ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

ایک متنازع اور ممنوع موضوع، غلط فہمیاں اور حقائق

بڑھی ہوئی حساسیت سے جنم لینے والے امراض اور ان کا علاج

میڈیکل و نفسیات کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس عادت میں مبتلا افراد جسمانی، دلی، دماغی طور پر خود کو تباہ کرلیتے ہیں وہ اپنے چہرے کا نور اور چمک دمک کھو بیٹھتے ہیں، ان کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، آنکھیں اندر دب جاتی ہیں، ان کے گرد نیلگوں حلقے پڑجاتے ہیں اور وہ ہمیشہ غمگین، افسردہ، سرنیچے جھکا کر دوسروں سے آنکھیں چراتے نظر آتے ہیں، جسمانی مشقت ان کے لیے سخت بے زاری کا باعث ہوتی ہے، صحت مندانہ ورزش کھیل کود سے وہ دور بھاگتے ہیں، ہر وقت کسی نہ کسی گہرے خیال میں ڈوبے رہتے ہیں، ان کی طبیعت میں سر کشی، مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہوجاتا ہے، وہ دوسروں کا ہنسی مذاق برداشت نہیں کرسکتے، ایسے موقع پر یا تو وہ شرمسار ہوکر پانی پانی ہوجاتے ہیں یا پھر شدید غصے اور برہمی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، ان کی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے، قد کم رہ جاتا ہے، جسم کے اکثر اعضا سکڑ کر چھوٹے رہ جاتے ہیں، کسی نہ کسی دوسری خرابی کا شکار ہوتے ہیں، جسم نہایت کمزور اور ذہنی قوتیں ختم ہونے لگتی ہیں، نتیجتاً مختلف امراض بہ آسانی انہیں اپنا شکار بنالیتے ہیں، یاد داشت کمزور ہوجاتی ہے، خیالات انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں، قوت فیصلہ ختم ہوجاتی ہے، زیادہ طویل عرصے گزرنے کے بعد مالیخولیا، شیزوفرینیا، ہسٹیریا، جنون، مرگی، جناتی و آسیبی اثرات، سحری و جادوئی کیفیات، تشنج، رعشہ جیسی بیماریاں ان میں نمودار ہونے لگتی ہیں، اس اسٹیج پر پہنچ کر ایسے مریضوں کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب مریض کے گھر والے اپنی کم علمی اور ناواقفیت کے سبب علاج یا معالج کے انتخاب میں غلطی کر بیٹھیں تو کیسں سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے اور مریض لا علاج ہوکر رہ جاتا ہے۔

عالمی مسئلہ

یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، اس مسئلے کا تعلق انسان کے جنسیاتی اعمال و افکار سے ہے اور جنسیات کے حوالے سے انسانی رویے اور نظریات کی تعلیم و تربیت بچپن ہی سے شروع ہوجاتی ہے، یہ تعلیم اور تربیت اگر نامناسب ماحول اور جہالت آمیز سوچ و فکر کے ساتھ ہو تو سمجھ لیجیے کہ پہلی بنیاد ہی غلط پڑ گئی ہے جو اس حوالے سے تمام عمر ذہن کو گمراہ کرتی رہے گی اور ذہن ہی درحقیقت وہ مرکز ہے جو انسان کے جنسیاتی مسائل اور معاملات پر پوری طرح حکمران ہے لہٰذا ذہن کو اس حوالے سے درست اور صحت مند معلومات اگر ابتدا ہی سے حاصل ہونا شروع ہوجائیں تو وہ اپنی بشری کمزوریوں اور مجبوریوں کے باوجود کبھی ایسے امراض میں مبتلا نہیں ہوسکتا جیسے کہ عموماً ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں اور جنہیں ایک بھیانک اور خطرناک روپ میں مشتہر کرکے بے شمار پیشہ ور معالجین لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔
اس موضوع کو اپنے کالم میں شامل کرنے اور تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کی ضرورت ہمیں اس لیے بھی پیش آرہی ہے کہ اکثر روحانی اور جسمانی بیماریاں تحقیق کے بعد کسی نہ کسی جنسیاتی کجروی، محرومی یا ناآسودگی سے وابستہ نظر آتی ہیں چناں چہ ضروری ہے کہ اس موضوع پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے حقیقت پسندانہ انداز میں بات کی جائے اور غلط نظریات و توہمات کے پھندے سے ذہن کو نکالا جائے۔
مرحوم جناب رئیس امروہوی نے نفسیات اور مابعد النفسیات کے حوالے سے اپنی تحقیقات میں اس موضوع کو بنیادی اہمتی دی تھی، ان کی تحریروں میں سے ایک اقتباس یقیناً بہت سے ذہنوں میں پڑی ہوئی گرہوں کو کھولنے کا باعث ہوگا، ملاحظہ کیجیے، وہ لکھتے ہیں۔
”سیکڑوں بلکہ ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کی کج رائی اور کج روی کی داستانیں میں نے سنی اور پڑھی ہیں اور خود عنفوان شباب میں ہر قسم کی کجی کا تجربہ کیا ہے، انسانی زندگی کی تشکیل اور مستقبل سازی میں بچپن کے تجربات اور آغاز جوانی کے تاثرات غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، ہم سمجھنے سمجھانے کی آسانی کے لیے انسان کی طبعی عمر کو (خواہ اس کی حد ستر سال مقرر کی جائے یا سو سال) سات سال کے مختلف حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، مثلاً سات سال، چودہ سال، اکیس سال، اٹھائیس سال، پینتیس سال، بیالیس سال، انچاس سال، چھپن سال، تریسٹھ سال اور ستر سال، ہر سات سالہ دور ایک منزل حیات کی حیثیت رکھتا ہے، بچپن کے سات سال تیز جسمانی نشوونما کا زمانہ ہوتے ہیں، اس زمانے میں بچے کا خام اور ناپختہ ذہن پختہ ہوتا ہے اور وہ گردو پیش کے اثرات اس گہرائی اور گیرائی سے قبول کرتا ہے کہ ہر تاثر کے ابتدائی نقش عمر بھر کے لیے انمٹ ہوجاتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہمارا نامہ اعمال بچپن ہی میں نفس پر کندہ ہوجاتا ہے اور ہم زندگی کے آخری لمحے تک اس کردار کو دہراتے رہتے ہیں جس کی داغ بیل بچپن میں پڑ گئی تھی مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اپنے رویے کو تبدیل نہیں کرسکتے جس طرح ہم آموزش (سیکھنے) سے ایک عادت کو اختیار کرتے ہیں (مثلاً خود لذتی یا ہم جنس پرستی وغیرہ) اس طرح آموزش اور تربیت سے اسے ترک بھی کرسکتے ہیں۔
”کردار سازی میں سب سے زیادہ اہمیت تربیت اور آموزش کی ہے، اگر آموزش سے اونٹوں کو ناچنا، باز کو شکار کھیلنا، بندر کو سائیکل چلانا اور طوطے کو بولنا سکھایا جاسکتا ہے تو خود اندازہ کیجیے کہ آموزش و تربیت سے انسانی کردار میں کتنی بنیادی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں، خیر فی الحال موضوع بحث یہ ہے کہ انسان کا جنسی کردار اس کے بچپن میں متعین ہوجاتا ہے( گو ہم اسے ہر عہد میں بدل سکتے ہیں) میں نے ہزاروں نفسیاتی مریضوں کا ذہنی مطالعہ کیا ہے اور ہمیشہ ان کی جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے پر بچپن کے تاثرات کی گہری چھاپ پائی ہے، سات سے چودہ سال تک کا زمانہ بھی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لحاظ سے بے حد اہم ہوتا ہے، بسا اوقات جنس اور ذہنی کجروی اور کجرائی کی بنیاد اس زمانے میں پڑتی ہے جس کا بھرپور اظہار تیسرے سات سالہ دور( چودہ سے اکیس سال تک کی عمر) میں ہوتا ہے، بچپن گزرتے ہی انسانی جسم کے بعض ایسے غدود تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں جن کا تعلق عورت کے عورت پن اور مرد کی مردانگی سے ہے، یہ زمانہ بچوں اور بچیوں کے لیے سخت تشویشناک اور کرب انگیز ہوتا ہے، لڑکوں اور لڑکیوں میں بلوغت سے قبل و بعد جو عضوی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں انہیں تو ہم دیکھ لتے ہیں لیکن ان کے ذہن و نفس میں جو ہلچل برپا ہوتی ہے، دل جس محشر سامانی و بے قراری سے زیر بار ہوتا ہے، انجان تمنائیں جس طرح روح کو گد گداتی ہیں، خوابوں میں رنگینی پیدا ہوجاتی ہے اور تاثرات میں جو گہرائی آتی ہے، اس کا اندازہ ایک بالغ ہونے والا لڑکا اور لڑکی ہی کرسکتے ہیں
دنیا جوان تھی مرے عہد شباب میں
تو اس عہد شباب میں دانستہ یا نادانستہ طور پر نوجوان ایسی حرکتوں میں مبتلا اور ایسی عادتوں کے خوگر ہوجاتے ہیں جنہیں قوت کی بے تحاشا فضول خرچی کہا جاسکتاہے، ان کا نفس ایک انجانی لذت کا متلاشی رہتا ہے، اس کی لذت کے حصول کا قریب ترین اور آسان ترین ذریعہ خود اپنا جسم ہے، جنسی کجروی کی کوئی ایک شکل نہیں، ہزاروں شکلیں ہیں بلکہ میرا اندازہ تو یہ ہے کہ ہر نوجوان اپنے سکون کے لیے کسی نئی راہ کی جستجو میں رہتا ہے۔
”خود لذتی، ہم جنس پرستی، مفعولیت، بدخوابی(احتلام) خود آزادی، مردم آزادی، لڑکیوں کی یہ خواہش کہ وہ مردوں کی طرح اظہار قوت کریں یا مردوں کی طرح معاشرے میں کردار ادا کریں اور لڑکوں کی یہ تمنا کہ انہیں لڑکیوں کی طرح التفات اور توجہ ملے، اسی ایک ہیجانی قوت کے مختلف مظاہر ہیں۔
”جنسی خامی اور ذہنی خام کاری کا ذہنی ناپختگی( یعنی آموزش کی غلطی) سے گہرا تعلق ہے، بچپن میں کوئی شخص کسی ناپسندیدہ عادت میں مبتلا ہوجائے( اور اس عادت کی اصلاح نہ کی جاسکے) تو اندیشہ ہے کہ انسان عمر بھر اسی غلط کاری کا مرتکب ہوتا رہے، کوئی لڑکا اور لڑکی ابتدائے جوانی کے جذباتی طوفان اور جنسی ہیجان سے بچ نہیں سکتا، جب جنسی غدود کی سرگرمی کے سبب خون میں بجلیاں سی دوڑنے لگتی ہیں تو آدمی بخار کی سی کیفیت محسوس کرتا ہے، یقیناً 90 فیصد لڑکے اور لڑکیاں اس نفسیاتی بحران سے گزر کر مختلف پگ ڈنڈیوں پر بھٹکنے کے بعد عقل و مصلحت اندیش کی راہ نمائی میں شاہراہ حیات پر حقیقت پسندی کے ساتھ گامزن ہوجاتے ہیں، البتہ دس فیصد اپنی جگہ اٹک کر رہ جاتے ہیں اور وہ کوئی نئی بات سیکھنے سے انکار کردیتے ہیں۔
”خود لذتی کا تجربہ نہ تو حیرت انگیز ہے اور نہ غیر معمولی، یہ تو دور شباب کی ایک عام اور ہمہ گیر خصوصیت ہے، مشکل سے پانچ تا دس فیصد افراد اس تجربے سے بچ سکے ہوں گے لیکن اس حوالے سے بڑی مہیب افواہیں پھیلائی گئی ہیں، گناہ و عذاب کا خوف، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی و جسمانی عوارض کی غلط تشریح ، توجیح وغیرہ جس کے نتیجے میں اس عادت کا شکار ہونے والے افراد ایسے شدید احساس جرم اور کسی نہایت بھیانک مرض میں مبتلا ہونے کے وہم میں پھنس کر در حقیقت نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں، بس یہی وہ موڑ ہے جہاں سے حقیقی طور پر نت نئی اور پیچیدہ ترین بیماریوں کا آغاز ہوتا ہے جو جسمانی کم اور نفسیاتی و روحانی نوعیت کی زیادہ ہوتی ہیں“۔
حقیقت یہ ہے کہ اس عادت کی کثرت انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر بے حد حساس بنادیتی ہے، اس کے علاوہ اسے اور کسی قسم کی بیماری یا کمزوری لاحق نہیں ہوتی لیکن زیادہ حساس ہونے کے سبب وہ ہر بات کا نہایت گہرا اثر قبول کرنے لگتا ہے، دوسروں کی کہی ہوئی باتیں ارد گرد کا ماحول سب کچھ اس پر ایک نئے غیر حقیقی رنگ میں اثر انداز ہونے لگتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ اس کا احساس گناہ کے زیر اثر ہونا بھی ہوتی ہے۔
رئیس صاحب ہی کی تحریر سے ایک اور اقتباس دیکھیے، وہ لکھتے ہیں ”خود لذتی کے ذریعے ہماری حیوانی جبلت کی بھرپور تسکین نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے نوع انسانی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس کے نقصانات کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے اس کی صداقت بھی مشکوک ہے، گاہے گاہے اس پر عمل پیرا ہونے والوں کو اس سے کوئی بنیادی نقصان جسمانی اور ذہنی طور پر نہیں پہنچتا“ 
رئیس صاحب اس موقع پر شاید اس حقیقت کو نظر انداز کرگئے کہ یہ ”گاہے گاہے“ کا معاملہ بہت تیزی سے مسلسل ہوجاتا ہے اور جنس کے ہیجان انگیز طوفان کی زد میں آیا ہوا ناپختہ ذہن کیف و سرور کے سمندر میں غوطہ خوری سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا، انسانی فطرت کی اس کمزوری کے پیش نظر مذہب اسلام میں جلد از جلد شادی کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے جلد شادی کا انتظام نہ ہوسکے تو غیر شادی شدہ افراد کو اپنے نفس پر قابو رکھنے کے لیے ”داو ¿دی روزے“ رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ روزہ تسخیر و تزکیہ ءنفس کے لیے بہترین اور موثر عمل ہے۔
آگے رئیس صاحب فرماتے ہیں ”البتہ اس عادت کا تواتر اور تواتر کی کثرت تکلیف دہ اور تشویشناک بن جاتی ہے، میں نے نوے فیصد نوجوانوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا پایا ہے کہ جلق (خود لذتی) کے سبب وہ مردانگی اور جواں مردی کی قوت سے محروم ہوگئے ہیں، یہ خوف کہ جلق آدمی کو نامرد بنادیتا ہے نہ صرف بے بنیاد بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے، اگر انسان کے جنسی غدود میں کوئی عضویاتی نقص نہیں تو کوئی جنسی کجروی آدمی کو مردانہ قوت سے محروم نہیں کرسکتی، البتہ یہ تصور کہ میں فلاں کجروی کے سبب جنسی کمزوری میں مبتلا ہوگیا ہوں، ذہن کو ضرور ناکارہ کردیتا ہے، میں بار بار اس نکتے پر زور دے چکا ہوں کہ جنسی عمل اصولی طور پر ذہنی عمل ہے، جنسی آمادگی کی پہلی شرط ذہنی آمادگی ہے، اگر ہماری اس حیوانی جبلت کے راستے میں عقل حائل نہ ہوجائے (یعنی یہ خیال دل و دماغ میں نہ آئے کہ میں فلاں اور فلاں سبب سے ناکارہ ہوگیا ہوں) تو جنسی کمزوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔
رئیس صاحب کے اس تجزیے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے، اب تک کی تمام گفتگو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ سارا معاملہ اور تمام کھیل ذہن سے بنیادی اور خصوصی تعلق رکھتا ہے، دیگر اعضائے جسمانی تو اس میں ذہن کے ماتحت اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں لہٰذا اولین اہمیت ذہنی اصلاح کی ہے ۔
علاج معالجہ
ہمارے پیش نظر زیر بحث مسئلہ درحقیقت یہ ہے کہ موجودہ معاملہ کسی جسمانی عضویاتی خرابی کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق بنیادی طور پر ذہن سے ہے اور اس حوالے سے جس قدر پروپیگنڈا پیشہ ور معالجین نے کر رکھا ہے، اصل معاملہ اس کے برعکس ہے، درحقیقت یہ کوئی مرض ہی نہیں ہے جس کے علاج کے لیے بیش قیمت اور تیر بہ ہدف نسخہ جات کی ضرورت پیش آئے، خود لذتی تو ایک عادت ہے اس عادت کو ترک کردیا جائے اور ذہن سے یہ وہم نکال دیا جائے کہ اس عادت کی وجہ سے فلاں محرومی پیدا ہوگی یا فلاں کمزوری نے جنم لے لیا ہے تو معاملہ خود بہ خود اصلاح و درستگی کی طرف مائل ہوجاتا ہے، یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ طویل عرصے تک اس عادت میں مبتلا رہنے والے افراد شادی کے بعد خود بہ خود ٹھیک ہوگئے اور صاحب اولاد بھی ہوئے، یہ درست ہے کہ اس عادت کے سبب کچھ چھوٹی موٹی جسمانی خرابیاں بھی پیدا ہوئی ہیں مگر وہ قابل ذکر نہیں ہیں، ان خرابیوں کی موجودگی میں بھی لوگ کامیاب ازدواجی زندگی گزارتے پائے گئے ہیں،ان کی وجہ سے انسان کی بنیادی قوتیں متاثر نہیں ہوتیں کیوں کہ ان قوتوں کا اصل تعلق تو انسانی خواہش سے ہے اور خواہش ہمیشہ ذہن میں پیدا ہوتی ہے، اگر ذہن تندرست و توانا ہے تو باقی اعضائے جسمانی اس کے حکم پر ذہن میں جنم لینے والی خواہش کے مطابق عمل کریں گے بہ صورت دیگر کچھ بھی ممکن نہیں ہے، بد قسمتی سے اس عادت کی کثرت کا شکار ہونے والے افراد اپنی ذہنی قوتوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، وہ احساس جرم و گناہ، شرمندگی، خوف وغیرہ کے زیر سایہ آکر خود کو ذہنی صحت کے لیے مفید تمام کاموں سے دور کرلیتے ہیں، تنہائی اور ایک تصوراتی و خیالی دنیا ان کی جنت بن جاتی ہے، جب کہ ذہنی صحت مندی کے لیے معاشرے میں سرگرم حیثیت اختیار کرنا اور حقائق کا سامنا کرنا بھی نہایت ضروری امر ہے، وہ بے حد حساس ہوجاتے ہےں، چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی گہرا اثر قبول کرتے ہےں پھر اس اثر کے ازالے کی ان کے پاس کوئی صورت بھی نہیں ہوتی کیوں کہ انہوں نے خود کو دوسروں سے الگ کرکے ایک نئی دنیا میں قید کرلیا ہوتا ہے، اس موقع پر فیض احمد فیض کا شعر بڑا برمحل ہے۔
مجھی سے میری صدا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص اس صورت حال سے کیسے نکل سکتا ہے، کس راستے سے اسے اس کی حقیقی منزل کی طرف لایا جائے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟
ہمارے معالجین تو خیر اس حوالے سے ہمیشہ ہی بڑے بڑے دعوے کرتے آئے ہیں اور اپنی زود اثر ادویہ کی نہایت زوروشور سے پبلسٹی بھی کرتے رہے ہیں مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ناکام و نامراد افراد کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ عموماً تو یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اس عادت کا شکار ہوکر تباہی کے راستے پر گامزن ہونے والوں کو ہم بہ آسانی دو گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک تو وہ جو جلد یہ احساس کرلیتے ہیں کہ وہ تباہی کی طرف جارہے ہیں اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہیے، دوسرے وہ ہوتے ہیں جنہیں بہت دیر میں یہ خیال آتا بھی ہے تو وقت بہت زیادہ گزر چکا ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اصلاح کے لیے کوئی قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتے، اول الذکر کا معاملہ زیادہ الجھن اور پریشانیوں کا باعث نہیں بنتا، اگر وہ درست معالج تک پہنچ جائیں یا کسی طور اپنی قوت ارادی سے کام لے کر اس عادت سے نجات پالیں تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے، البتہ دوسرے گروہ کا معاملہ خاصا مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر افراد ذہنی طور پر اس قدر کمزور اور ناکارہ ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہ نہ تو خود کوئی اصلاح کی کوشش کرسکتے ہیں نہ دوسروں کی کوششوں میں ان سے تعاون کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک ناقابل علاج وہ بھی نہیں ہیں۔
علاج کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس معاملے میں دوائیں( خواہ وہ حکمت کی ہوں یا ایلوپیتھی کی یا آیورویدک)ثانوی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ یہ تینوں طریقہ علاج مادی اور جسمانی اعضاءکی اصلاح پر زور دیتے ہیں، نفسیات اور ہومیوپیتھی کا معاملہ ہمارے نزدیک اس سے مختلف ہے، ہم پہلے بھی ہومیو پیتھی کو روحانی علاج کا نام دے چکے ہیں، اس موقع پر ہمیں علامہ سید سلیمان ندوی کا ایک جملہ یاد آگیا ہے جو ہمارے اس دعوے میں ثبوت کا درجہ رکھتا ہے، خیال رہے کہ علامہ صاحب برصغیر کی بہت بڑی علمی شخصیت تھے، علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد رشید اور جانشین، شبلی نعمانی کے بعد سیرت النبی جیسی بلند پایہ کتاب آپ ہی نے مکمل کی، فرماتے ہیں کہ”ہومیو پیتھی طب کا تصوف ہے“ بس اس تعریف کے بعد کچھ مزید کہنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ہومیو پیتھی کا روحانیت سے کیا تعلق و واسطہ ہے، اب آجائیں اصل موضوع کی طرف۔
ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق ایسے افراد کا بہترین اور شافی علاج پیرا سائیکولوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور سانس کی مشقیں اس سلسلے کی پہلی کڑی ہیں، دوسرے نمبر پر ارتکاز توجہ کی مشقیں ہیں جن میں شمع بینی اور مراقبہ شامل ہیں، سانس کی مشقوں میں ”مشق تنفس نور“ سب سے پہلے شروع کرنا چاہیے اور تین یا پانچ چکر روزانہ صبح و شام کا معمول بنالینا چاہیے، تین ماہ بعد دو چکر کا اضافہ کردیں یعنی تین چکر کر رہے تھے تو پانچ کردیں اور پانچ سے شروع کیا ہے تو سات چکر کردیں، عموماً تین ماہ کی مشق ایسے مریضوں کو راہ راست پر لے آتی ہے لیکن بہت زیادہ بگڑا ہوا کیس مزید عرصہ بھی لے سکتا ہے، خاص طور پر اگر ماہرین نفسیات یا ایلوپیتھ ڈاکٹروں نے خواب آور مسکن ادویہ پر نہ لگادیا ہو تو جلد راہ راست پر آنے کی امید ہوتی ہے ورنہ ایک خراب عادت کی وجہ سے دوسری خراب عادت میں مبتلا ہوکر مریض کہیں کے نہیں رہتے، بہر حال مشق ”تنفس نور“ مسکن ادویہ کی عادت چھڑانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے، بہ شرط یہ کہ اسے پابندی سے کرتے رہیں۔
تین ماہ کے دوران میں اگر مطلوبہ نتائج سامنے آنے لگیں یعنی انسان مشق کی طرف راغب ہوجائے اور اسے دلچسپی سے کرنے لگے تو پھر شمع بینی یا مراقبہ ساتھ میں شروع کرنا چاہیے، سانس کی مشقیں ذہن کی ازسر نو تربیت کرتی ہیں اور ہر عادت بد کو چھڑانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، یاد رکھیے کسی غلط اور خراب عادت کا نعم البدل کوئی صحت مند عادت ہی ہوسکتی ہے، ان مشقوں سے رفتہ رفتہ خود اعتمادی بحال ہونے لگتی ہے اور قوت ارادہ مضبوط ہوتی ہے اور یہی وہ جوہر بے مثال ہے جو ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے اس کے ساتھ اگر ہومیو پیتھی کی ایسی دواو ¿ں کا سہارا بھی لے لیا جائے جو انسان کی مزاجی کیفیات کے مطابق ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوگا، یہاں ہم ایسی دواو ¿ں میں سے صرف ایک دوا کا نام لکھ رہے ہیں جو اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے اسٹیفی سیگریا (Staphi sagria) ، یہ دوا عام ملتی ہے لیکن بہتر بات یہی ہوگی کہ کوئی بھی دوا کسی تجربہ کار ڈاکٹر سے مشورے کے بعد شروع کی جائے کیوں کہ مریض کی مزاجی کیفیت کے مطابق دوا کا انتخاب اور اس کی طاقت کا تعین بہر حال ایک ڈاکٹر ہی صحیح طور پر کرسکتا ہے، ہمارے خیال میں مندرجہ بالا دوا کم از کم ایک ہزار طاقت میں پندردہ دن میں ایک مرتبہ استعمال کرنی چاہیے، خیال رہے کہ ہومیو پیتھک دوائیں مختلف طاقتوں میں دستیاب ہوئی ہیں اور ان طاقتوں کا استعمال حسب ضرورت کیا جاتا ہے۔
اسٹیفی سیگریا ایک ایسی عجیب دوا ہے جس پر تفصیلی گفتگو کا تو یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا لیکن مختصراً اتنا عرض کردیں کہ یہ دوا حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کو کنٹرول کرتی ہے یعنی انسانی ذہن کے انتشار اور خلفشار سے پیدا ہونے والے اثرات بد کو دور کرکے ذہن کو نارمل بنانے میں مددگار ہوتی ہے، وہ لوگ جو اپنے غصے کی وجہ سے پریشان ہیں اور شدید غصے میں آنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر، ڈپریشن، تشنج، رعشہ جیسی شکایت کا شکار ہوتے ہوں، انہیں بھی اس دوا کو ہفتے میں ایک بار دو سو طاقت میں استعمال کرلینا چاہیے، غصے میں کمی آجائے گی اور غصے سے پیدا شدہ امراض کا علاج آسان ہوجائے گا۔
خود لذتی کی عادت میں مبتلا افراد کی بڑھی ہوئی حساسیت کے لیے ہم نے ابتدائی نوعیت کا جو علاج تجویز کیا ہے، اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو کسی اور وجہ سے ذہنی و اعصابی کمزوری کا شکار ہوکر شدید حساسیت کی زد میں آگئے ہوں۔
اب ایک آخری سوال اور باقی رہتا ہے، اس حوالے سے کچھ ایسے مریض بھی سامنے آتے ہیں جو اپنا علاج کرانا ہی نہیں چاہتے یا چاہتے بھی ہیں تو ان میں اتنی ہمت اور مستقل مزاجی ہی نہیں ہے کہ وہ پابندی سے کوئی مشق وغیرہ کرسکیں یا دوائی کھاسکیں، دوا کھانے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ بس ہفتہ دو ہفتہ میں بالکل بھلے چنگے ہوجائیں اور ابتدائی دو تین دن ہی میں انہیں بہتر نتائج نظر آنے لگیں، ایسے لوگ اپنی ایب نارمل ذہنی کیفیت کے سبب بہت بڑا مسئلہ ہوتے ہیں، وہ یا تو نام نہاد ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر میں پھنس ک ر خود کو مزید برباد کرتے ہیں یا پھر نام نہاد پیشہ ور عاملوں، پیروں اور فقیروں کا تختہ ءمشق بن کر ہمیشہ کے لیے آسیبی، جناتی یا سحرزدہ مریض بن جاتے ہیں۔
یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ کسی بھی وجہ سے بڑھی ہوئی شدید حساسیت ہی سحروجادو اور آسیب و جنات کے مریض سامنے لاتی ہے جنہیں اوج کمال تک ہمارے نام نہاد عاملین و کاملین اور جاہل پیر فقیر پہنچادیتے ہیں، ملک بھر کے مزارات ایسے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، ایسے مریضوں کی ایک قسم اور بھی ہے، وہ روحانیت کا چولا پہن کر بابا یا باجی اللہ والی بن بیٹھتے ہیں، ان پر مشہور صوفی بزرگوں کی حاضری یا سواری آنے لگتی ہے، لاحول ولا قوة، یہ بات ان بزرگ پر بھی ایک تہمت ہی ہے (جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں