جمعہ، 2 جنوری، 2015

ربیع الاوّل میں نئے سال کا آغاز مبارک

فوجی عدالتوں کا قیام جمہوری حکومت کی ناکامی اور جوڈیشنل مارشل لأ ہے

قارئین کرام! سب سے پہلے نئے سال کی مبارک باد قبول کیجئے ہماری دعا ہے کہ نیا سال آپ کی زندگی میں نئی خوشیاں اور نئی کامیابیاں لائے   پرانے مسائل کا خاتمہ ہو۔

نہایت خوشی اور شادمانی کا مقام ہے کہ سال 2015 کا آغاز ربیع الاول کے مبارک مہینے سے ہو رہا ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں آقائے دو جہاں  سرور کائنات حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ اس جہان فانی میں تشریف لائے اور ظلم اور جہالت کی تاریکی چھٹ گئی دین مبین سر بلند ہوا صحرائے عرب سے بلند ہونے والی ایک صدائے حق ساری دنیا میں گونجنے لگی  اس زمانے کی سپر پاورز روم و ایران جو نہایت تحقیر کے انداز میں اس چھوٹی سی ریاست کو دیکھ رہی تھیں جو مدینہ میں قائم ہوئی تھی  اس وقت سخت حیران و پریشان ہوئیں جب انہیں مسلمانوں کے مقابلے میں پے بہ پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور جنگ یرموک و قادسیہ کے بعد تو جیسے روم اور ایران نے مکمل طور پر شکست تسلیم کرلی۔

پہلی اسلامی ریاست کا قیام خود حضور اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے ہوا اور اس کے بعد یہ ریاست دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت میں تبدیل ہو گئی  مشرق میں بنگال سے اگر آغاز کیا جائے تو مغربی افریقہ میں بحیرہ اوقیانوس کے ساحلوں تک اور شمال میں سائبیریا سے بحرہ ہند تک اسلامی سلطنتوں کا سلسلہ تقریباً 1500سال تک جاری رہا  دوسرے معنوں میں مسلمان 1500 سال تک دنیا کی سب سے بڑی اور موثر ترین طاقت رہے  یہ دور عروج ماضی میں کسی قوم کو حاصل نہیں ہوا اور آج بھی مسلمان کرہ ارض کے چپے چپے پر موجود ہیں اور دنیا کی اہم ترین مملکتیں اسلامی ممالک میں شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کے درمیان مخلص قیادتوں کافقدان ہے جو مسلمانوں کی ترقی کے لیے مثبت طرز عمل اختیار کریں۔

کہاں یہ عالم تھا کہ مغرب سے حصول علم کے لیے لوگ مصر اور بغداد آیا کرتے تھے اور اب ہم انگلینڈ اور امریکہ جاتے ہیں  کسی اسلامی ملک میں ایسی اعلیٰ معیار کی یونیورسٹیز نہیں ہیں جو مغربی یونیورسٹیوں کا متبادل ثابت ہوں  یہی وہ خرابی ہے جس نے گزشتہ 500 سال میں مسلمانوں کو دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں خاصا پس ماندہ کردیا ہے اور اس حوالے سے ہمارے رہنماؤں کی سوچ اس سے بھی زیادہ پسماندگی کا شکار ہے ایک پروگرام کے دوران میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے اور اس حوالے سے جو دلیلیں وہ پیش کر رہے تھے انہیں سن کر موصوف کی پسماندہ سوچ کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔

قافلے دلدلوں میں جاٹھہرے
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے

 نئے سال 2015 کے حوالے سے گزشتہ ہفتے سال بھر کی فلکیاتی صورت حال پر گفتگو شروع کی گئی تھی جو تاحال نامکمل ہے  اس کا ابتدائی حصہ آپ نے یقیناً ملاحظہ کیا ہوگا  ہمیں نئے سال کے حوالے سے کوئی خوش گمانی نہیں ہے  ہم گزشتہ کئی سال سے ”تبدیلی کی جس لہر “ کا تذکرہ کرتے آئے ہیں   آنے والا ہر سال اس کی بھرپور نشان دہی کر رہا ہے اور 2014  میں تو سارا منظر نامہ ہی تبدیل کردیا ہے  اس حوالے سے عمران خان نے نمایاں قائدانہ کردار ادا کیا اوراس سال بھی عمران خان کا کردار نمایاں رہے گا  27 جنوری 2015  سے عمران خان کے ذاتی زائچے میں مشتری کا دور اکبر شروع ہورہا ہے اور دور اصغر بھی مشتری ہی کا ہوگا  مشتری زائچے کا لکی اسٹار ہے لیکن زائچے میں کمزور ہے عمران خان کو یلو سفائر کا نگینہ پہننا چاہیے   مشتری کے دور میں وہ غیر معمولی کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔

 2014 میں پاکستانی قوم میں ایک نیا شعور بیدار ہوا ہے اور ہمارے جعلی  مفاد پرست سیاست داں بری طرح بے نقاب ہو ئے ہیں  یہ فرق بھی واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مشکل مرحلے پر بالآخر پورے ملک کو فوجی ادارے کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے اور وہی صورت حال کو درست کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں‘ کراچی کا مسئلہ ہو یا دہشت گردی کے ملک گیر مسائل بالآخر فوج ہی کو مداخلت کرنا پڑتی ہے  ابھی سانحہ پشاور کے بعد بڑے بڑے جمہوریت کے چمپئن زمیں بوس ہو گئے اور فوجی قیادت کے سامنے سجدہ شکر بجا لائے  یہ الگ بات ہے کہ اب اپنی جھوٹی انا کاپرچم بلند کرنے کے لیے نت نئی تاویلیں پیش کر رہے ہیں  کھل کر اس بات کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ پاکستان کی سیاسی اور جمہوری اشرافیہ اعلیٰ درجے کی ایڈمنسٹریٹیو صلاحیتوں سے عاری ہے اور جب بھی کوئی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو بدانتظامی کے ایسے ایسے مظاہرے سامنے آتے ہیں کہ لوگ ماضی کی فوجی حکومتوں کو یاد کرنے لگتے ہیں  انتظامی صلاحیتوں کے فقدان کے علاوہ ایک مسئلہ نیتوں کے فتور کا بھی ہے جو ہماری سیاسی اشرافیہ کو کبھی سیدھے راستے پر آنے نہیں دیتا یہاں قدم قدم پر ذاتی اور پارٹی مفادات آڑے آتے ہیں اور ملکی اورقومی مفاد پس پشت چلے جاتے ہیں۔

جوڈیشنل مارشل لأ

 دہشت گردی کے خلاف فوجی عدالتوں کا قیام ایک طرح سے ”جوڈیشنل مارشل لأ“ ہے‘ قارئین کو یاد ہونا چاہیے ہم نے 22 نومبر کے نیو مون چارٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے دسمبر کی خطرناک صورت حال کی نشان دہی کی تھی اور عرض کیا تھا کہ یہ حکومت کے لیے ایک سخت مہینہ ہوگا  کسی بڑے سانحے کی نشان دہی بھی اس زائچے میں نمایاں تھی بلکہ نظرات و اثرات سیارگان کے حوالے سے یورنیس اور پلوٹو کے درمیان اسکوائر کے نحس زاویے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا ”یہ نظر حادثات کی نشان دہی کرتی ہے کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ پیش آ سکتا ہے ‘ دو ممالک کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہو سکتا ہے

 سانحہ بھی ہو چکا اور پاک بھارت تعلقات میں محاذ آرائی بھی بڑھ گئی ہے ملکی صورت حال میں فتنہ و فساد اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ نوبت فوجی عدالتوں کے قیام تک آ گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی صورت حال موجود ہے   ملک میں مارشل لا نہیں ہے مگر جوڈیشنل مارشل لا کی تیاری ہے  اس تازہ منظر نامے کے ساتھ ہم نئے سال 2015ءکا آغاز کر رہے ہیں  اس حوالے سے مختلف موضوعات پر آپ گزشتہ کالم کا مطالعہ کر چکے ہیں  آئیے چند دیگر موضوعات پر بھی بات ہوجائے۔

 ملکی مفادات

 گیارہواں گھر مفادات سے متعلق ہے اور اس کا حاکم قمر آٹھویں مصیبت کے گھر میں ہے‘ گیارھویں گھر میں مشتری شرف یافتہ لیکن رجعت میں ہے‘ لہٰذا کمزور ہے‘ سیارہ مریخ سے پوری نظر کا تبادلہ کر رہا ہے‘ گویا دونوں ایک دوسرے کو ناظر ہیں،یہ ایک نہایت پیچیدہ صورت حال ہے، مریخ آٹھویں مصیبت کے گھر کا حاکم اور مشتری چوتھے عوام ، سکون اور آسائشات کے گھر کا مالک ، دونوں کے درمیان مقابلے کی نظر اور قمر پربھی مریخ کی نظر عوامی سکون و چین کو برباد کرتی نظر آتی ہے، ملکی مفادات کے لیے بہر حال اس سال کو اچھا نہیں کہا جاسکتا‘ بین الاقوامی تجارتی امور میں ہم عام دنیا سے بہت پیچھے رہ سکتے ہیں‘ ہمارے دوستوں اور مدد گاروں سے بھی ہمیں خاطر خواہ فوائد شاید حاصل نہ ہو سکیں۔

گیارہواں گھر ملکی زائچے میں پارلیمنٹ کی بھی نمائندگی کرتا ہے‘ مریخ کی نظر یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ پارلیمنٹ کا کردار کس معیار کا ہوگا‘ ممبران اسمبلی اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرگرم رہیں گے‘ ان کی حیثیت ربر اسٹمپ سے زیادہ نظر نہیں آتی‘ جہاں تک ملکی مفادات کا تعلق ہے تو اس کے لیے ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا‘ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہرپارٹی کے ممبران اسمبلی پارٹی ڈکٹیٹر شپ کے زیر اثر میاں مٹھو ہی ثابت ہوتے ہیں‘ ان کی مجال نہیں ہے کہ پارٹی پالیسی کے علاوہ کوئی بات زبان سے نکال سکیں‘ لہٰذا اسمبلی ممبران اور ان کی کارکردگی پرکوئی بات کرنا ہی فضول ہے۔

 سیارہ مریخ برج سرطان میں یکم اگست کو داخل ہوگا اور 12اگست سے تقریباً 27اگست تک گیارہویں گھر کے حساس درجات سے گزرے گا‘ اپنے داخلے کے فوراً بعد زائچے کے پانچویں گھر میں موجود سیارہ زہرہ سے مقابلے کی نظر بنائے گا جس کے نتیجے میں معیشت کو بڑا جھٹکا ، مہنگائی میں اضافہ اور حادثات کی زیادتی ،کسی فلم یا ٹی وی فنکار سے متعلق کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔

مریخ زائچے کے دوسرے ‘ پانچویں اور چھٹے گھر سے ناظر ہوگا‘یہ ممبران اسمبلی کے لیے بھی ایسا وقت ہوگا جس میں وہ نقصانات یا حادثات کا شکار ہو سکتے ہیں‘ مزید یہ کہ یہ وقت فوج ‘ بیو روکریسی کے معاملات میں بھی کسی نئی تبدیلی کا امکان ظاہر کرتا ہے‘ کوئی اہم فوجی مسئلہ اس وقت نمایاں ہوگا اور بعض بڑے بیوروکریٹس زیر عتاب آ سکتے ہیں، مریخ ستمبر کے دوسرے ہفتے میں پانچویں گھر میں موجود پیدائشی مریخ سے نظر مقابلہ قائم کرے گا،یہ وقت کسی بڑے حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔

نقصانات اور خفیہ سازشیں

بارہواں گھر خالی ہے اور اس کا حاکم ہر سال کی طرح اس سال بھی چوتھے گھر میں براجماں ہے‘ ماضی کے سالوں کی نسبت سے اس کافاصلہ اب پلوٹو سے بڑھ چکا ہے‘ یہ اچھی بات ہے‘ جون کے پہلے ہفتے اور جولائی میں مریخ سے اس کی نظر قائم ہوگی جس کے نتیجے میں کسی صاحب حیثیت شخصیت یا اعلیٰ عہدے دار کی تنزلی یا کوئی حادثہ پیش آسکتا ہے۔

سیارہ مشتری 15اگست تک بارہویں گھر میں داخل ہوجائے گا اور یہ بہر حال اچھی بات نہیں ہوگی‘ خصوصاً عوامی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا‘ حکومت کے بعض اقدامات کے نقصانات 15اگست کے بعد سامنے آ سکتے ہیں جو عوامی مفادات کے خلاف ہوں گے‘ ستمبر میں مشتری کے سعد اثرات عوامی سطح پر محسوس ہوں گے اور ملکی اثاثوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے لیکن 17ستمبر سے مریخ بارہویں گھر میں داخل ہوجائے گا‘ شمس پہلے سے یہاں موجود ہوگا‘ اس اعتبار سے اکتوبر کا مہینہ پڑوسی ممالک سے چھیڑچھاڑ اور جنگی مہم جوئی کا امکان ظاہر کرتاہے‘ اندرون ملک بھی دہشت گردی کی وارداتیں اور جرائم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 مریخ زائچے کے پہلے گھر میں 5 نومبر تک داخل ہوگا اس دوران میں سیارہ زحل بھی تیسرے ‘پانچویں ‘ نویںاور بارہویں گھر کومتاثر کر رہا ہوگا‘ مریخ اور زحل کی تربیع بھی قائم ہوگی دونوںباہم ناظر ہوں گے ‘ لہذا اکتوبر نومبرکو اس سال کے آسان مہینے نہیں کہا جا سکتا‘ اہم تبدیلیاں ان مہینوں میں متوقع ہوںگی خصوصاً 20نومبر سے 5 دسمبر تک کا وقت حادثات کو جنم دینے کا باعث ہو سکتا ہے ‘ دہشت گردی کی کارروائیاں اور ان کے خلاف فورسز کے آپریشن کی رفتار بڑھے گی، تقریباً 18 نومبر سے مریخ کے نحس اثرات زحل کے نحس اثرات کے ساتھ شامل ہوکر اندرون و بیرون ملک نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث ہوں گے،اس وقت بھی خانہ جنگی جیسی صورت حال اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے،ملک کی مسلح افواج اور سیکورٹی سے متعلق اداروں کی زیادہ فعالیت نمایاں رہے گی،عدلیہ اور آئین و قانون کی اہمیت تقریبا نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ (واللہ اعلم بالصواب)

کتنے ہی سال مرے درپئے آزار ہوئے
اک سال اور سہی‘ یہ بھی گزر جائے گا

عزیزان من! ملک کے سالانہ زائچے کے حوالے سے یقینا آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید ہم تصویر کا ایک ہی رُخ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسرا کوئی خوش نما یا خوش کن پہلو ہمیں نظر ہی نہیں آرہا تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی لیڈر شپ ہمیشہ سے کمزور، کرپٹ اور ملک سے غیر مخلص ہے، یہ صورت حال سیاست دانوں اور دیگر مقتدر حلقوں کے درمیان مستقل محاذ آرائی کا باعث ہے جس کے نتیجے میں سیاست داں اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے مصروف عمل ہوجاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی مدت پوری کریں،اس حوالے سے چاہے جیسے بھی سمجھوتے کرنا پڑیں، وہ کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ ملکی عوام کے لیے اور ملک کے لیے اچھا نہیں نکلتا، اب لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ ملک نے اگر کبھی ترقی کی ہے اور عوام کو سکون اور چین کا سانس نصیب ہوا ہے تو وہ ڈکٹیٹرز کے دور میں ممکن ہوسکا ہے،اس خیال کی بنیادی وجہ وہی ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ سیاسی اور جمہوری سیٹ اپ کو اپنی ہی بقاءکی فکر لاحق رہتی ہے،عوامی مسائل اقتدار میں آتے ہی ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں،ایسی صورت حال میں زائچے میں پیدا ہونے والے ناقص اثرات اور مشکل اوقات سے نمٹنا آسان نہیں رہتا،ایسے ہی خراب اثرات دنیا کے دیگر ممالک کے زائچوں میں بھی موجود ہوتے ہیں لیکن وہاں صورت حال مختلف ہوتی ہے،حکومت اور لیڈر اپنے اقتدار کی جنگ لڑتے نظر نہیں آتے بلکہ کسی بھی مشکل وقت میں حکومت اور اپوزیشن متحد ہوکر کام کرتی ہے اور ملکی مفادات پر کوئی کمزوری یا لچک نہیں دکھاتی۔

کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ تقریباً 2007  سے 2014  تک کوئی ایک سال بھی ایسا گزرا ہو جو ملک میں مہنگائی ، بجلی کے بحران، پانی کے مسائل ، جرائم میں کمی،دہشت گردی کے واقعات سے نجات، مجرموں کی گرفتاری اور پھر سزا کا عمل، ملکی خزانے کی زبوں حالی، ورلڈ بینک سے قرضے وغیرہ سے نجات کا سال کہا جاسکے؟حالاں کہ اب 2008  سے ملک میں جمہوری نظام جاری ہے ، ایک اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی ہے اور دوسری اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس قسم کی باتوں کے جواب میں ہمارے بعض سیکولر دانش ور یا جمہوریت کے علم بردار جواباً کہتے ہیں کہ جمہوری عمل کو پختہ ہونے میں وقت لگتا ہے،کم از کم یہ عمل 40,50 سال جاری رہے تو میٹھے پھل کی توقع کرنا چاہیے،اس پر ہمیں مرزا غالب یاد آجاتے ہیں

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

اس حوالے سے مثالیں برطانیہ اور امریکہ کی دی جاتی ہیں کہ جناب وہاں بھی جمہوریت کے پودے کو جڑ پکڑنے اور قد آور درخت بننے میں تقریبا 100 سال لگے، ایسے تمام جمہوریت نواز ہماری نظر میں یقینا پیٹ بھرے امرا  یعنی طبقہ  اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور طبقہ ءاشرافیہ ہمارے ملک میں مختلف اقسام کے فیوڈلز پر مشتمل ہے جن کے بچے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ اپنے علاج معالجے کے لیے بھی لندن اور امریکہ کے اسپتالوں کو پسند کرتے ہیں۔

کیا اس سے بڑا مذاق کوئی اور ہوسکتا ہے کہ ایک جاگیردارانہ طبقاتی نظام میں جمہوریت کا ڈراما رچایا جائے اور دولت و طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کیا جائے، زرداری صاحب آج نواز شریف صاحب پر طنز فر مارہے ہیں کہ وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، کوئی بادشاہ نہیں ہیں،کیا یہ لوگ خود آئینہ نہیں دیکھتے؟ ان کے وزیر اعظم اور فیملی کی عیاشیاں ان کے دور اقتدار ہی میں زبان زدِ عام تھیں اور آج تک انہیں کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے جب سارے سیاست داں اور ان کے ہم نوا جمہوریت پسند صحافی مل کر فوجی ڈکٹیٹروں کو صلواتیں سنا رہے ہوتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے اپنے جمہوری دور اقتدار میں انہوں نے ملکی اور عوامی بھلائی کے لیے کیا کارنامے انجام دیے؟وہ لوگ جو اپنی ذاتی سیاسی پارٹیوں میں کسی جمہوریت کے قائل نہیں ہیں، اپنی تقریروں میں جمہوریت کے گیت گاتے نظر آتے ہیں،عوامی مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے لیڈروں کا اپنا حال یہ ہے کہ انہیں رہائش کے لیے عظیم الشان قلعہ نما محلات اور سواری کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں اور حفاظت کے لیے ذاتی یا سرکاری محفاظوں کی ایک فوجِ ظفر موج درکار ہے،ہر ادنیٰ و اعلیٰ سیاست داں بڑے بڑے انقلابی نعروں اور تبدیلی کے وعدوں کے ساتھ میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے اور کروڑوں یا اربوں روپے خرچ کرکے مسند اقتدار تک پہنچتا ہے پھر اور کچھ تو تبدیل ہوتا نہیں،وہ خودتبدیل ہوجاتا ہے، اس کی اپنی زندگی میں بڑا شاندار انقلاب آجاتا ہے،چناں چہ اس ملک کا مسئلہ ہی اعلیٰ، مخلص اور دیانت دار قیادت کا فقدان ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، ملک کا زائچہ ایسی ہی تصویر پیش کرتا رہے گا جیسی 2015 ءکے زائچے کی ہے، دعا کرنی چاہیے کہ اللہ رب العزت حبیب جالب مرحوم کے دعائیہ شعر کو قبولیت عطا فرمائے۔

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے‘ دیوانے یاد آتے ہیں

سوالات و جوابات

ایس ڈبلیو لکھتی ہیں”اس سے پہلے بھی آپ کو میل کی تھی جس کا جواب آپ نے دیا تھا ‘ آپ نے بتایا تھا کہ میرا مون سائن اور برتھ سائن دونوں کیپری کورن (جدی) ہیں‘ میں نے آپ کے کالم کو پڑھ کر ایسٹرولوجی کے با رے میں جو کچھ سمجھا ہے آج اسی کے حوالے سے حاضر ہوئی ہوں‘ مون سائن کیپری کورن ہے تو اس حساب سے سیارہ زحل اگلے سال سے میرے زائچے کے بارھویں گھر میں آجائے گا تو برتھ سائن اور مون سائن دونوں کے حساب سے زحل کی ساڑھ ستی شروع ہوجائے گی جو خراب دور ہوگا لیکن آپ نے کہا تھا کہ زحل میرا حاکم سیارہ ہے اور زحل میرے برتھ چارٹ میں برج قوس میں ہے جو اس کا اوج کا برج ہے لیکن بارھواں گھر ٹھیک نہیں ہوتا یہ دو بالکل الگ باتیں ہیں کہ زحل اب میرے لیے کیا کردار ادا کرے گا کیوں کہ جب 2009ءمیں اپنے شرف کے برج میں آیا تھا تو وہ میرے لیے ایک خاصا بہتر دور تھا‘ اگست 2014ءکو آپ نے اپنے کالم میں ایک آدمی کو جواب دیا تھا کہ زحل آپ کا مبارک ستارہ ہے‘ جب کہ اس کے چارٹ میں زحل عقرب میں تھا اور بارھویں گھر میں تھا جہاں کمزور ہوتا ہے ‘ یہ باتیں میرے لیے کنفیوژن والی ہیں ‘ دوسری بات یہ کہ 2010ءسے میرے چارٹ میں جوپیٹر کا دور تھا جو میرے برتھ چارٹ میں جوزا میں ہے اور کمزور ہے تو اس حساب سے ایک خراب دور ہونا چاہیے تھا لیکن وہ میرے لیے بہت اچھا دور تھا لیکن جولائی 2012 سے میں اپنی زندگی کے بدترین دور سے گزری جتنی انسلٹ میری اس وقت ہوئی شاید ہی کبھی ہوئی ہو اپریل 2013 میں حالات بہتر ہونا شروع ہوئے ایسا کیوں ؟ اس لیے کہ جوپیٹر جیمنی میں تھا جہاں ویک ہوتا ہے‘ تیسری بات یہ کہ آپ نے کہا تھا کہ نومبر 2015ءسے راہو کا مین پیریڈ اور مرکری کا سب پیریڈ ہوگا جو ویک ہے اور میرے نویں گھر کا حاکم ہے جس کا تعلق قسمت سے ہے وہی میری شادی کا طے ہونے والا ٹائم ہے تو شادی ہوتے ہی کیا مسئلے ہوں گے؟ میں نے آپ کو دو بار میل کی ‘ آپ نے دونوں کا جواب دیا تھا ‘ امید کرتی ہوں کہ اس بار بھی جواب دیں گے

جواب: عزیزم! کسی علم سے ادھوری واقفیت گمراہی کا باعث ہوتی ہے لہٰذا تھوڑی بہت معلومات کی بنیاد پر قیاس آرائی کرنے سے گریز کرنا چاہیے ، یقیناً آپ اپنا زائچہ کسی ویب سائٹ کے ذریعے یا کسی ایسٹرولوجیکل سوفٹ ویئر سے خود بناتی ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی ویسٹرن سسٹم کا سوفٹ ویئر ہوگا، اسی لیے آپ کو مشتری برج جوزا میں نظر آرہا ہے۔

آپ نے جو تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش لکھا ہے اس کے مطابق بے شک آپ کا برتھ سائن یعنی طالع پیدائش اور قمری برج جدی ہے مگر یہ خیال رہے کہ ہم نے آپ کا زائچہ ویدک سسٹم کے مطابق بنایا تھا اور اسی کے مطابق ساری گفتگو کی تھی ویدک سسٹم کے مطابق سیارہ زحل اب برج عقرب میں داخل ہوا ہے اور آئندہ ڈھائی سال بعد برج قوس میں یعنی آپ کے بارھویں گھر میں داخل ہوگا لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ سیارہ زحل آپ کا حاکم سیارہ ہے  یہ آپ کے لیے سعد اثرات رکھتا ہے لہٰذا آپ کو کسی ساڑھ ستی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،البتہ جب یہ بارھویں گھر برج قوس میں آئے گا تو مالی مسائل پیدا کرے گا،اگر آپ کا کوئی ذاتی سیارہ کسی خراب گھر میں آجائے تو اس کی حالت ایک قیدی کی سی ہوگی، اُس کے ذریعے آپ کو فوائد حاصل نہیں ہوں گے، بارھویں گھر میں رہنے کے دوران یہ مالی نقصانات ، جاب کی پرابلم ، فیملی میں غلط فہمیاں اور مستقبل کے خوف پیدا کرے گا،اُس وقت ہفتے کے روز صدقات دینا بہتر ہوگا۔

اگر کسی کے بارے میں ہم نے لکھا تھا کہ آپ کا مبارک ستارہ زحل ہے تو درست لکھا ہوگا اب اگر وہ عقرب میں ہے تو یہ ایک الگ بات ہے  بالکل اسی طرح جیسے کہ زحل آپ کا ذاتی ستارہ بھی ہے اور آپ کی حیثیت ، فیملی اور ذرائع آمدن کا ستارہ بھی ہے مگر زائچے میں برج قوس میں اور بارھویں گھر میں ہے،قوس میں اچھی پوزیشن کے باوجود بارھویں گھر میں ہونا اسے بے حد کمزور اور ناکارہ بناتا ہے،یہی بنیادی اصول ہے،انشاءاللہ بہت جلد ہماری کتاب” پیش گوئی کا فن“ شائع ہورہی ہے جس میں تمام اصول و قواعد اور زائچے کو پڑھنے کی تجزیاتی تکنیک پر تفصیلی مضامین موجود ہیں۔

آپ کے زائچے میں مین پیریڈ راہو کا جاری ہے جو 3 جنوری 2008  سے شروع ہوا تھا اور 2 جنوری 2026  تک جاری رہے گا لیکن فعال پیریڈ ہمیشہ سب پیریڈ ہوتا ہے اس اعتبار سے 15 ستمبر 2010  سے 7 فروری 2013 ءتک مشتری کا سب پیریڈ جاری رہا۔ یہ آپ کے زائچے کا منحوس سیارہ ہے ، بارھویں گھر کا مالک ہے اور برج ثور میں ہے، اس لیے یہ دور خراب تھا، اب آپ زحل کے دور سے گزر رہی ہیں جو اگرچہ سعد سیارہ ہے مگر زائچے میں بارھویں گھر میں ہے لہٰذا اس دور کو بھی زیادہ کامیاب دور نہیں کہا جاسکتا۔آپ کو چاہیے کہ نیلم کسی اچھے وقت میں پہن لیں۔


زحل کی ساڑھ ستی کے حوالے سے ہمارے ملک میں بہت سے گمراہ کن نظریات اناڑی اور اکثر جاہل منجمن نے پھیلا رکھے ہیں بالکل اسی طرح جیسے بعض جعلی عامل حضرات ہر شخص پر بندش ، اثراتِ بد اور آسیب وغیرہ کا فتویٰ لگاتے رہتے ہیں، اسی طرح ہمارے بہت سے نجومی حضرات ہر شخص کو زحل کی ساڑھ ستی کا اثر بتاتے رہتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا،صرف چند طالع برج ایسے ہیں جن پر زحل کی ساڑھ ستی کا قانون لاگو ہوتا ہے، باقی جن لوگوں کے لیے سیارہ زحل زائچے میں سعد اثر رکھتا ہے، اُن پر ساڑھ ستی کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس مسئلے پر ہم نے اپنی نئی آنے والی کتاب میں تفصیلی بحث کی ہے، یہاں مختصراً عرض کریں گے کہ صرف تین طالعات یعنی پیدائشی برج ایسے ہیں جن پر زحل کی ساڑھ ستی اثر انداز ہوتی ہے، پہلا سرطان ، دوسرا سنبلہ اور تیسرا حوت ، اس کے علاوہ باقی کسی طالع برج پر ساڑھ ستی نہیں لگتی، اسی طرح شمسی برج کے حوالے سے یا صرف طالع کے حوالے سے بھی ساڑھ ستی نہیں ہوتی،صرف قمری برج سے ساڑھ ستی تسلیم کی جاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں