ہفتہ، 29 اکتوبر، 2016

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک

نومبر کی فلکیاتی صورت حال، جمہوری بساط لپٹ سکتی ہے؟
پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں عمران خان کی احتجاجی مہم جوئی نے بڑی گرم بازاری پیدا کردی ہے،دیگر سیاسی جماعتیں اس مہم جوئی میں اگرچہ اُن کا ساتھ نہیں دے رہیں، البتہ جماعت اسلامی اپنے طور پر احتجاجی پروگرام بنارہی ہے، جوابی حکمت عملی کے طور پر حکومت بھی اپنے سخت عزائم کا اظہار کر رہی ہے، وہ کسی صورت بھی عمران خان کو اس احتجاجی پروگرام سے روکنے کی کوشش کریں گے اور یہی ایک عاقبت نا اندیشانہ فیصلہ ہوگا کیوں کہ اس طرح لازمی طور پر عمران خان لوگوں کی ہمدردی و توجہ کے زیادہ مستحق ہوجائیں گے، بہتر تو یہی ہوتا کہ ماضی کی طرح حکومت ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لیتے ہوئے صبروتحمل کا مظاہرہ کرتی ، احتجاج کرنا بحیثیت ایک اپوزیشن لیڈر کے عمران خان کا حق ہے، چناں چہ انہیں احتجاج کرنے دیا جائے۔
عزیزان من! اس صورت حال میں زائچہ ءپاکستان پر نظر ڈالی جائے تو چند بنیادی باتیں اہمیت کی حامل نظر آتی ہیں، اول یہ کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے زائچے کے سب سے زیادہ منحوس سیارے کے دورے اکبر سے گزر رہا ہے، یہ دور تقریباً 2024 ءمیں ختم ہوگا، دوم یہ کہ اس سال 14 اکتوبر سے دوسرے منحوس کا دور اصغر شروع ہوچکا ہے جو 15 جون 2019 ءتک جاری رہے گا، دوسرا منحوس زائچے کے چھٹے گھر کا حاکم سیارہ زہرہ ہے،چھٹا گھر اختلاف رائے، تنازعات اور اسٹیبلشمنٹ کا گھر ہے،مزید یہ کہ یہی گھر جنگ جوئی اور الیکشن کے انعقاد سے بھی متعلق ہے، کیا عمران خان کی موجودہ محاذ آرائی کسی نئے الیکشن یا سلیکشن کا باعث ہوسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب حکومت کے آئندہ طرزِ عمل پر ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ حکومت صبروتحمل سے کام لے اور کم از کم نومبر کا مہینہ محتاط رہتے ہوئے گزارے تو کسی نئے الیکشن کے امکانات کافی حد تک محدود ہوجائیں گے، اس کے برعکس صورت حال میں الیکشن اور سلیکشن کا امکان قوی ہوجاتا ہے، خاص طور سے 27 اکتوبر سے 15 نومبر تک پاکستان کے زائچے میں سیارگان کی پوزیشن حکومت مخالف اور نامناسب ہے،واضح رہے کہ سیارگان کی اکثریت زائچے کے مغربی یعنی زیریں حصے سے گزر رہی ہے،شمس و عطارد چھٹے گھر میں ہےں، زحل اور زہرہ ساتویں گھر میں حرکت کر رہے ہیں، سیارہ مریخ جو بارھویں گھر کا حاکم ہے، نویں گھر میں داخل ہوچکا ہے اور فوری طور پر زائچے کے نویں ،بارھویں، تیسرے اور چوتھے گھر کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، اگر کوئی مہم جو جرنل فوج کا سربراہ ہوتا تو یہ وقت مارشل لاءیا کسی بھی نوعیت کی ایمرجنسی ظاہر کرتا ہے جس کے نتیجے میں جمہوری حکومت کی بساط لپٹ سکتی ہے۔
سیارہ مریخ کی یہ پوزیشن تقریباً 12 نومبر تک رہے گی،بہر حال اس دوران میں صورت حال خواہ کچھ بھی ہو لیکن وزیراعظم نواز شریف صاحب کی پوزیشن مزید کمزور ہوجائے گی (واللہ اعلم بالصواب)
عاشقی صبرِ طلب اور تمنا بے تاب
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
نومبر کے ستارے
سیارہ شمس برج عقرب میں حرکت کر رہا ہے،22 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوجائے گا، سیارہ عطارد بھی برج عقرب میں ہے اور 12 نومبر کو برج قوس میں داخل ہوگا، سیارہ زہرہ برج قوس میں ہے،12 نومبر کو برج جدی میں داخل ہوگا، سیارہ مریخ اپنے شرف کے برج جدی میں ہے، 9 نومبر کو برج دلو میں داخل ہوگا، سیارہ مشتری پورا مہینہ برج میزان میں ، جب کہ سیارہ زحل برج قوس میں رہے گا، یورینس برج حمل میں، نیپچون برج حوت میں، پلوٹو برج جدی میں پورا ماہ حرکت کریں گے،راس و ذنب بالترتیب برج سنبلہ اور حوت میں حرکت کریں گے۔
نظرات و اثراتِ سیارگان
نومبر کے مہینے میں اہم سیارگان کے درمیان تثلیث کے چار زاویے، تسدیس کے پانچ زاویے، 4 تربیعات اور 2 قران ہوں گے، مقابلے کی کوئی نظر نومبر میں نہیں ہے،اس مہینے میں بعض نظرات ایسے بھی ہیں جو فوری طور پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں دیں گے لیکن طویل المدت تبدیلیوں کے لیے میدان تیار کرنے میں مددگار ہوں گے، ایسا ایک زاویہ اس مہینے کے آخر میں مشتری اور زحل کی تسدیس کا زاویہ ہے،یہ اپنے اثرات میں سعد ہے،اس کے اثرات معیشت، آئین و قانون اور تعلیمی امور میں استحکام لانے کے لیے میدان تیار کرنا ہوگا، اس کے اثرات تقریباً ایک سال تک جاری رہیں گے۔
یکم نومبر: اس ماہ پہلا زاویہ شمس اور نیپچون کے درمیان تثلیث کا ہوگا، یہ ایک سعد نظر ہے جو حکومت اور صاحب اقتدار افراد کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوگی، چوں کہ اس میں نیپچون کا کردار خاصا اہم ہے جو پرفریب صورت حال پیدا کرتا ہے، کسی چالاکی اور ہوشیاری یا فریب کے ذریعے کامیابی کی کوشش لیکن ایسی کوششیں بعد ازاں نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہیں، یہ نظر پاکستان کے سیاسی پس منظر میں حکومت کی کسی شاطرانہ چال کی نشان دہی کرتی ہے، عام افراد کے لیے زیادہ مو ¿ثر ثابت نہیں ہوگی۔
3 نومبر: عطارد اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ کمیونیکیشن اور ذرائع ابلاغ کی بہتر کارکردگی ظاہر کرتا ہے، عام افراد اس وقت میں ضروری معلومات کے حصول میں کامیاب ہوں گے،سفر سے متعلق مسائل کے حل میں مدد ملے گی، باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
5 نومبر: زہرہ اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ محبت، دوستی، منگنی، شادی وغیرہ کے معاملات میں کوئی سرپرائز لاتا ہے، دوسروں سے تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی کا اظہار ہوگا، خواتین اس وقت میں غیر معمولی ذہانت سے کام لے سکتی ہیں اور ان کے آئیڈیاز فائدہ بخش ہوسکتے ہیں، ان سے مشورہ کرنا مفید ثابت ہوگا۔
7 نومبر: شمس اور پلوٹو کے درمیان تسدیس کا زاویہ حکومتی سطح پر کسی پاور پلے کی نشان دہی کرتا ہے، ایسے اقدام دیکھنے میں آسکتے ہیں جو خاصے سخت نوعیت کے ہوں، عام افراد اس وقت میں زیادہ جرا ¿ت اور بہادری سے اپنا مو ¿قف پیش کرکے اپنی بات منواسکتے ہیں۔
15 نومبر: عطارد اور مریخ کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ سفری امور میں آسانیاں، مذاکراتی رجحانات میں اضافہ لاتا ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں شدت پسندی اور تیزی دیکھنے میں آتی ہے،عام افراد اس وقت میں مشینری کی خریدوفروخت یا مرمت کے کاموں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، مزید یہ کہ الجھے ہوئے اور متنازع نوعیت کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرسکتے ہیں لیکن بہر حال تیز مزاجی سے گریز کرنے کی ضرورت ہوگی، اپنے مو ¿قف میں کچھ لچک پیدا کرنا ضروری ہوگا، انا کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔
18 نومبر: عطارد اور نیپچون کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ بعض پیچیدہ نوعیت کے مسائل کو جنم دیتا ہے،شک ، وہم، بدگمانی، غلط فہمی، دھوکا و فریب، اس نظر کا خاصہ ہے، اس وقت میں عام لوگوں کو تحریروتقریر میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی، سفر سے متعلق کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے جو پھر آسانی سے دور نہ ہوگی، ضروری معلومات کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔
22 نومبر: عطارد اور مشتری کے درمیان تسدیس کا سعد زاویہ اہم معاملات میں مددگار ثابت ہوتا ہے، کاموں سے رکاوٹ دور ہوتی ہے، خصوصاً سفری امور ، تعلیمی امور، ضروری معلومات کا حصول وغیرہ، یہ وقت کاروباری معاملات میں بھی بہتر پیش رفت لاتا ہے۔
25 نومبر: مشتری اور پلوٹو کے درمیان تربیع کا زاویہ ایک نحس نظر ہے،مالی اور ترقیاتی امور میں رکاوٹ یا نقصانات کی نشان دہی ہوتی ہے، اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان پیدا ہوتا ہے،بینکنگ سیکٹر متاثر ہوتا ہے، لاقانونیت اور دہشت گردی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔
اسی تاریخ کو زہرہ اور پلوٹو کے درمیان قران ہوگا، اگرچہ یہ سعد نظر تسلیم کی جاتی ہے لیکن پلوٹو کی شرکت کی وجہ سے اس میں شدت پسندی کا رجحان نمایاں رہتا ہے خصوصاً رومانی تعلقات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، انسان تمام حدود و قیود سے تجاوز کرسکتا ہے، خواتین کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اسی روز زہرہ اور مشتری کے درمیان بھی تربیع کی نظر ہوگی، یہ بھی ایک نحس زاویہ ہے اور باہمی تعلقات خصوصاً عورت و مرد کے تعلقات میں کشیدگی کا باعث ہوسکتا ہے، کاروباری یا ترقیاتی امور میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں یا التوا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
26 نومبر: عطارد اور یورینس کے درمیان تثلیث کا سعد زاویہ مثبت اثر رکھتا ہے، چونکا دینے والی خبریں اور اطلاعات سامنے آتی ہیں،اچانک اور غیر متوقع سفر یا کوئی سرپرائز اس نظر کا ثمرہ ہے، اس وقت غیر روایتی انداز میں کام کرنا فائدہ مند ہوتا ہے،جدت پسندی اختیار کریں، نئے خیالات اور نئے آئیڈیاز کو نظرانداز نہ کریں۔
29 نومبر: زحل اور مشتری کے درمیان تثلیث کا طویل زاویہ جیسا کہ ہم نے پہلے نشان دہی کی ہے، طویل المدت اثرات کا حامل ہے،فوری طور پر اس نظر کے اثرات محسوس نہیں ہوں گے۔
30 نومبر: زہرہ اور یورینس کے درمیان تربیع کا نحس زاویہ خواتین سے تعلقات میں خرابی لاتا ہے،اچانک کوئی نئی صورت حال ڈسٹرب کرتی ہے، یہ نظر پہلے سے طے شدہ پروگرام کو متاثر کرسکتی ہے، باہمی تعلقات کسی نئی صورت حال کے پیش نظر متاثر ہوسکتے ہیں، ملکی اور عالمی سطح پر بعض اسکینڈل اس نظر کے سبب نمایاں ہوتے ہیں۔
اسی تاریخ کو مریخ اور مشتری کے درمیان بھی تثلیث کا زاویہ شروع ہوگا جو 2 دسمبر تک مکمل ہوگا، یہ ایک سعد نظر ہے جو جرا ¿ت اور ہمت اور جارحانہ اقدام کے ذریعے کامیابی لاتی ہے، خصوصاً مالی اور دیگر ترقیاتی کاموں میں فائدہ بخش ثابت ہوتی ہے، نئی سرمایہ کاری ، مشینری کی خریدوفروخت اس وقت بہتر رہتی ہے۔
شرفِ قمر
قمر اپنے شرف کے برج ثور میں اس ماہ میں 13 نومبر کو داخل ہوگا اور درجہ ءشرف پر 10:35 am سے 12:09 pm تک رہے گا، یہ ایک سعد وقت ہے اور عروج ماہ میں ہے لہٰذا قمر کی قوت زیادہ ہوگی، اس وقت میں لوح قمر ، خاتم قمر یا برکاتی انگوٹھی وغیرہ تیار کی جاسکتی ہے۔
گھر میں خیروبرکت اور باہمی اتحادواتفاق کے لیے 786 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اول آخر گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر چینی پر دم کرلیں اور گھر میں استعمال ہونے والی چینی میں ملادیں تاکہ سب لوگ یہی چینی استعمال کریں پھر پورا مہینہ اس چینی کو ختم نہ ہونے دیں، جب تھوڑی سی رہ جائے تو مزید چینی ڈال دیا کریں۔
قمر در عقرب
قمر اس ماہ اپنے ہبوط کے برج عقرب میں 26 نومبر کو داخل ہوگا اور درجہ ءہبوط پر 05:07 pm سے 07:08 pm تک رہے گا، یہ انتہائی نحوست کا وقت شمار ہوتا ہے،اس وقت کیے گئے کاموں کے اچھے نتائج نہیں نکلتے، اس وقت میں کثرت سے استغفار کا ورد کرنا چاہیے، اپنے گزشتہ کالموں میں ہم ایسے وقت میں بری عادتوں اور برے کاموں سے روکنے کے لیے مختلف عملیات دیتے رہے ہیں، اس وقت میں ضرورت کے تحت ان سے کام لیا جاسکتا ہے، اگر پرانے کالم ریکارڈ میں موجود نہ ہوں تو ہماری ویب سائٹ www.maseeha.com سے مدد لی جاسکتی ہے۔
شرف مریخ
سیارہ مریخ تقریباً ڈیڑھ سال میں ایک بار شرف یافتہ ہوتا ہے،اسے خاکی برج جدی میں شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے، اس سال مریخ 5 نومبر کو 08:54 am سے 06 نومبر 05:48 pm تک درجہ ءشرف پر رہے گا، اس عرصے میں مریخ کی ساعت کارآمد ہوگی، ہر قسم کے وظائف یا جفری عملیات و نقوش اس وقت میں تیار کیے جاسکتے ہیں۔
مریخ کا تعلق قوت و توانائی سے ہے لہٰذا جسمانی صحت و توانائی اور مہم جوئی و غلبہ ءدشمناں کے لیے اس موقع پر لوح یا انگوٹھی تیار کی جاتی ہے،اس سے متعلقہ اسمائے الٰہی یا مالک یا قدوس ہےں جن کے اعداد 261 ہیں، ان اسمائے الٰہی سے مرتب کردہ لوح مریخی قوتوں کی حامل ہوتی ہے،اس موقع پر خون کی کمی یا خصوصی قوت میں اضافے کے لیے انگوٹھی بھی تیار ہوتی ہے، کسی خصوصی معاملے میں رہنمائی و مشورے کے سلسلے میں براہ راست رابطہ کریں۔

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

زندگی میں مثبت اور منفی طرز فکر کا اہم کردار


کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اپنے طرز فکر کا جائزہ لینا چاہیے
کسی دانش ور کا قول ہے ”آپ کی سوچ ہی آپ کی شخصیت ہے“۔
یہ ایک جملہ کتنے وسیع اور گہرے معنی رکھتا ہے،ا س پر جتنا غور کیجیے، اتنا ہی اپنے آپ کو سمجھنے اور اپنے مسائل سے آگاہ ہونے کا موقع ملے گا۔
انسان کی سوچ، فکر اور طریقہ عمل اس کی زندگی میں جس قدر اہم کردار ادا کرتے ہیں، کوئی دوسرا عنصر اس حوالے سے اتنا اہم کردار ادا نہیں کرتا ، سوچ کو ہم انسان سے الگ نہیں کرسکتے اس لیے کہ جس میں سوچ نہیں، غور و فکر کی صلاحیت نہیں، وہ انسان بھی نہیں۔ ایک زندہ، ہنستے کھیلتے، چلتے پھرتے، دنیا میں سانس لیتے ہوئے انسان کے لیے سوچ اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی آگ ، ہوا، مٹی اور پانی۔ ان میں سے کسی ایک کے بغیر اس کا وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا، پس کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی سوچ سمجھ ہی درحقیقت اسے آدمیت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرتی ہے۔
ایک احتسابی نظر
اب ذرا اپنے آپ پر نگاہ ڈالیے، آپ بھی ایک انسان ہیں جو سوچ سمجھ اور ذہن رکھتا ہے، آپ دنیا میں خوش اسلوبی سے زندگی گزار رہے ہیں، اگر آپ نوکری پیشہ ہیں تو روز بروز ترقی کی جانب رواں ہیں، اگر طالب علم ہیں تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی علم کی پیاس بجھا رہے ہیں، اگر آپ کاروبار کرتے ہیں تو آپ کے لیے ہر آنے والا دن نئے امکانات کا دن ہوتا ہے، غرض آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں یا کر رہے ہیں اس میں سرخوشی، طمانیت اور آسودگی کا احساس ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے، آپ کا ہر قدم ماضی سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل سے بھی پیوست ہوتا ہے، وہ مستقبل جو بہتر ہے، آج سے آگے ہے اور آپ کی کوششوں کی بدولت تابناک ہے۔
آپ کا مستقبل آپ کی کوششوں کا مرہون منت ہے ، جتنی کوشش آپ کرتے ہیں، اتنا ہی بہتر مستقبل جواب میں آپ کو ملتا ہے اور آپ کی کوششیں آپ کی سوچ کی مرہون منت ہیں، یہ ایک مستقل سلسلہ ہے، پہلے آپ سوچتے ہیں کسی کام کے بارے میں غور کرتے ہیں اور پھر مثبت رویہ اختیار کرکے فیصلہ کرتے ہیں، وہی فیصلہ جو کوئی قدم اٹھانے کے لیے، کسی کوشش کے لیے ضروری ہوتا ہے، اگر آپ کی سوچ درست تھی، آپ کا فیصلہ صحیح تھا تو آپ کی کوشش بھی کامیاب ہوگی، دوسری طرف اگر آپ کی سوچ غلط تھی، آپ کا طرز فکر منفی تھا تو آپ ناکام ہوں گے اور اس ناکامی کے نتیجے میں کچھ دیگر مسائل اور پریشانیوں کا شکار بھی ہوں گے یعنی آپ اپنی سوچ کے منفی و مثبت پہلوو ¿ں کے ذریعے مستقبل کو تاریک یا تابناک بناسکتے ہیں، کیا آپ نے کبھی پوری نیک نیتی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی سوچوں کا تجزیہ کیا ہے جن کی بنیادوں پر آپ کی شخصیت کی عمارت کھڑی ہے؟
اہم سوال
یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے اور زندگی میں کامیابی اور آسودگی کے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ کی سوچ کا عمل کتنا ہم وار ہے؟ آپ کی فکر کتنی سادہ اور رکاوٹوں سے پاک ہے اور کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی سوچ آپ کے ارادوں کی تکمیل میں مددگار ہے؟
غلط یا صحیح فیصلے
دنیا کا ہر فرد ذہنی رکاوٹوں کا شکار رہتا ہے، یہ تقریباً ناممکن ہے کہ کسی شخص میں کوئی خامی نہ ہو ،(صرف انبیاءہی کی ذات والا صفات کو ہر خامی سے پاک قرار دیا جاسکتا ہے) تاریخ کے بڑے بڑے ہیرو، لیڈر، فاتح، جنگجو، حکمران، دولت مند ، دانشور، فلسفی اور سائنسداں جو زمانے کو اپنے کارناموں سے حیران کیے رکھتے تھے وہ بھی سوچ کی رکاوٹوں اور خامیوں سے مبرانہ تھے اور ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی تھیں، تاہم آج سیکڑوں ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی ہمارے درمیان موجودگی اور اہمیت کا واحد سبب صرف یہی ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان سے سبق حاصل کیا اور ان کی زندگی میں درست فیصلوں کی تعداد غلط فیصلوں کی نسبت بہت زیادہ تھی لیکن ایک عام آدمی ہیرو نہیں ہوتا شاید اسی لیے اس کے جذبات، احساسات، تفکرات، عادات اور اعتقادات منفی طرز فکر کا شکار ہوتے ہیں، اس کی سوچ ذہنی رکاوٹوں کی بدولت بار بار ٹھوکر کھاتی ہے، منفی طرز فکر کی بدولت وہ ہر موقع پر غلطی کرتا ہے اور نامناسب انداز فکر کی بدولت زندگی کے ہر مقام پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے۔
شعور اور لاشعور کی جنگ
زندگی میں بہت سی باتوں کی کوئی منطق نہیں ہوتی، خود اگر ہم اپنے اوپر نظر ڈالیں تو یہ بات نمایاں طور پر محسوس کریں گے کہ ہمارے اعمال منطق سے زیادہ خواہش پر مبنی ہوتے ہیں، یعنی جو ہم چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں، دوسرے معنوں میں ذہن سے زیادہ دل کے غلام بنے رہتے ہیں، اس میں منطقی یا غیر منطقی، اچھے یا برے، خوش گوار یا ناخوش گوار کا دخل کم ہی ہوتا ہے، مثلاً ہماری بہت سی عادتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم پسند نہیں کرتے اور انہیں درست کرنا چاہتے ہیں،د وسری طرف بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم میں غلطی کرنے کی شدید خواہش ابھرتی ہے اور ہم جانتے بوجھتے بھی نقصان کرگزرتے ہیں،ا س میں دلیل اور منطق کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
ہمارے اندر ”ہے اور ہونا چاہیے“ کی یہی کشمکش ذہنی رکاوٹوں کا بنیادی سبب ہے، ہمارے شعور اور لاشعور کی قوتیں اپنی من مانی کرنا چاہتی ہیں، دونوں میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے زیر اثر کرلے اور دوسرے کو نابود کردے، یوں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں، فلاں قدم اٹھانے سے ہمیں نقصان ہوگا مگر پھر بھی ہم وہ قدم اٹھالیتے ہیں یعنی ایک پہلو دوسر ے پہلو پر غالب آجاتا ہے اور اسے خاموش کرکے ہمیں آگے بڑھتا دیکھتا رہتا ہے۔
شعور اور لاشعوری تحریکات، کشمکش اور بالادستی کی جنگ کو ہم مکڑی کے ایک جالے اور اس میں پھنسے ہوئے کسی کیڑے کی مثال سے با آسانی سمجھ سکتے ہیں، یہ کشمکش درحقیقت اتنی ہی جان لیوا ہے جتنا کہ کیڑے کے لیے مکڑی کا جال، کوئی بھی معصوم، بے خبر، بے ضرر سا کیڑا اگر ایک مرتبہ مکڑی کے جال میں گرفتار ہوجائے تو پھر اس کے لیے رہائی تقریباً ناممکن ہوتی ہے اور اس کی رہائی کے لیے زور آزمائی مزید ضرر رساں بلکہ قاتل ثابت ہوتی ہے، وہ جتنا زیادہ ہلتا جلتا ہے، ہاتھ پاو ¿ں چلاتا ہے، اتنا ہی زیادہ پھنستا چلا جاتا ہے اور بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے لیے آزادی کی کوئی آس، کوئی امید باقی نہیں رہتی۔
ہمارے شعور اور لاشعور کا جال بھی اتنا ہی مہلک ہے، ایک مرتبہ اگر ہم اس میں گرفتار ہوجائیں تو اس سے رہائی خاصی دشوار ہوتی ہے۔ ہم جو چاہتے ہیں وہ نہیں کرتے، جو کرنا چاہیے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، غرض ہمارے خیالات میں دو رخی کی کیفیت آجاتی ہے اور اعمال و افعال میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اس دورخی کیفیت، دوہرے پن کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں،ا س کا ادراک نہ کرسکیں تو ساری کوششیں بے کار رہیں گی اور ہم کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکیں گے، یوں ہم خود بخود خود کار عمل کے تحت جال میں پھنستے جاتے ہیں اور پھر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
بیشتر افراد، شعور اور لاشعور کی باہمی کشمکش کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگی کو جہنم بنالیتے ہیں، دوسری طرف چند ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنے لاشعور کو شعور کے ذریعے چلاتے ہیں، ان کا لاشعور ان کے شعور کے ماتحت ہوتا ہے اور وہ اس کی بے پناہ مخفی قوتوں کو باآسانی استعمال کرتے ہیں، درحقیقت مثبت طرز فکر بھی یہی ہے کہ آپ کے شعور میں اختلافات یا دوریاں نہیں ہونی چاہئیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کا ساتھی اور ہم قدم ہونا چاہیے، انہیں ایک دوسرے کی نفی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے وجود کا تحفظ کرنا چاہیے، صرف یہی وہ ایک مثبت طریقہ عمل ہے جس کے ذریعے سوچ کی رکاوٹیں دور کی جاسکتی ہیں اور فکر کو مضبوط مرتکز کیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام معروضات اور بحث کا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی سوچ اور اس کے تابع اپنے رویوں اور اعمال کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں، کھلے دل و دماغ کے ساتھ پوری دیانت داری کے ساتھ تب ہی یہ ممکن ہے کہ آپ موجودہ دور میں درپیش اپنے مسائل سے درست طریقے پر نمٹ سکیں اور ایک آسودہ اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔
خطوط یا ای میلز کے ذریعے اور براہ راست ملاقات میں ہمیں اکثر ایسے افراد سے وابستہ پڑتا ہے جو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں اور یہ خواہشات عموماً منفی سوچ اور طرز فکر کے تابع ہوتی ہے، ایسے افراد ہماری کسی مثبت بات پر کوئی دھیان نہیں دیتے، کوئی درست مشورہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا، ان کی زبان پر تو صرف ایک ہی بات ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں، وہ ہو جائے، ہم اس سلسلے میں ان کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں، کردیں، وہ اپنے ماضی کی ان غلطیوں کو اگر تسلیم بھی کرلیں جن کی بدولت وہ موجودہ حال کو پہنچے ہیں تو بھی ان کی ضد یہی ہوتی ہے کہ بس اب جو کچھ ہونا تھا ہوچکا مگر فوری طور پر آپ ہمیں کوئی ایسا عمل، نقش یا وظیفہ وغیرہ بتادیں کہ ہم اپنا مقصد حاصل کرلیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر تو ان کا مقصد ہی فساد اور ساری خرابی کی جڑ ہوتا ہے جس کی اندھی محبت اور خواہش نے انہیں پے درپے غلط راہوں پر چلنے کے لیے مجبور کیا اور وہ بالآخر تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچ گئے مگر اس منفی مقصد سے دست بردار ہونے کو وہ پھر بھی تیار نہیں ہوتے۔
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ”میں ہر صورت میں دولت حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنی ذات کے لیے نہیں، دوسروں کی مدد کرنے اور خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کے لیے“ہم نے جواب دیا کہ آپ کوئی قومی رہنما ہیں جو خلق خدا کی فکر میں گھلے جارہے ہیں، آپ کو اپنی ذات اور ذات سے متعلق جڑے ہوئے افراد کی فکر کرنی چاہیے۔
کوئی روحانی قوتوں کا حصول صرف اس لیے چاہتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے اپنا بچاو ¿ کرے اور انہیں ان کے کالے کرتوتوں کی سزا دے سکے۔
بعض لڑکے لڑکیاں من پسند شادی یا اپنی محبت کے حصول کے لیے زندگی کے تمام تقاضوں، تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں اور عمر عزیز کے بہترین سالوں کو فضول سرگرمیوں کی نذر کردیتے ہیں، الغرض منفی طرز فکر کی بے شمار مثالیں ہیں جو اگر تفصیل سے بیان کی جائیں تو کئی صفحات کالے ہوجائیں۔

ہفتہ، 15 اکتوبر، 2016

دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے

اولاد کا دکھ کسی نوعیت کا بھی ہو، نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے
وقت کی رفتار کو جدید زمانے کی سائنسی ترقی نے بہت بڑھا دیا ہے، جب سے دنیا انٹرنیٹ کی سہولت سے آشنا ہوئی ہے،دھیرے دھیرے سب کچھ بدلتا جارہا ہے،کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم ایک گلوبل ویلج میں سمٹ کر رہ گئے ہیں،مشرق مغرب سے مل گیا ہے اور جنوب شمال سے،شاید یہی وجہ ہے کہ پرانے لوگوں کو موجودہ دور کے رنگ ڈھنگ ابھی تک کسی حد تک ناگوار محسوس ہورہے ہیں لیکن نئی نسل نئے رنگوں میں رنگتی چلی جارہی ہے،پرانی اور نئی نسل کے درمیان جو جنریشن گیپ پیدا ہورہا ہے،اس سے کچھ نئی نوعیت کے مسائل جنم لے رہے ہیں،والدین بچوں کو ہمیشہ بچہ ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوجائیں لیکن موجودہ دور کے بچے جدید زمانے کی ترقیاتی صورت حال سے آگاہ ہونے کے بعد اپنے والدین کو بچہ سمجھنے لگتے ہیں، انہیں اپنے پرانے زمانے کے والدین کم علم اور وقت کی ضرورتوں سے نا آشنا محسوس ہوتے ہیں،اس صورت حال میں بلاشبہ والدین کے لیے بھی خود کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے جہاں ایسا نہیں ہوتا، وہاں والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے زیادہ بڑھ جاتے ہیں،جنہیں کم کرنا آسان نہیں ہوتا۔
اکثر والدین ہمیں ایسے مسائل میں پریشان نطر آتے ہیں جو اولاد سے متعلق ہوتے ہیں،بعض موقعوں پر والدین کی غلطیاں سامنے آتی ہیں اور بعض موقعوں پر اولاد کی،جدید زمانے کے تقاضوں کو محسوس کرنا اور ان کی پیروی کرنا کوئی بری بات نہیں ہے،بعض والدین اسے برا سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں اولاد باغیانہ رویہ اختیار کرتی ہیں،البتہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی صورت میں بھی مناسب نہیں سمجھی جاسکتیں،اس حوالے سے نئے اور پرانے زمانے کی کوئی تفریق نہیں ہے، بچوں میں علمی ذوق کی کمی، تعلیمی سرگرمیوں سے عدم دلچسپی اور اس سے آگے بڑھ کر غیر ضروری یا غیر اخلاقی نوعیت کی سرگرمیاں، بے ہودگی،بدتمیزی، سرکشی، نافرمانی جیسے مسائل جب بچوں میں جنم لینے لگیں تو والدین کسی زمانے کے بھی ہوں، برداشت نہیں کرسکتے، ایسی صورتوں میں اکثر آخری حل کے طور پر روحانی علاج کا سہارا لیا جاتا ہے،بعض کیسوں میں اگر نفسیاتی مسائل موجود ہوں تو نفسیاتی علاج بھی ضروری ہوجاتا ہے۔
ہم اپنے کالموں میں اکثر مختلف نوعیت کی معاشرتی برائیوں ، بے ہودگیوں، بدتمیزیوں یا دیگر نوعیت کی ناجائز حرکتوں کی روک تھام کے لیے اعمال و وظائف دیتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں سب سے زیادہ حروف صوامت سے روک تھام کے طریقے دیے جاتے ہیں، بے شک اکثر مواقعوں پر یہ طریقے مو ¿ثر اور کارگر ثابت ہوتے ہیں،جب کہ بعض صورتوں میں ناکامی کا سامنا بھی ہوتا ہے،ہماری اکثر خواتین ان کاموں میں پیش پیش رہتی ہیں،ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ چھوٹے نابالغ بچوں کے سلسلے میں ان اعمال و وظائف سے جو حروف صوامت سے متعلق ہیں،کام نہ لیا کریں کیوں کہ بعض اوقات حروف صوامت سے لگائی گئی بندشیں، نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔
عام طور پر چھوٹے بچے فطری طور پر شریر اور نا سمجھ ہوتے ہیں،خصوصاً لڑکے ماں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں،ان کی شرارتوں اور ناسمجھیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر گز بندش کے عمل یا نقوش استعمال نہیں کرنے چاہئیں، خیال رہے کہ شریر بچہ ہی ذہین ہوتا ہے، آپ اس کی ذہانت کو عمل یا وظیفوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گی تو یہ اُس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ کا باعث ہوگا، بہترین طریقہ تو یہی ہوسکتا ہے کہ ایسے بچوں کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھا جائے،یہ مصروفیت تعلیمی بھی ہوسکتی ہے اور تفریحی بھی۔
بالغ اور سمجھ دار اولاد کی خرابیاں کچھ دوسری نوعیت کی ہوتی ہیں مگر ان خرابیوں کی جڑ عام طور سے کم عمری میں کسی خراب صحبت یا تعلق کا نتیجہ ہوتی ہے جس پر چھوٹی عمر میں ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے،اس وقت ہمارے سامنے ایسا ہی ایک کیس موجود ہے جو اپنی ماں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
