ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

2017 
 تبدیلی اور ایک نئے آغاز کا سال 
آئندہ ڈھائی سال حکمرانوں کے لیے سخت اور مشکل ہوسکتے ہیں
نیا سال 2017 ءکا مفرد عدد 1 ہے، عدد 1 کو نئے آغاز یا کسی نئے کام کی ابتدا کا عدد کہا جاتا ہے، ایسے سالوں میں عموماً عام لوگوں کی زندگی میں بھی اور ملکوں کے حالات میں بھی کوئی نئی روایت یا کوئی نئی بنیاد ڈالی جاتی ہے،اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو اس سے پہلے ایک نمبر کے زیر اثر سال 2008 ءتھا جس میں الیکشن ہوئے، ایک نیا جمہوری سیٹ اپ تیار ہوا اور دس سال سے جاری ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوا، تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو 1999 ءبھی 1 نمبر کا سال ہے،اس سال ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہوا ، اس سے پہلے 1990 ءکو اگرچہ ایک جمہوری دور کہا جاتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی گرفت بہت مضبوط تھی لہٰذا محترمہ شہید کی جمہوری حکومت 6 اگست 1990 ءکو ختم کردی گئی اور نئے الیکشن کے نتیجے میں پہلی بار جناب نواز شریف وزیراعظم بنے، مزید پیچھے چلے جائیں تو 1981 ءایسا سال ہے جس میں ہم پوری طرح امریکن کیمپ میں شامل ہوکر افغان جنگ میں بھرپور طریقے سے شریک ہوئے، مزید عدد 1 کے اثرات کا مشاہدہ 1972 ءمیں ہوگا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان دولخت ہونے کے بعد ایک سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے حکومت کا آغاز کیا اور اسی سال نئے آئین کی تیاری کا آغاز بھی ہوا۔
عزیزان من!: عدد ایک کے زیر اثر سال کے لیے یہ تاریخی ثبوت و شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سال کوئی بڑی تبدیلی اور کوئی نیا آغاز لاتا ہے، یہ تبدیلی یا آغاز مثبت ہوگا یا منفی اس کے بارے میں کچھ کہنا خاصا مشکل کام ہے،اعداد کی پراسرار قوتوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مرکب اعداد پر غور کیا جائے جن سے مفرد عدد حاصل ہورہا ہو، 2017 ءکا مجموعہ 10 ہے، مرکب 10 کا عدد قسمت کا نیا موڑ یا قسمت کا چکر ظاہر کرتا ہے جو منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی، عام طور پر مثبت نتائج کے لیے صورت حال کو مثبت ہونا چاہیے اور منفی نتائج اُس وقت سامنے آتے ہیں جب صورت حال پہلے ہی مکمل طور پر منفی ہو، اپنے ملکی حالات کی مثبت یا منفی صورت حال سے ہر شخص واقف ہے۔
 نیا زائچہ ءپاکستان
اب تک روایت یہ رہی ہے کہ نئے سال کا زائچہ زیر بحث رہا ہے، اس بار روایت کے خلاف پاکستان کا نیا زائچہ پیش نظر ہے جو 20 دسمبر 1971 ءسہ پہر 02:58:20 pm اسلام آباد کے مطابق ہے، یہ وہ وقت ہے جب سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا ، جنرل یحیٰ خان نے اقتدار جناب ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کیا تھا۔
زائچے میں برج ثور کے 3 درجہ 33 دقیقہ طلوع ہےں، زحل زائچے کے پہلے گھر میں مضبوط پوزیشن رکھتا ہے،دوسرے اور پانچویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد بھی زائچے میں ساتویں گھر میں باقوت ہے،تیسرے گھر کا حاکم قمر نویں گھر میں اگرچہ اچھی پوزیشن رکھتا ہے لیکن چھٹے گھر کے منحوس حاکم زہرہ سے متاثرہ ہے،چوتھے گھر کا حاکم شمس کمزور ہے اور زائچے میں آٹھویں گھر میں مصیبت میں ہے، ملکی زائچے میں چوتھا گھر عوام اور اپوزیشن کا ہے،ابتدا ہی سے یہ دونوں مصیبت میں ہیں، ساتویں گھر کا حاکم زہرہ نویں گھر میں ہے اور کمزور ہے، نویں اور گیارھویں کا حاکم مشتری اگرچہ اچھی جگہ ہے لیکن کمزور ہے،نویں دسویں کا حاکم زحل مضبوط ہے لیکن راہو کی معمولی سی نظر اس پر ہے،بارھویں کا حاکم مریخ گیارھویں گھر میں کمزور ہے،راہو کیتو زائچے کے نویں اور تیسرے گھر میں ہےں۔
سیارہ مریخ ، مشتری اور زہرہ کے علاوہ راہو اور کیتو اس زائچے کے لیے منحوس اثر رکھنے والے نقصان دہ سیارگان ہیں جب کہ عطارد ، قمر ، شمس اور زحل سعد اثر رکھنے والے سیارگان ہیں اور ان کے سعد اثرات زائچے میں موجود ہیں جب کہ نحس سیارگان کے نحس اثرات میں مریخ اور زہرہ کے اثرات نمایاں ہیں، خصوصاً زہرہ اور مریخ زائچے کے اہم گھروں سے ناظر ہیں، زہرہ تیسرے اور نویں گھر سے جس کے نتیجے میں آئینی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا پلہ بھاری رہتا ہے، مریخ زائچے کے دوسرے ، پانچویں ، چھٹے اور گیارھویں گھر کو ناظر ہے لہٰذا معاشی عدم استحکام اور اس کی وجہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے بھاری اخراجات جو ناجائز حدود تک پھیل جاتے ہیں، پانچویں گھر پر مریخ کی نظر شعوری طور پر کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کا رجحان لاتی ہے،چھٹے گھر پر مریخ کی نظر اس زائچے میں ملکی اہم اداروں میں عدم استحکام پیدا کرتی ہے،گیارھواں گھر پارلیمنٹ اور ملکی مفادات کا ہے،سو اس حوالے سے کسی خاص وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
سیارہ زحل چوں کہ زائچے کے دسویں گھر کا حاکم ہے اور دسواں گھر ملک کے سربراہ (صدر یا وزیراعظم) اورکابینہ کی نشان دہی کرتا ہے، اگرچہ زحل طاقت ور ہے اور اچھی پوزیشن میں ہے لیکن راہو کی نظر اس پر موجود ہے،راہو کو سیاست کا ستارہ کہا جاتا ہے،مزید یہ کہ راہو ہوشیاری ، چالاکی، مکاری اور آئین سے ماورا دلچسپیوں اور سرگرمیوں کی نشان دہی کرتا ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ 1971 ءکے بعد سے ہمارے ملک میں سیاست ایک مشن کے بجائے کاروبار بن چکی ہے،کوئی جمہوری دور ہو یا فوجی، آج تک کوئی بھی سربراہ اور اس کی کابینہ ایسی نہیں ہے جسے ذاتی مفادات میں ملوث نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا جاسکے بلکہ روز بہ روز اس حوالے سے صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے،آج پورا ملک ہر سطح پر کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا نظر آتا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا، الا ماشاءاللہ۔
دور اکبر اور اصغر کے اثرات
پاکستان کے زائچے میں یکم دسمبر 2008 ءسے مشتری کا دور اکبر جاری ہے جس کا خاتمہ یکم دسمبر 2024 ءکو ہوگا، اس کے بعد سیارہ زحل کا دور اکبر شروع ہوگا جو 19 سال رہے گا، امید رکھنا چاہیے کہ یہ دور پاکستان کی ترقی اور عروج کا دور ہوگا،بین الاقوامی معاشرے میں پاکستان کا کوئی مثبت کردار سامنے آسکے گا، اس کے بعد 17 سال کا دور عطارد بھی ترقی اور خوش حالی کا دور ہوگا کیوں کہ زحل اور عطارد دونوں زائچے کے سعد اثر دینے والے اور مضبوط سیارگان ہیں۔
اس سے پہلے راہو کا 18سالہ دور 2 دسمبر 1990 ءسے شروع ہوا تھا جس میں سیاسی ہیرا پھیریاں اور نت نئے جمہوری تماشے دیکھنے میں آئے، راہو سیاست ، چال بازی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیتا ہے لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ 1991 ءہی سے جھوٹ فریب اور کرپشن کا بھرپور انداز میں آغاز ہوا ، حکمران حلقے دیکھتے ہی دیکھتے کھرب پتی بن گئے، ہماری سیاسی اشرافیہ نے اس دور میں جو ”شہرت“ کمائی، وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسی دور میں چھانگا مانگا کا نام مشہور ہوا اور مسٹر 10% کا خطاب بھی سامنے آیا، اسمبلیوں میں ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔
بالآخر 1999 ءمیں جمہوری بساط لپیٹ دی گئی اور ایک نئی طرز کی جمہوری بساط بچھائی گئی جو ڈکٹیٹر شپ کے زیر سایہ پروان چڑھی، راہو کا دور اکبر جاری تھا لہٰذا ہیر پھیر ، کرپشن اور فریب اس دور میں بھی نمایاں رہا، امریکیوں کو مطلوب افراد کی ڈالروں میں خریدوفروخت ہوئی،اسٹاک ایکسچینج کریش کرایا گیا اور بھی دیگر نمایاں نوعیت کے ”کارنامے“ اس دور سے منسوب ہیں، اسی دور میں دو مرتبہ این آر او جیسی اصطلاحات بھی سامنے آئیں۔
سیارہ مشتری زائچے کا سب سے زیادہ منحوس سیارہ ہے،3 دسمبر 2008 ءسے زائچے میں سیارہ مشتری کا دور اکبر اور دور اصغر شروع ہوا،ملک میں جمہوری نظام آچکا تھا، ڈکٹیٹر شپ ختم ہوچکی تھی لیکن دور کی خرابی نے ملک و قوم کو سنبھلنے نہ دیا،جمہوری دور نے اگرچہ 5 سال مکمل کیے لیکن ملک و قوم کی بہتری کا عمل شروع نہیں ہوسکا، 5 سالہ جمہوری دور شدید نوعیت کے تنازعات اور اختلافات کا شکار رہا، اسی دور میں میموگیٹ اسکینڈل ، سانحہ ایبٹ آباد، دہشت گردی کا ایک طوفان اور ایک وزیراعظم کی برطرفی کا واقعہ بھی پیش آیا۔
2 اگست 2013 ءسے مشتری ہی کے دور اکبر میں سیارہ عطارد کا دور اصغر شروع ہوا اور عطارد چوں کہ زائچے کا سعد اور مضبوط سیارہ ہے لہٰذا اسی دور میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔
زائچہ پاکستان میں گزشتہ سال 14 اکتوبر سے مشتری (زائچے کا سب سے منحوس سیارہ) کے دور اکبر میں سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،دو منحوسوں کے ادوار میں کسی خیر کی توقع نہیں ہونی چاہیے،زہرہ زائچے میں طالع کے علاوہ چھٹے گھر کا بھی حاکم ہے،چھٹا گھر فتنہ و فساد ، اختلاف رائے، تنازعات کو جنم دیتا ہے،اس گھر کی دیگر بنیادی منسوبات میں فوج ، بیوروکریسی ، عدلیہ اور الیکشن کی کارروائی شامل ہے، زہرہ کا دور اصغر 15 جون 2019 ءتک جاری رہے گا گویا مشتری آٹھویں گھر کی منسوبات اور زہرہ چھٹے گھر کی منسوبات پر زور رہے گا، اس حوالے سے 2017 ءکو نئے انتخابات کا سال بھی کہا جاسکتا ہے اور دوسری صورت میں اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں ایسی صورت حال بدستور جاری رہے جس میں حقیقی قوت و اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہو، زہرہ کا دور زائچہ ءپاکستان میں جب آپریشنل ہوتا ہے تو انتخابات کے امکانات کے ساتھ سخت نوعیت کی ایڈمنسٹریٹیو سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں، سرحدی معاملات میں بھی جنگ کسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے، جیسا کہ دیکھنے میں آرہی ہے،اس حوالے سے بھی 2017 ءایک غیر معمولی اثرات کا حامل سال ہوگا، خصوصاً سال کے وہ حصے جب سیاروی ٹرانزٹ زائچے کے مخصوص گھروں کو متاثر کریں گے،اس کی نشان دہی آگے چل کر کی جائے گی۔
2017 
میں سیاروی پوزیشن
نئے سال کے آغاز میں راہو چوتھے گھر ، مشتری پانچویں گھر، زحل ساتویں، عطارد اور شمس آٹھویں، قمر نویں جب کہ زہرہ، مریخ اور کیتو دسویں گھر میں ہوں گے، سیارہ زحل سال کے ابتدائی حصے ہی میں آٹھویں گھر میں داخل ہوجائے گا، دسویں گھر کے حاکم کا آٹھویں گھر میں قیام ملکی عزت و وقار اور حکومت یا سربراہ حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی جمہوری حکمران سکون و چین سے حکومت نہیں کرسکے گا،اس کے لیے مشکلیں اور مصیبتیں بڑھ جائیں گی، اس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اب تک وزیراعظم اور ان کی کابینہ درپیش چیلنجز سے کسی نہ کسی طور نمٹتے رہے ہیں لیکن آئندہ سال میں شاید یہ ممکن نہ ہوسکے، خصوصاً اس حوالے سے جون کے آخر سے اگست کے آغاز تک نہایت سخت وقت ہوگا، ملک نئے الیکشن کی طرف جائے گا یا کوئی عبوری سیٹ اپ بنایا جائے گا؟ اس کا انحصار کلیدی کردار ادا کرنے والی قوتوں کی صوابدید پر ہوگا۔
 پاکستان کو بھی آئندہ تقریباً ڈھائی سال تک جب تک زحل کا قیام آٹھویں گھر میں رہے گا، اپنی ساکھ کو برقرار رکھنا خاصا مشکل ہوگا، سیارہ زحل تقریباً جون کے آخر تک برج قوس میں رہنے کے بعد پھر واپس برج عقرب میں آجائے گا لیکن یہ اس کا مختصر قیام ہوگا، سال کے آخر تک دوبارہ برج قوس میں چلا جائے گا جہاں اس کا قیام خاصا طویل ہوگا۔
زائچے کی مجموعی پیدائشی پوزیشن پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں، یہ بھی نشان دہی ضروری ہے کہ ہر سال پاکستان کے لیے چند مہینے نہایت سختی اور مسائل کی زیادتی کے ہوتے ہیں، ان مہینوں میں 15 اپریل سے 15 مئی تک کا وقت نقصانات ، رکاوٹیں اور دیگر مسائل لاتا ہے،اس کے بعد 15 اکتوبر سے 15 نومبر تک تقریباً نت نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اختلافی صورت حال اپنوں سے یا غیروں سے، باہمی تنازعات ، مختلف بیماریوں اور وباو ¿ں کا زور اور 15 دسمبر سے 15 جنوری کے درمیان کا عرصہ بھی رکاوٹیں، حادثات اور کاموں میں خرابیاں لانے کا باعث ہوتا ہے،ہمارے اس تجزیے کا تجربہ ماضی کی تاریخ کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
جنوری
نئے سال کے زائچے کی روشنی میں جنوری کا مہینہ ابتدا میں یقیناً کچھ مسائل وزیراعظم کے لیے اور اپوزیشن کے لیے پیدا کرے گا لیکن وہ خوش اسلوبی سے نمٹائے جاسکیں گے، البتہ جنوری کا آخری ہفتہ زیادہ ہنگامہ خیز اور اختلافی مسائل کو جنم دینے والا ہوگا، اس وقت میں حکومت و ریاست مخالف کارروائیاں بھی دیکھنے میں آسکتی ہیں۔
فروری
فروری اس سال کا نہایت موافق اور سپورٹنگ مہینہ ہوگا کیوں کہ سیارگان زائچے میں بہتر گھروں میں پوزیشن رکھتے ہوں گے،حکومت کے مثبت اقدامات سامنے آئیں گے اور ملک میں افہام و تفہیم کی فضاءبرقرار رہے گی،البتہ شوبزنس اور تعلیمی امور کے علاوہ نشرواشاعت کے اداروں کو نئے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مارچ
مارچ کے مہینے کو بھی اس حوالے سے ایک مثبت اور موافق مہینہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دوران میں کوئی ایسی صورت حال بہر حال پیدا نہیں ہوگی جو حالات میں کوئی بڑا بھونچال پیدا کرے، اس مہینے میں ضرورت کے مطابق قانون سازی اور نئے آرڈیننس جاری ہوسکتے ہیں لیکن یہ قومی اور عوامی مفاد میں نہیں ہوں گے، اس مہینے میں بھی شوبزنس ، تعلیمی امور یا درس گاہیں اور نشرواشاعت کے ادارے متاثر ہوسکتے ہیں، پارلیمنٹ سے متعلق سرگرمیاں بھی ہدف و تنقید کا نشانہ بنیں گی۔
اپریل
اپریل سے ایک غیر معمولی وقت کا آغاز ہورہا ہے،خصوصاً 15 اپریل کے بعد سے نت نئے مسائل سر اٹھائیں گے،نئے تنازعات کا کوئی پنڈورا بکس کھل کر عوامی توجہ حاصل کرے گا، سیاسی اور فوجی حلقوں کے درمیان کوئی نئی کشمکش شروع ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ حادثات و سانحات کے حوالے سے بھی نئے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں، پاکستان مخالف عناصر زیادہ شدت کے ساتھ کارروائیاں کرسکتے ہیں، بیرون ملک یا پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوں گی، بین الاقوامی تنازعات کوئی نیا رُخ اختیار کریں گے۔
مئی
اپریل میں پیدا ہونے والے مسائل پر مئی تک قابو پایا جاسکے گا مگر معاشی ، انتظامی اور حکومتی مسائل مکمل طور پر قابو میں نہیں آئیں گے،عارضی طور پر جو روک تھام کی جائے گی، وہ پائیدار نہیں ہوگی خصوصاً عوامی مسائل جوں کے توں رہیں گے،مئی کے مہینے کو سال کا نہایت اہم اور منفی مہینہ سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس مہینے میں قدرتی اور غیر قدرتی آفات و حادثات کے امکانات موجود ہیں، مزید یہ کہ اسی مہینے میں بجٹ کی گرما گرمی بھی شروع ہوتی ہے۔
جون
جون کا مہینہ حسب سابق رمضان المبارک کی سعادتوں سے بھرپور ہوگا لیکن اپریل اور مئی میں جن مسائل اور تنازعات کی ابتدا ہوئی ہے، ان کی بازگشت جون میں بھی سنائی دیتی رہے گی، بجٹ عوامی امنگوں اور توقعات کے مطابق نہیں ہوگا اور اس حوالے سے حکومت پر زبردست تنقید کی جاسکتی ہے۔
جولائی
جولائی کے مہینے میں ملکی حالات میں کوئی غیر معمولی صورت حال بظاہر نظر نہیں آتی، البتہ گزشتہ مہینوں کے مسائل ہی جولائی میں بھی زیر بحث رہےں گے لیکن جولائی اس اعتبار سے نہایت اہم ثابت ہوگا کہ بعض حکومت مخالف سرگرمیاں اور ملک دشمن کارروائیاں سامنے آسکتی ہیں، حکومت مخالف ایجنڈا آئندہ مہینوں تک جاری رہے گا۔
اگست
حسب معمول اگست کا مہینہ نئی تبدیلیوں اور نئے امکانات کی داغ بیل ڈالے گا، اگست میں پاکستان کا یوم آزادی بھی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ اگست ہی سے نئے واقعات کا ظہور شروع ہوتا ہے، اس مہینے میں راہو کیتو اور سیارہ مشتری ویدک سسٹم کے مطابق گھر تبدیل کریں گے اور یہ تبدیلی یقیناً ملکی سطح پر بھی دوررس نتائج مرتب کرے گی، اپریل سے جن مسائل کا یا تنازعات کا آغاز ہوگا وہ اگست تک اپنی انتہا کو پہنچ جائیں گے، کسی مشہور مقتدر ہستی سے متعلق اسکینڈل شدید بدنامی اور رسوائی کا باعث بنے گا۔
ستمبر
ستمبر سے ایک بار پھر تبدیلی کی نئی لہر کا آغاز ہوگا، خصوصاً سول سروسز میں خاصی اکھاڑ پچھاڑ ہوسکتی ہے،مزید یہ کہ اس دوران میں بعض عدالتی فیصلے اور نئے الیکشن سے متعلق معاملات بھی نمایاں ہوں گے، مستقبل سے متعلق نئے منصوبے سامنے آئیں گے،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناو ¿ کی کیفیت بڑھ جائے گی۔
اکتوبر
اکتوبر کا مہینہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادتی لاسکتا ہے،دیگر حادثات کا بھی امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس مہینے کو ملک و قوم کے لیے نقصانات اور مسائل کا مہینہ کہا جاسکتا ہے، حکومتی سطح پر جو صورت حال جاری تھی ، وہ بدستور جاری رہے گی۔
نومبر
اگست،ستمبر سے تبدیلی کی جو لہر شروع ہوگی، وہ نومبر تک اپنے عروج تک پہنچ جائے گی، خاص طور پر نومبر کے آخری ہفتے میں بہت سی نئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی،ان تبدیلیوں کا تعلق فوج اور بیوروکریسی اور عدلیہ سے ہوگا، خطرہ ہے کہ اس دوران میں بعض نامناسب فیصلے سامنے آئیں گے جو مستقبل کے لیے فائدہ بخش ثابت نہیں ہوں گے۔
دسمبر
دسمبر عام طور پر پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا مہینہ ثابت ہوتا رہا ہے جس میں بعض اہم معاملات اپنے انجام کو پہنچتے ہیں اور پھر ہم ایک نئے آغاز کی طرف سفر شروع کرتے ہیں لیکن بہر حال دسمبر ایک اطمینان بخش مہینہ نہیں ہوتا، تقریباً تمام ہی کاموں میں اس دوران میں التوا اور رکاوٹیں سامنے آتی ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری


جنوری کی فلکیاتی صورت حال، مشکلات اور نئے مسائل کا مہینہ
برسوں گزر گئے، جاتے ہوئے سالوں کو رخصت کرتے ہوئے اور آنے والے سال کا استقبال کرتے ہوئے،ہر بار روایتی سے جملے ذہن میں آتے ہیں، رخصت ہونے والے سال کی تباہ کاریاں، سختیاں اور مصیبتیں یاد آتی ہیں اور آنے والے سال کے بارے میں دعائے خیر کی جاتی ہے کہ ساری دنیا کے لیے خوشیاں لائے، لوگوں کے مسائل حل ہوں، وہ امن و آشتی کے ساتھ زندگی گزاریں مگر عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے،جب نئے سال کی رخصتی کا وقت آتا ہے تو پھر ہم ان زخموں کا شمار کرنے بیٹھ جاتے ہیں جو رخصت ہونے والے سال نے دیے ہوتے ہیں، بس یہی گردشِ ماہ و سال صدیوں سے جاری و ساری ہے،اس حوالے سے کسی زمانے کی کوئی قید نہیں ہے،شاید ہر زمانے میں لوگ اسی روایت پر عمل کرتے چلے آئے ہیں، شاید یہی نظام قدرت ہے جس میں صدیوں سے مخلوق خدا کائناتی مظاہر و مصائب سے نبرد آزما ہے،لوگ آتے ہیں اور اپنی باری پوری کرکے چلے جاتے ہیں،بالکل اسی طرح ہر نیا سال بھی اپنی باری پوری کرتا ہے اور چلا جاتا ہے، ہم ہر سال کے صبح و شام ، دن اور رات کا شمار کرتے کرتے آخر خود بھی ایک روز دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، کیا یہی زندگی ہے؟
جی ہاں! زندگی تو یہی کچھ ہے لیکن اسی زندگی میں لوگ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے اپنا نام دنیا کی تاریخ میں اس طرح رقم کرادیتے ہیں کہ آنے والی دنیا انہیں کبھی نہیں بھولتی، زمانہ کوئی بھی ہو،حالات کیسے بھی ہوں، وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں ان کا ایک خاص مقام بن جاتا ہے، قبل از مسیح کے افلاطون، سقراط، بقراط، سائرس اعظم، بخت نصر، سکندر، بطلیموس ہوں یا بعد از مسیح کے مصلحین و فاتحین ہوں، ان کی زندگیاں بھی ایسی ہی تھیں جیسی ہماری ہیں، ان کے مسائل بھی ہمارے جیسے ہی یا ہم سے ملتے جلتے تھے ، غمِ جاناں، غمِ ہستی، غم روزگار سے وہ بھی ہماری طرح آزاد نہیں تھے،پھر بھی انہوں نے ایسے کام کیے جو آج بھی لوگ ان کا نام جانتے اور انہیں پہچانتے ہیں،چناں چہ زندگی گزارنے کے دو ڈھنگ ہمارے سامنے ہیں، ایک تو یہی کہ پیدا ہوئے، شادی کی، بچے پیدا کیے اور بالآخر زندگی کی کہانی ختم ہوئی، دوسرا انداز وہی ہے جو دنیا کے نامور لوگوں نے اختیار کیا اور آج ان کا نام لیے بغیر دنیا کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں جو زندگی عطا ہوئی ہے وہ ہم کس رنگ ڈھنگ کے ساتھ گزار رہے ہیں، اس سال کے اختتامی لمحات میں ہم صرف اتنی ہی گزارش کرنا چاہتے ہیں۔
کسی پرانے شاعر شاید صفی لکھنوی (مرحوم) نے برسوں پہلے زندگی کا فلسفہ ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ آج بھی آپ شاعر کی بات کو نظرانداز نہیں کرسکتے 
یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے
اس سے پہلے کہ نئے سال کے پہلے مہینے جنوری کے ستاروں کی پوزیشن پر اور جنوری میں ستاروں کے درمیان قائم ہونے والے زاویوں پر روشنی ڈالی جائے ، ضروری ہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے اور جنوری کے پہلے ہفتے کے حوالے سے چند باتیں گوش و گزار کردی جائیں۔
دسمبر کی تقریباً 23 تاریخ سے سیارہ مریخ اور شمس راہو کیتو سے متاثر ہوکر خراب پوزیشن میں ہوں گے، اس کے بعد یہی صورت زہرہ اور عطارد کی ہوگی لہٰذا اکثر افراد خواہ وہ عام ہوں یا خاص، اس صورت حال سے متاثر ہوں گے اور کسی نہ کسی پریشانی یا تکلیف کا شکار ہوں گے، ایسے افراد اور ممالک خصوصاً اس صورت حال سے متاثر ہوں گے،جن کا برتھ سائن یعنی طالع پیدائش ثور ، سرطان، اسد، سنبلہ یا حوت ہوگا، پاکستان، انڈیا، ایران، مصر، برطانیہ اور امریکا بھی ایسے ممالک میں شامل ہےں،امریکا کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا برتھ سائن اسد ہے، وہ بھی کسی مشکل مرحلے کا شکار ہوسکتے ہیں۔
وقت کی خرابی سیاروی گردش کے ناموافق ہونے کے باعث ہو یا کسی اور وجہ سے، ہر صورت میں اس کا حل صدقات و خیرات کے ذریعے ہی ممکن ہے لہٰذا ایسے اوقات میں زیادہ سے زیادہ صدقات اور اللہ کی راہ میں خیرات پر زور دینا چاہیے،اس کے علاوہ کثرت سے استغفار کا ورد رکھنا چاہیے۔
3 جنوری سے 11 جنوری تک سیارہ زہرہ کمزور اور نحوست کا شکار ہوگا لہٰذا یہ وقت نکاح و شادی کے لیے مناسب نہیں ہوگا، جو لوگ پہلے سے نکاح و شادی کی تاریخ مقرر کرلیتے ہیں اور وہ تاریخ اس عرصے میں ہو تو انہیں چاہیے کہ 3 جنوری سے پہلے نکاح کی رسم ادا کرلیں،باقی شادی کا فنکشن بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔اس تمہیدی گفتگو کے بعد آئیے جنوری پر ایک نظر ڈال لی جائے، انشاءاللہ آئندہ ہفتے سال 2017 ءکی مجموعی صورت حال پر پاکستان کے زائچے کی روشنی میں بات ہوگی۔
جنوری کے ستارے
سیارہ شمس سال کے پہلے مہینے میں خاکی برج جدی میں حرکت کر رہا ہے،20 جنوری کو برج دلو میں داخل ہوگا، ذرائع ابلاغ کا سیارہ عطارد بحالت رجعت برج جدی میں ہے اور 4 جنوری کو واپس برج قوس میں ہوگا، جب کہ 8 جنوری کو مستقیم ہوکر اپنی سیدھی چال پر آئے گا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج دلو میں حرکت کر رہا ہے، 3 جنوری کو برج حوت میں داخل ہوگا، توانائی کا ستارہ مریخ آبی برج حوت میں حرکت کر رہا ہے،28 جنوری کو اپنے ذاتی برج حمل میں داخل ہوگا، وسعت اور ترقی کا ستارہ مشتری برج میزان میں پورا ماہ رہے گا، سیارہ زحل برج قوس میں ، سیارہ یورینس برج حمل میں، نیپچون برج حوت میں، پلوٹو برج جدی میں حسب دستور حرکت کریں گے،راس و ذنب بالترتیب برج سنبلہ اور حوت میں رہیں گے۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
نئے سال کے پہلے مہینے میں سیاروی زاویے موافق و مددگار نہیں ہوں گے،کاموں میں رکاوٹ ، تاخیر اور نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں،اس مہینے میں پورے سال کے لیے پلاننگ کرنا اور غوروفکر کے ساتھ نئی حکمت عملی تیار کرنا بہتر ہوگا۔
جنوری میں اہم سیارگان کے درمیان چار قرانات ، چار تسدیسات اور چار تربیعات ہوں گی،مقابلہ یا تثلیث کی کوئی نظر قائم نہیں ہوگی، اس اعتبار سے الجھنیں اور پیچیدگیاں اکثر امور میں زیادہ ہوں گی، جنوری میں قائم ہونے والے سیاروی زاویوں کی تفصیل تاریخ وار درج ذیل ہے۔
یکم جنوری: مریخ اور نیپچون کے درمیان قران کا زاویہ نحس اثرات رکھتا ہے،پہلے سے جاری مسائل میں مزید پیچیدگیاں اور شدت پسندی سامنے آتی ہے،پاکستان کے زائچے میں یہ قران گیارھویں گھر میں ہوگا( بہ حساب یونانی) گیارھواں گھر پارلیمنٹ سے متعلق ہے لہٰذا اسمبلی میں عدم اتفاق اور اختلاف رائے نمایاں رہے گا،اپوزیشن کا احتجاج اور واک آو ¿ٹ، حکومت کے لیے ناپسندیدہ صورت حال وغیرہ کا امکان ہوگا۔
4 جنوری: عطارد اور زہرہ کے درمیان تسدیس کا زاویہ اگرچہ سعد ہوتا ہے لیکن عطارد کی رجعت کے باعث یہ کسی معاملے میں بھی فائدہ بخش نہیں ہوگا، باہمی تعلقات میں غلط فہمیاں اور بدگمانیاں جنم لے سکتی ہیں لہٰذا دوسروں سے گفت و شنید اور بات چیت میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی،دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے میں دشواری پیش آئے گی۔
7جنوری: شمس اور پلوٹو کے درمیان قران کا یہ زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،پاکستان کے زائچے میں آٹھویں گھر میں ہوگا، ملک کے داخلی معاملات میں کوئی اہم تبدیلی ، بدنظمی اور انتشار یا کسی حادثے کے امکان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، عام افراد پر اس نظر کے اثرات نہیں ہوں گے،بین الاقوامی معاملات میں یہ نظر اہم کردار ادا کرسکتی ہے،طاقت کا اندھا استعمال اور پرتشدد رجحانات اس نظر کا شاخسانہ ہوسکتے ہیں۔
10 جنوری: شمس اور یورینس کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ غیر متوقع حادثات اور سانحات کی نشان دہی کرتا ہے،خصوصاً پاکستان میں، یہ نظر حکومت اور اعلیٰ عہدے داران کے لیے غیر متوقع مسائل اور پریشانیاں لاسکتی ہیں، عام افراد کو اس وقت میں کوئی نیا رسک نہیں لینا چاہیے، کسی نئی تبدیلی کے لیے بھی یہ مناسب وقت نہیں ہوگا،اس وقت میں اکثر لوگ اپنا مو ¿قف یا پلان تبدیل کرلیتے ہیں، یہ تبدیلی بعد ازاں پچھتاوے کا باعث ہوتی ہے۔
11 جنوری: مریخ اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کی نظر عام زندگی پر اثر انداز نہیں ہوگی، البتہ ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں اہمیت کی حامل ہے،ظلم و زیادتی کے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے گا اور ایسے فیصلے یا اقدام سامنے آئیں گے جن سے کسی نامناسب صورت حال کو مناسب رنگ میں ڈھالا جاسکے۔
12 جنوری: شمس اور مشتری کے درمیان تربیع کا زاویہ مالیاتی اداروں کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتا ہے،اس نظر کے تحت حکومت اضافی ٹیکس یا قیمتوں میں اضافہ کرسکتی ہے،ملکی معیشت کے لیے یہ اچھا وقت نہیں ہوگا، عام لوگوں کو اس وقت میں نئی سرمایہ کاری کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، لوگوں سے لین دین کرتے ہوئے بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ باہمی طور پر تحریری ایگریمنٹ کریں۔
13 جنوری: زہرہ اور نیپچون کے درمیان قران کی نظر جذباتی زندگی میں عدم توازن اور شدت پسندی لاتی ہے،ہم کسی حد سے گزر جاتے ہیں یا دوسرے ہمیں اپنے فیصلوں اور رویے سے حیران کرتے ہیں،خصوصاًمحبت اور دوستی کے معاملات میں ہم شدید جذباتیت اور حساسیت کا شکار ہوسکتے ہیں،یہ نظر ہوائی سفر کے دوران میں کسی غفلت کے سبب حادثات کا باعث بھی بنتی ہے۔
19 جنوری: مریخ اور زحل کے درمیان تربیع کا نحس ترین زاویہ ہمیشہ نقصانات کا امکان لاتا ہے،پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے،دیگر پیٹرولیم مصنوعات کے حوالے سے بھی اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،یہ نظر دہشت گردی کی کارروائیوں کا امکان ظاہر کرتی ہے اور مزید یہ کہ اس حوالے سے حکومت کے سخت اقدامات بھی سامنے آسکتے ہیں،عام افراد کی زندگی میں کاموں میں رکاوٹ اور حالات کی سختیاں ظاہر ہوتی ہیں۔
20 جنوری: زہرہ اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ اگرچہ ایک سعد نظر ہے لیکن عام آدمی کی زندگی میں زیادہ اہم کردار نہیں رکھتی،البتہ ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں خواتین کے تحفظ کے لیے گفت و شنید ہوسکتی ہے۔
24 جنوری: عطارد اور نیپچون کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے، یہ وقت اعلیٰ درجے کی تخلیقی سرگرمیوں کے لیے موزوں ہے،ذہانت اور دانش مندی کے مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں، ہوشیاری اور حکمت عملی سے کام لے کر غیر معمولی کارنامے انجام دیے جاسکتے ہیں۔
27 جنوری: زہرہ اور زحل کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،یہ وقت عدم توازن اور اختلاف رائے لاتا ہے،خصوصاً ازدواجی تعلقات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے،کوئی مسئلہ باہمی کشیدگی پیدا کرسکتا ہے، ملکی معاملات میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی شدت اختیار کرسکتی ہے جس کا مظاہرہ پارلیمنٹ میں ہوسکتا ہے۔
30 جنوری: عطارد اور پلوٹو کا قران کسی بھی زائچے میں اپنی پوزیشن کے لحاظ سے اچھا یا برا اثر دیتا ہے،پاکستان کے زائچے میں آٹھویں گھر میں ہوگا جو ایک خراب گھر ہے،داخلی صورت حال میں بدنظمی ، انتشار یا کوئی حادثہ نمایاں ہوسکتا ہے،اس نظر کے تحت نظریات و عقائد میں انتہا پسندی کا رجحان نمایاںہوتا ہے،لوگ اپنی بات منوانے کے لیے کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔
شرفِ قمر
نیو یارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق قمر اپنے شرف کے برج میں 6 جنوری کو 03:17 pm پر داخل ہوگا لیکن درجہ ءشرف پر 06:40 pm سے 08:22 pm تک رہے گا، یہ نہایت سعد اور مبارک وقت ہوگا، اس وقت میں جائز ضروریات کے لیے وظائف و نقوش کیے جاسکتے ہیں، عام طور پر ہم اس موقع پر بسم اللہ الرحمن الرحیم 786 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر کچھ چینی پر دم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ یہ چینی گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں شامل کرلی جائے، اس چینی کے استعمال سے گھر میں خیروبرکت اور خاندان میں محبت و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
قمر در عقرب
نیویارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق قمر برج عقرب میں 19 جنوری 05:09 pm پر داخل ہوگا اور 22 جنوری 5:45 am تک رہے گا، اس دوران میں ہبوط قمر کا نحس وقت 19 جنوری کو 09:09 pm سے شروع ہوگا اور 11:10 pm تک رہے گا،یہ نحس وقت ایسے اعمال کے لیے موزوں ہے جس میں بری عادتوں یا برے کاموں سے روکنے کے لیے وظائف یا نقوش دیے جاسکتے ہیں،اس حوالے سے ہر مہینے مختلف ضروریات کے لیے نقوش و وظائف دیے جاتے رہتے ہیں،ان سے کام لیا جاسکتا ہے،کسی خاص مسئلے میں رہنمائی کے لیے براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔
شرفِ زہرہ
سیارہ زہرہ جب برج حوت کے 27 درجے پر پہنچتا ہے تو اسے شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے،اس سال کی ابتدا ہی میں سیارہ زہرہ نیویارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق 29 جنوری کو دوپہر 02:20 pm پر اپنے شرف کے درجے پر آئے گا اور 30 جنوری شام 06:35 pm تک درجہ ءشرف پر رہے گا۔
واضح رہے کہ شرفِ زہرہ ایک نادر موقع ہے جس کا ماہرین جفر سال بھر انتظار کرتے ہیں،اس وقت تسخیر خلق یا تسخیر خاص سے متعلق جفری الواح و طلاسم تیار کیے جاتے ہیں، وہ لوگ جن کے زائچے میں سیارہ زہرہ ناقص یا ہبوط یافتہ ہو ، عموماً ان کی شادی میں تاخیر ہوتی ہے یا ازدواجی زندگی کی خوشیوں سے محروم رہتے ہیں،ایسے لوگوں کے لیے یہ وقت کسی نعمت سے کم نہیں ہے،اس موقع پر ”لوح شرف زہرہ“ تیار کرکے پاس رکھنا چاہیے، اس لوح کی تیاری کا طریقہ انشاءاللہ آئندہ دیا جائے گا، وہ لوگ جو اس موقع پر کسی خاص مقصد کے لیے کوئی عمل یا وظیفہ چاہتے ہوں ، وہ براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔
عزیزان من! آپ اگر کسی بھی مسئلے میں پریشان ہیں تو اپنا مسئلہ بذریعہ خط یا ای میل ارسال کرسکتے ہیں،اسی کالم میں آپ کو تسلی بخش جواب مل جائے گا، اگر آپ اپنا نام اور مقام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تو خط میں یہ بات ضرور لکھیں، اگر براہ راست جواب چاہتے ہوں تو جوابی لفافہ بھی ساتھ میں روانہ کریں، خط و کتابت کا پتا یا ای میل ایڈریس یہاں دیا جارہا ہے۔

پیر، 19 دسمبر، 2016

خوف کا دور اور خوف زدہ لوگ


ہم درحقیقت خوف اور وسوسوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں
ہم جس ماحول میں زندہ ہیں یہاں خوف، وسوسے، ڈر اور اندیشے کسی نہ کسی انداز میں ہمارے ذہنوں میں ہر وقت سرسراتے رہتے ہیں، معاشرے کے بیشتر افراد آپ کو کسی نہ کسی خوف، وہم یا اندیشے میں مبتلا نظر آئیںگے، بہت کم ایسے ہوں گے جنہیں ہر خوف و ڈر سے آزاد قرار دیا جاسکتا ہے یا یہ کہا جاسکے کہ ان کے ذہن میں کسی بھی قسم کا کوئی خوف یا اندیشہ نہیں ہے، اگر حقیقت پسندی سے ہم اپنی ذہنی حالتوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی خوف اور اندیشے میں مبتلا ہے،کسی نہ کسی شے سے، کسی نہ کسی پہلو پر اور اندر ہی اندر سہا ہوا ہے اور اکثر لوگ اسی خوف زدگی کے عالم میں پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔
شاید ہمارے موجودہ معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں تمام انسان سہمے ہوئے اور کسی نہ کسی حوالے سے خوف زدہ ضرور ہیں، کوئی اپنی بقا کے سلسلے میں تشویش کا شکار ہے، کسی کو اپنی نسل کے ختم ہوجانے یا برباد ہوجانے کی فکر لاحق ہے، کوئی غم دوراں یا غم روزگار کی سختیوں سے سہما ہوا ہے تو کوئی اپنی زندگی میں نفع و نقصان کے حساب میں الجھ کر پریشان و ہراساں ہے اور سودوزیاں کی یہ فکر ہر لمحہ اس کے اعصاب پر سوار ہے، الغرض بچہ، بوڑھا، جوان، عورت، مرد ، شادی شدہ، بے روزگار یا برسرروزگار، صحت مند یا بیمار کسی نہ کسی نوعیت کے، کسی نہ کسی خوف میں ضرور مبتلا ہے، یہ خوف شعوری بھی ہوتا ہے اور لاشعوری بھی، شعوری خوف اس قدر خطرناک ثابت نہیں ہوتا ہے جتنا لاشعوری، شعوری خوف سے نجات پانے کے لیے انسان کوششوں میں مصروف رہتا ہے کیوں کہ یہ اس کا کھلا مدمقابل ہے، وہ اسے جانتا پہچانتا ہے اور اس سے نمٹنے کی تدبیریں سوچتا اور ان پر عمل کرتا رہتا ہے مگر لاشعوری خوف ایک نہایت خطرناک چھپا ہوا دشمن ہے جس سے انسان بے خبر ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر شکست کھاتا اور اس کے حملوں سے اپنی روح کو مجہول کرتا رہتا ہے لیکن اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی ذہنی اور روحانی تباہی کے اسباب کیا ہیں؟
ماحولیاتی آلودگی
موجودہ دور میں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور عالمی ماحولیاتی اداروں کے مفکرین کے نزدیک جو مسئلہ روز بہ روز پیچیدہ تر اور ایک نہایت بھیانک حقیقت کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے، وہ ماحولیاتی آلودگی ہے، دنیا بھر میں بہت بڑے پیمانے پر اس مسئلے کے تدارک کے لیے سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں، ایک زر کثیر، فنڈز کی صورت میں ایسی تنظیموں کو فراہم کیا جارہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے کی دعوے دار ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے مراد دنیا میں بڑھتی ہوئی کثافت، گندگی اور وہ آلائشات ہیں جو روز بہ روز کرئہ ارض کے ماحول کو تباہ کر رہی ہیں اور اسے نسل انسانی کے لیے ناقابل سکونت بناتی جارہی ہیں، ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں کے لیے یہ مسئلہ یقیناً بہت اہمیت رکھتا ہے، زمینی یا فضائی آلودگی ہم سب کا مسئلہ ہے لیکن کیا ہم میں سے کوئی ذہنی آلودگی کی طرف بھی متوجہ ہے؟ کیا سائنس دان انسانی دماغوں کو مختلف آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے بھی کوئی کوشش کر رہے ہیں؟
ذہنی آلودگی
جیسا کہ ہم نے ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ ہم درحقیقت خوف ، وسوسوں اور اندیشوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں، ہمارے اردگرد کا ہر شخص خوف زدہ ہے، کسی نہ کسی اندیشے میں مبتلا ہے، یہ خوف اور اندیشے صبح و شام عام آدمی کے ذہن میں ہلچل مچائے رکھتے ہیں اور ان ہی کی بدولت آج کے دور کا انسان کسی بھی زمانے کے مقابلے میں ذہنی طور پر زیادہ انتشار اور پراگندگی کا شکار ہے، اس کی دماغی کثافتیں روز بہ روز بڑھتی جارہی ہیں اور ہزار ہائے اقسام کے اعصابی دباو ¿ اسی کی شخصیت اور صلاحیتوں کو کچل رہے ہیں لیکن اس ذہنی آلودگی کے تدارک کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی باقاعدہ کام نہیں ہورہا، انفرادی طور پر یقیناً ایسے لوگ موجود ہوں گے اور ہیں جو بساط بھر کوششیں کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہمارے اہل تصوف ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تصوف اور روحانیت کے نام پر پیشہ وری اور فراڈ بہت زیادہ فروغ پاگیا ہے، اس کی وجہ سے عام لوگوں کا اعتماد و اعتقاد بری طرح مجروح ہوا، دنیا میں اور خاص طور پر ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر اس نوعیت کا کوئی کام ماہرین کی زیر نگرانی نہیں کرایا جاتا جو انسانوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی آلودگی کے تدارک میں معاون ثابت ہوسکتی ہے بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے ابھی تک دنیا کو اس ذہنی آلائش اور فکری پراگندگی کے نقصان کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے جس کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب ایک سو ایک مختلف شکلیں اختیار کرگئی ہے۔ جی ہاں ! ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق دنیا میں ذہنی خوف دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں اور اب تک ان کی ایک سو ایک انتہائی مہلک اقسام سامنے آچکی ہیں،ا س میں ریگرو فوبیا (کھلی جگہوں پر خوف) سے لے کر کلسٹر و فوبیا (بند جگہوں کا خوف) تک ہر چیز کا خوف شامل ہے، یقیناً دنیا میں بہت سے خوف ابھی ایسے ہیں جو لوگوں کو لاحق ہیں مگر وہ تاحال سائنس دانوں کی نگاہ سے نہیں گزرے اور اس کے نتیجے میں ایک سو ایک خوف کی اس فہرست میں شامل نہیں ہوسکے جو سروے کرنے والی ٹیم نے تیار کیے، اس سروے کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ یہ تحقیق ابھی بھی جاری ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اس تعداد میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہوگا۔
 دنیا خوف کی ذہنی کیفیت کے نت نئے پہلوو ¿ں سے مستقبل قریب میں یقیناً روشناس ہوتی رہے گی اور اس کی نت نئی تباہ کاریاں سامنے آتی رہیں گی، ہم سب خوف کی بڑھتی ہوئی اقسام کو دیکھ کر خوف زدہ ہوتے رہیں گے کیوں کہ یہ خوف کا دور ہے اور ہم سب خوف زدہ لوگ ہیں۔
ہمارے خیال میں خوف کی نئی اقسام کی دریافت اور خوف سے نجات کے لیے تمام سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات کی بہ نسبت روحانی سائنس یا روحی سائنس کے اسکالرز زیادہ بہتر کام کرسکتے ہیں، یہ بات ہم اپنے کچھ ذاتی تجربے کی بنا پر لکھ رہے ہیں جو ہمیں موصول ہونے والے لاتعداد خطوط کے ذریعے حاصل ہوئی ہے، ہمارے اعداد و شمار کے مطابق مندرجہ بالا سروے رپورٹ میں دیے گئے ایک سو ایک خوف کی تعداد بہت کم ہے ، موجودہ دور میں خوف کی اقسام اس سے کہیں زیادہ ہوچکی ہیں، انشاءاللہ آئندہ اس موضوع پر مزید اظہار خیال کیا جائے گا، فی الحال ایک اور اس کا جواب، پہلا خط خوف کی ایک قسم ہی کے حوالے سے ہے۔
سحروجادو یا آسیب و جنات؟
ایل، اے، لکھتے ہیں ”مو ¿دبانہ گزارش ہے کہ میں تقریباً چار سال سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں، ہر طریقہ آزمایا، دس بارہ علما حضرات کے پاس بھی گیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، ہمارا مسئلہ بگڑتا ہی چلا گیا، اگر کسی نے جادو ٹونا بتایا اور اس حساب سے تعویذ وغیرہ بھی دیے تو ان تعویذوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور کسی نے سایہ بتایا اور اسی حساب سے تعویذ وغیرہ بھی دیے تو بھی کوئی اثر نہ ہوا، اب حال یہ ہے کہ جن بھوتوں کے بغیر کوئی چیز نظر نہیں آتی، کچھ منہ کھولے بیٹھے ہیں، کچھ قلابازیاں کھارہے ہیں، طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں، ان کے علاوہ دنیاوی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی، یہ سب کچھ میری بیوی کے ساتھ ہورہا ہے جو تقریباً اندھی ہوچکی ہے، ایک سال سے مسلسل اسی حالت میں ہے، اولاد بھی نہیں ہے، والدین بھی ساتھ نہیں ہیں، ہم میاں بیوی اکیلے رہتے ہیں، میں جاب کرتا ہوں، بیوی گھر پر اکیلی پڑی رہتی ہے،کام سے فارغ ہوکر گھر میں بھی کھانا پکانا، کپڑے وغیرہ دھونے کا کام بھی مجھے ہی کرنا پڑتا ہے، بیوی الگ پریشان، دوسروں کی محتاج بنی بیٹھی ہے، اب سمجھ میں کچھ نہیں آتا کیا کروں، وقت اور پیسا دونوں برباد ہورہے ہیں لیکن فائدہ کچھ نہیں۔
آج سے چھ سال پہلے ہماری شادی ہمارے والدین کی مرضی اور موجودگی میں ہوئی تھی، شادی کے کچھ عرصے بعد بیوی کو یہاں لے آیا تھا، ساڑھے چار ماہ بعد واپس لے گیا، اس کے بعد ہم پھر واپس آئے اور تقریباً 13 ماہ بعد پھر گھر گئے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر اکیلا واپس آگیا، چار ماہ بعد جب میں اپنی بیوی کو لینے گیا تو معاملہ بگڑا ہوا تھا، ہمارے درمیان کچھ شرطیں آگئی تھیں جو میری بیوی کے والدین خود مجھ سے نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ میری بیوی کے ذریعے مجھے بتانا چاہتے تھے، میں نے شرطوں سے صاف انکار کردیا اور بیوی کو لے کر واپس آگیا، یہاں ایک سال تو آرام سے گزر گیا لیکن دوسرے سال میں اس مصیبت نے پکڑلیا جو اب تک چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتی، تیسرے سال میں میری بیوی کی حالت بہت خراب ہوگئی تو اسے اسپتال میں داخل کروادیا، وہاں وہ مرتے مرتے بچی لیکن ہمارے دونوں طرف کے گھر والوں نے خیریت تک نہ پوچھی کہ وہ زندہ بھی ہے یا مرگئی؟ بہر حال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ صرف زندہ ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر اچھی خاصی صحت مند بھی ہے، تکلیف صرف اتنی ہے کہ وہ دیکھ نہیں سکتی، اگر کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تو نظروں کے سامنے جن بھوت آجاتے ہیں جو اسے چوبیس گھنٹے نظر آتے رہتے ہیں، علماءکرام نے بہت کوشش کی ہے کہ وہ حاضر ہوکر بتائیں کہ وہ میری بیوی کے ساتھ کیوں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتے اور میری بیوی کے علاوہ کسی اور کو نظر ہی نہیں آتے، اسے کوئی اور تکلیف بھی نہیں دیتے، دورے وغیرہ بھی نہیں پڑتے، صرف ہم دونوں میاں بیوی کو قریب نہیں ہونے دیتے، یہی شک والی بات ہے کہ کوئی ہے جو ہمیں الگ الگ کرنا چاہتا ہے، وہ کون ہے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے“۔
جواب: عزیزم! آپ نے اپنے خط میں خاصی گول مول گفتگو کی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اپنی معلومات بھی میڈیکل کے سلسلے میں خاصی کمزور ہے اور مزید یہ کہ نام نہاد عالموں یا عاملوں نے آپ کے ذہن میں نہایت شدت سے جو بات بٹھادی ہے، اُس پر آپ کو یقین کامل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی بیوی کے ساتھ کچھ نادیدہ قوتیں مصروف کار ہیں،اسی کی مناسبت سے علاج معالجہ بھی ہوتا رہا ہے۔
آپ نے جو حالات بیان کیے ہیں، وہ خاصے تشنہ اور غیر واضح ہےں،مثلاً آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شرطیں کیا تھیں جو آپ کے سسرال والے آپ سے چاہتے تھے، حالاں کہ یہ بڑی اہم بات تھی جو آپ کو لکھنا چاہیے تھی، اسی طرح آپ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ بیوی کو اسپتال لے جانے کی نوبت کیوں آئی اور اُس وقت وہ کون سی بیماری کا شکار ہوئی جس میں اس کی جان کے لالے پڑگئے، مزید یہ کہ اس دوران میں اسپتال میں اس کا کیا ٹریٹمنٹ کیا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
بقول آپ کے آپ کی بیوی ان معنوں میں اندھی ہوچکی ہے کہ وہ اگر آنکھیں کھولے تو اُسے جن بھوت قلابازیاں کھاتے نظر آتے ہیں لہٰذا خوف کی وجہ سے وہ آنکھیں ہی نہیں کھولتی اور آپ اس مفروضے پر یقین رکھتے ہوئے کہ واقعی اس کی نظروں کے سامنے جن بھوت آجاتے ہیں، خاموش ہوجاتے ہیں، پھر تو یقیناً دیگر کاموں کے علاوہ اسے اپنی نجی ضروریات مثلاً کھانے پینے ، نہانے دھونے اور دیگر ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے بھی آپ کی ضرورت پیش آتی ہوگی، اس حوالے سے آپ نے اپنی کسی پریشانی کا ذکر نہیں کیا، اسی لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ آپ کی باتیں خاصی گول مول ٹائپ کی ہیں۔
شاید آپ کا خیال یہ ہو کہ اپنے سسرال والوں کی شرائط قبول نہیں کیں تو انہوں نے کوئی جادوئی کارروائی کی ہو کیوں کہ بقول آپ کے انہیں اپنی بیٹی کی زندگی اور موت سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تو آخر ایسا کیا گناہ ان کی بیٹی نے کیا یا آپ سے سرزد ہوا کہ وہ آپ کے خلاف اس حد تک چلے جائیں کہ اپنی بیٹی کی زندگی کو برباد کرنے پر تُل جائیں، رہے آپ کے گھر والے، بقول آپ کے انہیں بھی آپ دونوں کے مرنے جینے سے کوئی دلچسپی نہیں، آخر وہ کیوں آپ سے اس قدر بے زار ہیں؟جب کہ بقول آپ کے یہ شادی دونوں کے والدین کی مرضی سے ہوئی تھی یعنی آپ نے کوئی ایسی لو میرج بھی نہیں کی جس میں دونوں جانب کے خاندان والے مخالف ہوتے! حقیقت یہ ہے کہ آپ کا خط درحقیقت خود ایک معمہ ہے، سمجھنے کا ، نہ سمجھانے کا۔
آپ نے اپنی یا اپنی وائف کی مکمل تاریخ پیدائش وغیرہ بھی نہیں لکھی ورنہ ہم یقیناً آپ کی وائف کی بیماری پر تفصیلی روشنی ڈالتے ، اب صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے کہ اصل معاملہ کیا ہوسکتا ہے۔
دنیا میں بے شمار قسم کی عجیب عجیب بیماریاں موجود ہیں جن میں سرفہرست ایک بیماری خوف بھی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ خوف کی وجہ کسی خاص نوعیت کی ہو،کاش آپ اپنے سسرال والوں کی شرطیں بھی لکھ دیتے تو آپ کی بیوی کا خوف بھی واضح ہوجاتا، ہمارے خیال سے وہ یقیناً کسی خوف کے زیر اثر آپ سے دور ہوگئی ہے،جہاں تک آنکھیں کھولنے پر جن بھوت نظر آنے کا معاملہ ہے تو یہ فریب نظر حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کی ایک شکل ہوسکتی ہے،بعض لوگ پیدائشی طور پر بہت ہی حساس اور وہمی ہوتے ہیں،وہ جس بات کا خیال اپنے ذہن میں بٹھالیں، پھر وہ ذہن سے نہیں نکلتا،ا سی طرح وہ جو بات بھی سوچتے ہیں، وہی ان کو اپنے سامنے نظر آتی ہے،فی الحال ہمارا مشورہ صرف اس قدر ہے کہ اپنی بیوی کا کھانے میں نمک بالکل بند کردیں یعنی کسی بھی قسم کا نمک ان کی خوراک میں شامل نہ ہو، اس کے علاوہ روزانہ نہار منہ ایک کپ عرق گلاب میں تھوڑا سا شہد ملاکر پلادیا کریں، پھر دیکھیں ایک ماہ بعد ان کی حالت میں کیا فرق آتا ہے،اگر آپ اس مسئلے کا اطمینان بخش حل چاہتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ براہ راست فون پر رابطہ کریں۔

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

”فوج وہی کرے جو اس کا کام ہے“جنرل باجوہ

”ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق ہے“
حادثات و سانحات زندگی کا حصہ ہیں لیکن بعض حادثے یا سانحے ایسے ہوتے ہیں
 جنہیں انسان کبھی فراموش نہیں کرسکتا، 7 دسمبر کو ایسا ہی ایک سانحہ پیش آیا جو پورے پاکستان کے لیے کسی المیے سے کم نہیں، چترال سے اسلام آباد جانے والی فلائٹ نمبر 661 حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگئی، اس میں موجود 47 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، کراچی سے تعلق رکھنے والے مشہور مبلغ اور نعت خواں جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ طیارے میں سوار تھے، وہ ایک تبلیغی دورے پر چترال گئے ہوئے تھے،واپسی کے سفر میں بالآخر اپنے خالق حقیقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہِ راجعون۔
سال 2016 ءجاتے جاتے پاکستان کے بے شمار لوگوں کو ایک نیا غم دے گیا، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے، آمین۔
جنرل باجوہ اور کرکٹ
گزشتہ کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ موجودہ سال کے اگر اہم ترین واقعات پر نظر ڈالی جائے تو پہلا واقعہ پاناما لیکس کا ہے جو تقریباً پورا سال وزیراعظم نواز شریف کے لیے ایک مستقل درد سر بنارہا ہے اور اب تک ان کے لیے پریشانی اور فکر مندی کا باعث ہے،عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے یا خلاف، ہر صورت میں اس سارے معاملے میں نقصان انہی کو اٹھانا پڑ رہا ہے کیوں کہ پورا سال ان کی دولت مندی عوام کی نظروں میں ایک سوالیہ نشان بنی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہی ہوگا۔
دوسرا اہم واقعہ پاکستان آرمی کی ہائی کمان میں تبدیلی ہے،جنرل راحیل شریف کے بعد اب جنرل قمر جاوید باجوہ ہماری مسلح افواج کے سربراہ ہےں۔
گزشتہ کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ ہم ان کی تاریخ پیدائش معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ علم نجوم کی روشنی میں یہ معلوم ہوسکے کہ ہمارے نئے چیف آف اسٹاف کس موڈ اور مزاج کے انسان ہیں،اس حوالے سے جب وکی پیڈیا سے رجوع کیا گیا تو ان کی تاریخ پیدائش 2 جنوری 1959 ءسامنے آئی لیکن اسی دوران میں ایک کالم بھی نظر سے گزرا جس کا عنوان تھا ”سرباجوہ“ یہ کالم ملک کے کثیر الاشاعت روزنامے میں شائع ہوا ہے اور جنرل قمر باجوہ کے کسی قریبی دوست ارشاد بھٹی صاحب نے تحریر کیا ہے،انہوں نے تاریخ پیدائش 11 نومبر 1960 ءبیان کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے،حالاں کہ ان کی فیملی کا تعلق گکھر منڈی سے ہے،وکی پیڈیا پر پیدائش کا مقام گکھر منڈی ہی بتایا گیا ہے۔
ہم نے جب دونوں تاریخوں کو چیک کیا تو 11 نومبر 1960 ءزیادہ درست معلوم ہوئی،بہر حال جنرل صاحب کے زائچے کے حوالے سے تو فی الحال کوئی بات کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ ابھی تک پوری طرح تاریخ پیدائش، وقت پیدائش اور مقام پیدائش کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، البتہ ارشد بھٹی صاحب کا کالم نہایت دلچسپ اور توجہ طلب ہے،انہوں نے جنرل صاحب سے اپنے قریبی بے تکلفانہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شخصیت اور مزاج پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور بعض بڑی دلچسپ باتیں بیان کی ہیں،یہ کالم یکم دسمبر کو جنرل صاحب کے فوجی کمان سنبھالنے کے فوری بعد شائع ہوا ہے،ہمیں نہیں معلوم کہ ماضی میں کسی جنرل کی تقرری کے بعد ان کے کسی قریبی دوست یا عزیز نے ایسا کالم لکھا ہو، عموماً صحافی حضرات محدود نوعیت کی معلومات کا اظہار کرتے ہیں لیکن قریبی دوست اور عزیز اس طرح کھل کر نجی معاملات پر اظہار خیال کرنے سے گریز کرتے ہیں،جیسا کہ ارشد بھٹی صاحب نے کیا ہے، آئیے اس کالم کے چیدہ چیدہ اقتباسات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
کالم کا آغاز اس فقرے سے ہورہا ہے ”میں انہیں اکثر کہتا ، کچھ بھی ہو، جیت آخر آپ کی اور لوگوں کی دعاو ¿ں کی ہی ہوگی اور پھر دعاو ¿ں اور عاجزی نے میدان مارلیا“
اس کے بعد بھٹی صاحب نے جنرل صاحب کی زندگی کے چند اہم واقعات جن میں والدہ کی وفات کا واقعہ بھی شامل ہے،بیان کیے ہیں، ایک واقعے میں اپنے ایک فوجی جوان کی شہادت پر وہ بہت افسردہ و غم زدہ نظر آتے ہیں، اسی طرح اپنے یونٹ کے لوگوں سے ان کی گہری وابستگی بھی بعض واقعات سے ظاہر ہوتی ہے،اسی کالم کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے والد کرنل اقبال باجوہ تھے جن کا انتقال کوئٹہ میں ہوا،انہوں نے 23 اکتوبر 1980 ءکو آرمی جوائن کی، بعد ازاں کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج ٹورنٹو سے گریجویشن اور نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی کیلیفورینا سے بھی فارغ التحصیل ہیں، ان کی شادی جنرل اعجاز امجد کی صاحب زادی سے ہوئی۔
بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز اپنے فیوچر پلان پر گفتگو کے بعد جب جنرل صاحب خاموش ہوئے تو میں بول پڑا ”اگر آپ چیف بن گئے تو پہلی ترجیح کیا ہوگی؟“
انہوں نے مسکراکر میری طرف دیکھا پھر صوفے سے ٹیک لگاکر کہا ”میں ہسٹری کا اسٹوڈنٹ ہوں، مجھے بخوبی علم ہے کہ جہاں جہاں بھی فوج نے اپنے کام کی بجائے ”کچھ اور“ کیا وہاں مسائل گھٹے نہیں، بڑھے ہیں لہٰذا میری اولین ترجیح ہوگی کہ فوج وہی کرے جو اس کا کام ہے“ یہ کہہ کر وہ رکے اور پھر پچھلے آدھے گھنٹے سے سامنے پڑے قہوے کا کپ اٹھاکر ٹھنڈے قہوے کا گھونٹ بھر کر کہنے لگے ”اگرچہ ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق ہے مگر میری خواہش ہوگی کہ اس بار یہ نہ ہو“
ظاہر ہے یہ گفتگو بھٹی صاحب اور جنرل صاحب کے درمیان چیف آف اسٹاف کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہوئی ہے اور اس سے ہمارے نئے جنرل صاحب کے خیالات اور نظریات سے آگاہی ہوتی ہے،اسی کالم کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹی وی پروڈیوسر اور پی ٹی وی کے جنرل منیجر جناب رفیق وڑائچ جنرل باجوہ صاحب کے ماموں تھے چناں چہ ان کے گھر آنے والی فنکار برادری سے بھی جنرل صاحب کی خاصی یاد اللہ رہی ہے جن میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی کی باتیں انہیں اب تک ازبر ہیں، ان کی یاد داشت بہت اچھی ہے،ان کی سب سے بڑی عیاشی کتابیں پڑھنا، کرکٹ کھیلنا اور فیملی کے ساتھ کرکٹ دیکھنا ہے، وہ آرمی کرکٹ ٹیم کی طرف سے پیٹرن ٹرافی کھیل چکے ہیں، بھٹی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ وہ برے وقتوں کے اچھے دوست اور ہر وقت ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہنے والے ، وضع دار،کھلے ڈھلے جن میں نہ احساس برتری اور احساس کمتری، وہ جرنیلی میں بھی ویسے ہی ہیں جیسے کپتانی میں، اپنے سپاہیوں کے ساتھ برستی گولیوں میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں بھی تکلفات کے عادی نہیں ہیں، بے حد سادہ مزاج ہیں، پروفیشنل سولجر ، فوج میں ہر دلعزیز کمانڈر، سچے پاکستانی اور پکے مسلمان، جمہوریت کے حامی، مارشل لاءکو خرابیوں کی جڑ سمجھنے والے انسان ہیں، بھٹی صاحب کا خیال ہے کہ اب ”سول ملٹری“ تعلقات واقعی بہتر ہونے کی امید ہے۔
یہ کالم پڑھ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وزیراعظم نواز شریف صاحب نے اس بار یقیناً ایک بہترین انتخاب کیا ہے،ہمارے نئے جنرل باجوہ صاحب جمہوریت پسند ہیں اور مارشل لاءکو ملک و قوم کے لیے بہتر نہیں سمجھتے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”فوج وہی کرے جو اس کا کام ہے“ان کا یہ جملہ بھی ہمارے قومی مزاج کی عکاسی کرتا ہے کہ ”اگرچہ ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق ہے“ مزید یہ بھی فرمایا ”میری خواہش ہوگی کہ اس بار یہ نہ ہو“ 
اس خواہش پر ہمیں مرزا غالب کا مشہور مصرع یاد آگیا ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
ہمارے لیے اس کالم کا سب سے بڑا انکشاف جنرل صاحب کی کرکٹ سے دلچسپی ہے،وہ خود بھی کرکٹ کے کھلاڑی رہے ہیں اور نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھتے ہیں، ان کی فیملی بھی کرکٹ میچ دیکھنے کی شوقین ہے،پاکستان میں ابتدا ہی سے کرکٹ کا کھیل نہایت مقبول رہا ہے اور اس کھیل کے نمایاں ترین کھلاڑیوں میں عمران خان کا نام نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، وہ پاکستان کے پہلے کپتان ہیں جن کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تھا، اب یہ ہمیں نہیں معلوم کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں جنرل صاحب کا پسندیدہ کھلاڑی کون رہا ہے؟ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کرکٹ میں ماجد خان، ظہیر عباس، آصف اقبال، حنیف محمد، مشتاق محمد، جاوید میانداد وغیرہ پوری قوم کے پسندیدہ کھلاڑی تھے،عمران خان کا نام بھی اس فہرست میں شامل رہا ہے،اگر بھٹی صاحب ان کے پسندیدہ کرکٹر کا نام بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا۔
ہمارے وزیراعظم نواز شریف صاحب بھی کرکٹ کے شوقین رہے ہیں اور جس زمانے میں عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے تو وہ انہیں پسند بھی کرتے تھے، لاہور کے کینسر اسپتال کے لیے پلاٹ کی ضرورت پیش آئی تو سنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی مدد کی،اس طرح کرکٹ پسند وزیراعظم کے بعد اب کرکٹ پسند جنرل بھی ہمیں مل گئے ہیں۔
ہمارے ملک میں اہم شخصیات کی درست تاریخ پیدائش معلوم ہونا بڑا دشوار کام ہے،حالاں کہ دنیا بھر میں یہ اتنا مشکل نہیں ہے،جب بھی کوئی نمایاں شخصیت سامنے آتی ہے یا کسی اہم عہدے پر تعینات ہوتی ہے تو اس کی تاریخ پیدائش اخبارات و رسائل میں شائع ہوجاتی ہے،پاکستان میں بھی یہ روایت موجود ہے مگر شائع شدہ تاریخ پیدائش عموماً درست نہیں ہوتی یا ایک سے زیادہ تاریخیں مشہور ہوجاتی ہیں،اس لیے علم نجوم کی روشنی میں مطلوبہ شخصیت پر گفتگو کرنا عموماً ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہوا میںبلّا گھمانا، بہر حال اپنے طور پر ہم کوشش کرتے رہتے ہیں کہ درست تاریخ معلوم ہوسکے لیکن ہماری صحافتی برادری کو اس حوالے سے بھی کردار ادا کرنا چاہیے، جیسے ہی ہم جنرل صاحب کی تاریخ پیدائش سے مطمئن ہوں گے، ضرور ان کے زائچے پر بات کریں گے، فی الحال بھٹی صاحب نے جو تاریخ پیدائش لکھی ہے وہ کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے،ا سے دیکھ کر یہ بات تو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان کا شمسی برج عقرب ہے اور قمری برج سرطان ہے، یہ دونوں واٹر سائن ہیں اور بہت حساس، گہری اور پائیدار وابستگی رکھنے والے برج ہیں،برج عقرب غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حامل ہے،اس برج کے تحت بڑے بڑے غیر معمولی لوگ پیدا ہوئے ہیں،مثلاً علامہ اقبال، محترم پیر صاحب پگارا (مرحوم)، اداکار شاہ رخ خان، ڈاکٹر کرسچن برناڈ وغیرہ۔
 برج عقرب کی نمایاں خصوصیات میں اپنی کاز سے اور اپنے نظریات سے غیر معمولی وابستگی مشاہدے میں آتی ہے، یہ لوگ بہت گہرے اور ایک نظر میں سمجھ میں نہ آنے والے ،کسی حد تک پراسراریت کے حامل ہوتے ہیں، رازداری کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، بے شک انتہائی نرم دل اور رقیق القلب ہوتے ہیں لیکن اپنے نظریاتی اور اصولی معاملات میں اسی قدر سخت اور ثابت قدم بھی ہوتے ہیں، بہترین اور جانثار دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بدترین دشمن بھی ثابت ہوسکتے ہیں، جب کسی کام کا ارادہ کرلیں تو اسے ہر قیمت پر پایہءتکمیل تک پہنچاتے ہیں، تحمل مزاجی اور قوت برداشت بلاکی ہوتی ہے،صورت حال خواہ کچھ بھی ہو، آپ ان کے چہرے سے اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے،جذبات پر کنٹرول کرنا یہ لوگ خوب جانتے ہیں، فی الحال جنرل صاحب کے بارے میں اتنا ہی کافی سمجھیے، جب تاریخ پیدائش کے حوالے سے مکمل اطمینان ہوجائے گا تو انشاءاللہ بشرط زندگی اس پر مزید گفتگو ہوگی۔
آئیے اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی طرف :
پسند کی شادی میں رکاوٹ
شادی فی زمانہ ہر گھر کا نہایت اہم اور تکلیف دہ مسئلہ بن گئی ہے خصوصاً لڑکیوں اور ان کے ماں باپ کے لیے۔ مناسب رشتے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے چنانچہ یہ مسئلہ تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی گمبھیر صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہو تو کسی کی پسندیدگی کی نظر یا دو میٹھے ہمدردی کے بول امید کی کرن روشن کر دیتے ہیں۔ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی اکثریت سادہ، معصوم اور نرم دل ہوتی ہے۔ ہر نرمی سے بات کرنے والے کو اپنا ہمدرد، خیر خواہ سمجھ بیٹھتی ہے۔ پیار محبت جتانے والے لڑکوں کی باتوں اور وعدوں پر انہیں بہت جلد اعتبار آجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر گھر والے سمجھائیں بجھائیں تو اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ آئیے پہلے ایک خط سے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔
ق۔ ر۔ لکھتی ہیں۔ ”میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں لیکن میری شادی اس سے نہیںہو پا رہی ہے۔ کیا میری شادی اس سے ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو کب تک؟ میں بہت پریشان رہتی ہوں۔ آپ بتائیں کیا میرے ستارے گردش میںہیں؟ میرے اچھے دن کب شروع ہوں گے؟ میری شادی اپنوں میں ہو گی یا میری پسند کے لڑکے سے؟ شادی شدہ زندگی کیسی گزرے گی؟“
جواب:۔ عزیزم! تم بہت اچھی اور بہت پیاری بیٹی ہو، ذہین بھی ہو، سلیقہ مند بھی ہو لیکن فطرتاً نادان اور ناسمجھ ہو۔ تہمارے دل میں دنیا بھر کی ہمدردی موجود ہے۔ تمہارا اس لڑکے کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ اپنے مزاج اور فطرت کے اعتبار سے نہایت غیر ذمہ دار اور بہت ہی خود غرضانہ سوچ رکھنے والا ہے۔ آپ دونوں کے مزاجوںمیں بھی زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ تمہارا برج سنبلہ خاکی عنصر رکھتا ہے جب کہ اس کا ہوائی۔ مٹی اور ہوا میں دشمنی ہے۔ اصول فطرت کے مطابق مٹی کی کثرت ہوا کو دھندلا اور کثیف بنا دیتی ہے جب کہ ہوا کی شدت مٹی کو اڑا کر رکھ دیتی ہے۔ ابھی تو ازدواجی زندگی کی حقیقتیں سامنے نہیں آئی ہیں اور آپ دونوں چونکہ زبانی کلامی مراحل میں ایک دوسرے کو پیار کی لوریاں دے رہے ہیں لیکن شادی کے بعد محبت کا بھوت اس وقت اتر جائے گا جب تم جیسی عملی سوچ رکھنے والی لڑکی اس ہوائی قلعے بنانے والے اور محض تصورات کی دنیا میں رہنے والے شخص کا نکما پن دیکھے گی۔ زندگی کی ضرورتیں محض سہانے خواب دیکھنے سے پوری نہیں ہوتیں۔ پیٹ کی آگ محبت کی بارش سے نہیں بجھائی جا سکتی لہٰذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اس رشتے کے لیے خود کو پریشان اور ہلکان نہ کرو، تمہارا پیدائشی برج سرطان ہے۔ اس حساب سے سیارہ زحل پیدائشی برج سے پانچویں گھر میں ہے جو عقل و شعوراور رومانی دلچسپیوں کا خانہ ہے۔سیارہ زحل طالع سرطان کے لیے منحوس اثر رکھتا ہے، یقیناً کسی خراب وقت میں تم نے یہ تعلق جوڑ لیا ہے جو وہ اس وقت ٹوٹ جائے گا جب فروری 2017 ءمیں زحل اس گھر سے رخصت ہو گا اور خود تمہارے زائچے کے چھٹے گھر میں آجائے گا پھر یقیناً تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ اس عرصے میں کسی اور جگہ بھی اگر گھر والے شادی کے لیے کہہ رہے ہوں تو اس کی بھی تاریخ پیدائش دیکھ لی جائے کہ وہ تم سے موافقت رکھتا ہے یا نہیں کیوں کہ خود تمہارا زائچہ تمہارے شوہر کے حوالے سے کوئی بہت خوش کن بات نہیں بتا رہا کیوں کہ شوہر کی نشان دہی کرنے والا سیارہ مشتری بھی زائچے میں کمزور ہے، اس خرابی کو دور کرنے کے لیے تمہیں لوح مشتری پاس رکھنی چاہیے یا پیلا پکھراج پہننا چاہیے۔
تمہاری شادی میں تاخیر بھی اسی وجہ سے ہو رہی ہے کہ اول تو پیدائش کے زائچے میں زحل زہرہ کو متاثر کر رہا ہے اور دوم یہ کہ حالیہ زائچہ میں زحل پانچویں گھر میں بیٹھا ہے اور ساتویں شادی کے گھر پر اس کی نظر ہے، بہرحال آئندہ سال فروری کے بعد زحل یہاں سے ہٹ جائے گا تو انشاءاﷲ کوئی نئی صورت حال پیدا ہوگی جو شادی کے معاملے میں مددگار ہوگی،زیادہ پریشان نہ ہوں اور اس محبت کو دل کا روگ نہ بناﺅ۔ تم ایسی لڑکی نہیں ہو جو کوئی بڑا روگ پالے جیسے ہی حقیقت کی آنکھیں کھلیں گی تمہیں سنبھلنے میں دیر نہیں لگے گی کیوں کہ بہر حال شمسی برج سنبلہ والوں پر دل کے مقابلے میں دماغ غالب ہوتا ہے اور وہ اچھے برے کی تمیز بھی رکھتے ہیں۔ البتہ پیدائشی برج سرطان والے خاصے حساس اور جذباتی ہوتے ہیں۔
بدنصیبی یا خوش نصیب
ش۔ الف۔ کراچی: عزیزم! آپ کا طویل خط یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ کی بدنصیبی کی داستان کے کچھ اسباب تو خود آپ کے خط میں ہی موجود ہیں یعنی جس طرح آپ کی زندگی کی ابتدا ہوئی وہ آپ کے لیے کیا خود آپ کی والدہ کے لیے بھی کسی سانحے سے کم نہیں تھی۔ یعنی ان کے شوہر کا نہ ہونا اور آپ کا باپ سے محروم ہونا۔ بہرحال آپ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جیسے تیسے پرورش پالی اور جوان ہو گئے۔ اﷲ کی مہربانی سے شادی بھی ہو گئی، صاحب اولاد بھی ہیں۔ اولاد میں بھی اﷲ نے تین بیٹوں سے نوازا ہے۔ جیسے تیسے محنت مزدوری کر کے عزت سے گزارا بھی ہو رہا ہے۔ آگے چل کر بیٹے اگر لائق اور فرمانبردار ہوں گے تو آپ کا بڑھاپا آرام سے گزرے گا۔ اب رہا سوال یہ کہ آپ بدنصیب ہیں یا خوش نصیب اور بدنصیبی اور خوش نصیبی کا پیمانہ کیا ہے؟ کیا صرف دولت دنیا خوش نصیبی کا پیمانہ ہے۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ اتنی دولت بہرحال انسان کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی جائز ضروریات پوری کر سکے اور آپ نے جو اپنی آمدنی لکھی ہے وہ یقیناً ناکافی ہے مگر آمدنی کی کمی کو بدنصیبی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ تو کسی شخص کی ذاتی کمزوریوں اور نااہلی کی نشانی ہے کیوں کہ اگر انسان اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر زیادہ اہلیت حاصل کرے اور مسلسل محنت سے ترقی کرکے کسی اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے، بے شمار لوگ دنیا میں ایسے گزرے ہیں جن کی ابتدائی زندگی محرومیوں اور مشکلات سے بھری پڑی تھی مگر انہوں نے مسلسل جدوجہد کے بعد خود کو کسی اعلیٰ مقام تک پہنچادیا۔
آپ نے جو اپنی تاریخ پیدائش لکھی ہے وہ اگر صحیح ہے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیںکہ آپ نے اپنا لڑکپن او نوجوانی یقیناً فضول کاموں میں گزارا ہے۔ اگر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہ مل سکے تو کوئی اچھا ہنر سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جس کی بدولت آپ اپنی معاشی زندگی کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتے اور آج عمر کے 50 ویں سال میں کم آمدنی کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا،بے شمار لوگوں نے تعلیم کے بغیر بھی کاروباری ترقی کی ہے۔
اس تاریخ پیدائش کے مطابق آپ ایک تفریح پسند، کھلنڈرے، تنک مزاج، جھگڑالو، ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والے، اپنے خود ساختہ نظریات، اصولوں اور عقائد کے مالک انسان ہیں اور یہ خصوصیات لڑکپن اور جوانی میں اپنے عروج پر ہوں گی اور ایسی خصوصیات کی موجودگی میں انسان ایک ایسا بے مہار اونٹ بن جاتا ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی۔ اسے ہوش اور عقل اس وقت آتی ہے جب عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی ہے اور جسمانی توانائیاں ساتھ چھوڑنے لگتی ہیں تو پھر انسان کو خوش قسمتی اور بدقسمتی کا خیال آتا ہے۔
اپنی بعض خامیوں کے باوجود آپ ایک غیر معمولی قوتوں کے حامل انسان ہیں مگر آپ کو درست رہنمائی کی ضرورت ہے۔ آپ نے اس حوالے سے کچھ نہیں لکھا کہ آپ کا پیشہ کیا ہے، ماضی میں کیا کرتے رہے ہیں اور آج کل کیا کر رہے ہیں ورنہ ہم ضرور کوئی مشورہ دیتے۔ بہرحال اگر اب بھی آپ کوئی صحیح راستہ اختیار کر لیں تو آنے والا سال بھی آپ کی زندگی بدل سکتا ہے کیوں کہ آپ کا ستارہ مشتری ہے جو اس سال اور آئندہ سال آپ کے زائچے میں بہتر پوزیشن میں ہوگا اور آپ بدنصیب نہیں خوش نصیب آدمی ہیں لیکن آپ کے اندر منفی سوچیں بہت زیادہ ہیں، ان سے نجات حاصل کریں۔
مسائل ہی مسائل
م۔ ع۔ آرائیں ،لکھتے ہیں ”جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، مسائل ہی مسائل زندگی میں ہیں۔ مہربانی کر کے زائچے میں دیکھیںکہ میری زندگی میں کوئی کامیابی ہے کہ نہیں؟ اور میرے مسائل حل ہوں گے کہ نہیں؟“
جواب:۔ آپ کا شمسی برج اور قمری برج دونوں ثور ہیں جس کا حاکم سیارہ زہرہ ہے۔ قمر برج ثور میں حالت شرف میں ہوتا ہے اور یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ ڈبل ثوری ہونے کی وجہ سے آپ کی زندگی کا مقصد اور آپ کا رجحان دولت اور صرف دولت ہے لیکن آپ کا عطارد پیدائش کے وقت بے حد کمزور تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ذہانت کی کمی ہے۔ اسی لیے آپ نے یہ لکھا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے مسائل ہی مسائل ہیں۔ ہمارے خیال سے تو ابھی آپ نے ہوش سنبھالا ہی نہیں ہے۔ آپ جن مسائل کو اپنے مسائل سمجھ رہے ہیں وہ آپ کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ اس عمر میں آپ کا سب سے اہم مسئلہ تعلیم و تربیت ہے اور عطارد کی ناقص پوزیشن ظاہر کر رہی ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں یقیناً غفلت برتی ہو گی جس کا الزام آپ شاید دوسروں کو یا حالات کو دیں۔ بہرحال ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ آپ کے ہاں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے مستقل مزاجی سے اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کریں تو آپ مستقبل میں ایک کامیاب انسان ثابت ہو سکتے ہیں۔ بدھ کے دن کسی سبز چیز کا صدقہ دیا کریں جیسے سبز مونگ کی دال یا ہرے پتوں والی سبزیاں وغیرہ۔ اس کے علاوہ زمرد یا سبز فیروزہ بھی آپ کے لیے ضروری ہے ، لوح عطارد آپ میں ذہانت اور عقل مندی پیدا کرے گی۔
گردشِ وقت
ایچ، اے، کراچی: آپ کے بچوں کی تاریخ پیدائش سے آپ کے ستارے اور برج کا کچھ اندازہ ہو رہا ہے کیوں کہ بچوں کے برج اور ستارے ماں باپ کے برج اور ستاروں سے بڑی مطابقت رکھتے ہیں۔ آپ کے بچوں کی اکثریت شمسی یا قمری حوالے سے برج حمل کے زیر اثر ہےں، گویا اس اعتبار سے آپ اور آپ کا پورا خاندان سیارہ زحل کے ناقص ٹرانزٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے،انشاءاللہ آئندہ سال فروری سے جون تک صورت حال بہتر ہوگی اور پھر مزید چند مہینے کے لیے رکاوٹیں دوبارہ پیدا ہوں گی اور دسمبر سے اس خراب اور ناموافق صورت حال سے جان چھوٹ جائے گی، اخراجات پر کنٹرول کریں، معلوم ہوتا ہے کہ آپ پورا گھرانہ شاہانہ مزاج کا حامل ہے، صرف ایک لڑکی جو دوسرے نمبر کی ہے جس کا برج جدی ہے، وہی کفایت شعار اور نظم و ضبط والی ہے۔ بہر حال ہفتہ کے دن صدقہ دینا شروع کر دیں اور اسمائے الٰہی ”یافَتّاحُ یا رَزّاقُ “ 99 مرتبہ روزانہ پڑھیں،کاروباری معاملات میں زیادہ ڈیوٹی فل ہو جائیں اور تمام نظم و ضبط اپنے ہاتھ میں لیں، دوسروں پر زیادہ اعتبار نہ کریں، اندازوں یا قیاسات کی بنیاد پر کوئی کام نہ کریں تو انشاءاﷲ جلد صورت حال پر قابو پا لیں گے۔
درست جاب نہیں ہے
کے، کے ، کراچی : عزیزم! آپ کا اسم اعظم یہ ہے۔ یا رَحمن الفَتّاحُ الکَافِی الصَّمدُ۔ اسے نوچندے بدھ سے 1125 مرتبہ اول و آخر درود شریف کے ساتھ روزانہ پڑھیں اور اپنے مقاصد کے لیے دعا کریں، اس کے علاوہ گھر پر پرندوں کو دانا پانی ڈالنے کا مستقل انتظام کریں، انشاءاﷲ حالات کی سختی ختم ہو جائے گی اور رزق میں اضافہ ہو گا۔

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ورد و وظائف میں پرہیز اور کسی ردّعمل کا خوف

دسمبر کا تیسرا ہفتہ وزیراعظم اور کابینہ کے لیے بھاری ہوسکتا ہے
اگر اس سال کے دو بڑے واقعات کی نشان دہی کی جائے جو پاکستانی سیاست کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں تو سرفہرست پانامالیکس اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو شمار کیا جائے گا کیوں کہ آخری وقت تک لوگ ان کی ایکسٹینشن کی آس لگائے بیٹھتے تھے،حالاں کہ وہ اس حوالے سے واضح تردید بہت پہلے کرچکے تھے، نئے جنرل کی آمد کو ایک بڑی تبدیلی اور بڑا واقعہ کہنا چاہیے۔
 پاناما لیکس کا آغاز غالباً اپریل میں ہوا تھا اور اختتام تاحال نہیں ہوسکا ہے،کئی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ کیس اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے،فریقین اپنی اپنی کامیابیوں اور دوسرے کی ناکامیوں کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں، گزشتہ سماعت کے دوران میں یہ ڈھنڈورا اس طرح پیٹا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل جو نہایت قابل اور ملک کے نامور وکیل ہیں، کیس سے دستبردار ہوگئے، اس بار 30 ستمبر کی سماعت میں تحریک انصاف والے خوش نظر آتے ہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
قصہ مختصر یہ کہ سال 2016 ءکے تقریباً 8 مہینے پانامالیکس کی نذر ہوچکے ہیں اور ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ اس ساری ہنگامہ آرائی میں عمران خان اور اپوزیشن کے لیے تو بہت سے خوش گوار اور دلچسپ پہلو موجود ہیں لیکن ہمارے محترم وزیراعظم اور ن لیگ کے لیے یہ ایک ناسور بن چکا ہے کہ اسے جتنا بھی کریدا جارہا ہے،اتناہی پُرتعفن مواد ابلتا چلا جارہا ہے۔
30 نومبر کی سماعت کے بعد صورت حال نے ایک نئی کروٹ بدل لی ہے،جسے دیکھتے ہوئے پاکستان کے ایک نامور سیاسی تجزیہ کار اور وزیراعظم کے مشیر بے محکمہ نے جو ایک بڑے چینل پر پروگرام کرتے ہیں، شاید کسی خطرے کی بو سونگھ لی ہے لہٰذا یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اب یقیناً عدالت کوئی کمیشن بنادے گی اور اس جنجال پورے سے اپنی جان چھڑائے گی،وہ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ کمیشن بننے کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ مہینوں نہیں بلکہ سالوں پر پھیل سکتا ہے اور سابقہ ریکارڈ کے مطابق نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا،اس کے برعکس تحریک انصاف کے ایک فاضل وکیل جناب ڈاکٹر بابر اعوان ایک پروگرام میں کمیشن کی مخالفت کرچکے ہیں اور ان کا مو ¿قف یہی تھا کہ جب کسی معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنا ہو تو کوئی کمیٹی یا کمیشن بنادینا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس صاحب بھی دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہورہے ہیں، کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہوسکے گا؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پورے پاکستان کی نظر اس مقدمے پر لگی ہوئی ہے اور لوگ نہایت بے چینی سے کسی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، بقول غالب 
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
عزیزان من! شاید آپ کو یاد ہو 5 جون 2013 ءکو شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے جب نواز شریف صاحب نے بہ حیثیت وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو ہم نے ”زائچہ ءحلف“ پر اظہار خیال کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ یہ حلف کسی شُبھ گھڑی میں نہیں اٹھایا گیا اور یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ اگر دوبارہ حلف کسی مناسب وقت پر لے لیا جائے تو کوئی مزائقہ نہیں ہوگا، اس حوالے سے صدر اوباما کی مثال بھی دی گئی تھی کہ وہ بھی دو بار حلف اٹھاچکے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ حلف کا وقت انتہائی ناموزوں تھا، ایسٹرولوجی میں کسی اچھے یا برے وقت کی بڑی اہمیت ہے اور اچھے یا برے وقت کی نشان دہی صرف علم نجوم کے ذریعے ہی ممکن ہے،چناں چہ اگر ہم حلف اٹھانے کے بعد سے اب تک کہ واقعات پر نظر ڈالیں تو وزیراعظم صاحب مسلسل مشکلات اور پریشانیوں کا شکار نظر آتے ہیں،ان مشکلات کا آغاز 2014 ءسے ہی ہوگیا تھا اور تاحال جاری ہے اور 14 نومبر 2018 ءتک جاری رہے گا، گویا اگر بقول ن لیگ آئندہ الیکشن 2018 ءمیں ہونے ہیں تو وزیراعظم کے لیے نئے الیکشن کے حوالے سے بھی مشکلات اور سختیاں موجود ہوں گی جن سے عہدہ برآ ہونا شاید ان کے لیے ممکن نہ رہے،چوتھی بار وزیراعظم تو کیا وہ شاید اسمبلی کے ممبر بھی نہ بن سکیں۔
وزیراعظم کی ایک مشکل تو 29 نومبر کو آسان ہوگئی،جب بہ خیرو خوبی فوجی کمان کی تبدیلی کا عمل مکمل ہوا کیوں کہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اور ان کی ایکسٹینشن بھی ایک مسئلہ تھی، حالاں کہ وہ اس سال کے شروع ہی میں کہہ چکے تھے کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے،پھر بھی شاید ان کے بعض مشیر مطمئن نہیں تھے، اب نئے جنرل قمر جاوید باجوہ بھی حسب معمول انہی کا انتخاب ہیں، تاحال ہمیں ان کی درست تاریخ پیدائش وغیرہ حاصل نہیں ہوسکی ہے کہ ان کے زائچے پر کوئی اظہار خیال کیا جاسکے۔
دسمبر کی فلکیاتی صورت حال میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اس مہینے میں تقریباً 11 دسمبر سے 20 دسمبر تک کا وقت وزیراعظم پاکستان کے لیے زیادہ سخت ہوگا، اس وقت کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جسے سنبھالنا خاصا مشکل ہوجائے، واللہ اعلم بالصواب۔
آئیے ایک اہم خط کی جانب:
ورد و وظائف میں پرہیز
ایک بہن لکھتی ہیں جن کا نام و مقام شائع کرنا ہم ضروری نہیں سمجھتے ”میرے خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت پہلے آپ نے اسم اعظم معلوم کرنے کا طریقہ بتایا تھا اور میں نے بھی کوشش کرکے اپنا اسم اعظم آپ کے دیے ہوئے طریقے کے مطابق نکالا تھا، بعد ازاں پابندی سے اس کا ورد کیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے،بے شک اس کے فوائد بھی میں نے محسوس کیے ہیں لیکن اسی دوران میں ایک اور صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اسم اعظم کا نقش مشک اور آب زمزم سے لکھ کر پاس رکھنا ضروری ہے،نیز ورد میں کوئی غلطی یا ناغہ یا زیروزبر کی غلطی سے شدید ردعمل ظاہر ہوتا ہے،بجائے فائدے کے نقصان ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ جلالی و جمالی پرہیز بھی ضروری ہے، آپ کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں تھی، امید ہے کہ وضاحت فرمائیں گے تاکہ شکوک و شبہات دور ہوکر ذہن کو سکون ہوجائے، آپ خود اس معاملے کی اہمیت ہم سے بہتر سمجھ سکتے ہیں،ایک زحمت آپ کو یہ دے رہی ہوں کہ میں نے جو اپنے لیے اسمائے الٰہی منتخب کیے وہ تفصیل سے آپ کو لکھ رہی ہوں، آپ صرف یہ بتادیں کہ مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہوئی،ایک بار پھر آپ کے لیے دعائے خیر کرتے ہوئے درخواست کرتی ہوں کہ اس سلسلے میں یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ اس کا کھلا ورد کسی خاص شرط کا پابند تو نہیں ہے؟نیز جن لوگوں نے اسے اپنے نام کی اعداد کی مقدار میں پڑھا ہے وہ کھلا ورد کرسکتے ہیں اور کس طرح ؟امید رکھتی ہوں کہ قریبی اشاعت میں میرے سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں گے“
جواب: عزیز بہن! آپ نے اسمائے الٰہی سے جو فیض حاصل کیا اس کے لیے مبارک باد، اسم اعظم کے حوالے سے آپ نے کسی صاحب کی جو رائے لکھی ہے،وہ درست نہیں ہے،اکثر لوگ ایسی باتیں اس لیے بھی لکھتے ہیں کہ ان سے رجوع کیا جائے کیوں کہ مشک وغیرہ عام آدمی کہاں سے لائے گا؟ آج کے زمانے میں مشک ایک نہایت قیمتی شے ہے اور آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہوتا، دوسری بات یہ ہے کہ ہر شخص نقش وغیرہ تیار کرنے کے قواعد بھی نہیں جانتا، اگر جانتا ہو یا جان لے تو اپنے لیے خود نقش بناسکتا ہے، اس سلسلے میں مشک کی ضرورت نہیں ہے بلکہ زعفران اور عرق گلاب سے بھی لکھا جاسکتا ہے،اسی طرح کسی غلطی یا ناغے کی صورت میں شدید رد عمل سے ڈرانا ، فائدے کے بجائے نقصان کا خوف دلانا، جلالی و جمالی پرہیز کی خصوصی شرائط عائد کرنا، یہ تمام باتیں صرف اور صرف اس لیے ہیں کہ ضرورت مند گھبراکر لکھنے والے سے رابطہ کریں، امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ مطمئن ہوگئی ہوں گی۔
اب ذرا اس مسئلے کو سمجھ لیجیے کہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی کیا اہمیت رکھتی ہے اور یہ اہمیت کس جگہ مو ¿ثر ہے اور کس جگہ غیر مو ¿ثر ، اس کے علاوہ کسی بھی ورد یا وظیفے یا عمل میں رجعت یا شدید ردعمل ظاہر ہونے کا خوف کہاں ہے اور کہاں نہیں؟ پرہیز جلالی و جمالی کہاں ضروری ہوتا ہے اور کہاں غیر ضروری؟ 
ایسے تمام اعمال ، ورد و وظائف جو انسان اپنی جائز اور حقیقی ضروریات کے تحت اللہ سے استعانت کے لیے اختیار کرتا ہے، ان میں قبولیت اور اثر پذیری کا معاملہ انسان کی نیت اور ضرورت کی درستگی، نیز مقصد کی سچائی اور طلب و لگن سے مشروط ہوتا ہے،چھوٹی موٹی غلطیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں کیوں کہ وہ قبول کرنے والا ، مشکل حل کرنے والا، نیتوں کے حال جاننے والا، ہماری ضروریات کے جائز و ناجائز فیصلہ کرنے والا، ہماری تمام کمزوریوں اور خوبیوں سے بہ خوبی واقف ہے، وہ ہماری دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کے بعد ہمیں وہی کچھ دیتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہے،جب کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے؟ لہٰذا ایسے اعمال و وظائف میں کسی رجعت یا شدید ردعمل کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جس میں انسان اپنی جائز ضروریات کے لیے کسی بھی طریقے سے اپنے رب کو پکار رہا ہو،نہ ہی ایسے اعمال و وظائف کے لیے کسی جلال و جمالی پرہیز کی ضرورت ہوتی ہے،ہاں! البتہ کچا لہسن پیاز کھانے سے اس لیے منع کیا جاتا ہے کہ ان کی بو دیر تک قائم رہتی ہے اور ملائکہ کو بھی ناپسند ہے،حضور اکرم نے فرمایا کہ کچا لہسن پیاز کھاکر ہماری مسجد میں نہ آئیں، اس کی بو سے ملائکہ کو تکلیف ہوتی ہے،اس ارشادِ رسول اکرم کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے بابرکت ناموں کا ورد کرتے ہیں یا دیگر کلام الٰہی اکثر اپنے ورد میں رکھتے ہیں، انہیں کچے لہسن پیاز سے پرہیز کرنا چاہیے،بس اتنی سی بات ہے، پرہیز کے معاملے میں۔
اب ذرا یہ مسئلہ بھی سمجھ لیجیے کہ پرہیز اور کوئی چھوٹی سی غلطی بھی کون سے عملیات و وظائف میں سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے،سب سے پہلے اس ذیل میں وہ اعمال و وظائف آتے ہیں جن کے ذریعے انسان سپر نیچورل قوتوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہوتا ہے یعنی کوئی شخص جنات، ہمزاد، کسی مو ¿کل یا کسی اور نوعیت کی روحانی قوتوں کے حصول کے لیے کوشش کر رہا ہو یا کسی ناممکن ایسی خواہش کی تکمیل کے لیے عمل و وظائف کر رہا ہو جن کا وہ اہل ہی نہیں ہے، استحقاق ہی نہیں رکھتا، مثلاً ایک شخص اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے چلّے وظائف شروع کردے یا کسی اور بڑے عہدے کا حصول اس کا مقصد ہو،لاٹری، ریس، سٹّہ وغیرہ میں جیتنے والے نمبروں کا حصول پیش نظر ہو، کسی کی محبت میں پاگل ہوکر ایسے وظیفے اور چلّے اسے حاصل کرنے کے لیے شروع کردے جب کہ دنیاوی طور پر وہ اس کا حق نہ رکھتا ہو یا وہ لڑکی یا اس کے والدین اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں جس کی وجہ سے رشتہ دینے سے انکاری ہوں، المختصر بات اتنی ہے کہ اگر آپ اپنی جائز اور حقیقی ضرورت و پریشانیوں کے لیے اللہ سے اس کے کلام یا اسمائے الٰہی کے ذریعے دست بہ دعا ہوتے ہیں تو آپ کو کسی خاص پرہیز کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی کسی بات کا خوف ہونا چاہیے جب کہ اس کے برعکس صورت حال میں معاملہ برعکس ہوگا۔
محبت اور شادی وغیرہ کے حوالے سے جو اشارہ دیا گیا ہے اسے مزید وضاحت سے سمجھنے کی ضرورت ہے،یاد رکھیں کہ آپ اپنی ذات اور اپنی ذات سے متعلق مسائل کی حد تک آزاد ہیں،آپ کو تمام اختیارات حاصل ہیں لیکن جب معاملہ یا مسئلہ کسی دوسرے فریق سے منسلک ہوجائے تو پھر بات مختلف ہوجاتی ہے مثلاً اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی جگہ شادی کرے اور وہاں اس کی شادی نہیں ہورہی اور شادی نہ ہونے کی وجوہات میں دوسرے فریق یا اس کے لواحقین (والد، والدہ، بھائی، بہن) کا راضی نہ ہونا شامل ہے،ایسی صورت میں اس معاملے کو صرف فریق اول کا نجی اور ذاتی معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اسے یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی کی مرضی کے خلاف کسی بھی ذریعے سے کوئی اقدام کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو نقصان کا موجب ہوسکتا ہے،اسی طرح عملیات و وظائف کے ذریعے اپنے مخالفین اور ناپسندیدہ افراد کے خلاف کوئی کارروائی کرنا اکثر اوقات خود اپنے حق میں سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، بے شک آپ کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے مگر محض کسی مفروضے اور قیاس کی بنیاد پر دوسروں کو دشمن سمجھ کر ان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں ہوسکتا بلکہ خود اپنے لیے نقصان و تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
عزیزم! آپ نے اپنے لیے درست اسمائے الٰہی منتخب کیے ہیں، بے خوف و خطر انہیں اپنے ورد میں رکھیں، باضابطہ پڑھنے کا طریقہ ہم پہلے تفصیل سے سمجھا چکے ہیں،کھلے ورد کے لیے کوئی قید نہیں، اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے فرصت کے اوقات میں کھلا ورد کیجیے، جن بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، ان سے ہر مسلمان خود آگاہ ہوتا ہے یعنی پاک صاف رہا کرے اور پاکی کی حالت میں ہی اسمائے الٰہی اور کلام الٰہی کا ورد جائز ہے۔