ہفتہ، 30 جولائی، 2016

سندھ حکومت کی تبدیلی اور نئے وزیر اعلیٰ پر ایک نظر

مراد علی شاہ عالمی انسانیت کے علم بردار، نظریات میں کٹّر اور شدت پسند ہیں
جون کے آخری ہفتوں میں کراچی کے زائچوں پر بات کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا تھا کہ سندھ میں گورنر راج بھی آسکتا ہے،شاید اس خطرے کا احساس پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی ہوگیا ہے لہٰذا ”سائیں سرکار“ کی تبدیلی سے صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے،نئے وزیراعلیٰ کے طور پر سابق وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے ہونہار فرزند ارجمند سید مراد علی شاہ کا انتخاب کیا گیا ہے،وہ اپنی مرضی کی نئی کابینہ تشکیل دیں گے اور سندھ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
 اخباری اطلاعات کے مطابق پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو کے لیے سندھ کی موجودہ حکومت خاصا بڑا مسئلہ بن گئی ہے،وہ ابھی نئے نئے میدان سیاست میں آئے ہیں اور پیپلز پارٹی کی مسلسل گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں،اپنے جلسوں وغیرہ میں خاصے پرجوش اور جارحانہ انداز میں عوام سے خطاب کر رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو ہدف تنقید بنارہے ہیں، ایسی صورت میں سندھ میں سائیں سرکار کی 8 سالہ کارکردگی کا آئینہ بلاول بھٹو کے لیے خاصی شرمندگی اور پریشانی کا باعث ہے، کہا یہ جارہا ہے کہ انہی کی فرمائش پر یہ تبدیلی عمل میں آرہی ہے لیکن بعض باخبر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ پس پردہ ساری کرشمہ سازی بلاول بھٹو کے والد بزرگوار کی ہے،بعض سیاسی مبصرین کا تجزیہ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی موجودہ صورت حال میں ایک آخری جنگ لڑنے کی تیاری کر رہی ہے اور اس جنگ میں اگر وہ ہار بھی جائے تو بازی مات نہیں ہوگی کیوں کہ شہادت ہے مقصود و مطلوبِ پی پی۔
کراچی کے زائچے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم نے مریخ و زحل کے منحوس قران سے پیدا ہونے والے خطرات کی نشان دہی کی تھی جو 24 اگست کو ہورہا ہے اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ زائچے میں مریخ کا دور کراچی کے ایک نئے اسٹیٹس کی نشان دہی کر رہا ہے اور سیارہ مشتری کی زائچے میں نئی پوزیشن بہت سے مثبت فیصلے اور اقدام سامنے لائے گی جو عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کریں گے، ضروری نہیں ہے کہ یہ فیصلے نئی سندھ گورنمنٹ کرے، بہر حال آنے والے مہینوں میں ایسے مثبت فیصلوں کی امید رکھنی چاہیے۔
3 اگست کا نیا چاند کراچی کے زائچے کے پانچویں گھر میں ہوگا، یہ شعوری بیداری کی علامت ہے،اگست میں سیارگان کی اکثریت چھٹے گھر میں ہوگی، چھٹے گھر کا تعلق بیوروکریسی ، پولیس اور دیگر حکومتی مشینری سے ہے لہٰذا خاصی اکھاڑ پچھاڑ کا امکان موجود ہے جو مختلف محکمہ جات میں ہوگی، نہایت اہم معاملہ رینجرز کے اختیارات کا ہے،یہ خوش اسلوبی سے طے ہوتا نظر نہیں آتا ہے، کسی ایک فریق کو اپنے مو ¿قف میں لچک پیدا کرنا ہوگی، مشتری کی بہتر پوزیشن اس مسئلے کو حل کرانے میں مددگار ثابت ہوگی مگر مریخ اور زحل کا قران اختلافات اور تنازعات کے نئے بیچ بو سکتا ہے،اس مرحلے پر نئے وزیراعلیٰ کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا، محترم قائم علی شاہ ایک معمر ، تجربے کار اور جہاں دیدہ انسان تھے، اب تک صورت حال کو کسی نہ کسی طرح سنبھال رہے تھے، نئے وزیر اعلیٰ جواں سال اور جوشیلے ہیں، ان کے سامنے اگرچہ بہت سے چیلنج موجود ہیں مگر سب سے بڑا چیلنج سندھ میں رینجرز کے اختیارات سے متعلق ہیں، امید کرنا چاہیے کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے کوئی بہتر مفاہمت کی صورت نکال لیں گے۔
سید مراد علی شاہ 8 نومبر 1962 ءکو کراچی میں پیدا ہوئے،ان کی تاریخ پیدائش کے مطابق شمسی برج عقرب ہے اور قمری برج حوت ہے، چاند کی منزل پرو بھدر ہے،عقرب اور حوت واٹر سائن ہیں جو بہت حساس اور جذباتی فطرت کی نشان دہی کرتے ہیں، پرو بھدر میں پیدا ہونے والے افراد اگرچہ ذمے دار لیکن تھوڑے سے پیچیدہ ہوتے ہیں،ان کی وجدانی صلاحیتیں زبردست ہوتی ہیں،روحانیت سے گہرا لگاو ¿ رکھتے ہیں لیکن بڑی آسانی سے ذہنی دباو ¿ کا شکار ہوجاتے ہیں،ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اصولوں پر یقین رکھتے ہیں،خداداد قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور دوسروں سے کام لینے کا ہنر جانتے ہیں لہٰذا امید کرنی چاہیے کہ وہ بگڑی ہوئی صورت حال کو سدھارنے کی بھرپور کوشش کریں گے لیکن ایسے لوگ اپنے کام میں دوسروں کی بے جا مداخلت برداشت نہیں کرتے ہیں،چناں چہ سابق وزیر اعلیٰ کی طرح وہ سب کو خوش نہیں رکھ سکیں گے۔
یہ لوگ عالمی انسانیت کے علم بردار ہوتے ہیں،البتہ عقرب اور حوت کا کمبی نیشن مزاج میں شدت اور نظریات میں انتہا پسندی ظاہر کرتا ہے،دعا کرنا چاہیے کہ وہ اپنے نیک مقاصد میں کامیاب و کامران رہیں، کراچی اور سندھ کے مسائل کے ساتھ ہی انہیں اپنی پارٹی میں موجود مسائل سے بھی نمٹنا ہوگا۔
تین مسلسل چاند اور سورج گہن
اس سال کے آخری چاند اور سورج گہن اگست اور ستمبر میں یکے بعد دیگرے لگ رہے ہیں، چاند گہن 18 اگست کو ہوگا اور پاکستان میں نظر نہیں آئے گا لیکن پاکستان کے زائچے میں دسویں گھر میں نہایت حساس پوائنٹ پر ہوگا جس کے نتیجے میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے لیے مسائل و مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے جب کہ کراچی کے زائچے میں بھی اس کی پوزیشن خاصی معنی خیز اور ہنگامہ پرور ہوسکتی ہے۔
جزوی سورج گہن یکم ستمبر کو لگے گا جسے پاکستان میں دیکھا جاسکتا ہے،یہ زائچہ ءپاکستان میں چوتھے گھر میں کراچی کے زائچے میں چھٹے گھر میں ہوگا، پاکستان کی داخلی صورت حال اس گہن سے متاثر ہوگی جب کہ کراچی میں آپریشن کی لہر کو یہ سورج گہن مزید تیز کردے گا اس کے علاوہ کرپٹ بیوروکریسی کے لیے یہ گہن خطرے کی گھنٹی ہوگا۔
تیسرا اور اس سال کا آخری مکمل چاند گہن 17 ستمبر کو برج حوت میں لگے گا جو کراچی کا برج ہے،یہ چاند گہن کراچی اور پاکستان دونوں کے لیے مثبت اثر رکھتا ہے، جس کے نتیجے میں مثبت فیصلے اور اقدام سامنے آسکتے ہیں۔
اعمالِ گہن
حسب روایت چاند اور سورج گہن سے متعلق ضروری عملیات و نقوش انشاءاللہ آئندہ شائع کیے جائیں گے،ہر سال گہن سے پہلے لوگ حروف صوامت کی زکات ادا کرنے کے حوالے سے مختلف نوعیت کے سوالات کرتے ہیں اور زکات ادا کرنے کے لیے اجازت بھی طلب کرتے ہیں، اس سلسلے میں صرف ایک فون یا میسج کو کافی سمجھتے ہیں کہ جناب مجھے زکات کی اجازت دی جائے، یہ طریقہ غلط ہے، ہم جس شخص سے پوری طرح واقف نہ ہوں یعنی کم از کم اُس کی علمیت اور دیگر کوائف پوری طرح ہمارے علم میں نہ ہوں تو اُس کو اس مشکل راستے پر قدم رکھنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟لہٰذا جو لوگ زکات ادا کرنے کا شوق رکھتے ہوں ، انہیں براہ راست ملاقات کرنا چاہیے یا پھر اپنے بارے میں مکمل تفصیلی خط لکھنا چاہیے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اُن کی ذاتی تعلیم اور علم جفر وغیرہ میں دسترس کتنی ہے، یاد رکھیں کہ جو لوگ قواعد عملیات ، علم نجوم کی شُدھ بدھ اور قوانین جفر سے ناواقف ہیں انہیں حروف صوامت کی زکات ادا نہیں کرنی چاہیے، وہ ان کے لیے بے کار ثابت ہوگی بلکہ اُن پر ایک بھاری بوجھ بن جائے گی۔
اکثر لوگوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ کون سے گہن میں زکات ادا کرنا چاہیے، اس سلسلے میں صرف ایسا گہن مو ¿ثر اور پُرتاثیر ہوتا ہے جو آپ کے ملک میں نظر بھی آئے، آئندہ جو گہن لگ رہے ہیں، اُن میں پہلا چاند گہن پاکستان میں نظر نہیں آئے گا البتہ سورج گہن چوں کہ دوپہر میں ہوگا لہٰذا دیکھا جاسکتا ہے مگر یہ جُزوی ہوگا لہٰذا اسے مخصوص دوربین کے ذریعے ہی دیکھا جاسکے گا، اس گہن کے دوران میں زکات ادا کی جاسکتی ہے،تیسرا چاند گہن مکمل ہوگا، حروف صوامت کی زکات کے لیے یہ سب سے مو ¿ثر گہن ہوگا، وہ لوگ جو زکات دینے کے خواہش مند ہوں اور اجازت چاہتے ہوں، اپنے مکمل کوائف سے وقت سے پہلے آگاہ کریں۔

پیر، 25 جولائی، 2016

پاکستان کے زائچے کی روشنی میں تازہ فلکیاتی منظر نامہ

اگست، ستمبر اور اکتوبر، صاحبانِ اقتدار کے لیے مشکل مہینے ہیں
اگست قیام پاکستان کا مہینہ ہے،تاریخِ پاکستان کا مطالعہ کرنے والے اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ پاکستان میں اکثر تبدیلیوں کا آغاز بھی اسی مہینے سے ہوتا ہے،شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پاکستان کا ایک سال اگست کی 15 تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز ہی کسی تبدیلی کی لہر کو جنم دیتا ہے لہٰذا اگست تا اکتوبر اکثر حکومتوں کی تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے،جنرل ایوب خان کا مارشل لاءجس نے پورے ملک کا مزاج بدل کر رکھ دیا، اکتوبر 1958 ءمیں لگا،البتہ جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءاگست سے ایک مہینہ قبل ہی نمودار ہوگیا تھا مگر خود جنرل صاحب کی حکومت کا خاتمہ 17 اگست 1988 ءکو ہوا، اس کے بعد محترمہ بے نظیر وزیراعظم بنیں اور 6 اگست 1990 ءکو ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا، ان کے بعد جناب نواز شریف وزیراعظم بنے، 1993 ءمیں اگرچہ غالباً اپریل میں اسمبلی توڑ دی گئی تھی مگر وہ سپریم کورٹ سے مقدمہ جیت کر واپس آگئے لیکن اسی سال غالباً ستمبر میں انہیں دوبارہ اقتدار چھوڑنا پڑا اور پھر محترمہ دوسری بار وزیراعظم بنیں اور ستمبر 96 ءمیں جناب مرتضیٰ بھٹو کا سانحہ پیش آیا جو دوسری بار محترمہ کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کا باعث ہوا، نواز شریف پھر وزارت اعظمیٰ کے حق دار ٹھہرے،دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 ءکو ان کا تختہ الٹ دیا، خود جنرل پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 ءکو استعفیٰ دیا، گویا اگست سے شروع ہونے والا پاکستان کا نیا سال ہمیشہ ہنگامہ خیز رہا ہے،ابھی دو سال پہلے جناب عمران خان نے اگست ہی میں لانگ مارچ کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان کی سالگرہ یعنی جشن آزادی 14 اگست کو منایا جائے گا، 2016 ءکا سال اپنی ابتدا ہی سے خاصا شور و شرابے کا سال رہا ہے لیکن حکومت اپنی جگہ مستحکم رہی ہے،عوام حال سے بے حال ہوئے ہیں، آپریشن ضرب عضب جاری ہے، کراچی میں رینجرز نے دہشت گردی اور جرائم کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، بے شمار گرفتاریاں اور ہلاکتیں سامنے آئی ہیں، بہت سے مجرموں کو پھانسی کی سزائیں دی گئی ہیں، اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے نئے سال کے پہلے مہینے پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا احتجاجی مسئلہ کرپشن ہے، خصوصاً پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں کرپشن کے خلاف متحد نظر آتی ہیں جن میں تحریک انصاف پیش پیش ہے، باقی جماعتیں بادل ناخواستہ شریک ہیں خصوصاً پیپلز پارٹی اس مہم جوئی میں اپنے کچھ تحفظات رکھتی ہے کیوں کہ اُسے معلوم ہے کہ جب کرپشن پر بات پھیلے گی تو بہت دور تک جائے گی، صرف نواز شریف ہی نہیں ، پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی لپیٹ میں آسکتی ہے۔
رمضان المبارک میں اگرچہ بظاہر یہ معاملہ کچھ ٹھنڈا نظر آیا مگر پیپلز پارٹی نے اس سے کچھ آگے بڑھ کر الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے تاکہ وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا جائے،حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتیں اگرچہ جمہوری حکومتیں ہیں مگر جمہور یعنی عوام ان سے بے زار ہوچکے ہیں کیوں کہ گزشتہ 8 سالہ جمہوری ادوار میں ان کے دکھ اور مصائب میں اضافہ ہی ہوا ہے،انہیں کسی قسم کا ریلیف نہیں مل سکا ہے،اس کے برعکس وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل سیاست نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، سیاست ایک کاروبار بن چکا ہے جس کے ذریعے اہل سیاست ارب، کھرب پتی بنتے جارہے ہیں،ان کی زیرسرپرستی بیوروکریسی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے،بلوچستان کے ایک سیکریٹری خزانہ کے خزانوں کو دیکھ کر عوام کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سندھ کے بعض وزراءاور بیوروکریٹس کی دولت مندی کے افسانے بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں، لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم کدھر جارہے ہیں اور ملک کدھر جارہا ہے؟آئیے زائچہ ءپاکستان پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ اگست تا دسمبر سیارگان کے نیک و بد سے آگاہی ہوسکے۔
ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ ہم موجودہ یعنی نئے پاکستان کا زائچہ 20 دسمبر 1971 ءسہ پہر 14:58:20 pm کے مطابق درست سمجھتے ہیں،اس وقت نئے پاکستان کے پہلے صدر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے حلف اٹھایا تھا، اس زائچے کے مطابق طالع پیدائش 3 درجہ 33 دقیقہ ثور اسلام آباد کے اُفق پر طلوع ہے۔
طالع ثور کے لیے سعد سیارگان عطارد، قمر، شمس اور زحل ہےں جب کہ منحوس سیارگان راہو کیتو کے علاوہ زہرہ، مشتری اور مریخ ہےں، مشتری زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے کیوں کہ آٹھویں گھر کی مول ترکون کا حاکم ہے۔
جولائی کی 15 تاریخ کو بھی زائچے کے ساتویں گھر میں موجود بارھویں گھر کا حاکم مریخ ایسی پوزیشن میں آجائے گا جب وہ زائچے کے پہلے، دوسرے، ساتویں اور دسویں گھر کو متاثر کرے گا، مریخ چوں کہ بارھویں گھر کا حاکم ہے لہٰذا نقصانات ، خوف اور عدم اطمینان کی فضا پیدا کرے گا، گویا جولائی سے ہی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی شدید ہوتی نظر آرہی ہے جس کے خراب اثرات ملک ، وزیراعظم اور ان کی کابینہ اور معیشت پر پڑیں گے، اگست کا پہلا ہفتہ ہی داخلی اور حکومتی امور میں انتشار اور ابتری لائے گا۔
واضح رہے کہ اس زائچے کے مطابق پاکستان زائچے کے سب سے منحوس سیارے مشتری کے دور اکبر سے گزر رہا ہے جس کا آغاز یکم دسمبر 2008 ءکو ہوا تھا جب کہ دور اصغر فی الحال 8 نومبر 2015 ءسے کیتو کا جاری ہے، سیارہ مشتری 12 اگست سے برج تبدیل کرے گا اور ویدک سسٹم کے مطابق برج سنبلہ کے پہلے درجے پر قدم رکھے گا، چوں کہ طالع کے درجات سے اور زائچے کے دیگر اہم گھروں سے ناظر ہوجائے گا لہٰذا اگست ہی میں ایسے مسائل کا آغاز ہوجائے گا جو حکومت کے لیے یقیناً ناخوش گوار ہوں گے،مشتری پانچویں، نویں، بارھویں اور پہلے گھر کو ناظر ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں بے چینی ، عدم اطمینان، کاروباری نقصانات اور آئینی بحران جنم لے گا ، یہ بحران اگست کے آخر تک اپنے عروج پر پہنچ سکتا ہے،اس موقع پر عدالتیں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں اور ساتھ ہی میڈیا کا کردار بھی غیر معمولی ہوگا کیوں کہ مشتری زائچے کے پانچویں اور نویں گھر سے ناظر ہوگا، اس موقع پر بچوں سے متعلق حادثات کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،مزید یہ کہ جوڈیشری سے متعلق اہم شخصیات کے لیے بھی خطرات بڑھ جائیں گے، دہشت گردی کے خلاف پہلے سے زیادہ سخت اقدام اور فیصلوں کی ضرورت ہے،سیارہ مریخ 19 ستمبر سے آٹھویں گھر برج قوس میں داخل ہوگا اور فوری طور پر پیدائشی شمس سے قران کرے گا،زائچے کے آٹھویں ، گیارھویں ، دوسرے اور تیسرے گھروں کو ناظر ہوگا، یہ صورت حال صاحب حیثیت افراد اور اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے جن میں وزیراعظم سرفہرست ہیں۔
عزیزان من! زائچہ ءپاکستان کے مطابق حکومت اور ملک کے لیے پاکستان کے نئے سال کا آغاز خوش گوار نظر نہیں آتا، اگست اور ستمبر کے مہینے کوئی ایسا طوفان کھڑا کرسکتے ہیں جن میں وزیراعظم کو اپنے عہدے و مرتبے سے ہاتھ دھونا پڑےں،قومی اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور ملک نئے الیکشن کے راستے پر گامزن ہوجائے،واضح رہے کہ 14 اکتوبر سے زائچے میں سیارہ زہرہ کا دور اصغر شروع ہورہا ہے،زہرہ چھٹے گھر کا حاکم ہے جس کا تعلق فوج ، بیوروکریسی اور الیکشن سے ہے،زہرہ کا دور خاصا طویل ہے،15 جون 2019 ءتک جاری رہے گا، اس دور میں اگر الیکشن نہ ہوئے تو فوج کے زیر انتظام کوئی سیٹ اپ سامنے آسکتا ہے،واللہ اعلم بالصواب۔
اگست کے ستارے
سیارہ شمس اپنے ذاتی برج اسد میں حرکت کر رہا ہے،22 اگست کو برج سنبلہ میں داخل ہوجائے گا،آسمانی کونسل کا وزیراطلاعات سیارہ عطارد اپنے شرف کے برج سنبلہ میں ہے، 10 اگست کو شرف یافتہ ہوگا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج اسد میں ہے ، 5 اگست کو اپنے ہبوط کے برج سنبلہ میں داخل ہوگا اور 30 اگست تک اسی برج میں حرکت کرے گا، یہ وقت زہرہ سے متعلق منسوبات کے لیے ناموافق ہوگا، قوت و توانائی کا ستارہ مریخ کئی ماہ سے برج عقرب میں اپنی اُلٹی اور سیدھی چال پر حرکت کر رہا ہے،2 اگست کو برج قوس میں داخل ہوجائے گا، اس طرح اس سال برج عقرب میں اس کا طویل قیام ختم ہوگا، سیارہ مشتری بدستور برج سنبلہ میں رہے گا، سیارہ زحل بحالت رجعت برج قوس میں حرکت کر رہا ہے،اس مہینے 13 اگست کو مستقیم ہوکر اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، سیارہ یورینس برج حمل میں بحالتِ رجعت حرکت کر رہا ہے،نیپچون برج حوت میں اور پلوٹو بحالتِ رجعت برج جدی میں ہے، راس و ذنب بالترتیب برج سنبلہ اور حوت میں حرکت کر رہے ہیں۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
اگست کا مہینہ اہم سیارگان کے درمیان کثرتِ نظرات کا حامل ہے، اس ماہ تثلیث کے پانچ زاویے ، تربیع کے چار، مقابلے کے دو زاویے ہوں گے، جب کہ تسدیس کا کوئی زاویہ نہیں ہے، اس کے علاوہ چار قرانات نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن کی تفصیل ترتیب وار درج ذیل ہے۔
یکم اگست: پہلا زاویہ زہرہ اور یورینس کے درمیان تثلیث کا ہوگا، یہ ایک سعد نظر ہے، خاص طور پر ترقیاتی امور میں اچانک فوائد لاتی ہے،اس کے علاوہ یہ نظر فوری اور اچانک محبت یا منگنی وغیرہ میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اسی روز دوسرا اہم زاویہ شمس اور زحل کے درمیان تثلیث کا بھی ہے، یہ بھی سعد نظر ہے، پراپرٹی سے متعلق کاموں میں معاون و مددگار ہوگی، اس کے علاوہ طویل المدت معاہدات خصوصاً گورنمنٹ کے ساتھ فائدہ بخش ثابت ہوں گے،گورنمنٹ سے متعلق کاروباری معاملات میں بہتر نتائج کی توقع رکھنا چاہیے، اس وقت نئے کاروبار کی ابتدا کرنا ، مکان کا سنگ بنیاد رکھنا اور دیگر ایسے کام جن میں پائیداری اور استحکام مقصود ہو ، بہتر رہتا ہے۔
چھ اگست: عطارد اور زحل کے درمیان اسکوائر کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے، یہ وقت سفر یا ٹرانسپورٹیشن کے معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی لاسکتا ہے،اس دوران میں کوئی اہم معاہدہ کرنا یا دستاویزی کام کرنا نامناسب ہوگا، دوسروں سے معاملات طے کرنے میں اختلافات یا تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں، کوئی بنتا ہوا کام تاخیر یا کسی خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔
سات اگست: زہرہ اور مریخ کے درمیان اسکوائر کا زاویہ اور اسی روز عطارد اور نیپچون کے درمیان مقابلے کی نظر بے حد منحوس اثرات رکھتی ہے،خاص طور پر عورت اور مرد کے درمیان تنازعات ، اختلافات یا بدمزگیاں جنم لیتی ہیں جو انتہا درجے کی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا باعث ہوسکتی ہیں، کوئی تعلق ٹوٹ سکتا ہے، عطارد اور نیپچون کا مقابلہ میڈیا میں افواہیں اور غیر مصدقہ خبریں لاتا ہے، چالاکیاں اور مکاریاں اس دوران میں نمایاں ہوتی ہیں۔
گیارہ اگست: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تثلیث کی سعد نظر عام آدمی کی زندگی پر اثر انداز نہ ہوگی، بین الاقوامی معاملات میں یہ دور رس نتائج کی حامل ہوگی، میڈیا میں سنسنی خیزی کا رجحان اور جارحانہ رویے سامنے آسکتے ہیں۔
تیرہ اگست: زہرہ اور زحل کے درمیان تربیع کی نظر باہمی تعلقات میں تناو ¿ لاتی ہے خصوصاً خواتین کے ساتھ اختلافی مسائل پیدا ہوتے ہیں، خواتین کا رویہ بھی سخت اور عدم تعاون کا ہوسکتا ہے، ضد اور ہٹ دھرمی اس نظر سے جنم لیتی ہے۔
چودہ اگست: زہرہ اور نیپچون کے درمیان مقابلے کی نظر محبت کے معاملات میں دھوکا اور فراڈ لاتی ہے،خاص طور پر خواتین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، وہ بہت زیادہ جذباتی رویے کا اظہار کرسکتی ہیں،خواتین سے متعلق جرائم بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔
سترہ اگست: شمس اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ بین الاقوامی معاملات میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اعلیٰ عہدہ و مرتبہ حاصل ہوتا ہے، صاحب حیثیت افراد نمایاں پوزیشن اور شہرت حاصل کرتے ہیں، اقتدار کے مراکز میں کوئی اہم شخصیت ابھرتی ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہ گیا ہو، یہ وقت مثبت نوعیت کی حکومتی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔
اٹھارہ اگست: زہرہ و پلوٹو کے درمیان تثلیث کا زاویہ سیکس سے متعلق سرگرمیوں اور رجحانات میں اضافہ لاتا ہے، اس نظر کے زیر اثر فری سیکس کا رجحان پروان چڑھتا ہے، جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
بائیس اگست: عطارد اور مشتری کے درمیان قران کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،ذہانت اور علم سے متعلق کاموں میں مدد ملتی ہے،اس دوران میں علمی سرگرمیاں ، سفر سے متعلق مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے،تجارتی معاملات بہتر ہوتے ہیں، بینکنگ سیکٹر اور اسٹاک مارکیٹ سے فائدہ ہوتا ہے۔
چوبیس اگست: مریخ اور زحل کا قران جسے انتہائی نحس تصور کیا جاتا ہے،قدیم نظریات کے مطابق تو اسے تباہی و بربادی کا نشان کہا گیا ہے،پاکستان میں جب بھی یہ قران ہوا، بڑے بڑے حادثات اور سانحات سامنے آئے، فوجی کارروائیاں ، سرحدی جھڑپیں بھی اس نظر کے زیر اثر مشاہدے میں آتی ہیں، حکومتوں کی تبدیلی کے لیے ابتدائی بنیاد رکھ دی جاتی ہے،عام افراد کی زندگی میں جدید علم نجوم کے مطابق اس قران کے نحس یا سعد اثرات انفرادی زائچے کی بنیاد پر ہوں گے،وہ لوگ جن کا پیدائشی برج ثور ، سرطان، سنبلہ، عقرب اور حوت ہے ، سختیوں اور مسائل کا شکار ہوں گے،باقی بروج کے لیے یہ قران سعادت اور فوائد کا باعث ہوسکتا ہے۔
چھبیس اگست: مریخ اور نیپچون کے درمیان تربیع کا زاویہ نہایت منحوس ہے، یہ نظر پرتشدد جرائم لاتی ہے،دہشت گردی کے واقعات اور دیگر ظالمانہ کارروائیاں دیکھنے میں آتی ہیں، جرائم پیشہ افراد بڑے ماہرانہ انداز میں اور نہایت پیچیدہ منصوبہ بندی کے ساتھ واردات کرتے ہیں لہٰذا اس وقت میں عام آدمی کو محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، حکومت کو بھی دہشت گردی کی کارروائیوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
اٹھائیس اگست: زہرہ اور مشتری کے درمیان قران کا زاویہ ”قران السعدین“ کہلاتا ہے، اس نظر کو نہایت مبارک تصور کیا جاتا ہے،ماہرین جفر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں اور محبت و تسخیر ، عروج و ترقی کے طلسمات و نقوش تیار کیے جاتے ہیں، یہ نظر کاروباری ترقیاتی امور میں مددگار ہوتی ہے،باہمی طور پر خلوص و محبت پیدا کرتی ہے،اس وقت میں شروع کیے گئے کام ہمیشہ فائدہ بخش ثابت ہوتے ہیں،پاکستان کے زائچے کے مطابق یہ نظر ایمرجنسی ، اور دیگر ناخوش گوار واقعات کا باعث ہوتی ہے۔
مزید وضاحت
عزیزان من! ہمیں یقین ہے کہ قران السعدین کے حوالے سے اکثر رسائل میں ایسے عملیات و نقوش پیش کیے جائیں گے جو مندرجہ بالا مقاصد کے لیے مو ¿ثر و مفید سمجھے جاتے ہیں لیکن ہماری نظر میں یہ قران السعدین کسی بھی نوعیت کے عمل و نقوش کے لیے ناموافق اور نامناسب ہوگا کیوں کہ یہ قران برج سنبلہ میں ہورہا ہے اور یہ سیارہ زہرہ کا برج ہبوط ہے لہٰذا کمزور مشتری اور انتہائی ناقص زہرہ کا قران کسی بھی عمل یا نقش کے لیے مو ¿ثر و مفید نہیں ہوسکتا، چناں چہ لوگوں کی باتوں میں آکر اپنا وقت اور پیسہ ہر گز ضائع نہ کریں۔
انتیس اگست: عطارد اور زہرہ کا قران مثبت اثر رکھتا ہے، اس وقت فنکارانہ یا تخلیقی نوعیت کی سرگرمیاں اچھے نتائج دیتی ہیں،ذہانت سے کام کرنا فائدہ بخش ہوتا ہے، شوبزنس ، ادب و شاعری ،موسیقی یا دیگر فنون لطیفہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس وقت کوشش کرنا بہتر ہوگا، پرانی رنجشوں کو ختم کرنے کے لیے بات چیت اطمینان بخش رہے گی،روٹھے ہوئے کو منانا ممکن ہوگا، تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اس وقت اقدام کرنا چاہیے۔
قمر در عقرب
قمر اپنے ہبوط کے برج عقرب میں پاکستان ٹائم کے مطابق 9 اگست کو داخل ہوگا جب کہ نیو یارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق 8 اگست کو رات گیارہ بجے تقریباً برج عقرب میں داخل ہوگا لیکن اپنے درجہ ءہبوط پر پاکستان ٹائم کے مطابق دوپہر01:57 سے 03:57 تک رہے گا جب کہ نیویارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق نو اگست کو صبح 03:57سے 05:57 تک رہے گا،یہ وقت نہایت منحوس تصور کیا جاتا ہے، اس وقت بندش اور رکاوٹ کے اعمال کیے جاتے ہیں۔
شرف قمر
یہ سعد وقت پاکستان ٹائم کے مطابق تئیس اگست کو صبح05:41 سے 07:21 تک ہوگا جب کہ نیو یارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق بائیس اگست کو رات 07:41 سے 09:21 تک رہے گا، اس وقت نیک اعمال کیے جاتے ہیں،اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیمُ 256 مرتبہ پڑھ کر کسی بھی جائز مقصد کے لیے دعا کرنا چاہیے، اس کے علاوہ بسم اللہ الرحمن الرحیم 786 مرتبہ پڑھ کر چینی پر دم کرلیں اور یہ چینی گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں تاکہ گھر کے تمام افراد استعمال کرسکیں، اس سے اہل خانہ میں محبت و اتفاق پیدا ہوگا، رزق میں برکت ہوگی۔

ہفتہ، 16 جولائی، 2016

نام اور تاریخ پیدائش کی اہمیت اور بعض اختلافی مسائل

 تاریخ و وقتِ پیدائش اللہ کی مقرر کردہ ہے جب کہ نام انسان تجویز کرتا ہے
ہمیں اکثر اس مسئلے کا سامنا رہتا ہے جب لوگ دو افراد کے بارے میں موافقت اور ناموافقت کے حوالے سے سوال کرتے ہیں اور اکثریت اس حوالے سے دونوں فریقین کے ناموں کو ہی کافی سمجھتی ہے یا زیادہ سے زیادہ والدہ کا نام بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے جب کہ تاریخ پیدائش کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور صرف اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ دونوں کے نام سے ستارہ ملا دیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں نے دونوں کے نام کے حوالے سے یہ رائے دی اور فلاں فلاں نے فرمایا ہے کہ دونوں میں سے ایک کا نام بدل دیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہی صورت حال بچوں کے ناموں کے سلسلے میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کوئی بچہ زیادہ شریر ہے یا تعلیم میں کمزور ہے یا کسی سخت بیماری میں مبتلا ہے تو فوراً والدین یا خاندان کے کسی سیانے کا ذہن اس کے نام کی طرف جاتا ہے اور پھر کسی بزرگ یا مولانا یا ماہر جفر و نجوم سے مشورہ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر فوراً ہی یہ فتویٰ مل جاتا ہے کہ نام درست نہیں ہے یا ”بھاری“ ہے وغیرہ وغیرہ لہٰذا نام تبدیل کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں تاریخ پیدائش کو قطعی طور پر نظر انداز کر کے محض سنی سنائی باتوں پر قیاس آرائی کی جاتی ہے اور اس قیاس آرائی میں ایسی ایسی جاہلانہ کہاوتیں، ٹوٹکے یا شگون کی باتیں مروج ہیں کہ اگر اس خرافات کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے تو علیحدہ سے ایک کتاب مرتب ہو جائے گی۔
ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ علم نجوم سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے یا محض واجبی سی واقفیت رکھتے ہیں ”جیسا کہ اس علم سے واقفیت کے اکثر دعویداروں کا حال ہے“ تو وہ تاریخ پیدائش کو نظر انداز کر کے اپنا کام محض نام کی بنیاد پر چلاتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے علم جفر کی آڑ لیتے ہیں کیوں کہ علم جفر بہرحال حروف اور اعداد سے بحث کرتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ کلی طور پر علم جفر صرف حروف اور اعداد پر ہی انحصار نہیں کرتا بلکہ علم نجوم ہر سطح پر علم جفر سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں علوم کے درمیان بنیادی فرق اور ان کی حدود کو واضح کر دیا جائے اگرچہ ہم اپنے اکثر مضامین میں اس موضوع پر پہلے بھی بہت لکھ چکے ہیں مگر ایک بار پھر مختصر طور پر وضاحت کی جا رہی ہے۔
نجوم و جفر میں باہمی ربط
علم نجوم (Astrology) مکمل طور پر کائنات میں موجود فلکیاتی صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات سے بحث کرتا ہے اور اس سلسلے میں دائرہ بروج (Zodic Sign) اور ثوابت و سیارگان (Stars and Planets) بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مختلف اوقات میں ان کی مختلف پوزیشن اور بروج کے اثرات کے ساتھ مل کر سیارگان کے ا ثرات کسی شخص جگہ یا واقعے پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں، اسی مطالعے کا نام ایسٹرولوجی ہے۔
علم جفر میں حروف بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور ان حروف سے منسوب اعداد یا یہ کہ ان حروف کی جو عددی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں وہ نہایت اہم ہیں اس کے ساتھ ساتھ تمام حروف اور تمام اعداد سیارگان کے یا بروج کے جو اثرات قبول کر رہے ہیں اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ یہیں سے علم جفر خود بخود علم نجوم کے ماتحت ہوجاتا ہے اور یہی حال علم الاعداد (Numreology) کا بھی ہے کیوں کہ اعداد بھی سیارگان و بروج کے زیر اثر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ علم جفر ہو یا علم الاعداد، علم نجوم مذکورہ بالا دونوں علوم پر محیط ہے اور اسے نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔
نام اور تاریخ پیدائش
اب آئیے تاریخ پیدائش اور نام کے مسئلے کی طرف۔ ہم پہلے بھی یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ کسی بھی انسان یا جاندار کی تاریخ پیدائش قانون قدرت کے مطابق اﷲ رب العزت کی مقرر کر دہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی اور اختیار سے اپنی پیدائش کی تاریخ، مہینہ، سال، وقت اور جگہ کا انتخاب کر سکے یا کوئی دوسرا کسی انسان کو اپنے کسی مقررہ اور پسندیدہ وقت پر پیدا کر سکے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک کسی انسان کی شخصیت، فطرت، کردار اور حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت، تاریخ پیدائش، مہینہ اور سال کی اہمیت درجہ اول پر ہے اور معتبر اور مستند ٹھہرتی ہے۔
نام انسان کی پیدائش کے بعد رکھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ انسان ہی تجویز کرتے ہیں۔ صرف ایک ہی نام دنیا میں ایسا ہے جو خود رب کائنات نے تجویز فرمایا اور وہ ہے ”محمد“ ﷺ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر بھی ہمیں اﷲ کے قائم کردہ نظام کائنات کی روایات میں اختلاف نظر نہیں آتا کیوں کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق حضور اکرم ﷺ کی جس عیسوی تاریخ پیدائش پر محققین کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے وہ 20 اپریل ہے اور جب ہم اسم پاک محمد کی عددی قیمت ابجدایقغ کے ذریعے معلوم کرتے ہیں وہ بھی 20 نکلتی ہے، مذکورہ بالا ابجد میں اعداد کی گنتی صرف ایک سے نو تک ہے۔ دنیا بھر میں نام کے اعداد نکالنے کے لیے یہی ابجد استعمال کی جاتی ہے لہٰذا اس ابجد کے تحت جب ہم محمد کے اعداد معلوم کریں گے تو صورت یہ ہو گی۔
م  ح  م  د
4 + 8 + 4 + 4 =  20
بات ہو رہی تھی کہ صرف ایک نام کے علاوہ باقی انسانوں کے نام خود انسان ہی تجویز کرتے ہیں جس میں غلطی کا امکان موجود ہے اور ضروری نہیں ہے کہ جو نام رکھا جائے وہ نومولود کی تاریخ پیدائش سے بھی مطابقت رکھتا ہو یا اس کے پیدائشی برج اور ستارے سے بھی ہم آہنگ ہو۔ نتیجے کے طور پر انسان دو مختلف قسم کے طاقتور اثرات کے زیر اثر آجاتا ہے جو مخالف بھی ہو سکتے ہیں اور موافق بھی اور اس مخالفت یا موافقت کا فیصلہ ایک علمی اور منطقی طریقہ کار کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ صرف کسی کی بیماری، پریشانی، بدمزاجی، شرارت، کم فہمی یا بدعقلی کی بنیاد پر نہیں لیکن ہمارے یہاں صورت کچھ ایسی ہی ہے کہ تاریخ پیدائش کو علم نجوم سے عدم واقفیت کی بنیاد پر قطعاً نظر انداز کر کے محض نام پر علم جفر اور علم الاعداد کے داﺅ آزمائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے نام نہاد ماہرین علم نجوم و جفر کا حال یہ ہے کہ وہ علم جفر میں جو علم نجوم کے اصول موجود ہیں انہی کی بنیاد پر نجومی احکام مرتب کر رہے ہوتے ہیں مثلاً حروف تہجی کے جو حروف علم جفر میں سیارہ زحل سے منسوب ہیں انہی کی بنیاد پر کسی شخص کا ستارہ اور برج مقرر کر دیتے ہیں۔۱، ب ، ج ، د۔ علم جفر میں سیارہ زحل سے منسوب ہیں لہٰذا جس شخص کا نام ان حروف سے شروع ہورہا ہوگا اس کا ستارہ زحل قرار دے دیا گیا۔ہ۔و۔ز۔ح سیارہ مشتری سے منسوب ہیں لہذا جن لوگوں کے نام کا پہلا حرف ان چار حروف میں سے ہوگا اس کا ستارہ مشتری قرار دے دیا جائے گا۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اعمال جفر کے سلسلے میں اسی اصول کی پیروی کی جائے گی لیکن جب بات کسی شخص کے شخصیت اور کردار اور حالات و واقعات سے واقفیت کی ہو گی تو پھر علم جفر کے یہ اصول کام نہیں دیں گے۔
حروف تہجی اور بروج
برصغیر پاک و ہند یا عرب ممالک میں مختلف بروج سے حروف تہجی کے جو حروف منسوب کیے گئے ہیں علم نجوم میں وہ علم جفر سے قطعی مختلف ہیں اور مزید یہ کہ علم نجوم کے یونانی اور ہندی اسکول آف تھاٹس لسانی بنیاد پر بھی حروف کی تقسیم میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاً یونانی علم نجوم کے مطابق برج حمل کے منسوبی حروف ا ، ل، ع اور ی ہےں جب کہ برج ثور کے ب ، و ، برج جوزا کا ق اورک، برج سرطان کے ہ ، ح ،ھ اور برج اسد سے م منسوب ہے۔ الغرض اسی طرح 12 بروج سے علیحدہ علیحدہ تمام حروف منسوب ہیں اور یہ نسبت علم جفر کی نسبت سے قطعی مختلف ہیں، صرف م دونوں جگہ برج اسد کے ماتحت ہے جب کہ ہندی علم نجوم میںہندی حروف تہجی کے مطابق نسبت مقرر کی گئی ہے مگر جب ہم مغرب کے ماہرین نجوم کی طرف دیکھتے ہیں جو بلاشبہ فی زمانہ علم نجوم پر جدید سائنٹیفک انداز میں کام کر رہے ہیں تو حروف کا یہ چکر نظر ہی نہیں آتا، وہاں صرف تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد پر زائچہ یا برتھ چارٹ تیار کیا جاتا ہے اور جب نام کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اسے بھی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہی دیکھا جاتا ہے اور نام کے عدد کے سلسلے میں علم الاعداد سے مدد لی جاتی ہے، حروف کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نام ایک اختیار کردہ شے ہے جو بچپن میں ماں باپ تجویز کرتے ہیں یا خاندان کے بزرگ اور معتبر لوگ یا عمر کے کسی حصے میں لوگ خود بھی اپنا نام بدل کر کوئی اور نام رکھ لیتے ہیں چنانچہ ایک اختیاری اور تبدیل ہونے والی شے کے اثرات کو وسیع تر اور پائیدار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔
نام کی اہمیت
ہماری اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نام کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے یا وہ ہماری شخصیت اور کردار پر کوئی اثر ہی نہیں ڈالتا، یقیناً نام کے حروف اور اعداد اپنا ایک طاقتور اثر رکھتے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ اثر ذیلی ہے اور اس اثر کے تابع یا مخالف ہے جو تاریخ پیدائش کے اعداد اور پیدائش کے وقت کی فلکیاتی صورت حال کے تحت ہمیں پیدائشی طور پر ملا ہے لہٰذا ہم جب بھی نام کے حوالے سے بات کریں گے تو ہمیں پہلے اس بنیادی اثر سے واقفیت حاصل کرنا ہو گی جو پیدائشی طور پر ہماری ذات کا حصہ ہے اور غیر متبدل او ر دائمی ہے کیوں کہ ہم دوبارہ اس مقررہ وقت، تاریخ، مہینے اور سال پر پیدا نہیں ہو سکتے لہٰذا اس اثر میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
جیسا کہ ابتدا میں ہم نے عرض کیا نام اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے اختلافی صورت حال اکثر ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔ چند روز پہلے ایک صاحب تشریف لائے وہ اپنے بیٹے کی شادی کسی لڑکی سے کرنا چاہتے تھے۔ لڑکی کے والد شاید خود بھی ان علوم سے شغف رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں سے رابطہ بھی رکھتے ہیں لہٰذا انہوں نے کسی ماہر جفر سے دونوں کا زائچہ بنوا کر یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ ان دونوں کی شادی لڑکی پر یا لڑکی والوں پر بھاری پڑے گی لہٰذا یہ شادی نہ کی جائے۔ اتفاق سے لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا جذبہ بھی رکھتے تھے خاص طور سے لڑکا کہیں اور شادی کرنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ نتیجے کے طور پر لڑکے کے ماں باپ کو بھی بیٹے کی خوشی عزیز تھی۔ انہوں نے ہم سے کہا ذرا آپ بھی دیکھیے یہ رشتہ کیسا رہے گا؟ ہمارے خیال میں وہ ایک نہایت موزوں اور مناسب رشتہ تھا اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شادی کو روکا جاتا۔
لڑکے کے والد نے بتایا کہ ہم نے خود بھی استخارہ کیا اور بعض معتبر افراد سے بھی استخارہ کروایا ہے اور ہمیں مثبت جواب ملا لیکن لڑکی کے والد کہتے ہیں کہ ہمیں استخارے میں بھی منفی جواب مل رہا ہے اور زائچے میں بھی صورت حال درست نہیں ہے جب ہم نے ان کے بنوائے ہوئے زائچے کی حقیقت معلوم کی تو پتا چلا کہ وہ زائچہ علم جفر کے حساب سے بنایا گیا تھا، یقیناً بہت سے لوگ علم جفر سے زائچہ بھی بناتے ہیں اور مختلف سوالوں کے جواب بھی حاصل کرتے ہیں کیوں کہ علم جفر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصے کو ”اخبار“ کہا جاتا ہے اور دوسرے حصے کو ”آثار“ کہا جاتا ہے۔
علم جفر کا حصہ اخبار خبر حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس شعبے کے بہت سے نامور جفار گزرے ہیں اور شاید آج بھی ہوں لیکن کم از کم ہمارے علم میں نہیں کیوں کہ اس علم میں ایسے ایسے اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر ماہرین جفر کبھی متفق نہیں ہوتے اور چونکہ اردو زبان میں عربی حروف تہجی سے کمی اور بیشی کی بنیاد پر جو اختلافات موجود ہیں یا جو کمی موجود ہے اسے آج تک کوئی اردو داں ماہر جفر پورا نہیں کر سکا اسی لیے اس ذریعے سے حاصل کردہ وجوابات کبھی معتبر بھی نہیں ٹھہرتے اور اس کی بنیاد پر بنایا گیا زائچہ بھی غیر معتبر ہی رہتا ہے۔
علم جفر کا حصہ آثار اعمال روحانی یعنی علاج معالجے سے بحث کرتا ہے۔ بے شک اس شعبے میں زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک ماہرین جفر کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جس میں بہت بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں۔ علم نقوش و طلسمات اسی حصہ جفر کے ماتحت ہے۔ امید ہے اس ساری تفصیل کی روشنی میں ہمارے قارئین نہ صرف نام اور تاریخ پیدائش کے فرق کی اہمیت سمجھ گئے ہوں گے بلکہ علم نجوم اور جفر کے وہ مسائل بھی واضح ہو گئے ہوں گے جن کی بنیاد پر فی زمانہ اکثر نام نہاد ماہرین نجوم و جفر لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں اور محض اپنی جھوٹی علمی شان کا پرچم بلند کرنے کے لیے یا تھوڑے سے پیسوں کے لیے غلط نظریات اور روایات کو فروغ دیتے ہیں۔ 
آئیے ایک خط کی طرف جس میں ایسا ہی کچھ مسئلہ زیر بحث ہے۔
رشتہ کیسا رہے گا؟
ایس، اے لکھتی ہیں ”میں نے اپنی بیٹی کی بات طے کی ہے اور آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ رشتہ کیسا رہے گا؟ خاندان کے ایک بزرگ جو علم جفر کے حامل ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر لڑکی کا نام تبدیل کر دیا جائے تو شادی مبارک ہو گی۔ اب آپ براہ مہربانی یہ بتائیے کہ تاریخ پیدائش کے حوالے سے ا ور نام کے حوالے سے یہ شادی کیسی رہے گی؟ “
جواب: عزیزم! نام اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے ابتدا میں ہم جو کچھ عرض کر چکے ہیں اسے اچھی طرح سمجھ لیں۔ خاندان کے جو بزرگ علم جفر کے حامل ہیں، انہوں نے یقینا علم جفر کا کوئی ایک کلیہ آزمایا ہو گا اور اس میں ناموافقت دیکھتے ہوئے نام میں ترمیم تجویز فرما دی ہو گی، سو آپ ان کی بات مان لیں تاکہ ان کی دعائیں حاصل ہو جائیں۔ ہماری نظر میں بزرگوںکی دعاﺅں کی بڑی اہمیت ہے۔
اصول و قواعد کے مطابق اگر دونوں کے ناموں کے پہلے حرف کا علم جفر کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں حرف باہمی طور پر اختلاف رکھتے ہیں۔ لڑکی کا نام حرف ت سے شروع ہوتا ہے اور لڑکے کا ع سے۔ جفری اصولوں کے مطابق حرف ت کا عنصر باد یعنی ہوا ہے اور ع کا عنصر خاک یعنی مٹی ہے۔ ہوا اور مٹی میں مخالفت ہے لہٰذا اگر انہیں مشورہ دینا تھا تو اس تبدیلی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جب کہ انہوں نے صرف نام کے آخر میں فاطمہ کے اضافے پر زور دیا ہے۔ یقینا انہوں نے دونوں کے نام مع والدہ اعداد کو 12 یا 7 پر تقسیم کر کے علم جفر کے اصول کے مطابق ستارہ اور برج معلوم کیا ہو گا اور 4 پر تقسیم کر کے عنصر نکالا ہو گا اور اس کے نتیجے میں آنے والے اختلاف کو مدنظر رکھ کر نام میں فاطمہ کا لفظ بڑھانے کا مشورہ دیا ہو گا۔ ہمارے نزدیک یہ طریقہ کار بہت زیادہ معتبر اور حتمی نہیں ہے۔ یقینا اس جفری طریقے کے مطابق جو اختلافات سامنے آتے ہیں ان کے تھوڑے بہت اثرات ازدواجی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہ اختلافات دونوں فریقن کے درمیان معمولی مزاجی نوعیت کے ہوتے ہیں اس سے زیادہ ان کی اہمیت ہمارے تجربے میں نہیں آئی۔
تاریخ پیدائش کے مطابق لڑکے کا شمسی برج میزان اور قمری برج سرطان ہے جب کہ لڑکی کا شمسی برج عقرب اور قمری برج جوزاہے۔ شمسی برج کے اعتبار سے میزان، عقرب تحویلی بروج کہلاتے ہیں یعنی دونوں آگے پیچھے ہیں۔ میزان ساتواں اور عقرب آٹھواں برج ہے۔ میزان کا عنصر ہوا اور عقرب کا پانی ہے۔ ہوا اور پانی میں نہ موافقت ہے نہ مخالفت۔ یہی صورت دونوں کے قمری بروج کی ہے۔ لڑکے کا قمری برج آبی ہے اور لڑکی کا ہوائی۔ گویا لڑکا اپنی شخصیت اور کردار میں ہوائی یعنی تصوراتی خصوصیات رکھتا ہے اور فطری طور پر آبی یعنی جذباتی اور احساساتی ہے یہی صورت لڑکی کی بھی ہے۔ تحویلی بروج والے ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں یقینا ان کے درمیان چھوٹے موٹے اختلافات ہو سکتے ہیں جو نظریاتی ہوں گے مگر دونوں ایک دوسرے کے مزاجی اور فطری مسائل کو سمجھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو یہ رفاقت نہ صرف کامیاب بلکہ بے حد مفید بھی ثابت ہو گی۔
اب ایک دوسرا پہلو بھی قابل غور ہے، لڑکے کا قمری برج سرطان ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا جھکاو ¿ اپنی ماں اور اپنے خاندان کی طرف بہت زیادہ ہوگا، لڑکی کا شمسی برج عقرب اور قمری برج جوزا جیلیسی اور حسد کی نشان دہی کرتے ہیں، وہ لڑکے کا اپنی ماں کی طرف جھکاو ¿ برداشت نہیں کرے گی، دونوں کے درمیان یہ معاملہ نت نئے تنازعات پیدا کرتا رہے گا، لڑکی کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی ماں اور فیملی سے الگ ہوکر ایک نیا گھر بنائے جس میں وہ اکیلی حکمرانی کرے، ہمارے نزدیک یہ رشتہ کوئی معیاری اور اعلیٰ درجے کی پارٹنر شپ کا باعث نہیں ہے، دونوں باہمی طور پر لڑتے جھگڑتے زندگی گزاریں گے۔

پیر، 11 جولائی، 2016

ذاتی عناصر میں اعتدال، کامیابی کی بنیادی کُنجی

آگ، پانی، مٹی اور ہوا کا عمل دخل انسانی فطرت و کردار کا اہم حصہ
رمضان کے مقدس مہینے میں دہشت گردی کی لہر مدینہ ءمنورہ تک پہنچ گئی جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، اس واقعے سے تمام عالم اسلام شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہوگیا، مزید تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ اس واردات میں ایک پاکستانی ملوث تھا جو ظاہر ہے مسلمان ہونے کا دعوے دار بھی تھا، بتایا یہ جارہا ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں داعش کی طرف سے کی جارہی ہیں اور یہ لوگ خارجی ہیں، خارجی فرقہ اگرچہ خاصا قدیم ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو جنگ صفین کے بعد حضرت علیؓ اور دیگر تمام اکابر صحابہ کے خلاف ہوگئے تھے، ان کی ظالمانہ اور بربریت سے بھرپور کارروائیاں اتنی بڑھ گئیں کہ بالآخر حضرت امیر المومنین کو ان کے خلاف جنگ کرنا پڑی، جنگ نہروان میں اگرچہ ان کی ایک کثیر تعداد ماری گئی مگر پھر بھی بچے کھچے خارجی وقتاً فوقتاً شورش برپا کرتے رہے ، اسی مبارک مہینے میں ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے کوفے کی مسجد میں باب العلم جناب امیر ؓ کو شہید کردیا،یہ ایک ایسا سانحہ ءعظیم تھا جس کی کوئی تلافی ممکن نہ تھی، ابتدا ہی سے یہ گروہ نہایت سخت گیر اور شقی القلب رہا، اُس زمانے میں بھی اس گروہ کے افراد میں حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کو قتل کیا، اپنے علاوہ وہ سب کو کافر اور واجب القتل سمجھتے رہے۔
بعد ازاں خارجیوں کے خلاف مختلف ادوار میں فوجی کارروائیاں جاری رہیں لیکن ان کا خاتمہ نہ ہوسکا، یہ لوگ خفیہ یا اعلانیہ طور پر ہر دور میں موجود رہے،گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بار پھر ان کا نام نمایاں ہوکر سامنے آرہا ہے،اس ساری صورت حال میں کس قدر صداقت ہے ، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، غالباً 1979 ءمیں بھی ان کی ایک نمایاں کارروائی سامنے آئی تھی، تقریباً 300 افراد نے خانہ ءکعبہ پر قبضہ کرلیا تھا، یہ قبضہ چھڑانے کے لیے سعودی حکومت کو فرانس اور پاکستان سے مدد لینا پڑی۔
کہا جاتا ہے کہ داعش کا قیام ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے مگر یہ سازش کس کی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟
فی الحال اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں ہے، داعش کی کارروائیاں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں، فرانس، بیلجئم اور دیگر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک داعش کی دہشت گردی کا شکار ہیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں امریکا کی خفیہ آشیربادحاصل ہے کیوں کہ روس کے حمایت یافتہ شام کے بھی یہ مدمقابل ہیں، قصہ مختصر یہ کہ اس فتنہ ءتازہ کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ بہت تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بڑے بڑے ملک ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، یہی وہ نکتہ ہے جو بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کوئی نادیدہ قوت ان کی پشت پر موجود ہے اور وہ یقیناً امریکا ہے کیوں کہ ان کی کھلی دہشت گردی کے خلاف امریکا ابھی تک ان کے خلاف پوری طرح میدان عمل میں نہیں آیا اور آئندہ بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے، حالاں کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف دنیا بھر میں پیش پیش نظر آتا ہے لیکن داعش کے معاملے میں عملی طور پر اس کی کارکردگی صفر ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ”فتنہ ءداعش“ شاید مسلم دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور امت مسلمہ کا جو حال ہے، وہ سب پر عیاں ہے، بقول فیض 
نہ اس سے آگ ہی بھڑگے، نہ اس سے پیاس بجھے
مرے فگار بدن میں لہو ہی کتنا ہے
عزیزان من! بعض واقعات و سانحات نہایت تکلیف دہ اور دل خراش ہوتے ہیں،ذہن کو بری طرح متاثر کرتے ہیں،مندرجہ بالا تمام گفتگو شاید ایسی ہی وارداتِ قلبی کا نتیجہ ہے، حالاں کہ اس بار ہمارا ارادہ ایک دوسرے اہم معاشرتی موضوع پر بات کرنے کا تھا، اکثر ہمارا واسطہ اس موضوع سے پڑتا ہے، لوگ پوچھتے ہیں کہ ہماری ناکامی کا اصل سبب کیا ہے؟یا یہ کہ بعض دیگر افراد کی کامیابیاں یا ناکامیاں ان کے پیش نظر ہوتی ہیں، اس حوالے سے اگرچہ بہت سے عوامل قابل غور ہوتے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ کسی بھی انسان کی بنیادی ساخت و پرداخت ہے، ہم اس پر پہلے بھی لکھتے رہے ہیں، اس بار ایک طویل خط ہمارے پیش نظر ہے جس میں کچھ اسی نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے ہیں، اس خط پر تو بعد میں بات ہوگی، آئیے پہلے انسان کی بنیادی ساخت پر علم نجوم کی روشنی میں بات ہوجائے۔
عناصر کا عدم توازن
انسانی فطرت ، شخصیت و کردار قدیم زمانے سے دنیا بھر کے اہل دانش کا موضوع رہا ہے،نفسیات کا علم انسان کی ایسی ہی خوبیوں اور خامیوں یا دوسرے معنوں میں فطری اور شخصی پیچیدگیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے وجود میں آیا، مشہور ماہر نفسیات کارل یونگ نے پہلی مرتبہ انسانی نفسیات کے مطالعے میں علم نجوم سے مدد لی اور آج بھی انسانی نفسیات کے مطالعے میں علم نجوم کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے،ہم ماضی میں کئی بار اس موضوع پر لکھ چکے ہیں اور اکثر بعض افراد کے نجی مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے علم نجوم کی روشنی میں فطرت و کردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی شخص کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا سراغ لگایا جاسکے، ہر انسان اپنی فطرت و کردار میں دوسروں سے مختلف اور کبھی کبھی عجوبہ ءروزگار ہوتا ہے،اس کی بائی برتھ خوبیاں اور خامیاں زندگی میں کامیابیوں یا ناکامیوں کا باعث بنتی ہیں،اکثر لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ میرا مسئلہ کیا ہے یا یہ کہ فلاں فلاں کا مسئلہ کیا ہے،خاص طور پر بچوں کے حوالے سے اکثر لوگ پریشان ہوتے ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا بچہ کس قسم کا ہے؟ اور مستقبل میں کیا کرے گا؟ یا اُسے کیا کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔
اس سوال کا سیدھا سادہ جواب تو یہی ہے کہ انسان اپنی فطری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہی زندگی کے راستے پر آگے قدم بڑھاتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور ماحول کے اثرات اس کی فطری خوبیوں اور خامیوں کو نئے رخ دیتے ہیں۔ یہ نئے رخ اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔ اگر پیدائشی اثرات یعنی زائچہ پیدائش میں عنصری توازن موجود ہے تو انسان ہر قسم کے ماحول اور حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے جب کہ اس کے برعکس صورت حال میں وہ حالات اور ماحول کا درست انداز میں مقابلہ کرنے کا اہل نہیںہوتا۔ مثلاً اگر کسی کے انفرادی زائچے میں ہوا کا عنصر بہت زیادہ ہے تو اس کی وجہ سے غیر ذمہ داری، متلون مزاجی، عدم استحکام اور بے عملی کے اثرات زندگی بھر پریشان کرتے رہیں گے۔ نتیجے کے طور پر ایسے لوگ اپنی ابتدائی زندگی میں نہ تو ڈھنگ سے تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزر پاتے ہیں اور نہ ہی آئندہ زندگی میں اپنے کیریئر کے حوالے سے کوئی مضبوط مقام حاصل کر پاتے ہیں کیوں کہ احساس ذمے داری، مضبوطی اور استحکام اور عملی جدوجہد کے لیے زمینی قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی خاکی عنصر (Earth Elements) ضروری ہے، تب ہی ہوائی عنصر کی ذہانت، تصوراتی قوت، بلند خیالی کوئی عملی رخ اختیار کر کے تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو گی اور ہمیں ہمارے خوابوں کی حقیقی تعبیر مل سکے گی۔
کائنات کا عنصری امتزاج
اس حقیقت سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیںکر سکتا کہ ہماری اس کائنات کی تکمیل میں عناصر کے امتزاج کی حقیقت مسلم الثبوت ہے۔ یہ عناصر انسانی وجود کا بھی لازمی حصہ ہیں۔ علم نجوم کی تحقیق اور تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری ساخت میں عناصر کا تناسب کیا ہے۔ چنانچہ جب ہم کسی شخص کے برتھ چارٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک لمحے میں جان لیتے ہیںکہ اس کی خوبیاں، خامیاں، صلاحیتیں، ذہنی رجحانات، عملی قوتیں یا خیالی اور تخلیقی قوتیں کیسی ہیں۔
تمام مادی معاملات جن میں کاروبار، روزگار، نظم و ضبط، محنت ، جدوجہد اور عملی مظاہرے شامل ہیں، خاکی عنصر (Earth Elements) کے ماتحت ہیں، اگر کسی انسان نے خاکی عنصر معقول حد تک موجود نہیں ہے تو وہ بے عملی کا شکار ہوگا۔
صحت، بیماری، تنازعات، خیال آفرینی، پریشانی، توہمات، تصورات، آئیڈیاز وغیرہ کا تعلق ہوائی عنصر (Air Elements) سے ہے، بے شک یہ لوگ نت نئے آئیڈیاز، خوش امیدی اور ذہانت سے مالا مال ہوتے ہیں لیکن عملی میدان میں ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی، یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کی پیروی کرےں، محنت مشقت اور سخت جدوجہد ان کے بس کا کام نہیں ہے۔
آتشی عنصر (Fire Elements) جوش و جذبے، قوت و اقتدار، قبضہ و اختیار، انا، عزت و وقار سے متعلق ہے، آتشی عنصر کی کمی جوش و جذبے کا فقدان لاتی ہے، یہ لوگ اپنے حق کے لیے بھی زیادہ کوشش و جدوجہد نہیں کرتے لیکن اگر آتشی عنصر بھرپور ہے تو ان لوگوں کو کسی میدان میں بھی شکست نہیں دی جاسکتی، یہ اپنے جوش و جذبے کی طاقت سے ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں۔
آبی عنصر (Water Elements) احساسات اور زرخیزی سے متعلق ہے لہٰذا خوشی اور غم، محبت و نفرت اور تخلیقی قوتیں اس کے زیر اثر ہیں، آبی عنصر بے حد حساس اور جذباتی ہوتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی نوٹس لیتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ نوٹس لیتے ہیں بلکہ انہیں خود پر طاری کرلیتے ہیں،احساسات ان کی زندگی کا سرمایہ ہے، یہ لوگ ہمیشہ کسی نہ کسی احساس سے چمٹے ہوئے نظر آئیں گے، اگر یہ احساس مثبت ہو تو یہ لوگ غیر معمولی کارنامے انجام دیتے ہیں، اگر منفی ہو تو اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مسئلہ بن جاتے ہیں، نفسیاتی مریضوں کی خاصی بڑی تعداد آبی عنصر میں پائی جاتی ہے۔
کسی بھی انسان کی شخصیت، فطرت اور کردار کی تشریح اس کے برتھ چارٹ میں ان عناصر کے توازن پر منحصر ہے۔ ہوا کی زیادتی ایک تخیل پرست ، سست و کاہل، بے عمل انسان بناتی ہے جب کہ خاکی عنصر کی زیادتی مادی سوچ اور رویوں کو ابھارتی ہے۔ مقصدیت، مفاد پرستی، عملیت، سرد مزاجی، طبیعت میں خشکی پیدا کرتی ہے۔
آتشی عنصر کی زیادتی پرجوش، سرکش، باغی، جارحیت پسند، نڈر، جرا ¿ت مند اور مہم جو بناتی ہے۔
آبی عنصر کی زیادتی نہایت حساس بناتی ہے۔ زبردست تخلیقی قوت اور زرخیزی عطا کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کے احساسات اور سوچ میں دائمی گہرائی اور ارتکاز توجہ کی قوت پائی جاتی ہے۔
کسی برتھ چارٹ میں یہ چاروں عناصر توازن کے ساتھ فعال ہوں تو اس شخص کے معاملات میں ہر اعتبار سے نارمل رویوں اور طور طریقوں کا اظہار ہو گا۔ جب کہ اس کے برعکس صورت حال میں کسی نہ کسی کمی یا زیادتی، خوبی یا خامی کا امکان موجود ہوتا ہے۔
عناصر اور بارہ بروج
دائرہ بروج کے 12 بروج ان 4 عناصر پر تقسیم ہیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
آتشی بروج: حمل (Aries)، اسد (Leo)، قوس (Sagittarius)
خاکی بروج: ثور (Taurus)، سنبلہ (Virgo)، جدی (Capricorn)
ہوائی بروج: جوزا (Gemini)، میزان (Libra)، دلو (Aqurius)
آبی بروج: سرطان (Cancer)، عقرب (scorpio)، حوت (Picses)
عنصری تقسیم کے علاوہ 12 برجوں کو ماہیت کے اعتبار سے بھی تقسیم کیا جاتا ہے جس میں 4 برج ثور، اسد، عقرب اور دلو ثابت یا منجمد (Fixed) کہلاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان برجوں کے زیر اثر پیدا ہونے والے افراد میں ٹھہراﺅ پایا جاتا ہے جب کہ 4 برج منقلب (Cardinal) کہلاتے ہیں۔ یہ حمل، سرطان، میزان اور جدی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ متحرک ہوتے ہیں اور جلد تبدیلیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مزید 4 برج جوزا، سنبلہ، قوس اور حوت ذوجسدین (mutable) کہلاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بروج کے تحت پیدا ہونے والے افراد کی شخصیت میںدہرا پن ہوتا ہے یعنی متحرک بھی ہوتے ہیں اور جامد بھی۔
عزیزان من! یہ علم نجوم کے بنیادی اصول ہیں۔ ان سے عام لوگ قطعی واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ہی واقفیت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس علم سے استفادہ کرے مگر صرف اس حد تک کہ اسے آئندہ مستقبل کے بارے میں بتا دیا جائے۔ دراصل بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس شاندار، لاجواب علم کو صرف قسمت یا غیب کا حال بتانے والا علم سمجھ لیا گیا ہے اور اکثر لوگ صرف اسی حد تک اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ کسی ماہر نجوم سے اگر رابطہ کرتے ہیں تو ان کے سوالات بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ انہیں ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے پوشیدہ باتیں بتائی جائیں۔ بے شک علم نجوم ان تمام موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے مگر کچھ اصول و قواعد کی پابندی کرتے ہوئے۔ ان میں سب سے پہلا اصول تو یہی ہے کہ انسان کی شخصیت، فطرت اور کردار کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ ان خوبیوں اور خامیوں کے حامل شخص کے لیے ماضی میں وقت کی رفتار کیسی تھی اور حال میں کیسی ہے۔ پھر مستقبل کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے مگر اس علم سے واقفیت رکھنے والے افراد کے لیے وہ مرحلہ بڑا مشکل ہوتا ہے جب کسی شخص کا زائچہ منفی پہلوﺅں کی نشاندہی زیادہ کر رہا ہو اور مثبت پہلو بہت کم نظر آ رہے ہوں۔ ایسی صورت میں خاموشی اختیار کرنا ہی زیادہ بہتر ہوتا ہے کیوں کہ صاف گوئی اور سچائی مخاطب کی دل شکنی اور مایوسی کا سبب بن سکتی ہے۔
عناصر میں توازن کے حوالے سے اس قدر تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عناصر کے عدم توازن کی درستگی کے کیا امکانات ہیں۔ اس حوالے سے جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، عام ماہرین نجوم کوئی موافق پتھر تجویز کرتے ہیں لیکن ایک اور طریقہ بھی تجربہ شدہ ہے اس سلسلے میں مسلمان ماہرین روحانیات صدقات اور اسمائے الٰہی سے کام لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان ماہرین جفر ایسی الواح و نقوش بھی مرتب کرنے کے طریقے تعلیم کرتے ہیں جو کسی عنصر کی کمی و بیشی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کر سکیں۔ بے شک ایسی چیزوں کی تیاری عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ ہم نے ان علوم سے شوق رکھنے والے افراد کے لیے ایک اشارہ دے دیا ہے۔ اگر فہم و فراست سے کام لیا جائے تو یہ اشارہ بہت سے پوشیدہ رازوں کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ انشاءاﷲ پھر کبھی اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
جس طویل خط کے پیش نظر عناصر کے تناظر میں اب تک گفتگو رہی ہے، اس خط میں خط لکھنے والے نے اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا شکوہ کیا ہے،صاحب خط کا شمسی برج (Sun sign) دلو (Aqurius) ہے جو ایک ہوائی برج ہے، زائچے میں زہرہ اور مرکری بھی اسی ہوائی برج میں ہے، وقتِ پیدائش کے مطابق برتھ سائن اور قمری برج بھی ہوائی یعنی میزان ہے، اس طرح زائچے کے چار اہم سیارگان کا تعلق ہوائی عنصر سے ہوگیا، سیارہ زحل برج حوت میں ہے جو آبی برج ہے اور مشتری خاکی برج جدی میں ، جب کہ مریخ اور راہو بھی خاکی برج سنبلہ میں ہےں، زائچے میں کوئی سیارہ آتشی برج میں نہیں ہے جس کی وجہ سے جوش ، جذبے ، مہم جویانہ ، ہمت و حوصلے کی کمی ہے، بزدلی، وہم ، شک، حرص و ہوس اور خیال و خواب کی باتیںاس زائچے میں نمایاں ہے، مشتری تیسرے گھر کا حاکم ہے جو کوشش اور پہل کاری کا گھر ہے، برج جدی میں ہبوط یافتہ یعنی نہایت کمزور ہے لہٰذا صورت حال یہ ہوگی کہ زندگی بھر ”ارادے باندھتا ہوں، توڑ دیتا ہوں“ کی مثال سامنے آتی رہے گی، منصوبہ سازی ، زبردست قسم کے آئیڈیے زندگی میں بہت ہے لیکن ہمت اور حوصلے کی کمی ہے، کوشش اور جدوجہد کا فقدان ہے، چناں چہ زندگی میں ناکامیاں اور محرومیاں بھی مقدر ہیں۔
عزیزان من! مختصر انداز میں ہم نے عناصر کے حوالے سے جو تشریح کی ہے، اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی میں کامیابیوں اور ناکامیوں میں کون سے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں، صاحب زائچہ کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ عمدہ قسم کا یلو سفائر کا نگینہ کسی اچھے وقت پر پہن لیں تاکہ بے عملی اور خوابوں کی دنیا سے نجات مل سکے، اس کے بعد ہی وہ زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
دوسری مثال
شمسی برج میزان ، قمری برج ثور اور پیدائشی برج قوس ہے، برج قوس آتشی ہے اور زہرہ کے ساتھ سیارہ مریخ بھی اسی برج میں ہے،شمس ، زحل اور مشتری ہوائی برج میں ہیں، قمر خاکی برج میں ہے جب کہ عطارد آبی برج میں ہے، اس طرح ایک متوازن زائچہ سامنے آتا ہے، بے شک ہوائی عنصر کا غلبہ ہے یعنی تین سیارگان ہوائی برج میں ہیں لیکن پیدائشی برج قوس آتشی ہے، قمری برج خاکی یعنی ثور ہے، عطارد آبی برج میں ہے، گویا چاروں عناصر زندگی کے مختلف پہلوو ¿ں ، شخصیت و کردار پر اثر انداز ہیں، ان کی کمی بیشی اپنی جگہ ، برج قوس بہت نڈر ، بے چین ، فلسفیانہ سوچ کا حامل اور مہم جو بناتا ہے، یہ لوگ کسی معاملے میں رسک لینے سے نہیں ڈرتے، تیسرے کوشش اور پہل کاری کے گھر کا حاکم زحل اپنے ہی گھر میں موجود ہے اور نہایت باقوت پوزیشن رکھتا ہے، شمس کمزور ہے جو نویں قسمت کے گھر کا حاکم ہے،گویا قسمت کمزور ہے لیکن کوشش اور جدوجہد کا جذبہ موجود ہے، ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے صاحب زائچہ نے مشکل حالات میں تعلیم مکمل کی اور پولیس میں ملازمت حاصل کرلی، مسلسل محنت سے ایک اعلیٰ عہدے تک رسائی حاصل ہوئی، چناں چہ معقول حد تک ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہے، قسمت کی کمزوری کے باوجود اس نے اپنی کوشش اور جدوجہد سے ایک اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔

ہفتہ، 2 جولائی، 2016

ایکوپریشر تھراپی تین ہزار سال پرانا طریق علاج

ہاتھوں اور پاو ں کے مو ثر پوائنٹس جسم میں ایک برقی لہر پیدا کرسکتے ہیں
ایکوپریشر طریق علاج پر ایک مضمون آپ پہلے پڑھ چکے ہیں، یہ تقریباً تین ہزار سال پرانا طریق علاج ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے ابتدا ہی سے اپنے دکھ ، تکالیف سے نمٹنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرنا شروع کردیے تھے، سب سے پہلے اُس نے جانوروں کی زندگی کا مشاہدہ کیا کہ وہ کس طرح صحت مند رہتے ہیں اور جب بیمار ہوتے ہیں یا کسی زخم خوردگی کا شکار ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ یہی مطالعہ اور مشاہدہ انسان کو نباتات، معدنیات، ارضیات، فلکیات اور دیگر دنیاوی علوم کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنا، پتھر کے دور سے نکل کر وہ تانبے اور پھر لوہے کے دور میں داخل ہوا، بیرونی مظاہر اور عوامل پر غوروفکر کرتے ہوئے اُس نے اپنے جسم و جاں کی ساخت پر بھی غور شروع کیا، اس طرح آہستہ آہستہ اُسے اپنے جسمانی اعضاءاور ان کی کارکردگی ، باہمی ربط و ضبط سے آگاہی حاصل ہوئی۔
 ایکوپریشر درحقیقت اعضائے جسمانی کی ظاہری اور باطنی ساخت و پرداخت کا علم ہے،یوگا، ٹیلی پیتھی، ہیپناٹزم، ریکی یا ایسے ہی دیگر تمام علوم انسانی جسم و جاں کے گہرے مطالعے اور مشاہدے سے وجود میں آئے ہیں، تین ہزار سال پر محیط ان علوم کا سفر موجودہ دور میں نہایت تابناک ہے،دنیا بھر میں ان علوم سے فائدہ حاصل کیا جارہا ہے،کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص یوگا ایکوپریشر ، ایکوپنکچر ، سانس کی مشقیں اور مراقبہ جیسے طریقوں سے مدد لیتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ تمام جسمانی و روحانی بیماریوں سے نجات پالیتا ہے بلکہ سو سال سے بھی زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے مشہور پامسٹ کیرو کی یاد داشتوں سے ایک ایسے ہندوجوگی کا واقعہ نقل کیا تھا جو تقریباً 29 دن تک زمین میں دفن رہنے کے بعد بھی زندہ رہا تھا، یہ بلاشبہ حبس دم کی مشق کا شاندار مظاہرہ تھا، قصہ مختصر یہ کہ مندرجہ بالا تمام شعبے ایسے ہی ہیں کہ اگر ان سے مدد لی جائے تو ایک صحت مند اور بیماریوں سے پاک زندگی گزارنا آسان ہوسکتاہے اور مزے کی بات یہ کہ اس طریقہ ءعلاج میں ہمیں کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا مگر شاید ہماری اکثریت بہت کاہل ، آرام طلب اور جلد باز ہوچکی ہے،وہ ہر مسئلے اور بیماری کا فوری حل چاہتی ہے کیوں کہ اس کے پاس بیماری کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے، وہ اپنا قیمتی وقت بچانے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ جلد از جلد کروڑوں روپے کمانے کے لیے میدان عمل میں آجائیں، حالاں کہ اس طرح دولت کا یہ کاروبار ان کی زندگی کو مزید مختصر کردیتا ہے۔
ایکوپریشر طریق علاج کے ذریعے ہر قسم کی بیماریوں اور تکالیف کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے،اس علم کے ذریعے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے جسم کے تمام حصے ہمارے ہاتھوں اور پاو ¿ں سے جڑے ہوئے ہیں گویا ہمارے جسم کا الیکٹرونک سرکٹ ہمارے ہاتھوں اور پیروں پر موجود مخصوص بٹنوں سے آن ہوتا ہے، دونوں ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ بھی جسم کے مختلف حصوں پر مزید پوائنٹس ایسے ہیں جو کسی بٹن کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں دبانے سے جسم کا وہ حصہ روشن ہوجاتا ہے گویا ایک برقی لہر اس بٹن کے ذریعے کسی مخصوص حصے تک دوڑنے لگتی ہے۔
اس طریقہ ءعلاج میں رنگوں ، دھاتوں سے تیار کردہ پانی ، بعض یوگا کی ایکسرسائز اور غذائی توازن سے بھی کام لیا جاتا ہے،آج کے زمانے میں یہ ایک بہت بڑا طریق علاج ہے جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہورہی ہے،غرض یہ کہ ایکوپریشر کے ذریعے مکمل جسمانی اور روحانی کمی بیشی کا ازالہ کیا جاتا ہے،یہ طریقہ علاج قدرت کے قانونِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔
گزشتہ مضمون میں دونوں ہاتھوں پر جسم کے مختلف حصوں سے متعلق پوائنٹس کی نشان دہی کی گئی تھی،اس بار پیروں کے پوائنٹس کی نشان دہی کی جارہی ہے، واضح رہے کہ ہاتھوں اور پیروں پر جو نمبرز دیے گئے ہیں، وہ مشترکہ طور پر مختلف جسمانی اعضاءسے متعلق ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ جو نمبر ہاتھوں پر ہو، وہ پیروں پر بھی ہو یا جو پیروں پر ہو، وہ ہاتھوں پر بھی ہو،مثلاً 9 نمبر جس کا تعلق ریڑھ کے مہروں سے ہے، ہاتھوں پر نہیں ہے، البتہ دونوں پاو ¿ں پر اسے دیکھا جاسکتا ہے اور ریڑھ کی ہڈی سے متعلق شکایات میں اس پر پریشر ڈال کر بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں،اس کے ساتھ ہی اگر 4 اور 5 نمبر کو بھی پریشر دیا جائے تو زیادہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے کیوں کہ 4 نمبر غدئہ صنوبری (Pinel) اور 5 نمبر حرام مغز کے اعصاب (Spinel Nerve) کا ہے۔
کسی مخصوص شکایت یا بیماری کے لیے اگر ہاتھوں کے ساتھ پیروں کے پوائنٹس کو بھی تحریک دی جائے یعنی ان پر پریشر ڈالا جائے تو زیادہ تیزی کے ساتھ مثبت نتائج ظاہر ہوتے ہیں،یہ عمل دن میں کم از کم دو مرتبہ یعنی صبح و شام پانچ سے دس منٹ تک کرنا چاہیے، اس عمل سے جسم میں موجود میلوں لمبی رگوں میں خون و توانائی برقی رو کی طرح تیزی سے متحرک ہوکر امراض کا خاتمہ کرتی ہے، مریض اپنی جسمانی رگوں میں اس عمل کا ردعمل محسوس کرتا ہے ، وہ نسیں جن میں خون جم گیا ہو، نرم پڑنے لگتی ہیں، عام طور پر ایکوپریشر تھراپی سے 15 سے 20 دن کے اندر اندر شفایابی حاصل ہوجاتی ہے، بہت ہی ضدی قسم کے موذی امراض مثلاً کینسر ، فالج، دماغی خرابیاں وغیرہ کے علاج میں ممکن ہے زیادہ وقت لگے لیکن بہر حال شفایابی یقینی ہے۔
گزشتہ مضمون میں ہاتھوں اور پیروں کے 38 پوائنٹس کی نشان دہی کی گئی تھی اور مختلف بیماریوں کے علاج کے سلسلے میں مختلف پوائنٹس کا کمبی نیشن بھی بتایا گیا تھا تاکہ کسی بیماری کی صورت میں اگر آپ اپنا علاج خود کرنا چاہیں تو مقررہ پوائنٹس پر پریشر ڈال کر اس طریقے سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں لیکن خیال رہے کہ خود ان پوائنٹس پر پریشر دینے اور کسی دوسرے کی مدد لینے میں بہر حال تھوڑا سا فرق ضرور ہے، اگر کوئی ایسا شخص یہ کام کرتا ہے جس نے روحانی سکون کے لیے سانس کی مشقیں یا مراقبہ وغیرہ کیا ہو اور ارتکاز توجہ کی بہتر صلاحیت رکھتا ہو تو نتائج یقیناً بہت تیز ہوں گے،اگر آپ خود بھی پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ نہایت سکون اور اطمینان سے کام لیتے ہوئے اس پریشر تھراپی کو اختیار کرتے ہیں تو نتائج زیادہ قوی ہوں گے، کوشش کریں کہ اس کے بعد کم از کم آدھے گھنٹے تک پانی نہ پئیں۔
ایکو پریشر تھراپی















بلڈ پریشر موجودہ دور کا ایک عام مسئلہ بن گیا ہے، بلڈ پریشر کا ہائی ہونا یا لو ہونا عام سی بات ہے، لوگ برسوں بلڈ پریشر کو نارمل رکھنے کے لیے مستقل بنیادوں پر دوائیں کھاتے رہتے ہیں، سخت پرہیزکرتے ہیں، اس طرح زندگی عذاب بن کررہ جاتی ہے،اس حوالے سے اگر ہاتھوں اور پاو ¿ں کے مخصوص پوائنٹس پر پریشر ڈالا جائے جس کا طریقہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے اور اس کے لیے پوائنٹس نمبر 3,4,14,15,22,23,25,28 کا انتخاب کیا جائے،ہر پوائنٹ پر ایک منٹ سے پانچ منٹ تک پریشر ڈالا جائے، ہتھیلیاں یا پاو ¿ں اگر زیادہ سخت ہوں تو انگلی یا انگوٹھا استعمال کرنے کے بجائے کوئی بغیر نوک والی پتلی لکڑی یا بال پوائنٹ کا وہ رُخ استعمال کیا جاسکتا ہے جو گولائی میں ہوتا ہے،ہاتھوں کی سختی کی صورت میں اور پیروں پر ایسے کسی معاون آلے کی ضرورت محسوس ہوسکتی ہے۔
خون کی کمی یعنی ایمینیا سے نجات کے لیے 8,37 پوائنٹ کا انتخاب کیا جائے۔
اکثر لوگ الرجی کی شکایت کرتے ہیں، الرجی ایک بڑا وسیع معنی رکھنے والا لفظ ہے، عام طور پر ایلوپیتھک ڈاکٹر صاحبان بہت سی بیماریوں میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں، الرجی کی بہت سی اقسام ہیں، نزلہ زکام، دمہ، مختلف چیزوں سے الرجی ہونا اور کسی نئی بیماری کا پیدا ہونا ، اسکن کی خرابی وغیرہ الغرض الرجی کا لفظ بہت سے جسمانی امراض میں استعمال ہوتا ہے، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 21,26 پوائنٹ پر پریشر دیں، بیماری اگر بہت پرانی ہے تو یہ کام زیادہ عرصے تک جاری رکھیں اور ان چیزوں سے پرہیز کریں جو الرجی کا باعث بنتی ہیں، انشاءاللہ الرجی سے نجات مل جائے گی۔ 
ہڈی ٹوٹنے (فریکچر) ، جلنے کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے 1,2,3,4,6,7,10,30,34 پوائنٹس پر پریشر دیں تو تکلیف میں کمی ہوگی۔
پھوڑے، پھنسی، دنبل وغیرہ کے لیے 6,11,15,16,26 پوائنٹ ہیں۔
اپینڈکس کا درد دائیں طرف پیٹ میں ہوتا ہے، اس کا تعلق ہماری اضافی آنت سے ہے،عام طور پر اپینڈکس کی صورت میں آپریشن لازمی ہوجاتا ہے اور یہ اضافی آنت نکال دی جاتی ہے،اس تکلیف سے نجات کے لیے 8,21 پوائنٹ اہم ہیں۔
طبیعت میں اداسی ، بے زاری، خواہشات میں کمی ، عدم اطمینان، جسم کے کسی بھی حصے پر سفید داغ، ذہنی پریشانی اور گھبراہٹ کے لیے 1,2,3,4,5,6,7,8 پوائنٹس پر پریشر دیا جائے، یہ عمل مستقل کچھ عرصہ جاری رکھیں۔
بدہضمی، بے چینی، بے خوابی، نیند کی کمی، جگر سے متعلق خرابیاں، یرقان، ہیپاٹائٹس اور آنتوں کے تمام مسائل کے لیے 19,20,22,23,25,27 پوائنٹس پر توجہ دی جائے۔
عزیزان من! اس کے علاوہ بھی جسم کے مختلف حصوں کے دیگر پوائنٹس ایسے ہیں جو بہت سے مسائل کے حل میں معاون و مددگار ہوتے ہےں،اس کے لیے بہت سی اعلیٰ درجے کی کتابیں بھی بازار میں دستیاب ہیں، اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی مدد سے بھی کثیر مواد کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
آخری بات یہ کہ صحت مندی کا راز فطری اصولوں کی پابندی میں ہے، انسان کے علاوہ دنیا کے تمام جاندار فطرت کے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں، یعنی سونے کے وقت پر سوتے ہیں اور اٹھنے کے وقت پر اٹھتے ہیں، کھانے کے وقت پر کھاتے ہیں، اپنی زندگی کا ہر وظیفہ ایک وقتِ مقررہ پر انجام دیتے ہیں، انسان وہ مخلوق ہے جو فطرت کے اصولوں کو توڑتا ہے، اپنی خواہشات کا غلام ہوکر تمام حدود سے تجاوز کرتا ہے اور بالآخر اس کے نتائج بھی اسے بھگتنا پڑتے ہیں، یہ ایک علیحدہ سے طویل موضوع ہے کہ انسان کہاں کہاں اور کس طرح فطری اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے،اگر اس پر گفتگو شروع کردی جائے تو کبھی ختم نہیں ہوگی، ہم شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی فطرت کے قوانین کو توڑنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں، کھانے پینے کا کوئی وقت مقرر نہیں کرتے، سونے جاگنے میں اپنی مرضی اور پسند نا پسند چلاتے ہیں، کھانے پینے میں حد اعتدال سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہوتی، پسندیدہ ڈش پر اس طرح ٹوٹ کر گرتے ہیں کہ جیسے اب یہ کبھی نہیں ملے گی، قصہ مختصر یہ کہ فطری قوانین کی خلاف ورزی کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں، صحیح وقت پر شادی نہ کرنا یا نہ ہونا بھی فطری قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس کے بعض اوقات بڑے بھیانک نتائج ظاہر ہوتے ہیں،ہمارے ہاں مختلف حیلے بہانوں سے شادی سے فرار کی روایت ہے، اس اہم فطری تقاضے کی بروقت ادائیگی کے بجائے ہم اسے کچھ دوسرے معاملات سے مشروط کردیتے ہیں، مثلاً تعلیم، کرئر، پہلے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی ہوجائے، دوسرا کوئی مناسب گھر لے لیا جائے کیوں کہ موجودہ گھر چھوٹا ہے ، وغیرہ وغیرہ، ایسی بے شمار شرطیں ہم نے اکثر لوگوں سے سنی ہیں جو چالیس یا پچاس سال کے کنوارے تھے۔
عزیزان من! خلاصہ ءکلام یہ ہے کہ فطرت کے قوانین پر ضرور توجہ دیں، ان کی خلاف ورزی سے گریز کریں، زندگی کے حقیقی تقاضوں سے انحراف نہ کریں، سمجھ لیں کہ ان اصولوں پر کاربند ہوکر آپ اپنے بہت سے مسائل اور بیماریوں سے نجات پالیں گے،الاّ ماشاءاللہ۔