ہفتہ، 10 نومبر، 2018

جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا


انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا بہترین ذریعہ علم نجوم ہے
کائنات عجائبات سے بھری پڑی ہے جس طرف بھی نظر ڈالئے قدرت خداوندی کا کوئی نہ کوئی عجوبہ نظر آجائے گا۔ نظام فلکی میں گردش کرتے ہوئے سیارے اور زمین پر پھیلے ہوئے دست قدرت کے عقل کو حیران کر دینے والے شاہکار پہاڑ، دریا، جنگل، ریگستان، سمندر اور پھر رنگ برنگی مخلوقات عالم۔ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر چیز انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی نظر آتی ہے لیکن ان تمام چیزوں کے درمیان یا یوں کہیں کہ ان تمام عجائبات عالم کے درمیان سب سے بڑا عجوبہ خود انسان ہے لہٰذا سب سے زیادہ غور و فکر اور مطالعے و مشاہدے کی ضرورت انسانی ذات اور صفات کو ہے۔
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے شاید اسی وقت سے انسانی ذات و صفات کے مطالعے اور مشاہدے کا عمل شروع ہو گیا تھا جو آج تک جاری ہے اور شاید قیامت تک جاری رہے گا۔ اس کام کی ضرورت تو دینی نکتہ نظر سے بھی ایک مسلم الثبوت اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ حدیث شریف میں یہ ارشاد رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم موجود ہے۔
’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔‘‘
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق انسان کو پہچاننے، جاننے اور سمجھنے کا سب سے بہترین ذریعہ علم نجوم ہے جس کے نتائج صدیوں کی تحقیق، تجربے اور مشاہدے کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ آج ساری دنیا اس علم کی افادیت کی قائل ہے اور اس سے استفادہ کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے معاشرے میں یہ علم عطائیوں اور دھوکے بازوں کی وجہ سے بہت بدنام ہے۔ اسے قسمت کا حال یا غیب کا علم سمجھا جانے لگا نتیجتاً مسلمانوں نے اس سے گریز کیا اور اسے طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا۔ یہ روایت ہمارے ہاں آج بھی جاری و ساری ہے۔
ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ لوگ اس علم کو محض شعبدہ بازی اور قیاس آرائی یا پھر غیب دانی سمجھتے ہیں۔ اکثر نئے لوگ جب ہم سے ملتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس علم کا شوق رکھتے ہیں تو وہ بڑے خوش ہو کر نہایت بے قراری سے یہ ضرر کہتے ہیں۔ ’’اچھا تو جناب پھر کچھ ہمارے بارے میں بھی بتایئے۔‘‘
تب ہمیں خیال آتا ہے کہ لوگوں کو اس علم کی حسابی پے چیدگی، نازک مزاجی اور سنجیدگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ یقیناًایسا سوال ہر گز نہیں کرتے۔ لوگ کسی ایسٹرولوجسٹ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں وہ سب کچھ چند منٹ میں بتا دے گا جو کہ وہ خود بھی جانتے ہیں اور پھر وہ بے اختیار تعریفی انداز میں کہیں گے۔ ’’واقعی آپ نے تو کمال کر دیا‘‘ لیکن اس کے برعکس اگر وہ انہیں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہے جو پہلے انہیں معلوم ہی نہیں تھیں یعنی ان کی شخصیت و کردار کے اسرار، ان کے چال چلن کے رنگ ڈھنگ، اچھے یا برے طور طریقوں، کامیابیوں یا ناکامیوں کے اسباب، وقت کے اتار چڑھاؤ کے اثرات اور وقت کی مہربانیوں یا سفاکیوں کے رنگ وغیرہ تو یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسے موقع پر ان پر اپنے جذبات و احساسات، ان کی اپنی پسند و ناپسند اور اکثر انا غالب آجاتی ہے اور وہ مطمئن نہ ہونے والے انداز میں یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کوئی خاص بات تو بتائی ہی نہیں۔
عزیزان من! اس ساری گفتگو کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ علم نجوم سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس علم کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم اس سے بھرپور فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
ستاروں اور برجوں کے اشارے بڑی وسعت و گہرائی رکھتے ہیں۔ جو لوگ علم نجوم سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان اشاروں کو سمجھ کر ایک شاعرانہ پیرائے میں بیان کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ یہ اشارے نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ ان کا اظہار کرتے ہوئے لفظوں کے خوبصورت پیرہن کی ضرورت ہوتی ہے بصورت دیگر ان کا برہنہ اظہار ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔
قدیم زمانوں سے پیش گوئی کا انداز شاعرانہ ہی رہا ہے۔ دنیا کے عظیم پیش گو ناسٹرا ڈیمس کو جب یہ خوف ہوا کہ لوگ اس کی پیش گوئیاں سن کر کہیں اسے پاگل نہ سمجھنے لگیں یا وہ مقتدر حلقوں کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائے تو اس نے اپنی تمام پیش گوئیاں اشعار کی شکل میں لکھ دیں جو آج تک محفوظ ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے کسی بھی پیش گو کو اس وقت بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے جب وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کی بات دوسروں کی سمجھ میں نہیں آئے گی یا وہ اس بات کا کوئی برا مفہوم لے لیں گے اور بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں وہ خود کوئی واضح نام یا عنوان نہیں دیتے۔ مثلاً ناسٹرا ڈیمس ہی کی مثال لے لیجئے کہ اس نے اٹلی کے بادشاہ کے انجام کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ اس کی لاش ایک لوہے کے بڑے سے تابوت میں ڈالی جائے گی جس میں 4 پہیے بھی لگے ہوں گے اور وہ تابوت خود بخود حرکت کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ پیش گوئی اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کی موت سے 400 سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت تک نہ انجن دریافت ہوا تھا نہ موٹر کاریں بنائی گئی تھیں نہ ہی کوئی وین یا ایمبولینس ٹائپ سواری موجود تھی۔ اسی طرح پہلی یا دوسری جنگ عظیم کے بارے میں اس نے پیش گوئی کرتے ہوئے بتایا کہ ان جنگوں میں لوہے کے بڑے بڑے پرندے آسمان سے آگ برسائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
ناسٹرا ڈیمس بہت قدیم پیش گو تھا موجودہ دور میں بلکہ گزشتہ کئی صدیوں میں اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم باتوں ہی باتوں میں اٹک کر ناسٹرا ڈیمس تک جا پہنچے۔
عزیزان من! ہم صرف یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ علم نجوم کو غیب دانی کا علم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ ایک حسابی علم ہے اور اس کے ذریعے سب سے پہلے اپنی ذات و صفات کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کے بعد وقت کی موافقت اور ناموافقت اس علم کا موضوع ہے۔ ان ہی دو باتوں پر ماضی، حال اور مستقبل کی پیش گوئیاں ممکن ہیں۔
جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ انسان کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور اس عجوبے کے مسائل بھی عجیب ہی ہوتے ہیں جو انسان کے اندر موجود خیر اور شر کی قوتوں کے درمیان تصادم کے بعد وجود میں آتے ہیں لیکن اکثر انسان یا تو اس کا ادراک نہیں رکھتے اور اگر ادراک ہو بھی جائے تو اپنی ذات کے مسائل سے نظریں چرانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
خیالات اور احساسات کے دباؤ سے نجات کا ذریعہ
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، ان تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیناک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات اور احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین، ان جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار، انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انھیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپا کی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات، حالات اور ماحول کے جبرکی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انھیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں ، نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے ہیں، وہ لکھتی ہیں۔
’’خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اس طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا۔
فرض عبادت کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انھیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں۔
یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات’’آزاد نگاری‘‘ یا ’’خود نویسی‘‘ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں ، انھیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انھیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیر یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباؤ میں ہو، یہ دباؤ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ، ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر(اگر کسی جذباتی الجھن اور تناؤ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ء علاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ’’مشق تنفس نور‘‘ بہترین ثابت ہوتی ہے اور طریقہء علاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔
کون بہتر ؟
ایف، اے لکھتی ہیں۔’’میں آپ کو دو افراد کی تاریخ پیدائش دے رہی ہوں۔ ان میں سے میرے لیے کون بہتر ہے جس سے میں شادی کرسکوں؟
پہلا شخص کیتھولک غیر مسلم ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ میں نے اس کے لیے کئی مرتبہ دعا کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ اس کا دل بدل سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کو سمجھ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے لیکن میں نے جب اسے اسلام کے اصولوں کے بارے میں بتایا تو اس نے ان کی تعریف کی۔ ہم دونوں کے درمیان خاصے طویل عرصے سے بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔
دوسرا شخص مسلمان ہے۔ میں امید کرتی ہوں آپ میری مدد کریں گے تاکہ میں درست لائف پارٹنر کا انتخاب کر سکوں۔‘‘
جواب:۔ عزیزم! مختصر الفاظ میں آپ کے سوالات کا جواب صرف دو جملوں میں دیا جا سکتا ہے کہ فلاں موزوں ہے اور فلاں ناموزوں لیکن شاید اس طرح آپ کی تسلی نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس کالم میں ہمارا مقصد صرف سوالوں کے جواب دینا ہی نہیں بلکہ علم نجوم کے تجزیہ سے متعلق دلائل کا اظہار کرنا بھی ہے لہٰذا ہم دونوں افراد کی تجزیاتی رپورٹ یہاں پیش کر رہے ہیں۔ فریق اول جو غیر مسلم ہے اگرچہ آپ کے لیے ناموزوں نہیں ہے کیوں کہ آپ کا شمسی برج جوزا اور اس کا میزان ہے۔ دونوں کے درمیان معقول ذہنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے لیکن جہاں تک اس کے مذہب تبدیل کرنے کا سوال ہے اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی باتوں سے بقول آپ کے وہ خاصا متاثر ہے اور اسلامی اصولوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور آپ نے یہ بھی کہا کہ مذہب سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ میزانی افراد توازن پسند اور ہم آہنگی برقرار رکھنے والے ہوتے ہیں خصوصاً تعلقات میں وہ کوئی ایسی بدمزگی نہیں چاہتے جس سے تعلقات متاثر ہوں لہٰذا اکثر ناگوار اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اکثر مصلحت پسندی سے بھی کام لیتے ہیں اور اس خیال سے کہ کوئی تنازع نہ پیدا ہو، کبھی کبھی اپنے اصل نظریات کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔ بے حد انصاف پسند ہوتے ہیں اس لئے ہر قسم کے نظریات پر غور و فکر کر لیتے ہیں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ دوسروں کا موقف سنتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے یا ان کے خیالات سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اس کا قمری برج عقرب ہے لہٰذا وہ اپنی فطرت میں نہایت گہری اور اپنے ذاتی نظریات میں بہت شدت پسندانہ مضبوط سوچ رکھنے والا انسان ہے اور اس حوالے سے اس کی سوچ کو تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے پیدائشی مذہب سے مطمئن نہ ہو اور دیگر مذاہب عالم کے حوالے سے بھی اس کی سوچ بے اعتمادی کا شکار ہو لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ اس کے زائچے کی دیگر صورت حال بھی اس امکان کی نفی کرتی ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک رومان پرست اور اپنی خواہشات کا غلام انسان ہے۔ ممکن ہے آپ سے شادی کی خاطر یا کسی اور مقصد کے تحت مذہب تبدیل کر لے مگر یہ تبدیلی دائمی نہیں ہو گی چنانچہ یہ بات آپ کو بہرحال ذہن میں رکھنا ہو گی۔ زائچۂ پیدائش میں سیارہ عطارد الٹا پڑا ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی سوچ اور خیال نظریۂ ضرورت کے تحت اکثر و بیشتر بدلتا رہتا ہے اور آئندہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ بہرحال آپ بھی ایک بڑا قلابازیاں کھانے والا ذہن رکھتی ہیں لہٰذا ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔‘‘
فریق ثانی ہمارے نزدیک آپ کے لیے زیادہ موزوں شخصیت ہے۔ اس کا شمسی برج قوس ہے جو آپ کے برج جوزا سے مقابلے کا برج بھی ہے اور شراکت کا بھی۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے اچھے شریک کار اور شریک حیات ثابت ہو سکتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جتنی بے چینیاں اور بے قراریاں، جلد بازیاں اور ذہنی قلابازیاں آپ کے اندر موجود ہیں اتنی ہی دوسری جانب بھی ہیں۔ گویا یہ نہلے پر دہلا ہے۔ آپ کو جن خوبیوں کی تلاش ہے وہ برج قوس میں موجود ہیں اور برج قوس کو جو باتیں لبھاتی ہیں اور جن حرکتوں سے وہ خوش ہوتا ہے وہ سب آپ کے اندر موجود ہیں۔ آپ دونوں بہت پرامید، خوش مزاج اور نہایت بے فکرے ہیں۔ ایک دوسرے کی رفاقت میں خوب انجوائے کریں گے۔ دونوں غیر معمولی طور پر ذہین ہیں اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو سراہنے والے اور خامیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کر دینے والے ہیں لہٰذا بہتر ہو گا کہ اپنی اسلامی مہم جوئی کو چھوڑ کر فریق ثانی کو لائف پارٹنر منتخب کر لیں۔
تعلیم اور شادی
ایس، ایچ لکھتی ہیں’’میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والد میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پہلے پری میڈیکل کا شعبہ اپنے لیے منتخب کیا تھا لیکن مالی حالات کی وجہ سے آگے نہیں پڑھ پائی۔ اب میرا ارادہ پھر سے سخت جدوجہد کے ساتھ آگے پڑھنے کا ہے۔ براہ مہربانی میری رہنمائی کیجیے اور بتائیے کہ میرے لیے کون سا شعبہ صحیح رہے گا؟‘‘
جواب:۔ پیاری بیٹی! تم بہت بہادر اور ہمت والی ہو۔ تمہارے دو برج جدی اور سنبلہ خاکی عنصر رکھتے ہیں اور زائچے میں سیارہ زحل بھی اپنے برج عروج جدی میں ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہاری سوچ بہت عملی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ تم یقیناًاپنے والدین کے لئے ایک بیٹے کا کردار ادا کر سکتی ہو۔
بہتر ہو گا کہ اب اپنے لیے کامرس یا آرٹس کا شعبہ منتخب کرو۔ اگر آرٹس کا شعبہ لیتی ہو تو بعد میں ایل ایل بی کر سکتی ہو۔ قانون، اکاؤنٹس وغیرہ تمہارے لیے مناسب شعبے ہوں گے اور دوران تعلیم تمہیں وہ پریشانیاں بھی نہیں ہوں گی جو پری میڈیکل میں پیش آئیں۔ باقی تمہارے والد اگر تمہاری شادی کے لیے اصرار کر رہے ہیں تو اپنی دانست میں وہ بہرحال بہتر ہی سوچ رہے ہیں لیکن ہمارے خیال سے وہ ایسا کر کے غلطی کریں گے۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے مزید یہ کہ خراب وقت چل رہا ہے۔ اس دوران میں اگر شادی ہوئی تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ کم از کم تین چار سال تمہاری شادی نہ کی جائے اور تمہیں تعلیم مکمل کرنے اور کرئر بنانے کا موقع دیا جائے۔ تقریباً 2020۔ 2021 سے تمہارا بہتر وقت شروع ہو گا اس وقت تک تمہیں محنت اور جدوجہد کر کے اپنا تعلیمی کرئر مضبوط کرنا ہو گا۔ ہفتہ کے روز اپنا صدقہ کسی کالی چیز کا دیا کرو اور نیلم، ترملین یا گارنیٹ کا نگینہ بائیں ہاتھ کی سب سی چھوٹی انگلی میں پہن لیں۔
خاندانی شراکت
این، آر: عزیزم! آپ دونوں میاں بیوی کا شمسی برج جدی ہے لیکن چونکہ آپ کے قمری برج جدا جدا ہیں یعنی آپ کے شوہر کا قمری برج سرطان ہے اور آپ کا سنبلہ۔ یہ بہت اچھی بات ہے آپ دونوں کے درمیان اسی وجہ سے محبت اور ہم آہنگی ہے۔ دونوں عملی سوچ رکھتے ہیں مگر شوہر کا جھکاؤ اپنے خاندان کی طرف زیادہ ہے۔ قمری برج سرطان ہونے کی وجہ سے وہ اپنی ماں، بہن، بھائیوں سے دور رہ کر خوش نہیں رہ سکتے۔ یہی چیز انہیں علیحدہ ہونے سے روک رہی ہے اور بنیادی طور پر آپ دونوں نہایت ضدی اور اپنی حاکمیت قائم کرنے والے ہیں۔ آپ اپنے شوہر کے مقابلے میں زیادہ سخت مزاج ہیں۔ مزید یہ کہ آپ کے قمری برج سے زحل کی ساڑھ ستی بھی چل رہی ہے لہٰذا ہمارا مشورہ یہی ہے کہ فی الحال معاملات کو زیادہ بگاڑنے کی کوشش نہ کریں، شوہر کی بات مان لیں اور جیسے تیسے ایک ہی گھر میں گزارا کریں۔ اپنے تنقیدی مزاج اور سخت رویہ پر نظر ثانی کریں۔ آپ کا شوہر بہت محبت کرنے والا اور نرم دل انسان ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سخت رویے اور دو ٹوک انداز میں اسے آپ سے کسی حد تک بدگمان کر دیا ہے اسی لیے وہ آپ کے ہاتھ میں پیسے بھی نہیں دیتا۔ آپ بے شک اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی ہیں اور نہایت ذمہ دار بھی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ محبت کے اظہار کی قائل نہیں ہیں، آپ کے عمل سے تو محبت ظاہر ہوتی ہے لیکن زبان سے اس کا اظہار کرنا ضروری نہیں سمجھتیں جب کہ آپ کا شوہر آپ سے یہی کچھ چاہتا ہے۔ آپ کا روکھا اور خشک انداز اور آپ کا بہت زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میاں بیوی کے درمیان رومانس کا قاتل ہے۔ اسی طرح قمری برج سنبلہ کی وجہ سے آپ سے کوئی غلطی برداشت ہی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کی غلطیوں کی بھی اصلاح کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اس طرح آپ دوست کم اور دشمن زیادہ بناتی ہیں۔ بہرحال آپ کے لئے بھی ہفتہ کے روز صدقہ دینا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر نیلم، گرین یا براؤن ترملین یا گارنیٹ میں سے کوئی پتھر بھی پہن لیں تو آپ کے مسائل کے حل میں آسانی ہو گی بصورت دیگر یاد رکھیں یہ سال آپ کو کسی بڑے جذباتی صدمے سے بھی دوچار کر سکتا ہے۔

ہفتہ، 3 نومبر، 2018

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
کیا پاکستان کسی سویلین ایمرجنسی کی جانب بڑھ رہا ہے؟
وزیراعظم عمران خان کے زائچہ ء حلف کا تجزیہ کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ آئندہ سال مئی تک مشکلات اور رکاوٹیں حکومت کو پریشان کریں گی اور خاص طور پر 19 دسمبر سے 23 فروری تک کا عرصہ نہایت سخت اور کٹھن ثابت ہوگا، زائچہ ء حلف کا طالع میزان ہے جو وزیراعظم کے پیدائشی زائچے کا بھی طالع ہے، اس اعتبار سے سیارہ زہرہ دونوں زائچوں کا حاکم ہے،پیدائشی زائچے میں تو یہ نہایت طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے لیکن زائچہ ء حلف میں اس کے برعکس نہایت کمزور ہے، گزشتہ ماہ 20 اکتوبر سے یکم نومبر تک سیارہ زہرہ، شمس کے انتہائی قریب رہا، اس صورت حال کو اصطلاحاً کسی ستارے کا غروب ہونا کہا جاتا ہے، صاحب زائچہ کی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے، اسی عرصے میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کے مقدمے کا فیصلہ سنادیا جس کے نتیجے میں پورے ملک میں شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی، 2 نومبر کو ملک گیر احتجاج ہوا اور اسی روز جمیعت العلمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے (انا للہ وانا الہ راجعون)
وزیراعظم برادر ملک چین کے دورے پر گئے ہوئے ہیں، پاکستان کے زائچے کی صورت حال روز بہ روز بگڑتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں مسائل اور حادثات مسلسل جاری ہیں اور بہ حیثیت وزیراعظم عمران خان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے،اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نیک نیتی اور سچائی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کوششوں میں غلطیوں سے بچنے کی ضرورت ہے کیوں کہ مخالفین اور ملک دشمن قوتیں ان غلطیوں ہی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
سویلین ایمرجنسی کی ضرورت
زائچہ ء پاکستان کے مطابق 19 دسمبر سے ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے کہ ملک میں سویلین ایمرجنسی نافذ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے،کیا وزیراعظم اس آپشن پر غور کریں گے؟اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین جناب آصف علی زرداری نے حکومت سے تعاون کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسمبلی میں کہا ’’قدم بڑھاؤ عمران خان، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔بظاہر یہ بڑی خوش آئند باتیں ہیں، ان پر کسی حد تک عمل ہوگا، اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا، ہم زائچہ ء پاکستان کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں کہ حالات روز بہ روز مزید خراب سے خراب تر ہونے کا امکان موجود ہے،پاکستان کا معاشی بحران بھی اپنی جگہ ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان عوام کو پاگل کر رہا ہے،اس بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جارہا ہے، دوسرا آپشن ان لوگوں سے وصولی کا ہے جنھوں نے ملک میں ناجائز طور پر لوٹ مار کرکے اربوں کھربوں کے اثاثے بنالیے ہیں اور پاکستانی عام قوانین اتنے طاقت ور نہیں ہیں کہ ایسے لوگوں سے بھرپور طریقے سے نمٹا جاسکے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک میں کچھ خصوصی قوانین نافذ کیے جائیں جو اسمبلی کے ذریعے ممکن نہیں ہیں، کسی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ہی ایسا ممکن ہوسکے گا، اسی طرح سیاسی کھیل میں انتہا پسند عناصر جو کردار ادا کررہے ہیں انھیں بھی کنٹرول کرنے میں خصوصی قوانین معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
19 دسمبر سے 23 فروری کے درمیان زائچہ ء پاکستان اور زائچہ ء حلف وزیراعظم کی کیفیت نہایت تشویش ناک نظر آتی ہے،اس سے پہلے ہی اگر معقول احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو بہتر ہوگا، واضح رہے کہ برسوں پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے حکومت چلاتے رہے ہیں اور اس طرح انھوں نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ، بے شک یہ ایک خطرناک ہتھیار ہے جس کا غلط استعمال نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے مگر ضرورت ایجاد کی ماں ہے، یہ ہتھیار عارضی طور پر چند مہینوں سے زیادہ استعمال نہیں ہونا چاہیے، گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوا ، اس تناظر میں مشہور شاعر جمیل مظہری کا شہرہ آفاق شعر بہت یاد آیا ؂
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار
برسوں سے ہزاروں خطوط ہمیں موصول ہوتے رہے ہیں، ایسے ہی خطوط میں سے ایک خط پیش نظر ہے، ہمیں یقین ہے کہ بے شمار نوجوان اس نوعیت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اس خط سے یقیناً انھیں رہنمائی مل سکتی ہے۔
’’اس وقت میری عمر 21 سال سے زائد ہے، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہی اپنے آپ کو سمجھ نہیں پایا، مجھ میں ہر وقت ایک اندرونی خوف رہتا ہے، میری سوچ بھی منفی ہے، وجہ صرف یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو اپنے دماغ کو ، اپنے چہرے کو کنٹرول نہیں کرپاتا، بس خوف ہی خوف ہے، اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ نہیں بناپاتا، اگر بنا بھی لیتا ہوں تو اس پر عمل کرنا میرے جسم کے لیے بالکل ناممکن ہے، بس اسی سوچ میں صحت بھی گرتی جارہی ہے، میں نے میٹرک پاس کیا ہے اور بہت آگے تک پڑھنے کا ارادہ تھا، میں کچھ بننا چاہتا تھا، جب نویں میں تھا جب ہی سے یہ حال تھا اور میرے لیے مزید پڑھنا محال تھا لیکن خدا خدا کرکے میٹرک کر ہی لیا لیکن اب صورت حال بہت خراب ہے، اب آپ بتائیں میں اپنے آپ کو کنٹرول کروں یا پڑھائی پر توجہ دوں، میں سنجیدگی اور ہمت سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن ایک طرح سے ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکا ہوں، میں انتہائی بے بس اور پریشان ہوں، سوچتا ہوں کہ کوئی خدا کا قابل بندہ ملے تو اس کی رہنمائی حاصل کروں، شاید کہ وہ آپ ہوں، میں خدا کی بندگی سے بہت دور ہوں، پہلے میں پابندی سے نماز پڑھتا تھا لیکن بے بسی بڑھتی گئی، نماز میں کھڑے ہوئے بہت شرم آتی ہے، مجمع میں خوف و ڈر محسوس ہوتا ہے، لوگوں سے بات کرتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے، نہایت ہی بے اعتماد ہوں اور اپنے آپ پر بالکل بھی بھروسا نہیں، کیفیت ہی ایسی ہوگئی ہے، ہر کام سے فرار چاہتا ہوں، میں کسی بھی کام یا مسئلے کے بارے میں ہمیشہ منفی زیادہ اور مثبت کم سوچتا ہوں، آپ سے التجا ہے کہ خصوصی طور پر میرے مسئلے پر توجہ دیں اور حل تجویز فرمائیں‘‘۔
عزیزم! آپ اس حال کو جس وجہ سے پہنچے ہیں، اس کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کہیں نہیں کیا، اپنی اصل بیماری کو پوشیدہ ہی رکھا، بہر حال آپ کی تحریر اور اس میں بیان کردہ علامات صاف طور پر آپ کی اصل بیماری پر روشنی ڈال رہی ہیں، یہ بیماری نوجوانوں میں عام ہے، ہم اس موضوع پر بے حد تفصیل سے لکھ چکے ہیں، بہترین بات تو یہ ہوگی کہ پہلے اپنی اس عادت بد سے نجات حاصل کریں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے؟
یقیناً یہ نہایت اہم سوال ہے کیوں کہ آپ جیسے مریض درحقیقت اپنی اس عادت بد سے پیچھا چھڑانے میں عموماً ناکام ہی رہتے ہیں لیکن صدق دل سے کوشش کی جائے تو ایسا ناممکن کام بھی نہیں ہے۔
جب بستر پر سونے کے لیے لیٹنے کا ارادہ کریں تو پہلے وضو ضرور کرلیا کریں، پھر بستر پر لیٹ کر ایک چھوٹی سی سانس کی مشق کرلیں یعنی سیدھے لیٹ جائیں اور ہمیشہ اپنا سر شمال کی جانب کرکے لیٹا کریں، لیٹنے کے بعد چند گہری گہری سانسیں ناک کے ذریعے لیں یعنی سانس اندر کھینیچیں اور باہر خارج کریں، چند بار ایسا کرنے سے آپ کے اعصاب کا تناؤ ختم ہوجائے گا اور جسم ڈھیلا پڑ جائے گا، اب آنکھیں بند کرلیں اور سبز روشنی کا تصور کریں یعنی یہ خیال ذہن میں لائیں کہ آپ کے گرد سبز روشنی پھیلی ہوئی ہے اور آپ اس کے موجیں مارتے ہوئے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، چند سیکنڈ جب اس خیال پر توجہ مرکوز ہوجائے تو ناک سے آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں اور یہ خیال کریں کہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی سبز روشنی کو ناک کے ذریعے اپنے جسم میں داخل کر رہے ہیں، جب پھیپھڑوں میں خوب ہوا بھر جائے تو سانس روک لیں اور سوچیں کہ آپ نے ناک کے ذریعے جو سبز شعائیں جسم میں داخل کی ہیں وہ آپ کے تمام جسم کو سبز کر رہی ہیں، سانس صرف اتنی ہی دیر روکیں جتنی دیر روک سکتے ہوں، جب سانس روکنا مشکل معلوم ہو تو منہ کے ذریعے تیزی سے خارج کردیں اور اس وقت یہ خیال کریں کہ سانس کے ہمراہ جسم کی اندرونی کثافت(گندگی) باہر نکل رہی ہے اور اس کے اخراج سے آپ فرحت اور اطمینان محسوس کر رہے ہیں۔
اب ایک لمحہ رک کر یہ غور کریں کہ واقعی آپ خود کو پہلے سے بہتر اور مطمئن محسوس کر رہے ہیں، اس کے بعد دوبارہ ناک سے سانس اندر کھینچیں مگر اس بار تیزی کے ساتھ اور تصور یہی رہے کہ سبز شعاعیں ناک کے راستے جسم میں داخل ہورہی ہیں پھر حسب سابق سانس روک کر وہی پہلا خیال ذہن میں دہرائیں اور جب سانس روکنا دشوار محسوس ہو تو منہ سے آہستہ آہستہ خارج کریں اور سانس باہر خارج کرتے ہوئے گندگی کے اخراج کا خیال کریں، تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کریں مگر اب پھر ناک سے سانس آہستہ آہستہ لیں اور جب خارج کریں تو تیزی کے ساتھ۔
اس طریقے پر اگر ابتدا میں صرف تین مرتبہ یعنی سانس اندر کھینچنے اور باہ رنکالنے کا عمل کرلیں تو بہت ہے، البتہ اگر ہمت زیادہ ہو اور بہت تھکان محسوس نہ ہو تو پانچ مرتبہ تک کرسکتے ہیں۔
اس کام سے فارغ ہوکر سونے کی کوشش کریں اور ذہن میں یہ خیال رکھیں کہ اب میں پہلے سے زیادہ بہتر ہوں، میری کمزوریاں دور ہورہی ہیں، میں خود کو گندگی سے پاک اور ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں، اب مجھے نیند بھی بہت گہری اور پر سکون آئے گی، امید ہے کہ یہی باتیں سوچتے سوچتے آپ گہری نیند میں چلے جائیں گے اور صبح جب سوکر اٹھیں گے تو خود کو بہت چاق و چوبند محسوس کریں گے۔
کوشش کریں کہ صبح جب پہلی بار آنکھ کھلے تو فوراً بستر چھوڑ دیں، دوبارہ سونے کا خیال دل میں نہ لائیں، اٹھ کر باتھ روم میں جائیں اور غسل کریں یا غسل کرنا مکن نہ ہو تو وضو ضرور کرلیں۔
عزیزم! ہمیں یقین ہے کہ آپ نے ہماری ہدایت پر 75 فیصد بھی عمل کرلیا تو آپ اپنی مایوس اور پریشان زندگی میں ایک انقلاب رونما ہوتے دیکھیں گے، بری عادتیں ختم ہونے لگیں گی اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں آپ ایک مختلف انسان نظر آنے لگیں گے، قوت ارادی میں اضافہ ہوگا، ذہنی صلاحیتیں بہتر ہوں گی، حافظہ اور ہاضمی عمدہ ہوجائے گا، بھوک کھل کر لگے گی، زندگی سے متعلق مثبت کاموں کی طرف آپ راغب ہونے لگیں گے، ذہن میں چھپے نامعلوم خوف زائل ہونے لگیں گے، آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے آپ کوکوئی بہت مشکل کام بتادیا ہے جو آپ کی ہمت و طاقت اور استطاعت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ مزید بہتری کے لیے ہومیو پیتھک دوا اسٹیفی میگر یا چھ طاقت میں اور چائنا چھ طاقت میں ساتھ لیتے رہیں تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوگی، آخری بات جو نہایت ضروری ہے، سانس کی مشق رات کو سونے سے پہلے کسی صورت میں نہ چھوڑیں، اس سلسلے میں کوئی بہانہ ذہن کو نہ سوچنے دیں، ہم نے دیکھا ہے کہ آپ جیسے مریض پابندی سے علاج نہیں کرتے اور علاج نہ کرنے کے سو بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں، مثلاً فلاں ہدایت پر تو ہم نے عمل کرلیا تھا مگر فلاں پر چوں کہ زیادہ دن عمل نہ ہوسکا تو سوچا اب کسی دوسری ہدایت پر بھی عمل کا کیا فائدہ، یہ بہت بڑی غلطی ہوتی ہے، یاد رکھیں کسی ایک ہدایت پر بھی عمل جاری رکھا تو ممکن ہے کچھ عرصے بعد دوسری ہدایات پر بھی عمل پیرا ہوجائیں۔
کالا جادو
وقاص احمد نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ایک صاحب پر کسی عورت نے کالا جادو صرف اس وجہ سے کردیا تھا کہ اس عورت کے ہاں بیٹے پیدا نہیں ہوتے تھے، اس جادو کے اثر کی وجہ سے اسے بھیانک خواب نظر آنے لگے۔
وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں’’وہ دیکھتا کہ کوئی عجیب بلا اس کو مٹکے میں ڈال رہی ہے، اس کو اپنی موت کا اندازہ ہوگیا تھا، وہ ہمیشہ گھر بدلنے پر اصرار کرتا تھا، اس کی والدہ نے ایک عامل سے رجوع کیا، انھوں نے اسی عورت کی نشان دہی کی کہ اس نے اپنی اولاد میں بیٹوں کے لیے تمہارے بیٹے پر کچھ کروادیا ہے پھر عامل صاحب نے والدہ کو ایک عمل پڑھنے کو دیا اور بتایا کہ خواب میں وہ واضح نظر آجائے گا جس نے تمھارے بیٹے پر کچھ کیا ہے اور پھرکوئی ٹائم ضائع کیے بغیر میرے پاس آجانا لیکن والدہ کی بے پروائی کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا، وہ دو تین دن کے بعد عامل کے پاس گئیں، جب عامل صاحب کو یہ پتا چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے، انھوں نے کہا کہ اب تمھارا بیٹا نہیں بچ سکتا، والدہ نے خواب میں اسی عورت کو دیکھا تھا اور پھروہی ہوا، اس لڑکے کی حالت بہت خراب ہوگئی، اس کے پیٹ کا درد بڑھتا چلا گیا، سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے پیٹ کے نیچے بہت ساری ٹانگوں کی انگلیاں چل رہی ہیں، اسپتال میں ڈاکٹر نے آپریشن کیا تو پیٹ میں عجیب قسم کے جاندار نکلے جن کی شکلیں شیر جیسی تھیں، ڈاکٹر خوف زدہ ہوگئے لیکن انھوں نے آپریشن جاری رکھا لیکن وہ نہ بچ سکا، اب اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں لیکن تمام گھر والے اب تک اس جادو کے اثرات سے نہیں نکل سکے ہیں‘‘
عزیزم! یہ واقعہ ہمیں حقیقت سے زیادہ فکشن معلوم ہورہا ہے کیوں کہ کراچی کے کسی بھی اسپتال میں آپریشن کے دوران ایسی عجیب مخلوق پیٹ سے برآمد ہوئی ہوتی تو اخبارات تک یہ خبر ضرور آتی اور پھر اس مخلوق کی زندہ یا مردہ نمائش کا اہتمام بھی ہوسکتا تھا مگر کم از کم ہمارا حافظے میں تو ایسا کوئی واقعہ اخبار میں نہیں آیا، اخبا رہم ہمیشہ سے بڑی پابندی سے اور توجہ سے پڑھتے ہیں، دوسری بات یہ کہ عامل صاحب کا رویہ بھی ناقابل فہم ہے، وہ یقیناً کوئی جعلی عامل ہی ہوں گے، ایسی حرکتیں وہی کرتے ہیں، لڑکے کی والدہ نے پہلے ہی اس عورت کے خلاف ذہن بنالیا تھا اور پھر عامل سے جاکر اپنے شک کا اظہار کیا اور موصوف نے تائید بھی فرمادی، پھر اس عورت کو خواب میں دیکھنے کا عمل بھی بتادیا ، آخر اس سارے ڈرامے کی ضرورت کیا تھی؟ سیدھا سیدھا لڑکے کا علاج کرنے پر توجہ دینا چاہیے تھی، پھر یہ شرط بھی عجیب ہے کہ خواب دیکھتے ہی فوراً آجانا، تاخیر کی صورت میں لڑکے کی موت کا فتویٰ دے کر علاج سے منہ موڑلیا، رہا سوال خواب میں اس عورت کو دیکھنے کا تو یہ سارا نفسیاتی عمل ہے جو بات آپ کے لاشعور میں پختہ جگہ بنالے گی یعنی ریکارڈ ہوجائے گی وہی خواب میں ری پلے ہوگی، اصل مرض کچھ اور ہوگا اور علاج کچھ اور ہوتا رہا، یہاں تک کہ لڑکا آپریشن ٹیبل تک پہنچ گیا، اول تا آخر اسے کالے جادو کا نام دیا جاتا رہا ہے اور اپنی حماقتوں اور درست علاج معالجے سے غفلت کے جرم پر اس بودی کہانی کے ذریعے پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خیالات اور احساسات کے دباؤ سے نجات کا ذریعہ
انسان فطرت سے نہیں لڑسکتا، فطرت کے تقاضوں سے منہ نہیں موڑ سکتا، ان تقاضوں سے فرار کی کوشش نہایت پیچیدہ اور بعض اوقات بھیناک قسم کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
عورت ہو یا مرد فطری جذبات اور احساسات اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مثلاً کسی پسندیدہ بات یا منظر سے متاثر ہوکر خوش ہونا اور فرحت حاصل کرنا یا کسی ناپسندیدہ بات یا صورت حال سے متاثر ہوکر ملول و غم زدہ ہونا، غصے میں آنا وغیرہ، ایک معصوم بچہ جیسے جیسے بلوغت کی دہلیز کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کے جذبات و احساسات میں اسی مناسبت سے تبدل و تغیر رونما ہوتا ہے، یہ نئے جذبات اور احساسات اس کے فطری جسمانی و روحانی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن معاشرتی و اخلاقی اور مذہبی قوانین، ان جذبات و احساسات کا برہنہ اظہار، انسان کو وحشت و درندگی کی طرف نہ لے جائے اور وہ ایک مہذب معاشرے کا مہذب فرد بن کر رہے۔
اخلاقی و مذہبی پابندیاں بھی اگر نارمل حدود سے گزر کر انتہا پسندی کی صورت اختیار کرلیں تو اکثر حساس طبیعت افراد کی نفسیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ عجیب و غریب نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی کو عذاب بنالیتے ہیں، اکثر تو دوسروں کی تضحیک کا نشانہ بھی بنتے ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض افراد کو صفائی اور پاکیزگی کا خبط ہوجاتا ہے، ہاتھ بھی دھونا شروع کریں تو خاصی دیر تک انھیں مل مل کر رگڑ رگڑ کر دھوتے رہتے ہیں، دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کا ہاتھ گندہ نہ ہوجائے، الغرض ہر طرف گندگی کا یہ احساس ان پر اتنا زیادہ غالب ہوتا ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں گھل مل کر رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ عموماً دوسروں کے لیے تماشا بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ پیچیدہ کیس خواتین میں نظر آتے ہیں، گندگی اور ناپا کی، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز کے گہرے احساسات، حالات اور ماحول کے جبرکی وجہ سے اکثر ان کے لاشعور میں اس طرح جذب ہوجاتے ہیں کہ پھر انھیں عمر بھر اپنے فطری تقاضوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہنا پڑتا ہے، اس جنگ کے نتیجے میں بڑے بڑے تباہ کن امراض جنم لیتے ہیں، گھریلو اور ازدواجی زندگی تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے، اولاد کی پرورش بھی نامناسب طریقے پر ہوتی ہے، شوہر دوسری شادی کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یا دوسری خواتین سے عشق لڑانا شروع کردیتے ہیں اور اس تمام صورت حال کا ذمے دار سحرو جادو یا کسی جن بھوت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس تمام گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک خط کا مطالعہ کرتے ہیں ، نام و پتا ہم پردہ داری کے خیال سے ظاہر نہیں کر رہے ہیں، وہ لکھتی ہیں۔
’’خدا آپ کو صحت دے، آپ دکھی لوگوں کے مسئلے اس طرح حل کرتے رہیں، اس دکھی بہن کو بھی کچھ بتادیجیے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں ناپاک خیالات آجاتے ہیں، ایسے کہ نعوذ باللہ، ایک بے ہودہ لفظ تو میرے ذہن میں جم کر رہ گیا ہے، کسی بھی چیز کا خیال کرتی ہوں تو وہ لفظ فوراً ذہن میں آجاتا ہے، میں نماز پابندی سے پڑھتی ہوں، کلمہ پڑھتی ہوں، توبہ استغفار کثرت سے کرتی ہوں، درود شریف کا ورد مستقل رہتا ہے، اللہ سے رو رو کر معافی مانگتی ہوں مگر لگتا ہے کہ اللہ بھی ناراض ہوگیا ہے، میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ یہ خیالات میرے ذہن سے دور ہوجائیں مگر یہ جان ہی نہیں چھوڑتے،ہم لوگ رزق حلال کھاتے ہیں اور میں اپنی پوری کوشش کرتی ہوں کہ زندگی خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزاروں مگر یہ شیطانی، فاسق خیالات زندگی عذاب بنائے ہوئے ہیں، اتنا رو رو کر خدا سے دعا کرتی ہوں مگر کچھ نہیں ہوتا، کیا میرے اوپر کوئی سحری اثر تو نہیں ہے؟ آپ بتائیں کیا وجہ ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا پڑھوں کہ میرا دل پاک و صاف خیالات کا مرکز بن جائے، میں روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتی ہوں، مجھے مرشد کامل کی بھی تلاش ہے، آپ کے پاس میرا علاج ہو تو پلیز ضرور تفصیل سے لکھ دیجیے کہ میں کیا کروں؟‘‘
عزیز بہن! آپ کے خط سے پہلے ہم نے جو گفتگو کی ہے، اسے پھر سے پڑھیں اور پھر اپنی زندگی میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں، مذہبی اور روحانی تصورات کو انتہا پسندانہ انداز میں خود پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں، انسانی فطرت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اس حقیقت پر غور کریں کہ آپ جس معاملے میں بھی شعوری طور پر خود پر جبر کرنے کی کوشش کریں گی وہ لاشعوری طور پر آپ کے لیے اذیت ناک مسئلہ بن جائے گا۔
فرض عبادت کے ساتھ مذہبی و اخلاقی تصورات اپنی جگہ لیکن ان کی روشنی میں دنیا میں موجود دیگر حقائق سے یکسر بے زاری اور نفرت کا احساس حد سے زیادہ بڑھ جانا ایک نارمل کیفیت نہیں ہے، دنیا میں جو اچھائیاں اور برائیاں موجود ہیں ہمیں ان کے درمیان زندگی گزارنی ہے، اچھائیوں کے ساتھ برائیوں کا بھی مشاہدہ کرنا ہے اور ان پر غوروفکر کرکے ہی کسی اچھائی یا برائی میں تمیز کرنے کا فن سیکھنا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آپ انھیں ذہن سے جھٹک کر نظر انداز کرکے صرف اچھائیوں کے تصور میں ہی زندہ رہیں۔
یہ صورت تو زندگی کے ایک اہم رخ سے فرار کے مترادف ہوگی، آئیے ہم آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کا ایک طریقہ بتائیں، اس طریقے کو ماہرین نفسیات’’آزاد نگاری‘‘ یا ’’خود نویسی‘‘ کہتے ہیں۔
جب بھی آپ کو نامناسب خیالات کی یلغار پریشان کرے، کاغذ اور قلم سنبھال کر ایک علیحدہ گوشے میں بیٹھ جائیں اور جو بھی خیالات ذہن میں آرہے ہیں ، انھیں لکھنا شروع کردیں، ان خیالات یا الفاظ سے نہ گھبرائیں، انھیں کاغذ پر منتقل کرنا شروع کردیں، خواہ اس کام میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ جائے، اس وقت تک لکھتی رہیں جب تک ذہن تھک نہ جائے، اس کے بعد تمام لکھے ہوئے کاغذات کو فوراً جلادیں، یہ کام روزانہ پابندی سے کرتی رہیں، تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گی کہ خود کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہیں اور خیالات میں بھی اعتدال آنا شروع ہوگیا ہے جو بے ہودہ لفظ زیادہ پریشان کر رہا ہے، اسے بھی روزانہ کثرت سے لکھنا اور جلانا شروع کردیں۔
اب یہاں ایک نکتہ اور سمجھ لیں، شریعت کی رو سے انسان کے خیالات اور سوچوں پر گناہ اور ثواب کے لیے کوئی تعزیر یا حد شرعی مقرر نہیں ہے لہٰذا اس وہم میں بھی نہ رہیں کہ ایسے خیالات کی وجہ سے آپ گناہ گار ہورہی ہیں، گناہ یا جرم اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب اس کا ارتکاب انسان کے عمل سے ظاہر ہو۔
فری رائٹنگ یا آزاد نگاری کی مندرجہ بالا مشق ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو کسی بھی قسم کے خیالات کے دباؤ میں ہو، یہ دباؤ حالات کے نامناسب اور ناگوار ہونے کا ہو یا کسی اور انداز کا ، ہر صورت میں یہ مشق صحت مندانہ راستوں کی طرف لے جائے گی اور مختلف بیماریوں کے لیے مفید ثابت ہوگی، مثلاً ہائی بلڈ پریشر(اگر کسی جذباتی الجھن اور تناؤ کی وجہ سے ہو) ڈپریشن، خوف، محبت، نفرت، غصہ یا انتقام، احساس کمتری، ہسٹیریا اور دیگر ایسے ہی نفسیاتی امراض جو جذبات و احساسات سے کوئی گہرا تعلق رکھتے ہوں، ان امراض کے علاج میں دیگر طریقہ ء علاج کے ساتھ اس مشق کو بھی شامل کرلیا جائے تو جلد از جلد بہترین نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، مزید تیز رفتار فوائد کے حصول کے لیے ’’مشق تنفس نور‘‘ بہترین ثابت ہوتی ہے اور طریقہء علاج اگر ہومیو پیتھک ہو تو کلی شفا یقینی ہوجاتی ہے۔