جمعہ، 28 اگست، 2020

ستمبر کی فلکیاتی صورت حال اور زائچہ ءپاکستان

قیام پاکستان کے بعد زائچہ ءپاکستان کے حوالے سے صورت حال کا جائزہ

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی میں ہونے والی موجودہ بارش ماضی کے بہت سے ریکارڈ توڑگئی، کہا جارہا ہے کہ تقریباً 90 سال بعد کراچی میں ایسی بارش ہوئی ہے،اس بارش نے کراچی کے تقریباً ہر شخص کو بری طرح متاثر کیا ہے، ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، ہمارا کلینک اور آفس ڈیفنس فیز 2 میں ہے اور تقریباً گزشتہ ایک ہفتے سے بند ہے، سڑک پر نالے کی صورت اختیار کرنے والا پانی کلینک میں داخل ہوگیا، ایسی ہی صورت حال کا سامنا گھر کی نچلی منزل میں بھی کرنا پڑا، خیال رہے کہ کلینک اور گھر دونوں کنٹونمنٹ ایریاز میں ہیں، چناں چہ ہر قسم کی لکھنے پڑھنے کی مصروفیات ختم ہوکر رہ گئیں پھر بھی کوشش ہے کہ ویب سائٹ کا معمول جاری رہے، چناں چہ اختصار سے ستمبر کی فلکیاتی صورت حال کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

ستمبر کے ستارے

یکم ستمبر کو سیارہ شمس اپنے ذاتی برج اسد میں موجود ہے اور 17 ستمبر کو برج سنبلہ میں داخل ہوگا، سیارہ عطارد برج اسد میں ہے ، تین ستمبر کو اپنے شرف کے برج سنبلہ میں داخل ہوگا جب کہ 23 ستمبر کو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ برج میزان میں داخل ہوجائے گا، سیارہ زہرہ یکم ستمبر کو برج جوزا میں ہے،2 ستمبر کو برج سرطان میں داخل ہوگا اور 29 ستمبر کو برج دلو میں داخل ہوجائے گا، سیارہ مریخ تقریباً تین درجہ اپنے ذاتی برج حمل میں مستقیم پوزیشن میں ہے، اس کی یہ پوزیشن 22 ستمبر تک رہے گی، اسی پوزیشن میں 11 ستمبر سے اسے رجعت ہوجائے گی، سیارہ مشتری اپنے ذاتی برج قوس میں بحالت رجعت مستقیم پوزیشن پر تقریباً 23 ڈگری پر ہے اور اسی درجے پر 5 اکتوبر تک رہے گا، سیارہ زحل بحالت رجعت برج جدی میں حرکت کر رہا ہے جب کہ راہو کیتو برج جوزا اور سنبلہ میں بالترتیب ہیں، اس مہینے کی ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ یہ دونوں 20 ستمبر کو اپنے اپنے شرفی بروج ثور اور عقرب میں داخل ہوں گے اور آئندہ ڈیڑھ سال تک اسی برج میں رہیں گے، ان کی یہ تبدیلی مختلف برج سے تعلق رکھنے والے افراد کوآئندہ ڈیڑھ سال تک کس نوعیت کے مسائل اور چیلنج لائے گی، اس پر ان شاءاللہ آئندہ کسی مضمون میں بات ہوگی، ستمبر کی یہ سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق ہے۔

شرف قمر

قمر اس ماہ 8 ستمبر کو پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 02:40 am پر اپنے شرف کے برج ثور میں داخل ہوگا، خصوصی اعمال قمر کے لیے موافق اور مو¿ثر ٹائم 09 ستمبر کو 11:45 am سے 12:45 pm تک ہوگا، اس عرصے میں شرف قمر سے متعلق جو بھی عمل یا وظیفہ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔

قمر در عقرب

قمر اپنے برج ہبوط میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اس ماہ 21 ستمبر کو 04:48pm پر داخل ہوگا اور تقریباً 23 ستمبر کو 05:54 pm تک اپنے برج ہبوط میں رہے گا، یہ نحس ٹائم ہے، اس وقت نئے کاموں کی ابتدا نہ کریں، صرف معمول کی کار گزاری پر گزارا کریں، خصوصی اعمال کے لیے مقصد کے موافق سیاروی ساعات منتخب کرکے کام کریں۔

زائچہ ءپاکستان

علم نجوم سے متعلق ضروری معلومات کے بعد درحقیقت ہمارا اصل موضوع زائچہ ءپاکستان ہے اور یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان کے نامعلوم کتنے زائچے سامنے آتے رہے ہیں، ہمارے پاکستانی منجمین یا بھارتی اور مغربی منجمین وقت گزاری کے لیے مختلف زائچے بناتے رہے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ کام کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں کیا گیا، کسی بھی زائچہ ءپیدائش کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ پیدائش کی درست تاریخ، وقت اور مقام کا پہلے تعین کیا جائے، ابتدا سے ہی اس معاملے میں اختلافات سامنے آئے، اس کی بنیادی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ دو ملک یعنی بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے، بھارت کا زائچہ ءپیدائش 15 اگست 1947 بمقام دہلی شب صفر بج کر صفر منٹ طے ہوا اور اسی کے مطابق زائچہ بنایا گیا جو آج تک بغیر کسی اختلاف کے مستند مانا جاتا ہے۔

پاکستان میں پہلا مسئلہ تو یہ ہوا کہ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کو 15 اگست کی صبح دہلی میں گورنر کے عہدے کا حلف لینا تھا لہٰذا وہ موصوف 14 اگست کو پاکستان آگئے اور صبح 9 بجے کراچی کی اسمبلی میں ایک تقریر فرمائی جس میں بتایا گیا تھا کہ دولت برطانیہ نے ایک نئے ملک پاکستان کی منظوری دے دی ہے اور کل 15 اگست سے آپ ایک آزاد قوم ہوں گے،جوابی تقریر میں قائد اعظم نے دولت برطانیہ کا شکریہ ادا کیا اور 15 اگست کی صبح گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا جب کہ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب رات 12 بجے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات روک دی گئیں اور پاکستان کے قیام کا اعلان کردیا گیا، یہ اعلان لاہور ریڈیو ، پشاور ریڈیو اور ڈھاکا ریڈیو سے نشر ہوا، پاکستان کا دارالحکومت کراچی مقرر ہوا۔

اب بعض منجمین نے جن میں بھارتی منجم بھی شامل ہیں، پاکستان کا زائچہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات 00:00 am بمقام کراچی پر تیار کیا، بعض نے اعلان لاہور کے مطابق یہی وقت اور تاریخ لی اور مقام لاہور رکھا، پاکستان کے نہایت قابل منجم ڈاکٹر ایوب تاجی اسی پر قائم رہے اور ان کے شاگردان بھی۔

پاکستان کے ایک اور مایہ ناز منجم ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ آف راولپنڈی نے 14 اگست 1947 ءبمقام کراچی صبح 09:30 am کے مطابق زائچہ بنایا، ان کا مو¿قف یہ تھا کہ ٹرانسفر آف پاور 14 اگست کو صبح ہوئی لہٰذا یہی زائچہ درست ہے، چند سال پہلے ایک بین الاقوامی پرتگالی منجم جارج انجلینو کی ویب سائٹ پر ہم نے دیکھا کہ اس نے بھی پاکستان کا زائچہ ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ کے ٹائم اور تاریخ کے مطابق بنایا ہوا ہے، ہماری اس سے بات ہوئی اور ہم نے اسے بتایا کہ پاکستان کے ایک منجم بھی برسوں پہلے اسی زائچے پر زور دیتے تھے ، اس کا مو¿قف بھی یہی تھا کہ ٹرانسفر آف پاور کی تقریب 14 اگست صبح 9 بجے کراچی میں ہوئی۔

دی ورلڈ بک آف ہارسکوپ (The world book of horoscope) کے مطابق پاکستان کا زائچہ 15 اگست 1947 ءکے مطابق بنایا گیا ہے۔

ان تمام صورتوں میں پاکستان کے زائچے کا پیدائشی برج (Birth Sign) یا طالع پیدائش برج حمل ، برج ثور، برج سنبلہ اور پاکستان کے ایک اور نامور منجم حضرت کاش البرنیؒ کے مطابق طالع برج جوزا سامنے آیا ہے اور ہر منجم اپنے مو¿قف پر قائم رہا۔

یہ کوئی نئی یا عجیب صورت حال نہیں ہے کہ ایک ملک کے ایک سے زیادہ زائچے مختلف ماہرین نجوم اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بناتے ہیں اور پھر ان کے مطابق زائچے کا تجزیہ کرتے ہیں، امریکا کے ایک سے زائد زائچے موجود ہیں، یہی صورت حال دیگر ممالک کی بھی ہے،تحقیق اور تجربے کا دامن تنگ نہیں ہے، ایک سائنسی علم کی طرح اس میں بھی تحقیقی کام جاری رہتا ہے اور نتائج کے مطابق کسی زائچے پر کم یا زیادہ اتفاق رائے ہوتا ہے،ماضی میں پاکستان کے جو زائچے 14 یا 15 اگست 1947 ءکے مطابق بنائے گئے، بہت سے لوگ آج تک انہی پر کاربند ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمار ے پاکستانی منجمین پاکستان کے حالات پر ایسٹرولوجیکل تبصرہ کرتے ہوئے کسی بھی زائچے کا حوالہ دیں اور اس زائچے میں سیاروی گردش کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنی پیش گوئی کے بارے میں دلیل پیش کریں ، اس انداز کی پیش گوئیوں کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے، اگر ایسٹرولوجی ایک سائنس ہے تو لازمی طور پر زائچے کی بنیادی نکات اور حال کی سیاروی گردش کی نشان دہی کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے ۔

ہماری تحقیق

ہم نے جب اس وادی ءپرخار میں قدم رکھا تو پاکستان دولخت ہوچکا تھا، ہماری آنکھوں کے سامنے بنگلہ دیش وجود میں آیا اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، اس حوالے سے ہمارے پاکستانی منجم سابقہ زائچوں کی روشنی میں کبھی کوئی اطمینان بخش اور ٹیکنیکل طور پر ٹھوس بات کرتے نظر نہیں آئے، ڈاکٹر ایوب تاجی صاحب ویدک سسٹم کے اساتذہ میں سے تھے، ہمیں بھی ان سے شرف تلمذ بہت تھوڑے عرصے حاصل رہا لیکن کبھی ہمت نہ ہوئی کہ ان کے پاکستانی زائچے کے حوالے سے کوئی اختلافی سوال کرتے،ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ سے ہماری کئی نشستیں رہیں لیکن ان کی عمر کا آخری حصہ تھا، ان دنوں وہ کسی بات کا معقول جواب نہیں دیتے تھے۔

بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان کا نیا زائچہ بننا چاہیے، 1947 ءمیں جو پاکستان وجود میں آیا تھا وہ موجودہ پاکستان نہیں ہے،ماضی کا کوئی بھی زائچہ موجودہ پاکستان کے حوالے سے کسی سوال کا بھی درست جواب نہیں دیتا، چناں چہ ہم نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ٹرانسفر آف پاور کی تاریخ اور وقت کے مطابق پاکستان کا زائچہ بنایا، اس حوالے سے عزیزی عقیل عباس جعفری اور ان کی مایہ ناز کتاب ”پاکستان کرونیکل“ نہایت معاون و مددگار ثابت ہوئے۔

دنیا بھر میں یہ اصول رائج ہے کہ جب کسی ملک کے ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں واقع ہوں تو اس کا نیا زائچہ بنایا جاتا ہے، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، ایران قدیم ترین ملک ہے ، خدا معلوم اس ملک کا باقاعدہ آغاز کب ہوا تھا، یہی صورت حال بیشتر ممالک کی ہے، بھارت کے حوالے سے بھی ایک قدیم نظریہ موجود ہے، کہ بھارت کا برج جدی ہے لیکن منجمین کی اکثریت اسے تسلیم نہیں کرتی، چناں چہ ایران کا موجودہ زائچہ انقلاب ایران کے بعد یکم اپریل 1979 بمقام تہران بنایا جاتا ہے، سویت یونین جب کئی حصوں میں تقسیم ہوا اور کئی ریاستیں وجود میں آئیں تو ہر ریاست کا ایک الگ زائچہ بنایا گیا اور دنیا میں رائج ہے،سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی تو ترکی کا نیا زائچہ وجود میں آیا اور وہ تمام عرب ممالک جو ترکی کے حلقہ ءاقتدار میں تھے ان کا بھی نیا زائچہ بنایا گیا، اس بنیادی اصول پر ساری دنیا میں ماہرین نجوم عمل کرتے ہیں، چناں چہ ہماری تحقیق کے مطابق پاکستان کا نیا زائچہ 20 دسمبر 1971 ءبمقام اسلام آباد دوپہر 02:55 pm ہماری نظر میں درست اور نتیجہ خیز ہے۔

اس زائچے پر ہم نے ملکی و غیر ملکی دیگر منجمین سے بھی تبادلہ خیال کیا، ڈاکٹر اعجاز حسین اس وقت تک حیات تھے ، انھوں نے ہماری بات کو رد تو نہیں کیا لیکن تسلیم بھی نہیں کیا اور اپنے پرانے مو¿قف پرقائم رہے،پاکستان کے ایک اور اہم منجم سید انتظار حسین شاہ زنجانی کافی بحث و مباحثے کے بعد ہماری بات کے قائل ہوگئے اور اب وہ بھی اس نئے زائچے کو اہمیت دیتے ہیں۔

غیر ملکی منجمین میں بھارت کے نامور منجم کے این راو¿ سے بھی ہم نے اس پر رائے لینے کی کوشش کی،وہ خاصے معقول آدمی ہیں اور ہم نے انھیں اتنا متعصب نہیں پایا جتنے دیگر ہندو منجمین ہیں لیکن وہ بھی اپنے قدیم نظریات پر قائم رہے، ان کی عمر اس وقت 80 سال ہوچکی تھی اور ان سے زیادہ گفت و شنید ممکن نہیں تھی،بھارت کا ایک اور بڑا نام بی وی رامن ہے، وہ بھارت ہی میں خاصے متنازع ہیں، اگرچہ انھوں نے کلاسیکل ایسٹرولوجی میں بہت کام کیا ہے اور برسوں ایک ایسٹرولوجیکل میگزین بھی بنگلور سے نکالتے رہے ہیں، انھیں ہم اس بحث سے خارج سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے نظریات کو اب ان کے جانشین یعنی بیٹا اور بیٹی دونوں رد کرچکے ہیں۔

جارج انجلینو آف پرتگال واحد ایسے منجم تھے جنہوں نے ہمارے بات سے اتفاق کیا اور اس حوالے سے ہماری حوصلہ افزائی بھی کی کہ آپ پاکستان کے نئے زائچے پر کام جاری رکھیں اور نتائج سے آگاہ کرتے رہیں، اسی طرح بعض دوسرے جدید نظریات رکھنے والے بین الاقوامی منجمین نے بھی حوصلہ افزائی کی اور ہم اس زائچے پر مسلسل تحقیقی و تجرباتی کام کرتے رہے ہیں، اسی کو درست سمجھتے ہیں،یقیناً بہت سے دیگر اہل علم کو اختلاف ہوسکتا ہے،اس صورت میں انھیں اپنے زائچے کے لیے معقول دلائل پیش کرنا چاہئیں اور پاکستان کے حالات کی تشریح زائچے کے مطابق کرنا چاہیے، ہم اس حوالے سے تفصیلی مضامین کے ذریعے پاکستان کے موجودہ زائچے کی تشریح کرچکے ہیں اور ان شاءاللہ آئندہ بھی کریںگے (جاری ہے)


جمعہ، 21 اگست، 2020

علم نجوم کی حقیقت اور قابل اعتراض امور

قدیم اور جدید علم نجوم کے درمیان فرق ، معروف طریقہ ءکار

ہماری زندگی کا ایک طویل عرصہ اسی دشت کی سیاہی میں گزرا ہے، اس موضوع پر ہم نے کئی کتابیں بھی تحریر کی ہیں اور ہزاروں مضامین بھی مختلف اخبارات و رسائل میں لکھے ہیں، ہمارے نزدیک علم نجوم نہ غیب کا علم ہے اور نہ قسمت کا حال، اس کی بنیاد علم ریاضی اور سیاروی گردش پر رکھی گئی ہے، ہماری کہکشاں میں مسلسل گردش کرتے ہوئے سیارگان اور باہمی طور پر مختلف جیومیٹریکل اشکال ترتیب دیتے سیارے اپنے ارتعاش سے دنیا پر جو اثرات مرتب کرتے ہیں ان کے مطالعے کا نام ایسٹرولوجی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ وقت کی تاثیرات کی کیا اہمیت ہے؟ یہ علم ہزاروں سال قدیم ہے اور مسلسل تحقیق و تجربے کی بھٹی سے گزر کر آج دنیا میں جس مقام پر ہے اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ جدید ایسٹرولوجی کے بانی پروفیسر وی کے چوہدری نوبل انعام کے لیے نومنی ہوئے، دنیا بھر میں اس علم کی بنیاد پر ایسٹرولوجیکل سافٹ ویئرز لاکھوں کی تعداد میں دستیاب ہیں جو اس بات کا ثبوت ہےں کہ یہ ایک سائنسی علم ہے۔

دنیا بھر میں اس علم سے دلچسپی رکھنے والے بھی لاکھوں ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے بھی لاکھوں ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طرح کے افراد خود یہ نہیں جانتے کہ درحقیقت ایسٹرولوجی کیا ہے، ادھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں اور بعض مذہبی نظریات کی بنیاد پر جو بے بنیاد ہیں کسی بھی علم کو رد کردینا یا ہدف تنقید بنانا ایک نامناسب رویہ ہے، ایسے افراد سے ہم معذرت خواہ ہیں۔

جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا تھا کہ علم نجوم (Astrology) دنیا بھر میں مقبول بھی ہے اور مطعون بھی ہے،بے شمار لوگ اس سے رہنمائی کے طالب ہوتے ہیں اور بے شمار اس علم پر یقین نہیں رکھتے، ہم اس کی وجوہات پر گفتگو کرنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں اس کی بہت سی اقسام رائج ہےں اور اکثریت کا انداز اور طور طریقے ستارہ شناسی سے زیادہ ستارہ پرستی پر مبنی ہیں، معروف اقسام میں ویسٹرن سسٹم جسے یونانی علم نجوم بھی کہا جاتا ہے، سرفہرست ہے، دوسرے نمبر پر ویدک سسٹم جسے عرف عام میں ہندی جوتش کا نام دیا گیا ہے،برصغیر انڈوپاک اور اب پوری دنیا میں مقبول عام ہے، یہ دونوں اسکول آف تھاٹ یونانی دیومالا اور ہندودیومالا سے بری طرح متاثر اور آلودہ ہیں اور بے شک ایسے نظریات کا پرچار کرتے ہیں جو قدیم یونانی اور بابلی دور کی ستارہ پرستی کا مظہر ہیں، بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے ایک ممتاز صدی ہے جس میں ایسے باطل نظریات اور عقائد سے اس سائنسی علم کو پاک کیا گیا او اس کی بنیادیں خالص سائنسی اصولوں پر استوار کی گئیں، اس حوالے سے جیسا کہ ہم نے پہلے نشان دہی کی پروفیسر وی کے چوہدری اور ان کے حلقہ ءاثر سے تعلق رکھنے والے ایسٹرولوجرز کا کام نمایاں ہے جو جدید تعلیم یافتہ طبقے میں نہایت تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔

دونوں بڑے اور نمایاں طریق کار کے درمیان ایک بنیادی فرق زمین کے مسلسل جھکاو¿ کے سبب پیدا ہونے والے درجات کا ہے، یہ فرق اب تقریباً 24 ڈگری تک آچکا ہے جسے اصطلاحی طور پر ایانامسا کہتے ہیں، ویسٹرن سسٹم اس فرق کو تسلیم نہیں کرتا، ویدک سسٹم اس فرق کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، اس فرق کی وجہ سے کسی برج یا سیارے کی درست پوزیشن پر اختلاف واقع ہوتا ہے، مثلاً بے شمار لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی پیدائش اگر 21 جنوری سے 19 فروری کے درمیان ہوئی ہے تو ان کا شمسی برج (Sun sign) دلو (Aquarius) ہے، یہ ویسٹرن سسٹم کے مطابق ہے، جب کہ ویدک سسٹم کے مطابق برج دلو کا عرصہ 24 ڈگری کے فرق سے 15 فروری تا 15 مارچ ہوگا، اسی طرح اگر کوئی سیارہ ویسٹرن سسٹم کے مطابق کسی برج میں حرکت کر رہا ہے تو ویدک سسٹم کے مطابق ممکن ہے وہ کسی دوسرے برج میں حرکت پذیر ہو۔

امید ہے دونوں معروف سسٹم کا بنیادی فرق سمجھ میں آگیا ہوگا، دونوں کے درمیان درستی کا فیصلہ ہمارے نزدیک صرف تجربے سے ہوسکتا ہے اور یہ بات بالکل سائنسی اصول کے مطابق ہے۔

چند موٹی موٹی باتیں علم نجوم کے حوالے سے بیان کرنا ضروری تھا، ایک اور اہم بات کی وضاحت بھی ضروری ہے، علم نجوم جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا وقت کو سمجھنے کا علم ہے ، ایک انگریزی مقولہ ہے (Astrology is a knowlegde of the time) چناں چہ کسی اہم واقع کا ظہور اس وقت کی فلکیاتی پوزیشن کو واضح کرتا ہے،اس حوالے سے تاریخ، مہینہ، سال، وقت، عرض البلد، طول البلد نہایت اہمیت کے حامل ہیں، کسی شخص کی پیدائش یا کسی ملک کی یا کسی شہر کی پیدائش یا کسی واقع کا ظہور پذیر ہونا دائرئہ بروج کی پوزیشن اور ان میں حرکت کرتے ہوئے سیاروں کی پوزیشن اور پھر ان کے درمیان باہمی طور پر قائم ہونے والے جیومیٹریکل زاویوں کی پوزیشن اس وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے، گویا اس واقعے سے ایک نئے کائناتی سائیکل کا آغاز ہوتا ہے، یہ سائیکل درمیان میں کس نوعیت کے حالات و واقعات کی نشان دہی کرسکتا ہے اور اس کا اختتام کہاں اور کس طرح ہوگا، یہ ایک ماہرانہ مطالعاتی تجزیہ اور جائزہ ہے، چناں چہ تاریخ پیدائش وغیرہ کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے، ہمارے ملک میں لوگ نام سے یا نام کے پہلے حرف سے زائچے بناتے ہیں جو بالکل نامناسب اور غیر معتبر طریقہ ہے، اسی طرح ہمارے ملک میں اکثر ماہرین نجوم ٹی وی پر پیش گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے، وہ اصول و قواعد کے برخلاف بغیر کسی بنیاد کے مجذوبانہ انداز میں دعوے کر رہے ہوتے ہیں، مثلاً پاکستان یا کسی پاکستانی یا غیر ملکی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کبھی یہ نہیں بتاتے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے،ان کے نزدیک پاکستان کا یا کسی شخصیت کا درست زائچہ ءپیدائش (Birth chart) کیا ہے؟ درست تاریخ پیدائش، وقت پیدائش، پیدائش کا شہر وغیرہ کیا ہے؟ اور اس برتھ چارٹ میں ایسی کون سی سیاروی گردش جاری ہے جس کی بنیاد پر وہ کوئی پیش گوئی کر رہے ہیں، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ان اصول و قواعد کو اہمیت دی جاتی ہے، تاریخ پیدائش وغیرہ کی بنیاد پر ایسٹرولوجرز نے جو بھی زائچہ تیار کیا ہے وہ اسے سامنے لاتا ہے،اس کے بعد کوئی بات کرتا ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کا تیار کردہ زائچہءپیدائش کس حد تک درست ہے یا غلط ہے اور جو سیاروی گردش زیر بحث ہے، اس کے نتائج کس حدتک وہ درست طور پر اخذ کر رہا ہے یا اس میں کوئی غلطی کر رہا ہے، یہی ایک حقیقی علمی طریقہ ہے جو کم از کم پاکستان میں ہمیں نظر نہیں آتا، دنیا بھر میں رائج ہے۔

مذہبی اختلاف

جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی ہے کہ قدیم علم نجوم ستارہ شناسی سے زیادہ ستارہ پرستی کی طرف دنیا کو لے گیا تھا اور اسی بنیاد پر تقریباً تمام ہی آسمانی مذاہب نے اس کی مخالفت کی ، مشرق ہو یا مغرب دونوں جانب اس کی بنیادیں ایسے ہی خطوط پر کھڑی کی گئیں جو مکمل طور پر شرکیہ ہیں، مغرب میں ان بنیادوں کے بانی مبانی بطلیموس ہیں جن کا عہد غالباً ابتدائی عیسوی صدی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم نجوم بطلیموس سے پہلے مغرب میں نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دستاویزی یا کتابی شکل میں بطلیموس نے مرتب کیا اور مشرق میں تین ہزار بیس قبل مسیح میں پراسرا اس علم کے ابتدائی لوگوں میں نظر آتا ہے، اس کی کتاب پاراسارا ہوراشاستر دستیاب ہے اور اب سنسکرت سے انگلش میں ترجمہ ہوچکی ہے، یہ فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا کہ یہ علم مغرب میں پہلے شروع ہوا یا مشرق میں۔

اس علم کے ابتدائی ماہرین نے جو بنیادیں مقرر کیں ان میں سیارگان اور بروج کی حیثیت دیوی دیوتاو¿ں جیسی مقر کردی، جس کی بنیاد پر بے شمار عبادت گاہیں وجود میں آگئیں اور سیارگان کی پرستش کا کاروبار شروع ہوگیا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ان قدیم نظریات کے تحت یہ طے کرلیا گیا کہ سیارہ شمس زندگی دینے والا ہے تو سیارہ زحل تباہی و بربادی اور نحوست کا نشان ہے اور سیارہ مریخ جلاد فلک ہے کہ تمام جنگ و جدل ، قتل و غارت اسی کے سبب ہے، سیارہ مشتری سعادت اور دولت کا ذریعہ ہے ، سیارہ زہرہ حسن و خوبصورتی، محبت اور امن کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ۔

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی قدیم یعنی کلاسیکل علم نجوم میں یہی نظریات عام ہیں، ہمارے پاکستانی اور انڈین ایسٹرولوجر لوگوں کو سیارہ زحل کی ساڑھ ستی سے ڈراتے رہتے ہیں، مریخ کی غضب ناکی سے خوف زدہ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

مغرب میں بہت پہلے ایسٹرولوجی کو سائنسی اصولوں پر استوار کرنے کا کام شروع ہوا اور اس قسم کے نظریات کو ختم کیا گیا، مشرق میں بھی یہ کام ہوا اور بالآخر اس اہم ترین سائنس کو ایسی تمام خرافات سے پاک کردیا گیا۔

حقیقت یہی ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں اپنی اپنی مقررہ رفتار سے حرکت کرتے ہوئے سیارگان قرآنی آیات کے مطابق رب کائنات کے حکم کے پابند ہیں اور اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، ان میں سے نہ کوئی سعد ہے اور نہ نحس، نہ تباہی کا دیوتا ہے اور نہ جلاد فلک ہے، نہ سعادت افروز ہے اور نہ حسن و خوبصورتی بخشنے والا، جدید تشریحات کے مطابق بے شک سیارہ شمس زندگی کا نمائندہ ہے اور ایسا اللہ کی دی ہوئی صفت کے ذریعے ہے کہ سورج کی روشنی زندگی بخش ہے، سیارہ زحل مسلسل محنت ، کوشش اور جدوجہد کا نمائندہ ہے، سیارہ مریخ انرجی کا نمائندہ ہے، غرض اسی طرح دیگر سیارگان کی جو بھی خصوصیات طویل تحقیق اور تجربے سے مشاہدے میں آئی ہیں وہ یقیناً اللہ ہی کی طرف سے ہےں، بالکل اس طرح جیسے قیمتی جواہرات ، جڑی بوٹیاں اپنے خواص رکھتی ہیں، یہ سیارے بھی اپنے خواص اور اثرات رکھتے ہیں، طویل تجربات اور مشاہدات اس حقیقت کے شاہد ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب کوئی بھی سیارہ سعد و نحس نہیں ہے تو پھر کسی ملک یا شخص کے زائچہ ءپیدائش میں اچھائی یا برائی کا عنصر کہاں سے آگیا؟ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی شخص کے یا ملک کے انفرادی برتھ چارٹ میں ایسٹرولوجیکل اصول و قواعد کے مطابق کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے، وہ اس نظام شمسی میں اپنے مخصوص دن تاریخ ، ماہ و سال اور وقت کے مطابق وجود میںآیا ہے، اس وقت کا مخصوص نقشہ جسے زائچہ یا برتھ چارٹ کہا جاتا ہے اس کے لیے اچھائی اور برائی کے کون سے پیمانے مقرر کرتا ہے، انہی کی بنیاد پر اس کی مثبت یا منفی خصوصیات اور زندگی کے مثبت اور منفی پہلوو¿ں پر تجزیاتی نظر ڈالی جاتی ہے اور نتائج اخذ کیے جاتے ہیں، اس کے مطابق سیارہ شمس اگر کسی کے لیے فائدہ بخش ہوسکتا ہے تو کسی دوسرے کے لیے ضر رساں اور نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے، یہی اصول تمام سیارگان کی زائچہ ءپیدائش میں نشست پر لاگو ہوگا، امید ہے کہ مختصراً ہم اپنی بات سمجھانے میں کامیاب رہے ہوں گے، مکمل تفصیل کے لیے ہماری کتاب ”پیش گوئی کا فن حصہ اول“ دیکھی جاسکتی ہے۔


ہفتہ، 15 اگست، 2020

خصوصی اعمال برائے اوجِ زہرہ

شادی کے لیے نقش العلی اور طلسم زہرہ 

زندگی کے اونچے نیچے راستوں پر سفر کرتے ہوئے ہمیں اکثر وقت کی سعادت و نحوست سے سابقہ پڑتا رہتا ہے،سعد اوقات معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں اور نحس اوقات رکاوٹ یا پریشانیوں کا باعث بنتے ہیں،سوال یہ ہے کہ وقت کی سعادت و نحوست سے آگاہی کیسے ممکن ہے؟

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ وقت درحقیقت کیا ہے؟

ہمارے نظام شمسی میں موجود سیاروی گردش وقت کے تعین میں معاون و مددگار ہیں، چاند اور سورج کی گردش سے صبح و شام اور دن اور رات پیدا ہوتے ہیں، اسی صبح و شام اور رات دن کے درمیان وقت کی مزید تقسیم بھی سیاروی گردش کے مطابق گھنٹوں ، منٹوں اور سیکنڈوں میں کی جاتی ہے، اسی کی بنیاد پر علم الساعات کا علم ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت ہم کس سیاروی گھنٹے سے گزر رہے ہیں، گویا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ علم نجوم سے رہنمائی لیے بغیر ہم وقت کی سعادت اور نحوست سے واقف نہیں ہوسکتے۔

تقریباً اپریل سے سیاروی گردش مسلسل کسی نہ کسی طور نحس اثرات کی حامل رہی ہے لیکن اگست کے آخر سے سیاروی پوزیشن سعد اور موافق اثرات کا باعث ہوگی، ایسے اوقات اس دوران میں آئیں گے جو بعض اوقات برسوں میں بھی نصیب نہیں ہوتے، چناں چہ ضروری سمجھا کہ ایسے اوقات کی نشان دہی کی جائے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے طریقے بھی بتائے جائیں، اس حوالے سے پہلا غیر معمولی اور سعد وقت 24 اگست 2020 کو ہوگا،نیا چاند ہوچکا ہوگا، خیال رہے کہ یہ اوقات ویدک سسٹم کے تحت دیے جارہے ہیں۔

اس وقت سیارہ زہرہ اپنے اوج کے برج جوزا میں نہایت باقوت ہوگا اور سیارہ مشتری اپنے ذاتی برج قوس میں باقوت پوزیشن رکھتا ہوگا، دونوں کے درمیان سعد نظر ہوگی یعنی ایک دوسرے کو تقویت بھی دے رہے ہیں، زائچے کے مطابق طالع برج جوزا طلوع ہوگا اور دوسرے گھر کا حاکم قمر برج میزان میں طاقت ور ہوگا ، عروج ماہ ہوگا، تیسرے گھر کا حاکم شمس بھی اپنے ہی گھر میں طاقت ور ہوگا۔

اس موقع پر سیارہ زہرہ سے متعلق الواح و طلسم کی تیاری نہایت ذود اثر اور کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔

شادی کے لیے مجرب 

ہمارے موجودہ معاشرے میں معاشی مسائل کے بعد اگر کوئی مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے تو وہ لڑکیوں کی شادی اور ازدواجی زندگی سے متعلق ہے، اس مسئلے کے پیچیدہ اور گمبھیر ہونے کی معاشرتی وجوہات سے قطع نظر جو بات نہایت اہم ہے وہ مقدرات ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف ان گھرانوں اور خاندانوں تک محدود نہیں جہاں معاشی پریشانیاں موجود ہیں بلکہ ان خاندانوں کے لیے بھی یہ مسئلہ ایک عذاب کی صورت اختیار کرلیتا ہے جہاں ہر طرح کی معاشی سہولیات اور خوش حالی موجود ہے لہٰذا ہمارے نظریے کے مطابق اس کو صرف معاشیات سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے اکثر و بیشتر مختلف طریقے پیش کیے جاتے رہتے ہیں جس میں موافق پتھر، صدقات، وظائف و عملیات اور نقش و طلسم شامل ہوتے ہیں، اکثر لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض پھر بھی ناکام رہتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مایوسی گناہ ہے اس لیے کوشش و جدوجہد سے غافل نہیں رہنا چاہیے، بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق اصلاح احوال ضروری ہے ، ضروری نہیں ہے کہ ہم آج اللہ کے حضور کوئی درخواست پیش کریں اور وہ فوری منظور کرلے، اس میں کچھ تاخیر بھی ہوسکتی ہے اور وہ نامنظور بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ ہم نہیں جانتے ہمارے لیے کیا بہتر ہے، بس اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔

لڑکیوں کی شادی کے سلسلے میں اپنا ایک مجرب طریقہ یہاں لکھ رہے ہیں، یہ اسم الٰہی ”العلی“ کا طلسماتی نقش مثلث ہے، برسوں پہلے بھی یہ نقش عام کیا تھا اور ہماری کتاب مسیحا حصہ دوم میں بھی موجود ہے،بے شمار لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔

علی کے معنی سب سے زیادہ بلند مرتبے کے ہیں لہٰذا اس اسم کا ورد بلند مرتبہ اور قوت و اقتدار کے لیے موزوں ترین خیال کیا جاتا ہے، اس کے ذاکر کے درجات دینوی اور دنیاوی طور پر اللہ بلند کرتا ہے، ہر حاجت اس کی پوری ہوتی ہے، اس کا نقش پاس رکھنے سے لوگ اس کی عزت کرتے اور اس سے مرعوب رہتے ہیں، اعلیٰ حکام و افسران بالا اس کی عزت کرتے ہیں۔

علمائے جفر اس امر پر متفق ہیں کہ اسم الٰہی ”علی“ کا نقش اگر چاندی کی لوح پر شرف یا اوج زہرہ میں یا شرف قمر میں کندہ کرکے ایسی لڑکی کے گلے میں ڈالا جائے جس کا رشتہ ہی نہ آتا ہو تو اس کی برکت سے نصیب کھل جاتا ہے اور جلد ہی شادی کا انتظام ہوجاتا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سیارہ زہرہ انسانی زندگی میں شادی اور ازدواجی زندگی کی خوشیوں کا نمائندہ ہے لہٰذا ہم اس نقش کو سیارہ زہرہ کے سعد اوقات میں تیار کرنے کو افضل سمجھتے ہیں اور جو وقت اس ماہ 24 اگست کو آرہا ہے یہ بہت ہی مو¿ثر اور مناسب ترین وقت ہے۔

یہ نقش ہر مرد اور عورت کے لیے اس کے نام کے پہلے حرف کی مناسبت سے تیار ہوگا، پے چیدہ حسابی عمل سے آپ کو بچانے کے لیے ہم نے اس کی ترتیب و تدوین خود کردی ہے، اس طرح یہ کل آٹھ نقش مرتب ہوئے ہیں، اس میں ہر فرد اپنے نام کے پہلے حرف کے مطابق اپنا نقش منتخب کرکے خود وقتِ مقررہ پر تیار کرسکتا ہے، تیاری کا درست طریقہ بھی تفصیل سے لکھا جارہا ہے، پہلے آپ نقوش ملاحظہ فرمائیے۔





اسم ”علی“ کے اعداد ابجد قمری سے ایک سو دس ہیں اور مفرد عدد دو ہے، ان آٹھوں نقوش کے اندر چار خانوں میں موجود اعداد کی کل میزان 110 ہے، دائرے میں دو مثلث ہیں، درمیانی چھوٹی مثلث میں سیارہ زہرہ کا نشان ہے، اس نقش کو چاندی کی گول پلیٹ پر یا عقیق وغیرہ کی تختی پر لکھا جائے، اس کے علاوہ چاندی کی انگوٹھی پر بھی کندہ کرسکتے ہیں، فوری طور پر اگر یہ سہولت میسر نہ ہو تو ہرن کی جھلّی پر لکھ لیں اور بعد ازاں اس جھلّی کو تعویذ کی طرح تہہ کرکے موم جامہ کریں یا پلاسٹک کوٹڈ کرلیں، چاندی کی انگوٹھی بنوائیں جو نیچے سے بند ہو، اس میں نقش رکھ کر اس کے اوپر عقیق کا نگینہ جڑوالیں، انگوٹھی کو دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں جو سب سے چھوٹی انگلی کے برابر والی انگلی ہے، پہن لیں۔

پہلے 786 کے اعداد لکھیں پھر 110 لکھیں، اس کے بعد 195 اور پھر 278 لکھیں۔

اب اندرونی نقش کو اس طرح مکمل کریں کہ پہلے سب سے کم عدد والا خانہ بھریں یعنی پہلے نقش میں جو الف، ب وغیرہ کا ہے، سب سے چھوٹا عدد 19 ہے لہٰذا پہلے اسے لکھیں پھر 20 پھر 30 اور پھر 41 لکھیں گے، بس نقش مکمل ہوگیا، شروع کرنے سے پہلے اور بعد میں گیارہ گیارہ بار درود شریف پڑھ لیں، کام ختم ہونے پر کچھ سفید مٹھائی پر فاتحہ دیں اور مٹھائی بچوں میں تقسیم کردیں، خود بھی کھائیں، تمام کام علیحدہ کمرے میں کریں، صندل کی خوشبو جلائیں یعنی اگر بتی وغیرہ اور عطر سہاگ(حنا) لباس پر لگائیں، رجال الغیب کا خیال کرکے بیٹھیں، رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا نقشہ ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے، عام لوگوں کی سہولت کے لیے 24 اگست کی شب سے رجال الغیب مغرب کی سمت ہوں گے لہٰذا مشرق کی سمت رُخ کرکے بیٹھنا ہوگا۔

نقش تیار کرنے کے بعد چھپا کر رکھ دیں اور جمعہ کے روز سورج نکلنے کے فوراً بعد ایک سو دس بار یا علی اول و آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر نقش پر دم کریں اور اپنے مقصد کے لیے دعا کریں پھر گلے میں پہن لیں یا بازو پر باندھیں، چھ فقیروں کو اس روز کھانا کھلادیں یا چھ سو روپے خیرات کردیں۔

اب روزانہ کسی وقت اسم الٰہی یا علیُ ایک سو دس مرتبہ مقصد حاصل ہونے تک پڑھ لیا کریں، انشاءاللہ جلد مقصد پورا ہوگا۔

مختلف شہروں کے لیے اوقات

پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق مختلف شہروں کے اوقات میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے، اس لیے اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے دارالحکومت کے مطابق خصوصی اوقات کی نشان دہی کی جارہی ہے،یاد رہے کہ درست وقت کی اہمیت اپنی جگہ نہایت اہم ہے جو لوگ مندرجہ ذیل اوقات پر نقش یا طلسم تیار کرلیں گے وہ حیرت انگیز نتائج بھی ملاحظہ کریں گے۔

اسلام آباد، راولپنڈی اور اردگرد کے قریبی شہروں کے لیے نقش لکھنے کا وقت 24 اگست بہ روز پیر 01:45 am سے 02:25 am تک ہوگا۔

لاہور، فیصل آباد، قصور اور قریبی شہروں کے لیے 01:45am سے 02:25 am تک ہوگا۔

پشاور اور قریبی شہروں کے لیے 01:50 pm سے 02:30 pm تک ۔

کراچی، کوئٹہ اور دیگر قریبی شہروں کے لیے 02:25am سے 03:05 am تک۔

طلسم زہرہ

اس موقع پر زہرہ کا ایک مخصوص طلسم بھی لکھا جاسکتا ہے جو اپنی افادیت میں نہایت اہمیت کا حامل اور لوگوں میں مقبولیت کے لیے تیر بہ ہدف ہے، اسے پاس رکھنے والا دوسروں کی محبت اور خلوص حاصل کرتا ہے، اس سے مزاج میں نرمی پیدا ہوتی ہے، غصے پر کنٹرول کرنے میں کامیابی ہوتی ہے، سوشل حلقوں میں لوگ اسے پسند کرتے ہیں، دوسروں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے، طلسم یہ ہے۔




اس طلسم کی تیاری کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کسی بھی رنگ کے عقیق پر کندہ کیا جائے یا تانبے کی چھوٹی تختی پر لکھا جائے، بعد ازاں سات روز تک سیارہ زہرہ کے سامنے رکھ کر اس کی تنجیم کی جائے اور اس وقت صندل سفید کا بخور جلایا جائے، جب یہ کام مکمل ہوجائے تو طلسم کو عطرِ حنا سے معطر کرکے کسی بھی نوچندے جمعے کو صبح زہرہ کی پہلی ساعت میں اپنے پاس رکھیں اور بعد ازاں 6 کنواری غریب لڑکیوں کی دعوت کریں ، انھیں عمدہ قسم کا کھانا کھلائیں، اگر صاحب توفیق ہیں تو ان کے لیے اس سے زیادہ بھی کچھ کرسکتے ہیں تو ضرور کریں۔

وہ لوگ جو اپنی مصروفیت یا کسی مجبوری کے تحت اسم الٰہی العلی کا نقش اپنے نام کے مطابق تیار نہ کرسکیں یا طلسم زہرہ خود تیار نہ کرسکیں تو وہ براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔


جمعہ، 7 اگست، 2020

امریکا کے بدلتے رنگ اور امریکی انتخاب

صدر ٹرمپ اور مخالف امیدوار جیوبائیڈن کی کامیابی کے امکانات

سپر پاور امریکا نت نئے بحرانوں کی جانب رواں دواں ہے، کورونا وائرس نے امریکی معیشت کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ امریکی صدر مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے بھی نت نئے مسائل پیدا کردیے، ابھی تک امریکا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی ہے،ساتھ ہی پولیس کی زیادتی کا شکار ایک بلیک مین کی موت بھی ٹرمپ حکومت کے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہے،اس حوالے سے امریکا ایک شدید نوعیت کی احتجاجی تحریک کا سامنا کر رہا ہے، داخلی صورت کسی طور بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔

موجودہ سال 2020 امریکا میں انتخابات کا سال ہے،آئین کے مطابق 3 نومبر 2020 ءکو انتخابات ہونا ہیں، صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن اور ملکی صورت حال کے سبب چاہتے ہیں کہ یہ انتخابات آگے بڑھادیے جائیں لیکن کانگریس اسے آئین کے خلاف کہتی ہے اور ہر قیمت پر انتخابات کی مقررہ وقت پر انجام دہی چاہتی ہے،گویا ایک تنازع یہ بھی سر اٹھا رہا ہے، اس حوالے سے سب سے پہلے امریکا کے زائچے کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد انتخابات میں حصہ لینے والے دونوں صدارتی امیدواروں کے زائچے پر بات ہوگی۔




جیسا کہ ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ امریکا کا درست زائچہ 2 فروری 1781 ءشام 5 بجے بمقام اناپولس ہے، زائچے میں برج سرطان کے 20 درجہ طلوع ہیں، گویا زائچے کا ہر خانہ یا گھر 20 درجہ سے شروع ہوتا ہے، تازہ صورت حال میں سیارہ شمس کا دور اکبر جاری ہے جس میں 26 جنوری 2020 ءسے سیارہ عطارد کا دور اصغر 2 دسمبر 2020 تک جاری رہے گا جو امریکا کے لیے مددگار پیریڈ ہے، اس کے بعد کیتو کا دور اصغر شروع ہوگا جو یقیناً موجودہ دور کے مقابلے میں ناموافق اثرات کا حامل اور ملک میں مزید انتشار اور افرا تفری کا باعث ہوسکتا ہے۔

 شمس اور عطارد زائچے میں اچھی اور مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں لیکن سیاروی گردش شروع سال ہی سے مخالف اور چیلنجنگ رہی ہے،تازہ صورت حال میں یکم اگست سے چوتھے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ راہو کے ساتھ قران کی حالت میں تھا، گویا داخلی معاملات میں انتشار کی نشان دہی ہورہی تھی، سیارہ مشتری زائچے کے چھٹے گھر میں موجود ہے جب کہ سیارہ زحل ساتویں گھر برج جدی میں، واضح رہے کہ برج سرطان طالع برج ہو تو راہو کیتو کے علاوہ مشتری اور زحل زائچے کے فعلی منحوس سیارے ہوجاتے ہیں، اس سال اپریل، مئی جون تین ماہ تک دونوں فعلی منحوس برج جدی میں تقریباً حالت قران میں رہے ہیں جس کی وجہ سے امریکا میں بھی ان دونوں کی نحوست کے اثرات محسوس کیے گئے۔

اہم ترین نظر (Aspect) جو امریکا کی داخلی صورت حال کو مزید پیچیدہ اور چیلنجنگ بناسکتی ہے،وہ سیارہ مشتری کی مستقیم پوزیشن ہوگی، اس نظر کا آغاز تو اگست کے دوسرے ہفتے سے ہوجائے گا یعنی پیدائشی زائچے کا سیارہ زہرہ چوں کہ چھٹے گھر برج قوس میں ہے اور مشتری بھی برج قوس میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے لہٰذا اگست تا اکتوبر مشتری سیارہ زہرہ کو بری طرح متاثر کرے گا جس کے نتیجے میں ملک میں اختلافات اور احتجاجی لہر تیز ہوسکتی ہے اور مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کو انتخابات ملتوی کرنے کاجواز مل سکتا ہے، اس عرصے میں ستمبر کے آخر سے ایک اور بڑی تبدیلی راہو کیتو کا گھر تبدیل کرنا ہے، راہو اپنے شرف کے برج ثور میں اور کیتو عقرب میں داخل ہوں گے اور چوں کہ برج عقرب میں سیارہ زحل تقریباً 26 ڈگری پر موجود ہے لہٰذا راہو کیتو پیدائشی زحل کو متاثر کریں گے اور دو فعلی منحوس کسی بڑے حادثے یا سانحے کا باعث بن سکتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ امریکن زائچہ آنے والے مہینوں میں مختلف نوعیت کے سخت ترین چیلنج سامنے لاسکتا ہے،عالمی صورت حال کسی بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے،دنیا معاشی بحران کے ساتھ ساتھ باہمی تنازعات کے سبب ایک مسلسل معرکہ آرائی کی جانب بڑھ رہی ہے،امریکا اس صورت حال سے خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتا، اس طرح سے داخلی اور خارجہ محاذوں پر امریکا کے لیے بہت بڑے بڑے چیلنج موجود ہیں۔

عزیزان من! امریکی زائچے کے اس پس منظر کے ساتھ امریکی الیکشن مزید اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں،دنیا بھر کے دانش ور اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ امریکا کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرنے کا سبب موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں اور شاید اسی وجہ سے وہ آج مقبولیت کے اس مقام پر نہیں ہیں جہاں پہلے کبھی تھے، اس کمزور پوزیشن میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ شاید دوسری بار منتخب نہ ہوسکیں لیکن ان کے ہمدرد اور حمایتی خیال کرتے ہیں کہ انھوں نے امریکا کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے اور ان کی پالیسیوں کو تسلسل ملنا چاہیے، ان کے مخالف امیدوار ڈیموکریٹک پارٹی کے جیوبائی©ڈن ہیں، سیاسی دانش ور جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے بلکہ دونوں امیدواروں کے پیدائشی زائچوں کا تجزیہ کریں گے اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ اس انتخابی مقابلے میں کس امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

زائچہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ




مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کی تاریخ پیدائش 14 جون 1946 ہے، وہ جمیکا میں 10:54 am پر پیدا ہوئے گویا طالع پیدائش 6 درجہ 51 دقیقہ برج اسد ہے، مسٹر ٹرمپ کے زائچے پر تفصیلی مضمون گزشتہ سال ہم نے لکھا تھا جس میں ان کے مزاج اور فطرت وغیرہ پر روشنی ڈالی تھی، ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا تھا کہ سال 2020 ان کے لیے بہت اچھا سال نہیں ہوگا اور وہ اس سال سخت حالات کا سامنا کریں گے، چناں چہ یہی کچھ ہورہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے زائچے میں دور اکبر سیارہ مشتری کا جاری ہے،مشتری اور عطارد ان کے زائچے کے نہایت مضبوط اور فعلی سعد سیارے ہیں، گزشتہ الیکشن انھوں نے مشتری کے دور اکبر اور سیارہ مریخ کے دور اصغر میں جیتا، سیارہ مریخ ان کے نویں گھر کا حاکم اور طالع اسد میں موجود ہے، طالع کے درجات سے قریبی قران رکھتا ہے گویا قسمت ہمیشہ سے ان پر مہربان رہی ہے۔

اس سال وہ مشتری کے دور اکبر میں سیارہ زحل کے دور اصغر سے گزر رہے ہیں، زحل اگرچہ ساتویں گھر کا مالک ہے اور فعلی سعد اثر رکھتا ہے لیکن زائچے میں بارھویں گھر میں سیارہ زہرہ کے ساتھ ہے اور کمزور ہے۔

زائچے کے چوتھے گھر میں کیتو کے ساتھ بارھویں گھر کا حاکم جو فعلی منحوس ہے ، حالت قران میں ہے جب کہ دسویں گھر میں سیارہ شمس جو ان کا ذاتی سیارہ ہے، راہو کے ساتھ نہ صرف قران میں ہے بلکہ بارھویں گھر کے حاکم فعلی منحوس قمر کی نظر بد کا بھی شکار ہے،ایسے لوگ اپنے مفادات کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ جائز اور ناجائز میں تمیز نہیں کرتے،ستمبر کے آخر سے راہو کیتو جب گھر تبدیل کریں گے تو چوتھے اور دسویں گھر میں موجود سیارگان کو بری طرح متاثر کریں گے جس کے سبب ان کی صحت بھی بری طرح متاثر ہوسکتی ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں مسلسل شدید نوعیت کے ذہنی دباو¿ کا شکار ہیں اور یہ صورت آئندہ بھی الیکشن کے نتائج آنے تک رہے گی۔

اگر ہم تین نومبر 2020 یعنی الیکشن ڈے پر سیاروی گردش کا جائزہ لیں تو اس وقت مسٹر ٹرمپ کے زائچے کی صورت حال کچھ یوں ہوگی، شائقین 3 نومبر 2020 ءبمقام واشنگٹن صفر بج کر صفر منٹ شب کا زائچہ بناکر اس وقت کی سیاروی پوزیشن کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

مشتری کے دور اکبر میں زحل کا دور اصغر جاری ہوگا، زحل بہر حال کمزور پوزیشن رکھتا ہے،ان کا اپنا سیارہ شمس اس وقت اپنے برج ہبوط میزان میں ہوگا جب کہ تیسرے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ بھی اپنے برج ہبوط سنبلہ میں ہوگا، پیدائشی شمس و قمر راہو کیتو سے متاثرہ ہوں گے اور قمر بھی دسویں گھر میں متاثرہ ہوگا، پیدائشی مشتری پر بھی راہو کی طاقت ور نظر ہوگی، یہ صورت حال ان کی کامیابی کے امکانات کو مشکوک بناتی ہے لیکن مسٹر ٹرمپ کی لغت میں ناممکن کا لفظ نہیں ہے، منفی انانیت انتہا درجے پر ہے، سابقہ الیکشن میں بھی بعد کی اطلاعات کے مطابق انھوں نے کامیابی حاصل کرنے کے لیے ایسے ذرائع سے مدد لی تھی جن پر مسلسل تنقید ہوتی رہی، اس بار بھی وہ ایسا کوئی کام کرسکتے ہیں کہ اگر انتخابات ملتوی نہ ہوسکے تو وہ کوئی بھی خطرہ مول لے کر فاتح بننے کی کوشش کرسکتے ہیں، ان کی جیت کے لیے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے مخالف امیدوار جیوبائیڈن کا زائچہ بھی بہت زیادہ مضبوط پوزیشن کا حامل نہیں ہے،مزید یہ کہ ان کے خاندان پر کرپشن کے الزامات بھی موجود ہیں۔

آئیے مسٹر جیوبائیڈن کے زائچے کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔

زائچہ مسٹر جیو بائیڈن




مسٹر جیوبائیڈن کی تاریخ پیدائش 20 نومبر 1942 ہے، وہ صبح 07:30 am پر پینسلوانیا کے شہر اسکرنٹن (Scranton) میں پیدا ہوئے، طالع برج میزان کے 28 درجہ 18 دقیقہ زائچے میں طلوع ہیں اور برج میزان میں مریخ کے علاوہ سیارہ عطارد بھی موجود ہے، دوسرے گھر میں شمس اور زہرہ تقریباً قران کی حالت میں ہےں یعنی زہرہ غروب ہے، کیتو پانچویں گھر میں جب کہ قمر برج حمل میں اور زحل آٹھویں گھر برج ثور میں ہے، سیارہ مشتری دسویں گھر برج سرطان میں ہے جب کہ راہو برج اسد میں ہے اور سیارہ قمر کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

طالع برج میزان کے لیے راہو کیتو کے علاوہ سیارہ عطارد فعلی منحوس اثر رکھنے والا سیارہ ہے جو زائچے کے پہلے گھر میں طالع کے درجات سے حالت قران میں ہے اور ساتویں گھر کو بھی بری طرح متاثر کر ر ہے جس کے نتیجے میں ان کی پہلی بیوی ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگئی تھیں۔

زائچے میں اگرچہ دسویں گھر میں قابض شرف یافتہ مشتری کا دور اکبر جاری ہے لیکن مشتری ابتدائی درجات پر ہونے کے سبب کمزور ہے،مشتری کے دور اکبر میں راہو کا دور اصغر جاری ہے جو کسی طرح بھی امید افزا بات نہیں ہے اور راہو کی نظر دسویں گھر کے حاکم قمر پر ہے، اگر کسی انہونی کے نتیجے میں وہ الیکشن میں کامیاب ہوگئے تو دنیا میں طالع میزان کے حامل تیسرے سربراہ مملکت ہوں گے، ان سے پہلے دو میزانی سربراہ مملکت پاکستان کے عمران خان اور روس کے صدر پیوٹن ہیں، اتفاق یہ کہ عمران خان کا قمری برج بھی حمل ہے۔

3 نومبر کو الیکشن ڈے پر ان کا اپنا سیارہ زہرہ برج ہبوط میں بارھویں گھر میں ہوگا جب کہ گیارھویں گھر کا حاکم شمس برج میزان میں برج ہبوط میں ہوگا، دسویں گھر کا حاکم سیارہ قمر آٹھویں گھر میں راہو کے ساتھ ہوگا، قمر کی راہو کے ساتھ یہ پوزیشن ان کی کامیابی کے حوالے سے کسی وقت بھی کوئی ناگوار ٹرننگ پوائنٹ لاسکتی ہے،ساتویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ چھٹے گھر میں ہوگا اور کیتو کی نظر اس پر ہوگی،مزید خرابی یہ ہے کہ راہو کیتو زائچے کے دوسرے ، چوتھے ، چھٹے ، آٹھویں ، دسویں اور بارھویں گھر کو متاثر کر رہے ہوں گے، چناں چہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ نہایت آسانی سے انتخاب جیت کر امریکا کے نئے صدر بن جائیں گے حالاں کہ صدر ٹرمپ کے زائچے کی جو خرابیاں ہیں اور حالات نے ان کی مقبولیت میں جو کمی پیدا کی ہے ، اگر ڈیموکریٹک پارٹی کوئی ایسا امیدوار سامنے لاتی جس کا زائچہ زیادہ مضبوط پوزیشن رکھتا ہو تو مسٹر ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات تقریباً ختم ہوجاتے لیکن مسٹر جیوبائیڈن کا زائچہ اتنا مضبوط نظر نہیں آتا کہ وہ آسانی سے ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست دے سکیں، اپنی بہت سی کمزوریوں کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں،البتہ اس صورت حال کو امریکا کے زائچے سے ظاہر ہے ،نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابی نتائج انتہائی متنازع صورت اختیار کرلےں اور دونوں پارٹیاںاپنی ناکامی کی صورت میں انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں،ایسی صورت میں ماضی کی ایک مثال صدر بش اور الگور کا الیکشن ہے جس کا فیصلہ بعد ازاں عدالت میں ہوا تھا (واللہ اعلم بالصواب)