جمعہ، 23 اگست، 2019

ستمبر کی فلکیاتی صورت حال ، ایک ستم گر مہینہ

شاید مسئلہ کشمیر کے منطقی حل کا وقت قریب آگیا ہے

دنیا بھر میں تبدیلی کی لہر کا اشارہ ہم 2010 ءسے دے رہے ہیں جب سیارہ یورینس اور سیارہ پلوٹو نے گھر تبدیل کیا تھا، بیرونی سیارے جو پلوٹو ، یورینس اور نیپچون ہیں، علم نجوم میں زمانوں کی تبدیلیاں ظاہر کرتے ہیں، چوں کہ یہ ایک ہی برج میں طویل عرصہ قیام کرتے ہیں اور اس طویل عرصے میں ایسے حالات و واقعات جنم لیتے ہیں جو دنیا میں نئی رجحان سازی ، روایات کی تبدیلی ، طور طریقوں میں ردوبدل کا باعث ہوتے ہیں، سال 2000 ءمیں سات سیارگان کا قران ایک ہی برج میں ہوا ،اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ بہت کچھ تبدیل ہوگیا، نائن الیون ہوا، افغانستان میں اور عراق میں امریکی مداخلت نے نقشہ ہی بدل دیا، تقریباً آدھی سے زیادہ دنیا یکسر تبدیل ہوگئی، اس بار بھی ایسی ہی صورت حال ہمارے سامنے ہے ، موجودہ سال میں جو کچھ ہوا اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں، ستمبر کے مہینے سے ہم ایک نئے دنیاوی سیٹ اپ کی طرف بڑھیں گے، بہت کچھ ہمیں عجیب لگے گا،بہت سی باتیں ناگوار محسوس ہوں گی مگر قدرت کا نظام اپنی جگہ اٹل ہے، ہم سب اس کا حصہ ہیں، وقت کا دھارا ہمیں کس سمت میں لے جاتا ہے اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے، ہمارے نظام شمسی میں حرکت کرتے سیارے اللہ کے حکم سے اس نظام میں ایک سسٹم کے تحت تبدیلی اور اُتار چڑھاو ¿ کا عمل انجام دیتے ہیں، شاید ایساوقت اب قریب آچکا ہے جب 70 سال پرانا مسئلہ کشمیر کسی منطقی انجام تک پہنچ جائے، یہ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔
عزیزان من! دسمبر کے آخر میں کثرتِ سیارگان آئین و قانون اور مذہب سے متعلق برج قوس میں ہوگی، تقریباً 5 سیارگان ہمراہ کیتو اس گھر میں ہوں گے، عطارد ، مشتری ، شمس ، زحل، پلوٹو اور کیتو ، بین الاقوامی زائچے میں یہ صورت حال ارضیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ہی سرحدی تبدیلیوں کی بھی نشان دہی کر رہی ہے، بہت سے آئینی اور قانونی اصول تبدیل ہوسکتے ہیں، مذہبی نظریات میں بھی آنے والے سالوں میں غیر معمولی ردوبدل ممکن ہے، ان شاءاللہ اس حوالے سے ہم مکمل تفصیل کے ساتھ نئے سال2020 ءکے امکانات پر بات کریں گے۔

ستمبر کے ستارے

ستمبر اس بار بھی خاصا ستم گر مہینہ نظر آتا ہے، اس ماہ سیاروی صورت حال خاصی پیچیدہ اور الجھی ہوئی رہے گی جس کے نتیجے میں بین الاقوامی طور پر بھی اور ملکی سطح پر بھی غیر معمولی واقعات کا ظہور اور مستقبل کے حوالے سے نئے امکانات واضح ہوں گے۔
سیارہ شمس اقتدار اور اعلیٰ عہدہ و مرتبہ کا نمائندہ ہے، برج سنبلہ میں حرکت کرے گا اور 23 ستمبر کو اپنے ہبوط کے برج میزان میں داخل ہوگا۔
 آسمانی وزیراطلاعات و نشریات سیارہ عطارد غروب کی حالت میں ہے اور اپنے شرف کے برج سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے، 14 ستمبر کو برج میزان میں داخل ہوگا۔
 توازن اور ہم آہنگی ، محبت و دوستی کا سیارہ زہرہ اپنے برج ہبوط میں حرکت کر رہا ہے، یہ سیارہ زہرہ کی انتہائی ناقص پوزیشن ہے، خیال رہے کہ اس دوران میں زہرہ بری طرح غروب حالت میں بھی ہے لہٰذا دوسروں سے محبت و دوستی کے معاملات ، منگنی و نکاح وغیرہ کے سلسلے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے، یہ وقت ایسے کاموں کے لیے سخت ناموافق ہوگا۔
 قوت و توانائی کا سیارہ مریخ بھی کمزور اور غروب حالت میں برج سنبلہ میں حرکت کر رہا ہے۔
 آئین و قانون اور علم و دانش کا سیارہ مشتری بھی اچھی پوزیشن میں نہیں ہے، اگرچہ مستقیم ہوچکا ہے لیکن مجموعی طور پر کمزور پوزیشن رکھتا ہے۔
سیارہ زحل برج جدی میں حرکت کر رہا ہے اور تاحال راہو کیتو سے متاثرہ ہے گویا ارضیاتی اور آفاتی حادثات و سانحات کا جو سلسلہ اس سال مارچ اپریل سے شروع ہوا ہے وہ ابھی جاری ہے،اکتوبر کے بعد ہی سیارہ زحل کو اس نحوست سے نجات ملے گی۔
سیارہ یورینس برج ثور میں حرکت کر رہا ہے اور رجعت میں ہے جب کہ نیپچون برج حوت میں بحالت رجعت حرکت کر رہا ہے،پلوٹو برج جدی میں بحالت رجعت ہے، راس و ذنب بالترتیب برج سرطان اور جدی میں ہیں، سیارگان کی پوزیشن یونانی علم نجوم کے مطابق دی گئی ہےں۔

نظرات و اثراتِ سیارگان

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ ستمبر خاصا مشکل اور پیچیدہ مہینہ ہے، اس ماہ کے دوران میں تشکیل پانے والے سیاروی زاویے بھی حال و مستقبل کے نئے امکانات اور رجحانات کی نشان دہی کر رہے ہیں، ستمبر میں تثلیث کے 8 زاویے قائم ہوں گے اسی طرح تربیع کے بھی 8 زاویے بنیں گے، چار قرانات ، چار مقابلے اور تسدیس کے صرف دو زاویے ہوں گے، تفصیل درج ذیل ہیں۔
یکم ستمبر: عطارد اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ اور اس کے ساتھ ہی زہرہ اور زحل کے درمیان بھی تثلیث کا سعد زاویہ دنیا کے لیے بہت نئے اور چونکا دینے والے انکشافات آنے والے مہینوں میں سامنے لائے گا، گویا مستقبل کے حوالے سے ہمارے بہت سے اندازے اور نظریات غلط ثابت ہوسکتے ہیں، عام افراد کے لیے بھی حالات و واقعات کوئی ایسا نیا رُخ اختیار کرسکتے ہیں جس کی ہم پہلے سے توقع نہ رکھتے ہوں، بے شک ایسی صورت حال مثبت اور مستقبل میں فائدہ بخش ہوگی، ضرورت اس بات کی ہوگی کہ ہم لکیر کے فقیر نہ بنیں ، نئی تبدیلیوں کو قبول کریں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
2 ستمبر: شمس اور مریخ کے درمیان قران کا زاویہ اور اس کے ساتھ ہی زہرہ اور مشتری کے درمیان تربیع کا زاویہ کسی پاور پلے کی نشان دہی کر رہا ہے، خاص طور پر پاکستان اور بھارت اس صورت حال سے متاثر ہوں گے،داخلی صورت حال دونوں ملکوں کی پریشان کن ہوسکتی ہے، دیگر ممالک بھی اپنے اپنے زائچوں کے مطابق متاثر ہوں گے، عام افراد کو انا اور ذاتی پسند نا پسند کے معاملات میں انتہا پسندانہ رویے اور رجحان سے گریز کرنے کی ضرورت ہوگی، قانونی نوعیت کے مسائل و معاملات میں نئی الجھنیں اور دشواریاں سامنے آسکتی ہیں جنھیں دانش مندانہ طور پر حل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
 3 ستمبر: عطارد اور مریخ کے درمیان قران کا زاویہ میڈیا پر مزید دباو ¿ اور سختی لاسکتا ہے، یہ زاویہ عام لوگوں کو مختلف اینگل سے فوائد یا نقصانات دے گا جس کا اندازہ ان کے انفرادی زائچے کی روشنی میں ہی ممکن ہے ، جرنل اثر اس نظر کا ذرائع ابلاغ اور ٹرانسپورٹ کے معاملات میں بے چینی اور انتشار ظاہر کرتا ہے۔
4 ستمبر: شمس اور عطارد کا قران ، عطارد اور نیپچون کے درمیان مقابلہ، یہ دونوں زاویے نحس اثر رکھتے ہیں، رابطے اور سفر سے متعلق امور میں دشواریاں ، مشکلات ، دھوکا ، فراڈ، چوری ، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں اضافہ ، بہت محتاط رہ کر دوسروں سے معاملات کریں، افواہوں پر دھیان نہ دیں، ہر بات کی پہلے اچھی طرح تحقیق ضرور کرلیں، آنکھیں بند کرکے کوئی فیصلہ نہ کریں۔
5 ستمبر: عطارد اور زحل کے درمیان تثلیث کا زاویہ اگرچہ سعد اثر رکھتا ہے لیکن عطارد کی اپنی پوزیشن کمزور ہے لہٰذا تحریری اور تقریری معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، اس وقت کیے گئے معاہدات اگرچہ دیرپا ہوں گے لیکن کوئی غلطی یا کمزوری بعد میں پریشان کرسکتی ہے، خصوصاً زمین و جائیداد سے متعلق کاموں میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
6 ستمبر: عطارد اور نیپچون کے درمیان مقابلے کی نظر افواہیں اور غلط فہمیاں یا بدگمانیاں لاتی ہے، کسی بات پر بھی مکمل بھروسا اور اعتماد نہ کریں، تحریری طور پر دستاویزات کی تیاری میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی، اس موقع پر غلط مشورے اور رہنمائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، اسی روز عطارد اور مشتری کے درمیان تربیع کا زاویہ بھی ہے جو قانونی معاملات میں الجھن اور پیچیدگی کا باعث ہوسکتا ہے،سفر کے لیے بھی یہ ناموافق وقت ہوگا۔
7 ستمبر: شمس اور زحل کے درمیان تثلیث اور اسی روز زہرہ اور پلوٹو کے درمیان بھی تثلیث کا زاویہ قائم ہوگا، دونوں سعد زاویے ہیں، بین الاقوامی سطح پر یہ نظرات اہم افراد کی غیر معمولی فعالیت اور کارکردگی کی نشان دہی کر رہے ہیں، عام افراد گورنمنٹ کے مثبت فیصلوں اور اقدام سے فائدہ اٹھائیں گے۔
8 ستمبر: شمس اور مشتری کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے، آئینی و قانونی نوعیت کے مسائل اس وقت پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، عام افراد کو بھی قانونی نوعیت کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
9 ستمبر: شمس اور نیپچون کا مقابلہ اعلیٰ اور بلند مقام کے حامل افراد کے لیے نحس اثر رکھتا ہے، انھیں تنزلی یا کسی معاملے میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے، عام افراد اس نظر سے متاثر نہیں ہوں گے۔اسی روز عطارد و پلوٹو اور مریخ و زحل کے درمیان بھی تثلیث کے سعد زاویے ہوں گے، یہ عام لوگوں کے کاموں میں پیش رفت لائیں گے، رکے ہوئے کاموں کو آگے بڑھانا ممکن ہوگا۔
12 ستمبر: مریخ و مشتری کے درمیان تربیع کا زاویہ مالیاتی اداروں کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے،بھارت اور پاکستان کے زائچوں کے مطابق یہ نظر باہمی کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گی، نئے حادثات جنم لے سکتے ہیں، عام افراد کو مشینری سے متعلق خریدوفروخت میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، ٹیکنیکل نوعیت کے کام الجھاو ¿ اور پریشانی کا باعث بنیں گے، اخراجات میں زیادتی ہوگی۔
13 ستمبر: عطارد اور زہرہ کا قران اگرچہ ایک سعد زاویہ ہے لیکن دونوں سیارگان غروب حالت میں ہیں لہٰذا اس نظر کے مثبت اثرات زیادہ فائدہ بخش نہیں ہوں گے۔
14 ستمبر: شمس اور پلوٹو کے درمیان تثلیث کا زاویہ ہے، طاقت اور اثرورسوخ کا بھرپور اظہار ظاہر کرتا ہے ، کمزور کو طاقت ور کے سامنے سرجھکانا ہوگا، طاقت ور ممالک اپنی من مانی کریں گے، عام افراد اس نظر سے متاثر نہیں ہوں گے۔اسی تاریخ کو مریخ اور نیپچون کے درمیان مقابلے کی نظر فتنہ و فساد اور دہشت گردی جیسے واقعات کی نشان دہی کرتی ہے، بھارت اور پاکستان نامناسب فیصلے اور اقدام کرسکتے ہیں۔
19 ستمبر: مریخ و پلوٹو کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ ملک اور قوموں کے درمیان پاور پلے کا سگنل ہے، اس مہینے میں اقوام متحدہ کا خصوصی اجلاس بھی متوقع ہے جس میں پاور پلے کا تماشا دیکھنے میں آسکتا ہے۔
21 ستمبر: مشتری اور نیپچون کی تربیع ترقیاتی اور مالی امورمیں دھوکے اور فراڈ کی نشان دہی کرتی ہے، اس وقت کوئی نئی انویسٹمنٹ یا قرض کا لین دین نامناسب ہوگا۔
22 ستمبر: عطارد اور زحل کے درمیان تربیع کا زاویہ کاموں میں رکاوٹ اور دشواری لائے گا، خاص طور سے زمین و پراپرٹی کے معاملات میں نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، اس وقت کو نظر انداز کرنے کی ضرورت ہوگی۔
25 ستمبر: عطارد اور مشتری کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے لیکن زیادہ فائدہ بخش نہیں ہوگا۔
26 ستمبر: زہرہ اور زحل کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ خواتین کے لیے ازدواجی مسائل اور عام لوگوں کے لیے دوسروں سے معاملات طے کرنے میں دشواری لاسکتا ہے۔
27 ستمبر: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تربیع کا زاویہ ، سفر میں التوا یا سفر کے دوران میں مشکلات کی نشان دہی کرتا ہے، آپ کو اپنے اعلیٰ افسران کی طرف سے ناجائز دباو ¿ کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
29 ستمبر: عطارد اور مشتری کے درمیان تسدیس کا زاویہ سعد اثر رکھتا ہے،بہت سے رکے ہوئے کام آگے بڑھ سکیں گے اور سفر سے متعلق مسائل حل ہوں گے، ضروری معلومات کا حصول آسان ہوگا۔

قمر در عقرب

قمر اپنے درجہ ءہبوط پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 3 ستمبر صبح 07:54 am سے 09:34 am تک رہے گا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 02:54 am سے 04:34 am تک ہوگا، دیگر ممالک میں رہنے والے افراد اپنے ملک کا پاکستان یا جی ایم ٹی ٹائم سے فرق معلوم کرکے درست وقت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
قمر در عقرب ایک نحس وقت ہے اس وقت کوئی نیا کام شروع نہیں کرنا چاہیے،اپنے ہبوط کے برج عقرب میں قمر اگرچہ پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 03 ستمبر کو صبح 04:34 am پر داخل ہوگا اور 5 ستمبر 08:07 am تک رہے گا، یہ تمام وقت نحوست اثر ہے لیکن خصوصی عملیات وغیرہ کے لیے وہی وقت زیادہ بہتر ہوگا جو درجہ ءہبوط کا ہے، اس وقت بندش ، رکاوٹ اور بری عادتوں یا بیماریوں وغیرہ سے نجات کے لیے عملیات کیے جاتے ہیں۔

شرف قمر

قمر اپنے درجہ ءشرف پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 17 ستمبر کو 07:28 pm سے 09:27 pm تک رہے گا، یہ سعد وقت ہے اور اس وقت جائز ضروریات کے لیے نیک اعمال کیے جاسکتے ہیں، جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق قمر شرف کے درجے پر 02:28 pm سے 04:28 pm تک ہوگا، اس موقع پر اسمائے الٰہی یا رحمن یا رحیم کا ورد 556 مرتبہ اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ کرکے اپنے جائز مقصد کے لیے دعا کریں۔

شرف عطارد

سیارہ عطارد کو اپنے ذاتی برج سنبلہ میں شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے، 29 اگست کو عطارد برج سنبلہ میں داخل ہوا ہے، 15 درجہءسنبلہ پر اسے شرف ہوتا ہے، ستمبر میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق سیارہ عطارد 15 درجہ سنبلہ پر 5 ستمبر شام 05:04 pm پر پہنچے گا اور 6 ستمبر صبح 05:44 am تک شرف یافتہ رہے گا۔
شرف عطارد کے موقع پر لوح عطارد نورانی ، خاتم عطارد اور دیگر الواح و نقوش تیار کیے جاتے ہیں، امتحان میں کامیابی، سفر کی مشکلات کو دور کرنے، حافظے کی بہتری ، تعلیمی امور میں دلچسپی اور خاص طور پر علم ریاضی میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے لوح عطاد یا خاتم عطارد فائدہ بخش ثابت ہوتی ہے، اس سلسلے میں مزید رہنمائی کے لیے ہماری ویب سائٹ www.maseeha.com پر علم جفر کا لنک دیکھ سکتے ہیں۔

ہبوط زہرہ

سیارہ زہرہ کا تعلق توازن ، ہم آہنگی ، محبت، دوستی، شادی اور ازدواجی زندگی کی خوشیوں سے ہے،وہ لوگ جن کے زائچوں میں سیارہ زہرہ کی پوزیشن اچھی ہوتی ہے، ان تمام معاملات میں خوش بخت ثابت ہوتے ہیں، اس مہینے زہرہ اپنے برج ہبوط سے گزرے گا، بہ حساب یونانی 21 اگست سے 14 ستمبر تک برج سنبلہ میں قیام کرے گا جب کہ ویدک سسٹم کے مطابق زہرہ کا برج سنبلہ میں قیام11 ستمبر سے 5 اکتوبر تک ہوگا، گویا یہ تمام عرصہ شادی بیاہ اور محبت و دوستی کے معاملات کے لیے مناسب نہیں ہے، محتاط رہنے کا مشورہ ہے، اس وقت میں اگر کوئی تعلق یا منگنی بھی قائم ہو تو پائیدار ثابت نہیں ہوگی۔
زہرہ اپنے درجہ ءہبوط پر پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 11 ستمبر 01:23 pm سے 12 ستمبر 08:43 am تک رہے گا،یہ وقت عملیات جفر کے لیے موزوں ہے، اس وقت نحس عملیات کیے جاتے ہیں، عورت و مرد کے درمیان جدائی، کسی بدکار عورت کو سزا دینا یا اسے بدکاری سے روکنے کے لیے عمل ، دو افراد کے درمیان جدائی اور نفاق پیدا کرنا وغیرہ۔
ہم عام طور پر اس قسم کے عملیات سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ لوگ جذبات میں اندھے ہوکر ، دوسروں کو ناجائز طور پر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، بہر حال مناسب وقت کی نشان دہی کردی گئی ہے، کسی انتہائی جائز معاملے میں مزید رہنمائی کے لیے براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔

جمعہ، 16 اگست، 2019

اُمت پہ تِری آکے عجب وقت پڑا ہے

بھارت و پاکستان کے درمیان جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے

کشمیر میں بھارتی کارروائی درحقیقت پاکستان کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے، ہم دونوں ملکوں کے زائچوں کی روشنی میں تازہ صورت حال کی وضاحت اپنے گزشتہ کالم میں کرچکے ہیں، پاکستان بلاشبہ خاصی حساس پوزیشن میں آچکا ہے، پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہے، کسی بھی تصادم کے لیے تیار ہے، اقوام متحدہ سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے اور دیگر سفارتی ذرائع بھی استعمال ہورہے ہیں لیکن کیا صرف اتنا کافی ہے؟انڈیا کے وزیراعظم کا مذہبی و نسلی جنون ایسے اقدام سے کم ہوجائے گا؟اس کا جواب نہیں میں ہے، پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کو اس سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور اس کا امکان موجود ہے، ایک معتبر ذرائع کے مطابق پاکستانی سفیر بھی اب جنگ کو ناگزیر سمجھ رہے ہیں۔
بھارت اور پاکستان دونوں کے زائچوں میں تیزی سے تبدیل ہوتی سیاروی پوزیشن دونوں ممالک کو جنگ کی طرف لے جارہی ہے، نریندر مودی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہے، شاید پاکستان کو بھی تیار ہونا پڑے گا کیوں کہ عوامی دباو ¿ بڑھ رہا ہے، وہ لوگ بھی جو ہمیشہ جنگ مخالف رہے ہیں، اب جنگ کی باتیں کر رہے ہیں، دونوں ملکوں کے زائچوں میں زہرہ و مریخ جنگ کی آگ کو ہوا دینے والے سیارے ہیں اور زائچے کے چوتھے گھر میں داخل ہوچکے ہیں، اس کا تعلق عوام اور ملک کی داخلی صورت حال سے ہے، اس حوالے سے اگست ، ستمبر اور اکتوبر کے مہینے نہایت حساس اور خطرناک ہیں، بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ جنگ کا آغاز پاکستان کی طرف سے نہیں ہوگا، حالاں کہ بھارت تو آغاز کرچکا ہے، پاکستان سفارتی کوششوں سے اس جنگ کو ٹالنا چاہتا ہے، ہماری دعا ہے کہ جنگ کے شعلے ہمارے ملک سے دور رہیں کیوں کہ ہم بہر حال معاشی طور پر پہلے ہی شدید دباو ¿ میں ہیں 
اے خاصہءخاصان رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تِری آکے عجب وقت پڑا ہے

ہے کہاں تمنا کادوسرا قدم یا رب

اکثر افراد خاص طورسے خواتین جب اپنے نہایت الجھے ہوئے پیچیدہ ترین مسائل ہمیں لکھتے ہیں اور ساتھ میں یہ فرمائش کرتے ہیں کہ خط کا جواب کالم کے ذریعے دیاجائے اورہمارا نام اورخط کالم میں شائع نہ کیاجائے۔ مزید یہ بھی فرمائش ہوتی ہے کہ جواب نہایت تفصیل سے دیاجائے۔
ہم بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اصل نام وپتا ظاہر نہ کیا جائے اور اکثربہت ضروری نہ ہوتو خط اور سوالات شائع کیے بغیر ہی جواب دے دیتے ہیں۔ الجھن اس وقت پیش آتی ہے جب نہایت پیچیدہ مسائل کے حوالے سے تفصیلی جواب طویل ہوتا نظر آئے چونکہ بعض گتھیوں کوسلجھانے کے لیے بہت سے پہلوﺅں پر بات کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگراصل مسائل سے متعلق خط شائع نہ کیاجائے تو ہمارے دیگر پڑھنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ صرف ہمارا جواب پڑھ کر مطمئن نہیں ہوتے کیونکہ مسئلے کی اصل تصویر ان کی نظروں میں واضح نہیں ہوتی اور وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا پورا کالم کسی ایک شخص کومخاطب کرکے لکھ دیاہے‘ حالاں کہ ایسانہیں ہوتا۔ ہم عموماً ایسے ہی خطوط کا تفصیلی جواب لکھتے ہیں جن میں مسائل ایسے ہوں جودوسروں کوبھی پیش آسکتے ہیں یا آتے ہیں ایک ایسا ہی خط اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم نام ومقام ظاہر کیے بغیر خط کے صرف ایسے اقتباسات نقل کررہے ہیں جن سے مسئلے کی نوعیت واضح ہوسکے اورایسااس لیے کررہے ہیں کہ یہ مسائل ہماری کسی ایک بیٹی کے نہیں ہیں بلکہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہزاروں بہنیں ‘بیٹیاں ایسی ہی کسی نہ کسی صورت حال سے دوچار ہیں اوران میں سے اکثر خودکشی یا کسی دوسرے غلط راستے کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوتی ہیں ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔یہ معاملات حکومت کے دائرہ اختیار میں بہرحال نہیں آتے مگران معاملات کے معاشرتی اورمذہبی پہلو ایسے بھی ہیں جن پردانشوران وقت اورعلمائے کرام کووقت کے تقاضوں کے مطابق زبان کھولنی چاہیے۔ 
برسوں پہلے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی جوکہنے کوایک اشتراکی شاعر تھا اپنی ایک نظم میں خواتین پرہونے والے مظالم کے لیے جوفریاد کرگیاہے اس کی گونج ابھی باقی ہے اورا س کی ضرورت بھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
ساحر لدھیانوی نے اپنی شہرئہ آفاق نظم ”چکلے“ کا اختتام مندرجہ ذیل مصرعوں پر کیاتھا۔
مددچاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پشودھاکی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبرکی امت زلیخا کی بیٹی 
ذرا ملک کے رہبروں کوبلاﺅ
یہ کوچے پہ نیلام گھر سب دکھاﺅ
ثناءخوان تقدیس مشرق کولاﺅ
ثناءخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
آئیے!اس خط سے چند چیدہ چیدہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے مگراس سے پہلے ہم آپ کویہ بتاتے چلیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لاتعداد خاندان موجود ہیں جہاں ماں باپ نے بھیڑ بکریوں کی طرح بچوں کے ریوڑ تو پال لیے ہیں اورپال بھی کیا لیے ہیں بس اﷲ کے کرم سے وہ خود ہی جیسے تیسے پل کرجوان ہورہے ہیں۔ ان کی شادیوںکے سلسلے میں انہیں اگرکوئی فکر ہے توصرف اس قدرکے جب اﷲ کی مرضی ہوگی توشادی ہوجائے گی یہ بات کہہ کراکثرلوگ خودکومطمئن کرلیتے ہیں اورپھر اپنے حال میں مست ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اﷲ کی مرضی توہروقت شامل حال ہے۔خود آپ کی مرضی اورموڈ اورآپ کی کوشش اورجدوجہد کی نوعیت کیاہے؟ یہ بھی ایک ایسے ہی خاندان کا قصہ ہے جس میں تقریباً درجن بھربہن بھائی منزل بلوغت کی دہلیز پر کھڑے اپنے آئندہ مستقبل کے بارے میںسوچ رہے ہیں۔ 
انجام گلستاں کیا ہوگا؟
نامعلوم بیٹی لکھتی ہے ”سر‘ہمارے گھر کا یہ حال ہے کہ ہرشاخ پرالو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا۔ میں آپ کوچیلنج کرتی ہوں کہ اگرآپ میں ہمت ہے تو ہمارے گھر کے ماحول میں زیادہ نہیں توکم سے کم 3`2دن گھرکا فرد بن کررہیں۔مجھے یقین ہے آپ دوسرے دن ہی کانوں کوہاتھ لگاکربھاگیں گے۔ آپ مرد ہیں بھاگ بھی سکتے ہیں، مسئلہ تو ہم لڑکیوں کا ہے کہ ہم بھاگ کرکہاںجائیں؟گھرمیں ہروقت ٹینشن ‘ہرلمحہ ایک دوسرے سے توتو میں میں‘نہ بڑے کوچھوٹے کا لحاظ ‘نہ چھوٹے کوکوئی تمیز ‘ماں باپ کی لڑائیاں ‘بہن بھائیوں کے درمیان سخت نفرت اوردلوں میں کدورت ‘ہماری عمریں نکلی جارہی ہیں کوئی پرسان حال نہیں ۔ہم بیٹیاں ہوکراپنی گزرتی عمروں کی طرف ابوامی کی توجہ دلاتے ہیں مگرایک ہی جواب ہے کہ ”بیٹا، اﷲ مالک ہے“۔
پہلے بہت اچھے اچھے رشتے آتے تھے مگرجب گھرکے افرادہی مخلص نہ ہوں توکوئی کیا کرے۔ ان کے آگے بڑی بڑی شرطیں رکھ دی جاتیں تاکہ وہ دوبارہ پلٹ کرہی نہ آئیں۔ بعد میں یہ کہہ دیاجائے کہ یہ لوگ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔اب تویہ حال ہے کہ لوگ جان گئے ہیں کہ اس گھر سے رشتہ ملنا ناممکن ہے۔ 
آپ ایک بات کا جواب مجھے ضرور دیں کہ جب اولاد کوماں باپ خاص کرباپ ان کے جائز حقوق نہ دے نہ ا چھی تعلیم ‘نہ اچھا ماحول اورنہ اچھی تربیت نہ کوئی عزیز دوست۔ نہ ہی سہیلیاں بنانے کی اجازت نہ خاندان میں کہیں جانے کی اجازت ‘نہ کسی شادی میں شرکت کی اجازت‘ حتیٰ کہ مرضی کا کھانا پہننا بھی ناممکن۔ توایسی صورت میں ایسے والدین کا کیا کیاجائے ؟جب کہ بڑے بڑے عالم دین اوراسلامی کتابیں یہی بتارہی ہیں کہ والدین کی خدمت کرو۔ان کے سامنے اف تک نہ کروچاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ میراآپ سے یہ ہی سوال ہے ؟کیا اس کا جواب آپ کے پاس ہے؟
میں توروروکر‘گڑگڑاکراﷲ سے دعائیں کرتی ہوں باقاعدہ تہجد پڑھ کے ہرطریقے سے اﷲ کوراضی کرنے کی کوشش کرتی ہوں اوراس کی ذات سے بالکل مایوس بھی نہیں ہوں مگریہ بتائیں کہ وظیفے کا کیا مطلب ہوتاہے ؟اگرہرکام اپنے وقت پرہی ہونا ہے اور ہرچیز اپنے وقت پرہی ملنی ہے توہم کیوں اس کے حصول کے لیے وظائف کرتے ہیں؟ بہت پہلے ایک بارآپ نے میرے خط کے جواب میں بڑی امیددلائی تھی اورمیںنے ایک وظیفہ بھی کیاتھا مگرابھی تک صورت حال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا جواب ہوگا؟“
جواب؛۔عزیزم‘آپ نے اپنے بہت سے سوالوں کا جواب توخود ہی دے دیاہے۔ مثلاً جس خاندان میں بے حسی ‘نفسانفسی ‘حسد ‘جلن ‘ذاتی مفاد پرستی ‘فرائض سے غفلت ‘محبت اورخلوص کا فقدان‘ رشتوں کی بے توقیری اس حد تک ہووہاں سے اﷲ کی رحمت توپہلے ہی رخصت ہوجائے گی۔ ایسا گھرتوشیطان کی ذریات کے لیے جشن گاہ ہوگا۔ وہاں ایک اکیلا چنا کیا بھاڑپھوڑے گا۔یعنی آپ کی نمازیں‘تہجد اوروظائف اس شیطانی کارخانے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں وہ لوگ جوصاحب اختیار واقتدار ہیں خودغلط روش اپنائے بیٹھے ہیں خصوصاً تمہارے باپ۔
تمہارے اس قصے میں اہم ترین سوال یہی ہے کہ ایسی صورت میں مذہبی نقطہ نظر کیاہوگا؟تم نے کتابوں اورعلما کی باتوں کا حوالہ دیاہے جس میں والدین کی خدمت اوران کاحکم ماننے کوہرصورت میں اولیت دی گئی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے جوتم نے دیکھا یا آج کل دکھایاجاتاہے۔ دوسرے رخ پر یا توکسی کی نظرنہیں جاتی یا شاید مذہب کے اس پہلو کوجان بوجھ کر صرف اس لیے نظرانداز کیاجاتاہے کہ اس سے معاشرے میں افراتفری اوربغاوت پھیلنے کا خطرہ ہے۔ 
مگرہمارا موقف یا ہماراخیال معاشرے کے موجودہ ٹھیکیداروں کی رائے کے برعکس ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ناجائز اورظالمانہ طورپرپروان چڑھنے والی روایات کونظرانداز کرنا دین فطرت کے خلاف عمل ہے جس کے نتائج کبھی بھی اچھے نہیں نکل سکتے۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ شادی اﷲ کے نزدیک ایک پسندیدہ فعل ہے۔ کیونکہ یہ انسانی نفسیات اورمعاشرتی بھلائی کیلئے ایک صحت مند قدم ہے۔ سن بلوغت کوپہنچنے کے بعد جومسائل جنم لے سکتے ہیں شادی ان کا کافی وشافی علاج ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے ارتقائی مراحل کا پہلا زینہ بھی ہے لہٰذا اﷲ اوراس کے رسول نے اس سلسلے میں واضح احکامات دیئے ہیں اوریہ بھی کہاگیاہے کہ اگرتمہارے والدین تمہاری شادی نہ کریں اوراس سلسلے میں رکاوٹ کا سبب بنیں تو تم اپنی شادی خودکرلو۔
آپ نے جوحوالہ دیا ہے کہ ماں باپ غیر مسلم بھی ہوں توان کا حکم ماننے اوران کی خدمت کرنے ‘ان کے سامنے باادب رہنے کاحکم ہے۔ توبے شک یہ درست ہے مگریہ مکمل بات نہیں ہے، مکمل بات یہ ہے کہ اگرآپ کے ماں باپ غیر مسلم یعنی کافر ہیں تویقیناً ان کی خدمت اوران کااحترام توآپ پرفرض ہے مگران کاکوئی ایسا حکم ماننا آپ پرفرض یا واجب نہیں ہے جوآپ کودین سے دورلے جاتاہو اوردین کا مطلب ہے احکامات الٰہی ‘لہٰذا شادی ایک حکم الٰہی ہے۔ سنت نبوی ہے اگرآپ محسوس کررہے ہوں کہ آپ کے والدین یا کوئی بھی اس معاملے میں رکاوٹ ڈال رہاہے اورآپ کواس فریضے کی ادائیگی سے روک رہاہے تو آپ اس کی بات ماننے کے پابندنہیں ہیں بلکہ اپنے طورپر مناسب فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ عاقل وبالغ ہوں۔
مسئلے کے اس حصے کواس لیے فروغ نہیں دیاجاتاہے کہ اس طرح نوجوان لڑکے لڑکیاں پسند کی شادی اورماں باپ سے بغاوت کی راہ پرچل پڑیں گے۔حالانکہ پسند کی شادی اورمحبت کی نادانی کے کھیل بلاشبہ اس صورت میں قطعاً ناجائز ہیں جس میں لڑکیاں اپنے شریف اورذمہ دار محبت کرنے والے ماں باپ کی عزت اچھالتی نظر آتی ہیں یالڑکے اپنے ماں باپ ‘بہن بھائی اوردیگراہل خانہ سے منہ موڑ کرمحبت کی شادی رچالیتے ہیں اورپھرپلٹ کربوڑھے ماں باپ کی خبربھی نہیں لیتے لیکن جہاں صورت حال ایسی ہوجس کا آپ نے اظہار کیا ہے کہ لڑکیاں لڑکے جوانی کی دہلیز پار کرکے بڑھاپے کے ویران وسنسان صحرا میں داخل ہورہے ہوں اوروالدین اپنی ہی مستی میں مست ہوں،اپنے خودساختہ اصول وقواعد اورطورطریقوں پربضد ہوں تویہ توکھلی ہوئی دین فطرت کی خلاف ورزی ہے۔
ہمارے پاس اکثرآپ جیسی بے شمار لڑکیاں آتی رہتی ہیں جن کی عمریں 40`35تک پہنچ جاتی ہیں۔ اورشادی نہ ہونے کی وجہ کچھ ان کی غلط سوچ اورحماقیتں ہوتی ہیںاورکچھ ان کے گھروالوں کی۔ رہا سوال وظائف کی اثرپذیری کا توعزیزم‘ہم کئی باران ہی کالموں میں اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ روحانی مدد بھی ان ہی لوگوں کوملتی ہے جو مادی طورپر اپنا راستہ درست رکھتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص قابل ترین ڈاکٹر سے عمدہ ترین دوائیں لاکر کھارہاہواور ساتھ میں ایسی اشیا بھی استعمال کررہاہوجن سے پرہیز لازم تھا اورپھروہ کہے کہ مجھے دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسی مثالیں اکثرہمارے سامنے آتی رہتی ہیں جس میں روحانی مدد کے طالب افراد مادی طورپر وہ کچھ نہیں کررہے ہوتے جوانہیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے کرناچاہیے یا مادی طورپر موجودہ رکاوٹوں کودور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہے ہوتے۔اگرکسی ظالمانہ ماحول یا نظام میں پھنسے ہوئے ہیں تواسی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ بے شک دل سے اورزبان سے اس کے مخالف ہوتے ہیں لیکن عملی طورپراس سے نکلنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔بے شک ہماری خواتین اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی مجبوراوربے بس ہوتی ہیں لیکن ہم نے تویہ بھی دیکھا ہے کہ مرد حضرات بھی ایسی صورت حال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایک صاحب ہمارے پاس آئے جن کی عمرتقریباً42`40سال تھی اوروہ اس لیے پریشان تھے کہ اب تک ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اوراس کی وجہ ان کے گھروالے تھے جوگزشتہ دس بارہ سال سے ان کے لیے لڑکی ڈھونڈنے میں مصروف تھے مگرکہیں بات بن ہی نہیں رہی تھی الغرض ایسی بے شمار مثالیں معاشرے میں موجود ہیں لیکن اکثریت لڑکیوں کی اس عذاب میں مبتلاہے کیونکہ وہ اگراپنے طورپرکوئی کوشش کرناچاہیں توہمارا معاشرہ ایک طوفان کھڑا کردیتاہے اوران پر ایسے ایسے گندے الزامات لگائے جاتے ہیں جنہیں بیان کرنا ضروری نہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ بے چاریاں کیاکریں؟ ہمارے خیال میں تواس وقت تک ایسے مظلوموں کے لیے کوئی راستہ نہیں نکل سکتا جب تک معاشرتی روایات کووقت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
آپ نے اپنے خط میں جس صورت حال کی نشاندہی کی ہے اس میں وظائف اگراپنا کوئی اثردکھائیں بھی تو اس کانتیجہ کیا نکلے گا۔ یہی ناکہ آئے ہوئے رشتوں کوبھی مختلف بہانوں سے واپس کردیاجائے گا۔ جیساکہ خودآپ کے بقول پہلے بھی یہی ہوا۔ لہٰذا وظائف کوالزام دیناکسی صورت جائزنہیں۔ آپ کے مسئلے میں توویسے بھی ایک پیچ یہ بھی پڑا ہواہے کہ پہلے بڑی بہنوں کی شادی ہوتوپھرکہیں آپ کانمبرآئے گا۔
جیسی صورت حال کی آپ نے نشاندہی کی ہے اس میںہم اس بات کوبہترسمجھتے ہیں کہ لڑکیاں گھرمیں بیٹھنے کے بجائے اپنا کوئی کرئر بنانے پرتوجہ دیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ وہ مالی طورپر بہترپوزیشن میں آجاتی ہیں بلکہ ان کے ذاتی اعتماد میں بھی اضافہ ہوجاتاہے اوران میں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی ہمت وجرا ¿ت پیدا ہوتی ہے۔ خصوصاً ملازمت پیشہ لڑکیاں اس طرح اپنے اہل خانہ کے علاوہ بھی اپناایک حلقہ شناسائی پیدا کرلیتی ہیں اورجب معاشرتی میل جول بڑھتاہے تومناسب رشتوں کاحصول بھی آسان ہوجاتاہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آرہاہے کہ ایسی صورت حال میں پھنسی ہوئی لڑکیاں اپنے کرئر کے لیے بھی اس لیے کچھ نہیں کرپاتیں کہ گھرکے جاہل اور جابرسربراہ مذہب اورغیرت کے نام پر انہیں گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتے، ان غیرت مندوں کی غیرت صرف اسی حوالے سے زیادہ جوش میں آتی ہے کہ ہمارے خاندان میں عورت کا ملازمت کرنابے عزتی کی بات ہے اوراس حوالے سے انہیں مذہب کی بھی بہت سی روایات یاد آنے لگتی ہیں لیکن جوظلم وہ ان جیتی جاگتی زندہ جانوں پرکررہے ہوتے ہیں اس کا گناہ انہیں کبھی محسوس نہیں ہوتا۔ نہ اس حوالے سے کوئی قرآنی حکم یا مذہبی روایات انہیں یاد آتی ہےں۔ ہاں ‘ہنگامہ اس وقت برپا ہوتاہے جب کوئی باغی یا سرکش لڑکی بالآخر کوئی سہارا ڈھونڈکرخاموشی سے اس کے ساتھ گھرسے نکل جائے۔ 
تمہیں ہم کیا مشورہ دیں اورتمہارے لیے کون ساعمل یا وظیفہ تجویز کریں صرف ایک ہی بات ایسی ہے جوتمہارے تمام مسئلوں کا حل ہے۔ اگرتم نے اس پرعمل کیا تویقیناً ایک نہ ایک دن اپنے سارے مسائل سے نجات پاجاﺅگی اوروہ یہ ہے کہ ان باتوں پرکبھی سمجھوتا نہ کروجوفطری اصولوں کے خلاف نظرآتی ہےں، خواہ اس مزاحمت کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ باقی تم نے ہم سے اپنے زائچے اوردیگر معاملات میں مدد کی جودرخواست کی ہے ،اس سے ہمیں انکارنہیں ہے،ہم جوکچھ کرسکتے ہیں ضرور کریں گے۔





ہفتہ، 10 اگست، 2019

بھارتی جنون اور کشمیر پر جابرانہ قبضے کی کوشش

امریکی جنگ جویانہ فطرت دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے قریب لے آئی

مذہبی جنون بھارت میں اپنی آخری حدوں کو چھورہا ہے اور ایک ایسی سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہے جو ابتدا ہی سے مذہبی انتہا پسندی کے لیے مشہور ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی 2014 ءمیں برسراقتدار آئی تھی لیکن اسمبلی میں اسے ایسی واضح اکثریت نہیں مل سکی تھی کہ وہ اپنے انتہا پسندانہ نظریات پر پوری طرح عمل درآمد کرسکے، 2019 ءکے انتخابات میں اسے یہ موقع حاصل ہوگیا ہے چناں چہ وزیراعظم نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر پر ایک سخت وار کرنے کا موقع مل گیا اور انھوں نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی بین الاقوامی شناخت ختم کردی ہے، اس آرٹیکل کے تحت جو سابق بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے باہمی مذاکرات کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی، وہ بھارت کا حصہ نہیں تھا بلکہ ایک آزاد ریاست تھی، اس کا اپنا پرچم تھا، اپنی خود مختار قومی اسمبلی تھی، خیال رہے کہ 1947 ءمیں بھی کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر برصغیر کے نقشے میں نمایاں تھا، یہاں مسلم آبادی اکثریت میں تھی لیکن حکومت ایک ہندو راجا کی تھی، مسلم اکثریت چاہتی تھی کہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کرے لیکن ہندو راجا اس کے لیے تیار نہیں تھا، اس نے اپنے طور پر بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا مگر یہ شرط قائم رکھی کہ کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، چناں چہ 26 اکتوبر 1947 ءکو بھارتی فوجیں اس کی دعوت پر کشمیر میں داخل ہوگئیں اور اس طرح بھارت جابرانہ طور پر کشمیر پر قابض ہوگیا۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر فوجی مداخلت کی کوشش کی لیکن اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا، وہ براہ راست برطانیہ کے زیر اثر تھا اور اس وقت تک دونوں نوزائیدہ ممالک بھارت اور پاکستان پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، برطانوی اثرورسوخ حاوی تھا، بھارت میں برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماو ¿نٹ بیٹن بھارتی مفادات کی نگرانی کر رہا تھا۔
یہ تنازع بالآخر اقوام متحدہ تک پہنچ گیا جو بھارتی مفاد کے خلاف تھا، چناں چہ بھارت نواز مسلم لیڈر شیخ عبداللہ کو بھارتی وزیراعظم نہرو نے اس بات پر راضی کرلیا کہ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دے دی جائے، اس طرح مسلم لیڈر شیخ عبداللہ کی حکومت قائم ہوگئی اور نہرو کو یہ بہانہ مل گیا کہ مسلم اکثریتی علاقے میں ایک مسلم حکومت قائم ہے جو اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔
پاکستان نے بھی اپنے زیر اثر کشمیری علاقے میں ایک علیحدہ ریاست قائم کردی جو آزاد کشمیر کہلاتی ہے، اسے بھی خصوصی حیثیت حاصل ہے، اس کا پرچم ، اسمبلی اور حکومت کا سربراہ الگ ہے لیکن یہ تنازع گزشتہ 70 سال سے بھارت و پاکستان کے درمیان جاری ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوچکی ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
نریندر مودی نے اس آرٹیکل کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کرنے کی جو کارروائی کی ہے یہ اگرچہ خود بھارت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگی لیکن پاکستان کے لیے بھی ایک تکلیف دہ عمل ہے،کشمیری مسلمان مسلسل ظلم و زیادتی کا شکار ہورہے ہیں، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے، پورے کشمیر کو فوجی چھاو ¿نی بنادیا گیا ہے اور کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، انٹرنیٹ یا ٹیلی فون کی سہولت منقطع کردی گئی ہے۔
عزیزان من! ہم نے شروع سال ہی میں موجودہ سال 2019 ءکے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ سال ایک نہایت غیر معمولی سال ہے، ”آفاتِ ارضی و سماوی اور اختلافات و جنگ و جدل کا سال “چناں چہ آج دنیا بھر میں صورت حال کچھ ایسی ہی ہے، ہم نے لکھا تھا ”جون 2019 ءسے 17 اگست 2019 ءتک نہایت ہی حساس اور خطرناک وقت ہوگا، اس وقت میں تیسری عالمی جنگ کے آغاز کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے، اس وقت کے عالمی لیڈر صورت حال کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں، اس پر مستقبل کے نئے منظر نامے کا انحصار ہوگا، کیا کوئی ہٹلر ٹائپ شخصیت جنگ کے شعلوں کو ہوا دے گی یا کوئی چرچل ، ڈیگال یا روز ویلٹ ٹائپ کردار صورت حال کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگا، نریندر مودی ، مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ، بشارالاسد، کم جون آف کوریا، جنرل عبدالفتح السیسی نمایاں طور پر جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والے لیڈر ہوسکتے ہیں جب کہ طیب اردوان ، ولادی میر پیوٹن، چینی صدر اور عمران خان کا کردار مصالحانہ ہوسکتا ہے“ 
ایک طرف ایران اور امریکا تنازع جاری ہے جو اب خاصی پیچیدہ نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے، دوسری طرف بھارت نے یہ نیا شگوفہ کھلادیا ہے، تیسری جانب پہلے سے جاری چین اور امریکا محاذ آرائی اس سال لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہے، چین کا سی پیک منصوبہ بھی امریکا کی نظر میں کھٹک رہا ہے، دنیا بھر میں ایک نئی صف بندی ہورہی ہے جس کا مرکزی کردار بہر حال امریکا ہے، امریکی زائچے میں ایسے عوامل موجود ہیں جو اس کی جنگ جویانہ فطرت کی نشان دہی کرتے ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالم گیر جنگ سے آج تک امریکی فوجیں ہمیشہ کسی نہ کسی تنازع میں ملوث نظر آتی ہیں، گزشتہ 19 سال سے امریکا افغانستان میں محاذ آرائی کرتا رہا ہے اور اب اس کی سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ افغان قوم کو غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نئے محاذ بھی کھول رہا ہے،خصوصاً ایران، چین اور شمالی کوریا اس کا ہدف ہےں، شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں بھی امریکی مداخلت موجود ہے، یہاں اس کی محاذ آرائی روس سے ہے۔
ایک اور محاذ ایشیا میں جنوبی یمن اور سعودی عرب کے درمیان گرم ہے، گویا 2019 ءکا سال پوری دنیا میں کسی نہ کسی محاذ آرائی کے حوالے سے اہمیت اختیار کرچکا ہے جس کا نتیجہ بالآخر کسی عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اگرچہ خاصی پرانی ہے لیکن کشمیر کی نئی صورت حال دونوں ملکوں کو بہر حال کسی خطرناک جنگ تک لے جاسکتی ہے جس کا امکان روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے، خصوصی طور پر بھارت کے زائچے کی روشنی میں۔
2015 ءمیں ہم نے اس صورت حال کی نشان دہی کی تھی اور بتایا تھا کہ بھارتی زائچے میں قمر کا دور اکبر شروع ہوچکا ہے جو زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم اور اسی گھر میں موجود ہے، زائچے کا تیسرا گھر کوشش ، پہل کاری، جدوجہد اور رجحانات کو ظاہر کرتا ہے، بدقسمتی سے قمر پر ساتویں گھر کے قابض کیتو کی قریبی نظر ہے کیتو کا تعلق انتہا پسندانہ فیصلوں، اقدام اور رجحانات سے ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ 2015 ءکے بعد سے انڈیا میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان نہایت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آج کل اپنے عروج پر ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ کامیابی بھی کسی متشدد رجحان کا سبب ہے، بھارت جو کبھی ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر مشہور تھا، اب ہندو نظریاتی ریاست بن چکا ہے۔
بھارتی زائچے میں کثرت سیارگان تیسرے گھر میں ہے ، قمر کے علاوہ عطارد ، شمس، زہرہ اور زحل بھی اسی گھرمیں ہےں، شمس کی قربت کے سبب سیارہ زحل اور زہرہ غروب ہیں، سیارہ مریخ زائچے کے دوسرے گھر میں دوسرے ، پانچویں، آٹھویں اور نویں گھر سے ناظر ہے، گویا شدت پسندانہ نظریات اور رجحانات پیدائشی طور پر بھارت کو ملے ہیں، شاید اسی وجہ سے بھارت کے قیام کے فوری بعد ایک شدت پسند نے تحریک آزادی کے اہم رہنما گاندھی کو قتل کردیا تھا، قاتل کا تعلق ایک انتہا پسند جماعت سے تھا جو ”اکھنڈ بھارت“ کا نعرہ لگاتی ہے اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے سیاسی کرئر کی ابتدا اسی جماعت آر ایس ایس سے کی تھی، تحریک آزادی کے اہم رہنما گاندھی کا قاتل اس جماعت اور موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہیرو ہے۔
راہو کیتو بھارت کے زائچے میں شرف یافتہ ہےں، قمر کے دور اکبر میں گیارہ اگست 2018 ءسے سیارہ مشتری کا دور اصغر جاری ہے جو اس سال گیارہ دسمبر کو ختم ہوگا، سیارہ مشتری بھارتی زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں بھارتی رویہ اور اقدام منفی ہیں، مصالحت ، امن اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کے بجائے مودی حکومت مسلسل محاذ آرائی اور نفرت کو فروغ دے رہی ہے، پاکستان کے خلاف مودی حکومت گزشتہ کئی سالوں سے سازشوں میں مصروف ہے، اس کا ثبوت بلوچستان سے گرفتار کیا جانے والا جاسوس کلبھوشن ہے، یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچستان کے باغیوں کی سرپرستی بھارتی خفیہ ایجنسی را کر رہی ہے ، دوسری طرف افغانستان میں بھی بھارت اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے، پاکستان کی مصالحانہ اور امن پسندانہ کوششوں کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے، کشمیری عوام کی آزادی کی کوششوں کو کچلنے کے لیے پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کی کوششیں کر رہا ہے، یہ سب اسی لیے ہے کہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط مستقل بنیادوں پر قائم کیا جائے۔
جولائی کے آخر سے سیارہ مشتری اپنی ٹرانزٹ پوزیشن میں ساتویں گھر میں تقریباً 21 درجے پر اسٹیشنری پوزیشن پر ہے اور اسی دوران میں دیگر سیارگان شمس، زہرہ، مریخ اور عطارد بھی تیسرے گھر سے گزر رہے ہیں، گویا پیدائشی سیاروں سے ناظر ہیں اور مشتری سے بھی نظر بنارہے ہیں لیکن خاص طور پر مشتری کی نظر زحل اور زہرہ سے 23 جولائی تا یکم ستمبر قائم ہے، یہی وہ صورت حال ہے جس نے نریندر مودی کو اس وقت ایک نامناسب فیصلہ کرنے پر آمادہ کردیا ہے جس کا آئندہ انتہائی خطرناک نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے چوتھے گھر میں داخل ہوگا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پاکستان سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی بھارت کا امیج خراب ہوگا اور داخلی طور پر بھی بھارت میں بے چینی اور مخالفت کی لہر شدت اختیار کرے گی، بے شک اپنی پارٹی کی اکثریتی پوزیشن کے باعث اور ملک میں بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ مذہبی رجحانات کے سبب نریندر مودی یہی سوچتے اور سمجھتے رہے کہ ایک درست سمت میں جارہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو، خصوصاً اس وقت جب 11 دسمبر 2019 ءسے قمر کے دور اکبر میں سیارہ زحل کا دور اصغر شروع ہوگا اور جولائی 2021 ءتک جاری رہے گا، جب کہ آئندہ جنوری کے بعد سے سیارہ زحل بھی برج جدی میں داخل ہوگا، زحل کی برج جدی میں موجودگی آنے والے سالوں میں نچلے طبقے کے عوام میں زندگی کا بہتر شعور پیدا کرے گی اور انتہا پسندانہ سوچ میں کمی لائے گی۔
نریندر مودی کے انتہا پسندانہ اقدام ان کی زندگی کے لیے بھی خطرات کا باعث ہوسکتے ہیں، آئندہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ بھی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی کی طرح کسی حملے کا شکار ہوں۔
جہاں تک بھارت میں مذہبی جنون اور شدت پسندانہ رجحانات کا معاملہ ہے تو یہ لہر ستمبر 2025 ءتک جاری رہے گی اور اس دوران میں ملک مکمل طور پر ایک ہندو ریاست نظر آئے گا، اس لہر کی انتہا دسمبر 2022 ءسے مارچ 2026 ءتک نظر آتی ہے اور یہی وہ وقت ہوگا جب بھارت میں انتشار اور علیحدگی پسندانہ رجحانات بھی عروج پر ہوں گے، گویا بھارت کے کئی حصوں میں تقسیم ہونے کا وقت شروع ہوجائے گا۔
بھارت کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مختلف ریاستوں میں تقسیم رہا ہے، کبھی کبھی کسی طاقت ور بادشاہ کا دور ضرور ایسا آیا ہے جب پورے ملک میں طویل عرصہ اس کی حکومت رہی ہو لیکن بحیثیت مجموعی ہمیشہ ہندوستان مختلف ریاستوں میں تقسیم رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

زائچہ ءپاکستان

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھی خاصے طویل عرصے سے چوں کہ زائچے کے سب سے منحوس سیارے مشتری کے دور اکبر سے گزر رہا ہے اور اس دور کا آغاز دسمبر 2008 ءسے ہوا تھا اور اختتام 29 نومبر 2024 ءکو ہوگا، اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کی آفات اور مشکلات کا آغاز اسی دور میں نظر آتا ہے، وہ مہنگائی کا طوفان ہو ، بجلی کا بحران ہو، معیشت کی تباہی ہو یا کرپشن کی انتہا ہو ، دیگر ممالک سے محاذ آرائی اور تعلقات کی خرابی ہو الغرض ہر قسم کی خرابیاں اس دور میں موجود ہیں جن کا بدترین نتیجہ بہر حال عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے،اگرچہ کہنے کو ہم ایک جمہوری دور میں داخل ہوچکے تھے، جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی، اسی دور میں اُسامہ بن لادن کا واقعہ بھی پیش آیا ، اسی دور میں میموگیٹ اسکینڈل بھی سامنے آیا، ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی ، بعد ازاں جناب نواز شریف 2013 ءمیں وزیراعظم بنے اور ن لیگ برسراقتدار آئی ، حالات و واقعات مزید بگڑتے چلے گئے جن کے نتیجے میں ملک مزید مصائب و مشکلات کا شکار ہوا، گویا ایک طویل تسلسل سے ہم روز بہ روز نت نئی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔
تحریک انصاف نے گزشتہ سال اگست میں اقتدار سنبھالا تو سابقہ خرابیوں کا تسلسل اسے ورثے میں ملا،وزیراعظم عمران خان مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں لیکن مسائل کا پہاڑ سامنے کھڑا ہے، اس پر طرفہ تماشا اپوزیشن کا جارحانہ طرز عمل ہے کیوں کہ عمران خان اپوزیشن سے کوئی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ ماضی میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانیوں کا حساب چاہتے ہیں، یہ صورت حال عمران خان کو بیک وقت اندرونی اور بیرونی محاذوں پر زیادہ بڑے چیلنج دے رہی ہے جس میں ان کی زندگی کے لیے بھی خطرات موجود ہیں۔
زائچہ ءپاکستان 20 دسمبر 1971ءکے مطابق پاکستان مشتری کے دور اکبر میں اب سیارہ شمس کے دور اصغر سے گزر رہا ہے جو زائچے کے آٹھویں گھر میں کمزور پوزیشن رکھتا ہے،یہ چوتھے گھر کا حاکم ہے ، اس کا تعلق عوام اور اپوزیشن سے ہے، آٹھویں گھر میں موجودگی بہر حال عوامی اور اپوزیشن کی مشکلات کا باعث ہے لیکن اس حوالے سے حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، شمس کا دور اصغر آئندہ سال جنوری تک جاری رہے گا، اس کے بعد قمر کا دور اصغر شروع ہوگا ، قمر زائچے میں تیسرے گھر کا حاکم ہوکر نویں گھر میں اچھی جگہ واقعہ ہے، البتہ چھٹے گھر کے حاکم زہرہ سے ایک قریبی قران رکھتا ہے،قمر کا دور یقیناً ملک اور قوم کے لیے بہتر نتائج لائے گا۔
زائچے میں سیارگان کی ٹرانزٹ پوزیشن بھی سپورٹنگ نہیں ہے، جولائی سے کثرت سیارگان تیسرے گھر میں رہی، گویا نویں گھر میں موجود قمر زہرہ اور کیتو سے اہم نظرات قائم ہوئیں، جولائی کے آخر سے مشتری کی مستقیم پوزیشن ساتویں گھر میں پیدائشی عطارد اور مشتری پر اثرانداز ہورہی ہے جس کے خراب اثرات میڈیا پر زیادہ سخت ہیں، دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اس سال شروع ہی سے کیتو کے ساتھ حالت قران میں ہے، یہ صورت حال ملکی تجارت، ساکھ، وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے لیے بہتر نہیں ہیں لہٰذا مارچ سے تاحال ہم حکومت کو مسلسل مشکلات کا شکار دیکھ رہے ہیں، اس صورت حال میں بہتری اکتوبر کے بعد شروع ہوگی اور مکمل طور پر آئندہ سال جنوری کے بعد۔
جولائی ہی سے اکثر سیارگان زہرہ، عطارد اور مریخ غروب حالت میں ہیں گویا اگست و ستمبر میں بھی کسی نمایاں بہتری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جہاں تک انڈیا سے تعلقات کی خرابی اور جنگ جیسے نتائج کا سوال ہے تو فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آتا لیکن اس امکان کو مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ غیر اعلانیہ طور پر بھارت نے جنگ کی سی صورت حال پیدا کردی ہے، پاکستان اسے نظرانداز نہیں کرسکتا لیکن اپنی طرف سے وہ کوئی پہل بہر حال نہیں کرے گا، اس کا امکان بھی بھارت ہی کی طرف سے ہے جس نے پاکستان کو نئے مسائل سے دوچار کیا ہے،بھارت و پاکستان کے درمیان کسی نئی جنگ کا امکان اس صورت میں ممکن نظر آتا ہے جب یہ دونوں ملک دنیا کی سپر پاورز کی محاذ آرائی میں اپنا کوئی کردار ادا کریں گے۔
تازہ صورت حال میں بعض جذباتی لوگ بھارت سے کوئی نئی جنگ چھیڑنے کے لیے بھی تیار نظر آتے ہیں لیکن ایسا کرنا غلط ہوگا، بھارت نے جو کچھ کیا ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہوگا ، وہ ایک مسلم اکثریتی علاقے کو فلسطین بناکر اس کی نسل کشی نہیں کرسکتا، آگے چل کر بھارت کی دیگر ریاستیں بھی بھارتی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوکر احتجاج کرسکتی ہیں، چناں چہ پاکستان کو بیرونی سطح پر اور اندرونی سطح پر مستقبل کے لیے نہایت دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت اس کوشش میں کامیابی حاصل کرے۔

ہفتہ، 3 اگست، 2019

نام اور تاریخ پیدائش کے اختلافی پہلو

صرف نام کے ذریعے دو افراد کے درمیان موافقت معلوم کرنا معتبر نہیں

پاکستان میں سیاست کے رنگ ڈھنگ نہایت ہی عجیب مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے پاکستان میں ایسی پیچیدہ صورت حال کبھی دیکھی نہ گئی ہو، پہلے بھی ایسے اُتار چڑھاو ¿ آتے رہے ہیں، البتہ اس بار صورت احوال میں ایک نیا رنگ احتساب کا بہت نمایاں ہے، ملکی سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی ماضی میں جو کچھ کرتی رہی ہے، اس پر نہایت سختی کے ساتھ گرفت کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے، بڑے بڑے کرپشن اور بدعنوانیوں کے کیس سامنے آرہے ہیں، اپوزیشن جماعتیں اس صورت حال کو انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہےں،نتیجے کے طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے، جوابی کارروائی کے طور پر اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی جو تازہ خبر کے مطابق ناکام ہوگئی، یہ بھی ایک حیرت انگیز خبر ہے کیوں کہ سینٹ میں اکثریت بہر حال اپوزیشن کو حاصل ہے پھر یہ چمتکار کیسے ہوا؟
دوسری طرف مولانا فضل الرحمن اکتوبر میں اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کرچکے ہیں، قصہ مختصر یہ کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معرکہ آرائی عروج پر ہے، دوسری طرف ملک میں مہنگائی کا طوفان روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے۔
عزیزان من! شاید آپ کو یاد ہو کہ ہم نے جب وزیراعظم عمران خان کے زائچہ ءحلف پر اظہار خیال کیا تھا تو نشان دہی کی تھی کہ مئی کے بعد زائچے میں سیارہ مریخ کا دور اصغر شروع ہوگا جو نہایت ہی طاقت ور اور موافق اثر ظاہر کرے گا کیوں کہ مریخ زائچے میں رچاکا یوگ بنارہا ہے، اس یوگ کے زیر اثر طاقت اور قوت کا بھرپور اظہار سامنے آتا ہے، صاحب زائچہ کا مزاج جمہوری نہیں رہتا بلکہ کچھ آمرانہ رنگ ڈھنگ سامنے آتے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم کا موڈ مزاج کچھ ایسا ہی رُخ اختیار کر رہا ہے اور وہ ہر سطح پر اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پر آمادہ نظر آرہے ہیں، بعض اطلاعات کے مطابق انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھی سخت رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے، ایسی صورت حال بہر حال مثبت نہیں ہوتی اور تصادم کی فضا ملک میں انتشار اور بے چینی لاتی ہے، ہمارے خیال میں یہی صورت حال بدستور اکتوبر تک جاری رہے گی لیکن اس کے بعد حالات نئی کروٹ لیں گے مگر اس وقت تک شاید بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوگا ، اگست اور ستمبر کے مہینے خاصے جارحانہ فیصلوں اور اقدام کی نشان دہی کر رہے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)
ہمیں اکثر اس مسئلے کا سامنا رہتا ہے جب لوگ دو افراد کے بارے میں موافقت اور ناموافقت کے حوالے سے سوال کرتے ہیں اور اکثریت اس حوالے سے دونوں فریقین کے ناموں کو ہی کافی سمجھتی ہے یا زیادہ سے زیادہ والدہ کا نام بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے جب کہ تاریخ پیدائش کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور صرف اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ دونوں کے نام سے ستارہ ملا دیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں نے دونوں کے نام کے حوالے سے یہ رائے دی اور فلاں فلاں نے فرمایا ہے کہ دونوں میں سے ایک کا نام بدل دیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہی صورت حال بچوں کے ناموں کے سلسلے میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کوئی بچہ زیادہ شریر ہے یا تعلیم میں کمزور ہے یا کسی سخت بیماری میں مبتلا ہے تو فوراً والدین یا خاندان کے کسی سیانے کا ذہن اس کے نام کی طرف جاتا ہے اور پھر کسی بزرگ یا مولانا یا ماہر جفر و نجوم سے مشورہ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر فوراً ہی یہ فتویٰ مل جاتا ہے کہ نام درست نہیں ہے یا ”بھاری“ ہے وغیرہ وغیرہ لہٰذا نام تبدیل کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں تاریخ پیدائش کو قطعی طور پر نظر انداز کر کے محض سنی سنائی باتوں پر قیاس آرائی کی جاتی ہے اور اس قیاس آرائی میں ایسی ایسی جاہلانہ کہاوتیں، ٹوٹکے یا شگون کی باتیں مروج ہیں کہ اگر ان خرافات کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے تو علیحدہ سے ایک کتاب مرتب ہو جائے گی۔
ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ علم نجوم سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے یا محض واجبی سی واقفیت رکھتے ہیں ”جیسا کہ اس علم سے واقفیت کے اکثر دعویداروں کا حال ہے“ تو وہ تاریخ پیدائش کو نظر انداز کر کے اپنا کام محض نام کی بنیاد پر چلاتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے علم جفر کی آڑ لیتے ہیں کیوں کہ علم جفر بہرحال حروف اور اعداد سے بحث کرتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ کلی طور پر علم جفر صرف حروف اور اعداد پر ہی انحصار نہیں کرتا بلکہ علم نجوم ہر سطح پر علم جفر سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں علوم کے درمیان بنیادی فرق اور ان کی حدود کو واضح کر دیا جائے اگرچہ ہم اپنے اکثر مضامین میں اس موضوع پر پہلے بھی بہت لکھ چکے ہیں مگر ایک بار پھر مختصر طور پر وضاحت کی جا رہی ہے۔
علم نجوم (Astrology) مکمل طور پر کائنات میں موجود فلکیاتی صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات سے بحث کرتا ہے اور اس سلسلے میں دائرہ بروج (Zodic Sign) اور ثوابت و سیارگان (Stars and Planets) بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مختلف اوقات میں ان کی مختلف پوزیشن اور بروج کے اثرات کے ساتھ مل کر سیارگان کے ا ثرات کسی شخص جگہ یا واقعے پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں، اسی مطالعے کا نام ایسٹرولوجی ہے۔
علم جفر میں حروف بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور ان حروف سے منسوب اعداد یا یہ کہ ان حروف کی جو عددی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں وہ نہایت اہم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام حروف اور تمام اعداد، سیارگان کے یا بروج کے جو اثرات قبول کر رہے ہیں اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ یہیں سے علم جفر خود بخود علم نجوم کے ماتحت ہوجاتا ہے اور یہی حال علم الاعداد (Numreology) کا بھی ہے کیوں کہ اعداد بھی سیارگان و بروج کے زیر اثر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ علم جفر ہو یا علم الاعداد، علم نجوم مذکورہ بالا دونوں علوم پر محیط ہے اور اسے نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔
اب آئیے تاریخ پیدائش اور نام کے مسئلے کی طرف۔
ہم پہلے بھی یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ کسی بھی انسان یا جاندار کی تاریخ پیدائش قانون قدرت کے مطابق اﷲ رب العزت کی مقرر کر دہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی اور اختیار سے اپنی پیدائش کی تاریخ، مہینہ، سال، وقت اور جگہ کا انتخاب کر سکے یا کوئی دوسرا کسی انسان کو اپنے کسی مقررہ اور پسندیدہ وقت پر پیدا کر سکے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک کسی انسان کی شخصیت، فطرت، کردار اور حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے کے لئے وقت، تاریخ پیدائش، مہینہ اور سال کی اہمیت درجہ اول پر ہے اور معتبر اور مستند ٹھہرتی ہے۔
نام انسان کی پیدائش کے بعد رکھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ انسان ہی تجویز کرتے ہیں۔ صرف ایک ہی نام دنیا میں ایسا ہے جو خود رب کائنات نے تجویز فرمایا اور وہ ہے ”محمد“ صلی اﷲ علیہ وسلم۔ باقی نام خود انسان ہی تجویز کرتے ہیں جس میں غلطی کا امکان موجود ہے اور ضروری نہیں ہے کہ جو نام رکھا جائے وہ نومولود کی تاریخ پیدائش سے بھی مطابقت رکھتا ہو یا اس کے پیدائشی برج اور ستارے سے بھی ہم آہنگ ہو۔ نتیجے کے طور پر انسان دو مختلف قسم کے طاقتور اثرات کے زیر اثر آجاتا ہے جو مخالف بھی ہو سکتے ہیں اور موافق بھی اور اس مخالفت یا موافقت کا فیصلہ ایک علمی اور منطقی طریقہ کار کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ صرف کسی کی بیماری، پریشانی، بدمزاجی، شرارت، کم فہمی یا بدعقلی کی بنیاد پر نہیں لیکن ہمارے یہاں صورت کچھ ایسی ہی ہے کہ تاریخ پیدائش کو علم نجوم سے عدم واقفیت کی بنیاد پر قطعاً نظر انداز کر کے محض نام پر علم جفر اور علم الاعداد کے داﺅ آزمائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے نام نہاد ماہرین علم نجوم و جفر کا حال یہ ہے کہ وہ علم جفر میں جو علم نجوم کے اصول موجود ہیں انہی کی بنیاد پر نجومی احکام مرتب کر رہے ہوتے ہیں مثلاً حروف تہجی کے جو حروف علم جفر میں سیارہ زحل سے منسوب ہیں انہی کی بنیاد پر کسی شخص کا ستارہ اور برج مقرر کر دیتے ہیں مثلاً ۔ ۱ ، ب ، ج ، د۔ علم جفر میں سیارہ زحل سے منسوب ہیں لہٰذا جس شخص کا نام ان حروف سے شروع ہورہا ہوگا اس کا ستارہ زحل قرار دے دیا گیا۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نام ایک اختیار کردہ شے ہے جو بچپن میں ماں باپ تجویز کرتے ہیں یا خاندان کے بزرگ اور معتبر لوگ یا عمر کے کسی حصے میں لوگ خود بھی اپنا نام بدل کر کوئی اور نام رکھ لیتے ہیں چنانچہ ایک اختیاری اور تبدیل ہونے والی شے کے اثرات کو وسیع تر اور پائیدار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہماری اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نام کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے یا وہ ہماری شخصیت اور کردار پر کوئی اثر ہی نہیں ڈالتا، یقینا نام کے حروف اور اعداد اپنا ایک طاقتور اثر رکھتے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ اثر ذیلی ہے اور اس اثر کے تابع یا مخالف ہے جو تاریخ پیدائش کے اعداد اور پیدائش کے وقت کی فلکیاتی صورت حال کے تحت ہمیں پیدائشی طور پر ملا ہے لہٰذا ہم جب بھی نام کے حوالے سے بات کریں گے تو ہمیں پہلے اس بنیادی اثر سے واقفیت حاصل کرنا ہو گی جو پیدائشی طور پر ہماری ذات کا حصہ ہے اور غیر مبتدل او ر دائمی ہے کیوں کہ ہم دوبارہ اس مقررہ وقت، تاریخ، مہینے اور سال پر پیدا نہیں ہو سکتے لہٰذا اس اثر میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
جیسا کہ ابتدا میں ہم نے عرض کیا ، نام اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے اختلافی صورت حال اکثر ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔ چند روز پہلے ایک صاحب تشریف لائے وہ اپنے بیٹے کی شادی کسی لڑکی سے کرنا چاہتے تھے۔ لڑکی کے والد شاید خود بھی ان علوم سے شغف رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں سے رابطہ بھی رکھتے ہیں لہٰذا انہوں نے کسی ماہر جفر سے دونوں کا زائچہ بنوا کر یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ ان دونوں کی شادی لڑکی پر یا لڑکی والوں پر بھاری پڑے گی لہٰذا یہ شادی نہ کی جائے۔ اتفاق سے لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے کے لئے پسندیدگی کا جذبہ بھی رکھتے تھے، خاص طور سے لڑکا کہیں اور شادی کرنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ نتیجے کے طور پر لڑکے کے ماں باپ کو بھی بیٹے کی خوشی عزیز تھی۔ انہوں نے ہم سے کہا ذرا آپ بھی دیکھیے یہ رشتہ کیسا رہے گا؟ ہمارے خیال میں وہ ایک نہایت موزوں اور مناسب رشتہ تھا اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شادی کو روکا جاتا۔
لڑکے کے والد نے بتایا کہ ہم نے خود بھی استخارہ کیا اور بعض معتبر افراد سے بھی استخارہ کروایا ہے اور ہمیں مثبت جواب ملا لیکن لڑکی کے والد کہتے ہیں کہ ہمیں استخارے میں بھی منفی جواب مل رہا ہے اور زائچے میں بھی صورت حال درست نہیں ہے جب ہم نے ان کے بنوائے ہوئے زائچے کی حقیقت معلوم کی تو پتا چلا کہ وہ زائچہ علم جفر کے حساب سے بنایا گیا تھا، یقیناً بہت سے لوگ علم جفر سے زائچہ بھی بناتے ہیں اور مختلف سوالوں کے جواب بھی حاصل کرتے ہیں کیوں کہ علم جفر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصے کو ”اخبار“ کہا جاتا ہے اور دوسرے حصے کو ”آثار“ کہا جاتا ہے۔
علم جفر کا حصہ اخبار خبر حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس شعبے کے بہت سے نامور جفار گزرے ہیں اور شاید آج بھی ہوں لیکن کم از کم ہمارے علم میں نہیں کیوں کہ اس علم میں ایسے ایسے اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر ماہرین جفر کبھی متفق نہیں ہوتے اور چونکہ اردو زبان میں عربی حروف تہجی سے کمی اور بیشی کی بنیاد پر جو اختلافات موجود ہیں یا جو کمی موجود ہے اسے آج تک کوئی اردو داں ماہر جفر پورا نہیں کر سکا اسی لئے اس ذریعے سے حاصل کردہ جوابات کبھی معتبر بھی نہیں ٹھہرتے اور اس کی بنیاد پر بنایا گیا زائچہ بھی غیر معتبر ہی رہتا ہے۔
علم جفر کا حصہ آثار اعمال روحانی یعنی علاج معالجے سے بحث کرتا ہے۔ بے شک اس شعبے میں زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک ماہرین جفر کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جس میں بہت بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں۔ علم نقوش و طلسمات اسی حصہ جفر کے ماتحت ہے۔ امید ہے اس ساری تفصیل کی روشنی میں ہمارے قارئین نہ صرف نام اور تاریخ پیدائش کے فرق کی اہمیت سمجھ گئے ہوں گے بلکہ علم نجوم اور جفر کے وہ مسائل بھی واضح ہو گئے ہوں گے جن کی بنیاد پر فی زمانہ اکثر نام نہاد ماہرین نجوم و جفر لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں اور محض اپنی جھوٹی علمی شان کا پرچم بلند کرنے کے لئے یا تھوڑے سے پیسوں کے لئے غلط نظریات اور روایات کو فروغ دیتے ہیں۔

مسیحا میرج بیورو


گزشتہ کالم میں مسیحا میرج بیورو کے حوالے سے تعارف پیش کیا گیاتھا لیکن اندازہ ہوا کہ ہمارے قارئین نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی، ہماری ویب سائٹ پر متعلقہ فارم کو دیکھنے کی بھی شاید زحمت نہیں کی گئی، البتہ ہمیں براہ راست رشتوں کے لیے بہت سے میسج ضرور کیے گئے ، خیال رہے کہ اس سلسلے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ فارم بھر کر روانہ کیا جائے، صرف میسج وغیرہ پر اطلاع دینا کافی نہیں ہے، فارم کے مطابق مکمل نام اور ضروری کوائف کے علاوہ لڑکا یا لڑکی کی تصویر بھیجنا بھی ضروری ہے تاکہ اسے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے چناں چہ ہماری درخواست ہے کہ اس سلسلے کے مکمل طریق کار کو سمجھنے کے لیے ایک بار ویب سائٹ پر مسیحا میرج بیورو کے لنک کا وزٹ ضرور کریں اور پھر اس کے مطابق ہی عمل کریں تاکہ آپ کا نام ریکارڈ کا حصہ بن جائے، اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے صرف میسج کرنا کافی نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ براہ راست فون پر رابطہ کریں۔