جمعہ، 30 جنوری، 2015

ایک روشن چراغ تھا ۔ نہ رہا

اوقاتِ شرفِ زہرہ اور لوحِ شرفِ زہرہ نورانی کا مؤثر ترین نقش

 ہمارے بہت ہی محترم اور بزرگ دوست علی سفیان آفاقی27جنوری 2015ءکو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ”اِنّا لِلہ وَاِنا الیہِ راجعُون
 ایک عہد تمام ہوا ‘ ایک نابغہءروزگار رخصت ہوا جس کا کوئی متبادل نہیں‘ آفاقی صاحب کا ذکر خیر ایک سال قبل2013 میں بھی ہم نے ان کی صحت کی خرابی کے حوالے سے کیا تھا لیکن پھر وہ بھلے چنگے ہوگئے اور کراچی بھی آئے‘گزشتہ سال بھی صحت کی چھوٹی موٹی خرابیاں چلتی رہیں‘ فون پر طبی مشورے بھی جاری رہے۔27جنوری کی شام ان کے انتقال کی خبر ملی۔

علی سفیان آفاقی 22اگست 1933 کو بھوپال میں پیدا ہوئے‘ ان کے دو بھائی اور کئی بہنیں تھیں‘پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آ گئے اور ماڈل ٹاؤن کے جس مکان میں ساری زندگی گزاری وہ بھی 1933ءمیں تعمیر ہوا تھا‘ مکان کی پیشانی پر تعمیر کا سال تحریر تھا جسے دیکھ کر ایک بار ہم نے حیرت سے کہا تھا ”آفاقی صاحب آپ کا مکان بھی آپ کے ساتھ ہی وجود میں آیا ہے“ تو وہ مسکرائے تھے ‘ یہ مکان انہوں نے غالباً 2005 میں فروخت کردیا تھا اور ایک فلیٹ میں شفٹ ہو گئے تھے۔

 اس موقع پر ہمیں اپنا لکھا ہوا وہ تعارفی نوٹ یاد آ رہا ہے جو ماہنامہ سرگزشت میں آفاقی صاحب کی ”فلمی الف لیلیٰ “ کے لیے تحریر کیا گیا تھا اور آج تک ماہنامہ سرگزشت میں شائع ہو رہا ہے‘ ہمارے ادارہ چھوڑنے کے باوجود اسے کبھی تبدیل نہیں کیا گیا‘ کیوں کہ منیر نیازی کے مشہور اشعار کے ساتھ یہ نوٹ خود آفاقی صاحب کو بھی بہت پسند تھا‘ ہم نے لکھا تھا ۔

ایسے نادر روز گار خال خال ہی نظر آتے ہیں جو نصف صدی سے علم و ادب ‘ صحافت و فلم کے میدان میں سر گرم عمل ہوں اور اپنے روز اول کی طرح تازہ دم بھی۔ ان کے ذہن رساں کی پرواز میں کوئی کمی واقع ہو‘ نہ ان کا قلم کبھی تھکن کا شکار نظر آئے‘آفاقی صاحب ہمارے ایسے ہی جواں فکر وبلند حوصلہ بزرگ ہیں‘ وہ جس شعبے سے بھی وابستہ رہے اپنی نمایاں حیثیت کے نشان اس کی پیشانی پر ثبت کر دیے‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستگی کے دوران میں انہیں اپنے عہد کی ہر قابل ذکر شخصیت سے ملنے اور اس کے بارے میں آگاہی کا موقع بھی ملا ‘ دید و شنید اور میل ملاقات کا یہ سلسلہ خاصا طولانی اور بہت زیادہ قابل رشک ہے‘ آئیے ہم بھی ان کے وسیلے سے اپنے زمانے کی نامور شخصیات سے ملاقات کریں اور اس عہد کا نظارہ کریں جو آج خواب معلوم ہوتا ہے

 فلمی الف لیلیٰ در حقیقت صرف آفاقی صاحب کی آپ بیتی ہی نہیں ہے بلکہ جگ بیتی بھی ہے‘ بے شمار علمی‘ ادبی ‘ فلمی‘ صحافتی اور سیاسی شخصیات اس سرگزشت میں زیر بحث آئی ہیں اور ان کے حالات زندگی‘ کارنامے ‘ مزاج وفطرت پر آفاقی صاحب نے روشنی ڈالی ہے‘ اب یہ کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

اکتوبر یا نومبر 1990 کی ایک صبح کراچی کے سابقہ تاج ہوٹل میں آفاقی صاحب سے ہماری پہلی ملاقات ہوئی‘ وہ کراچی میں اسی ہوٹل میں ٹھہرنا پسند کرتے تھے‘ ہم انہیں اپنے دفتر لے کر آئے اور ماہنامہ سرگزشت کے مدیر اعلیٰ جناب معراج رسول کے ساتھ ایک طویل نشست کے بعد انہیں اس کام پر آمادہ کیا کہ وہ سرگزشت کے لیے سفر نامہ اور مشہور فلمی شخصیات کے بارے میں پابندی سے لکھیں گے۔
آفاقی صاحب اس زمانے میں فیملی میگزین نکالنے کی تیاریاں کر رہے تھے گویا باضابطہ طور پر ادارہ نوائے وقت سے وابستہ ہو چکے تھے‘ مرحوم مجید نظامی صاحب سے ان کے گہرے مراسم تھے اور انہوں نے “ فیملی میگزین“نکالنے کی ذمہ داری آفاقی صاحب کو سونپ دی تھی۔

پہلی ملاقات میں یہ طے ہوا کہ سفر نامہ آفاقی صاحب اپنے نام سے لکھیں گے اور فلمی شخصیات کے قصے فرضی نام سے اور اس سلسلے میں فرضی نام ”آشنا کے قلم سے“ طے ہوا‘ ماہنامہ سرگزشت کے پہلے شمارے میں جو دسمبر 1990 کو بازار میں آیا‘ انہوں نے مرحومہ اداکارہ رانی کی کہانی لکھی جس میں کرداروں کے اصل نام تبدیل کر دیے گئے تھے مثلاً رانی کا نام ”شہزادی“ رکھ دیا گیا تھا لیکن اسی مہینے میں باہمی تبادلہ خیال کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آئندہ اصل نام ہی دیے جائیں گے اورپھر ”آشنا کے قلم سے “ مختلف فلمی شخصیات کی داستانیں شائع ہوتی رہیں‘ یہاں تک کے کوئی قابل ذکر اداکار‘ ہدایت کار‘ فلم ساز باقی نہ رہا تو ہمیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ آئندہ اس سلسلے کو جو اَب ماہنامہ سرگزشت کا مقبول ترین سلسلہ بن چکا تھا‘ کیسے جاری رکھا جائے؟ اس حوالے سے ہم نے معراج صاحب سے کہا کہ آفاقی صاحب ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے دیگر سیکڑوں مشہور اور غیر معمولی شخصیات کو دیکھا ہے ‘ ان سے ملے ہیں اور ان کے بارے میں جانتے ہیں اور خود بھی ایک طویل عرصہ صحافت اور فلم کے میدان میں گزارا ہے لہٰذا کیوں نہ وہ اپنی سرگزشت لکھیں‘ معراج صاحب کو یہ آئیڈیا پسند آیا اور اس کام کے لیے آفاقی صاحب کو راضی کرنے کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی کیوں کہ سال ڈیڑھ سال کی اس رفاقت کے دوران میں ہی آفاقی صاحب کی شفقت اور محبت ہمارے ساتھ بہت بڑھ گئی تھی اور اس کی وجہ ہماری کوئی خوبی نہیں تھی بلکہ یہ آفاقی صاحب ہی کا کمال تھا‘ وہ اپنے جونیئرز کے ساتھ بھی بہت جلد بے تکلف ہوجایا کرتے تھے اور انہیں یہ احساس بھی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ ایک سینئر اور بزرگ ہستی ہیں ‘ اپنے مزاج اور عادت و اطوار میں وہ بہت سادہ اور صاف دل انسان تھے‘ کسی تکّبر اور برتری کا اظہار ان کی کسی بات سے نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ساتھ کام کرنے والے جونیئرز کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی البتہ اپنے اصولوں اور نظریات کے حوالے سے وہ نہایت سخت موقف رکھتے تھے اور اس پر کسی معقول دلیل کے بغیر انہیں قائل کرنا بہت مشکل کام تھا‘ بنیادی طور پر اسلامی سوچ رکھتے تھے اور دین دار انسان تھے‘پنج وقتہ نمازی‘ سیاسی طور پر مسلم لیگی ذہن کے مالک اور ایک سچے ‘ محب وطن پاکستانی۔ 

آفاقی صاحب نے اپنے صحافتی کرئر کا آغاز جماعت اسلامی کے پرچے ”ترجمان القرآن“ سے کیا اور اس زمانے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی سوانح حیات بھی لکھی جو ہماری نظر سے کبھی نہیں گزری اور ان کے پاس بھی اس کا کوئی ریکارڈ نہ تھا لیکن ترجمان القرآن سے وابستگی بہت مختصر عرصے کے لیے رہی اور 1951ءمیں وہ روز نامہ چٹان سے منسلک ہو گئے ‘ اس طرح ان کی صحافتی تربیت آغا شورس کاشمیری کے زیرسایہ شروع ہوئی ‘ آغا صاحب کے بارے میں انہوں نے ماہنامہ سرگزشت میں بہت تفصیل کے ساتھ لکھا اور یہ بھی بتایا کہ وہ ہیرامنڈی کیوں جایا کرتے تھے؟ دراصل وہ اپنی مشہور کتاب ”اس بازار میں“ کے لیے مواد جمع کر رہے تھے۔

 بعد ازاں مرحوم حمید نظامی کے زمانے ہی میں روز نامہ نوائے وقت سے کچھ عرصہ وابستہ رہنے کے بعد روز نامہ آفاق سے وابستہ ہو گئے اور اسی مناسبت سے اپنے نام کے ساتھ ”آفاقی“ کا اضافہ کرلیا۔

اگر روز نامہ آفاق سے وابستگی کو آفاقی صاحب کی زندگی کا ایک غیر معمولی ” ٹرننگ پوائنٹ“ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیوں کہ روز نامہ آفاق اس زمانے کا پہلا اخبار تھا جس میں باقاعدہ ”فلمی صفحہ“ شروع کیا گیا تھا جو آفاقی صاحب نے شروع کیا تھا‘ اس کے بعد ہی آفاقی صاحب کے تعلقات فلمی دنیا کے مشہور لوگوں سے استوار ہوئے اور وہ اس شعبے کی طرف متوجہ ہوئے۔

 1958 کے مارشل لأ نے انہیں صحافت سے بے زار کردیا کیوں کہ وہ بنیادی طور پر ایک جمہوریت پسند تھے‘ انہوں نے آفاق سے علیحدگی اختیار کر لی اور پوری طرح فلمی دنیا کی طرف متوجہ ہوگئے ‘ اس دوران میں بہت سے فلمی لوگوں سے ان کے تعلقات گہرے ہو چکے تھے چنانچہ انہوں نے پہلی کہانی فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کے لیے لکھی جو ”ٹھنڈی سڑک“ کے نام سے فلمائی گئی ‘ اداکار کمال اس فلم کے ہیرو تھے اور آفاقی صاحب سے ان کی قریبی رشتہ داری بھی تھی غالباً شباب صاحب سے کمال کی سفارش کرنے والوں میں بھی وہ شامل تھے‘ اس کے بعد مشہور ہدایت کار لقمان صاحب کی فلم ”آدمی“ کی کہانی اور مکالمے اور بعد ازاں ”ایاز“ کے مکالمے بھی آفاقی صاحب نے ہی لکھے (مشہور اینکرپرسن مبشر لقمان ہدایت کار لقمان ہی کے صاحب زادے ہیں) اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا اور بالآخر انہوں نے ہدایت کار حسن طارق کے ساتھ مل کر فلم ”کنیز“ بنانے کا پروگرام بنایا جو ایک نہایت کامیاب فلم تھی‘ ایک طویل عرصہ فلمی دنیا میں کہانی ‘ مکالمے لکھنے کے علاوہ انہوں نے کئی کامیاب فلمیں بھی پروڈیوس کیں اور مشہور ایوارڈ یافتہ فلم ”آس“ سے فلمی ڈائریکشن کا آغاز کیا‘ اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ تھی کیوں کہ فلم آس کی کہانی کی ڈائریکشن کے لیے کوئی ہدایت کار تیار نہیں تھا لہٰذا انہوں نے خود اسے ڈائریکٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

آفاقی صاحب کی زندگی کا فلمی سفر بہت طویل ہے اور اس حوالے سے ان کی اپنی تحریر کردہ ” فلمی الف لیلیٰ“ کا مطالعہ کرنا چاہیے ‘ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ فلمی دنیا کے بدلتے رنگ ڈھنگ سے بے زار ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں ایک ریستوران کھول لیا ‘ ذرا سوچیئے آفاقی صاحب جیسے آدمی کو اس راستے پر جانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی؟

در حقیقت آفاقی صاحب کی زندگی کے بہت سے دلچسپ پہلو ہیں ‘ ہماری ان سے ان تمام موضوعات پر خاصی طویل اور سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی ہے‘ وہ جب کراچی آتے تھے تو تقریباً 5 روزہ قیام کے دوران میں ہمارے دن اور رات انہی کے ہمراہ گزرتے تھے اور ہم دل بھر کر ان سے ماضی کے مشہور افراد اورخود ان کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے تھے‘ ایک بار اپنی فلمی الف لیلیٰ میں انہوں نے ہماری علم نجوم و جفر سے دلچسپی کا تذکرہ کیا تو بے شمار لوگوں نے فون پر ہم سے رابطہ کر کے اپنے زائچے کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہی لیکن اس زمانے میں ہم کسی حد تک ایسی پریکٹس سے گریز ہی کرتے تھے اور آفاقی صاحب کا زائچہ بھی کبھی نہیں بنایاتھا لیکن 2013ءمیں جب وہ بہت بیمار تھے اور ہم بھی لاہور ہی میں تھے‘ ان سے ملے تو انہوں نے اپنے زائچے کے لیے فرمائش کی لہٰذا ہم نے زائچہ بنایا لیکن آفاقی صاحب سے کھل کر زائچے پر گفتگو نہیں کی‘ انہوں نے بھی زیادہ زور نہیں دیا وہ اکثر مذاقاً یہی کہتے رہتے تھے کہ فرازصاحب! ذرا زائچے میں دیکھیں کہ ہماری کوئی دوسری شادی بھی ہے یا نہیں اور یہ بات وہ اکثر اپنی بیگم کی موجودگی میں کہا کرتے تھے ‘ ایک بار ان کی بیگم نے برجستہ جواباً کہا ”پہلے یہ تو طے ہوجائے کہ میں پہلی ہوں یا دوسری؟

 ان کی اس برجستہ جوابی کارروائی پر آفاقی صاحب ہنس دیے اور ہم نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور آفاقی صاحب سے کہا کہ ”بھائی! یقیناً دال میں کچھ کالا ہے بلا وجہ بھابھی شک وشبہ کا اظہار نہیں کر رہی ہیں

 یہ بہر حال مذاق کی باتیں ہیں جو اکثر ہوتی رہتی تھیں مثلاً ہم بھی اکثر ان سے کہتے رہتے تھے کہ جناب ہمارے لیے کوئی شریف سی فلم اسٹار دیکھ لیں تو وہ ہمیشہ مسکرا دیا کرتے تھے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت با اصول اور صاحب کردار انسان تھے‘ ایک طویل عرصہ فلمی دنیا میں گزار دیا لیکن اس دنیا کے شرعی عیبوں سے ہمیشہ دور رہے‘ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور کبھی کسی اداکارہ سے ان کا کوئی اسکینڈل نہیں بنا‘ ایک زمانے میں اداکارہ شمیم آراءکے ساتھ ان کی شادی کی افواہیں گرم ہوئیں اس وقت تک وہ غیر شادی شدہ تھے ‘ مشہور فلمی ہفت روزہ نگار میں شمیم آراءسے ان کے معاشقے کی خبرشائع ہوئی تھی ‘ ہم نے ان سے پوچھا کہ جناب یہ کیا ماجرا تھا تو انہوں نے اصل وجہ بیان کردی جس کی تصدیق ہفت روزہ نگار کے بانی اور ایڈیٹر جناب الیاس رشیدی مرحوم نے بھی کی کہ وہ درحقیقت اداکار کمال کا شمیم آراءسے معاشقہ تھا اور چونکہ وہ آفاقی صاحب کے رشتے دار بھی تھے لہٰذا شمیم اس وجہ سے آفاقی صاحب سے زیادہ قریب ہو گئی تھیں۔

قصہ مختصر یہ کہ فلمی دنیا میں ان لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود جو شراب وشباب کے رسیا  نہ تھے ‘ وہ کبھی اس طرف متوجہ نہیں ہوئے ‘ اس اعتبار سے خواجہ میر درد ؒ کا یہ شعر ان کی ذات پر صادق آتا ہے

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں  

تعلقات اورمالی امور کا ستارہ زہرہ

 سیارہ زہرہ عشق و محبت، حسن و خوبصورتی اور دوستی و تعلقات کا ستارہ کہلاتا ہے ، یہ مالی اُمور پر بھی اثر انداز ہے،آمدن میں اضافے اور انعامی اسکیموں میں زہرہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ دائرئہ بروج میں زہرہ دوسرے گھر یعنی خانہءمال کا حاکم ہے اور دائرئہ بروج کے ساتویں گھر برج میزان پر بھی اس کی حکمرانی ہے ، ساتواں گھر انسانی زندگی میں تعلقات پر زور دیتا ہے لہٰذا ہر قسم کی پارٹنر شپ خواہ کاروباری ہو یا ازدواجی، ساتویں گھر کے زیر اثر ہے ۔

 کسی بھی زائچے میں سیارہ زہرہ محبت ، شادی اور دیگر نوعیت کے تعلقات کی نشان دہی کرتا ہے ، اگر زائچے میں زہرہ کمزور ہو یا نحس اثرات کا شکار ہو تو ایسے خواتین و حضرات کی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات متاثر ہوتے ہیں ، محبت میں ناکامی ، شادی میں تاخیر یا شادی کا نہ ہونا، عملی زندگی میں عزیزو اقارب ، ملازمت یا کاروبار میں دوسروں سے تعلقات میں خرابی کی نشان دہی ہوتی ہے ، ایسے افراد عموماً خشک مزاجی کا شکار رہتے ہیں ، زائچے میں سیارہ زہرہ کی خرابیاں بعض اوقات نہایت پیچیدہ نوعیت کی بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں جن میں جنسی و نفسیاتی امراض اور بانجھ پن جیسے مسائل شامل ہیں ۔

 سیارہ زہرہ اگر زائچے میں طاقت ور ہو اور نحس اثرات سے پاک ہو تو انسان معاشرے میں محبوبیت اور مقبولیت حاصل کرتا ہے ، دوسرے لوگ اُس کی قربت سے خوشی و شادمانی محسوس کرتے ہیں اور پروانہ وار اس پر نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں ، محبت یا شادی اس کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے،عام زندگی میں بھی لوگوں سے بہتر تعلقات استوار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ملازمت یا کاروباری معاملات میں ترقی ملتی ہے اور خوش قسمتی ساتھ چلتی ہے ، ایسے لوگوں کو کبھی کوئی مالی پریشانی نہیں ہوتی بلکہ تحفہ تحائف ملتے رہتے ہیں اور انعامی اسکیموں میں بھی کامیابی حاصل ہوتی رہتی ہے ۔

 علم جفر اور علم نجوم کے اشتراک سے ماہرین نجوم و جفر ایسے طلسم و نقوش ترتیب دینے میں کامیاب رہے ہیں جو پیدائشی زائچے کی کمزوریوں اور نحس اثرات کو دور کرسکیں ، اس سلسلے میں سیارہ زہرہ کے اوج ، شرف یا دیگر باقوت سعد نظرات سے مدد لی جاتی ہے اور ایسا مادّہ مہیا کیا جاتا ہے جو زہرہ کے سعد و باقوت اثر کو قبول کرلے پھر مقررہ وقت پر زہرہ سے منسوب دھات پر مرتب شدہ نقوش و طلسمات نقش کرلیے جاتے ہیں ضرورت مند ایسی الواح یا خاتم (انگوٹھی )کے استعمال سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

اوقات و ساعات شرفِ زہرہ

 اس سال سیارہ زہرہ اپنے شرف کے برج حوت میں 27 جنوری کو داخل ہوا تھا اور پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 17 فروری بروز منگل بعد غروب آفتاب 07:33 pm پر اپنے درجۂ شرف پر قدم رکھے گا ، درجۂ شرف پر زہرہ کا قیام 18 فروری دوپہر 02:59 pm تک رہے گا ، اس عرصے میں زہرہ کی ساعات نقوش و طلسمات کی تیاری کے لیے مؤثر ثابت ہوں گی جو آئندہ ہفتے دی جائیں گی۔

 لوح شرفِ زہرہ نورانی

ہم ” لوح شرفِ زہرہ نورانی “ کی تیاری کا طریقہ پیش کر رہے ہیں جس کے سریع التاثیر ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ، قرآنی حروف مقطعات کی یہ لوحِ مبارکہ اپنی صفات و تاثیر میں عجیب ہے جو لوگ اسے شرفِ زہرہ کے موقع پر تیار کرکے پاس رکھیں گے وہ خود اس کے فیوض و برکات کا مشاہدہ کرلیں گے، لوح مبارک یہ ہے ۔



نقش مکمل کرنے کے بعد پُشت پر زہرہ کے مؤ کلات و طلسم اور اپنا نام مع والدہ لکھیں اور ساتھ ہی نقش کے مؤکل کا نام لکھیں جو یہ ہے ”یا طیذائل

مؤکلاتِ زہرہ اور طلسم یہ ہے

 عزیزان من ! اس لوحِ مبارک کو شرفِ زہرہ کے اوقات میں ساعتِ زہرہ میں چاندی یا تانبے کی لوح پر کندہ کیا جائے اور تمام قواعدِ عملیات کا خیال رکھا جائے یعنی رجال الغیب سامنے نہ ہوں ، سفید لباس پہن کر باوضو ہوکر زہرہ کا بخور صندل سفید ، کافور وغیرہ جلائیں یا عمدہ قسم کی صندل کی اگربتیاں کام میں لائیں،لباس میں عطرِ حنا جسے عطر سہاگ بھی کہا جاتا ہے کی خوشبو لگائیں ، فاتحہ کے لیے کچھ سفید یا سبز رنگ کی مٹھائی پاس رکھیں اور نقش مکمل کرنے کے بعد 719 مرتبہ اسمائے الٰہی یالطیف الرحیم الکریمُ کا ورد کرکے لوح پر دم کریں اور مٹھائی پر فاتحہ دے کر بعدازاں خود بھی کھائیں اور دیگر احباب میں بھی تقسیم کردیں ، ہر شخص کو اپنی ذات کے لیے ایک لوح تیار کرنے کی اجازتِ عام ہے۔



 لوح کو پاس رکھنے یا پہننے کے بعد اگر تسخیر خاص یا تسخیر خلق مقصود ہو تو روزانہ یا لطیفُ الرحیمُ الکریمُ کا ورد 719مرتبہ 80 روز تک کریں اور اگر رزق و روزگار یا کاروباری ترقی ، ملازمت کا حصول مقصود ہو تو اسمائے الٰہی یا اللہُ الرزاقُ الباسطُ السمیعُ کا ورد 719 مرتبہ 80 دن تک جاری رکھیں انشاءاللہ آپ کا مقصد پورا ہوگا ۔

 نقش کے خانوں میں چال کو سمجھنے کے لیے ہر خانے کے کونے میں انگریزی ہندسے دیے گئے ہیں ، انہیں نقش کے اندر لکھنے کی غلطی نہ کریں، یہ نقش کی رفتار ظاہر کرتے ہیں ، ان کی پیروی کرتے ہوئے نقش کے خانے پُر کیے جائیں گے، پہلے خانے میں زہرہ کے حروفِ مقطعات کھیعص اور 23 ویں خانے میں حمعسق نقش کی پیشانی پر موجود ہےں، اسمِ ذات اللہ نقش کے قلب میں قائم ہے،نقش کی کاملیت اور خوبیوں پر ہم کیا روشنی ڈالیں، اہلِ نظر ہی اس کا عرفان کرسکتے ہیں ، ہم تو صرف یہی کہنے پر اکتفا کریں گے کہ حروف مقطعات کی بے پناہ روحانیت کا ادراک صرف وہی لوگ کرسکیں گے جو اس ” لوح مبارک “ کو استعمال کریں گے ، یقینا یہ زندگی میں ایک نئی بہار کا پیغام ثابت ہوسکتی ہے ۔

طلسم زہرہ

فروری کے مہینے میں حسن و عشق اور شہرت و مقبولیت کا ستارہ زہرہ اپنے درجۂ شرف پر آرہا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی نحوست سے پاک ہوگا،ایسے مؤ ثر وقت میں اگرچہ بہت سے اعمال کیے جاتے ہیں جو محبت و تسخیر ، شہرت و مقبولیت ، کاروبار میں کامیابی اور خاص طور پر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں،زہرہ چوں کہ شادی اور ازدواجی زندگی سے بھی متعلق ہے اور مالی امور سے بھی ، لہٰذا شادی میں رکاوٹ دور کرنے اور ازدواجی زندگی میں خوشیاں لانے کے لیے بھی زہرہ کی سعد قوتوں سے کام لیا جاتا ہے،اس حوالے سے خاتم طلسم زہرہ بھی اس بار دی جارہی ہے۔ یہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے ، بہت سے لوگ لوح وغیرہ پاس رکھنے میں اُلجھن محسوس کرتے ہیں اور انگوٹھی پہننے کے شوقین ہوتے ہیں ، زہرہ کے اس مخصوص طلسم کو بتائے گئے طریقے کے مطابق شرفِ زہرہ کے اوقات میں کسی سعد ساعتِ زہرہ میں چاندی کی انگوٹھی پر کندہ کرلیں اور پھر نیا چاند ہونے کے بعد جو پہلا جمعہ آئے اس روز صبح سورج نکلنے کے فوراً بعد بسم اللہ پڑھ کر پہن لیں ، کچھ سفید مٹھائی پر فاتحہ دے کر تقسیم کردیں ، سمجھ لیں آپ نے ایک ایسی چیز حاصل کرلی ہے جو آپ کو لوگوں میں مقبولیت ، شہرت ، عزت، کاروبار میں ترقی ، میاں بیوی کے درمیان محبت میں اضافہ،شادی میں رکاوٹ کا خاتمہ اور ازدواجی زندگی میں لطف و سرور سے ہم کنار کرے گی لیکن اس کی تیاری میں پہلے اس کی زکات ادا کرنا لازمی ہوگا اور اُس کا طریقہ ہم لکھ رہے ہیں ۔

یہ عمل وقت سے کافی پہلے اسی لیے دیا جارہا ہے کہ ذکواۃ ادا کرنے کا موقع مل سکے، اصل وقت سے پہلے زہرہ کی 6 سعد ساعتوں کا انتخاب کریں اور ایک سفید کاغذ پر 6 بار یہ طلسمی الفاظ لکھیں ، اس طرح 6 ساعتوں میں 36 مرتبہ لکھا جائے گا ، ہر ساعت میں لکھنے کے بعد کاغذ کو حفاظت سے رکھ لیا کریں، جب 6 ساعتوں میں کام مکمل ہوجائے، یعنی آپ 36 نقش لکھ لیں تو علیحدہ علیحدہ کاٹ کر آٹے میں ملاکر گولیاں بنالیں اور دریا یا سمندر پر جاکر مچھلیوں کو ڈال دیں بعد ازاں واپسی پر 6 قسم کا اناج خرید کر گھر واپس آئیں مثلاً چنے کی دال،ماش کی دال،مونگ کی دال،مسور کی دال،گندم،چاول وغیرہ۔حسب توفیق برابر وزن میں لیں ، چاہے ایک ایک پاؤ ہی کیوں نہ ہو، گھر لاکر اُسے جس طرح مناسب سمجھیں عمدہ طریقے سے پکالیں ، اگر حلیم یا کھچڑا وغیرہ بنائیں تو اُس میں مرغی یا بکرے کا گوشت ڈالیں، گائے ، بھینس کا گوشت نہ ہو۔اگر چاہیں تو کوئی میٹھی چیز پکالیں اور اس پر فاتحہ دے کر مرحوم شفق رام پوری اور حضرت کاش البرنیؒ کو بھی ایصال ثواب کریں، بس یہی اس عمل کی ذکواۃ ہے، ذکواۃ کے دوران میں پاک صاف رہیں ، گوشت ، انڈہ ، مچھلی، دودھ، دہی اور کچا لہسن پیاز استعمال نہ کریں۔بہتر ہوگا کہ بعد میں بھی جب تک شرف زہرہ کے وقت نقش کندہ نہ کرلیں ، یہ پرہیز جاری رکھیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں