ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ورد و وظائف میں پرہیز اور کسی ردّعمل کا خوف

دسمبر کا تیسرا ہفتہ وزیراعظم اور کابینہ کے لیے بھاری ہوسکتا ہے
اگر اس سال کے دو بڑے واقعات کی نشان دہی کی جائے جو پاکستانی سیاست کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں تو سرفہرست پانامالیکس اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو شمار کیا جائے گا کیوں کہ آخری وقت تک لوگ ان کی ایکسٹینشن کی آس لگائے بیٹھتے تھے،حالاں کہ وہ اس حوالے سے واضح تردید بہت پہلے کرچکے تھے، نئے جنرل کی آمد کو ایک بڑی تبدیلی اور بڑا واقعہ کہنا چاہیے۔
 پاناما لیکس کا آغاز غالباً اپریل میں ہوا تھا اور اختتام تاحال نہیں ہوسکا ہے،کئی مراحل سے گزرنے کے بعد یہ کیس اب سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے،فریقین اپنی اپنی کامیابیوں اور دوسرے کی ناکامیوں کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں، گزشتہ سماعت کے دوران میں یہ ڈھنڈورا اس طرح پیٹا گیا کہ تحریک انصاف کے وکیل جو نہایت قابل اور ملک کے نامور وکیل ہیں، کیس سے دستبردار ہوگئے، اس بار 30 ستمبر کی سماعت میں تحریک انصاف والے خوش نظر آتے ہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
قصہ مختصر یہ کہ سال 2016 ءکے تقریباً 8 مہینے پانامالیکس کی نذر ہوچکے ہیں اور ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ اس ساری ہنگامہ آرائی میں عمران خان اور اپوزیشن کے لیے تو بہت سے خوش گوار اور دلچسپ پہلو موجود ہیں لیکن ہمارے محترم وزیراعظم اور ن لیگ کے لیے یہ ایک ناسور بن چکا ہے کہ اسے جتنا بھی کریدا جارہا ہے،اتناہی پُرتعفن مواد ابلتا چلا جارہا ہے۔
30 نومبر کی سماعت کے بعد صورت حال نے ایک نئی کروٹ بدل لی ہے،جسے دیکھتے ہوئے پاکستان کے ایک نامور سیاسی تجزیہ کار اور وزیراعظم کے مشیر بے محکمہ نے جو ایک بڑے چینل پر پروگرام کرتے ہیں، شاید کسی خطرے کی بو سونگھ لی ہے لہٰذا یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اب یقیناً عدالت کوئی کمیشن بنادے گی اور اس جنجال پورے سے اپنی جان چھڑائے گی،وہ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ کمیشن بننے کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ مہینوں نہیں بلکہ سالوں پر پھیل سکتا ہے اور سابقہ ریکارڈ کے مطابق نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا،اس کے برعکس تحریک انصاف کے ایک فاضل وکیل جناب ڈاکٹر بابر اعوان ایک پروگرام میں کمیشن کی مخالفت کرچکے ہیں اور ان کا مو ¿قف یہی تھا کہ جب کسی معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنا ہو تو کوئی کمیٹی یا کمیشن بنادینا چاہیے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس صاحب بھی دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہورہے ہیں، کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہوسکے گا؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پورے پاکستان کی نظر اس مقدمے پر لگی ہوئی ہے اور لوگ نہایت بے چینی سے کسی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، بقول غالب 
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
عزیزان من! شاید آپ کو یاد ہو 5 جون 2013 ءکو شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے جب نواز شریف صاحب نے بہ حیثیت وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو ہم نے ”زائچہ ءحلف“ پر اظہار خیال کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ یہ حلف کسی شُبھ گھڑی میں نہیں اٹھایا گیا اور یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ اگر دوبارہ حلف کسی مناسب وقت پر لے لیا جائے تو کوئی مزائقہ نہیں ہوگا، اس حوالے سے صدر اوباما کی مثال بھی دی گئی تھی کہ وہ بھی دو بار حلف اٹھاچکے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ حلف کا وقت انتہائی ناموزوں تھا، ایسٹرولوجی میں کسی اچھے یا برے وقت کی بڑی اہمیت ہے اور اچھے یا برے وقت کی نشان دہی صرف علم نجوم کے ذریعے ہی ممکن ہے،چناں چہ اگر ہم حلف اٹھانے کے بعد سے اب تک کہ واقعات پر نظر ڈالیں تو وزیراعظم صاحب مسلسل مشکلات اور پریشانیوں کا شکار نظر آتے ہیں،ان مشکلات کا آغاز 2014 ءسے ہی ہوگیا تھا اور تاحال جاری ہے اور 14 نومبر 2018 ءتک جاری رہے گا، گویا اگر بقول ن لیگ آئندہ الیکشن 2018 ءمیں ہونے ہیں تو وزیراعظم کے لیے نئے الیکشن کے حوالے سے بھی مشکلات اور سختیاں موجود ہوں گی جن سے عہدہ برآ ہونا شاید ان کے لیے ممکن نہ رہے،چوتھی بار وزیراعظم تو کیا وہ شاید اسمبلی کے ممبر بھی نہ بن سکیں۔
وزیراعظم کی ایک مشکل تو 29 نومبر کو آسان ہوگئی،جب بہ خیرو خوبی فوجی کمان کی تبدیلی کا عمل مکمل ہوا کیوں کہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اور ان کی ایکسٹینشن بھی ایک مسئلہ تھی، حالاں کہ وہ اس سال کے شروع ہی میں کہہ چکے تھے کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے،پھر بھی شاید ان کے بعض مشیر مطمئن نہیں تھے، اب نئے جنرل قمر جاوید باجوہ بھی حسب معمول انہی کا انتخاب ہیں، تاحال ہمیں ان کی درست تاریخ پیدائش وغیرہ حاصل نہیں ہوسکی ہے کہ ان کے زائچے پر کوئی اظہار خیال کیا جاسکے۔
دسمبر کی فلکیاتی صورت حال میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اس مہینے میں تقریباً 11 دسمبر سے 20 دسمبر تک کا وقت وزیراعظم پاکستان کے لیے زیادہ سخت ہوگا، اس وقت کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جسے سنبھالنا خاصا مشکل ہوجائے، واللہ اعلم بالصواب۔
آئیے ایک اہم خط کی جانب:
ورد و وظائف میں پرہیز
ایک بہن لکھتی ہیں جن کا نام و مقام شائع کرنا ہم ضروری نہیں سمجھتے ”میرے خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت پہلے آپ نے اسم اعظم معلوم کرنے کا طریقہ بتایا تھا اور میں نے بھی کوشش کرکے اپنا اسم اعظم آپ کے دیے ہوئے طریقے کے مطابق نکالا تھا، بعد ازاں پابندی سے اس کا ورد کیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے،بے شک اس کے فوائد بھی میں نے محسوس کیے ہیں لیکن اسی دوران میں ایک اور صاحب نے یہ لکھا ہے کہ اسم اعظم کا نقش مشک اور آب زمزم سے لکھ کر پاس رکھنا ضروری ہے،نیز ورد میں کوئی غلطی یا ناغہ یا زیروزبر کی غلطی سے شدید ردعمل ظاہر ہوتا ہے،بجائے فائدے کے نقصان ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ جلالی و جمالی پرہیز بھی ضروری ہے، آپ کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں تھی، امید ہے کہ وضاحت فرمائیں گے تاکہ شکوک و شبہات دور ہوکر ذہن کو سکون ہوجائے، آپ خود اس معاملے کی اہمیت ہم سے بہتر سمجھ سکتے ہیں،ایک زحمت آپ کو یہ دے رہی ہوں کہ میں نے جو اپنے لیے اسمائے الٰہی منتخب کیے وہ تفصیل سے آپ کو لکھ رہی ہوں، آپ صرف یہ بتادیں کہ مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہوئی،ایک بار پھر آپ کے لیے دعائے خیر کرتے ہوئے درخواست کرتی ہوں کہ اس سلسلے میں یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ اس کا کھلا ورد کسی خاص شرط کا پابند تو نہیں ہے؟نیز جن لوگوں نے اسے اپنے نام کی اعداد کی مقدار میں پڑھا ہے وہ کھلا ورد کرسکتے ہیں اور کس طرح ؟امید رکھتی ہوں کہ قریبی اشاعت میں میرے سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں گے“
جواب: عزیز بہن! آپ نے اسمائے الٰہی سے جو فیض حاصل کیا اس کے لیے مبارک باد، اسم اعظم کے حوالے سے آپ نے کسی صاحب کی جو رائے لکھی ہے،وہ درست نہیں ہے،اکثر لوگ ایسی باتیں اس لیے بھی لکھتے ہیں کہ ان سے رجوع کیا جائے کیوں کہ مشک وغیرہ عام آدمی کہاں سے لائے گا؟ آج کے زمانے میں مشک ایک نہایت قیمتی شے ہے اور آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہوتا، دوسری بات یہ ہے کہ ہر شخص نقش وغیرہ تیار کرنے کے قواعد بھی نہیں جانتا، اگر جانتا ہو یا جان لے تو اپنے لیے خود نقش بناسکتا ہے، اس سلسلے میں مشک کی ضرورت نہیں ہے بلکہ زعفران اور عرق گلاب سے بھی لکھا جاسکتا ہے،اسی طرح کسی غلطی یا ناغے کی صورت میں شدید رد عمل سے ڈرانا ، فائدے کے بجائے نقصان کا خوف دلانا، جلالی و جمالی پرہیز کی خصوصی شرائط عائد کرنا، یہ تمام باتیں صرف اور صرف اس لیے ہیں کہ ضرورت مند گھبراکر لکھنے والے سے رابطہ کریں، امید ہے کہ اس وضاحت سے آپ مطمئن ہوگئی ہوں گی۔
اب ذرا اس مسئلے کو سمجھ لیجیے کہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی کیا اہمیت رکھتی ہے اور یہ اہمیت کس جگہ مو ¿ثر ہے اور کس جگہ غیر مو ¿ثر ، اس کے علاوہ کسی بھی ورد یا وظیفے یا عمل میں رجعت یا شدید ردعمل ظاہر ہونے کا خوف کہاں ہے اور کہاں نہیں؟ پرہیز جلالی و جمالی کہاں ضروری ہوتا ہے اور کہاں غیر ضروری؟ 
ایسے تمام اعمال ، ورد و وظائف جو انسان اپنی جائز اور حقیقی ضروریات کے تحت اللہ سے استعانت کے لیے اختیار کرتا ہے، ان میں قبولیت اور اثر پذیری کا معاملہ انسان کی نیت اور ضرورت کی درستگی، نیز مقصد کی سچائی اور طلب و لگن سے مشروط ہوتا ہے،چھوٹی موٹی غلطیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں کیوں کہ وہ قبول کرنے والا ، مشکل حل کرنے والا، نیتوں کے حال جاننے والا، ہماری ضروریات کے جائز و ناجائز فیصلہ کرنے والا، ہماری تمام کمزوریوں اور خوبیوں سے بہ خوبی واقف ہے، وہ ہماری دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کے بعد ہمیں وہی کچھ دیتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہے،جب کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے؟ لہٰذا ایسے اعمال و وظائف میں کسی رجعت یا شدید ردعمل کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جس میں انسان اپنی جائز ضروریات کے لیے کسی بھی طریقے سے اپنے رب کو پکار رہا ہو،نہ ہی ایسے اعمال و وظائف کے لیے کسی جلال و جمالی پرہیز کی ضرورت ہوتی ہے،ہاں! البتہ کچا لہسن پیاز کھانے سے اس لیے منع کیا جاتا ہے کہ ان کی بو دیر تک قائم رہتی ہے اور ملائکہ کو بھی ناپسند ہے،حضور اکرم نے فرمایا کہ کچا لہسن پیاز کھاکر ہماری مسجد میں نہ آئیں، اس کی بو سے ملائکہ کو تکلیف ہوتی ہے،اس ارشادِ رسول اکرم کی روشنی میں ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کے بابرکت ناموں کا ورد کرتے ہیں یا دیگر کلام الٰہی اکثر اپنے ورد میں رکھتے ہیں، انہیں کچے لہسن پیاز سے پرہیز کرنا چاہیے،بس اتنی سی بات ہے، پرہیز کے معاملے میں۔
اب ذرا یہ مسئلہ بھی سمجھ لیجیے کہ پرہیز اور کوئی چھوٹی سی غلطی بھی کون سے عملیات و وظائف میں سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے،سب سے پہلے اس ذیل میں وہ اعمال و وظائف آتے ہیں جن کے ذریعے انسان سپر نیچورل قوتوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہوتا ہے یعنی کوئی شخص جنات، ہمزاد، کسی مو ¿کل یا کسی اور نوعیت کی روحانی قوتوں کے حصول کے لیے کوشش کر رہا ہو یا کسی ناممکن ایسی خواہش کی تکمیل کے لیے عمل و وظائف کر رہا ہو جن کا وہ اہل ہی نہیں ہے، استحقاق ہی نہیں رکھتا، مثلاً ایک شخص اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے چلّے وظائف شروع کردے یا کسی اور بڑے عہدے کا حصول اس کا مقصد ہو،لاٹری، ریس، سٹّہ وغیرہ میں جیتنے والے نمبروں کا حصول پیش نظر ہو، کسی کی محبت میں پاگل ہوکر ایسے وظیفے اور چلّے اسے حاصل کرنے کے لیے شروع کردے جب کہ دنیاوی طور پر وہ اس کا حق نہ رکھتا ہو یا وہ لڑکی یا اس کے والدین اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں جس کی وجہ سے رشتہ دینے سے انکاری ہوں، المختصر بات اتنی ہے کہ اگر آپ اپنی جائز اور حقیقی ضرورت و پریشانیوں کے لیے اللہ سے اس کے کلام یا اسمائے الٰہی کے ذریعے دست بہ دعا ہوتے ہیں تو آپ کو کسی خاص پرہیز کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی کسی بات کا خوف ہونا چاہیے جب کہ اس کے برعکس صورت حال میں معاملہ برعکس ہوگا۔
محبت اور شادی وغیرہ کے حوالے سے جو اشارہ دیا گیا ہے اسے مزید وضاحت سے سمجھنے کی ضرورت ہے،یاد رکھیں کہ آپ اپنی ذات اور اپنی ذات سے متعلق مسائل کی حد تک آزاد ہیں،آپ کو تمام اختیارات حاصل ہیں لیکن جب معاملہ یا مسئلہ کسی دوسرے فریق سے منسلک ہوجائے تو پھر بات مختلف ہوجاتی ہے مثلاً اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی جگہ شادی کرے اور وہاں اس کی شادی نہیں ہورہی اور شادی نہ ہونے کی وجوہات میں دوسرے فریق یا اس کے لواحقین (والد، والدہ، بھائی، بہن) کا راضی نہ ہونا شامل ہے،ایسی صورت میں اس معاملے کو صرف فریق اول کا نجی اور ذاتی معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اسے یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی کی مرضی کے خلاف کسی بھی ذریعے سے کوئی اقدام کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو نقصان کا موجب ہوسکتا ہے،اسی طرح عملیات و وظائف کے ذریعے اپنے مخالفین اور ناپسندیدہ افراد کے خلاف کوئی کارروائی کرنا اکثر اوقات خود اپنے حق میں سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، بے شک آپ کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے مگر محض کسی مفروضے اور قیاس کی بنیاد پر دوسروں کو دشمن سمجھ کر ان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں ہوسکتا بلکہ خود اپنے لیے نقصان و تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
عزیزم! آپ نے اپنے لیے درست اسمائے الٰہی منتخب کیے ہیں، بے خوف و خطر انہیں اپنے ورد میں رکھیں، باضابطہ پڑھنے کا طریقہ ہم پہلے تفصیل سے سمجھا چکے ہیں،کھلے ورد کے لیے کوئی قید نہیں، اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے فرصت کے اوقات میں کھلا ورد کیجیے، جن بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، ان سے ہر مسلمان خود آگاہ ہوتا ہے یعنی پاک صاف رہا کرے اور پاکی کی حالت میں ہی اسمائے الٰہی اور کلام الٰہی کا ورد جائز ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں