پیر، 30 مئی، 2016

متحدہ قومی موومنٹ کے زائچے پر ایک تجزیاتی نظر

سندھ کی سیاست میں ایک نیا بھونچال سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس سے شروع ہوچکا ہے، انہوں نے انیس قائم خانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے خصوصی طور پر قائد تحریک جناب الطاف حسین کو خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا اور ایم کیو ایم سے علیحدگی اور ایک نئی پارٹی بنانے کا ارادہ ظاہر کیا،کہا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم کے مزید رہنما بھی درپردہ ان کے ساتھ ہیں اور عنقریب ان کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کردیں گے، ڈاکٹر صغیر احمد ،وسیم آفتاب اور افتخار عالم نے یہ کام کردیا ہے، انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جناب الطاف حسین پر بہت سے الزامات لگائے ہیں جن میں سرفہرست بھارتی خفیہ ایجنسی را سے خصوصی تعلقات کا الزام ہے، حالاں کہ یہ الزامات اس سے پہلے بھی لگتے رہے ہیں لیکن پہلی بار کسی پارٹی ممبر نے یہ الزام لگایا ہے،بہر حال اس پریس کانفرنس کے بعد سیاسی اور صحافتی محاذ پر نئی سرگرمیاں، نئے انکشافات اور نئے تبصرے سامنے آرہے ہیں، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اپنے طور پر اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ ایسے الزامات کی تردید کر رہے ہیں، دوسری طرف لندن سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جناب الطاف حسین کی طبیعت سخت ناساز ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے۔
برتھ چارٹ ایم کیو ایم
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ 2013 ءکے انتخابات سے قبل ہم نے پاکستان کی تمام نمایاں سیاسی پارٹیوں کے زائچے خاصی تحقیق اور جستجو کے بعد تیار کیے تھے جو اسی کالم میں شائع ہوئے تھے، اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ان زائچوں کی روشنی میں ہم مختلف پارٹیوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے رہے ہیں، 2013 ءہی میں ہم نے ایم کیو ایم کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس سال سے ایسا وقت شروع ہورہا ہے جب ایم کیو ایم ایک انقلابی تبدیلی کے دور میں داخل ہورہی ہے اور آئندہ 2017 ءتک ایم کیو ایم کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہوگی، چناں چہ ایسا ہی ہوا، 2013 ءہی سے پارٹی کا اندرونی خلفشار نمایاں ہونے لگا، رابطہ کمیٹیاں ٹوٹتی اور بنتی رہیں، ایم کیو ایم کے بعض نمایاں رہنما پارٹی سے کنارہ کشتی اختیار کرکے دبئی چلے گئے یا کسی اور ملک جاکر بیٹھ گئے، بعض نے خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت سمجھی، 2014-15 ءبھی ایسے ہی خلفشاری سال تھے،آخر نوبت یہاں تک آگئی کہ جناب الطاف حسین کی تقاریر و تصاویر پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
 تازہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ایم کیو ایم کے زائچے پر ایک نظر ڈال لی جائے، حالاں کہ ہم عام طور پر اپنے قارئین کی فرمائش کے باوجود سیاسی پارٹیوں اور سیاسی قائدین کے زائچے پر اظہار خیال سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے ملک میں موجود نام نہاد جمہوریت درحقیقت ایک جمہوری ڈکٹیٹر شپ ہے، یہی صورت حال نام نہاد جمہوری پارٹیوں کی بھی ہے اور عدم برداشت کا مسئلہ بہت حساس ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کے دیگر ماہرین نجوم کی نظر میں ایم کیو ایم کا زائچہ کیا ہے؟ ہماری اپنی تحقیق کے مطابق موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کا قیام 26 جولائی 1997 ءشام 05:40 پر ہوا جب مرحوم جناب اشتیاق اظہر نے ایک پریس کانفرنس میں مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کا اعلان کیا، اس تاریخ اور وقت کے مطابق ایم کیو ایم کا طالع پیدائش برج قوس اور حاکم سیارہ مشتری ہے جو زائچے کے دوسرے گھر میں اپنے برج ہبوط میں نہایت خراب پوزیشن میں ہے، جس وقت متحدہ قومی موومنٹ کا قیام عمل میں آیا ، وہ ایک نہایت سخت دور سے گزر رہی تھی، زائچے میں کیتو کا دور اکبر اور راہو کا دور اصغر جاری تھا اور وہ ریاستی آپریشن کا شکار تھیں۔
زائچے کے دوسرے اور تیسرے گھر کا مالک سیارہ زحل چوتھے گھر برج حوت میں کمزور ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کے فیصلے اور اقدام بروقت اور برمحل نہیں ہوتے، وقت گزرنے کے بعد احساس کیا جاتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا،زائچے کا پانچواں گھر جو عقل و شعور سے متعلق ہے، برج حمل ہے، اس کا حاکم سیارہ مریخ بھی زائچے میں کمزور ہے، کسی بھی زائچے میں نواں گھر نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ اسے قسمت کا گھر بھی کہا جاتا ہے،نویں گھر پر برج اسد قابض ہے اور اس کا حاکم سیارہ شمس زائچے کے آٹھویں گھر میں مصیبت میں ہے ، زائچے کے دسویں اور گیارھویں گھروں کی پوزیشن بے حد مضبوط اور طاقت ور ہے ، دسویں گھر پر برج سنبلہ اور گیارھویں گھر پر برج میزان قابض ہے اور ان کے حاکم عطارد اور زہرہ زائچے کے نویں گھر میں نہ صرف یہ کہ طاقت ور پوزیشن رکھتے ہیں بلکہ باہم قران میں ہیں۔
 زائچے کا دسواں گھر پارٹی سربراہ اور ان کی کابینہ یعنی رابطہ کمیٹی کی بھی نشان دہی کرتا ہے اور گیارھواں گھر فوائد کا گھر کہلاتا ہے،ان گھروں کی مضبوطی سے پارٹی کو اقتدار میں آنے اور فوائد حاصل کرنے کے مواقع ملے اور پارٹی سربراہ کی پوزیشن بھی مضبوط اور مستحکم رہی۔
2 فروری 2001 ءسے زائچے میں سیارہ زہرہ کا دور اکبر اور دور اصغر شروع ہوا تو پارٹی 2002 ءکے الیکشن میں کامیاب ہوکر اقتدار کے ایوان میں داخل ہوگئی، زہرہ ہی کے دور اکبر میں سیارہ شمس کا دور اصغر 3 جون 2004 ءسے شروع ہوا اور 3 جون 2005 ءتک جاری رہا، شمس پارٹی کی قسمت کا نمائندہ ہے لیکن خراب گھر میں ہونے کی وجہ سے اس عرصے میں پارٹی کی کارکردگی وہ نہیں رہی جو ہونا چاہیے تھی، پارٹی مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر رہی، عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی خاص کارکردگی سامنے نہیں آئی۔
3 جون 2005 ءسے زائچے میں سب سے منحوس سیارہ قمر کا دور اصغر شروع ہوا جو 2 فروری 2007 ءتک رہا، اس دور میں بھی بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا لیکن پارٹی نے عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے سڑکیں اور پل بنوانے کے اور کچھ نہیں کیا، تعلیم، صحت، پانی جیسے دیگر مسائل ، کوٹہ سسٹم کا خاتمہ وغیرہ پر کوئی توجہ نہیں دی، قصہ مختصر یہ ہے بالآخر پیپلز پارٹی کا دور حکومت شروع ہوا تو 3 اپریل 2008 ءسے پارٹی زائچے میں راہو کا دور شروع ہوچکا تھا اور یہ دور بھی زیادہ نقصان دہ نہیں تھا کیوں کہ راہو زائچے کے نویں گھر میں ہے لیکن بڑا دھوکے باز ہے اور سیاست کا ستارہ ہے چناں چہ اس دور میں جو 4 اپریل 2011 ءتک جاری رہا ، سیاسی فریب کاریاں جاری رہیں، پارٹی اور حکومت کے درمیان دلچسپ سیاسی داو ¿ پیچ دیکھنے میں آئے لیکن یہ سب عوام اور کراچی کے مسائل کے لیے ہر گز مناسب نہیں تھے، بلدیاتی انتخابات کو پس پشت ڈالا گیا، اسی دور میں بعض دیگر بھیانک نوعیت کے مسائل میں اضافہ ہوا، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کی شرح بڑھتی چلی گئی اور بالآخر رینجرز کو دعوت دینا پڑی۔
4 اپریل 2011 ءسے مشتری کا دور اصغر شروع ہوا جو 3 دسمبر 2013 ءتک جاری رہا، مشتری ہبوط یافتہ ہے، اس دور میں جیسے تیسے پارٹی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئی لیکن پارٹی کے اندر خرابیاں جنم لیتی رہیں، مشتری پارٹی کا ستارہ ہے،اس کی خراب پوزیشن ، اس کے دور میں خرابیوں کو ہی جنم دے گی، اسی لیے ہم نے 2013 ءمیں کہا تھا کہ اب پارٹی کی بقا کا مسئلہ سامنے آنے والا ہے اور پھر دسمبر تک ایسا ہی ہوا، اُس وقت کے واقعات دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
3 دسمبر 2013 ءسے سیارہ زحل کا سب پیریڈ جاری ہے،زحل دوسرے اور تیسرے گھروں پر حکمران ہے، زائچے میں چوتھے گھر میں قابض اور نوبہرہ چارٹ میں ساتویں گھر میں ایک اہم یوگ بنارہا ہے،دوسرا اور چوتھا گھر فیملی یعنی اندرونی اور باہمی تعلقات سے متعلق ہے، تیسرا گھر پہل کاری ، اقدام اور ذہنی سوچ کا گھر ہے، چناں چہ اسی دور میں بہت سے اختلافات نمایاں ہوکر سامنے آنے لگے اور ایک اصلاحی عمل کی ضرورت محسوس کی جانے لگی، دبی دبی زبان میں اکثر پارٹی ممبر اپنی مختلف ذہنی سوچ کا اظہار کرنے لگے، زیادہ خرابی اس وقت شروع ہوئی جب نومبر 2014 ءمیں سیارہ زحل زائچے کے بارھویں گھر میں داخل ہوا اور تاحال اسی گھر میں مقیم ہے،جب کہ سیارہ مریخ بھی بارھویں گھر میں داخل ہوچکا ہے اور یہ دونوں اگست تک باہم قران بھی کریں گے جو یقیناً اہم ثابت ہوگا۔
اس سال کی سب سے اہم سیاروی نظر 10 جنوری سے شروع ہوئی یعنی پارٹی زائچے کا حاکم سیارہ مشتری راہو کیتو محور میں پھنس کر رہ گیا اور تقریباً 20 مارچ تک یہ پوزیشن برقرار ہے، راہو کیتو سازش اور انتشار کی نشان دہی کرتے ہیں، راہو اور مشتری زائچے کے نویں گھر میں ہیں جو قسمت کا گھر بھی ہے اور آئینی و قانونی معاملات سے بھی متعلق ہے،گویا پارٹی کے بنیادی نظریات پر بھی مشتری راہو اور کیتو کی موجودہ پوزیشن بری طرح اثر انداز ہورہی ہے،اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، پارٹی سے متعلق افراد ہی میں سے ایک نئی پارٹی وجود میں لائی جارہی ہے۔
دسویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد ہے اور اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سال میں ایک سے زیادہ مرتبہ طلوع و غروب کے مرحلے سے گزرتا ہے اور اکثر منحوس اثرات کا شکار ہوتا رہتا ہے،7 مارچ سے عطارد غروب ہے اور آئندہ 7 اپریل تک غروب رہے گا، اس کی خراب پوزیشن پارٹی سربراہ اور ان کے رفقاءکے لیے سخت وقت کی نشان دہی کرتی ہے،شاید اسی لیے جناب الطاف حسین کی خرابی ¿ صحت سے متعلق خبریں بھی آرہی ہیں اور رابطہ کمیٹیاں بھی پریشان و سراسیمہ ہےں، جناب فاروق ستار نے اس صورت حال میں مناسب یہی سمجھا ہے کہ کراچی سے کچرے کے ڈھیر صاف کردیے جائیں، گویا صفائی کا عمل ہر سطح پر شروع ہوچکا ہے، صفائی ، اصلاح احوال کا عمل بدستور آئندہ سال 2 فروری 2017 ءتک جاری رہے گا،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارٹی کے اندر سے ایک دوسری پارٹی نکل آئے ، ایسا تو پہلے بھی ہوچکا ہے۔
11 مارچ سے یکم ستمبر تک ایسا وقت ہے جس میں سیاسی داو ¿ پیچ جاری رہیں گے لیکن تقریباً 15 جولائی سے ایک بار پھر ایم کیو ایم خبروں میں نمایاں ہوگیاور 
پھر اسے اپنی بقاءکے مسائل درپیش ہوں گے .واللہ اعلم بالصواب