وہ لکھتی ہیں ”میرا بیٹا کمپیوٹر سائنس میں انجینئر ہے، ایک اچھی پوسٹ پر کام کر رہا ہے،اچھا فرماں بردار رہا ہے،یونیورسٹی کے زمانے ہی سے اس کا اٹھنا بیٹھنا غلط لڑکوں کی صحبت میں ہوگیا تھا پھر آہستہ آہستہ ویک اینڈ پر راتوں کو غائب رہنے لگا، نشہ کرکے آتا تھا اور دن بھر سویا رہتا تھا، باپ نے کبھی بھی بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی، یہ ہمیشہ میری ذمے داری رہی،اچانک میں نے تبدیلی دیکھی تو بوکھلا گئی اور نظر رکھنی شروع کی، اس کی ایکٹیویٹیز پر پابندی لگانی شروع کی تو میرے خلاف ہوگیا، باپ میرا ساتھ دینے بجائے میرے خلاف بیٹے کے کان بھرنے لگے، آہستہ آہستہ اس کا حوصلہ بڑھتا گیا، گھر میں چوری کرنا شروع کردی،ماں بہن پر ہاتھ اٹھانے لگا، تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہوتا، شور شرابہ گھر میں کرتا، اس کی موجودگی میں ایک خوف کا سا عالم گھر میں رہتا ہے،یہ تمام باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ ماہ آپ نے جو غصہ ، اشتعال ، مارپیٹ، جھوٹ، چوری وغیرہ کو روکنے کے لیے طریقے تجویز کیے تھے، ان سے میں کس طرح فائدہ اٹھاسکتی ہوں؟شوہر کی مخالفت اور بدزبانی بھی ایک مسئلہ ہے،اس کے لیے کیا کیا جائے،آپ رہنمائی کریں“
جواب: عام طور پر اگر میاں بیوی کے درمیان محبت اور خلوص یا دوسرے الفاظ میں باہمی انڈراسٹینڈنگ نہ ہو تو بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑھتا ہے، جیسا کہ زیر نظر معاملے میں نظر آتا ہے کہ باپ کو اولاد کی غلط حرکات سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے ، البتہ بیوی کے خلاف کسی بھی کارروائی کا موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، اولاد کو بیوی کے خلاف شہ دینا ایک انتہائی نامناسب عمل ہے۔
آپ کے صاحب زادے کا زائچہ ہمارے پیش نظر ہے اور اسے دیکھتے ہوئے ہم یہی عرض کریں گے 
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
یہ مشہور شعر اب ایک ضرب المثل بن چکا ہے،بے شک آپ کے صاحب زادے نے خرابیوں کا راستہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں اختیار کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے برتھ چارٹ میں ایسے آثار موجود ہیں کہ وہ اچھی صحبت کے بجائے ہمیشہ بری صحبت ہی اختیار کرے گا،یونیورسٹی میں برے لڑکوں کے علاوہ اچھے لڑکے بھی ہوتے ہیں،آخر وہ ان کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اپنی فطری کمزوریوں کے سبب اس نے اپنے ہی جیسے لڑکوںکی صحبت کیوں اختیار کی؟ یہ سوال نہایت اہم اور غور طلب ہے،آپ نے ان کے والد بزرگوار کا جو طرز عمل بیان کیا ہے ، وہ کسی معقول اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان کا نہیں ہوسکتا، جسے اولاد کی خرابیوں سے کوئی دلچسپی نہیں،بیوی سے نفرت خواہ کسی وجہ سے بھی ہو، اُس کے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتی ہے،صاحب زادے میں جو منفی رجحانات زائچے کے مطابق مشاہدے میں آرہے ہیں ، یقیناً ان کے والد ہی کی وراثت ہوسکتی ہے۔
یہاں ہم زائچے سے متعلق ٹیکنیکل تشریحات سے گریز کریں گے جو ظاہر ہے ہمارے عام پڑھنے والوں کے لیے بوریت کا باعث ہوسکتی ہےں،ایسے منفی برتھ چارٹس پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی کتاب ”پیش گوئی کا فن“ میں کی ہے،جو لوگ ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
اس صورت حال میں حروف صوامت کے ذریعے روک تھام مشکل کام ہے،یاد رکھیں بری عادتیں اور مزاجی کمزوریاں یا خرابیاں ، باہمی نفرتیں وغیرہ ختم کرنا آسان کام ہے لیکن فطرت کو تبدیل کرنا بڑا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن کام ہے،اس کے لیے تو اللہ رب العزت سے ہی اور اس کے کلام سے ہی رجوع کرنا پڑے گا، اس سلسلے میں ایک خصوصی عمل ہم لکھ رہے ہیں جو شاید ماضی میں بھی کبھی دیا جاچکا ہے،عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اس لیے تمام تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔
عمل برائے اصلاح و ہدایت
جب یہ محسوس کریں کہ بری عادتیں یا خصلتیں رفتہ رفتہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہیں اور ان خصلتوں کا شکار کوئی بھی مرد یا عورت جو بالغ ہے،سمجھ دار ہے، اچھے برے کی تمیز رکھتا ہے،کسی صورت بھی بعض نہیں آتا اور ہدایت نہیں پاتا تو اس کے نام مع والدہ کے اعداد ابجد قمری سے حاصل کریں،جس کا مثالی طریقہ یہ ہے، مثلاً نام احمد حسین ہے اور ماں کا نام زبیدہ ہے تو ابجد قمری سے دونوں کے اعداد حاصل کیے جائیں۔
1+8+40+4+8+60+10+50=181،یہ احمد حسین کے اعداد ہوئے۔
7+2+10+4+5=28، یہ زبیدہ کے اعداد ہوئے، اب دونوں ناموں کے اعداد باہم جمع کرلیں تو یہ کل مجموعہ 209 ہوگا۔
نیا چاند ہونے کے بعد جو پہلا اتوار ، پیر، جمعرات یا جمعہ آئے، اس دن سے اس عمل کو فجر کی نماز کے بعد شروع کیا جائے، پاک پانی کی ایک بوتل پاس رکھیں اور مندرجہ ذیل کلام الٰہی اور اسم الٰہی 209 مرتبہ، گیارہ بار اول آخر درود شریف کے ساتھ پڑھیں، پڑھنے کے دوران میں اپنے ذہن کو اس نکتے پر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی برکت سے آپ کے مطلوبہ شخص کو ہدایت دے اور راہ مستقیم پر لائے۔
اِھ ±دِنَا الصّراط ال ±مُستَقیم بِحقّ یا ھَادیُ 
مندرجہ بالا مثال کے مطابق 209 مرتبہ پڑھنا ہوگا لیکن ہم یہاں آپ کی سہولت کے لیے آپ کے بیٹے اور آپ کے نام کے اعداد لکھ رہے ہیں جو 725 ہیں لہٰذا آپ اسی تعداد میں پڑھیں گی، جو لوگ اپنے ایسے ہی کسی مقصد کے لیے یہ عمل کرنا چاہیں ، وہ مندرجہ بالا طریقے کے مطابق پہلے اعداد حاصل کریں اور پھر اسی تعداد کے مطابق پڑھیں۔
جب عمل مکمل ہوجائے تو آنکھیں بند کرکے مطلوبہ شخص کا چہرہ تصور میں لائیں اور پیشانی پر پھونک ماردیں،بعد ازاں پانی کی بوتل میں بھی دم کرلیں، یہ عمل 21 دن تک پابندی سے کیا جائے اور 21 دن کے بعد وہ پانی دن میں دو تین مرتبہ پلادیا کریں،اگر براہ راست نہ پلاسکیں تو اس کے پینے کے پانی میں تھوڑا سا پانی روزانہ ڈال دیا کریں،اب اس پانی کو ختم نہ ہونے دیں ، جب ختم ہونے لگے ،بوتل میں تھوڑا سا رہ جائے تو مزید پاک پانی بوتل میں بھرلیں، اس طرح لمبے عرصے تک یہ پانی استعمال کرائیں، انشاءاللہ فطرت کی کجی دور ہوگی اور بڑے سے بڑا شیطان بھی راہ راست پر آجائے گا، آخری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ دلوں کو اور فطرتوں کو بدلنے والا ہمارے حکم کا پابند نہیں ہے،ہم عمل کے ذریعے اس کے حضور جو درخواست پیش کر رہے ہیں، وہ یقیناً اُس پر توجہ دے گا اور جب مناسب سمجھے گا، ہماری درخواست قبول فرمائے گا لہٰذا مہینہ دو مہینہ یہ کام کرکے بددل نہ ہوں،مسلسل یہ عمل جاری رہے، خواہ کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے، انشاءاللہ ضرور بہ ضرور حاجت پوری ہوگی۔
اپنے شوہر کے لیے آپ حروف صوامت کے عملیات سے مدد لے سکتی ہیں مگر اُن کی زبان بندی کے ساتھ ہی آپ کو وہ عمل بھی کرنا چاہیے جو میاں بیوی کے درمیان محبت کے لیے ہم اکثر دیتے رہتے ہیں۔
عمل دیگر
بے شمار مرتبہ سورئہ کوثر کا ایک مشہور عمل کسی ایسی صورت حال کے لیے لکھا جاچکا ہے لیکن شاید لوگ ایسے عملیات کو بہت ہلکا یا معمولی سمجھتے ہیں یا یہ کہ زیادہ طویل عرصے تک اس پر عمل نہیں کرتے، خیال رہے کہ ایسے عملیات پابندی کے ساتھ مسلسل کیے جائیں تو یقیناً اثر ڈالتے ہیں۔
عمل بہت آسان اور سادہ ہے، اپنے شوہر کو یا کسی بھی ایسے شخص کو جو کسی بہت ہی بری عادت یا لعنت میں مبتلا ہو ، بے ہودگی، بدتمیزی، گالی گفتار، مار پیٹ، جھوٹ یا کوئی بھی غلط حرکت کرتا ہو، اسے جب بھی کھانے پینے کی کوئی چیز دیں، مثلاً پانی ، چائے، کھانا، پھل، مٹھائی وغیرہ تو ایک بار پوری سورئہ کوثر پڑھیں اور پھر زبان سے اس کا نام مع والدہ لے کر ایک جملہ یہ بھی کہیں، فلاں بن فلاں کی عادت بدتمیزی یا بدزبانی یا مارپیٹ وغیرہ ابتر ابتر ابتر اور پھر کھانے پینے کی چیز پر پھونک ماردیا کریں،مشکل سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں یہ کام کیا جاسکتا ہے، جب آپ کھانے پینے کی کوئی چیز نکال رہی ہوں تو اُس وقت سورئہ کوثر پڑھ لیا کریں اور ضرورت کے مطابق یہ جملہ زبان سے کہہ کر اُس پر پھونک ماردیں، یہ عمل طویل عرصے تک جاری رکھیں، پڑھتے ہوئے اور پھونک مارتے ہوئے اپنے خیال کی قوت کو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کام میںلائیں، آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ جو کلام پڑھ رہی ہیں، اُس کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اگر پہاڑوں پر بھی نازل کیا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے لہٰذا آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ کے عمل سے وہ بندہ یقیناً متاثر ہوگا اور راہ راست پر آجائے گا، یاد رکھیں بے یقینی سے کیے گئے کاموں میں اثر نہیں ہوتا۔

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

خواہشات کی غلامی اور معاشرتی نفسا نفسی


سحری اور آسیبی امراض کے لیے مؤثر روحانی علاج
’’زمانہ بہت خراب ہے‘‘
یہ مشہور جملہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں اور شاید ہمارے بڑے بھی یہی جملہ سنتے سنتے بوڑھے ہوگئے اور پھر اللہ کو پیارے ہوگئے، شاید یہ جملہ دنیا بھر میں صدیوں سے بولا جارہا ہے،گویا ہر دور میں انسان اپنے زمانے سے خوش اور مطمئن نہیں رہتا، اس جملے کی ایک اور شکل یہ ہے ’’دنیا بڑی خراب ہے‘‘ عام طور پر لوگوں کے ستائے ہوئے یہ جملہ بولتے نظر آتے ہیں۔
اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ ہے،یہ ایک الگ بحث ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اکثریت مختلف نوعیت کے مسائل میں مبتلا رہتی ہے لہٰذا زمانے کی شکایت اور دنیا کی شکایت ہر زبان پر نظر آتی ہے،حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگوں میں نفسا نفسی ، خود غرضی، حسد، جھوٹی انا، غرور و تکبر کی بیماریاں عام ہیں،وہ دوسروں کی خوشیوں سے خوش نہیں رہتے،دوسروں کے غم کو اپنا غم نہیں سمجھتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی کی مصیبت یا پریشانی ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے اور کسی کی خوشی ان کے دل میں حسد کا مادّہ پیدا کرتی ہے،یہ اخلاقی برائیاں معاشرے میں بے شمار مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔
نفسا نفسی اور خود غرضی باہمی طور پر ایسے تنازعات کو جنم دیتی ہے جن کے نتیجے میں پورے پورے خاندان اور برادریاں تباہ ہوجاتی ہیں، موجودہ پاکستانی معاشرے میں اسی نفسا نفسی کے باعث جادو ٹونے، تعویذ گنڈے ، گندے عملیات کا رواج بڑھ رہا ہے، اس حوالے سے لوگ اچھے برے کی تمیز بھی کھوچکے ہیں، اپنی خواہشات کے زیر اثر اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے لوگ سفلیات یعنی گندے کام کرنے والے ہندو یا دیگر غیر مذہب کے عاملوں کے پاس جانے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ،یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس قسم کے عاملوں میں بھی کتنے فراڈیے موجود ہیں جو صرف لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا دھندا چلاتے ہیں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ نام نہاد مسلمان عاملین بھی اکثر اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں، شہروں میں کسی حد تک تعلیمی شعور زیادہ ہے لیکن ہمارے دیہاتی اور مضافاتی علاقوں میں لوگ ایسے عاملوں اور ٹھگوں کے ہتھے آسانی سے چڑھ جاتے ہیں، سندھ ہو یا پنجاب،گاؤں دیہات کا حال سب جگہ یکساں ہے،اندرون سندھ ہندو برادری بھی کثرت سے آباد ہے اور ہمیں اکثر ایسی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ مسلمان ان کے ہندو عاملوں کے پاس جاتے ہیں تاکہ اپنے مسائل حل کراسکیں،خاص طور پر ایسے مسائل جن کا تعلق ناجائز خواہشات سے ہو، اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ہمارے علمائے کرام اور مبلغین کو گاؤں دیہاتوں میں جاکر لوگوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا چاہیے۔
چند ماہ پیشتر غالباً فروری میں ہم نے ایک خط شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اندرون سندھ سحروجادو کی فضاء کس قدر عروج پر ہے اور کس انداز میں لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے، اس کی وجہ قریبی رشتے داروں کی باہمی چپقلش اور ناجائز خواہشات کی فراوانی ہے،اس حوالے سے ہم نے ایک عمل بھی تجویز کیا تھا جو سحری اثرات کی شناخت اور علاج میں معاون ثابت ہوگا، آج کی نشست میں اسی حوالے سے موصول شدہ ایک خط شامل اشاعت ہے۔
باہمی تعلق پر بندش
یہ خط ہمارے ایک پرانے قاری نے لکھا ہے ’’آپ نے میرے لیے نیلے دھاگے والا عمل لکھا تھا، میں نے یہ عمل شروع کیا تو دھاگا کوئلے کی آگ میں ایسے جلتا تھا جیسے دھاگا نہیں کوئی پلاسٹک کی چیز جل رہی ہے اور آخر تک اس سے رس نکلتا رہتا ہے ، میں نے28 دن تک یہ عمل کیا ہے ، دھاگا جلنے کی پوزیشن یہی رہی،آخر میں نے بے زار ہوکر چھوڑ دیا، آپ نے لکھا تھا کہ جن لوگوں پر واقعی سحری اثرات ہوتے ہیں وہ خود یہ کام نہیں کرسکتے، میرے پاس ایسا کوئی بندہ نہیں تھا جو میری جگہ یہ عمل کرتا، آپ نے سورۂ فلق والا پانی بھی تجویز کیا تھا، وہ بھی پیتا رہا، پھر چھوڑ دیا، میری پریشانی بدستور قائم ہے،کوئی فرق نہیں پڑا، اب نفسیاتی مریض بن گیا ہوں،اس کے بعد میں نے چار مرتبہ آپ کو خط لکھنے کی کوشش کی لیکن خط نہ لکھ سکا، جب بھی آپ کو خط لکھنے کا ارادہ کرتا ، کاغذ اور قلم اٹھاتا تو ہاتھ میں درد ہونے لگتا، دماغ بھاری ہوجاتا تو کچھ لائنیں لکھ کر چھوڑ دیتا، آج وضو کرکے 7 بار آیت الکرسی اور 7 مرتبہ یا حافظُ یا حفیظُ یا رقیبُ یا وکیلُ پڑھ کر حصار باندھا اور پھر یہ خط بڑی ہمت سے لکھ رہا ہوں، ہمارے دشمن عاملوں کے پاس پیسا پانی کی طرح بہا رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں تباہ و برباد کردیں،مہربانی کرکے میری مدد کریں‘‘
جواب: عزیزم! آپ کو نیلے دھاگا والا جو عمل بتایا گیا تھا، وہ گیارہ دن سے زیادہ نہیں کیا جاتا، اگر گیارہ دن کے بعد بھی سحری اثرات ختم نہ ہوں تو مزید مشورہ کرنا چاہیے،البتہ سورۂ فلق کا پانی مستقل پیتے رہنا چاہیے، جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی تھی اور آپ نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے کہ ایسے معاملات میں انسان اپنا علاج خود نہیں کرسکتا، آپ کو چاہیے تھا کہ اگر کوئی مرد نہیں مل رہا تھا تو یہ کام اپنی بیوی سے بھی کراسکتے تھے، چوں کہ آپ کے مسئلے میں اب کچھ نفسیاتی عوامل بھی شامل ہوچکے ہیں لہٰذا ہومیو پیتھک علاج کی بھی ضرورت ہے،آپ حکمت کا جو علاج کر رہے ہیں، یہ اس معاملے میں بہتر نہیں ہوگا، آپ کو چاہیے کہ کسی وقت فون پر رابطہ کرکے مشورہ کریں۔
سحری اثرات کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرا عمل بھی ہم لکھ رہے ہیں لیکن جیسا کہ آپ کی حالت ہے ، کیا آپ یہ عمل کرسکیں گے ؟اگر اس سلسلے میں مسجد کے مولانا صاحب سے مدد لے سکیں تو بھی بہتر ہوگا، بہر حال طریق عمل یہ ہے۔
چینی یا شیشے کی ایک بڑی پلیٹ جو غیر استعمال شدہ یعنی نئی ہو، لے لیں اور روز صبح طلوع آفتاب سے پہلے یعنی فجر کی نماز کے بعد اس پلیٹ پر پہلے یہ اسماء لکھیں ۔
یا حَیُّ حَین لَا حَیُّ فِی دَیَمُو مَتِہِ مُلکِہِ وَبَقآءِہٖ یَا حیُّ
اس اسم کے بعد پوری بسم اللہ اور پوری سورۂ فاتحہ بھی لکھیں، بہتر ہوگا کہ زعفران کی روشنائی سے لکھیں، اگر زعفران نہ ملے تو کھانے میں استعمال ہونے والا زرد رنگ لے لیں اور اس میں تھوڑی سی پسی ہوئی ہلدی بھی ملالیں، پوری پلیٹ پر یہ لکھنے کے بعد عرق گلاب سے پلیٹ کو دھولیں اور ایک کپ میں وہ عرق گلاب ڈال لیں، تھوڑا سا شہد ملائیں اور پی لیں، یہ عمل چالیس دن کریں۔
اس بار پینے کا پانی اس طرح تیار کریں کہ ایک بار بسم اللہ ، پھر سورۂ الناس اور پھر سورۂ فلق پڑھیں، اسی ترتیب کے ساتھ 111 بار پڑھ کر پانی پر دم کریں اور یہ پانی آپ بھی پابندی سے دن میں تین ٹائم پئیں اور اپنی وائف کو بھی پلائیں۔
عزیزان من! جیسا کہ ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ زمانہ خراب ہے،دنیا بہت بری ہے، حرص و ہوس عام ہے اور بہت بڑھ چکی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے وظائف اور عملیات اب اکثروبیشتر شائع کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ جعلی عاملوں کے پھندے میں نہ آئیں اور اپنے طور پر ایسے مسائل کو حل کرسکیں،اکثر ایسے عامل حضرات یہ گمراہ کن پروپیگینڈا بھی کرتے ہیں کہ گندے اور سفلی عملیات کا توڑ بھی سفلی عملیات کے ذریعے ہی ممکن ہے گویا نعوذباللہ اللہ کا کلام ، اُس کے اسمائے الٰہی، سفلی عملیات سے زیادہ حیثیت و اہمیت کے حامل ہوگئے،استغفراللہ۔مصیبت یہ ہے کہ ہمارے اکثر خواتین و حضرات جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں، ایسے گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک ’’گنڈا‘‘ بھی مجرب اور نہایت مفید ثابت ہوتا ہے،اسے تیار کرنے کا طریقہ بھی ہم لکھ رہے ہیں،یہ گنڈا سحر زدہ یا آسیب زدہ کے گلے میں ڈال دینا چاہیے۔
گنڈا برائے سحروآسیب
کچے سوت کے سات تار نیلے رنگ کے لے لیں جس کے لیے گنڈا تیار کرنا ہو اُسے سیدھا کھڑا کردیں، پہلے ایک دھاگا پیشانی سے پاؤں کے انگوٹھے تک ناپ لیں یعنی پیشانی پر جس جگہ بال ختم ہورہے ہوں وہاں سے پاؤں کے انگوٹھے تک دھاگا ناپ لیں پھر مزید 6 دھاگے اس کے برابر کے لے کر سات تار کا گنڈا بنالیں،اب کسی بھی نوچندے جمعرات، جمعہ، اتوار یا پیر کو صبح فجر کے بعد یا عصر و مغرب کے درمیان دھاگے میں گرہ لگانے کے لیے چھلّا بنائیں اور ایک بار سورۂ فلق اور ایک بار چہل کاف پڑھ کر چھلّے میں پھونک مارتے ہوئے گرہ لگادیں، اس طرح پورے دھاگے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے گیارہ گرہیں لگائیں بعد ازاں یہ گنڈا مریض کے گلے میں ڈال دیں، انشاء اللہ محفوظ و مامون رہے گا، اثرات ختم ہوجائیں گے اور آئندہ کے لیے بھی حفاظت رہے گی، چہل کاف درج ذیل ہے لیکن اس سے پہلے چند باتیں چہل کاف کے حوالے سے گوشِ گزار کرنا ضروری ہیں کیوں کہ اکثر لوگ نہیں جانتے کہ چہل کاف درحقیقت کیا ہے؟
چہل کاف درحقیقت عربی زبان میں کہے گئے تین شعر ہیں اور باوزن اور بامعنی ہیں، صوفیائے کرام سے روایت بھی ہے اور اکثر کتب میں تحریر ہے کہ یہ تین شعر حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کو یہ اشعار بہت پسند تھے اور وہ اکثر ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے، بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ اشعار دراصل حضرت غوث الاعظم ہی کے ہیں، ان اشعار کی تشریح اور ان کے معنی نہایت قابل غور ہیں جن کی تشریح فی الحال یہاں ممکن نہیں ہے،مختصراً اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ ان تین اشعار میں دشمن کو تنبیہ کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت چاہی گئی ہے۔
کَفَاکَ رَبُّکَ کَمْ یَکْفِیْکَ وَاکِفَۃً
کِفْکَا فُھَا کَکَمِیْنٍٍ کَانَ مِنْ کَلَکَا
تَکُرّ کَرًّا کَکَرِّ الْکَرِّفِیْ کَبَدٍ
تَجَلّٰی مُشکْشَکَۃً کَلُکُلکٍ لَکَکَا
کَفَاک مَابیْ کَفَاکِ الْکَافُ کُرْبَتَہ
یَاکَوْکَبًا کَانَ تَحْکِیً کَوْکَبَ الْفَلَکَا
عمل دیگر
ایک اور عمل مشہور ہے اور مجرب ہے، واضح رہے کہ سورۂ فلق اور سورۂ الناس جنہیں معوذتین بھی کہا جاتا ہے،اُس وقت ان سورتوں کو پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا جب یہودی ابی لبید نے نبی اکرمﷺ پر جادو کیا تھا، اسی بنیاد پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ان دونوں سورتوں کو اپنے مرتب کردہ قرآن پاک میں شامل نہیں کیا تھا، آپؓ کا مؤقف یہ تھا کہ یہ دونوں سورتیں تو ردّ سحر کے لیے ہیں، قصہ مختصر یہ کہ جو لوگ ان دونوں سورتوں کو صبح شام اپنے ورد میں رکھتے ہیں، وہ نظر بد، سحر و جادو اور ہر طرح کے خنّاسی امراض سے محفوظ رہتے، ان سورتوں کو پڑھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک بار بسم اللہ ، پھر سورۂ الناس اور پھر سورۂ فلق پڑھی جائے اور اس طرح ایک بار تصور کیا جائے یعنی تینوں کو ملاکر پڑھا جائے تو ایک بار ہوگا پھر اسی طرح تین بار پڑھا جائے اور اپنے اوپر ، بچوں پر یا گھر کے دیگر افراد پر دم کردیا جائے۔
سحرو جادو کے توڑ کے لیے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سات روز تک صبح فجر کے بعد اسی طرح چالیس مرتبہ پڑھ کر مریض پر دم کریں اور پانی پر بھی دم کریں تاکہ اُسے پلایا جائے،انشاء اللہ سات روز ہی میں ہر قسم کے سحروجادو کے اثرات کا خاتمہ ہوجاتا ہے،ضرورت محسوس کریں تو 21 دن تک بھی یہ عمل کیا جاسکتا ہے،اگر 21 دن کے بعد بھی مریض ٹھیک نہ ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ معاملہ سحروجادو کا نہیں ہے بلکہ کوئی نفسیاتی بیماری اپنا رنگ جمائے بیٹھی ہے۔

ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

بھارت میں جنگی جنون کی لہر عروج پر

بھارتی زائچے کی روشنی میں جنگ کے امکانات کا جائزہ
کشمیر میں بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو انتہا درجے کشیدہ کرچکے ہیں، پاکستانی وزیراعظم جناب نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے بیان کرچکے، جواباً بھارتی رہنما جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے،دونوں جانب کا میڈیا اس ساری صورت حال سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے پروگراموں میں نت نئے رنگ بھر رہا ہے،خصوصاً انڈین میڈیا، صرف انڈین میڈیا ہی نہیں ، انڈین لیڈر شپ بھی پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے دھمکیاں دینے پر اُتر آئی ہے،اس حوالے سے سندھ طاس معاہدہ بھی زیر بحث آچکا ہے،دونوں جانب کی محاذ آرائی ایک جنگی جنون کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے تو کیا دونوں ملکوں کے درمیان کسی جنگ کا امکان موجود ہے؟
ہم اس سوال کا جواب انڈیا اور پاکستان کے پیدائشی زائچے میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے،ہمارے نزدیک دونوں ملکوں کا طالع پیدائش (Birth sign) ایک ہی ہے یعنی برج ثور (Taurus) ، انڈیا کے زائچے میں برج ثور کے تقریباً 8 درجے طلوع ہیں،اگرچہ پاکستان کے زائچے میں تقریباً 3 درجے۔
پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کا زائچہ گزشتہ تقریباً 2 ماہ سے سخت قسم کے نحس اثرات کا شکار ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ انڈیا میں صورت حال کو نہایت متشدد اور جارحانہ انداز میں پیش کیا جارہا ہے جب کہ پاکستان کے زائچے میں ایسی صورت حال جون جولائی میں موجود تھی لیکن اب ایسی کوئی بات نہیں ہے جو انتہا پسندانہ اور جارحانہ رویے کی عکاسی کرتی ہو، انڈین زائچے سے بھی یہ صورت حال آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے،امکان ہے کہ اکتوبر کے آخر تک کشیدگی میں کافی حد تک کمی آجائے گی لیکن انڈیا کے داخلی معاملات بہر حال اطمینان بخش نہیں ہوں گے اور خصوصاً کشمیر کی صورت حال انڈیا کے لیے ایک چیلنج بنی رہے گی۔
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے گزشتہ سال جون میں بھارتی زائچے پر تھوڑی سی خیال آرائی کی تھی اور نشان دہی کی تھی کہ 11 ستمبر 2015 ء سے انڈیا کے زائچے میں سیارہ قمر کا دور اکبر شروع ہورہا ہے،قمر چوں کہ زائچے میں غضب ناک کیتو کی نظر کا شکار ہے لہٰذا بھارت میں انتہا پسندانہ اور جارحانہ رجحانات میں اضافہ ہوگا، چناں چہ گزشتہ سال اور اس سال بھی یہ مشاہدات ہورہے ہیں ، نریندر مودی صاحب جن کے زائچے کے حوالے سے ہم نے بہت پہلے عرض کیا تھا کہ وہ خود ایک جارحانہ سوچ رکھنے والے انتہا پسند جن سنگھی ہیں،پاکستان کے حوالے سے اپنی گھٹیا اور جارحانہ سوچ کا مظاہرہ انہوں نے بنگلا دیش کے دورے کے موقع پر کردیا تھا، اب بھی جب ان کے زائچے میں سیارگان کچھ مخصوص اینگلز اختیار کرتے ہیں تو وہ ایسے ہی عزائم کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے پانی کے مسئلے پر کیا ہے اور سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی ہے۔
قمر کے دور اکبر میں قمر ہی کا دور اصغر 11 جولائی 2016 ء تک جاری رہا، یہ بہر حال زیادہ جارحانہ اور ناموافق وقت نہیں تھا لیکن اب زائچے میں سیارہ مریخ کا دور اصغر جاری ہے جو 9 فروری 2017ء تک جاری رہے گا، مریخ زائچے کا منحوس اور بارھویں گھر کا حاکم سیارہ ہے جو مستقبل کے خوف، نقصانات اور حماقتوں کا باعث بنتا ہے،22 ستمبر سے سیارہ مریخ زائچے کے آٹھویں گھر میں رہتے ہوئے گیارھویں (فوائد) دوسرے(اسٹیٹس) تیسرے (کوشش اور اقدام) اور آٹھویں گھر کو متاثر کر رہا ہے، اس کی یہ منحوس پوزیشن تقریباً 6 اکتوبر تک رہے گی لہٰذا اس دوران میں اگر انڈیا کوئی عاقبت نا اندیشانہ قدم اٹھائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے،اس تمام عرصے میں مریخ کے نحس اثرات جنگی جنون کو اور بہت سے لاشعوری خطرات کو بڑھاوا دیتے رہیں گے۔
سیارہ مشتری جو اس زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے، ستمبر کی ابتدا ہی سے زائچے کے پہلے، پانچویں، نویں اور گیارھویں گھر کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت اور اس کے مفادات کو سخت نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے،مشتری کی نظر کا اثر تقریباً 10 اکتوبر تک قائم رہے گا، اس عرصے میں میڈیا اور دانش ور طبقے کے جذبات بھڑکتے رہیں گے،بعد ازاں موجودہ گرم بازاری میں کمی ہوگی مگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بہر حال کم نہیں ہوگی،یہ آئندہ سال 9 فروری تک جاری رہے گی اور اس کے بعد سیاسی طور طریقے اختیار کیے جائیں گے یعنی دونوں مذاکرات کی ٹیبل پر آسکتے ہیں کیوں کہ راہو کا دور اصغر شروع ہوجائے گا جو سیاست کا نمائندہ ہے اور معاملات کو سیاسی طور پر نمٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا، راہو انڈیا کے زائچے میں ایک مکّار اور چال باز کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا پاکستان کو مذاکرات کی ٹیبل پر بھی خاصے پرپیچ ماحول کا سامنا ہوسکتا ہے،جنگ بہر حال کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور جنگ میں فاتح اور مفتوح دونوں ہی نقصان میں رہتے ہیں۔
ملکی سیاست میں اس وقت خاصی کشیدہ صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ پورا سال ہی سیاسی کشیدگی کے عروج کا سال ہے اور اس کشیدگی کا سہرا تحریک انصاف یعنی عمران خان کے سر ہے جو کرپشن کے خلاف میدان عمل میں سارا سال سرگرم رہے ہیں اور اب رائیونڈ کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں اور حکومتی مشینری کے تمام کل پرزوں کا کام ہی اب یہ رہ گیا ہے کہ وہ عمران خان کے زہر کا تریاق تلاش کرتے رہیں،دوسری طرف خود عمران خان کی اپنی پارٹی میں آنے والے بحران بھی کچھ کم نہیں ہیں،پاکستان تحریک انصاف کے زائچے پر نظر ڈالیں تو سیارہ عطارد کے دور اکبر میں سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،زہرہ پر سیاست کے ستارے راہو کی نظر ہے لہٰذا ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ پارٹی سیاست بھی عروج پر ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا، سیارہ زہرہ کا تعلق چوتھے گھر سے ہے جو داخلی معاملات کی نشان دہی کرتا ہے لہٰذا داخلی طور پر پارٹی میں اصلاحات کی ضرورت ہے مگر عمران خان کو اس کے لیے شاید فرصت نہیں ہے،راہو کی نظر کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کے اندر ابن الوقت قسم کے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،زائچے کی تازہ پوزیشن بہت اچھی نہیں ہے چناں چہ عمران خان کو حکومت کے خلاف جارحانہ مارچ یا دھرنے ٹائپ اقدام کے بجائے فی الحال قانونی جنگ پر اکتفا کرنا چاہیے اور پارٹی کی اصلاح پر توجہ دینا چاہیے،اس بات کو بھی اہمیت دینی چاہیے کہ تحریک انصاف ماضی کی دیگر ’’ون مین‘‘ پارٹیوں کی طرح ایک ون مین پارٹی ہے،اس میں آنے جانے والے دیگر سیاسی مہروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے،شاید عمران خان کے مشیروں نے ان کے ذہن پر ’’الیکٹیبل‘‘کا ہوّا بٹھا رکھا ہے لہٰذا وہ ہر خزاں رسیدہ ٹوٹے ہوئے پتّے کو اٹھا کر جیب میں رکھ لیتے ہیں کہ شاید آئندہ کام آئے گا۔
تحریک انصاف کے لیے نئے خوش گوار موسم کا آغاز نئے سال 2017 ء سے ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)۔