ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

2017 
 تبدیلی اور ایک نئے آغاز کا سال 
آئندہ ڈھائی سال حکمرانوں کے لیے سخت اور مشکل ہوسکتے ہیں
نیا سال 2017 ءکا مفرد عدد 1 ہے، عدد 1 کو نئے آغاز یا کسی نئے کام کی ابتدا کا عدد کہا جاتا ہے، ایسے سالوں میں عموماً عام لوگوں کی زندگی میں بھی اور ملکوں کے حالات میں بھی کوئی نئی روایت یا کوئی نئی بنیاد ڈالی جاتی ہے،اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو اس سے پہلے ایک نمبر کے زیر اثر سال 2008 ءتھا جس میں الیکشن ہوئے، ایک نیا جمہوری سیٹ اپ تیار ہوا اور دس سال سے جاری ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوا، تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو 1999 ءبھی 1 نمبر کا سال ہے،اس سال ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہوا ، اس سے پہلے 1990 ءکو اگرچہ ایک جمہوری دور کہا جاتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی گرفت بہت مضبوط تھی لہٰذا محترمہ شہید کی جمہوری حکومت 6 اگست 1990 ءکو ختم کردی گئی اور نئے الیکشن کے نتیجے میں پہلی بار جناب نواز شریف وزیراعظم بنے، مزید پیچھے چلے جائیں تو 1981 ءایسا سال ہے جس میں ہم پوری طرح امریکن کیمپ میں شامل ہوکر افغان جنگ میں بھرپور طریقے سے شریک ہوئے، مزید عدد 1 کے اثرات کا مشاہدہ 1972 ءمیں ہوگا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان دولخت ہونے کے بعد ایک سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے حکومت کا آغاز کیا اور اسی سال نئے آئین کی تیاری کا آغاز بھی ہوا۔
عزیزان من!: عدد ایک کے زیر اثر سال کے لیے یہ تاریخی ثبوت و شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سال کوئی بڑی تبدیلی اور کوئی نیا آغاز لاتا ہے، یہ تبدیلی یا آغاز مثبت ہوگا یا منفی اس کے بارے میں کچھ کہنا خاصا مشکل کام ہے،اعداد کی پراسرار قوتوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مرکب اعداد پر غور کیا جائے جن سے مفرد عدد حاصل ہورہا ہو، 2017 ءکا مجموعہ 10 ہے، مرکب 10 کا عدد قسمت کا نیا موڑ یا قسمت کا چکر ظاہر کرتا ہے جو منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی، عام طور پر مثبت نتائج کے لیے صورت حال کو مثبت ہونا چاہیے اور منفی نتائج اُس وقت سامنے آتے ہیں جب صورت حال پہلے ہی مکمل طور پر منفی ہو، اپنے ملکی حالات کی مثبت یا منفی صورت حال سے ہر شخص واقف ہے۔
 نیا زائچہ ءپاکستان
اب تک روایت یہ رہی ہے کہ نئے سال کا زائچہ زیر بحث رہا ہے، اس بار روایت کے خلاف پاکستان کا نیا زائچہ پیش نظر ہے جو 20 دسمبر 1971 ءسہ پہر 02:58:20 pm اسلام آباد کے مطابق ہے، یہ وہ وقت ہے جب سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا ، جنرل یحیٰ خان نے اقتدار جناب ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کیا تھا۔
زائچے میں برج ثور کے 3 درجہ 33 دقیقہ طلوع ہےں، زحل زائچے کے پہلے گھر میں مضبوط پوزیشن رکھتا ہے،دوسرے اور پانچویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد بھی زائچے میں ساتویں گھر میں باقوت ہے،تیسرے گھر کا حاکم قمر نویں گھر میں اگرچہ اچھی پوزیشن رکھتا ہے لیکن چھٹے گھر کے منحوس حاکم زہرہ سے متاثرہ ہے،چوتھے گھر کا حاکم شمس کمزور ہے اور زائچے میں آٹھویں گھر میں مصیبت میں ہے، ملکی زائچے میں چوتھا گھر عوام اور اپوزیشن کا ہے،ابتدا ہی سے یہ دونوں مصیبت میں ہیں، ساتویں گھر کا حاکم زہرہ نویں گھر میں ہے اور کمزور ہے، نویں اور گیارھویں کا حاکم مشتری اگرچہ اچھی جگہ ہے لیکن کمزور ہے،نویں دسویں کا حاکم زحل مضبوط ہے لیکن راہو کی معمولی سی نظر اس پر ہے،بارھویں کا حاکم مریخ گیارھویں گھر میں کمزور ہے،راہو کیتو زائچے کے نویں اور تیسرے گھر میں ہےں۔
سیارہ مریخ ، مشتری اور زہرہ کے علاوہ راہو اور کیتو اس زائچے کے لیے منحوس اثر رکھنے والے نقصان دہ سیارگان ہیں جب کہ عطارد ، قمر ، شمس اور زحل سعد اثر رکھنے والے سیارگان ہیں اور ان کے سعد اثرات زائچے میں موجود ہیں جب کہ نحس سیارگان کے نحس اثرات میں مریخ اور زہرہ کے اثرات نمایاں ہیں، خصوصاً زہرہ اور مریخ زائچے کے اہم گھروں سے ناظر ہیں، زہرہ تیسرے اور نویں گھر سے جس کے نتیجے میں آئینی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا پلہ بھاری رہتا ہے، مریخ زائچے کے دوسرے ، پانچویں ، چھٹے اور گیارھویں گھر کو ناظر ہے لہٰذا معاشی عدم استحکام اور اس کی وجہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے بھاری اخراجات جو ناجائز حدود تک پھیل جاتے ہیں، پانچویں گھر پر مریخ کی نظر شعوری طور پر کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کا رجحان لاتی ہے،چھٹے گھر پر مریخ کی نظر اس زائچے میں ملکی اہم اداروں میں عدم استحکام پیدا کرتی ہے،گیارھواں گھر پارلیمنٹ اور ملکی مفادات کا ہے،سو اس حوالے سے کسی خاص وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
سیارہ زحل چوں کہ زائچے کے دسویں گھر کا حاکم ہے اور دسواں گھر ملک کے سربراہ (صدر یا وزیراعظم) اورکابینہ کی نشان دہی کرتا ہے، اگرچہ زحل طاقت ور ہے اور اچھی پوزیشن میں ہے لیکن راہو کی نظر اس پر موجود ہے،راہو کو سیاست کا ستارہ کہا جاتا ہے،مزید یہ کہ راہو ہوشیاری ، چالاکی، مکاری اور آئین سے ماورا دلچسپیوں اور سرگرمیوں کی نشان دہی کرتا ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ 1971 ءکے بعد سے ہمارے ملک میں سیاست ایک مشن کے بجائے کاروبار بن چکی ہے،کوئی جمہوری دور ہو یا فوجی، آج تک کوئی بھی سربراہ اور اس کی کابینہ ایسی نہیں ہے جسے ذاتی مفادات میں ملوث نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا جاسکے بلکہ روز بہ روز اس حوالے سے صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے،آج پورا ملک ہر سطح پر کرپشن کی دلدل میں دھنسا ہوا نظر آتا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا، الا ماشاءاللہ۔
دور اکبر اور اصغر کے اثرات
پاکستان کے زائچے میں یکم دسمبر 2008 ءسے مشتری کا دور اکبر جاری ہے جس کا خاتمہ یکم دسمبر 2024 ءکو ہوگا، اس کے بعد سیارہ زحل کا دور اکبر شروع ہوگا جو 19 سال رہے گا، امید رکھنا چاہیے کہ یہ دور پاکستان کی ترقی اور عروج کا دور ہوگا،بین الاقوامی معاشرے میں پاکستان کا کوئی مثبت کردار سامنے آسکے گا، اس کے بعد 17 سال کا دور عطارد بھی ترقی اور خوش حالی کا دور ہوگا کیوں کہ زحل اور عطارد دونوں زائچے کے سعد اثر دینے والے اور مضبوط سیارگان ہیں۔
اس سے پہلے راہو کا 18سالہ دور 2 دسمبر 1990 ءسے شروع ہوا تھا جس میں سیاسی ہیرا پھیریاں اور نت نئے جمہوری تماشے دیکھنے میں آئے، راہو سیاست ، چال بازی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو بڑھاوا دیتا ہے لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ 1991 ءہی سے جھوٹ فریب اور کرپشن کا بھرپور انداز میں آغاز ہوا ، حکمران حلقے دیکھتے ہی دیکھتے کھرب پتی بن گئے، ہماری سیاسی اشرافیہ نے اس دور میں جو ”شہرت“ کمائی، وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسی دور میں چھانگا مانگا کا نام مشہور ہوا اور مسٹر 10% کا خطاب بھی سامنے آیا، اسمبلیوں میں ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔
بالآخر 1999 ءمیں جمہوری بساط لپیٹ دی گئی اور ایک نئی طرز کی جمہوری بساط بچھائی گئی جو ڈکٹیٹر شپ کے زیر سایہ پروان چڑھی، راہو کا دور اکبر جاری تھا لہٰذا ہیر پھیر ، کرپشن اور فریب اس دور میں بھی نمایاں رہا، امریکیوں کو مطلوب افراد کی ڈالروں میں خریدوفروخت ہوئی،اسٹاک ایکسچینج کریش کرایا گیا اور بھی دیگر نمایاں نوعیت کے ”کارنامے“ اس دور سے منسوب ہیں، اسی دور میں دو مرتبہ این آر او جیسی اصطلاحات بھی سامنے آئیں۔
سیارہ مشتری زائچے کا سب سے زیادہ منحوس سیارہ ہے،3 دسمبر 2008 ءسے زائچے میں سیارہ مشتری کا دور اکبر اور دور اصغر شروع ہوا،ملک میں جمہوری نظام آچکا تھا، ڈکٹیٹر شپ ختم ہوچکی تھی لیکن دور کی خرابی نے ملک و قوم کو سنبھلنے نہ دیا،جمہوری دور نے اگرچہ 5 سال مکمل کیے لیکن ملک و قوم کی بہتری کا عمل شروع نہیں ہوسکا، 5 سالہ جمہوری دور شدید نوعیت کے تنازعات اور اختلافات کا شکار رہا، اسی دور میں میموگیٹ اسکینڈل ، سانحہ ایبٹ آباد، دہشت گردی کا ایک طوفان اور ایک وزیراعظم کی برطرفی کا واقعہ بھی پیش آیا۔
2 اگست 2013 ءسے مشتری ہی کے دور اکبر میں سیارہ عطارد کا دور اصغر شروع ہوا اور عطارد چوں کہ زائچے کا سعد اور مضبوط سیارہ ہے لہٰذا اسی دور میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا جس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔
زائچہ پاکستان میں گزشتہ سال 14 اکتوبر سے مشتری (زائچے کا سب سے منحوس سیارہ) کے دور اکبر میں سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،دو منحوسوں کے ادوار میں کسی خیر کی توقع نہیں ہونی چاہیے،زہرہ زائچے میں طالع کے علاوہ چھٹے گھر کا بھی حاکم ہے،چھٹا گھر فتنہ و فساد ، اختلاف رائے، تنازعات کو جنم دیتا ہے،اس گھر کی دیگر بنیادی منسوبات میں فوج ، بیوروکریسی ، عدلیہ اور الیکشن کی کارروائی شامل ہے، زہرہ کا دور اصغر 15 جون 2019 ءتک جاری رہے گا گویا مشتری آٹھویں گھر کی منسوبات اور زہرہ چھٹے گھر کی منسوبات پر زور رہے گا، اس حوالے سے 2017 ءکو نئے انتخابات کا سال بھی کہا جاسکتا ہے اور دوسری صورت میں اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں ایسی صورت حال بدستور جاری رہے جس میں حقیقی قوت و اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہو، زہرہ کا دور زائچہ ءپاکستان میں جب آپریشنل ہوتا ہے تو انتخابات کے امکانات کے ساتھ سخت نوعیت کی ایڈمنسٹریٹیو سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں، سرحدی معاملات میں بھی جنگ کسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے، جیسا کہ دیکھنے میں آرہی ہے،اس حوالے سے بھی 2017 ءایک غیر معمولی اثرات کا حامل سال ہوگا، خصوصاً سال کے وہ حصے جب سیاروی ٹرانزٹ زائچے کے مخصوص گھروں کو متاثر کریں گے،اس کی نشان دہی آگے چل کر کی جائے گی۔
2017 
میں سیاروی پوزیشن
نئے سال کے آغاز میں راہو چوتھے گھر ، مشتری پانچویں گھر، زحل ساتویں، عطارد اور شمس آٹھویں، قمر نویں جب کہ زہرہ، مریخ اور کیتو دسویں گھر میں ہوں گے، سیارہ زحل سال کے ابتدائی حصے ہی میں آٹھویں گھر میں داخل ہوجائے گا، دسویں گھر کے حاکم کا آٹھویں گھر میں قیام ملکی عزت و وقار اور حکومت یا سربراہ حکومت کے لیے نیک شگون نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کوئی جمہوری حکمران سکون و چین سے حکومت نہیں کرسکے گا،اس کے لیے مشکلیں اور مصیبتیں بڑھ جائیں گی، اس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اب تک وزیراعظم اور ان کی کابینہ درپیش چیلنجز سے کسی نہ کسی طور نمٹتے رہے ہیں لیکن آئندہ سال میں شاید یہ ممکن نہ ہوسکے، خصوصاً اس حوالے سے جون کے آخر سے اگست کے آغاز تک نہایت سخت وقت ہوگا، ملک نئے الیکشن کی طرف جائے گا یا کوئی عبوری سیٹ اپ بنایا جائے گا؟ اس کا انحصار کلیدی کردار ادا کرنے والی قوتوں کی صوابدید پر ہوگا۔
 پاکستان کو بھی آئندہ تقریباً ڈھائی سال تک جب تک زحل کا قیام آٹھویں گھر میں رہے گا، اپنی ساکھ کو برقرار رکھنا خاصا مشکل ہوگا، سیارہ زحل تقریباً جون کے آخر تک برج قوس میں رہنے کے بعد پھر واپس برج عقرب میں آجائے گا لیکن یہ اس کا مختصر قیام ہوگا، سال کے آخر تک دوبارہ برج قوس میں چلا جائے گا جہاں اس کا قیام خاصا طویل ہوگا۔
زائچے کی مجموعی پیدائشی پوزیشن پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں، یہ بھی نشان دہی ضروری ہے کہ ہر سال پاکستان کے لیے چند مہینے نہایت سختی اور مسائل کی زیادتی کے ہوتے ہیں، ان مہینوں میں 15 اپریل سے 15 مئی تک کا وقت نقصانات ، رکاوٹیں اور دیگر مسائل لاتا ہے،اس کے بعد 15 اکتوبر سے 15 نومبر تک تقریباً نت نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اختلافی صورت حال اپنوں سے یا غیروں سے، باہمی تنازعات ، مختلف بیماریوں اور وباو ¿ں کا زور اور 15 دسمبر سے 15 جنوری کے درمیان کا عرصہ بھی رکاوٹیں، حادثات اور کاموں میں خرابیاں لانے کا باعث ہوتا ہے،ہمارے اس تجزیے کا تجربہ ماضی کی تاریخ کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
جنوری
نئے سال کے زائچے کی روشنی میں جنوری کا مہینہ ابتدا میں یقیناً کچھ مسائل وزیراعظم کے لیے اور اپوزیشن کے لیے پیدا کرے گا لیکن وہ خوش اسلوبی سے نمٹائے جاسکیں گے، البتہ جنوری کا آخری ہفتہ زیادہ ہنگامہ خیز اور اختلافی مسائل کو جنم دینے والا ہوگا، اس وقت میں حکومت و ریاست مخالف کارروائیاں بھی دیکھنے میں آسکتی ہیں۔
فروری
فروری اس سال کا نہایت موافق اور سپورٹنگ مہینہ ہوگا کیوں کہ سیارگان زائچے میں بہتر گھروں میں پوزیشن رکھتے ہوں گے،حکومت کے مثبت اقدامات سامنے آئیں گے اور ملک میں افہام و تفہیم کی فضاءبرقرار رہے گی،البتہ شوبزنس اور تعلیمی امور کے علاوہ نشرواشاعت کے اداروں کو نئے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مارچ
مارچ کے مہینے کو بھی اس حوالے سے ایک مثبت اور موافق مہینہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دوران میں کوئی ایسی صورت حال بہر حال پیدا نہیں ہوگی جو حالات میں کوئی بڑا بھونچال پیدا کرے، اس مہینے میں ضرورت کے مطابق قانون سازی اور نئے آرڈیننس جاری ہوسکتے ہیں لیکن یہ قومی اور عوامی مفاد میں نہیں ہوں گے، اس مہینے میں بھی شوبزنس ، تعلیمی امور یا درس گاہیں اور نشرواشاعت کے ادارے متاثر ہوسکتے ہیں، پارلیمنٹ سے متعلق سرگرمیاں بھی ہدف و تنقید کا نشانہ بنیں گی۔
اپریل
اپریل سے ایک غیر معمولی وقت کا آغاز ہورہا ہے،خصوصاً 15 اپریل کے بعد سے نت نئے مسائل سر اٹھائیں گے،نئے تنازعات کا کوئی پنڈورا بکس کھل کر عوامی توجہ حاصل کرے گا، سیاسی اور فوجی حلقوں کے درمیان کوئی نئی کشمکش شروع ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ حادثات و سانحات کے حوالے سے بھی نئے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں، پاکستان مخالف عناصر زیادہ شدت کے ساتھ کارروائیاں کرسکتے ہیں، بیرون ملک یا پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوں گی، بین الاقوامی تنازعات کوئی نیا رُخ اختیار کریں گے۔
مئی
اپریل میں پیدا ہونے والے مسائل پر مئی تک قابو پایا جاسکے گا مگر معاشی ، انتظامی اور حکومتی مسائل مکمل طور پر قابو میں نہیں آئیں گے،عارضی طور پر جو روک تھام کی جائے گی، وہ پائیدار نہیں ہوگی خصوصاً عوامی مسائل جوں کے توں رہیں گے،مئی کے مہینے کو سال کا نہایت اہم اور منفی مہینہ سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس مہینے میں قدرتی اور غیر قدرتی آفات و حادثات کے امکانات موجود ہیں، مزید یہ کہ اسی مہینے میں بجٹ کی گرما گرمی بھی شروع ہوتی ہے۔
جون
جون کا مہینہ حسب سابق رمضان المبارک کی سعادتوں سے بھرپور ہوگا لیکن اپریل اور مئی میں جن مسائل اور تنازعات کی ابتدا ہوئی ہے، ان کی بازگشت جون میں بھی سنائی دیتی رہے گی، بجٹ عوامی امنگوں اور توقعات کے مطابق نہیں ہوگا اور اس حوالے سے حکومت پر زبردست تنقید کی جاسکتی ہے۔
جولائی
جولائی کے مہینے میں ملکی حالات میں کوئی غیر معمولی صورت حال بظاہر نظر نہیں آتی، البتہ گزشتہ مہینوں کے مسائل ہی جولائی میں بھی زیر بحث رہےں گے لیکن جولائی اس اعتبار سے نہایت اہم ثابت ہوگا کہ بعض حکومت مخالف سرگرمیاں اور ملک دشمن کارروائیاں سامنے آسکتی ہیں، حکومت مخالف ایجنڈا آئندہ مہینوں تک جاری رہے گا۔
اگست
حسب معمول اگست کا مہینہ نئی تبدیلیوں اور نئے امکانات کی داغ بیل ڈالے گا، اگست میں پاکستان کا یوم آزادی بھی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ اگست ہی سے نئے واقعات کا ظہور شروع ہوتا ہے، اس مہینے میں راہو کیتو اور سیارہ مشتری ویدک سسٹم کے مطابق گھر تبدیل کریں گے اور یہ تبدیلی یقیناً ملکی سطح پر بھی دوررس نتائج مرتب کرے گی، اپریل سے جن مسائل کا یا تنازعات کا آغاز ہوگا وہ اگست تک اپنی انتہا کو پہنچ جائیں گے، کسی مشہور مقتدر ہستی سے متعلق اسکینڈل شدید بدنامی اور رسوائی کا باعث بنے گا۔
ستمبر
ستمبر سے ایک بار پھر تبدیلی کی نئی لہر کا آغاز ہوگا، خصوصاً سول سروسز میں خاصی اکھاڑ پچھاڑ ہوسکتی ہے،مزید یہ کہ اس دوران میں بعض عدالتی فیصلے اور نئے الیکشن سے متعلق معاملات بھی نمایاں ہوں گے، مستقبل سے متعلق نئے منصوبے سامنے آئیں گے،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناو ¿ کی کیفیت بڑھ جائے گی۔
اکتوبر
اکتوبر کا مہینہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادتی لاسکتا ہے،دیگر حادثات کا بھی امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس مہینے کو ملک و قوم کے لیے نقصانات اور مسائل کا مہینہ کہا جاسکتا ہے، حکومتی سطح پر جو صورت حال جاری تھی ، وہ بدستور جاری رہے گی۔
نومبر
اگست،ستمبر سے تبدیلی کی جو لہر شروع ہوگی، وہ نومبر تک اپنے عروج تک پہنچ جائے گی، خاص طور پر نومبر کے آخری ہفتے میں بہت سی نئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی،ان تبدیلیوں کا تعلق فوج اور بیوروکریسی اور عدلیہ سے ہوگا، خطرہ ہے کہ اس دوران میں بعض نامناسب فیصلے سامنے آئیں گے جو مستقبل کے لیے فائدہ بخش ثابت نہیں ہوں گے۔
دسمبر
دسمبر عام طور پر پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا مہینہ ثابت ہوتا رہا ہے جس میں بعض اہم معاملات اپنے انجام کو پہنچتے ہیں اور پھر ہم ایک نئے آغاز کی طرف سفر شروع کرتے ہیں لیکن بہر حال دسمبر ایک اطمینان بخش مہینہ نہیں ہوتا، تقریباً تمام ہی کاموں میں اس دوران میں التوا اور رکاوٹیں سامنے آتی ہیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں