ہفتہ، 30 دسمبر، 2017

نئے سال کے پہلے مہینے کی فلکیاتی صورت حال کا جائزہ

حالات لمحہ بہ لمحہ کسی خطرناک موڑ کی جانب بڑھ رہے ہیں

نئے سال کی مبارک باد قبول کیجیے،ہماری دعا ہے کہ یہ سال ساری دنیا کے لیے اور خصوصاً عالم اسلام کے لیے امن و سکون، ترقی و کامیابی کا سال ثابت ہو،حالاں کہ نئے سال کی ابتدا کم از کم پاکستانی فیض صاحب کے بقول کچھ اس حالت و کیفیت میں کر رہے ہیں
سو پیکاں تھے پیوست گلو جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
سال 2017 ءایک سیلِ بلاخیز کے مانند گزرتا چلا گیا، دنیا بھر میں کیا ہوتا رہا، اس سے قطع نظر پاکستان کے لیے یہ ایک غیر معمولی اہمیت کا سال رہا، پورا سال اور تادم تحریر پاناما کیس کی گونج سنائی دیتی رہی اور اب آفٹر افیکٹس کے طور پر ”مجھے کیوں نکالا“ کی باز گشت جاری ہے جس میں عمران خان کے حق میں آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا واویلا بھی شامل ہوگیا ہے۔
نئے سال کو انتخابات کا سال خیال کیا جارہا ہے لہٰذا تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہیں،ہم 2018 ءکے حوالے سے انتخابات کے لیے زیادہ پرامید نہیں ہیں کیوں کہ زائچہ ءپاکستان کی روشنی میں اگرچہ ایسا وقت چل رہا ہے جو ملک میں انتخابات کے لیے موزوں ہے لیکن دیگر سیاروی گردشیں اس کے برخلاف ہیں، البتہ احتسابی عمل کی نشان دہی ہورہی ہے جو 2018 ءمیں پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوجائے گا، 2017 ءمیں بھی عدالتیں نہایت فعال رہیں اور اہم عدالتی فیصلے سامنے آئے، یہی صورت حال 2018 ءمیں بھی برقرار نظر آتی ہے۔
جنوری کے مہینے کو سیاروی گردش کے اعتبار سے ایک مثبت مہینہ نہیں کہا جاسکتا، ملکی معیشت بھی رو بہ زوال ہے،ڈالر کی قیمت آسمان کو چھو گئی ہے اور خدشہ ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا، دیگر تنازعات جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہےں وہ بھی لمحہ بہ لمحہ کسی خطرناک موڑ کی جانب بڑھ رہے ہیں، یہ صورت حال کسی طرح بھی موجودہ حکومت کے لیے موافق و مددگار نہیں ہیں،20 جنوری سے شروع ہونے والا وقت موجودہ حکومت اور صاحبان اقتدار افراد کے لیے سخت اور پریشان کن ہوسکتا ہے،یہ خیال یا امکان کہ موجودہ حکومت اپنی مدت جسے بعض لوگ عدت بھی قرار دے رہے ہیں، پوری کرلے گی خاصا دشوار نظر آرہا ہے (واللہ اعلم بالصواب)
جنوری کے ستارے
حکمرانی اور اقتدار کا ستارہ شمس برج جدی میں حرکت کر رہا ہے،20 جنوری کو برج دلو میں داخل ہوگا جب کہ خبر و سفر کا ستارہ عطارد برج قوس میں ہے،11 جنوری کو برج جدی میں داخل ہوگا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج جدی میں حرکت کر رہا ہے اور غروب ہے،18 جنوری کو برج دلو میں داخل ہوگا، سیارہ مریخ اپنے ذاتی برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے اور 26 جنوری کو برج قوس میں داخل ہوگا، سیارہ مشتری برج عقرب میں جب کہ سیارہ زحل برج جدی میں غروب، نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو برج جدی میں پورا ماہ حرکت کریں گے،راس اور ذنب بالترتیب برج اسد اور دلو میں رہیں گے۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
نئے سال کے پہلے مہینے میں اگرچہ سیارگان کے درمیان باہمی طور پر نحس اثرات کم اور سعد زیادہ ہیں لیکن مجموعی طور پر سیاروی پوزیشن کمزور ہے کیوں کہ زہرہ اور زحل غروب ہیں جب کہ زائچہ ءپاکستان میں سیاروی پوزیشن مغربی سمت میں ہونے کی وجہ سے ملک کے لیے معاون و مددگار نہیں ہوگی،اس ماہ تثلیث کا ایک زاویہ قائم ہوگا جب کہ تسدیس کے دس زاویے بنیں گے، چار قرانات اور تین تربیعات ہوں گی جن کی تفصیل مع اثرات درج ذیل ہے۔
2 جنوری: شمس اور نیپچون کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ قائم ہوگا،حکومت کی طرف سے خوش کن باتیں سامنے آئیں گی،عام آدمی کے لیے یہ وقت ذہانت اور وجدانی صلاحیتوں کے ذریعے کامیابی لاتا ہے،تخلیقی نوعیت کے کام بہتر رہتے ہیں،مائع اشیا سے متعلق کام یا تجارت فائدہ بخش ہوتی ہے۔
3 جنوری: زہرہ اور نیپچون کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ رومانی دلچسپیوں اور تفریحی پروگراموں میں معاون ثابت ہوتا ہے لیکن جذباتی اور حساس نوعیت کی صورت حال پیدا ہوتی ہے ، لوگ اس عرصے میں اچھے خواب دیکھتے ہیں، محبت ، منگنی وغیرہ کے معاملات میں ماحول خوش گوار رہتا ہے،انسان جذباتی رویوں میں شدت پیدا ہوتی ہے۔
7 جنوری: عطارد اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ کسی سرپرائز کی نشان دہی کرتا ہے،خوش گوار نوعیت کے انکشافات یا خبریں ملتی ہیں، یہ وقت کوئی تبدیلی لانے کے لیے موافق ہوتا ہے،خراب حالات کو بدلنے کے لیے اس وقت اہم فیصلے اور اقدام بہتر رہتے ہیں، ٹرانسپورٹ اور الیکٹرونکس سے متعلق کام یا کاروبار فائدہ دیتے ہیں، نئے سفر کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
اسی تاریخ کو مریخ اور مشتری کے درمیان قران کا زاویہ ہوگا، دونوں آتشی سیارے اعلیٰ درجے کی ورکنگ انرجی پروڈیوس کرتے ہیں،بہتر کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے،مشینری سے متعلق کام یا بزنس میں فائدہ ہوتا ہے،ملکی سطح پر قانونی اور انتظامی نوعیت کے امور میں اچھے فیصلے اور اقدام سامنے آتے ہیں۔
8 جنوری: شمس اور مشتری کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت قانون سازی اور نئے قوانین کا نفاذ کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے،عام افراد کو اس وقت مقدمات میں کامیابی کے لیے کوشش کرنی چاہیے،گورنمنٹ سے متعلق معاملات میں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
اسی تاریخ کو زہرہ اور مشتری کے درمیان بھی تسدیس کی نظر ہوگی،یہ ایک اور موافق اور مددگار زاویہ ہے لیکن زہرہ چوں کہ غروب ہے لہٰذا باہمی تعلقات یا محبت و منگنی کے معاملات میں کسی جلد بازی کا شکار نہ ہوں، کوئی اہم فیصلہ کرتے ہوئے اچھی طرح معاملے کے ہر پہلو پر غوروفکر کرلیں۔
9 جنوری: مریخ اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کی نظر سعد اثر رکھتی ہے،یہ وقت قوت و طاقت کا اظہار لاتا ہے،جرا ¿ت مندانہ فیصلے اور اقدام فائدہ دیتے ہیں لیکن اس میں جارحیت کا پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور دوسروں کے بھی جارحانہ فیصلوں یا اقدام پر نظر رکھنی چاہیے۔
اسی تاریخ کو زہرہ اور پلوٹو کا قران اور شمس و پلوٹو کا قران بھی ہوگا، یہ وقت انتہا پسندانہ اور شدت آمیز صورت حال پیدا کرتا ہے،اعتدال میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے،ملک میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کے مظاہرے دیکھنے میں آسکتے ہیں۔
10 جنوری: زہرہ اور مریخ کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ عورت اور مرد کے تعلقات میں جذباتی اور حساس کیفیات کی نشان دہی کرتا ہے،باہمی طور پر ایک دوسرے میں کشش محسوس ہوتی ہے،ماہرین جفر تسخیر مستوراتِ معظمہ کے لیے نقوش و طلسم تیار کرتے ہیں۔
اسی تاریخ کو شمس اور مریخ کے درمیان بھی تسدیس کا سعد زاویہ ہوگا، حکومتی اقدامات میں تیزی نظر آئے گی،انتظامی طور پر بہتر کارکردگی پر زور دیا جائے گا، عام لوگ حکومتی اداروں سے مختلف نوعیت کے خصوصاً مشینری یا اسٹیل کے آلات سے متعلق کاموں سے فائدہ اٹھائیں گے۔
13 جنوری: عطارد اور زحل کے درمیان قران کا زاویہ بنے گا جو سعد اثر رکھتا ہے،یہ وقت نئے معاہدات اور دستاویز کی تیاری کے لیے سعد ہے،پراپرٹی سے متعلق کام بہتر رہیں گے،ضروری ملازمین کی تلاش میں آسانی ہوگی۔
14 جنوری: زہرہ اور یورینس کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ دوسروں سے تعلقات میں خرابی لاتا ہے، خاص طور پر خواتین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے،کوئی بات ہماری توقع کے خلاف تکلیف دہ ہوسکتی ہے،اچانک حالات تبدیل ہوتے ہیں جن پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔
15 جنوری: شمس اور یورینس کے درمیان تربیع کا زاویہ حکومت کے لیے بری خبریں لاتا ہے،اچانک کوئی ٹرننگ پوائنٹ سامنے آتا ہے جو صورت حال کو تبدیل کردیتا ہے،عام لوگوں کے لیے یہ وقت کسی تبدیلی یا نئے فیصلوں کے لیے نامناسب ہے،اس وقت دوسروں کے مشورے سے کوئی قدم نہ اٹھائیں اور اپنے جذبات کو بھی قابو میں رکھیں۔
16 جنوری: مشتری اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ طویل المدت معاملات میں پیش رفت لاتا ہے،اس نظر کا اثر فوری ظاہر نہیں ہوتا اور عام آدمی اس سے متاثر نہیں ہوتا، ملکوں اور قوموں کے درمیان معاملات میں نئی پیش رفت ہوتی ہے۔
20 جنوری: عطارد اور نیپچون کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ اعلیٰ درجے کی تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرتا ہے،اس وقت تخلیقی سرگرمیاں فائدہ بخش ثابت ہوتی ہیں،پیچیدہ نوعیت کے مسائل کا حل نکل آتا ہے،غوروفکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
25 جنوری: عطارد اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ دوسروں سے مدد و تعاون کے حصول میں معاون ہوتا ہے،نئے معاہدات اور دستاویزات کی تیاری بہتر رہتی ہے،پراپرٹی کے لین دین میں فائدہ ہوتا ہے،سفر میں حائل رکاوٹیں دور ہوتی ہیں،علاج معالجے کے لیے بھی یہ موافق وقت ہے۔
28 جنوری: عطارد اور یورینس کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثرات رکھتا ہے،پہلے سے جاری منصوبے کسی اپ سیٹ سے دوچار ہوسکتے ہیں،کوئی نئی غیر متوقع صورت حال پریشانی کا باعث بنتی ہے،چونکا دینے والی خبریں اور انکشافات سامنے آتے ہیں،میڈیا میں سنسنی خیزی بڑھتی ہے،عام لوگوں کے لیے بھی ناموافق ہے،اس وقت اپنے فیصلے تبدیل نہ کریں اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں،کسی غیر متوقع صورت حال سے پریشان ہوکر اپنے مو ¿قف سے پیچھے نہ ہٹیں۔
قمر در عقرب
نئے سال کے پہلے مہینے میں قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں پاکستان ٹائم کے مطابق 10 جنوری کو 01:06 am پر داخل ہوگا اور 12 جنوری کو 12:04 pm تک رہے گا لیکن اپنے ہبوط کے درجے پر 10 جنوری کو 04:56 am سے 06:52 am تک رہے گا جب کہ گرین وچ مین ٹائم کے مطابق درجہ ءہبوط پر 9 جنوری 11:56 pm سے 10 جنوری 01:52 am تک ہوگا، مختلف ممالک میں مقیم افراد لندن ٹائم سے اپنے شہر کے وقت کا فرق اس ٹائم میں مائنس یا پلس کرکے اسے اپنے لوکل ٹائم کے مطابق کرسکتے ہیں۔
قمر در عقرب کا وقت نحس تصور کیا جاتا ہے،اس دوران میں کوئی نیا کام شروع کریں، صرف اپنے معمول کی مصروفیات جاری رکھیں، البتہ یہ وقت علاج معالجے کے لیے بہتر ہے،اس وقت میں بری عادات سے روکنے کے لیے نقش و وظائف کیے جاسکتے ہیں، اپنی تازہ شائع ہونے والی کتاب مسیحا حصہ سوم سے دو عمل خاص ہم یہاں پیش کر رہے ہیں، امید ہے کہ جو لوگ فائدہ اٹھائیں گے وہ دعائے خیر میں یاد رکھیں گے۔
برائے ترک عادات بد
اسم الٰہی ” التواب“ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ 101 مرتبہ پڑھ کر پاک صاف پانی پر دم کرلیں، بعد ازاں یہ پانی بچے کو دن میں دو تین مرتبہ تھوڑا سا پلادیا کریں،مہینہ ختم ہونے سے پہلے اگر پانی ختم ہونے لگے تو مزید پانی بوتل میں بھرلیا کریں،نئے مہینے میں پانی کی نئی بوتل اسی طریقے کے مطابق دوبارہ تیار کرلیا کریں۔
برائے گریہ
چھوٹے بچے بعض اوقات بلا کسی خاص وجہ یا بیماری کے بے تحاشاروتے ہیں،اکثر تو اس کی وجہ ان کی کوئی جسمانی تکلیف ہوتی ہے مثلاً ریاحی تکالیف، پیٹ میں درد وغیرہ ، اس صورت میں معقول علاج ہونا چاہیے، بعض اوقات نظربد کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے، بہر حال درج ذیل نقش کسی سفید کاغذ پر لکھ کر بچے کے گلے میں ڈالنا مفید ثابت ہوگا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ط ط ط ط ط ط ط ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی قدوس قدوس قدوس قدوس قدوس قدوس قدوس برحمتک یا ارحم الرحمین۔
شرف قمر
قمر اپنے شرف کے درجے پر برج ثور میں پاکستان ٹائم کے مطابق 24 جنوری کو 10:13 pm سے رات 12 بجے تک ہوگا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 5:13 pm سے 07:00 pm تک رہے گا، یہ سعد وقت ہر ماہ آتا ہے اور اس بار بھی عروج ماہ میں ہوگا لہٰذا اس وقت میں خصوصی اعمال قمر فائدہ بخش ثابت ہوں گے،خاص طور پر برکاتی انگوٹھی، لوح قمر نورانی بھی تیار کی جاسکتی ہے،عام اور جائز ضروریات کے لیے اسمائے الٰہی یا رحمنُ یا رحیم 556 مرتبہ پڑھ کر، اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ اپنے مقصد کے لیے دعا کریں تو انشاءاللہ کامیابی ہوگی،اس کے علاوہ اگر باہمی اتحاد و محبت اور گھریلو ناچاقی کا خاتمہ مقصود ہو تو 786 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر کچھ چینی پر دم کرلیں اور یہ چینی گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں تاکہ تمام اہل خانہ کے استعمال میں آئے، جب چینی ختم ہونے لگے تو اس میں مزید چینی ملادیا کریں۔
سال کا پہلا چاند گہن
عزیزان من! چاند اور سورج گہن فلکیاتی مظاہر میں سے ہیں اور ہر سال مختلف اوقات میں چاند اور سورج گہن سے دوچار ہوتے ہیں، چاند اور سورج گہن زندگی میں اور دنیا میں نئی تبدیلیوں کا اشارہ دیتے ہیں، اس سال کا پہلا چاند گہن پاکستان ٹائم کے مطابق 31 جنوری کو برج اسد کے 9 درجہ 22 دقیقے پر بہ حساب یونانی لگے گا، گہن کا آغاز سے پہر 03:51 pm پر ہوگا، اس کا نقطہ ءعروج شام 06:31 pm پر ہوگا جب کہ اختتام رات 09:08pm پر ہوگا۔
جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق گہن کا آغاز 10:51 am پر ہوگا اور اس کا نکتہ ءعروج 01:31 pm پر ہوگا جب کہ اختتام 04:08 pm پر ہوگا،گہن کا مکمل دورانیہ 6 گھنٹہ 17 منٹ میں ہوگا، پاکستان میں یہ گہن نظر نہیں آئے گا تاہم مغرب کے بعد گہن کا نظارا کیا جاسکے گا۔
چاند گہن کے دوران میں مخصوص علاج معالجے اور بری عادتوں یا غلط کاموں سے روکنے کے لیے عملیات کیے جاتے ہیں، ہم اکثر ایسے اعمال و نقوش دیتے رہے ہیں، اس مرتبہ اپنی کتاب مسیحا حصہ سوم سے ایک مجرب اور تیر بہ ہدف عمل پیش کیا جارہا ہے۔
عشق بندی بذریعہ الحمد شریف
عموماً لڑکے لڑکیاں ایسے عشق و معاشقے میں مبتلا ہوتے ہیں جو سمجھ دار ماں باپ کے نزدیک نامناسب اور غلط ہوتا ہے، لڑکے لڑکیاں اندھے ہوکر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور تعلیم و تربیت سے بے بہرہ ہوکر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں، ایسی صورت حال میں سورئہ فاتحہ کے ذریعے دونوں کے درمیان عشق بندی کی جاسکتی ہے ، یہ عمل سورج یا چاند گہن میں کرنا چاہیے، عمل مجرب ہے، اس کی عام اجازت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد اللہ بستم رویش رب العالمین بستم مویش و بستم دلش الرحمن بستم لبانش الرحیم بستم گوشش مالک یوم الدین بستم سینہ اش فلاں بن فلاں علی حب فلاں بن فلاں ایاک نعبدو بستم شکمش وایاک نستعین بستم زبانش اھدناالصراط المستقیم بستم دست ھاش صراط الذین بستم پائش انعمت علیھم بستم عقلش غیر المغضوب بستم ھوشش علیھم ولاالضالین آمین از ابلیس شیطان دیواں پریاں من بستم شمانیز بہ بندیدنامن نکشائم شماھم نکشائید بحرمت اھیاً اشراھیاً فلاں بن فلاں علی حب فلاں بن فلاں العجل العجل العجل الیوم الیوم الیوم۔
دونوں میں سے کسی کا پہنا ہوا کپڑا لے کر کالی روشنائی سے لکھیں اور سرہانے تکیے میں رکھ دیں یا مسہری وغیرہ میں سرہانے کی طرف پوشیدہ کردیں، پہلی مرتبہ فلاں بن فلاں کی جگہ لڑکے کا نام پہلے لکھیں اور لڑکی کا بعد میں، دوسری مرتبہ لڑکی کا نام پہلے اور لڑکے کا نام بعد میں لکھیں، عمل سے فارغ ہونے کے بعد طریقے کے مطابق نیاز و فاتحہ کا اہتمام کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔
شدید حساسیت کے اسباب و عوامل کا ایک جائزہ
عزیزان من! گزشتہ کالموں میں ہم نے بے پناہ حساسیت کا شکار ہونے والے افراد سے بڑھی ہوئی حساسیت کے ایک سبب ”خودلذتی کی عادت“ پر بحث کی اور اس کے ابتدائی علاج کا طریقہ بھی بتایا، گزشتہ کالم کے آخر میں یہ ذکر بھی آگیا تھا کہ بڑھی ہوئی حساسیت کا سبب صرف خودلذتی ہی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں، ہماری نظر میں اس کی پہلی اور بنیادی وجہ تو پیدائشی ہوتی ہے یعنی انسان جب دنیا میں پہلی سانس لیتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ موروثی اثرات و خواص ساتھ لے کر آتا ہے جو اسے اپنے ماں باپ سے ملے ہوتے ہیں اور اس کے ماں باپ کو اپنے ماں باپ سے ورثے میں حاصل ہوئے ہوتے ہیں، عام زبان میں اسے خون یا نسل کے اثرات کہا جاتا ہے مگر علم نجوم کے ماہرین اسے مختلف بروج کے ماتحت پیدا ہونے والا نسلی سلسلہ قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ماں باپ جن بروج کے تحت پیدا ہوئے ہیں، بچے بھی ان کی مخصوص ترتیب کے تحت ہی پیدا ہوں گے، اب یہ مسئلہ بڑا پیچیدہ ہوجاتا ہے کیونکہ ہر شخص اپنے تین بروج یا دو بروج ضرور رکھتا ہے، صرف ایک برج کے تحت پیدا ہونے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں، تین بروج کے زیر اثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان پہلے نمبر پر اپنے شمسی برج اور دوسرے نمبر پر قمری برج اور تیسرے نمبر پر پیدائشی برج کے زیر اثر ہوتا ہے، شمسی برج سے مراد وہ برج ہے جس میں اس کی پیدائش کے وقت شمس (سورج) حرکت کر رہا تھا، قمری برج وہ ہوگا جس میں قمر (چاند) موجود تھا اور پیدائشی برج کسی بھی نومولود کی پیدائش کے وقت، پیدائش کے مقام کے مقابل طلوع برج کو قرار دیا جائے گا، لہٰذا کسی بھی شخص کی تاریخ پیدائش یعنی تاریخ مہینہ اور سن سے شمسی اور قمری برج معلوم کیے جاتے ہیں اور وقت پیدائش سے پیدائشی برج اور اس کا متعلقہ سیارہ معلوم ہوتا ہے جسے طالع پیدائش، لگن یا رائزنگ سائن کہا جاتا ہے، اب یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کا شمسی برج حمل، قمری برج ثور اور پیدائشی برج جوزا ہو، اسی مناسبت سے کوئی بھی کمبی نیشن بن سکتا ہے یعنی کسی بھی تین برجوں کے اثرات و خواص ہلکے یا گہرے اس شخص کی ذات، شخصیت ، فطرت اور کردار پر پڑ رہے ہوں گے اور بعد میں یہی تین برج اور ماہیت کے اعتبار سے ان کے سلسلے کے برج اولاد پر بھی اثرانداز ہوں گے، مثلاً اگر آپ کے مندرجہ بالا تین بروج ہیں تو اولاد میں حمل، ثور اور جوزا کے علاوہ سرطان، جدی، میزان یا ثور کی ماہیت کے سلسلے کے بروج اسد، عقرب اور دلو یا پھر جوزا کے سلسلے کے سنبلہ، قوس اور حوت میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ بروج اولاد کو ورثے میں ملیں گے۔ یہ معاملہ صرف باپ تک محدود نہیں ہے، ماں سے بھی اسی طرح ورثہ ملتا ہے، اب یہ الگ الگ مسئلہ ہے کہ اولاد میں سے کون سا بچہ باپ کے بروج زیادہ ورثے میں پاتا ہے یا ماں کے، اسی مناسبت سے اس میں باپ کے یا ماں کے ذاتی خواص کی نمود ہوگی۔
اس ساری وضاحت کا مقصد یہ تھا کہ بعض خصوصیات انسان پیدائشی طور پر اپنے اندر رکھتا ہے اور ان میں سے ایک حساسیت بھی ہوسکتی ہے، عموماً تجربے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ دائرةالبروج کے بارہ بروج میں سے تین برج اپنے اندر گہری اور شدید حساسیت رکھتے ہیں، وہ تین برج سرطان، عقرب اور حوت ہیں، دوسرے درجے پر حمل، اسد اور قوس مشاہدے میں آئے ہیں، میزان اور دلو بھی حساس ہوتے ہیں مگر اولین حیثیت سرطان، عقرب اور حوت ہی کو حاصل ہے، ثور، جوزا، سنبلہ اور جدی کسی بات کا گہرہ اور دائمی اثر قبول نہیں کرتے، یہ الگ بات ہے کہ ان کے ساتھ کوئی حساس برج بھی ہو تو بات دیگر ہوگی۔
اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے دوران میں ہم نے کئی بار اپنی زیر ادارت ماہنامہ سرگزشت کے خصوصی موضوعاتی نمبر مرتب کیے ہیں، مثلاً ”دوسری شادی نمبر“ جس میں ایسے افراد کی سرگزشت تھی جنھوں نے ایک سے زائد شادیاں کیں ”خود کشی نمبر“ یا ”کنوارا کنواری نمبر“ وغیرہ ۔
خودکشی نمبر میں خودکشی کرنے والوں، شدید اور گہری محبت کرنے والوں کی داستانیں تھیں، اس کام کے دوران میں ایسے بے شمار افراد کے زائچے بھی مطالعے میں آئے اور ان میں کچھ باتیں مشترک ملیں، مثلاً تمام خودکشی کرنے والے، شدید محبت کرنے والے، انتقامی جذبات کا شکار ہونے والے یا کسی بھی انتہا پسندی کا شکار ہونے والے افراد کے بروج میں سرطان، عقرب اور حوت کا امتزاج ضرور تھا، اسی طرح ایک سے زائد شادیاں کرنے والے افراد کی اکثریت جوزا،عقرب،میزان، سنبلہ، قوس اور حوت سے تعلق رکھتی تھی، ان سے متعلق افراد اپنی شخصیت میں بھی دہرے کردار یا حساس فطرت کے حامل ہوتے ہیں۔
سرطان، عقرب اور حوت کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، وہ ہر بات کا بہت گہرا اثر جلد قبول کرلیتے ہیں اور یہ اثر دائمی نوعیت بھی اختیار کرسکتا ہے، اسی لیے ان لوگوں میں نفسیاتی اور روحانی بیماریاں زیادہ پھلتی پھولتی اور نت نئے تماشے دکھاتی ہیں، یہ خودلذتی کی طرف راغب ہوجائیں تو اس عادت سے چھٹکارہ مشکل ہوجاتا ہے، محبت، نفرت، انتقام غرض کوئی جذبہ بھی ہو ان کے اندر حد کمال کو پہنچا ہوا ہوگا جو سودا بھی سر میں سما جائے، رات دن اسی کی دھن سوار رہے گی، پھر دنیا میں مزید کسی بات کا ہوش نہیں رہے گا، یہی لوگ اپنی عمر کے آخری دور یعنی بڑھاپے میں خبطی مشہور ہوجاتے ہیں مگر ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ خبط کے لیے زندگی کا کوئی دور مقرر نہیں کیا جاسکتا، ان لوگوں کو زندگی میں ابتدا ہی سے کچھ نہ کچھ خبط رہتے ہیں، لہٰذا ایسے بچوں کی پرورش اور تربیت خصوصی توجہ چاہتی ہے، ورنہ ابتدا ہی سے وہ منفی حساسیت کا شکار ہوکر کسی پیچیدہ نفسیاتی، جنسیاتی یا روحانی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کا علاج مشکل ترین اور دقت طلب ہوتا جاتا ہے۔
عزیزان من! بڑھی ہوئی حساسیت کی پہلی وجہ ہماری نظر میں یہ ہے، دوسری وجہ اکثر گھریلو اور بیرونی ماحول ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود اور اس کے بعد گھر کا ماحول، جن گھروں میں ماں باپ کے درمیان عمدہ ذہنی ہم آہنگی نہ ہو، اکثر اختلافات کے سبب فتنہ فساد برپا رہتا ہو، خاندانی تنازعات عروج پر ہوں، ایسے گھروں میں پرورش پانے والے بچے مختلف ذہنی و نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، منفی اور مثبت سوچوں کے درمیان ہونے والی جنگ ان کے معصوم ذہنوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے جس کے باعث وہ ابتدا ہی میں درست قوت فیصلہ کی صفت سے محروم ہوجاتے ہیں، ہر معاملے میں جھجک، تذبذب، الجھن اور خوف ان کے پیش نظر رہتے ہیں، لہٰذا ایسے بچے بلوغت تک پہنچتے پہنچتے کسی بھی کجروی اور عادت بد کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور ہر کجروی و عادت بد کی بے شمار ذیلی شاخیں بھی ہوتی ہیں۔
تیسری وجہ بڑھی ہوئی حساسیت کی نوجوانی میں پیش آنے والا کوئی جذباتی سانحہ، حادثہ یا واقعہ بھی ہوسکتا ہے، یا کرئر کے ابتدائی مرحلوں میں ناکامیوں اور محرومیوں سے واسطہ پڑنا، لوگوں کے خود غرضانہ، فریب کارانہ، ظالمانہ رویے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کرتے ہیں اور پیدائشی طور پر حساس افراد ایسی باتوں کا گہرا اثر قبول کرکے خود بھی منفی سوچوں اور منفی راستوں پر چل پڑتے ہیں، الغرض زندگی کے کسی بھی حصے میں انسان شدید حساسیت کا شکار ہوسکتا ہے (جاری ہے)

ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

پاک طینت ، صاف دل

یہ کیا ضرور کہ ہر شام اپنے گھر جاو
جدھر کبھی نہ گئے ہو، کبھی اُدھر جاو
ہمارے نہایت محترم بزرگ دوست احمد صغیر صدیقی بھی بالآخر اُدھر چلے گئے جدھر وہ کبھی نہ گئے تھے اور ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ آخری بار ان سے ملاقات بھی نہ کرسکے، ہمیں تو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ وہ امریکا کب گئے؟ ہم ہمیشہ یہی سوچتے رہے کہ بس کسی اتوار کو صدیقی صاحب کی طرف چکر لگائیں گے اور ان سے خوب باتیں ہوں گی،وہ اپنا تازہ کلام سنائیں گے،عمدہ بسکٹ، سموسے اور چائے سامنے ہوگی جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا مگر اس بار تاخیر ہوگئی اور ایسی تاخیر جس کا پچھتاوا ہمیشہ رہے گا۔
بظاہر کڑوے لوگ اندر سے بہت میٹھے ہوتے ہیں، اس حقیقت کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب احمد صغیر صدیقی سے مراسم استوار ہوئے،صدیقی صاحب بہت لیے دیے، الگ تھلگ رہنے والے انسان تھے،ان کے مزاج میں انانیت کا عنصر بہت نمایاں اور گہرا تھا، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ایک بار اگر کسی سے بھڑک گئے تو عمر بھر کے لیے تعلق ختم، زندگی اور ادب کے بارے میں اپنے مخصوص نظریات رکھتے تھے جن پر کوئی سمجھوتا کبھی نہیں کیا لیکن جب کسی سے دل مل جاتا تو اسے بہت سی رعایتیں بھی دیتے اور اس پر عنایات بھی کرتے،شاید ہم ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک تھے جن پر انہوں نے عنایات بھی کیں اور ہمیں بعض معاملات میں رعایات بھی دیں، ہماری باتوں کا کبھی برا نہ منایا، ایک بار کسی بات پر چڑ کر ہم نے میر تقی میر کا ایک شعر ان پر چسپاں کردیا
ایسی بھی بد دماغی، ہر لحظہ میر کیسی
اُلجھاو ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے
شعر سن کر مسکرائے اور کہا ” جواب میر ہی کی زبان میں سن لیجیے
عہدے نشاط دیکھا، بارِ الم اُٹھایا
آئے نہیں ہیں یوں ہی انداز بے حسی کے
ہم انہیں اکثر دفتر جاسوسی ڈائجسٹ میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے، ہمارے ایک کلیگ نے اشارے سے بتایا کہ یہ مشہور شاعر اور مترجم احمد صغیر صدیقی ہیں،ہم نے ان کی کہانیاں عالمی ڈائجسٹ اور سب رنگ میں پڑھی تھیں، پہلی بار ہم نے انہیں جاسوسی ڈائجسٹ کے دفتر ہی میں دیکھا، وہ عام طور سے ایڈیٹر جاسوسی ڈائجسٹ احمد سعید المعروف شافع صاحب سے ملنے آتے تھے اور پھر نہایت خاموشی سے بغیر کسی سے ملے واپس چلے جاتے تھے،یہ 1983-84 کا ذکر ہے، وہ زرعی ترقیاتی بنک میں ملازم تھے اور کراچی سے دور کسی شہر میں تعینات تھے،جب چھٹیوں پر کراچی آتے تو دفتر ضرور آتے، 1994 ءمیں وہ بنک میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچے اور پھر خود ہی ریٹائرمنٹ لے لی۔
1984 میں ادارہ جاسوسی ڈائجسٹ میں ایک بڑا بحران آیا، جاسوسی ڈائجسٹ کا ڈکلیریشن منسوخ کردیا گیا، جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا عروج پر تھا، سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک جاری تھی، جنرل ضیا کے اوپننگ بیٹسمین راجا ظفر الحق وزیراطلاعات و نشریات تھے، فلم انڈسٹری کے ساتھ ہی ڈائجسٹ پرچوں کا قبلہ درست کرنے کی ذمے داری راجا صاحب ہی کے سپرد تھی ، جاسوسی ڈائجسٹ اسی ذمے داری کی ادائی کا شکار ہوا اور اس کے نتیجے میں احمد سعید صاحب کو جاسوسی کی ادارت سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ہم ادارے میں احمد سعید صاحب کے نائب کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
ممکن ہے بہت سے ذہنوں میں جاسوسی کے ڈکلیریشن کی منسوخی سے متعلق بہت سے سوالات کلبلانے لگےں،فی الحال ہم ان کا جواب نہیں دیں گے ورنہ قصہ بہت طویل ہوجائے گا اور ہم اپنے اصل موضوع سے بھی دور ہوجائیں گے، زندگی رہی تو پھر کبھی یہ کہانی بھی سنادی جائے گی کیوں کہ اب ہمارے علاوہ کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اصل قصے سے پوری طرح واقف ہوں گے۔
جاسوسی ڈائجسٹ کے نئے مدیر جناب خان آصف مقرر ہوئے اور ہم ان کے معاون ، خان آصف ہمارے صرف دوست ہی نہیں ، بڑے بھائیوں جیسے تھے، ہمارا ان کا تعلق 1974 ءسے نہایت گہرا تھا ، وہ داستان ڈائجسٹ نکالا کرتے تھے مگر 1980 ءمیں یہ پرچا بند ہوگیا تو خان صاحب نے جاسوسی ڈائجسٹ میں ائمہ کے سوانح اور پاکیزہ میں صوفیائے کرام پر لکھنا شروع کیا اور معراج رسول صاحب کی آنکھ کا تارا بن گئے مگر خان صاحب اور جناب معراج رسول کے درمیان تعلقات ایک سال سے زیادہ نہ چل سکے، کم لوگ ہی یہ بات جانتے ہیں کہ اسی زمانے میں ایک نیا پرچا ”عالمگیر“ نکالنے کی تیاریاں ہورہی تھیں جس کی پبلسٹی بھی سسپنس، جاسوسی ڈائجسٹ میں شروع کردی گئی تھیں لیکن بہر حال یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اکتوبر 1985 میں خان صاحب ادارے سے الگ ہوگئے، اس طرح جاسوسی ڈائجسٹ کو وقت پر لانے کی بیشتر ذمے داریاں ہمارے کاندھوں پر آگئیں اور صدیقی صاحب سے ہمارے براہ راست رابطے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ابتدا میں کچھ تکلفات حائل رہے لیکن جب شعر سننے اور سنانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر تکلف مٹ گیا،وہ جب بھی تشریف لاتے، دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی اور اپنا تازہ کلام بھی سناتے،واضح رہے کہ صدیقی صاحب ہرکس و ناکس کے سامنے شعر سنانے کے قائل نہیں تھے،پہلے وہ یہ ضرور اندازہ کرتے تھے کہ سامع سخن فہم بھی ہے یا نہیں اور اس حوالے سے ان کی رائے ہمارے بارے میں اچھی تھی۔
پھر ایک سانحہ ہوا، سال ہمیں یاد نہیں،ان کے نو عمر، ذہین اور لائق صاحب زادے مکان کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوگئے،اس سانحے نے صدیقی صاحب کو جس اذیت سے اور جس کرب سے دوچار کیا ہوگا اس کا اندازہ ہر صاحب اولاد کرسکتا ہے،واقع کے بعد جب وہ دفتر آئے تو ہمارے پاس الفاظ نہیں تھے کہ ہم ان سے تعزیت کریں، وہ بھی خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے، ہم نے روایتی طور پر یہ جاننے کی کوشش کی کہ حادثہ کیوں اور کیسے ہوا تو انہوں نے بجھے دل کے ساتھ تمام ماجرا سنایا۔
صدیقی صاحب ان دنوں ماڈل کالونی میں رہائش پذیر تھے اور اپنا ذاتی مکان بڑی محبت سے بنوایا تھا، کچھ عرصہ بعد وہ زرعی بینک سے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو وہ مکان بیچ دیا اور گلشن اقبال میں ایک فلیٹ خرید لیا، ان کا دوسرا بیٹا امریکا جاکر مستقل طور پر رہائش پذیر تھا، تقریباً دو سال پہلے ایک روز فون پر انہوں نے بتایا کہ وہ آرتھرائٹس کی تکالیف کا شکار ہوچکے ہیں، ہومیوپیتھی پر یقین نہیں رکھتے تھے لہٰذا ہمارے کسی مشورے کی ضرورت نہیں تھی، خود دنیا کے تمام اہم علوم سے شناسائی تھی، بہت سے مخفی علوم کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرچکے تھے، میڈیکل کے بارے میں بھی اچھی معلومات رکھتے تھے،بہت اچھے پامسٹ تھے، پامسٹری پر کئی کتابوں کے ترجمے کیے لیکن کسی کا ہاتھ اسی صورت میں دیکھتے تھے جب اس سے اچھے تعلقات ہوں چوں کہ ہم ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھتے تھے تو ان سے پامسٹری اور ایسٹرولوجی کے باہمی اشتراک پر اکثر گفتگو ہوئی اور ان کا کہنا یہ تھا کہ ایسٹرولوجی پامسٹری سے بہت آگے کی چیز ہے،ایک روز ایک ایسی کتاب ڈھونڈ کر لائے جو ایسٹرولوجی کے موضوع پر نادر و نایاب تھی ، کہنے لگے ”آپ بھی کیا یاد کریں گے، یہ ہماری طرف سے تحفہ سمجھیے“
بلاشبہ وہ ایک نادر تحفہ ہی تھا جو آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے۔
احمد صغیر صدیقی 2 اگست 1938 کو بھارت کے ضلع بہرائچ میں پیدا ہوئے، زندگی کا ابتدائی حصہ یعنی بچپن کانپور میں گزرا، تقسیم کے بعد کراچی آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، 1953 سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا،صدیقی صاحب کا اصل شعبہ شاعری تھا، ادب تھا، موجودہ دور کے شاعروں میں وہ فیض احمد فیض کے بعد احمد فراز کے معتقد تھے باقی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ناصر کاظمی کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے، اس پر ہماری خوب جھڑپ ہوتی، جہاں تک ڈائجسٹوں میں ان کے بے پناہ کام کا تعلق ہے تو وہ اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے، یہ کام وہ محض مالی فائدے کے لیے کرتے رہے،شاید اسی وجہ سے ترجمہ کرتے وقت وہ بہت سی باتوں کو نظرانداز کردیا کرتے تھے، اول تو ان کا ترجمہ معیاری خیال نہیں کیا جاتا تھا، دوم یہ کہ وہ لکھتے ہوئے لفظوں کو باہم ملادیا کرتے تھے،پڑھنے والے کو شدید الجھن محسوس ہوتی، معراج صاحب ان کی کہانیاں پڑھنے سے گریز کرتے تھے،ملاکر لکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ دو الگ الگ الفاظ کو ملاکر لکھتے تھے،مثلاًاسلیے، اسکے،انکے وغیرہ وغیرہ۔لیکن کہانی پر ان کی غیر معمولی اور گہری نظر تھی،اعلیٰ درجے کی کہانیاں ڈھونڈ کر لاتے اور پھر ان کا ایسا ترجمہ کرتے جیسے کسی ناپسندیدہ کام کو انجام دے رہے ہوں اور جلد از جلد اس کام سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہوں۔
ہم نے سنا ہے کہ سب رنگ کا شہرا آفاق سلسلہ ”انکا“ ان کی ایک مختصر کہانی سے اخذ کیا گیا تھا جو کہانی وہ سب رنگ کے لیے لے کر گئے تھے اسے پڑھ کر شکیل عادل زادہ صاحب کو خیال آیا کہ اس آئیڈیے پر سلسلے وار کہانی لکھوائی جائے اور یہ کام جناب انوار صدیقی نے کیا۔
ماہنامہ سرگزشت کے اجرا کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں، یہ 1990 ءکی بات ہے، پروگرام یہ تھا کہ پہلا شمارہ 10 دسمبر 1990 ءکو مارکیٹ میں آئے جو جنوری 1991 ءکا شمارہ ہوگا، شاید اکتوبر 1990ءمیں صدیقی صاحب ایک نیا آئیڈیا لے کر دفتر آئے ، انہوں نے چند صفحات ہمارے سامنے رکھ دیے اور فرمایا ”آپ انہیں پڑھ لیں اور پھر معراج صاحب سے بھی مشورہ کرلیں، یہ آپ کے نئے پرچے سرگزشت کی پہلی کہانی ہے“، واضح رہے کہ معراج صاحب سے ان کی ذہنی ہم آہنگی قطعاً نہیں تھی،وہ ان سے ملاقات کے کبھی خواہش مند نہیں ہوتے تھے اور یہی حال خود معراج صاحب کا تھا۔
ایک صفحے میں نہایت اختصار کے ساتھ کسی ایک مشہور شخصیت کی کہانی اس طرح بیان کی گئی تھی کہ آخری سطر تک اس کا نام مخفی رکھا گیا تھا، بے شک یہ ایک نئی روایت اور نیا انداز تھا، ہم نے معراج صاحب سے مشورہ کیا اور انہوں نے فوراً اجازت دے دی، یہ معراج صاحب کی ایک اضافی خوبی تھی کہ وہ ہر اچھی بات کو فوراً قبول کرلیتے تھے اور کسی غلط بات پر انہیں کوئی آمادہ نہیں کرسکتا تھا، بہر حال سرگزشت مقررہ تاریخ پر مارکیٹ میں آیا اور چھاگیا، صدیقی صاحب کا لگایا ہوا ایک صفحے کی سرگزشت کا یہ پودا پروان چڑھتا رہتا اور آج ایک قدآور درخت بن چکا ہے۔
صدیقی صاحب کہانیوں کے معاملے میں اختصار پسند تھے،بالکل اسی طرح منظر امام کا معاملہ ہے،یہ بات مشہور تھی کہ سو صفحے کا ناول اگر صدیقی صاحب کو ترجمے کے لیے دے دیا جائے تو وہ اسے دس صفحوں تک محدود کردیں گے اور ایک صفحے کی کہانی اگر علیم الحق حقی کو دے دی جائے تو وہ پندرہ بیس صفحوں تک یا اس سے بھی زیادہ پھیل سکتی ہے،شاید اسی وجہ سے صدیقی صاحب نے ناولوں پر کم توجہ دی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے ناول ترجمہ نہیں کیے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ کہانیوں کے ترجمے کا تمام کام صدیقی صاحب اپنی آمدن میں اضافے کے لیے کرتے تھے البتہ ان کا اصل میدان شاعری تھا جس میں وہ کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے،ان کا پہلا مجموعہ ءکلام ”سمندر آنکھیں“ 1972 میں شائع ہوا، اس کے بعد خدا معلوم شعر گوئی کی رفتار کیوں سست ہوئی کیوں کہ تقریباً دس سال بعد انہیں پھر نیا مجموعہ شائع کرانے کا خیال آیا اور انہوں نے 1982 تک کہے گئے اشعار کا ایک انتخاب معراج رسول صاحب کے چھوٹے بھائی جناب اعجاز رسول کے حوالے کردیا تاکہ وہ اسے اپنے ادارے کتابیات پبلی کیشن کے زیر انتظام شائع کردیں،یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ صدیقی صاحب کے ذاتی مراسم جس قدر اعجاز رسول صاحب سے تھے ، معراج صاحب سے نہیں تھے،اعجاز صاحب کے لیے وہ بہت سی کتابوں کے ترجمے بھی کرتے رہے تھے اور طبع زاد بھی لکھتے رہے، مثلاً ”بوجھو تو جانیں“ یہ منظوم پہیلیوں کا مجموعہ ہے،”امتحان میں کامیابی، خوابوں کے اسرار، مسائل اور حل، کامیابی، احساس کمتری، چھ حیرت انگیز علوم، تحریر اور شخصیت، باخبری، کم نظری اور اس کا سدباب،دست شناسی کے نئے رُخ ،کالی کہانیاں، دنیا کی بہترین کہانیاں، سگریٹ پینا چھوڑیے، موٹاپا اور اس کا سدباب وغیرہ اور بے شمار تصنیفات صدیقی صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں جن میں اکثر پر ان کا نام بھی شائع نہیں ہوا، یہی صورت ڈائجسٹوں میں چھپنے والی بے شمار کہانیوں کی ہے، انہیں اس کی پروا بھی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی وہ ان کتابوں کے موضوع پر بات کرنا پسند کرتے تھے،صرف اور صرف ادب و شاعری ان کا مسئلہ تھا،شاید اسی لیے دس سال تک جو کچھ کہا، اسے شائع کرانے کے لیے بے تاب ہوئے اور غزلیں اور نظمیں اعجاز رسول صاحب کو دے دیں، ان دنوں (1986) وہ اپنی ملازمت کی وجہ سے کراچی سے دور تھے اور ان کا خیال تھا کہ اعجاز صاحب یہ کام بہ حسن و خوبی کرلیں گے کیوں کہ وہ ایک پبلشنگ ادارہ چلارہے تھے لیکن ان کا دوسرا مجموعہ ءکلام ”کاسنی گل پوش دریچے“ جب شائع ہوا تو ہمیں سخت مایوسی ہوئی ، یہ ان کے کلام اور خود ان کی توہین تھی،اخباری کاغذ پر 64 صفحے کا چھوٹا سا ایک کتابچہ ہمارے ہاتھ میں تھا، شاید ان کی اختصار پسندی اور سخت تنقیدی نظر نے ایک بھرپور مجموعہ ءکلام کو ضروری نہیں سمجھا، وہ اکثر جب ہمیں کوئی نئی غزل سناتے تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ”آپ ایمانداری سے کمزور شعروں کی نشان دہی ضرور کردیں“ لیکن ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا مگر وہ خود یہ کام کرلیتے تھے، کاسنی گل پوش دریچے کی پہلی غزل چار شعروں پر مشتمل ہے،یہی حال دوسری غزلیات کا ہے، بہت کم غزلیں ایسی ہیں جن میں پانچ شعر ہیں لیکن پہلی غزل خود صدیقی صاحب کے مزاج و فطرت پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے
جھلسا گئی سموم، صبا سے نہ کچھ کہا
جلتے رہے پر، اہلِ دوا سے نہ کچھ کہا
اک ایک کرکے سارے دیے بجھ گئے مگر
تھے وہ انا پسند ، ہوا سے نہ کچھ کہا
تِری طلب میں دل کی خموشی گواہ ہے
اوروں کا ذکر کیا ہے، خدا سے نہ کچھ کہا
دنیا تو خیر اپنی مخالف صدا سے تھی
تم نے بھی کشتگانِ بلا سے نہ کچھ کہا
 وہ بلاکہ نقاد بھی تھے، کراچی کی ادبی نشستوں میں کبھی کبھی حاضری دیا کرتے اور اکثر شعرا اور افسانہ نگاروں کو ناراض کرتے، ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”گوشے اور اُجالے“ شائع ہوچکا ہے۔
آخری دنوں میں صحت کی خرابیوں کی وجہ سے کہیں آنا جانا بہت کم ہوگیا تھا، ہم اکثر ان کے گھر چلے جاتے تو بہت خوش ہوتے، بیٹھ کر پرانے قصے ، پرانی باتیں یاد کرتے اور ان کا تازہ کلام بھی سنتے، پاکستان و بھارت کے تقریباً تمام ہی معتبر ادبی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔1991 میں تیسرا مجموعہ ”اطراف“ نہایت اہتمام سے شائع ہوا اور اس کی اشاعت کے لیے وہ شکیل عادل زادہ کے شکر گزار ہوئے، شکیل صاحب نے ایک بھرپور تعارفی مضمون بھی اس مجموعے کے فلیپ پر لکھا ہے جو یقیناً قابل توجہ ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں ایسا، مناسب ہوگا کہ شکیل صاحب کی اس خامہ فرسائی کی چند جھلکیاں یہاں پیش کردی جائیں۔
”احمد صغیر صدیقی ایک نہایت گوشہ گیر قسم کے آدمی ہیں، شاعری ان کا پیشہ نہیں ، مشغلہ ہے“
”احمد صغیر صدیقی ہر پہلو سے ایک متوازن آدمی ہیں، ان کے پلڑے عموماً برابر رہے ہیں،وہ ارسطو کے کلیے اعتدال خیرالامور کے شدت سے پیروکار نظر آتے ہیں اور لگتا ہے ، یہ سامنے کا روپ اصل میں ان کا بہروپ ہے گو وہ اسے کمال جبر، کمال نفاصت سے نصف صدی سے نبھا رہے ہیں مگر ان کا صحیح رنگ و روپ تو ان کی شاعری میں جلوہ گر ہے، ایسی شاعری درون خانہ کے شورش و تلاطم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی، انہوں نے اپنے اندر کا بے قرار، مشکوک، حیران اور ویران آدمی خوب باندھ کے جکڑ کے رکھا ہوا ہے، یہ دوں ہمتی کی بات بھی ہوسکتی ہے، ان میں رسوا ہونے کا حوصلہ نہیں ہے، اپنے آپ پر اصرار کرنے کا حوصلہ۔وہ اپنے پرسان حال و احوال سے ہراساں ہیں کہ کھل کر سامنے نہیں آتے، وہ کوئی مشہور شاعر بالکل نہیں ہیں نہ انہیں اس کا دکھ ہے، نہ دعوا“۔
”ان کا مطالعہ یقیناً مشاہدے سے بیش ہے، آو ¿ٹ آف باو ¿نڈ قسم کی جگہوں پر ان کا گزر کم ہی ہوا ہوگا، چشم بینا شرط ہے ، مشاہدہ تو ایک جنس ارزاں ہے، کھلی آنکھوں کا ایک مسلسل جبر، بند آنکھوں کا بھی لیکن تھوڑی بہت کجی ، اندھی گلی سے آشنائی، قلم برداروں کے لیے اکسیر ہوتی ہے،اس ذرا سی جرا ¿ت، تھوڑے سے تجسس اور ایک بار کی لغزش گاہے گاہے ہوسِ گل بدناں کی اجازت تو اقبال نے بھی دی ہے، یوں مطالعے، مشاہدے اور تجربے کا اخذ و استنباط کا معاملہ بقدر توفیق ہوتا ہے“
کتاب کے پیش لفظ میں صدیقی صاحب کی اختصار نویسی حسب عادت رہی، دیباچے کے آخر میں فرماتے ہیں ”ہر لکھنے والا یہی سوچ کر لکھتا ہے کہ اس کی تحریر ، اس کا جواز فراہم کرے گی۔میں نے یہ کتاب آنے والے دنوں کے ہاتھ میں دے دی ہے، میں بس اسی قدر کرسکتا ہے“
ہم نے ابتدا میں میر تقی میر کا ایک شعر پیش کیا تھا جس کا جواب صدیقی صاحب نے فوراً ہی دے دیا تھا مگر خود دیکھیے صدیقی صاحب کیا کہتے ہیں 
اب اتنی شیشہ مزاجی بھی کچھ درست نہیں
عجب نہیں کہ لگے ٹھیس اور بکھر جاو
جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ وہ بہت انا پرست اور اختصار پسند تھے، گوشہ نشینی انہیں راس تھی، محدود حلقہ ءاحباب رکھتے تھے، ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھنا، ہم نے انہیں کبھی کسی کی برائی کرتے یا کسی کی شکایت کرتے بھی نہیں دیکھا، ہم خود اگر کسی کی شکایت کرتے یا کسی کی خامیاں زیر بحث آجاتیں تو وہ فوراً موضوع کو بدلنے پر زور دیتے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر پاک طینت اور صاف دل انسان تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔

ایک متنازع اور ممنوع موضوع، غلط فہمیاں اور حقائق

بڑھی ہوئی حساسیت سے جنم لینے والے امراض اور ان کا علاج

میڈیکل و نفسیات کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس عادت میں مبتلا افراد جسمانی، دلی، دماغی طور پر خود کو تباہ کرلیتے ہیں وہ اپنے چہرے کا نور اور چمک دمک کھو بیٹھتے ہیں، ان کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، آنکھیں اندر دب جاتی ہیں، ان کے گرد نیلگوں حلقے پڑجاتے ہیں اور وہ ہمیشہ غمگین، افسردہ، سرنیچے جھکا کر دوسروں سے آنکھیں چراتے نظر آتے ہیں، جسمانی مشقت ان کے لیے سخت بے زاری کا باعث ہوتی ہے، صحت مندانہ ورزش کھیل کود سے وہ دور بھاگتے ہیں، ہر وقت کسی نہ کسی گہرے خیال میں ڈوبے رہتے ہیں، ان کی طبیعت میں سر کشی، مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے، وہ دوسروں کا ہنسی مذاق برداشت نہیں کرسکتے، ایسے موقع پر یا تو وہ شرمسار ہوکر پانی پانی ہوجاتے ہیں یا پھر شدید غصے اور برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، ان کی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے، قد کم رہ جاتا ہے، جسم کے اکثر اعضا سکڑ کر چھوٹے رہ جاتے ہیں، کسی نہ کسی دوسری خرابی کا شکار ہوتے ہیں، جسم نہایت کمزور اور ذہنی قوتیں ختم ہونے لگتی ہیں، نتیجتاً مختلف امراض بہ آسانی انہیں اپنا شکار بنالیتے ہیں، یاد داشت کمزور ہوجاتی ہے، خیالات انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں، قوت فیصلہ ختم ہوجاتی ہے، زیادہ طویل عرصے گزرنے کے بعد مالیخولیا، شیزوفرینیا، ہسٹیریا، جنون، مرگی، جناتی و آسیبی اثرات، سحری و جادوئی کیفیات، تشنج، رعشہ جیسی بیماریاں ان میں نمودار ہونے لگتی ہیں، اس اسٹیج پر پہنچ کر ایسے مریضوں کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب مریض کے گھر والے اپنی کم علمی اور ناواقفیت کے سبب علاج یا معالج کے انتخاب میں غلطی کر بیٹھیں تو کیسں سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے اور مریض لا علاج ہوکر رہ جاتا ہے۔

عالمی مسئلہ

یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، اس مسئلے کا تعلق انسان کے جنسیاتی اعمال و افکار سے ہے اور جنسیات کے حوالے سے انسانی رویے اور نظریات کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے شروع ہوجاتی ہے، یہ تعلیم اور تربیت اگر نامناسب ماحول اور جہالت آمیز سوچ و فکر کے ساتھ ہو تو سمجھ لیجیے کہ پہلی بنیاد ہی غلط پڑ گئی ہے جو اس حوالے سے تمام عمر ذہن کو گمراہ کرتی رہے گی اور ذہن ہی درحقیقت وہ مرکز ہے جو انسان کے جنسیاتی مسائل اور معاملات پر پوری طرح حکمران ہے لہٰذا ذہن کو اس حوالے سے درست اور صحت مند معلومات اگر ابتدا ہی سے حاصل ہونا شروع ہوجائیں تو وہ اپنی بشری کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود کبھی ایسے امراض میں مبتلا نہیں ہوسکتا جیسے کہ عموماً ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں اور جنہیں ایک بھیانک اور خطرناک روپ میں مشتہر کرکے بے شمار پیشہ ور معالجین لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔
اس موضوع کو اپنے کالم میں شامل کرنے اور تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کی ضرورت ہمیں اس لیے بھی پیش آرہی ہے کہ اکثر روحانی اور جسمانی بیماریاں تحقیق کے بعد کسی نہ کسی جنسیاتی کجروی، محرومی یا ناآسودگی سے وابستہ نظر آتی ہیں چناں چہ ضروری ہے کہ اس موضوع پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز میں بات کی جائے اور غلط نظریات و توہمات کے پھندے سے ذہن کو نکالا جائے۔
مرحوم جناب رئیس امروہوی نے نفسیات اور مابعد النفسیات کے حوالے سے اپنی تحقیقات میں اس موضوع کو بنیادی اہمتی دی تھی، ان کی تحریروں میں سے ایک اقتباس یقیناً بہت سے ذہنوں میں پڑی ہوئی گرہوں کو کھولنے کا باعث ہوگا، ملاحظہ کیجیے، وہ لکھتے ہیں۔
”سیکڑوں بلکہ ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کی کج رائی اور کج روی کی داستانیں میں نے سنی اور پڑھی ہیں اور خود عنفوان شباب میں ہر قسم کی کجی کا تجربہ کیا ہے، انسانی زندگی کی تشکیل اور مستقبل سازی میں بچپن کے تجربات اور آغاز جوانی کے تاثرات غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، ہم سمجھنے سمجھانے کی آسانی کے لیے انسان کی طبعی عمر کو (خواہ اس کی حد ستر سال مقرر کی جائے یا سو سال) سات سال کے مختلف حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، مثلاً سات سال، چودہ سال، اکیس سال، اٹھائیس سال، پینتیس سال، بیالیس سال، انچاس سال، چھپن سال، تریسٹھ سال اور ستر سال، ہر سات سالہ دور ایک منزل حیات کی حیثیت رکھتا ہے، بچپن کے سات سال تیز جسمانی نشوونما کا زمانہ ہوتے ہیں، اس زمانے میں بچے کا خام اور ناپختہ ذہن پختہ ہوتا ہے اور وہ گردو پیش کے اثرات اس گہرائی اور گیرائی سے قبول کرتا ہے کہ ہر تاثر کے ابتدائی نقش عمر بھر کے لیے انمٹ ہوجاتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نامہ اعمال بچپن ہی میں نفس پر کندہ ہوجاتا ہے اور ہم زندگی کے آخری لمحے تک اس کردار کو دہراتے رہتے ہیں جس کی داغ بیل بچپن میں پڑ گئی تھی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اپنے رویے کو تبدیل نہیں کرسکتے جس طرح ہم آموزش (سیکھنے) سے ایک عادت کو اختیار کرتے ہیں (مثلاً خود لذتی یا ہم جنس پرستی وغیرہ) اس طرح آموزش اور تربیت سے اسے ترک بھی کرسکتے ہیں۔
”کردار سازی میں سب سے زیادہ اہمیت تربیت اور آموزش کی ہے، اگر آموزش سے اونٹوں کو ناچنا، باز کو شکار کھیلنا، بندر کو سائیکل چلانا اور طوطے کو بولنا سکھایا جاسکتا ہے تو خود اندازہ کیجیے کہ آموزش و تربیت سے انسانی کردار میں کتنی بنیادی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں، خیر فی الحال موضوع بحث یہ ہے کہ انسان کا جنسی کردار اس کے بچپن میں متعین ہوجاتا ہے( گو ہم اسے ہر عہد میں بدل سکتے ہیں) میں نے ہزاروں نفسیاتی مریضوں کا ذہنی مطالعہ کیا ہے اور ہمیشہ ان کی جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے پر بچپن کے تاثرات کی گہری چھاپ پائی ہے، سات سے چودہ سال تک کا زمانہ بھی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لحاظ سے بے حد اہم ہوتا ہے، بسا اوقات جنس اور ذہنی کجروی اور کجرائی کی بنیاد اس زمانے میں پڑتی ہے جس کا بھرپور اظہار تیسرے سات سالہ دور( چودہ سے اکیس سال تک کی عمر) میں ہوتا ہے، بچپن گزرتے ہی انسانی جسم کے بعض ایسے غدود تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں جن کا تعلق عورت کے عورت پن اور مرد کی مردانگی سے ہے، یہ زمانہ بچوں اور بچیوں کے لیے سخت تشویشناک اور کرب انگیز ہوتا ہے، لڑکوں اور لڑکیوں میں بلوغت سے قبل و بعد جو عضوی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں انہیں تو ہم دیکھ لتے ہیں لیکن ان کے ذہن و نفس میں جو ہلچل برپا ہوتی ہے، دل جس محشر سامانی و بے قراری سے زیر بار ہوتا ہے، انجان تمنائیں جس طرح روح کو گد گداتی ہیں، خوابوں میں رنگینی پیدا ہوجاتی ہے اور تاثرات میں جو گہرائی آتی ہے، اس کا اندازہ ایک بالغ ہونے والا لڑکا اور لڑکی ہی کرسکتے ہیں
دنیا جوان تھی مرے عہد شباب میں
تو اس عہد شباب میں دانستہ یا نادانستہ طور پر نوجوان ایسی حرکتوں میں مبتلا اور ایسی عادتوں کے خوگر ہوجاتے ہیں جنہیں قوت کی بے تحاشا فضول خرچی کہا جاسکتاہے، ان کا نفس ایک انجانی لذت کا متلاشی رہتا ہے، اس کی لذت کے حصول کا قریب ترین اور آسان ترین ذریعہ خود اپنا جسم ہے، جنسی کجروی کی کوئی ایک شکل نہیں، ہزاروں شکلیں ہیں بلکہ میرا اندازہ تو یہ ہے کہ ہر نوجوان اپنے سکون کے لیے کسی نئی راہ کی جستجو میں رہتا ہے۔
”خود لذتی، ہم جنس پرستی، مفعولیت، بدخوابی(احتلام) خود آزادی، مردم آزادی، لڑکیوں کی یہ خواہش کہ وہ مردوں کی طرح اظہار قوت کریں یا مردوں کی طرح معاشرے میں کردار ادا کریں اور لڑکوں کی یہ تمنا کہ انہیں لڑکیوں کی طرح التفات اور توجہ ملے، اسی ایک ہیجانی قوت کے مختلف مظاہر ہیں۔
”جنسی خامی اور ذہنی خام کاری کا ذہنی ناپختگی( یعنی آموزش کی غلطی) سے گہرا تعلق ہے، بچپن میں کوئی شخص کسی ناپسندیدہ عادت میں مبتلا ہوجائے( اور اس عادت کی اصلاح نہ کی جاسکے) تو اندیشہ ہے کہ انسان عمر بھر اسی غلط کاری کا مرتکب ہوتا رہے، کوئی لڑکا اور لڑکی ابتدائے جوانی کے جذباتی طوفان اور جنسی ہیجان سے بچ نہیں سکتا، جب جنسی غدود کی سرگرمی کے سبب خون میں بجلیاں سی دوڑنے لگتی ہیں تو آدمی بخار کی سی کیفیت محسوس کرتا ہے، یقیناً 90 فیصد لڑکے اور لڑکیاں اس نفسیاتی بحران سے گزر کر مختلف پگ ڈنڈیوں پر بھٹکنے کے بعد عقل و مصلحت اندیش کی راہ نمائی میں شاہراہ حیات پر حقیقت پسندی کے ساتھ گامزن ہوجاتے ہیں، البتہ دس فیصد اپنی جگہ اٹک کر رہ جاتے ہیں اور وہ کوئی نئی بات سیکھنے سے انکار کردیتے ہیں۔
”خود لذتی کا تجربہ نہ تو حیرت انگیز ہے اور نہ غیر معمولی، یہ تو دور شباب کی ایک عام اور ہمہ گیر خصوصیت ہے، مشکل سے پانچ تا دس فیصد افراد اس تجربے سے بچ سکے ہوں گے لیکن اس حوالے سے بڑی مہیب افواہیں پھیلائی گئی ہیں، گناہ و عذاب کا خوف، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی و جسمانی عوارض کی غلط تشریح ، توجیح وغیرہ جس کے نتیجے میں اس عادت کا شکار ہونے والے افراد ایسے شدید احساس جرم اور کسی نہایت بھیانک مرض میں مبتلا ہونے کے وہم میں پھنس کر در حقیقت نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں، بس یہی وہ موڑ ہے جہاں سے حقیقی طور پر نت نئی اور پیچیدہ ترین بیماریوں کا آغاز ہوتا ہے جو جسمانی کم اور نفسیاتی و روحانی نوعیت کی زیادہ ہوتی ہیں“۔
حقیقت یہ ہے کہ اس عادت کی کثرت انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر بے حد حساس بنادیتی ہے، اس کے علاوہ اسے اور کسی قسم کی بیماری یا کمزوری لاحق نہیں ہوتی لیکن زیادہ حساس ہونے کے سبب وہ ہر بات کا نہایت گہرا اثر قبول کرنے لگتا ہے، دوسروں کی کہی ہوئی باتیں ارد گرد کا ماحول سب کچھ اس پر ایک نئے غیر حقیقی رنگ میں اثر انداز ہونے لگتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ اس کا احساس گناہ کے زیر اثر ہونا بھی ہوتی ہے۔
رئیس صاحب ہی کی تحریر سے ایک اور اقتباس دیکھیے، وہ لکھتے ہیں ”خود لذتی کے ذریعے ہماری حیوانی جبلت کی بھرپور تسکین نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے نوع انسانی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس کے نقصانات کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے اس کی صداقت بھی مشکوک ہے، گاہے گاہے اس پر عمل پیرا ہونے والوں کو اس سے کوئی بنیادی نقصان جسمانی اور ذہنی طور پر نہیں پہنچتا“ 
رئیس صاحب اس موقع پر شاید اس حقیقت کو نظر انداز کرگئے کہ یہ ”گاہے گاہے“ کا معاملہ بہت تیزی سے مسلسل ہوجاتا ہے اور جنس کے ہیجان انگیز طوفان کی زد میں آیا ہوا ناپختہ ذہن کیف و سرور کے سمندر میں غوطہ خوری سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا، انسانی فطرت کی اس کمزوری کے پیش نظر مذہب اسلام میں جلد از جلد شادی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے جلد شادی کا انتظام نہ ہوسکے تو غیر شادی شدہ افراد کو اپنے نفس پر قابو رکھنے کے لیے ”داو ¿دی روزے“ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ روزہ تسخیر و تزکیہ ءنفس کے لیے بہترین اور موثر عمل ہے۔
آگے رئیس صاحب فرماتے ہیں ”البتہ اس عادت کا تواتر اور تواتر کی کثرت تکلیف دہ اور تشویشناک بن جاتی ہے، میں نے نوے فیصد نوجوانوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا پایا ہے کہ جلق (خود لذتی) کے سبب وہ مردانگی اور جواں مردی کی قوت سے محروم ہوگئے ہیں، یہ خوف کہ جلق آدمی کو نامرد بنادیتا ہے نہ صرف بے بنیاد بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے، اگر انسان کے جنسی غدود میں کوئی عضویاتی نقص نہیں تو کوئی جنسی کجروی آدمی کو مردانہ قوت سے محروم نہیں کرسکتی، البتہ یہ تصور کہ میں فلاں کجروی کے سبب جنسی کمزوری میں مبتلا ہوگیا ہوں، ذہن کو ضرور ناکارہ کردیتا ہے، میں بار بار اس نکتے پر زور دے چکا ہوں کہ جنسی عمل اصولی طور پر ذہنی عمل ہے، جنسی آمادگی کی پہلی شرط ذہنی آمادگی ہے، اگر ہماری اس حیوانی جبلت کے راستے میں عقل حائل نہ ہوجائے (یعنی یہ خیال دل و دماغ میں نہ آئے کہ میں فلاں اور فلاں سبب سے ناکارہ ہوگیا ہوں) تو جنسی کمزوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔
رئیس صاحب کے اس تجزیے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے، اب تک کی تمام گفتگو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ سارا معاملہ اور تمام کھیل ذہن سے بنیادی اور خصوصی تعلق رکھتا ہے، دیگر اعضائے جسمانی تو اس میں ذہن کے ماتحت اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں لہٰذا اولین اہمیت ذہنی اصلاح کی ہے ۔
علاج معالجہ
ہمارے پیش نظر زیر بحث مسئلہ درحقیقت یہ ہے کہ موجودہ معاملہ کسی جسمانی عضویاتی خرابی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق بنیادی طور پر ذہن سے ہے اور اس حوالے سے جس قدر پروپیگنڈا پیشہ ور معالجین نے کر رکھا ہے، اصل معاملہ اس کے برعکس ہے، درحقیقت یہ کوئی مرض ہی نہیں ہے جس کے علاج کے لیے بیش قیمت اور تیر بہ ہدف نسخہ جات کی ضرورت پیش آئے، خود لذتی تو ایک عادت ہے اس عادت کو ترک کردیا جائے اور ذہن سے یہ وہم نکال دیا جائے کہ اس عادت کی وجہ سے فلاں محرومی پیدا ہوگی یا فلاں کمزوری نے جنم لے لیا ہے تو معاملہ خود بہ خود اصلاح و درستگی کی طرف مائل ہوجاتا ہے، یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ طویل عرصے تک اس عادت میں مبتلا رہنے والے افراد شادی کے بعد خود بہ خود ٹھیک ہوگئے اور صاحب اولاد بھی ہوئے، یہ درست ہے کہ اس عادت کے سبب کچھ چھوٹی موٹی جسمانی خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں مگر وہ قابل ذکر نہیں ہیں، ان خرابیوں کی موجودگی میں بھی لوگ کامیاب ازدواجی زندگی گزارتے پائے گئے ہیں،ان کی وجہ سے انسان کی بنیادی قوتیں متاثر نہیں ہوتیں کیوں کہ ان قوتوں کا اصل تعلق تو انسانی خواہش سے ہے اور خواہش ہمیشہ ذہن میں پیدا ہوتی ہے، اگر ذہن تندرست و توانا ہے تو باقی اعضائے جسمانی اس کے حکم پر ذہن میں جنم لینے والی خواہش کے مطابق عمل کریں گے بہ صورت دیگر کچھ بھی ممکن نہیں ہے، بد قسمتی سے اس عادت کی کثرت کا شکار ہونے والے افراد اپنی ذہنی قوتوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، وہ احساس جرم و گناہ، شرمندگی، خوف وغیرہ کے زیر سایہ آکر خود کو ذہنی صحت کے لیے مفید تمام کاموں سے دور کرلیتے ہیں، تنہائی اور ایک تصوراتی و خیالی دنیا ان کی جنت بن جاتی ہے، جب کہ ذہنی صحت مندی کے لیے معاشرے میں سرگرم حیثیت اختیار کرنا اور حقائق کا سامنا کرنا بھی نہایت ضروری امر ہے، وہ بے حد حساس ہوجاتے ہےں، چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی گہرا اثر قبول کرتے ہےں پھر اس اثر کے ازالے کی ان کے پاس کوئی صورت بھی نہیں ہوتی کیوں کہ انہوں نے خود کو دوسروں سے الگ کرکے ایک نئی دنیا میں قید کرلیا ہوتا ہے، اس موقع پر فیض احمد فیض کا شعر بڑا برمحل ہے۔
مجھی سے میری صدا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص اس صورت حال سے کیسے نکل سکتا ہے، کس راستے سے اسے اس کی حقیقی منزل کی طرف لایا جائے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
ہمارے معالجین تو خیر اس حوالے سے ہمیشہ ہی بڑے بڑے دعوے کرتے آئے ہیں اور اپنی زود اثر ادویہ کی نہایت زوروشور سے پبلسٹی بھی کرتے رہے ہیں مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ناکام و نامراد افراد کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ عموماً تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اس عادت کا شکار ہوکر تباہی کے راستے پر گامزن ہونے والوں کو ہم بہ آسانی دو گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک تو وہ جو جلد یہ احساس کرلیتے ہیں کہ وہ تباہی کی طرف جارہے ہیں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہیے، دوسرے وہ ہوتے ہیں جنہیں بہت دیر میں یہ خیال آتا بھی ہے تو وقت بہت زیادہ گزر چکا ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتے، اول الذکر کا معاملہ زیادہ الجھن اور پریشانیوں کا باعث نہیں بنتا، اگر وہ درست معالج تک پہنچ جائیں یا کسی طور اپنی قوت ارادی سے کام لے کر اس عادت سے نجات پالیں تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے، البتہ دوسرے گروہ کا معاملہ خاصا مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر افراد ذہنی طور پر اس قدر کمزور اور ناکارہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہ نہ تو خود کوئی اصلاح کی کوشش کرسکتے ہیں نہ دوسروں کی کوششوں میں ان سے تعاون کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک ناقابل علاج وہ بھی نہیں ہیں۔
علاج کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس معاملے میں دوائیں( خواہ وہ حکمت کی ہوں یا ایلوپیتھی کی یا آیورویدک)ثانوی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ یہ تینوں طریقہ علاج مادی اور جسمانی اعضاءکی اصلاح پر زور دیتے ہیں، نفسیات اور ہومیوپیتھی کا معاملہ ہمارے نزدیک اس سے مختلف ہے، ہم پہلے بھی ہومیو پیتھی کو روحانی علاج کا نام دے چکے ہیں، اس موقع پر ہمیں علامہ سید سلیمان ندوی کا ایک جملہ یاد آگیا ہے جو ہمارے اس دعوے میں ثبوت کا درجہ رکھتا ہے، خیال رہے کہ علامہ صاحب برصغیر کی بہت بڑی علمی شخصیت تھے، علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد رشید اور جانشین، شبلی نعمانی کے بعد سیرت النبی جیسی بلند پایہ کتاب آپ ہی نے مکمل کی، فرماتے ہیں کہ”ہومیو پیتھی طب کا تصوف ہے“ بس اس تعریف کے بعد کچھ مزید کہنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ہومیو پیتھی کا روحانیت سے کیا تعلق و واسطہ ہے، اب آجائیں اصل موضوع کی طرف۔
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق ایسے افراد کا بہترین اور شافی علاج پیرا سائیکولوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور سانس کی مشقیں اس سلسلے کی پہلی کڑی ہیں، دوسرے نمبر پر ارتکاز توجہ کی مشقیں ہیں جن میں شمع بینی اور مراقبہ شامل ہیں، سانس کی مشقوں میں ”مشق تنفس نور“ سب سے پہلے شروع کرنا چاہیے اور تین یا پانچ چکر روزانہ صبح و شام کا معمول بنالینا چاہیے، تین ماہ بعد دو چکر کا اضافہ کردیں یعنی تین چکر کر رہے تھے تو پانچ کردیں اور پانچ سے شروع کیا ہے تو سات چکر کردیں، عموماً تین ماہ کی مشق ایسے مریضوں کو راہ راست پر لے آتی ہے لیکن بہت زیادہ بگڑا ہوا کیس مزید عرصہ بھی لے سکتا ہے، خاص طور پر اگر ماہرین نفسیات یا ایلوپیتھ ڈاکٹروں نے خواب آور مسکن ادویہ پر نہ لگادیا ہو تو جلد راہ راست پر آنے کی امید ہوتی ہے ورنہ ایک خراب عادت کی وجہ سے دوسری خراب عادت میں مبتلا ہوکر مریض کہیں کے نہیں رہتے، بہر حال مشق ”تنفس نور“ مسکن ادویہ کی عادت چھڑانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے، بہ شرط یہ کہ اسے پابندی سے کرتے رہیں۔
تین ماہ کے دوران میں اگر مطلوبہ نتائج سامنے آنے لگیں یعنی انسان مشق کی طرف راغب ہوجائے اور اسے دلچسپی سے کرنے لگے تو پھر شمع بینی یا مراقبہ ساتھ میں شروع کرنا چاہیے، سانس کی مشقیں ذہن کی ازسر نو تربیت کرتی ہیں اور ہر عادت بد کو چھڑانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، یاد رکھیے کسی غلط اور خراب عادت کا نعم البدل کوئی صحت مند عادت ہی ہوسکتی ہے، ان مشقوں سے رفتہ رفتہ خود اعتمادی بحال ہونے لگتی ہے اور قوت ارادہ مضبوط ہوتی ہے اور یہی وہ جوہر بے مثال ہے جو ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے اس کے ساتھ اگر ہومیو پیتھی کی ایسی دواو ¿ں کا سہارا بھی لے لیا جائے جو انسان کی مزاجی کیفیات کے مطابق ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوگا، یہاں ہم ایسی دواو ¿ں میں سے صرف ایک دوا کا نام لکھ رہے ہیں جو اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے اسٹیفی سیگریا (Staphi sagria) ، یہ دوا عام ملتی ہے لیکن بہتر بات یہی ہوگی کہ کوئی بھی دوا کسی تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورے کے بعد شروع کی جائے کیوں کہ مریض کی مزاجی کیفیت کے مطابق دوا کا انتخاب اور اس کی طاقت کا تعین بہر حال ایک ڈاکٹر ہی صحیح طور پر کرسکتا ہے، ہمارے خیال میں مندرجہ بالا دوا کم از کم ایک ہزار طاقت میں پندردہ دن میں ایک مرتبہ استعمال کرنی چاہیے، خیال رہے کہ ہومیو پیتھک دوائیں مختلف طاقتوں میں دستیاب ہوئی ہیں اور ان طاقتوں کا استعمال حسب ضرورت کیا جاتا ہے۔
اسٹیفی سیگریا ایک ایسی عجیب دوا ہے جس پر تفصیلی گفتگو کا تو یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا لیکن مختصراً اتنا عرض کردیں کہ یہ دوا حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کو کنٹرول کرتی ہے یعنی انسانی ذہن کے انتشار اور خلفشار سے پیدا ہونے والے اثرات بد کو دور کرکے ذہن کو نارمل بنانے میں مددگار ہوتی ہے، وہ لوگ جو اپنے غصے کی وجہ سے پریشان ہیں اور شدید غصے میں آنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن، تشنج، رعشہ جیسی شکایت کا شکار ہوتے ہوں، انہیں بھی اس دوا کو ہفتے میں ایک بار دو سو طاقت میں استعمال کرلینا چاہیے، غصے میں کمی آجائے گی اور غصے سے پیدا شدہ امراض کا علاج آسان ہوجائے گا۔
خود لذتی کی عادت میں مبتلا افراد کی بڑھی ہوئی حساسیت کے لیے ہم نے ابتدائی نوعیت کا جو علاج تجویز کیا ہے، اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو کسی اور وجہ سے ذہنی و اعصابی کمزوری کا شکار ہوکر شدید حساسیت کی زد میں آگئے ہوں۔
اب ایک آخری سوال اور باقی رہتا ہے، اس حوالے سے کچھ ایسے مریض بھی سامنے آتے ہیں جو اپنا علاج کرانا ہی نہیں چاہتے یا چاہتے بھی ہیں تو ان میں اتنی ہمت اور مستقل مزاجی ہی نہیں ہے کہ وہ پابندی سے کوئی مشق وغیرہ کرسکیں یا دوائی کھاسکیں، دوا کھانے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ بس ہفتہ دو ہفتہ میں بالکل بھلے چنگے ہوجائیں اور ابتدائی دو تین دن ہی میں انہیں بہتر نتائج نظر آنے لگیں، ایسے لوگ اپنی ایب نارمل ذہنی کیفیت کے سبب بہت بڑا مسئلہ ہوتے ہیں، وہ یا تو نام نہاد ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر میں پھنس ک ر خود کو مزید برباد کرتے ہیں یا پھر نام نہاد پیشہ ور عاملوں، پیروں اور فقیروں کا تختہ ءمشق بن کر ہمیشہ کے لیے آسیبی، جناتی یا سحرزدہ مریض بن جاتے ہیں۔
یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ کسی بھی وجہ سے بڑھی ہوئی شدید حساسیت ہی سحروجادو اور آسیب و جنات کے مریض سامنے لاتی ہے جنہیں اوج کمال تک ہمارے نام نہاد عاملین و کاملین اور جاہل پیر فقیر پہنچادیتے ہیں، ملک بھر کے مزارات ایسے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، ایسے مریضوں کی ایک قسم اور بھی ہے، وہ روحانیت کا چولا پہن کر بابا یا باجی اللہ والی بن بیٹھتے ہیں، ان پر مشہور صوفی بزرگوں کی حاضری یا سواری آنے لگتی ہے، لاحول ولا قوة، یہ بات ان بزرگ پر بھی ایک تہمت ہی ہے (جاری ہے)

ہفتہ، 16 دسمبر، 2017

بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کا بڑھتا ہوا طوفان

دنیا کو عالمی جنگ کی طرف لے جانے والے اہم کرداروں کی نشان دہی

امریکا، برطانیہ اور دنیا بھر کے اہل نظرودانش آج اس حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں کہ امریکی صدر مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جارہے ہیں، ان کی ذہنی صلاحیتوں پر سوال اٹھ رہے ہیں، ماہرین نفسیات کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔
عزیزان من! 8 اگست 2016 ءکو ہم نے ہیلری کلنٹن اور مسٹر ٹرمپ کے زائچوں کا تجزیہ اپنے اسی کالم میں پیش کیا تھا، آئیے ذرا اس کالم کے دو اقتباسات پر نظر ڈال لیجیے، واضح رہے کہ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کا شمسی برج ثور (Taurus) اور برتھ سائن اسد (Leo) ہے لہٰذا سیارہ شمس ان کے زائچے کا بنیادی حاکم ہے جب کہ قمر برج عقرب میں ہے، ہم نے لکھا تھا۔
”ہم دیکھتے ہیں کہ برج اسد کا حاکم سیارہ شمس کمزور ہے اور راہو کیتو محور میں پھنس کر برج اسد کی مثبت خصوصیات کو تباہ کر رہا ہے،راہو سے قران اور کیتو سے مقابلہ ، بالغ نظری کے بجائے کینہ پروری اور دیگر منفی کمزوریوں کی نشان دہی کر رہا ہے،راہو کی مشتری پر بھی نظر ہے جو پانچویں شعور کے گھر کا حاکم ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صاحب زائچہ کا شعور بھی منفی اثرات سے پاک نہیں ہے“
”قمر برج عقرب میں ہبوط یافتہ اور راہو کیتو سے متاثرہ ہوکر فطری طور پر حسد ، جیلسی ، تنگ نظری اور دیگر اخلاقی برائیوں کو جنم دیتا ہے،چوں کہ برج عقرب ایک واٹر سائن ہے اور قمر یہاں ہبوط کا شکار ہوتا ہے،قمر کا تعلق دماغ سے ہے لہٰذا ایسے افراد راہو، کیتو کے اثرات کی وجہ سے اگر ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، اب تک اخبارات میں موصوف کے بارے میں جو جنونی نوعیت کے قصے سامنے آئے ہیں وہ قمر کی اس خرابی کی وجہ سے ہےں۔
”سونے پر سہاگا یہ کہ قمر چاند کی منزل جیشٹھا میں ہے،یہ بڑا ہی جارحیت پسند اور جنونی نچھتر ہے،اگرچہ اس پر ذہانت کے سیارے عطارد کی حکمرانی ہے لیکن زائچے کی دیگر آراستگی کا رُخ منفی ہے لہٰذا غیر معمولی ذہانت کا رُخ بھی منفی ہوگا، مشہور امریکی ارب پتی ہاورڈ ہیوز کی پیدائش بھی اسی نچھتر میں ہوئی تھی جو ”خبطی ارب پتی“ کے نام سے مشہور ہوا، ان لوگوں میں منفی اثرات کی وجہ سے عجیب و غریب عادتیں یا رجحانات پیدا ہوتے ہیں جو ابتدائی زندگی میں ہی نمایاں ہونے لگتے ہیں، ان کا حلقہ ءاحباب محدود ہوسکتا ہے یا وہ تنہائی پسند اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں،ایک گُھنی یا منافقانہ فطرت کا مشاہدہ اس نچھتر کی خصوصیات میں کیا جاسکتا ہے“
14 نومبر 2016 ءکو اپنے اسی کالم میں ہم نے لکھا تھا۔
”مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کا صدرِ امریکا بننا ہمارے نزدیک ایسا ہی ہے جیسا پچھلی صدی کے آغاز میں جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کا کامیاب ہونا، مسٹر ٹرمپ نے بھی الیکشن میں کامیابی کے لیے کچھ ایسے ہی حربے استعمال کیے جیسے ہٹلر نے کیے تھے“
مختلف مواقع پر ہم بارہا یہ نشان دہی کرتے چلے آرہے ہیں کہ دنیا کے اہم ممالک پر ایسے سربراہان مملکت تعینات ہوچکے ہیں جو مستقبل میں کسی خراب وقت پر خطرناک نوعیت کے فیصلے کرکے دنیا کو ایک عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں، ایسے لوگوں میں مسٹر ٹرمپ سرفہرست ہیں،دیگر سربراہان مملکت میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، شام کے بشار الاسد، مصر کے عبدالفتح السیسی، کوریا کے کم جون اُن اور ایران کے حسن روحانی ان سربراہان میں شامل ہیں جو اپنے برتھ چارٹ کے مطابق شدت پسندانہ اور جارحانہ خصوصیات کے حامل ہیں، ایک مشترکہ اور دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ برج عقرب جسے شدت پسندی اور انتہا پسندی اور بے پناہ حساسیت ، منتقم مزاجی، جارحیت کا برج کہا جاتا ہے، مندرجہ بالا افراد میں نمایاں ہے، مسٹر ٹرمپ کا قمر عقرب میں ہے، وزیراعظم مودی کا پیدائشی برج عقرب ہے، کم جون اُن کا پیدائشی برج عقرب ہے، حسن روحانی کا شمسی اور پیدائشی برج عقرب ہے، عبدالفتح السیسی کا پیدائشی برج عقرب ہے،انشاءاللہ ہم مرحلہ وار ان تمام اہم اور غیر معمولی کردار کی حامل شخصیات کے مزاج و فطرت پر ان کے زائچوں کی روشنی میں بات کریں گے، فی الحال بھارتی زائچے کے حوالے سے چند معروضات پیش خدمت ہیں۔

موجودہ بھارت

اس سے پہلے کہ بھارتی زائچے کی روشنی میں 2018 ءکے حوالے سے گفتگو کی جائے، ہمارے 26 اکتوبر 2015 ءکے کالم سے چند اقتباسات پر نظر ڈالیں، ہم نے لکھا تھا۔
”بھارت سے آنے والی خبریں دنیا بھر میں بھارتی سیکولرازم کا پول کھول رہی ہیں،ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی کا زائچہ خاصی تحقیق کے بعد پیش کیا تھا، ان کی پہلی ملاقات جو نواز شریف صاحب سے ہوئی تھی، اس کے بارے میں بھی عرض کیا تھا کہ فی الحال وہ جس قدر پُرتپاک نظر آرہے ہیں ، درحقیقت ایسے نہیں ہیں کیوں کہ ان کا پیدائشی برج عقرب ہے جو شدت پسندی اور انتہا پسندی کا برج ہے، وہ جیسے ماضی میں اپنے نظریات کے لیے مشہور تھے ، ویسے ہی ہیں، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کٹّر ہندوپرست جماعت آر ایس ایس سے کیا تھا،بہر حال آہستہ آہستہ ان کے چہرے سے منافقت کی نقاب اترتی چلی گئی اور آج بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر پاکستان کے سیاسی تجزیہ کار شدید تنقید کر رہے ہیں ، وہ لوگ جو مودی سرکار کے دور میں بھی بھارت سے امن و آشتی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے، اب وہ بھی قائل ہوتے جارہے ہیں کہ موجودہ بھارت سے کسی خیر سگالی یا امن و آشتی کی توقع نہیں رکھنا چاہیے“۔
”اب بی جے پی کی حکومت اور نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے ہیں ، مودی ایسے وقت میں برسر اقتدار آئے ہیں جب سیارہ شمس کے دور اکبر میں کیتو کا دور اصغر جاری تھا، کیتو زائچے میں شرف یافتہ ہے اور شدت پسندی کا نمائندہ ہے، چناں چہ کانگریس کو شکست ہوئی اور ایک انتہا پسند جماعت اقتدار میں آگئی“۔
” 11 ستمبر2015 سے قمر کا دور اکبر 10 سال تک جاری رہے گا،قمر بھی زائچے کا سعد سیارہ ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ یہ ساتویں گھر میں قابض غضب ناک کیتو کی نظر میں ہے،زائچے کا تیسرا گھر پہل کاری ، کوشش، نئی سوچ اور نئے راستوں پر آگے بڑھنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے،اس کا حاکم قمر چوں کہ منفی اثرات کا شکار ہے لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کے عزائم آئندہ دس سال تک جارحانہ ہی رہیں گے، اب قمر کا دور اکبر اور اصغر جاری ہے جو ذہنی سطح پر مذہبی انتہا پسندی کی نشان دہی کر رہا ہے، حد یہ کہ ایک وزیراعلیٰ صاحب فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو گائے کے گوشت سے پرہیز کرنا ہوگا، یہی فرمان یقیناً کرسچن برادری کے لیے بھی ہوگا“۔
عزیزان من! اکتوبر 2015 میں ہم نے یہ نشان دہی کردی تھی کہ قمر کا دور بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کا دور ہے،اب 2017 ختم ہورہا ہے،گزشتہ 2 سالوں میں انڈیا میں مذہبی شدت پسندی کے جو مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں اور ابھی تک آرہے ہیں وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ سلسلہ ستمبر 2025 تک جاری رہے گا گویا انڈیا کے سیکولرازم کی بساط تیزی کے ساتھ لپٹتی جارہی ہے اور ہندو مذہبی انتہا پسندی عروج کی طرف گامزن ہے،انڈیا میں دورِ جہالت کی قدیم رسومات دوبارہ زندہ ہورہی ہیں، شاید وہ دن دور نہیں جب ”ستی“ کی ظالمانہ اور سفاکانہ روایت بھی زندہ ہوجائے،اکھنڈ بھارت کا خواب ہندو انتہا پسندوں کے ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان ہمیشہ ان کی نظروں میں کھٹکتا رہا ہے، ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں اور بعض جرنلوں نے بھارت کو موقع فراہم کیا کہ وہ پاکستان کا ایک بازو مشرقی پاکستان کاٹ کر علیحدہ کردے،اب بلوچستان پر بھارت کی نظر ہے،وہ علی الاعلان اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ آئندہ سال تک پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے،من درچہ خیالیم، فلک درچہ خیال کے مصداق بھارتی لیڈروں کے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
بھارت کا طالع پیدائش (birth sign) ثور 7 درجہ 46 دقیقہ ہے،پاکستان کے نئے زائچے کے مطابق جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وجود میں آیا، پاکستان کا طالع پیدائش بھی برج ثور تقریباً 3 درجہ ہے،ان دونوں ملکوں کے علاوہ مصر اور میکسیکو کا طالع پیدائش بھی ثور ہے۔
ہر ملک کے زائچے میں سیارگان کی نشست و برخاست اور طالع کے درجات علیحدہ علیحدہ ہونے کی وجہ سے حالات و واقعات اور مجموعی خصوصیات میں نمایاں فرق ہوتا ہے،بھارت کے زائچے پر پہلے بھی روشنی ڈالی جاچکی ہے،فی الحال صرف 2018-19 ءکے حوالے سے چند ضروری گزارشات پیش کی جائیں گی۔
پاکستان اور بھارت کے زائچے میں سیاروی ٹرانزٹ تقریباً یکساں طور پر دونوں کو متاثر کرتے ہیں البتہ دونوں کے ادوار (Periods) کا فرق نمایاں رہتا ہے،اس مناسبت سے بھارت کے زائچے میں بھی مشتری کی چھٹے گھر میں پوزیشن اور زحل کی آٹھویں گھر میں پوزیشن آئندہ سال کے لیے اہم ہے،اسی طرح راہو کیتو بھی دونوں زائچوں میں تیسرے نویں گھر میں حرکت کر رہے ہیں، پاکستان کے زائچے میں کثرت کواکب نویں گھر میں ہے جب کہ بھارت کے زائچے میں تیسرے گھر میں ہے لہٰذا راہو کیتو تیسرے گھر اور وہاں موجود سیارگان کو بری طرح متاثر کریں گے جس کے نتیجے میں مذہبی شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوگا، بھارت منفی سوچ کے ساتھ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ خفیہ محاذ آرائی جاری رکھے گا، سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اپنی تمام توانائیاں سرف کرے گا لیکن کیا وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوسکے گا؟
بھارت کے زائچے کی تازہ سیاروی گردش ایسی نہیں ہے جس پر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں، سیارہ زحل بھارت کے زائچے میں بھی حکومت اور سربراہ مملکت کا نمائندہ ہے،راہو کیتو محور پیدائشی زحل پر اثر ڈال رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر مودی اور ان کی حکومت کی پوزیشن اچھی نہیں ہے،نئے سال 2018 ءکے آغاز ہی سے وہ مزید تنازعات کا شکار ہوں گے اور مارچ تک ان کی حکومت کو لاحق خطرات نہایت شدید ہوسکتے ہیں،وہ کسی الزام یا بڑے اسکینڈل کا شکار ہوکر نئے مسائل میں گرفتار ہوسکتے ہیں، اندیشہ ہے کہ وہ عوامی توجہ کسی اور سمت لگانے کی کوشش میں پاکستان سے محاذ آرائی میں زیادہ شدت پسندی کا مظاہرہ کریں، جنوری کی ابتدا ہی میں زائچے کے چھٹے گھر میں مشتری اور مریخ کا قران ایسے مقام ہورہا ہے جہاں پہلے پیدائشی مشتری موجود ہے، یہ صورت حال بھارت کو کسی بڑے سانحے سے دو چار کرسکتی ہے جس کا بہانہ بناکر وہ پاکستان کو اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کرسکتا ہے۔
2018 میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ انڈیا میں بھی قبل از وقت نئے انتخابات کی صورت حال پیدا ہوجائے،جون 2018 ءسے ستمبر 2018 ءتک کیتو اور مریخ زائچے کے نویں گھر میں تین بار قران کریں گے اور یہ قرانات زائچے کے تیسرے گھر میں موجود 5 سیارگان کے مقابل ہوں گے،مزید یہ کہ راہو کیتو بھی اس دوران میں اسٹیشنری پوزیشن پر زائچے کے پہلے، تیسرے، پانچویں، ساتویں، نویں اور گیارھویں گھر کو متاثر کر رہے ہوں گے،یہ صورت حال مودی گورنمنٹ اور ملک کے لیے ہر گز بہتر ثابت نہیں ہوگی،پورے ملک میں بے چینی، اضطراب پھیل سکتا ہے،حکومت کے بعض فیصلوں اور اقدامات کے نتیجے میں کوئی بڑی احتجاجی تحریک شروع ہوسکتی ہے جو مسٹر مودی سے استعفے اور نئے الیکشن کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
پاکستان کے حوالے سے منفی خواب دیکھنے والے آنے والے سال میں خود اپنے عذابوں میں مبتلا ہوں گے،اس وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے دوستی اور قربت بھی کسی کام نہیں آئے گی لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ بی جے پی گورنمنٹ رہے یا نہ رہے مگر بھارتی مذہبی جنون برقرار رہے گا کیوں کہ قمر کا دور اکبرجاری ہے اور اس دور اکبر میں راہو کا دور اصغر فعال ہے جو کشمیر اور افغانستان میں جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے مقصد براری کا رجحان لائے گا، راہو کے دور میں جو کامیابیاں ملتی ہیں وہ اکثر بعد میں نئی مصیبتوں کا دروازہ کھولتی ہیں۔
آئندہ سال 11 اگست 2018 ءسے مشتری کا دور اصغر شروع ہوگا جو 11 دسمبر 2019 ءتک جاری رہے گا،یہی دور انڈیا کے لیے خطرناک ترین ثابت ہوسکتا ہے،انڈیا کی معیشت اور دیگر ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوگی، مذہبی جنون اس دور میں اپنی انتہا پر پہنچ جائے گا جس کے نتیجے میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد مذہبی جنونیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں گے، ایسا معلوم ہوگا کہ جیسے اشوک دی گریٹ کا ابتدائی دور دوبارہ لوٹ آیا ہے،اس کے نتیجے میں اگر مسلمان، عیسائی اور سکھ کوئی بڑی احتجاجی تحریک شروع کریں تو تعجب کی بات نہیں ہوگی،اسی دور میں پاکستان سے کسی بڑی جنگ کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،خاص طور سے اکتوبر 2018 ءاس حوالے سے خاصا خطرناک مہینہ ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ سیارہ مشتری برج عقرب میں داخل ہوگا تو دونوں ملکوں کے پہلے ، تیسرے، ساتویں اور گیارھویں گھر کو متاثر کرے گا، دونوں طرف سے کشیدگی عروج پر ہوگی چوں کہ مشتری اپنی نارمل چال پر ہوگا لہٰذا ممکن ہے بات سرحدی جھڑپوں سے آگے نہ جاسکے۔
بہر حال مشتری کا دور انڈیا کو ایک بار پھر ناکامیوں اور پستی کی طرف لے جاسکتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ مذہبی شدت پسندی ہوگی، شدت پسندی خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو، بہر حال تباہ کن ہوتی ہے، بی جے پی گورنمنٹ کا آغاز تقریباً ایسا ہی ہے جیسا پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی حکمرانی کا آغاز تھا۔

ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

دگرگوں ہے جہاں ، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

2018
 امریکا، چین، اسرائیل اور ایران کے لیے نئے چیلنج
گزشتہ ہفتے آنے والے سال 2018 کے حوالے سے علم فلکیات کی روشنی میں امکانات اور رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نیا سال 2018ءکے بارے میں ہم جو کچھ محسوس کر رہے ہیں وہ مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں کامیاب رہے، بہت سی باتیں ناگفتنی ہوتی ہیں اور بہت کچھ سمجھنے اور پھر اسے بیان کرنے میں دشواریاں بھی پیش آتی ہیں، پورے ایک سال کے 12 مہینوں پر نہایت باریک بینی سے تفصیلی نظر ڈالنا اکثر ممکن نہیں ہوتا، سال بھر کی سیاروی گردش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ بنیادی اثرات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے،اس حوالے سے آنے والا سال ہمیں نہایت اختلافی، فتنہ پرور اور شر انگیز نظر آتا ہے،باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سال کے حقیقی ثمرات کیا ہوں گے؟
اپنے گزشتہ ہفتے کے سالانہ مضمون میں ہم نے خصوصی طور پر زائچہ ءپاکستان کو موضوع بنایا اور زیادہ گفتگو پاکستان کے حوالے سے ہی ہوئی، جب کہ بیرونی عناصر اور عوامل کو بھی مدنظر رکھنا ضرور ہوتا ہے،دنیا کس طرف جارہی ہے؟ دیگر ممالک آج کس مقام پر کھڑے ہیں اور ان کے اپنے اہداف کیا ہیں؟مزید یہ کہ دیگر ممالک کے سربراہان مملکت کون لوگ ہیں اور اپنے مزاج اور فطرت میں کیسی اچھی یا بری خصوصیات کے حامل ہیں، اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے،ہم بہت پہلے اپنے ایک مضمون میں یہ حوالہ دے چکے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ جب شروع ہوئی تو بین الاقوامی ماحول کیا تھا اور کس قسم کے لوگ اس ماحول میں طاقت ور کردار ادا کر رہے تھے،بعد میں ثابت ہوا کہ جنگ کی آگ بھڑکانے والے ہٹلرمسولینی منفی سوچ اور انتہا پسندانہ فطرت کے حامل تھے۔
گزشتہ سال جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ الیکشن میں کامیاب ہوئے اور ہم نے ان کا زائچہ پیش کیا تو اس وقت بھی اس حقیقت کی نشان دہی کی تھی کہ وہ ایک منفی سوچ رکھنے والے انتہا پسند ہیں،ساتھ ہی دیگر ملکوں کے بعض سربراہان کے حوالے سے بھی نشان دہی کی تھی جن میں بھارت کے نریندر مودی، مصر کے عبدالفتح السیسی، شام کے بشار الاسد، کوریا کے کم جون اُن وغیرہ شامل ہیں۔
اسی تناظر میں ان ملکوں کے زائچوں پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے جو آنے والے سالوں میں تیسری عالمی جنگ کے آغاز میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،ایسے ملکوں میں ہماری تحقیق کے مطابق سرفہرست امریکا ، چین، اسرائیل، جاپان، ایران، شام، یمن، پاکستان، بھارت، مصر وغیرہ نمایاں ہوں گے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں سے اکثر ملکوں کا پیدائشی برج سرطان، جدی یا ثور ہے اور 2019 میں خطرناک نوعیت کی سیاروی پوزیشن ان ہی تین برجوں پر اثر انداز ہوگی،فی الحال زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے،انشاءاللہ آئندہ اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوگی۔
امریکی زائچے کا منظر نامہ
عزیزان من! جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بین الاقوامی منظر نامے میں امریکا بہادر کو دنیا کا چوہدری بننے کا خبط ہے اور اس کی وجہ اس کی مضبوط معاشی پوزیشن اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی ہے،مزید یہ کہ ہم نے امریکی زائچے کی روشنی میں عرض کیا تھا کہ امریکی قوم کی فطرت جنگ جویانہ ہے،دنیا میں جہاں جہاں بھی فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے،وہاں کسی نہ کسی حوالے سے امریکا کی موجودگی بھی ضروری ہے،جنوبی ایشیا میں چین سے امریکی محاذ آرائی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، کہا جاتا ہے کہ بھارت سے امریکا کے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کے پیچھے بھی چین دشمنی سرفہرست ہے،دوسری طرف چین کے ”برخوردار“ شمالی کوریا کا کردار امریکا یعنی مسٹر ٹرمپ کے لیے ناقابل برداشت ہوتا چلا جارہا ہے،شمالی کوریا کے سربراہ کم جون اُن ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی بہت آگے کی چیز ہیں، ان کے لیے اگر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے تو بھارت کے نریندر مودی اور مصر کے جنرل السیسی ہیں کیوں کہ تینوں افراد کا پیدائشی برج عقرب ہے، مسٹر ٹرمپ کا پیدائشی برج اسد ہے اور اسدی افراد کی انا بہت بلند ہوتی ہے،وہ صرف فرماں برداری اور انکساری پسند کرتے ہیں، یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے سامنے کوئی سر اٹھائے، سرکشی کا مظاہرہ کرے،عقربی کِم جون نہایت خاموشی سے اپنا زہریلا ڈنک استعمال کرکے مسٹر ٹرمپ کو بے چین و بے آرام کرتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اکثر امریکی شیر کی دھاڑ سنائی دیتی رہتی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں شیر کی قوت برداشت جواب دینے والی ہے۔
دسمبر سے امریکی زائچے کے مطابق ایک سخت وقت کا آغاز ہورہا ہے جو نہ صرف امریکا کے لیے بلکہ امریکی صدر کے لیے بھی نئے مسائل اور نئے چیلنج سامنے لائے گا جس کا آغاز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی صدر نے کردیا ہے، زائچے میں سیارہ مشتری کی پوزیشن اور راہو کیتو کی پوزیشن آئندہ سال تقریباً مارچ تک بہت اہم نظر آتی ہے،امریکا کو مختلف محاذوں پر غیر معمولی مخالفت اور دباو ¿ کا سامنا ہوگا، ممکن ہے دنیا بھر میں رائے عامہ بہت زیادہ امریکا کے خلاف ہوجائے خصوصاً عالم اسلام یروشلم کا اسرائیلی دارالحکومت ہونا کسی طور بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہو،یہ صورت حال امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کے لیے بھی پریشان کن ہوگی،امریکی معیشت کو بھی کوئی بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے،اس دوران میں کیے گئے سخت فیصلے بعد میں امریکا کے گلے پڑسکتے ہیں اور امریکی زائچے کی آئندہ چند ماہ کے دوران میں پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکا خاصے جارحانہ موڈ میں ہوگا، ایسے فیصلوں میں شمالی کوریا کے خلاف کارروائی ، مڈل ایسٹ میں غیر معمولی نوعیت کی مداخلت اور اسرائیل نوازی، افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے مسٹر ٹرمپ کی پالیسیوں کے مطابق کوئی بڑی کارروائی کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ اک دم نہیں ہوتا
یہ مشہور شعر ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے،ملکوں اور قوموں پر اچھے یا برے وقت اچانک ہی نمودار نہیں ہوتے،ان کے پیچھے مختلف حالات و واقعات کی کڑیاں باہم ایک دوسرے سے جڑتی چلی جارہی ہوتی ہیں، ہمارے خیال سے دسمبر سے مارچ تک کا وقت امریکا کے لیے درحقیقت نئی الجھنیں ، نئے تنازعات اور نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے،ایسے وقتوں میں تدبر اور تحمل کے ساتھ قوم کی رہنمائی ضروری ہوتی ہے اور یہی کام مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نہیں جانتے، حالاں کہ ان کے اقدام اور فیصلے خود امریکا میں بھی متنازع خیال کیے جارہے ہیں اور آنے والے دنوں میں امریکی دانش ور انہیں مزید تنقید کا نشانہ بنائیں گے،اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنے بعض اقدام اور فیصلوں کے نتیجے میں اپنی رہی سہی مقبولیت بھی کھو بیٹھیں اور ان کے خلاف امریکی کانگریس یا عدلیہ بعض سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوجائے۔
عوامی جمہوریہ چین
چین پاکستان کے گہرے دوستوں میں شامل ہے اور ایک بڑے عظیم الشان منصوبے پر کام کا آغاز کرچکا ہے جسے سی پیک کا نام دیا جارہا ہے، امریکا ، بھارت اور ان کے اتحادی اس منصوبے کے خلاف ہیں، کچھ عرصہ پہلے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بڑے تصادم کا خطرہ نظر آنے لگا تھا لیکن چینی قیادت نے دانش مندی اور تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن ایک بار پھر چین کے زائچے میں ایسے اثرات کی نشان دہی ہورہی ہے جس کے نتیجے میں امریکا اور بھارت سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا، دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا کا پیدائشی برج سرطان ہے اور چین کا جدی، یہ دونوں برج ایک دوسرے کے مقابل ہیں لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا اور چین کے درمیان کبھی بھی خوش گوار اور دوستانہ تعلقات نہیں رہے،حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ زبردست تجارتی روابط و تعلقات رکھتے ہیں لیکن دونوں کے سیاسی نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور دونوں ہی ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، چین کے زائچے میں بھی ایسے وقت کا آغاز ہوچکا ہے جو اس کے لیے مستقبل میں بڑے چیلنج لاسکتا ہے،یہ چیلنج اندرونی طور پر بھی پریشان کن ہوں گے اور بیرونی طور پر بھی،اندرونی طور پر موجودہ گورنمنٹ کو باہمی اختلافات اور سیاسی خلفشار کا سامنا ہوسکتا ہے جب کہ بیرونی طور پر امریکی اقدامات اور فیصلے پریشان کن ہوں گے، اچھی بات یہ ہے کہ چینی قیادت اپنے ملک اور قوم سے مخلص ہے اور محب وطن ہے،ملک کی معیشت بہترین پوزیشن میں ہے لہٰذا آنے والے چیلنج اس کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ نہیں بنیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران
امریکا کی طرح ایران کا برتھ سائن بھی برج سرطان ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تازہ ایرانی زائچے کی روشنی میں امریکا سے ملتے جلتے چیلنجز ایران کو بھی درپیش ہیں، راہو کیتو ایران کے زائچے میں پہلے اور ساتویں گھر میں نہایت حساس درجات کے قریب ہیں اور یہ صورت حال گزشتہ نومبر سے جاری ہے،سیارہ مشتری بھی چوتھے گھر سے گزر رہا ہے جس کی آٹھویں گھر میں موجود زہرہ اور کیتو سے نظر حادثات و سانحات کی نشان دہی کرتی ہے،نومبر میں آنے والا زلزلہ بھی اسی سیاروی پوزیشن کا شاخسانہ ہے،ایران کے زائچے میں راہو کے دور اکبر میں مشتری ہی کا دور اصغر جاری ہے جو اختلافات ، تنازعات میں شدت لاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایران گزشتہ سال جولائی کے بعد سے مسلسل تنازعات کا شکار ہے، امریکا سے تعلقات میں بھی مسٹر ٹرمپ کے آنے کے بعد دوبارہ اختلافات پیدا ہوگئے ہیں، ایران کے لیے بھی آئندہ سال مارچ تک کا وقت نت نئے چیلنجز کی نشان دہی کر رہا ہے، مزید یہ کہ مڈل ایسٹ کی صورت حال میں ایران ایسے فیصلے اور اقدام کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عربیہ میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے اور اس کے اتحادی عرب ممالک ایران پر برہمی کا اظہار کرسکتے ہیں،اسرائیل کے حوالے سے بھی ایران کی طرف سے سخت رویہ اور فیصلے سامنے آسکتے ہیں۔
اسرائیل
اسرائیل کا برتھ سائن 20 درجہ 56 دقیقہ جدی ہے،سیارہ مشتری زائچے کے دسویں گھر سے گزر رہا ہے جو زائچے کا فعلی منحوس سیارہ ہے،دوسرا سب سے زیادہ منحوس سیارہ شمس ہے،یہ بھی 15 نومبر تک دسویں گھر میں رہا جس کا تعلق وزیراعظم اور اس کی کابینہ سے ہے اور ملک کے عزت و وقار سے ہے،گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات لگے،اسرائیل یروشلم کو دارالحکومت بنانا چاہتا تھا اور امریکا خصوصاً مسٹر ٹرمپ نے اس حوالے سے اسرائیل کی مدد کی،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے،اگر ایک طرف اسرائیل میں اس واقعے کے بعد جشن کا سماں ہے تو دوسری طرف عالم اسلام کے لیے اس سے بڑا سوگ کوئی اور نہیں ہے،کچھ عرصہ پہلے ہی امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو نسلاً کٹّر یہودی ہیں، یہ پیش گوئی کرچکے ہیں کہ اسرائیل تمام عرب ممالک پر قبضہ کرلے گا اور زبردست قتل و غارت کے بعد عربوں کا نام و نشان تک مٹادیا جائے گا، ہنری کسنجر کہتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ قریب ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے،وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں نہیں معلوم مسٹر کسنجر کی یہ پیش گوئی کس بنیاد پر ہے؟ان کا تعلق صیہونی تنظیم فری میسن سے ہے جو برس ہا برس سے ایسے ہی خواب دیکھ رہی ہے،اسلام دشمنی ان کے خمیر میں شامل ہے،اسی طرح احسان فروشی بھی یہودیت کا طرئہ امتیاز ہے،وہ بھول گئے کہ جب اسپین سے انہیں نکالا گیا تھا اور وہ دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہورہے تھے تو ترکوں نے انہیں پناہ دی،سلطان سلیمان ذیشان نے استنبول کے دروازے ان پر کھول دیے حالاں کہ یہ پھر بھی سلاطین ترکیہ کے خلاف سازشوں میں پیش پیش رہے،بہر حال قبر میں پاو ¿ں لٹکائے مسٹر ہنری کسنجر کا یہ خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا۔
اسرائیل کا برتھ سائن جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ برج جدی تقریباً 21 درجہ ہے، اس زائچے میں فعلی منحوس سیارہ مشتری اور شمس ہےں، مشتری آئندہ سال اکتوبر تک زائچے کے دسویں گھر میں رہے گا اور بالکل اسی طرح کیتو سے جنوری تا مارچ قران کرے گا جیسے امریکا کے زائچے میں چوتھے گھر میں کیتو سے قران کر رہا ہے،مزید یہ کہ راہو کیتو بھی اسی طرح زائچے کو متاثر کریں گے جیسے امریکی زائچے کو متاثر کر رہے ہیں،مزید طرفہ تماشا یہ ہے کہ زائچے میں راہو کا دور اکبر جاری ہے اور دور اصغر بھی راہو کا ہے،راہو بے شک ورگوتم ہے لیکن کمزور ہے، ہم یہاں ایسٹرولوجیکل اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے مختصراً یہ عرض کریں گے کہ اسرائیل کے زائچے کی پوزیشن آئندہ سال مارچ تک اتنی اچھی نہیں ہے جیسا کہ مسٹر کسنجر خواب دیکھ رہے ہیں، مزید یہ کہ 26 جنوری 2019 سے زائچے میں مشتری کا سب پیریڈ شروع ہوگا اور اگر عالمی جنگ 2019 میں ہونا ہے تو اس جنگ میں اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصانات ، تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، فی الحال ہم اس موضوع پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے کہ عربوں کا مستقبل کیا ہے؟ صرف اتنا عرض کریں گے کہ اسرائیل کا مستقبل 2019 سے 2020 تک تاریک نظر آتا ہے، واضح رہے کہ جنگ کوئی اچھی چیز بہر حال نہیں ہے اور اسرائیل کو امریکا ، برطانیہ اور دیگر اسرائیل نواز ممالک کی سپورٹ حاصل رہے گی لیکن خود اسرائیل کے زائچے کی پوزیشن ہر گز ایسی نہیں ہوگی جو اسے ایک فاتح کی حیثیت سے عربوں پر برتری دلاسکے، انشاءاللہ عرب ممالک اور دیگر اہم ملکوں کے زائچوں پر بھی آئندہ تجزیاتی نظر ڈالی جائے گی۔

پیر، 4 دسمبر، 2017

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

پاکستان 2018 ءکے امکانات ، پاکستان کس طرف جارہا ہے؟

2017 ءکو ہم نے تبدیلی کا سال قرار دیا تھا اور عرض کیا تھا کہ یہ ایک نئے آغاز کا سال نظر آتا ہے جس میں نئے انتخابات کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،28 جولائی کو سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر ان کی حکومت ختم کردی، اگرچہ ن لیگ کی حکومت کو برقرار رکھا گیا اور اسمبلی نے نئے وزیراعظم کا انتخاب کرلیا ہے مگر حقیقتاً موجودہ حکومت ایسی بحرانی صورت حال سے دوچار ہے کہ نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے،تحریک لبیک کے دھرنے اور اس کے سامنے حکومت کی ناکامی نے صورت حال کو مزید واضح کردیا ہے کہ اب نئے انتخابات انتہائی ضروری ہوچکے ہیں۔
 سال 2018 ءکو گزشتہ سال 2017 ءکا تسلسل کہا جاسکتا ہے، اس سال تبدیلی اور ایک نئے آغاز کی جو لہر شروع ہوئی ہے وہ امکان ہے کہ 2018 ءمیں بھی جاری رہے گی، گویا پاکستان کا نیا سال جو 14ا گست سے شروع ہوتا ہے، دھلائی، صفائی اور پاکستان دشمن قوتوں سے لڑائی کا سال ہے۔
اصولی طور پر 2018 ءکو الیکشن کا سال قرار دیا گیا تھا کیوں کہ اس سال ن لیگ حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے لیکن نئے سال میں سیارگان کی نشست و برخاست ظاہر کر رہی ہے کہ بعض وجوہات کی بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں یا ان میں کچھ زیادہ تاخیر ہوسکتی ہے، ان وجوہات میں ملک کے انتخابی نظام کی اصلاح و درستگی سرفہرست ہوگی اور یہ جب ہی ممکن ہوسکے گا کہ ایک عبوری حکومت تین ماہ سے زیادہ عرصہ قائم رہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ 2017 ء ایک نئے آغاز اور تبدیلی کا سال ہے، ایسا ہی ہوا،پہلی مرتبہ ملک کی برسراقتدار اور طاقت ور سیاسی جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان کے خلاف عدالت عالیہ نے فیصلہ دیا اور کہا کہ وہ صادق و امین نہیں ہیں، ان کی فیملی کے اکثر افراد کے خلاف نیب کورٹ مین ریفرنسز دائر کیے گئے اور اب انہیں عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہے،اس سال بہت سے کام ایسے ہوئے جو اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے جیسا کہ عدالت کی طرف سے جے آئی ٹی تشکیل دینا،آئینی ترامیم کا متنازع ہونا اور اس کے نتیجے میں وزیرقانون کا استعفیٰ وغیرہ، تبدیلی کا عمل جاری ہے،سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی آنے والی تبدیلیوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ شاید اس ملک کی سیاست اور طرز حکومت ایک نیا رُخ اختیار کرنے جارہی ہے، سال 2018 ءایک غیر معمولی سال ہے جس میں ایسی تبدیلیوں کے اشارے مل رہے ہیں جو موجودہ پورے نظام کو ایک نیا رنگ دےنے کا باعث ہوسکتی ہیں،اس سال موجودہ آئین کے بارے میں بھی بہت سے سوال اُٹھ سکتے ہیں اور نئی آئین سازی یا موجودہ آئین میں مزید ترامیم کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے زائچے میں مشتری کے دور اکبر میں زہرہ کا دور اصغر جون 2019 ءتک جاری رہے گا اور اس دور میں عدلیہ اور فوج کی فعالیت بھی جاری رہے گی، نئے فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کئی بار نہایت لطیف پیرائے میں اپنے اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، اب تک فوج نے سیاست میں مداخلت نہیں کی، یہ بات پاکستان کے اکثر معتبر و غیر جانب دار صحافی حلقے بھی کہہ رہے ہیں، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف خاصے نرم طبیعت انسان تھے لیکن سیاست کے ساتھ جرم کو وہ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، شاید یہی پالیسی موجودہ جنرل باجوہ کی بھی ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ عدالتوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے اور پورا تحفظ فراہم کیا جائے، ہماری سیاسی اشرافیہ اسے بھی اسٹیبلشمنٹ کی سازش سمجھتی ہے، اکثر صحافتی حلقوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے مگر ہمارا مو ¿قف یہی ہے کہ سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور قدرت اپنی چال چل رہی ہے جس نے جو بویا ہے، وہی اسے کاٹنا ہے، قانون مکافات عمل ایک اٹل حقیقت ہے، برسوں پہلے سلیم احمد نے کہا تھا

تو منکر قانونِ مکافاتِ عمل تھا
لے دیکھ تِرا عرصہ ءمحشر بھی یہیں ہے
زائچہ ءپاکستان اور 2018 ئ


 زائچہ ءپاکستان میں طالع پیدائش برج ثور ہے اور اس زائچے کے مطابق زہرہ مشتری اور مریخ کے علاوہ راہو کیتو فعلی منحوس اثر رکھنے والے سیارے ہیں، پاکستان 11 دسمبر 2008 ءسے سیارہ مشتری کے دور اکبر سے گزر رہا ہے،مشتری زائچے کے آٹھویں گھر کا حاکم ہوکر زائچے کا سب سے زیادہ نقصان دہ اور نحس سیارہ بن گیا ہے،اگر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد سے پاکستان مستقل کسی نہ کسی مصیبت یا پریشانی کا شکار ہے، اسامہ بن لادن کی پاکستان سے برآمدگی ، بجلی، پیٹرول اور دیگر نوعیت کے بحران ، مہنگائی کا طوفان، عام آدمی پریشان، بے شک مشتری کا دور خاصا طویل ہے، اللہ پاکستان پر اور پاکستان کے عوام پر رحم فرمائے۔
اکتوبر 2016 ءسے مشتری کے دور اکبر میں زہرہ کا دور اصغر شروع ہوا، زہرہ چھٹے گھر کا حاکم ہوکر دوسرا فعلی منحوس ہے، اختلافات، تنازعات، جنگ، بیماریاں، اس گھر کی شناخت ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کی ابتدا کے بعد ہی پاناما کیس عدالت تک پہنچا اور پھر 2017 ءکا پورا سال اسی کیس کی نذر ہوگیا، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، اس دوران میں اختلاف رائے اور تنازعات کا بھی ایسا بازار گرم رہا ہے جس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حلقے تو بہر حال کسی نہ کسی مسئلے میں ایک دوسرے سے اختلاف رائے کرتے ہی رہتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں میں بھی اختلافات اور تنازعات شدید رہے خصوصاً تحریک انصاف اور ن لیگ مسلسل برسرپیکار نظر آئیں، زہرہ کا دور اصغر ابھی جاری ہے اور جون 2019 ءتک جاری رہے گا، اس دور میں مزید اختلافات اور تنازعات پیدا ہوں گے جن کے منفی پہلوو ¿ں سے قطع نظر مثبت پہلو بھی قابل غور ہیں یعنی باہمی اختلاف رائے اور تنازعات کے نتیجے میں بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں اور ہوں گے، ان کی اصلیت خاصی حد تک عوام کے سامنے آچکی ہے اور مزید آئے گی۔
سیارہ مشتری پاکستان کے زائچے کا سب سے زیادہ خطرناک اثر ڈالنے والا سیارہ ہے، یہ اب ویدک سسٹم کے مطابق برج میزان میں داخل ہوچکا ہے اور تقریباً پورا سال زائچے کے چھٹے گھر میں حرکت کرے گا جس کا تعلق وہی اختلافات و تنازعات، جنگ، الیکشن جیسے معاملات سے ہے، یکم دسمبر 2017 سے ہی زائچے کا دوسرا منحوس یعنی بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ بھی چھٹے گھر میں حرکت کر رہا ہے اور دونوں باہمی قران کی جانب بڑھ رہے ہیں، دو منحوسوں کا چھٹے گھر میں قران سول اور ملٹری سروسز کی ذمہ داریوں میں اضافے کرتا ہے اور انہیں مزید فعال بناتا ہے، مزید اس بات کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ بے حد سخت فیصلے اور اقدام سامنے آسکتے ہیں، گویا نئے سال کی ابتدا بہت خوش گوار نظر نہیں آتی، نومبر میں فیض آباد دھرنا حکومت کے گلے پڑگیا اور ابھی اس حوالے سے صورت حال مکمل طور پر صاف نہیں ہوسکی ہے،لاہور میں ایک دوسرا گروپ اپنا دھرنا جاری رکھنے پر بضد ہے،دسمبر میں صورت حال مزید خراب ہوتی نظر آتی ہے،حکومت بے بسی کا نمونہ بنی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی کوئی نیا سیٹ اپ سامنے آسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی نشان دہی کرچکے ہیں کہ دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اب آئندہ ڈھائی سال تک زائچے کے آٹھویں گھر میں قیام کرے گا، گویا یہ صورت حال ملک کے سربراہ ، کابینہ اور ملک کے عزت و وقار کے لیے خوش آئند نہیں ہے،گزشتہ سالوں میں ہماری سیاسی اشرافیہ نے جمہوری تماشے کے نام پر جو بویا ہے ، اس نے ہمیں دنیا میں بہت رسوا کیا ہے،انڈیا کے بعد اب امریکا اور دیگر ممالک بھی ہم پر مختلف الزامات لگارہے ہیں، حالاں کہ ہم نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔
جنوری میں سیارہ زحل کے علاوہ عطارد، شمس اور زہرہ بھی زائچے کے آٹھویں گھر میں ہوں گے لہٰذا جنوری کا مہینہ پاکستان کے لیے ایک مشکل مہینہ ثابت ہوسکتا ہے۔
زائچہ ءپاکستان میں پانچویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد زائچے کے ساتویں گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے لیکن راہو کیتو کی نئی پوزیشن اس حوالے سے خاصی معنی خیز ہے، راہو زائچے کے تیسرے گھر میں رہتے ہوئے پیدائشی عطارد سے گزشتہ سال ہی سے ناظر ہے جس کی ایک جھلک 25 نومبر کو سامنے آئی تھی ، تمام ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور یوٹیوب وغیرہ بند کردیے گئے تھے، یہ اسی زاویے کا کمال تھا، راہو کی نظر عطارد پر خاصے لمبے عرصے تک اثر انداز رہے گی جس کے نتیجے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر دباو ¿ بھی آئے گا اور اس کی کارکردگی بھی اطمینان بخش نہیں رہے گی لیکن موقع ملنے پر میڈیا منفی کردار ادا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے گا لہٰذا اس پر پابندیاں اور قدغن لگ سکتے ہیں۔
بے شک پہلے بھی ایسے قوانین یا آرڈیننس لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کسی طرح میڈیا پر قابو پایا جائے مگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا، سال 2018 ءکے آغاز سے ہی میڈیا اپنا طاقت ور کردار ادا کرتا نظر آتا ہے جو مثبت کم ہے اور منفی زیادہ۔میڈیا میں جو گروپ بندی ہوچکی ہے یہ 2018 ءمیں مزید محاذ آرائی کا سبب بنے گی اور اس کا نتیجہ آگے چل کر پاکستانی میڈیا کی رسوائی اور ذلت کا سبب ہوگا۔
چوں کہ عطارد زائچے کے پانچویں گھر کی مول ترکون کا حاکم ہے جس کا تعلق انٹرٹینمنٹ، شعور، انعامی اسکیموں، اعلیٰ تعلیم اور بچوں کے معاملات سے ہے لہٰذا راہو کی نظر ان معاملات پر بھی اثر انداز ہوگی، شوبزنس میں بہت سی حدود قیود ٹوٹ سکتی ہیں، فلم اور ڈراموں میں نئے اور انوکھے تجربات کیے جاسکتے ہیں، دیگر انٹرٹینمنٹ کے معاملات، جوئے، سٹے وغیرہ سے متعلق معاملات میں بھی تیزی آسکتی ہے،یہ شعبے بے لگام ہوسکتے ہیں، تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ پرائیویٹ اسکولوں نے جاری رکھا ہوا ہے،اس میں بھی اضافہ ہوگا، اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیز کا ماحول مزید خراب ہوسکتا ہے،2018 ءکی ابتدا میں یعنی پہلے 6 ماہ میں طلبہ میں سیاسی رجحان بڑھ جائے گا، اسٹوڈنٹس یونینز فعال ہوسکتی ہیں۔
مجموعی طور پر جنوری کے مہینے سے بہت ذیادہ مثبت توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔
فروری
فروری میں کثرت سیارگان زائچے کے نویں گھر میں ہوگی لہٰذا اس مہینے کو مثبت ترقیاتی سرگرمیوں کا مہینہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ساتھ ہی منفی پہلو بھی نمایاں رہیں گے خصوصاً نئی قانون سازی مثبت سوچ کے بجائے اور عوامی بھلائی کو نظر انداز کرکے ذاتی مفادات کے تحت ہوگی،مستقبل کی نئی منصوبہ بندی، آئینی اور قانونی معاملات پر توجہ، خارجہ پالیسی میں مثبت پیش رفت،سینٹ الیکشن کے سلسلے میں سرگرمیاں اس مہینے کا خاصہ ہوں گی، زائچہ ءپاکستان کے نویں گھر میں پیدائشی طور پر راہو، قمر اور زہرہ موجود ہیں لہٰذا ٹرانزٹ پوزیشن میں جب عطارد، شمس ، زہرہ اور کیتو اس گھر پر اثرات ڈالیں گے تو آئینی اور قانونی معاملات میں نئی ترامیم کا چرچا ہوگا،آئندہ انتخابات کے حوالے سے آئین ساز اسمبلی اور نئی آئین سازی کا شوشا سامنے آسکتا ہے، حکومت چاہے گی کہ آئین میں اپنی ضرورتوں اور مفادات کے مطابق مزید ترامیم کرے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوگا، بے لگام میڈیا اور مقتدر حلقے اس کوشش میں حارج ہوں گے،اس بات کا امکان موجود ہے کہ فروری سے آئینی اور قانونی حوالوں سے نت نئے مباحثے شروع ہوجائیں، اسی مہینے میں خارجہ پالیسی کے نئے رُخ بھی سامنے آئیں گے اور وفاقی سطح پر بیوروکریسی میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔

مارچ، اپریل

مارچ سینیٹ کے الیکشن کا مہینہ ہے جس کے لیے تیاریاں فروری ہی سے شروع ہوجاتی ہیں، اس مہینے میں سیارہ مریخ زائچہ ءپاکستان میں آٹھویں گھر میں داخل ہوگا اور فوری طور پر پیدائشی مریخ اور گیارھویں گھر کو متاثر کرے گا ، ساتھ ہی دوسرے یا تیسرے گھر بھی اس کی زد میں آئیں گے، جس کے نتیجے میں سینٹ کے الیکشن میں بھی التوا کا خدشہ موجود ہے اور اسمبلیوں کے لیے بھی خطرات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے، اگر الیکشن ہوئے تو حسب معمول دولت کا بے تحاشا استعمال یقینی ہے لیکن اس کے علاوہ غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی، مریخ کی یہاں موجودگی اس بار کچھ نئے گُل کھلائے گی، بعض معززین اور صاحب عہدہ و مرتبہ افراد کی پگڑیاں اچھلیں گی اور وہ ذلت کا سامنا کریں گے، اس مہینے میں معاشی صورت حال خاصی خراب ہوسکتی ہے، بعض حادثات و سانحات کا بھی خطرہ موجود ہے، کوئی اہم صاحب حیثیت شخصیت کسی حادثے یا سانحے کا شکار ہوسکتی ہے۔
اپریل کا مہینہ سیاسی طور پر خاصا پرجوش اور ہنگامہ خیز ہوسکتا ہے کیوں کہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد کی صورت حال ایک نیا رُخ سامنے لائے گی، اسی مہینے میں آئینی ترامیم کے لیے کوششیں تیز ہوں گی لیکن زہرہ کا دور اصغر ان کوششوں کے بارآور ہونے میں رکاوٹ ثابت ہوگا، باہمی تنازعات و اختلافات حسب معمول جاری رہیں گے، حکومت اور حقیقی اپوزیشن تحریک انصاف کے درمیان بھی رسا کشی ہوتی رہے گی،اپریل میں مریخ اور زحل کا آٹھویں گھر میں قران کسی بڑے قومی سانحے یا کسی صاحب عہدہ و مرتبہ کی موت کا اندیشہ ظاہر کرتا ہے۔

مئی

مئی کی ابتدا ہی میں بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ نویں گھر میں داخل ہوگا اور فوری طور پر نویں ، بارھویں، تیسرے اور چوتھے گھر سے ناظر ہوگا، یہ نظر نئے آئینی اور قانونی پنڈورا باکس کھولے گی، بہت سے گڑھے مردے اکھڑےں گے، اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ مئی کے مہینے میں شروع ہونے والی سرگرمیاں ایسی صورت حال پیدا کریں گی جن کا اختتام سال کے آخر تک نہ ہوسکے گا، اس اعتبار سے مئی کو ایک ہنگامہ خیز وقت کے آغاز کا مہینہ کہا جاسکتا ہے، اس مہینے تک عدلیہ کے اہم فیصلے بھی متوقع ہوں گے،واضح رہے کہ زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم اور منحوس اثرات کا حامل سیارہ مریخ اپنے شرف کے گھر برج جدی میں داخل ہوگا جو پاکستان کے زائچے کا نواں گھر ہے اور اس گھر میں مریخ کا قیام اس سال خاصا طویل اور غیر معمولی اثرات کا حامل ہے۔

جون

مئی کے بعد جون کا مہینہ بھی خاصا سنسنی خیز نظر آتا ہے کیوں کہ نئی عبوری حکومت اگر اس دوران میں قائم ہوئی تو نئے تنازعات جنم لیں گے اور یہ تنازعات اس قدر بڑھ سکتے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوجائے، میدان سیاست کی دو اہم پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) موجودہ سسٹم کو برقرار رکھنے کے لیے پوری کوشش کریں گی جب کہ تحریک انصاف اسے بدلنے پر زور دے گی جیسا کہ اس کا نعرہ ہے ، یہ محاذ آرائی جب حد سے بڑھے گی تو ایک بار پھر عدلیہ کو درمیان میں آنا پڑے گا۔
2018 ءمیں عدلیہ کا کردار خاصا نمایاں نظر آرہا ہے کیوں کہ سیارہ مریخ سال 2018ءمیں ایک طویل عرصہ زائچہ پاکستان کے نویں گھر میں گزارے گا اور خیال رہے کہ برج جدی سیارہ مریخ کے شرف کا گھر ہے، اس گھر میں پیدائشی زائچے میں چھٹے گھر کا حاکم زہرہ اور تیسرے گھر کا حاکم قمر پہلے سے موجود ہےں، ایک نہایت سنگین صورت حال کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کیوں کہ کیتو بھی اسی گھر میں ٹرانزٹ کرے گا جب کہ سیاست کا ستارہ راہو بھی پیدائشی زائچے میں اسی گھر میں موجود ہے، سال 2018 ءکی یہ سب سے زیادہ اہم اور قابل توجہ صورت حال ہے جس کا آغاز مئی سے ہوگا، 8 جون کو مریخ اور کیتو کا پہلا قران ہوگا جب کہ 20 جولائی کو دوسری بار یہ دونوں قران کریں گے اور پھر تیسری بار 26 ستمبر کو مریخ اور کیتو قران کریں گے۔
بیرونی قوتوں اور ہمارے اہل سیاست کی کارروائیاں اس دوران میں تیز ہوجائیں گی،اہل سیاست کی کوشش ہوگی کہ عدلیہ کو مخصوص حدود و قیود میں رکھا جائے، بیرونی قوتیں اس مرحلے پر کوشش کرسکتی ہیں کہ ملک سے جمہوریت کی بساط لپٹ جائے اور پاکستان ایک غیر جمہوری ملک کہلائے، اس طرح وہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے میں کامیاب ہوسکیں لیکن ان کا یہ خواب انشاءاللہ کبھی پورا نہیں ہوگا،عدلیہ کا کردار اور فیصلے اس سال بہت زیادہ اہمیت اختیار کریں گے اور تنازعات کا سبب بھی بنیں گے۔

دوسری شش ماہی

عزیزان من! موجودہ سال 2017 ءکی طرح آئندہ سال بھی 27 جون سے 12ستمبر تک کا وقت نہایت اہمیت کا حامل اور سنسنی خیز ہوگا کیوں کہ راہو کیتو دوسری بار 11 درجہ برج سرطان و جدی پر اسٹیشنری پوزیشن میں ہوںگے، زائچہ ءپاکستان میں نویں گھر برج جدی میں قمر تقریباً 6 درجہ اور زہرہ تین درجہ جب کہ راہو 12 درجہ قابض ہےں، ٹرانزٹ راہو کیتو 11 درجے پر اسٹیشنری ہوں گے اور اسی دوران میں اسی گھر میں مریخ کو رجعت ہوگی، یہ صورت حال نہایت خطرناک ہے، جمہوریت کے ساتھ آئین و قانون کی بساط بھی لپٹ سکتی ہے اور اس صورت میں الیکشن ایک خواب بن سکتے ہیں، خدا کرے کہ ہمارے اہل سیاست حالات کو ایسے رُخ پر نہ لے جائیں کہ ملک کسی غیر آئینی اقدام کا شکار ہو۔
اگر منفی سوچ کے ساتھ 2018 ءمیں بھی کام لیا گیا تو صورت حال مختلف ہوگی پھر جو خدا دکھائے سو لاچار دیکھیے۔
زائچے کے نویں گھر کی نہایت پیچیدہ اور سنگین سیاروی پوزیشن ہماری خارجہ پالیسی میں بھی کسی نئے یوٹرن کی نشان دہی کرتی ہے، مزید یہ کہ دیگر ممالک سے خصوصاً بھارت، افغانستان، امریکا وغیرہ سے تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم ایک غیر محسوس طریقے سے ایک نئی صف بندی میں شامل ہوجائیں گے،واضح رہے کہ 2018ءدنیا میں ایک نئی صف بندی کا سال ہے،اس سال کا مفرد عدد 2 ہے، دنیا 2 متحارب گروپوں میں تقسیم ہوجائے گی،پاکستان کو کسی ایک گروپ میں شامل ہونا پڑے گا جب کہ 2019 ءمیں تیسری عالمی جنگ کے امکانات بہت واضح ہیں۔
ستمبر 2018ءکے بعد کا پاکستان یقیناً ایک بدلہ ہوا پاکستان ہوگا، ملک نئے انتخابات کی طرف جائے گا یا کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت ایک طویل عرصے کے لیے قائم ہوگی یا پھر ایک اور مارشل لا اس کا مقدر بنے گا، ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے اہل سیاست کے آئندہ رویے اور طرز عمل پر ہے، اگر انہوں نے اب بھی صرف اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات تک خود کو محدود رکھا تو انتخابات اُن سے بہت دور چلے جائیں گے، ایک سخت احتسابی عمل شروع ہوجائے گا، کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ بین الاقوامی قوتیں ہمارے ملک میں جمہوری نظام کو سپورٹ کریں گی اور مارشل لائی نظام کی مخالفت کی جائے گی، امریکا میں ری پبلکن برسراقتدار ہےں اور امریکی صدر مسٹر ٹرمپ ایک بڑی انوکھی شخصیت کے مالک ہیں، ہمارے ملک میں جمہوریت ہو یا مارشل لا، وہ صرف اپنے مفادات کو دیکھیں گے۔
جولائی اگست اور ستمبر کے مہینے ایک بالکل بدلے ہوئے عوامی موڈ کی نشان دہی کرتے ہیں جن میں اہل سیاست سے شدید نفرت و بے زاری اور انتخابات کے بجائے احتساب کا مطالبہ شدید ہوگا، موجودہ آئین سے بھی بے زاری کا کھلا اظہار دیکھنے میں آئے گا اور شاید یہ مطالبہ زور پکڑ جائے کہ آئین کی ازسر نواصلاح کی جائے اور اس سلسلے میں آئندہ الیکشن وہ جب بھی ہوں آئین ساز اسمبلی کے لیے کیے جائیں، ممکن ہے اس حوالے سے کسی ریفرنڈم کا مطالبہ بھی سامنے آئے، اگست کا مہینہ جشن آزادی کا مہینہ ہے لیکن اسی ماہ سے پاکستان کا نیا سال بھی شروع ہوتا ہے اور اسی مہینے سے پاکستان میں تبدیلیوں کی ایک نئی لہر بھی شروع ہوتی ہے جو آنے والے سال اگست تک جاری رہتی ہے،اگر ضروری اصلاحات کرلی گئیں تو نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی بہ صورت دیگر انتخابات کی تاریخ آگے بڑھائی جاسکتی ہے اور یہ تمام معاملات عدلیہ کی زیر نگرانی طے ہوں گے۔
دسمبر 2018 ءسے ایک بار پھر راہو کیتو زائچہ ءپاکستان میں ایسی پوزیشن پر ہوں گے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لاسکتی ہے،اس وقت بھی پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات خاصے پریشان کن ہوسکتے ہیں، گویا سال ختم ہونے سے پہلے ہی ہمیں ایک نئی بین الاقوامی صف بندی کا سامنا ہوگا جس سے الگ رہنا ممکن نظر نہیں آتا، اکتوبر 2018 اس اعتبار سے نہایت اہم مہینہ ہوگا جس میں پڑوسی ممالک سے جنگی محاذ آرائی کا امکان نظر آتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی چھوٹی موٹی سرحدی جھڑپ نہیں ہوگی بلکہ جنگی محاذ خاصا وسیع ہوسکتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سال 2018 ءموجودہ سیاسی اشرافیہ کے لیے تو کسی طور پر بہتر نظر نہیں آتا لیکن پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے یہ ایک بہتر سال ہوگا جس میں زیادہ سے زیادہ زور اصلاح و درستگی پر دیا جائے گا (واللہ اعلم بالصواب)