ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

اکتوبر کی فلکیاتی صورت حال کا جائزہ

ایک سخت اور مشکل مہینے کا آغاز، حادثات اور سانحات کا امکان

پاکستان اپنی تاریخ کے ایسے بدترین سیاسی دور سے گزر رہا ہے جس میں تقریباً تمام ہی اہل سیاست اپنی ساکھ اور عزت کھو بیٹھے ہیں، کچھ سیاست داں کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں تو کچھ اپنی غیر دانش مندانہ اقتدار پرستی کی سیاست کے باعث عوام کی نظروں میں بے وقار ہوئے ہیں، ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے حوالے سے یہ تاثر بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ یہ لوگ محض کاروباری مقاصد کے تحت سیاست میں آتے ہیں اور کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں اور پھر اربوں روپے کماتے ہیں، گویا سیاست ان کے لیے کوئی مقدس مشن نہیں رہا ہے، تقریباً یہی صورت حال پاکستانی صحافت کی بھی ہوچکی ہے، ہمارے ملک میں ایک فیشن اہل سیاست نے یہ بھی اختیار کیا ہے کہ فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جائے اور ہر معاملے میں فوجی مداخلت کا رونا رویا جائے لیکن موجودہ دور میں اس حوالے سے بھی سیاست دانوں کے چہروں سے نقاب اترتی جارہی ہے،اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی مسلح افواج ہی درحقیقت ملکی تحفظ کی ضامن ہے اور جو لوگ اپنے مذموم مقاصد کے تحت فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں، وہ یقیناً ملک سے دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

زائچہ پاکستان کے حوالے سے ہم بہت پہلے یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ زائچے کے چھٹے گھر (ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ) کا حاکم سیارہ زہرہ زائچے کے نویں گھر میں نہایت حساس ڈگری پر قائم ہے، گویا اس ملک کی آئینی اور قائدانہ ذمے داریاں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہیں اور رہیں گی لہٰذا یہ رونا فضول ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ذمے داریوں سے فارغ کردیا جائے، ایسا اسی صورت میں ممکن ہوسکے گا جب پاکستان کی سیاست کے افق پر سیاست کو مقدس مشن سمجھنے والا کوئی ایمان دار اور صاحب کردار شخص طلوع ہوگا، اس سے پہلے یہ ممکن نظر نہیں آتا، افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان کے اہل سیاست کی بھیڑ میں کوشش کے باوجود بھی ایسے سیاست داں نظر نہیں آتے بلکہ اس کے برعکس اکثریت کا حال یہی ہے کہ ان کا بس چلے تو ملک و قوم کو ہی فروخت کردیں، اپنے اور اپنی پارٹی کے مفادات کے لیے یہ لوگ کچھ بھی کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ جمہوریت اور جمہوری نظام دنیا کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، چناں چہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام ہونا چاہیے، ہمارے دانش ور، صحافی اور سیاست داں رات دن جمہوریت کا اور جمہوری روایات کا رونا روتے نظر آتے ہیں لیکن کیا درحقیقت یہ لوگ خود بھی جمہوری رویوں اور اخلاقیات کے پابند ہیں؟ پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں وراثتی نظام کون سی جمہوریت کا آئینہ دار ہے، پاکستان میں قائم جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی سسٹم کیا جمہوریت کے لیے مناسب ہے؟یقیناً ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا، صرف اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہہ کر اپنی سیاسی حیثیت و کردار کی نمائش کی جاتی ہے اور جب بھی ملک میں کوئی جمہوری سیٹ اپ آتا ہے تو ہمیں جمہوری ڈکٹیٹر شپ اور انتظامی نا اہلی کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں، ہماری اسمبلیوں میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کوئی قانون سازی ضروری نہیں سمجھی جاتی، اس کے برعکس اگر نام نہاد عوامی نمائندوں کی مراعات سے متعلق معاملات ہوں تو اسمبلی فوراً قانون سازی میں مصروف ہوجاتی ہے، الا ماشاءاللہ۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

عزیزان من! اکتوبر کا آغاز ہورہا ہے اور اس مہینے میں سیارہ شمس، زہرہ اپنے برج ہبوط سے گزریں گے، گویا یہ مہینہ اہل اقتدار کے لیے نئے مسائل اور چیلنج لائے گا، اسی طرح فوجی اور سول سروسز کے لیے بھی ایک مشکل مہینہ ہوگا۔

زائچہ پاکستان کے مطابق ہر سال 15 اکتوبر سے 15نومبر تک کا وقت ہمیشہ اہم ثابت ہوتا ہے، اس عرصے میں منفی سرگرمیاں اور ناپسندیدہ واقعات و حوادث اور خصوصاً شدید نوعیت کے اختلاف رائے اور احتجاج سامنے آتے ہیں، چناں چہ اکتوبر کی 15 تاریخ کے بعد سے ایسی کسی بھی صورت حال کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

سیارہ مریخ 5 اکتوبر تک برج حمل میں بحالت رجعت رہے گا اس کے بعد واپس برج حوت میں آجائے گا اور زائچے کے ساتویں گھر میں موجود کیتو کے ساتھ نظر قائم کرے گا، اس سے پہلے ستمبر میں بھی یہ نظر قائم ہوئی تھی، چناں چہ کئی حادثات اور ناخوش گوار واقعات سامنے آئے تھے، ایسا ہی دوبارہ ہوسکتا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ سیارہ زحل جو زائچے کے نویں گھر میں ہے ، مستقبل کے مثبت رجحانات کی نشان دہی کرتا ہے جن میں سے ایک کا اعلان حال ہی میں کیا گیا ہے یعنی گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا جائے گا اور اس حوالے سے گلگت بلتستان میں عام انتخابات کا پروگرام بھی ہے، اگر ایسا ہوگا اور ان شاءاللہ یقیناً ہوگا تو اس کے مطابق پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوگا، گلگت بلتستان کی پاکستان کے ساتھ نئی آئینی حیثیت پاکستان کے نئے زائچے کی داغ بیل ڈال سکتی ہے، ہمارا درد مندانہ مشورہ یہی ہے کہ ایسی صورت میں اس نئی آئین سازی اور نئے آرڈیننس وغیرہ کا اجرا ایسٹرولوجیکل کسی سعد اور مبارک وقت میں کیا جائے تاکہ پاکستان کے نئے زائچے میں مثبت اور مبارک تبدیلیاں ملک و قوم کے لیے بہتر ثابت ہوں۔

اکتوبر کے مہینے میں راہو کیتو پیدائشی زائچے کے مشتری سے طویل قران کریں گے، یہ قران اکتوبر کے دوسرے ہفتے ہی سے شروع ہوجائے گا اور جنوری 2021 تک جاری رہے گا، ہماری نظر میں یہ بہت منفی اثرات کی حامل نظر ہے جس کی وجہ سے ملک میں نئے حادثات و سانحات جنم لے سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس منحوس وقت میں اپنا رحم و کرم فرمائے، اکتوبر کے آخری دو ہفتے یقیناً تشویش ناک نظر آتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)

 اکتوبر کی سیاروی گردش

سیارہ شمس برج سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے، 18 اکتوبر کو اپنے ہبوط کے برج میزان میں داخل ہوگا،گویا آئندہ ایک ماہ تک اس کی پوزیشن نہایت کمزور رہے گی، سیارہ عطارد برج میزان میں ہے،15 اکتوبر سے اسے رجعت ہوگی اور اس کی رفتار سست ہوجائے گی، 19 اکتوبر سے غروب ہوجائے گا لہٰذا پورا مہینہ غروب حالت میں کمزور پوزیشن میں رہے گا۔

امن و آشتی ، محبت، دوستی کا سیارہ زہرہ برج اسد میں حرکت کررہا ہے، 24 اکتوبر سے اپنے برج ہبوط سنبلہ میں داخل ہوگا، گویا نہایت ناقص اور کمزور حالت میں 18 نومبر تک رہے گا، اس عرصے میں منگنی، شادی جیسے معاملات سے گریز کریں کیوں کہ زہرہ کی خراب پوزیشن آئندہ ازدواجی زندگی میں نت نئے مسائل کا باعث ہوگی، ازدواجی زندگی کی خوشیاں نہ مل سکیں گی۔

سیارہ مریخ اپنے ذاتی برج حمل میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے، 5 اکتوبر کو اس کی واپسی برج حوت میں ہوگی اور فوراً ہی کیتو سے نظر قائم ہوگی، خیال رہے کہ ستمبر میں بھی کیتو اور مریخ کے درمیان انتہائی نحس نظر قائم ہوئی تھی، یہ نظر حادثات اور جرائم میں اضافہ لاتی ہے، اس وقت مریخ برج حمل میں تھا اور کیتو برج قوس میں، دونوں آتشی برج ہیں، اس بار مریخ برج حوت میں اور کیتو برج عقرب میں ہوگا، دونوں آبی برج ہیں، چناں چہ ایسے حادثات اور جرائم میں اضافہ ہوگا جن کا تعلق خفیہ سرگرمیوں سے ہوسکتا ہے، سمندری اور دریائی سفر میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، جنسی جرائم بڑھ سکتے ہیں، سیارہ مریخ اور کیتو کے درمیان موجودہ نظر 25 دسمبر تک قائم رہے گی۔

سیارہ مشتری بدستور 23 درجہ برج قوس پر مستقیم حالت میں ہے،5 اکتوبر سے اپنے نئے سفر کا آغاز کرے گا، سیارہ زحل برج جدی کے 2 درجے پر حرکت کر رہا ہے،پورا مہینہ اس کی یہی پوزیشن رہے گی،راہو کیتو20 ستمبر سے برج تبدیل کرکے اپنے شرف کے بروج ثور اور عقرب میں داخل ہوچکے ہیں،پورا مہینہ اسی برج میں حرکت کریں گے،یہ سیاروی گردش ویدک سسٹم کے مطابق ہے۔

شرف قمر

قمر اپنے شرف کے برج میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 5 اکتوبر بروز پیر رات 09:15 pmپر داخل ہوگا،8 اکتوبر 09:20 am تک برج ثورمیں رہے گا، یہ انتہائی سعادت افروز اور سعدوقت ہوگا، اس وقت میں اپنی جائز مشکلات اور حاجت کے لیے ضروری عمل و وظائف کیے جاسکتے ہیں، ایسے اعمال و وظائف کے لیے بہتر وقت 6 اکتوبر کو شام 04:47 سے 05:45 تک ہوگا۔

اس سعد وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مقررہ وقت پر پاک صاف ہوکر قبلہ رخ بیٹھیں اور 786 بار بسم اللہ الرحمن الرحیم اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر کچھ چینی پر دم کرلیں اور یہ چینی گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں، ان شاءاللہ گھر میں باہمی اختلافات کا خاتمہ ہوگا اور محبت و یگانگت بڑھے گی، رزق میں برکت ہوگی، چینی جب ختم ہونے لگے تو اس میں مزید چینی ملا لیا کریں۔

قمر در عقرب

سیارہ قمر اکتوبر کے مہینے میں 19 تاریخ کو پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق رات 12:20 am پر برج عقرب میں داخل ہوگا اور 21 اکتوبر رات تقریباً دو بجے تک اپنے ہبوط کے برج عقرب میں رہے گا، اس دوران میں کوئی نیا کام شروع نہ کریں، پہلے سے جاری کاموں کو انجام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا، یہ انتہائی نحوست کا وقت ہوتا ہے، خاص طور پر اس وقت شادی بیاہ یا نئے ایگرمنٹ وغیرہ سائن کرنا ،نئی خریدوفروخت کرنا فائدے بخش نہیں ہوتا، اس موقع پر بری عادتوں اور خراب حرکتوں سے روکنے کے لیے جفری عملیات کیے جاتے ہیں، اس تمام وقت میں ایسے عملیات کے لیے حسب ضرورت سیاروی ساعتوں سے کام لیا جاتا ہے۔

میاں بیوی میں محبت کے لیے عمل خاص

زن و شوہر میں اختلافات، مزاجی ناہمواری، باہمی لڑائی جھگڑا، محبت کی کمی وغیرہ کے لیے یہ ایک مجرب طریقہ ہے اور صرف شادی شدہ خواتین و حضرات ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نہایت آسان بھی ہے۔ گرہن کے درمیانی وقت میں ایک سفید کاغذ پر کالی یا نیلی روشنائی سے پوری بسم اﷲ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔

والقیت علیک محبة فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبة فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمد و خدیجة الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً

اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ ( چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔

خیال رہے کہ مندرجہ بالا نقوش لکھتے ہوئے باوضو رہیں، پاک صاف کپڑے پہنیں، علیحدہ کمرے کا انتخاب کریں، لکھنے کے دوران مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنے مقصد کو ذہن میں واضح رکھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں، رجال الغیب کا خیال رکھیں کہ آپ جس طرف رخ کر کے بیٹھے ہوں وہ آپ کے سامنے نہ ہوں، رجال الغیب کا نقشہ اس کتاب میں دیا جارہا ہے ، اس سے مدد لیں۔


جمعہ، 18 ستمبر، 2020

جادو کی تعریف و حقیقت مذہب و الہامی کُتب کی روشنی میں

ہمارے معاشرے میںسحرو جادو کم علمی اور عدم واقفیت کی وجہ سے پھیل رہا ہے

پہلے بھی ہم اس صورت حال کی نشان دہی کرچکے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں سحرو جادو ، سفلی اور دیگر گندے عملیات کے ذریعے مقاصد کے حصول یا دوسروں کو تکلیف و ایذا پہنچانے کا عمل تیزی سے بڑھتا جارہا ہے،آج سے 25 ,30 سال پہلے تک صورت حالات اتنی شدید نہیں تھی جتنی اب ہوچکی ہے، کم پڑھے لکھے اور دین کی پوری طرح سمجھ نہ رکھنے والے افراد اس معاملے میں زیادہ ملوث نظر آتے ہیں اور خاص طور پر خواتین اس برائی کو پھیلانے میں اپنی کم علمی اور جذباتیت کی وجہ سے نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں،وہ اپنی پریشانیوں اور مسائل کے حل کے سلسلے میں اول تو ایک دوسرے سے سنے سنائے بہت سے وظیفوں یا عملیات کا بے دریغ اور بے تحاشا استعمال شروع کردیتی ہیں،بہت سے ٹونے ٹوٹکے جو شرکیہ بھی ہوسکتے ہیں، آزماتی رہتی ہیں اس کے علاوہ ایسے پیروں فقیروں ، نام نہاد عاملوں ،باباو¿ں اور ملنگوں یا اللہ والی باجیوں سے بھی رابطہ کرکے عمل و تعویذات استعمال کرتی ہیں جو خود جہالت کاشکار ہیں ،انہوں نے ادھر اُدھر سے کچھ کتابیں پڑھ کر یا اپنے ہی جیسے کسی استاد یا پیر کی شاگردی کرکے تھوڑا بہت کچھ سیکھ لیا ہوتا ہے اور پھر اس کے بل بوتے پر خلقِ خدا کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، ایسے لوگ باقاعدہ طور پر دین کا علم بھی نہیں رکھتے اور انہیں کسی علم میں کوئی کمال یا دسترس بھی حاصل نہیں ہوتی،ان کا بنیادی مقصد معاشرے میں سستی عزت اور شہرت حاصل کرنا یا خلقِ خدا کو لوٹنا ہوتا ہے،انہیں یہ بھی فکر نہیں ہوتی کہ وہ اگر کسی کو کوئی علاج تجویز کر رہے ہیں تو اس کے خطرناک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں یا دوسرے معنوں میں انہیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بتائے گئے کسی وظیفے ، عمل یا طریقہءکار کے کچھ سائیڈ افیکٹس بھی ہوسکتے ہیں اور وہ طریقہءکار شرعی طور پر کہاں تک درست ہے۔

عبرت سرائے دہر ہے

ہمیں اکثر ایسے لوگوں سے ملنے اور ان کے مسائل جاننے کا موقع ملتا ہے جو ایسے لوگوں کا شکار ہوتے ہیں،ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی بیوی اُن پر جادو کرتی ہے انہیں اُس کے پرس میں سے ایک پرچہ اور کچھ تعویذ ملے،پرچے میں طریقہءکار کی وضاحت کی گئی تھی کہ تعویذ کو پانی میں گھول کر سارا پانی اپنے منہ میں ڈال لیں اور پھر کسی کپ میں کُلّی کردیں،بعد میں یہ پانی شوہر کو پلادیں۔

وہ صاحب کافی عرصے سے مختلف بیماریوں کا شکار تھے،جب یہ پرچہ اور تعویذ ان کی نظر سے گزرے تو پھر انہیں یقین ہوگیا کہ بیوی اُن پر جادو کر رہی ہے۔

ہم نے تعویذوں کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ شوہر کے دل میں اپنی محبت شدید کرنے کے لیے وہ تعویذ بنوائے گئے تھے مگر طریقہ ءکار قطعاً نا مناسب تھا اور نقوش سے یہ اندازہ بھی نہیں ہورہا تھا کہ وہ آیات و اسمِ الہٰی سے تیار کئے گئے ہیں یا کچھ اور جنتر منتر کا معاملہ ہے۔

ایک صاحب جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے، انہوں نے اپنے حالات کی خرابی کے سلسلے میں رابطہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ دو بار ہمارے گھر سے تعویذ برآمد ہوئے ہیں اور ایک بار گھر کے صحن میں ٹوٹا ہوا انڈا پڑا ہوا تھا اور انڈے کے چھلکے پر کوئی نقش لکھا گیا تھا ، انڈا گندہ تھا کیوں کہ اُس کے اندر خون موجود تھا واضح رہے کہ وہ اپنے شادی شدہ بھائی اور والدہ کے ساتھ جس گھر میں رہتے تھے اُس کا صحن ایک ہی تھا اور انڈہ رات کو کسی وقت صحن میں ڈالا گیا تھا، جب تمام صورت حال کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ تمام کارروائیاں ان کی اپنی بیگم کی جانب سے ہورہی تھیں کیوں کہ وہ چاہتی تھیں کہ دونوں بھائیوں میں اختلافات بڑھ جائیں اور وہ الگ الگ ہوجائیں،شوہر سے ان کا پرانا مطالبہ تھا کہ الگ گھر لیں، وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوئے خوش نہیں تھیں۔

دو بیویوں کے شوہر تو لازمی تختہءمشق بنتے ہیں ، کیوں کہ دونوں اپنا پلڑا بھاری رکھنے کی فکر میں وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں جو ان کے اختیار میں ہوتا ہے اور اس کھینچا تانی میں کبھی کبھی شوہر قربان ہوجاتا ہے،ہم کئی ایسے مظلوم شوہروں سے مل چکے ہیں، قصہ مختصر یہ کہ ازدواجی مسائل اور دیگر خاندانی فتنہ و فساد، خواتین کو روحانی امداد کے بہانے سحرو جادو کے چکر میں پھنسا دیتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے نادانستگی میں انسان کسی سحری و جادوئی مسئلے میں مبتلا ہوجاتا ہے،اپنے طور پر بھی لوگ ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جن کے غلط نتائج کا خود انہیں اندازہ نہیں ہوتا، مثلاً سنے سنائے وظائف و عملیات یا مختلف کتابوں سے نقل کےے گئے نقوش و اعمال اپنی ضرورت کے مطابق منتخب کرکے ان پر عمل کرنا بھی کبھی کبھار نقصان دہ ہوجاتا ہے ، خاص طورپر ایسے اعمال جن میں اپنے درست استحقاق کا خیال نہ رکھا جائے یا وہ شرعی تقاضوں کے مطابق نہ ہوں ۔

جواہرات کے سحری اثرات

ایک اور صورت بھی مشاہدے میں آئی ہے جو عام ہے ، لوگوں میں مختلف قیمتی پتھر پہننے کا شوق کم نہیں ہے ، اس کے علاوہ اپنی ضرورت کے مطابق بھی لوگ پتھر استعمال کرتے ہیں اور پتھروں کے سحری (باطنی) اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے ، اگر پتھر کا غلط استعمال کیا جائے تو بھی سحری اثرات نقصان پہنچاتے ہیں اور اکثر تو ناقص اور عیب دار پتھر بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے لہٰذا اس سلسلے میں بھی سخت احتیاط کرنا چاہےے ۔

جادو یا عملیات کے نام پر فراڈ

بہت پہلے سحرو جادو کے موضوع پر ایک طویل سلسلہ ہم نے لکھا تھا جو کوشش کے باوجود کتابی شکل میں شائع نہیں ہوسکا،ممکن ہے ہمارے پرانے قارئین کے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہو، بہر حال اب دوبارہ اس کی ضرورت محسوس ہورہی ہے تاکہ عام لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہی حاصل ہوسکے۔

مندرجہ بالا مثالوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو لوگ اس قسم کے کام کر رہے ہیں وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، اکثر معاملات میں ایسے کاموں کا نتیجہ خود کرنے والے کے خلاف نکلتا ہے اور جس پر کیا جائے وہ محفوظ رہتا ہے،بشرط یہ کہ وہ پاک صاف رہتا ہو اور اللہ پر کامل ایمان رکھتا ہو، مثبت سوچ کا حامل ہو،اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نام نہاد عامل یا پیر فقیر تھوڑے سے پیسوں کے لیے لوگوں کو محض بے وقوف بناتے ہیں، کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر یا کوئی بے معنی تحریر لکھ کر تعویذ بنا کر دے دیتے ہیں یا وہ تعویذ کسی اصول و قاعدے کے بغیر کسی کتاب سے نقل کیے ہوئے ہوتے ہیں جن کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا لیکن انسان وہم میں مبتلا ضرور ہوجاتا ہے،گویا ایک نفسیاتی اثر اُسے اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔

نفسیاتی اثرات کی کرشمہ کاری

نفسیاتی اثر تو بعض لوگ اور خاص طور سے خواتین اپنے خوابوں کا بھی بہت زیادہ قبول کرتی ہیں مثلاً اگر کسی نے خواب میں لاش دیکھ لی یا کسی مردے کو دیکھ لیا یا کالی بلی، چھپکلی، چوہا ، سانپ وغیرہ دیکھ لیا تو پریشانی شروع ہوجاتی ہے، حالاں کہ ایسے خواب ہماری پوشیدہ بیماریوں کی نشان دہی کرتے ہیں، ہمارے لاشعور میں چھپے ہوئے خوف اور اندیشے عجیب عجیب بھیانک شکلیں بنا کر ہمارے خوابوں میں آتے ہیں لیکن ہم انہیں کچھ اور ہی معنی پہنا رہے ہوتے ہیں۔

اپنی خامیاں ،کوتاہیاں اور وقت کی گردش

بے شمار کیسوں میں لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ان پر زبردست قسم کا جادو کیا گیا ہے اور ان کے دشمن برسوں سے انہیں نشانہ بنارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں،جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ دشمنوں کے کیے ہوئے جادو سے آپ کو کون کون سے نقصانات اٹھانے پڑے اور انہوں نے نقصانات کی تفصیل بتائی تو معلوم ہوا کہ ان نقصانات میں سے کسی کا تعلق بھی سحری اثرات سے نہیں تھا بلکہ ان کی اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں ، کم علمی یا پھر وقت کی گردش کا کھیل تھا، حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد اور پیشہ ور قسم کے لوگوں نے جو خود جہالت کا شکار ہوتے ہیں، سحرو جادو وغیرہ کے حوالے سے اس قدر غلط باتیں معاشرے میں پھیلا دی ہیں کہ لوگ اپنے ہر مسئلے کی وجہ جادو یا آسیب و جنات کو سمجھنے لگے ہیں، جب کوئی کم علم اور کمزور قوت ارادی کا حامل انسان زندگی کے مسائل سے لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے اور منفی سوچوں کے بھنور میں پھنس کر مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو سب سے پہلے توہّم پرستی کا آسیب اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کا ذہن اپنے معاملات میں سحرو جادو یا کسی ماورائی مخلوق کی کار فرمائی کے امکان پر غور شروع کردیتا ہے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسی کسی بھی پیچیدہ صورت حال میں جب انسان کسی مشہور روحانی شخصیت سے رابطہ کرتا ہے اور مشورے کا طالب ہوتا ہے تو نوّے فیصد جواب یہی ملتا ہے کہ بندش ہے، کسی نے تعویذ کرادیے ہیں، سفلی ہوا ہے،آسیبی مداخلت ہے،وغیرہ وغیرہ۔

جادو کے لفظ کا استعمال

”جادو“ بذات خود ایک بڑا پر اسرار اور پرکشش لفظ ہے، ہماری عام زندگی میں بھی اس کا استعمال استعارے اور تشبیہ کی صورت میں عام ہے،اردو ادب میں شاید ہر شاعر و ادیب نے اس لفظ کو اپنے اپنے ڈھنگ سے بے شمار مرتبہ استعمال کیا ہوگا اگر چہ اس کے مخصوص لغوی معنی موجود ہیں مگر اس کا استعمال مختلف رنگ اور ڈھنگ سے بکثرت ہوتا ہے اور ہم اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں،با الفاظ دیگر ”جادو“ ان لوگوں کے سر پر بھی چڑھ کر بولتا ہے جو اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے، بھلا کسی آہو چشم کی ایک ترچھی نظر کے عوض سلطنت و حکومت جیسی چیز کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینا ، جادو کا سر چڑھ کر بولنا نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟ 

”جادو“ نظر کا ہو یا کسی کے حسن و محبت کا، جب چلتا ہے تو خوب چلتا ہے، یوں تو جادو کی ان گنت غیر لغوی اقسام ہیں مگر ہمارا موضوع تو وہ جادو ہے جو عام طور پر بنگال ، مصر، بابل اور ہندوستان وغیرہ کے حوالے سے مشہور ہے اور اپنے دامن میں ہزارہا قصوں ، کہانیوں سمیت سینہ بسینہ چلنے والی روایات کی سحر بیانی لیے ہوئے ہیں۔

”جادو“یا سحر کو سحر بیانی کے زور پر یقیناً پہاڑ بنادیا گیا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ رائی ہوتی ہے تو پہاڑ بنتا ہے، برسوں بعد ایک بار پھر اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ کرلیا ہے اور ہمارا مقصد کسی شے یا حقیقت کا انکارِ محض یا اقرارِ محض نہیں ہے بلکہ ہمارا مدعا تو اپنے پڑھنے والوں کو درست صورت حال سے آگاہ کرنا ہے تاکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط معلومات اور گمراہ کن نظریات سے بچا جاسکے۔

جادو کا انکار یا اقرار

ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے دیگر عقائد و نظریات کی طرح ”جادو“ بھی ہمیشہ سے فکری انتہا پسندی کا شکار رہا ہے، بعض لوگ تو اسے سرے سے مانتے ہی نہیں اور جادو یا اس کی کارفرمائی کو لغو ، وہم یا فرسودہ ذہنوں کی پیداوار قرار دیتے ہیں جب کہ اس کے برعکس دوسری انتہا یہ ہے کہ موسمی اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریاں یا فطری طور پر ہوجانے والا نزلہ، زکام ، بخار بھی بعض گھروں میں جادو کے اثرات کا نتیجہ قرار پاتا ہے، خصوصاً شادی بیاہ کے معاملات میں یا ازدواجی زندگی کی مشکلات میں جادو ٹونے کا چکر ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوچلا ہے،بیٹے کا بیوی کی محبت میں فطری طور پر مبتلا ہونا یا شوہر کا اپنی ماں کا بہت زیادہ فرماں بردار ہونا بھی جادو گری کا کمال سمجھا جاتا ہے،شادی میں فطری اور قدرتی تاخیر یا میڈیکل وجوہات کی بنیاد پر اولاد میں تاخیر یا اولاد کا نہ ہونا ، بے روزگاری، اپنی کوتاہیوں اور غیر ذمہ داریوں یا اناڑی پن کی وجہ سے کاروباری نقصان ،غرض ہر مسئلہ جادو کے زیر اثر آجاتا ہے اور پھر کسی عامل ، اونچی سرکار، بنگالی بابا، مستانی مائی یا باجی اللہ والی جیسی شخصیات کی چاندی ہونے لگتی ہے لیکن حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا، بلکہ صورت حال بقول شاعر وہی ہوتی ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

جادو، مذہب اور الہامی کُتب

اس تمام گفتگو کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ”جادو“ نام کی کوئی شے یا قوت دنیا میں سِرے سے موجود ہی نہیں، کہیں پائی ہی نہیں جاتی،جادو ایک حقیقت ہے ، ایک علم ہے، ایک کائناتی سائنس ہے، اسے بالکل ہی تسلیم نہ کرنا اگر جہالت نہیں تو کم از کم نا انصافی یا شدید کم علمی ضرور ہے۔ 

جادو کا شمار دنیا کے قدیم ترین علوم میں ہوتا ہے،ایک مکمل علم کے مانند اس کی باقاعدہ ایک تھیوری ہے،ایک نظریہ ہے، ایک عمل ہے اور باقاعدہ اطلاقی میدان ہے۔

موضوع گفتگو اگر جادو ہے تو پھر مذاہب اور الہامی کتب کا مطالعہ ناگزیر ہوجاتا ہے کیوں کہ موجودہ سائنس اپنی تمام تر ترقی اور رفتار کے باوجود ابھی تک بہت سے حقائق و علوم سے پردہ نہیں ہٹا پائی ہے اور جدید تہذیب کے اسی رویے کے باعث سائنس داں و دانش ور حضرات بھی انہی اشیا کو مرکز تحقیق بنائے ہوئے ہیں کہ جو براہ راست مادے سے متعلق ہےں ، جادو کے بارے میں آج کے علمی اور سائنسی ذہنوں کا رویہ ”میں مانوں کہ نہ مانوں“ والا ہے اور شاید اسی لےے اس ضمن میں تحقیق و تجسس کا کام ٹھوس بنیادوں پر شروع نہیں ہو پایا ہے ، اکثر مستند علما نے ذاتی تجربات و مشاہدے کی بنیاد پر جو کام کیا ہے وہ بہرحال موجود ہے لیکن عام آدمی کی رسائی اس تک نہیں ہوپاتی ، اس کے بجائے سطحی نوعیت کی تحریریں بہت زیادہ ہیں جن کے مطالعے سے مصنف کی کم علمی عیاں ہوتی ہے ۔

 ہمارے اکثر مذہبی اسکالرز کا علم بھی اس حوالے سے یکطرفہ ہے ، یعنی انہوں نے جادو کے بارے میں جس قدر بھی قرآن اور حدیث سے احکامات اور تشریحات کا مطالعہ کیا ہے وہ اس تک ہی خود کو محدود رکھتے ہیں ، اس سے آگے بڑھ کر کسی بھی علم کے بارے میں مزید تحقیق اور تجربے کو ضروری نہیں سمجھتے ، نتیجے کے طورپر عمر بھر مکھی پہ مکھی مارتے رہتے ہیں ، بے شک قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں جادو کی اہمیت اور اس سے اجتناب کے بارے میں احکام مل جاتے ہیں لیکن اس موضوع سے مکمل آشنائی کے لےے اس علم کی مکمل تاریخ اور طریقہ کار کا مطالعہ بھی ضروری ہے ، اکثر لوگ یہ زحمت نہیں کرتے ، نتیجے کے طورپر بہت سی ایسی چیزوں کو جادو قرار دے دیا جاتا ہے جو جادو نہیں ہوتیں یا بہت سی چیزوں کو جادو کی فہرست سے خارج کردیا جاتا ہے جو درحقیقت جادو کے ذیل میں آتی ہیں ، مثلاً بعض علما نے شعبدہ بازی ، علم نجوم ، پامسٹری یا علم الاعداد کو بھی جادو قرار دے دیا ، قصہ مختصر یہ کہ اس حوالے سے لکھی جانے والی اکثر کتابیں محققانہ بصیرت سے خالی نظر آتی ہیں ، مطالعے کے دوران میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ صاحب تحریر کا علم کسی نہ کسی حوالے سے نامکمل یا ادھورا ہے ۔(جاری ہے)


جمعہ، 4 ستمبر، 2020

زائچہ ءپاکستان کے حوالے سے تحقیق اور تجربات

قیام پاکستان سے آج تک کی صورت حال کا تجزیہ اور تبصرہ

1947 میں قیام پاکستان سے متعلق جو بھی زائچے بنائے گئے ان کے بارے میں ہمارے سابقہ یا حالیہ منجمین کوئی معقول ، ٹھوس بنیادوں پر مبنی تجزیہ کبھی پیش نہیں کرسکے، پاکستان کے حالات و واقعات پر ان زائچوں کی روشنی میں پیش گوئیاں بھی ہوتی رہیں اور تجزیے بھی ہوتے رہے جو تکنیکی اعتبار سے ہر گز معیاری نہیں تھے، مختلف اوقات میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے،مثلاً جب ملک دولخت ہوا تو کہا گیا کہ پاکستان کا پیدائشی برج حمل ہے اور یہ ایک منقلب برج ہے اور منقلب بروج کو استحکام نہیں ملتا، بھارت کا برج ثور ہے یہ ثابت (Fixed sign) ہے، اس لیے مستحکم ہے، پاکستان منقلب برج کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوگیا، دنیا میں بہت سے ممالک جن میں سرفہرست امریکا ہے ان کا طالع منقلب ہے، وہ تو ابھی تک دولخت نہیں ہوئے، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ڈاکٹر ایوب تاجی لاہور کے ریڈیو اعلان کی بنیاد پر طالع ثور کا زائچہ بناتے تھے ، وہ بھی کبھی پاکستان کے دولخت ہونے پر کوئی معقول دلیل پیش نہیں کرسکے، ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ جو 14 اگست صبح 09:35 am بمقام کراچی سے طالع سنبلہ کا زائچہ بناتے تھے ان کا موقف یہ تھا کہ سنبلہ ذوجسدین (Doube body) برج ہے، تبدیلیوں کا شکار ہوتا ہے، پاکستان دولخت ہوا اور مزید بھی ہوگا، وہ آخر عمر تک اس موقف پر قائم رہے کہ پاکستان کی مزید تقسیم ہوگی اور ”گریٹر پنجاب“ وجود میں آئے گا، بہر حال اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

حضرت کاش البرنیؒ صاحب طالع برج جوزا یونانی حساب سے پاکستان کا طالع پیدائش مقرر کرتے تھے جیسا کہ ہمارے عزیز بھائی رفعت شیخ نے بھی جو پرانے ایسٹرولرجر ہیں کہا کہ میں بھی برج جوزا کو درست سمجھتا ہوں ۔

ہمیں یاد نہیں کہ برنی صاحب مرحوم و مغفور کس بنیاد پر طالع جوزا پاکستان کا طالع سمجھتے تھے، شاید وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی کسی تقریر کا حوالہ دیتے تھے جو ریڈیو سے نشر کی گئی تھی اور اس وقت کو اہمیت دیتے تھے لیکن طالع جوزا بھی ذوجسدین برج ہے اور صرف یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ برج جوزا کی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

جناب پیر پگارا صاحب بھی علم نجوم سے شغف رکھتے تھے اور کراچی کے اکثر منجمین ان کے در دولت پر حاضری دیتے تھے، ایک بار روزنامہ جرا¿ت میں ہمارے کسی کالم کو پڑھنے کے بعد انھوں نے ہم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا لیکن یہ ملاقات کبھی نہ ہوسکی، پیر صاحب بھی اکثریتی رائے کے مطابق پاکستان کا پیدائشی برج حمل ہی تصور کرتے تھے۔

پاکستان کے ایک اور بہت مشہور و معروف اور طویل عمر پانے والے منجم جو راولپنڈی میں ایک ایسٹرولوجیکل انسٹی ٹیوٹ بھی چلارہے تھے بہت عجیب و غریب قسم کی پیش گوئیاں کیا کرتے تھے، لال قلعے پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی پیش گوئی، اندرا گاندھی کو اکثروبیشتر دھمکیاں اور آنے والے وقت سے ڈرانے کے لیے خطوط نویسی بھی ان کی کارگزاری میں شامل ہے، تمام دیگر منجمین ان کی بزرگی کے سبب ان کا بہت احترام کرتے تھے اسم گرامی غازی منجم تھا۔

عمر کے بالکل آخری حصے میں شاید 2010 ءمیں ہمیں ایک ایسے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس میں تقریباً تمام ہی پاکستان کے مشہور منجم یکجا تھے، یہ تقریب لاہور میں منعقد ہوئی ، یہ ہمارے برادر عزیز سید انتظار حسین شاہ زنجانی کے بڑے صاحب زادے سید مصور علی زنجانی کا ولیمہ تھا جو لاہور کے پی سی میں ہوا۔

اس تقریب میں جناب غازی منجم ، جناب اعجاز حسین بٹ، لاہور کے مشہور و معروف ”ماموں“ الغرض تقریباً تمام ہی منجم حضرات اس ولیمے میں شریک تھے، بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے شہرہ آفاق آرٹسٹ جناب شجاعت ہاشمی بھی ایسٹرولوجی کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ وہ پنجاب کے بہت سے منجمین کی دائی ہیں، ہم سے ان کے برادرانہ اور بے تکلفانہ مراسم ہیں، اس تقریب میں شجاعت صاحب کے ذریعے فرداً فرداً تقریباً تمام ہی منجمین سے کم یا زیادہ گفتگو رہی اور اندازہ ہوا کہ سب اپنی اپنی جگہ ایک ”سنگ میل“ ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے، علمی موضوع پر گفتگو سے پرہیزکرتے ہیں، صرف اپنی پیش گوئیوں کے حوالے سے اظہار خیال کو ضروری سمجھتے ہیں، کسی نے بھی پاکستان کے زائچے کے حوالے سے اظہار خیال کرنا پسند نہیں کیا، ہمیں بڑی حیرت ہوئی۔

پاکستانی منجمین میں بھی ایک شاعرانہ بیماری ہمیں نظر آئی یعنی جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔

اگر علم نجوم ایک سائنسی علم ہے تو اسے جامد نہیں ہونا چاہیے اور مسلسل تحقیق و تجدید کا عمل جاری رہنا چاہیے، یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب علمی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا جائے، باہمی مکالمہ ہو، مزید یہ کہ اس حوالے سے دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے اس پر بھی نظر رہے، اپنے ”سینہ گزٹ“ پر قائم و دائم رہنے والے اپنے علم کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے۔

نیا زائچہ ءپاکستان





پاکستان کے بارے میں جیسا کہ پہلے ہم بتاچکے ہیں کہ نیا زائچہ ءپاکستان ہماری نظر میں 20 دسمبر 1971ءبمقام اسلام آباد 14:55 pm ہے اور اس کی بنیادی وجوہات پر خاصی گفتگو ہوچکی ہے،بلاشبہ 1971 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جو محاذ آرائی ہوئی اور اس وقت کی مغربی پاکستان کی عاقبت نا اندیش فوجی اور سیاسی قیادت نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جو کچھ کیا اس سے پڑوسی ملک بھارت نے فائدہ اٹھایا، 25 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کردیا، 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو فوری طور پر اسلام آباد طلب کیا اور 20 دسمبر کو وہ اسلام آباد پہنچے، پاکستان کرونیکل از عقیل عباس جعفری کے مطابق شام 4 بجے جب وہ ایوان صدر سے روانا ہوئے تو ان کی گاڑی پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا، اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ڈھائی اور تین بجے کے درمیان ٹرانسفر آف پاور اور تقریب حلف برداری کے مراحل طے ہوئے، چناں چہ ہم نے 02:55 pm کا وقت اندازاً رکھا ہے،اس وقت کے مطابق اس وقت اسلام آباد کے افق پر برج ثور کے دو درجہ 35 دقیقہ طلوع تھے، یہی نئے پاکستان کا طالع پیدائش یا لگن ہماری نظر میں درست ہے، ممکن ہے اس وقت میں مزید کمی بیشی کی جاسکے، تحقیق و تجربے کا دامن تنگ نہیں ہے، یہ وقت مقرر کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر زائچے میں پہلے گھر یعنی لگن (Ascendent) کے درجات سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ ویدک سسٹم میں زائچے کے دیگر گھروں کے درجات بھی وہی تصور کیے جاتے ہیں یعنی ہر گھر کا آغاز پھر اسی درجے سے ہوتا ہے، ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ بھی ہے کہ ابتدائی درجات یعنی ایک درجے سے تین درجے تک پاکستان کے لیے بہت حساس ثابت ہوتے ہیں، اس کی مثال آگے آئے گی، چناں چہ ہم نئے زائچہ ءپاکستان میں برج ثور کے ابتدائی درجات ہی کو درست سمجھتے ہیں۔

زائچے کے پہلے گھر میں سیارہ زحل بحالت رجعت 7 درجہ 39 دقیقہ اچھی مضبوط پوزیشن میں قابض ہے، سیارہ مشتری ساتویں گھر برج عقرب میں 26 درجہ 17 دقیقہ اور اسی برج اور گھر میں سیارہ عطارد بحالت رجعت اچھی پوزیشن میں قابض ہے، کیتو تیسرے گھر میں 12:15 درجہ ، شمس 04:23 نہایت کمزور اور خراب پوزیشن میں آٹھویں گھر برج قوس میں، زہرہ نویں گھر برج جدی میں 2 درجہ 59 دقیقہ اور اسی نویں گھر میں قمر 5 درجہ 38 دقیقہ ، راہو 12:15 درجہ ، سیارہ مریخ گیارھویں گھر برج حوت میں دو درجہ 28 دقیقہ قابض ہے۔

بہ وقت پیدائش سیارہ شمس کا دور اکبر (Main period) جاری تھا جب کہ اسی دور اکبر میں دور اصغر سب پیریڈ سیارہ عطارد کا جاری تھا۔

واضح رہے کہ جدید ایسٹرولوجیکل سسٹم کے مطابق طالع یا لگن ثور (Taurus) کے لیے سیارہ قمر ، شمس، عطارد اور زحل فعلی اور عملی طور پر سعد یعنی فائدہ بخش (Functional beneficial) سیارے ہیں جب کہ سیارہ زہرہ، مشتری اور مریخ فعلی اور عملی طور پر نقصان دہ (Functional melfic) سیارے ہیں، راہو کیتو تقریباً ہر زائچے میں نقصان دہ ہوتے ہیں اور ان کے فائدے اور نقصان کے حوالے سے ان کی مخصوص پوزیشن کا جائزہ لینا پڑتا ہے، اسی طرح دیگر سیارگان کے قوت و ضعف کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے،اس کے مطابق ہی زائچے میں جاری ادوار (Periods) کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے مثلاً جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ سیارہ شمس کا دور اکبر جاری تھا جو 6 دسمبر 1973 تک جاری رہا ،سیارہ شمس زائچے کا سعد سیارہ ہے،چوتھے گھر کا حاکم ہے، اس کا تعلق داخلی معاملات اور عوامی صورت حال سے ہے،زائچے میں آٹھویں گھر میں نہایت کمزور حالت میں اور مصیبت میں ہے،چناں چہ عوام کی اچھی حالت کی نشان دہی نہیں کرتا لیکن اس کا دور اگر فائدہ بخش نہیں ہے ، شمس کی یہ کمزوری ہمیشہ کے لیے عام عوام کی بدحالی و زبوں حالی کا مظہر ہے ، اسی دور اکبر میں عطارد کا دور اصغر جاری ہے جو 31 جولائی 1972 تک جاری رہا، عطارد زائچے کے پانچویں گھر کا حاکم ہے، پانچواں گھر شعور اور دانش ورانہ اور فنکارانہ دلچسپیوں سے متعلق ہے،یہ زائچے میں بھی طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں اعلیٰ درجے کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لہٰذا اس دور میں ملک کو سنبھالنے اور نیا آئین بنانے کے سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے مثبت انداز میں کام کیا اور بالآخر اپریل 1973 تک آئین سازی کا کام مکمل ہوگیا۔

زائچے کا پہلا گھر جسے طالع کہا جاتا ہے، برج ثور تقریباً تین درجہ ہے،جدید ایسٹرولوجی میں طالع کے درجات کی اہمیت بہت زیادہ ہے،اگر یہ درجہ درست طے ہوجائے تو زائچے کو سمجھنا اور اس کے مطابق سیاروی گردش کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، عام طور پر درجے کا تعین درست طور پر صحیح وقت پیدائش سے ہوتا ہے، اسی لیے درست وقت پیدائش کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے جب کہ عام طور پر ہمارے ملک میں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا، اکثر لوگوں کو تو اپنا وقت پیدائش معلوم ہی نہیں ہوتا، اگر معلوم ہو تو عموماً غلط ہوتا ہے،دس پندرہ منٹ کا فرق عام طور سے ضرور مشاہدے میں آتا ہے، ایک درست زائچے کے لیے اصل وقت وہ ہوتا ہے جب بچہ دنیا میں پہلی سانس لیتا ہے۔

زائچے کے درجات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیجیے کہ برج ثور ایک سے زائد ممالک یا اشخاص کا پیدائشی برج ہوسکتا ہے، یہ درجات ہی ہیں جو ان کے حالات میں نمایاں فرق کا سبب بنتے ہیں، مثلاً پاکستان کے زائچے کے درجات تین ہیں، بھارت کا طالع برج بھی ثور ہے اس کے درجات تقریباً سات درجہ ہیں، مصر کا طالع برج بھی ثور ہے اس کے درجات پندرہ ہیں، ملائیشیا کے زائچے کا طالع برج بھی ثور ہے اور طالع کے درجات تقریباً 8 ہیں۔

طالع کے درجات کی اہمیت کیوں ہے؟

درحقیقت ہر زائچہ بارہ گھروں یا خانوں پر مشتمل ہےں، یہ درجات ہی نشان دہی کرتے ہیں کہ کون سا خانہ کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتا ہے، اسی کی مناسبت سے سیاروں کی گردش سے قائم ہونے والے جیومیٹریکل زاویوں کو سمجھا اور پرکھا جاتا ہے ، انھیں اصطلاحاً ”نظرات“ کہا جاتا ہے اور نظرات ہی نئے واقعات و حالات کی نشان دہی کرتے ہیں، ایک تازہ مثال سامنے ہے، سیارہ مریخ طالع برج ثور کے لیے فعلی ضرر رساں سیارہ ہے، یہ زائچے کے کسی بھی گھر میں حرکت کرے گا تو اس گھر سے متعلق منسوبات کو متاثر کرے گا، اسی طرح سیارہ مشتری اور زہرہ بھی طالع ثور کے لیے فعلی اور عملی طور پر ضرر رساں ہیں، اس سال تقریباً 30 اپریل سے سیارہ مشتری زائچے کے نویں گھر میں داخل ہوا اور ابتدائی درجات یعنی تین درجے پر 30 جون تک رہا، گویا پاکستان کے زائچے کے پہلے ، تیسرے، پانچویں اور نویں گھر سے نظر قائم ہوئی جو نہایت ہی خراب اور ناموافق صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے، پہلے گھر کے متاثر ہونے کا مطلب پاکستان کے مکمل حالات کا متاثر ہونا ، تیسرے گھر کے متاثر ہونے کا مطلب ٹرانسپورٹ، ترقیاتی امور، حکومتی فیصلے وغیرہ، پانچویں گھر کے متاثر ہونے کا مطلب بچوں سے متعلق تعلیمی امور وغیرہ جب کہ نویں گھر کا مطلب آئینی و قانونی معاملات ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپریل سے جون تک ان حوالوں سے صورت حال نہایت خراب رہی بلکہ اسی عرصے میں کراچی میں ایک طیارہ بھی تباہ ہوا جس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان بھی ہوا، اپریل سے جون تک کا عرصہ نہایت ہی اہم رہا ہے، اس دوران میں مختلف نوعیت کے اختلافات اور تنازعات بھی عروج پر رہے،خیال رہے کہ زائچے میں چھٹے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ نویں گھر میں تین ڈگری پر ہے اور تیسرے گھر کا حاکم قمر تقریباً پانچ ڈگری پر ہے،اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشتری کی ٹرانزٹ پوزیشن ان دونوں سیاروں کو بھی بری طرح متاثر کر رہی تھی جس کے نتیجے میں چھٹے گھر کی منسوبات سول و ملٹری سروسز، پڑوسیوں یا اندرون ملک اختلافی مسائل بری طرح متاثر ہوئے، اسی طرح قمر کے حوالے سے تمام کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا اور ایک بڑا حادثہ بھی پیش آیا۔