آپ سے التجا ہے کہ خصوصی طور پر میرے مسئلے پر توجہ دیں اور حل تجویز فرمائیں‘‘۔
عزیزم! آپ اس حال کو جس وجہ سے پہنچے ہیں، اس کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کہیں نہیں کیا، اپنی اصل بیماری کو پوشیدہ ہی رکھا، بہر حال آپ کی تحریر اور اس میں بیان کردہ علامات صاف طور پر آپ کی اصل بیماری پر روشنی ڈال رہی ہیں، یہ بیماری نوجوانوں میں عام ہے، ہم اس موضوع پر بے حد تفصیل سے لکھ چکے ہیں، بہترین بات تو یہ ہوگی کہ پہلے اپنی اس عادت بد سے نجات حاصل کریں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے؟
یقیناً یہ نہایت اہم سوال ہے کیوں کہ آپ جیسے مریض درحقیقت اپنی اس عادت بد سے پیچھا چھڑانے میں عموماً ناکام ہی رہتے ہیں لیکن صدق دل سے کوشش کی جائے تو ایسا ناممکن کام بھی نہیں ہے۔
جب بستر پر سونے کے لیے لیٹنے کا ارادہ کریں تو پہلے وضو ضرور کرلیا کریں، پھر بستر پر لیٹ کر ایک چھوٹی سی سانس کی مشق کرلیں یعنی سیدھے لیٹ جائیں اور ہمیشہ اپنا سر شمال کی جانب کرکے لیٹا کریں، لیٹنے کے بعد چند گہری گہری سانسیں ناک کے ذریعے لیں یعنی سانس اندر کھینیچیں اور باہر خارج کریں، چند بار ایسا کرنے سے آپ کے اعصاب کا تناؤ ختم ہوجائے گا اور جسم ڈھیلا پڑ جائے گا، اب آنکھیں بند کرلیں اور سبز روشنی کا تصور کریں یعنی یہ خیال ذہن میں لائیں کہ آپ کے گرد سبز روشنی پھیلی ہوئی ہے اور آپ اس کے موجیں مارتے ہوئے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، چند سیکنڈ جب اس خیال پر توجہ مرکوز ہوجائے تو ناک سے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں اور یہ خیال کریں کہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی سبز روشنی کو ناک کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کر رہے ہیں، جب پھیپھڑوں میں خوب ہوا بھر جائے تو سانس روک لیں اور سوچیں کہ آپ نے ناک کے ذریعے جو سبز شعائیں جسم میں داخل کی ہیں وہ آپ کے تمام جسم کو سبز کر رہی ہیں، سانس صرف اتنی ہی دیر روکیں جتنی دیر روک سکتے ہوں، جب سانس روکنا مشکل معلوم ہو تو منہ کے ذریعے تیزی سے خارج کردیں اور اس وقت یہ خیال کریں کہ سانس کے ہمراہ جسم کی اندرونی کثافت(گندگی) باہر نکل رہی ہے اور اس کے اخراج سے آپ فرحت اور اطمینان محسوس کر رہے ہیں۔
اب ایک لمحہ رک کر یہ غور کریں کہ واقعی آپ خود کو پہلے سے بہتر اور مطمئن محسوس کر رہے ہیں، اس کے بعد دوبارہ ناک سے سانس اندر کھینچیں مگر اس بار تیزی کے ساتھ اور تصور یہی رہے کہ سبز شعاعیں ناک کے راستے جسم میں داخل ہورہی ہیں پھر حسب سابق سانس روک کر وہی پہلا خیال ذہن میں دہرائیں اور جب سانس روکنا دشوار محسوس ہو تو منہ سے آہستہ آہستہ خارج کریں اور سانس باہر خارج کرتے ہوئے گندگی کے اخراج کا خیال کریں، تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کریں مگر اب پھر ناک سے سانس آہستہ آہستہ لیں اور جب خارج کریں تو تیزی کے ساتھ۔
اس طریقے پر اگر ابتدا میں صرف تین مرتبہ یعنی سانس اندر کھینچنے اور باہ رنکالنے کا عمل کرلیں تو بہت ہے، البتہ اگر ہمت زیادہ ہو اور بہت تھکان محسوس نہ ہو تو پانچ مرتبہ تک کرسکتے ہیں۔
اس کام سے فارغ ہوکر سونے کی کوشش کریں اور ذہن میں یہ خیال رکھیں کہ اب میں پہلے سے زیادہ بہتر ہوں، میری کمزوریاں دور ہورہی ہیں، میں خود کو گندگی سے پاک اور ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں، اب مجھے نیند بھی بہت گہری اور پر سکون آئے گی، امید ہے کہ یہی باتیں سوچتے سوچتے آپ گہری نیند میں چلے جائیں گے اور صبح جب سوکر اٹھیں گے تو خود کو بہت چاق و چوبند محسوس کریں گے۔
کوشش کریں کہ صبح جب پہلی بار آنکھ کھلے تو فوراً بستر چھوڑ دیں، دوبارہ سونے کا خیال دل میں نہ لائیں، اٹھ کر باتھ روم میں جائیں اور غسل کریں یا غسل کرنا مکن نہ ہو تو وضو ضرور کرلیں۔
عزیزم! ہمیں یقین ہے کہ آپ نے ہماری ہدایت پر 75 فیصد بھی عمل کرلیا تو آپ اپنی مایوس اور پریشان زندگی میں ایک انقلاب رونما ہوتے دیکھیں گے، بری عادتیں ختم ہونے لگیں گی اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں آپ ایک مختلف انسان نظر آنے لگیں گے، قوت ارادی میں اضافہ ہوگا، ذہنی صلاحیتیں بہتر ہوں گی، حافظہ اور ہاضمی عمدہ ہوجائے گا، بھوک کھل کر لگے گی، زندگی سے متعلق مثبت کاموں کی طرف آپ راغب ہونے لگیں گے، ذہن میں چھپے نامعلوم خوف زائل ہونے لگیں گے، آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے آپ کوکوئی بہت مشکل کام بتادیا ہے جو آپ کی ہمت و طاقت اور استطاعت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ مزید بہتری کے لیے ہومیو پیتھک دوا اسٹیفی میگر یا چھ طاقت میں اور چائنا چھ طاقت میں ساتھ لیتے رہیں تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی، آخری بات جو نہایت ضروری ہے، سانس کی مشق رات کو سونے سے پہلے کسی صورت میں نہ چھوڑیں، اس سلسلے میں کوئی بہانہ ذہن کو نہ سوچنے دیں، ہم نے دیکھا ہے کہ آپ جیسے مریض پابندی سے علاج نہیں کرتے اور علاج نہ کرنے کے سو بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں، مثلاً فلاں ہدایت پر تو ہم نے عمل کرلیا تھا مگر فلاں پر چوں کہ زیادہ دن عمل نہ ہوسکا تو سوچا اب کسی دوسری ہدایت پر بھی عمل کا کیا فائدہ، یہ بہت بڑی غلطی ہوتی ہے، یاد رکھیں کسی ایک ہدایت پر بھی عمل جاری رکھا تو ممکن ہے کچھ عرصے بعد دوسری ہدایات پر بھی عمل پیرا ہوجائیں۔
کالا جادو
وقاص احمد نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحب پر کسی عورت نے کالا جادو صرف اس وجہ سے کردیا تھا کہ اس عورت کے ہاں بیٹے پیدا نہیں ہوتے تھے، اس جادو کے اثر کی وجہ سے اسے بھیانک خواب نظر آنے لگے۔
وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں’’وہ دیکھتا کہ کوئی عجیب بلا اس کو مٹکے میں ڈال رہی ہے، اس کو اپنی موت کا اندازہ ہوگیا تھا، وہ ہمیشہ گھر بدلنے پر اصرار کرتا تھا، اس کی والدہ نے ایک عامل سے رجوع کیا، انھوں نے اسی عورت کی نشان دہی کی کہ اس نے اپنی اولاد میں بیٹوں کے لیے تمہارے بیٹے پر کچھ کروادیا ہے پھر عامل صاحب نے والدہ کو ایک عمل پڑھنے کو دیا اور بتایا کہ خواب میں وہ واضح نظر آجائے گا جس نے تمھارے بیٹے پر کچھ کیا ہے اور پھرکوئی ٹائم ضائع کیے بغیر میرے پاس آجانا لیکن والدہ کی بے پروائی کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا، وہ دو تین دن کے بعد عامل کے پاس گئیں، جب عامل صاحب کو یہ پتا چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے، انھوں نے کہا کہ اب تمھارا بیٹا نہیں بچ سکتا، والدہ نے خواب میں اسی عورت کو دیکھا تھا اور پھروہی ہوا، اس لڑکے کی حالت بہت خراب ہوگئی، اس کے پیٹ کا درد بڑھتا چلا گیا، سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے پیٹ کے نیچے بہت ساری ٹانگوں کی انگلیاں چل رہی ہیں، اسپتال میں ڈاکٹر نے آپریشن کیا تو پیٹ میں عجیب قسم کے جاندار نکلے جن کی شکلیں شیر جیسی تھیں، ڈاکٹر خوف زدہ ہوگئے لیکن انھوں نے آپریشن جاری رکھا لیکن وہ نہ بچ سکا، اب اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں لیکن تمام گھر والے اب تک اس جادو کے اثرات سے نہیں نکل سکے ہیں‘‘
عزیزم! یہ واقعہ ہمیں حقیقت سے زیادہ فکشن معلوم ہورہا ہے کیوں کہ کراچی کے کسی بھی اسپتال میں آپریشن کے دوران ایسی عجیب مخلوق پیٹ سے برآمد ہوئی ہوتی تو اخبارات تک یہ خبر ضرور آتی اور پھر اس مخلوق کی زندہ یا مردہ نمائش کا اہتمام بھی ہوسکتا تھا مگر کم از کم ہمارا حافظے میں تو ایسا کوئی واقعہ اخبار میں نہیں آیا، اخبا رہم ہمیشہ سے بڑی پابندی سے اور توجہ سے پڑھتے ہیں، دوسری بات یہ کہ عامل صاحب کا رویہ بھی ناقابل فہم ہے، وہ یقیناً کوئی جعلی عامل ہی ہوں گے، ایسی حرکتیں وہی کرتے ہیں، لڑکے کی والدہ نے پہلے ہی اس عورت کے خلاف ذہن بنالیا تھا اور پھر عامل سے جاکر اپنے شک کا اظہار کیا اور موصوف نے تائید بھی فرمادی، پھر اس عورت کو خواب میں دیکھنے کا عمل بھی بتادیا ، آخر اس سارے ڈرامے کی ضرورت کیا تھی؟ سیدھا سیدھا لڑکے کا علاج کرنے پر توجہ دینا چاہیے تھی، پھر یہ شرط بھی عجیب ہے کہ خواب دیکھتے ہی فوراً آجانا، تاخیر کی صورت میں لڑکے کی موت کا فتویٰ دے کر علاج سے منہ موڑلیا، رہا سوال خواب میں اس عورت کو دیکھنے کا تو یہ سارا نفسیاتی عمل ہے جو بات آپ کے لاشعور میں پختہ جگہ بنالے گی یعنی ریکارڈ ہوجائے گی وہی خواب میں ری پلے ہوگی، اصل مرض کچھ اور ہوگا اور علاج کچھ اور ہوتا رہا، یہاں تک کہ لڑکا آپریشن ٹیبل تک پہنچ گیا، اول تا آخر اسے کالے جادو کا نام دیا جاتا رہا ہے اور اپنی حماقتوں اور درست علاج معالجے سے غفلت کے جرم پر اس بودی کہانی کے ذریعے پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خیالات اور احساسات کے دباؤ سے نجات کا ذریعہ
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، ان تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیناک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات اور احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین، ان جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار، انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انھیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپا کی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات، حالات اور ماحول کے جبرکی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انھیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں ، نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے ہیں، وہ لکھتی ہیں۔
’’خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اس طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا۔
فرض عبادت کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انھیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں۔
یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات’’آزاد نگاری‘‘ یا ’’خود نویسی‘‘ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں ، انھیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انھیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیر یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباؤ میں ہو، یہ دباؤ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ، ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر(اگر کسی جذباتی الجھن اور تناؤ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ء علاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ’’مشق تنفس نور‘‘ بہترین ثابت ہوتی ہے اور طریقہء علاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔

پیر، 29 اکتوبر، 2018

کراچی کے ایک مثبت سمت میں سفر کا آغاز

نومبر کی فلکیاتی صورت حال ایک مثبت اثر تعمیری مہینہ
کراچی کو پاکستان کا معاشی ہب کہا جاتا ہے، ماضی میں اس شہر کو عروس البلاد بھی کہتے تھے، پھر وہ وقت بھی دیکھا جب انسانی زندگی بے وقت ہوکر رہ گئی اور روزانہ کتنی ہی لاشیں اٹھائی جاتی رہیں، بے شک کراچی میں امن و امان کے قیام میں پاکستان رینجرز نے غیر معمولی کردار ادا کیا لیکن اب بھی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے، اسٹریٹ کرائمز آج بھی روز کا معمول ہیں، گزشتہ دس سال سے سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی حکمران ہے، ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ سندھ اسمبلی اور حکومت کی دس سال میں کارکردگی کیا رہی لیکن کرپشن کے حوالے سے سندھ کو ایک نمایاں حیثیت دی جارہی ہے،سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی منی لانڈرنگ کے ایک کیس میں ہر روز حیران کن انکشافات کرتی ہے،بعض اہم شخصیات کو گرفتار کرکے تفتیش کی جارہی ہے، زمینوں پر قبضے اور ناجائز تجاوزات کے مسائل اپنی جگہ ہیں، پینے کے پانی کا مسئلہ خوف ناک صورت اختیار کرچکا ہے،کراچی کی نمائندہ جماعت جو موجودہ الیکشن 2018 ء سے پہلے ایم کیو ایم تھی، اب تحریک انصاف بن چکی ہے، سندھ میں گورنر بھی تحریک انصاف سے لیا گیا ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم تو اب ایک قصہ ء پارینہ ہوکر رہ گئی ہے۔
ہم طویل عرصے سے کراچی کے زائچے کے حوالے سے وقتاً فوقتاً گفتگو کرتے رہے ہیں، اسی طرح ایم کیو ایم کے حوالے سے بھی کئی بار اظہار خیال کیا ہے اور جن اندیشوں کا اکثر اظہار کرتے رہے ہیں، بالآخر وہ سامنے آکے رہے،فروری 2017 ء کے بعد ایسا وقت تھا جس میں ایم کیو ایم کی پوزیشن کو مزید بہتر کیا جاسکتا تھا لیکن ہر پارٹی کے ساتھ بہر حال انفرادی سوچ کے حامل افراد بھی ہوتے ہیں اور ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور ایسی ہی غلطیاں بعض سنبھلنے کے مواقع ضائع کردیتی ہیں۔
گزشتہ سال ہی نومبر میں جناب فاروق ستار صاحب کا زائچہ شائع کیا تھا اور بہت سے خدشات کا اظہار کیا تھا، یہ بھی عرض کیا تھا کہ فاروق صاحب کو مصلحت و مصالحت کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر وہ اس پوزیشن پر پہنچ سکتے ہیں، جب اپنی سیٹ بھی نہ بچاسکیں، چناں چہ ایسا ہی ہوا۔
کراچی کا طالع پیدائش برج حوت ہے، یہ بڑا ہی بوالعجب برج ہے،اس برج کے تحت پیدا ہونے والے لوگ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزارتے،ان کی زندگی میں ہمیشہ اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، یہی کچھ یکم جولائی 1970 ء کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں، کراچی میں رہنے والے پرانے لوگ جانتے ہیں کہ کراچی 70 ء سے پہلے ایسا نہیں تھا کیوں کہ یہ وفاق کے زیر انتظام ایک شہر تھا، یہاں شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیا کرتے تھے،تہذیب و تمدن کا مرکز تھا، عروس البلاد کہلاتا تھا، ہر قسم کی علمی ، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں اس شہر کا طرۂ امتیاز تھیں، تعلیمی معیار کراچی کا پنجاب اور دیگر صوبوں سے بہتر تھا، 25 مارچ 1969 ء کو پاکستان میں جنرل یحیٰ خان نے مارشل لا لگایا اور ون یونٹ توڑ دیا، کراچی کو سندھ میں شامل کرکے سندھ کا دارالحکومت بنادیا گیا، کسی تاریخ کے مطابق کراچی کا زائچہ وجود میں آیا جس کے اثرات 70 ء کے بعد سے ہمارے مشاہدے میں آرہے ہیں اور ہمارے پڑھنے والے بھی دیکھ رہے ہیں، اس حوالے سے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
زائچہ ء کراچی کے مطابق مشتری کا دور اکبر جاری ہے،مشتری زائچے کے آٹھویں گھر میں مصیبت زدہ ہے،کراچی کے لوگوں کے لیے اور حکومت کے لیے ہمارا روحانی مشورہ ہے کہ کراچی میں یلو کلر کا استعمال بڑھائیں، عمارتوں کے رنگ اور دیگر معاملات میں بھی اس رنگ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں، اس کے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے،دوسرے نمبر پر گرین اور سُرخ کلر زیادہ استعمال کریں، بلیک، آف وہائٹ اور اورنج کلر سے پرہیز کیا جائے،کراچی کی گرینری کب اور کیسے ختم کی گئی، یہ بحث بھی اب فضول ہے، کراچی میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، اس سلسلے میں بعض لوگ کوششیں بھی کر رہے ہیں مگر عوامی حمایت و دلچسپی کے بغیر لگائے گئے درخت عموماً ضائع ہوجاتے ہیں، عام لوگوں کو اس پر توجہ دینا چاہیے۔
5 جون 2017 ء سے مشتری کے دور اکبر میں راہو کا دور اصغر جاری ہے،راہو زائچے میں نہایت خراب پوزیشن رکھتا ہے،یہ سیاست کا ستارہ ہے لیکن دھوکا اور فریب اس سے منسوب ہے،اسی دور میں کراچی کی سیاست نے ایک ایسی کروٹ لی جس کے بارے میں پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، موجودہ الیکشن بھی راہو کے اسی دور میں ہوئے ہیں، یہ دور 31 اکتوبر 2019 ء تک جاری رہے گا۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے سیارہ مشتری جو زائچے کا نہایت اہم سعد اثرات کا حامل سیارہ ہے وہ اپنی پیدائشی پوزیشن پر یعنی آٹھویں گھر میں ٹرانزٹ کر رہا تھا لیکن اسی اکتوبر میں اب نویں گھر میں داخل ہوچکا ہے،یہ کراچی والوں کے لیے خوش خبری ہے،مشتری آئندہ تین سال تک زائچے میں اچھی پوزیشن میں رہے گا لہٰذا اپنے مثبت اثر سے حالات میں بہتری لائے گا، فی الوقت زائچے کی پوزیشن خاصی خراب ہے،گزشتہ دو ماہ سے زائچے کے مختلف گھروں پر جو دباؤ راہو کیتو ڈال رہے تھے ، اس کے نتائج اب آنا شروع ہوچکے ہیں، ان میں مزید تیزی آئے گی،جن لوگوں نے غلط کام کیے ہیں وہ بہر حال اپنا بویا ہوا کاٹیں گے،موجودہ حکومت اور سندھ اسمبلی کو بھی مثبت انداز اختیار کرنا ہوگا ورنہ انجام بخیر نہ ہوگا، مشتری نویں گھر میں رہتے ہوئے قانونی طریقے سے کراچی اور سندھ کو لوٹنے والوں پر گرفت کرنے میں معاون ثابت ہوگا، سیارہ زحل زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم اور فعلی منحوس سیارہ ہے،گزشتہ سال اکتوبر کے بعد سے دسویں گھر میں حرکت کر رہا ہے،اب حکومت میں صاف ستھرے کردار کے حامل افراد ہی رہ سکیں گے،یہی زحل کی موجودہ پوزیشن کا ثمرہ ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)
تازہ ہوا کی چاپ سے تیرہ بنوں میں لو اٹھی
روحِ تغیرِ جہاں آگ سے فال لے گئی
نومبر کے ستارے
سیارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے، 22 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، آسمانی قونصل کا وزیراطلاعات سیارہ عطارد برج قوس میں ہے،17 نومبر کو اسے رجعت ہوگی،یکم دسمبر کو واپس برج عقرب میں آجائے گا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج عقرب میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے،16 نومبر کو مستقیم ہوکر اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، سیارہ مشتری برج عقرب میں ہے اور 8 نومبر کو اپنے ذاتی برج قوس میں داخل ہوگا، سیارہ زحل برج جدی میں اور یورینس برج ثور میں حرکت کر رہا ہے، 6 نومبر کو بحالت رجعت یورینس برج حمل میں آجائے گا اور پورا مہینہ یہیں رہے گا، سیارہ نیپچون برج حوت میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے، 25 نومبر کو مستقیم ہوگا، پلوٹو برج جدی میں اور راس و ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں حرکت کر رہے ہیں، اس ماہ راس 6 نومبر کو برج سرطان میں داخل ہوگا اور ذنب اسی تاریخ کو برج جدی میں، یہ رفتار سیارگان یونانی علم نجوم کے مطابق ہیں۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
سیارگان کی اکثریت کا اجتماع میزان ، عقرب اور قوس میں ہے لہٰذا نومبر میں باہمی قرانات زیادہ ہیں اور دیگر نظرات کم ہیں، اس ماہ سیارگان کے درمیان چار قرانات، تثلیث کے دو زاویے،تربیع کی ایک نظر قائم ہوگی جب کہ تسدیس کے تین زاویے بنیں گے،اس اعتبار سے نومبر کا مہینہ تعمیری رجحانات رکھتا ہے، نئے خیال ، نئے آئیڈیے، نئے منصوبے اور مستقبل کی منصوبہ بندی اس ماہ نمایاں ہوسکتی ہے،آئیے ترتیب وار اس ماہ قائم ہونے والے زاویوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
6 نومبر: شمس اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا زاویہ تخلیقی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے،حکمران اہم اقدام اور فیصلے کرتے ہیں، عام افراد کو اس دوران میں گورنمنٹ کے ذریعے فوائد حاصل ہوتے ہیں، تخلیقی اور فنکارانہ نوعیت کی سرگرمیاں عمدہ نتائج دیتی ہیں۔
9 نومبر: زہرہ اور مریخ کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ عورت اور مرد کے درمیان ہم آہنگی اور توازن کا باعث ہوتا ہے،باہمی طور پر کشش محسوس ہوتی ہے، دلوں میں نئے پھول کھلتے ہیں، اس وقت میں نئے تعلقات ، منگنی یا شادی باہمی محبت اور یگانگت کے لیے کوشش کرنا چاہیے، ماہرین جفر اس وقت کو محبت و تسخیر کے اعمال کے لیے زود اثر سمجھتے ہیں۔
11 نومبر: شمس و پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ عام لوگوں کو متاثر نہیں کرتا، البتہ ملکوں اور قوموں کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
15 نومبر: مریخ اور یورینس کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ نئی اختراعات اور ایجادات کے لیے مددگار ہے،خاص طور پر ٹیکنیکل سائڈ پر کارکردگی بہتر ہوتی ہے،مشینری اور الیکٹرونکس سے متعلق کاروبار سے فائدہ ہوتا ہے،نت نئی پروڈکٹس سامنے آتی ہیں۔
20 نومبر: مریخ اور مشتری کے درمیان تربیع کی نظر نحس اثر رکھتی ہے،مالی امور میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، وعدے پورے کرنا مشکل ہوجاتا ہے،اخراجات بڑھ جاتے ہیں، قرض کے معاملات میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس وقت نئی سرمایہ کاری سے گریز کرنا چاہیے،قانونی معاملات میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے،عدالتی فیصلہ خلاف آسکتا ہے۔
26 نومبر: شمس اور مشتری کا قران ایک ناموافق زاویہ ہے،سیارہ مشتری جب شمس کے قریب ہوتا ہے تو غروب ہوجاتا ہے،اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے،یہ وقت بھی مالی معاملات اور قانونی امور میں محتاط رہنے کا ہے،کوئی نئی انویسٹمنٹ نہ کریں، قسمت پر زیادہ بھروسا نہ کریں، اپنی کوششوں اور صلاحیتوں پر انحصار کریں،یہ وقت بینکنگ سیکٹر میں مندی کا رجحان لاتا ہے،یہی صورت حال اسٹاک ایکسچینج کی ہوتی ہے۔
27 نومبر: شمس اور عطارد کا قران نحس اثر رکھتا ہے،سفر میں رکاوٹ یا کوئی پریشانی آسکتی ہے،لوگوں سے رابطے میں دشواری کا سامنا ہوسکتا ہے،تحریری اور تقریری کاموں میں غلطیوں کا امکان رہتا ہے،اہم دستاویزات پر دستخط کرنے سے پہلے اچھی طرح غوروفکر ضرور کرلیں،تعلیمی سرگرمیاں بھی اس عرصے میں متاثر ہوتی ہیں، یہ زاویہ پانچ روز قبل اور پانچ روز بعد تک اپنے اثرات دیتا ہے۔
28 نومبر: مریخ اور زحل کے درمیان تسدیس کی نظر سعد ہے،تعمیری نوعیت کی سرگرمیاں سامنے آتی ہیں، کاموں کو آگے بڑھانا ممکن ہوتا ہے،زمین اور مشینری سے متعلق کاموں سے فائدہ ہوتا ہے،مزدور پیشہ افراد کی آمدنی میں اضافے کے لیے اچھا وقت ہے۔
اسی تاریخ کو عطارد اور مشتری کے درمیان قران کا زاویہ ہوگا، اگرچہ یہ ایک سعد نظر ہے لیکن دونوں سیارگان کی ذاتی پوزیشن بہتر نہیں ہے پھر بھی تحریروتقریر اور علمی نوعیت کے کاموں میں مدد ملے گی، قانونی مسائل جو بہت پیچیدہ ہوں انھیں حل کرنے میں آسانی ہوگی، ضروری معلومات حاصل ہوسکیں گے۔
قمر در عقرب
قمر اپنے درجہ ء ہبوط پر اس ماہ پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 6 نومبر کو 09:33pm سے 11:19 pm تک رہے گا، یہ انتہائی نحوست کا وقت ہے،جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 04:33 pm سے 06:19 pm تک درجہ ء ہبوط پر ہوگا۔
عام طور پر قمر در عقرب کے وقت میں بندش اور بری عادتوں سے نجات کے لیے عملیات دیے جاتے ہیں، اس بار ایک موذی اور پریشان کن بیماری مرگی سے نجات کے لیے ایک عمل دیا جارہا ہے،وقت سے پہلے تانبے کی ایک چھوٹی تختی اچھی طرح صاف اور پاک کرکے اپنے پاس رکھیں اور مقررہ وقت پر مندرجہ ذیل حروف نورانی اور آیت اس پر لکھ لیں، اس کام کے لیے چھوٹی انگریور مشین استعمال کی جاسکتی ہے۔
اآم اآمر اآرٰ طہٰ طٓس طٓسم کٓھٰیٰعٓصٓ
حمعٓسقٓ یٰسٓ والقرآن الحکیم
نٓ والْقلمِ وَما یَسْطُروْنَ
جب یہ تختی تیار ہوجائے تو عرق گلاب خالص اور شہد منگوالیں، ایک کپ عرق گلاب میں ایک چمچہ شہد ملاکر یہ تختی اس میں ڈال دیا کریں اور چند منٹ کے بعد عرق گلاب مریض کو پلادیں، دن میں تین مرتبہ یہ عمل کریں، دورے کی شدت کو کم کرنے کے لیے مندرجہ بالا حروف مقطعات اور آیت تین بار پڑھ کر دم کیا کریں۔
عرق النساء 
عرق النساء جسے لنگڑی کا درد بھی کہتے ہیں اور میڈیکل کی زبان میں شیاٹیکا کہلاتا ہے،عام طور سے یہ درد کولہے کی ہڈی سے شروع ہوکر نیچے گھٹنے تک یا پاؤں تک جاتا ہے،یہ درد دائیں سائیڈ بھی ہوسکتا ہے اور بائیں سائیڈ بھی، اس سے نجات کے لیے بندش کا ایک عمل دیا جارہا ہے۔
عین قمر در عقرب کے وقت جو اوپر دیا گیا ہے، سیسے (سکّہ) کی چھوٹی سی پلیٹ پر جو نرم ہوتی ہے، مندرجہ ذیل الفاظ لکھ لیں اور مریض کی اس ٹانگ میں جو مرض سے متاثر ہے، گھٹنے سے اوپر باندھیں، اگر سیسے کی تختی نہ ملے تو کسی صاف کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھ لیں، نقش کو تہ کرکے موم جامہ کرلیں یا پلاسٹک کوٹڈ کرالیں اور پھر کسی کپڑے میں لپیٹ کر سلائی کرلیں تاکہ باندھنے میں آسانی ہو۔
ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لادیا یا غفور یا غفور بستم درد شدید فلاں بن فلاں ابداً بحق یا قابض یا جبارُ العجل العجل العجل الساعۃ الساعۃ الساعۃ یا حراکیلُ۔
شرف قمر
قمر اس ماہ اپنے درجہ ء شرف پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 21 نومبر کو 08:18 am سے 10:05 am تک رہے گا، جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق اس وقت کا آغاز 03:18 am سے ہوگا اور اختتام 05:05 am پر ہوگا، دیگر ممالک کے لوگ جی ایم ٹی ٹائم سے اپنے ملک کے فرق کو نفی یا جمع کرکے اصل وقت معلوم کرسکتے ہیں۔
قمر جب شرف یافتہ ہوتا ہے تو سعد اثر دیتا ہے،اس وقت سے متعلق مشہور طریقے ہم اکثر دیتے رہتے ہیں،اس بار جو طریقہ دیا جارہا ہے وہ تقریباً ہر مشکل کو آسان کرنے کے لیے مجرب ہے،خاص طور سے جب کسی سے کوئی اہم کام درپیش ہو اور وہ شخص نہایت مغرور یا آپ کا مخالف ہو ، یہ ڈر ہو کہ وہ کام کو بگاڑ دے گا تو اس عمل کو شرائط کے مطابق انجام دیں، اسی طرح یہ عمل جائز حدود میں پسند کی شادی کے لیے بھی مجرب ہے،خیال رہے کہ جائز حدود سے مراد یہ ہے کہ آپ اس رشتے کے اہل ہیں، لڑکی یا لڑکا راضی نہیں ہے یا دونوں راضی ہیں اور کوئی تیسرا درمیان میں خرابی پیدا کر رہا ہے تو اس عمل کو ضرور کریں، ان شاء اللہ کامیابی حاصل ہوگی۔
شرف قمر کا جو وقت دیا گیا ہے ، اس سے ایک گھنٹہ پہلے ہی عمل شروع کرسکتے ہیں اور جب تک عمل ختم نہ ہوجائے، جاری رکھیں،غسل کرنے کے بعد سفید لباس زیب تن کریں اور قبلہ رُخ بیٹھ جائیں، کوئی اچھی خوشبواستعمال کریں، گیارہ بار درود شریف پڑھیں اور پھر مندرجہ ذیل اسم 1200 مرتبہ پڑھیں، آخر میں پھر گیارہ بار درود شریف پڑھیں اور اپنے جائز مقصد کے لیے دعا کریں،سفید رنگ کی مٹھائی پاس رکھیں ، اس پر فاتحہ دیں اور بعد میں خود بھی کھائیں اور دیگر لوگوں میں تقسیم کریں۔
یا رحمٰنُ کُلِّ شَیُ وَ وَارِثَہُ وَرَاحمَہُ یَا رحمٰنُ
اس کام کے بعد روزانہ ہر نماز کے بعد یہ اسما 111 مرتبہ پڑھنا اپنا معمول بنالیں، اس وقت تک جب تک مقصد حاصل نہ ہوجائے۔

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

حالات کی سختیاں اور پراسرار ہاتھ

اپنے حالات و مسائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ بہت کم لوگ کرتے ہیں
ایک بہت ہی دکھی بہن کا خط ملاحظہ کیجیے، ہمیں یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہنوں کی کوئی کمی نہیں جو حالات کی چکی میں مستقل پس رہی ہیں لیکن درست رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے حالات کے بھنور سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔
کراچی سے آر، پی لکھتی ہیں ’’تقریباً تیرہ سال قبل میری شادی ہوئی، یہ ارینج میرج تھی، شادی ہوتے ہی کاروبار ٹھپ ہوگیا، شوہر کی دکان میں کام نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگئی، دوسری طرف سسرال والوں نے مسائل اس قدر پیدا کردیے جس کی کوئی حد نہیں، اوپر سے یہ کہنے لگے کہ جب سے یہ منحوس آئی ہے، ہمارا بیٹا تباہ ہوگیا ہے، میرے شوہر میرے ساتھ اچھے ہیں مگر نہ جم کر کماتے ہیں اور نہ کوئی بات مانتے ہیں اور نہ ہی کسی بات کو راز رکھتے ہیں، دوسرے کی بات جلد مان لیتے ہیں، یہ سلسلہ ہنوز چل رہا ہے، اتنا کام مل جاتا ہے کہ روٹی پانی چل جائے مگر تنگ دستی کے ساتھ، مجھے اللہ نے صبروشکر سے نوازا ہے لہٰذا صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی مگر بچوں کا چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ترسنا نہیں دیکھا جاتا، آپ کے کالم پڑھنے سے اتنا شعور ملا ہے کہ اس کی روشنی میں اپنے حالات پر غور کیا تو کافی باتیں معلوم ہوئیں ہیں اور دوسرے لوگوں سے بھی پتا چلا ہے کہ جادو اور بندش وغیرہ کی کیا اہمیت ہے، میں جب شادی کے بعد اپنے سسرال آئی تو تقریباً ایک مہینے کے بعد کمرے کی سیٹنگ تبدیل کی تو میرے بیڈ کے نیچے سے چھوٹی ثابت مرچیں نکلیں، تعداد یاد نہیں، اس کے بعد حالات اتنے بگڑے کہ بس اللہ کے کرم سے گھر بچ گیا مگر بیچ کے لوگوں نے تفرقہ اس قدر ڈال دیا کہ اس کے اثرات اب تک ہیں، سب سے بڑا روزگار کا مستقل نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے، کام ایک ہفتہ مل جاتا ہے پھر کئی ہفتے تک نہیں ملتا، کسی نے بتایا تھا کہ کسی عورت نے روزگار باندھ دیا ہے، شوہر کے خاندان میں دو تین گھر ایسے ہیں جہاں یہ کام ہوتے ہیں ، میرے شوہر کی ان سے بنتی بھی نہیں ہے۔
رمضان سے ایک ہفتے قبل کی بات ہے کہ کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں اور کپڑے تہ کر رہی تھی، وقت تقریباً عصر سے کچھ پہلے کا تھا تو یوں لگا جیسے کوئی کمرے کے ساتھ والی گیلری میں کودا ہے، میں نے حیرت سے پیچھے دیکھا کیوں کہ ہمارا فلیٹ پانچویں منزل پر ہے پھر کوئی چلتا ہوا آیا اور میرے پیچھے سے سیدھے ہاتھ کے اوپر سے، سینے سے ہوتے ہوئے الٹے ہاتھ کے کاندھے کو دبوچ لیا، واضح طور پر بھاری مردانہ ہاتھ محسوس ہوا، پہلے تو میرا دل بیٹھ گیا پھر میں نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کردی تو وہ ہاتھ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا اور پھر چلتے ہوئے واپس چلا گیا، یہ میں باہوش و حواس لکھ رہی ہوں، نہ میں وہمی ہوں نہ تو ہم پرست مگر بچپن سے اس طرح کے حالات پیش آتے رہے ہیں کہ ان چیزوں کو ماننے پر مجبور ہوگئی ہوں، میری والدہ پر بھی گندہ علم کرایا گیا تھا اور وہ پاگل ہوگئی تھیں، اسی میں ان کا انتقال ہوا۔
محترم بھائی صاحب! شادی کے بعد تیرہ سالوں میں ہم نے آٹھ مکان کرائے کے بدلے اور اب نواں گھر ہمارا اپنا ہے، جو شوہر کے بڑے بھائی نے دلایا ہے، اب سارا زیور بیچ کر سوزوکی خریدی مگر وہ آئے دن خراب رہتی ہے، آج کل سوزوکی بیچ کر کوئی کھانے پینے کا کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
آپ کا کالم پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنا سگا بھائی مخاطب ہے، کالم میں یہ بات پڑھی تھی کہ اگر نحس اثرات سیارے کے ہوں تو ساڑھ ستی ہوتی ہے جو ساڑھے سات سال تک رہتی ہے مگر میری شادی کو تو تیرہ سال ہوگئے ہیں، اب تک یہ اثرات کیوں ہیں؟ آپ سے میری درخواست ہے کہ میرا زائچہ بناکر یہ بتادیں کہ میری زندگی میں سکون اور پیسہ ہے کہ نہیں، میں خود سلائی وغیرہ کرکے گزارا کرتی ہوں مگر کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں، کسی نے ہمارا روزگار باندھ تو نہیں دیا؟
جس وقت ہاتھ والا واقعہ ہوا تو میں کسی کتاب میں سے دیکھ کر ایک وظیفہ پڑھ رہی تھی، روز عشاء کے بعد اور مجھے وظیفہ پڑھتے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہوگیا تھا، آج کل سب بند کردیا ہے صرف نماز اور قرآن پڑھتی ہوں، نام کے اعداد میں نے سب گھر والوں کے نکالے ہیں، ان پر نظر ثانی کرلیجیے گا، بیٹی بارہ سال کی ہوگئی ہے، کانوں سے پانچ فیصد سنتی ہے لیکن دماغی طور پر بہت ذہین ہے، کیا کوئی نقش اس کی بیماری دور کرسکتا ہے؟ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق وہ لہریں جو آواز کو قبول کرتی ہیں، کمزور ہیں، یہ بھی بتائیں کہ جنوب مشرق کا اتصال کیا ہوتا ہے؟ ہم جیسے کم عقل نہیں سمجھ سکتے، میں نے امی کے علاج کے سلسلے میں جو کچھ کیا(اس کی تفصیل خط میں موجود ہے) کیا اس کے کچھ اثرات تو مجھ پر نہیں ہیں؟ شوہر کے لیے کون سا کام بہتر رہے گا، میرا اصل نام تو وہی ہے جو خط میں لکھا ہے مگر پکارتے دوسرے نام سے ہیں، اس سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ میرا اسم اعظم بھی چیک کرلیں، درست ہے یا نہیں، میری تاریخ پیدائش کا نمبر 9 ہے، کیا نو کی انگوٹھی مناسب رہے گی؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے طویل خط کا جواب ہم تفصیل سے دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ آپ کے مسائل ہمیں معلوم ہیں کہ یہ اکثر گھروں کے مسائل ہیں، سب سے پہلے تو ایک بات یہ سمجھ لیں کہ جس مکان کی بنیاد ہی غلط اصولوں پر رکھ دی جائے اس کی کوئی دیوار سیدھی نہیں رہتی، شادی کے فوراً بعد ہی جب یہ تصور کرلیا گیا کہ آپ منحوس ہیں تو بس ابتدا ہی غلط ہوگئی، شادی سے پہلے آپ کے شوہر کون سا عظیم کارنامہ انجام دے چکے تھے جو شادی کے بعد نہ دے سکے، اپنی رہائش کے لیے ایک مکان بھی علیحدہ نہیں بناسکے، دکان سے جو آمدن ہوتی تھی وہ بس اتنی کہ گزارہ ہوجائے، اس آمدن سے کچھ بس انداز کیا ہوتا، کچھ کاروبار کو مزید بڑھایا ہوتا تو شادی کے بعد یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، کاروبار میں بھی اتار چڑھاؤ سب کے ساتھ آتے ہیں ، جن دنوں آپ کی شادی ہوئی ، خود آپ کے شوہر زحل کی نحوست کا شکار چل رہے تھے یعنی سیارہ زحل ان کے زائچہ پیدائش کے بارھویں گھر میں موجود تھا، ان کا شمسی برج بھی دلو ہے اور قمری برج بھی دلو، ان کی پیدائش کے وقت چاند کی آخری تاریخیں 29 یا 30 ہوں گی، زحل کی ساڑھ ستی کے تین دور ہوتے ہیں، ہر دور ڈھائی سال کا ہوتا ہے، پہلے دور میں انسان کو اس کی سختی زیادہ محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ وہ اپنے ماضی کی کامیابیوں کے نشے میں بدمست ہوتا ہے اور غلط اقدام کرتا ہے، غلط صحبتیں اختیار کرتا ہے، اپنے حقیقی ہمدردوں کو نہیں مانتا، غیروں کی باتوں میں جلد آجاتا ہے،اپنا ذاتی گھر ہو تو اسے فروخت کرنے کی سوچتا ہے، کاروبار یا ملازمت تبدیل کرتا ہے، مختلف بہانے بناکر اپنے سیٹ اپ کو خراب کرتا ہے، دوسرے ڈھائی سالہ دور میں اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کس مقام پر پہنچ چکا ہے لیکن اس وقت بھی وہ حقیقت پسندی اختیار نہیں کرتا، اپنی سستی، کاہلی، عاقبت نا اندیشی کے غلط رویے اور غلط اقدامات پر غور نہیں کرتا بلکہ اپنی ناکامیوں کے بارے یں دوسروں کو موردالزام ٹھہراتا ہے، خود شدید مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر محنت سے جی چراتا ہے اور فضول مشغلوں میں وقت برباد کرتا ہے، تیسرا اور آخری دور شدید نوعیت کی مالی تنگی لاتا ہے، اگر بے روزگار ہو تو دوبارہ روزگار ملنا مشکل ترین ہوجاتا ہے، برسرروزگار ہو تو آمدن محدود ہوکر رہ جاتی ہے، بے انتہا محنت کرنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوتا، قرض بڑھتا ہے، لوگ مدد نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ، ان ساڑھے سات سالوں میں اگر معقول رہنمائی نہ ملے تو انسان بہت ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور بعد میں بھی اسے سنبھلنے میں اکثر اوقات برسوں لگ جاتے ہیں، کچھ لوگ جو عقل مندی اور سمجھ بوجھ سے کام نہ لیں، حقیقت پسندی اختیار نہ کریں بلکہ کسی منفی راستے پر بھی چل پڑیں تو پھر وہ کبھی نہیں سنبھلتے، زندگی برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اپنے شوہر کو حوصلہ دلائیں کہ وہ مستقل مزاجی سے جم کر کام کریں، خراب وقت گزر گیا ہے مگر گزشتہ خراب وقت کی دھول آہستہ آہستہ ہی صاف ہوگی اور اس کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی، ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ وہ بنیادی طور پر برسوں سے جو کام کر رہے ہیں وہی کام کریں، ایسے کسی کام میں ہاتھ نہ ڈالیں جس کا انھیں پہلے سے تجربہ نہ ہو، وہ نہایت ذہین اور سیلز مین شپ کی عمدہ صلاحیت رکھتے ہیں، برج دلو والوں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ لوگ سائبیریا میں فریج فروخت کرسکتے ہیں لہٰذا یہ کاروبار خواہ کوئی بھی کریں، مستقل مزاجی شرط ہے، یہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
اب آئیے اپنے زائچے کی طرف، آپ کا شمسی برج حوت اور قمری برج عقرب ہے، آپ غیر معمولی طور پر حساس ہیں، پیراسائیکولوجی کی زبان میں عمدہ معمول (میڈیم) ہیں، آپ نے جو واقعہ لکھا وہ اس کا ثبوت ہے، چوں کہ آپ ان دونوں ایک مخصوص وظیفہ کر رہی تھیں لہٰذا وظیفے سے متعلق منفی و مثبت ماورائی قوتوں کا آپ کی طرف متوجہ ہونا ضروری تھا، یاد رکھیں کہ جب ہم کوئی مخصوص عمل کرتے ہیں اور کوئی مخصوص اسم، آیت، سورت یا الفاظ کی شکل میں منتر وغیرہ تواتر کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس سے وابستہ مؤکلات علوی و سفلی متحرک ہوجاتے ہیں، اب کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ آپ اسے اپنے زیر تصرف لائیں، آسانی سے آپ کے کام کے لیے تیار نہیں ہوگا، کچھ نہ کچھ مزاحمت کرے گا، اگر آپ زیادہ باقوت ہیں تو آپ کے تابع ہوجائے گا ورنہ آپ پر حاوی ہونے کی کوشش کرے گا، تابع ہونے کی صورت میں آپ کا مطلوبہ کام کردے گا، ورنہ آپ کو پریشان بھی کرسکتا ہے، اکثر وظائف میں یہ مؤکلات کوشش کرتے ہیں کہ عامل کو اس وظیفے یا عمل کی تکمیل سے روک دیں لہٰذا ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ وہ ڈرجائے یا پریشان ہوکر عمل ترک کردے، ایسے ہی موقعوں پر کسی استاد کی رہنمائی اور نگرانی ضروری ہوتی ہے، دوران وظیفہ و عمل میں مخصوص حصار اور دیگر احتیاطیں بھی اسی لیے کی جاتی ہیں، اسی لیے ہم منع کرتے ہیں کہ ہر جگہ سے اندھا دھند وظیفے اور اعمال پڑھ کر ان پر عمل نہ کریں مگر آج کل ہم نے دیکھا ہے کہ خواتین کا یہ محبوب مشغلہ بن چکا ہے، بہر حال جو ہوا سو ہوا چوں کہ آپ کا وہ وظیفہ اتنا زیادہ نقصان دہ نہ تھا لہٰذا زیادہ نقصان نہیں ہوا مگر اسے ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، بعض اوقات ادھورے عمل عمر بھر پریشان کرتے ہیں، آپ کے لیے صدقہ یہ ہے ، ہفتے کے روز بوڑھے یا معذور افراد کی مدد کیا کریں،اتوار کے روز کسی غریب بال بچے دار کی مدد کریں اور جمعہ کو سفید رنگ کی چیزوں کا صدقہ دیا کریں مثلاً سفید چاول، انڈے، سفید کپڑا وغیرہ، مزید یہ کہ سچا موتی کم از کم 5 کیرٹ وزن میں دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں کسی نوچندے پیر کو صبح سورج نکلنے کے فوراً بعد پہن لیں ، آپ کے شوہر کو نیلم کا نگینہ پہننا چاہیے تاکہ ان میں مستقل مزاجی آئے۔
دوسری شادی؟
یو ایم‘کراچی سے لکھتی ہیں’’میری شادی 2005 ء میں ناکام ہوئی‘ایک بچی اس دوران میں ہوئی تھی جو میرے ساتھ ہے‘میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میری دوسری شادی کب ہوگی؟کس سال ہوگی؟ پاکستان میں ہوگی یا آؤٹ آف کنٹری ہوگی‘ شادی کے بعد کی لائف کیسی ہے ؟ ان صاحب کے نام کا پہلا حرف کیا ہوگا؟‘‘
جواب: چوں کہ آپ کا سارا زور دوسری شادی پر ہے‘پہلی شادی کی ناکامی وغیرہ سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا ہم بھی اس موضوع کو نہیں چھیڑنا چاہتے‘صرف اتنا ضرور بتائیں گے کہ دوسری شادی بھی ناکام ہوسکتی ہے کیوں کہ نکاح یا شادی کا بندھن زائچے کے جس گھر سے تعلق رکھتا ہے وہاں مریخ اور زہرہ کا قران ایک منحوس اثر رکھتا ہے‘زائچے کے چوتھے اور ساتویں گھر کا مالک عطارد زحل کی نحس نظر کا شکار ہے لہٰذا ازدواجی زندگی کی خوشیاں اور گھریلو سکون حاصل ہونا مشکل نظر آتا ہے‘ اگر ضروری فلکیاتی ریمیڈیز پر توجہ نہ دی گئی تو دوسری شادی کا انجام بھی پہلی شادی جیسا ہی ہوگا‘ آپ کو پابندی سے جمعہ کو سفید رنگ کی چیزوں کا اور ہفتے کو بلیک کلر کی چیزوں کا صدقہ دینا چاہیے یا ہفتے کو کسی معذور یا بیمار اور معمر شخص کی مدد کرنی چاہیے‘ مرجان اور فیروزہ کسی اچھے اور مناسب وقت میں پہننا چاہیے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ کا پیدائش کا وقت کنفرم نہیں ہے‘آپ نے جو وقت لکھا ہے ‘ یہ ہمیں دُرست معلوم نہیں ہورہا ‘ بہر حال جہاں تک گزشتہ حالات کی روشنی میں اسے درست کیا جاسکتا تھا وہ ہم نے کیا ہے جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ آپ کے زائچے میں شمس ‘عطارد‘ مریخ اور زہرہ ایک ہی برج میں آٹھویں گھر میں ہیں اور آٹھواں گھر عورت کے زائچے میں نکاح کا بندھن‘ ازدواجی زندگی کی خوشیاں ظاہر کرتا ہے‘ مریخ اور زہرہ کا قران پہلی شادی لو میرج ظاہر کرتا ہے اور اس کی ناکامی کا بھی امکان ہے‘دوسری شادی بھی لو میرج ہی ہوسکتی ہے اور پاکستان ہی میں ہوگی‘کسی غیر ملکی کے خواب نہ دیکھیں تو اچھا ہوگا‘نام کا پہلا حرف بتانے والے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ بات ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں‘آپ اتنی ذہین نہیں ہیں جتنی کری ایٹیو ہیں لہٰذا آسانی سے دھوکا کھاسکتی ہیں اور دوسری شادی بھی کسی غلط بندے سے کرسکتی ہیں جس کا نتیجہ پہلے جیسا ہی ہوسکتا ہے‘اس سال 14 جون سے ایسا ٹائم شروع ہوچکا ہے جس میں آپ کا کوئی افیئر اسٹارٹ ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ اکتوبر 2020 ء میں شادی کی صورت میں نکل سکتا ہے‘امید ہے آپ کے تمام سوالوں کے جواب مل گئے ہوں گے‘جواب میں اتنی تاخیر کے لیے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔

پیر، 15 اکتوبر، 2018

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!

ایک طالب علم کو پیش آنے والے پراسرار واقعات اور پراسرار مرض
کائنات رب عظیم کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کا مطالعہ روز بہ روزعقل انسانی کے لیے حیرتوں کے نت نئے باب کھولتا رہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی صرف کرہ ارض پر موجود زندگی کے اسرارو رموز ہی سے پوری طرح واقف نہیں ہوسکا۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں ابھی انسان کے قدم ہی نہیں پہنچ سکے۔ انسان کی بے بسی اور کم علمی تو اکثر زندگی کے روزمرہ مسائل کے مقابلے میں ہی نظر آجاتی ہے۔ وہ اپنی سی ہر کوشش کرنے کے بعد بھی جب ناکام ہوتا ہے تو سخت جھنجلاہٹ اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں یا بعض موذی اور تکلیف دہ بیماریوں کا ذمے دار کسی ماورائی نادیدہ پراسرار قوت کو ٹھہراتا ہے۔ ایک بار جب انسان حوصلہ اور ہمت ہار دے اور یہ سوچ لے کہ کوئی نادیدہ قوت اس پر اثرانداز ہورہی ہے تو پھر اسے ہر معاملے میں ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، دنیا میں انسان سے زیادہ با صلاحیت اور کرشمہ ساز کوئی اور مخلوق نہیں ہے۔ سحروجادو یا آسیب وجنات کوئی بھی ماورائی اثر زیادہ عرصے تک انسان کو اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ تاوقتیکہ وہ اپنا حوصلہ نہ ہار جائے اورذہنی طور پر شکست نہ تسلیم کرلے۔ 
ہمارے مشاہدے میں ایسے معاملات آتے رہتے ہیں جو حوصلے کی کمی کی وجہ سے اور غلط سوچ کی وجہ سے نت نئی پے چیدگیاں اختیار کر لیتے ہیں۔ کوئی ناکامی یا کوئی مشکل یا کوئی بیماری انسان کو ایسا پست ہمت اور توہم کا شکار بنا دیتی ہے کہ پھر وہ کوئی مثبت بات سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتا ہے۔
چند روز پہلے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو اپنا مسئلہ لے کر آئے تھے۔ ان کی عمر تقریبا 35 سال کے قریب ہوگی۔ تعلیم زیادہ حاصل نہیں کرسکے تھے مگر بہت سے ہنر جانتے تھے۔ اب تک شادی نہیں ہوئی تھی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کوئی نادیدہ قوت ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے جو انہیں کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ وہ کاروبار کرتے ہیں تو اس میں نقصان ہوتا ہے۔ جاب کرتے ہیں تو زیادہ عرصے نہیں چلتی۔ شادی کے لیے بہت کوشش کی مگر شادی نہیں ہوتی۔ ایک جگہ دو سال پہلے منگنی ہوگئی تھی وہ ابھی تک قائم ہے مگر شادی کی نوبت نہیں آتی۔ لڑکی والے جب بھی شادی کی تاریخ دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بار لڑکی کی دادی کا انتقال ہوگیا۔ ایک مرتبہ لڑکی کے بھائی کو کاروبار میں نقصان ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ ان کے اپنے گھریلو حالات بھی بہت خراب تھے۔ دوسال سے خود بھی بیروزگار بیٹھے تھے۔ بس گھوم پھر کر کوئی کام مل جاتا تو کرلیتے۔ دو سال پہلے تک کسی فیکٹری میں اچھی خاصی جاب تھی جو صرف اس وجہ سے چھوڑنا پڑی کہ فیکٹری کے کچھ سینیئر افسران ان سے ناجائز کام لینا چاہتے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کا خیال یہی تھا کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ کسی پراسرار نادیدہ قوت کی کارفرمائی ہے۔
جب ان کا زائچہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ موصوف اول درجے کے بے فکرے ، غیر ذمے دار ، کام چور ، آرام طلب اور فضول کاموں میں دلچسپی لینے والے انسان ہیں۔ ان کی غیر مستقل مزاجی اور غیر ذمے داری کا شاخسانہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے کام سیکھنے اور کرنے کے باوجود آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ابتدائی عمر میں کھڑے تھے۔ اب اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بہانے گھڑ لیے ہیں کہ میرے ساتھ کوئی پراسرار مسئلہ ہے۔ میں تو بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے کرنے نہیں دیا جاتا۔ پھر اپنے دعوے کے ثبوت میں انہوں نے ایک مثال پیش کی۔ بولے ’’ میں نے چائے کا ہوٹل کھولا تو چائے بنانے کے لیے چولہے پر جو پانی رکھاوہ گرم ہی نہیں ہوتا تھا۔ خواہ کتنی دیر بھی آگ پر رکھا رہے مگر گرم نہیں ہوتا تھا۔ اب آپ بتائیں یہ سب کیا ہے؟‘‘
ہمارے لیے ممکن نہیں تھاکہ ان سے کہتے’’ یہ سب جھوٹ اور آپ کی ڈرامے بازی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے ایسے بہت سے واقعات سنائے کہ ان کے کھانے میں سے کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں۔ کبھی لال بیگ ، کبھی مکھی اور حد یہ کہ ایک مرتبہ چھپکلی نکل آئی وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے ان سے عرض کیا ’’ آپ الیکٹرک اور ایئر کنڈیشننگ کا اچھا کام جانتے ہیں اور اس کام کی ڈیمانڈ بھی بہت ہے پھر آپ نے یہ کام چھوڑ کر چائے کا ہوٹل کیوں کھول لیا؟‘‘
کہنے لگے ’’ اس کام میں بے ایمانی کرنا پڑتی ہے اور جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے اور چونکہ میں سخت مذہبی آدمی ہوں ، ایک سلسلے سے بیعت ہوں لہذا یہ کام چھوڑدیا۔ ‘‘
ہم نے عرض کیا ’’ جب آپ مذہبی بھی ہیں اور صاحب سلسلہ ہیں، بیعت کرچکے ہیں تو یقیناًآپ کے پیرومرشد بھی ہوں گے؟ تو پھر آپ کے پیچھے جو چیز لگی ہوئی ہے اس سے نجات کیوں نہیں ملتی؟‘‘
بولے’’وہ ہمیں نماز نہیں پڑھنے دیتی اور اسی وجہ سے ہمارے پیر صاحب بھی ہم سے ناراض رہتے ہیں اور اس معاملے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتے۔‘‘
عزیزان من، یہ گفتگو اس لیے نقل کردی گئی ہے کہ آپ خود اندازہ لگالیں کہ مسئلہ کیا ہے اور صاحب مسئلہ کی کیفیت کیا ہے۔ دراصل ہم یہاں ایک اور مسئلے پر گفتگو کرنا چاہتے تھے مگر درمیان میں یہ واقعہ یاد آگیا۔ آئیے ایک خط کی جانب جو ای میل کے ذریعے ہمیں ملا ہے۔ نام اور جگہ ہم ظاہر نہیں کررہے۔
’’میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ میٹرک کے بعد میں نے جاب کے بارے میں سوچا لیکن والد نے مزید تعلیم جاری رکھنے پر زور دیا۔ والد اور گھر والوں کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے محنت کی اور اچھی پوزیشن لے کر یونیورسٹی تک آگیا۔ اس دوران میں ٹیوشن بھی کرتا رہا، گریجویشن کرنے کے بعد اب دوسال ہونے کو ہیں مجھے جاب نہ ملنا تھی، نہ ملی۔
’’یہ دسمبر کی بات ہے۔ میں ٹیوشن پڑھا کر واپس گھر آرہا تھا ، راستے میں ایک سنسان گلی میں مجھے زور کا پیشاب محسوس ہوا اور میں وہیں سائیڈ میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ ابھی پیشاب کررہا تھا کہ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے میرے سر میں ہتھوڑا مار دیا ہو اور میرا سر بھاری ہوگیا۔ حالانکہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں جیسے تیسے گھر پہنچا اور آکر بستر پر لیٹ گیا۔ میری حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ جس جگہ چوٹ لگی تھی، وہ جگہ سن ہوتی جارہی تھی۔ آنکھیں لال پیلی ہوچکی تھیں اور جسم بھاری ہوگیا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر سارے گھر والوں نے رونا شروع کردیا اور ابو پڑوس کی مسجد کے قاری صاحب کو لے کر آئے۔ انہوں نے پورا واقعہ پوچھا،وہ اسی وقت ابو امی کو لے کر اس جگہ پر گئے اور تقریبا دو گھنٹے بعد واپس آکر انہوں نے کہا کہ جس جگہ آپ نے پیشاب کیا ہے وہاں جنات کی ایک فیملی بیٹھی تھی اور پیشاب کی چھینٹیں ان کو لگی ہیں۔ جس پر اس فیملی کی ایک نوجوان لڑکی نے غصے میں آکر آپ پر حملہ کردیا ہے۔ آپ کے سر پرپچھلی طرف تھپڑ مارا ہے۔ میں ان جنات سے بات کرکے آیا ہوں۔ کل صبح دو کالی مرغیاں لے کر ان سے معافی مانگنی ہوگی۔ پھر انہوں نے کچھ قرانی آیات پڑھ کر مجھ پر دم کیا۔ اس کے بعد میری حالت کچھ سنبھل گئی۔ دوسرے دن صبح دو کالی مرغیاں لے کر ہم وہاں گئے اور ان سے معافی مانگ لی، ان سب نے مجھے معاف کردیا مگر شاید جس جن لڑکی نے مجھ پر حملہ کیا تھا اس نے معاف نہیں کیا اور وہ تکلیف آج تک مجھے ہوتی ہے۔ سر بھاری اور سن ہوجاتا ہے۔ تعلیم کے دوران میں میرا سر اتنا بھاری ہوجاتا کہ سیدھا رکھنا مشکل ہوجاتا۔ اتنی تکلیف کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد مجھے اور بھی تکلیفیں شروع ہوئیں جو ابھی تک جاری ہیں۔ دوسال پہلے یہ مسئلہ شروع ہوا کہ جسم سے بدبو آنے لگی حالانکہ میں صفائی اور پاکی کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ اس بدبو کے عذاب نے جینا دوبھر کردیا ہے۔ میری سوشل لائف ختم ہوچکی ہے۔ شرم کے مارے کسی سے ملتا نہیں ہوں۔ سارا دن گھر میں پڑا رہتا ہوں۔ اب ناامیدی حد سے بڑھ چکی ہے اور خودکشی کے خیالات زور پکڑ رہے ہیں۔ میرے گھر والے سب مایوس ہوچکے ہیں۔ مگر اس مایوسی کی سیاہ کالی رات میں بھی ابھی ایک امید کی کرن باقی ہے۔ میں اللہ کی مدد کی روشنی کے انتظار میں ہوں۔ میں نے آپ کی کتاب مسیحا پارٹ ون میں اسم اعظم نکالنے کا طریقہ دیکھ کر اپنے نام کے اعداد 174کا اسم اعظم نکالا ہے جو یہ ہے۔ ’’یا وہاب اللطیف۔‘‘ اس کے علاوہ ’’ یا اللہ الوکیل‘‘ ،’’ ھوالطبیب الحکیم‘‘ اور ’’یا طیب القوی‘‘ سب کے اعداد 174ہیں۔ اب آپ بتائیں انہیں کس طرح پڑھا جائے۔ میں نے مختلف مقاصد کے تحت مختلف اسم اعظم نکالے ہیں۔ میں اس کی زکات سوا لاکھ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی آپ اجازت دیں۔‘‘
جواب : عزیزم، آپ کے ساتھ جو واقعہ ہوا وہ یقیناًقابل غور ہے۔ بے شک سنسان اور ویران جگہوں پر جنات ہوسکتے ہیں لیکن اس طرح آبادی کے گلی کوچوں میں جنات کی فیمیلیز قیام نہیں کرتیں۔ بے شک کسی بھی جگہ پیشاب کرنا دوسرے معنوں میں گندگی پھیلانا ایک نامناسب اور غیر اخلاقی بات ہے۔ قاری صاحب نے آپ کی بروقت مدد کی اور قرانی آیات پڑھ کر دم کیں جن کی وجہ سے آپ کو تقویت حاصل ہوئی، ڈر اور خوف دور ہوگیا لیکن کالی مرغیوں کا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا، معافی کی حد تک بات ٹھیک ہے۔ آپ کو اپنے سر درد یا سر کی تکلیف کے سلسلے میں بھی قاری صاحب سے مزید رجوع کرنا چاہیے تھا۔
آپ کی دیگر بیماریوں کا تعلق اس واقعے سے الگ نظر آتا ہے۔ آپ نے جو مسائل اور تکالیف لکھی ہیں یہ عموما سفلس اور سائیکوٹک امراض میں پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر جسم یا پسینے اور دیگر اخراجات میں بدبوکا پایا جانا۔ ایک اور رہنما علامت آپ نے یہ بھی لکھی ہے کہ آپ کو صفائی اور پاکی کا بہت خیال رہتا ہے۔ یہ بھی سفلس کی علامت ہے۔
سفلس کی بیماریاں عموما غیر فطری مشاغل کی وجہ سے جنم لیتی ہیں مگر ان کی ایک وجہ کسی نامناسب جگہ پر پیشاب کرنا بھی ہوسکتاہے خصوصا جلتی دوپہر میں تپتی زمین یا پتھر پر یا ایسی جگہ جہاں زمین میں چونا موجود ہو ۔ بہرحال وجوہات کچھ بھی رہی ہوں آپ کو معقول علاج معالجے پر توجہ دینا چاہیے۔ایسی بیماریوں کا شافی و کافی علاج ہومیو پیتھک طریقہ ء کار میں موجود ہے۔ آپ کی بیماری اب خاصی پیچیدہ ہوچکی ہے لیکن لاعلاج نہیں ہے۔گھر میں منہ چھپا کر بیٹھنے کے بجائے کسی تجربے کار ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنے ذہن سے یہ وہم نکال دیں کہ ’’جن لڑکی‘‘ کا تھپڑ ابھی تک آپ کے لیے ایک سزا بنا ہوا ہے اور اس کا آپ کو معاف نہ کرنا آپ کے لیے عذاب کا سبب ہے۔ ایسے واقعات زیادہ عرصے تک اپنا اثر نہیں رکھتے اور جو غلطی آپ سے ہوئی تھی ، وہ بھی اتنی بڑی نہیں تھی کہ جس کی سزا آپ کو عمر بھر بھگتنا پڑے۔ اللہ نے اتنا اختیار کسی کو نہیں دیا کہ معمولی باتوں پر غصے میں آکر زندگی بھر کسی کو عذاب میں مبتلا کرے۔ ایسا کرنے والا پھر خود بھی قہر خداوندی کا شکار ہوتا ہے۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو اس جن فیملی سے بھی یہ پوچھا جاسکتا تھا کہ آپ لوگ ایک راہ گزر میں دھرنا دیے کیوں بیٹھے تھے اور کیوں ایک شخص کے پیشاب کرنے کا نظارہ فرما رہے تھے جبکہ قانون قدرت کے مطابق وہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر آپ تو اس کو دیکھ رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے۔ اس کی حرکت تو غیر اخلاقی اس صورت میں ہوگی جب وہ آپ کو دیکھ کر اور جان بوجھ کر پیشاب کرتا۔ آپ کو ناپاک ہونے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا کہ اس جگہ سے دور ہٹ جاتے۔ بہرحال اب یہ بحث فضول ہے اور آپ اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دیں۔ آپ نے یہ نہیں لکھا کہ جسم سے آنے والی بدبو صرف آپ کو محسوس ہوتی ہے یا دوسروں کو بھی؟ ہمیں یقین ہے کہ یہ بدبو صرف آپ کو ہی محسوس ہوتی ہوگی۔ اگر دوسروں کو محسوس ہوتی تو آپ کے گھر والے ضرور اس کا نوٹس لیتے اور آپ کو کسی معالج کے پاس لے جاتے۔
آپ کا زائچہ دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ نے کچھ باتیں ہم سے بھی پوشیدہ رکھی ہیں اور اپنی بیماریوں کے سلسلے میں بعض وجوہات کو راز میں رکھا ہے کیونکہ آپ کا پیدائشی برج عقرب ہے اور طالع کا حاکم مریخ بارہویں گھر میں بیٹھا ہے جبکہ بارہویں گھر کا حاکم زہرہ طالع میں ذنب کے ساتھ ہے۔ یہ ’’پری ورتن یوگ‘‘ ہے اور یوگ بنانے والے اسٹار زہرہ اور مریخ پہلے بارہویں اور چھٹے ساتویں گھروں سے تعلق رکھتے ہیں لہذا پیچیدہ نوعیت کی ذہنی اور دماغی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی میں کچھ نہ کچھ خفیہ راز ضرور ہوتے ہیں۔ ہم بھی ان کی نقاب کشائی نہیں کریں گے۔
آپ نے جو اسم اعظم ترتیب دیے ہیں وہ بلاشبہہ بہت شان دار ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا اسم اعظم ’’ یا حی یاقیوم ‘‘ بھی ہے کیونکہ دونوں اسمائے الہی کے اعداد 174 ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ آپ کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔ آپ کا پہلا مسئلہ صحت یابی ہے اور یا حی یاقیوم کا ورد صرف نفع بخش ہی نہیں، صحت بخش بھی ہے۔ باقی فی الحال زکات ادا کرنے کی مہم میں خود کو نہ ڈالیں۔ آپ کی موجودہ حالت اور صحت ایسے وظیفوں اور چلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ صرف ہومیو پیتھک علاج ہی آپ کی بگڑی ہوئی کیمسٹری کو درست کرسکتا ہے۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!

جمعہ، 5 اکتوبر، 2018

روحانیات کے نام پر گمراہ کن طرز عمل کی ایک جھلک

اکلٹ سائنسز کے حوالے سے نت نئے تماشے سامنے آتے رہتے ہیں
محکمہ جاتی طور پر ملک میں خاصی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل جاری ہے، سول و ملٹری سروسز میں انتظامی نوعیت کی تبدیلیاں شروع ہوچکی ہیں، یہ عمل آئندہ ایک ماہ تک مزید تیز ہوگا، شاید اس کی ضرورت بھی ہے، نئی حکومت سمجھتی ہے کہ گزشتہ حکومت کے جمائے ہوئے مہرے ان کے لیے زیادہ کارآمد یا معاون ثابت نہیں ہوں گے،اسی طرح پورے ملک میں ناجائز قبضے کے خلاف بھی کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں، دوسری طرف موجودہ ہفتہ عدالتی کارروائی کے اعتبار سے بھی نہایت اہم نظر آتا ہے،وزیراعظم کو مسلسل ایک سخت وقت کا سامنا ہے اور اس وقت یہ مصرع ان پر صادق ہے ؂جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں۔
ان کے نامزد وزیراعلیٰ پنجاب کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن مجموعی طور پر ایسی صورت حال نہیں ہے جس پر بہت زیادہ تشویش کا اظہار کیا جائے،جیسا کہ زائچہ ء حلف کے حوالے سے ہم لکھ چکے ہیں، نئی حکومت کو آئندہ سال مئی تک ایسے ہی حالات و واقعات کا سامنا رہے گا لیکن اپوزیشن کے لیے بھی زیادہ سازگار وقت نہیں ہے،ان کے باہمی اختلافات اور ماضی کے فیصلے اور اقدام ان کے لیے قانونی مسائل پیدا کرتے رہیں گے،سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور قدرت اپنی چالیں چل رہی ہے، گھمسان کا معرکہ دسمبر کے آخر سے شروع ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)
مسلمان جب ہندوستان آئے تو اُن کا سابقہ ہندو مذہب اور کلچر سے پڑا۔ ہندو مذہب خاصا قدیم ہے۔ہندو مذہب کے علاوہ برصغیر پاک و ہند میں بدھ مذہب اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔بدھ مذہب اور سکھ مذہب کے بانی اور مبلغین کا تعلق چوں کہ ہندو مذہب ہی سے تھا لہٰذا آخر الذکر دونوں مذاہب میں بہت سی روایات اور رسومات ہندو ازم سے مماثل نظر آتی ہیں۔
ترکِ دنیا کا نظریہ بھی ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور بدھ مذہب کی تو بنیادی اساس ہی اس پر قائم ہے۔بدھ مذہب کے بانی گوتم بدھ ایک ریاست کے شہزادے تھے اور انہوں نے عین نوجوانی میں اپنا راج پاٹ اور عیش و آرام چھوڑ کر جنگل کی راہ لی ۔
قصہ مختصر یہ کہ ہندوستان میں آباد ہونے کے بعد مسلمانوں میں بھی ترکِ دنیا کا نظریہ شدت اختیار کرنے لگا ۔ اس سے پہلے مسلم صوفیہ بھی یہ راستہ اختیار کرنے میں پیش پیش رہے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ عبادت و ریاضت میں زیادہ یکسوئی حاصل کرنا رہی ہوگی لیکن اُن کی تقلید میں بہت سے دیگر افراد بھی دنیا سے بے زاری اور کنارہ کشی کو پسند کرنے لگے ۔ ایسے لوگ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں یا پھر اپنی حالت ایسی بنالیتے ہیں جس سے دنیا بے زاری ظاہر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ عام لوگوں سے دور دور رہتے ہیں ۔ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور خود کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتے ہیں ۔ دنیا دار لوگ ایسے لوگوں کو اللہ کے نزدیک خیال کرکے اپنی حاجتوں کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں اور دعا کے طالب ہوتے ہیں ۔ عام لوگوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، ماضی میں بادشاہوں نے بھی ایسے اللہ کے نیک بندوں سے دعا کی درخواست کی ہے اور اُن کے دروازے پر پاپیادہ حاضری دینے کو اپنی خوش قسمتی جانا ہے جیسا کہ مغلِ اعظم جلال الدین محمد اکبر پاپیادہ حضرت سلیم الدین چشتی ؒ کے پاس حاضر ہوا تھا ۔
بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کا دنیا سے دوری اختیار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اُن کی نقل میں بہت سے لوگ اپنا حال اور حلیہ ایسا ہی بنالیتے ہیں تاکہ خلقِ خدا کو فریب دے سکیں اور پھر ایسا ہی طرز عمل بھی اختیار کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں ۔ ایسے لوگوں سے سوائے نقصان اور گمراہی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ہمیں اکثر خطوط کے ذریعے یا ذاتی ملاقاتوں کے ذریعے ایسے قصے سننے کو ملتے ہیں جن میں کسی سفید پوش، بزرگ صورت افراد کی فنکاری کا مظاہرہ سامنے آتا ہے ۔ خود ہم نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا بھی ہے اور اُن سے ملاقات بھی کی ہے۔ایسے لوگوں میں اکثریت عموماً دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک وہ جن کا کام ہی لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو زندگی میں ناکام اور مایوس ہوکر اپنی حقیقی ذمہ داریوں اور فرائض سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔
پہلی قسم تو یقیناً فراڈ اور بے ایمانی کے ذیل میں آتی ہے لیکن دوسری قسم حماقت ، جہالت، نا اہلی، نکما پن اور ہڈ حرامی کے سبب وجود میں آتی ہے ۔ ایسے لوگ خود کو کوئی روحانی شخصیت ظاہر کرکے مفت میں عیش کرتے ہیں اور معاشرے میں معزز ہوجاتے ہیں ، دوسرے معنوں میں مذہب اور روحانیت کی آڑ میں یہ بھی ایک دھوکہ دہی ہے ، ایسے لوگوں کی علمیت مشکوک ہوتی ہے ۔ ان کا طرۂ امتیاز ہی جہالت ہے ، وہ کم علم لوگوں کو ہی بے وقوف بناتے ہیں ۔
برسوں پہلے کا واقع ہے کہ ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ ایک بڑے پہنچے ہوئے بزرگ کھوکھرا پار سے آگے کسی ویران جگہ پر رہتے ہیں ، ان سے ملنا چاہیے ، ہمیں بھی اشتیاق ہوا اور جیسے تیسے وہاں پہنچ گئے ۔ لوگوں کا کافی ہجوم تھا ۔ آبادی سے الگ تھلگ ایک جھونپڑی بنی ہوئی تھی جس میں وہ صاحب مقیم تھے ۔ دو تین مفت کے خدمت گار بھی انہیں مل گئے تھے لیکن جب ملاقات ہوئی اور اُن کے طور طریقے دیکھے، گفتگو سنی تو اندازہ ہوگیا کہ بھائی صاحب جاہلِ مطلق ہیں اور خدا معلوم کیا افتاد آپڑی تھی کہ یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔
اکثر لوگ ایسے قصے بھی سناتے ہیں کہ ان کے دروازے پر کوئی بزرگ صورت صاحب تشریف لائے اور پینے کے لیے پانی مانگا اور پھر صورت دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا ۔ کوئی ایسی بات کہہ دی جو صاحبِ خانہ( عورت یا مرد) کے دل میں اتر گئی۔مثلاً یہ کہہ دیا کہ تم پر تو بڑی سختی نظر آرہی ہے یا ایسی ہی کوئی بات جسے سن کر صاحب خانہ متاثر ہوجائے اور اُن کی آؤ بھگت شروع کردے ۔ نتیجے کے طور پر وہ اُس گھر کے مکینوں پر اثر انداز ہوکر کوئی نہ کوئی ہنر دکھا دیتے ہیں ۔ ایسے افراد مزارات پر بھی بکثرت پائے جاتے ہیں اور ہمارے گلی محلوں میں بھی اور بازاروں اور ہوٹلوں میں بھی ۔
عزیزان من ! اس لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک خط نے ہمارے ذہن میں ایسے بہت سے واقعات کو تازہ کردیا ۔ آیئے اس خط کا مطالعہ کیجیے ۔
یہ ایک ایسی خاتون نے لکھا ہے جو برسوں سے ہمارے رابطے میں ہیں یعنی اپنے اکثر مسائل و علاج معالجے کے سلسلے میں ہمارے پاس ان کا آنا جانا رہتا ہے ، وہ لکھتی ہیں ۔
’’ آپ کی طرف بہت عرصے سے آنا نہیں ہوا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کوئی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ، چھوٹے موٹے معاملات میں فون پر آپ سے مشورہ ہوجاتا ہے ، گزشتہ دنوں بڑی بہن کراچی آئی ہوئی تھیں آپ سے ملنا بھی چاہتی تھیں مگر شادیوں میں شرکت نے اس کا موقع ہی نہیں دیا ، بہر حال ان کا سلام قبول کریں ، دسمبر میں وہ پھر آئیں گی تو ضرور آپ سے ملاقات ہوگی ، یہ خط لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ہم بیٹھے بٹھائے ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں ، ہوا یوں کہ بہن نے اپنی دو انگوٹھیاں ہمیں دی تھیں کہ سنار سے پالش کرالیں کیونکہ انگلینڈ میں یہ کام ان کے لیے بڑا مشکل ہے ، ہماری بھی ایک انگوٹھی کالی پڑ گئی تھی چنانچہ ہم نے ایک سنار صاحب کی دکان کا رخ کیا اور انگوٹھیاں انہیں اس شرط پر پالش کے لیے دیں کہ فوری چاہئیں ، انہوں نے کہاکہ آپ کو ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا تو وہیں دکان میں بیٹھ گئے ، میرے ساتھ میری بیٹی بھی تھی ۔ ہماری انگوٹھی میں مرجان کا نگینہ ہے اور بہن کی انگوٹھی میں فیروزہ ہے ، یہ نگینے ہم نے آپ کے مشورے سے پہنے تھے ، بہن کی دوسری انگوٹھی بھی آپ کی دی ہوئی ہے جس پر اعداد متحابہ 120 کا نقش ہے ، یہ انگوٹھی آپ بہت پہلے اخبار میں دے چکے ہیں ۔
’’ سنار صاحب کی دکان میں ایک اور صاحب آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے جیسے کسی سوچ میں گم ہوں ، ہم بھی ان کے قریب ہی بیٹھ گئے تو انہوں نے فوراًً آنکھیں کھول کر ہماری طرف غور سے دیکھا اور تھوڑی سی اونچی آواز میں ’’ حق اللہ ‘‘ کہا ، پھر ہمارے چہرے پر نظریں جمادیں ، ان کے اس طرح دیکھنے سے ہمیں کچھ بے چینی اور گھبراہٹ ہونے لگی ، ہم نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا ، سنار صاحب سمجھ گئے کہ ہمیں ان کا اس طرح گھورنا ناگوار گزرا ہے ، انہوں نے کچھ صفائی پیش کرنے کے انداز میں ہم سے کہا ’’ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ، آپ پریشان نہ ہوں ‘‘ پھر بزرگ صاحب سے مخاطب ہوکر بولے ’’ بابا ان کے لیے دعا کردیں ‘‘ ۔
با با جی نے ان کی بات سن کر ایک گہری سانس لی اور بولے ’’ کیا دعا کریں ، یہ تو بڑے خطرے میں نظر آتی ہیں ‘‘ ان کی یہ بات سن کر ہمیں کچھ تشویش ہوئی اور ہم نے پوچھا ۔
’’ با با جی! آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی ، آپ کس خطرے کی بات کر رہے ہیں ؟ ‘‘
انہوں نے وہ انگوٹھیاں سنار سے مانگیں اور پھر ہم سے پوچھا ’’ یہ تینوں انگوٹھیاں تمہاری ہیں ؟ ‘‘
ہم نے جواب دیا ’’ ایک ہماری ہے اور 2 ہماری بہن کی ہیں جو انگلینڈ سے آئی ہوئی ہیں ۔‘‘ پھر ان کے پوچھنے پر ہم نے بتا دیا کہ کون سی انگوٹھی ہماری ہے اور کون سی ہماری بہن کی ہیں ، اس پر انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس کے مشورے پر یہ انگوٹھیاں پہنی ہیں ؟ ہم نے بلا جھجک آپ کا نام لے دیا ، جسے سن کر انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا اور فرمایا کہ یہ انگوٹھیاں تم دونوں بہنوں پر بہت بھاری ہیں ، آئندہ انہیں نہ پہننا، تو ہم نے کہا کہ ہم تو کئی سال سے یہ انگوٹھیاں پہنے ہوئے ہیں ، جس پر انہوں نے کہا کہ تمہاری بیماری کی وجہ یہ انگوٹھی ہے اور تمہاری بہن کو بھی جو تکلیفیں ہیں وہ ان انگوٹھیوں کی وجہ سے ہیں ۔
’’ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں جوڑوں کے دردوں کی شکایت پرانی ہے اور جب بھی ہم بد پرہیزی کرلیں تو تکلیف بڑھ جاتی ہے، آج کل بھی اس تکلیف میں زیادتی ہے ، ہماری بہن دمے کی پرانی مریضہ ہیں اور اپنی یہ تکالیف ہم انہیں بتا چکے تھے ، بہر حال انہوں نے ہمیں اسی وقت دو تعویذ دیئے اور کہا کہ اگر آنے والے خطرات سے بچنا چاہتی ہو تو یہ تعویذ بازو پر باندھ لینا اور دوسرا اپنی بہن کو دے دینا ، سچی بات یہ ہے کہ ہم کچھ مرعوب بھی ہوگئے تھے اور پریشان بھی ، لہٰذا تعویذ لے لیے۔ ہمارا کام ہوگیا اور ہم چلنے لگے تو سنار صاحب نے آہستگی سے ہم سے کہا ’’بابا جی نے آپ کی بڑی مدد کی ہے ، وہ کسی سے بات نہیں کرتے، پتا نہیں آپ کو دیکھ کر انہیں کیا ہوا کہ تعویذ بھی دے دیے ، آپ بھی انہیں نیاز فاتحہ کے لیے کچھ نذرانہ دے دیں ۔‘‘
ہم نے پوچھا ’’ کیا دیں ؟ تو انہوں نے 500 روپے کا اشارہ دیا ، بہر حال ہم نے ان کی بات نہیں ٹالی ، گھر آکر جب بہن کو بتایا وہ سخت ناراض ہوئیں ، آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کی بات کو کتنی اہمیت دیتی ہیں ، اب ہمیں بھی کچھ ندامت اور پشیمانی ہوئی لیکن دل میں وہم بھی گھر کر چکا تھا لہٰذا دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے یہ خط آپ کو لکھ دیا ہے ، اب آپ ہی فرمائیں کہ ہم ان بابا صاحب کی باتوں کو کیا سمجھیں ، کیا واقعی یہ انگوٹھیاں ہمارے اور بہن کے لیے صحت کی خرابی کا سبب ہوسکتی ہیں ؟ ‘‘
جواب : آپ کا خط پڑھ کر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی بلکہ تھوڑی سی ہنسی آئی۔ اسی لیے آپ کے خط سے پہلے اتنی لمبی چوڑی تمحید کی ضرورت پیش آئی ہے ، جب آپ کا خط ملا اس سے پہلے ہی آپ کی بہن سے فون پر بات ہوگئی تھی اور ہم نے ان سے کہہ دیا تھا کہ آپ کو سمجھا دیں کہ کسی وہم میں نہ پڑیں ، پہلی بات تو یہ کہ جہاں تک ہمیں یاد ہے آپ کی بیماری مرجان کی انگوٹھی پہننے سے بہت پہلے کی ہے اس کے علاج کے سلسلے میں بھی آپ ہمارے پاس آچکی ہیں لیکن اول تو آپ اول درجے کی بدپرہیز ہیں ، چاول دیکھ کر آپ کی رال ٹپکنے لگتی ہے جو اس بیماری میں زہر کی حیثیت رکھتا ہے ، پھر جم کر لمبے عرصے علاج نہیں کراتیں ، پین کلرز پر گزارا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں ، دوسری بات یہ کہ شاید کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو کہ مرجان ہر طرح کی جسمانی صحت کے لیے ایک مفید پتھر تسلیم کیا جاتا ہے ، آخری بات یہ کہ مرجان آپ کا لکی اسٹون ہے مگر ہم جس طرح لکی اسٹون تجویز کرتے ہیں وہ رائج الوقت طریقہ کار سے مختلف ہے ، اس حوالے سے ہم ایک طویل مضمون بھی لکھ چکے ہیں اور مروجہ طریقہ کار پر تنقید بھی کرچکے ہیں ، آپ کی بہن ہمارے پاس پہلی بار اس وقت آئی تھیں جب ان کی ازدواجی زندگی خطرے میں تھی اور یہ غالباً 1995ء کی بات ہے ، آج اللہ کا کرم ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں اور گزشتہ پانچ سال سے بیرون ملک مقیم ہیں ، پتھر ہم نے انہیں اس وقت پہنایا تھا جب میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے ہو رہے تھے اور 120 کی انگوٹھی انہوں نے اس وقت منگوائی تھی جب پہلی مرتبہ غالباً 1998ء میں ہم نے اس انگوٹھی کا تعارف اپنے کالم میں کرایا تھا ، وہ تو اس انگوٹھی کو اپنے لیے لکی انگوٹھی سمجھتی ہیں اور وہ کیا ہمارے کالم کے بے شمار قارئین اس کرشماتی انگوٹھی کے کرشمے دیکھ چکے ہیں ، آپ یہ ساری باتیں جانتی ہیں پھر آپ کا گھبرانا اور وہم میں پڑنا کیا معنی رکھتا ہے ، بہتر ہوگا کہ ذہن سے ہر وہم کو جھٹک دیں اور با با جی نے جو تعویذ دیے ہیں انہیں کھول کر دیکھیں ، ہمیں یقین ہے کہ آپ کو ان کی جہالت کا کوئی نمونہ نظر آجائے گا ، اس کے بعد انہیں پھاڑ کر پھینک دیں اور آئندہ ایسے لوگوں سے محتاط رہیں ، آپ کا خط آپ کی فرمائش پر شائع کیا گیا ہے تاکہ دیگر افراد بھی اس طرح وہم کے بیج بونے والے رنگے سیّاروں سے محتاط رہیں ۔

ہفتہ، 29 ستمبر، 2018

وزیراعظم نریندر مودی اور بھارت کے زائچے پر ایک نظر

بھارت کے خراب دور کا آغاز، معاشی دباؤ، اسکینڈل اور آسمانی آفات
پاکستان کی مصالحانہ اور امن پسندانہ پیش کش کا جواب بھارت نے جس انداز میں دیا ہے وہ یقیناً کوئی مستحسن رویہ نہیں ہے،مزید یہ کہ بھارتی جنرل بپن روات نے تو اپنے جنگ جویانہ عزائم کا بھی اظہارکردیا جو دوسرے الفاظ میں کھلی دھمکی ہے، بہر حال اس صورت حال میں پاکستان کو بھی سخت جواب دینا پڑا، عمران خان نے ٹوئٹر پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے جو کچھ کہا ، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، یہ ڈپلومیسی کے خلاف ہے،ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں، ہم 2014 ء میں نریندر مودی کے زائچہ ء پیدائش پر خاصی تفصیل سے لکھ چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے بہت سی باتیں اور بہت سے پہلو اکثر زیر بحث نہیں آتے، ہمارا خیال ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے، نریندر مودی فطری طور پر خاصے کینہ پرور اور نچلی سطح کے انسان ہیں، ان کا خاندانی پس منظر بھی بے حد پس ماندہ رہا ہے، ضروری ہے کہ ایک بار پھر ان کے زائچے پر نظر ڈال کر بعض اہم حقائق کی نشان دہی کردی جائے۔
نریندر مودی کا پیدائشی طالع برج عقرب ہے، یہ ایک متشدد برج ہے،انتہا پسندانہ نظریات عقربی افراد قبول کرتے ہیں، اگر سیارہ مریخ زائچے میں اچھی پوزیشن رکھتا ہو تو شدت پسندی میں کمی آتی ہے لیکن نریندر مودی کے چارٹ میں سیارہ مریخ اپنے ہبوط کے برج سرطان میں ہے اور زائچے کے پہلے اور چھٹے گھر کا حاکم ہے،مریخ کی یہ کمزوری انھیں زیادہ انتہا پسند، کینہ پرور اور جھگڑالو مزاج کا حامل بناتی ہے،کینہ پروری کا اندازہ اس واقعے سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر کھل کر اعتراف کیا کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں ہم نے کردار ادا کیا تھا، ان کے مزید ارادے بھی کچھ ایسے ہی ہیں جن کا اظہار ان کے ایک سیکریٹری بھی کرچکے ہیں، انھوں نے اپنے سیاسی کرئر کا آغاز بھی بھارت کی ایک کٹّر مذہبی نظریات کے حامل جماعت آئی ایس ایس آر سے کیا تھا، اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں ہونے والے گجرات کے فسادات کے حوالے سے بھی ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر دینا چاہتے ہیں۔
بے شک ان کے زائچے میں قمر اور مشتری گج کیسری یوگ اور ہمسا یوگ بنارہے ہیں جو ذہانت اور دانش وری کے لیے مشہور ہے مگر کسی بھی یوگ کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے زائچے کی مجموعی صورت حال کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے،چوتھے گھر کا حاکم سیارہ زحل بھی نوامسا میں ہبوط یافتہ ہے، قمر نہایت حساس برج حوت میں ہے اور قمر کی منزل ریوتی ہے جس پر عطارد حکمران ہے،بے شک غیر معمولی ذہانت اور ہوشیاری اس نچھتر کی علامت ہے لیکن اگر زائچے کی مجموعی صورت حال دگرگوں ہو تو یہی ذہانت اور ہوشیاری منفی رُخ اختیار کرتی ہے،زائچے کے منفی پہلوؤں میں راہو کیتو کی پوزیشن بہت اہم ہے،سیارہ عطارد راہو کیتو محور میں پھنسا ہوا ہے،مزید یہ کہ بارھویں گھر کا حاکم زہرہ بھی عطارد کو متاثر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ریوتی نچھتر کے حامل صاحب زائچہ کی سوچ میں کج روی کا امکان پایا جاتا ہے،زندگی کی ابتدا ہی میں مایوسی ، احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس ہوسکتا ہے، گرم مزاجی ، ہٹ دھرمی اور اڑیل پن بھی ایسے لوگوں میں دیکھا جاسکتا ہے،مفاد پرستی ان کے مزاج کا حصہ ہوسکتی ہے،حال ہی میں ایک اسکینڈل بھی سامنے آچکا ہے،ان کی فطری حساسیت بعض اوقات خطرناک حدود تک پہنچ سکتی ہے لہٰذا اپنے مفادات کے لیے یا اپنی پارٹی کے مفادات کے لیے یہ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں،دنیا میں تیسری عالمی جنگ اگر شروع ہوگی تو اسے شروع کرنے والے کرداروں میں ان کا نام بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
آئندہ سال بھارت میں الیکشن ہوں گے،اب تک نریندر مودی اور ان کی پارٹی کی کارکردگی بھارتی عوام کے لیے بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں رہی ہے، یقیناً وہ پاکستان کارڈ استعمال کرکے اپنے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے کسی ایسی مہم جوئی کا آغاز بھی کرسکتے ہیں جس کا کریڈٹ لے کر عوام کی نظروں میں سرخرو ہوسکیں،آئیے اس صورت حال کو مزید سمجھنے کے لیے بھارت کے پیدائشی زائچے پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
بھارتی زائچہ
بھارت کے زائچے کی پوزیشن بھی دن بہ دن نازک سے نازک تر ہوتی جارہی ہے، زائچے میں سیارہ قمر کا دور اکبر جاری ہے،قمر تیسرے گھر میں ہے اور اس پر غضب ناک راہو کی نظر ہے،ہم نے کافی پہلے بھارتی زائچے کے حوالے سے لکھا تھا کہ قمر کا دور اکبر انڈیا کو انتہا پسندانہ نظریات کی طرف لے جائے گا لہٰذا ستمبر 2015 ء سے بھارت میں انتہا پسندانہ رجحانات میں مستقل اضافہ ہورہا ہے،مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے صورت حال بہتر نہیں ہے ، اب قمر ہی کے دور اکبر میں 11 اگست 2018 ء سے مشتری کا دور اصغر شروع ہوچکا ہے،سیارہ مشتری آٹھویں گھر کا مالک ہوکر زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے، اپنی ٹرانزٹ پوزیشن میں مشتری زائچے کے چھٹے گھر سے گزر رہا ہے اور اکتوبر ہی میں ساتویں گھر میں داخل ہوگا تو انڈیا کی جانب سے ایسے فیصلے اور اقدام سامنے آسکتے ہیں جو پاکستان کے لیے نامناسب یا نقصان دہ ہو، سرحد پر جھڑپوں میں اضافہ یا کسی سرجیکل اسٹرائیک کی کوشش کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ وقت بیرون ملک تعلقات پر بھی ناخوش گوار اثر ڈالے گا، یہ صورت حال اندرون و بیرون ملک تنازعات کو بڑھاوا دے گی۔
دسویں گھر کا حاکم سیارہ جس کا تعلق وزیراعظم اور ان کی کابینہ سے ہے،آٹھویں گھر میں مصیبت زدہ ہے اور اس پر پیدائشی مریخ کی نحس نظر ہے، اسی نظر کا شاخسانہ موجودہ فرنچ اسکینڈل ہے، دوسرے معنوں میں مودی صاحب کے لیے یہ کوئی اچھا وقت نہیں ہے،وہ اور ان کی کابینہ غلط فیصلے اور اقدام کرسکتے ہیں، مزید یہ کہ بھارتی معیشت اور تجارت کے لیے بھی خاصے اندیشے اور خطرات موجود ہیں، کرنسی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آئے گا نومبر میں جب سیارہ مریخ دسویں گھر میں داخل ہوگا تو موجودہ اسکینڈل مزید شدت اختیار کرے گا، اس وقت راہو کیتو بھی زائچے کے پہلے، تیسرے ، ساتویں، نویں اور گیارھویں گھروں کو متاثر کر رہے ہوں گے۔
ہمیں دھمکیاں دینے والا انڈیا آنے والے مہینوں میں جن خطرات اور نقصانات کا سامنا کرنے والا ہے، اس کا شاید نریندر مودی اور جرنل روات کو اندازہ نہیں ہے، ایسی ہی صورت حال نئے سال 2019 ء میں بھی نظر آتی ہے جس میں شدید بدنظمی، انتشار اور عوامی احتجاج کے ساتھ ہی حادثات اور قدرتی آفات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے سے راہو کیتو کی پوزیشن آئندہ سال فروری تک پیدائشی قمر کو بری طرح متاثر کرے گی،یہ وقت بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان مزید کشیدگی کا سبب بنے گا، دونوں طرف سے انتہا پسندانہ رجحانات عروج پر ہوں گے،عوام اور میڈیا اس حوالے سے غیر ذمے دارانہ کردار ادا کریں گے، بھارت میں الیکشن کی فضا تیز ہورہی ہوگی، ایسی صورت میں برسراقتدار پارٹی ہر وہ حربہ استعمال کرے گی جو الیکشن جیتنے میں مددگار ثابت ہو۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا قیام 6 اپریل 1980 ء کو ہوا تھا، اس اعتبار سے اس پارٹی کا طالع برج جوزا ہے، مشتری زائچے کے تیسرے گھر میں راہو کیتو محور میں ہے،زائچے کا طاقت ور ترین سیارہ شمس ہے،2014 ء کے الیکشن میں شمس کا دور اکبر اور مشتری دور اصغر جاری تھا، سیارہ زحل اپنے شرف کے گھر میں مکمل سپورٹ دے رہا تھا لیکن آئندہ سال 2019 ء کے الیکشن میں صورت حال خاصی مختلف نظر آتی ہے،پارٹی کے زائچے میں اب قمر کا دور اکبر جاری ہے اور قمر اپنے برج ہبوط میں اور چھٹے گھر میں ہے،الیکشن کے وقت دور اصغر مریخ کا ہوگا،یہ بھی راہو کیتو کے محور میں ہے لہٰذا آنے والے انتخابات میں بی جے پی شاید ایسی کامیابی حاصل نہ کرسکے جیسی کہ 2014 ء میں حاصل کی تھی،اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ نریندر مودی دوسری بار وزیراعظم نہ بن سکیں گے (واللہ اعلم بالصواب)۔

اتوار، 23 ستمبر، 2018

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

اکتوبر کی فلکیاتی صورت حال، پل پل رنگ بدلتا مہینہ
کہتے ہیں پاکستان ایک نہایت ہی سخت اور بحرانی دور سے گزر رہا ہے،ہم نے جب سے ہوش سنبھالا یہی سنا، گویا پاکستان کا مشکل وقت ختم ہونے ہی میں نہیں آتا، اب نئی حکومت آچکی ہے اور نئے اقدام یا فیصلے ہورہے ہیں، مشتری اور زہرہ کے ادوار جاری ہیں لہٰذا کسی بھی معاملے میں زیادہ خوش امید ہونے کی ضرورت نہیں ہے، خراب اوقات میں نیک نیتی ، لگن اور محنت سے کوششیں جاری رکھی جائیں تو حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے،پاکستان کے زائچے میں سیارہ زہرہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ آئندہ تین ماہ تک سول و ملٹری سروسز کی اصلاح و درستی کے موقع فراہم کرے گا لیکن اکتوبر کے آخر میں بیوروکریسی میں پایا جانے والا اضطراب کوئی رنگ دکھا سکتا ہے،حکومت کو چاہیے کہ اہم عہدوں پر مشکوک افراد کو نہ رکھیں، خصوصاً جن کا ماضی کسی اعتبار سے بھی متنازع ہو۔
سیارہ مریخ طویل عرصہ برج جدی میں گزار کر نومبر کے آغاز میں دسویں گھر میں داخل ہوگا، یہ وقت سربراہ مملکت اور کابینہ کے لیے نئی مشکلات لاسکتا ہے،اگر کسی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ان مشکلات پر قابو پانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا، اسی طرح اکتوبر کے مہینے میں سیارہ مشتری بھی چھٹے گھر سے ساتویں گھر میں داخل ہوگا، اس وقت بیرون ملک تجارت کے معاملات متاثر ہوسکتے ہیں، مزید یہ کہ پارلیمنٹ میں تناؤ اور فتنہ فساد کی صورت پیدا ہوسکتی ہے،ہم نے وزیراعظم کے زائچہ ء حلف کے حوالے سے بھی اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ آئندہ سال مئی تک انھیں خاصے مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا، خاص طور پر اکتوبر کا مہینہ بھی اس حوالے سے اہم ہے۔
ن لیگ کے قائد جناب نواز شریف ضمانت پر رہا ہوکر اپنے گھر واپس آگئے ہیں، یہ تمام لیگی کارکنوں اور قیادت کے لیے نہایت خوش کن بات ہے لیکن ان کے مقدمے بدستور جاری ہیں، موجودہ رعایت کا سبب دوسرے گھر میں سیارہ زہرہ اور مشتری کی سعد پوزیشن ہے، مشتری اکتوبر میں گھر تبدیل کرے گا، یہ بھی ان کے لیے مشتری کی سعد پوزیشن ہوگی جس کی وجہ سے انھیں مزید سپورٹ ملے گی، البتہ نومبر میں جب سیارہ مریخ چھٹے گھر میں داخل ہوگا تو دوبارہ قیدوبند کا اندیشہ موجود ہے،فی الحال راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن نومبر دسمبر اور نئے سال کے ابتدائی مہینے ان کے لیے بہتر نہ ہوں گے،انھیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات پر توجہ دیں اور کثرت سے استغفار پڑھا کریں، یہ خبر بھی سوشل میڈیا میں اور کمرشل میڈیا میں پھیل رہی ہے کہ ان کی رہائی کسی این آر او کی بدولت ہوئی ہے، ہمیں اس خبر کی صداقت مشکوک لگتی ہے۔
عزیزان من! جیسا کہ ہم بہت عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ دنیا بدل رہی ہے، پاکستان بھی بدل رہا ہے،اگر کچھ لوگ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں، ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟ بہر حال جو کچھ بھی ہوا وہ اب ایک حقیقت ہے اور اسے کھلے دل سے قبول کرلینا چاہیے،اسی میں پاکستان کی اور قوم کی بھلائی ہے، وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف اگر ملک و قوم سے مخلص نہ ہوگی اور اپنے دورِ اقتدار میں وہی کرے گی جو ماضی میں ہوتا رہا تو اسے بھی نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
وزیراعظم کے زائچہ ء حلف پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ آئندہ سال مئی کے بعد وہ زیادہ جارحانہ انداز میں نظر آئیں گے،یہ بھی مناسب نہیں ہوگا، اپنے پیدائشی زائچے کے مطابق برج میزان کے زیر اثر اگر وہ مصلحت اور مصالحت پسند ہیں تو اپنے قمری برج کے مطابق ان کے اندر ایک جنگ جو بچہ چھپا ہوا ہے جو ہر چیلنج کو فوری قبول کرکے کارروائی کا آغاز کردیتا ہے،سیارہ مریخ ان کے زائچے کے تیسرے گھر میں انھیں ایک ڈائنامک سوچ اور شخصیت کا مالک بناتا ہے،چوں کہ پیدائش قمری منزل اشونی میں ہوئی ہے جس کا حاکم غضب ناک کیتو ہے لہٰذا انھیں غصہ جلدی آتا ہے اور جب آتا ہے تو فوری طور پر ٹھنڈا نہیں ہوتا، یہ اور بات ہے کہ اب وہ عمر کی اس منزل میں ہیں جب انسان تحمل و برداشت کا عادی ہوجاتا ہے۔
پیدائشی زائچے کے اثرات کی روشنی میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ وہ جس ٹارگٹ کے پیچھے لگ جائیں اسے حاصل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے، فی الحال ان کا اہم ترین ٹارگٹ کرپشن کا خاتمہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں، چاہے اس راستے میں انھیں اپنی حکومت کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے،اسی طرح ملک میں پانی کے مسائل کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے وہ ڈیم بنانے کے لیے بھی پرامید ہیں، بہت سے لوگ جو ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں اور اسے ایک خام خیالی کہہ رہے ہیں بہت ممکن ہے آئندہ دو تین سال بعد وہ اپنی رائے تبدیل کرلیں، بہر حال اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو، ہم نے بہت برا وقت دیکھ لیا ، آخر کوئی تو امید کی کرن بن کر سامنے آئے ؂
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
اکتوبر کے ستارے
اقتدار کا ستارہ شمس اپنے برج ہبوط میزان میں ہے، 23 اکتوبر برج عقرب میں داخل ہوگا، سیارہ عطارد کی برج میزان میں حرکت کر رہا ہے،10اکتوبر برج عقرب میں داخل ہوگا، یہاں اسے اوج کی قوت حاصل ہوتی ہے،سیارہ زہرہ برج عقرب میں ہے، 6 اکتوبر کو اسے رجعت ہوجائے گی، سیارہ مریخ اپنی سیدھی چال پر برج دلو میں حرکت کر رہا ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں رہے گا، سیارہ مشتری بھی برج عقرب میں ہے اور زحل جدی میں ، یورینس برج ثور میں جب کہ نیپچون حوت میں اور پلوٹو جدی میں حرکت کر رہا ہے،یکم اکتوبر کو اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، راس و ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں ہیں، سیارگان کی یہ پوزیشن یونانی ایسٹرولوجی کے مطابق ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں سیارگان کے درمیان بننے والے زاویے کم ہیں، ایک قران، ایک تثلیث، چار تسدیس اور تین تربیع کے زاویے تشکیل پائیں گے،ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
10 اکتوبر: عطارد اور یورینس کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،چونکا دینے والی خبریں اور غیر متوقع صورت حال اس زاویے کا نتیجہ ہوتی ہے،یہ وقت کسی تبدیلی کے لیے مناسب نہیں ہوتا، کاموں میں کسی اپ سیٹ کی نشان دہی ہوتی ہے،اس وقت بہتر ہوگا کہ متبادل طریق کار کو بھی مدنظر رکھا جائے،تحریری یا تقریری معاملات میں بھی محتاط روی اختیار کی جائے، اہم دستاویزات پر اچھی طرح غوروفکر کے بعد دستخط کریں۔
12 اکتوبر: شمس اور پلوٹو کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت پاور پلے لاتا ہے،صاحب قوت و اقتدار افراد من مانی کرتے ہیں، عام افراد کو اس دوران میں اپنے باس یا اعلیٰ افسران سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسی تاریخ کو عطارد اور زحل کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت کاموں میں بہتری لاتا ہے،ترقیاتی امور پر توجہ دیں، آپ کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہوگی، تحریروتقریر کے لیے اچھا وقت ہے،بزرگ اور سینئر افراد سے مشورہ کرنا فائدے مند ہوگا۔
16 اکتوبر: عطارد اور زہرہ کے درمیان قران کا سعد زاویہ ہوگا، یہ وقت تمام ہی کاموں کے لیے مبارک ہوتا ہے،خصوصاً رشتے کی بات چیت ، نکاح وغیرہ اور لوگوں سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے اس وقت کوشش کرنا اچھا ہوگا، کاروبار یا جاب کے سلسلے میں کوئی نئی پیش رفت بھی کی جاسکتی ہے۔
19 اکتوبر: عطارد اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، پیچیدہ نوعیت کے معاملات پر غوروفکر کے لیے مناسب وقت ہے،الجھے ہوئے مسائل کو سلجھایا جاسکتا ہے،تخلیقی نوعیت کی سرگرمیاں عمدہ نتائج دیں گی،میوزک، شاعری، آرٹ کے شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ ہوسکتا ہے۔
اسی تاریخ کو عطارد اور مریخ کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ بھی ہوگا لہٰذا غصے اور اشتعال پر قابو رکھیں، دوسروں کے بھڑکانے یا طنز وغیرہ کرنے کو نظر انداز کریں، اپنے کام سے کام رکھیں، اس وقت شرپسند اپنا کردار ادا کرتے ہیں،ڈرائیونگ میں محتاط رہیں اور ایسے کاموں میں دور رہیں جن میں حادثات کا امکان ہوتا ہے۔
23 اکتوبر: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے، اہم خبروں کے اصول کے لیے اچھا وقت ہے،اپنی معلومات میں اضافے کے لیے کوشش کریں، تھوڑی سی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کرکے آپ اپنے مطلوبہ ٹارگٹ کو حاصل کرسکتے ہیں۔
24 اکتوبر: شمس اور یورینس کے درمیان مقابلے کا نحس زاویہ صاحب حیثیت و اقتدار افراد کو متاثر کرتا ہے،وہ غلط فیصلے اور اقدام کرسکتے ہیں جن پر بعد میں پچھتانا پڑے، گورنمنٹ سے متعلق کاموں میں غلط اندازے آپ کو مایوس کرسکتے ہیں، بہت کچھ آپ کی توقع کے خلاف سامنے آسکتا ہے۔
26 اکتوبر: شمس اور زہرہ کا قران ایک نحس زاویہ ہے،اس دوران میں شادی بیاہ، محبت و دوستی کے معاملات متاثر ہوتے ہیں،زندگی میں عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے،ازدواجی معاملات میں کوئی پریشانی سامنے آسکتی ہے،اس وقت جمعہ کے روز صدقہ دینا بہتر ہوگا، حکومت کے معاملات میں بیوروکریسی میں تبدیلیاں آسکتی ہیں یا نوکر شاہی پر عتاب نازل ہوسکتا ہے۔
28 اکتوبر: شمس اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ مثبت اقدامات کے لیے بہتر ہے،اس وقت عام افراد خصوصاً مزدور طبقے کے مفادات کے لیے فیصلے ہوسکتے ہیں، نئی جاب کی تلاش یا انٹرویو وغیرہ کے لیے مناسب وقت ہوگا۔
29 اکتوبر: عطارد و مشتری کا قران ایک سعد زاویہ ہے،کاروباری ترقی کے لیے مواقع نکلتے ہیں، بات چیت کے ذریعے مسائل حل ہوسکتے ہیں، نئے معاہدے اور وعدے اس وقت بہتر رہیں گے، قرض لینے دینے کے لیے بھی سعد وقت ہوگا۔
قمر در عقرب
قمر اپنے درجہ ء ہبوط پر 10 اکتوبر کو پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 12:38 pm سے 02:22 pm تک رہے گا، جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق رات 02:38 am سے 04:22 am تک ہوگا، یہ وقت انتہائی نحوست کا شمار ہوتا ہے،اس وقت میں علاج معالجے یا بری عادتوں سے نجات اور ظالموں سے نجات کے لیے نقش و وظائف کیے جاتے ہیں۔
عشق بندی بذریعہ الحمد شریف
عموماً لڑکے لڑکیاں ایسے عشق و معاشقے میں مبتلا ہوتے ہیں جو سمجھ دار ماں باپ کے نزدیک نامناسب اور غلط ہوتا ہے، لڑکے لڑکیاں اندھے ہوکر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور تعلیم و تربیت سے بے بہرہ ہوکر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں، ایسی صورت حال میں سورۂ فاتحہ کے ذریعے بندش کی جاسکتی ہے لیکن یہ عمل بھی سورج یا چاند گہن میں یا قمر در عقرب میں کرنا چاہیے، عمل مجرب ہے، اس کی عام اجازت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد اللہ بستم رویش رب العالمین بستم مویش و بستم دلش الرحمن بستم لبانش الرحیم بستم گوشش مالک یوم الدین بستم سینہ اش فلاں بن فلاں علی حب فلاں بن فلاں ایاک نعبدو بستم شکمش وایاک نستعین بستم زبانش اھدناالصراط المستقیم بستم دست ھاش صراط الذین بستم پائش انعمت علیھم بستم عقلش غیر المغضوب بستم ھوشش علیھم ولاالضالین آمین از ابلیس شیطان دیواں پریاں من بستم شمانیز بہ بندیدنامن نکشائم شماھم نکشائید بحرمت اھیاً اشراھیاً فلاں بن فلاں علی حب فلاں بن فلاں العجل العجل العجل الیوم الیوم الیوم۔
دونوں میں سے کسی کا پہنا ہوا کپڑا لے کر کالی روشنائی سے لکھیں اور سرہانے تکیے میں رکھ دیں یا مسہری وغیرہ میں سرہانے کی طرف پوشیدہ کردیں، پہلی مرتبہ فلاں بن فلاں کی جگہ لڑکے کا نام پہلے لکھیں اور لڑکی کا بعد میں، دوسری مرتبہ لڑکی کا نام پہلے اور لڑکے کا نام بعد میں لکھیں ۔
شرف قمر
قمر اپنے شرف کے برج ثور میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 24 اکتوبر کو داخل ہوگا اور درجہ ء شرف پر رات 11:09 pm سے 25 اکتوبر رات 12:57 am تک رہے گا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق دوپہر 01:09 pm سے 02:57 pm تک ہوگا، یہ سعد و مبارک وقت ہے، اس وقت نیک اعمال کرنے چاہئیں، خاص طور پر اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر کسی بھی نیک مقصد کے لیے دعا کریں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔
اوج عطارد
شرف کے بعد سیارہ عطارد کو اوج کی طاقت ور پوزیشن حاصل ہوتی ہے، گزشتہ دنوں شرف عطارد کے موقع پر لوح عطارد نورانی اور خاتم عطارد متعارف کرائی تھی، جو لوگ اس وقت فائدہ نہیں اٹھاسکے، اوج عطارد کے وقت یہ لوح یا خاتم تیار کرسکتے ہیں۔
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اوج عطارد کا وقت 12 اکتوبر کو 08:02 pm سے شروع ہوگا اور 13 اکتوبر 11:50 am تک رہے گا، اس عرصے میں عطارد کی ساعتیں کارآمد ہوں گی،باقی لوح یا خاتم بنانے کا طریق کار پہلے دیا جاچکا ہے،ہماری ویب سائٹ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