انسانی کمزوریاں، ناکامیاں اور زندگی کی دھوپ چھاو ں

پیدائشی زائچے کے اثراتِ بد اور گردش سیارگان کے اُتار چڑھاو ¿ سے نجات
 یہ سوال نہایت اہم ہے کہ آیا پیدائشی زائچے میں موجود خرابیوں کو دور کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یا سختیاں لانے والے منحوس سیاروی اثرات سے نجات ممکن ہے یا نہیں؟یہ خرابیاں اور اثرات پیدائشی زائچے کے علاوہ کسی بھی اہم نئے کام کی ابتدا کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں،مثلاً شادی، نئے کاروبار کا آغاز، نئے مکان میں داخلہ و قیام، کسی اہم سفر پر روانگی، کسی نئے ایگریمنٹ پر دستخط وغیرہ۔
جہاں تک پیدائشی زائچے کی خرابیوں کا تعلق ہے ‘ انہیں ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ اول زائچے میں سعد سیارگان کی کمزوری‘ دوم فعلی منحوس سیاروں کا پیدا کردہ بگاڑ اور سوم سعد سیارگان کی زائچے کے منحوس گھروں میں نشست۔
یہ تینوں صورتیں کسی بھی عورت یا مرد کے زائچے میں مختلف نوعیت کے گونا گوں مسائل کا سبب بنتی ہیں‘ ہماری کتاب ”پیش گوئی کا فن“ حصہ اول و دوئم میں ان خرابیوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور مثالی زائچوں کے ذریعے ان کی وضاحت بھی کی گئی ہے،اپنے کالموں میں ہم اکثر کسی زائچے پر بات کرتے ہوئے بھی ایسی خرابیوں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں۔
سیاروی کمزوری
پہلی صورت یعنی کسی سیارے کی کمزوری بہت زیادہ خطرناک اس صورت میں نہیں ہوتی جب وہ زائچے میں سعد گھروں میں قابض ہو البتہ نحس گھروں میں قبضہ اسے مزید خراب کردیتا ہے اور وہ اپنے متعلقہ سعد گھر کی منسوبات کے لیے ایک عضوِ معطل ہو کر رہ جاتا ہے‘ مزید یہ کہ اپنے فعال دور اکبر و اصغر میں زیادہ فائدہ بخش ثابت نہیں ہوتا‘ اس کمزوری کو مخصوص پتھر یا لوح یا خاتم وغیرہ کے استعمال سے دور کیا جا سکتا ہے لیکن بعض زائچوں میں ایک سے زائد سعد سیارگان کی کمزوری مسئلہ بن جاتی ہے‘ ایسی صورت میں ایک سے زائد قیمتی پتھر یا الواحِ سیارگان کا استعمال مسئلہ بن جاتا ہے، مزید یہ کہ قیمتی پتھر عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوجاتے ہیں مثلاً سیارہ زہرہ کا پتھر ڈائمنڈ ہے اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے ‘ اسی طرح عمدہ کوالٹی کے ڈائمنڈ فیملی سے متعلق پتھر نیلم‘ یاقوت‘ پکھراج وغیرہ بھی بہت مہنگے ہیں ‘ سچا موتی نایاب ہوتا جا رہا ہے اس لیے بہت قیمتی ہے ۔
پتھروں کا استعمال اور حصول
 آج کے زمانے میں قیمتی پتھروں کی ڈپلیکیٹ بنانے کا رواج عام ہوگیا ہے اور اس حوالے سے دھوکے اور فراڈ کا امکان بہت بڑھ گیا ہے لہٰذا پتھروں کے استعمال میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ پہلی بات تو پتھر کا اصلی ہونا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنی کوالٹی کے اعتبار سے عمدہ قسم کا ہو‘ بازار میں عام طور سے دوسرے اور تیسرے درجے کے پتھر عام ملتے ہیں جو کسی حد تک کم قیمت بھی ہوتے ہیں ‘ ان پتھروں کی اثر پذیری مشکوک ہو سکتی ہے‘ ان کا استعمال ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیماری میں معیاری دوا کے بجائے سستی دو نمبر دوا استعمال کرے ۔
 اکثر خواتین و حضرات ذاتی طور پر پتھروں کی معقول شناخت نہیں رکھتے کیوں کہ یہ بھی علیحدہ سے ایک علم اور فن ہے،بڑے بڑے ماہر جوہری بھی اس معاملے میں دھوکا کھا جاتے ہیں،لوگ اکثر ادھر اُدھر سے خریدے ہوئے یا تحفتاً آئے ہوئے پتھر ہمیں دکھاتے ہیں اور جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اصلی نہیں ہیں یا کمتر درجے کے ہیں تو انہیں مایوسی ہوتی ہے،سب سے زیادہ مایوسی انہیں اُس وقت ہوتی ہے جب وہ ایران ، عراق یا سعودی عربیہ سے منگوائے ہوئے یا لائے ہوئے پتھروں کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ یہ نقلی ہے یا کمتر درجے کا ہے،گزشتہ آٹھ دس سال سے ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ جعلی یا کمتر درجے کے پتھر ایران، عراق اور سعودیہ سے لوگ لارہے ہیں،وہ اپنی عقیدت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ملکوں میں کاروبار کرنے والے بھی دھوکا یا فراڈ کرسکتے ہیں،لوگوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے پتھر لے کر اُسے مزارات سے مس کرلیتے ہیں، ایسے پتھروں سے عقیدت و محبت اپنی جگہ مگر ان کی بنیادی خصوصیات کے اثر پر اعتبار کرنا مشکوک ہوجاتا ہے۔
ڈائمنڈ فیملی کے پتھر (ڈائمنڈ، نیلم، پکھراج، زمرد،یاقوت وغیرہ) اگر اعلیٰ کوالٹی کے ہوں تو قیمت لاکھوں میں چلی جاتی ہے اور لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ انہیں کسی نے تحفتاً دیا ہے،اتنا مہنگا تحفہ دینا بڑے دل گردے کا کام ہے،ان پتھروں کی کمتر درجے کی اقسام بھی آج کل اتنی ارزاں نہیں ہیں کہ عام آدمی خرید سکے لہٰذا لوگ مجبوراً ایسے پتھر استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو بہت ہی گھٹیا درجے کے یا اپنے اندر نقص رکھتے ہوں، ایسے پتھروں کا استعمال فائدے کے بجائے کسی نقصان کا باعث بن جاتا ہے،ایسی صورت میں عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں کہ پتھر ہمیں راس نہیں آیا، راس نہ آنے کی پہلی وجہ تو پتھر کا گھٹیا اور کسی نقص کا حامل ہونا ہوتا ہے اور دوسری وجہ جو نہایت اہم ہے،وہ پتھر کا انتخاب ہے جو آسان کام نہیں ہے، ہمارے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں اس حوالے سے خاصے اختلافی مسائل موجود ہیں اور یہ موضوع علیحدہ سے ایک مضمون کا متقاضی ہے۔
سیاروی بگاڑ
 زائچے میں خرابی کی دوسری صورت فعلی منحوس سیاروں کا پیدا کردہ بگاڑ ہے‘ یہ سب سے زیادہ خراب صورت ہے ‘ یہ بگاڑ دو قسم کا ہوتا ہے اول منحوس سیار گان سعد سیارگان کو قران یا نظر کے ذریعے نقصان پہنچاتے ہیں‘ دوم زائچے کے گھروں کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ اس کے لیے پہلی معالجاتی تدبیر تو صدقات اور نیک عمل کی پابندی ہے اور دوسری متاثرہ سیار گان کو تقویت پہنچانا ہے‘ اس حوالے سے پتھر اور مخصوص نقوش و طلسم استعمال ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ سعد سیارگان کا متاثر ہونا (زائچے کا ملٹی پل بگاڑ) یا دیگر نوعیت کی خرابیوں میں مبتلا ہونا ‘ ایک سے زیادہ پتھروں یا الواح وغیرہ کے استعمال کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو عام طور پر لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ پتھروں کی کوالٹی اکثر مشکوک ہوتی ہے،جہاں تک نقوش و الواح کا تعلق ہے تو یہ کام بھی جس مہارت اور سلیقے کا محتاج ہے، وہ مفقود ہوتی جارہی ہے،حقیقی علم سے ناواقف افراد کی کثرت ہے،وہ نہ علم جفر جانتے ہیں اور نہ نجوم۔
سیاروی نحوست
 تیسری صورت سعد سیارگان کا منحوس گھروں میں قیام ہے‘ یہ بھی دوسری صورت کے مقابلے میں کم خطرناک نہیں ہے،البتہ اس وقت یہ صورت زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے جب فعلی منحوس ایسے سیارگان سے قران یا نظر کے ذریعے رابطہ کریں اور انہیں متاثر کریں۔
قصہ مختصر یہ کہ زائچے میں موجود خرابیاں جو انسان کو مسائل و مشکلات میں مبتلا کرتی ہیں تقریباً ہر زائچے کا لازمی جُز ہیں‘ یہ خرابیاں انسان کی بہترین صلاحیتوں ‘ عادت و اطوار وغیرہ کو بھی متاثر کرتی ہیں اور زندگی میں ترقی اور کامیابی کے راستوںکو بھی محدود کرتی ہےں مثلاً سیارہ قمر دماغ سے متعلق ہے اور عطارد ذہن سے‘ اگر دونوں یا کوئی ایک زائچے میں کمزور ہے یا کسی بگاڑ کا شکار ہے تو ایسا شخص اعلیٰ درجے کی دماغی اور ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بعض بدترین قسم کی نفسیاتی بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں‘ یہ دونوں سیارگان زائچے کے جن گھروں کے حاکم ہوں گے‘ ان گھروں کی منسوبات بری طرح متاثر ہوں گی۔
علاج بالنجوم و جفر
 زائچے کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ زائچے میں موجود خرابیوں پر کیسے قابو پایا جائے اورصاحب زائچہ کو اس کی زندگی میںکیسے آسانیاں فراہم کی جائیں؟ عام طور پر صدقات و خیرات کے ساتھ ورد و وظائف پر زور دیا جاتا ہے،بے شک صدقہ ردّ بلا ہے اور نحوست سیارگان کی کاٹ کرتا ہے،اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ پیدائشی یا وقتی سیاروی نحوست سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات پر زور دیا جائے، زندگی میں مثبت طور طریقے اختیار کیے جائیں اور منفی دلچسپیوں یا سرگرمیوں سے گریز کیا جائے، نیکی کا راستہ اختیار کیا جائے،جہاں تک ورد و وظائف کا تعلق ہے تو سب سے پہلے فرائض کی ادائیگی پر زور دیا جائے جن میں مقررہ عبادات کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی سب سے زیادہ اہم ہے،اکثر لوگ ان بنیادی باتوں کو زیادہ اہمیت دینے کے بجائے محض ورد و وظائف ، عمل و چلّے کرنے میں زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں،ایسے لوگوں کے ورد و وظائف اور چلّے وغیرہ بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
ہم ایک ایسے مادّی دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں مادّی ضروریات روحانی ضروریات پر غالب آچکی ہیں اور اس حد تک بڑھ چکی ہیں جہاں صدقات و خیرات کھلے دل سے اور کھلے ہاتھ سے کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے،اسی طرح بنیادی عبادات و وظائف کے لیے بھی لوگ وقت نہیں نکال پاتے۔
علاج بالنجوم و جفر کو بالکل اسی طرح سمجھنا چاہیے جس طرح کسی بیماری سے نجات پانے کے لیے ہم ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور اُس کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کرتے ہیں،اسی طرح ایک ماہر نجوم و جفر پیدائشی زائچے کی کمزوریوں اور خرابیوں کو مدنظر رکھ کر کوئی پتھر یا نقش و طلسم تجویز کرتا ہے جو ہمارے زائچے کی خرابیوں کو کم کرنے یا دور کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
 اس موضوع پر ہماری تحقیق کے مطابق سب سے پہلے عرب ماہرینِ فلکیات نے غور و فکر کیا اورغالباً پہلا نام اس حوالے سے ثابت ابن قرّہ (آٹھویں یا نویں صدی عیسوی) کا ہے‘ انہوں نے ایسے نقوش و طلسمات پر گفتگو کی ہے جو پیدائشی زائچے کی خرابیوں کو دور کرنے میں معاون و مددگار ہو سکتے ہیں‘ علامہ مجریطی کی کتاب غایت الحکیم بھی اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہے جو غالباً دسویں یا گیارہویں صدی عیسویں میں لکھی گئی اور یہ کتاب آج بھی مغرب میں نہایت اہم سمجھی جاتی ہے ‘ اس کے تراجم سولہویں صدی عیسوی میں اطالوی، جرمن زبان میں ہوئے اور اب انگریزی زبان میں ہو چکے ہیں‘ مغرب کے ماہرین نجوم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ‘ یہی صورت انڈیا میں بھی نظر آتی ہے ‘ روایتی ہندو عقائد سے قطع نظر جو جدید فکر کے حامل ماہرین نجوم ہیں وہ بھی قدیم عرب اسکالرز کے نظریات سے متاثر ہیں لیکن اپنے فطری تعصب کی بنیاد پر اس کا اظہار نہیں کرتے۔
ثابت ابن قرہ کا نظریہ یہ تھا کہ کسی شخص کی پیدائشی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایسا طلسمی و روحانی مواد مہیا کیا جائے جو صورت حال کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ایسا مواد اپنے اجزائے ترکیبی میں حروف و اعداد کے باطنی خواص کے ساتھ فلکیاتی روحانیت کے امتزاج سے ہی ممکن ہوگا، اس حوالے سے وہ صاحب زائچہ کا ایک نیا زائچہ تخلیق کر کے جو اپنی سعادت میں اعلیٰ صفات کا حامل ہو‘ اس کی تاثیرات کو مخصوص طریقِ کار کے ذریعے کسی نقش یا طلسم میں محفوظ کرنے کا مشورہ دیتے ہےں اور پھر اسے کسی سعد و مبارک وقت پر مطلوبہ شخص کو استعمال کرایا جائے تو ایسے نقش یا طلسم کا اثر آہستہ آہستہ پیدائشی زائچے کی خامیوں اور کمزوریوں پر غالب آجائے گا لیکن یہ کام بہت سست رفتار بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کا انحصار زائچے کی خرابیوں کی نوعیت پر ہے کہ وہ کس درجے کی ہےں؟
لوح سعادت الکبریٰ
 اس بنیادی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے زائچے کے بارہ بروج (حمل تا حوت) کے لیے بارہ الواح جفری اصول و قواعد کے مطابق مرتب کی ہیں اور انہیں تجربے کی کسوٹی پر آزمایا ہے ‘ اس لوح کا نام ہم نے ”لوحِ سعادت الکبریٰ“ رکھا ہے‘ پہلی بار یہ الواح اس سال کے آغاز پر عام کی گئی ہیں اور زنجانی جنتری 2016 ءمیں شائع کی گئی ہیں اور اب ہماری ویب سائٹ پر بھی دیکھی جاسکتی ہےں،موجودہ کالم میں جگہ کی کمی کی وجہ سے یہ بارہ الواح شامل نہیں کی گئیں،شائقین کو اس کے لیے زنجانی جنتری 2016 ءیا ہماری ویب سائٹ www.maseeha.com دیکھنا چاہیے۔
اہلِ علم و نظر کے لیے یہ بارہ الواح یقیناً دلچسپی اور غور و فکر کا باعث ہوں گی،ہر لوح زائچے کے سعد سیارگان کو مدنظر رکھ کر مرتب کی گئی ہے اور متعلقہ سیارگان کی مخصوص مثلثات کو استعمال کیا گیا ہے، لازم ہوگا کہ لوح کی تیاری کے وقت مطلوبہ سیارگان کے قوت و ضعف کو مدنظر رکھا جائے اور یہی سب سے اہم اور ضروری کام ہے، ایسے اوقات کا حصول عام طور پر نہایت مشکل اور بہت ہی عرق ریزی کا کام ہے،اکثر مہینوں ایسے اوقات ہاتھ نہیں آتے،اس سال پہلا موقع 30-29 اپریل 2016 ءکو مل سکے گا اور اس کے لیے درست وقت کا انتخاب بھی ہر شہر کے مطابق الگ الگ ہوگا،ہم صرف کراچی ، نیو یارک اور ٹورنٹو کے وقت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔
کراچی ٹائم کے مطابق 29 اپریل کو شام 05:50 pm سے 07:24 pm تک اور 30 اپریل کو 05:51 pm سے 07:20pm تک ہوگا،نیو یارک اور ٹورنٹو ٹائم کے مطابق 29 اپریل کو 07:24 pm سے 08:14 pm تک اور 30 اپریل کو 06:30 pm سے 08:10 pm تک ہوگا۔
تمام شہروں کے اوقات کی نشان دہی یہاں ممکن نہیں ہے، اس کے لیے براہ راست رابطہ کرکے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں،اس موقع پر صرف برج حمل ، میزان اور دلو والوں کے لیے ”لوح سعادت الکبریٰ“ تیار ہوسکے گی لیکن مئی اور جون میں دیگر بروج کی الواح بھی تیار ہوسکتی ہیں، اس سلسلے میں مزید رہنمائی کے لیے براہ راست رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

تیاری کا طریق کار
 لوح کی تیاری کے طر یقے میں اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہوگا کہ صاحب زائچہ کے لیے منتخب کردہ لوح کو ایسے وقت میں تیار کیا جائے جب زائچے کے سعد سیار گان مناسب و سعد گھروں میں مضبوط اور طاقت ور ہوں اور کسی قسم کے سیاروی بگاڑ کا شکار نہ ہوں‘ اس حوالے سے یونانی علم نجوم کے مروجہ اصول و قواعد کے بجائے ہماری کتاب ”پیش گوئی کا فن“ میں دیے گئے اصول وقواعد کو مدّنظر رکھا جائے یعنی سیارگان کے قوت و ضعف اور سعد ادوار کا تعین کتاب میں دیے گئے قواعد کے مطابق کیا جائے‘ بے شک ایسے اوقات کو پانا کوئی آسان کام نہیں ہے ‘ بعض اوقات اس کام میں نہایت عرق ریزی کے ساتھ مسلسل محنت کی ضرورت ہوتی ہے تب کہیں کوئی ایسا وقت ہاتھ لگتا ہے جس میں ضرورت کے مطابق لوح تیار ہو سکے ‘ وہی لوگ اس لوح کی تیاری میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کیے گئے جدید تجزیاتی طریقِ کار پر مکمل عبور حاصل کرلیں گے‘ اس حوالے سے مروجہ شرف یا اوج وغیرہ کے سیاروی اوقات کارآمد نہ ہوں گے۔
اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے،اکثر لوگ اپنی تاریخ پیدائش کے مطابق اپنے شمسی برج (Sun sign) کو ہی اہم سمجھتے ہیں اور اُسی کو اپنا برج یا ”اسٹار“ کہتے ہیں، جب کہ اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے،حقیقی اور مو ¿ثر ترین کردار ادا کرنے والا برج پیدائشی برج (Birth sign) ہوتا ہے جو تاریخ پیدائش کے ساتھ وقت پیدائش اور مقام پیدائش کو مدنظر رکھ کر نکالا جاتا ہے لہٰذا لوح سعادت الکبریٰ اسی پیدائشی برج کے مطابق بنائی جائے گی اور اس کے لیے ویدک سسٹم سے مدد لی جائے گی،یونانی سسٹم اس طریق کار میں کارآمد نہیں ہوگا، جو لوگ اپنا پیدائشی برج معلوم کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنی تاریخ پیدائش ، وقت پیدائش اور مقام پیدائش لکھ کر ہماری فری ای میل سروس سے استفادہ کرسکتے ہیں،انہیں پیدائشی برج سے آگاہ کردیا جائے گا، اگر تاریخ پیدائش یا وقت پیدائش معلوم نہیں ہے اور شادی ہوچکی ہے تو نکاح کی تاریخ ، وقت اور مقام لکھیں۔

درست وقت کی اہمیت اور علم نجوم کے اختلافی مسائل

کوئی علم مسلم یا غیر مسلم نہیں ہوتا، علم صرف علم ہوتا ہے‘تعصب سے گریز لازم ہے
ابتدا ہی سے اس حقیقت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ علم جفر سے کام لینے کے لیے علم نجوم سے واقفیت ضروری ہے، علم جفر حروف اور اعداد کی مخصوص خصوصیات اور قوت کو ضرورت کے مطابق ترتیب دینے کا نام ہے اور پھر ترتیب شدہ طلسم یا نقش وقت کی سعادت یا نحوست کا مرہون منت ہوتا ہے،وقت کی سعادت یا نحوست سے آگاہی علم نجوم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
وقت کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے جب نظام کائنات کو ترتیب دیا تو اسے وقت کا پابند کیا ہے اور اس ضرورت کے لیے ہمارے نظام شمسی میں چاند اور سورج کی گردش کو مقرر کردیا جس کی نشان دہی قرآن کریم میں بھی کردی گئی ہے، دونوں کی روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ گردش موسمی تغیر و تبدل ، صبح و شام ، دن اور رات کا اہتمام کرتی ہے،یہ اہتمام کرہ ارض پر طلوع غروب آفتاب کے ماتحت ہے،سورج اور چاند کی مخصوص گردش کے ساتھ ہی دیگر سیارگان بھی اللہ کے مقرر کردہ اصول و قواعد کے پابند ہیں اور اپنے اپنے دائروں میں اپنی اپنی مخصوص رفتار سے گردش کر رہے ہیں، تمام سیارگان کی اس گردش کے مطالعے کا نام علم نجوم ہے،اس گردش سے ہم وقت کی خوبیوں اور خامیوں یعنی سعادت و نحوست کے بارے میں جانتے ہیں،چناں چہ علم جفر سے کام لینے کے لیے علم نجوم سے آگاہی حاصل ہونا نہایت ضروری ہے،بہ صورت دیگر ہمارا بہترین ترتیب شدہ عمل ضائع ہوسکتا ہے،اس عمل میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے مناسب اور موزوں وقت کا انتخاب ضروری ہے۔
ابتدائی ضروری نکات
پروردگار نے ہمارے نظام شمسی میں بے شمار سیارے اور ثوابت پیدا کیے ہیں جو اپنے اپنے مقام پر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، ان سے واقفیت کے علم کو ”علم الفلکیات“ کہا جاتا ہے، قدیم زمانوں سے علم فلکیات میں مشاہدے اور مطالعے کا عمل جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ فلکیاتی تحقیق کے میدان میں نت نئے انکشافات سامنے آتے رہتے ہیں، علم فلکیات کی ایک برانچ علم نجوم ہے جو ثوابت و سیارگان کے مقام و گردش سے پیدا ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالتی ہے،اس طرح علم نجوم کی بھی مختلف شاخیں وجود میں آگئی ہیں لیکن ہم یہاں صرف جاری موضوع کی مناسبت سے گفتگو کریں گے۔
سیارے
ہمارے نظام شمسی میں یوں تو بہت سے سیارے گردش کر رہے ہیں لیکن چاند اور سورج کے علاوہ جن سیارگان کی اہمیت اور اثرات کا مشاہدہ کیا گیا ہے، ان میں سرفہرست عطارد ، زہرہ، مریخ، مشتری ، زحل، یورینس، نیپچون اور پلوٹو ہیں،اس کے علاوہ راس و ذنب (راہو، کیتو)کی حیثیت اور اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں،یہ پرچھائیں سیارے ہیں یعنی انہیں سیارہ قمر کے سائے کہا جاتا ہے۔
والسمائے ذاتِ ال ±بُروج
نظام شمسی میں پروردگار نے 12 بروج بھی مقرر کیے ہیں اور ان بارہ بروج کے اندر قمر کی منزلیں مقرر کی گئی ہیں جن کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں کیا گیا ہے،یہ بارہ بروج حمل سے حوت تک پھیلے ہوئے ہیں،ترتیب وار ان کے نام یہ ہیں۔
حمل (Aries)۔ ثور(Taurus)۔ جوزا(Gemini)۔ سرطان(Cancer)۔ اسد(Leo)۔ سنبلہ(Virgo)۔ میزان(Libra)۔ عقرب(Scorpio)۔قوس(Sagittarius)۔جدی(Capricorn)۔دلو(Aquarius)۔حوت(Pieses)
بارہ بروج سے متعلق سیارگان کی قدیم و جدید وابستگی کچھ یوں ہے، حمل و عقرب کا حاکم سیارہ مریخ کو تسلیم کیا گیا ہے،ثور اور میزان کا حاکم سیارہ زہرہ، جوزا اور سنبلہ کا حاکم سیارہ عطارد، جدی اور دلو کا حاکم سیارہ زحل، قوس اور حوت کا حاکم سیارہ مشتری لیکن جدید علم نجوم کے مطابق اس وابستگی میں فرق آجاتا ہے جو علم جفر کے حوالے سے اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔
بارہ برجوں کے اس دائرے کے لیے 360 درجات مقرر کیے گئے ہیں جب کہ ایک برج کے درجات تیس ہیں،اسی اصول کی بنیاد پر سیارہ شمس کی سالانہ گردش کو مدنظر رکھتے ہوئے شمسی کلینڈر ترتیب دیا گیا ہے جسے اب گریگری یا عیسوی کلینڈر بھی کہا جاتا ہے، اس کے مطابق سال کے 365 یا 366 دن مقرر کیے گئے ہیں اور ان دنوں کو 360 درجات پر پھیلا دیا گیا ہے۔
منازل قمر
بارہ بروج اپنے اندر 28 منازل قمر رکھتے ہیں، اس موضوع پر سیر حاصل معلومات کے لیے ہماری کتاب ”اک جہان حیرت“ کا مطالعہ کرنا چاہیے، 28 منزلوں کی تفصیل یہ ہے جو ہر برج میں واقع ہیں اور بعض منازل ایک برج سے دوسرے برج تک دراز ہیں یعنی ان کی ابتدا اگر ایک برج سے ہورہی ہے تو انتہا اس سے اگلے برج میں ہے، 28 منازل قمری سے 28 حروف تہجی منسوب ہیں، ان کی تفصیل بھی دی جارہی ہے۔
برج حمل : شرطین ، بطین، ثریا
منسوبی حروف: ا۔ ب۔ ج
برج ثور: ثریا، دبران، ہقعہ
منسوبی حروف: ج۔ د ۔ہ
برج جوزا: ہقعہ ، ہنعہ، ذراع
منسوبی حروف: ہ۔و۔ز
برج سرطان: نثرہ، طرفہ، جبہ
منسوبی حروف: ح۔ط۔ی
برج اسد: جبہ، زہرہ، صرفہ
منسوبی حروف: ی۔ک۔ ل
برج سنبلہ: صرفہ، عوا، سماک
منسوبی حروف: ل۔م۔ن
برج میزان: غفرہ، زبانہ، اکلیل
منسوبی حروف: س۔ع۔ف
برج عقرب: اکلیل، قلب، شولہ
منسوبی حروف: ف۔ص۔ق
برج قوس: شولہ، نعائم، بلدہ
منسوبی حروف: ق۔ر۔ش
برج جدی: زابح، بلعہ، سعدالسعود
منسوبی حروف: ت۔ث۔خ
برج دلو: سعود، اخبیہ، مقدم
منسوبی حروف: خ۔ذ۔ض
برج حوت: مقدم، مو ¿خر، رشا
منسوبی حروف: ض۔ظ۔غ
ہر قمری منزل اگرچہ کسی نہ کسی برج میں واقع ہے اور اُس برج کا حاکم سیارہ اس منزل پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ہر منزل کا حکمران بھی ہے جو بنیادی طور پر منزل کا حاکم تصور کیا جاتا ہے،28 منزلوں کو سات سیارگان پر تقسیم کیا گیا ہے، اس طرح ایک سیارہ چار منزلوں پر حکمران ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سیاروی حکمرانی
سیارہ زحل کی حکمرانی منزل ذراع۔سماک۔ بلدہ اور ذابع پر ہے۔
سیارہ مشتری کی حکمرانی منزل شرطین۔ طرفہ۔ مقدم اور شولہ پر ہے۔
سیارہ مریخ کی حکمرانی منزل اکلیل۔جبتہ۔ ثریہ اور بلعہ پر ہے۔
سیارہ شمس کی حکمرانی منزل ہنفعہ۔ صرفہ۔ قلب اور مو ¿خر پر ہے۔
سیارہ زہرہ کی حکمرانی بطین۔ دبران۔ عوا اور اخبیہ پر ہے۔
سیارہ عطارد کی حکمرانی زبانہ۔ نعائم۔ سعود اور غفرہ پر ہے۔
سیارہ قمر کی حکمرانی منزل ہقعہ۔ نثرہ۔ زبرہ اور رشا پر ہے۔
ہر منزل قمر اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے اور اُس پر حکمرانی کرنے والا سیارہ اُس اثر کی نشان دہی کرتا ہے، مزید یہ کہ وہ منزل جس برج میں واقع ہے، اُس برج اور سیارے کے اثرات بھی اہمیت رکھتے ہیں، منازل قمری کے خواص اور اثرات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں، خصوصاً ہر منزل سے متعلق طلسمات و نقوش اور منزلوں میں موجود دیگر ثوابت و سیارگان کی حرکات بھی اہمیت کی حامل ہیں، ان سے متعلق اعمال نہایت دقیق اور پُرتاثیر ہیں، ہم نے اپنی کتاب ”اک جہان حیرت“ میں منازل قمری کی خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور منزل سے متعلق اہم طلسمات کی تیاری کا طریقہ بھی واضح کیا ہے،اس میدان میں قدیم رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
علم الحروف اور منازل قمر
واضح رہے کہ قمر کی منزلیں 28 ہیں اور عربی زبان کے حروف تہجی بھی 28 ہیں، اس طرح ہر منزل سے ایک حرف منسوب ہے جس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے،اگر کوئی شخص تمام حروف تہجی کی زکات ادا کرنا چاہے تو متعلقہ منزل کے دوران میں ہی یہ زکات ادا کی جائے گی، اس کا طریقہ کار علم جفر کی کتابوں میں موجود ہے،ہم یہاں اس لیے نہیں دے رہے کہ موجودہ زمانے میں اتنا وقت اور فرصت عام آدمی کو نہیں ہے کہ وہ تمام حروف تہجی کی زکات ادا کرے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ضرورت کے مطابق چند حروف کی زکات ادا کرلی جائے ابتدا میں حروف تہجی کی مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں جن میں حروف نورانی ، ظلمانی، حروف صوامت وغیرہ نمایاں ہیں، عام طور پر لوگ حروف صوامت کی زکات ادا کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں سورج یا چاند گہن کے موقع پر حروف صوامت کی زکات ادا کرتے ہیں لیکن اکثریت ناکام ہوتی ہے،اثر جاری نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ کتابوں یا رسالوں میں زکات کے طریقے پڑھ کر یا کسی اپنے ہی جیسے اُستاد سے مشورہ کرکے زکات ادا کرلیتے ہیں، انہیں جس ابتدائی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے،وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی، سنی سنائی باتوں سے متاثر ہوکر اس میدان میں اندھا دھند چھلانگ لگا بیٹھتے ہیں اور بعد میں شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
اگر کوئی شخص حروف صوامت کے 13 حروف کی زکات متعلقہ منازل قمری میں ادا کرلے تو سورج یا چاند گہن میں ادا کی گئی زکات سے زیادہ پُرتاثیر قوت حاصل ہوجائے گی لیکن خیال رہے کہ ایسے تمام کام کسی قابل اور تجربے کار اُستاد کی نگرانی میں کرنا ضروری ہے ورنہ بعض چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور تمام محنت اور وقت کے ضائع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ وہ لوگ جو خود کو اس شعبے کے لیے وقف کردیتے ہیں اور خدمت خلق جن کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے، ان کے لیے لازم ہے کہ اگر تمام نہیں تو ضرورت کے مطابق حروف کی زکات ادا کریں لیکن وہ لوگ جو اپنی بعض ضروریات میں مختلف جفری اعمال سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں،انہیں خود کو اس کڑی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے،ان کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ بنیادی اصول و قواعد سے واقف ہوں اور وقت کی سعادت و نحوست کا ادراک رکھتے ہوں تاکہ مناسب عمل کو مناسب وقت پر تیار کرسکیں، اسی لیے ہم یہاں حروف تہجی کی زکات ادا کرنے کا طریقہ ءکار نہیں دے رہے۔
قدیم و جدید علم نجوم 
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ علم جفر اور علم نجوم لازم و ملزوم ہیں، قدم قدم پر علم جفر میں علم نجوم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،عام طور پر علم جفر میں علمائے جفر نے یونانی علم و نجوم کو اہمیت دی ہے اور نجوم کے یونانی طریقہ ءکار سے کام لیا ہے کیوں کہ عربوں تک علم نجوم کا جو مواد بھی پہنچا، وہ یونانی ، مصری یا بابلی تھا، یونانی یا موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق مغربی علم نجوم کا باوا آدم پٹولومی کو قرار دیا جاتا ہے جسے عرب بطلیموس کہتے ہیں،پٹولومی وہ پہلا ستارہ شناس ہے جس نے علم نجوم کے اصول و قواعد مرتب کیے اور انہیں ایک باضابطہ کتابی شکل دی، یہ کتاب آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے۔
پٹولومی کے زمانے میں سائنس نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی، اُس وقت تک زمین کو ایک گردش کرتا ہوا سیارہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا لہٰذا پٹولومی نے جو نظریہ پیش کیا، اس کے مطابق زمین کو ساکت و جامد قرار دیتے ہوئے تمام سیارگان کو زمین کے گرد گردش کرتے ہوئے بتایا گیا جس میں سورج بھی شامل ہے،سب سے پہلے بغداد کی بنیاد کے لیے سعد وقت مقرر کرنے والے ایک منجم نے پٹولومی کے نظریے پر شک و شبہے کا اظہار کیا، اس کے بعد البیرونی کا خیال بھی یہی تھا کہ اس نظریے کے بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، بہر حال صدیوں بعد گیلیلو اور کوپرنیکس نے اس نظریے کو غلط ثابت کیا ہے اور بتایا کہ زمین بھی ایک سیارہ ہے جو سورج کے گرد گردش کر رہا ہے۔
پٹولومی نے سات سیارگان اور بارہ بروج کی جو فلاسفی پیش کی، وہ آج بھی اہم سمجھی جاتی ہے،اس میں مزید تحقیق و جستجو جاری رہے اور آج کے دور میں برجوں اور سیارگان سے متعلق علم ماضی کے مقابلے میں بہت آگے بڑھ چکا ہے،اسی طرح سابق سیارگان (Fixed Stars) اور منازل قمری کے حوالے سے بھی جدید تحقیقات ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہیں جب کہ ہمارے اکثر منجم و جفار کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قدیم نظریات کے پابند نظر آتے ہیں یعنی صدیوں پہلے مسلمان عربوں نے جن اصول و قواعد کو مرتب کیا تھا، ان پر سختی سے کاربند ہیں،جدید تحقیقات کو ضروری نہیں سمجھتے یا انہیں اہمیت نہیں دیتے جب کہ ماضی کے عرب منجمین بھی قدیم نظریات سے مطمئن اور آسودہ نہ تھے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو ہمارے منجمین کو درپیش ہے، وہ علمی تعصب کا ہے اور یہ تعصب صرف اس وجہ سے ہے کہ ہندو منجم جس اصول پر کاربند ہیں، بحیثیت مسلمان ہم اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے اور ماضی کے عرب مسلمانوں کی تقلید کرتے ہیں یا مغربی منجمین کی پیروی کرتے ہیں جو یہودی یا عیسائی ہیں۔
قطبی زمینی جھکاو
 یہ مسئلہ زمین کے ایک طرف جھکاو ¿ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتا جارہا ہے، ماضی میں یعنی شاید پٹولومی کے زمانے میں زمین کا جھکاو ¿ اس طرح نہیں تھا جیسا کہ بعد میں جدید سائنس نے اس جھکاو ¿ کی اہمیت کو ثابت کیا ہے،پٹولومی اور اُس کے جانشین تو زمین کو متحرک ہی نہیں سمجھتے تھے لہٰذا اس اہم مسئلے کی طرف انہوں نے کوئی توجہ ہی نہ دی، یہی حال ہمارے عرب منجمین کا بھی رہا اور مغربی منجمین کا بھی،البتہ جب سائنس کی مزید باریکیوں کا مغرب کو ادراک ہوا تو مغرب میں بھی اس بات کو اہمیت دی جانے لگی اور جدید سائنسی نظریات کے زیر اثر ہی ہندوستان میں بھی اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غوروفکر شروع ہوا اور ہندوستانی ویدک سسٹم کے ماہرین نے زمین کے جھکاو ¿ کو اہمیت دی اور اس حوالے سے مختلف ماہرین نے نہایت تحقیقی کام کیا، یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں بہت سے اختلافات نے جنم لیا لہٰذا زمین کے جھکاو ¿ کا درست اندازہ لگانے والوں میں مختلف گروپ بن گئے، آخر کار ہندوستان کی آزادی کے بعد اس حوالے سے ایک ماہرین کی کمیٹی بنائی گئی جس نے نہایت ماہرانہ طور پر ایک متفقہ طریق کار وضع کیا جسے سرکاری طور پر تسلیم کرلیا گیا اور اب زمین کے جھکاو ¿ کا یہ مسئلہ بھارت میں حل ہوچکا ہے،اگرچہ اس کے بعد بھی بعض ہندو منجمین نے اپنا اختلاف برقرار رکھا لیکن اکثریت اسی فیصلے کو مانتی ہے جو پروفیسر لہری کی کمیٹی نے پیش کیا تھا اور جسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا، اس کے مطابق زمین کا جھکاو ¿ اب تقریباً چوبیس درجہ ہے، اسے اصطلاحاً عقلِ تعدیل یا ”ایانامسا“ کہا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں اس بنیاد پر علم نجوم کے دو اسکول آف تھاٹ وجود میں آچکے ہیں، اول کو سیڈرل سسٹم قرار دیا گیا جس میں چوبیس درجہ زمین کے جھکاو ¿ کو تسلیم کیا گیا ہے، بھارت میں اسے ویدک سسٹم کہا جاتا ہے،مغرب میں سیڈرل سسٹم۔
 دوسرے سسٹم کو ٹراپیکل سسٹم کہا جاتا ہے جس میں 24 درجہ زمین کا جھکاو ¿ شمار نہیں ہوتا، یہ مغرب میں رائج ہے اور پاکستانی منجمین کی اکثریت بھی اس کی پیروی کرتی ہے، پاکستان میں شائع ہونے والی تمام جنتریاں اور تقاویم اسی سسٹم کے تحت شائع ہوتی ہیں اور ہمارے ماہرین جفر اسی سسٹم کے تحت رفتارِ سیارگان کا مطالعہ کرتے ہیں، مختلف بروج میں سیارگان کے داخلے یا شرف و اوج وغیرہ کے اوقات مقرر کرتے ہیں لہٰذا دونوں سسٹم میں طریق کار کا یہ اختلاف بہت سے مسائل اور پیچیدگیاں پیدا کردیتا ہے، اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب پیش گوئی کا فن حصہ اول و دوم میں تفصیلی بحث کی ہے، یہاں یہ موضوع زیادہ تفصیل سے بیان کرنا درست نہیں ہے، مختصراً مندرجہ بالا صورت حال کا جائزہ اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ ہمارے قارئین اندازہ لگالیں کہ درست وقت کا حصول علم جفر میں ضروری ہے اور اسے پانے کے لیے دونوں سسٹم کے اختلافات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے اور اگر تجربے کی کسوٹی پر اول سسٹم پورا اترتا ہو تو صرف اس وجہ سے اسے نظر انداز کرنا ایک علمی بددیانتی ہوگی کہ اس سسٹم پر پڑوسی ملک بھارت میں عمل کیا جاتا ہے حالاں کہ یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اب مغرب میں بھی دونوں سسٹم رائج ہےں اور اس موضوع پر صرف ہندو ماہرین نجوم نے ہی کام نہیں کیا بلکہ برسوں پہلے ایک مغربی ماہر نجوم کارل فیگن کا نام بھی سرفہرست ہے لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی اس خوش خیالی کے ساتھ کرلیتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ماضی میں عرب مسلمانوں سے استفادہ کیا تھا لیکن ہندو ماہرین نجوم کی علمی کاوشوں کو اس لیے نظر انداز کرتے ہیں کہ وہ ”سخت کافر“ ہیں، حالاں کہ یہ سوچنا چاہیے کہ انسان ہندو مسلم ، سکھ، عیسائی، یہودی، بڈھسٹ وغیرہ ہوسکتا ہے لیکن کوئی علم مسلم یا غیر مسلم نہیں ہوتا، علم صرف علم ہوتا ہے جیسا کہ جدید میڈیکل ، انجینئرنگ یا خلائی تحقیق سے متعلق علوم کو ہم یہودی یا عیسائی علوم قرار نہیں دے سکتے لیکن پاکستان میں ”ملائیت“ماضی کے یورپی کلیسائی نظام کی صورت اختیار کرچکی ہے جس میں مختلف علوم پر بھی ”اسلامی“ ہونے کا ٹھپا لگانا ضروری ہے،چناں چہ ہمارے منجم و جفار یونانی یا ویسٹرن علم نجوم کو اسلامی علم نجوم قرار دے کر مطمئن ہیں کہ ملائیت کے جبرواستبداد سے نجات مل گئی ہے۔

علم جفر کے بنیادی رموز و نکات اور علم نجوم کی اہمیت





وقت کی تاثیرات سے فائدہ اٹھانے کا نام ہی علمِ جفر ہے جو علم نجوم کے بغیر 

ممکن نہیں

ہم بارہا اپنے قارئین کو یہ تاکید کرتے رہتے ہیں کہ جو لوگ جفری اعمال کا شوق رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ بنیادی اصول و قواعد سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے لیے حضرت کاش البرنیؒ کی کتابوں ”قواعد عملیات“ اور ”عامل کامل“ حصہ اول و دوم اور ”رموز الجفر“ وغیرہ کا مطالعہ کریں، ان کتابوں میں علم جفر کے بنیادی اصول و قواعد بیان کیے گئے ہیں جو مستند ہیں، ہم نے بھی اپنی ابتدائی زندگی میں انہی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، یہ درست ہے کہ بہت سی باتیں یا بہت سے رموز و نکات ایسے بھی ہوں گے جو ان کتابوں میں نہ مل سکیں یا جن کا تعلق ہمارے ذاتی تجربے سے ہو لیکن بہر حال برنی صاحب کی علمی کاوشوں سے انکار ممکن نہیں ہے،کم از کم پاکستان میں علم جفر اور دیگر اعمال و وظائف کے فروغ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

علم جفر میں چلّہ کشی یا طویل وظائف کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی خاص مقصد کے تحت کوئی عمل حکمت و تدبیر کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے وقت کی موزونیت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی سب سے اہم نکتہ ہے،ہمارے اکثر عاملین و کاملین، پیر فقیر اسی نکتے کو نظر انداز کرتے ہیں،ایک موزوں وقت سے واقفیت ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ اکثریت علم نجوم کے رموز و نکات سے بے خبر ہوتی ہے،جب کہ صرف علم نجوم ہی ایسا علم ہے جو وقت کی سعادت یا نحوست سے باخبر کرسکتا ہے،لوگ کتابوں اور رسالوں میں بڑے بڑے زبردست عمل و نقوش پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے لیے موزوں وقت کا انتخاب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، چناں چہ ان کے بہترین عمل یا نقش مو ¿ثر ثابت نہیں ہوتے،ہم ذاتی طور پر پاکستان بھر کے ماہرین جفر اور عاملین و کاملین کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اکثریت علم نجوم کی ضروری استعداد نہیں رکھتی،نتیجے کے طور پر ان کے پیش کردہ اعمال و نقوش جب غیر مو ¿ثر ثابت ہوتے ہیں تو لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتاہے اور اس علم کے حوالے سے بھی ان کے ذہنوں میں شک و وہم پیدا ہوتا ہے۔
علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے،حروف تہجی کے تمام حروف اپنی اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے کائنات میں کوئی شے بے مقصد اور بے اثر پیدا نہیں کی،ہر شے اپنا ایک مقصد رکھتی ہے اور اس کے ظاہری اور باطنی اثر سے بھی انکار ممکن نہیں ہے،بالکل اسی طرح حرف اور اعداد بھی دنیا میں بے مقصد نہیں ہیں اور بے اثر بھی نہیں ہیں، حروف کی تاثیر ان کے دنیاوی استعمال سے بھی ظاہر ہے، مختلف حروف کی آمیزش سے جو لفظ تشکیل پاتے ہیں، وہ اپنے اندر اچھے یا برے مختلف اثرات رکھتے ہیں اور جب ہم انہیں استعمال کرتے ہیں تو یہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں،اسی لیے رسول اکرم نے فرمایا کہ اپنے بچوں کے نام اچھے معنوں والے الفاظ میں رکھو۔
علم الاخبار و آثار
علم جفر دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصے کو علم الاخبار کہا گیا ہے اور دوسرے کو علم الآثار، اخبار سے مراد خبر ہے یعنی کسی مسئلے یا معاملے میں خبر حاصل کرنا جب کہ آثار سے مراد اثر ہے یعنی حروف کے اثر سے واقف ہونا اور فائدہ اٹھانا، اس حوالے سے مسلمان صوفیا نے بہت تحقیقی کام کیا، اگرچہ ان کے درمیان بعض موضوعات پر اختلافات بھی رہے مثلاً بعض صوفیا کا خیال تھا کہ حروف اپنی عنصری خصوصیت کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں اور بعض کا خیال تھا کہ وہ اپنی عددی قوت کے ذریعے اثر کرتے ہیں، بہر حال دونوں ہی صورتوں میں اثر پذیری ظاہر ہے۔
علم جفر کے حصہ ءآثار کے ذریعے جو نقش و طلسمات مرتب ہوتے ہیں،ان کی اثر پذیری کو سمجھنے کے مسائل آسان نہیں ہیں، عام ذہن کی رسائی اکثر وہاں تک نہیں ہوتی، شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی اور شمس المعارف کے مصنف امام بونی لکھتے ہیں کہ علم الحروف کا سمجھنا، مشاہدے اور توفیق الٰہی پر منحصر ہے،اس نازک مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہم حضرت کاش البرنیؒ کی تحریر سے ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں،اس اقتباس کو سمجھنا بھی توفیق الٰہی پر منحصر ہے۔
”حروف کی قوت ، فلکی اثرات، اعدادی نسبت اور طلسم کی روحانیت کو کھینچے والے بخورات کے ذریعے معمول پر جو عمل کیا جاتا ہے،وہ گویا طبائع علوی کو طبائع سفلی میں آمیز کیا جاتا ہے،یہ ایک بے معنی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ حیرت انگیز حسابی تبدیلیاں اپنے اندر رکھتا ہے،ایسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے تاثیر کا قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا، نقش یا لوح یا طلسم ایک ایسا خمیر ہوتا ہے جو طبائع اربعہ کے مرکب سے تیار کیا ہوا ہوتا ہے اور دوسری طبع میں مل کر ان کی حالت کو بدل دیتا ہے،اس لیے ارباب عمل کا یہ کام ہوتا ہے کہ افلاک کی روحانیت کو اتار کر اور صور جسمانیہ سے ربط دے کر یا نسبت عددیہ سے ملا جلا کر ایک خاص مزاج پیدا کرے جس کا اظہار طبیعت کے بدلنے کے لیے خمیر کا کام دے،وہی خمیر جو اجزائے معدنیہ میں کیمیا کرتا ہے،جب تک اس امر کے لیے ریاضتیں نہ کی جائیں، صبرواستقلال سے کام نہ لیا جائے، حروف و اعداد کی قوتوں اور نسبتوں کو نہ سمجھا جائے، افلاک کے مظاہر کواکب کو نہ جانا جائے، ان علوم سے کام نہیں لیا جاسکتا،چوں کہ قدرت نے ہر چیز میں ایک اثر پیدا کیا ہے اس لیے ان تاثیروں سے فائدہ اٹھانا انسان کا فرض ہے، بالکل اسی طرح جس طرح امراض کو دور کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کی تاثیروں سے واقف ہونا ضروری ہے“۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ اقتباس جفری اعمال کو سمجھنے اور اثر پذیری کے فلسفے یا تھیوری کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے،اس میں وہ راز پوشیدہ ہے جس کی توفیق صاحب عمل کو اللہ ہی سے ملتی ہے،بہ صورت دیگر ہزاروں لوگ عمر بھر اس بھول بھلیّاں میں بھٹکتے رہتے ہیں لیکن انہیں صحیح راستہ نہیں ملتا۔
علم جفر آثار
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے اور اس کی بنیاد عربی زبان کے 28 حروف تہجی پر ہے،اردو زبان میں زیادہ حروف ہےں لیکن قدیم عرب ماہرین جفر نے 28 حروف کے لیے جو اصول و قواعد مرتب کیے تھے، ان میں کوئی ترمیم آج تک نہیں ہوسکی، اردو زبان کے اضافی حروف صوتی مناسبت سے 28 حروف کے ساتھ جوڑ دیے گئے ہیں، مثلاً پ عربی زبان میں نہیں ہے،اسے ب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے یا ڑ اور ٹ بھی عربی میں نہیں ہے، انہیں ر اور ت کے ساتھ رکھا گیا ہے، اس طرح علم جفر کی بنیادی اساس 28 حروف پر ہی قائم رہتی ہے،ان 28 حروف سے سات چھوٹے چھوٹے چار حرفی لفظ بنائے گئے ہیں جو ہفتے کے سات دنوں اور سات سیاروں سے نسبت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔
ابجد۔ھوزا۔طیکل۔منسع۔ فسقر۔ شتثخ۔ ذضظغ۔
ان حروف کو سات دنوں ، سات سیاروں پر تقسیم کردیا گیا اور ہر حرف کی ایک عددی قیمت بھی مقرر کردی گئی جس کا تفصیلی نقشہ درج ذیل ہے، اس نقشے میں تمام حروف تہجی کی عددی ، سیاروی اور عنصری نسبت واضح کردی گئی ہے اور ہفتے کے سات دنوں سے متعلق نسبت بھی واضح ہے،اس طرح ایک نظر میں معلوم ہوسکتا ہے کون سا حرف آتشی، بادی، آبی یا خاکی ہے اور کس سیارے یا دن سے منسوب ہے،اس کی عددی قوت کیا ہے، امید ہے کہ اس نقشے کو شائقین اپنے پاس محفوظ رکھیں گے۔


اصطلاحاتِ جفر مع اعمال
ابجد میں کل اٹھائیس حروف ہیں اوران حروف میں بائیس نقطے ہیں، ابجد کے تمام حروف کے اعداد 5995 ہیں،اگر نقطوں کا اضافہ کردیا جائے تو یہ تعداد 6017 ہوجائے گی،بعض عملیات میں اس کی ضرورت بھی ہوتی ہے، یہ حروف مکتوبی کہلاتے ہیں اور جہاں عملیات میں لکھا ہوا ہو کہ اس حرف کو مکتوبی لکھو، وہاں اس حرف کو اس طرح لکھ دیا جائے، مثلاً اگر کہا جائے کہ جیم مکتوبی لکھو تو ہم اس طرح لکھیں گے ”ج“
دوسری قسم ملفوظی ہے یعنی جو حرف جس طرح بولا یا پڑھا جاتا ہے اور جس طرح زبان سے ادا ہوتا ہے، اسی طرح لکھیں مثلاً حرف ج بولنے میں اس طرح ادا ہوتا ہے، جیم، اب ایک حرف سے تین حرف پیدا ہوگئے (ج، ی، م) اس طرح ک، ق کا ملفوظی کاف، قاف ہے، اگر ابجد کے حروف کو ملفوظی طریق پر لکھیں تو بجائے 28 مکتوبی کے 72 حرف ملفوظی بن جاتے ہیں اور نقطے 42 ہوتے ہیں جس کی تفصیل یہ ہے۔
الف، با، جیم، دال، ہا، واو ¿، زا، حا، طا، یا، کاف، لام، میم، نون، سین، عین، فا، صاد، قاف، را، شین، تا، ثا، خا، ذال، ضاد، ظا، غین، امید ہے قارئین مکتوبی اور ملفوظی کا فرق سمجھ گئے ہوں گے۔
مکتوبی حرف 28 ، نقطے 22 ، ملفوظی حرف 72 ، نقطے 42 ، 28 عدد اسم وحید کے ہیں، 22 عدد حبیب کے ہیں، جب 28 اور 22 کو جمع کریں تو 50 ہوتے ہیں اور 50 عدد محب کے ہیں، یہ قاعدہ وہ ہے ، جب آپ کو کہیں لکھا ہوا ملے، حروف مکتوبی سے اسم خدا نکالو تو آپ اس قاعدہ سے نام حاصل کرسکتے ہیں، اسی طرح جب کہاجائے کہ تمام حرف مکتوبی سے اسم خدا حاصل کرو تو تمام حروف مکتوبی کے اعداد 5995 کے مطابق ہم خدا کے ایک یا زیادہ ایسے نام نکالیں گے جن کے کل اعداد 5995 ہوں مثلاً
غیاث المستغیثین 3612، کاشف الضر 1432، رفیع الدرجات909، طالب42 =تمام اسمائے الٰہی کا کل مجموعہ 5995 ہوگا۔
اسی طرح ملفوظی حروف سے اسمائے الٰہی استخراج کرسکتے ہیں۔
استنطاق 
یہ لفظ بھی علم جفر میں بار بار آتا ہے اور اس طرح آتا ہے کہ ان عددوں سے حروف استنطاق بناو ¿، اس لیے اس کی ماہیت بھی سمجھ لیں، اکائی پر جو ہندسہ ہو تو اس کی جگہ وہ حرف رکھ دیں جس کے اسی قدر عدد ہوں، مثلاً تین کے عدد کا استنطاق ”ج“ ہوا، اسی طرح دھائی اور سینکڑہ اور ہزار کی جگہ وہی حرف رکھتے جائیں گے چوں کہ ابجد کی تعداد ہزار پر ختم ہے اور ممکن ہے کسی اسم میں دو ہزار یا تین ہزار عدد ہوں تو اس کے لیے ہم ہر ہزار کے واسطے حرف غ لکھتے جائیں گے، مثلاً 6720 کا استنطاق یوں کیا جائے گا۔
ک 20 ، ذ 700 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 ، غ 1000 
ایک دوسرا طریقہ بھی ہے یعنی جتنے ہزار ہوں، ان کے مطابق کوئی ایک حرف لے کر اس کے ساتھ ایک غین لگادیا جائے مثلاً مندرجہ بالا مثال میں 6000 کے لیے 6 مرتبہ غین لےنے کے بجائے ایک واو ¿ اور ایک غین لے لیا جائے، واو ¿ کا عدد 6 ہے، ایک غین کی شرکت سے یہ 6000 شمار ہوگا۔
اعداد بلحاظ مراتب
یہ بھی جفر کی ایک اصطلاح ہے ، جب کسی جگہ آپ کو لکھا ہوا ملے کہ ان اعداد کو بلحاظ مراتب جمع کرو، اس کے یہ معنی ہیں کہ داہنی طرف سے عددوں کو جوڑتے چلے جائیں اور جو حاصل جمع ہو اس سے کام لیں، مثلاً جب ہم سے کہا جائے کہ 6720 کو بلحاظ مراتب جمع کرو تو اس کی میزان یہ ہوگی۔
15=6+7+2+0حروف ہ ی۔
یعنی 15 کا عدد بلحاظ مراتب حاصل جمع ہے، اب یہاں پر علمائے جفر کا ایک اصولی اختلاف بیان کردیا جائے تاکہ آپ کو سہولت ہو، بعض اصحاب کا قول ہے کہ ہر نام کے مکتوبی اعداد ہر کام میں زیادہ سریع الاثر ہوتے ہیں مثلاً ہمیں زید نام شخص کو مسخر کرنا یا تکلیف پہنچانا مقصود ہے تو اس کے مکتوبی اعداد یعنی ز، ی، د 21 =عدد ہر حالت میں مو ¿ثر ہوں گے، دوسرے گروہ کا قول ہے کہ بجائے مکتوبی کے ملفوظی اعداد زیادہ مو ¿ثر ہوں گے، زید کے ملفوظی اعداد 54 ہوتے ہیں یعنی ز ا، ی ا، د ا ل
نوٹ: محبت یا جدائی کا عمل ہو تو اس کے لیے ضرورت ہے کہ مطلوب کے نام کے ساتھ اس کی ماں کا نام بھی شامل ہو، طالب کا نام مع والدہ ہو، اب یہ تمام حروف ایک جگہ لکھ کر خواہ مکتوبی اعداد حاصل کریں یا ملفوظی، ایک اختلاف تو یہ ہوا، اب دوسرے اختلاف کو سنیے، بعض علمائے جفر فرماتے ہیں کہ نام مطلوب مع والدہ اور نام طالب مع والدہ کے جو اعداد حاصل ہون، ان سے عدد استنطاق حاصل کیا جائے (چاروں ناموں کے عدد سے عدد استنطاق حاصل کیا جائے) اور اصلی عدد میں عدد استنطاق خارج کرکے بقیہ اعداد سے عمل تیار کیا جائے یا نقش بھرا جائے تو زیادہ مو ¿ثر ہوتا ہے، بعض محققین جفر کا مذہب ہے کہ بغیر استنطاق کے زیادہ اثر ہوتا ہے، اس بحث سے معلوم ہوا کہ اس اختلاف کی چار قسمیں ہیں جس کو ایک مثال سے زیادہ واضح کیا جارہا ہے، مثلاً زید چاہتا ہے کہ بکر کو مسخر کرے، زید طالب ہے اور بکر مطلوب، زید کی ماں کا نام ہندہ اور بکر کی ماں کا نام رابعہ ہے، اب چاروں نام یہ ہوئے، زید ہندہ بکر رابعہ، اس کے مکتوبی حروف مع اعداد یہ ہوئے۔
ز ی د ہ ن د ہ ب ک ر  ر ا ب ع ہ
7 10 4 5 50 4 5 2 20 200 200 1 2 70 5
تمام حروف کے اعداد کی میزان 585 ہوئی، اس کے استنطاقی عدد ہوئے، 5+8+5=18 ، اب ایک صاحب فرماتے ہیں، 585 کا عدد زیادہ مو ¿ثر ہے، دوسرے صاحب کا قول ہے کہ 18 عدد استنطاق کے تفریق کرو تو باقی رہے 567 ، یہ 567 کا عدد زیادہ مو ¿ثر ہے چوں کہ اس مثال اور اوپر والی عبارت سے آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے ، اس لیے زید وغیرہ کی ملفوظی طریق پر تشریح ضروری نہیں کیوں کہ خواہ مخواہ عبارت طویل ہوجائے گی لیکن یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان چاروں قولوں میں سے مجرب قول کون سا ہے؟ اس کے لیے حضرت کاش البرنی کا یہ بیان خوب غور سے پڑھیں۔
”عملیات کا کام بہت نازک ہے جس کی تشریح آئندہ جاکر کروں گا، میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ کسی وقت کوئی عمل تیر کی طرح کام کرتا ہے جس سے میں خود حیران ہوجاتا ہوں لیکن کسی وقت وہی عمل ایسا بے کار ہوجاتا ہے کہ مطلق اثر نہیں کرتا، میرے پاس دن رات اس قسم کے کام ہوتے ہیں، دس جگہ کامیاب ہوتا ہوں، ایک جگہ ناکام،اس کی وجہ کیا ہے، باوجود اس کے کہ میں علوم کی باریکیوں سے واقف ہوں، میرا عاجز رہ جانا کیا معنی رکھتا ہے، جب ایک چیز میں اثر ہے تو کیوں کسی جگہ بے اثری پائی جاتی ہے؟ اس کی حقیقی وجہ تو یہ ہے کہ واللہ غالب امرہ، یعنی اللہ کا حکم غالب ہے اس کا کلام ہے اور وہی مو ¿ثر حقیقی ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے حکم کا پابند ہے، کسی کے لیے کوئی عمل کیا جائے یا کوئی دوا مریض کو کھلائے تو عمل یا دوا حکم خدا کی منتظر ہوتی ہے، اس کو جیسا حکم ملتا ہے، وہی بن جاتی ہے، زہر تریاق، تریاق زہر ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ کسی کو معلوم نہیں، وہی عالم الغیب جانتا ہے لیکن عملی طور پر جو طریقہ بزرگوں سے مجھے ملا ہے اور جس پر میں عمل کرتا ہوں، وہ یہ ہے، ابجد کے 28 حروف ہیں جس میں سے 7 حرف آبی، 7 خاکی، 7 بادی، 7 آتشی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔
 عنصری تقسیم
حروف آتشی: ا ہ ط م ف ش ذ
حروف بادی: ب و ی ن ص ت ض
حروف آبی: ج ز ک س ق ث ظ
حروف خاکی: د ح ل ع ر خ غ
اب میرا مذہب اس میں یہ ہے کہ اگر طالب اور مطلوب کے نام کا پہلا حرف ایک ہی طبع کا ہے یعنی دونوں ایک ہی عنصر کے ماتحت ہیں مثلاً طالب کا نام جلیل ہے اور مطلوب کا نام قمر ہے تو یہ دونوں حرف آبی ہیں، اندریں صورت میں استنطاق کی صورت جائز نہیں سمجھتا، اگر برخلاف اس کے طالب یا مطلوب کا نام محمود ہے تو دونوں میں سے ایک آبی ہے، ایک آتشی ہے، اس صورت میں استنطاق کے اعداد خارج کردینے کے بعد اثر ہوگا کیوں کہ آتش و آب آپس میں دشمن ہیں، یہی میرا تجربہ ہے اور یہی میرا عمل ہے، میں نے سب صورتیں بیان کردی ہیں، ارباب ذوق جس طرح چاہیں عمل کریں، یہ قاعدہ تمام اعمال حب و تسخیر میں استعمال کیا جائے گا“
عزیزان من! علم جفر کے حوالے سے جو ابتدائی معلومات اس کالم میں بیان کی گئی ہیں، ان کا اختتام حضرت کاش البرنیؒ کی وضاحت پر ہوا ہے،یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا کیوں کہ ظاہر ہے یہ موضوع ایک کالم میں سمٹنے والا نہیں،طویل عرصے سے ہمارے قارئین کی فرمائش تھی کہ آپ علم نجوم پر تو بہت زیادہ لکھتے ہیں لیکن علم جفر پر بہت کم،چناں چہ قارئین کی فرمائش پر یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔

ہفتہ، 28 مئی، 2016

آج پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق دوپہر 2:18 پر سورج خانہ کعبہ کے عین اوپر ہوگا عین اس وقت کسی سیدھی لکڑی کے سائے سے قبلے کے رخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔


27 مئی کو اپنے گھر اور مساجد کے لئے سمت قبلہ کا تعین کریں.
چونکہ 27 مئی اور 15 جولائی کو سورج کامیل تقریبا 21.4 درجہ شمالی ہوتا ہے آسمان پر اس کا راستہ بالکل وہی ہوتا ہے جو مکہ مکرمہ کا دائرۃ الارض ہے (دائرۃ الارض کی تعریف آخر میں دیکھیں) چناچہ سورج مکہ مکرمہ کے دائرۃ الارض پر سفر کرتا ہے اس لئے جب مکہ مکرمہ کے نصف النہار کے وقت عین اس کے اوپر سمت الراس (عین سر کے اوپر) پر پہچ جاتا ہے تو سورج اور اورمکہ مکرمہ کے درمیان وہی نسبت قائم ہوجاتی ہے جو چھت پر لٹکے ہوئے بلب اور زمین پر اس کے بالمقابل نقطے پر ہوتی ہے اس وقت سورج کو دیکھ کر یقینی طور پر قبلہ کی سمت معلوم کی جاسکتی ہے ۔
اب یہ سمجھئے کہ سعودی عرب کے معیاری وقت کے مطابق 27 مئی کو 12 بج کر 18 منٹ پر مکہ مکرمہ میں عین نصف النہار کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت سورج مکہ مکرمہ کے سمت الراس پر ہوتا ہے ۔اس وقت جن مقامات میں دن ہو اور سورج انہیں نظر آرہا ہو ایسے مقامات والے سورج کو دیکھ کر سمت قبلہ درست کر سکتے ہیں ، چونکہ پاکستان اور سعودیہ عرب کے معیاری وقت میں 2 گھنٹے کا فرق ہے اس لئے پورے پاکستان میں 27 مئی کو 2 بج کر 18 منٹ اور 15 جولائی کو 2 بج کر 27 منٹ پر سمت قبلہ درست کی جاسکتی ہے ۔ ان تاریخوں سے ایک دن آگے پیچھے بھی تقریبا وقت یہی ہوتا ہے ۔
زمین پر قبلے کا خط کھینچنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ کوئی عمودی چیز لکڑی وغیرہ زمین پر گاڑ دیں وقت مذکورہ پر عمودی چیز کا جو سایہ زمین پر پڑے اس پر Scale رکھ کر لکیر کھینچ لیں یہی اس جگہ کا خط قبلہ ہوگا سایہ کا رخ قبلے کی مخالف جانب ہوگا مثلا پاکستان بھر میں عمود کے سائے کا رخ مشرق کی طرف ہوگا اس سائے پر مغرب کی جانب رخ کرلیں تو ٹھیک قبلہ رخ ہوجائیں گے۔ پھر اس سائے کے 90 کے زاوئیے پر ایک اور لکیر لگائیں جو کہ صٖف کی لکیر ہوگی۔
نوٹ : 27 مئی سے ایک دن آگے پیچھے یعنی 26 اور 28 مئی کوبھی تقریبا وقت یہی ہوتا ہے۔ ان تینوں دنوں میں قبلے کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
اب تصویر کو دوبارہ دیکھیں انشا اللہ سمجھ آجائے گا۔
دائرۃ الارض : زمین پر بننے والا بڑا دائرہ ۔
میل شمس (Declination of Sun) : سورج کا آسمانی خط استوا سے شمالا جنوبا چلنا ’’ میل شمس ‘‘ کہلاتا ہے ۔ اس کو آسانی کے لئے ’’سورج کا عرض‘‘ بھی کہتے ہیں ۔
سمت الراس (Zenith) : کسی مقام کے عین سر کے اوپر آسمان میں موجود فرضی نقطہ ’’سمت الراس ‘‘ کہلاتا ہے ۔
رؤیت ہلال، فلکیات، جغرافیہ اور خلائی سائنس کی اپ ڈیٹس اور مفید معلومات کےلئے ہمارا پیج لائک کرنا نہ بھولیں :
https://www.facebook.com/royatehilalupdates
اور واٹس اپ پر اپ ڈیٹس حاصل کرنے کے لئے اس نمبر (923343695380+) پر Add me اور اپنا نام اور ملک و شہر کا نام لکھ کر واٹس اپ پر میسیج کریں ۔

جمعرات، 26 مئی، 2016

سیارہ عطارد کے سورج سے قرآن کا منظر...


اصطلاحاتِ جفر کی تشریح اور دیگر اہم جفری رموز و نکات

ایک ایسے علم کے بنیادی اصول و قواعد جس میں طویل چلّہ کشی کی ضرورت نہیں 



گیارہ مئی 2013 ءکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد جب وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف نے حلف اٹھانے کے لیے 5 جون 2013 ءکا انتخاب کیا تھا تو ہم نے لکھا تھا کہ بہتر ہوتا ، حلف کے لیے تاریخ 3 یا 4 جون رکھی جاتی، اگر 5 جون رکھی گئی ہے تو بہتر ہوگا کہ حلف اسلام آباد کے وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے بارہ بجے کے درمیان لیا جائے مگر ظاہر ہے کہ ہمارا مشورہ تو اخباری کالم تک ہی محدود رہتا ہے،اس پر کون عمل کرتا ہے؟ چناں چہ حلف شام 5:37:34 pm پر مکمل ہوا اور ہم نے اس وقت کے مطابق زائچہ ءحلف پر جو تجزیاتی رپورٹ پیش کی تھی، اس میں سے ایک مختصر اقتباس پیش خدمت ہے۔
”عزیزان من ! حلف کے زائچے کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ نئے وزیر اعظم اپنی تمام تر خوبیوں اور نیک نیتی کے
 باوجود مشکل ترین حالات کا مقابلہ کریں گے اور محاورتاً نہیں حقیقتاً وزارت عظمیٰ انہیں کانٹوں کی سیج محسوس ہوگی ، کرپشن پر قابو پانا ان کے لیے آسان نہ ہوگا ، اقربا پروری سے نجات مشکل ہوگی ، پارٹی میں انتشار و افتراق کا سامنا رہے گا ، اپنے فطری زائچے کے مطابق اور زائچہ ءحلف کے مطابق جس نوعیت کے اختیارات وہ چاہتے ہیں ، شاید وہ نہ مل سکیں اور نتیجے کے طور پر وہ کسی ایسی محاذ آرائی میں الجھ جائیں جو کوئی خطرناک صورت اختیار کرجائے ، سندھ خصوصاً کراچی اور بلوچستان کے معاملات اور دہشت گردی کے مسائل مزید پیچیدہ ہوجائیں ”معاشی دھماکہ“ محض ایک خواب ثابت ہوسکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ سابقہ حکومت کی طرح مفاہمتی پالیسیوں پر مجبور ہوکر خدانخواستہ سابقہ حکومت جیسے انجام تک پہنچ جائیں ۔ “
اسی زائچے کے تجزیے میں ہم نے عرض کیا تھا کہ 14 ستمبر 2014 ءتک وہ قمر کے دور اصغر سے گزر رہے ہیں اور اُس وقت تک ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ یہ ان کا ”ہنی مون پیریڈ “ ہے، چناں چہ ایسا ہی ہوا، اگست 2014 ءمیں عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار اور ایک طویل دھرنا بھی ان کی حکومت گرانے میں ناکام رہا، حالاں کہ اگست کے آخر اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں صورت حال نہایت سنگین ہوگئی تھی، اسی تجزیے میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا۔
” زائچے کا واحد سعد اور مضبوط سیارہ شمس ہے جو دسویں گھر کا مالک ہوکر ساتویں گھر کیندر میں ہے یہ وزیرا عظم کے لیے ایک سپورٹنگ پوزیشن ہے لہٰذا جب تک کوئی نہایت منحوس دور زائچے میں شروع نہیں ہوتا وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے لیکن وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کرنا ان کے لیے مشکل ثابت ہوسکتا ہے ، سابق وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی کی طرح انہیں بھی وقت سے پہلے فارغ کیا جاسکتا ہے ، راہو کا منحوس دور 14 ستمبر 2015 ءسے شروع ہوگا ۔“
زائچہ ءحلف کے مطابق 15 ستمبر 2015 ءسے راہو کا منحوس دور اصغر شروع ہوچکا ہے،جب کہ دور اکبر دوسرے منحوس زہرہ کا ابتدا ہی سے جاری ہے جو زائچے کے بارھویں گھر کا حاکم ہوکر آٹھویں گھر میں قابض ہے، راہو اگر زائچے سے منحوس گھروں میں ہو تو اور بھی خطرناک ہوجاتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ راہو کا دور شروع ہوتے ہی وزیراعظم کے لیے نت نئے پیچیدہ مسائل شروع ہوچکے ہیں، خصوصاً تازہ مسئلہ پانامالیکس تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے قدرتی آفات اچانک نازل ہوگئی ہوں، مزید یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید الجھتا ہی جارہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسے معقول طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جارہا یا شاید ایسا ممکن ہی نہ ہو، خراب وقت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انسان مسئلے کے حل کے لیے نامناسب اور غلط طریقے اختیار کرتا ہے، غلط راستہ دکھانے والوں کی باتوں میں آجاتا ہے۔
جیسا کہ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مئی کا مہینہ ایک سخت مہینہ ہے اور حکومت کے لیے بھی اس مہینے میں مزید پریشانیاں موجود ہیں، خصوصاً مئی کے آخری ہفتے سے تقریباً 15 جون تک وزیراعظم کے لیے ایک نہایت سخت وقت کی نشان دہی ہورہی ہے،جون میں رمضان شریف ہےں اور نواز شریف صاحب یہ عرصہ عام طور پر سعودی عرب میں گزارنا پسند کرتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کی بھرپور سعادتوں کا حصول ممکن ہوسکے، امکان ہے کہ اس بار بھی وہ اس کام میں سستی نہیں کریں گے۔
اصطلاحاتِ جفر
گزشتہ ہفتوں میں علم جفر کے شائقین کی فرمائش پر اس علم سے متعلق بنیادی ابتدائی معلومات فراہم کی گئیں، زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں علم جفر میں استعمال ہونے والی مختلف اصطلاحات کی تشریح مثالوں کے ساتھ کی گئی ہے، امید ہے کہ علم جفر سیکھنے کے شوقین اسے پسند کریں گے۔
تخلیص
اکثر جفری اعمال میں ”تخلیص“ کا لفظ سامنے آتا ہے کہ حروف کی تخلیص کرو، اس کا مطلب حروف کو خالص کرنا ہے یعنی ایسے حروف جن کی تکرار ہورہی ہو، انہیں خارج کرکے اصل حروف برقرار رکھے جائیں، مثال کے طور پر کسی عمل میں نام مع والدہ اور کوئی اسم الٰہی یا آیت لی گئی ہے تو تمام حروف کو جب علیحدہ علیحدہ کرکے لکھا جائے گا تو بعض حروف ایک سے زیادہ مرتبہ آئیں گے، انہیں خارج کرکے اصل حروف کو برقرار رکھنا ”تخلیص“ کہلاتا ہے،مثال اس کی یہ ہے کہ محمد احسن بن زبیدہ کے نام میں مندرجہ ذیل حروف ہیں۔
م ح م د ا ح س ن ز ب ی د ہ 
اب اس سطر میں بعض حرف ایک سے زیادہ مرتبہ موجود ہیں،مثلاً م ح د وغیرہ تخلیص کے نتیجے میں خالص حروف یہ ہوں گے۔
م ح د ا س ن ز ب ی ہ
اس مثال سے تخلیص کا مطلب آپ سمجھ ہوگئے ہوں گے۔
بسط حرفی
یہ بھی ایک جفری اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی بھی نام ، آیت وغیرہ کے حروف کو علیحدہ علیحدہ کرکے لکھنا ہے، جیسا کہ اوپر کی مثال میں محمد احسن بن زبیدہ کے نام کو علیحدہ علیحدہ حروف میں لکھا گیا ہے،بسط حرفی کی دیگر اقسام بھی ہیں مثلاً ”بسط تمازج، بسط تضعیف“ وغیرہ۔
بسط تمازج
بسط تمازج کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے جب کسی عمل میں طالب و مطلوب کے نام کے حروف میں کمی بیشی کا مسئلہ درپیش ہو ، مثلاً مطلوب کے نام مع والدہ میں حروف کم ہوں یا طالب کے نام مع والدہ میں حروف زیادہ ہوں، قصہ مختصر یہ کہ دونوں فریقین کے ناموں میں حروف کی کمی و بیشی کا مسئلہ درپیش ہو تو بسط تمازج کا قانون کام کرتا ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب ایسی صورت درپیش ہو یعنی ایک کے نام میں حروف کم ہوں اور دوسرے کے نام میں حروف زیادہ ہوں تو دونوں کے ناموں کے حروف علیحدہ علیحدہ الگ لکھ لیے جائیں اور زیادہ حرف کم کرکے دونوں کو برابر کرلیا جائے،اس کے بعد دونوں ناموں کو باہم امتزاج دیا جائے، اس طرح کہ پہلے طالب کے نام کا حرف لیا جائے اور پھر مطلوب کے نام کا، اس طرح ایک نئی سطر دونوں ناموں کے حروف کی تیار ہوگی، اس میں ان حروف کا اضافہ کردیا جائے جو زیادہ تھے لیکن اگر وہ طالب کے نام سے نکالے گئے تھے تو سطر کے شروع میں اضافہ کیا جائے گا، اگر مطلوب کے نام سے نکالے گئے تھے تو سطر کے آخرمیں اضافہ ہوگا، اس حوالے سے حضرت کاش البرنیؒ نے محبت کا ایک سریع التاثیر جفری عمل دیا ہے جو ہمارے بھی تجربے میں آچکا ہے اور اس کے اثر سے انکار ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم یہ عمل یہاں لکھ رہے ہیں۔
جفری عمل محبت
دو افراد کے درمیان محبت اور دوستی کے لیے مندرجہ بالا طریقے کے مطابق دونوں کے نام مع والدہ لے کر دیکھیں کہ ان میں کتنے حروف ہیں، اگر دونوں کے نام مع والدہ کے حروف برابر ہوں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں، بسط تمازج کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، اگر کمی بیشی ہے تو مندرجہ بالا بسط تمازج کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے دونوں ناموں کے حروف کی ایک نئی سطر تیار کریں اور پھر اس کی تکسیر جفری کریں اور زمام نکالیں، اس کے بعد تین فتیلہ تیار کریں، پہلا فتیلہ پہلی لائن سے بنایا جائے اور پہلے روز جلایا جائے، دوسرا فتیلہ درمیانی لائنوں سے بنایا جائے اور دوسرے دن جلایا جائے جب کہ تیسرا فتیلہ آخری لائن یعنی زمام سے تیار کیا جائے اور تیسرے روز جلایا جائے، تین روز ہی کے عمل سے مقصد حاصل ہوجائے گا۔
یہی عمل دو افراد کے درمیان مخالفت پیدا کرنے یا جدائی کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے مگر طریقِ عمل میں فرق ہوگا جس کا اظہار ضروری نہیں ہے،ایسے اعمال کے لیے بہتر وقت کا انتخاب بھی ضروری ہوتا ہے۔
بسط تضعیف
بسط تضعیف عام طور پر بلندی ¿ مرتبہ اور ترقیاتی امور کے لیے مستعمل ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نام کے حروف علیحدہ علیحدہ لکھیں اور پھر ہر حرف کی قوت میں اضافہ کریں یعنی اُسے دوگنا کرلیں،مثلاً کسی کا نام احمد ہے، ا ۔ح۔ م۔ د ، اب اس کو بسط تضعیف کے ذریعے دوگنا کیا، الف کا دوگنا ب ہوگا کیوں کہ الف کا عدد 1 ہے اور ب کے عدد 2 ہیں،اسی طرح ح کا عدد 8 ہے اس کا دوگنا 16 ہوگا لہٰذا ی۔و لیں گے ، م کے اعداد 40 ہیں، دوگنا 80 ہوا لہٰذا حرف ف لیا جائے گا، د کا عدد 4 ہے، دوگنا 8 ہوا لہٰذا حرف ح لیا جائے گا،اب بسط تضعیف کے ذریعے احمد کے حروف کی نئی سطر یہ حاصل ہوئی۔
ب۔ ی۔ و۔ف۔ ح،گویا اس طرح نام کے حروف کو ترقی دے کر ان کی قوت میں اضافہ کردیا گیا۔
جفری عملِ ترقی
 اس طریقِ کار کے مطابق بھی ایک جفری عمل نہایت پرتاثیر تجربے میں آیا ہے جو یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
یہ عمل چاند کی ابتدائی تاریخوں میں شروع کیا جاتا ہے اور 14 دن کا عمل ہے، چاند کی پہلی تاریخ سے مغرب کے فوراً بعد شروع کیا جائے،نام مع والدہ کے حروف کو بسط تضعیف کے ذریعے دوگنا کرکے جو حروف حاصل ہوں، ان کی تکسیر جفری کرکے ایک فتیلہ تیار کریں اور جس وقت مغرب کے بعد چاند طلوع ہو تو چنبیلی کا تیل کورے چراغ میں ڈال کر اس فتیلے کو جلائیں، کاغذ کی بتی پر صاف روئی لپیٹ کر چراغ میں رکھیں، اس کے بعد بسط تضعیف کے بعد جو حروف حاصل ہوئے ہیں، ان کے اعداد نکالیں اور اسی تعداد کے مطابق اسم الٰہی ”یا متعالی“ کا ورد کریں، اگر پڑھائی کے دوران تعداد جلد پوری ہوجائے اور فتیلہ پورا نہ جل سکے تو کوئی حرج نہیں،اس کو بچا کر احتیاط سے رکھ لیں اور دوسرے دن کی پڑھائی میں شامل کرلیں، اگر پورا جل جائے تو دوسرے دن نیا فتیلہ تیار کریں،اسی طرح 14 روز مکمل کریں، انشاءاللہ ترقی ہوگی اور زندگی میں نمایاں کامیابی حاصل ہوں گی،حضرت کاش البرنیؒ نے اس عمل کو دست غیب کا عمل کہا ہے۔
تکسیرِ جفری
مندرجہ بالا عمل میں علم جفر کی مزید اصطلاحات کا ذکر ہوا ہے،اس کی وضاحت بھی ضروری ہے،مثلاً تکسیر جفری کا ذکر ہوا ہے، اگرچہ اس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن تمام اقسام کا ذکر ضروری نہیں ہے،جس سطر کی تکسیر کرنا مقصود ہو ، اُسے علیحدہ علیحدہ حروف میں لکھ کر ایک حرف بائیں جانب سے لیں اور ایک دائیں جانب سے، اس طرح ایک نئی سطر وجود میں آئے گی، اسی عمل کو اس دوسری سطر پر بھی دہرائیں تو ایک تیسری سطر وجود میں آئے گی، یہی عمل ہر نئی سطر پر دہراتے رہیں، یہاں تک کہ پہلی سطر دوبارہ وجود میں آجائے، بس اب تکسیر کا عمل مکمل ہوا، اس آخری سطر سے پہلے جو لائن ہوگی، اسے زمام کہا جاتا ہے،ایک مثال کے ذریعے طریق کار کو سمجھ لیں۔
مثلاً زاہد کی والدہ کا نام زبیدہ ہے، نام کے علیحدہ علیحدہ حروف ز، ا،ہ، د، ز، ب، ی، د،ہ ہیں،ان حروف کی تکسیر جفری کی مثال یہ ہوگی لیکن مثال میں صرف زاہد کے نام کی تکسیر دی جارہی ہے۔
سطر اول: ز ا ہ د 
د ز ہ ا
زمام: ا د ہ ز
سطر آخر: ز ا ہ د
تکسیر جفری کے اور بھی بہت سے قاعدے اور قانون ہیں لیکن یہ قاعدہ عام اور سادہ ہے،دیگر قواعد عموماً علم جفر حصہ اخبار میں زیادہ مستعمل ہیں یا پھر کسی مخصوص عمل میں مخصوص تکسیری طریقہ اختیار کیا جاتا ہے،علم جفر کی اکثر کتابوں میں دیگر تکسیری طریقے موجود ہیں۔
اقسام حروف
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے،علمائے جفر نے حروف کے بارے میں جو تحقیقی کام کیا ہے،وہ نہایت قابل قدر ہے،حروف کے ہر ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی اقسام بھی مقرر کی گئی ہےں ، علم جفر کے طالب علم کو حروف کی جملہ اقسام کے بارے میں مکمل معلومات ہونا چاہیے۔
ہم یہاں حروف کی نمایاں اور مشہور اقسام بیان کر رہے ہیں۔
حروف صوامت: یہ کل 13 حروف ہیں جن میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔
ا۔ ح۔د۔ر۔س۔ص۔ط۔ع۔ک۔ل۔م۔و۔ہ۔
حروف صوامت کو گُپ چُپ کے حروف کہا جاتا ہے،عام طور پر استحکام ، روک تھام اور بندش کے کاموں میں استعمال ہوتے ہیں،اساتذہ نے اس کے علاوہ بھی ان سے کام لینے کے طریقے ایجاد کیے ہیں جو دیگر اعمال میں بھی معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں، زندگی کی تقریباً تین چوتھائی ضروریات میں ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔
حروف ناطق: یہ ایسے حروف ہیں جن میں نقطہ ضروری ہے، ان کی کل تعداد 15 ہے۔
 ب۔ ت۔ ث۔ ج۔ خ۔ذ۔ز۔ش۔ض۔ ظ۔ غ۔ ف۔ق۔ن اور ی۔
 عام طور پر ”ی، ے“ مفرد انداز میں لکھا جائے تو اس پر نقطے نہیں ہوتے لیکن درحقیقت ی کے نیچے دو نقطے ہوتے ہیں جو اس وقت ظاہر ہوتے ہیں، جب اسے دوسرے حرفوں کے ساتھ ملاکر لکھا جاتا ہے۔
حروف ناطق ، حروف صوامت کی ضد ہےں، اگر صوامت سے بندش کے کام لیے جاتے ہیں تو حروف ناطق سے کشادگی اور بندشوں کو کھولنے میں مدد لی جاتی ہے۔
حروف نورانی: یہ تعداد میں 14 ہیں۔
ح۔ ر۔س۔ص۔ط۔ع۔ ک۔ق۔ل۔م۔ن۔و۔ہ۔ی۔ا
قرآن کریم میں جو حروف مقطعات مختلف سورتوں میں استعمال ہوئے ہیں،وہ انہی حروف نورانی پر مشتمل ہےں،اس اعتبار سے انہیں نہایت مقدس اور متبرک حروف قرار دیا گیا ہے، تحفظ ، قوت و غلبہ، کشادگی ¿ رزق اور دیگر بہت سے امور میں ان سے کام لیا جاتا ہے۔
حروف ظلمانی: یہ حروف نورانی کی ضد ہیں۔
 ب۔ت۔ ث۔ ج۔ خ۔ د۔ ذ۔ ز۔ ش۔ ض۔ ظ۔غ اورف
یہ حروف اعمال شر میں مستعمل ہیں جن کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا ہوسکتا ہے لیکن اساتذہ نے ان کے ذریعے اعمال خیر میں بھی مدد لی ہے اور ایسے طریقے تعلیم کیے ہیں جو مثبت ہیں۔
حروف تواخیہ: علم جفر کی اصطلاح میں حروف تواخیہ ایسے حروف کو کہا جاتا ہے جو ایک ہی شکل و صورت کے ہوں اور دو یا دو سے زیادہ یا تین ہوں۔
 جیسا کہ ب ، ت، ث۔
ج، ح،خ۔
د،ذ۔
ر،ز۔
س،ش۔ 
ص،ض۔
 ط، ظ۔
ع،غ۔
حروف مکتوبی: ایسے حروف کو کہا جاتا ہے جنہیں الفاظ میں بیان کیا جائے یا لکھا جائے تو ان کا پہلا اور آخری حرف ایک ہی ہو اور وہ حروف تعداد میں صرف 3 ہیں، میم، نون، واو ¿۔ان تینوں حروف میں پہلا اور آخری حرف ایک ہی ہے۔
حروف مسروری: یہ ایسے حروف ہیں جنہیں اگر لکھا جائے تو دو ہی حروف پر مشتمل ہوں، جیسا کہ با۔ تا۔ ثا۔ حا۔ را۔زا۔طا۔ظا۔ہا۔یا وغیرہ۔
اساس و نظیرہ
یہ بھی علم جفر کا ایک قاعدہ ہے جسے نہایت کارآمد سمجھا جاتا ہے،بعض اعمال میں اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے،چناں چہ اسے یاد رکھنا چاہیے۔
تمام حروف 28ہیں جنہیں دو حصوں میں تقسیم کردیا گیاہے، الف سے نون تک 14 حروف کو اساس قرار دیا گیا ہے اور سین سے غین تک 14 حروف کو نظیرہ کہا گیا ہے لہٰذا جب کسی عمل میں کہا جائے کہ اصل حروف کے نظیرہ حروف سے کام لیا جائے تو یہ طریقہ کام آتا ہے،اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر حرف کا 15 واں حرف اس کا نظیرہ ہے مثلاً الف کا نظیرہ حرف سین ہوگا، اسی طرح بے کا نظیرہ عین ہوگا، اس کا تفصیلی چارٹ بھی دیا جارہا ہے۔
اساس: ا ب ج د ہ و ز ح ط ی ک ل م ن 
نظیرہ:س ع ف ص ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ غ
مزید اصطلاحاتِ جفر
علم جفر میں اصطلاحات کی بھرمار ہے،چیدہ چیدہ اصطلاحات اور ان کے معنی و مفہوم بیان کردیے گئے ہیں، مزید بھی کچھ اصطلاحات کے بارے میں وضاحت کی جارہی ہے۔
جمل یا جمل کبیر: اس سے مراد یہ ہے کہ عبارتی حروف کو ابجد قمری کے ذریعے سے بسط حرفی کرکے اس کے اعداد لیے جائیں۔
مفصل اعداد: اس کی تعریف یہ ہے کہ بسط ملفوظی کیا جائے اور اس کے اعداد لیے جائیں،مثلاً اگر نام فہد ہے تو اسے ملفوظی طریقے پر لکھا جائے جیسے کہ فا، حا، دال اور پھر تمام حروف کے اعداد لیے جائیں، اس طرح فہد کے اعداد 125 ہوں گے۔
مسبوط اعداد: اس کا مطلب یہ ہے کہ حروف جس قدر بھی ہوں، اُن کے اعداد بسط عددی کے ذریعے حاصل کیے جائیں۔
ترفع عددی: ترفع سے مراد ترقی دینا یا آگے بڑھانا ہے لہٰذا حروف کے اعداد کو ترقی دی جائے یعنی اکائی کے اعداد کو دہائی میں اور دہائی کے اعداد کو سیکڑے میں تبدیل کردیا جائے تو یہ ترفع عددی کہلائے گا۔
ترفع حرفی: اس طریق کار میں حروف کو ترقی دینا مقصود ہے مثلاً الف کی ترقی ب میں اور ب کی ترقی ج میں ہے، اسی طرح ترتیب وار ہر حرف کو ترقی دی جائے گی اور اس حرف کے مراتب بلند ہوتے چلے جائیں گے۔
ترفع طبعی: ضرورت کے تحت حروف کی عنصری حیثیت میں تبدیلی کی جائے ، تمام حروف آتشی، خاکی، آبی اور بادی ہیں، انہیں ضرورت کے مطابق کسی دوسرے عنصری حروف سے تبدیل کردیا جائے، اسی تبدیلی کو ترفع طبعی کہا جاتا ہے۔
ترفع اقراری: حروف کی ترقی کی ایک شکل یہ بھی ہے جسے اقراری کہا جاتا ہے،اس طریقے میں حرف کے بعد آنے والے تیسرے حرف سے ترقی کا عمل مکمل کیا جاتا ہے،مثلاً الف کے بعد اگرچہ ب ہے مگر تیسرا حرف ج لیا جائے تو یہ ترفع اقراری کہلائے گا، اسی طرح بے کا ترفع د میں ہوگا اور دال کا واو ¿ میں ، وغیرہ وغیرہ۔
مراتب عددی: اس طریق کار میں کسی نام یا اسم و آیت وغیرہ کے حروف سے جو اعداد حاصل ہوتے ہیں، انہیں مراتب کے اعتبار سے ترتیب دے کر لکھا جاتا ہے،مثلاً نام رزاق ہے تو اعداد کی تفصیل یہ ہوگی، ۰۰۲، ۷، ۱، ۰۰۱۔
مرتبے کے اعتبار سے ترتیب دیا تو ،ر کے عدد ۰۰۲ ہیں تو وہ افضل ہے لہٰذا مراتب عددی کے مطابق ترتیب یہ ہوگی، ۰۰۲، ۰۰۱، ۷، ۱۔
اسی طرح اگر طالب و مطلوب کا نام لیا جائے گا تو اس میں بھی مراتب عددی کا خیال رکھا جائے گا، یہ قواعد تکسیر کے موقع پر زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس قانون کے تحت مراتب علوی اور مراتب سفلی کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے،ان مراتب کی تفصیل سے گریز کیا جارہا ہے کیوں کہ جفر کی تمام کتابوں میں یہ تفاصیل موجود ہےں ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ اس کے علاوہ بھی مزید اصطلاحاتِ جفر موجود ہے جن کا بیان یہاں غیر ضروری ہے، بہت سی اصطلاحات کا تعلق علم جفر کے حصہ ءاخبار سے ہے جو ہمارا موضوع نہیں ہے۔
علم جفر کے موضوع پر ابتدائی نوعیت کے بنیادی اصول و قواعد کا بیان جاری ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا
آئیے اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی طرف
کوئی پتھر بتائیں
آر، زیڈ، کراچی سے لکھتی ہیں ”میں آپ کا کالم پچھلے 15 سال سے پڑھ رہی ہوں اور اس کی رہنمائی میں بچوں کی تعلیم مکمل کی ہے،اب میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ زائچے کی روشنی میں مجھے اور میرے شوہر کو کوئی پتھر بتائیں،ان کی سیلری کم ہے، اب میں بیمار رہنے لگی ہوں، ٹینشن کی وجہ سے“
جواب: نکاح کی تاریخ اور وقت کے مطابق برج سنبلہ طالع میں طلوع ہے اور اس کا حاکم عطارد زائچے کے چھٹے گھر میں کمزور بھی ہے اور غروب بھی ، بے شک سنبلہ ایک خاکی برج ہے اور انسان کو مسلسل کام اور محنت کی ترغیب دیتا ہے جس کے نتیجے میں اپنے شوہر کے ساتھ آپ نے بھی سخت محنت اور جدوجہد سے کام لیا، عطارد کی کمزوری سے اعصابی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو آپ کے ساتھ موجود ہیں،لہٰذا آپ کو زمرد یا عمدہ قسم کا فیروزہ پہننا چاہیے، شوہر کے لیے بھی یہی پتھر بہتر ہوگا لیکن پہننے کے لیے مناسب وقت ہم سے معلوم کرلیجیے گا، کم از کم مئی کے مہینے میں عطارد کا پتھر پہننے کے لیے کوئی اچھا ٹائم نہیں ہے، آپ کو اپنا اور شوہر کا صدقہ بھی پابندی سے ہفتہ، اتوار اور منگل کو دیتے رہنا چاہیے۔
نکاح کا وقت اور تاریخ
اے، اے میرپور خاص سے لکھتی ہیں ”میری ایک دوست کی پہلی شادی 23 سال کی عمر میں ہوئی اور 10 سال بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر دوسری شادی ہوئی لیکن وہ 6 ماہ بھی نہیں چل سکی اور طلاق ہوگئی، اب اس کی تیسری شادی ہوئی ہے، میں نے اسے شادی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کیوں کہ مجھے خدشات تھے ، میں اُس کی شادی کی کنفرم تاریخ اور ٹائم ارسال کر رہی ہوں، یہ تاریخ اور ٹائم لڑکے نے اپنے پیر صاحب سے نکلوایا ہے،مجھے آپ کے جواب کا بے چینی سے انتظار رہے گا“
جواب: آپ پابندی سے ہمارا کالم پڑھتی ہیں لیکن حیرت ہے کہ آپ نے غور نہیں کیا کہ جس وقت پر نکاح ہوا اور جو تاریخ نکاح کے لیے لڑکے کے پیر صاحب نے تجویز کی، یہ تاریخ اور ٹائم تو ہم نے اپنے کالم میں دیا تھا اور اس وقت پر لوح سعادت الکبریٰ تیار کرنے کی ہدایت بھی دی تھی،شاید مارچ یا اپریل میں کسی نے نکاح کے لیے ٹائم پوچھا تھا تو اس وقت بھی ہم نے یہی ٹائم اور تاریخ بتائی تھی، ممکن ہے لڑکے کے پیر صاحب بھی ہمارا کالم پابندی سے پڑھتے ہوں، بہر حال اگر نکاح میرپورخاص میں ہوا ہے اور شام 05:40 pm کے بعد مغرب تک ہوا ہے تو یہ بہت مبارک اور سعد وقت تھا، آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، انشاءاللہ شادی کامیاب رہے گی، اگر نکاح کا وقت مذکورہ بالا ٹائم سے پہلے ہے تو پھر آپ کے اندیشے درست ثابت ہوں گے، بہتر ہوگا کہ وقت کی درستی کے لیے مزید تحقیق کرلیں۔
پورے پاکستان میں یہ وقت ہمارے علاوہ صرف وہی لوگ تجویز کرسکتے ہیں جو ہمارے طریقہ ءکار کی پیروی کرتے ہوں، ہماری کتاب پیش گوئی کا فن جن کے مطالعے میں ہو، عام نوعیت کے پیر فقیر یا نجومی حضرات تو اس وقت کی درست تشریح بھی نہیں کرسکتے،میرپورخاص میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہمارے طریق کار کی پیروی کرتے ہیں اور ہم سے رابطے میں بھی رہتے ہیں۔