ہفتہ، 15 جولائی، 2017

عرفانِ ذات اور ارتکاز خیال کی نئی اقلیم


محبت اور شادی؟ عشق کی آگ کا روحانی علاج
اس پر ہنگام اور پر آشوب زندگی اور مشینی ماحول میں جہاں ہم محض ضروریات زندگی بہم پہانے کی مشین بن چکے ہیں وہیں ہم اپنے آپ سے بھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں یعنی اپنے آپ سے، اپنی ذات کے نقطہ ءاصل سے اور اس وجہ شرف سے کہ جس کی بناءپر آج نوع انسان کا سر فکروشعور کے تاج سے مزین ہے اور اس کی روح جذبہ و احساس کی خلعت فاخرہ میں ملبوس۔
اصول یہ ہے کہ کسی شے کا ورائے ادراک ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا مثلاً کشش ثقل کائنات کے ابتدائی حقائق میں سے ہے لیکن وہ مشہور سائنس داں آئزک نیوٹن کے دور میں دریافت ہوئی اسی طرح پیراسائیکالوجی کی اصطلاح گو نئی صحیح مگر اس کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا حضرت انسان کا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آدمی پیراسائیکولوجی کی ہی وجہ سے قید عدم سے آزاد اور شرف انسانی سے ممتاز ہوا۔
آج خواص اور علماءکے علاوہ ایک عام ذہن بھی پیرا سائیکولوجی یعنی مابعد النفسیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے بارے میں مشتاق ہے جو کہ بجائے خود ایک حیرت انگیز امر ہے ،آپ نے غور کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
تفکر کی روشنی میں دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے اور اسی کلّیے کے تحت آج ہم اس علم میں دلچسپی محسوس کرتے ہیں کیوں کہ یہ علم ہماری فطرت میں شامل، ہماری ذات کا اصل اور ہماری جسمانی اور دماغی موشگافیوں کے پس پشت کار فرما توانائی ہے ، یہ رشتے کی ایک ایسی زنجیر ہے جس میں تمام مخلوق باہم اور خاندان کی طرح پروئی ہوئی ہے، پیراسائیکولوجی کا طالب علم کائنات میں موجود یا کار فرما اس ربط کو پالیتا ہے جو اس تمام نظام کو مربوط رکھتا ہے اور اس کی نظر موجودات کی تمام انواع کے اصل مقصد تخلیق پر جاٹھہرتی ہے۔
مذکورہ بالا معروضات پر مزید تفصیلی بحث کرنے سے پہلے آئیے یہ دیکھ لیں کہ پیراسائیکولوجی کی تعریف کیا ہے ، یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ علم اتنا جامع اور کثیر الجہات ہے کہ اس کی ہر ہر جہت ایک مکمل اور مبسوط تعریف کی متقاضی ہے ، اس کا ہر رخ معنی کی ایک نئی دنیا سمیٹے ہوئے ہے اور اس کا ہر زاویہ اپنے اندر آگہی کا ایک نیا جہاں بسائے ہوئے ہے یہاں اس شبہے کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ پیراسائیکولوجی جدید زندگی یا سائنس کی ترقی کے خلاف ہے ، کوئی بھی سائنس ہو، علمی کام ہو یا دماغی کاوش یہ سب ذہنی ارتکاز کے مرہون منت ہیں، خیال کی یہی گہرائی اور ارتکاز پیراسائیکولوجی کہلاتا ہے جس کا اردو ترجمہ مابعدالنفسیات ہے۔
آئیے اب اس کی تعریف مختلف جہات کے حوالے سے کرتے ہیں تاکہ اس کا مفہوم کھل کر سامنے آسکے اور عوام اسے نہ صرف پوری طرح سمجھ سکیں بلکہ اس سے استفادہ بھی کرسکیں جو کہ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔
عام فہم اور مروجہ اصطلاح میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں علم نفسیات کی انتہا ہوتی ہے وہیں سے پیراسائیکولوجی کی لافانی مملکت کا آغاز ہوتا ہے گویا ہمارے تمام شعوری اور لاشعوری رویے اور تحریکات اور وظائف زندگی بالواسطہ طور پر پیراسائیکولوجی کے تحت سر انجام پاتے ہیں، گہرائی میں دیکھا جائے تو انسان حواس ہی کا نام ہے یا ہم حواس ہی کی وجہ سے انسان ہیں ، ذرا سوچیے ! اگر ہم سے ہمارے حواس چھین لیے جائیں تو ہماری حیثیت کیا رہ جائے گی؟ لمس و احساس، نطق و بیان، فکروشعور اور آگہی و ادراک ہم ان ہی کا مجموعہ و مرکب تو ہیں۔
ہمارے اندر اس حواس یا ادراک کی دس قوتیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے پانچ ظاہری ہیں اور پانچ باطنی، ہمارے ظاہری حواس قوت سامعہ (سننے کی قوت) قوت لامسہ (چھونے اور محسوس کرنے کی قوت) ،قوت باصرہ (دیکھنے کی قوت)،قوت شامہ (سونگھنے کی قوت) اور قوت ذائقہ ہیں جب کہ ہمارے باطنی حواسوں میں حس مشترک، خیال، وہم، حافظہ اور متصرفہ ہیں، باطنی حواسوں میں حس مشترک وہ حس ہے جو حواس خمسہ ظاہری میں منقوش اور مرتسم ہونے والے تمام محسوسات کو قبول کرلیتی ہے۔
وقت پیدائش ہی سے چوں کہ ہم ایک مخصوص ماحول میں پرورش پاتے ہیں اس لیے ہمیں صرف شعوری اور ظاہری حواس ہی کا ادراک و تجربہ ہوپاتا ہے اور ہم اپنے باطنی حواسوں کے فہم و ادراک سے محروم رہتے ہیں،اس کے نتیجے میں ہمیں اپنی باطنی صلاحیتوں کا شعور کبھی حاصل نہیں ہوتا اور جب یہ باطنی صلاحیتیں کچھ مخصوص حالات کے تحت ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہیں تو ہم چکرا کر رہ جاتے ہیں،ہمارا ذہن فوراً کسی ماورائی پراسرار قوت کی طرف چلا جاتا ہے جو ہمارے خیال میں ہمارے معاملات میں مداخلت کر رہی ہوتی ہے،خاص طور پر ایسی صورت حال اکثر نہایت حساس خواتین کے ساتھ پیش آتی ہے،بعض موقع پر چھوٹے بچے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں والدین یا دیگر اہل خانہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ پراسرار صورت حال پیدا ہورہی ہے لہٰذا فوری طور پر مولویوں، پیروں یا عاملوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور پھر جو کچھ ہوتا ہے،وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عزیزان من! اپنی پوشیدہ باطنی قوت کے حادثاتی ظہور کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں پیراسائیکولوجی تو کیا لوگ سائیکولوجی سے بھی واقف نہیں ہیں، وہ عام طور سے ہر پیچیدہ اور پراسرار معاملے کو کسی نہ کسی قسم کی ماورائیت سے جوڑ بیٹھتے ہیں، انہیں سحری اثرات، جنات و مو ¿کلات کا شبہ شروع ہوجاتا ہے کیوں کہ ہمارے معاشرے میں موجود نام نہاد عاملوں، پیروں اور فقیروں نے اپنے دھندے چمکانے کے لیے اسی قسم کی باتیں پھیلا رکھی ہیں۔
اپنی ذات یا اپنی باطنی یا پوشیدہ بے پناہ قوت سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمیں پیراسائیکولوجی کا سہارا لینا ہوگا ، گویا پیراسائیکولوجی ہمیں اپنی ذات میں موجود اس قوت کی آگہی بخشتی ہے جس کے سامنے موجودہ سائنسی ترقی اپنے تمام تر کمال کے باوجود حقیر نظر آتی ہے۔
اگر ہم مذہبی اور روحانی نقطہ ءنظر سے دیکھیں تو ہم پیراسائیکولوجی کی تعریف یوں کریں گے کہ ارتکازیا مراقبے کے ذریعے ذات کا عرفان اور تخلیقی قوت کے حاصل کرنے کا نام پیراسائیکولوجی ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی حلقے جس قوت کو روح اور ارباب فلسفہ جیسے ذہنی طاقت کا نام دیتے ہیں، اس قوت کے تخلیقی استعمال پر عبور حاصل کرنے کے طریقے کو پیراسائیکولوجی کہتے ہیں۔
پیراسائیکولوجی کی مختصر تعریف کے بعد آئیے ذرا ان روایتی اور غیر روایتی طریقوں پر روشنی ڈالیں جن کا اس سے گہرا تعلق ہے۔
یہاں اس بات کا بیان غیر ضروری نہ ہوگا کہ علم نفسیات اس بات پر مصر ہے کہ ہمیں صرف اسی بات کا ادراک ہوسکتا ہے یا کوئی شے ہمارے لیے موجود اس وقت ہوگی جب ہمارے ظاہری حواس مثلاً شامہ، باصرہ، سامعہ، لامسہ اور ذائقہ وغیرہ ہمیں اس کا احساس دلانے کا ذریعہ بنیں، با الفاظ دیگر ہمارے ظاہری حواس کا دائرہ کار جتنا وسیع ہوگا بس وہی ہماری کائنات ہے، یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے صاحب وجد ان لوگوں کی رسائی پیراسائیکولوجی تک ہوئی اور اس کی حدود اور دائرئہ کار علم نفسیات سے بلند ہوگیا کیوں کہ یہ بات تجربے میں ہے کہ ہمارے ظاہری حواس اکثر ہمیں دھوکا دیتے ہیں مثلاً سانپ کا ڈسا ہوا تلخی کو شیریں محسوس کرتا ہے، مٹھائی کھانے کے بعد چائے پھیکی محسوس ہونے لگتی ہے، سراب اور مالیخولیا یا شیزوفرینیا کے مریضوں کا فرضی شخصیات سے ملنا اور خیالی حالات و واقعات کا دیکھنا اور ان سے متاثر ہونا ہمارے ظاہری حواس کے فریب کھانے کی نشانیاں ہیں۔
پیراسائیکولوجی کا علم ظاہری حواس کی نفی نہیں کرتا ہے بلکہ ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے اور نفسیات کے نقطہ ءنظر میں فرق یہ ہے کہ نفسیات کی رو سے یہ حواس نقطہ آخر ہیں جب کہ پیراسائیکولوجی انہیں نقطہ اول قرار دے کر ایسی مخفی اور طاقت ور صلاحیتوں کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے جو حواس خمسہ کی مدد کے بغیر بھی انسان کو علم یا ادراک بخشتی ہے، ایسا ادراک جس کی گہرائی نامعلوم اور ایسا علم جس کی وسعت لامحدود ہے۔
روز مرہ کی بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی تمام زندگی میں کبھی کبھی ایسی نفسیاتی یا جذباتی کیفیت سے ضرور دوچار ہوتے ہیں جو ہمارے ذہن کو عام سطح سے بلند کرکے ہمیں اپنی ذات میں موجود نامعلوم قوتوں اور پر اسرار گوشوں سے متعارف کراتی ہے، گو وقتی طور پر ہی سہی اس کیفیت پر شعوری اور اختیاری عبور حاصل کرنا اور پھر اسے فلاح انسانی یا کم از کم فلاح ذات کے لیے استعمال کرنا پیراسائیکولوجی کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔
اکثر خطوط میں یہ تقاضا ہوتا ہے کہ ہمارا خط شائع نہ کیا جائے‘ صرف جواب دے دیا جائے یا مسئلے کا حل لکھ دیا جائے‘ عام نوعیت کے مسائل میں ہم اس فرمائش کی پابندی کرتے ہیں یعنی صرف جواب دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی اشاعت سے دیگر پڑھنے والے بھی سبق حاصل کرتے ہیں اور ہمارے جواب سے وہ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں پھر بھی ہم اس بات کا از حد خیال رکھتے ہیں کہ خط بھیجنے والے کا اصل نام و مقام پوشیدہ رہے یا انتہائی نجی نوعیت کی باتیں شائع نہ ہوں‘ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ یا خط شائع نہ بھی کیا جائے تو جواب سے مسئلے کی نوعیت کا پڑھنے والوں کو اندازہ ہوجاتا ہے۔
آج ایک ایسا مسئلہ ہمارے پیش نظر ہے جو ہماری بے شمار بیٹیوں کا مسئلہ ہے یعنی پسند کی شادی‘ یہ مسئلہ معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار اور ضروریات زندگی کی عدم فراہمی کے سبب وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کررہا ہے۔
محبت و شادی
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لڑکیوں کو اپنی شادی کی کوئی فکر نہ ہوتی تھی‘ وہ اپنے خاندان میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہم جولیوں کے سنگ گڑیوں سے کھیلتی جو ان ہوجاتی تھیں اور پھر انہیں اچانک ہی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کی شادی طے ہوگئی ہے پھر وہ چپ چاپ ازدواجی بندھن میں بندھ کر پیا گھر سدھار جاتی تھیں مگر اب صورت حال بالکل بدلتی جارہی ہے، اقتصادی مسائل نے معقول رشتوں کو نایاب کردیا ہے‘ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ہر لڑکی اور اس کے والدین کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ کوئی مناسب رشتہ جلد از جلد مل جائے۔
دوسری معاشرتی تبدیلی یہ واقع ہوئی ہے کہ وہ لڑکیاں جو کبھی گھر سے باہر بھی قدم نہیں رکھتی تھیں، اب کالج اور پھر ملازمت کے میدان میں آکر اپنی شادی کے مسئلہ پر خود مختارانہ غور و فکر کرنے لگیں‘ ساتھ پڑھنے والے لڑکے یا ساتھ کام کرنے والے افراد سے پسند و ناپسند کے معاملے زیر غور آنے لگے اور نتیجے کے طور پر پسند کی شادی کے نت نئے مسائل بھی سامنے آنے لگے اورباہم ایک دوسرے کو پسند کرنے والے لڑکا لڑکی جو باہمی شدید محبت کے دعوے دار بھی ہوتے ہیں، غالب کی زبان میں یہ سوچنے لگے۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں محبت کرنے والوں کے معاملات عشق و شادی کا مشاہدہ کرچکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔
ہر دو فریقین کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے مگر جب ہم انہیں علم نجوم کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو اکثر کا یہ دعویٰ غلط نظر آتا ہے‘ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری وجوہات کی بنا پر یا حالات کے تحت ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور قریب ہوتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ ایک دوسرے کی قربت کے عادی ہوگئے لیکن حقیقی معنوں میںان کے مزاج و فطرت میں ہم آہنگی نہیں ہے یعنی وہ محبت کے حقیقی جذبے سے محروم ہیں‘ اس لیے ان کا سارا زور صرف شادی پر ہوتا ہے، وہ محبت کے عظیم ولافانی جذبے کی معراج شادی کو سمجھتے ہیں‘ ایسے افراد کی جب شادی ہوجاتی ہے تو پھر رفتہ رفتہ مزاجی اور فطری تضادات ابھر کر سامنے آنا شروع ہوتے ہیں اور محبت و پسند کی شادی ایک ناکام ازدواجی زندگی میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
اس معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شادی نہ ہونے کی صورت میں دونوں فریقین نہ صرف اپنی زندگی کو عذاب بنائے بیٹھے رہتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی مسائل و پریشانیاں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ گھر والے جہاں ان کی شادی کرنا چاہتے ہیں وہاں شادی کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے‘ جہاں وہ شادی کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہاں گھر والے راضی نہیں ہوتے‘ اس کشمکش میں عمر عزیز کے قیمتی سال گزرتے چلے جاتے ہیں شادی کا بہترین وقت ضائع ہوجاتا ہے اور پھر نفسیاتی و جسمانی امراض ایسے افراد کی زندگی میں وہ زہر گھولتے ہیں جن کا تریاق عمر بھر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
اس ساری صورت حال کا سب سے زیادہ نقصان دونوں فریقین میں لڑکی کو اٹھانا پڑتا ہے‘ لڑکیاں عموما زیادہ حساس اور جذباتی ہوتی ہیں‘ وہ اس قسم کے تعلقات کا بہت گہرا اثر قبول کرتی ہیں‘ وہ جب کسی کو اپنے شریک حیات کے طور پر ذہن و دل سے قبول کرلیتی ہیں تو پھر کسی دوسرے کا خیال بھی اپنے دل میں لانا نہایت معیوب اور گناہ سمجھ لیتی ہیں‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس شخص سے واقعی حقیقی محبت کررہی ہوتی ہیں بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اس تعلق کو اپنی نسوانی انا کا مسئلہ بھی بنالیتی ہیں کیوں کہ بعض کیسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے سمجھانے اور فریق ثانی کے نامناسب انداز و رویوں سے دل برداشتہ ہونے کے باوجود ان کی ضد یہی ہوتی ہے کہ اس سے شادی ضرور کروں گی‘ خواہ بعد میں کچھ بھی ہو۔
ان مسائل کے بے شمار پہلو ہیں‘ اگر بیان کرنے بیٹھ جائیں تو کبھی ختم نہ ہوں۔ اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ خدارا محبت کے اس پر فریب جال میں پھنس کر زندگی کو برباد نہ کریں‘ جذباتی انداز فکر عارضی طور پر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر زندگی کا کوئی مسئلہ اس کے ذریعے حل نہیں ہوسکتا‘ محبت یقینا ایک عظیم اور قابل قدر جذبہ ہے مگر محبت ہے کیا؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ آداب کیا ہیں؟ انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محبت کی معراج شادی نہیں ہے‘ شادی کی معراج محبت ہے‘ محبت تو قربانی کا دوسرا نام ہے لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ آج کل کے محبت کرنے والے قربانی دینے کے بجائے دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اپنی تمام روایات ‘تمام حقوق، تمام آرزوئیں قربان کردیں‘ ورنہ یہ محبت کرنے والے اپنی ایک ذاتی خواہش کے پورا نہ ہونے پر ساری دنیا کو ظالم قرار دے کر ہر رشتے ناطے سے منہ موڑ لیں گے۔
ممکن ہے ہمارے بعض قاری اس موقع پر یہ اعتراض کریں کہ جناب آپ کو کیا معلوم کہ محبت کیا ہے؟ یہ ایک بے اختیاری جذبہ ہے‘ اس کے سامنے انسان بے بس ہے‘ ہم ان کی اس بات سے یقینا اتفاق کریں گے مگر جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا کہ اس جذبے کو پرکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ صادر کیا جانا مناسب ہوگا اور پرکھنے کا آسان سا اصول ایک ہی ہے یعنی دونوں طرف قربانی کا جذبہ کتنا ہے اور خود غرضی کا مظاہرہ کس قدر ہے‘ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب جذبے واقعی سچے ہوں تو ایسے لوگوں کی ہر مشکل آسان ہوتی چلی جاتی ہے لیکن فی زمانہ مشاہدہ میں جو بات زیادہ آرہی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں فریقین کے جذبے عموما خام ہوتے ہیں‘ خصوصا اس معاملے میں لڑکوں کا کردار زیادہ مشکوک ہوتا ہے وہ لڑکی کی خاطر کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتے جب کہ لڑکیاں جذبات کی رو میں بہہ کر ہر مرحلے سے گزرنے کو تیار ہوجاتی ہیں‘ ہمارا مشورہ ایسی لڑکیوں کے لیے یہی ہے کہ وہ ایسے محبت کے دعوے داروں سے ان کی محبت کا عملی ثبوت ضرور طلب کریں کہ وہ اپنے زبانی وعدوں اور اظہار محبت سے ہٹ کر ان کے لیے کوئی عملی کام کرکے دکھائیں ۔مرد ہونے کے ناطے ان کے لیے شادی کی کوشش کرنا زیادہ آسان کام ہے‘ اپنے گھر والوں کو راضی کرنا اور پھر لڑکی والوں کے گھر بھیجنا ان کی اولین ذمہ داری ہے‘ اگر وہ یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر ان کا جنون محبت یقینا لڑکی کو بے وقوف بناکر اپنی تفریح کا ذریعہ بنانا ہے اور کچھ نہیں۔
اگر وہ یہ کارنامہ انجام دے لیتے ہیں اور اس کے بعد لڑکی کے گھر والے راضی نہیں ہوتے تو کم از کم ان کی محبت پر شک کی گنجائش نہیں رہے گی‘ بہر حال جو بھی صورت ہو‘ شادی ہوسکے یا نہ ہوسکے محبت کے جذبے کا عملی اظہار فی زمانہ ضروری ہے‘ اس کے بغیر لڑکیوںکو اپنی عمر کے قیمتی سال داﺅ پر نہیں لگانے چاہیے ورنہ اس غلطی کا بھیانک خمیازہ انہیں ضرور بھگتنا پڑتا ہے۔

ہفتہ، 8 جولائی، 2017

پیراسائیکولوجی، روحیت، گیان دھیان یا نفس کشی

پیراسائیکولوجی، روحیت، گیان دھیان یا نفس کشی
اپنی ذات کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر اس درّ نایاب کو حاصل کرلیں
وطن عزیز کی سیاسی صورت حال روز بہ روز دلچسپ اور سنسنی خیز ہوتی جارہی ہے،یہ سب زائچہ ءپاکستان میں راہو کیتو کی موجودہ پوزیشن اور سیارہ زحل پر راہو کی خصوصی نظر التفات کا نتیجہ ہے جس کا رونا ہم گزشتہ چند ماہ سے رو رہے ہیں اور اس سال کے آغاز پر بھی اپنے ایسے ہی خدشات کا اظہار کرچکے ہیں، حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ بحران سے نکل سکے مگر عجیب بات یہ ہے کہ حکومت کی ہر کوشش کوئی منفی رُخ اختیار کرلیتی ہے مثلاً 5 جولائی کو جس انداز میں نہایت تزک و احتشام سے مریم نواز صاحبہ نے جے آئی ٹی کے سامنے حاضری دی، وہ مناظر قابل دید تھے اور جس طرح انہیں مقدس شخصیات سے مماثل کیا جارہا ہے، یہ بھی ایک طرفہ تماشا تھا، بے شک ن لیگ کے کارکنان کے لیے تو یہ سب نہایت خوش گوار تھا لیکن دیگر اہل علم و دانش کے لیے نہایت غوروفکر کا مقام تھا، ماضی کے ڈکٹیٹروں کو برا بھلا کہنے والے ہمارے جمہوری سیاست داں یہ کس قسم کی جمہوری سیاست کا نمونہ پیش کر رہے ہیں! 
بہر حال یہ رنگ ڈھنگ حالات کو بہتری کے بجائے کسی اور ہی رُخ پر لے جارہے ہےں، زائچہ ءپاکستان میں دسواں گھر وزیراعظم اور ان کی کابینہ سے متعلق ہے اور سیارہ زحل اس کا حاکم ہے،راہو کی اس پر نظر وزیراعظم صاحب کو نامعلوم کس فریب میں مبتلا کر رہی ہے کہ انہیں نوشتہ ءدیوار نظر نہیں آرہا یا اگر نظر آرہا ہے تو وہ اسے کٹھ پُتلی تماشا اور سازش کا نام دے رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس موقع پر تمام احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر سازش کی نقاب کشائی فرمائیں نہ کہ سارا زور وہ اور ان کے رفقا جے آئی ٹی پر صرف کرتے رہیں،جے آئی ٹی کا کام تو 10 جولائی کو ختم ہوجائے گا ، اس کے بعد کیا ہوگا، اصل فیصلہ تو سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ کرے گی۔
ہم نے جس سیاروی صورت حال کی نشان دہی کی ہے یہ تقریباً ستمبر تک جاری رہے گی ، ستمبر کو ویسے بھی ستم گر کہا جاتا ہے،مزید یہ کہ اگست کے مہینے میں اس سال کے آخری چاند اور سورج گہن بھی قریب آگئے ہیں اور عام طور پر یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ چاند یا سورج گہن کسی کام کو پایہ ءتکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،ہم انہیں ٹریگر کہتے ہیں، پہلا چاند گہن 7 اگست کو ہوگا جو پاکستان میں بھی دیکھا جائے گا، یہ گہن پاکستان کے زائچے کے اہم گھر میں واقع ہوگا، یہی صورت حال 21 اگست کو لگنے والے سورج گہن کی بھی ہوگی جن پر تفصیلی بات چیت انشاءاللہ آئندہ ہوگی،فیض صاحب کی مشہور نظم ایک شہرِ آشوب کا آغاز سے ایک شعر کا انتخاب 
اب صاحبِ انصاف ہے خود طالب انصاف
مہر اُس کی ہے میزان بہ دستِ دگراں ہے
پیراسائیکولوجی
برسوں سے ملنے والی ڈاک یا ای میلز وغیرہ میں شاید ہی کوئی تحریر ایسی ہوتی ہو جسے لکھنے والا اپنی زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشیوں کی نوید دیتا نظر آئے، اس کے برعکس ہر خط تڑپتی سسکتی اپنے گوناگوں عذابوں پر نوحہ خواں انسانیت کے کرب و اذیت کا نمونہ ہوتا ہے جسے پڑھ کر دل و دماغ ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آخر ہر شخص اس قدر پریشان اور مصیبت زدہ کیوں ہے؟ وہ بھی جو لاکھوں کمارہا ہے اور ہزاروں خرچ کرکے بھی رات کو سکون کی نیند نہیں سو سکتا، دن میں اپنی تفریحات اور اہل خانہ کے لیے فرصت کے چند لمحات نہیں نکال سکتا اور وہ بھی جو قلیل آمدنی میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے روزوشب محنت و مشقت میں مصروف ہے، اپنی صحت کی خرابیوں کی جانب سے بے پروا اس مختصر سی زندگی کو مزید مختصر کیے جارہا ہے، ایسے ہی افراد کے لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
ہمارے مذکورہ بالا سوال پر اگر دانش وران وقت کو اظہار خیال کی دعوت دی جائے تو وہی روایتی تقریریں سننے کو ملیں گی جن میں سیاست و معاشیات کی کھچڑی میں نئے وقت کے ترقیاتی تقاضوں کا تڑکا لگا ہوگا، تعلیم کی کمی اور جدید سائنسی نظریات سے ناآشنائی کا رونا ہوگا تو کیا واقعی ہمارے موجودہ معاشرے کی بدحالی ، دلی اضطراب اور ذہنی خستہ حالی اقدار کی تباہی، دلوں سے محبت کا فقدان وغیرہ کے اسباب و عوامل مندرجہ بالا امور وجوہات ہی میں پوشیدہ ہیں یا ان کا کوئی اور سبب بھی ممکن ہوسکتا ہے؟
آئیے اس سوال پر پیراسائیکولوجی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں کیوں کہ پیراسائیکولوجی کا عقیدہ انسانیت، اخلاق حسنہ اور مذاہب عالم کی تعلیمات کو علمی اور سائنسی انداز میں پرکھتے ہوئے ہمارے آج کے معاشرے میں مذہب اور سائنس کے درمیان پائے جانے والے خلا کو پرکرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
پیراسائیکولوجی کا ہر طالب علم انفرادی سطح پر تو کسی بھی نظریے، مسلک یا مذہب کا پیروکار ہوسکتا ہے مگر اجتماعی طور پر وہ ہر قسم کی پابندی سے بلند ہوکر نوع انسانی بلکہ تمام مخلوقات عالم کی بہتری، بہبود اور خدمت کے لیے ہمہ وقت مستعد اور تیار رہتا ہے۔
ہمارا آج کا معاشرہ دو انتہاو ¿ں میں بٹ کر رہ گیا ہے، نتیجتا ہم اپنے تمام تر مادی وسائل، ترقی اور تعیشات کے باوجود ذہنی کرب اور بے سکونی کی آگ میں جل رہے ہیں،مسائل کا ایک سمندر ہے جو انسان پر اس کی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کے باوجود حاوی نظر آتا ہے، کہیں انسان صاحب اقتدار ہوکر اپنی حیوانی خواہشوں، انا پرستی اور ظلم و جبر کے زور پر اپنے ہی ہم جنسوں کا استحصال کر رہا ہے ، کہیں صاحب زر ہوکر اور کہیں مذہب کی آڑ لے کر ذاتی مفاد کی خاطر اجتماعیت کو قربان کیے دے رہا ہے، یہ جوہری بم نیو کلیئر اور کیمیاوی ہتھیاروں کی بھرمار اور ان کے زور پر دی جانے والی دھونس دھمکیاں انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہیں، ناگاساکی کے محروموں کی سسکیاں ابھی تک فضا میں سر سرارہی ہیں، ہیروشیما کے سینے کا زخم انسان کا سرشرم سے جھکانے کو اب بھی بہت ہے۔
آج اور ہزاروں سال قبل کے آدمی میں کیا فرق پیدا ہوا ہے؟ کیا یہ کہ پہلے وہ پتھروں اور کُند نیزوں سے ہلاک کیا کرتا تھا اور اب ان کی جگہ مشینی ہتھیاروں نے لے لی ہے یا پھر یہ کہ وہ سفر کے لیے گدھے گھوڑے استعمال کیا کرتا تھا جب کہ آج ہم سپر سانک طیاروں کی بات کرتے ہیں، وہ تنگ و تاریک غاروں میں رہا کرتا تھا اور ہم کشادہ اور ہوادار مکانات میں رہتے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ بابل، یونان، مصر اور قدیم تہذیبوں کے آدمی میں جو حیوانی خواہشات پائی جاتی تھیں، وہی آج ہم میں مزید شدت کے ساتھ پائی جاتی ہیں، کیا یہی ہماری وہ ”ترقی“ ہے جس پر ہمیں ناز ہے، جب تک آج کا انسان اپنے نظریات میں انتہا پسند رہے گا اور اعتدال یا میانہ روی اختیار نہیں کرے گا وہ صحیح معنوں میں ترقی کے مراحل طے نہ کرسکے گا، انتہا پسندی خواہ نظریاتی ہو، مذہبی ہو، لسانی ہو، ثقافتی ہو یا سائنسی، یہ انسان کی آفاقیت کو محدود کردیتی ہے اور وہ انتہا پسندی کے خول میں بند ہوکر بعض ثابت شدہ عقلی اور سائنسی طور پر معقول حقائق کو بھی جھٹلانے لگتا ہے، مذہب اور سائنس کے درمیان پایا جانے والا خلا اسی انتہا پسندی کی واضح مثال ہے، پیراسائیکولوجی ایک ایسا سائنسی علم ہے جو اس خلا کو پر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے کیوں کہ یہی خلا انسان کے تعمیری اور تخلیقی ارتقا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہی رکاوٹ شاید روز بروز نت نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔
یاد رکھیے! ارتقاءفطرت کا اٹل قانون ہے، کائنات ہر لمحہ ایک نئی جہت، ایک نئے رخ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
جو لوگ فطرت کے اس قانون کو نہیں سمجھ پاتے یا سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں انہیں اس کا خمیازہ تنزل، پستی، جہالت اور گمنای کے اندھیروں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے،ا نسان اگر مخلوقات کی بقیہ اقسام سے ممتاز، افضل یا ان پر فائق ہے تو اس کی وجہ بھی ”شعوری ارتقائ“ کی یہی صلاحیت ہے، اس کا ذوق تجسس اسے کشاں کشاں نئے نئے حقائق تک رسائی دلاتا اور علم و آگہی کے نئے نئے در وا کرتا چلاجاتا ہے ، مخلوقات کی تمام انواع قوانین فطرت کی پابند ہےں جب کہ فطرت انسان کی پابند اور بشر کے تحت ہے، اگر وہ حقیقی بشر ہو تب!
انسان اگر اپنی ارتقائی صلاحیت کو بھلا بیٹھے یا اسے پس پشت ڈال دے اور محض حیوانی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل ہی کو اپنا مقصد حیات ٹھہرائے تو پھر ایک جانور میں اور اس میں کیا فرق باقی رہا۔
کائنات کی ارتقائی تیزی کا عالم یہ ہے کہ ”کلُ یوم ہوفی شان“ طلوع ہونے والا، ہر نیا دن ارتقاءکی نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور ہم ابھی تک اپنی خواہشات و حواس میں الجھے بیٹھے ہیں، اپنی محدود فکری صلاحیت کو لامحدود ثابت کرنے میں مصروف ہیں، ترقی و حرکت کی اہمیت کے بارے میں ایک اور ارشاد رسول اکرم سنتے چلیے۔
”جس شخص کے تین دن یکساں حالت میں گزر جائیں، سمجھ لو کہ وہ شخص خسارے میں ہے“
جدید سائنس کی طوفانی رفتار مستقبل کے خوابوں کو حال کی حقیقت اور آج کی حقیقتوں کو خیال اور اوہام بناتی چلی جارہی ہے، موجودہ ترقی کی رفتار کا اگر یہی حال رہا تو بہت ممکن ہے کہ صرف چند برسوں میں ہی سائنس اور مذہب کا موجودہ خلا ختم ہوجائے، کثافت تقسیم کے بتدریج عمل سے لطافت میں بدل ہی چکی ہے اور اب وہ دن بھی دور نہیں جب لطافت کو کسی عمل کے ذریعے کثافت میں بدلا جاسکے گا۔
پیراسائیکولوجی پر مشرق میں کی جانے والی صدیوں پر محیط تحقیق کے نتائج جدید سائنس درست تسلیم کر رہی ہے مثلاً یہ نظریہ کہ انسان ابھی تک اپنی عام زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا ایک حقیر حصہ ہی استعمال کرپاتا ہے، ثابت ہوچکا ہے اس دور کا جدید انسان اور عام نوعیت کی سائنسی معلومات رکھنے والا ذہن بھی یہ بات جانتا ہے کہ انسان کی تمام زندگی میں اس کے دماغ کا ایک بڑا حصہ قطعی غیر مستعمل رہ جاتا ہے اور اس کے ساقتھ ہی قبر میں چلا جاتا ہے، فرض کیجیے دماغ کو سو فیصد تصور کیا جائے تو جدید تحقیق کے مطابق ایک عام آدمی اپنی تمام زندگی میں اس کا صرف چار سے چھ فیصد ہی استعمال کرپاتا ہے،نیوٹن جیسا ذہین ترین سائنس داں بھی اس سو فیصد کا صرف تقریباً دس فیصد ہی استعمال کرپایا تھا، واضح رہے کہ آئزک نیوٹن وہ شخص ہے جسے مشہور کتاب ”دنیا کے سو بڑے انسان“ (جنہوں نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا) میں درجات کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے، پہلے نمبر پر آقائے کائنات ہمارے رسول اکرم ہیں، یہ کتاب دنیا بھر کے اہل علم کی مشورت سے مائیکل ایچ ہارٹ نے مرتب کی تھی۔
اب جب کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور جدید سائنس بھی اس حقیقت کو مان چکی ہے کہ ہم ابھی تک اپنی ذہنی صلاحیتوں کا صرف چند فیصد ہی استعمال کرپاتے ہیں اور ہماری دماغی قوت کا بڑا حصہ خوابیدہ ہی رہتا ہے، اس کے باوجود انسان کی موجودہ حواسی صلاحیت اور حس و حرکی رینج کو نقطہ آخر مان لینا بھلا کہاں کا انصاف ہے؟ بڑے بڑے سائنس داں اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک یہی اعتراف کر رہے ہیں کہ ”یہ کائنات ایک سمندر ہے اور ہم ابھی تک کناروں پر سیپیاں ہی چن رہے ہیں“
ہم اپنے ابتدائی کالموں میں یہ بات بتاچکے ہیں کہ مغرب کے مادیت زدہ معاشرے میں بھی انیس ویں صدی کے شروع سے پیراسائیکولوجی کے متعلق ٹھوس کام شروع ہوچکا ہے مگر مغرب ابھی تک اس کے ابتدائی درجوں میں ہے جب کہ مشرق میں اسے باقاعدہ ایک علم کے طور پر صدیوں سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور اس سلسلے میں ایسے ایسے طریقے وضع کیے جاچکے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر ایک عام فرد میں موجود پوشیدہ صلاحیتیں بے دار ہونے لگتی ہیں، اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دماغ کا ناقابل استعمال حصہ استعمال ہونے لگتا ہے، یہ ضرور ہے کہ مشرق میں اسے ”روحیت، گیان دھیان یا نفس کشی“ کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے جب کہ ”پیراسائیکولوجی“ اس علم کے لیے مغربی اصطلاح ہے۔
پیراسائیکولوجی کے تجویز کردہ طریقوں اور عرف عام میں”ماورائی“ کہلائے جانے والے علوم کا مقصد یہی ہے کہ انسان میں ایسی جرا ¿ت رندانہ پیدا ہو کہ وہ اس کائناتی سمندر کی عظمت ورفعت کا طلسم پاش پاش کردے لیکن اس سے پہلے ہمیں چاہیے کہ اپنی ذات کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر اس در نایاب اور گوہر آب دار کو حاصل کرلیں کہ جسے پاکر انسان اپنے حقیقی اور ازلی شرف سے ہم کنار ہوتا ہے تب زمان و مکان ایسے شہ زور بھی اس کے آگے سر جھکا دیتے ہیں، اس کی نظریں لامکانی پردوں کو الٹ دیتی ہیں اس کی زبان رموز ہائے نہاں کو بیان کرتی اور اس کا زور بیان کائناتی طنابوں کو تھام لیتا ہے پھر اس کے لیے کوئی مسئلہ ، مسئلہ نہیں رہتا، ذہن و دل کو وہ سکون اور اطمینان حاصل ہوجاتا ہے جس کی ہر روح انسانی متلاشی ہے، خلاصہ اس کلام کا یہ ہے کہ نوع انسان کو بہ حیثیت مجموعی اپنی تعمیر، تشکیل اور مفید وجود کے لیے پیراسائیکولوجی میں بہر حال دلچسپی لینی چاہیے تاکہ ہماری شخصیت مکمل بھرپور اور جامع انداز میں سامنے آسکے اور ہم ارتقائی منازل میں فطرت کے شانہ بشانہ چل سکیں، اس کے بغیر شاید یہ کبھی ممکن نہ ہوسکے کہ ہم ایک خوش حال، مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے میں سانس لے سکیں، انشاءاللہ اس موضوع پر مزید گفتگو آئندہ بھی جاری رہے گی۔

اتوار، 2 جولائی، 2017

بنیادی انسانی حقوق کی پامالی،معاشرے کی نفسیاتی گھٹن

انسانی حقوق کے بارے میں بات تو کی جاتی ہے مگر محض سیاسی نعرے بازی کے طور پر
جون میں سیاسی صفحوں میں زیادہ ہلچل اور سرگرمی نظر نہیں آئی، شاید احترام رمضان کا خیال اہل سیاست کو رہا ہوگا لیکن یہ ظالم مہینہ پارا چنار اور احمد پور شرقیہ جیسے سانحات کا باعث بنا، پارا چنار میں تاحال متاثرین کا دھرنا جاری ہے،راستوں کی بندش کے سبب جنرل باجوہ وہاں نہیں جاسکے، دیگر سیاسی رہنما بھی وہاں جانے کی ہمت نہیں کرسکے، احمد پور شرقیہ میں جو کچھ ہوا، وہ نہایت خوف ناک اور کرب ناک ہے، مصائب و مشکلات کا شکار لوگ چھوٹے چھوٹے سے فائدوں کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں اور کسی خطرے کی پروا نہیں کرتے، کچھ ایسا ہی احمد پور شرقیہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے، میڈیا کا دباو ¿ اس قدر بڑھا کہ وزیراعظم کو فوری طور پر لندن سے واپس آنا پڑا، متاثرین کے لیے خطیر رقم کا اعلان کیا گیا ہے، نہایت افسوس ناک صورت حال یہ تھی کہ قریب ترین کسی اسپتال میں کوئی برننگ سینٹر موجود نہیں تھا، ملتان کے نشتر اسپتال میں چودھری پرویز الٰہی کی نشانی کے طور پر ایک سینٹر دستیاب ہوا، کیا وزیراعلیٰ پنجاب کو صحت و زندگی کے یہ مسائل نظر نہیں آتے، ان کی نظر میں صرف گرین اور اورنج لائن منصوبے ہی عوام کے لیے ضروری ہیں؟ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسے ہی منصوبے ، منصوبہ سازوں کے لیے فائدہ بخش ہےں، قصہ مختصر یہ کہ رمضان المبارک کا انعام عیدالفطر پاکستانی عوام کو لہو لہو میسر آیا۔
جولائی کا آغاز ہورہا ہے اور گزشتہ کالم میں ہم اس ماہ کی سختیوں اور سفاکیوں کی نشان دہی کرچکے ہیں، دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں پاناما کیس اور جے آئی ٹی کی کارکردگی کا بھی اندازہ ہورہا ہے،بظاہر حالات وزیراعظم کے خلاف نظر آرہے ہیں، نا اہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی ہے مگر کیا وہ آسانی سے یہ سب برداشت کرلیں گے؟ماضی کی تاریخ تو خاصی سنگین ہے ، اس بار دیکھیے کیا ہوتا ہے، کوئی نئی تبدیلی ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے یا بدتر؟
اگرچہ تبدیلیاں ہمیشہ ترقی کے راستے کا زینہ ہوتی ہیں بشرط یہ کہ انسان مثبت سوچ اور فکر رکھتا ہو لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ تبدیلیاں لائی جائیں تو وہ مستقبل کے لیے مفید ثابت ہوں گی لیکن ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات اور اقدام کے بارے میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ مثبت راستے پر ہے اور دوسرے منفی راستے پر چل رہے ہیں،یہ سوچ اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ پھر دوسروں کی رائے یا نظریات کو جاننے اور اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اختلافی مسائل کو اس قدر حساس بنادیا جاتا ہے کہ ان پر بات کرنا بھی مشکل ہوجائے، نتیجے کے طور پر اختلافی موضوعات ایک ناسور بنتے چلے جاتے ہیں اور ان میں بدبودار مواد اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے،اگر ایسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوتی رہے اور مختلف نکتہ ہائے نظر سامنے آتے رہےں تو کوئی مسئلہ پیچیدگی کا شکار نہ ہو۔
ہم مغرب کی برتری اور ترقی کو حیرت سے دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی مغربی معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتے بلکہ بہ حیثیت مسلمان ہم نے ایک کافر اور مشرک معاشرے کی خامیوں اور برائیوں کو نمایاں کرنے کا کام پوری تندہی سے اپنے ذمے لے رکھا ہے تاکہ عام مسلمان ان کے فریب میں نہ آئےں، کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی انسانیت سوز برائیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ان پر نہایت اعلیٰ سطح تک ہر مفاد و مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر گفتگو کی جاتی،ایسا نہیں ہے کہ ہر طرف خاموشی ہو، کسی نہ کسی حد تک اہل علم اور دانش ور حضرات حسب توفیق ایسے موضوع پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی آواز سدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی ہے۔
سب سے اہم معاملہ ہمارے ملک و معاشرے میں انسان کے بنیادی حقوق کا ہے جو بری طرح کچلے جارہے ہیں ، ان حقوق کے بارے میں بات تو کی جاتی ہے مگر محض سیاسی نعرہ بازی کے طور پر ، عملی طور پر ان حقوق کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ جدوجہد ہوتی نظر نہیں آتی، یہی وجہ ہے کہ اہل سیاست پر سے عام لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے اور کوچہ ءسیاست کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، آج یہ صورت حال ہے کہ ہر شخص سیاست دانوں کو برا کہہ رہا ہے اور جمہوری نظام پر لعنت بھیج رہا ہے،جمہوریت کسی طور بھی بری چیز نہیں لیکن ہمارے اہل سیاست نے اسے جس انداز میں پیش کیا ہے،وہ جمہوریت کے لیے بھی بدنامی کا باعث ہے،عوام نے سمجھ لیا ہے کہ سیاسی بازی گری کی منزل مقصود صرف اور صرف حصول اقتدار ہے ، عوامی مسائل کا حل نہیں۔
جب ملک میں آمریت ہوتی ہے تو تمام سیاست داں جمہوریت کے خوش گوار گیت گاتے نظر آتے ہیں، یہ گیت تو بہر حال اب بھی گائے جارہے ہیں مگر بے اثر ہیں کیوں کہ عوام تک حقیقی جمہوریت کے فوائد نہیں پہنچ رہے لہٰذا انہیں جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا، ایسی ہی صورت حال میں جب فوج مداخلت کرتی ہے تو عوام ان کے راستے میں پھول بچھاتے ہیں اور مٹھائیاں باٹتے ہیں تو کیا ہمارے سیاست داں حالات کو ایسی ہی کسی جانب لے جارہے ہیں ؟