ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

”فوج وہی کرے جو اس کا کام ہے“جنرل باجوہ

”ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق ہے“
حادثات و سانحات زندگی کا حصہ ہیں لیکن بعض حادثے یا سانحے ایسے ہوتے ہیں
 جنہیں انسان کبھی فراموش نہیں کرسکتا، 7 دسمبر کو ایسا ہی ایک سانحہ پیش آیا جو پورے پاکستان کے لیے کسی المیے سے کم نہیں، چترال سے اسلام آباد جانے والی فلائٹ نمبر 661 حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگئی، اس میں موجود 47 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، کراچی سے تعلق رکھنے والے مشہور مبلغ اور نعت خواں جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ طیارے میں سوار تھے، وہ ایک تبلیغی دورے پر چترال گئے ہوئے تھے،واپسی کے سفر میں بالآخر اپنے خالق حقیقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہِ راجعون۔
سال 2016 ءجاتے جاتے پاکستان کے بے شمار لوگوں کو ایک نیا غم دے گیا، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے، آمین۔
جنرل باجوہ اور کرکٹ
گزشتہ کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ موجودہ سال کے اگر اہم ترین واقعات پر نظر ڈالی جائے تو پہلا واقعہ پاناما لیکس کا ہے جو تقریباً پورا سال وزیراعظم نواز شریف کے لیے ایک مستقل درد سر بنارہا ہے اور اب تک ان کے لیے پریشانی اور فکر مندی کا باعث ہے،عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے یا خلاف، ہر صورت میں اس سارے معاملے میں نقصان انہی کو اٹھانا پڑ رہا ہے کیوں کہ پورا سال ان کی دولت مندی عوام کی نظروں میں ایک سوالیہ نشان بنی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہی ہوگا۔
دوسرا اہم واقعہ پاکستان آرمی کی ہائی کمان میں تبدیلی ہے،جنرل راحیل شریف کے بعد اب جنرل قمر جاوید باجوہ ہماری مسلح افواج کے سربراہ ہےں۔
گزشتہ کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ ہم ان کی تاریخ پیدائش معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ علم نجوم کی روشنی میں یہ معلوم ہوسکے کہ ہمارے نئے چیف آف اسٹاف کس موڈ اور مزاج کے انسان ہیں،اس حوالے سے جب وکی پیڈیا سے رجوع کیا گیا تو ان کی تاریخ پیدائش 2 جنوری 1959 ءسامنے آئی لیکن اسی دوران میں ایک کالم بھی نظر سے گزرا جس کا عنوان تھا ”سرباجوہ“ یہ کالم ملک کے کثیر الاشاعت روزنامے میں شائع ہوا ہے اور جنرل قمر باجوہ کے کسی قریبی دوست ارشاد بھٹی صاحب نے تحریر کیا ہے،انہوں نے تاریخ پیدائش 11 نومبر 1960 ءبیان کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے،حالاں کہ ان کی فیملی کا تعلق گکھر منڈی سے ہے،وکی پیڈیا پر پیدائش کا مقام گکھر منڈی ہی بتایا گیا ہے۔
ہم نے جب دونوں تاریخوں کو چیک کیا تو 11 نومبر 1960 ءزیادہ درست معلوم ہوئی،بہر حال جنرل صاحب کے زائچے کے حوالے سے تو فی الحال کوئی بات کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ ابھی تک پوری طرح تاریخ پیدائش، وقت پیدائش اور مقام پیدائش کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، البتہ ارشد بھٹی صاحب کا کالم نہایت دلچسپ اور توجہ طلب ہے،انہوں نے جنرل صاحب سے اپنے قریبی بے تکلفانہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شخصیت اور مزاج پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور بعض بڑی دلچسپ باتیں