ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

پاک طینت ، صاف دل

یہ کیا ضرور کہ ہر شام اپنے گھر جاو
جدھر کبھی نہ گئے ہو، کبھی اُدھر جاو
ہمارے نہایت محترم بزرگ دوست احمد صغیر صدیقی بھی بالآخر اُدھر چلے گئے جدھر وہ کبھی نہ گئے تھے اور ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ آخری بار ان سے ملاقات بھی نہ کرسکے، ہمیں تو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ وہ امریکا کب گئے؟ ہم ہمیشہ یہی سوچتے رہے کہ بس کسی اتوار کو صدیقی صاحب کی طرف چکر لگائیں گے اور ان سے خوب باتیں ہوں گی،وہ اپنا تازہ کلام سنائیں گے،عمدہ بسکٹ، سموسے اور چائے سامنے ہوگی جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا مگر اس بار تاخیر ہوگئی اور ایسی تاخیر جس کا پچھتاوا ہمیشہ رہے گا۔
بظاہر کڑوے لوگ اندر سے بہت میٹھے ہوتے ہیں، اس حقیقت کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب احمد صغیر صدیقی سے مراسم استوار ہوئے،صدیقی صاحب بہت لیے دیے، الگ تھلگ رہنے والے انسان تھے،ان کے مزاج میں انانیت کا عنصر بہت نمایاں اور گہرا تھا، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ایک بار اگر کسی سے بھڑک گئے تو عمر بھر کے لیے تعلق ختم، زندگی اور ادب کے بارے میں اپنے مخصوص نظریات رکھتے تھے جن پر کوئی سمجھوتا کبھی نہیں کیا لیکن جب کسی سے دل مل جاتا تو اسے بہت سی رعایتیں بھی دیتے اور اس پر عنایات بھی کرتے،شاید ہم ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک تھے جن پر انہوں نے عنایات بھی کیں اور ہمیں بعض معاملات میں رعایات بھی دیں، ہماری باتوں کا کبھی برا نہ منایا، ایک بار کسی بات پر چڑ کر ہم نے میر تقی میر کا ایک شعر ان پر چسپاں کردیا
ایسی بھی بد دماغی، ہر لحظہ میر کیسی
اُلجھاو ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے
شعر سن کر مسکرائے اور کہا ” جواب میر ہی کی زبان میں سن لیجیے
عہدے نشاط دیکھا، بارِ الم اُٹھایا
آئے نہیں ہیں یوں ہی انداز بے حسی کے
ہم انہیں اکثر دفتر جاسوسی ڈائجسٹ میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے، ہمارے ایک کلیگ نے اشارے سے بتایا کہ یہ مشہور شاعر اور مترجم احمد صغیر صدیقی ہیں،ہم نے ان کی کہانیاں عالمی ڈائجسٹ اور سب رنگ میں پڑھی تھیں، پہلی بار ہم نے انہیں جاسوسی ڈائجسٹ کے دفتر ہی میں دیکھا، وہ عام طور سے ایڈیٹر جاسوسی ڈائجسٹ احمد سعید المعروف شافع صاحب سے ملنے آتے تھے اور پھر نہایت خاموشی سے بغیر کسی سے ملے واپس چلے جاتے تھے،یہ 1983-84 کا ذکر ہے، وہ زرعی ترقیاتی بنک میں ملازم تھے اور کراچی سے دور کسی شہر میں تعینات تھے،جب چھٹیوں پر کراچی آتے تو دفتر ضرور آتے، 1994 ءمیں وہ بنک میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچے اور پھر خود ہی ریٹائرمنٹ لے لی۔
1984 میں ادارہ جاسوسی ڈائجسٹ میں ایک بڑا بحران آیا، جاسوسی ڈائجسٹ کا ڈکلیریشن منسوخ کردیا گیا، جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا عروج پر تھا، سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک جاری تھی، جنرل ضیا کے اوپننگ بیٹسمین راجا ظفر الحق وزیراطلاعات و نشریات تھے، فلم انڈسٹری کے ساتھ ہی ڈائجسٹ پرچوں کا قبلہ درست کرنے کی ذمے داری راجا صاحب ہی کے سپرد تھی ، جاسوسی ڈائجسٹ اسی ذمے داری کی ادائی کا شکار ہوا اور اس کے نتیجے میں احمد سعید صاحب کو جاسوسی کی ادارت سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ہم ادارے میں احمد سعید صاحب کے نائب کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
ممکن ہے بہت سے ذہنوں میں جاسوسی کے ڈکلیریشن کی منسوخی سے متعلق بہت سے سوالات کلبلانے لگےں،فی الحال ہم ان کا جواب نہیں دیں گے ورنہ قصہ بہت طویل ہوجائے گا اور ہم اپنے اصل موضوع سے بھی دور ہوجائیں گے، زندگی رہی تو پھر کبھی یہ کہانی بھی سنادی جائے گی کیوں کہ اب ہمارے علاوہ کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اصل قصے سے پوری طرح واقف ہوں گے۔
جاسوسی ڈائجسٹ کے نئے مدیر جناب خان آصف مقرر ہوئے اور ہم ان کے معاون ، خان آصف ہمارے صرف دوست ہی نہیں ، بڑے بھائیوں جیسے تھے، ہمارا ان کا تعلق 1974 ءسے نہایت گہرا تھا ، وہ داستان ڈائجسٹ نکالا کرتے تھے مگر 1980 ءمیں یہ پرچا بند ہوگیا تو خان صاحب نے جاسوسی ڈائجسٹ میں ائمہ کے سوانح اور پاکیزہ میں صوفیائے کرام پر لکھنا شروع کیا اور معراج رسول صاحب کی آنکھ کا تارا بن گئے مگر خان صاحب اور جناب معراج رسول کے درمیان تعلقات ایک سال سے زیادہ نہ چل سکے، کم لوگ ہی یہ بات جانتے ہیں کہ اسی زمانے میں ایک نیا پرچا ”عالمگیر“ نکالنے کی تیاریاں ہورہی تھیں جس کی پبلسٹی بھی سسپنس، جاسوسی ڈائجسٹ میں شروع کردی گئی تھیں لیکن بہر حال یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اکتوبر 1985 میں خان صاحب ادارے سے الگ ہوگئے، اس طرح جاسوسی ڈائجسٹ کو وقت پر لانے کی بیشتر ذمے داریاں ہمارے کاندھوں پر آگئیں اور صدیقی صاحب سے ہمارے براہ راست رابطے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ابتدا میں کچھ تکلفات حائل رہے لیکن جب شعر سننے اور سنانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر تکلف مٹ گیا،وہ جب بھی تشریف لاتے، دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی اور اپنا تازہ کلام بھی سناتے،واضح رہے کہ صدیقی صاحب ہرکس و ناکس کے سامنے شعر سنانے کے قائل نہیں تھے،پہلے وہ یہ ضرور اندازہ کرتے تھے کہ سامع سخن فہم بھی ہے یا نہیں اور اس حوالے سے ان کی رائے ہمارے بارے میں اچھی تھی۔
پھر ایک سانحہ ہوا، سال ہمیں یاد نہیں،ان کے نو عمر، ذہین اور لائق صاحب زادے مکان کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوگئے،اس سانحے نے صدیقی صاحب کو جس اذیت سے اور جس کرب سے دوچار کیا ہوگا اس کا اندازہ ہر صاحب اولاد کرسکتا ہے،واقع کے بعد جب وہ دفتر آئے تو ہمارے پاس الفاظ نہیں تھے کہ ہم ان سے تعزیت کریں، وہ بھی خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے، ہم نے روایتی طور پر یہ جاننے کی کوشش کی کہ حادثہ کیوں اور کیسے ہوا تو انہوں نے بجھے دل کے ساتھ تمام ماجرا سنایا۔
صدیقی صاحب ان دنوں ماڈل کالونی میں رہائش پذیر تھے اور اپنا ذاتی مکان بڑی محبت سے بنوایا تھا، کچھ عرصہ بعد وہ زرعی بینک سے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو وہ مکان بیچ دیا اور گلشن اقبال میں ایک فلیٹ خرید لیا، ان کا دوسرا بیٹا امریکا جاکر مستقل طور پر رہائش پذیر تھا، تقریباً دو سال پہلے ایک روز فون پر انہوں نے بتایا کہ وہ آرتھرائٹس کی تکالیف کا شکار ہوچکے ہیں، ہومیوپیتھی پر یقین نہیں رکھتے تھے لہٰذا ہمارے کسی مشورے کی ضرورت نہیں تھی، خود دنیا کے تمام اہم علوم سے شناسائی تھی، بہت سے مخفی علوم کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرچکے تھے، میڈیکل کے بارے میں بھی اچھی معلومات رکھتے تھے،بہت اچھے پامسٹ تھے، پامسٹری پر کئی کتابوں کے ترجمے کیے لیکن کسی کا ہاتھ اسی صورت میں دیکھتے تھے جب اس سے اچھے تعلقات ہوں چوں کہ ہم ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھتے تھے تو ان سے پامسٹری اور ایسٹرولوجی کے باہمی اشتراک پر اکثر گفتگو ہوئی اور ان کا کہنا یہ تھا کہ ایسٹرولوجی پامسٹری سے بہت آگے کی چیز ہے،ایک روز ایک ایسی کتاب ڈھونڈ کر لائے جو ایسٹرولوجی کے موضوع پر نادر و نایاب تھی ، کہنے لگے ”آپ بھی کیا یاد کریں گے، یہ ہماری طرف سے تحفہ سمجھیے“
بلاشبہ وہ ایک نادر تحفہ ہی تھا جو آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے۔
احمد صغیر صدیقی 2 اگست 1938 کو بھارت کے ضلع بہرائچ میں پیدا ہوئے، زندگی کا ابتدائی حصہ یعنی بچپن کانپور میں گزرا، تقسیم کے بعد کراچی آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، 1953 سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا،صدیقی صاحب کا اصل شعبہ شاعری تھا، ادب تھا، موجودہ دور کے شاعروں میں وہ فیض احمد فیض کے بعد احمد فراز کے معتقد تھے باقی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ناصر کاظمی کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے، اس پر ہماری خوب جھڑپ ہوتی، جہاں تک ڈائجسٹوں میں ان کے بے پناہ کام کا تعلق ہے تو وہ اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے، یہ کام وہ محض مالی فائدے کے لیے کرتے رہے،شاید اسی وجہ سے ترجمہ کرتے وقت وہ بہت سی باتوں کو نظرانداز کردیا کرتے تھے، اول تو ان کا ترجمہ معیاری خیال نہیں کیا جاتا تھا، دوم یہ کہ وہ لکھتے ہوئے لفظوں کو باہم ملادیا کرتے تھے،پڑھنے والے کو شدید الجھن محسوس ہوتی، معراج صاحب ان کی کہانیاں پڑھنے سے گریز کرتے تھے،ملاکر لکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ دو الگ الگ الفاظ کو ملاکر لکھتے تھے،مثلاًاسلیے، اسکے،انکے وغیرہ وغیرہ۔لیکن کہانی پر ان کی غیر معمولی اور گہری نظر تھی،اعلیٰ درجے کی کہانیاں ڈھونڈ کر لاتے اور پھر ان کا ایسا ترجمہ کرتے جیسے کسی ناپسندیدہ کام کو انجام دے رہے ہوں اور جلد از جلد اس کام سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہوں۔
ہم نے سنا ہے کہ سب رنگ کا شہرا آفاق سلسلہ ”انکا“ ان کی ایک مختصر کہانی سے اخذ کیا گیا تھا جو کہانی وہ سب رنگ کے لیے لے کر گئے تھے اسے پڑھ کر شکیل عادل زادہ صاحب کو خیال آیا کہ اس آئیڈیے پر سلسلے وار کہانی لکھوائی جائے اور یہ کام جناب انوار صدیقی نے کیا۔
ماہنامہ سرگزشت کے اجرا کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں، یہ 1990 ءکی بات ہے، پروگرام یہ تھا کہ پہلا شمارہ 10 دسمبر 1990 ءکو مارکیٹ میں آئے جو جنوری 1991 ءکا شمارہ ہوگا، شاید اکتوبر 1990ءمیں صدیقی صاحب ایک نیا آئیڈیا لے کر دفتر آئے ، انہوں نے چند صفحات ہمارے سامنے رکھ دیے اور فرمایا ”آپ انہیں پڑھ لیں اور پھر معراج صاحب سے بھی مشورہ کرلیں، یہ آپ کے نئے پرچے سرگزشت کی پہلی کہانی ہے“، واضح رہے کہ معراج صاحب سے ان کی ذہنی ہم آہنگی قطعاً نہیں تھی،وہ ان سے ملاقات کے کبھی خواہش مند نہیں ہوتے تھے اور یہی حال خود معراج صاحب کا تھا۔
ایک صفحے میں نہایت اختصار کے ساتھ کسی ایک مشہور شخصیت کی کہانی اس طرح بیان کی گئی تھی کہ آخری سطر تک اس کا نام مخفی رکھا گیا تھا، بے شک یہ ایک نئی روایت اور نیا انداز تھا، ہم نے معراج صاحب سے مشورہ کیا اور انہوں نے فوراً اجازت دے دی، یہ معراج صاحب کی ایک اضافی خوبی تھی کہ وہ ہر اچھی بات کو فوراً قبول کرلیتے تھے اور کسی غلط بات پر انہیں کوئی آمادہ نہیں کرسکتا تھا، بہر حال سرگزشت مقررہ تاریخ پر مارکیٹ میں آیا اور چھاگیا، صدیقی صاحب کا لگایا ہوا ایک صفحے کی سرگزشت کا یہ پودا پروان چڑھتا رہتا اور آج ایک قدآور درخت بن چکا ہے۔
صدیقی صاحب کہانیوں کے معاملے میں اختصار پسند تھے،بالکل اسی طرح منظر امام کا معاملہ ہے،یہ بات مشہور تھی کہ سو صفحے کا ناول اگر صدیقی صاحب کو ترجمے کے لیے دے دیا جائے تو وہ اسے دس صفحوں تک محدود کردیں گے اور ایک صفحے کی کہانی اگر علیم الحق حقی کو دے دی جائے تو وہ پندرہ بیس صفحوں تک یا اس سے بھی زیادہ پھیل سکتی ہے،شاید اسی وجہ سے صدیقی صاحب نے ناولوں پر کم توجہ دی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے ناول ترجمہ نہیں کیے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ کہانیوں کے ترجمے کا تمام کام صدیقی صاحب اپنی آمدن میں اضافے کے لیے کرتے تھے البتہ ان کا اصل میدان شاعری تھا جس میں وہ کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے،ان کا پہلا مجموعہ ءکلام ”سمندر آنکھیں“ 1972 میں شائع ہوا، اس کے بعد خدا معلوم شعر گوئی کی رفتار کیوں سست ہوئی کیوں کہ تقریباً دس سال بعد انہیں پھر نیا مجموعہ شائع کرانے کا خیال آیا اور انہوں نے 1982 تک کہے گئے اشعار کا ایک انتخاب معراج رسول صاحب کے چھوٹے بھائی جناب اعجاز رسول کے حوالے کردیا تاکہ وہ اسے اپنے ادارے کتابیات پبلی کیشن کے زیر انتظام شائع کردیں،یہاں ہم یہ وضاحت بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ صدیقی صاحب کے ذاتی مراسم جس قدر اعجاز رسول صاحب سے تھے ، معراج صاحب سے نہیں تھے،اعجاز صاحب کے لیے وہ بہت سی کتابوں کے ترجمے بھی کرتے رہے تھے اور طبع زاد بھی لکھتے رہے، مثلاً ”بوجھو تو جانیں“ یہ منظوم پہیلیوں کا مجموعہ ہے،”امتحان میں کامیابی، خوابوں کے اسرار، مسائل اور حل، کامیابی، احساس کمتری، چھ حیرت انگیز علوم، تحریر اور شخصیت، باخبری، کم نظری اور اس کا سدباب،دست شناسی کے نئے رُخ ،کالی کہانیاں، دنیا کی بہترین کہانیاں، سگریٹ پینا چھوڑیے، موٹاپا اور اس کا سدباب وغیرہ اور بے شمار تصنیفات صدیقی صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں جن میں اکثر پر ان کا نام بھی شائع نہیں ہوا، یہی صورت ڈائجسٹوں میں چھپنے والی بے شمار کہانیوں کی ہے، انہیں اس کی پروا بھی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی وہ ان کتابوں کے موضوع پر بات کرنا پسند کرتے تھے،صرف اور صرف ادب و شاعری ان کا مسئلہ تھا،شاید اسی لیے دس سال تک جو کچھ کہا، اسے شائع کرانے کے لیے بے تاب ہوئے اور غزلیں اور نظمیں اعجاز رسول صاحب کو دے دیں، ان دنوں (1986) وہ اپنی ملازمت کی وجہ سے کراچی سے دور تھے اور ان کا خیال تھا کہ اعجاز صاحب یہ کام بہ حسن و خوبی کرلیں گے کیوں کہ وہ ایک پبلشنگ ادارہ چلارہے تھے لیکن ان کا دوسرا مجموعہ ءکلام ”کاسنی گل پوش دریچے“ جب شائع ہوا تو ہمیں سخت مایوسی ہوئی ، یہ ان کے کلام اور خود ان کی توہین تھی،اخباری کاغذ پر 64 صفحے کا چھوٹا سا ایک کتابچہ ہمارے ہاتھ میں تھا، شاید ان کی اختصار پسندی اور سخت تنقیدی نظر نے ایک بھرپور مجموعہ ءکلام کو ضروری نہیں سمجھا، وہ اکثر جب ہمیں کوئی نئی غزل سناتے تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ”آپ ایمانداری سے کمزور شعروں کی نشان دہی ضرور کردیں“ لیکن ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا مگر وہ خود یہ کام کرلیتے تھے، کاسنی گل پوش دریچے کی پہلی غزل چار شعروں پر مشتمل ہے،یہی حال دوسری غزلیات کا ہے، بہت کم غزلیں ایسی ہیں جن میں پانچ شعر ہیں لیکن پہلی غزل خود صدیقی صاحب کے مزاج و فطرت پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے
جھلسا گئی سموم، صبا سے نہ کچھ کہا
جلتے رہے پر، اہلِ دوا سے نہ کچھ کہا
اک ایک کرکے سارے دیے بجھ گئے مگر
تھے وہ انا پسند ، ہوا سے نہ کچھ کہا
تِری طلب میں دل کی خموشی گواہ ہے
اوروں کا ذکر کیا ہے، خدا سے نہ کچھ کہا
دنیا تو خیر اپنی مخالف صدا سے تھی
تم نے بھی کشتگانِ بلا سے نہ کچھ کہا
 وہ بلاکہ نقاد بھی تھے، کراچی کی ادبی نشستوں میں کبھی کبھی حاضری دیا کرتے اور اکثر شعرا اور افسانہ نگاروں کو ناراض کرتے، ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”گوشے اور اُجالے“ شائع ہوچکا ہے۔
آخری دنوں میں صحت کی خرابیوں کی وجہ سے کہیں آنا جانا بہت کم ہوگیا تھا، ہم اکثر ان کے گھر چلے جاتے تو بہت خوش ہوتے، بیٹھ کر پرانے قصے ، پرانی باتیں یاد کرتے اور ان کا تازہ کلام بھی سنتے، پاکستان و بھارت کے تقریباً تمام ہی معتبر ادبی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔1991 میں تیسرا مجموعہ ”اطراف“ نہایت اہتمام سے شائع ہوا اور اس کی اشاعت کے لیے وہ شکیل عادل زادہ کے شکر گزار ہوئے، شکیل صاحب نے ایک بھرپور تعارفی مضمون بھی اس مجموعے کے فلیپ پر لکھا ہے جو یقیناً قابل توجہ ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں ایسا، مناسب ہوگا کہ شکیل صاحب کی اس خامہ فرسائی کی چند جھلکیاں یہاں پیش کردی جائیں۔
”احمد صغیر صدیقی ایک نہایت گوشہ گیر قسم کے آدمی ہیں، شاعری ان کا پیشہ نہیں ، مشغلہ ہے“
”احمد صغیر صدیقی ہر پہلو سے ایک متوازن آدمی ہیں، ان کے پلڑے عموماً برابر رہے ہیں،وہ ارسطو کے کلیے اعتدال خیرالامور کے شدت سے پیروکار نظر آتے ہیں اور لگتا ہے ، یہ سامنے کا روپ اصل میں ان کا بہروپ ہے گو وہ اسے کمال جبر، کمال نفاصت سے نصف صدی سے نبھا رہے ہیں مگر ان کا صحیح رنگ و روپ تو ان کی شاعری میں جلوہ گر ہے، ایسی شاعری درون خانہ کے شورش و تلاطم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی، انہوں نے اپنے اندر کا بے قرار، مشکوک، حیران اور ویران آدمی خوب باندھ کے جکڑ کے رکھا ہوا ہے، یہ دوں ہمتی کی بات بھی ہوسکتی ہے، ان میں رسوا ہونے کا حوصلہ نہیں ہے، اپنے آپ پر اصرار کرنے کا حوصلہ۔وہ اپنے پرسان حال و احوال سے ہراساں ہیں کہ کھل کر سامنے نہیں آتے، وہ کوئی مشہور شاعر بالکل نہیں ہیں نہ انہیں اس کا دکھ ہے، نہ دعوا“۔
”ان کا مطالعہ یقیناً مشاہدے سے بیش ہے، آو ¿ٹ آف باو ¿نڈ قسم کی جگہوں پر ان کا گزر کم ہی ہوا ہوگا، چشم بینا شرط ہے ، مشاہدہ تو ایک جنس ارزاں ہے، کھلی آنکھوں کا ایک مسلسل جبر، بند آنکھوں کا بھی لیکن تھوڑی بہت کجی ، اندھی گلی سے آشنائی، قلم برداروں کے لیے اکسیر ہوتی ہے،اس ذرا سی جرا ¿ت، تھوڑے سے تجسس اور ایک بار کی لغزش گاہے گاہے ہوسِ گل بدناں کی اجازت تو اقبال نے بھی دی ہے، یوں مطالعے، مشاہدے اور تجربے کا اخذ و استنباط کا معاملہ بقدر توفیق ہوتا ہے“
کتاب کے پیش لفظ میں صدیقی صاحب کی اختصار نویسی حسب عادت رہی، دیباچے کے آخر میں فرماتے ہیں ”ہر لکھنے والا یہی سوچ کر لکھتا ہے کہ اس کی تحریر ، اس کا جواز فراہم کرے گی۔میں نے یہ کتاب آنے والے دنوں کے ہاتھ میں دے دی ہے، میں بس اسی قدر کرسکتا ہے“
ہم نے ابتدا میں میر تقی میر کا ایک شعر پیش کیا تھا جس کا جواب صدیقی صاحب نے فوراً ہی دے دیا تھا مگر خود دیکھیے صدیقی صاحب کیا کہتے ہیں 
اب اتنی شیشہ مزاجی بھی کچھ درست نہیں
عجب نہیں کہ لگے ٹھیس اور بکھر جاو
جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ وہ بہت انا پرست اور اختصار پسند تھے، گوشہ نشینی انہیں راس تھی، محدود حلقہ ءاحباب رکھتے تھے، ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھنا، ہم نے انہیں کبھی کسی کی برائی کرتے یا کسی کی شکایت کرتے بھی نہیں دیکھا، ہم خود اگر کسی کی شکایت کرتے یا کسی کی خامیاں زیر بحث آجاتیں تو وہ فوراً موضوع کو بدلنے پر زور دیتے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر پاک طینت اور صاف دل انسان تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں