پیر، 19 دسمبر، 2016

خوف کا دور اور خوف زدہ لوگ


ہم درحقیقت خوف اور وسوسوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں
ہم جس ماحول میں زندہ ہیں یہاں خوف، وسوسے، ڈر اور اندیشے کسی نہ کسی انداز میں ہمارے ذہنوں میں ہر وقت سرسراتے رہتے ہیں، معاشرے کے بیشتر افراد آپ کو کسی نہ کسی خوف، وہم یا اندیشے میں مبتلا نظر آئیںگے، بہت کم ایسے ہوں گے جنہیں ہر خوف و ڈر سے آزاد قرار دیا جاسکتا ہے یا یہ کہا جاسکے کہ ان کے ذہن میں کسی بھی قسم کا کوئی خوف یا اندیشہ نہیں ہے، اگر حقیقت پسندی سے ہم اپنی ذہنی حالتوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی خوف اور اندیشے میں مبتلا ہے،کسی نہ کسی شے سے، کسی نہ کسی پہلو پر اور اندر ہی اندر سہا ہوا ہے اور اکثر لوگ اسی خوف زدگی کے عالم میں پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔
شاید ہمارے موجودہ معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں تمام انسان سہمے ہوئے اور کسی نہ کسی حوالے سے خوف زدہ ضرور ہیں، کوئی اپنی بقا کے سلسلے میں تشویش کا شکار ہے، کسی کو اپنی نسل کے ختم ہوجانے یا برباد ہوجانے کی فکر لاحق ہے، کوئی غم دوراں یا غم روزگار کی سختیوں سے سہما ہوا ہے تو کوئی اپنی زندگی میں نفع و نقصان کے حساب میں الجھ کر پریشان و ہراساں ہے اور سودوزیاں کی یہ فکر ہر لمحہ اس کے اعصاب پر سوار ہے، الغرض بچہ، بوڑھا، جوان، عورت، مرد ، شادی شدہ، بے روزگار یا برسرروزگار، صحت مند یا بیمار کسی نہ کسی نوعیت کے، کسی نہ کسی خوف میں ضرور مبتلا ہے، یہ خوف شعوری بھی ہوتا ہے اور لاشعوری بھی، شعوری خوف اس قدر خطرناک ثابت نہیں ہوتا ہے جتنا لاشعوری، شعوری خوف سے نجات پانے کے لیے انسان کوششوں میں مصروف رہتا ہے کیوں کہ یہ اس کا کھلا مدمقابل ہے، وہ اسے جانتا پہچانتا ہے اور اس سے نمٹنے کی تدبیریں سوچتا اور ان پر عمل کرتا رہتا ہے مگر لاشعوری خوف ایک نہایت خطرناک چھپا ہوا دشمن ہے جس سے انسان بے خبر ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر شکست کھاتا اور اس کے حملوں سے اپنی روح کو مجہول کرتا رہتا ہے لیکن اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی ذہنی اور روحانی تباہی کے اسباب کیا ہیں؟
ماحولیاتی آلودگی
موجودہ دور میں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور عالمی ماحولیاتی اداروں کے مفکرین کے نزدیک جو مسئلہ روز بہ روز پیچیدہ تر اور ایک نہایت بھیانک حقیقت کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے، وہ ماحولیاتی آلودگی ہے، دنیا بھر میں بہت بڑے پیمانے پر اس مسئلے کے تدارک کے لیے سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں، ایک زر کثیر، فنڈز کی صورت میں ایسی تنظیموں کو فراہم کیا جارہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے کی دعوے دار ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے مراد دنیا میں بڑھتی ہوئی کثافت، گندگی اور وہ آلائشات ہیں جو روز بہ روز کرئہ ارض کے ماحول کو تباہ کر رہی ہیں اور اسے نسل انسانی کے لیے ناقابل سکونت بناتی جارہی ہیں، ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں کے لیے یہ مسئلہ یقیناً بہت اہمیت رکھتا ہے، زمینی یا فضائی آلودگی ہم سب کا مسئلہ ہے لیکن کیا ہم میں سے کوئی ذہنی آلودگی کی طرف بھی متوجہ ہے؟ کیا سائنس دان انسانی دماغوں کو مختلف آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے بھی کوئی کوشش کر رہے ہیں؟
ذہنی آلودگی
جیسا کہ ہم نے ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ ہم درحقیقت خوف ، وسوسوں اور اندیشوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں، ہمارے اردگرد کا ہر شخص خوف زدہ ہے، کسی نہ کسی اندیشے میں مبتلا ہے، یہ خوف اور اندیشے صبح و شام عام آدمی کے ذہن میں ہلچل مچائے رکھتے ہیں اور ان ہی کی بدولت آج کے دور کا انسان کسی بھی زمانے کے مقابلے میں ذہنی طور پر زیادہ انتشار اور پراگندگی کا شکار ہے، اس کی دماغی کثافتیں روز بہ روز بڑھتی جارہی ہیں اور ہزار ہائے اقسام کے اعصابی دباو ¿ اسی کی شخصیت اور صلاحیتوں کو کچل رہے ہیں لیکن اس ذہنی آلودگی کے تدارک کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی باقاعدہ کام نہیں ہورہا، انفرادی طور پر یقیناً ایسے لوگ موجود ہوں گے اور ہیں جو بساط بھر کوششیں کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہمارے اہل تصوف ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور آج بھی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تصوف اور روحانیت کے نام پر پیشہ وری اور فراڈ بہت زیادہ فروغ پاگیا ہے، اس کی وجہ سے عام لوگوں کا اعتماد و اعتقاد بری طرح مجروح ہوا، دنیا میں اور خاص طور پر ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر اس نوعیت کا کوئی کام ماہرین کی زیر نگرانی نہیں کرایا جاتا جو انسانوں میں بڑھتی ہوئی ذہنی آلودگی کے تدارک میں معاون ثابت ہوسکتی ہے بلکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جیسے ابھی تک دنیا کو اس ذہنی آلائش اور فکری پراگندگی کے نقصان کا صحیح ادراک ہی نہیں ہے جس کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب ایک سو ایک مختلف شکلیں اختیار کرگئی ہے۔ جی ہاں ! ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق دنیا میں ذہنی خوف دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں اور اب تک ان کی ایک سو ایک انتہائی مہلک اقسام سامنے آچکی ہیں،ا س میں ریگرو فوبیا (کھلی جگہوں پر خوف) سے لے کر کلسٹر و فوبیا (بند جگہوں کا خوف) تک ہر چیز کا خوف شامل ہے، یقیناً دنیا میں بہت سے خوف ابھی ایسے ہیں جو لوگوں کو لاحق ہیں مگر وہ تاحال سائنس دانوں کی نگاہ سے نہیں گزرے اور اس کے نتیجے میں ایک سو ایک خوف کی اس فہرست میں شامل نہیں ہوسکے جو سروے کرنے والی ٹیم نے تیار کیے، اس سروے کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ یہ تحقیق ابھی بھی جاری ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اس تعداد میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہوگا۔
 دنیا خوف کی ذہنی کیفیت کے نت نئے پہلوو ¿ں سے مستقبل قریب میں یقیناً روشناس ہوتی رہے گی اور اس کی نت نئی تباہ کاریاں سامنے آتی رہیں گی، ہم سب خوف کی بڑھتی ہوئی اقسام کو دیکھ کر خوف زدہ ہوتے رہیں گے کیوں کہ یہ خوف کا دور ہے اور ہم سب خوف زدہ لوگ ہیں۔
ہمارے خیال میں خوف کی نئی اقسام کی دریافت اور خوف سے نجات کے لیے تمام سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات کی بہ نسبت روحانی سائنس یا روحی سائنس کے اسکالرز زیادہ بہتر کام کرسکتے ہیں، یہ بات ہم اپنے کچھ ذاتی تجربے کی بنا پر لکھ رہے ہیں جو ہمیں موصول ہونے والے لاتعداد خطوط کے ذریعے حاصل ہوئی ہے، ہمارے اعداد و شمار کے مطابق مندرجہ بالا سروے رپورٹ میں دیے گئے ایک سو ایک خوف کی تعداد بہت کم ہے ، موجودہ دور میں خوف کی اقسام اس سے کہیں زیادہ ہوچکی ہیں، انشاءاللہ آئندہ اس موضوع پر مزید اظہار خیال کیا جائے گا، فی الحال ایک اور اس کا جواب، پہلا خط خوف کی ایک قسم ہی کے حوالے سے ہے۔
سحروجادو یا آسیب و جنات؟
ایل، اے، لکھتے ہیں ”مو ¿دبانہ گزارش ہے کہ میں تقریباً چار سال سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں، ہر طریقہ آزمایا، دس بارہ علما حضرات کے پاس بھی گیا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، ہمارا مسئلہ بگڑتا ہی چلا گیا، اگر کسی نے جادو ٹونا بتایا اور اس حساب سے تعویذ وغیرہ بھی دیے تو ان تعویذوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور کسی نے سایہ بتایا اور اسی حساب سے تعویذ وغیرہ بھی دیے تو بھی کوئی اثر نہ ہوا، اب حال یہ ہے کہ جن بھوتوں کے بغیر کوئی چیز نظر نہیں آتی، کچھ منہ کھولے بیٹھے ہیں، کچھ قلابازیاں کھارہے ہیں، طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں، ان کے علاوہ دنیاوی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی، یہ سب کچھ میری بیوی کے ساتھ ہورہا ہے جو تقریباً اندھی ہوچکی ہے، ایک سال سے مسلسل اسی حالت میں ہے، اولاد بھی نہیں ہے، والدین بھی ساتھ نہیں ہیں، ہم میاں بیوی اکیلے رہتے ہیں، میں جاب کرتا ہوں، بیوی گھر پر اکیلی پڑی رہتی ہے،کام سے فارغ ہوکر گھر میں بھی کھانا پکانا، کپڑے وغیرہ دھونے کا کام بھی مجھے ہی کرنا پڑتا ہے، بیوی الگ پریشان، دوسروں کی محتاج بنی بیٹھی ہے، اب سمجھ میں کچھ نہیں آتا کیا کروں، وقت اور پیسا دونوں برباد ہورہے ہیں لیکن فائدہ کچھ نہیں۔
آج سے چھ سال پہلے ہماری شادی ہمارے والدین کی مرضی اور موجودگی میں ہوئی تھی، شادی کے کچھ عرصے بعد بیوی کو یہاں لے آیا تھا، ساڑھے چار ماہ بعد واپس لے گیا، اس کے بعد ہم پھر واپس آئے اور تقریباً 13 ماہ بعد پھر گھر گئے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر اکیلا واپس آگیا، چار ماہ بعد جب میں اپنی بیوی کو لینے گیا تو معاملہ بگڑا ہوا تھا، ہمارے درمیان کچھ شرطیں آگئی تھیں جو میری بیوی کے والدین خود مجھ سے نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ میری بیوی کے ذریعے مجھے بتانا چاہتے تھے، میں نے شرطوں سے صاف انکار کردیا اور بیوی کو لے کر واپس آگیا، یہاں ایک سال تو آرام سے گزر گیا لیکن دوسرے سال میں اس مصیبت نے پکڑلیا جو اب تک چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتی، تیسرے سال میں میری بیوی کی حالت بہت خراب ہوگئی تو اسے اسپتال میں داخل کروادیا، وہاں وہ مرتے مرتے بچی لیکن ہمارے دونوں طرف کے گھر والوں نے خیریت تک نہ پوچھی کہ وہ زندہ بھی ہے یا مرگئی؟ بہر حال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ صرف زندہ ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر اچھی خاصی صحت مند بھی ہے، تکلیف صرف اتنی ہے کہ وہ دیکھ نہیں سکتی، اگر کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تو نظروں کے سامنے جن بھوت آجاتے ہیں جو اسے چوبیس گھنٹے نظر آتے رہتے ہیں، علماءکرام نے بہت کوشش کی ہے کہ وہ حاضر ہوکر بتائیں کہ وہ میری بیوی کے ساتھ کیوں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتے اور میری بیوی کے علاوہ کسی اور کو نظر ہی نہیں آتے، اسے کوئی اور تکلیف بھی نہیں دیتے، دورے وغیرہ بھی نہیں پڑتے، صرف ہم دونوں میاں بیوی کو قریب نہیں ہونے دیتے، یہی شک والی بات ہے کہ کوئی ہے جو ہمیں الگ الگ کرنا چاہتا ہے، وہ کون ہے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے“۔
جواب: عزیزم! آپ نے اپنے خط میں خاصی گول مول گفتگو کی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اپنی معلومات بھی میڈیکل کے سلسلے میں خاصی کمزور ہے اور مزید یہ کہ نام نہاد عالموں یا عاملوں نے آپ کے ذہن میں نہایت شدت سے جو بات بٹھادی ہے، اُس پر آپ کو یقین کامل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی بیوی کے ساتھ کچھ نادیدہ قوتیں مصروف کار ہیں،اسی کی مناسبت سے علاج معالجہ بھی ہوتا رہا ہے۔
آپ نے جو حالات بیان کیے ہیں، وہ خاصے تشنہ اور غیر واضح ہےں،مثلاً آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شرطیں کیا تھیں جو آپ کے سسرال والے آپ سے چاہتے تھے، حالاں کہ یہ بڑی اہم بات تھی جو آپ کو لکھنا چاہیے تھی، اسی طرح آپ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ بیوی کو اسپتال لے جانے کی نوبت کیوں آئی اور اُس وقت وہ کون سی بیماری کا شکار ہوئی جس میں اس کی جان کے لالے پڑگئے، مزید یہ کہ اس دوران میں اسپتال میں اس کا کیا ٹریٹمنٹ کیا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
بقول آپ کے آپ کی بیوی ان معنوں میں اندھی ہوچکی ہے کہ وہ اگر آنکھیں کھولے تو اُسے جن بھوت قلابازیاں کھاتے نظر آتے ہیں لہٰذا خوف کی وجہ سے وہ آنکھیں ہی نہیں کھولتی اور آپ اس مفروضے پر یقین رکھتے ہوئے کہ واقعی اس کی نظروں کے سامنے جن بھوت آجاتے ہیں، خاموش ہوجاتے ہیں، پھر تو یقیناً دیگر کاموں کے علاوہ اسے اپنی نجی ضروریات مثلاً کھانے پینے ، نہانے دھونے اور دیگر ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے بھی آپ کی ضرورت پیش آتی ہوگی، اس حوالے سے آپ نے اپنی کسی پریشانی کا ذکر نہیں کیا، اسی لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ آپ کی باتیں خاصی گول مول ٹائپ کی ہیں۔
شاید آپ کا خیال یہ ہو کہ اپنے سسرال والوں کی شرائط قبول نہیں کیں تو انہوں نے کوئی جادوئی کارروائی کی ہو کیوں کہ بقول آپ کے انہیں اپنی بیٹی کی زندگی اور موت سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تو آخر ایسا کیا گناہ ان کی بیٹی نے کیا یا آپ سے سرزد ہوا کہ وہ آپ کے خلاف اس حد تک چلے جائیں کہ اپنی بیٹی کی زندگی کو برباد کرنے پر تُل جائیں، رہے آپ کے گھر والے، بقول آپ کے انہیں بھی آپ دونوں کے مرنے جینے سے کوئی دلچسپی نہیں، آخر وہ کیوں آپ سے اس قدر بے زار ہیں؟جب کہ بقول آپ کے یہ شادی دونوں کے والدین کی مرضی سے ہوئی تھی یعنی آپ نے کوئی ایسی لو میرج بھی نہیں کی جس میں دونوں جانب کے خاندان والے مخالف ہوتے! حقیقت یہ ہے کہ آپ کا خط درحقیقت خود ایک معمہ ہے، سمجھنے کا ، نہ سمجھانے کا۔
آپ نے اپنی یا اپنی وائف کی مکمل تاریخ پیدائش وغیرہ بھی نہیں لکھی ورنہ ہم یقیناً آپ کی وائف کی بیماری پر تفصیلی روشنی ڈالتے ، اب صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے کہ اصل معاملہ کیا ہوسکتا ہے۔
دنیا میں بے شمار قسم کی عجیب عجیب بیماریاں موجود ہیں جن میں سرفہرست ایک بیماری خوف بھی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ خوف کی وجہ کسی خاص نوعیت کی ہو،کاش آپ اپنے سسرال والوں کی شرطیں بھی لکھ دیتے تو آپ کی بیوی کا خوف بھی واضح ہوجاتا، ہمارے خیال سے وہ یقیناً کسی خوف کے زیر اثر آپ سے دور ہوگئی ہے،جہاں تک آنکھیں کھولنے پر جن بھوت نظر آنے کا معاملہ ہے تو یہ فریب نظر حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کی ایک شکل ہوسکتی ہے،بعض لوگ پیدائشی طور پر بہت ہی حساس اور وہمی ہوتے ہیں،وہ جس بات کا خیال اپنے ذہن میں بٹھالیں، پھر وہ ذہن سے نہیں نکلتا،ا سی طرح وہ جو بات بھی سوچتے ہیں، وہی ان کو اپنے سامنے نظر آتی ہے،فی الحال ہمارا مشورہ صرف اس قدر ہے کہ اپنی بیوی کا کھانے میں نمک بالکل بند کردیں یعنی کسی بھی قسم کا نمک ان کی خوراک میں شامل نہ ہو، اس کے علاوہ روزانہ نہار منہ ایک کپ عرق گلاب میں تھوڑا سا شہد ملاکر پلادیا کریں، پھر دیکھیں ایک ماہ بعد ان کی حالت میں کیا فرق آتا ہے،اگر آپ اس مسئلے کا اطمینان بخش حل چاہتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ براہ راست فون پر رابطہ کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں