پیر، 30 اکتوبر، 2017

اب خداوں کے دن تو گنے جاچکے


نومبر کی فلکیاتی صورت حال، پاکستانی سیاست و حکومت میں نیا موڑ
پل پل رنگ بدلتا آسمان ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے، پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ اہم اور ناقابل فراموش دور سے گزر رہا ہے،تقریباً 17 سال قبل یعنی 2000 ءمیں یعنی نئی صدی کے آغاز ہی میں آسمانی کونسل کے تقریباً تمام ہی اراکین کا ایک بڑا اجتماع دائرئہ بروج کے پہلے برج حمل میں ہوا تھا، قمر اور مریخ کے علاوہ باقی تمام یعنی پانچ سیارگان ایک ہی برج میں جمع تھے،راہو کیتو بالترتیب برج سرطان اور جدی میں حرکت کر رہے تھے اور بعض ویدک ایسٹرولوجرز کے بقول ”کال سرپ یوگ“ بنارہے تھے، یہ یوگ نہایت منحوس اور نقصان دہ خیال کیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ دنیا بھر کے لیے اس کی نحوست اگر ہے تو اثر انداز ہوگی۔
کال سرپ یوگ ایک متنازع یوگ ہے،قدیم کلاسیکل ویدک سسٹم میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن بعد کے اکثر ماہرین نجوم اسے تسلیم کرتے ہیں، جب کہ بعض اسے محض پنڈتوں کی من گھڑت قرار دیتے ہیں، ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ یہ یوگ پنڈتوں نے اپنے پیشہ ورانہ مفاد کے لیے ایجاد کیا ہے تاکہ لوگوں کو خوف زدہ کرکے ان سے زیادہ سے زیادہ بھینٹ لی جائے۔
اس یوگ کا تذکرہ برسبیل تذکرہ آگیا ہے،ہمارے نزدیک زیادہ اہم بات ایک سے زائد سیارگان کا ایک ہی برج میں جمع ہونا ہے جسے اصطلاحاً ”قران“ کہا جاتا ہے، ایسٹرولوجی کے قدیم نظریات کے تحت ایک سے زائد یعنی تقریباً پانچ ، چھ یا سات سیارگان کا کسی ایک ہی برج میں اجتماع دنیا میں غیر معمولی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتا ہے، روایت ہے کہ ایسے عظیم قرانات طوفان نوح سے قبل یا انبیاءکی پیدائش سے قبل اور یوم الفیل سے قبل یا دیگر بہت بڑے دنیاوی واقعات سے قبل مشاہدے میں آتے رہے ہیں۔
مئی 2000 ءمیں ہونے والا یہ اجتماع اب تقریباً 17 سال بعد یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دنیا کس طرح تبدیل ہوچکی ہے،اس اجتماع کے فوری بعد 2001 ءمیں ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی تباہی کا واقعہ پیش آیا جس نے پوری دنیا کی کیمسٹری تبدیل کردی، اس کے بعد امریکا نے افغانستان پر اور بعد ازاں عراق پر چڑھائی کردی، صدر بُش نے صلیبی جنگ کا نعرہ لگادیا ، بہر حال اب تک جو بھی حالات وواقعات سامنے آئے وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے،پاکستان بھی اس صورت حال سے بری طرح متاثر ہوا، جنرل مشرف کے دس سال اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سال اور اب ن لیگ کے تقریباً ساڑھے چار سال مسلسل پاکستان کو مصائب و مشکلات سے دوچار کرتے چلے گئے ہیں، آج صورت حال یہ ہے کہ ملک کی سیاسی اشرافیہ اس طرح بے نقاب ہورہی ہے کہ لوگ سیاست سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور جمہوریت کو چند مخصوص افراد کے مفادات کا ذریعہ کہہ رہے ہیں، شاید اس سے پہلے جمہوریت کی ایسی ذلت و رسوائی دیکھنے میں نہ آئی ہو، اکثر سیاسی تجزیہ کار اور دانش ور اب کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، ہمارے پیش نظر اس وقت سال کے آخری دو مہینے ہیں اور ہم اپنی گفتگو کو ان دو مہینوں تک ہی محدود رکھیں گے کیوں کہ سال 2018 ءکے حوالے سے ہمارا ایسٹرولوجیکل تجزیہ فی الحال اشاعت کے مرحلے میں ہے اور اپنے قارئین کے مطالعے کے لیے اسے ہم آئندہ ماہ پیش کریں گے۔
نومبر میں صورت حال خاصی سنسنی خیز ہے،3 نومبر سے ایک ایسے وقت کا آغاز ہورہا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ اہل سیاست پر حاوی نظر آتی ہے،ممکن ہے بعض احباب یہ بھی کہیں کہ ”وہ حاوی کب نہیں تھی؟“ لیکن زیادہ سنسنی خیز اور ایڈونچرر ٹائم کا آغازدسمبر کے پہلے ہفتے سے ہوگا، کوئی بڑا آئینی بحران جنم لے سکتا ہے،ممکن ہے جس ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کی جارہی ہیں، اس کے خدوخال نمایاں ہوجائیں (واللہ اعلم بالصواب) 
اس ماہ کے لیے اظہر عباس کا یہ قطع بڑا برمحل ہے
اب کوئی اور جادو دکھاو میاں
ایک ہی جھوٹ سے لوگ تنگ آچکے
تم خدائی کا دعویٰ نہ کر بیٹھنا
اب خداوں کے دن تو گنے جاچکے 
نومبر کے ستارے
حکومت و اقتدار کا ستارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے،22 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، آسمانی کونسل کا وزیر اطلاعات و نشریات سیارہ عطارد برج عقرب میں ہے،6 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ اپنے ذاتی برج میزان میں ہے،7 نومبر کو برج عقرب میں داخل ہوگا، سپہ سالارِ فلک سیارہ مریخ برج میزان میں حرکت کر رہا ہے اور پورا ماہ اسی برج میں رہے گا، وسعت و ترقی اور علم و دانش کا ستارہ مشتری برج عقرب میں پورا ماہ رہے گا، استاد زمانہ سیارہ زحل برج قوس میں ہے، ایجادات و اختراعات کا ستارہ یورینس برج حمل میں ہے،پراسرار نیپچون برج حوت میں اور کایہ پلٹ کرنے والا پلوٹو برج جدی میں ہے، جب کہ راس و ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں حرکت کر رہے ہیں۔
عزیزان من! یہ رفتارِ سیارگان یونانی علم نجوم کے مطابق دی جارہی ہیں۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
نومبر کے مہینے میں اہم سیارگان کے درمیان تشکیل پانے والے زاویے خاصے دلچسپ ہیں، اس ماہ تسدیس اور تثلیث کے چار چار، اسکوائر کے دو، اپوزیشن کا ایک زاویہ تشکیل پائے گا، جب کہ دو سیارگان کے باہمی ملاپ کے زاویے دو ہوں گے،تاریخ وار ان زاویوں کی نشان دہی اور ممکنہ اثرات درج ذیل ہیں۔
3 نومبر: زہرہ اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ ہوگا، یہ نظر اکثر معاملات میں پائیداری اور افہام و تفہیم لاتی ہے،خاص طور پر ازدواجی زندگی یا شراکت کے امور میں مضبوطی کے لیے اس وقت کوشش کرنا چاہیے، میڈیسن سے متعلق بزنس کی ابتدا کرنا یا میڈیسن کے کام کو بہتر طور پر انجام دینا اس وقت آسان ہوتا ہے، زیورات کی تیاری کے لیے بھی اچھا وقت ہے۔
4 نومبر: شمس اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا زاویہ اور اسی روز زہرہ اور یورینس کے درمیان مقابلے کی نظر ہے، گویا ایک سعد زاویہ ، دوسرا نحس، شمس اور نیپچون کی تثلیث گورنمنٹ کے ذریعے فوائد دیتی ہے، حکومت کی طرف سے نئے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے، مائع اشیا کے بزنس کو ترقی دینے یا زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے بہتر وقت ہے لیکن زہرہ یورینس کے درمیان اپوزیشن کا زاویہ باہمی ہم آہنگی اور توازن کو اچانک بگاڑ سکتا ہے،بنتے ہوئے کام بگڑ سکتے ہیں، خصوصاً خواتین کا رویہ عجیب اور نہ سمجھ میں آنے والا ہوسکتا ہے،بعض لوگوں کی منگنی یا محبت کے معاملات اچانک کوئی نیا رُخ اختیار کرسکتے ہیں، اس وقت فوری فیصلوں سے گریز کرنا چاہیے۔
زائچہ ءپاکستان میں یہ نظر غیر معمولی اہم واقعات کا باعث بن سکتی ہے،خصوصاً اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے اقدام یا فیصلے غیر معمولی صورت حال پیدا کرسکتے ہیں،کابینہ میں ردوبدل اور دیگر سرکاری اداروں میں تبدیلیاں دیکھنے میں آسکتی ہیں۔
9 نومبر: شمس و پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے لیکن عام آدمی کی زندگی میں اس کا اثر خارج ازمکان ہے، بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان پاور پلے کا رجحان نظر آسکتا ہے۔
11 نومبر: زحل اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ بھی فوری اثرات کا حامل نہیں ہے اور عام آدمی کے لیے بھی اہم نہیں ہے کیوں کہ ایسے زاویے قوموں اور ملکوں کے لیے زیادہ اہم ہوتے ہیں اور ان کے اثرات ایک طویل عرصے میں جاکر ظاہر ہوتے ہیں، واضح رہے کہ اس سال کے شروع میں بھی یہ زاویہ تشکیل پایا تھا اور آئندہ بھی یہ زاویہ دیکھنے میں آئے گا۔
 بین الاقوامی طور پر اور ملکی زائچے میں اس کے اثرات معاشرتی اقدار اور رویوں میں نئی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں، گویا آئندہ سالوں میں دنیا نئی ارضیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرے گی، انسانی محنت و مشقت کو کم کرنے اور زیادہ سے زیادہ الیکٹرونکس پر انحصار کرنے کا دور جو ماضی میں شروع ہوچکا ہے، آئندہ چند سالوں میں اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا۔
13 نومبر: زہرہ اور مشتری کا باہمی ملاپ جو ”قران السعدین“ کہلاتا ہے،اس زاویے کو سعد اکبر تسلیم کیا جاتا ہے اور خوش قسمتی کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، تقریباً تمام ہی کاموں کے لیے یہ وقت بہتر سمجھا جاتا ہے،خصوصاً مالی فوائد، پروموشن، کاروباری ترقی، دو افراد کے درمیان پارٹنر شپ یا محبت و دوستی وغیرہ کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے،اس وقت ماہرین جفر خصوصی نقش و طلسم تیار کرتے ہیں۔
پاکستان کے زائچے میں اس کے اثرات نحس ہوں گے،فوج اور بیوروکریسی سے متعلق افراد کو حادثات پیش آسکتے ہیں، حکومت سے متعلق امور میں نئے تنازعات اور اختلافات جنم لے سکتے ہیں، ملک میں جاری آپریشن مزید تیز ہوجائے گا۔
14 نومبر: عطارد اور نیپچون کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،اس وقت دھوکے اور فراڈ کے معاملات سامنے آتے ہیں، افواہیں پھیلتی ہیں، میڈیا میں غلط خبریں گردش کریں گی، عام لوگوں کو اس دوران میں دوسروں سے معاملہ کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، اجنبی اور مشکوک افراد سے محتاط رہیں۔
16 نومبر: زہرہ اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ محبت، دوستی اور نئی دلچسپ تفریحات کی طرف متوجہ کرتا ہے،ملک میں انٹرٹینمنٹ کے حوالے سے دلچسپ پروگرام سامنے آسکتے ہیں، عام آدمی کے لیے یہ بہتر انجوائے منٹ کا وقت ہوگا۔
17 نومبر: عطارد اور مریخ کے درمیان تثلیث کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،متنازع اور اختلافی معاملات میں بات چیت کے ذریعے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، مشینری اور ٹرانسپورٹ سے متعلق کاروبار فائدہ بخش رہیں گے، ٹیکنیکل نوعیت کے کاموں میں بہتر نتائج اور کارکردگی آسان ہوگی۔
19 نومبر: مریخ اور پلوٹو کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،یہ زاویہ حادثات و سانحات کا باعث بن سکتا ہے،ڈرائیونگ کے معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی،پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات سامنے آسکتے ہیں۔
21 نومبر: زہرہ اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،محبت، دوستی وغیرہ کے معاملات میں گرم جوشی اور شدت کا باعث ہوگا لیکن خواتین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، یہ نظر حدود و قیود کو توڑتی ہے اور گناہ کی طرف راغب کرتی ہے۔
25 نومبر: عطارد اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، تحریری اور تقریری سرگرمیوں کے لیے اچھا وقت ہے،ذرائع ابلاغ کی بہتر کارکردگی دیکھنے میں آئے گی، نئی چونکا دینے والی خبریں یا اطلاعات منظر عام پر آئیں گی،عام آدمی کے لیے کوئی نئی تبدیلی لانے کا وقت ہے، اگر آپ اپنی زندگی میں یا کاروبار میں یا جاب میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس وقت سامنے آنے والے مواقع ضائع نہ کریں۔
28 نومبر: عطارد اور زحل کا قران ایک مثبت زاویہ ہے، اس وقت میں طویل المدت منصوبہ بندی یا ایگریمنٹ بہتر ثابت ہوں گے،پراپرٹی کی خریدوفروخت اور دستاویزات کی تیاری کے لیے بہتر وقت ہے، یہ وقت علاج معالجے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
شرف قمر
چاند اس ماہ اپنے شرف کے برج ثور میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق جمعہ 3 نومبر کو دوپہر 02:46 pm پر داخل ہوگا اور شرف کے درجے پر 06:03 pm سے 07:42 pm تک رہے گا۔
غیر ممالک میں مقیم اپنے قارئین کے لیے ہم یہاں جی ایم ٹی ٹائم بھی دے رہے ہیں تاکہ تمام ممالک کے لوگ اپنے ملک سے جی ایم ٹی ٹائم کا فرق جمع یا تفریق کرکے درست وقت حاصل کرسکیں، اس سلسلے میں یہ بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ برطانیہ، کنیڈا، امریکا اور آسٹریلیا یا جاپان وغیرہ میں اگر سمر ٹائم چل رہا ہو تو اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہوگا کیوں کہ یہ اضافی ٹائم ہوتا ہے۔
جی ایم ٹی ٹائم (لندن ٹائم ) کے مطابق قمر برج ثور میں جمعہ 3 نومبر کو 09:48 am پر داخل ہوگا لیکن درجہ ءشرف پر 01:03 pm سے 02:42 pm تک رہے گا۔کنیڈا اور امریکا والوں کو اس وقت میں پانچ یا چھ گھنٹے کا اضافہ کرنا پڑے گا، نیویارک اور ٹورنٹو کا فرق لندن ٹائم سے پانچ گھنٹے آگے کا ہے۔
بہت عرصے کے بعد شرف قمر کا وقت عروج ماہ میں آرہا ہے لہٰذا یہ شرف قمر زیادہ مو ¿ثر اور طاقت ور ہے،اس موقع کے لیے ہم ہر مہینے جو اعمال دیتے ہیں ، ان پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن خصوصی طور پر یہ وقت برکاتی انگوٹھی، خاتم قمر یا لوح قمر نورانی کی تیاری کے لیے نہایت مو ¿ثر اور مبارک ہے،اس سلسلے میں ہماری ویب سائٹ سے متعلقہ عملیات میں رہنمائی لی جاسکتی ہے،جو لوگ یہ چیزیں خود تیار نہیں کرسکتے، وہ براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔
قمر در عقرب
اس مہینے میں قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق جمعرات 16 نومبر کو 01:18pm پر داخل ہوگا اور ہفتہ 18 نومبر کو 11:58 pm تک رہے گا لیکن اپنے درجہ ءہبوط پر 16 نومبر 05:10 pm سے 07:06 pm تک رہے گا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق برج عقرب میں داخلہ16 نومبر 08:18 am پر ہوگا اور 18 نومبر کو 06:58 pm برج قوس میں داخل ہوجائے گا، اس عرصے میں ہبوط کے درجے پر 12:10 pm سے 02:08 pm تک ہوگا، یہی عملیات کے لیے مو ¿ثر ترین اور نحس ترین وقت ہے۔
اس نحس وقت میں روک تھام اور بندش کے عملیات و وظائف یا نقش تیار کیے جاتے ہیں جو ہم وقتاً فوقتاً دیتے رہے ہیں، اپنی ضرورت کے لیے ہماری ویب سائٹ www.maseeha.com سے رہنمائی لے سکتے ہیں یا براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔

پیر، 23 اکتوبر، 2017

اک اور کہانی بھی کہانی سے الگ ہے

دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی احساس کمتری میں ضرور مبتلا ہے
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آج کل افواہوں کا بازار گرم ہے،کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہ سنائی دیتی ہے تو کبھی کسی ایمرجنسی کی باتیں سامنے آتی ہیں، گزشتہ دنوں معاشی امور کے حوالے سے فوجی اور سیاسی حلقوں میں بیانات کی خاصی گرم بازاری رہی لیکن اب یہ معاملہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوگیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ زائچہ ءپاکستان میں جاری سیاروی گردش مختلف پھلجڑیاں سامنے لاتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا، سب سے زیادہ اہم زائچہ ءپاکستان میں اس وقت ایک اہم نظر جو گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے قائم تھی اور 27 اکتوبر کو ختم ہوگی، وہ راہو اور زحل کے درمیان بننے والا زاویہ تھا، یہ نظر پیدائشی زائچے میں بھی موجود ہے،زحل چوں کہ دسویں یعنی حکومت اور کابینہ سے متعلق سیارہ ہے اور راہو سیاست اور فریب و فراڈ کا سیارہ ہے لہٰذا پاکستان میں سیاست کبھی قابل بھروسا نہیں رہی اور جب کہ یہ نظر قائم ہے تو موجودہ سیاسی نظام اور سیاست داں بری طرح اپنا اعتماد کھو رہے ہیں، حکومت اور کابینہ کا جو حال ہے وہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، ملکی حالات میں 3 نومبر تا 5 نومبر اہم تنازعات رونما ہوسکتے ہیں جن سے نئے مباحث جنم لیں گے۔
چوں کہ سیارگان کی کثرت زائچے کے چھٹے گھر کی جانب ہے لہٰذا آئندہ ماہ تک زیادہ فعالیت فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کی نظر آئے گی، البتہ یکم دسمبر سے سیارہ مریخ بھی زائچے کے چھٹے گھر میں داخل ہوگا تو اس کے بعد ایک زیادہ حساس وقت کا آغاز ہوسکتا ہے جس میں عدلیہ ، فوج اور بیوروکریسی کو خصوصی ہدف بنایا جاسکتا ہے،آئینی ترامیم یا نئی قانون سازی کے حوالے سے بھی کوئی نیا شوروغوغا سامنے آسکتا ہے،عدلیہ کے فیصلے اور ان کے حوالے سے رد عمل بھی دیکھنے میں آئے گا، وقت زیادہ حساس ہو تو کوئی ناخوش گوار صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے جو پوری بساط ہی پلٹ دے۔
پاکستان میں معیشت کی زبوں حالی کا چرچا گزشتہ دنوں رہا اور اب یہی صورت حال انڈیا میں نظر آتی ہے کیوں کہ دونوں ملکوں کے زائچوں میں طالع برج ثور ہے،انڈیا میں معیشت پر دباو ¿ کے علاوہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر بھی اس وقت شدید دباو ¿ ہے،تھوڑی سی دیر سویر کے ساتھ دونوں ملکوں میں اکثر صورت حال میں یکسانیت دیکھنے میں آتی ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت تاحال ایک تماشا ہے جب کہ انڈیا میں جمہوری عمل بہر حال جاری و ساری ہے، ہماری عدلیہ کو آزادانہ طور پر کام کرنے کے مواقع نہیں مل سکے،انڈیا میں عدلیہ زیادہ آزاد اور فعال ہے۔
حسب روایت ہمارے ایک محبوب شاعر عارف امام کا تازہ شعر نظر قارئین ہے
کردار ہے اک اور بھی کردار کے اندر
اک اور کہانی بھی کہانی سے الگ ہے
احساس کمتری
ہم جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں قدم قدم پر نت نئے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اور کبھی کبھی کوئی مسئلہ ایسی پیچیدہ نوعیت بھی اختیار کرلیتا ہے جو خود ہماری عقل و فہم سے بالاتر ہوتی ہے لیکن یاد رکھیے کہ مسئلہ خواہ کچھ بھی ہو اور کیسی ہی پیچیدہ نوعیت کیوں نہ اختیار کرگیا ہو اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہماری عقل و فہم کی رسائی اس حل تک نہ ہو پارہی ہو،یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس مسئلے کو بالکل ہی غلط انداز میں دیکھ رہے ہوں اور غلط طریقے پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ، اس سلسلے میں ایک خط ملاحظہ کیجیے جو ہمیں ”س ع“ صاحبہ نے تحریر کیا ہے، وہ لکھتی ہیں۔
”میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حالات و مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، ذہنی مریضہ بن چکی ہوں، اپنے آپ کو اس دھرتی پر، اپنے گھر والوں پر اور خود کو خود پر بوجھ سمجھتی ہوں، میں چاہتی ہوں مجھ میں جو برائیاں اور خامیاں ہیں اور جو کچھ بھی میرے دل میں ہے، میں اسے تحریر کردوں، میں اپنی وہ پریشانیاں آپ کو لکھنا چاہتی ہوں جنہوں نے میری زندگی بالکل بے سکون کردی ہے اور مجھے کسی گھڑی بھی سکون میسر نہیں ہے، میں اپنی شخصیت سے بہت پریشان ہوں، میری اپنی ذہنیت اپنے متعلق ٹھیک نہیں ہے، کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں، میں بالکل بے کار چیز ہوں، میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں مگر سب کہتے ہیں کہ میں سب سے چھوٹی لگتی ہوں، معلوم نہیں کیوں ہر کوئی مجھے دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ تم سب سے چھوٹی ہو، اس وجہ سے میں شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں، میری بہنیں مجھ سے بڑی لگتی ہیں اسی وجہ سے میں ان میں نہیں بیٹھتی، اگر گھر میں مہمان آجائیں تو میں پریشان ہوجاتی ہوں کہ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو وہ کہیں گے کہ یہ سب سے چھوٹی لگتی ہے یا یہ کمزور ہے، یہ سن کر میں مایوس ہوجاتی ہوں، ان کی بات سے مجھے غصہ آتا ہے، ہر وقت یہی الفاظ ذہن میں گھومتے رہتے ہیں کہ کیا میں واقعی کمزور ہوں؟ کیا کہنے والے نے سچ کہا ہے یا پھر مجھ میں ہی شاید کسی چیز کی کمی ہے؟
”میں شروع سے ہی بڑی تنہائی پسند لڑکی تھی جو کسی نے دیا، کھالیا جس کسی نے پہنایا، پہن لیا، اپنی کوئی پسند یا ناپسند نہیں تھی، پہلے میرے والدین میرا بہت خیال رکھتے تھے، مجھے بہت پیار کرتے، میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی مگر جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی تُوں تُوں میرے لیے ان کے پیار میں کمی آتی گئی، اب تو یہ حال ہے کہ مجھے کوئی پسند ہی نہیں کرتا، یہاں تک کہ میرے بہن بھائی، میری والدہ بھی ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں، میں سوچتی ہوں شاید مجھ میں بڑوں والی کوئی بات ہی نہیں ہے، اصل پریشانی کا سبب یہی ہے کہ میں بہت کمزور ہوں اور لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اسمارٹ نہیں بناسکی، میری بھی یہ خواہش ہے اور یہ تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے، اس کی قدر کی جائے، اس کی تعریف کی جائے مگر میں نے تو بچپن سے آج تک اپنی تعریف میں ایک لفظ تک نہیں سنا، کوئی کام بھی کیا تو ڈانٹ پھٹکا رہی سننے کو ملی، پہلے میں ٹھیک تھی مگر جوں جوں بڑی ہوتی جارہی ہوں گھر والوں کی نظر میں بلکہ اپنی نظر میں بھی خود کو کمتر محسوس کرتی ہوں، ہر وقت ذہن میں یہی الفاظ گونجتے رہتے ہیں کہ میں کمزور ہوں، کیا میں واقعی کمزور ہوں؟ کبھی اس کا جواب ہاں میں کبھی کبھار نہیں میں آتا ہے۔
”اگر میں خوب صورت ہوتی تو میری بھی تعریف ہوتی، میری بھی قدروعزت ہوتی مگر افسوس کہ میں اپنے ذہن میں اچھے الفاظ نہیں سوچ سکتی اور نہ اپنے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کرسکتی ہوں جو میری زندگی کو دوسروں کے لیے باعزت بنادیں، میرا ذہن ہر وقت ذرا ذرا سی بات پر پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے، شاید میری شخصیت کے دو رخ بن گئے ہیں، کبھی میرا ذہن خاصا طاقت ور محسوس ہوتا ہے اور کبھی بہت کمزور محسوس ہوتا ہے ، پتا نہیں میرا ذہن ایسا کیوں ہوگیا ہے اور مجھے ہر وقت پریشانی کیوں گھیرے رہتی ہے ، آخر مجھے بھی خوش ہونے کا حق ہے مگر میرا دل بالکل نہیں لگتا، نہ ہی میرا کوئی دوست یا ہمدرد ہے، شاید اس کی وجہ بھی میری کمزوری ہے یا وہ رد عمل ہے جو ہر وقت میرے سر پر سوار رہتا ہے ، میرے ذہن میں ہر وقت یہی خیالات گھر کیے رہتے ہیں کہ کوئی مجھ سے اس لیے نہیں بولتا کیوں کہ میں کمزور ہوں یا میری شکل اچھی نہیں ہے، مخاطب سے بات کرتے وقت میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ میری باتوں سے خوش ہو مگر معلوم نہیں کیوں اس کے سامنے زبان بند ہوجاتی ہے اور ہر وقت یہی فقرہ سننے کے خیال میں رہتی ہوں کہ کہیں گفتگو کے درمیان سامنے والا میرے اندر کوئی نقص تلاش نہ کرلے یا یہ نہ کہے کہ بھئی بڑی کمزور لگ رہی ہو، کیا کچھ کھاتی پیتی نہیں ہو؟
”مجھ میں یہ بری عادت بھی ہے کہ ہر کسی کی باتوں کا اثر بہت لیتی ہوں اور دیر تک بات میرے ذہن کو پریشان کیے رہتی ہے کہ کہنے والے نے میرے بارے میں درست ہی کہا ہوگا، پھر میں اس کی بات کی روشنی میں اپنی شخصیت کا جائزہ لیتی ہوں اور یقین ہوتا ہے کہ کہنے والے نے میرے متعلق ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
”لوگوں کی باتوں نے میرے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا ہے اور مجھے دل برداشتہ کردیا ہے، اب میرے منگیتر ملتان سے آنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کریں گے، وہ تو بہت خوب صورت لمبے اور گورے رنگ کے مالک، پڑھے لکھے ہیں جب کہ میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں لہٰذا یہی فکر لگی رہتی ہے کہ وہ آئے تو کیا ہوگا؟آخر پریشانی کیوں میرے ذہن پر سوار رہتی ہے؟ کیا میری رائے اپنے بارے میں اچھی نہیں ہوسکتی، میں خوب صورت نہیں بن سکتی؟ میں ذہنی طور پر خوب صورت بننا چاہتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ اچھی سوچ انسان کو اچھی چیزوں اور اچھائی کی طرف مائل کرتی ہے، یہ جو میں نے اپنے اوپر سکوت طاری کر رکھا ہے، ختم نہیں ہوسکتا؟ ایسا کون سا طریقہ اختیار کروں کہ اپنے اوپر بھرپور اعتماد اور بھروسا ہو، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاو ¿ں، ذہن سے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں، غم، غصہ اور اسی طرح کے منفی احساسات میرے قریب بھی نہ آئیں۔ 
”میرے اندر ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ دوسروں کی نقل کرتی ہوں، لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہمیشہ میرے اندر یہی خواہش رہتی ہے کہ میں اس جیسی بن جاو ¿ں، اگر ایسا کیا تو اس جیسی لگوں گی، کسی فلم اسٹار کو دیکھوں تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح میں بھی اس جیسی نظر آو ¿ں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جیسا سوچوں ویسا ہی کرلوں، اتنی طاقت تو کسی انسان میں نہیں ہوتی کہ جیسا سوچے، اسی روپ میں خود کو ڈھال لے، کیا میرے دل سے ان لوگوں کا خوف اور ان کی شخصیت کا بوجھ، ان کے طعنوں کی جلن نکل نہیں سکتی جنہوں نے مجھے آج تک پریشان رکھا؟ کیا میں انہیں پریشان نہیں کرسکتی۔
”مجھ میں ہر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر کبھی کبھار لوگوں کے منفی رویّے سے غمگین ہوجاتی ہوں، براہ کرم میری کچھ رہنمائی کریں، مجھے اپنے ظلم کے ذریعے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں خوش گوار زندگی گزار سکوں“۔
جواب: س،ع صاحبہ! آپ نے اچھا کیا کہ سب کچھ تحریر کردیا، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہوگا جب بھی آپ کا ذہن الجھنوں کا شکار ہو، اپنے احساسات کو تحریر کرلیا کریں، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا،اس سے آپ سکون محسوس کریں گی لیکن ایک بات آپ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ نہ آپ ذہنی مریضہ ہیں، نہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار، آپ میں صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں ہے، آپ نے شاید کبھی محسوس نہیں کیا کہ آپ کو قدرت نے لکھنے کی صلاحیت بھی دی ہے، آپ نے اپنی کیفیات کو بہت عمدہ اور مو ¿ثر انداز میں تحریر کیا ہے،ا گر آپ کوشش کریں تو اچھی قلم کار بن سکتی ہیں، دنیا میں کوئی بھی فرد بے کار نہیں پیدا ہوا، قدرت نے ہر ایک کو صلاحیتوں سے نوازا ہے، جو لوگ دشواریوں پر اشک بہانے کے بجائے ان پر قابو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے، حوادث سے الجھ کر ہی ان پر قابو پایا جاتا ہے، ہمت ہار کر یا خوف زدہ ہوکر نہیں، آپ تمام بہن بھائیوں سے بڑی ہیں، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اگر آپ جسمانی طور پر کمزور ہیں اور کم عمر لگتی ہیں تو یہ کوئی خامی تو نہیں جو آپ خود کو کمتر محسوس کریں، آپ خود بتلائیں کسی بھی خاندان میں آپ نے تمام افراد کو جسمانی طور پر یکساں دیکھا ہے،ایسا کم ہی ہوگا ، کم عمر نظر آنا تو ایک خوبی ہے، خرابی نہیں، آج کل تو لوگ اس خوبی کے لیے نہ جانے کیا کیا کوششیں کرتے ہیں، آپ نے لکھا ہے کہ آپ والدین کی لاڈلی بیٹی تھیں لیکن جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی ان کے پیار میں کمی آتی گئی، کیا یہ قدرتی بات نہیں ہے؟ بچے زیادہ ہوتے ہیں تو ماں باپ کا پیار بٹ جاتا ہے، وہ آپ کی طرح دوسرے بچوں کو بھی اس پیار میں حصہ دیتے ہیں، والدین کا سارا پیار اپنی ذات کے لیے مخصوص کرنے کی خواہش تو خود غرضی ہے، بڑی بہن کی حیثیت سے آپ کو بھی چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار کرنا چاہیے، اب ایسا کیجیے کہ اپنے طرز عمل میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کیجیے، محبت صرف ان کو ملتی ہے جو دوسروں سے محبت کرتے ہیں، آپ چاہتی ہیں کہ دوسرے آپ سے محبت کریں، آپ کی قدر کریں، تعریف کریں، یہ خواہش تو سب کو ہوتی ہے، ہر دل عزیزی کے لیے چند اصول ہیں آپ ان پر عمل کیجیے پھر دیکھیے کیا نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔
ہر دل عزیزی کے اصول
دوسروں کی تعریف اور ستائش کرنے میں کسی بخل سے کام نہ لیجیے، بھائی بہنوں اور سہیلیوں کی خوبیوں کو سراہنا سیکھیے اور خلوص کے ساتھ ان کی کوتاہیوں کو مسکراکر نظر انداز کردیجیے، جب بھی دوسروں کے درمیان بیٹھیں یا کہیں جائیں تو کسی کی خوبی کی تعریف کرنے میں دیر نہ کریں، آپ کا لباس بڑا خوب صورت ہے، آپ نے کھانا بہت لذیز پکایا ہے، آپ بہت سلیقہ مند ہیں یا ذہین ہیں، وغیرہ، یہ چند الفاظ ادا کرکے آپ لوگوں کو اپنا گرویدہ بناسکتی ہیں، ہر ایک کی بات دلچسپی اور توجہ سے سنیے، خود بولنے کے بجائے دوسرے کو بولنے کا موقع دیجیے، ان سے سوال کیجیے، ان کا دکھ معلوم کیجیے، اگر کوئی آپ کو تلخ بات کہہ دے تو غصے کا اظہار نہ کیجیے بلکہ غور کیجیے کہ آپ کی کس بات سے اسے تکلیف پہنچی، ممکن ہے اس معاملے میں آپ کا ہی قصور ہو، چھوٹے بھائی بہنوں کی دشواریوں میں ان کی مدد کیجیے، والدین کی ضروریات کا خیال رکھیے، آپ بڑی ہیں اس لیے یہ آپ پر فرض بھی ہے۔
انسان نہ جسمانی صحت سے بڑا ہوتا ہے، نہ ہی عمر سے، یہ اس کی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، اس کا حسن اخلاق اور سلوک ہے جو اسے بڑا بناتا ہے، آپ موٹا ہونے کی فکر چھوڑ کر اپنی شخصیت کو دلکش بنائیے، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیے، لباس کی سادگی میں بڑا حسن ہے، قیمت میں نہیں، مسکراتے چہرے اور خوش اخلاق افراد ہی لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں، اپنے بارے میں سوچنے کے بجائے دوسروں کے بارے میں سوچیے، دوسروں کی پسند کا خیال کیجیے، منگیتر آرہے ہیں تو خوف زدہ ہونے کی کیا بات ہے! انہوں نے یقیناً پہلے بھی آپ کو دیکھا ہے، ان کا خیر مقدم پر خلوص مسکراہٹ سے کریں، ان سے ان کی مصروفیات اور دلچسپیوں کے بارے میں گفتگو کریں، ان کی پسند کا خیال رکھیں، یاد رکھیں کہ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی احساس کمتری میں ضرور مبتلا ہے، اس لیے اپنے احساس کمتری کی فکر نہ کریں، آئندہ جب بھی ذہن پر کوئی بوجھ محسوس ہو، فوراً قلم اور کاغذ سنبھال لیں اور اسے تحریر کر ڈالیں، خود نویسی بہت سی الجھنوں کا علاج ہے۔
امتحان میں کامیابی اور قوت حافظہ
محمد عرفان لکھتے ہیں ” میرا ذہن پڑھائی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا، میں کچھ بھی پڑھوں، خواہ وہ کوئی کتاب ہو یا اخبار یا رسالہ، ایک دو صفحے پڑھنے کے بعد ہی مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میرا ذہن بار بار کسی اور طرف جارہا ہے،اپنی نصابی کتابیں تو مجھ سے بالکل پڑھی نہیں جاتیں بلکہ جو کچھ بھی پڑھتا ہوں وہ بعد میں یاد ہی نہیں رہتا، حالاں کہ میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ توجہ سے پڑھوں لیکن پڑھتے ہوئے بہت زیادہ توجہ دوں تو سر چکرانے لگتا ہے اور سر میں درد بھی شروع ہوجاتا ہے، برائے مہربانی مجھے نقش عطارد بنانے کا طریقہ بتائیں کیوں کہ میں اسے بنا نہیں سکا تھا، مزید یہ بھی بتائیں کہ اب نقش عطارد کی تیاری کا وقت کب ہوگا؟“
دوسرا خط ن، و کا ہے، وہ لکھتی ہیں” میں فرسٹ ایئر میں پڑھتی ہوں، میری یاد داشت بہت خراب ہے، جو چیز بھی یاد کرتی ہوں بہت جلدی بھول جاتی ہوں، لکھنے کے دوران میں بھی بڑی پریشانی ہوتی ہے، کچھ نہیں لکھا جاتا، کلاس میں اگر مجھ سے کوئی سوال پوچھ لیا جائے اور مجھے جواب آتا بھی ہو تو نہیں بتا پاتی، آپ یقین کریں میں اپنے طور پر پڑھائی میں کافی محنت کرتی ہوں، پھر بھی پتا نہیں کون سی چیز مجھے روکتی ہے اور کچھ نہیں کرنے دیتی، اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی سے بات کرتی ہوں تو الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتے، گڈمڈ ہوجاتے ہیں، کہنا کچھ ہوتا ہے، کہہ کچھ جاتی ہوں، حالاں کہ میں اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر بولتی ہوں، اس خرابی نے مجھ میں احساس کمتری بھی پیدا کردیا ہے، آپ کا نقش عطارد والا کالم میں نے اس وقت دیکھا جب وقت گزرچکا تھا، اب اسے کب بنایا جاسکتا ہے یا اگر آپ کے پاس وہ نقش موجود ہو تو مجھے بھیج دیں میں اس کا ہدیہ بھی دینے کے لیے تیار ہوں“۔
تیسرا خط س، ا نے تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں ”میرا دل پڑھنے میں نہیں لگتا، اس سال میں میٹرک کے امتحان میں بڑی مشکل سے پاس ہوسکا ہوں، حالاں کہ میں نے بہت محنت کی تھی لیکن جب امتحان دینے گیا تو کمرے میں جاکر سب بھول گیا، جو کچھ بھی پڑھتا ہوں یاد نہیں رہتا، نہ کتابیں سمجھ میں آتی ہیں، نہ کوئی اور بات، حساب کے مضمون میں خاص طور سے کمزور ہوں، میری بہت خواہش ہے کہ میں کالج میں پڑھوں، سائنس گروپ سے تعلق رکھتا ہوں لیکن نمبر اتنے کم آئے ہیں کہ داخلہ بہت مشکل ہے، میرے والد صاحب مجھے انجینئر بنانا چاہتے ہیں، میں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن اب میرا دل ٹوٹ گیا ہے،ا گر آپ اس سلسلے میں میری کوئی مدد کریں تو آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا، آپ کی کتاب”مظاہر نفس“ میرے پاس ہے، اس میں دی گئی سانس کی ”مشقِ تنفس و تصور“ بھی میں کرنا چاہتا ہوں، کیا اس سے میرا دماغ اتنا طاقت ور ہوجائے گا کہ جو کچھ بھی میں سنوں یا صرف ایک مرتبہ ہی پڑھوں اور وہ مجھے یاد ہوجائے اور بھولے بھی نہیں؟ اس کے علاوہ کوئی نقش وغیرہ ہو تو وہ بھی بتائیں، جیسا کہ پہلے آپ نے نقش عطارد کے بارے میں بتایا تھا، وہ میں بتا نہیں سکا“۔
جواب: پہلی بات تو آپ تینوں اور دیگر پڑھنے والے بھی یہ سمجھ لیں کہ نقش عطارد کی تیاری کا وقت فی الحال کم از کم اس سال نہیں ہے،آئندہ سال جب شرف عطارد یا اوج عطارد کا وقت ہوگا تو ضرور اطلاع دی جائے گی، البتہ اس وقت میں تیار کردہ نقش عطارد ہمارے آفس سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
دوسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ ہماری تجویز کردہ سانس کی مشقِ تنفس و تصور اس سلسلے میں نہایت مفید ہے جو ہماری کتاب ”مظاہر نفس“ میں موجود ہے، جو لوگ یہ مشقیں کر رہے ہیں، وہ ان کی افادیت سے آگاہ ہیں، سانس کی یہ مشقیں دماغی قوتوں میں اضافہ اور حافظے میں پختگی کے ساتھ ساتھ اعصابی طور پر بھی انسان کو توانا بناتی ہیں۔
قوتِ حافظہ
آپ تینوں ایک بات یہ بھی سمجھ لیں کہ حافظہ کیا ہے؟
 حافظے سے مراد زندگی کے تجربوں کو اسی انداز میں یاد کرنا ہے جس انداز میں وہ پیش آتے ہیں،زندگی کے ان گنت واقعات کو ہم بظاہر بھول جاتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ہمارے حافظے میں محفوظ رہتے ہیں اور کسی وقت اچانک یاد آجاتے ہیں، ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق حافظے کے عوامل مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ آموزش (Learning)
2۔ خازنیت (rertention)
3۔ بازیافت (Reproduction)
4 ۔ شناخت (Recognition)
اب اس کو آسان زبان میں سمجھ لیں، آموزش سے مراد کسی بات کو ذہن نشیں کرلینا ہے، خازنیت سے مراد کسی بات کو اپنے ذہن میں خزانہ کرلینا ہے یعنی اس طرح محفوظ کرلینا کہ نقش ہوجائے، بازیافت سے مراد یاد کی ہوئی بات کو دہرانا ہے اور شناخت کہتے ہیں ماضی کے کسی تجربے کو پہچان لینا، ان چار عناصر کا نام ہے حافظہ۔
حافظے کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ہم اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے کیوں کہ اس طرح ایک طولانی بحث چھڑ جائے گی لیکن عام طور پر ہم عمدہ اور کمزور حافظے کا ذکر کرتے ہیں، جس شخص کے ذہن کے مندرجہ بالا چاروں عناصر پوری صلاحیت سے کام کرتے ہوں، ہم اس کی یاد داشت کو اچھا قرار دیتے ہیں، بصورت دیگر اس کو کمزور حافظے کا مالک کہا جائے گا، ماہرین نفسیات کا اس بات پر اختلاف ہے کہ حافظے کو تیز اور بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن عام خیال یہ ہے کہ تربیت کے ذریعے حافظے کو تیز کیا جاسکتا ہے۔
آج ہمارے سامنے مطالعے یا مشاہدے کے بعد جو معلومات حاصل ہوتی ہیں یا جن کو ہم مطالعے کے دوران میں یاد کرلیتے ہیں، ان کو اسی طرح ذہن نشیں کرلینے کا مسئلہ درپیش ہے کہ امتحان کے وقت ان کی بازیافت ہوسکے، ہم آپ کو مختصراً یہ بتائیں گے کہ اس کی ذہنی تربیت کس طرح کی جائے گی۔
بہتر حافظے کے لیے اصول
مشہور ماہر تعلیم و ہپل نے مو ¿ثر آزموش کے لیے مطالعے کا درج ذیل طریقہ تجویز کیا ہے۔
 سب سے پہلے اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیے، جسمانی تکالیف مثلاً آنکھوں اور کانوں کی تکالیف، ہاضمے کی خرابی کا علاج کرائیے، یعنی مطالعے کے وقت جسمانی طور پر صحت مند ہونا لازمی ہے ورنہ دوران مطالعہ جسمانی تکالیف آپ کو ذہنی طور پر یکسو نہ ہونے دےں گی۔ اس کے بعد خارجی اسباب کو درست کیجیے، یعنی مطالعے کی جگہ ہوا دار ہو، روشنی کا مناسب انتظام ہو اور بیٹھنے کی جگہ بھی تکلیف دہ نہ ہو، کسی ایک جگہ پر جم کر مطالعہ کیجیے، بار بار جگہ بدلنے سے مطالعے میں خلل پڑتا ہے، مطالعے کا وقت مقرر کرلیں اور پھر اس کی پابندی کریں، پوری دلچسپی اور توجہ سے مطالعہ کریں، جس چیز سے ہمیں دلچسپی نہ ہوگی، اسے ہم پوری توجہ سے نہیں پڑھتے اور نہ یاد کرتے ہیں، مطالعے کے اوقات زیادہ طویل نہ ہوں، ہمیشہ وقفے کے ساتھ مطالعہ کیجیے، سب سے پہلے اس کام کو شروع کیجیے جسے آپ آسان خیال کرتے ہوں۔اس کے بعد اب یاد داشت کی بہتر تربیت کے چند اصولوں پر عمل کرنے کی عادت ڈالیے، وہ اصول یہ ہیں۔
مطالعہ کا روزانہ پروگرام ترتیب دیں جو کچھ پڑھیں، اس کے مختصر نوٹس تیار کریں اور مطالعے کے بعد اس کا آموختہ کریں، کلاس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، اس کے بھی نوٹس لیتے رہیں تاکہ گھر پر ان کو دہرا کر یادداشت تازہ کرلیں۔مطالعے کے دوران میں وقفہ کریں اور جتنا مطالعہ کرلیا ہے، اس کو یاد کریں، اگر کوئی نکتہ بھول جائیں تو اس کا دوبارہ مطالعہ کرنے کے بعد آگے بڑھیں، جو کچھ پڑھا ہے اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لیں اور اگر اس میں دشواری ہورہی ہو تو استاد یا کسی اور سے مدد حاصل کریں۔
اپنی یادداشت پر اعتماد رکھیے، جب تک ایسا نہیں کریں گے، یاد داشت برقرار نہیں رہے گی، امتحانات کے دوران میں پوری طرح آرام کرنے کے بعد اعتماد اور سکون کے ساتھ امتحان کے لیے جائیں، پرچے کے تمام سوالات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد حل کرلیں، سب سے پہلے ان سوالات کو حل کریں جن کو آپ آسان محسوس کرتے ہوں اور اس یقین کے ساتھ جواب لکھیں کہ ان کا جواب آپ کو یاد ہے۔
آپ ان اصولوں پر عمل کریں گے تو مطالعے کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوگا، آپ کی یادداشت بہتر ہوگی، کسی بھی امتحان کے وقت گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوں گے، کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی، ایک بات اور ذہن نشیں رکھیے کہ امتحان میں ناکامی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کند ذہن ہیں، ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا اور پوری توجہ کے ساتھ امتحان کی تیاری نہیں کی۔

پیر، 16 اکتوبر، 2017

جنرل قمر جاوید باجوہ، ایک منفرد شخصیت و کردار

وہ سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور سیاسی نظریات بھی
جنرل راحیل شریف کے زائچے کی روشنی میں ہم نے انہیں دانش ور جنرل کہا تھا، ممکن ہے بہت سے لوگ ہماری بات سے اتفاق نہ کریں، ہمارا مو ¿قف علم نجوم کے ایک کلیے کی بنیاد پر تھا جو یہ ہے کہ ویدک ایسٹرولوجی میں ”پنچم مہاپرش یوگ“ تسلیم کیے گئے ہیں، ان پانچ سیاروی امتزاجات کی اپنی اپنی علیحدہ ایک اہمیت ہے،کہا جاتا ہے کہ کسی بھی شعبے کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے زائچے میں ان میں سے کوئی ایک یوگ ہونا ضروری ہے، جنرل راحیل کے زائچے میں ”ہمسایوگ“ موجود تھا، ہمسا یوگ کے حامل افراد غیر معمولی عقل و دانش کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہمارے نزدیک جنرل راحیل نے اپنی مدت ملازمت کے دوران میں بہت سے دانش ورانہ فیصلے اور کام کیے مثلاً آپریشن ضرب عضب کا آغاز بھی ان کا ایک اہم فیصلہ ہے،اسی طرح کراچی میں جاری آپریشن بھی ان کے دور میں شروع ہوا، انہوں نے سیاسی قیادت کو قائل کیا کہ فوجی عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ دہشت گرد کیفر کردار کو پہنچ سکیں،اس حوالے سے خصوصی اختیارات کا بل پارلیمنٹ سے پاس ہوا جسے بعض کٹّر جمہوریت پسند حلقوں نے پسند نہیں کیا ہے،بہر حال وہ باعزت طریقے سے اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوگئے،فوری طور پر ان کے لیے ایک اور خوش بختی کا دروازہ کھل گیا اور انہیں سعودی حکومت نے بلاکر ایک اعلیٰ عہدے سے نواز دیا، جب تک وہ پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ رہے، ان کی عوامی مقبولیت کا گراف بھی کسی بھی پاکستانی سیاست داں سے زیادہ ہی رہا، اب بھی لوگ انہیں یاد کرتے ہیں، ممکن ہے آئندہ بھی وہ ملک و قوم کے لیے کوئی اہم کردار ادا کرےں، یہی ہمسا یوگ کا اثر ہے۔
ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں، اصولی طور پر تو ہمیں فوراً ہی ان کا زائچہ پیش کرنا چاہیے تھا لیکن ابتدا ہی میں ان کی ایک سے زیادہ تاریخ پیدائش کا مسئلہ الجھن کا باعث بنا، عہدہ سنبھالتے ہی ان کے حوالے سے بعض افواہیں بھی پھیلیں لہٰذا تحقیق مزید کی ضرورت پیش آئی اور بالآخر ایک اطمینان بخش نتیجہ سامنے آگیا لیکن یہ دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی کہ ان کے برتھ چارٹ میں بھی ہمسا یوگ موجود ہے گویا وہ جنرل راحیل شریف کے حقیقی جانشین ہیں، اگرچہ مزاج اور دیگر عادت و اطوار میں جنرل راحیل سے بے حد مختلف ہےں لیکن ہمسا یوگ والی خصوصیات دونوں کے درمیان مشترک ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی تاریخ پیدائش 11 نومبر 1960 ءہے، وہ کراچی میں پیدا ہوئے، ہمارے اندازے کے مطابق ان کی پیدائش صبح 10:05 am معلوم ہوتی ہے،ویدک سسٹم کے مطابق ان کا طالع پیدائش 9 درجہ 34 دقیقہ برج قوس ہے جس کا حاکم سیارہ مشتری ہے جو اپنے ہی برج قوس میں نہایت باقوت انداز میں براجمان ہے،جب کہ سیارہ قمر برج سرطان میں جو اس کا اپنا ہی گھر ہے اور شمس برج میزان میں ہبوط یافتہ ہے۔
 قوسی افراد سچائی پسند، اسپورٹس مین، علم سے محبت کرنے والے ،فلسفیانہ سوچ کے مالک اور ایڈونچرر ہوتے ہیں لیکن شمس کی برج میزان میں موجودگی مہم جوئی کی خصوصیات کو کنٹرول کرتی ہے۔برج قوس کا تعلق آئین اور قانون سے بھی ہے لہٰذا جنرل صاحب ہر صورت میں آئین و قانون کی پاس داری کریں گے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج آئین و قانون کے ساتھ کھڑی ہے،بعض مبصرین کا خیال یہ ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کی پشت پناہی کر رہے ہیں،اس خیال پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، قوسی افراد اسپورٹس مین اور آو ¿ٹ ڈور کھیلوں میں دلچسپی لیتے ہیں، جنرل صاحب بھی کرکٹ کے زبردست شوقین ہیں اور خود بھی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں، یہ چوکس ذہن کے مالک ہوتے ہیں، ان میں تجربہ کرنے کی لگن ہوتی ہے اور سفر کے دلدادہ ہوتے ہیں، انہیں اپنی صلاحیتوں پر بہت زیادہ اعتماد ہوتا ہے لیکن اکثر وہ اتنی ذمے داریاں اپنے سر لے لیتے جن سے نمٹ نہیں سکتے،قوس کے منفی پہلوو ¿ں میں بے صبرا پن، جارح انداز، وقت کی پابندی نہ کرنا اور متلون مزاجی شامل ہیں۔
جنرل صاحب کا قمری برج (Moon sign) سرطان ہے، برج سرطان اپنی فیملی، اپنے گھر اور اپنے وطن سے گہری وابستگی اور محبت رکھتا ہے، اپنی فیملی میں اپنی والدہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا ہے لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ جنرل باجوہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے لیے خاصے جذباتی انداز میں سوچ سکتے ہیں اور جذباتی سوچ انسان سے کچھ بھی کراسکتی ہے، ان کی سچائی پسندی دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی کہے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ہماری سیاسی اشرافیہ اس ٹائپ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتی اور محض زبانی کلامی آئین و قانون کی باتیں کرتی ہے، میدان سیاست کے تمام کھلاڑیوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی پیدائش چاند کی منزل اشلیشا میں ہوئی ہے،اس منزل پر ذہانت کا ستارہ عطارد حکمران ہے،اشلیشا کے سنسکرت میں معنی ”لپٹنے والا“ کے ہیں ، اسے چمٹا ہوا ستارہ بھی کہتے ہیں،اس منزل کا نشان یا علامت ”کنڈلی مارنے والا سانپ“ ہے، اس منزل کا بنیادی محرک مذہب ہے، ایک عارفانہ قوت، روحانی آگہی اور برقیاتی صلاحیت کا یہاں اظہار ہوتا ہے مگر اس کی منفی فعالیت بھی نہایت تباہ کن ہوسکتی ہے،سیارہ عطارد اس منزل پر حکمران ہے جو ذہانت ، ہوشیاری اور چالاکی کا نمائندہ ہے۔اشلیشیا نچھتر کی فطرت غیر انسانی ہے،عطارد اور قمر کا امتزاج ذہنی اور دماغی ہے لہٰذا ایک گہرے فلسفیانہ ، مفکرانہ، سرائیت کرنے والے ذہین دماغ کی نمود دیکھنے میں آتی ہے جس کی تفسیر مرزا غالب کا یہ مشہور شعر ہے
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
دنیا کی مشہور شخصیات میں سے مہاتما گاندھی، بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو، ناول نگار آسکر وائلڈ، اداکار ونود کھنہ، اداکارہ کاجول وغیرہ اسی منزل میں پیدا ہوئے ہیں۔
یہ لوگ اپنے طرز عمل میں سادگی پسند اور جس کام کا بھی ذمہ لیں اس میں نہایت مخلص ہوتے ہیں،عموماً دوسروں کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرتے، کسی کو دھوکا نہیں دیتے،یہاں تک کہ اپنے اچھے سلوک کی وجہ سے اکثر غیر متوقع پریشانیوں میں گِھر جاتے ہیں لیکن کسی کا ناجائز دباو ¿ برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں،عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اپنے بااعتماد ساتھیوں کے ساتھ باہمی مشورے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں، عام طور پر سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، چاہے کوئی تنازع یا بحث و تکرار ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو معذرت کرنے اور شرمندگی کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے،اپنے کاموں کی تعریف چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، یہ لوگ قاعدانہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور سیاست میں بھی نمایاں کارکردگی دکھاسکتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ حرفوں کے بنے ہوئے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سی چال چل کر اپنے دشمن یا مخالف کو زیر کیا جاسکتا ہے،ادھیڑ عمری میں ان کا وزن بڑھ سکتا ہے،دوسرے لوگوں کے لیے ان کی شخصیت میں چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کا پتا چلانا مشکل ہوتا ہے،ان کے ساتھ کافی عرصہ گزارنے اور معاملت کرنے کے بعد ہی کوئی ان کے رویے کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے یا کوئی رائے قائم کرسکتا ہے۔
اشلیشا ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ قمری منزل ہے کیوں کہ اس کی فطرت غیر انسانی ہے اور یہی وہ وصف ہے جو انسان کو غیر معمولی کارکردگی یا کارناموں کی جانب لے جاتا ہے،یہاں اس کی مکمل تشریح ممکن نہیں، مختصراً اتنا سمجھ لیجیے کہ ہمارے نئے جنرل کوئی بہت سادہ اور بہت سیدھے انسان نہیں ہیں، یہ انہی سکّوں میں ادائیگی کریں گے جو انہیں وصول ہوں گے لہٰذا ہماری سیاسی اشرافیہ کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
زائچے کا پہلا گھر برج قوس ہے جس میں اس کے حاکم مشتری کے ساتھ زہرہ اور زحل بھی موجود ہےں، زہرہ یہاں کمزور ہے لیکن زحل نہ صرف یہ کہ طاقت ور ہے بلکہ راہو کی بھرپور نظر بھی وصول کر رہا ہے،زحل زائچے کے دوسرے تیسرے گھر کا حاکم ہوکر پہلے گھر میں بیٹھا ہے،تیسرا گھر کوشش اور پہل کاری کا ہے،راہو کی نظر ظاہر کرتی ہے کہ ایک فوجی جنرل سیاست پر بھی گہری نظر رکھتا ہے اور اس کے اپنے سیاسی نظریات بھی ہیں جو مشتری کے طاقت ور اثر کی وجہ سے آئین و قانون کے پابند ہیں، لاقانونیت اور غیر آئینی اقدام ناپسندیدہ ہیں۔
پانچویں گھر کی مول ترکون کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے ساتویں گھر میں طاقت ور انداز میں موجود ہے،گویا اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک قیام ظاہر ہوتا ہے،اعلیٰ تعلیم مریخی منسوبات کے تحت فوج اور دیگر فنونِ حرب و ضرب ، سیارہ مریخ بھی زحل سے ایک سعد نظر بنارہا ہے،اس زائچے کی رو سے مریخ و زحل دونوں صاحب زائچہ کے لیے سعد اور موافق اثر دینے والے سیارے ہیں۔
قمر آٹھویں گھر کا حاکم ہے اور اپنے ذاتی برج سرطان میں مقیم ہے،قمر اور زحل کی مضبوط پوزیشن طویل العمری کی نشان دہی کرتی ہے،نویں بھاگیا استھان کا مالک سیارہ شمس گیارھویں گھر میں اپنے برج ہبوط میں ہے جس کی وجہ سے زندگی میں ترقی اور عروج کا مقام خاصی تاخیر کے بعد ملتا ہے اور اگر دیگر سیارگان مضبوط نہ ہوں تو کبھی نہیں ملتا، جنرل صاحب کو عمدہ قسم کا روبی کا نگینہ پہننا چاہیے۔
دسویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر میں غروب ہے،اس پر تیسرے گھر سے کیتو کی نظر بھی ہے لہٰذا کرئر میں بعض ناگوار اور پریشان کرنے والے معاملات بہر حال رہے ہوں گے، بہت سے ناگوار اور ناخوش گوار واقعات کو برداشت کرنا پڑا ہوگا۔
زائچے کی آراستگی پر تفصیلی روشنی ڈال دی گئی ہے،دیگر اہل نظر مزید نتائج اخذ کرسکتے ہیں ، ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔
23 اگست 2004 ءسے زائچے میں قمر کا دور اکبر جاری ہوا، قمر زائچے کا واحد فعلی منحوس سیارہ ہے کیوں کہ آٹھویں گھر کا حاکم ہے،اس کے علاوہ راہو کیتو بھی فعلی منحوس ہیں، یہ دس سالہ دور اکبر یقیناً زندگی میں مشکلات اور سخت محنت اور جدوجہد کی نشان دہی کرتا ہے لیکن 24 اگست 2014 ءسے پانچویں گھر کے حاکم سیارہ مریخ کا دور اکبر شروع ہوا اسے ہم جنرل صاحب کی زندگی کا ایسا دور کہیں گے جس میں انہیں اپنے کرئر میں زیادہ مضبوط پوزیشن بنانے کا موقع ملا ہوگا، 7 فروری 2016 ءسے مریخ کے دور اکبر میں مشتری کا دور اصغر شروع ہوا جو 13 جنوری 2017 ءتک جاری رہا، اسی دوران میں سیارہ مشتری 2016 ءکے آخر میں برج سنبلہ اور زائچے کے دسویں گھر میں داخل ہوا، ستمبر اکتوبر میں مشتری نے دسویں (پیشہ ورانہ امور)، دوسرے (اسٹیٹس، فیملی اور ذرائع آمدن) ، چوتھے (سواری اور پراپرٹی) اور چھٹے (پیشہ ورانہ عمل) گھروں سے سعد نظر بنائی، نتیجے کے طور پر 3 نومبر 2016 ءکو جنرل صاحب نے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا۔
دوسرے،تیسرے گھر کا حاکم سیارہ زحل نومبر 2014 ءسے زائچے کے بارھویں گھر میں رہا اور تاحال اسی گھر میں ہے، 27 اکتوبر کو پہلے گھر برج قوس میں داخل ہوجائے گا، گویا گزشتہ ڈھائی سال ایسے نہیں ہیں جن میں جنرل صاحب کو کام کرنے کے لیے فری ہینڈ ملا ہو، ان کی فطری مہم جوئی یا پہل کاری کی صلاحیت دبی رہی ہے، زحل برج قوس میں داخل ہونے کے بعد نئے عزائم اور ارادوں کو تقویت دے گا اور آئندہ ڈھائی سال اسی پوزیشن میں گزارے گا لہٰذا جنرل صاحب کی کارکردگی شاندار انداز میں ظاہر ہوگی، سیارہ مشتری اب زائچے کے گیارھویں گھر میں آچکا ہے،اس گھر کا تعلق زندگی میں فوائد اور مفادات سے ہے،یقیناً مشتری ان کی زندگی میں مزید بہتری اور ترقی لائے گا۔
حاصلِ کلام
عزیزان من! زائچے کی خوبیوں اور خامیوں اور صاحب زائچہ کے طور طریقوں یا رجحانات کی نشان دہی کردی گئی ہے،یقیناً ہمیں ایک ایسے جنرل کی سربراہی حاصل ہے جو اپنی فطرت اور مزاج میں تیز و طرار، سچائی پسند، آئین و قانون کا متوالہ، جمہوریت پسند لیکن جرم اور ناانصافی کو ناپسند کرنے والا ہے،کوئی دباو ¿ اس کے نزدیک ناپسندیدہ ہے،حال ہی میں صدر امریکا کی جنوبی ایشیا پالیسی کے حوالے سے پاکستان پر جو دباو ¿ ڈالا گیا اس کا جواب اسی انداز میں دیا گیا، ایک محب وطن شخصیت کے طور پر یقیناً انہیں یہ بات ناپسند ہوگی کہ پاکستان میں دہشت گردی، وہ خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو، ختم کی جائے،ملک سے ہر سطح پر کرپشن اور کرائم کے خلاف کارروائی ہوتی رہے، ملکی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور جمہوریت کے فروغ کے لیے سیاست کے میدان میں بھی اعلیٰ روایات کو قائم کیا جائے،سب جانتے ہیں کہ ان حوالوں سے ملک کے ہر شعبے میں اور ہر ادارے میں اصلاحِ احوال کی کتنی شدید ضرورت ہے، شاید جنرل صاحب اسی لیے بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج آئین و قانون کے ساتھ کھڑی ہے،گویا وہ اصلاحات کے عمل کو آئینی و قانونی طور پر جاری رکھنا چاہتے ہیں، تازہ صورت حال میں یہ کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے کیوں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے لیے الگ قانون اور اصول چاہتی ہے اور عام افراد کے لیے الگ جس کا مظاہرہ اکثر دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔
جنرل صاحب اس وقت سیارہ زحل کے دور اصغر سے گزر رہے ہیں اور زحل پر نویں گھر میں قابض راہو کی نظر ہے،نواں گھر آئین و قانون سے متعلق ہے اور زحل ایکشن اور کوشش کے گھر کا حاکم ہے،چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عدلیہ پر جب تنقید کرتی ہے تو اشاروں کنایوں میں دائیں بائیں فقرہ بازی سے بھی نہیں چوکتی حالاں کہ بعض حکومتی وزرا اور بعض غیر جانبدار صحافی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں فوج سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر کاربند ہے لیکن بہر حال وہ یہ بھی گوارہ نہیں کرسکتی کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عدالتوں پر چڑھائی کردے اور عدلیہ کا تحفظ غیر یقینی ہوجائے، ان کے فیصلے بے اثر ہوجائیں، پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 190 کے تحت فوج عدلیہ کی مدد کرنے کی پابند ہے، جے آئی ٹی کے معاملات میں اسی قانون کی وجہ سے فوج نے عدلیہ سے تعاون کیا تھا۔
22 فروری 2018ءسے زحل کا دور اصغر ختم ہوگا اور سیارہ عطارد کا دور اصغر شروع ہوگا، ہمارا خیال ہے کہ سیارہ عطارد کے دور میں جنرل صاحب کے رویے اور رجحانات میں نمایاں فرق آئے گا، انہیں ایسی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے سیدھے سادھے آئینی و قانونی ذرائع یا راستے کافی نہیں ہوں گے، معاملات بین الاقوامی ہوں یا داخلی، ہر سطح پر ایسے مسائل نمودار ہوں گے جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہت کچھ روایات کے خلاف کرنے کی ضرورت ہوگی، سیارہ عطارد کا دور اصغر 19 فروری 2019ءتک جاری رہے گا گویا ان کی مدت ملازمت پوری ہونے کا وقت بھی قریب آجائے گا۔
جنرل راحیل شریف کے بارے میں ہم نے لکھا تھا کہ وہ اگر محسوس کریں گے کہ ان کی مزید ضرورت ناگزیر ہے تو یقیناً ایکسٹینشن کے بارے میں سوچیں گے اور اگر ضرورت محسوس نہیں کریں گے تو انہیں ریٹائر ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ ایکسٹینشن چاہتے تھے جو انہیں نہیں دی گئی اور بہر حال وہ رخصت ہوگئے، جنرل باجوہ صاحب جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ وہ جنرل راحیل سے مختلف مزاج اور فطرت کے انسان ہیں، وہ اپنے کام کو پایہ ءتکمیل تک پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اکثر ایسا نہیں کرپاتے کیوں کہ بہت زیادہ کاموں میں خود کو الجھا لیتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اگر وہ ایکسٹینشن کے خواہش مند ہوں گے تو اتنی آسانی سے رخصت نہیں ہوں گے جتنی آسانی سے جنرل راحیل شریف رخصت ہوئے۔

ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا


 اکتوبر سے سیاروی پوزیشن غیر معمولی واقعات کی نشان دہی کر رہی ہے
ملک ایک بڑے بحران کا شکار ہے،اندرونی اور بیرونی خطرات بہت بڑھ چکے ہیں،یقیناً ملک کے مقتدر حلقے تشویش میں مبتلا ہیں اور اہل علم و دانش بھی خوف زدہ ہیں، صورت حال جس طرح روز بہ روز ایک نئی کروٹ لے رہی ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس بحران کا انجام کیا ہوگا؟ 
پاکستان کی دشمن قوتیں کھل کر اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو چار ٹکڑوںمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، امریکی صدر اپنے مطالبات کے لیے پاکستان پر عرصہ ءحیات تنگ کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں، اس صورت حال میں ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہی ہے،پارلیمنٹ سے حسب منشا آئینی ترامیم کرائی جارہی ہیں، جس کے نتیجے میں اختلاف رائے اور تنازعات مزید بڑھ رہے ہیں، فوج اور عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے،ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے،عام آدمی حیران و پریشان ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور ہماری اگلی منزل کون سی ہے؟
گزشتہ کسی کالم میں ہم نے ایک قول ربانی نقل کیا تھا ”وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور ہم اپنی چالیں چل رہے تھے“
تازہ صورت حال بالکل ایسی ہی ہے ، ہمارے ملک کی بساط سیاست پر متحرک مہرے اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں لیکن قدرت کی چالیں انسانوں کی سمجھ میں نہیں آتیں لیکن جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو دنیاوی چالیں چلنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔
ہم پہلے بھی زائچہ ءپاکستان کی روشنی میں یہ اظہار خیال کرچکے ہیں کہ ملک میں تبدیلی کی لہر روز بہ روز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے،رواں نام نہاد جمہوریت کی بساط لپٹ چکی ہے،اب نمائشی جمہوری مہرے بساط پر بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں، مرکز اور صوبوں میں گویا کوئی حکومت ہی نہیں ہے، ایسا نظر آتا ہے کہ اس بھاگ دوڑ کا خاتمہ بھی بہت قریب ہے،نیا سال 2018 ءشروع ہونے سے قبل ہی شاید بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوگا اور اس تبدیلی میں اہم کردار ہماری سیاسی اشرافیہ کا ہی ہوگا کیوں کہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اہل سیاست ملک کے دو اہم اداروں عدلیہ اور فوج کو فارغ یا عضو معطل کردیں، اپنا ہی کچھ نقصان کرسکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس نقصان ہی میں کوئی فائدہ ڈھونڈ رہے ہوں؟
9 اکتوبر سے سیاروی پوزیشن آنے والے غیر معمولی واقعات کی نشان دہی کر رہی ہے اور یہ سلسلہ 15 نومبر تک جاری رہے گا، اگر ملک میں کوئی ایمرجنسی یا غیر آئینی صورت حال پیدا ہوگی تواس کے ذمے دار ہمارے اہل سیاست ہی ہوں گے جو اس بات پر سخت مشتعل ہیں کہ فوج آئین و قانون (عدلیہ) کی پشت پناہی کیوں کر رہی ہے 
وائے دیوانگی شوق کے ہر دم مجھ کو 
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
مسیحا حصہ سوم
حیدرآباد سے کامل علی لکھتے ہیں ”آپ نے اسی کالم میں بتایا تھا کہ مسیحا کا تیسرا حصہ شائع ہوگیا ہے، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے لیکن جب مارکیٹ میں جاکر معلومات کی تو کسی بھی بک اسٹال پر کتاب نہیں ملی، آخر اس کی کیا وجہ ہے اور اب اسے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟“
جواب: عزیزم! شاید آپ نے توجہ نہیں دی کہ ہم نے لکھا تھا کہ کتاب عام مارکیٹ میں نہیں دی جائے گی کیوں کہ اکثر ایجنٹ حضرات کتاب بیچنے کے بعد پیسے دینے میں پریشان کرتے ہیں لہٰذا آپ کو ہمارے آفس سے ہی منگوانا پڑے گی، فون پر رابطہ کرکے اپنا ایڈریس لکھوادیں تو آپ کو وی پی کے ذریعے کتاب بھیج دی جائے گی۔
عام بک اسٹالز والے اگر کتاب منگوانا چاہتے ہیں تو براہ راست رابطہ کریں۔
روحانیات کے حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ
ہم ایک خط زیر بحث لانا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ خط ہماری نظر میں صرف ایک شخص کا نہیں، ایسے بے شمار خط ہمیں مل چکے ہیں اور ملتے رہتے ہیں، ہمارے معاشرے کے بے شمار نوجوانوں کا مسئلہ ہے، خط لکھنے والے کا نام اور مقام ہم ظاہرنہیں کرنا چاہتے، آپ صرف ان کے خط کے ضروری حصے ملاحظہ کرلیجیے، وہ لکھتے ہیں۔
”میری عمر اس وقت اکیس سال ہے، مجھے روحانیت سیکھنے کا بہت شوق ہے اور اس سلسلے میں ، میں نے کئی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں، ان میں دیے گئے اعمال بھی کیے ہیں لیکن کسی میں کامیابی نہیں ہوئی، پچھلے چند ماہ میں مجھے ایک عامل کا پتا ملا، ہمارے ہی شہر کے ہیں، انہوں نے مجھے اپنا شاگرد بنالیا لیکن اب تک انہوں نے ایک عمل بھی نہیں کرایا، البتہ مختلف بہانوں سے مجھ سے پیسے لیتے رہتے ہیں، مثلاً آج فلاں کی نیاز دلوانی ہے، فلاں کی خیرات کرانی ہے، پھر کبھی کہتے ہیں تمہارے لیے استخارہ کروں گا، فاتحہ دلوانی پڑے گی، ہر دفعہ ہزار پانچ سو روپے لے لیتے ہیں، صرف ایک دفعہ انہوں نے ایک عمل کرایا، سورئہ مزمل کا لیکن میں وہ عمل صرف بارہ روز کرسکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک روز مجھے کام کے سلسلے میں کراچی جانا پڑ گیا تھا، چناں چہ میرے استاد نے کہا کہ وہ وظیفہ ختم کردو، اب میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ وہ مجھے ٹالنے لگے ہیں، میری تنخواہ بہت کم ہے، ابھی مجھے شادی بھی کرنی ہے، اس تنخواہ میں گزارا مشکل سے ہوتا ہے، کوئی بچت نہیں ہوتی تو شادی کہاں سے کروں گا لیکن بہر حال شادی تو مجھے کرنی ہے اور وہ بھی صحیح وقت پر، اگر پیسے جمع کرنے میں پانچ چھ سال لگ گئے تو پھر شادی کا فائدہ؟ میرا چھوٹا بھائی آفیسر ہے، اس کی تنخواہ بہت زیادہ ہے، گھر میں معقول رقم دے کر بھی آٹھ دس ہزار بچا لیتا ہے، آپ میری مدد کیجیے اور بتائیے میں جب بھی کوئی عمل کرتا ہوں، وہ ناکام کیوں ہوتا ہے؟ انکل ! آپ تو مجھے مایوس نہیں کریں گے نا؟ آسودہ اور خوش حال زندگی گزارنا ہر انسان کا حق ہے، اگر اس کے لیے روحانیت کا سہارا لیا جائے تو کیا یہ غلط ہوگا؟ اور انکل حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ جو چیز چاہو پہنو اور کھاو ¿ لیکن حلال ہو اور اس میں دو چیزیں نہ ہوں، اول اسراف اور دوسرا تکبر، پلیز، میری مدد فرمائیے کیوں کہ میں ہر طرف سے مایوس ہوچکا ہوں، میرے کزنز میرے دوست جو مجھ سے چھوٹے ہیں، شادی شدہ اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، کیا میرا حق نہیں ہے، انکل ! ایک بات تو بتائیے، یہ عامل حضرات جن کے پاس روحانیت کا علم ہوتا ہے، یہ اتنے تنگ نظر کیوں ہوتے ہیں؟ میرے اس سوال سے آپ کوئی غلط مطلب مت لیجیے گا، یہ مت سمجھیے گا کہ میں آپ پر کوئی الزام لگا رہا ہوں، اب دیکھیے نا، کتابوں کی دکانوں پر ہزاروں قسم کی عملیات کی کتب ہیں لیکن ان میں درج کسی بھی عمل کو کرلیں، نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ مجھے کوئی اچھی عملیات کی کتاب کا نام بتائیے جس سے آپ مطمئن ہوں یا آپ کی کوئی تصنیف اس موضوع پر ہو تو پلیز اسے ڈاک کے ذریعے بھجوائیے، اب چند سوالات ہیں روحانیت کے موضوع پر، ان کا جواب ضرور دیجیے گا، عمل کرتے وقت، وقت کی کیا اہمیت ہے؟ پرہیز کی کیا اہمیت ہے؟ عمل کے دوران میں بعض جگہ روزے بھی رکھوائے جاتے ہیں، وہ کیوں ضروری ہوتے ہیں؟بس آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، میرے لیے وظیفہ مقرر کرکے بھجوادیے لیکن انکل، وہ وظیفہ ہر وقت پڑھنے والا نہ ہو، چالیس دنوں والا ہو تو بہتر ہے، پرہیز وغیرہ بھی ضرور لکھیے گا، اگر آپ برا اور غلط نہ سمجھیں تو ایک بات پوچھوں؟ کیا وظیفے سے بانڈ وغیرہ کھل سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پلیز لکھ دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی، میری ڈیوٹی ایسی ہے کہ مہینے میں ایک آدھ بار شہر سے باہر رہنا پڑتا ہے، میں نے سنا اور پڑھا ہے کہ وظیفے کی جگہ بدلنے سے وظیفے کا اثر ختم ہوجاتا ہے،پلیز وظیفہ لکھیے گا جس سے جگہ بدلنے سے فرق نہ پڑتا ہو۔
عزیزم! آپ سخت گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں، بازاری کتابیں پڑھ کر آپ کے ناپختہ ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ روحانی مدد سے آپ دولت حاصل کرلیں گے جب کہ ایسا اس صورت میں ہر گز نہیں ہوسکتا جس طرح آپ چاہتے ہیں، پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ پروردگار نے کائنات کو عالم اسباب بنایا ہے اور ہماری مادی زندگی کے لیے مادی اسباب و سائل پر زور دیا ہے، اسی لیے بچے کو ابتدا ہی سے تعلیم اور ضروری فنی تربیت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور جوانی میں محنت و مشقت کے ذریعے اپنا رزق حاصل کرنے کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے، اس طرح ہر انسان اپنی صلاحیت کی بنیاد پر دنیا میں اپنا حصہ پاتا ہے، اگر اس نے معقول طور پر تعلیم حاصل کرکے معقول ذریعہءروزگار پالیا اور پھر اس ذریعہ ءروزگار میں اپنی محنت، لگن اور ذاتی استعداد میں مستقل اضافے کے سبب ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیں تو وہ رفتہ رفتہ اپنی آمدن میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے اور بالآخر ایک مضبوط و مستحکم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ نہ تو معقول تعلیم ہی حاصل کرے، نہ کوئی معقول ہنر سیکھے اور جو کچھ وقت نے حادثاتی طور پر سکھا پڑھا بھی دیا ہے، اس میں بھی کوئی اضافہ کرنے کی کوشش نہ کرے، پھر یہ بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے برابر آجائے یا ان سے آگے نکل جائے جو مندرجہ بالا تمام شرائط پر پورے اترتے ہیں خواہ وہ اس سلسلے میں کیسی ہی روحانی امداد کیوں نہ حاصل کرلے، اگر یہ ممکن ہو تا تو دنیا کے تمام نالائق و نکمے صرف عملیات و وظائف کے ذریعے ہی دولت مند اور کامیاب ترین انسان بنے بیٹھے ہوتے۔
ہم پہلے بھی یہ بات لکھ چکے ہیں کہ روحانیت کو کھیل نہیں سمجھنا چاہیے، پہلے مادی طور پر اپنے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا چاہیے اور ہر ممکن طور پر وہ مادی کوشش ضرور کرلینا چاہیے جو آپ کے مسئلے کے حل کے لیے دنیاوی طور پر موجود ہے، جب ہر مادی ذریعہ ناکام ہوجائے اور انسان مایوسی کے اندھیرے میں گھر جائے تو پھر ضرور روحانی امداد کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور تب وہ اپنے بندے کو کبھی مایوس نہیں کرتا یا یہ بھی ناجائز نہیں ہوگا کہ مادی کوششوں کے ساتھ ساتھ روحانی طور پر بھی اللہ سے مدد کی درخواست کی جائے لیکن یہ ہر گز ناجائز نہیں کہ مادی کوشش تو نہ ہونے کے برابر ہے، صرف وظائف و چلوں اور نقوش و طلسمات کے زور پر زندگی کا ہر معرکہ سر کرنے کی کوشش شروع کردی جائے، ایسے لوگ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔
بے شمار لوگ ہمیں تسخیر ہمزاد کے سلسلے میں لکھتے ہیں اور بعض یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں کتاب سے فلاں عمل ہمزاد کیا مگر ناکام رہے، آپ کوئی تجربہ شدہ عمل ہمزاد لکھ دیں، روحانیت و عملیات کی کتابوں میں اور رسائل میں ایسے بے شمار عمل شائع بھی کیے جاتے ہیں مگر ان کے نتائج صفر ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ معاملہ اُلٹ ہوجاتا ہے، لوگ ہمزاد کو تسخیر کرنے کے بجائے خود ہمزاد کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر خط لکھتے ہیں کہ اس مصیبت سے جان چھڑائیں۔
عزیزم! ایک بات یاد رکھیے،تسخیر روحانیت کے اعمال عام انسان کے بس کی بات نہیں ہےں، ان اعمال کی انجام دہی میں اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے ،قناعت اختیار کرنا پڑتی ہے اور صرف رضائے الٰہی میں زندگی بس کرنا پڑتی ہے، یہ مقام صرف اولیائے اللہ کا ہے، آپ دیکھیں، حضرت سید علی ہجویریؓ المعروف داتا گنج بخش اپنی مایہ ناز تصنیف ”کشف المعجوب“ میں فرماتے ہیں کہ راہ سلوک کے مسافر کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ شادی نہ کرے، آپ نے خود بھی تمام عمر شادی نہ کی اور اپنے نفس پر قابو پایا جب کہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ لوگ کتابوں میں عملیات و وظائف کے حوالے سے خوش کن تاثیرات پڑھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ کوئی ہمزاد یا جن قابو کرکے یا کوئی اور روحانی قوت حاصل کرکے باقی زندگی عیش و آرام اور ٹھاٹ باٹ سے بسر کریں گے، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، دنیاوی طور پر ہی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جو انسان اپنا کاروبار جتنا زیادہ پھیلاتا ہے، اتنا ہی زیادہ مسائل اور مصروفیات کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے، اگر کوئی کسی بڑی پوسٹ پر ملازمت کر رہا ہے اور بہت زیادہ کمارہا ہے تو اس پوسٹ سے وابستہ ذمے داریاں ہی اس کی نیند اڑائے رکھتی ہیں، درحقیقت ایک پرسکون زندگی صرف قناعت کے سائے میں ہی مل سکتی ہے، انسانی خواہشات کا طوفان جتنا بڑھتا جائے گا، انسانی زندگی مسائل کے بھنور میں اسی قدر گردش میں آتی جائے گی۔
آپ اور آپ جیسے بے شمار افراد سے ہم یہی گزارش کریں گے کہ اپنے مسائل کے حل اور دنیا میں ترقی کرنے کے لیے پہلے اپنی صلاحیتوں میں اضافے کی طرف دھیان دیں، اگر آپ ایک ٹیچر ہیں تو ہیڈ ماسٹر بننے کے لیے مزید جس تعلیم کی ضرورت ہے، وہ حاصل کریں، اسی طرح جس ملازمت میں بھی ہیں، اس سے متعلق ترقی کے مادی راستوں کو فراموش نہ رکیں اور اپنا فالتو وقت صحیح راستے پر چلتے ہوئے گزاریں، اگر آپ کوئی کاروبار کر رہے ہیں تو اس کاروبار سے متعلق اپنے علم اور تجربے میں اضافے کی طرف دھیان دیں، اس کے ساتھ ساتھ روحانی امداد کے طور پر نماز اور تلاوت قرآن جاری رکھیں اور صرف ان اعمال کی طرف متوجہ ہوں جو خیروبرکت، ترقی و خوش قسمتی کے لیے مروج ہیں۔
روحانیات کی تسخیر کے اعمال تو انسان کو فقیر گوشہ نشیں بننے پر مجبور کردیتے ہیں اور یہ کام انہی لوگوں کو زیب دیتا ہے جنہوں نے دنیا سے منہ موڑ کر صرف اللہ سے رشتہ جوڑ لیا ہے، یاد رکھیں کہ وہ شادی شدہ یا کنوارے نوجوان جو یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم صرف اللہ سے رشتے جوڑنا چاہتے ہیں اور تسخیر روحانیت خلق خدا کی بھلائی اور خدمت کے لیے کرنا چاہتے ہیں، وہ خود کو اور دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں ، اول تو ایسے لوگ اپنے ارادوں کا اعلان نہیں کرتے پھرتے، جو لوگ اعلان کرتے رہتے ہیں، ان کی نیتوں میں فتور ہوتا ہے یا وہ جہالت میں مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ اسلام رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا اور حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیتا ہے، اب ایک شخص کنوارا ہے تو وہ ماں ، باپ، بہن، بھائی سے منہ موڑ کر اپنی دنیاوی ذمے داریوں کو خیر باد کہہ کر اللہ سے رشتہ جوڑنے اور خلق خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ کس منہ سے کر رہا ہے؟ پہلے ماں باپ، بہن بھائی کی خدمت تو کرلے، یہی صورت شادی شدہ بال بچے دار کی ہے، وہ ان ذمے داریوں سے کیسے منہ موڑ سکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں اللہ اس سے کیسے راضی ہوگا؟ ہاں شیطان راضی ہوسکتا ہے۔
رجال الغیب
مختلف عملیات میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ عمل کرتے ہوئے رجال الغیب کا خیال رکھیں، جس طرف رجال الغیب ہوں اُس طرف منہ نہ کریں، اس حوالے سے سانگھڑ سے ہمارے ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ آخر یہ رجال الغیب کون ہیں اور ان کی کیا حیثیت ہے؟
ایسے سوالات پہلے بھی لوگ کرتے رہے ہیں اور ہم نے حسب توفیق انہیں جواب بھی دیا ہے، رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا طریقہ بھی کئی بار شائع کیا ہے جو اکثر لوگ محفوظ نہیں رکھتے اور پھر عین وقت پر فون کرکے پوچھتے ہیں کہ آج رجال الغیب کس سمت ہوں گے۔
رجال الغیب وہ مردان غیب ہیں جو حضرت خضرؑ کی سربراہی میں کائنات کے انتظامی اور انصرامی امور پر مامور ہیں، منجانب اللہ۔رجال عربی میں رجل کی جمع ہے اور رجل کے معنی آدمی کے ہیں لہٰذا ایسے آدمی جو عالم غیب میں ہیں ، کسی کو نظر نہیں آتے، انہیں رجال الغیب کہا جاتا ہے۔
اہل تصوف یا باطنی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ اولیاءاللہ جب ایک خاص مقام تک پہنچ کر قرب الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور اللہ کی نظر میں قابل اعتماد ٹھہرتے ہیں تو انہیں کائناتی امور کے حوالے سے اہم ذمے داریاں تفویض کی جاتی ہیں اور وہ سب براہ راست حضرت خضرؑ کی سربراہی میں اپنی اپنی ڈیوٹیاں انجام دیتے ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے وصال کے بعد یہ خدمات انجام دیں، اکثر اپنی زندگی ہی میں اس ذمے داریاں کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں پھر انہیں دنیا کی کسی بات کا ہوش نہیں رہتا، ایسے بزرگ حضرات کا زیادہ وقت ایک عالم استغراق میں گزرتا ہے،ممکن ہے آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہو جن کے بارے میں مشہور ہو کہ وہ کسی سے نہیں ملتے، وہ کسی سے بات نہیں کرتے اور زیادہ تر سب سے الگ تھلگ گوشہ نشین رہتے ہیں، حضرت بابا قلندر اولیاؒ کے قریبی حلقے یہ بتاتے ہیں کہ عمر کے آخری حصے میں ان کا بھی یہی حال ہوگیا تھا، چند بزرگوں سے ہماری بھی واقفیت رہی ہے،انہیں ہم نے اسی حال میں دیکھا۔
حضرت خضرؑ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صدیوں سے زندہ ہیں اور بہت سے انبیا کے ساتھ خصوصاً حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ ان کا تذکرہ آتا ہے، سکندر ذوالقرنین کے ساتھ بھی ان کا واقعہ مشہور ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ سکندر کے ساتھ آب حیات کی تلاش میں نکلے تھے اور انہیں آب حیات مل گیا، جسے انہوں نے پی لیا لیکن سکندر نہ پی سکا، ہمیں نہیں معلوم کہ اس واقعے میں کتنی حقیقت ہے،البتہ ایک اور ہستی بھی ایسی ہے جس کے قیامت تک زندہ رہنے کے ثبوت ملتے ہیں، ان کا نام عبداللہ بیابانی ہے اور وہ اس شرط کے ساتھ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے کہ انہیں لوگوں کی خدمت کے لیے قیامت تک کی زندگی دی جائے۔
عبداللہ بیابانی کا اصل نام جوگی اجپال ہے،اجمیر کے راجا پرتھوی راج نے انہیں حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے مقابلے کے لیے بھیجا تھا کیوں کہ وہ ایک بہت بڑے جادوگر تھے اور پرتھوی راج سمجھتا تھا کہ حضرت معین الدین چشتیؒ بھی کوئی جادوگر وغیرہ ہیں (استغفراللہ) لہٰذا اس نے اس دور کے سب سے بڑے جادوگر کو طلب کیا، جوگی اجپال نے خواجہ صاحبؒ کو مقابلے کی دعوت دی تو آپؒ نے فرمایا کہ تو جو کچھ جانتا ہے وہ ہمیں دکھا،جوگی نے ایک بہت بڑا دھاگے کا گولا نکالا اور اس کا ایک سرا کسی پتھر میں باندھ کر آسمان کی طرف پھینکا، وہ پتھر بادلوں میں جاکر غائب ہوگیا، جوگی دھاگے کو پکڑ کر تیزی سے اوپر چڑھتا چلا گیا اور آخر خود بھی غائب ہوگیا۔
خواجہ غریب نوازؒ نے اپنی نعلین مبارک (کھڑاو ¿ں) کو اشارہ کیا تو اچانک دونوں کھڑاو ¿ں ہوا میں پرواز کرتی ہوئی جوگی کے پیچھے گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں جوگی اس حال میں زمین پر واپس آگیا کہ کھڑاو ¿ں سے اس کی پٹائی ہوگئی تھی، زمین پر آکر وہ آپؒ کے قدموں میں گر گیا کہ یقیناً آپؒ اللہ کے اوتار ہیں اور بہت نیک ہستی ہیں ورنہ میرے جادو کا توڑ تو پورے ہندوستان میں کوئی نہیں کرسکتا، اس کے بعد اس نے اپنی شرط پیش کی اور مسلمان ہوگیا، آپؒ نے اس کے لیے اللہ سے دعا کی جو قبول ہوئی، وہ دن ہے اور آج کا دن جوگی اجپال جس کا اسلامی نام خواجہ صاحبؒ نے عبداللہ رکھا تھا ، اجمیر کے پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں راستہ بھولنے والوں کو راستہ دکھانے کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہےں اور لوگ انہیں عبداللہ بیابانی کے نام سے جانتے ہیں، جب کوئی راستہ بھٹک جائے اور تین بار ان کا نام لے کر باآواز بلند مدد کے لیے پکارے تو وہ اچانک کسی موڑ پر اس کے سامنے نمودار ہوجاتے ہیں۔
یہ واقعہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے متعلق سوانح کی تمام کتب میں موجود ہے،جہاں تک عبداللہ بیابانی کے اب تک ڈیوٹی دینے کا تعلق ہے تو ہم ذاتی طور پر ایسے لوگوں سے مل چکے ہیں جو اجمیر کے صحرائی علاقوں میں راستہ بھٹک گئے اور انہیں کسی صاحب نے اچانک نمودار ہوکر صحیح راستہ بتایا، بعض کی خاطر تواضع بھی کی۔
عزیزان من! یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ رجال الغیب کی فہرست میں شامل ہیں۔
رجال الغیب کی سمت
آخر میں رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا طریقہ بھی ایک بار پھر بیان کیا جارہا ہے،ا مید ہے کہ حسب معمول آپ لوگ اسے اپنے پاس محفوظ نہیں کریں گے اور کسی ضرورت کے وقت ہمیں فون کرکے پوچھ رہے ہوں گے کہ آج رجال الغیب کس طرف ہےں؟
رجال الغیب کی سمت کا تعین چاند کی تاریخوں سے کیا جاتا ہے،ہر ماہ کی پہلی، نو، سولا اور چوبیس تاریخ کو رجال الغیب مشرق کی سمت ہوتے ہیں، چاند کی دو، دس، سترہ اور پچیس کو یہ جنوب مغرب کی طرف ہوں گے جب کہ تین، اٹھارہ، گیارہ اور چبھیس تاریخوں میں جنوب کی سمت پھر چار، بارہ، انیس اور ستائیس تاریخ کو مغرب میں ہوں گے اور پانچ ، تیرہ اور بیس تاریخ کو شمال مغرب کی طرف، چھ، اکیس اور اٹھائیس تاریخ کو شمال مشرق میں ، سات، چودہ، بارہ اور انتیس کو مشرق میں، آٹھ، پندرہ ، تئیس اور تیس تاریخ کو شمال کی طرف، جب بھی رجال الغیب کی سمت معلوم کرنی ہو کہ آج وہ کس طرف ہیں، چاند کی تاریخ کو نوٹ کریں اور مندرجہ بالا ہدایت کے مطابق سمت معلوم کرلیں،یہ بھی خیال رکھیں کہ چاند کی تاریخیں ایک غروب آفتاب سے دوسرے غروب آفتاب تک ہوتی ہیں یعنی اگر چاند کی پہلی تاریخ پیر کی ہوگی تو ایک روز پہلے غروب آفتاب کے بعد سے شب پیر شروع ہوجائے گی اور اسی اعتبار سے تاریخ کو بھی اہمیت دی جائے گی جب کہ پیر کی شام سے غروب آفتاب کے بعد دو تاریخ اور منگل کی شب شمار ہوگی۔