ہفتہ، 25 فروری، 2017

ہر ایک نقش باعثِ عبرت ہے شہر میں

مارچ کی فلکیاتی صورت حال،اہم فیصلوں اور اقدام کا مہینہ
فروری دھماکوں کا مہینہ تھا،یکے بعد دیگر مختلف شہروں میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے،خاص طور پر سیہون میں جس طرح قتل و غارت گری کے علاوہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے مزار کی بے حرمتی کی گئی، وہ نہایت قابل مذمت ہے، قابل مذمت کیا نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی مذمت کرتے کرتے اب زبان بھی تھک چکی ہے،دہشت گردی کے واقعات تو ملک و قوم کے دشمنوں کی کارروائی ہےں لیکن جو اس ملک اور قوم سے دوستی اور وفاداری کا دم بھرتے ہیں ، وہ کیا کر رہے ہیں؟اہل سیاست کا کردار کیا ہے؟ملک کے اہم ادارے کس طرح اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں؟ قصہ مختصر یہ کہ ملک کا تمام منظر نامہ اس قدر پیچیدہ اور غیر اطمینان بخش ہوچکا ہے کہ بیان سے باہر ہے 
کس کس کو دیکھیے گا، اب آنکھوں میں دم نہیں
ہر ایک نقش باعثِ عبرت ہے شہر میں
اب ہم نئے سال کے تیسرے مہینے میں قدم رکھ رہے ہیں،مجموعی طور پر آسمانی قونصل یعنی گردش سیارگان مارچ میں بھی خوش کن نظر نہیں آتی،منحوس راہو ،کیتو اپنی ساکت پوزیشن پر ہیں،یہی صورت مشتری کی ہے اور زحل بھی کمزوری کی حالت میں ہے،عطارد ہبوط زدہ اور غروب ہے،سیارگان کی اکثریت کا یہ حال ہو تو اس نئے مہینے سے بھی زیادہ بہتر توقعات وابستہ کرنا عبث ہوگا۔
موجودہ حکومت اور خصوصاً جناب وزیراعظم نواز شریف کے لیے اس سال کا ہر گزرتا دن نت نئے چیلنج سامنے لارہا ہے،پانامہ کیس کے باعث جو داغ ان کے دامن پر لگے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے لوگ جناب آصف زرداری کو بھول گئے ہیں، دو بزنس مائنڈڈ سیاست دانوں نے سیاسی کاروبار کو وہ رنگ و روپ عطا کیا ہے کہ ہر شخص اب یہی کاروبار کرنے کا متمنی ہے،دونوں کی دولت کے چرچے عام ہیں،وزیراعظم نواز شریف صاحب چوں کہ اقتدار میں ہیں اور ماضی میں بھی دو بار وزیراعظم رہے ہیں لہٰذا ان کی بے پناہ دولت کے بارے میں سوالات پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے،ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اپنے زائچہ ءحلف کے مطابق وہ ایک بدترین دور سے گزر رہے ہیں جس کا آغاز 13 اگست 2014 ءسے ہوا تھا اور اختتام 13 اکتوبر 2018ءکو ہوگا،اگر ہم غور کریں تو یہ تمام عرصہ ان کے لیے نت نئی مشکلات اور چیلنجز لایا ہے اور اس سال بھی رفتہ رفتہ وہ مزید خطرات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کے زائچے کے مطابق مارچ کے مہینے میں موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سخت اقدام دیکھنے میں آئیں گے جیسا کہ ابھی سے نظر آرہا ہے کہ اب پنجاب میں بھی فوجی آپریشن شروع کیا جارہا ہے،فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ بھی جلد طے ہوجائے گا،لبرل سیاسی محاذ اور خصوصاً پیپلز پارٹی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے،وہ چاہتے ہیں کہ صرف مذہبی دہشت گردی کے کیس فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں،کرپشن کے معاملات کو عام عدالتوں تک محدود رکھا جائے لیکن اس مہینے میں سیارگان کے نظرات یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے اختیارات محدود نہیں ہوں گے،اسی طرح ایسے قوانین بھی سامنے آسکتے ہیں جن کے ذریعے کرپشن اور دیگر بدعنوانیوں کی روک تھام کی جاسکے،یہ طے ہے کہ مارچ کے مہینے میں اہم فیصلے اور اقدام سامنے آئیں گے۔
مارچ کے ستارے
سیارہ شمس برج حوت میں حرکت کر رہا ہے،20 مارچ کو برج حمل میں داخل ہوگا،اس طرح اپنی سالانہ گردش مکمل کرکے ایک نئی گردش کا آغاز کرے گا جو آئندہ سال 19 مارچ تک جاری رہے گی،ہر سال گردشِ شب و روز اور موسموں کی تبدیلی سورج یعنی سیارہ شمس کی اسی گردش کا نتیجہ ہے۔
پیغام رساں سیارہ عطارد بھی برج حوت میں حرکت کر رہا ہے،یہاں اسے ہبوط یعنی انتہائی کمزوری کا سامنا ہوتا ہے،سونے پر سہاگا یہ کہ سیارہ شمس سے قربت کے سبب غروب بھی ہے،گویا اس دوران میں عطارد کی اپنی قوت و کارکردگی کچھ نہیں ہے،14 مارچ کو برج حمل میں داخل ہوگا، ہبوط کی پوزیشن سے نکل جائے گا لیکن بدستور اور غروب رہے گا،22 مارچ کو طلوع ہوگا۔
سیارہ زہرہ گزشتہ ماہ سے برج حمل میں حرکت کر رہا ہے،4 مارچ کو اسی برج میں اسے رجعت ہوگی جو 15 اپریل تک جاری رہے گی،گویا زہرہ ایک ہی برج میں خلاف دستور تقریباً 3 ماہ قیام کرے گا،دستور کے مطابق ایک برج میں زہرہ کا قیام تقریباً ایک ماہ یا اس سے کم ہوتا ہے،کسی ایک ہی برج میں کسی سیارے کا اپنی روایت کے خلاف طویل قیام غیر معمولی خیال کیا جاتا ہے،اس کے مثبت یا منفی اثرات ہر شخص پر اس کے اپنے انفرادی زائچے کے مطابق ہوتے ہیں۔
توانائی کا سیارہ مریخ اپنے ذاتی برج حمل میں حرکت کر رہا ہے،10مارچ کو برج ثور میں داخل ہوگااور پورا مہینہ یہیں رہے گا،سیارہ مشتری بحالت رجعت برج میزان میں پورا ماہ حرکت کرے گا،سیارہ زحل برج قوس میں، یورینس حمل، نیپچون حوت اور پلوٹو برج جدی میں حرکت کر رہے ہیں،راس و ذنب بالترتیب برج سنبلہ اور حوت میں ہیں اور مارچ تک اسٹیشنری پوزیشن پر رہیں گے،یہ پوزیشن کسی سیارے کے لیے زیادہ مو ¿ثر یعنی اثر انداز ہونے والی ہوتی ہے۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
مارچ میں اہم سیارگان کے درمیان قائم ہونے والے زاویوں میں 5 قرانات اور 2 تثلیثات ہوں گی جب کہ 3 تسدیسات3 تربیعات اور 2 مقابلے ہوں گے،اس اعتبار سے یہ ایک نہایت اہم اور تمام معاملات میں تیزی لانے والا مہینہ ہوگا جس میں خاصی تیز رفتاری سے اہم اقدام اور فیصلے دیکھنے میں آئیں گے،مارچ کے مہینے میں قائم ہونے والے زاویوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
2 مارچ: شمس اور نیپچون کے درمیان قران کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،خاص طور پر صاحب حیثیت اور عہدہ دار افراد کے لیے یہ نظر نقصان دہ ہوسکتی ہے،انہیں تنزلی یا کسی اسکینڈل کا سامنا ہوسکتا ہے،عام افراد اس نظر کے زیر اثر کارِسرکار میں کسی پریشانی یا پیچیدگی کا شکار ہوسکتے ہیں،انہیں غیر قانونی معاملات سے دور رہنا چاہیے، صاحب حیثیت و عہدہ افراد سے تعاون اور مدد کی امید نہیں رکھنا چاہیے،وہ اپنے ہی مسائل میں مبتلا ہوں گے۔
3 مارچ: مشتری اور یورینس کے درمیان مقابلے کی نظر عدلیہ ، مقننہ، بینکنگ، انشورنس اور اسٹاک مارکیٹ کے معاملات میں غیر معمولی اور چونکا دینے والی خبریں لاتی ہے لہٰذا پاکستان میں عدلیہ ، مقننہ اور دیگر شعبوں کے حوالے سے متنازع صورت حال پیدا ہوسکتی ہے،آئین و قانون میں اختلافی نظریات زیر بحث آسکتے ہیں،بینکنگ انشورنس اور اسٹاک مارکیٹ کے معاملات بھی ہدف تنقید بن سکتے ہیں اور بعض امور میں تبدیلی کی سفارش کی جائے گی،عام لوگوں کو اس دوران میں کسی نئی انویسٹمنٹ یا مالی امور میں کوئی رسک لینے سے گریز کرنا چاہیے،کسی مقدمے کا فیصلہ توقع کے خلاف آسکتا ہے۔
6 مارچ: مریخ اور زحل کے درمیان تثلیث کا زاویہ ایک سعد نظر ہے جو مثبت ترقیاتی کاموں میں مددگار ہوگی،خصوصاً ارضیاتی اور معدنیاتی امورمیں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوگی،نئی سڑکیں، پُل اور تعمیراتی منصوبے تیزی سے آگے بڑھیں گے،عام افراد کے لیے زمین یا مشینری میں انویسٹمنٹ کرنا اس وقت فائدہ بخش ہوسکتا ہے۔
7 مارچ: شمس اور عطارد کا قران ایک ناموافق وقت ہے،عطارد سے متعلق کام اور معاملات متاثر ہوں گے،سفر ، ضروری معلومات کا حصول،انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ، ٹرانسپورٹیشن سے متعلق کام اس دوران میں تاخیر،ا لتوا یا کسی خرابی کا شکار ہوسکتے ہیں،عام لوگوں پر اس نظر کے اثرات ان کے انفرادی زائچے کے مطابق ہوں گے جو مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔
8 مارچ: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تسدیس ایک بے کار نظر ہے کیوں کہ عطارد کی پوزیشن بہتر نہیں ہے،اس نظر سے منفی رجحانات فروغ پاتے ہیں،لوگ شارٹ کٹ کے چکر میں نقصان اٹھاسکتے ہیں،جرائم کی شرح بڑھ سکتی ہے،عام آدمی کو بھی منفی خیالات سے بچنے کی ضرورت ہوگی۔
9 مارچ: شمس اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ ایک سعد نظر ہے لیکن کسی جارحانہ اظہار کے لیے مناسب ہے،اس وقت میں طاقت اور اثرورسوخ کے ذریعے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
12 مارچ: عطارد اور زحل کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ ہوگا، یہ وقت سفر میں التوا اور سفر سے متعلق امور میں پریشانیاں لاسکتا ہے،قابل بھروسا معلومات کا حصول مشکل ہوگا،خصوصاً پراپرٹی کے معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی،کوئی غلط اور نامناسب سودا ہوسکتا ہے،دستاویزی نوعیت کی غلطیاں سامنے آسکتی ہیں لہٰذا اہم دستاویزات پر دستخط کرنے سے پہلے اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ آپ کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر رہے۔
18 مارچ: شمس اور زحل کے درمیان تربیع کی نظر نہایت منحوس اثر رکھتی ہے،اس وقت میں صاحب حیثیت و مرتبہ افراد غلطیاں کرتے ہیں،وہ ذاتی حرص و ہوس کا شکار ہوتے ہیں،اختیارات کا ناجائز استعمال دیکھنے میں آتا ہے،عام افراد کو اس دوران میں افسران بالا اور حکام سے دور رہنا چاہیے کیوں کہ وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے آپ کو استعمال کرسکتے ہیں،یہ وقت بھی پراپرٹی سے متعلق کاموں میں احتیاط کا ہے،کوئی خریدوفروخت کرتے ہوئے دستاویزات کو اچھی طرح چیک کرلیں۔
اسی تاریخ کو عطارد اور زہرہ کا قران اگرچہ ایک سعد نظر ہے لیکن کمزور ہے،کسی حد تک مثبت اثر دے سکتی ہے،دوسروں سے تعلقات کو بہتر بنانے اور بات چیت کے ذریعے مقاصد کے حصول میں مددگار ہوسکتی ہے، اگر آپ ہوشیاری اور چالاکی کا مظاہرہ کریں ورنہ دوسرے آپ سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں یا آپ کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
24 مارچ: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تربیع کی نظر نحس اثر رکھتی ہے،یہ ایکسیڈنٹ اور دیگر ذرائع نقل و حمل کے ذریعے نقصانات ظاہر کرتی ہے،دوسروں سے گفت و شنید اور بات چیت میں گرما گرمی کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے،اس وقت ٹھنڈے دل و دماغ سے اور عقل و دانش سے کام لینے کی ضرورت ہوگی۔
اسی تاریخ کو عطارد اور مشتری کے درمیان مقابلے کی نظر نحس ہے اور سونے پر سہاگا ہے،یہ نظر ترقیاتی امور میں رکاوٹ، مالی معاملات میں ذہنی الجھن اور فکر مندی لاتی ہے، اسٹاک مارکیٹ میں غیر معمولی منفی یا مثبت صورت حال ایک فریبِ نظر کی طرح سامنے آسکتی ہے۔
25 مارچ: شمس اور زہرہ کا قران بھی ایک نحس نظر ہے،زہرہ کا غروب اور تحت الشاع ہونا اسے کمزور کرتا ہے جس کی وجہ سے اس عرصے میں دوسروں سے تعلقات میں دشواری اور اکثر امور میں توازن اور ہم آہنگی کا برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے،یہ وقت محبت، دوستی، منگنی یا نکاح وغیرہ کے لیے نہایت ناموزوں ہوگا۔
26 مارچ: عطارد اور یورینس کے درمیان قران کا زاویہ نئے انکشافات اور نئی معلومات کا باعث ہوگا، یہ انکشافات اور معلومات غیر متوقع اور چونکا دینے والے ہوسکتے ہیں،عام افراد کے لیے یہ ایک بے چینی اور اضطراب لانے والا وقت ہوگا جس کے زیر اثر ہم فوری طور پر غلط یا صحیح فیصلے بھی کرسکتے ہیں،عام طور پر جذبات اور خواہشات کے زیر اثر کیے گئے فیصلے اس وقت غلط ثابت ہوتے ہیں،کسی کام یا مسئلے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے سے پہلے بھی اچھی طرح سوچنا سمجھنا ضروری ہوگا۔
27 مارچ: مریخ اور نیپچون کے درمیان تسدیس کا زاویہ اگرچہ سعد ہے لیکن مریخ اور نیپچون کے نظرات سعد بھی ہوں تو مثبت نہیں ہوتے،یہ وقت شدت پسندانہ رجحانات لاتا ہے،انسان کسی انتہا پسندی کا شکار ہوسکتاہے،پُراسرار نوعیت کی سرگرمیاں اور دلچسپیاں سامنے آتی ہیں لہٰذا محتاط ہوکر کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔
29 مارچ: عطارد اور زحل کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ پراپرٹی اور دستاویزی نوعیت کی سرگرمیوں کے لیے نہایت موافق ثابت ہوگا،اس دوران میں سفر اور ضروری معلومات کا حصول بہتر رہے گا،یہ وقت علاج معالجے میں بھی معاون و مددگار ہے،طویل المیعاد منصوبہ بندی یا کوئی پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے بہترین وقت ہوگا۔
شرف قمر
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اس ماہ قمر 2 مارچ کو شام 04:04 pm پر درجہ ءشرف پر آئے گا اور 05:45 pm تک قمر شرف یافتہ ہوگا،یہ سعد وقت ہر ماہ ہمیں دستیاب ہوتا ہے،اس وقت میں اپنی جائز ضروریات کے لیے اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم 556 مرتبہ، اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ سے عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کریں،انشاءاللہ ہر جائز مراد پوری ہوگی۔
قمر در عقرب
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق قمر اپنے درجہ ءہبوط پر برج عقرب میں 16 مارچ کو رات 12:06 am سے 01:41 am تک رہے گا،یہ نہایت منحوس وقت تصور کیا جاتا ہے اور اس وقت برے کاموں سے روکنے اور بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے اہم عملیات کیے جاتے ہیں،دشمن کی زبان بندی تاکہ کبھی خلاف نہ بولے اس وقت پر کی جاسکتی ہے،اس کے لیے ایک نادر، مجرب اور نہایت سخت عمل اس بار پیش کیا جارہا ہے لیکن ہر گزناجائز طور پر نہ کریں ورنہ خود نقصان اٹھائیں گے۔
درج ذیل نقش خاکی چال سے اس وقت میں کسی کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے لکھ کر تعویذ بنالیں اور اسے موم جامہ یا پلاسٹک کوٹڈ کرلیں،بکرے کی سری یعنی سر پہلے سے لاکر رکھیں، نقش کو بکرے کے منہ میں رکھ دیں اور سوئی دھاگا لے کر اس کا منہ سی دیں یعنی اس طرح سلائی کردیں کہ اس کا منہ بند ہوجائے، نقش کے نیچے اس شخص کا نام مع والدہ اس طرح لکھیں ”عقداللسان فلاں بن فلاں ابداً فی الحق فلاں بن فلاں“ ، ابتدا میں اس کا نام مع والدہ لکھیں جس کی زبان بندی کرنی ہو،بعد میں اپنا نام مع والدہ لکھیں۔
اب بکرے کی سری کو سمندر یا کسی نہر، تالاب وغیرہ کے کنارے یا کسی قبرستان میں دفن کردیں، دفن کرنے کے بعد پلٹ کر نہ دیکھیں، واپس گھر آکر غسل کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں، انشاءاللہ وہ شخص کبھی آپ کے خلاف زبان نہیں کھولے گا،نقش یہ ہے۔
نقش بھرتے ہوئے نقش کی چال کا خیال رکھیں،چال کی ابتدا 297 سے ہوگی،اس کے بعد ترتیب وار 298,299,300,301,302,303,304 اور آخری خانے میں 305 لکھیں گے تو نقش چال کے مطابق مکمل ہوجائے گا، آخر میں ایک بار پھر سخت تاکید ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگی اور غصہ نہ کریں، کسی بہت ہی بڑے کمینے اور مخالف کے لیے یہ عمل کریں جس نے آپ کی زندگی عذاب بنادی ہو اور آپ کو سخت نقصانات پہنچارہا ہو،اُس وقت رجال الغیب شمال کی سمت ہوں گے لہٰذا جنوب کی طرف رُخ کرکے بیٹھیں۔آئیے اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی طرف: 
جڑواں مسائل
ن،س، کراچی سے لکھتی ہیں ”ہم جڑواں بہنیں ہیں، زائچہ دیکھ کر بتائیں کہ اب تک کچھ نہ کرسکے،تعلیم بہت اچھی حاصل کی لیکن کچھ نہ بن سکے،کوئی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں،زہرہ، مریخ، مشتری ، عطارد، راہو، کیتو، قمر، ان میں سے کیا متاثر ہے جس سے زائچہ کمزور ہے، ریمیڈی بتائیں؟کیا کرنا ہے، طالع اور قمر بتائیں؟، کیا پروفیشن اختیار کروں، ماسٹر کیا ہوا ہے، سب سے اہم یہ کہ اب تک شادی بھی نہیں ہوسکی جس کی وجہ بھی بتائیں، حل بتائیں کیا کریں، لوح مشتری ہے میرے پاس، ہانڈی والا عمل بھی کیا ہے،جمعرات کو مشتری کا صدقہ بھی دیتے ہیں، پلیز میرے خط کا جواب ضرور دیں“
جواب: سب سے پہلی بات تو یہ کہ جڑواں بچوں کے زائچے بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے،آسان تو خیر عام زائچے بنانا بھی نہیں ہے کیوں کہ اکثر لوگوں کا پیدائش کا وقت درست نہیں ہوتا،دو چار منٹ یا دس پندرہ منٹ اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ فرق ہوتا ہے،اسپتالوں سے ملنے والے برتھ سرٹیفکیٹ میں بھی وقت کی درستگی مشکوک ہوتی ہے،ایسی صورت میں ایک اچھا اور ماہر ایسٹرولوجسٹ اُس کمی بیشی کو ایڈجسٹ کرسکتا ہے بشرط یہ کہ صاحب زائچہ اس کے سامنے ہو یا اس سے کسی نہ کسی طور رابطے میں ہو تاکہ وہ اس کے قد قامت، چہرے کی ساخت وغیرہ سے درست طالع پیدائش اور طالع پیدائش کے درجات مقرر کرسکے،ہمارے ہاں علم نجوم کے حوالے سے اس قدر احتیاط اور باریک بینی عام طور پر مدنظر نہیں رکھی جاتی لہٰذا اکثر لوگوں کے زائچے غلط بن جاتے ہیں،پیدائش کا درست وقت وہ ہے جب انسان دنیا میں پہلی سانس لیتا ہے،یہ وہی وقت ہوتا ہے جب بچہ رونا شروع کرتا ہے،اسپتالوں میں نوٹ کیا گیا وقت ضروری نہیں ہے کہ اس کے مطابق ہو۔
مزید باریک بینی کی ضرورت جڑواں بچوں کے زائچے میں پیش آتی ہے کیوں کہ دونوں کی پیدائش کے درمیان کچھ نہ کچھ وقفہ ضرور ہوتا ہے،یہی وقفہ ایک ہی وقت پر اور ایک ہی تاریخ کو پیدا ہونے والے افراد کے درمیان نمایاں فرق اور زندگی میں پیش آنے والے اچھے برے واقعات میں بھی فرق ڈالتا ہے،اب آپ نے دونوں کے درمیان پانچ منٹ کا فرق ظاہر کیا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ آپ دونوں میں سے پہلے کون پیدا ہوئی اور بعد میں کون ؟بعد میں پیدا ہونے والی کے مسائل آپ سے زیادہ ہیں۔
اس وقت کے مطابق دونوں کا طالع پیدائش برج قوس ہے،اگر آپ کی پیدائش کا وقت یعنی پہلی سانس لینے کا وقت اس سے پہلے یا کچھ بعد میں ہے اور دوسری بہن کا جو یقیناً بعد میں ہے تو بھی دونوں کا طالع پیدائش ایک ہی رہے گا یعنی برج قوس اور حاکم سیارہ مشتری جو زائچے میں کمزور اور خراب جگہ واقع ہےں لیکن چند منٹ کے فرق سے طالع کے درجات تبدیل ہوجائیں گے اور یہ چیز بھی نتائج میں فرق کا باعث ہوگی۔
آپ کا اور آپ کی بہن کا قمری برج عقرب ہے جو قمر کا بدترین برج ہے،مزید خرابی یہ ہے کہ نوبہرہ زائچے میں بھی قمر عقرب ہی میں ہے،قمر آپ کے زائچے میں شادی یعنی نکاح سے متعلق ہے اور شادی نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ قمر بدترین پوزیشن میں ہے،شادی سے متعلق دیگر سیارگان میں مشتری ہے جو آپ کا اپنا ستارہ بھی ہے اور شوہر کی نمائندگی کرتا ہے،یہ زائچے کے چھٹے گھر میں ہے جس کی وجہ سے آپ کے مزاج میں تیزی ، صحت کی خرابیاں، اختلاف رائے کی عادت، دوسرے معنوں میں جھگڑالو طبیعت ظاہر ہوتی ہے۔
بلاشبہ آپ دونوں بہنوں کا زائچہ نہایت دلچسپ اور قابل غور ہے،دل چاہتا ہے کہ اس زائچے کا نہایت تفصیل کے ساتھ تجزیہ کیا جائے لیکن ظاہر ہے یہ کالم اتنے تفصیلی تجزیے کا متحمل نہیں ہوسکتا، البتہ اپنی کسی کتاب میں مثالی زائچے کے طور پر یہ کام کیا جائے گا،فی الحال آپ کی فرمائش کے مطابق ضروری سوالات کے جواب دیے جارہے ہیں۔
پہلا گھر قوس اور اس کا حاکم مشتری آپ کی ذات اور شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے، مشتری جیسا کہ پہلے بتایا، چھٹے گھر میں ہونے کی وجہ سے خراب جگہ واقع ہے جس کی وجہ سے شخصیت میں منفی طرز فکر پیدا ہوتا ہے،زائچے کا دوسرا اہم سیارہ زحل ہے جو تیسرے گھر پر حکمران ہے، تیسرا گھر پہل کاری، چھوٹے بہن بھائی، کوشش، اقدام اور جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے،اس کا حاکم زحل بھی زائچے کے آٹھویں گھر میں کمزور ہے،پانچواں گھر جسے شعور ، خوشیاں، خوش بختی،محبت وغیرہ کے معاملات سے منسوب کیا گیا ہے، اس کا حاکم سیارہ مریخ ہے،یہ بھی کمزور ہے،شادی کے حوالے سے خصوصاً نکاح کے بندھن کا گھر آٹھواں ہے، اس کا حاکم قمر ہے جو زائچے کا فعلی منحوس بھی ہے، یہ بارھویں گھر میں برج عقرب میں ہے اور جیسا کہ پہلے بتایا کہ نوامسا چارٹ میں بھی برج عقرب میں ہے لہٰذا شادی اور ازدواجی زندگی کے لیے بندش ہے،زائچے کا نواں گھر جسے بھاگیہ استھان کہا جاتا ہے،مذہب، آئین و قانون،مستقبل کی منصوبہ بندی اور اعلیٰ تعلیم سے منسوب کیا گیا ہے،زائچے کا واحد طاقت ور اور مضبوط گھر ہے کیوں کہ اس کا حاکم سیارہ شمس چوتھے گھر میں ایک طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے،کرئر اور اسٹیٹس یا پروفیشن دسویں گھر سے متعلق ہے،ا س کا حاکم عطارد ہے،یہ بھی اگرچہ پانچویں گھر میں ہے لیکن بہت مضبوط اور طاقت ور نہیں ہے،گیارھویں گھر کا حاکم سیارہ زہرہ ہے،گیارھواں گھر کاروباری اور زندگی میں دیگر فوائد سے متعلق ہے،دوست احباب کا گھر بھی یہی ہے اور عورت یا مرد کے زائچے میں شادی اور ازدواجی زندگی کی خوشیاں بھی سیارہ زہرہ سے متعلق ہےں،زہرہ زائچے کے چوتھے گھر میں سیارہ شمس سے قریبی قران کی وجہ سے تحت الشعاع (combust) پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے اپنی قوت کھو بیٹھا ہے،حالاں کہ وہ اپنے شرف کے گھر میں ہے اور اس طرح زائچے میں ملاویا یوگ بن رہا ہے جو خوش قسمتی لاتا ہے،شرف کے گھر میں ہونے کی وجہ سے زہرہ کو تھوڑی بہت قوت حاصل ہے،اگر قمر کی پوزیشن انتہائی ناقص نہ ہوتی تو آپ کی شادی ہوجاتی۔
آپ نے لکھا ہے کہ لوح مشتری آپ کے پاس ہے،خدا معلوم آپ نے کہاں سے لی کیوں کہ کراچی میں تو لوح مشتری کے موسم میں بڑا دھوکا اور فراڈ ہوتا ہے،بے شک مشتری کی لوح آپ کے لیے فائدہ مند ہے اگر وہ درست وقت پر تیار کی گئی ہو اور درست وقت پر پہنی گئی ہو، آپ نے ہانڈی تالے والا عمل بھی کیا ہے جو ہمارا بڑا مشہور عمل ہے،ممکن ہے عمل میں کوئی غلطی ہوگئی ہو، جب آپ نے یہ عمل کیا گیا ہوگا تو آپ کو چاہیے تھا کہ مشورہ کرتیں اور عمل کے بعد بھی مشورہ جاری رکھتیں تاکہ ناکامی کی صورت میں آپ کی درست رہنمائی کی جاتی،یہ طریقہ عام طور پر غلط ہے کہ اگر ڈاکٹر کی دوا سے چند روز میں کوئی فائدہ نہ ہوا تو علاج ہی چھوڑ دیا،ایسی صورت میں یقیناً ہم آپ کو یہی مشورہ دیتے کہ اپنا زائچہ بنوائیں تاکہ بنیادی خرابی کا پتا چل سکے اور اس کے مطابق ہی علاج تجویز کیا جائے۔
آپ کا سب سے بڑا مسئلہ شادی کے حوالے سے قمر کی خرابی ہے اور پھر زہرہ اور مشتری کی کمزوری ، قمر چوں کہ آٹھویں گھر کا حاکم ہوکر فعلی منحوس بن گیا ہے لہٰذا قمر کا پتھر یا قمر سے متعلق کوئی بھی لوح یا نقش آپ استعمال نہیں کرسکتےں ورنہ کچھ دوسرے نقصانات کا بھی سامنا ہوسکتا ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ پیر کے دن نفلی روزہ رکھا کریں اور کسی غریب بچوں والی عورت کی مدد اس طرح کریں کہ اُسے بھی محسوس ہو کہ واقعی آپ اس کی مدد کر رہی ہیں،مثلاً ماہانہ یا ہفتہ وار ایک معقول رقم پابندی سے دیا کریں یعنی جس حد تک بھی ہوسکے اُس کی کفالت کریں،دودھ اور دیگر سفید چیزوں کا استعمال زیادہ کریں،چاندنی رات میں قمر کی روشنی میں بیٹھ کر کچھ دیر مراقبہءنور کیا کریں۔
یلو سفائر کم از کم 5 کیرٹ وزن میں کسی مناسب وقت پر دائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی میں پہن لیں اور اصلی اوپل (آج کل اوپل نایاب ہے اور بازار میں عموماً میڈ ان چائنا اوپل مل رہے ہیں) دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں کم از کم پانچ کیرٹ وزن میں ایسے وقت پر پہنیں جب زہرہ طاقت ور ہو، ایسا وقت 15,16 اپریل کو ہوگا کیوں کہ اُس وقت زہرہ اپنے شرف کے درجے پر ہوگا لیکن بالکل صحیح ٹائم رابطہ کرکے معلوم کریں۔


ہفتہ، 18 فروری، 2017

انسان اور جنات کے درمیان روابط و تعلقات کے امکانات

آتشی اور خاکی مخلوق کے درمیان محبت، شادی اور ناجائز تعلق کا جائزہ
شیاطین و جنات کے حوالے سے سیکڑوں نہیں، ہزاروں واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں، مختلف بیماریوں میں ہماری اکثرخواتین آسیبی اور جناتی اثرات کا شکار نظر آتی ہیں اور پھر روحانی علاج کا سلسلہ پیروں فقیروں سے شروع ہوکر بزرگوں کے مزارات تک چلا جاتا ہے،ہمارے ایک قاری نے ای میل کے ذریعے ایک اہم اور دلچسپ سوال کیا ہے،وہ لکھتے ہیں ”میں نے اکثر دیکھا ہے کہ بعض لوگوں پر جنات کا اثر ہوجاتا ہے اور اس کے اثر سے ان کی طبیعت خراب ہوتی ہے جب کہ بعض لوگ کسی جناتی اثر کے باوجود بھلے چنگے نظر آتے ہیں اور جنات سے اپنے تعلقات کا اظہار فخریہ انداز میں کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو جن ہے، وہ نیک اور شریف ہے،ہماری رہنمائی کرتا ہے،بعض خواتین پر جنات کے عاشق ہونے کے بارے میں بھی ہم نے سنا ہے،میرا سوال یہ ہے کہ کیا انسان اور جنات کے درمیان محبت وغیرہ کے امکانات موجود ہیں یا نہیں اور اس محبت کے نتیجے میں وہ آپس میں شادی اور دیگر ازدواجی تعلقات بھی قائم کرسکتے ہیں یا نہیں اور اس کے نتیجے میں اولاد کی پیدائش بھی ممکن ہے یا نہیں؟ مہربانی فرماکر اس موضوع پر تفصیل سے رہنمائی فرمائیں“
جواب: عزیزم! آپ کا ایک سوال بے شمار سوالات کو جنم دیتا ہے اور ہر سوال کی تشریح خاصی طویل ہوسکتی ہے لیکن فی زمانہ چوں کہ جنات و آسیب زدگی کی وبا عام ہے اور خصوصاً خواتین اس مسئلے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں لہٰذا ہم اس اہم موضوع پر ضرور تفصیلی روشنی ڈالنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ اس حوالے سے جو غلط باتیں اور گمراہ کن نظریات ہمارے معاشرے میں جعلی پیروں،فقیروں اور نام نہاد عاملوں کاملوں نے پھیلا رکھے ہیں، ان سے نجات مل سکے،آئیے اس مسئلے کو بالکل ابتدا سے دیکھتے ہیں۔
قرآن، حدیث اور روایات
قرآن اور احادیث کی روشنی میں جنات (ایک آتشی مخلوق) کا وجود ثابت ہے، دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کی تعلیمات میں بھی ان کے وجود سے انکار نظر نہیں آتا،البتہ قرآن کریم کی من مانی تفسیر کرنے والے سرسید احمد خان اور بعد ازاں غلام احمد پرویز جنات کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔
 ”مجموعہءفتاویٰ“ میں علامہ ابن تیمہ ؒ فرماتے ہیں ”جنات کے وجود کے سلسلے میں مسلمانوں میں سے کسی جماعت نے مخالفت نہیں کی اور نہ ہی اس سلسلے میں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو ان (جنوں کی) طرف بھی نبی بناکر بھیجا تھا۔اکثر کافر جماعتیں بھی جنوں کے وجود کو تسلیم کرتی ہیں، یہودو نصاریٰ جنوں کے بارے میں اسی طرح اعتقاد رکھتے ہیں جس طرح کہ مسلمان البتہ ان میں کچھ لوگ اس کے منکر ہیں، جیسا کہ مسلمانوں میں جہیمہ اور معتزلہ (ابتدائی دور کے دو فرقے) وغیرہ اس کا انکار کرتے ہیں، حالاں کہ جمہورائمہ اس کو تسلیم کرتے ہیں“۔
علامہ ابن تیمہؒ مجموعہ ءفتاویٰ میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں ”مسلمانوں کی تمام جماعتیں جنوں کے وجود کو تسلیم کرتی ہیں، اسی طرح تمام کفار اور عام اہل کتاب بھی اسی طرح مشرکین ارب میں اولاد حام، اہل کنان و یونان میں اولاد یافث، غرض جملہ فرقے اور جماعتیں جنوں کے وجود کو تسلیم کرتی ہےں“۔
بحیثیت مسلمان جنات کے وجود کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں انبیاءکرام سے تواتر کے ساتھ واقعات قرآن ، احادیث اور کتب تفاسیر و تاریخ میں موجود ہیں، ان ہی واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنات جاندار اور عقل و فہم رکھنے والی آتشی مخلوق ہیں ، وہ جو بھی کام کرتے ہیں، اپنے ارادے سے کرتے ہیں، بلکہ وہ امرونہی کے بھی مکلف ہیں۔جب جنات کا معاملہ اس قدر تواتر و تسلسل کے ساتھ ثابت ہے کہ ہر خاص و عام یہ جانتا ہے پھر اس کا انکار کسی ایسی جماعت کے شایان شان نہیں جو خود کو رسولوں کی طرف منسوب کرتی ہو۔
اس ساری بحث کے بعد آئیے اب اس امکان کا جائزہ لیتے ہیں کہ جب ایک ایسی آتشی مخلوق موجود ہے تو اس کے ایک خاکی و آبی مخلوق انسان سے روابط و تعلقات کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے؟
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہو ہی چکا ہے کہ حضور انسانوں کی طرف ہی نہیں ، جنات کی طرف بھی نبی بناکر بھیجے گئے تھے اور آپ نے مومن جنات کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ وہ تمہارے بھائی ہیں، ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے کہ ”گوبر اور ہڈی سے استنجے نہ کرو اس لیے کہ یہ تمہارے جنات بھائیوں کی غذا ہے“۔ صحیح الجامع جلد دوئم۔ صفحہ 154.
صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ”مجھے ایک جن نے دعوت دی، میں اس کے ساتھ گیا، ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، وہ جن ہمیں ایک جگہ لے گیا اور جنوں کے مکانات اور آگ کے نشانات دکھائے، ان لوگوں نے آپ سے کھانا مانگا تو آپ نے فرمایا، تمہارے لیے ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہوگا، گوشت بن جائے گی اور جانوروں کی مینگنی تمہارے مویشیوں کے لیے چارا ہے چناں چہ نبی نے فرمایا لہٰذا تم لوگ ان دونوں چیزوں سے استنجیٰ نہ کرو اس لیے کہ وہ تمہارے بھائیوں کی غذا ہے“
جنات کی اس مخصوص غذا کے علاوہ بھی ان کی دیگر غذاو ¿ں سے رغبت کا پتا چلتاہے، اس سلسلے میں بے شمار روایات بھی موجود ہیں اور لوگوں کے ذاتی تجربات و مشاہدات بھی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص خوراک کے علاوہ دیگر تمام انسانی غذائیں بھی کھاتے ہیں۔
حیدرآباد دکن میں مٹھائی کی دکانیں رات بارہ بجے کے بعد بھی دیر تک کھلا رکھنے کا رواج تھا، اس سلسلے میں کہا یہ جاتا تھا کہ رات بارہ بجے کے بعد جنات خریداری کے لیے نکلتے ہیں، یہ خیال حیدرآباد دکن تک ہی محدود نہیں بلکہ برصغیر انڈوپاک میں ایسے واقعات عام رہے ہیں۔
جنات میں شادی بیاہ کا رواج بھی قرآن و حدیث و دیگر روایات سے ثابت ہے لہٰذا ان میں نسلی ارتقا کے سلسلے جاری و ساری ہونا بھی ایک طے شدہ امر ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنات اور انسان کے درمیان بھی شادی بیاہ یا دوسرے معنوں میں جنسی تعلقات ممکن ہیں؟
آگ اور پانی کا ملاپ
اس سوال کا جواب بھی ہمیں احادیث، روایات اور عام انسانی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں ملتا ہے۔
علامہ سیوطیؒ نے ایسے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اور جنوں میں شادی بیاہ ہوسکتا ہے، علامہ ابن تیمہؒ اپنی کتاب مجموعہ الفتاویٰ میں رقم طراز ہیں کہ ”کبھی کبھی انسان و جنات آپس میں نکاح کرتے ہیں اور ان کی اولاد بھی ہوتی ہے، یہ چیز بہت مشہور اور عام ہے“
حضور کا یہ ارشاد بھی احادیث میں موجود ہے”آدمی جب اپنی بیوی سے ہم بستری کرتا ہے تو بسم اللہ نہیں پڑھتا تو شیطان اس کی بیوی سے مجامعت کرتا ہے“۔
یہ حدیث بھی موجود ہے کہ حضور نے جنات سے شادی کرنے کو منع فرمایا ہے، اسی طرح فقیہانِ اسلام نے بھی جنات اور انسانوں میں شادی بیاہ کو ناجائز قرار دیا ہے، چناں چہ اس فعل کو ممنوع اور مکروہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا ممکن ہے، اگر ممکن نہ ہوتا تو شریعت میں اس کے جواز و عدم جواز کا فتویٰ نہ لگایا جاتا۔
اب یہاں سے ایک نئی بحث شروع ہوتی ہے یعنی یہ اعتراض کہ جنات آتشی مخلوق ہیں اور انسان خاکی و آبی لہٰذا یہ آگ و پانی کا ملاپ کیسے ممکن ہے اور اس ملاپ کے نتیجے میں اولاد کا ہونا خلاف عقل و شعور ٹھہرتا ہے، معترضین اس سلسلے میں دلیل یہ دیتے ہیں کہ جنات کے آتشی عنصر کی وجہ سے عورت کا حاملہ ہونا ممکن نہیں کیوں کہ نطفہ انسانی میں رطوبت ہوتی ہے جو یقیناً آگ کی گرمی سے خشک ہوکر ختم ہوجائے گی یا یہ کہ جس طرح نطفہءانسانی عناصر مٹی و پانی کے سبب رطوبت پر مشتمل ہوتا ہے اسی طرح نطفہ جنات آگ و ہوا کے زیر اثر رطوبت سے عاری اور خشک ہوگا لہٰذا دونوں کا اتصان قرین قیاس نہیں ہے۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے۔
ہر چند کہ جنات کی تخلیق آگ ہوا کے عنصر پر ہوئی لیکن اپنی تخلیق کے بعد وہ اپنے عنصر پر باقی نہیں رہے بلکہ کھانے پینے اور توالدوتناسل کے عمل سے دوسری حالت میں بدل گئے جیسا کہ آدم کی اولاد اس عمل کی وجہ سے مٹی کے عنصر سے دوسری حالت میں بدل گئی یعنی ہم مٹی اور پانی سے تخلیق پانے کے باوجود اپنی اصل پر قائم نہیں ہیں، گوشت و پوست،خون اور ہڈیوں کا ملغوبہ ہیں، مائع کی شکل میں اس گوشت و پوست و ہڈیوں کے ساتھ خون اور دیگر رطوبات بھی ہمارے اندر موجود ہیں، بالکل اسی طرح جنات بھی اپنے ابتدائی تخلیق عمل کے بعد اپنے عنصر کی اصلیت پر باقی نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی حالت پر ہیں جس میں وہ انسانوں کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے ساتھ کھانے پینے اور اپنی نسل کو بڑھانے کے عمل سے متصف ہیں لہٰذا مندرجہ بالا اعتراض کو انسان اور جن کے جنسی تعلق پر وارد نہیں کیا جاسکتا۔
 اب اس موقع پر حضور اکرم کا ایک ارشاد ملاحظہ کیجیے، آپ نے فرمایا” نماز میں مجھے شیطان نظر آیا تو میں نے اس کا گلا دبوچ لیا جس سے مجھے اپنے ہاتھوں میں اس کے تھوک کی برودت محسوس ہوئی، اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا مجھے یاد نہ آجاتی تو میں اسے قتل کردیتا“،اس موضوع پر کئی احادیث موجود ہیں، ایک حدیث کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ میں اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیتا، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آگ سے پیدا شدہ مخلوق یعنی شیطان کے منہ میں تھوک یعنی نمی موجود تھی، اگر وہ اپنے آتشی عنصر پر برقرار ہوتا اور سرتاپا آگ ہوتا تو پھر اس میں کسی بھی قسم کی نمی یا تراوٹ کا کیا کام؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ مندرجہ بالا اعتراض میں کوئی جان نہیں ہے۔
جنات اور انسان کے روابط
جنات اور انسانوں میں شادی بیاہ یا جنسی تعلقات کے واقعات قبل اسلام اور ظہور اسلام کے بعد بھی ملتے ہیں، اس حقیقت سے جہاں انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضور کی بعثت کی خبر بھی ابتدا میں جنات نے انسانوں کو دی۔
 طبرانی میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ مدینے میں ایک عورت کے کسی جن سے تعلقات تھے،وہ اس کے پاس اکثر آتا رہتا تھا، پھر اچانک غائب ہوگیا، ایک روز پرندے کی شکل میں دیوار پر آکر بیٹھ گیا، عورت نے پاس بلایا تو اس نے جواب دیا کہ مکے میں ایک نبی مبعوث ہوئے ہیں جنہوں نے زنا کو حرام کردیا ہے، ایسی ہی ایک روایت اور موجود ہے کہ اسے علامہ ترمذیؒ نے اپنی کتاب ”حیات الحیوان“ میں درج کیا ہے، خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ایک جن عورت کے پاس آتا اور زنا کیا کرتا تھا ایک روز وہ آیا اور دیوار پر پیر لٹکا کر بیٹھ گیا، عورت نے کہا آج کیا بات ہے؟ جو تو پاس نہیں آتا“، اس جن نے جواب دیا کہ میں ابھی ابھی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی۔
”زناکار عورت اور مرد، ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں“۔
ممکن ہے یہ دونوں واقعات ایک ہی ہوں، یہی روایت امام بیہقیؒ نے امام زین العابدینؓ سے روایت کی ہے کہ پہلے پہل آنحضرت کی بعثت کی خبر مدینے میں ایک جن کے ذریعے پہنچی تھی۔
ایک اور روایت ابن عساکر اور خزائنی نے ابن قیس کے حوالے سے بیان کی ہے کہ ایک دن حضور کی محفل میں کاہنوں اور کہانت(غیب کی پیش گوئیاں) کرنے والوں کا ذکر چھیڑا اور اس سلسلے میں لوگ اپنے چشم دید واقعات و حالات بیان کرنے لگے، ابن قیس نے بیان کیا کہ مجھے بھی اس سلسلے میں ایک عجیب اتفاق پیش آیا، ایام جاہلیت میں میرے پاس ایک لونڈی تھی، اس کا نام خلصہ تھا، اس لونڈی نے ایک روز ہمیں بتایا کہ ان دنوں مجھ پر ایک عجیب حالت گزر رہی ہے اور میں ڈرتی ہوں کہ تم مجھ پر بدکاری اور حرام کاری کا الزام نہ لگادو، صورت یہ ہے کہ ہر روز ایک سیاہ فام وجود مجھ سے ہم بستر ہوتا ہے، چناں چہ چند ماہ بعد وہ لونڈی حاملہ ہوگئی پھر وقت مقررہ پر اس نے ایک بچہ جنا جس کے کان کتے کی طرح تھے اور اس کی شکل بھی عام انسانوں کی طرح نہ تھی، جب وہ کچھ بڑا ہوا تو کاہنوں کی طرح باتیں کرنے لگا اور لوگوں کو آئندہ کے واقعات اور غیب کی خبریں بتاتا تھا، ایک دن اس نے بتایا کہ تمہارے دشمن فلاں جگہ چھپے ہوئے ہیں اور تمہاری گھات میں ہیں، جب ہم وہاں گئے تو ہم نے وہاں دشمنوں کو موجود پایا، آخر ایک روز وہ اچانک خاموش ہوگیا، لوگوں کے بے حد اصرار پر بھی کچھ نہیں بتاتا تھا، پھر اس نے کہا کہ مجھے ایک کمرے میں تین روز کے لیے بند کردو چناں چہ ایسا ہی کیا گیا، تین روز بعد اسے کمرے سے نکالا گیا تو اس نے ہمیں یہ خبر دی کہ آخری نبی مکے میں مبعوث ہوچکے ہیں اور میری زبان بند کردی گئی ہے، اب میں غیب کی کوئی خبر نہیں بتاسکتا، اس کے بعد وہ زمین پر لیٹ گیا اور مرگیا“۔
یہ واقعہ بھی مختلف روایات میں تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ مختلف انداز میں نقل ہوا ہے، بعض روایات میں یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ حضور نے اس واقعے کی تصدیق فرمائی۔
مزید واقعات
جنات اور انسانوں کے درمیان شادی بیاہ کے واقعات معتبر روایات میں موجود ہیں،ان واقعات سے جنات کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنات مسلمان، عیسائی، یہودی اور بدھ پرست وغیرہ ہوسکتے ہیں،وہ اپنے عقائد و مذہب کے پیرو ہیں،مشہور کتاب ”اتباع السنن والآثار“ میں یہ روایت درج ہے کہ ایک قبیلے کے شیخ نے بتایا کہ ایک جن ہمارے قبیلے کی ایک لڑکی پر عاشق ہوگیا تھا، اس نے لڑکی کے والدین کو باقاعدہ شادی کا پیغام دیا اور کہا ”مجھے پسند نہیں کہ حرام طریقے پر اسے استعمال کروں“چناں چہ ہم نے لڑکی کو اس سے بیاہ دیا، اس کے بعد وہ ہم سے رو برو گفتگو کرنے لگا۔
ہم نے سوال کیا ”تم لوگ کیا چیز ہو؟“ تو اس نے بتایا کہ تم جیسی ایک مخلوق ہیں، تمہاری طرح ہم میں بھی قبیلے ہیں،ہم نے پھر پوچھا ”کیا تم میں بھی یہ مذہبی اختلافات ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں، ہم میں بھی ہر طرح کے لوگ موجود ہیں“

پیر، 13 فروری، 2017

ہر خوف سے نجات کے لیے مراقبہ مرگ


ہمارے جسم میں موجود ایک خفیہ اضافی قوت کی کرشمہ سازی
خوف اور یقین کے موضوع پر اب تک خاصی تفصیل کے ساتھ لکھا گیا ہے،یہ اس سلسلے کا آخری حصہ ہے،جس میں خوف سے نجات کے لیے مختلف تجاویز اور علاج پر گفتگو ہوگی۔
ہم پہلے یہ بات لکھ چکے ہیں کہ خوف کسی بھی قسم کا ہو، یقین کی قوت اور خود شناسی کا ہتھیار، اس کے مقابلے میں بے حد مو ¿ثر اور معاون ثابت ہوتا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ جس شے سے خوف زدہ ہوں، جب ایک بار اس کا سامنا کرلیں یا دوسرے معنوں میں اس سے ٹکرا جائیں (خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے) تو پھر اس شے کا خوف خود ختم ہوجاتا ہے اور ایسا عموماً کسی اچانک پیش آنے والی صورت حال میں یا کسی ہنگامی حالت میں ہی ہوتا ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے، ہنگامی حالات میں آپ کی جسمانی، ذہنی اور روحانی کارکردگی کیوں بڑھ جاتی ہے؟ آپ وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو عام حالت میں نہیں کر پاتے، ایسے ایمرجنسی کے مواقع پر آپ کی ذہنی صلاحیتیں اور زائد دباو ¿ برداشت کرنے کی خصوصیات میں ایک دم اضافہ ہوجاتا ہے، ایک پاگل جنونی شخص کوئی خطرناک ہتھیار لیے آپ کے سامنے آتا ہے تو آپ کے دوڑنے کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے یا بھاگنے کا کوئی راستہ نطر نہ آئے تو آپ فوراً اپنے بچاو ¿ کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا غیر معمولی قدم اٹھالیتے ہیں کہ جو عام حالات میں ممکن ہی نہ تھا، بعد میں اکثر اپنے ایسے ہی کسی عمل پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ یہ کام میں نے کیسے انجام دے لیا۔ 
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں انسان کی اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کر گزرنے کی صلاحیت جسم میں موجود ایک ننھے سے غدود سے وابستہ ہوتی ہے، اس غدود کا نام ”ایڈرنالین“ ہے، ایڈر نالین غدود کا کام یہی ہے کہ انسان کو ہنگامی صورت حال میں مدد فراہم کرے۔ ممکن ہے زندگی میں آپ کو بھی اس غدود کی معجزاتی قوت سے کبھی واسطہ پڑا ہو اور اس کے زیر اثر آپ نے جوش و جذبے، غم و غصے، اشتعال و خوف کے تحت ایسے کام کیے ہوں جن پر بعد میں سوچا جائے تو وہ ناممکن نظر آئیں، حالاں کہ وہ کام آپ ہی نے انجام دیے ہوئے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسم میں ایڈرنالین غدود کی موجودگی کی کیا وجہ ہے؟آخر کیوں قدرت نے انسانی بدن کا ایک حصہ اس چھوٹی سی شے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جس کا روز مرہ زندگی میں استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
ایڈرنالین سے متعلق ان تمام سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں انسان کی روز مرہ کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور اس کے معمولات کو سمجھنا پڑے گا۔
عام طور پر اگر آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی زندگیوں پر غور کریں تو ایک بات یقینی طور پر سامنے آتی ہے کہ درحقیقت وہ اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے نظر آتے ہیں، روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی بیماریاں، تلخیاں، مایوسیاں اور نقصانات کسی بڑی پریشانی یا مصیبت کے زمرے میں نہیں آتے، اس لیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان ان کا کوئی حل تلاش کرلیتا ہے اور کسی نہ کسی طور ان کا خاتمہ کرتا جاتا ہے، ان پریشانیوں، تکالیف، مصیبتوں کی آمد اور ان کے تدارک ، انسداد، حل کے لیے اسے کسی اضافی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی اور معمول کے مطابق وہ غیر ارادی طور پر سانس لینے کے عمل کی طرح خود بخود ساری زندگی جدوجہد کرتا رہتا ہے، اس جدوجہد کے لیے اس کے بدن میں موجود توانائی ہی کافی رہتی ہے جو فطرت نے اسے بخشی ہے ، یہ توانائی روز مرہ معمول کے لیے ہے، آدمی کی زندگی میں چند مواقع ایسے بھی آتے ہیں جو عام زندگی میں شامل نہیں کیے جاسکتے، چند ایسے واقعات جب اس کے جسم میں موجود قدرتی توانائی کے ذخیرے کم پڑجاتے ہیں اور اس کو اپنی گنجائش سے زیادہ توانائی کی ضرورت پرتی ہے، جب اسے گنجائش سے زیادہ ہمت، طاقت اور قوت کی ضرورت پرتی ہے ، تب ہی ایڈرنالین غدود کرشمے دکھاتا ہے۔
ایڈرنالین غدود کو ہم توانائی کے ایک ایسے ذخیرے کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں جو ویسے تو خاموش پڑا رہتا ہے لیکن وقت ضرورت اضافی توانائی مہیا کرکے کام کی انجام دہی میں مدد دیتا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک اضافی ریلوے انجن ہے جو میدانی اور ہموار راستوں پر تو چپ چاپ ریل گاڑی کے پیچھے گھسٹتا رہتا ہے لیکن جوں ہی پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے اس کی قوت کو آواز دی جاتی ہے اور یہ ایک دم جاگ کر سفر میں آگے برھنے کے لیے اضافی قوت فراہم کرتا ہے۔ آپ کی زندگی میں بھی جب کہیں کوئی پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے، دشوار بلندیاں سامنے آتی ہیں تو پھر اس ایڈرنالین کے انجن کا کام شروع ہوجاتا ہے اور اس کے جاگتے ہی انسان وہ کام کر گزرتا ہے جن کے کرنے کا وہ عام حالت میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔
جوں ہی انسان کسی ایسے موقع سے دوچار ہوتا ہے جہاں اس کی گنجائش اور استعداد سے بالاتر کام اس کے لیے ناگزیر ہوتا ہے تو پھر ایڈرنالین غدود متحرک ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی رطوبت خارج کرتا ہے جو فوراً ہی خون میں شامل ہوکر بدن میں کئی بنیادی تبدیلیاں لاتی ہے اور انسان ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، یہ تبدیلیاں دوران خون میں اضافہ، اعصاب کی مضبوطی، دماغی کھنچاو ¿ میں کمی اور عضلات کی تیزی سے حرکت وغیرہ سے متعلق ہوتی ہیں، یہ اتنی تیزی سے انسان میں رونما ہوتی ہیں کہ پہلی نظر میں تو ان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ایڈرنالین غدود کی اثر انگیزی اور معجزاتی قوت کا اندازہ آپ کو اس مثال سے ہوسکتا ہے،آپ نے دیکھا یا سنایا پڑھا ہوگا کہ کوئی عام سا شخص چند پیشہ ور غنڈوں، بدمعاشوں کے گھیرے میں آکر ان سے بھڑ گیا مگر وہ کئی افراد مل کر بھی اسے اپنے قابو میں نہ کرسکے، وہ دو چار کو زخمی کرکے نکل بھاگا یا کسی گھر میں ڈکیتی کی واردات نہتے اہل خانہ میں سے کسی ایک شخص کی جرا ¿ت و ہمت نے ناکام بنادی، اگر غور کیا جائے تو واضح طور پر یہ بات سامنے آئے گی کہ انسانی ذہن خوف کی مقرر کردہ حدود کے اندر مقید ہوتا ہے اور عام طور پر ان حدود سے باہر آنے کی کوشش نہیں کرتا یعنی ایڈرنالین غدود کو کام کرنے کا موقع نہیں دیتا مگر جوں ہی کوئی ایسی صورت اچانک پیش آجائے جب خوف زندگی کی بقاءیا کسی خاص جذباتی وابستگی کے لیے خطرہ بن رہا ہو تو پھر قدرتی طور پر ایک چمک لہراتی ہے اور ذہن خوف سے آزاد ہوکر بے دھڑک ہر کام کر گزرتا ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ اپنے کسی ڈوبتے ہوئے عزیز رشتے دار کو بچانے کے لیے کسی شخص نے خطرناک سمندر میں چھلانگ لگادی حالاں کہ وہ خود بھی تیرنا نہیں جانتا تھا، ایک خاص جذبے کے تحت وہ اس وقت ہر خوف سے آزاد ہوگیا تھا، یہ کیفیت جب انسانی ذہن ہر خوف و خطر سے آزاد ہوجاتا ہے، انسان پر شاذو نادر ہی طاری ہوتی ہے لیکن کیا اس کیفیت کو طاری نہیں کیا جاسکتا؟ یقیناً کیا جاسکتا ہے، ذہن ہر طرح کے خوف سے آزاد ہوکر کام کرسکتا ہے، اس کی وہ صلاحیتیں جو ہنگامی مواقع پر ہی کام آتی ہیں، زندگی کے ہر فعل میں استعمال ہوسکتی ہیں، اس کا واحد طریقہ صرف اور صرف یقین ہے، آپ اپنے ذہن پر یقین رکھیں، اسے اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ہر موقع پر بھرپور توانائی فراہم کرے، آپ اپنے یقین کے ذریعے اپنے ذہن کو خوف سے آزاد کرسکتے ہیں، ہر روز یقین و اعتماد کی تھوڑی تھوڑی مشق آپ کو رفتہ رفتہ اس کا عادی بنادے گی اور پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔
یقین و اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اور اس کی قوت میں اضافے کے لیے خوف کے مریضوں کو دیگر علاج معالجے کے علاوہ پیراسائیکولوجی کے ماہرین مراقبہ مرگ تجویز کرتے ہیں جس میں عموماً مریض سے موت کا تصور کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن یہ اس صورت میں جب مریض مرنے سے ڈرتا ہو یا اسے یہ خوف لاحق ہوجائے کہ وہ مرجائے گا۔
ہمارے خیال سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے مریضوں کا علاج سانس کی مشقوں سے شروع کرنا چاہیے اور بعد میں انہیں مراقبے کی طرف لانا چاہیے، سانس کی مشقیں ایسے حساس اور ذہنی و اعصابی انتشار کا شکار افراد کو اس قابل بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں کہ وہ یکسوئی سے مراقبہ کرسکیں یا مراقبے کے لیے تیار ہوسکیں، بے شک یہ علاج ابتدا میں خاصا مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے اور اس کے مفید اثرات چند روز میں ظاہر نہیں ہوتے، مسلسل کوشش ضروری ہوتی ہے جب کہ انسانی نفس برابر مزاحمت کرتا رہتا ہے،طرح طرح کی لاشعوری رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب اس کے فوائد شروع ہوجاتے ہیں تو ناممکن، ممکن ہوجاتا ہے، لاعلاج مریض بھی صحت کلی حاصل کرلیتے ہیں۔
مراقبہ ءمرگ
مراقبہ ءمرگ کا طریقہ یہ ہے کہ شمال کی طرف رُخ کرکے آرام سے بستر پر لیٹ جائیے مگر اس سے پہلے چند منٹ سانس کی کوئی مشق ضرور کرلی جائے تاکہ ذہن و اعصاب پر سکون ہوجائیں، آنکھیں بند کرکے اب یہ تصور کیجیے کہ آپ کا وقت آخر آچکا ہے اور آپ پر نزع کا عالم طاری ہے، (خوف کے مریض کے لیے اس تصور میں قائم کرنا کہ میں مر رہا ہوں، (بے حد مشکل سہی مگر ناممکن نہیں) پاو ¿ں سے جان نکل چکی، اب ٹانگیں بے جان ہورہی ہیں، نچلا دھڑ شل ہوگیا ہے اور اب روح سینے میں اٹکی ہوئی ہے، دل ڈوبتا چلا جارہا ہے، موت کے ٹھنڈے پسینے آرہے ہیں، عزیزواقارب چاروں طرف حلقہ کیے بیٹھے ہیں، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، سرہانے کوئی بیٹھا سورئہ یاسین پڑھ رہا ہے اور آپ کی روح قبض کی جارہی ہے، جان کنی کے ہر مرحلے کا تصور ٹھہر ٹھہر کر اور پوری توجہ کے ساتھ کریں، کوئی شبہ نہیں کہ خوف ہی کے مریض کے لیے نہیں، عام انسان کے لیے بھی اپنی موت اور جان کنی کے مراحل کا تصور بے حد مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے، مہلک اور جان لیوا امراض سے نجات کے لیے خطرناک جسمانی آپریشن بھی تو کروانا ہی پڑتا ہے، مثلاً دل کا آپریشن لوگ بہر حال کراتے ہی ہیں۔
 مراقبہ ءمرگ بھی روحانی عمل جراحی ہے، ایک مرتبہ آپ اس عمل سے گزر گئے تو عمر بھر کے لیے خوف کی مہلک بیماری سے نجات مل جائے گی، کم از کم چالیس روز تک مسلسل یہ مراقبہ کرنا چاہیے، خوف ، احساس کمتری، وہم ، مایوسی، بے زاری، بے خوابی، جنسی ہیجان، زبان میں لکنت، غصہ، شدید محبت یا نفرت، انتقام، اعصابی خلل اور جذباتی الجھاو ¿ کے مریضوں کے لیے سانس کی مشق کے بعد مراقبہ مرگ بے حد مفید ہے لیکن ایک بار پھر ہم اپنی پرانی ہدایت کو دہرائیں گے کہ یہ تمام علاج کسی ماہر کی نگرانی میں ہی ہونا چاہیے، اس سلسلے میں ہم عموماً خوف کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تصور کی نوعیت میں تبدیلی کرنا جائز اور مناسب سمجھتے ہیں مثلاً اگر کسی شخص کو اندھیرے سے خوف آتا ہے تو مراقبے کے وقت اندھیرے کی تلقین کرتے ہیں ، آنکھوں پر مضبوطی سے سیاہ کپڑے کی پٹی باندھ دی جاتی ہے، یا وہ بادل و بجلی کی کڑک سے ڈرتا ہے تو اس کے تصور کو بھی شامل کرنا ضروری ہوگا،بلندی سے گرنے کا خوف ہو تو کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کا تصور کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ امید ہے کہ ہمارا اشارہ سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مزید وضاحت کی اب گنجائش نہیں ہے۔
پیراسائیکولوجی کے علاوہ دیگر طریقہءعلاج بھی موجود ہیں،ایلوپیتھک میں اینٹی ڈپریشن دوائیں طویل عرصے تک استعمال کرائی جاتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان دواو ¿ں کے لمبا عرصہ استعمال سے مختلف سائیڈ افیکٹس شروع ہوجاتے ہیں لہٰذا ہومیوپیتھک طریقہ ءعلاج کو اولیت دینی چاہیے، ہومیوپیتھی میں اس حوالے سے بڑی جادو اثر دوائیں موجود ہیں، خوف یا دیگر ذہنی و روحانی بیماریوں میں ان دواو ¿ں کا استعمال ہائی پوٹینسی میں کیا جاتا ہے اور اکثر تو صرف ایک خوراک ہی کافی ہوتی ہے۔

ہفتہ، 4 فروری، 2017

کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟


عالمی جنگ کے تناظر میں نئے صدر امریکا کے زائچے پر ایک نظر
تاریخ عالم مثبت اور منفی سوچ کے حامل اچھے اور برے انسانوں سے خالی نہیں ہے،اچھے لوگوں نے ہمیشہ دنیا میں اچھے کام کرکے شہرت پائی اور برے لوگوں نے اپنی منفی سرگرمیوں سے دنیا کا امن و سکون برباد کیا،قدیم رومن شہنشاہ نیرو، کیلی گولا، خسروپرویز، چنگیز خان اور اس کے جانشین ، امیر تیمور اور بیسویں صدی میں ہٹلر، مسولینی، اسٹالن، مارشل ٹیٹو وغیرہ تاریخ عالم کے منفی سوچ رکھنے والے کردار ہیں،ممکن ہے کچھ لوگ ان کرداروں کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہوں، ان کا خیال ہو کہ یہ لوگ بہر حال قوم پرست تھے اور اپنی قوم کی ترقی اور عروج چاہتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی یا غیروں کی برائی سوچنے والا اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے بھی ایک ایسا گڑھا کھود رہا ہوتا ہے جس میں بالآخر پوری قوم دفن ہوجاتی ہے۔
یہ تمام کردار تاریخ عالم میں دہشت اور بربریت کی علامت بن گئے،لاکھوں، کروڑوں افراد ان کے ظلم و زیادتی کا شکار ہوئے،دنیا کا امن و سکون تباہ و برباد ہوا، ابھی ایسے لوگ بقیدِ حیات ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بھیانک نظارے دیکھے ہوں گے،مشرق سے مغرب تک آگ اور خون کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، اس تباہی و بربادی کی ابتدا جرمنی کے جمہوری ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر(ہٹلر الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے مسند اقتدار پر بیٹھا تھا) نے کی تھی، اس نے اپنے سے کمزور ملک پولینڈ پر حملہ کردیا اور پھر رفتہ رفتہ دیگر ملکوں کے خلاف بھی جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا، اس کا ساتھ دینے والوں میں اٹلی کا آمرِ مطلق مسولینی بھی تھا جس کی فوجیں اپنے ارد گرد کے ملکوں پر حملہ آور تھیں، نتیجے کے طور پر دیگر ممالک نے بھی ہتھیار اٹھالیے اور پھر دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی جو کئی سال جاری رہی،کروڑوں افراد لقمہ ءاجل بنے، معذور ہوئے، خوبصورت شہروں میں خوبصورت عمارتیں زمیں بوس ہوئیں، یورپ کھنڈر بن گیا۔
 مشرق میں جاپان نے تباہی مچادی، اس کی فوجیں برما تک آپہنچی تھیں، امریکا جو اس سارے تماشے سے دور بیٹھا تھا، وہ بھی ایک جاپانی حملے کی زد میں آیا اور بالآخر میدان جنگ میں کود پڑا، امریکا کی شرکت جاپان کو بہت مہنگی پڑی کیوں کہ نوایجاد ایٹم بم کا پہلا نشانہ اس کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاسا کی بنے ، گویا ہلاکت و بربریت کی انتہا ہوگئی۔
اس سے پہلے 1914 ءمیں پہلی جنگ عظیم برپا ہوچکی تھی جو بہر حال دوسری جنگ عظیم جیسی ہلاکت خیز بہر حال نہیں تھی، دونوں عالمی جنگوں کا آغاز بہر حال یورپ سے ہوا، اس کے بعد بے شمار موقع ایسے آئے جب دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ کے خدشات پیدا ہوئے،مثلاً کیوبا کے معاملے میں روس اور امریکا کی کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی تھی کے لوگ تیسری عالمگیر جنگ کی توقع کر رہے تھے مگر یہ خطرہ ٹل گیا، البتہ بعد ازاں جنگ کے طور طریقے اور انداز تبدیل ہوگئے، امریکا اور روس کے درمیان ایک خاموش جنگ کا آغاز ہوگیا جسے ”سرد جنگ“ کا نام دیا گیا،اس جنگ کا خاتمہ سویت یونین کا خاتمہ ثابت ہوا اور ایک سپر پاور نے دم توڑ دیا، اس کی جگہ روس کی موجودہ ریاست ہے جس کے سربراہ اب ولادیمیر پیوٹن ہیں جو کبھی روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ تھے۔
نئے اندازِ جنگ کے مطابق سپر پاورز براہ راست ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے کے بجائے اپنے زیر اثر ممالک کو لڑانے کا مشغلہ اپناتی رہی ہیں لہٰذا 1950 ءسے تادم تحریر بے شمار ممالک کے درمیان جو محاذ آرائیاں ہوتی رہیں،ان کی پشت پر روس اور امریکا بہر حال کسی نہ کسی طور موجود رہے ہیں یا کوئی نہ کوئی خفیہ کردار ادا کرتے رہے ہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت ور ملکوں کے جمہوری سربراہ نہایت دانش مندانہ طور سے مخالف ممالک کے خلاف منفی کھیل کھیلتے رہے،مشرق وسطیٰ کی متنازع صورت حال ہو یا پاک بھارت محاذ آرائی دنیا میں جہاں بھی دو ملکوں کے درمیان تنازعات موجود ہیں،سپر پاورز اپنا شاطرانہ کھیل کھیلتی رہتی ہیں اور نتیجے کے طور پر تیسری عالمی جنگ کی نوبت بہر حال نہیں آتی، کئی اعتبار سے یہ ایک اچھی بات ہے کیوں کہ عالمی جنگ تو بہر حال دنیا کی تباہی کا نام ہے،خصوصاً اس دور میں جب نیوکلیئر پاور جیسی خطرناک ایجادات موجود ہےں۔
عزیزان من! ماضی کے تناظر میں اس تمام گفتگو کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہم علم فلکیات کی روشنی میں یہ محسوس کر رہے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کا امکان 2019 ءمیں نظر آتا ہے اور یہ عالمی جنگ براہ راست سپرپاورز کے درمیان ہوسکتی ہے۔
 اس خیال کو مزید تقویت دنیا کے موجودہ منظرنامے سے مل رہی ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہم ممالک میں ایسے لوگ برسراقتدار آرہے ہیں جو اپنی منفی انتہا پسندانہ سوچ کے زیر اثر دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں،انڈیا میں نریندر مودی، شام میں بشار الاسد، مصر میں جنرل عبدالفتح السیسی اور اب امریکا میں مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ۔
امریکی الیکشن کے دوران میں ہم نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے زائچے پر مختصر گفتگو کی تھی اور اس وقت کی گفتگو کا مقصد بنیادی طور پر ہیلری کلنٹن سے موازنہ تھا لیکن اس کے باوجود ہم نے مسٹر ٹرمپ کے برتھ چارٹ میں موجود منفی رجحانات کا تذکرہ بھی کیا تھا، امریکی صدر کے موجودہ فیصلوں سے ساری دنیا میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور ہمیں کہنے دیجیے 
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
ہمارے قارئین کے لیے یقیناً یہ ایک دلچسپ موضوع ہوگا کہ تیسری عالمی جنگ کے تناظر میں اہم ممالک اور ان کے سربراہان پر علم فلکیات کی روشنی میں ایک مطالعاتی جائزہ پیش کیا جائے، چناں چہ اس کی ابتدا ہم صدر امریکا سے کر رہے ہیں، واضح رہے کہ چند سال پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا درست زائچہ بھی ہم نے ہی پیش کیا تھا اور ان کی فطری شدت پسندی اور منفی رجحانات کی نشان دہی بھی کی تھی۔
آئیے صدر امریکا جناب ڈونالڈ ٹرمپ کے زائچے پر دوبارہ زیادہ تفصیل کے ساتھ نظر ڈال لی جائے۔
صدر امریکا

مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ 14 جون 1946 ءکو جمیکا میں صبح 
10:54 am پر اس جہان فانی میں تشریف لائے، ویدک سسٹم کے مطابق ان کا شمسی برج ثور ہے اور برتھ سائن 6 درجہ 51 دقیقہ اسد (Leo) ہے جب کہ قمری برج عقرب اور پیدائشی قمری منزل جیشیٹھا ہے۔
برج اسد کو بادشاہوں کا برج کہا جاتا ہے،طالع کے درجات 6 درجہ 51 دقیقہ ہیں اور سیارہ مریخ برج اسد میں طالع کے درجات سے قران کر رہا ہے،طالع کا حاکم سیارہ شمس زائچے کے دسویں گھر میں اچھی جگہ لیکن متاثرہ ہے،جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ برج اسد کی شاہانہ مزاجی مشہور ہے لہٰذا کسی اسد شخصیت سے جمہوری تقاضوں کی پاسداری کی امید رکھنا عبث ہے،فرانس کے شہنشاہ نیپولین بوناپارٹ کا شمسی برج اسد تھا، پاکستان کے جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کا شمسی برج بھی اسد تھا اور سیکڑوں مثالیں اسدی افراد کے آمرانہ رویے کی دی جاسکتی ہیں،اسدی افراد کے زائچے میں شمس اگر ناقص اثرات کا شکار ہو تو یہ لوگ اپنے نظریات میں بہت زیادہ سخت اور منفی رجحانات کے حامل ہوسکتے ہیں ، اگر شمس کی پوزیشن بہتر ہو اور کسی بھی نوعیت کے نحس اثرات سے پاک ہو تو مثبت رجحانات اور اعلیٰ درجے کے بلند خیالات ، ہمدردی کا جذبہ وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔
زائچے کے دوسرے گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر برج جوزا میں نہایت طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے اور ہر طرح کی خرابی اور نحوست سے پاک ہے،زائچے کا دوسرا گھر اسٹیٹس ، فیملی اور ذرائع آمدن کو ظاہر کرتا ہے لہٰذا عطارد کی اچھی پوزیشن سے ان کی خوش حال فیملی ، معقول ذرائع آمدن اور اسٹیٹس جو اب عروج پر پہنچ گیا ہے،ظاہر ہے۔
مشتری دوسرے گھر میں برج سنبلہ میں ہے اور راہو کی نظر کا شکار ہے لیکن صرف 34 فیصد ، چوتھے گھر میں کیتو اور قمر حالت قران میں ہےں، قمر طالع اسد کے لیے فعلی منحوس سیارے کا اثر رکھتا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں چھوٹے موٹے مسائل کی بہتات ہوتی ہے جونہایت عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن قمر کے ساتھ کیتو کا قران اور راہو کی قمر پر نظر بارھویں گھر کی منسوبات کو نہایت منفی رنگ دیتی ہے اور ایسے لوگوں کی زندگی میں رنگینیاں اور سنگینیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں،علم نجوم میں قمر کا تعلق دماغ سے ہے اور راہو کیتو کے ساتھ قمر کا گٹھ جوڑ شدت پسندی اور پاگل پن لاتا ہے،ایسے لوگ جنونی ہوتے ہیں،دوسری طرف طالع کا حاکم شمس بھی راہو کیتو محور میں پھنسا ہوا ہے،انا کے مسائل جو برج اسد میں پہلے ہی موجود ہوتے ہیں، اس کمبی نیشن کے بعد لازمی طور پر منفی رُخ اختیار کرلیتے ہیں، زائچے کی یہ مختصر تشریح مسٹر ٹرمپ کے ذہنی ، دماغی اور مزاجی مسائل کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرتی ہے۔
 زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ بھی زائچے کے بارھویں گھر میں سیارہ زحل کے ساتھ قریبی قران میں ہے،زحل زائچے کے ساتویں گھر کا حاکم، شریک حیات کی نشان دہی کرنے والا اور مسٹر ٹرمپ کے دیگر لوگوں سے تعلقات کی نشان دہی کرنے والا، دوسرے ملکوں یا مخالفین سے ان کی طرز عمل کی نشان دہی کرنے والا سیارہ ہے،زہرہ اور زحل کی بارھویں گھر میں موجودگی ان کی کمزوری اور مسٹر ٹرمپ کا دوسروں کے ساتھ حیران کردینے والا رویہ سامنے لاتی ہے، بے شک ان کی وائف بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں، انہیں اپنے شوہر سے بہت سی شکایتیں ہوسکتی ہیں۔
دسویں گھر میں راہو اور شمس حالت قران میں ہیں گویا راہو کیتو محور کے ساتھ زائچے کے دو اہم سیارگان قمر اور شمس بری طرح متاثرہ ہیں، دوسرے گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر میں طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے،گویا اس زائچے کا سب سے زیادہ سعد و باقوت سیارہ عطارد ہے،زہرہ اور زحل بارھویں گھر میں ہےں، زائچے کا نواں گھر بڑی اہمیت کا حامل ہے،اس کا تعلق قسمت ، باپ اور آئینی یا مذہبی امور سے ہے،برج حمل نویں گھر پر قابض ہے،اس کا حاکم سیارہ مریخ جو پہلے گھر میں برج اسد میں ہے،ڈائنامک کوالٹیز کا حامل ہے، مریخ کی جنگ جویانہ فطرت اور اپنی پسند کے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنا اس پوزیشن سے ظاہر ہوتے ہیں،یہ پوزیشن صاحب زائچہ کو نڈر اور جارح بناتی ہے،وہ اپنے ہی ضرورت کے تحت وضع کردہ اصول و قوانین کو اہمیت دیتا ہے،گویا ڈکٹیٹر شپ کا رجحان پیدا کرتا ہے،جیسا کہ ہم ایڈولف ہٹلر کے یا دیگر جارح حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے زائچوں میں بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں،ایسے لوگ کسی پیچیدہ اور خطرناک صورت حال میں انتہائی اقدام سے گریز نہیں کرتے اور ایسے ہی لوگ درحقیقت امن عالم کو تباہ کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
راہو کی مشتری پر بھی نظر ہے جو پانچویں شعور کے گھر کا حاکم ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صاحب زائچہ کا شعور بھی منفی اثرات سے پاک نہیں ہے، البتہ راہو اور مشتری کی نظر ایسے بزنس میں بے پناہ کامیابی کا باعث ہوسکتی ہے جو اسلامی نظریات کے مطابق ناجائز قرار پاتے ہیں یا جائز و ناجائز کی پروا کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔
فطری میلان
قمر برج عقرب میں ہبوط یافتہ اور راہو کیتو سے متاثرہ ہوکر فطری طور پر حسد ، جیلسی ، تنگ نظری اور دیگر اخلاقی برائیوں کو جنم دیتا ہے،چوں کہ برج عقرب ایک واٹر سائن ہے اور قمر یہاں ہبوط کا شکار ہوتا ہے،قمر کا تعلق دماغ سے ہے لہٰذا ایسے افراد راہو، کیتو کے اثرات کی وجہ سے اگر ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جائیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، اب تک اخبارات میں موصوف کے بارے میں جو جنونی نوعیت کے قصے سامنے آئے ہیں وہ قمر کی اس خرابی کی وجہ سے ہےں۔
سونے پر سہاگا یہ کہ قمر چاند کی منزل جیشٹھا میں ہے،یہ بڑا ہی شدت پسند اور جنونی نچھتر ہے،اگرچہ اس پر ذہانت کے سیارے عطارد کی حکمرانی ہے لیکن زائچے کی دیگر آراستگی کا رُخ منفی ہے لہٰذا غیر معمولی ذہانت کا رُخ بھی منفی ہوگا، مشہور امریکی ارب پتی ہاورڈ ہیوز کی پیدائش بھی اسی نچھتر میں ہوئی تھی جو ”خبطی ارب پتی“ کے نام سے مشہور ہوا، ان لوگوں میں منفی اثرات کی وجہ سے عجیب و غریب عادتیں یا رجحانات پیدا ہوتے ہیں جو ابتدائی زندگی میں ہی نمایاں ہونے لگتے ہیں، ان کا حلقہ ءاحباب محدود ہوسکتا ہے یا وہ تنہائی پسند اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں،ایک گُھنی یا منافقانہ فطرت کا مشاہدہ اس نچھتر کی خصوصیات میں کیا جاسکتا ہے،ایک عجیب تضاد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سختی سے مذہب کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی مادّی آسائشوں کے متوالے بھی ہوتے ہیں،اس نچھتر کا بنیادی محرک مادّی ترقی ہے، یہ لوگ خود خیالی اور خود توقیری کے مابین ایک باطنی جنگ میں مصروف رہتے ہیں،ایسٹرولوجی ایسے لوگوں کو گھمنڈ ، تکبر اور انانیت کی روک تھام کرنے کا مشورہ دیتی ہے،یہ لوگ چڑچڑے، بدمزاج اور جھگڑالو فطرت کے ہوسکتے ہیں،بے شک یہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، اس نچھتر کے زیر اثر پیدا ہونے والی دیگر مشہور شخصیات میں عیسائی فرقے کا بانی مارٹن لوتھر، ماہر فلکیات کوپر نیکس، اطالوی فلسفی نطشے، جرمن موسیقار موزارٹ، عظیم مصور ونسٹ وین گوگ، خبطی ارب پتی ہاورڈ ہیوز، بدنام زمانہ لارنس آف عربیہ،الپسینو، بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واج پائی،پاکستانی سیاست داں اور دانش ور رسول بخش پلیچو وغیرہ شامل ہیں۔
حال و مستقبل
مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر امریکا کے طور پر اب وہائٹ ہاو ¿س میں براجمان ہیں،ان کے زائچے میں 16 نومبر 2016 ءسے سیارہ مشتری کا دور اکبر اور دور اصغر جاری ہے،جیسا کہ پہلے بھی نشان دہی کی گئی تھی کہ مشتری زائچے کا سعد اور مضبوط سیارہ ہے،پانچویں گھر دانش، خوشیوں اور عروج و ترقی سے متعلق ہے اور زائچے کے دوسرے گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے لہٰذا وہ ایک شاندار دور میں داخل ہوچکے ہیں ، ٹرانزٹ پوزیشن میں مشتری زائچے کے دوسرے گھر سے گزر رہا ہے اور آئندہ سالوں میں بھی مشتری کی سعادت انہیں حاصل رہے گی،چناں چہ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں انہیں کوئی بہت بڑی پریشانی ہوسکتی ہے جو اپوزیشن یا دیگر مخالف قوتوں کی طرف سے ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے زائچے میں سیارہ شمس ہی صحت کے معاملات کا نمائندہ بھی ہے لہٰذا صحت کی خرابی سے متعلق معاملات وقتاً فوقتاً پریشان کرسکتے ہیں،دوسرا اہم نکتہ شمس کا راہو کیتو اور بارھویں گھر کے حاکم سے متاثر ہونا ہے، یہ ایک بڑی خطرے کی گھنٹی ہے کیوں کہ اس پوزیشن کے تحت غیر طبعی طور پر زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے،ویسے بھی امریکا کے زائچے کے مطابق صدر مملکت کی زندگی کو خطرہ ہمیشہ سے ہے،شاید کسی بھی ملک میں اتنے زیادہ صدر حادثاتی حملوں کا شکار نہ ہوئے ہوں گے جتنے امریکامیں ہوئے لہٰذا موجودہ صدر امریکا کی سیکورٹی کے معاملات نہایت اہم ہیں۔
اسدی افراد کی ایک خامی خوشامد پسندی ہے، یہ تنقید کو ناپسند کرتے ہیں اور تعریف کرنے والوں کو اپنے سر پر بٹھالیتے ہیں، ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں،اس سال انہیں اپنے مشیروں کی وجہ سے نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
عزیزان من! اپنے زائچے کی روشنی میں صدر امریکا ہمیں ایسی شخصیت و فطرت کے مالک نظر آتے ہیں جو 2019 ءکے منظرنامے میں کسی عالمی جنگ کا اہم کردار بن سکتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)