ہفتہ، 31 مارچ، 2018

نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

زائچہ ء پاکستان ، زائچہ ء فاروق ستار اور زائچہ مسلم لیگ ن کی روشنی میں ایک اظہاریہ
ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ماہرین کے خیال میں مہنگائی کا طوفان لاسکتا ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ موجودہ اضافہ کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور ایسا مستقبل کے بعض مثبت نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے،اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ مثبت نتائج کیا ہوں گے؟ فی الحال تو عوام کا برا حال ہے،دوسری طرف عدلیہ اور نیب کی کارروائیاں جاری ہیں، اہل سیاست کے بعد بیوروکریسی بھی لپیٹ میں آرہی ہے،عدلیہ نے مزید پنڈورا بکس بھی کھول لیے ہیں، دہری شہریت رکھنے والے اور سرکاری عہدوں پر براجمان اعلیٰ افسران کی فہرستیں تیار ہورہی ہیں،ان میں سے بعض نے اپنی دہری شہریت کا اعتراف کرلیا ہے جب کہ 32 ہزار سرکاری افسران غلط بیانی کے مرتکب پائے گئے ہیں، اصولی طور پر یہ لوگ صادق و امین نہیں رہے لہٰذا انہیں نااہل کیا جانا چاہیے،ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جن کی شریک حیات غیر ملکی ہیں اور وہ ملک کے اہم عہدوں پر قابض ہیں، دوملکوں سے عہدِ وفاداری نبھارہے ہیں، یہ نہیں معلوم کہ حقیقت میں کس کے وفادار ہیں، درحقیقت یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کی حقیقی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، غیر ملکی اداروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، ان سے پہلی فرصت میں چھٹکارا ہونا چاہیے،چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ مشکل ٹارگٹ اپنے سامنے رکھ لیا ہے،آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
زائچہ ء پاکستان کے مطابق پاکستان بدستور ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے،چھٹے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ بارھویں گھر میں داخل ہوچکا ہے اور 20 اپریل تک یہاں قیام کرے گا، یہ وقت عوام میں صحت کے مسائل لاسکتا ہے،وبائی امراض کی روک تھام کے لیے حکومت کو اقدام کرنا ہوں گے،اس عرصے میں فوج ، عدلیہ اور بیوروکریسی پر بھی سخت دباؤ رہے گا، اہل سیاست کے داؤ پیچ عروج پر ہوں گے،ایک نئے این آر او کے لیے جو کوششیں ہورہی ہیں، اس کی خبریں میڈیا میں آنا شروع ہوگئی ہیں، وزیراعظم جناب خاقان عباسی اچانک چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، اسلام آباد میں سفارتی سرگرمیاں بھی تیز ہوچکی ہیں، جناب نواز شریف اب تک جس عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو آگے بڑھا رہے تھے اس کی رفتار بھی کچھ سست نظر آرہی ہے،نیب کورٹ میں ان کے خلاف مقدمہ تقریباً آخری مراحل میں ہے،بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے آٹھویں گھر میں دسویں گھر کے حاکم زحل سے قران کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ اہم زاویہ حکومت اور سربراہ مملکت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے،وزیراعظم نے اب تک جو نیک نامی کمائی ہے،وہ ضائع ہوسکتی ہے،انہیں چاہیے کہ محتاط ہوکر آگے قدم بڑھائیں،زائچہ ء پاکستان کے حوالے سے کس کس مسئلے پر محتاط رہنے کا مشورہ دیا جائے اس وقت ملکی صورت حال خاصی عجیب ہے ، آنے والا وقت کس طرح ہمیں حیران کرے گا ، اس کے بارے میں مختلف خیال آرائیاں کی جاسکتی ہیں، ہمارا حال فیض صاحب کے اس شعر جیسا نظر آتا ہے ؂
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے
جناب فاروق ستار
گزشتہ سال نومبر میں ہم نے جناب فاروق ستار کا زائچہ شائع کیا تھا اور ان کی خوبیوں اور خامیوں پر علم نجوم کی روشنی میں گفتگو کی تھی،ان کے مستقبل کے حوالے سے ہم نے عرض کیا تھا کہ وہ ایک مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں،پارٹی میں جو اختلافات اور تنازعات جاری ہیں ان پر قابو پانا ان کے لیے مشکل ہوگا، چناں چہ ایسا ہی ہوا، الیکشن کمیشن کے ایک تازہ فیصلے کے بعد وہ پارٹی کے کنوینر نہیں رہے،ان کے مقابل گروپ کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے،اب ان کا ارادہ سپریم کورٹ جانے کا ہے تاکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرسکیں لیکن دوسرے ہی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم کردیا ہے،گویا دونوں گروپ ایک بار پھر رسہ کشی میں مصروف ہیں، اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔
ہم نے عرض کیا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار راہو کے دور اکبر سے گزر رہے ہیں،راہو ان کے زائچے میں ساتویں گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے لیکن راہو بڑا فریبی ہے، بے شک یہ سیاست کا ستارہ ہے اور سیاست درحقیقت جھوٹ اور فریب کا دوسرا نام ہے،راہو کے دور میں انسان دھوکا دیتا بھی ہے اور دھوکا کھاتا بھی ہے،راہو کے دور اکبر میں کیتو کا دور اصغر جاری ہے،کیتو بے جا خود اعتمادی اور جوش اور جذبہ دیتا ہے،جارحانہ انداز اختیار کرنے پر اکساتا ہے،کیتو کا دور 7 مئی 2018 ء کو ختم ہوگا اور اس کے بعد زہرہ کا دور شروع ہوگا، زہرہ فاروق ستار صاحب کے زائچے کا سب سے زیادہ فعلی منحوس سیارہ ہے کیوں کہ آٹھویں گھر کا مالک ہے،اس صورت حال میں ہمارا مشورہ فاروق بھائی کو یہی ہوگا کہ وہ اس تنازع کو باہمی گفت و شنید کے ذریعے طے کرلیں ورنہ زہرہ کا دور جو مارچ 2021 ء تک جاری رہے گا انہیں مزید تنہا کردے گا،ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ زہرہ کے دور میں اگر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا تو ان کی کامیابی بھی مشکل ہوجائے گی۔
زندگی میں اچھے اور برے دور آتے جاتے رہتے ہیں، یقیناً جناب فاروق ستار کی زندگی میں بھی وقت کی یہ دھوپ چھاؤں پہلے بھی آئی اور گئی ہوگی لہٰذا اس بدترین وقت کو گزارنے کے لیے انہیں بعض سمجھوتے کرلینے چاہئیں لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا پیدائشی برج حوت ہے اور قمری برج حمل لہٰذا ان کے لیے اپنی سوچ اور فکر کے خلاف سمجھوتا کرنا خاصا مشکل کام ہے،ویسے بھی وہ پارٹی میں جس پوزیشن پر رہے ہیں، اس سے کمتر پوزیشن کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا مگر فی الوقت مصلحت کے تقاضے یہی ہیں ؂ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن)
2013 ء کے آغاز میں جب کہ الیکشن قریب تھے ، ہم نے بڑی تحقیق و جستجو کے بعد پاکستان کی تمام نمایاں سیاسی پارٹیوں کے زائچے بنائے تھے اور علم نجوم کی روشنی میں اظہار خیال کیا تھا مسلم لیگ ن کا زائچہ اچھی پوزیشن میں تھا اور ہم نے لکھا تھا کہ وہ الیکشن میں نمایاں پوزیشن لے سکتی ہے،آج ایک بار پھر یہ زائچہ ہمارے سامنے ہے،مسلم لیگ ن کا قیام 26 اگست 1988 ء کو ہوا تھا اور زائچے کے مطابق طالع پیدائش برج دلو ہے جو بڑا انوکھا برج کہلاتا ہے،جب کہ قمری برج جدی ہے جو مسلسل جدوجہد اور عملیت پر زور دیتا ہے،زائچے میں 26 جنوری 2016 ء سے مشتری کے دور اکبر میں عطارد کا دور اصغر شروع ہوا، عطارد اس زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے لہٰذا اسی دور میں جو 3 مئی 2018 ء تک جاری ہے،پاناما اسکینڈل آیا اور پھر پارٹی کے سربراہ کے خلاف ایک نئی مہم چل پڑی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل قرار دے دیا، ان پر مزید مقدمات چل رہے ہیں۔
اس وقت پارٹی سربراہ جناب شہباز شریف ہیں اور ملک میں وزیراعظم خاقان عباسی ہیں لیکن پارٹی ایک خراب دور سے گزر رہی ہے لہٰذا پارٹی سے وابستہ تمام افراد مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں،3 مئی کے بعد کیتو کا دور اصغر شروع ہوگا، کیتو زائچے میں ساتویں گھر میں بہتر پوزیشن میں ہے لہٰذا یہ وقت پارٹی میں نئی روح پھونکنے کے لیے مناسب ہوگا، اگر الیکشن ہوں گے تو کیتو کے دور میں پارٹی الیکشن میں جائے گی، ہم پہلے نشان دہی کرچکے ہیں کہ کیتو کا دور عقل و ہوش سے ماورا کرتا ہے،اگر اس دور میں صبروتحمل اور عقل و دانش سے کام لیا گیا تو یقیناً بہتر نتائج آسکتے ہیں، بہ صورت دیگر پارٹی کا شیرازہ بھی بکھر سکتا ہے،کیتو کا دور کوئی واضح اور فیصلہ کن کامیابی کی نشان دہی نہیں کرتا، اس وقت میں جس پارٹی کا زائچہ مضبوط پوزیشن میں ہوگا اور سعد اثر دے رہا ہوگا، وہی فاتح ہوگی جیسا کہ 2013 ء میں ن لیگ کے زائچے کی پوزیشن تھی، جہاں تک جناب نواز شریف کے ذاتی زائچے کی پوزیشن ہے تو وہ ہمیں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ سخت مشکلات کا شکار ہیں، ان کا پیدائشی طالع سنبلہ ہے،اس کا حاکم سیارہ عطارد اپنے برج ہبوط میں ایک طویل قیام کر رہا ہے جو معمول کے خلاف ہے،آج کل شمس سے قریب ہونے کی وجہ سے غروب بھی ہے، عطارد اس برج میں مزید تقریباً10 مئی تک رہے گا، دوسری طرف چھٹے گھر کا حاکم زحل زائچے کے چوتھے گھر میں حرکت کر رہا ہے اور سیارہ مریخ بھی چوتھے گھر میں ہی موجود ہے،2 منحوس اس گھر میں قران کریں گے جب کہ یہاں پہلے سے موجود مشتری و عطارد ان کی زد میں آئیں گے لہٰذا یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہ موجودہ مقدمات سے باآسانی نکل جائیں، اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ ان کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی پراپرٹی بھی ان کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے،چھٹے گھر کا حاکم زحل چوتھے گھر میں رہتے ہوئے اور راہو کیتو پانچویں اور گیارھویں میں حرکت کرتے ہوئے انہیں مستقل محاذ آرائی اور تنازعات پر اکسارہے ہیں جس کا نتیجہ بہر حال ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوگا (وللہ اعلم بالصواب)
شرف شمس اور فتح نامہ
شرف شمس کا وقت قریب آگیا ہے، اس موقع پر نقش فتح نامہ کی تیاری کا طریقہ پہلے دیا جاچکا ہے، یہ نقش تقریباً حل المشکلات کا اثر رکھتا ہے،ماہرین جفر کہتے ہیں کہ اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا ہے اور انسان کی زندگی بدل جاتی ہے،چوں کہ اس سال شرف کا وقت نہایت مؤثر ہے اس لیے ہم بار بار تاکید کر رہے ہیں کہ اس وقت کو ضائع نہ کیا جائے، بعض لوگوں نے بہت سے سوالات کیے ہیں اور نجی نوعیت کے سوالات کا جواب براہ راست دے دیا گیا ہے لیکن عام معلومات کے لیے بعض سوالات کا جواب یہاں دیا جارہا ہے، ایک سوال تو وہی پرانا ہے کہ اس روز رجال الغیب کس سمت ہوں گے، حالاں کہ کئی بار اس کا نقشہ بھی شائع کیا جاچکا ہے اور یہ نقشہ ہماری ویب سائٹ www.maseeha.com پر بھی دیکھا جاسکتا ہے،بہر حال یہاں بھی رجال الغیب کی سمت بتائی جارہی ہے،8 اپریل کو چاند کی 21 تاریخ ہوگی اور رجال الغیب شمال مشرق میں ہوں گے لہٰذا جنوب مغرب کی طرف رُخ کرکے بیٹھیں یا پھر شمال کی طرف منہ کریں۔
جہاں تک شمس کی ساعتوں کا سوال ہے تو 8 مارچ کو اتوار ہے اور شمس کا دن ہے لہٰذا صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہی شمس کی ساعت شروع ہوجائے گی،کراچی کے لوکل ٹائم کے مطابق طلوع آفتاب 06:17 am پر ہوگا اور یہ ساعت 07:20 am تک رہے گی،دو تین کم کرکے یہ وقت پورے سندھ کے لیے ہوگا، دوسری ساعت دوپہر 01:36 pm پر شروع ہوگی اور 02:39 pm تک رہے گی۔
دیگر ممالک خصوصاً امریکا اور کنیڈا کے ٹائم کے مطابق پہلی ساعتِ شمس 8 اپریل کو 06:29 am پر شروع ہوگی اور 07:34 am تک رہے گی جب کہ دوسری ساعت 02:03 pm پر شروع ہوگی اور 03:07 pm تک رہے گی۔
نقش کو تیار کرنے کے بعد تہہ کرکے تعویذ کی شکل میں موم جامہ یا پلاسٹک کوٹڈ کرکے دائیں بازو پر باندھیں یا گلے میں پہن لیں، جیب میں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن ہپ پاکٹ میں نہ رکھیں۔
ایک صاحب نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ کیا نقش فتح نامہ پسند کی شادی کے لیے بھی تیار کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ پسند کی شادی اس نقش کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے کیوں کہ یہ صرف کسی ایک شخص کی زندگی کے جائز مسائل کا احاطہ کرتا ہے،پسند کی شادی میں مسئلہ صرف ایک شخص کا نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسری ہستی بھی اس میں فریق بن جاتی ہے،آپ اس کے حقوق کو پامال نہیں کرسکتے، اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی فیملی کے خلاف ایسی کوئی کوشش نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کی مرضی کے فیصلے پر مجبور ہوں۔
عزیزان من! اکثر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ عملیات ، دعا، تعویذ وغیرہ کے ذریعے وہ اپنے من مانے فیصلوں پر یا خواہشوں پر عمل کرسکتے ہیں، یہ خیال اور نظریہ غلط ہے،نام نہاد عامل و کامل یا پیر فقیر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے،امید ہے کہ نقش فتح نامہ جو لوگ تیار کریں گے وہ اپنی جائز ضروریات اور خواہشات کو ہی پیش نظر رکھیں گے۔

ہفتہ، 24 مارچ، 2018

نے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب میں

اپریل کی فلکیاتی پوزیشن، بچوں سے متعلق جرائم میں اضافہ
گزشتہ سال نومبر ہی سے ہم مسلسل نشان دہی کر رہے ہیں کہ پاکستان کے زائچے میں راہو کیتو کی پوزیشن پانچویں گھر کے حاکم عطارد کو متاثر کر رہی ہے جس کے نتیجے میں بچوں سے متعلق جرائم میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، اسی طرح اعلیٰ تعلیمی اداروں کی صورت حال بھی اطمینان بخش نہیں ہے، چیف جسٹس صاحب نے اس سلسلے میں خصوصی نوٹس بھی لیا تھا لیکن شاید ان کی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے یہ معاملہ کچھ آگے نہیں بڑھ سکا، زائچے کا پانچواں گھر ملک کے دانش ور طبقوں اور اہل علم و صحافت سے بھی متعلق ہے لہٰذا ہم دیکھ رہیں ہے کہ نحس اثر دانش وروں اور اہل علم و صحافت کو بھی متاثر کر رہا ہے اور وہ اپنے کالموں یا ٹاک شوز میں جو گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، اسے سن کر ہنسی آتی ہے، خود میڈیا کا جو حال ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،سوشل میڈیا پر افواہوں کا زور رہتا ہے، ایک اینکر پرسن کے پروگرام پر تین ماہ کے لیے پابندی عائد کردی گئی ہے، مزید اخبارات و رسائل یا چینلز پر بھی برا وقت آسکتا ہے،راہو کیتو کی اسٹیشنری پوزیشن 20 مارچ کو ختم ہوگئی لیکن عطارد سے قائم نظر ابھی جاری ہے اور تقریباً مئی تک جاری رہے گی،سینیٹ کے الیکشن میں خریدوفروخت کا جو بازار گرم ہوا اس کی وجہ بھی راہو کے نحس اثرات ہیں۔
مارچ کا آخری ہفتہ اور اپریل کا پہلا ہفتہ بھی خاصا اہم ہے،اس دوران میں بہت سے نئے انکشافات سامنے آئیں گے اور اہم صاحب حیثیت و اقتدار شخصیات کے لیے اپنی عزت بچانا مشکل ہوگا۔
سال کی ابتدا ہی سے عدلیہ اور نیب کی فعالیت جس انداز میں جاری ہے،یہ سلسلہ آئندہ بھی مستقل چلتا رہے گا اور یہی صورت حال ہماری سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کے لیے ناپسندیدہ ہے،اگر مزید اہل سیاست نااہل ہوجائیں یا بیوروکریٹس قانون کی گرفت میں آجائیں تو تعجب نہیں ہونا چاہیے ؂
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب میں
اپریل کے ستارے
حکومت و اقتدار کا ستارہ شمس اپنے شرف کے برج حمل میں شاداں اور فرحاں محو سفر ہے،20 اپریل کو برج ثور میں داخل ہوگا، آسمانی کونسل کا وزیر اطلاعات و نشریات سیارہ عطارد ایک لمبا عرصہ اپنے برج ہبوط میں گزارنے کے بعد برج حمل میں حرکت کر رہا ہے اور پورا مہینہ اسی برج میں گزارے گا، 24 مارچ کو اسے رجعت ہوگئی تھی، 16 اپریل کو اپنی سیدھی چال پر آجائے گا، توازن اور ہم آہنگی کا ستارہ زہرہ برج حمل میں ہے،31 مارچ کو اپنے ذاتی برج ثور میں داخل ہوگا، سیاروی سپہ سالار ستارہ مریخ اپنے شرف کے برج جدی میں ہے،اپریل کے مہینے میں اسی برج میں حرکت کرے گا، وسعت و ترقی کا ستارہ مشتری برج عقرب میں ہے اور 9 مارچ کو اسے رجعت ہوجائے گا، محنت اور تربیت کا ستارہ زحل اپنے ذاتی برج جدی میں حرکت کر رہا ہے،18 اپریل کو رجعت میں چلا جائے گا،ایجادات و اختراعات کا سیارہ یورینس برج حمل میں اپنے طویل سفر کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے،پراسراریت کا حامل سیارہ نیپچون برج حوت میں پورا ماہ رہے گا اور کایا پلٹ کرنے والا پلوٹو برج جدی میں حرکت کر رہا ہے،22 اپریل سے اسے بھی رجعت ہوجائے گی،راہو اور کیتو 20 مارچ تک اسٹیشنری پوزیشن میں رہے، اب اپنی نارمل چال پر آچکے ہیں اور بالترتیب برج اسد اور دلو میں حرکت کر رہے ہیں، سیارگان کی یہ پوزیشن یونانی علم نجوم کے مطابق دی جارہی ہیں۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
اپریل کا مہینہ سیاروی نظرات اور اثرات کے اعتبار سے ملے جلے سعد و نحس زاویے تشکیل دے رہا ہے،اس مہینے میں اہم سیارگان کے درمیان چار قرانات اور ایک مقابلے کی نظر قائم ہوگی، تثلیث کے پانچ زاویے اور تربیع کے چار زاویے ترتیب پائیں گے،تفصیل درج ذیل ہے۔
یکم اپریل: شمس اور عطارد کا قران ایک نحس زاویہ ہے،تحریری اور تقریری کاموں میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، اس وقت اہم دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے محتاط رہیں، بحث مباحثے اور تکرار سے گریز کریں، ملکی معاملات میں میڈیا کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی،منفی سرگرمیاں سامنے آئیں گی۔
2 اپریل: مریخ اور زحل کا قران ایک نحس زاویہ خیال کیا جاتا ہے،حادثات و سانحات ، محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوتی ہے،یہ وقت سول اور فوجی حلقوں کے درمیان کشیدگی لانے کا باعث ہوسکتا ہے،پراپرٹی سے متعلق کاروبار یا سودے متاثر ہوسکتے ہیں، زمین وجائیداد کی خریدوفروخت میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی۔
4 اپریل: عطارد اور مریخ کے درمیان تربیع کا زاویہ نحس اثر رکھتا ہے،یہ وقت بھی تحریروتقریر میں محتاط رہنے کا ہے،بات چیت یا بحث و مباحثہ فتنہ و فساد کو جنم دے گا، احمقانہ اور لاحاصل نظریات پر زور دیا جائے گا، حکومت کی طرف سے غلط فیصلے اور اقدام سامنے آسکتے ہیں۔
5 اپریل: عطارد اور زحل کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ عوامی مشکلات میں اضافہ لائے گا، اس وقت طویل المدت منصوبہ بندی مناسب نہیں ہوگی، پراپرٹی کے معاملات میں انویسٹمنٹ کرنا فائدہ بخش نہیں ہوگا، نئے معاہدات یا دستاویزات کی تیاری بھی اس وقت بہتر نہیں ہوگی۔
7اپریل: زہرہ اور زحل کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ کاموں میں موجود مشکلات کو کم کرنے میں مدد دے گا، توازن اور ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوگی، اس وقت اپنے حق اور انصاف کے لیے کوشش کرنا چاہیے، ازدواجی معاملات میں بہتری لانے کے لیے بھی مناسب وقت ہوگا، اس وقت طے کیے گئے رشتے یا نکاح وغیرہ پائیدار ثابت ہوتے ہیں۔
11 اپریل: شمس و پلوٹو کے درمیان تربیع کی نظر نحس اثر رکھتی ہے،خاص طور سے عہدہ و مرتبہ رکھنے والے افراد کے لیے ایک سخت وقت ہوتا ہے،حکومت کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے،عام افراد اپنے مالکان یا اعلیٰ افسران کے نامناسب رویے کا شکار ہوتے ہیں۔
اسی تاریخ کو زہرہ اور مریخ کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت عورت و مرد کے درمیان جذب و کشش لاتا ہے،اس وقت منگنی کرنا یا دیگر رومانی سرگرمیاں بہتر ثابت ہوتی ہیں، ماہرین جفر اس وقت میں حب و تسخیر کے نقش و طلسم تیار کرتے ہیں۔
12 اپریل: زہرہ اور نیپچون کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ جذبات و احساست میں خوش گوار کیفیات کا باعث بنتا ہے،یہ وقت بھی محبت اور دوستی کے جذبات کو ابھارتا ہے،خصوصاً اس نظر سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں، وہ منگنی یا شادی کے لیے جلد تیار ہوسکتی ہیں، اس وقت میں بعض خواتین کی منگنی یا شادی کا امکان ہوگا۔
14 اپریل: مشتری اور پلوٹو کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ ترقیاتی کاموں میں مددگار ثابت ہوتا ہے لیکن اس زاویے کے اثرات فوری طور پر محسوس نہیں ہوتے بلکہ طویل عرصے تک محیط رہتے ہیں، قوموں اور ملکوں کے حالات میں غیر محسوس طریقے پر ترقی کا عمل شروع ہوتا ہے۔
اسی تاریخ کو مریخ اور نیپچون کے درمیان بھی تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ نظر خواتین کی بہ نسبت مرد حضرات کو زیادہ متاثر کرتی ہے،وہ جذباتی رویوں کا اظہار کرتے ہیں، کوئی نئی دھن یا نیا سودا سر میں سماتا ہے جو غلط بھی ہوسکتا ہے۔
17 اپریل: زہرہ اور مشتری کے درمیان مقابلے کی نظر زندگی کے کسی نہ کسی معاملے میں تناؤ لاتی ہے،خصوصاً کوئی پارٹنر شپ متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے،دو افراد وہ کاروباری پارٹنر ہوں یا ازدواجی باہم کھنچاؤ کا رویہ محسوس کرتے ہیں، ترقیاتی سرگرمیوں میں بھی کمی آتی ہے،پاکستان کے زائچے کے مطابق یہ نظر بہت زیادہ نحس اثرات ظاہر کرسکتی ہے،حکومت اور عوام دونوں دباؤ محسوس کرسکتے ہیں۔
اسی تاریخ کو زہرہ و پلوٹو کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ قائم ہوگا، یہ وقت خواتین کے لیے محتاط رہنے کا ہے،رومانی تعلقات میں زیادہ شدت اور جذباتیت ظاہر ہوسکتی ہے،ضد ، ہٹ دھرمی کا رجحان نمایاں ہوتا ہے،ازدواجی زندگی میں خوش گوار معاملات ظاہر ہوتے ہیں، ملکی معاملات میں یہ نظر عدلیہ کی فعالیت اور اہم فیصلوں کی آمد ظاہر کرتی ہے۔
18 اپریل: شمس اور نیپچون کے درمیان قران کا زاویہ ملکی سربراہ یا کسی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیت کی تنزلی کا اندیشہ ظاہر کرتا ہے،عام افراد اس وقت اپنے افسران بالا یا مالکان کے ناجائز مطالبات یا کسی زیادتی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
24 اپریل: مریخ اور مشتری کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ ترقیاتی امور میں مددگار و معاون ہوگا، خصوصاً مشینری سے متعلق امور فائدہ بخش ثابت ہوں گے،ٹیکنیکل نوعیت کے کاموں میں کامیابی یقینی ہوگی، ملک میں آئین و قانون کی بالا دستی اور تحفظ پر زور دیا جائے گا۔
26اپریل: عطارد اور زحل کے درمیان تربیع کا زاویہ دوسری بار قائم ہورہا ہے،یہ وقت تحریری اور دستاویزی کاموں میں محتاط رہنے کا ہوگا، کوئی غلطی آئندہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے،کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں، طویل المدت منصوبہ بندی کامیاب نہیں رہے گی،پراپرٹی کے معاملات میں رکاوٹ آسکتی ہے۔
اسی تاریخ کو مریخ اور پلوٹو کے درمیان قران کا زاویہ ہوگا، یہ نہایت منحوس نظر ہے،حادثات و سانحات کا اندیشہ رہتا ہے،خصوصاً پاکستان کے زائچے کے مطابق یہ نظر آٹھویں گھر میں بن رہی ہے، دہشت گردی کے خطرات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، سیکورٹی کے معاملات پرحکومت کو خصوصی توجہ دینا چاہیے، عام آدمی کو اس وقت ایسے کاموں سے دور رہنا چاہیے جن میں خطرات کا اندیشہ ہو۔
29 اپریل: شمس اور زحل کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ حکومت کو عوامی بھلائی کے کاموں کی طرف متوجہ کرتا ہے،اس وقت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے فیصلے یا اقدام ہوسکتے ہیں، عام افراد اس وقت میں طویل منصوبہ بندی کریں، نئے معاہدات ، پراپرٹی کی خریدوفروخت ، نئے کاروبار کی ابتدا کے لیے بہتر وقت ہوگا، یہ وقت کیے گئے کاموں میں استحکام لاتا ہے،اس وقت میں ماہرین جفر ’’لوح استحکام‘‘ تیار کرتے ہیں ، یہ لوح کاروباری معاملات میں یا ازدواجی زندگی میں استحکام کے لیے اور پائیداری کے لیے تیار کی جاتی ہے۔
قمر در عقرب
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق قمر در عقرب کا نحس وقت 2 اپریل کو 07:35 am سے 09:24 am تک رہے گا، جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 2 اپریل 02:35 am سے 04:24 am تک ہوگا، دیگر ممالک کے افراد جی ایم ٹی یعنی لندن ٹائم سے اپنے ملک کے فرق کو جمع یا تفریق کرلیں تو ان کا مقامی وقت نکل آئے گا، یہ وقت نہایت نحس ہوتا ہے،اس وقت علاج معالجے ، بیماریوں سے نجات اور بری عادتوں سے جان چھڑانے کے لیے عمل کیا جاتا ہے،مخالفت کو روکنے یا باہمی دشمنی کا خاتمہ کرنے کے لیے بھی اس وقت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس بار ہم ازدواجی تعلقات میں خرابیوں کو دور کرنے اور میاں بیوی کے درمیان محبت کے لیے ایک عمل دے رہے ہیں، درج ذیل عزیمت کو قمر در عقرب کے مقررہ وقت میں باوضو قبلہ رُخ بیٹھ کر سفید کاغذ پر نیلی یا کالی روشنائی سے لکھ لیں ۔
بسم اﷲ لکھ کر سورہ الم نشرح پوری لکھیں پھر یہ آیت لکھیں۔
والقیت علیک محبۃ فلاں بن فلاں (یہاں مطلوب کا نام مع والدہ لکھیں) علیٰ محبۃ فلاں بنت فلاں (یہاں طالب کا نام مع والدہ لکھیں) کما الفت بین آدم و حوا و بین یوسف و زلیخا و بین موسیٰ و صفورا و بین محمدؐ و خدیجۃ الکبریٰ و اصلح بین ھما اصلاحاً فیہ ابداً
اب تمام تحریر کے ارد گرد حاشیہ ( چاروں طرف لکیر) لگا کر کاغذ کو تہہ کر کے تعویز بنا لیں اور موم جامہ کر کے بازو پر باندھ لیں یا پھر اپنے تکیے میں رکھ لیں۔
شرف قمر
قمر اپنے درجہ ء شرف پر پاکستان ٹائم کے مطابق 16 اپریل کو 05:18 pm سے 07:02 pm تک رہے گا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق 16 اپریل کو 12:18 pm سے 02:02 pm تک رہے گا، یہ سعد اور مبارک وقت ہے، اس وقت نیک اعمال کرنے چاہئیں۔
شرف قمر کے سلسلے میں ہر مہینے مختلف عملیات دیے جاتے ہیں جو بہت سے لوگ کرچکے ہیں اور فائدہ اٹھاچکے ہیں، اس بار ایک ایسا عمل پیش کیا جارہا ہے جو ہر مشکل، مصیبت یا پریشانی سے نجات کے لیے مؤثر ہوگا، اپنے جائز مقاصد کے لیے ہر شخص کرسکتا ہے لیکن اس عمل کو شرف قمر کے وقت سے شروع کرکے 12 دن تک جاری رکھیں۔
یا بدیعُ العجائب بِالخیر یا بَدیعُ
شرف قمر کے وقت سے ایک گھنٹہ قبل عمل شروع کریں، ان اسمائے الٰہی کو اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ 800 مرتبہ پڑھ کر اللہ سے اپنے مقصد کے لیے دعا کریں۔
شرف شمس
سال بھر میں یہ وقت ایک بار آتا ہے،اس سال سیارہ شمس اپنے درجہ ء شرف پر پاکستان ٹائم کے مطابق 8 اپریل کو 02:23 am سے 09 اپریل 02:47 am تک رہے گا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق شرف کا وقت 7 اپریل 09:23 pm سے 08 اپریل 09:47 pm تک رہے گا،اس وقت میں حصول اقتدار ، عزت و مرتبہ میں اضافہ، حادثات و سانحات سے حفاظت، عروج و ترقی کے لیے الواح و طلسم تیار ہوتا ہے،خصوصاً لوح شمس، لوح اسم اعظم یا فتح نامہ تیار کیا جاتا ہے،فتح نامے کی تیاری کا طریقہ ہم پہلے دے چکے ہیں،مقررہ اوقات میں سیارہ شمس کی ساعتیں کارآمد ہوں گی، انشاء اللہ وقت سے پہلے ساعتوں کی بھی نشان دہی کردی جائے گی، وہ لوگ جو نقش وغیرہ تیار کرنے یا فتح نامہ تیار کرنے کے بجائے اس مؤثر اور سعد وقت میں کوئی وظیفہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے سب سے بہتر وظیفہ اسمائے الٰہی یا حیُ یا قیوم کا ورد ہے، یہ دونوں اسمائے الٰہی ایک ہزار سات سو چالیس مرتبہ پڑھیں، اول آخر گیارہ بار درود شریف اور پھر اپنے جائز مقصد کے لیے مثلاً ترقی، پروموشن، اعلیٰ افسران یا مالکان کے ناجائز رویے اور سختی سے نجات وغیرہ کے لیے دعا کریں، اس عمل کے بعد روزانہ صبح گھر سے نکلنے سے پہلے 174 مرتبہ اسمائے الٰہی کا ورد کرنا اپنا معمول بنالیں، انشاء اللہ مقصد میں کامیابی حاصل ہوگی۔


ہفتہ، 17 مارچ، 2018

شرف شمس کا باسعادت و مؤثر ترین وقت اور فتح نامہ

ماہرین علم جفر نقش فتح نامہ کو حل المشکلات کا درجہ دیتے ہیں

شمس اپنے درجۂ شرف پر ہر سال آتا ہے اور ماہرین علم جفراس وقت کا نہایت شدت سے انتظار کرتے ہیں کیوں کہ شمس کا تعلق توانائی ، اقتدار اور عزت و مرتبہ سے ہے ، سرکاری محکمہ اور تمام کارِ سرکار سیارہ شمس کے زیراثر ہیں،صحت اور توانائی کے حصول کے لیے بھی اس وقت کو مؤثر اور فائدہ بخش تسلیم کیا جاتا ہے،چناں چہ اس وقت سے فائدہ اٹھانے کے لیے سال بھر انتظار کیا جاتا ہے‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر سال شرف کا وقت نہایت موثر اور با قوت بھی ہو‘ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عین شرف کے وقت دیگر نحس اثرات بھی موجود ہوں جن کی وجہ سے شرف کا وقت متاثر ہو رہا ہو‘ایسی صورت میں صاحب علم افراد وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے‘ شمس کے دیگر باقوت اوقات سے فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی اوج شمس یا شمس در اسد وغیرہ۔
عزیزان من! اس سال شرف شمس کا وقت بہت سی ایسی نحوستوں سے پاک ہے جو کسی بھی عمل کو برباد یا غیر موثر کرسکتی ہیں‘ لہٰذا وقت سے بہت پہلے ہی نہ صرف یہ کہ درست وقت کی نشاندہی کی جا رہی ہے بلکہ اس وقت جو خصوصی روحانی تحائف تیار ہو سکتے ہیں اور عام افراد کی ضروریات میں معاون ہو سکتے ہیں ان کی تفصیل بھی وقت سے خاصا پہلے دی جا رہی ہے تاکہ عام لوگوں کو ضروری تیاری کے سلسلے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور کوئی یہ شکایت نہ کر سکے کہ ہم اس کے لیے پہلے سے تیار نہ تھے‘ بہتر ہوگا کہ یہ پورا مضمون سنبھال کر رکھیں کیوں کہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ عین وقت پر لوگ ہمیں فون کرتے ہیں کہ آپ کا وہ کالم کہیں گم ہوگیا ہے‘ اب آپ فون پر ہی ہمیں سب کچھ سمجھادیں‘ تو یہ ممکن نہیں ہوتا ۔
اوقاتِ شرف شمس
پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق شمس اپنے درجہ ء شرف پر بروز اتوار 02:32 am پر پہنچے گا اور 9 اپریل 02:47 pm تک شرف یافتہ رہے گا جب کہ جی ایم ٹی ٹائم کے مطابق شرف کا وقت 7 اپریل کو 07:23 pm سے شروع ہوگا اور اختتام 8 اپریل 07:47 pm پر ہوگا، دیگر ممالک کے افراد جی ایم ٹی ٹائم سے اپنے ملک اور شہر کا فرق معلوم کرکے اس ٹائم میں سے کم یا زیادہ کرلیں۔
چوں کہ یہ شرف اتوار کے دن ہوگا اور اتوار سیارہ شمس کا دن ہے لہٰذا پہلی ساعت صبح سورج نکلنے کے فوری بعد سیارہ شمس کی ہوگی جو تقریباً ایک گھنٹہ رہے گا جب کہ دوسری ساعت دوپہر تقریباً 01 بجے سے 02 بجے تک ہوگی، شمس سے متعلق کام دن کے اوقات میں کرنا بہتر ہوتا ہے لہٰذا رات کی ساعتیں نہ لی جائیں تو بہتر ہے۔
فتح نامہ
شرف شمس کا وقت فتح نامے کی تیاری کے لیے بھی انتہائی موزوں اور پُرتاثیر ہے،یہ مشرق کے نامور علمائے جفر کا نادر ترین عمل ہے جو کبھی فیل نہیں ہوتا اور تقریباً ہر قسم کے مسائل اور مشکلات میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ہمارے پرانے قارئین کو یاد ہوگا کہ کئی سال پہلے ہم نے اس کا طریقہ متعارف کرایا تھا اور بے شمار لوگوں نے اس سے فائدہ اور فیض حاصل کیا تھا ، 2011 ء میں بھی یہ طریقہ ء دیا گیا تھا۔بعد ازاں بہت سے نقال اسے لے اُڑ ے لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ‘ کیوں کہ ہمارا کام تو علم کو پھیلانا ہے ۔
فتح نامہ کے فوائد میں کامیابی‘حالات کی سختی سے نجات اور ہر طرح کی نحوست سے چھٹکارا ،کاروبار میں ترقی‘ قرض کی ادائیگی‘ ملازمت میں ترقی یا بہتر ملازمت کا حصول‘ مالکان یا اعلیٰ افسران کے رویے میں نرمی اور عمدہ سلوک ، گھریلو حالات کی بہتری ‘ سحر و جادو‘ آسیب و جنات سے نجات‘ دشمنوں سے بچاؤ‘ مقدمے میں کامیابی ، صحت میں بہتری‘ بیماری سے شفا‘ شادی میں کوئی بندش یا رکاوٹ ہو تو اس کا خاتمہ‘ الغرض بے شمار مقاصد ’’فتح نامہ‘‘کے دائرہ کار میں آتے ہیں ۔
فتح نامے کی تیاری یقیناً تھوڑا سا مشکل کام ضرور ہے مگر جو لوگ اسے درست اصول و قواعد کے مطابق تیار کرلیں گے وہ سمجھ لیں کہ انہوں نے دنیا فتح کرلی ہے، ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ مشکل طریقہء کار کو آسان الفاظ میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیں اس کے بعد بھی اگر طریقۂ کار کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آئے تو براہِ راست رابطہ کرکے سمجھ سکتے ہیں۔
اصول و قواعد فتح نامہ 
سب سے پہلے اپنے پورے نام کے اعداد ابجدِ قمری سے حاصل کریں پھر اپنی والدہ کے نام کے اعداد بھی نکالیں۔ اس کے بعد سات پیغمبروں کے نام لیں اور ان کے اعداد حاصل کریں۔ مثلاً آدم ؑ ‘ نوح ؑ ‘ سلیمانؑ ‘ موسیؑ ‘ داؤدؑ ‘ یوسفؑ اور محمدﷺ ۔ اس کے بعد آیات فتوحات کے اعداد لیں۔ آیات فتوحات یہ ہیں، آیاتِ فتوحات سے پہلے دُعائے فتح ہے۔
1 ۔اَفْتِح اَبْوَابِ فَتْحَکَ لِیْ ےَا مُفَتِّحُ الْا بْوَابِِْ ۔
2 ۔ اِنَّاا فَتَحْنَالَکَ فَتْحاً مُّبِےْنَا۔ ( سورہ فتح)۔
3 ۔ رَبَّنَاافْتَحْ بَےْنَنَاوَ بَینَ قَوْ مِنَا بِا لْحَقِّ وَاَنْتَ خَےْرُ الْفَا تِحِینَ ْ ( سورہ اعراف)۔ 
4 ۔ نَصْرُ مِّنَ اﷲ وَ فَتْح قَرِیب ( سورہ صف)۔
تینوں آیات اور دعا کے اعداد کا مجموعہ سات ہزار دو سو پچھتر (7275 ) ہوا۔ آپ کی سہولت کے لیے سات انبیاء کے ناموں کے اعداد کا مجموعہ بھی لکھ رہے ہیں جو 679 ہے۔ اب آپ کو صرف اپنے نام اور والد کے نام کے اعداد ہی معلوم کرنا ہیں اور پھر تمام اعداد کو باہم جمع کرنا ہے۔ مثلاً آپ کے نام مع والدہ کے اعداد کل 343 برآمد ہوئے تو کل مجموعہ ء اعداد 8288 ہو جائے گا۔ 
اعداد آیت = 7275 
اعداد نام انبیاء = 679 
اعداد مفروضہ نام مع والدہ= 334 
مجموعہ = 8288 
اس مجموعہ ء اعداد کا 7x7 خانوں کا نقش تیار کریں یعنی ایسا نقش جس میں 49 خانے ہوں جس کا طریقہ یہ ہے کہ کل مجموعہ اعداد میں سے 168 عدد کم کریں اور پھر باقی اعداد کو 7 پر تقسیم کردیں۔ اب جو باقی حاصل قسمت آئے اُسے نقش کے خانہ اول میں رکھ کر باقی خانوں میں ترتیب وار ایک عدد کے اضافے سے نقش بھرتے چلے جائیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل مجموعہ اعداد 8288 میں سے 168 عدد کم کریں تو باقی بچے 8120۔ اس کو 7پر تقسیم کیا تو جواب آیا 1160 ۔اسے نقش کے خانہ ء اوّل میں رکھیں اور پھر ایک عدد کے اضافے سے خانہ ء دوم میں اور اسی طرح آخری خانے تک ایک عدد کا اضافہ کرتے ہوئے پورا نقش مکمل کریں۔
سات درسات کی چال کا نقش ہم دے رہے ہیں۔ اس میں پہلا خانہ وہ ہے جس میں نمبر ایک لکھا ہے۔ اسی خانے سے نقش کی ابتدا ہوگی۔ 1160 اسی خانے میں لکھیں پھر جس خانے میں نمبر 2 ہے اس میں 1161 لکھیں پھر نمبر 3 میں 1162 ۔ الغرض اسی طرح ایک عدد کے اضافے سے 49 خانوں کا یہ نقش مکمل کر لیں۔ تمام کام وقت سے پہلے ہی تیار کرنا ہوگا تاکہ شرفِ شمس کے اوقات میں اور ساعتِ شمس میں صرف چال کے مطابق نقل کرنا ہی باقی رہ جائے ، نقش کے چاروں کونوں پر قولہ الحق ولہ الملک لکھیں اور چاروں ملائیکہ جبرائیل ، عزرائیل ، میکائیکل، اسرافیل لکھیں نقش کے دائیں بائیں کھیعص ، حمعسق لکھیں اور نقش مکمل کرنے کے بعد پشت پر یاروقیائیل ابو عبداللہ المذہب لکھیں جو سیارہ شمس کے مؤکلاتِ ارضی و سماوی ہیں۔
نقش کی چال

اب ایک مسئلہ اور باقی رہ گیا ہے اسے بھی سمجھ لیں۔ کل مجوعہء اعداد کو جب آپ 7 پر تقسیم کریں گے تو ضر وری نہیں کہ وہ برابر تقسیم ہو جائے۔ برابر تقسیم ہونے کی صورت میں تو ایک بہترین بات ہوگی لیکن تقسیم کے بعد اگر کوئی عدد باقی بچے تو پھر نقش میں کسر دینا ہوگی تب ہی وہ درست ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تقسیم کرنے کے بعد اگر ایک عدد باقی بچے تو نقش کے خانہ نمبر43 میں 1عدد کا اضافہ کرنا ہوگا۔ 2 باقی رہیں تو خانہ نمبر 36 میں 1کا اضافہ کریں۔ 3 باقی ہوں تو خانہ نمبر 29میں 1عدد بڑھا دیں۔ 4باقی رہیں تو 22ویں خانے میں 1عدد بڑھائیں۔ 5باقی ہوں تو خانہ نمبر 15میں 1عدد بڑھائیں اور اگر 6باقی ہوں توآٹھویں خانے میں 1عدد کا اضافہ کریں۔ یہاں ایک عدد کا اضافہ کرنے کا مطلب بھی سمجھ لیں۔ مثلاً آپ نقش کے خانے ایک ایک عدد کے اضافے سے بھرتے چلے جا رہے ہیں تو جب کسر کا خانہ آئے تو اس میں 1کے بجائے 2کا اضافہ کر دیں۔ باقی نقش اسی طرح بھرتے چلے جائیں۔ نقش کے درست بھرے جانے کی پہچان یہ ہو گی کہ نقش کے ہر سات خانوں کی میزان وہی آنی چاہیے جو آپ کے نام مع والدہ کے اعداد، آیتوں کے اعداد اور اسمائے انبیاء کے اعداد کامجموعہ ہو گا۔ اگر اس مجموعے کے مطابق نقش کے ہر سات خانوں کا مجموعہ نہیں ہے تو سمجھ لیں نقش غلط بھرا گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں آپ سے حساب میں غلطی ہوئی ہے۔
نقش کی تیاری کے لیے مزید اصول و قواعد بھی سمجھ لیں۔یہ نقش ہرن کی جِھلّی یا ایسے کاغذ پر لکھیں جو ایک طرف سے گولڈن یا زرد کلر کا ہو، روشنائی اگر مشک و زعفران سے تیار کی گئی ہو تو کیا کہنے مگر آج کے دور میں شاید یہ ممکن نہ ہو ، ایسی صورت میں زرد یا سرخ رنگ استعمال کریں، شرف کا وقت تقریباً 24 گھنٹے رہے گا، اس تمام عرصے میں صرف شمس کی ساعتیں نقش لکھنے کے لیے مؤثر ہوں گی، مقررہ وقت سے پہلے غسل کرکے پاک صاف لباس پہنیں اور زعفران یا مشک کے عطر کی خوشبو لگائیں، علیحدہ کمرے میں رجال الغیب کا خیال کرکے بیٹھیں کہ آپ کا رخ رجال الغیب کی طرف نہ ہو، کمرے میں عود و لوبان کا بخور جلا کر خوشبو کریں،یہ میسر نہ ہو تو عمدہ خوشبو دار اگربتیاں جلائیں،بہتر ہوگا کہ سرخ یا زرد لباس پہنیں یا پھر اس رنگ کا کوئی کپڑا نیچے بچھالیں،کوئی زرد رنگ کی مٹھائی مثلا بیسن کے لڈو وغیرہ پاس رکھیں تاکہ کام ختم ہونے کے بعد فاتحہ دی جاسکے۔
اب ایک مسئلہ اور باقی رہ گیا ہے اسے بھی سمجھ لیں۔ کل مجوعہء اعداد کو جب آپ 7 پر تقسیم کریں گے تو ضر وری نہیں کہ وہ برابر تقسیم ہو جائے۔ برابر تقسیم ہونے کی صورت میں تو ایک بہترین بات ہوگی لیکن تقسیم کے بعد اگر کوئی عدد باقی بچے تو پھر نقش میں کسر دینا ہوگی تب ہی وہ درست ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ تقسیم کرنے کے بعد اگر ایک عدد باقی بچے تو نقش کے خانہ نمبر43 میں 1عدد کا اضافہ کرنا ہوگا۔ 2 باقی رہیں تو خانہ نمبر 36 میں 1کا اضافہ کریں۔ 3 باقی ہوں تو خانہ نمبر 29میں 1عدد بڑھا دیں۔ 4باقی رہیں تو 22ویں خانے میں 1عدد بڑھائیں۔ 5باقی ہوں تو خانہ نمبر 15میں 1عدد بڑھائیں اور اگر 6باقی ہوں توآٹھویں خانے میں 1عدد کا اضافہ کریں۔ یہاں ایک عدد کا اضافہ کرنے کا مطلب بھی سمجھ لیں۔ مثلاً آپ نقش کے خانے ایک ایک عدد کے اضافے سے بھرتے چلے جا رہے ہیں تو جب کسر کا خانہ آئے تو اس میں 1کے بجائے 2کا اضافہ کر دیں۔ باقی نقش اسی طرح بھرتے چلے جائیں۔ نقش کے درست بھرے جانے کی پہچان یہ ہو گی کہ نقش کے ہر سات خانوں کی میزان وہی آنی چاہیے جو آپ کے نام مع والدہ کے اعداد، آیتوں کے اعداد اور اسمائے انبیاء کے اعداد کامجموعہ ہو گا۔ اگر اس مجموعے کے مطابق نقش کے ہر سات خانوں کا مجموعہ نہیں ہے تو سمجھ لیں نقش غلط بھرا گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں آپ سے حساب میں غلطی ہوئی ہے، وہ لوگ جو کسی مجبوری کی وجہ سے خود یہ تمام نہ کرسکیں، براہ راست رابطہ کرسکتے لیکن اس صورت میں وقت سے پہلے یعنی یکم اپریل تک اپنا نام مع والدہ اور خصوصی مقصد سے آگاہ کریں، کاغذ پر یا ہرن کی جھلّی پر فتح نامہ تیار کیا جائے گا۔

ہفتہ، 10 مارچ، 2018

حقیقی شفا بخشی کے عمل کے لیے ضروری شعور

مروجہ علاج کے طریقے اور بیماریوں کا روحانی اور جسمانی عمل دخل
گزشتہ ہفتے ہم نے عرض کیا تھا کہ علاج معالجے کے سلسلے میں مریضوں اور ان کے سرپرستوں میں بے شمار غلط تصورات رواج پاگئے ہیں اور اس کی پہلی وجہ تو ہم روحانی علاج کے حوالے سے بیان کرچکے ہیں کہ لوگ کسی کرامت اور معجزہ کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن دوسری وجہ ایلو پیتھی اور اس سے وابستہ کمرشل ازم ہے، ساتھ ہی یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ موجودہ مشینی دور کے انسان کے پاس علاج معالجے کے لیے فرصت بھی بہت کم ہے لہٰذا وہ اپنے دکھ ، تکلیف سے فوری نجات پاکر جلد از جلد کاروبار زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہونا چاہتا ہے، ایلو پیتھی طریقہ علاج نے اسے یہ سہولت فراہم کردی ہے اور اس سے وابستہ معالجین اور دواؤں کی کمپنیوں نے ایسی دواؤں کو فروغ دیا جو فوری اثر کرکے مریض کو آرام پہنچادیں، ایسی دوائیں درحقیقت عارضی ضرورت کے تحت ایجاد ہوئی تھیں اور کسی ایمرجنسی کے تحت ناگزیر صورت حال میں ہی ان کا استعمال جائز قرار دیا گیا تھا مگر پیشہ ور افراد نے ان دواؤں کا ناجائز استعمال شروع کردیا، ایسی ادویات کے لیے میڈیکل سائنس میں اسٹریو رائیڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، تمام پین کلر، درد میں فوری افاقہ لانے والی دوائیں اسی ذیل میں آتی ہیں، تمام مسکن ادویات جن کے استعمال سے مریض فوری طور پر نیند کی آغوش میں پہنچ کر اپنی تکالیف کو فراموش کر بیٹھتا ہے، ایسی ہی ہیں اور آج کے دور میں کارٹی زون نے بھی اس حوالے سے بہت شہرت پائی ہے، اس کے بارے میں ہر اچھا ڈاکٹر جانتا ہے کہ اس کا زیادہ استعمال نہایت مضر صحت اور خطرناک ہے لیکن اپنی پریکٹس کو چمکانے اور دواخانے کی آمدن بڑھانے کے لیے بعض غیر مخلص اور ہوس زر میں مبتلا ڈاکٹر اسے بے دریغ استعمال کرتے ہیں، مریض بھی خوش خوش گھر چلا جاتا ہے کہ اسے فوری آرام مل گیا۔
ایسی دواؤں کا ایک اور استعمال نہایت خطرناک صورت میں سامنے آیا ہے اور وہ ہر مرض کی پیٹنٹ ادویات بناکر اشتہارات کے بل بوتے پر دوائیں فروخت کرنے والی کمپنیوں نے متعارف کرایا ہے، یہ کمپنیاں بھی صرف اسی وجہ سے کہ پہلی ہی خوراک مریض پر اثر دکھا دے اور وہ ان کی پیش کردہ پروڈکٹ کے دام میں پھنس جائے اس طرح اصل بیماری قائم رہتی ہے ، صرف کچھ عرصے کے لیے یا کچھ وقفے کے لیے مریض کو تکلیف سے نجات مل جاتی ہے، کارٹی زون کے بارے میں تو یہ بات بھی تجربے میں آئی کہ جو مریض اس کا عادی ہوجائے پھر اس پر کوئی اور دوا اثر نہیں کرتی، اسے صرف کارٹی زون ہی سے آرام آئے گا مگر بالآخر یہ مریض کو قبر تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے، یہی صورت حال اینٹی بایوٹک ادویات کے بے تحاشا اور اندھا دھند استعمال کی ہے،مشہور میڈیسن ڈیلٹا کارٹیئل میں کارٹی زون موجود ہے۔
کچھ عرصہ پہلی کی بات ہے حیدرآباد میں کوئی صاحب چینی کی پڑیا بانٹ رہے تھے اور دعویٰ یہ تھا کہ اس سے شوگر کا مرض ختم ہوجاتا ہے، لوگ جوق در جوق چینی لینے حیدرآباد جارہے تھے،ہمارے بھی چند واقف وہ چینی استعمال کرچکے ہیں، ایک صاحب نے پوچھنے پر بتایا کہ پڑیا کھانے کے فوراً بعد شوگر نارمل ہوجاتی تھی مگر بعد میں پھر شوگر بڑھ گئی، یہ شعبدہ بھی ایسی ہی ادویات کے استعمال کا نتیجہ تھا جو چینی میں ملادی جاتی تھیں۔
ایک مشہور بوٹی ’’گڑمار‘‘ کہلاتی ہے، اس کے پتے چبانے کے بعد اگر آپ کوئی میٹھی چیز کھائیں تو پھیکی معلوم ہوگی، اس کا سفوف یا جو شاندہ وغیرہ فوراً شوگر کو کم کرتا ہے، طب یونانی میں یہ شوگر کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر یہ شوگر کا مستقبل علاج نہیں ہے، ہومیو پیتھی میں بھی اس بوٹی سے ایک دوا بنائی گئی ہے اور وہ بھی شوگر کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہوتی ہے، الغرض ایسی تمام دوائیں جو مرض کی شدت کو عارضی طور پر کم کرکے مریض کو وقتی سکون پہنچاتی ہیں، اصطلاحاً ’’اسٹریو رائیڈز‘‘ کہلاتی ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ مرض کو جڑ سے ختم کردیں لیکن لوگ اب اسی طریقہ علاج کو بہتر سمجھنے لگے ہیں اور اس کے عادی ہوچکے ہیں، اگر کسی معالج کی دوا فوری کوئی فائدہ نہ دکھائے تو وہ فوراً معالج بدلنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لہٰذا پیشہ ور معالج بھی مجبور ہیں کہ مریض کو روکنے اور اپنے روزگار کو استحکام دینے کے لیے ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لیں۔
بخار ایک عام مرض ہے اور اس کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے بعض نہایت خطرناک ہیں اور اس کو فوراً اتارنا خطرناک تصور کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس کا زور فوراً توڑ دیا جائے، ہم نے دیکھ اہے کہ اکثر چھوتے بچے کم عمری میں جب بخار کا شکار ہوتے ہیں تو ماں باپ محبت سے مجبور ہوکر کسی فوری زود اثر علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام ایلوپیتھ ڈاکٹر بھی ان کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے فوراً اینٹی بائیوٹک ادویات کا سہارا لیتے ہیں، نتیجتاً بخار تو فوراً اتر جاتا ہے لیکن ایسے بچے بعد میں پولیو یا کسی مہلک بیماری کا شکار ہوکر ساری عمر معذوری میں گزارتے ہیں۔
اس تمام سمع خراشی کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگوں میں علاج معالجے اور امراض کے سلسلے میں شعور اجاگر کیا جائے جو حقیقی شفا بخشی کے عمل کے لیے ضروری ہے، انہیں یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پیچیدہ امراض کا علاج کسی ایک دوا سے صرف چند روز میں ممکن نہیں، حالاں کہ ایلوپیتھک علاج کے دوران میں اکثر بیماریوں میں مریضوں کو طویل عرصے تک اور بعض صورتوں میں عمر بھر دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں اور پھر بھی صرف عارضی روک تھام ہی ہوسکتی ہے اور اس سلسلے میں وہ جو دوائیں مستقل استعمال کر رہے ہیں ان کے سائیڈ افیکٹ کچھ دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کچھ نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں تب بھی وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتے کہ کسی دوسرے طریقہ علاج کو مستقل مزاجی سے آزمائیں اور اس راستے میں اگر کچھ تکلیفیں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہیں تو تھوڑے دن کے لیے برداشت کرلیں، اس سلسلے میں خصوصاً لوگوں کو ہومیو پیتھی سے یہ شکایت نظر آتی ہے کہ وہ مرض کو بڑھاتی ہے اور یہ بات ناقابل برداشت ہے، اس اعتراض کا جائزہ لینے کے لیے دونوں طریقہ علاج کے بنیادی نظریات کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
ایلو پیتھی اور طب یونانی یا آیورویدک طریقہ علاج ’’علاج بالضد‘‘ کہلاتے ہیں یعنی جسم کا جو حصہ بیماری سے متاثر ہوتا ہے، اس طریقہ علاج میں دواؤں کے ذریعے اس کو ہدف(ٹارگٹ) بنایا جاتا ہے یعنی جگر، معدہ، گردے یا کوئی بھی جسمانی عضو جو بیماری سے متاثر ہے اور مریض کے لیے وہ بیماری تکلیف و پریشانی کا سبب ہے تو صرف اس حصے کے علاج پر زور دیا جاتا ہے جب کہ ہومیو پیتھی کے نظریات اور طریقہ علاج اس کے بالکل برعکس ہیں۔
ہومیو پیتھی کو ’’علاج بالمثل‘‘ کہا جاتا ہے یعنی کسی مریض کا علاج ایسی دوا سے کیا جائے جس کے مسلسل استعمال سے ایک صحت مند آدمی ویسے ہی عارضے میں مبتلا ہوسکتا ہے جو اس دوا سے منسوب ہے ، مثلاً ’’گڑماربوٹی‘‘ کا خام شکل میں استعمال لبلبے کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے اور انسان شوگر (ذیا بطیس) کی بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے تو اس کے علاج کے لیے گڑمار بوٹی ہی نہایت قلیل و لطیف مقدار میں استعمال کرائی جائے گی، اس نظریے کے تحت کسی مخصوص مرض یا جسمانی عضو کا علاج نہیں ہوتا بلکہ مکمل مریض کا علاج ہوتا ہے، یہی وہ نکتہ ہے جو شفا بخشی کے حقیقی اصولوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے، وہ دوا جو صرف کسی ایک مرض کا علاج کرنے کے لیے دی جارہی ہے اور مزید چار نئے امراض پیدا کر رہی ہے، کسی صورت بھی مکمل شفا کے قانون پر پوری نہیں اترسکتی، ہاں وہ دوا جو مریض کے پورے ذہنی، جسمانی اور روحی سسٹم پر اثر انداز ہوکر اصلاح کے عمل کا آغاز کر رہی ہے، اس سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل شفا بخشی دے اور مزید کوئی نئی خرابی پیدا نہ ہونے دے، اپنے اس مشن کی تکمیل کے لیے اگر وہ جسم سے کچھ فاسد مادوں کے اخراج پر زور دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں بخار مزید تیز ہوجاتا ہے، نزلہ بڑھ جاتا ہے، جسم پر جلدی امراض ظاہر ہوجاتے ہیں یا مریض کو اسہال شروع ہوجاتے ہیں تو یہ صحت مندی کی طرف جانے کی علامات ہیں، نہ یہ کہ گھبراکر علاج ہی چھوڑ دیا جائے اور ان فاسد مادوں کے اخراج کو روکنے کی کوشش کی جائے، یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ ایسی کسی صورت میں جب بخار، موشن شدید ہوجائیں تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے یا جسم پر پھوڑے پھنسی کی نمو اس کے لیے عذاب بن سکتی ہے یا کسی بھی مرض کے علاج میں مرض کی شدت بہر حال تکلیف دہ ہوتی ہے تو ہم یہ وضاحت کردیں کہ اگر کسی ہومیو پیتھک دوا کے استعمال سے ایسی صورت پیدا ہو تو وہ زیادہ عرصہ نہیں رہتی اور خطرناک ہر گز ثابت نہیں ہوتی، دوسری بات یہ کہ اسے پھر ہومیو پیتھک دوا ہی سے کنٹرول بھی کرلیا جاتا ہے، اس طرح کوئی مہلک مرض بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے، یاد رکھیے کہ اصول یہی درست ہے کہ بیماری اندر سے باہر کی طرف آجائے نہ یہ کہ بیماری اندر ہی دب کر رہ جائے۔
جسمانی اعضاء کا علاج یا جسم مثالی کا علاج
اب تک کی گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ عام قارئین کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہوسکے، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ عام اور سادہ بیماریوں اور خاص یا پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں فرق کو سمجھا جاسکے، جب تک اس فرق کو نہیں سمجھا جائے گا، پیچیدہ بیماریوں پر قابو پانا مشکل ہوگا بلکہ یہ بیماریاں مزید مشکل اور بھیانک شکل اختیار کرتی رہیں گی اور لوگ سحرو جادو یا آسیب و جنات کے چکر میں گرفتار ہوتے رہیں گے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب کوئی معمولی سے معمولی بیماری بھی طویل عرصے تک انسان کے پیچھے لگی رہے اور ہر قسم کے علاج معالجے کے باوجود اس سے پیچھا نہ چھوٹے تو سادہ مزاج عام لوگ تو کجا، بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ افراد بھی الجھن میں پڑجاتے ہیں، ان کا ذہن فوراً کسی نادیدہ ماورائی اثر کی کار فرمائی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے، یہی صورت حال اس وقت بھی ہوتی ہے جب انسان گردش وقت کا شکار ہوکر یا اپنی کوتاہیوں، حماقتوں وغیرہ کے سبب زوال پذیر ہوتا ہے اور اس کی بہتری کے لیے کیے گئے تمام اقدام بے کارو بے فیض ہوتے چلے جاتے ہیں لہٰذا وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کی بدقسمتی اور ناکامیوں کا سبب یقیناً کوئی جادوئی یا ماورائی چکر ہے، ایسے موقع پر فوری طور سے وہ لوگ ذہن میں آنے لگتے ہیں جن سے کوئی پرانی چپقلش، محاذ آرائی وغیرہ موجود ہو یا کبھی کسی مسئلے پر ان سے کوئی بدمزگی وغیرہ ہوئی ہو، مزید سونے پر سہاگہ یہ کہ ان مفروضہ حریفوں میں کسی کو شوق عملیات و نقوش بھی ہو، یہ کام خواہ وہ اپنے ہی مسائل کے حل کے لیے کرتے یا کراتے ہوں لیکن شک و شبے کے معاملے میں سرفہرست وہی ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک کے نام نہاد روحانی معالجین نے بھی اپنی پیشہ ورانہ مجبوریوں کے تحت مستقل طور پر یہ روش اپنالی ہے کہ ہ رپریشان حال یا ہر قسم کے بیمار پر سحروجادو، بندش و آسیبی اثر کا فتویٰ صادر کردیتے ہیں، ہمارے پاس آنے والے اکثر افراد اور ہمیں موصول ہونے والی بے شمار ڈاک سے ہمیں اس صورت حال کا پتا چلتا رہتا ہے کہ معاملہ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو، نام نہاد روحانی معالج اسے بندش آسیب وغیرہ ہی قرار دیتے ہیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر کیا کریں؟ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر، کیوں کہ میڈیکل سائنس سے وہ ناواقف، نفسیات اور مابعدالنفسیات کا انہیں کوئی علم نہیں، روحانیات کے نام پر ان کا مخصوص حلیہ اور ان کے زبانی دعوے کافی ہیں، ذرا سوچیے آج سے ڈیڑھ دو سو سال قبل اگر موجودہ دور کے سائنسی کمال پیش کیے جاتے تو کیا یہ ماہر روحانیات انہیں سحروجادو اور آسیب و جنات کے سوا کوئی اور نام دے سکتے تھے؟
جہاں علم نہ ہو اور عقل محدود ہوکر رہ جائے وہاں ایسے ہی معاملات سامنے آتے ہیں، بقول مولانا حسرت موہانی۔
خرد کا نام جنون رکھ دیاجنون کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
قصہ مختصر یہ کہ ننانوے فیصد آسیب و جنات اور سحروجادو کے کیسوں میں کم علمی اور ناقص العقلی کارفرما ہوتی ہے اور یہ کارفرمائی اکثر اوقات عجیب رنگ دکھاتی ہے یعنی ایک عام سی بیماری یا پریشانی کا معاملہ غلط تشخیص اور غلط علاج کے سبب بگڑتے بگڑتے واقعی آسیبی یا سحری ہوجاتا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی ذہنی یا جسمانی مرض میں مبتلا مریض جو پہلے ہی اپنی ذہنی و جسمانی توانائی میں کمزوری کا شکار ہوتا چلا جارہا ہو، اسے جب روحانی علاج کے نام پر جھاڑ پھونک اور عملیات و تعویذات کے زیر اثر لانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ ان کے زیر اثر آجائے گا، اب اگر اس پر سحری اثرات نہیں تھے تو ہوگئے، ہم نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کے حوالے سے ’’علاج بالمثل‘‘ کے اصول کی وضاحت کی تھی، اس اصول کی بنیاد یہی ہے کہ ایک صحت مند شخص جب ذہنی، روحی یا جسمانی طور پر کسی بیرونی مادی یا ماورائی شے کے زیر اثر آتا ہے تو اس کی روح یا جسم متاثر ہوکر ردعمل ظاہر کرتے ہیں، ہومیوپیتھی کے بانی ہنی مین نے اس حقیقت کا تجربہ سب سے پہلے اپنی ذلت پر کیا تھا، اسے معلوم تھا کہ کونین ملیریا کے علاج کے طور پر استعمال ہوتی ہے لہٰذا اس نے کونین کھانا شروع کردی، تھوڑے ہی دن میں اسے ملیریا ہوگیا یعنی اس کے جسم میں وہی علامات ظاہر ہونے لگیں جو ملیریا کے مریض میں ظاہر ہوتی ہے، یہ وہ پہلا تجربہ تھا جس نے علاج بالمثل یعنی ہومیو پیتھی کی بنیاد رکھی، اس کے بعد ہنی مین نے کونین ہی سے اپنا علاج کیا، اس کی ایک نہایت قلیل اور لطیف مقدار استعمال کرنا شروع کی، نتیجتاً وہ علامات ختم ہوگئیں جو کونین کی زیادہ مقدار ایک صحت مند جسم میں داخل ہونے سے پیدا ہوگئی تھیں۔
اس مثال سے قارئین نے سمجھ لیا ہوگا کہ اندھا دھند طریقوں پر علاج کے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں، آج ہمارے معاشرے میں پیچیدہ ترین بیماریوں کی بھرمار کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوپاتی اور اس کا غلط علاج شروع کردیا جاتا ہے اور ایسا خصوصاً عطائی ڈاکٹروں، نیم حکیموں اور نام نہاد روحانی معالجین کی ہوس زر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جہاں تک مادی طریقہ علاج کا تعلق ہے اس سے متعلق مسائل کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں لیکن روحانی علاج معالجے کا معاملہ نہایت نازک ہے، اس کے لیے معالج کا علم نہایت وسیع ہونا ضروری ہے اور یہ وسعت صرف کسی ایک علم تک محدود ہو ناکافی نہیں، ہمارے ہاں تو رواج ہوگیا ہے کہ روحانی معالج کی قابلیت اور علمیت کے بارے میں کسی چھان پھٹک کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، صرف ان کے دعوؤں کی بنیاد پر لوگ ان کے ٹھکانوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، جیسا کہ ہم نے حیدرآباد میں چینی کی پڑیا والا واقعہ بیان کیا ہے یا پھر صرف اس بات پر اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ معالج صاحب نمازی پرہیزگار اور بزرگ صورت ہیں، ہمیں اس سے انکار نہیں کہ اللہ کے نیک بندے روحانی قوتوں سے سرفراز ہوتے ہیں، جن کی زبان میں اثر ہوتا ہے، شیطانی قوتیں ان کے سامنے نہیں ٹک سکتیں مگر جہاں مسئلہ خود انسان کے اپنے اعمال بداور غلط کاریوں سے یا معاشرتی خرابیوں سے، ذہنی اور نفسیاتی پیچیدگیوں سے وجود میں آیا ہو اور اتنا پیچیدہ ہوچکا ہو کہ خود انسان کے شیطان بننے کے آثار پیدا ہوچکے ہوں، وہاں عام قسم کی روحانی قوتیں کیا کریں گی؟ موجودہ دور میں ولی کامل ہونے کے دعوے دار تو بہت ہیں مگر حقیقی ولی کامل کوئی نظر نہیں آتا لہٰذا یہ توقع رکھنا فضول بات ہوگی کہ کوئی ولی کامل مل جائے اور پلک جھپکتے میں سارے مسائل حل کردے، ہر بیماری کا علاج کردے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی لیکن اس طرح کے موضوعات میں اس طرح تو ہوتا ہے، ہم اپنے اس مؤقف کا اظہار کرچکے ہیں کہ تمام مروجہ طریقہ علاج جو علاج بالضد کے اصول پر کام کرتے ہیں، پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں ناکام ہیں۔(پیچیدہ بیماریوں میں سحری اور آسیبی امراض شامل ہیں) لیکن وہ طریقہ علاج جو علاج بالمثل کے اصول پر قائم ہوں صرف ان ہی سے حقیقی شفا بخشی کی امید رکھی جاسکتی ہے، ایسے طریقہء علاج صرف وہی ہوسکتے ہیں جو فطرت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہوں اور انسانی تخلیق کے فارمولے کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کیے گئے ہوں، اس سلسلے میں سرفہرست پیراسائیکالوجی کی مختلف شاخیں اور ہومیو پیتھک طریقہ علاج ہے۔
پیرا سائیکالوجی کے حوالے سے ہم گزشتہ سالوں میں وقتاً فوقتاً بہت کچھ لکھتے رہے ہیں اور ہومیو پیتھی کے حوالے سے بھی مختصراً اظہار خیال کیا ہے، ہمارے قارئین کے ذہن میں سوال ضرور ابھرتا ہوگا کہ ہم پیراسائیکالوجی کے بعد ہومیوپیتھی کو کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں لہٰذا اس کی تھوڑی سی وضاحت کردی جائے۔
روحانی سائنس کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ انسان کا جسم براہ راست مرض کا شکار نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی خرابی کی ابتدا سب سے پہلے اس کے ہمزاد یا جسم مثالی سے ہوتی ہے اور اس کا ظہور انسانی جسم پر ہوتا ہے لہٰذا پیراسائیکالوجی بنیادی طور پر انسان کے جسم مثالی کی اصلاح پر توجہ دیتی ہے۔ اگر جسم مثالی کی خرابیوں کو دور کردیا جائے تو ہر قسم کے جسمانی عارضے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں، اس سلسلے میں پیراسائیکولوجی کے اپنے اصول و قواعد ہیں جن کے تحت علاج معالجے کے بے شمار طریقے موجود ہیں، ہومیو پیتھی کے بنیادی اصول اور ہومیو پیتھک دوا کی لطافت ہمارے نزدیک وہ اہم حقیقت ہے جس پر غوروفکر ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کا جسم مثالی کوئی مادی شے نہیں ہے اور غیر مادی شے پر مادی شے مؤثر نہیں ہوسکتی ، جسم مثالی کی لطافت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ لطیف ترین طریقہ علاج اپنایا جائے جو پیراسائیکولوجی کے بعد ہومیو پیتھی ہی ہے، خیال رہے کہ ہم کلر تھراپی کو بھی پیراسائیکولوجی کی ایک شاخ تصور کرتے ہیں۔
ہومیو پیتھک دوا اونچی طاقت میں اپنا مادی وجود کھودیتی ہے، صرف اس کا روحی اثر باقی رہتا ہے،ا س کی یہی لطیف ترین شکل ہمارے جسم مثالی یا ہمزاد پر مؤثر ہوسکتی ہے اور اس میں پیدا شدہ خرابی کو دور کرسکتی ہے۔

ہفتہ، 3 مارچ، 2018

پیچیدہ امراض کے علاج معالجے کا مشاہداتی جائزہ

معاشرتی وہم و گمان کی کرشمہ سازیاں، شرف زہرہ کے مزید مؤثر اوقات
اکثر خطوط، ای میلز یا فون پر لوگ جب اپنے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اکثریت کا دل و دماغ کسی پراسرار گتھی میں الجھا ہوا نظر آتا ہے،وہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نہایت پراسرار قسم کا معاملہ ہے جو کسی طرح بھی قابو میں نہیں آتا، وہ ہر طرح کا علاج معالجہ کرچکے ہیں لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، جسمانی بیماریاں ہوں یا معاشی مسائل ، ازدواجی الجھنیں ، شادی میں تاخیر کے معاملات ، دو افراد کے درمیان ناچاقی، طلاق، کاروبار میں نقصان، الغرض کوئی بھی مسئلہ ہو، لوگ بالآخر اسے کسی نہ کسی جادو ٹونے یا آسیب و جنات سے جوڑ لیتے ہیں، مزید یہ کہ اس حوالے سے ان کے شبہے کو تقویت دینے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، ہمارے نام نہاد پیر فقیر اور عامل کامل ان کے یقین کو مزید مضبوط کردیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بھی پاکستان اور بیرون ملک سے کچھ اسی نوعیت کے خطوط اور ای میلز ہمیں ملے ہیں اور تقریباً سب کا یہی خیال ہے کہ وہ کسی آسیبی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں یا پھر ان کے دشمن ان کے خلاف کوئی تعویذ یا عمل کراتے ہیں ، حالاں کہ ان تمام کیسز میں ایک کیس بھی ایسا نہیں تھا جس میں کسی آسیب یا جادو کی کارفرمائی نظر آئے اور تقریباً سب ہی یہ بھی بتارہے ہیں کہ فلاں اور فلاں اور فلاں نے کہا ہے کہ آپ پر بڑی سخت بندش کی گئی ہے یا آپ کے گھر میں آسیبی اثرات ہیں وغیرہ وغیرہ۔
آج کی نشست میں اسی صورت احوال پر گفتگو ہوگی اور اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر کہیں واقعی آسیب و جنات یا سحروجادو کا معاملہ ہے بھی تو وہ باآسانی پاکیزگی اور کلام الٰہی کی برکت سے ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس نفسیاتی یا دیگر جسمانی امراض کے سبب اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہو تو پھر ان طریقوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا، بلکہ اس صورت میں ضروری ہوگا کہ مریض کی پوری کیس ہسٹری کا جائزہ لے کر مرض کے اصل سبب کو جاننے کی کوشش کی جائے لیکن نہایت افسوس ناک بات یہ ہے کہ مریض عموماً خود تو اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ معالج سے بھرپور تعاون کرے لیکن مریض کے لواحقین بھی اس سلسلے میں وہ تعاون نہیں کرتے جو انہیں کرنا چاہیے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہ جہالت آمیز تصورات اور نظریات ہیں جو جنات، آسیب، بدارواح اور سحرو جادو کے حوالے سے پھیل گئے ہیں۔
ان نظریات و تصورات کے تحت جہاں لوگ ہر قسم کی پیچیدہ بیماری کو خواہ وہ نفسیاتی ہوں یا جسمانی، سحروآسیب کی کار گزاری سمجھنے لگتے ہیں وہیں ان کے علاج کے سلسلے میں بھی وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ بس کوئی پھونک مار دے اور مریض اچھا ہوجائے یا کہیں سے کوئی ایسا نقش، تعویذ یا طریقہ مل جائے جو چند دنوں میں مریض کو صحت یاب کردے، حد یہ کہ اپنی نا اہلی، نالائقی ، کاہلی، سستی، بے ہنری، بے علمی یا حالات و وقت کی گردش کے سبب پیدا ہونے والی بدحالی، مفلسی، بے روزگاری الغرض ہر قسم کے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کی زیادتی کو بھی جب سحروجادو اور آسیب و جنات کی کارروائی قرار دیا جاتا ہے تب بھی یہی توقع کی جاتی ہے کہ بس کہیں سے کوئی ایسی شے مل جائے جو چند دنوں میں ہمارے حالات بدل کر رکھ دے جب کہ یہ ممکن نہیں ہوتا۔
فطرت کے قوانین اپنی جگہ اٹل ہیں، ان کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے، فطری قوانین کے تحت ہی تعمیر اور تخریب کا عمل انجام پاتا ہے ، یہ ممکن نہیں ہے کہ جو عمارت ایک سال میں تعمیر ہوسکتی ہو اسے ایک دن میں تعمیر کرلیا جائے، اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو عمارت ناپائیدار، نقصان دہ ثابت ہوگی مگر کیا کیا جائے کہ لوگ آج بھی کرامات اور معجزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کرامات اور معجزے بھی قوانین اور فطرت کے پابند ہیں یعنی ان کے ظہور کے لیے فطرت نے کچھ شرائط مقرر کردیں اور ہر جگہ ہر معاملے میں ان کا اطلاق ممکن نہیں، انبیاء ہوں یا اولیاء سب قوانین فطرت کے پابند ہوتے ہیں اور معجزوں یا کرامات کا ظہور ان کی ذات سے انتہائی خاص مواقع پر ہی منسوب ہوا ہے، انبیاء کو معجزاتی صفت دین کی سربلندی اور اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کے مشن کے لیے تفویض کی گئیں، یہی صورت اولیاء کرام کے ساتھ رہی ان کی ذات سے بھی کرامات کا ظہور صرف اس صورت میں ہوا جب وہ اللہ کے دین کی نشرواشاعت کے کام میں مصروف ہوئے، اپنی ذات اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ان صفات کو کبھی استعمال نہیں کیا گیا، اہل تصوف میں اس ولی کا درجہ کم تر مانا گیا ہے جس کی ذات سے کرامات کا اظہار (یعنی خوارق عادات کا ظہور) جاوبے جا وقتاً فوقتاً کثرت سے ہوتا رہے اور اس میں ولی کے ارادے کو بھی دخل ہو، ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی راہ سلوک کا مسافر ابتدائی منازل میں ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی زیادہ پی کر بہکنے لگے، کوئی پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگے، ایسے مرحلوں میں مرشد کامل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ورنہ اکثر غلط راہ پر پڑ کر ذہنی توازن بھی کھو بیٹھتے ہیں یا شیطان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
انبیاء اور اولیاء کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی اور ان کے عزیزو اقرباء کی ذاتی زندگیاں مادی مسائل اور پریشانیوں سے لبریز رہی ہیں اور ان کے حل کے لیے انہوں نے کبھی اپنی ان قوتوں کو استعمال نہیں کیا جو کائنات میں تصرف کے لیے انہیں حاصل ہوتی ہیں، اسی طرح حاجت مندوں کی حاجت روائی میں بھی ’’خوارق عادات‘‘ کا ظہور انتہائی خاص خاص مواقع پر ہی نظر آتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بالآخر کوئی بہت بڑی آفاقی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے، بات کہاں سے کہاں نکل گئی، یہی موضوع چلتا رہا تو ہم اپنے اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے لہٰذا واپس اصل موضوع کی طرف آئیے۔
ہوتا یوں ہے کہ جب ہم کسی بیماری کے علاج معلاجے میں مستقل ناکام ہوتے رہتے ہیں تو پھر ذہن فوراً کسی نادیدہ پراسرار قوت کی مداخلت کی طرف چلا جاتا ہے، میڈیکل سائنس اور دیگر جدید علوم سے ناواقفیت کے سبب ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم برسوں جن معالجین کے زیر علاج رہے انہوں نے ہمارا علاج درست کیا یا غلط؟ یا وہ ہمارے مرض کی صحیح تشخیص بھی کرسکے یا نہیں لہٰذا مہینوں برسوں کے مختلف علاج معالجوں کے بعد آخر انسان یہی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کی بیماری کسی ماورائی نوعیت کی ہے جو اتنے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے قابو میں نہیں آرہی۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عام علاج معالجے کی صورت حال بھی نہایت ناقص اور خراب ہوچکی ہے، اول تو اعلیٰ درجے کے مخلص معالجین کی شدید قلت ہے اور جو ہیں ان کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیات اور کمرشل تقاضے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی پیچیدہ کیس پر اپنے مقررہ وقت سے زیادہ وقت صرف کرسکیں، ایسی صورت میں وہ خود معاشی پریشانیوں کا شکار ہوسکتے ہیں، یہ صورت حال عام مادی پریشانیوں کے حوالے سے ہے، نفسیاتی اور روحانی امراض کا ذکر تو چھوڑیے کیوں کہ یہ وہ شعبہ ہے جو ہمارے ملک میں انتہائی غریب اور ضعیف ہے، اس شعبے میں تحقیقاتی کام کسی بڑے ادارے کی نگرانی میں باضابطہ طور پر نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ انفرادی طور پر ضرور کچھ مخلص افراد کام کرتے رہے ہیں۔
نفسیاتی علاج معالجے کے حوالے سے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ لگے بندھے اصول پر جاری ہے جس کی وجہ سے نفسیاتی مریض عارضی طور پر پرسکون ضرور ہوجاتا ہے مگر مکمل طور پر شفایاب نہیں ہوتا اور ماہرین نفسیات اس سے صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کہ دوائیں تو آپ کو عمر بھر کھانا پڑیں گی پھر طویل عرصے تک ان دونوں کے استعمال سے جو دیگر عوارض جنم لیتے ہیں وہ مریض کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتے، سب سے پہلے تو اس کا دماغ ہی متاثر ہوتا ہے اور پھر دیگر اعضائے جسمانی کی کارکردگی بھی وہ نہیں رہتی جو ہونا چاہیے، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں نفسیاتی علاج معالجہ اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی خصوصاً غریب آدمی اس کے اخراجات زیادہ دن برداشت ہی نہیں کرسکتا پھر ڈاکٹر کا یہ کہنا بھی اسے اس علاج سے بے زار کردیتا ہے کہ ’’دوائیں تو آپ کو عمر بھر کھانا پڑیں گی‘‘۔
ہمارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال سے ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کر رہے ہیں اور اب ان دواؤں کے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ وہ دوائیں ان کی ایسی ضرورت بن چکی ہیں جیسے ایک ہیروئنچی کی ضرورت ہیروئن یعنی وہ دوا نہ لیں تو جسم اس کی طلب شدت سے کرتا ہے، ہسٹیریا، مرگی، شیزوفرینیا وغیرہ کے مریضوں کے نفسیاتی علاج میں بھی یہی صورت مشاہدے میں آرہی ہے اور کسی ایک مریض کو بھی ہم نے شفایاب ہوتے نہیں دیکھا بلکہ روز بروز اس کی حالت کو بد سے بدتر ہوتے ہی دیکھا۔
نفسیاتی علاج کی مہنگائی اور عارضی فوائد کی وجہ سے لوگ روحانی علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں، روحانی علاج معالجے اور روحانی معالجین کا حال مزید خراب ہے، اس شعبے میں نہ باقاعدہ تعلیم و تربیت کا رواج ہے اور نہ ہی کوئی تحقیق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، اس شعبے سے وابستہ اکثر معالجین کی اپنی علمی و روحانی حیثیت ہی مشکوک ہوتی ہے، روحانی کا ذکر تو چھوڑیے اکثر معالجین دنیاوی علوم ہی سے نابلد نظر آتے ہیں، مخصوص گیٹ اپ کے ساتھ کلام الٰہی سے علاج کا نعرہ ایسے معالجین کی شناخت بن گیا ہے، کلام الٰہی سے انہیں صرف اتنی ہی واقفیت ہوتی ہے جتنی ہر قرآن پڑھے ہوئے مسلمان کو یا بازار میں دستیاب قرآنی اعمال و نقوش کی کتابوں سے جو کچھ معلومات حاصل ہوگئیں وہی عمر بھر کے لیے کافی ہیں، ایسے لوگ عموماً اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارا علم خاندانی ہے، سینہ گزٹ کی طرح سینہ بپہ سینہ چل رہا ہے لہٰذا اس پر کوئی علمی و تحقیقی گفتگو بھی نہیں ہوسکتی نہ ہی وہ عام لوگوں پر ظاہر کیا جاسکتا ہے، ایسے معالجین کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو مالی منفعت کے لیے یہ روپ بھرتے ہیں اور دوم وہ جن کا نعرہ ’’خدمت خلق فی سبیل اللہ‘‘ ہوتا ہے، دوسری قسم کے معالجین کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے، اس لیے زیادہ معتبر قرار دیے جاتے ہیں اور لوگ ان کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین بھی کرلیتے ہیں ، یہ قسم دوم معاشرے میں زیادہ پائی جاتی ہے بلکہ ہر گھر اور محلے میں موجود ہے اور اپنی ناقص معلومات کے سبب خلق خدا کو سب سے زیادہ نقصان انہیں کے ذریعے پہنچتا ہے، اس میں شک نہیں کہ ان کے دم درود میں واقعی اثر ہوتا ہے مگر یہ مرض کی درست تشخیص نہیں کرسکتے بلکہ ہر مریض پر بندش، سحر، آسیب اور جنات کا فتویٰ لگاکر اسے چھو چھا کے کام پر لگادیتے ہیں، مرض خواہ کوئی بھی ہو اگر کلام الٰہی پڑھ کر کوئی عابد و زاہد شخص دم کرے یا کوئی پانی پڑھ کر دے یا نقش لکھ کر باندھے تو مریض کو عارضی ہی سہی، افاقہ و آرام تو ضرور محسوس ہوگا، اب اسے یہ یقین آجائے گا کہ اس کا مرض نفسیاتی یا جسمانی نہیں ہے بلکہ آسیبی یا ماورائی ہے اور یہ نظریہ بھی عام ہے کہ ایسی صورت میں علاج بھی روحانی یا ماورائی ہی ہوگا، بس یہیں سے معاملہ غلط ہوجاتا ہے، ہونا یہ چاہیے کہ پیچیدہ امراض کے علاج میں روحانی امداد کے ساتھ معقول مادی علاج پر بھی توجہ دی جائے اور اسے ترک نہ کیاجائے تو مکمل شفا تک پہنچنا ممکن ہوسکے گا۔
ایک بار ہم نے اپنے ایک ناکام کیس کا تذکرہ کیا تھا جو درحقیقت صرف اس لیے ناکام رہا کہ لڑکی کی ماں کی جہالت اور گھر کا ماحول اسے صحت مند نہیں ہونے دیتا تھا، وہ اصل میں مرگی کی مریضہ تھی لیکن اس کی ماں بضد تھی کہ یہ کسی جن کے زیر اثر ہے لہٰذا پابندی سے اس کا معقول علاج کرانے کے بجائے مختلف پیروں، عاملوں، کاملوں کے دروازوں کے چکر لگاتی رہتی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً پندرہ سال سے اس کا مختلف طریقوں پر علاج ہورہا تھا اور وہ ایلو پیتھک دوائیں جو مرگی کے مریض کو دی جاتی ہیں پابندی سے استعمال کر رہی تھی کیوں کہ ان دواؤں کے سہارے کے بغیر گزارہ ہی نہیں تھا مگر اس کھلی حقیقت کے باوجود اس کے ماں باپ کی آنکھیں کبھی نہیں کھلیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے مریضوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو خود پر زبردستی کے جن بھوت اور آسیب چڑھائے پھر رہے ہیں یا اپنی دانست میں سحروجادو کا شکار ہیں، اس موضوع کی ابتدا ہی میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ ہمیں جنات، آسیب، ہمزاد یا سحروجادو کی حقیقت سے انکار نہیں مگر ہماری ذاتی تحقیق و مشاہدہ یہ ہے کہ حقیقی آسیب زدہ یا سحر زدہ مریضوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے، 99 فیصد مریض جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، اب یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ یہ بھیانک اور لاعلاج، ساتھ ہی حیرت انگیز بیماریاں کس طرح جنم لیتی ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں جنات وغیرہ کے کھاتے میں ڈال کر روحانی علاج کے نام پر نت نئے تماشوں سے گزارا جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ مریض موضوع بحث آنا ضروری ہیں جو ہر گز جنات، آسیب وغیرہ کے زیر اثر نہیں بلکہ اپنے فکروخیال کے جنات ہمزاد ہی پالے بیٹھے ہیں، ان مریضوں کا علاج زیادہ مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے، جنات وغیرہ تو انسان کی ذرا سی سختی اور کلام الٰہی کے سامنے ایک منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتے، وہ تو خود حضرت انسان سے خوف زدہ رہتے ہیں، یہ تو ہمارے اپنے پیدا کردہ جنات و شیاطین ہیں جن پر ہر کلام نرم و سخت بے اثر ہوجاتا ہے، انہیں ختم کرنے یا ان سے نجات پانے کے لیے اگر ہم خود تیار نہیں ہوں گے تو کبھی ان سے چھٹکارا نہیں مل سکے گا، آپ نے دیکھا ہوگا (ہم تو دیکھتے ہی رہتے ہیں) کہ ایسے مریض برسوں بیمار رہتے ہیں یعنی آسیب زدہ کہلاتے ہیں مگر ان کا جسمانی طور پر کچھ نہیں بگڑتا یعنی کوئی جن بھوت انہیں جان سے مارنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ جسمانی طور پر خاصے چست اور توانا رہتے ہیں، کھانا پینا اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی کے دیگر امور انجام دینا جاری رہتا ہے، اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں ہوتی، ایسی صورت میں فوراً دورہ پڑجاتا ہے جو کچھ دیر جاری رہ کر خود بخود ختم ہوجاتا ہے یا کچھ پڑھ کر دم وغیرہ کرنے سے بھی دور ہوجاتا ہے، اگر وہ بات جو دورے کا سبب بنی تھی دوبارہ نہ ہو تو پھر ٹھیک رہتے ہیں، اسی طرح عمر گزرتی رہتی ہے، یہاں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ ایسے مریضوں کو لاحق ہونے والی بعض جسمانی بیماریوں اور دیگر تکالیف کا حوالہ دیا جاسکتا ہے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، بیماریاں اور جسمانی تکالیف ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں، البتہ ایسے لوگوں میں ان کی زیادتی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سرفہرست توان کا غیر شادی شدہ ہونا ہی ہوتا ہے، انسان عورت ہو یا مرد اگر بلوغت کے بعد زندگی قدرتی تقاضوں سے دور رہے گی تو یہ فطرت سے جنگ ہوگی اور اس جنگ میں شکست در حقیقت انسان ہی کے حصے میں آئے گی، یوں سمجھ لیں کہ رات اللہ نے آرام کے لیے بنائی ہے، رات میں سونا، صبح جلدی اٹھنا، درست وقت پر کھانا پینا، دیگر حوائج ضروری سے فراغت پانا یعنی تمام جبلی تقاضوں کو پورا کرنا ہی ایک صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے ، اس کے برخلاف جو زندگی گزارتا ہے وہ فطری تقاضوں کو نظر انداز کرکے اپنے جسم و جاں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے اور اس زیادتی کے نتائج بد بالآخر ذہنی و جسمانی طور پر ضرور ہوتے ہیں۔
اب ایسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں جن میں شادی کے بعد بھی ایسے مریض ٹھیک نہیں ہوتے یا شادی شدہ افراد کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور وہ کسی آسیبی چکر کا شکار ہوتے ہیں تو پہلی صورت میں ایسا تب ہی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بھی مریض یا مریضہ کی مرضی کے خلاف کوئی صورت حال موجود ہو اور شادی شدہ کی اپنی ازدواجی زندگی کے دوران میں کوئی ذہنی و نفسیاتی بیج پڑگیا ہو، ایسے تمام آسیب زدہ شہرہ آفاق ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے نظریے کے مطابق تو اَنا گزیدہ ہیں یعنی ان کی انا شدید طور پر مجروح ہوئی ہے اور پھر انہیں احتجاج یا جوابی کارروائی کی توفیق بھی نہ ہوسکی، انہوں نے اپنے دل و دماغ میں اپنی روح میں برپا ہونے والے غم و غصے کے طوفان کو دبالیا، بس پھر یہی طوفان جن یا آسیب کی شکل میں نمودار ہوکر پورے گھر یا خاندان کے لیے عذاب بن گیا یا خود آسیب زدہ کے لیے مصیبت بن گیا کیوں کہ ہم نے ایسی دونوں صورتیں دیکھی ہیں۔
ہسٹیریا، شیزوفرینیا، ڈپریشن اور مرگی وغیرہ کے حوالے سے ہم پہلے لکھ چکے ہیں، یہ بیماریاں ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں، خصوصاً ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد روز بروز ترقی کر رہی ہے، اس کی وجہ ملک کے اقتصادی حالات ہیں جن کی وجہ سے ہر گھر مفلسی و تنگ دستی کا شکار ہوکر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے، اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خواتین ہیں کیوں کہ ایک خوش حال معاشرے میں لڑکیوں کی شادی اور شادی کے بعد ازدواجی زندگی کی خوشیوں کا دارومدار ہی معاشی کشادگی سے وابستہ ہوتا ہے، بصورت دیگر وہ خواب بکھرنے لگتے ہیں جو برسوں سے آنکھیں دیکھ رہی تھیں، اس معاملے میں ہمارے ملکی اور غیر ملکی ٹی وی چینلز بھی انتہائی منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور خواتین کے رسالے یا شو بزنس کے میگزین و اخبار کا کردار بھی ہر گز قابل تعریف نہیں، ذرائع ابلاغ کے یہ مراکز اپنے ڈراموں، کہانیوں وغیرہ میں عام زندگی کے جو رخ پیش کر رہے ہیں وہ ایک مخصوص طبقے کی عکاسی کرتے ہیں، یہ دولت مند طبقہ ملک کی پوری آبادی کے لیے آئیڈیل نہیں ہوسکتا لیکن ہر گھر میں ٹی وی موجود ہے، رسائل اور اخبار بھی پڑھے جاتے ہیں جن کے ذریعے معصوم اور کچے ذہن اپنی آنکھوں میں وہ ماحول بسا لیتے ہیں جو وہ ڈراموں، فلموں اور کہانیوں میں دیکھتے ہیں لیکن انہیں اپنی حقیقی زندگی میں وہ کہیں نظر نہیں آتا، ہاں اس کے خواب ضرور وہ دیکھنے لگتے ہیں، یہ خواب لاشعور کو آہستہ آہستہ پرورش کرتے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر محرومیوں کا احساس پرورش پاتا رہتا ہے جو کسی بھی وقت کوئی بھی بہروپ دھار سکتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک ایسے مریض زیادہ توجہ طلب ہیں اور ان کا علاج صرف جھاڑ پھونک، دعا تعویذ سے ممکن نہیں، ایلو پیتھک طریقہ علاج والے ایسے مریضوں کو ماہرین نفسیات کے حوالے کرتے ہیں، ماہرین نفسیات کے حوالے سے ہم لکھ چکے ہیں کہ وہ جو مکھی پہ مکھی مار رہے ہیں اس کے نتیجے میں ہم نے کسی مریض کو مکمل طور پر شفایاب ہوتے نہیں دیکھا، روحانی علاج کے مروجہ اصولوں پر بھی بات ہوچکی تو پھر اب کیا کیا جائے؟
طویل مشاہدے اور مطالعے کے بعد اور تجربات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ صرف ہومیو پیتھی ہی وہ طریقہ علاج ہے جس کی مدد سے ایسے مریضوں کا شافی و کافی علاج ممکن ہے، ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم ہومیو پیتھی کو مادی طریقہ علاج سے زیادہ روحی طریقہ علاج سمجھتے ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی مزید تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہے اور یہ کام سرکاری سرپرستی میں ہونا چاہیے، ہمارے ہاں موجود عام ہومیو پیتھ ناقص طریقہ تعلیم اور اعلیٰ درجے کی پریکٹس کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ہومیوپیتھی کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں اور جو اعلیٰ درجے کے ہومیو پیتھ موجود ہیں انہیں عام نوعیت کی مادی بیماریوں کے علاج ہی سے فرصت نہیں یا پھر ان کے پاس ایسے پیچیدہ کیسوں میں سر کھپانے کا حوصلہ ہی نہیں کہ آمدن کم اور کام زیادہ والا معاملہ ہوجاتا ہے، دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مریضوں اور ان کے سرپرستوں میں ہومیوپیتھی کے حوالے سے غلط تصورات پیدا ہوگئے ہیں وہ اس طریقہ علاج کو بھی ایلو پیتھک طریقہ علاج کے تناطر میں دیکھتے ہیں۔
شرفِ زہرہ
شرف زہرہ کے سلسلے میں شرف کے وقت کی پہلے ہی نشان دہی کی جاچکی ہے اور یونانی علم نجوم کے مطابق یہ وقت 3 جون کو تھا، اس موقع پر اسم الٰہی العلی کا خصوصی نقش دیا گیا تھا جو خاص طور پر لڑکیوں کی شادی اور ازدواجی زندگی کے مسائل ، لوگوں میں مقبولیت ، شوہر سے محبت جیسے معاملات میں معاون و مددگار ہوتا ہے،وہ لوگ جنہوں نے 3 جون کے وقت سے فائدہ اٹھایا ، مبارک باد کے مستحق ہیں، اس وقت طلسم زہرہ کی انگوٹھی بھی تیار کی جاتی ہے اور لوح زہرہ نورانی یا لوح تسخیر بھی تیار ہوتی ہے،ضرورت مند اس سلسلے میں براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں نشان دہی کی تھی کہ اگر ویدک سسٹم کے مطابق زہرہ کے باقوت اوقات میں یہ چیزیں تیار کی جائیں تو ہمارے تجربے کے مطابق زیادہ ذود اثر ثابت ہوتی ہیں، ممکن ہے ہماری بات سے روایتی طور طریقوں پر کاربند رہنے والے حضرات اتفاق نہ کریں لیکن ہم اپنا تجربہ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہو۔
علم نجوم ایک سائنس ہے اور اس سائنس کے دنیا میں دو اسکول آف تھاٹ ہیں، ایک کو نریانہ سسٹم کہا جاتا ہے اور دوسرے کو سیانہ ، دونوں سسٹم سے متعلق ماہرین اپنے اپنے سسٹم میں رہتے ہوئے علم نجوم کی پریکٹس کرتے ہیں اور مفید نتائج حاصل کرتے ہیں، ہمارے ملک میں اس سائنسی مسئلے کو ہندو مسلم مسئلہ بناکر بے جا اعتراضات کیے جاتے ہیں جو درست نہیں ہیں۔
اس بار ہم سیارہ زہرہ کے باقوت اور شرف یافتہ دیگر اوقات کی بھی نشان دہی کر رہے ہیں جو نریانہ سسٹم یعنی ویدک سسٹم کے مطابق ہیں، ہمیں امید ہے کہ جو لوگ ان اوقات سے کام لیں گے وہ ان کے بہترین نتائج خود ملاحظہ کریں گے۔
نریانہ سسٹم کے مطابق سیارہ زہرہ دو مارچ کو برج حوت میں داخل ہوا ہے اور تقریباً اس ماہ کے آخر تک اپنے شرف کے برج میں رہے گا، 6 مارچ کو یہ نہایت باقوت اثرات کا حامل ہوگا، اس روز کراچی لوکل ٹائم کے مطابق 12:25 pm سے 01:07 pm تک ایسا وقت ہوگا جس میں شرف زہرہ کا کوئی بھی کام کیا جائے تو نہایت مؤثر ثابت ہوگا، اس کے بعد 6 تاریخ ہی کو دوپہر 02:39 pm سے 03:24 pm تک مؤثر وقت ہوگا۔
اس ماہ میں ایسے اوقات مزید بھی نکالے جاسکتے ہیں، خیال رہے کہ نقش و طلسمات کی تیاری کا یہ طریقہ ہاؤس بیس سسٹم کہلاتا ہے اور دنیا بھر میں رائج ہے، پاکستان میں اس طریقے سے واقفیت رکھنے والے کم ہیں کیوں کہ زیادہ تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جو لکیر کے فقیر اور چند کتابوں اور رسالوں سے نقل در نقل کے ذریعے کام چلاتے ہیں اور اپنے عامل و کامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،اللہ بس باقی ہوس۔