ہفتہ، 31 اکتوبر، 2020

اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری

نومبر کی فلکیاتی صورت حال، موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی

 

 سال کے آخری مہینے خصوصاً اگست سے شروع ہونے والا وقت عموماً پاکستان کے لیے مشکل اور چیلنجنگ رہا ہے، اکثر اہم واقعات انہی مہینوں میں پیش آئے ہیں، اس سال اکتوبر کے دوسرے ہاف سے سیارہ شمس اپنے برج ہبوط میں چلا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی سیارہ زہرہ بھی اپنے برج ہبوط میں ہے، خیال رہے کہ شمس زائچہ ء پاکستان میں چوتھے گھر کا حاکم ہے اور زہرہ چھٹے گھر کا حاکم ہے، شمس تقریباً 16 نومبر تک ہبوط یافتہ رہے گا اور یہ وقت اکثر اعلیٰ عہدے اور مرتبے رکھنے والے افراد کے لیے مشکل اور پریشان کن ثابت ہوگا، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، سیارہ زہرہ 17 نومبر تک اپنے برج ہبوط میں رہے گا، گویا سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کارکردگی متاثر اور متنازع رہے گی اور ان کے لیے نئے مسائل اور چیلنج درپیش رہیں گے، سیارہ عطارد جو زائچے کا اہم سیارہ اور پانچویں گھر کا حاکم ہے، گزشتہ ماہ سے مسلسل زائچے کے چھٹے گھر میں حرکت کر رہا ہے، اس دوران میں اسے رجعت بھی ہوئی اور وہ شمس کی قربت کے سبب غروب بھی رہا، 3 نومبر سے طلوع ہوگا لیکن پاکستان کے زائچے میں بدستور چھٹے گھر میں ہی رہے گا، عطارد کی یہ پوزیشن ملک کے دانش ور طبقے کی عقل کو خبط کردینے والی رہے گی جس کا مظاہرہ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے، ایسے ایسے بیانات اور تبصرے سامنے آرہے ہیں جنہیں سن کر حیرت ہوتی ہے، خاص طور سے حکومتی اور ن لیگی رہنما جن میں خود میاں نواز شریف سرفہرست ہیں، ملکی و قومی مفاد کی پروا کیے بغیر بیانات دے رہے ہیں، شاید وہ فرسٹریشن کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔

ہماری تحقیق کے مطابق میاں نواز شریف کا برتھ سائن سنبلہ ہے اور زائچے میں سنبلہ کے تقریباً تین درجے طلوع ہیں، گویا زائچے کا ہر گھر تین درجے سے شروع ہورہا ہے، سنبلہ افراد کام اور مسلسل کام کرنے والے اور بہت زیادہ مادّی سوچ کے حامل (بزنس مین) ہوتے ہیں، سونے پر سہاگا ان کا قمری برج بھی سنبلہ ہے لہٰذا کاروباری سوچ ہمیشہ ذہن پر غالب رہتی ہے اور ایسے لوگ اپنا کاروباری نقصان برداشت نہیں کرسکتے، صاف ظاہر ہے کہ مقتدر حلقوں سے مثبت رسپانس نہ ملنے کی وجہ سے وہ فرسٹریشن کا شکار نظر آتے ہیں، ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے 2016 ء میں ان کے زوال اور وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی کی پیش گوئی کی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ برج سنبلہ کے لیے سیارہ مریخ، شمس اور زحل فنکشنل منحوس سیارے ہیں اور گزشتہ تقریباً ڈھائی سال زحل ان کے زائچے کے چوتھے گھر میں رہا، اس سال جنوری سے پانچویں گھر میں داخل ہوچکا ہے، اسی طرح زائچے میں دور اصغر بھی سیارہ زحل ہی کا جاری ہے، یہ وہ صورت حال ہے جو ان کے زوال کا باعث بنی ہے اور تاحال جاری ہے، گزشتہ دنوں ستمبر میں سیارہ زحل زائچے کے پانچویں گھر میں ابتدائی درجات پر رہا اور اب تک ہے، جس کی وجہ سے پانچواں گھر جو شعور اور دانش کا ہے متاثر ہوا، اسی طرح ساتواں گھر، گیارھواں گھر اور دوسرا گھر متاثر ہیں، سیارہ زحل ان کے زائچے میں اختلاف اور تنازعات کا سیارہ ہے، چناں چہ موصوف نے اختلافات کی تمام حدیں پار کرلی ہیں اور یہ کوئی معاون و مددگار صورت حال نہیں ہے، ان کی پارٹی کا زائچہ بھی اچھی پوزیشن میں نہیں ہے، چناں چہ ن لیگ اور میاں نواز شریف جس مہم جوئی میں مصروف ہیں اس کے نتائج بہتر نظر نہیں آتے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا برتھ سائن میزان ہے، ان کا سیارہ زہرہ ہے جو اپنے برج ہبوط میں ہے، ان کے مفادات کا حاکم سیارہ شمس بھی برج ہبوط میں ہے، ان کے زائچے میں بھی خراب دور کا آغاز ہوچکا ہے، چناں چہ بلاشبہ اپوزیشن جماعتیں اور ملکی صورت حال ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے لیکن امکان ہے کہ 17 نومبر کے بعد سے صورت حال بہتر ہوجائے گی، جب سیارہ زہرہ ان کے پہلے گھر برج میزان میں داخل ہوگا اور شمس بھی زائچے کے دوسرے گھر میں آجائے گا۔

زائچہ پاکستان کے مطابق پاکستان ایک مشکل وقت میں داخل ہوچکا ہے، جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی گئی ہے، شمس اور زہرہ کی پوزیشن تو بہر حال جلد بہتر ہوجائے گی یعنی 17 نومبر کے بعد لیکن اس سے زیادہ اہم اور چیلنجنگ دور موجودہ حکومت کے لیے 20 نومبر سے شروع ہوگا جب سیارہ مشتری اپنے ہبوط کے برج جدی میں داخل ہوگا، یہاں پہلے سے دسویں گھر کا حاکم زحل موجود ہے، جس کا تعلق حکومت اور خود وزیراعظم سے ہے، مشتری پاکستان کے زائچے کا سب سے زیادہ منحوس اثر رکھنے والا سیارہ ہے جو برج جدی میں داخل ہوتے ہی سیارہ زحل سے حالت قران میں آجائے گا اور یہ صورت حال حکومت وقت کے لیے شدید نوعیت کے نئے چیلنج سامنے لائے گی جن کے نتیجے میں ترقیاتی امور بری طرح متاثر ہوں گے اور کوئی نیا آئینی بحران جنم لے گا، حکومت اس سے کس طرح نمٹے گی اور اپوزیشن اس کا کس طرح فائدہ اٹھائے گی اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، خیال رہے کہ سیارہ مشتری اور زحل کا یہ قران جنوری 2021 تک جاری رہے گا، دو بڑے سست رفتار سیارگان کا نحس اثر رکھنے والا قران اکثر حالات و واقعات میں نمایاں طور پر نئی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)

اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری

گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے

نومبر کی سیاروی پوزیشن

حیثیت و اقتدار کا سیارہ شمس اپنے برج ہبوط میزان میں حرکت کر رہا ہے، یہ اس کی انتہائی کمزور اور ناقص پوزیشن ہے، اس وقت میں صاحبان اقتدار اور اعلیٰ پوزیشن پر فائز افراد پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں،17 نومبر سے سیارہ شمس برج عقرب میں داخل ہوگا تو اس کی پوزیشن بہتر ہوجائے گی۔

سیارہ عطارد بھی بحالت رجعت برج میزان میں حرکت کر رہا ہے اور شمس کی قربت کے سبب غروب ہے، 2 نومبر کو طلوع ہوگا اور 3 نومبر کو مستقیم ہوجائے گا،عطارد کی کمزور اور خراب پوزیشن تحریر و تقریر یا دیگر دستاویزی نوعیت کے کاموں میں مسائل لاتی ہے، سفر سے متعلق امور میں بھی الجھن اور پریشانیوں کا باعث بنتی ہے۔

سیارہ زہرہ برج سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے، اس برج میں زہرہ کو ہبوط ہوتا ہے، چناں چہ زہرہ کی پوزیشن بھی نہایت خراب اور ناقص ہے، زہرہ توازن اور باہمی تعلقات پر اثر انداز ہے، اس کے علاوہ محبت کے معاملات، منگنی، شادی و نکاح وغیرہ یا ازدواجی زندگی کی خوشیاں بھی اس سے متعلق ہیں، زہرہ کی موجودہ پوزیشن ان تمام معاملات کے لیے ناموافق ہے، اس دوران میں منگنی و نکاح وغیرہ سے گریز کرنا چاہیے، 17 نومبر سے زہرہ اپنے ذاتی برج میزان میں داخل ہوگا، یہ زہرہ کے لیے اچھی پوزیشن ہوگی،17 نومبر سے 19 نومبر تک شادی و نکاح کے لیے موافق وقت ہوگا۔

سیارہ مریخ بدستور بحالت رجعت برج حوت میں حرکت کر رہا ہے، کیتو کی اس پر نظر ہے جو اکثر حادثات اور تنازعات کا باعث ثابت ہوتی ہے، 15 نومبر سے سیارہ مریخ مستقیم ہوگا اور اپنی سیدھی چال پر آجائے گا لیکن کیتو کی نظر سے نجات نہیں ملے گی، تقریباً 25 دسمبر تک کیتو کی نظر میں رہے گا، اس دوران میں غصے اور اشتعال پر کنٹرول رکھیں، ڈرائیونگ میں محتاط رہیں اور کسی مہم جوئی سے اجتناب کریں۔

سیارہ مشتری برج قوس میں حرکت کر رہا ہے، 20 نومبر کو اپنے برج ہبوط جدی میں داخل ہوگا اور تقریباً آئندہ سال 2021 ء میں مارچ کے آخر تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ مشتری کی انتہائی ناقص اور خراب پوزیشن ہے، اس سال اپریل سے جون تک مشتری اپنے برج ہبوط میں رہا، اب دوبارہ یہ صورت حال سامنے آرہی ہے، مشتری کی خراب پوزیشن ترقیاتی امور میں رکاوٹ، مالی معاملات میں پریشانی لاتی ہے، مزید یہ کہ اس عرصے میں نکاح و شادی سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ مشتری کی ہبوط یافتہ پوزیشن شوہر کے لیے خرابی کا باعث ثابت ہوتی ہے۔

سیارہ زحل برج جدی میں پورا ماہ رہے گا، مشتری جدی میں داخل ہوکر سیارہ زحل سے قران کرے گا، یہ قران طالع برج ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، دلو اور حوت والوں کے لیے مختلف نوعیت کے مسائل اور چیلنج لائے گا، خیال رہے کہ اس قران کا دورانیہ تقریباً جنوری 2021 ء تک ہوگا، مندرجہ بالا بروج سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی میں اہم نوعیت کی تبدیلیاں آئیں گی، اس قران کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں سے حقیقی اور درست آگاہی کے لیے اپنے انفرادی زائچہ ء پیدائش سے مدد لینی چاہیے۔

راہو اور کیتو اپنے شرف کے برج ثور اور عقرب میں حرکت کررہے ہیں، 14 نومبر 2020 سے 18 جنوری 2021 تک راہو کیتو مستقیم پوزیشن میں رہیں گے یعنی 26 درجہ ثور و عقرب پر مستقل قیام رہے گا، راہو کیتو کی یہ پوزیشن نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے،وہ لوگ اور ممالک جن کے زائچہ ء پیدائش میں پیدائشی برج کے درجات 21 سے تقریباً 30 کے درمیان ہیں، وہ راہو کیتو کی اس ناقص پوزیشن سے بری طرح متاثر ہوں گے، اس صورت حال سے درست آگاہی حاصل کرنے کے لیے بھی اپنے انفرادی زائچہ ء پیدائش کا جائزہ لینا چاہیے۔

مندرجہ بالا سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق دی گئی ہیں۔

قمر در عقرب

سیارہ قمر اپنے برج ہبوط عقرب میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 15 نومبر بہ روز اتوار 11:30am پر داخل ہوگا اور 17 نومبر بہ روز منگل دوپہر تقریباً 12 بجے تک برج عقرب میں رہے گا، یہ تمام عرصہ نحوست آثار ہے،اس دوران میں کوئی نیا کام شروع نہ کریں کیوں کہ اس وقت میں کیے گئے کاموں کے بہتر نتائج سامنے نہیں آتے، البتہ اس وقت علاج معالجہ کرانا مخالفین کے خلاف کارروائی وغیرہ بہتر ہوتی ہے، مزید یہ کہ اس وقت ایسے اعمال کرنا فائدہ بخش ہوتا ہے جن کے ذریعے دوسروں کو بری عادتوں سے یا ظلم و ستم سے روکا جاسکے، اس حوالے سے ہم ضرورت کے مطابق مختلف عملیات و وظائف دیتے رہے ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، فی الحال دو عمل یہاں دیے جارہے ہیں، وہ لوگ جو جفری عملیات کا شوق رکھتے ہیں، انھیں چاہیے کہ ہماری کتابوں، مسیحا حصہ اول، دوم اور سوم کا مطالعہ کریں، ان کتابوں میں ایسے تمام اہم نوعیت کے عملیات دیے گئے ہیں۔

عداوت و دشمنی کا خاتمہ

اکثر دو افراد کے درمیان عداوت یا دشمنی اس قدر بڑھ جاتی ہے اور پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتی ہے،اس کا خاتمہ ضروری ہے، اکثر تو اس بنیاد پر باہمی قریبی رشتوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، ایسی صورت حال کے لیے درج ذیل عمل مفید ثابت ہوگا، دیکھنا یہ ہوگا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون کر رہا ہے؟ لہٰذا نقش لکھتے ہوئے پہلے اُس فریق کا نام مع والدہ لکھیں جو ظلم و زیادتی کر رہا ہو اور بعد میں اس کا نام لکھیں جو حق پر ہو اور اس ساری دشمنی میں اپنا دفاع کر رہا ہو، یہ عمل قمر در عقرم کے دوران میں قمر کی ساعت میں کیا جائے یا پھر خواتین کے درمیان مخالفت ہو تو زہرہ کی ساعت لی جائے اور اگر مرد افراد کے درمیان مخالفت ہو تو مشتری کی ساعت لی جائے۔

احدرسص طعک لموہ لادیایا غفور یا غفور بستم اختلاف و عداوت فلاں بن فلاں و بین فلاں بن فلاں بحق صمُ بکمُ عمیُ فہم لایعقلون یا حراکیل العجل العجل العجل الساعۃ الساعۃ الساعۃ الوحا الوحا الوحا

کسی صاف کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے دو نقش گہن کے وقت لکھیں اور موم جامہ یا اسکاچ ٹیپ لپیٹ کر اُس راستے میں دائیں بائیں کسی سائیڈ دفن کردیں، جہاں سے اُن کا گزر ہوتا ہو، زمین میں دفن کرنے سے پہلے نقش پر کوئی وزنی پتھر بھی رکھ دیں، اگر دونوں فریق ایک ہی گھر میں مقیم ہیں تو گھر میں کسی وزنی چیز کے نیچے یہ نقش اس طرح دبائے جائیں کہ دونوں فریقین کے کمروں میں ہوں، بعد ازاں 5 کلو چینی اور سوجی صدقے کے طور پر کسی قبرستان میں چیونٹیوں یا دیگر حشرات الارض کے لیے ڈال دیں۔

مخالف کی زبان بندی

عین گہن کے وقت مندرجہ ذیل سطور کالی یا نیلی روشنائی سے لکھیں یا سیسے کی تختی پر کسی نوکدار چیز سے کندہ کریں اور پھر کسی بھاری چیز کے نیچے دبا دیں یا کسی نم دار جگہ دفن کر دیں، یہ عمل قمر در عقرب کے دوران میں عطارد کی ساعت میں کرنا چاہیے، انشاء اللہ وہ شخص آپ کی مخالفت سے باز آجائے گا۔

ا ح د ر س ص ط ع ک ل م و ہ لا د یا یا غفور یا غفور عقد اللسان فلاں بن فلاں فی الحق فلاں بن فلاں یا حراکیل

اکثر دیکھا گیا ہے کہ دفتر یا روزگار کی جگہ پر کچھ شرپسند طبیعت کے افراد پریشانی کا باعث بنتے ہیں اور اپنی خباثت کے سبب دوسروں کے خلاف بدگوئی، چغلی یا بدزمانی کرتے ہیں مندرجہ بالا نقش ایسے لوگوں کے لیے کارآمد ہوگا، نقش کو دفتر میں یا روزگار کی جگہ پر پوشیدہ طور پر کسی وزنی چیز کے نیچے دبادیں، مزید یہ کریں کہ جب بھی اس شخص سے سامنا ہو تو دل ہی دل میں اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم لاحولہ ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد شروع کردیں۔

شرف قمر

سیارہ قمر اپنے شرف کے برج ثور میں ہے، پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 29 نومبر بہ روز اتوار صبح 09:35 am پر داخل ہوگا اور یکم دسمبر بہ روز منگل صبح 09:10 am تک برج سنبلہ میں رہے گا، یہ نہایت مبارک اور سعد وقت ہے، اس وقت میں نئے کاموں کا آغاز بہتر ہوتا ہے، خیروبرکت اور ترقی یا باہمی محبت و یگانگت کے لیے اہم اعمال کیے جاسکتے ہیں۔

30 نومبر بروز پیر سیارہ قمر شرف یافتہ ہوگا اور پیر کا دن قمر ہی کا دن ہے، اس روز صبح پہلی ساعات قمر کی ہوگی جو تقریباً 06:57 am سے 07:57 am تک رہے گی،قمری پوزیشن نہایت عمدہ ہوگی، اس وقت میں اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر رزق میں کشادگی یا حصول ملازمت اور کاروبار میں ترقی کے لیے دعا کریں، ان شاء اللہ عمدہ نتائج کا حصول ممکن ہوسکے گا۔

اس کے علاوہ وہ لوگ جو باہمی ناچاقیوں کا شکار ہیں، گھر میں یا خاندان میں اختلافات بہت ہیں، انھیں چاہیے کہ اس وقت میں 786 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر کچھ چینی پر اور سفید رنگ کی مٹھائی پر دم کرلیں، چینی کو گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں ِ تاکہ پورے گھر کے استعمال میں آسکے، مٹھائی کو ان لوگوں کے گھر بھیج دیں جن سے اختلافات یا تنازعات ہیں، ان شاء اللہ اس کے نتائج مثبت ظاہر ہوں گے۔

اگر میاں بیوی کے درمیان یا دو محبت کرنے والوں کے درمیان کسی وجہ سے اختلافات ہوگئے ہوں تو انھیں بھی یہ مٹھائی کھلائی جائے، ان شاء اللہ مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

جادو ، معجزہ اور کرامت میں فرق (4)

 

سحریات کی مختلف اقسام کا تجزیاتی جائزہ

جب ہم لفظ جادو استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عجیب و غریب تصورات آنے لگتے ہیں مثلاً قبرستان ، مردوں کی ہڈیاں ، مضحکہ خیز لباس ، ڈراءونی شکلیں اوردیومالائی قسم کا پراسرار ماحول وغیرہ ، ایسا دراصل لغو روایات اور توہم پرستی کی وجہ سے ہے ورنہ علمی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جادو ، کرامت یا معجزہ ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں ، فرق صرف طرز فکر کا ہے ، اس بات کو یوں سمجھیے کہ لڑنے کی تربیت ایک ملک و قوم کا محافظ فوجی بھی لیتا ہے اور ایک تخریب کار بھی مگر فوجی میدان جنگ میں جب دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارے گا تو اس کی یہ کارکردگی ایک کارنامہ شمار ہوگی اور وہ تمغہ جراَت و بہادری کامستحق قرار پائے گا جبکہ تخریب کار کے ہاتھوں مرنے والا ایک بھی شخص اسے خونی ، سفاک ، قاتلوں کی صف میں لاکھڑا کرے گا اور نتیجے کے طورپر تخریب کار کو موت کی سزا کا حکم سنایا جائے گا ، اسی طرح فوجی کا لڑنا جہاد ہے جبکہ تخریب کار کی لڑائی بغاوت اور دہشت گردی قرار دی جائے گی ، فوجی اگر لڑائی کے دوران میں قتل ہوجائے تو شہید کہلائے گا اور عزت و توقیر کا نشان بنے گا جبکہ تخریب کار یا بدمعاش کی موت کے بعد لوگ اس سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہوئے بھی شرماتے ہیں ۔
لڑتا ایک سپاہی بھی ہے اور ایک بدمعاش بھی مگر ان کے کردار ، مقصد ، افعال اور معاشرتی عزت و مرتبہ میں زمین و آسمان کا فرق محض اسلیے ہوتا ہے کہ فوجی جب کسی پر گولی چلاتا ہے تو اس کا مقصد اپنے وطن کا دفاع ہوتا ہے ، اس کی سوچ اپنی ذات سے بلند ہوکر تمام اہل وطن کےلیے ہوتی ہے ، جبکہ اس کے برعکس ایک مجرم یا بدمعاش کی سوچ محض اپنی نفسانی خواہشات یا حصول مال و زر کےلیے ہوتی ہے ۔
دین ، مذہب ، ملت یا معاشرتی و اخلاقی اقدار کیا ہیں ;238; یہ سب کچھ محض ’’مثبت طرز فکر ‘‘ کا نام ہیں ، منفی سوچ اور طرز فکر ہمیشہ غیر مذہبی ، غیر اخلاقی و معاشرتی ہوگی ، یہی فرق ہے جادو میں ، کرامت میں یا معجزے میں ۔
اپنی پوشیدہ لازوال طاقتوں کا مثبت استعمال کرنے والے ولی اورمتقی کہلاتے ہیں جبکہ انہی قوتوں کو تخریب کےلیے اپنی ذاتی حرص و ہوس کےلیے استعمال کرنے والے ’’جادوگر‘‘ قرار پاتے ہیں ۔

سحر و ساحر علامہ ابن خلدون کی نظر میں

شہرہَ آفاق مورخ و عالم علامہ ابن خلدون نے اپنی لازوال کتاب ’’ مقدمہ ابن خلدون ‘‘ میں ’’باب سحر‘‘ کے تحت سحر و ساحر کے حوالے سے نہایت عالمانہ اور محققانہ بحث کی ہے، علامہ ابن خلدون بھی سحریات کو مثبت اور منفی دو رخوں میں تقسیم کرتے ہیں ، یعنی معجزہ اورکرامت جو انبیا اور اولیا کا خاصہ ہے ، سحر کی مثبت قسم ہے ، کیونکہ اس مظاہرے میں انبیا اور اولیا کی اپنی نفسی یا روحانی صلاحیت کے ساتھ تائید و امدادِ الٰہی انہیں حاصل ہوتی ہے ، جیساکہ جادوگروں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ہم دیکھتے ہیں ، اسلیے ایسے مظاہر کو سحر کی اعلیٰ ترین اور اکمل ترین مثبت صورت قرار دیا گیا ہے اور معجزہ قرار دیا گیا ہے ۔
دوسری قسم میں وہ جادوگر یا روحی و روحانی عامل آتے ہیں جو اپنی قوت نفسی سے کام لے کر سحری اثرات پیدا کرنے پر قادر تو ہوتے ہیں مگر اپنے منفی طرز فکر کی وجہ سے انہیں تائید و امداد الٰہی حاصل نہیں ہوتی ، ان کا یہ عمل صرف اپنی ذات کےلیے ہوتا ہے اور اس سے صرف انہی کے مفاد وابستہ ہوتے ہیں ۔
اس دوسری قسم کو منفی طرزفکر میں شمار کیاگیا ہے اور علامہ ابن خلدون نے اس کی بھی 3 مزید اقسام بیان کی ہیں ، اس سلسلے میں سحرِ حلال اور سحرِ حرام کے مباحث بھی موجود ہیں ۔
اول: وہ جادوگر جو صرف اپنی قوت نفسی سے کام لے کر سحری اثرات پیدا کرے اور اس مظاہرے میں دوسری اشیا سے کوئی مدد نہ لے ، ایسے جادوگروں کو ’’حقیقی ساحر‘‘ یا ’’فطری ساحر ‘‘ کہا جائے گا ، ایسے ساحروں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ، ماضی میں اس کی مثال روس کے ’’راسپوٹین ‘‘ یا یورپ کے بعض چودھویں اور پندرھویں صدی کے ساحروں میں دیکھی جاسکتی ہے اور موجودہ دور میں ;698380; کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے، آج کل مغرب میں سحری قوتوں کے مالک افراد کو ’’سائیکک‘‘بھی کہا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ سائیکک پاورز کا میدان بہت وسیع ہے، اس میں سحری قوتوں کے مظاہرے کے علاوہ مستقبل بینی اور پیش گوئی کی صلاحیتیں بھی شامل ہیں ۔
دوسری قسم میں وہ جادوگر آتے ہیں جو اپنی قوت نفسی کے ساتھ مادّی اشیا سے بھی سحری اثرات پیدا کرنے میں مدد لیتے ہیں ، مثلاً ہڈیاں ، خاک و خون اور نباتات وغیرہ یا اعداد و حروف کی مخفی قوتوں سے کام لینے والے عامل، ایسے لوگ اپنی قوت نفسی میں ناقص تصور کیے جاتے ہیں ، کیونکہ انہیں مادّی طورپر مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ، اس قسم کی بھی 3 مزید قس میں ہیں ۔
تیسری قسم جادوگروں کی شعبدہ بازی کہلاتی ہے اس قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو خود اپنی قوت نفسی سے کام نہیں لیتے یا وہ اس کے اہل نہیں ہوتے ۔ وہ صرف مادّی اشیا کی مدد سے اور اور اپنے تجربے اور مہارت کے زور پر حیرت انگیز شعبدہ بازی کرتے ہیں ، خیال رہے کہ شعبدہ بازی کی بھی 2 قس میں ہیں ، ایک قسم میں شعبدہ باز صرف اپنے ہاتھ کی صفائی یا ہنر مندی سے حیرت انگیز کمالات دکھاتا ہے، یہ قسم سحر و جادو کے ذیل میں نہیں آتی ، دوسری قسم کو اصطلاحاً ’’ سیمیا‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، سیمیا کا علم اشیا کے پوشیدہ خواص سے بحث کرتا ہے ، مثلاً اونٹ کی ہڈی کی پوشیدہ یا سحری قوت یہ ہے کہ جس گھر میں یہ ہڈی موجود ہوگی وہاں دیمک نہیں آئے گی یا مرغی کے انڈے کا چھلکا چھپکلیوں کو بھکانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ، بالچھڑ کی خوشبو پر بلی مسحور ہوجاتی ہے ، موتیا کے پھول کی خوشبو چھپکلی کےلیے نہایت پسندیدہ ہے ، مینڈک کی چربی ہاتھوں پر مل لی جائے تو آگ سے محفوط رہتے ہیں ، خرگوش کا بایاں تخنہ اگر کوئی عورت پاس رکھے تو شوہر اس کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے ، الغرض ایسی بے شمار خصوصیات مختلف اشیا میں پائی جاتی ہیں جنہیں ان کے سحری خواص سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
پتھروں کے سحری خواص بھی مشہور اور عام ہیں مثلاً لہسنیا (;67;at ;69;ye) پہننے والے سے جنات دوررہتے ہیں اور سحری اثرات سے تحفظ ملتا ہے ، نظر بد سے حفاظت ہوتی ہے ، ٹائیگر آئی پہننے سے ہمت و حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے ، یاقوت سرخ پہننے سے دوران خون تیز ہوتا ہے اور خون میں سرخ ذرات کی مقدار بڑھتی ہے ، زرقون کا نگینہ سورج اور چاند گہن کے منفی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے ،ہیرا پہننے والی خواتین بانجھ پن سے محفوظ رہتی ہیں اور حمل بھی محفوظ رہتا ہے، فیروزہ علم و ذہانت عطاء کرتا ہے، پیلا پکھراج (;89;ellow suphire) وسعت و ترقی کا باعث ہوتا ہے جب کہ نیلم ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے مگر خیال رہے کہ کوئی بھی اسٹون اس وقت تک نہیں پہننا چاہیے جب تک آپ کے پیدائشی زاءچے کے مطابق یہ معلوم نہ ہو کہ وہ آپ کے لیے سعد ہے یا نحس ، ایسی صورت میں فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے اور اکثر لوگ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے فلاں اسٹون پہنا تو سخت نقصان اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔
مختلف خوشبویات کے اپنے سحری اثرات موجود ہیں اور موجودہ جدید دور میں اس پر بہت تحقیق کی گئی ہے چنانچہ موقع محل کے اعتبار سے مخصوص عطریات اور پرفیومز بازار میں ملتے ہیں ، خوشبویات کے اثرات پر شاید فرانس میں ’’پرفیوم‘‘ کے نام سے ایک بہت اعلیٰ درجے کی فلم بھی بنائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مختلف قسم کی خوشبویات کس طرح اپنا اثر دکھاتی ہے اور ان کی تیاری میں کیسے فارمولے استعمال کیے جاتے ہیں ، سب جانتے ہیں عطرِ حنا جسے عطرِ سہاگ بھی کہا جاتا ہے، اپنی گرم تاثیر کی وجہ سے دوران خون کو تیز کرتا ہے، اس عطر کا استعمال عام طور سے شادی کے موقع پر دولہا دولہن کو کرایا جاتا ہے، اس کی تاثیر کے سبب اسے سرد موسم کا عطر کہا جاتا ہے، ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔
قصہ مختصر یہ کہ جانوروں کے جسمانی اعضا ، معدنیات و نباتات کا علم اسی ذیل میں آتا ہے ، جب کہ ان چیزوں کے طبی خواص کا علم ‘‘کیمیا‘‘ کہلاتا ہے ، اُلّو، ہدہد،چمگادڑ،سیاہ بلی اور بہت سے دیگر جانوروں سے متعلق سیمیا کے اعمال سے پرانی کتابیں بھری پڑی ہیں ،بے شمار لوگ سیمیا کے اعمال کے لیے سرگرداں رہتے ہیں لیکن یہ علم اتنا آسان نہیں ہے جو ہر شخص حاصل کرسکے، علم سیمیا میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان جڑی بوٹیوں ، جانوروں ، ہڈیوں ، خون اور دیگر تمام اشیا کے باطنی خواص سے واقفیت رکھتا ہو، مزید یہ کہ علم نجوم پر بھی دسترس رکھتا ہو اور علم الاعداد و علم الحروف پر بھی اسے عبور حاصل ہو، یہ شرائط پوری کرنا ہمہ شما کے بس کی بات نہیں ہے، اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے علم سیمیا کا ایک نادر عمل نمونے کے طور پر ہم یہاں پیش کر رہے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ بظاہر بہت سادہ اور آسان نظر آنے والا یہ عمل درحقیقت کس قدر پیچیدہ ہوسکتا ہے ۔ اس عمل کے ذریعے دولت کی فراوانی ہوتی ہے ۔

فراوانی دولت کا عمل

ایک جنگلی بٹیر کا جوڑا حاصل کریں ، خیال رہے کہ آج کے زمانے میں بٹیر کی فارمنگ بھی ہوتی ہے اور بازار میں زیادہ تر فارمی بٹیر دستیاب ہیں جو لوگ شوق سے کھاتے ہیں ، اس بٹیر کے جوڑے کو ایسے وقت پر اپنے گھر ، دکان یا دفتر میں لائیں جب سیارہ مشتری باقوت اور نحوست سے پاک ہو، قمر اپنے گھر سرطان یا شرف کے گھر میں ہو، دن جمعرات کا ہو اور ساعت مشتری کی ہو، بس اتنا ہی کام کرنا ہے ، اس کے بعد گھر میں یا کاروباری جگہ پر دولت کی بارش شروع ہوجائے گی، اب پیچیدگی کیا ہے ;238; اگر آپ علم نجوم نہیں جانتے تو آپ سیارہ مشتری کی باقوت اور نحوست سے پاک پوزیشن معلوم نہیں کرسکتے، اسی طرح اگر آپ علم الساعات سے نا واقف ہیں تو مشتری کی ساعت سے بے بہرا ہوں گے ۔
چاند کی 28 منازل مقرر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی آیا ہے، ہر منزل کے اپنے عجیب اسرار ہیں ، ان منازل قمری میں خصوصی طلسمات تیار کیے جاتے ہیں ، ان کا تعلق بھی علم سیمیا سے ہے، ہم نے اپنی منازل قمری کی کتاب ’’اک جہان حیرت‘‘ میں چند ایسے طلسمات کی تیاری کا طریقہ دیا ہے اور منازل قمری کے عجائبات و اسرار کی نشان دہی کی ہے لیکن خیال رہے اللہ اگر توفیق نہ دے ، انسان کے بس کا کام نہیں ۔

استدراج یا سفلی و شیطانی اعمال

جادو کےلیے ایک اصطلاح ’’استدراج‘‘ کی بھی استعمال ہوتی ہے لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ استدراج تخریبی یا شیطانی قوتوں کے اوج کمال کا نام ہے ، جس میں مادی مظاہر و اعراض بظاہر استعمال نہیں ہوتے اور جادو ، استدراجی قوت کا کمتر یا ناقص رخ ہے جیساکہ ہم نے پہلے دوسری قسم کے حوالے سے وضاحت کی ہے ، استدراج میں جادوگر شیطانی قوتوں سے کام لیتاہے ، جیساکہ شیخ وحید بالی یا دیگر صاحبان علم نے نشاندہی کی ہے اور اس حوالے سے جادوکی مختلف اقسام بھی بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں :
-1 سحر التفریق : یعنی عداوت اور جدائی پیدا کرنے کا جادو
-2 سحر المحبتہ : یعنی پیار محبت اور عشق پیدا کرنے کا جادو
-3 سحر التخیل: یعنی خیالات بدلنے اور وہم میں مبتلا کرنے کا جادو
-4 سحر الجنون :یعنی پاگل اور حواس باختہ کرنے کا جادو
-5 سحر الخمول: یعنی کم زوری ، سستی و کاہلی اور جوڑوں کا درد پیدا کرنے کا جادو
-6 سحر الھواتف : یعنی غیبی آوازوں کے ذریعے پریشان کرنے کا جادو
-7 سحر المرض : یعنی مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے کا جادو
-8 سحر النزیف : یعنی خون حیض جاری کرنے کا جادو
-9 سحر التعطیل الزوج :یعنی شادی روکنے کا جادو
-10 سحر الربط عن الزوجۃ :یعنی مرد کی قوت جماع ختم کردینے کا جادو ۔
جادو کی مندرجہ بالا اقسام میں بقول مسلم عاملین جنات و شیاطین سے مدد لی جاتی ہے لیکن اس نظریے سے کلّی طورپر اتفاق کرنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ مندرجہ بالا تمام اقسام سے متعلق اعمال و مشاغل دیگر طریقوں سے بھی انجام پاتے ہیں ، لہٰذا صرف شیاطین و جنات کی قید لگانا مناسب نہیں ہوگا ، کیا خرگوش کے ٹخنے کی تاثیر کو سحر المحبتہ کا نمونہ نہیں سمجھا جاسکتا ;238; عرب میں قدیم زمانے سے یہ روایت موجود رہی ہے کہ دو افراد کے درمیان جدائی ڈالنے کےلیے انہیں ایک ہی کنگھا استعمال کرایا جائے ، کیا یہ عمل سحر التفریق کے ذیل میں نہیں آتا ;238; اسی طرح خیالات بدلنے اور وہم میں مبتلا ہونے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں تو کیا انہیں سحر التخیّل قرار دیا جائے گا ;238; خاص طورپر نفسیاتی امراض اس ذیل میں آتے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ ہر مریض کے معاملے میں شیاطین و جنات کی کارفرمائی موجود ہو ، اسی طرح سحر الجنون یا دیگر اقسام پر بحث کی جاسکتی ہے ، ہمارے تجربے اور مشاہدے میں تو یہ بھی ہے کہ وقت کے پھیر میں آئے ہوئے لوگ سیارگان کے برے اثرات کے باعث مختلف بیماریوں یا مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے پیدائشی زاءچے کی خصوصیات کے سبب نامناسب حالات اور ماحول میں جب ان کی سائیکی بگڑتی ہے تو سحر الجنون یا سحر التخیل یا سحرالتعطیل الزوج یعنی شادی میں بندش جیسے مظاہرے سامنے آتے ہیں ۔
مذکورہ بالا سحری اقسام کی شناخت اور علامات کے حوالے سے جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ بھی معتبر اور قابل اعتماد نہیں ہے ، اس تفصیل کے حوالے سے تو ہر مسئلہ سحریات اور شیاطین کے ذیل میں آجائے گا ، شاید اسی قسم کی سحری تعریف اور سحری اثرات کی علامات بیان کرکے معاشرے میں سحر و جادو کے حوالے سے بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا کردیے گئے ہیں اور نتیجے کے طورپر ہرشخص اپنے ہر مسئلے کو سحر و جادو سے جوڑ بیٹھا ہے ، مثلاً سحر التفریق کی علامات یہ بیان کی گئی ہیں ۔

سحر التفریق کی علامات

’’ اچانک حالات ایسے تبدیل ہوتے ہیں کہ آپس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں ، دونوں کے درمیان بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا ہونے لگ جاتے ہیں ، آپس میں کسی قسم کا عذر قبول نہیں کرتے ، معمولی سے اختلاف کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، میاں بیوی ایک دوسرے کو بد صورت لگنے لگتے ہیں ، اگرچہ خوبصورت ہوں ، مسحور اپنے ساتھی کے ہر کام کو برا سمجھتا ہے ، مسحور ہر اس جگہ کو ناپسند کرتا ہے جہاں فریق ثانی موجود ہو ، مثلاً گھر کے باہر بیوی کو اپنا خاوند اچھا لگتا ہے لیکن جونہی خاوند گھر میں داخل ہوتا ہے بیوی کو شدید قسم کی الجھن اور ذہنی کوفت ہونے لگتی ہے یا کاروباری پارٹنر اگر گھر آئے تو اچھا لگتا ہے لیکن دفتر یا کاروباری جگہ پر برا لگتا ہے ۔ ‘‘
ان علامات کی بنیاد پر کسی کو سحر زدہ قراردینا کوئی قابل اعتماد تشخیص نہیں ہے ، ہمارا مشاہدہ ہے کہ دو محبت کرنے والے جو بظاہر باہمی طورپر ایک دوسرے کی کشش محسوس کرکے شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں مگر حقیقتاً دونوں کے مزاج اور فطرت میں فرق ہوتا ہے لہٰذا عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی ان کے درمیان اختلافات شروع ہوجاتے ہیں اور نتیجے کے طورپر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں ، دونوں کے درمیان بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا ہونے کی وجہ بھی دونوں کے فطری اور مزاجی اختلافات ہوتے ہیں اور جب ایک بار یہ فطری اور مزاجی اختلاف کھل کر سامنے آجاتے ہیں تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے ، اسی طرح دیگر اقسام پر بھی عقلی اور مادّی دلائل دیے جاسکتے ہیں ۔

سحر اور سحرزدہ کی پہچان

ایک دلچسپ صورت حال یہ بھی ہے کہ ہمارے ماہرینِ روحانیات سحرزدہ کی پہچان اور سحری اثرات کی جو علامتیں بیان کرتے ہیں وہ بھی خاصی گمراہ کن ہےں ، بے شک ایسی علامات کسی سحر زدہ میں موجود ہوسکتی ہیں مگر حتمی طور پر ان کا سبب سحرو جادو کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ یہ علامات بعض دیگر امراض میں بھی پائی جاتی ہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ طب یونانی اور ایلو پیتھی چوں کہ ایسی علامات کو اہمیت نہیں دیتی لہٰذا انہیں سحری اور ماورائی اثرات کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر ایلوپیتھک ڈاکٹر حضرات ایسے کیس کو ماہرینِ نفسیات کے حوالے کردیتے ہیں ، صرف اور صرف ہومیو پیتھی ایسا طریقہ علاج ہے جو انسان کی جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور روحانی امراض سے بھی بحث کرتا ہے کیوں کہ ہومیو پیتھک دواؤں کی پروونگ جن خطوط پر انجام دی جاتی ہے وہ ایک نہایت جداگانہ طریقہ ء کار ہے، علاج بالمثل کے اصول پر ہر دوا کو تجرباتی طور پر انسانوں پر ہی آزمایا جاتا ہے اور اس کے نتاءج کو نوٹ کیا جاتا ہے چناں چہ ہومیو پیتھی وہ واحد طریقہ علاج ہے جس میں توہم ، شک، بدمزاجی، عاداتِ بد جن میں چوری، چغلی، بدگوئی، گالم گفتار، مار پیٹ،چڑچڑاپن ، پیش گوئی ،اشراقیت الغرض بے شمار ایسی علامتوں اور بیماریوں پر توجہ دی گئی ہے جن پر کسی دوسرے طریقہ ء علاج میں توجہ نہیں دی گئی اور ان تمام اخلاقی یا روحانی خرابیوں کے لیے دوائیں موجود ہیں ، ہم شاید پہلے اپنے کسی مضمون میں عشق کا بھوت اتارنے کی ہومیو پیتھک دوا لکھ چکے ہیں اور ایسی ادویات کو اپنے مریضوں پر کامیابی سے استعمال بھی کرچکے ہیں ،شاید ہمارے قارئین کو یاد ہو ہم نے اپنے ایک ایسے مریض کا احوال لکھا تھا جس نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کردیا تھا ۔
عزیزان من! جادو کے موضوع پر گفتگو جاری ہے اور شاید یہ موضوع کچھ زیادہ ہی طوالت اختیار کرتا ہوا نظر آرہا ہے،امید ہے کہ آپ اسے پسند کر رہے ہوں گے اور آپ کی معلومات میں اضافے کا سبب بن رہا ہوگا مگر اس کے باوجود اگر آپ کے ذہن میں کچھ نئے سوالات موجود ہوں تو ہ میں ضرور لکھیے یا ہمارے کسی بات سے اختلاف ہو تو اس کا بھی ضرور اظہار کیجیئے ، اگر آپ کے علم میں سحرو جادو یا آسیب و جنات سے متعلق ایسے واقعات یا حالات ہوں جو آپ کے لیے حیرت انگیز اور نہ سمجھ میں آنے والے ہوں تو وہ بھی ہ میں ضرور ارسال کریں بذریعہ خط یا ای میل، ہم انشاء اللہ ایسے سوالات اور واقعات کو اس بحث میں ضرور شامل کریں گے اور اپنی بساط کے مطابق اُس کا جواب دینے کی کوشش بھی کریں گے ۔ (جاری ہے)

پیر، 19 اکتوبر، 2020

نفسِ انسانی کی ہیّت و حقیقت (3)

جادو اور مظاہرِ نفس کی بوالعجبیوں کا ماجرا

جادو کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے انسانی ذات یا نفس انسانی کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ یہ تمام کائنات اپنی تمام تر وسعتوں اور عظمتوں کے ساتھ ’’نفس انسانی‘‘ کے سامنے صرف ایک نقطے کی سی حیثیت رکھتی ہے یا اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ یہ دنیائے آب و گل محض ایک ثانوی مظہر ہے جس کا مقصد و مدعا صرف اور صرف انسان کی ضروریات کا پورا کرنا اور اس کی دل بستگی کا سامان مہیا کرنا ہے ۔

ہمارے موجودہ جدید معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بنیادی حقائق کو چھوڑ کر ایک ثانوی شے یعنی مادے میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے،ہماری تحقیق کا مرکز و محور ’’اصلِ حیات‘‘ کے بجائے ’’لوازم حیات‘‘ قرار پاچکے ہیں اور مظہر حیات یا نفس انسانی کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش اوہام ، فرسودہ یا فضول خیال کی جاتی ہے ۔

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انسان کے تمام افعال و کردار اور خصوصاً روحانی یا روحی صلاحیتوں کے پیچھے نفس انسانی کی خفیہ اور بے پناہ قوت موجزن ہوتی ہے،چناں چہ جب تک ہم نفس انسانی کی ہیّت یا اس کی حقیقت کے بارے میں تھوڑا بہت نہ جان لیں گے ، کسی بھی سحری مظاہرے کی توجیح کرنا ممکن نہ ہوگا مگر اس دور جدید میں تجربہ پسندی کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکمت نفس کی جگہ نفسیات نے لے لی ہے اس پر طرّہ یہ کہ نفسیات داں حضرات مظاہر نفس کے بجائے انسانی کردار کی نیرنگیوں کے مطالعے پر زور دے رہے ہیں ، جدیدیت کے دعوے دار ذہن اور مادّہ پرست تو خیر محسوسات ہی کو تمام علوم و فنون کی بنیاد سمجھتے ہوئے اس سے آگے سوچنا ضروری نہیں سمجھتے، وہ تصوریت کو غیر منطقی جانتے ہیں ، انسانی نفسیات کے مسائل کو اس کے دماغ تک محدود کرکے روح اور روحیات کا باب بند کردیا گیا ہے ۔

ایسی صورت میں نفسِ انسانی کو سمجھنے کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی رہتا ہے یعنی ’’وجدانیات‘‘ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ وجدانیات بھی اہل علم کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے ، مختلف ذہن وجدان کی تعریف اپنے اپنے انداز میں مختلف کرتے ہیں ، اگر ہم کسی ایک تعریف کے حوالے سے وجدان کو سمجھ لیں اور اس کے ذریعے کائناتی حقیقت کو پانے کی کوشش کریں گے تو خواص کا مخصوص گروہ معترض ہوگا، اسی طرح اگر ہم وجدان کو کسی دوسرے زاویے سے بیان کرنا چاہیں تو بھی مشکلات موجود ہیں ۔

اس تمام بحث کے دوران میں ہماری کوشش ہوگی کہ ’’جادو‘‘ کے بارے میں تمام گروہی و فکری میلانات سے بچتے ہوئے ممکنہ حد تک حقائق پر گفتگو کرسکیں ۔

جادو کی حقیقت کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے اولاً انسان کو سمجھنا ہوگا، اس کے نفس کی کٹھنائیوں سے گزرنا ہوگا، نفس کی پُر پیچ گہرائیوں میں اترنا ہوگا اور فکر و عمل کے ساتھ روح اور وجدان کی شمع کو بھی روشن کرنا ہوگا، تب کہیں جاکر حقائق کے خزانے سے چند درِ آبدار ہاتھ لگیں گے ۔

آئیے پہلے چند نکات ’’نفس انسانی‘‘ کی ہیّت و حقیقت کے بارے میں بیان کرتے چلیں تاکہ جادو سے متعلق مباحث کو سمجھنے میں انسان کے کردار اور مقام کا تعین ہوسکے ۔

صاحبان علم و دانش اور ماہرین نفسیات نے ’’مظاہرِ نفس کلّی‘‘ کی سات اقسام بیان کی ہیں ۔

اول ایسی کیفیت یا حالت جس کا احساس ’’لمس‘‘سے ہو گویا یہ قسم چھونے سے تعلق رکھتی ہے،مثلاً گرمی سردی، نرم و سخت اور جسم کا حجم وغیرہ ’’لمس‘‘ کے جادو اور اعجاز سے انکار ممکن نہیں ۔

دوسری ضمنی قسم میں ’’ذوقِ زبان‘‘ ہے، ہر قسم کا ذائقہ مثلاً تلخ و ترش، میٹھا سیٹھا اور نمکین وغیرہ زبان کا مصرف تو اور بھی ہے لیکن یہاں وہ زیر بحث نہیں ۔

تیسری قسم میں وہ اشیاء یا مظاہر آتے ہیں جن کا ادراک نگاہوں کے ذریعے ہوتا ہے مثلاً دشت و کوہسار، کھیت و کھلیان ، اٹکھیلیاں کرتے غزالانِ دشت، یہ سب ہی ایسے مظاہر ہیں کہ جن کا احساس بذریعہ بصارت ہوتا ہے ۔

چوتھے نمبر پر ایسی تمام حالاتیں یا اعراض جن کا احساس سماعت سے ہو، مظاہرِ نفس کی چوتھی قسم میں شامل ہیں ، آواز تو بجائے خود ایک جادو ہے، سُر جب کائنات کی وسعتوں میں پھیلتے ہیں تو پھر انسان بے اختیارانہ کیفیت و جذب کے عالم میں تھرکنے لگتا ہے،آواز کا جادو تن بدن میں آگ لگادیتا ہے، سُر کی طاقت کہیں توڑتی ہے تو کہیں روٹھے ہوئے دلوں کو جوڑتی بھی ہے،عشقیہ نغمے ہوں یا آزادی کے ترانے، یہ سب ہی سماعت سے متعلق ہیں ، محفل سماع تو یوں بھی بعض روحانی سلسلوں میں باقاعدہ عبادت کا سا درجہ رکھتی ہے اور دنیا میں ایسے مذاہب و عقائد بھی موجود ہیں جن میں موسیقی عبادت و مذہبی رسومات کا لازمی جز قرار دی گئی ہے اور اس کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے ۔

پانچویں قسم ’’حسِ شامہ‘‘ کہلاتی ہے یعنی سونگھنے کی حس، جس میں ہر طرح کی خوشبو و بدبو وغیرہ شامل ہیں ۔

چھٹی قسم میں ایسے تمام مظاہر و اعراض شامل ہیں جو محسوس بالحواس نہیں ہیں ،یعنی انہیں اپنے حواس کے ذریعے ہم محسوس نہیں کرسکتے اور جن کا ادراک و احساس دائرۃ حواس سے زیادہ صرف عقلی طور پر ثابت و مسلّم ہے، مثلا الٹرا ساوَنڈ لہریں یا فضائے بسیط میں پائی جانے والی دیگر اسی قسم کی شعائیں ، کاسمک شعائیں اور سیارگان سے آنے والے اثرات وغیرہ جیسا کہ چاند کے اثرات جو پانی میں اتار چڑھاوَ لاتے ہیں ۔

ساتویں قسم میں ایسے اعراض یا معاملات و حقائق شامل ہیں جو نہ تو محسوس بالحواس ہیں اور نہ ہی مدرک بالعقل یعنی ایسے تمام معاملات جنہیں نہ تو حواسِِ خمسہ کے ذریعے محسوس کیا جاسکے اور نہ ہی عقل کی رسائی ان تک ہو مگر انسانی وجدان کے لیے وہ ناقابل انکار ہوں ، مثلاً ’’احساسِ ذات ‘‘یا ’’انسانی انا‘‘ اور اس کے ’’احساساتِ نفسی‘‘ وغیرہ ۔ محبت، نفرت اور انتقام کے جذبات وغیرہ ۔

مظاہر کی اس تقسیم سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مظاہرِ مادّی کے علاوہ ایک قسم ایسے مظاہرو اعراض کی بھی ہے جو ہر طرح کے حجم و جسم سے بری ہے اور ناقابل تجزیہ و اقسام ہے، اس کا تعلق براہِ راست نفسِ انسانی سے ہے، سامنے کی بات ہے، ہمارا احساس ذات بجائے خود غیر متغیّر و غیر متحیّر ہے اور ابھی تک عقلی طور پر نامعلوم بھی مگر اس کے باوجود ہم اس کا گویا اپنی ذات کا انکار نہیں کرسکتے ، ہم بغیر کسی دلیل و حجت کے اپنے وجود کو مانتے ہیں ۔

سحر اور ساحرکی اقسام

جادو سے متعلق مسائل و معاملات کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک انسان اور انسانیت کا صحیح مفہوم سمجھ میں نہ آجائے ، اس حوالے سے پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے جو انسانی وجود اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کے بارے میں پیدا ہوتی رہی ہیں ، اسیلیے ’’مظاہر نفس کلّی‘‘ کی اقسام بیان کی گئی ہیں کیونکہ جادو کی حقیقت میں انسان کی قوت نفسانیہ کے کردار کو نظر انداز کرکے ہم مسئلے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔

انسان اور جنات و شیاطین

مذہبی نظریات کی روشنی میں ہمارے علماَ نے انسان کی قوت نفسانیہ کے کردار کو نظر انداز کیا ہے اور تمام زور جادو کے حوالے سے جنات و شیاطین کے کردار پر ڈال دیا ہے ، ہمارے خیال میں یہ نقطہَ نظر جادو کے قدیم علم و فن کی بنیادی مبادیات کے بھی خلاف ہے اور انسان کی پوشیدہ قوتوں کی بھی نفی کرتا ہے، بے شک جادو کی بعض اقسام میں جنات و شیاطین یا ہمزاد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر جادو کی ایسی اقسام بھی موجود ہیں جن میں جنات و شیاطین سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ ایک حقیقی جادوگر صرف اپنی قوت نفسانیہ سے کام لے کر سحری اثرات پیدا کرتا ہے اور وہ جادوگر بہرحال ایک انسان ہوتا ہے ، چنانچہ انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کا ادراک ضروری ہے ، یہ ایک الگ بحث ہوگی کہ کوئی انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کا استعمال جائز طورپر کرتا ہے یا ناجائز ، یعنی اس کا طرز فکر تعمیری ہے یا تخریبی ;238;

انسان، حیوانِ ناطق یا قرآنِ ناطق

دوسری طرف محسوسات ہی کو واحد اور یقینی علم و ادراک اور منتہائے علم سمجھنے والے ذہن یا علم نفسیات کے جدید ماہرین منجملہ دیگر حیوانات کے انسان کو بھی ایک ترقی یافتہ حیوان ہی سمجھتے ہیں ، ان میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو حیوانات میں ارتقائی نشوونما کے قائل ہیں اور انسان کو بھی ایک ارتقائی عمل کے ذریعے حاصل ہونے والا انتہائی ترقی یافتہ شکل کا حیوان سمجھتے ہیں ، محض ڈارون کے نظریہ ارتقا کی ہی یہ خصوصیت نہیں کہ وہ انسان کو ترقی یافتہ حیوان سمجھتا ہے ، انسان کی تعریف ’’حیوان ناطق‘‘ خاصی پرانی اور قدیم ہے لیکن ان معروضات سے قطع نظر اگر انسان اور انسانیت کو مذہب اورالہامی کتب کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسان کا ایک مختلف تصور ذہن میں ابھرتا ہے ، ایسا تصور جس میں عظمت بھی ہے ، بڑائی بھی اور جو اس کائنات کے تمام مظاہر کا حکمران بھی ہے ، مذہب کی روشنی میں انسان ’’حیوان ناطق ‘‘نہیں بلکہ ’’ قرآن ناطق‘‘ ہے ۔

اب ضروری ہے کہ ’’قرآن ناطق‘‘ کے ذیل میں انسان کے مفہوم کو سمجھ لیا جائے ، انسان کی تعریف خود بہ خود آپ کے ذہن میں آجائے گی ، انسان کی تعریف کا یہ انداز اتنا جامع ، مکمل اورموَثر ہے کہ اس میں جہانِ معنی کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ’’قرآن ناطق‘‘ کی تعریف ہر شخص پر صرف اس وقت ہی صادق آتی ہے جب وہ اس کا ثبوت اپنی ذات کے عرفان کی صورت میں پیش کردے ، یعنی جب تک انسان نفس کلی کے عرفان کا حامل نہ ہوگا وہ ’’قرآن ناطق‘‘ نہیں کہلا سکتا ، ذات کے عرفان تک پہنچنے کےلیے ہ میں اپنے نفس کے راستے سے ہوکر گزرنا پڑے گا ، اس حوالے سے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نہایت قابل توجہ ہے :

’’ جس نے اپنے نفس کہ پہچانا اس نے اپنے ربِ کو پہچانا ‘‘

طرزِ فکر کا فرق

اس نکتے پر ہمارا زور اسلیے ہے کہ روحی اور روحانی صلاحیتوں کے مالک اشخاص آسمان سے براہ راست نہیں اترا کرتے ، وہ بھی ہمارے اور آپ کے جیسے انسان ہی ہوتے ہیں ، ہاں ، فرق اگر ہوتا ہے تو ہمارے اور ان کے طرز فکر میں ، یہ فرق بہ ظاہر تو بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور اسے خاطر خواہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی مگر یاد رکھیے کہ صرف اور صرف طرز فکر ہی کے فرق سے ایک شخص بلندیوں پر فائز ہوتا ہے اور دوسرے کا مقدر پستیاں ٹھہرتی ہیں ، ایک انسان وہ ہے جو چند سکّوں کی خاطر جانوروں کی طرح اپنے جیسے انسانوں کو نوچتا کھسوٹتا ہے ، محض وقتی آرام یا لمحاتی تسکین کےلیے ذلت و ظلمت کی ان گہرائیوں میں اتر جاتا ہے کہ جن سے شیطان بھی شرمائے اور ایک وہ بھی انسان ہے جو ببانگ دہل کہتا ہے ;242;مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ۔

انسان اور انسان میں اتنا فرق ;238; آخر کیوں ;238;

جی ہاں ! یہ محض طرز فکر کا فرق ہے ، محض سوچنے کے انداز میں تفاوت سے انسان اتنا بلند اور اتنا پست ہوجاتا ہے کہ کہیں تو وہ جانوروں سے بھی بد تر ٹھہرے اور کہیں شان خدا وندی بھی اس کی نظروں میں نہ جچے ۔

انسان کی صلاحیتوں ، مرتبے ، قوتوں اور عظمت و بلندی میں پایا جانے والا یہ فرق ہ میں دعوت فکر دے رہا ہے، سوچنے اور انداز فکر میں مثبت تبدیلیاں لانے پر اکسا رہا ہے تاکہ ہم بھی حیوان ناطق کی صفوں سے نکل کر قرآن ناطق کی اولین و معزز صفوں میں جگہ پاسکیں ۔

ائمہ اور صوفیا کی رائے

خواجہ حسن بصری ;231; فرماتے ہیں ’’ جادوگر کا کوئی دین یا مذہب نہیں ہوتا ‘‘ یہاں یہ بات لازماً ذہن میں رہے کہ جادو سے مراد منفی طرز فکر ہوتی ہے ، مذہب سے متعلق کتب اور علماَ و فقہا نے جادوگروں کے متعلق مختلف آراَ کا اظہار کیا ہے ، امام مالک ;231; ، امام احمد بن حنبل ;231; اور امام اعظم ابو حنیفہ ;231; اس کے کفر کے قائل ہیں جبکہ علماَ کی کثیر تعداد کے نزدیک اگر جادوئی اثرات ادویات یا بخورات سے متعلق ہوں تو پھر یہ کفر نہ ہوگا ۔

اس ضمن میں حضرت امام شافعی;231; کا قول ہے کہ ’’ ہم جادوگر سے پوچھیں گے کہ وہ اپنے جادو کے بارے میں ہ میں بتائے ، اگر جادوگر کا بیان کفر کی حد تک پہنچ جائے جیساکہ اہل بابل کا عقیدہ تھا تو پھر وہ کافر ہے لیکن اگر جادوگر کی باتیں کفر کی حد تک نہیں پہنچتیں تو ہم یہ دیکھیں گے کہ آیا یہ شخص جادو کو مباح سمجھتا ہے یا نہیں ;238; اگر مباح سمجھے تو اس پر کفر کا اطلاق ہوگا ‘‘

دراصل ذہن و مذہب کی رو سے جادوگروں کو اسلیے ناپسندیدہ اور بعض اوقات کافر قرار دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اپنی قوت سے تخریب کا کام لیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے بنی نوع انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔

ابن قدامہ اپنی کتاب ’’الکافی‘‘ میں فرماتے ہیں ’’ سحر ان تعویذ گنڈوں اور دھاگوں کی گانٹھوں کو کہتے ہیں جو انسان کے بدن اور خصوصاً دل پر اثر کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے انسان بیمار ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی اس کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے اور بعض اوقات میاں بیوی میں پھوٹ تک پڑجاتی ہے ۔ ‘‘(جاری ہے)

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2020

2021 بھارت میں داخلی انتشار کا سال

مودی حکومت کو خطرات ،احتجاجی تحریکوں کا امکان

برصغیر ( انڈوپاکستان) ایک طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947ءکو آزاد ہوا اور اس طرح دو قومی نظریے کی بنیاد پر دو نئے ملک وجود میں آئے، بھارت اور پاکستان،ابتدا ہی سے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات شروع ہوگئے تھے جن میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ تھا جو آج تک بھی تنازعات کا باعث ہے۔

مختلف تنازعات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان چھوٹی بڑی کئی جنگیں ہوچکی ہیں، بھارت پاکستان کے مقابلے میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے، پاکستان آزادی کے بعد دو حصوں میں تقسیم تھا، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان لیکن بدقسمتی سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان صرف پاکستان رہ گیا، یہاں ہمارا موضوع پاکستان نہیں ہے، بھارت ہے۔

15 اگست 1947 شب صفر بج کر صفر منٹ بمقام دہلی وجود میں آنے والا بھارت اپنے زائچہ ءپیدائش کے مطابق کیسا ہے اور آئندہ کیسا رہے گا؟ اس موضوع پر گفتگو ہوگی۔

زائچہ بھارت




بھارت ہمیشہ سے مختلف مذاہب ،عقائد اور قومیتوں کا مجموعہ ہے، شاید ہی دنیا میں کوئی ملک اس حوالے سے بھارت کا ہم پلہ ہوگا جہاں ہندو ،سکھ، عیسائی، مسلمان، بڈھست، جین، یہودی، پارسی،الغرض بے شمار مذاہب اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں، مزید طرفہ تماشا رنگ و نسل اور قومیتوں کا تضاد بھی نظر آتا ہے،بھارت کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والے قائدین جن میں پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کے رفقاءسرفہرست ہیں، اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ اس قدر مختلف النوع آبادی کو متحد اور ترقی کے راستے پر گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو کسی مخصوص مذہب یا عقیدے کے بجائے سیکولر اسٹیٹ بنایا جائے، چناں چہ ابتدا ہی سے ملک کے آئین کو بھی سیکولر بنیادوں پر ترتیب دیا گیا، جواہر لال نہرو کی سیاسی جماعت کانگریس پارٹی جو تحریک آزادی میں ایک نمایاں کردار ادا کرکے ملک بھرمیں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکی تھی، اس میں بھی سیکولر ازم کو نمایاں کیا گیا، ملک کے پہلے وزیر تعلیم ایک مسلمان مولانا ابوالکلام آزاد تھے، بعد میں صدارت کے عہدے پر بھی ایک مسلمان کو موقع دیا گیا جن کا نام پروفیسر ذاکر حسین تھا، الغرض کانگریس سیکولرازم کی بنیاد پر ملک کو ترقی اور کامیابی کے راستے پر چلانے میں کامیاب رہی لیکن اس کے ساتھ ہی ابتدا ہی سے ہندو انتہا پسند گروہ بھی مصروف کار تھا، اس نے اس صورت حال کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور وہ ملک کی تقسیم کے بھی خلاف تھا، یہ ہندو انتہا پسند جن سنگھ پارٹی تھی جس کے ایک رکن نے بالآخر بھارت کے سب سے زیادہ محترم لیڈر مہاتما گاندھی کو قتل کردیا اور اس طرح سیکولر ازم کے جاری نظام کے خلاف آواز بلند کی، رفتہ رفتہ جن سنگھ (RSS) کی بنیادیں مضبوط ہوتی چلی گئیں اور ایک مرحلے پر جب کانگریس پارٹی اپنی لیڈر اندرا گاندھی کی غلط پالیسیوں کے سبب کمزوری کا شکار ہوئی تو 1977 میں جن سنگھ کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) برسر اقتدار آگئی لیکن کانگریس کو بہت جلد اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا اور تھوڑے ہی عرصے میں بی جے پی کی حکومت ناکام ہوکر ختم ہوگئی اور دوبارہ کانگریس پارٹی اقتدارمیں آگئی، اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد کانگریس آہستہ آہستہ کمزور ہوتی چلی گئی اور بی جے پی اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے سبب اپنا اثرورسوخ بڑھاتی چلی گئی، بی جے پی کے مشہور انتہا پسند سیاست دانوں میں ایل کے ایڈوانی ،اٹل بہاری واجپائی وغیرہ نمایاں رہے ، موجودہ وزیراعظم اور ان کے رفقائے کار بھی جنتا پارٹی کے اہم رکن ہیں، یہ لوگ ماضی میں جن سنگھ کے ممبر رہے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو بابری مسجد کو شہید کرنے میں پیش پیش تھے۔

بھارت کی اس مختصر ترین سیاسی تاریخ کے بعد ہم اس ساری صورت حال کو بھارت کے زائچے کی روشنی میں دیکھیں گے۔

زائچے کے پہلے گھر میں برج ثور سات درجہ 46 دقیقہ طلوع ہے، راہو زائچے میں پانچ درجہ 44 دقیقہ اور کیتو ساتویںگھر برج عقرب میں شرف یافتہ ہے، گویا یہ دونوں منحوس پرچھائیں سیارے پوری طرح زائچے کو متاثر کر رہے ہیں، زائچے کا پہلا ،تیسرا ، پانچواں، ساتواں ، نواں اور گیارھواں گھر راہو کیتو کی وجہ سے متاثرہ ہے، سیارہ مریخ زائچے کے دوسرے گھر میں سات درجہ 27دقیقہ برج جوزا میں موجود ہے، گویا ایک اور نحس نظر زائچے کے دوسرے ،چھٹے،آٹھویں اور نویں گھر کو متاثر کر رہی ہے، کسی عام آدمی کے زائچے میں مریخ کی ایسی نظر اسے ”مینگلیک“ بناتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سیارہ مریخ یعنی منگل کی یہ پوزیشن شادی اور ازدواجی زندگی کے لیے نہایت منحوس اثر رکھتی ہے،کسی ملک کے زائچے میں مریخ کی یہ پوزیشن معاشی خرابیوں کے ساتھ حادثات و سانحات اور آئینی و قانونی تنازعات، ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ کی نشان دہی کرتی ہے، ترقیاتی امور میں منفی رجحانات لاتی ہے۔

زائچے کے تیسرے گھر برج سرطان میں قمر ، عطارد، زحل،زہرہ اور شمس موجود ہیں، قمر، اپنے گھر میں ہے اور ملک کی قیادت کو ظاہر کرتا ہے لیکن ساتویں گھر سے کیتو کی نظر ظاہر کرتی ہے کہ بھارتی قائدین کسی نہ کسی سطح پر انتہا پسندانہ نظریات کے حامل رہے ہوںگے،ماضی میں اگر نہرو سیکولر ذہن رکھتے تھے تو سردار پٹیل اور بعض دوسرے رہنما انتہا پسندانہ نظریات کے حامل تھے،عطارد کی اچھی پوزیشن ملک میں تعلیمی نظام کو فروغ دینے کا باعث ہے، چناں چہ ملک بھر میں بے شمار کالج اور یونیورسٹیز وجود میں آئیں،سیارہ زہرہ اور زحل زائچے میںغروب ہیں جس کی وجہ سے حکمرانوں کو اگر ڈکٹیٹر بننے کا موقع کم ملا تو سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی حدود میں رہنا پڑا، سیارہ شمس جو چوتھے گھر کا حاکم ہے، عوام اور اپوزیشن کی نمائندگی کرتا ہے، کمزور ہونے کے باوجود اچھی پوزیشن رکھتا ہے، چناں چہ اپوزیشن بھی مضبوط رہی اور عوام کو بھی اپنے حقوق کے لیے بھرپورانداز میں آواز اٹھانے کا موقع ملا، دوسرے معنوں میں بھارتی عوام جمہوری مزاج کو سمجھتے ہیں جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

سیارہ مشتری جو زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے چھٹے گھر برج میزان میں ہے، گویا ابتدا ہی سے تنازعات بڑے حادثات اور سانحات کا باعث بنتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہےں گے۔

اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو جب بھی سیارہ قمر کا دور آیا ہے، بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو بڑھاوا ملا ہے،خاص طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیارہ عطاد کے دور اکبر میں قمر کا دور اصغر 10 اکتوبر 1972 ءسے 11 مارچ 1974 ءتک جاری رہا، یہی وہ دور تھا جس میں کانگریس کمزور ہوئی، اندرا گاندھی کو ملک میں ایمرجنسی لگانا پڑی اور بالآخر آنے والے الیکشن میں جنتا پارٹی نے پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی اور ملک کی باگ دوڑ سنبھالی، اگست 1984 ءمیں کیتو کے دور اکبر میں قمر کا دور اصغر انتہا پسندانہ اقدام کی نمایاں مثال پیش کرتا ہے جب سکھوں کے خلاف امرتسر میںآپریشن کیا گیا اور نتیجے کے طور پر اندرا گاندھی قتل ہوئیں، قصہ مختصر یہ کہ قمر کا دور بھارت میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ رجحانات کے فروغ کا باعث نظر آتا ہے، 11 ستمبر 2015 سے بھارت کے زائچے میں سیارہ قمر کا دس سالہ دور اکبر شروع ہوا، ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے اکتوبر 2015 میں اس صورت حال پر روشنی ڈالی تھی، یہ آرٹیکل ماہنامہ آئینہ قسمت میں اور دیگر اخبارات و رسائل میں شائع ہوا تھا، اس آرٹیکل کا ایک اقتباس دیکھیے۔

”انڈیا کے زائچے میں سیارہ شمس کا دور اکبر جاری تھا جو 11 ستمبر 2015 ءکو ختم ہوگیا،شمس زائچے کے چوتھے گھر کا حاکم اور تیسرے گھر میں قابض ہے،زائچے کا سعد سیارہ ہے، 11 ستمبر سے قمر کا دور اکبر 10 سال تک جاری رہے گا،قمر بھی زائچے کا سعد سیارہ ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ یہ ساتویں گھر میں قابض غضب ناک کیتو کی نظر میں ہے،زائچے کا تیسرا گھر پہل کاری ، قیادت، نئی سوچ اور نئے راستوں پر آگے بڑھنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے،اس کا حاکم قمر چوں کہ منفی اثرات کا شکار ہے لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کے عزائم آئندہ دس سال تک جارحانہ ہی رہیں گے،اس میں سب پیریڈ کی مناسبت سے کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن یہ خیال کرنا حماقت ہوگی کہ باہمی بھائی چارے کی فضا پروان چڑھ سکے گی اور دونوں سابقہ حریف باہم شیروشکر ہوجائیں گے“۔

2014 ءمیں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی اور نریندر مودی وزیراعظم بن گئے تھے، قمر کا دور اکبر اور اس میں قمر ہی کا دور اصغر جو 11 جولائی 2016 ءتک جاری رہا اور نریندر مودی کے جن سنگھی عزائم کا آئینہ دار رہا، نریندر مودی کی حکومت اتنی اکثریت میں نہیں تھی کہ اہم اقدامات کے ذریعے اپنے اصل عزائم کو پایہ ءتکمیل تک پہنچاتی لیکن 2019 کے انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی زیادہ مضبوط ہوکر سامنے آئی اور پھر وہ سب کچھ ہواجو بتانے کی ضرورت نہیں ہے،کشمیر میں جاری لاک ڈاو¿ن اس کامنہ بولتا ثبوت ہے لیکن نریندر مودی کی دانش وری کا پول کھل گیا، ثابت ہوگیا کہ وہ انتہائی چھوٹا ذہن رکھنے والے انسان ہیں، دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد سے آج تک انھوں نے جو اقدام کیے وہ اب ان کے حلق کی ہڈی بن رہے ہیں۔

اگر نریندر مودی کے دور اقتدار کا ایسٹرولوجیکل جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ قمر کے دور اکبر میں گیارہ جولائی 2016 سے سیارہ مریخ کا دور اصغر شروع ہوا، اس دور میں انھوں نے اپنے خفیہ عزائم کو پایہ ءتکمیل تک پہنچانے کے لیے دنیا بھر کے دورے کیے اور امریکا کے علاوہ عرب ممالک سے بھی تعلقات بڑھانے پر زور دیا، 9 فروری 2017 سے راہو کا فریبی دور شروع ہوا جو گیارہ اگست 2018 تک جاری رہا، اسی دور میں انھوں نے عوام کو گمراہ کرنے اور ”ہندوتوا“ کا پرچار کرنے کی کوشش کی، گویا کھل کر اپنے اصل عزائم کا اظہار شروع کردیا، 11 اگست 2018 سے 11 دسمبر 2019 تک سیارہ مشتری کا دور اصغر نہایت منحوس اثر کا حامل رہا جس میں نریندر مودی نے آرٹیکل 370 ختم کرکے نئی آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر اور دیگر بھارتی ریاستوں کی گردن پر چھری پھیر دی۔

2017 ءسے 2019ءتک دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل آٹھویں گھر میں نہایت خراب پوزیشن میں رہا، یہ صورت حال بھی مودی کے عزائم میں رکاوٹ کا سبب رہی، مزید یہ کہ اس عرصے میں بھارتی حکومت کو مسلسل دشواریوں اور نت نئے چیلنجز کا سامنا رہا، سال 2020 ءبھی بھارت کے لیے زیادہ خوش کن نہیں ہے، نریندر مودی اور ان کی حکومت جن خوش فہمیوں میں مبتلا ہے اور رام مندر کا افتتاح کرکے شادیانے بجا رہی ہے، پاکستان سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان لینے کا پروگرام بنارہی ہے، ایک چھوٹے سے چین کے لداخ پر حملے سے بری طرح بوکھلا گئی ہے، یہی نہیں بلکہ بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی احتجاجی صورت حال نظر آتی ہے، نیپال نے نیا نقشہ جاری کرکے بھارت کے لیے نیا چیلنج پیدا کردیا ہے۔

نریندر مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیاں اب رنگ لارہی ہیں، بھارتی معیشت بھی بری طرح تنزل کا شکار ہے، پاکستان کے ساتھ مسلسل سرحدی جھڑپیں جاری ہیں، آسام، ناگالینڈ اور دیگر ریاستیں بھی علیحدگی پسندانہ رجحانات ظاہر کر رہی ہیں۔

انڈیا کے زائچے میں اگرچہ سیارہ زحل اچھی پوزیشن میں آچکا ہے لیکن 2020 میں اسے وہ توانائی حاصل نہیں ہوسکی جو فائدہ بخش ثابت ہوسکتی ہے، راہو اور کیتو اب زائچے کے پہلے اور ساتویں گھر میں آچکے ہیں اور آئندہ سال 2021 میں سیارہ زحل کو راہو مسلسل متاثر کرے گا جس کی وجہ سے بھارتی قیادت مزید غلطیاں کرے گی، اس کے فیصلے اور اقدام مزید مسائل کا سبب بنیں گے، دوسری طرف اسی سال 20 نومبر کے بعد سے سیارہ مشتری برج جدی میں داخل ہوگا اور سیارہ زحل سے قران کرے گا، اس کے فوری بعد شمس کی قربت کے سبب غروب بھی ہوگا،مشتری نومبر دسمبر میں پیدائشی سیارہ قمر سے نظر قائم کرے گا ، یہ وقت بھارت کے لیے خاصا مشکل ہوگا، نئے حادثات اور سانحات کو جنم دے گا، اس عرصے میں بھارت کے کسی اہم لیڈر کی موت کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔

نیا سال 2021

نئے سال کا آغاز بھارت کے لیے خوش آئند نظر نہیں آتا، کورونا وائرس کی وبا بھارت میں تاحال آو¿ٹ آف کنٹرول ہے اور آئندہ بھی یہ صورت حال مزید جاری رہنے کا امکان موجود ہے، مشتری اور مریخ کی پوزیشن جنوری میں بہت سے نئے مسائل کو جنم دے گی اور بالآخر 11 فروری 2021 ءکو زائچے کے نویں گھر میں 6 سیارگان کا قران بھارت میں غیر معمولی نئی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ دے گا، موجودہ انتہا پسندانہ مذہبی جنون کے مقابلے میں سیکولر نظریات کی اہمیت کا شعور اجاگر ہوگا، نریندر مودی اور ان کی حکومت آہستہ آہستہ اپنا اثر کھونے لگی ہے، 2021 کا سال بھارتی عوام اور دانش وروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردے گا کہ نریندر مودی نے بھارت کو جس راستے پر ڈالا ہے، وہ راستہ درست نہیں ہے،حقیقت پسندانہ سوچ بے دار ہوگی، اس حوالے سے بھارت میں نئی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں اور نتیجے کے طور پر ملک میں ایک تصادم کی فضا جنم لے سکتی ہے جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ ملک میں کوئی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت پیش آئے جیسا کہ ماضی میں اندرا گاندھی کو پیش آئی تھی، یہ صورت حال مودی حکومت کو کمزور کرے گی اور ملک میں بڑھتا ہوا انتشار نئے انتخابات کی راہ ہموار کرے گا۔

2020 اپنی ابتدا ہی سے بھارت کے لیے ایک مشکل ترین سال نظر آتا ہے اور ساتھ ہی بھارتی حکومت کے لیے بھی کچھ ایسے چیلنج لارہا ہے جن کا مقابلہ کرنا بھارتی قیادت کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوگا، خیال رہے کہ دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اپریل کے مہینے میں بری طرح راہو سے متاثر ہوگا،اسی طرح سیارہ مشتری کی پوزیشن بھی زحل کے علاوہ زائچے کے تقریباً تمام ہی سیارگان کو جو زائچے کے دوسرے گھر میں پیدائشی طور پر موجود ہیں، متاثر کرے گی،اس کے بعد بھی راہو تقریباً ستمبر تک زحل کو متاثر کرتا رہے گا لیکن بدترین وقت کا آغاز 15 اکتوبر سے ہوگا جس کے نتیجے میں نریندر مودی کی حکومت جانے کا امکان موجود ہے۔

واضح رہے کہ راہو کیتو بھی تقریباً اکتوبر ہی سے ایسی پوزیشن میں ہوں گے جب زائچے کے پہلے ، تیسرے، پانچویں، ساتویں، نویں اور گیارھویں گھر کو بری طرح متاثر کریں گے،یہ صورت حال ملک میں شدید نوعیت کی سنسر شپ ، کوئی ایمرجنسی اور ملک میں داخلی انتشار ، عوامی احتجاج اور پڑوسی ممالک سے شدید نوعیت کی محاذ آرائی کا باعث ہوسکتی ہے۔