بیان کی ہیں،یہ کالم یکم دسمبر کو جنرل صاحب کے فوجی کمان سنبھالنے کے فوری بعد شائع ہوا ہے،ہمیں نہیں معلوم کہ ماضی میں کسی جنرل کی تقرری کے بعد ان کے کسی قریبی دوست یا عزیز نے ایسا کالم لکھا ہو، عموماً صحافی حضرات محدود نوعیت کی معلومات کا اظہار کرتے ہیں لیکن قریبی دوست اور عزیز اس طرح کھل کر نجی معاملات پر اظہار خیال کرنے سے گریز کرتے ہیں،جیسا کہ ارشد بھٹی صاحب نے کیا ہے، آئیے اس کالم کے چیدہ چیدہ اقتباسات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
کالم کا آغاز اس فقرے سے ہورہا ہے ”میں انہیں اکثر کہتا ، کچھ بھی ہو، جیت آخر آپ کی اور لوگوں کی دعاو ¿ں کی ہی ہوگی اور پھر دعاو ¿ں اور عاجزی نے میدان مارلیا“
اس کے بعد بھٹی صاحب نے جنرل صاحب کی زندگی کے چند اہم واقعات جن میں والدہ کی وفات کا واقعہ بھی شامل ہے،بیان کیے ہیں، ایک واقعے میں اپنے ایک فوجی جوان کی شہادت پر وہ بہت افسردہ و غم زدہ نظر آتے ہیں، اسی طرح اپنے یونٹ کے لوگوں سے ان کی گہری وابستگی بھی بعض واقعات سے ظاہر ہوتی ہے،اسی کالم کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے والد کرنل اقبال باجوہ تھے جن کا انتقال کوئٹہ میں ہوا،انہوں نے 23 اکتوبر 1980 ءکو آرمی جوائن کی، بعد ازاں کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج ٹورنٹو سے گریجویشن اور نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی کیلیفورینا سے بھی فارغ التحصیل ہیں، ان کی شادی جنرل اعجاز امجد کی صاحب زادی سے ہوئی۔
بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز اپنے فیوچر پلان پر گفتگو کے بعد جب جنرل صاحب خاموش ہوئے تو میں بول پڑا ”اگر آپ چیف بن گئے تو پہلی ترجیح کیا ہوگی؟“
انہوں نے مسکراکر میری طرف دیکھا پھر صوفے سے ٹیک لگاکر کہا ”میں ہسٹری کا اسٹوڈنٹ ہوں، مجھے بخوبی علم ہے کہ جہاں جہاں بھی فوج نے اپنے کام کی بجائے ”کچھ اور“ کیا وہاں مسائل گھٹے نہیں، بڑھے ہیں لہٰذا میری اولین ترجیح ہوگی کہ فوج وہی کرے جو اس کا کام ہے“ یہ کہہ کر وہ رکے اور پھر پچھلے آدھے گھنٹے سے سامنے پڑے قہوے کا کپ اٹھاکر ٹھنڈے قہوے کا گھونٹ بھر کر کہنے لگے ”اگرچہ ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق ہے مگر میری خواہش ہوگی کہ اس بار یہ نہ ہو“
ظاہر ہے یہ گفتگو بھٹی صاحب اور جنرل صاحب کے درمیان چیف آف اسٹاف کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہوئی ہے اور اس سے ہمارے نئے جنرل صاحب کے خیالات اور نظریات سے آگاہی ہوتی ہے،اسی کالم کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹی وی پروڈیوسر اور پی ٹی وی کے جنرل منیجر جناب رفیق وڑائچ جنرل باجوہ صاحب کے ماموں تھے چناں چہ ان کے گھر آنے والی فنکار برادری سے بھی جنرل صاحب کی خاصی یاد اللہ رہی ہے جن میں اداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی کی باتیں انہیں اب تک ازبر ہیں، ان کی یاد داشت بہت اچھی ہے،ان کی سب سے بڑی عیاشی کتابیں پڑھنا، کرکٹ کھیلنا اور فیملی کے ساتھ کرکٹ دیکھنا ہے، وہ آرمی کرکٹ ٹیم کی طرف سے پیٹرن ٹرافی کھیل چکے ہیں، بھٹی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ وہ برے وقتوں کے اچھے دوست اور ہر وقت ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہنے والے ، وضع دار،کھلے ڈھلے جن میں نہ احساس برتری اور احساس کمتری، وہ جرنیلی میں بھی ویسے ہی ہیں جیسے کپتانی میں، اپنے سپاہیوں کے ساتھ برستی گولیوں میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں بھی تکلفات کے عادی نہیں ہیں، بے حد سادہ مزاج ہیں، پروفیشنل سولجر ، فوج میں ہر دلعزیز کمانڈر، سچے پاکستانی اور پکے مسلمان، جمہوریت کے حامی، مارشل لاءکو خرابیوں کی جڑ سمجھنے والے انسان ہیں، بھٹی صاحب کا خیال ہے کہ اب ”سول ملٹری“ تعلقات واقعی بہتر ہونے کی امید ہے۔
یہ کالم پڑھ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وزیراعظم نواز شریف صاحب نے اس بار یقیناً ایک بہترین انتخاب کیا ہے،ہمارے نئے جنرل باجوہ صاحب جمہوریت پسند ہیں اور مارشل لاءکو ملک و قوم کے لیے بہتر نہیں سمجھتے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”فوج وہی کرے جو اس کا کام ہے“ان کا یہ جملہ بھی ہمارے قومی مزاج کی عکاسی کرتا ہے کہ ”اگرچہ ہم سب کو اختیارات اپنے پاس رکھ کر چوہدری بننے کا شوق ہے“ مزید یہ بھی فرمایا ”میری خواہش ہوگی کہ اس بار یہ نہ ہو“ 
اس خواہش پر ہمیں مرزا غالب کا مشہور مصرع یاد آگیا ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
ہمارے لیے اس کالم کا سب سے بڑا انکشاف جنرل صاحب کی کرکٹ سے دلچسپی ہے،وہ خود بھی کرکٹ کے کھلاڑی رہے ہیں اور نہایت ذوق و شوق کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھتے ہیں، ان کی فیملی بھی کرکٹ میچ دیکھنے کی شوقین ہے،پاکستان میں ابتدا ہی سے کرکٹ کا کھیل نہایت مقبول رہا ہے اور اس کھیل کے نمایاں ترین کھلاڑیوں میں عمران خان کا نام نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، وہ پاکستان کے پہلے کپتان ہیں جن کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تھا، اب یہ ہمیں نہیں معلوم کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں جنرل صاحب کا پسندیدہ کھلاڑی کون رہا ہے؟ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کرکٹ میں ماجد خان، ظہیر عباس، آصف اقبال، حنیف محمد، مشتاق محمد، جاوید میانداد وغیرہ پوری قوم کے پسندیدہ کھلاڑی تھے،عمران خان کا نام بھی اس فہرست میں شامل رہا ہے،اگر بھٹی صاحب ان کے پسندیدہ کرکٹر کا نام بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا۔
ہمارے وزیراعظم نواز شریف صاحب بھی کرکٹ کے شوقین رہے ہیں اور جس زمانے میں عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے تو وہ انہیں پسند بھی کرتے تھے، لاہور کے کینسر اسپتال کے لیے پلاٹ کی ضرورت پیش آئی تو سنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی مدد کی،اس طرح کرکٹ پسند وزیراعظم کے بعد اب کرکٹ پسند جنرل بھی ہمیں مل گئے ہیں۔
ہمارے ملک میں اہم شخصیات کی درست تاریخ پیدائش معلوم ہونا بڑا دشوار کام ہے،حالاں کہ دنیا بھر میں یہ اتنا مشکل نہیں ہے،جب بھی کوئی نمایاں شخصیت سامنے آتی ہے یا کسی اہم عہدے پر تعینات ہوتی ہے تو اس کی تاریخ پیدائش اخبارات و رسائل میں شائع ہوجاتی ہے،پاکستان میں بھی یہ روایت موجود ہے مگر شائع شدہ تاریخ پیدائش عموماً درست نہیں ہوتی یا ایک سے زیادہ تاریخیں مشہور ہوجاتی ہیں،اس لیے علم نجوم کی روشنی میں مطلوبہ شخصیت پر گفتگو کرنا عموماً ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہوا میںبلّا گھمانا، بہر حال اپنے طور پر ہم کوشش کرتے رہتے ہیں کہ درست تاریخ معلوم ہوسکے لیکن ہماری صحافتی برادری کو اس حوالے سے بھی کردار ادا کرنا چاہیے، جیسے ہی ہم جنرل صاحب کی تاریخ پیدائش سے مطمئن ہوں گے، ضرور ان کے زائچے پر بات کریں گے، فی الحال بھٹی صاحب نے جو تاریخ پیدائش لکھی ہے وہ کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے،ا سے دیکھ کر یہ بات تو یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان کا شمسی برج عقرب ہے اور قمری برج سرطان ہے، یہ دونوں واٹر سائن ہیں اور بہت حساس، گہری اور پائیدار وابستگی رکھنے والے برج ہیں،برج عقرب غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حامل ہے،اس برج کے تحت بڑے بڑے غیر معمولی لوگ پیدا ہوئے ہیں،مثلاً علامہ اقبال، محترم پیر صاحب پگارا (مرحوم)، اداکار شاہ رخ خان، ڈاکٹر کرسچن برناڈ وغیرہ۔
 برج عقرب کی نمایاں خصوصیات میں اپنی کاز سے اور اپنے نظریات سے غیر معمولی وابستگی مشاہدے میں آتی ہے، یہ لوگ بہت گہرے اور ایک نظر میں سمجھ میں نہ آنے والے ،کسی حد تک پراسراریت کے حامل ہوتے ہیں، رازداری کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، بے شک انتہائی نرم دل اور رقیق القلب ہوتے ہیں لیکن اپنے نظریاتی اور اصولی معاملات میں اسی قدر سخت اور ثابت قدم بھی ہوتے ہیں، بہترین اور جانثار دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بدترین دشمن بھی ثابت ہوسکتے ہیں، جب کسی کام کا ارادہ کرلیں تو اسے ہر قیمت پر پایہءتکمیل تک پہنچاتے ہیں، تحمل مزاجی اور قوت برداشت بلاکی ہوتی ہے،صورت حال خواہ کچھ بھی ہو، آپ ان کے چہرے سے اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے،جذبات پر کنٹرول کرنا یہ لوگ خوب جانتے ہیں، فی الحال جنرل صاحب کے بارے میں اتنا ہی کافی سمجھیے، جب تاریخ پیدائش کے حوالے سے مکمل اطمینان ہوجائے گا تو انشاءاللہ بشرط زندگی اس پر مزید گفتگو ہوگی۔
آئیے اپنے سوالات اور ان کے جوابات کی طرف :
پسند کی شادی میں رکاوٹ
شادی فی زمانہ ہر گھر کا نہایت اہم اور تکلیف دہ مسئلہ بن گئی ہے خصوصاً لڑکیوں اور ان کے ماں باپ کے لیے۔ مناسب رشتے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے چنانچہ یہ مسئلہ تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی گمبھیر صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب لڑکیوں کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہو تو کسی کی پسندیدگی کی نظر یا دو میٹھے ہمدردی کے بول امید کی کرن روشن کر دیتے ہیں۔ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی اکثریت سادہ، معصوم اور نرم دل ہوتی ہے۔ ہر نرمی سے بات کرنے والے کو اپنا ہمدرد، خیر خواہ سمجھ بیٹھتی ہے۔ پیار محبت جتانے والے لڑکوں کی باتوں اور وعدوں پر انہیں بہت جلد اعتبار آجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر گھر والے سمجھائیں بجھائیں تو اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ آئیے پہلے ایک خط سے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔
ق۔ ر۔ لکھتی ہیں۔ ”میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں لیکن میری شادی اس سے نہیںہو پا رہی ہے۔ کیا میری شادی اس سے ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر ہو گی تو کب تک؟ میں بہت پریشان رہتی ہوں۔ آپ بتائیں کیا میرے ستارے گردش میںہیں؟ میرے اچھے دن کب شروع ہوں گے؟ میری شادی اپنوں میں ہو گی یا میری پسند کے لڑکے سے؟ شادی شدہ زندگی کیسی گزرے گی؟“
جواب:۔ عزیزم! تم بہت اچھی اور بہت پیاری بیٹی ہو، ذہین بھی ہو، سلیقہ مند بھی ہو لیکن فطرتاً نادان اور ناسمجھ ہو۔ تہمارے دل میں دنیا بھر کی ہمدردی موجود ہے۔ تمہارا اس لڑکے کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ وہ اپنے مزاج اور فطرت کے اعتبار سے نہایت غیر ذمہ دار اور بہت ہی خود غرضانہ سوچ رکھنے والا ہے۔ آپ دونوں کے مزاجوںمیں بھی زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ تمہارا برج سنبلہ خاکی عنصر رکھتا ہے جب کہ اس کا ہوائی۔ مٹی اور ہوا میں دشمنی ہے۔ اصول فطرت کے مطابق مٹی کی کثرت ہوا کو دھندلا اور کثیف بنا دیتی ہے جب کہ ہوا کی شدت مٹی کو اڑا کر رکھ دیتی ہے۔ ابھی تو ازدواجی زندگی کی حقیقتیں سامنے نہیں آئی ہیں اور آپ دونوں چونکہ زبانی کلامی مراحل میں ایک دوسرے کو پیار کی لوریاں دے رہے ہیں لیکن شادی کے بعد محبت کا بھوت اس وقت اتر جائے گا جب تم جیسی عملی سوچ رکھنے والی لڑکی اس ہوائی قلعے بنانے والے اور محض تصورات کی دنیا میں رہنے والے شخص کا نکما پن دیکھے گی۔ زندگی کی ضرورتیں محض سہانے خواب دیکھنے سے پوری نہیں ہوتیں۔ پیٹ کی آگ محبت کی بارش سے نہیں بجھائی جا سکتی لہٰذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اس رشتے کے لیے خود کو پریشان اور ہلکان نہ کرو، تمہارا پیدائشی برج سرطان ہے۔ اس حساب سے سیارہ زحل پیدائشی برج سے پانچویں گھر میں ہے جو عقل و شعوراور رومانی دلچسپیوں کا خانہ ہے۔سیارہ زحل طالع سرطان کے لیے منحوس اثر رکھتا ہے، یقیناً کسی خراب وقت میں تم نے یہ تعلق جوڑ لیا ہے جو وہ اس وقت ٹوٹ جائے گا جب فروری 2017 ءمیں زحل اس گھر سے رخصت ہو گا اور خود تمہارے زائچے کے چھٹے گھر میں آجائے گا پھر یقیناً تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ اس عرصے میں کسی اور جگہ بھی اگر گھر والے شادی کے لیے کہہ رہے ہوں تو اس کی بھی تاریخ پیدائش دیکھ لی جائے کہ وہ تم سے موافقت رکھتا ہے یا نہیں کیوں کہ خود تمہارا زائچہ تمہارے شوہر کے حوالے سے کوئی بہت خوش کن بات نہیں بتا رہا کیوں کہ شوہر کی نشان دہی کرنے والا سیارہ مشتری بھی زائچے میں کمزور ہے، اس خرابی کو دور کرنے کے لیے تمہیں لوح مشتری پاس رکھنی چاہیے یا پیلا پکھراج پہننا چاہیے۔
تمہاری شادی میں تاخیر بھی اسی وجہ سے ہو رہی ہے کہ اول تو پیدائش کے زائچے میں زحل زہرہ کو متاثر کر رہا ہے اور دوم یہ کہ حالیہ زائچہ میں زحل پانچویں گھر میں بیٹھا ہے اور ساتویں شادی کے گھر پر اس کی نظر ہے، بہرحال آئندہ سال فروری کے بعد زحل یہاں سے ہٹ جائے گا تو انشاءاﷲ کوئی نئی صورت حال پیدا ہوگی جو شادی کے معاملے میں مددگار ہوگی،زیادہ پریشان نہ ہوں اور اس محبت کو دل کا روگ نہ بناﺅ۔ تم ایسی لڑکی نہیں ہو جو کوئی بڑا روگ پالے جیسے ہی حقیقت کی آنکھیں کھلیں گی تمہیں سنبھلنے میں دیر نہیں لگے گی کیوں کہ بہر حال شمسی برج سنبلہ والوں پر دل کے مقابلے میں دماغ غالب ہوتا ہے اور وہ اچھے برے کی تمیز بھی رکھتے ہیں۔ البتہ پیدائشی برج سرطان والے خاصے حساس اور جذباتی ہوتے ہیں۔
بدنصیبی یا خوش نصیب
ش۔ الف۔ کراچی: عزیزم! آپ کا طویل خط یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ کی بدنصیبی کی داستان کے کچھ اسباب تو خود آپ کے خط میں ہی موجود ہیں یعنی جس طرح آپ کی زندگی کی ابتدا ہوئی وہ آپ کے لیے کیا خود آپ کی والدہ کے لیے بھی کسی سانحے سے کم نہیں تھی۔ یعنی ان کے شوہر کا نہ ہونا اور آپ کا باپ سے محروم ہونا۔ بہرحال آپ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ جیسے تیسے پرورش پالی اور جوان ہو گئے۔ اﷲ کی مہربانی سے شادی بھی ہو گئی، صاحب اولاد بھی ہیں۔ اولاد میں بھی اﷲ نے تین بیٹوں سے نوازا ہے۔ جیسے تیسے محنت مزدوری کر کے عزت سے گزارا بھی ہو رہا ہے۔ آگے چل کر بیٹے اگر لائق اور فرمانبردار ہوں گے تو آپ کا بڑھاپا آرام سے گزرے گا۔ اب رہا سوال یہ کہ آپ بدنصیب ہیں یا خوش نصیب اور بدنصیبی اور خوش نصیبی کا پیمانہ کیا ہے؟ کیا صرف دولت دنیا خوش نصیبی کا پیمانہ ہے۔ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ اتنی دولت بہرحال انسان کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی جائز ضروریات پوری کر سکے اور آپ نے جو اپنی آمدنی لکھی ہے وہ یقیناً ناکافی ہے مگر آمدنی کی کمی کو بدنصیبی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ تو کسی شخص کی ذاتی کمزوریوں اور نااہلی کی نشانی ہے کیوں کہ اگر انسان اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر زیادہ اہلیت حاصل کرے اور مسلسل محنت سے ترقی کرکے کسی اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے، بے شمار لوگ دنیا میں ایسے گزرے ہیں جن کی ابتدائی زندگی محرومیوں اور مشکلات سے بھری پڑی تھی مگر انہوں نے مسلسل جدوجہد کے بعد خود کو کسی اعلیٰ مقام تک پہنچادیا۔
آپ نے جو اپنی تاریخ پیدائش لکھی ہے وہ اگر صحیح ہے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیںکہ آپ نے اپنا لڑکپن او نوجوانی یقیناً فضول کاموں میں گزارا ہے۔ اگر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہ مل سکے تو کوئی اچھا ہنر سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جس کی بدولت آپ اپنی معاشی زندگی کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتے اور آج عمر کے 50 ویں سال میں کم آمدنی کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا،بے شمار لوگوں نے تعلیم کے بغیر بھی کاروباری ترقی کی ہے۔
اس تاریخ پیدائش کے مطابق آپ ایک تفریح پسند، کھلنڈرے، تنک مزاج، جھگڑالو، ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والے، اپنے خود ساختہ نظریات، اصولوں اور عقائد کے مالک انسان ہیں اور یہ خصوصیات لڑکپن اور جوانی میں اپنے عروج پر ہوں گی اور ایسی خصوصیات کی موجودگی میں انسان ایک ایسا بے مہار اونٹ بن جاتا ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی۔ اسے ہوش اور عقل اس وقت آتی ہے جب عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی ہے اور جسمانی توانائیاں ساتھ چھوڑنے لگتی ہیں تو پھر انسان کو خوش قسمتی اور بدقسمتی کا خیال آتا ہے۔
اپنی بعض خامیوں کے باوجود آپ ایک غیر معمولی قوتوں کے حامل انسان ہیں مگر آپ کو درست رہنمائی کی ضرورت ہے۔ آپ نے اس حوالے سے کچھ نہیں لکھا کہ آپ کا پیشہ کیا ہے، ماضی میں کیا کرتے رہے ہیں اور آج کل کیا کر رہے ہیں ورنہ ہم ضرور کوئی مشورہ دیتے۔ بہرحال اگر اب بھی آپ کوئی صحیح راستہ اختیار کر لیں تو آنے والا سال بھی آپ کی زندگی بدل سکتا ہے کیوں کہ آپ کا ستارہ مشتری ہے جو اس سال اور آئندہ سال آپ کے زائچے میں بہتر پوزیشن میں ہوگا اور آپ بدنصیب نہیں خوش نصیب آدمی ہیں لیکن آپ کے اندر منفی سوچیں بہت زیادہ ہیں، ان سے نجات حاصل کریں۔
مسائل ہی مسائل
م۔ ع۔ آرائیں ،لکھتے ہیں ”جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، مسائل ہی مسائل زندگی میں ہیں۔ مہربانی کر کے زائچے میں دیکھیںکہ میری زندگی میں کوئی کامیابی ہے کہ نہیں؟ اور میرے مسائل حل ہوں گے کہ نہیں؟“
جواب:۔ آپ کا شمسی برج اور قمری برج دونوں ثور ہیں جس کا حاکم سیارہ زہرہ ہے۔ قمر برج ثور میں حالت شرف میں ہوتا ہے اور یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ ڈبل ثوری ہونے کی وجہ سے آپ کی زندگی کا مقصد اور آپ کا رجحان دولت اور صرف دولت ہے لیکن آپ کا عطارد پیدائش کے وقت بے حد کمزور تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر ذہانت کی کمی ہے۔ اسی لیے آپ نے یہ لکھا ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے مسائل ہی مسائل ہیں۔ ہمارے خیال سے تو ابھی آپ نے ہوش سنبھالا ہی نہیں ہے۔ آپ جن مسائل کو اپنے مسائل سمجھ رہے ہیں وہ آپ کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ اس عمر میں آپ کا سب سے اہم مسئلہ تعلیم و تربیت ہے اور عطارد کی ناقص پوزیشن ظاہر کر رہی ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں یقیناً غفلت برتی ہو گی جس کا الزام آپ شاید دوسروں کو یا حالات کو دیں۔ بہرحال ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ آپ کے ہاں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے مستقل مزاجی سے اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کریں تو آپ مستقبل میں ایک کامیاب انسان ثابت ہو سکتے ہیں۔ بدھ کے دن کسی سبز چیز کا صدقہ دیا کریں جیسے سبز مونگ کی دال یا ہرے پتوں والی سبزیاں وغیرہ۔ اس کے علاوہ زمرد یا سبز فیروزہ بھی آپ کے لیے ضروری ہے ، لوح عطارد آپ میں ذہانت اور عقل مندی پیدا کرے گی۔
گردشِ وقت
ایچ، اے، کراچی: آپ کے بچوں کی تاریخ پیدائش سے آپ کے ستارے اور برج کا کچھ اندازہ ہو رہا ہے کیوں کہ بچوں کے برج اور ستارے ماں باپ کے برج اور ستاروں سے بڑی مطابقت رکھتے ہیں۔ آپ کے بچوں کی اکثریت شمسی یا قمری حوالے سے برج حمل کے زیر اثر ہےں، گویا اس اعتبار سے آپ اور آپ کا پورا خاندان سیارہ زحل کے ناقص ٹرانزٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے،انشاءاللہ آئندہ سال فروری سے جون تک صورت حال بہتر ہوگی اور پھر مزید چند مہینے کے لیے رکاوٹیں دوبارہ پیدا ہوں گی اور دسمبر سے اس خراب اور ناموافق صورت حال سے جان چھوٹ جائے گی، اخراجات پر کنٹرول کریں، معلوم ہوتا ہے کہ آپ پورا گھرانہ شاہانہ مزاج کا حامل ہے، صرف ایک لڑکی جو دوسرے نمبر کی ہے جس کا برج جدی ہے، وہی کفایت شعار اور نظم و ضبط والی ہے۔ بہر حال ہفتہ کے دن صدقہ دینا شروع کر دیں اور اسمائے الٰہی ”یافَتّاحُ یا رَزّاقُ “ 99 مرتبہ روزانہ پڑھیں،کاروباری معاملات میں زیادہ ڈیوٹی فل ہو جائیں اور تمام نظم و ضبط اپنے ہاتھ میں لیں، دوسروں پر زیادہ اعتبار نہ کریں، اندازوں یا قیاسات کی بنیاد پر کوئی کام نہ کریں تو انشاءاﷲ جلد صورت حال پر قابو پا لیں گے۔
درست جاب نہیں ہے
کے، کے ، کراچی : عزیزم! آپ کا اسم اعظم یہ ہے۔ یا رَحمن الفَتّاحُ الکَافِی الصَّمدُ۔ اسے نوچندے بدھ سے 1125 مرتبہ اول و آخر درود شریف کے ساتھ روزانہ پڑھیں اور اپنے مقاصد کے لیے دعا کریں، اس کے علاوہ گھر پر پرندوں کو دانا پانی ڈالنے کا مستقل انتظام کریں، انشاءاﷲ حالات کی سختی ختم ہو جائے گی اور رزق میں اضافہ ہو گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں