ہفتہ، 3 مارچ، 2018

پیچیدہ امراض کے علاج معالجے کا مشاہداتی جائزہ

معاشرتی وہم و گمان کی کرشمہ سازیاں، شرف زہرہ کے مزید مؤثر اوقات
اکثر خطوط، ای میلز یا فون پر لوگ جب اپنے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اکثریت کا دل و دماغ کسی پراسرار گتھی میں الجھا ہوا نظر آتا ہے،وہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نہایت پراسرار قسم کا معاملہ ہے جو کسی طرح بھی قابو میں نہیں آتا، وہ ہر طرح کا علاج معالجہ کرچکے ہیں لیکن ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، جسمانی بیماریاں ہوں یا معاشی مسائل ، ازدواجی الجھنیں ، شادی میں تاخیر کے معاملات ، دو افراد کے درمیان ناچاقی، طلاق، کاروبار میں نقصان، الغرض کوئی بھی مسئلہ ہو، لوگ بالآخر اسے کسی نہ کسی جادو ٹونے یا آسیب و جنات سے جوڑ لیتے ہیں، مزید یہ کہ اس حوالے سے ان کے شبہے کو تقویت دینے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، ہمارے نام نہاد پیر فقیر اور عامل کامل ان کے یقین کو مزید مضبوط کردیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بھی پاکستان اور بیرون ملک سے کچھ اسی نوعیت کے خطوط اور ای میلز ہمیں ملے ہیں اور تقریباً سب کا یہی خیال ہے کہ وہ کسی آسیبی چکر میں پھنسے ہوئے ہیں یا پھر ان کے دشمن ان کے خلاف کوئی تعویذ یا عمل کراتے ہیں ، حالاں کہ ان تمام کیسز میں ایک کیس بھی ایسا نہیں تھا جس میں کسی آسیب یا جادو کی کارفرمائی نظر آئے اور تقریباً سب ہی یہ بھی بتارہے ہیں کہ فلاں اور فلاں اور فلاں نے کہا ہے کہ آپ پر بڑی سخت بندش کی گئی ہے یا آپ کے گھر میں آسیبی اثرات ہیں وغیرہ وغیرہ۔
آج کی نشست میں اسی صورت احوال پر گفتگو ہوگی اور اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر کہیں واقعی آسیب و جنات یا سحروجادو کا معاملہ ہے بھی تو وہ باآسانی پاکیزگی اور کلام الٰہی کی برکت سے ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس نفسیاتی یا دیگر جسمانی امراض کے سبب اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہوگئی ہو تو پھر ان طریقوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا، بلکہ اس صورت میں ضروری ہوگا کہ مریض کی پوری کیس ہسٹری کا جائزہ لے کر مرض کے اصل سبب کو جاننے کی کوشش کی جائے لیکن نہایت افسوس ناک بات یہ ہے کہ مریض عموماً خود تو اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ معالج سے بھرپور تعاون کرے لیکن مریض کے لواحقین بھی اس سلسلے میں وہ تعاون نہیں کرتے جو انہیں کرنا چاہیے اور اس کی سب سے بڑی وجہ وہ جہالت آمیز تصورات اور نظریات ہیں جو جنات، آسیب، بدارواح اور سحرو جادو کے حوالے سے پھیل گئے ہیں۔
ان نظریات و تصورات کے تحت جہاں لوگ ہر قسم کی پیچیدہ بیماری کو خواہ وہ نفسیاتی ہوں یا جسمانی، سحروآسیب کی کار گزاری سمجھنے لگتے ہیں وہیں ان کے علاج کے سلسلے میں بھی وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ بس کوئی پھونک مار دے اور مریض اچھا ہوجائے یا کہیں سے کوئی ایسا نقش، تعویذ یا طریقہ مل جائے جو چند دنوں میں مریض کو صحت یاب کردے، حد یہ کہ اپنی نا اہلی، نالائقی ، کاہلی، سستی، بے ہنری، بے علمی یا حالات و وقت کی گردش کے سبب پیدا ہونے والی بدحالی، مفلسی، بے روزگاری الغرض ہر قسم کے اقتصادی اور معاشرتی مسائل کی زیادتی کو بھی جب سحروجادو اور آسیب و جنات کی کارروائی قرار دیا جاتا ہے تب بھی یہی توقع کی جاتی ہے کہ بس کہیں سے کوئی ایسی شے مل جائے جو چند دنوں میں ہمارے حالات بدل کر رکھ دے جب کہ یہ ممکن نہیں ہوتا۔
فطرت کے قوانین اپنی جگہ اٹل ہیں، ان کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے، فطری قوانین کے تحت ہی تعمیر اور تخریب کا عمل انجام پاتا ہے ، یہ ممکن نہیں ہے کہ جو عمارت ایک سال میں تعمیر ہوسکتی ہو اسے ایک دن میں تعمیر کرلیا جائے، اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو عمارت ناپائیدار، نقصان دہ ثابت ہوگی مگر کیا کیا جائے کہ لوگ آج بھی کرامات اور معجزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کرامات اور معجزے بھی قوانین اور فطرت کے پابند ہیں یعنی ان کے ظہور کے لیے فطرت نے کچھ شرائط مقرر کردیں اور ہر جگہ ہر معاملے میں ان کا اطلاق ممکن نہیں، انبیاء ہوں یا اولیاء سب قوانین فطرت کے پابند ہوتے ہیں اور معجزوں یا کرامات کا ظہور ان کی ذات سے انتہائی خاص مواقع پر ہی منسوب ہوا ہے، انبیاء کو معجزاتی صفت دین کی سربلندی اور اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کے مشن کے لیے تفویض کی گئیں، یہی صورت اولیاء کرام کے ساتھ رہی ان کی ذات سے بھی کرامات کا ظہور صرف اس صورت میں ہوا جب وہ اللہ کے دین کی نشرواشاعت کے کام میں مصروف ہوئے، اپنی ذات اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ان صفات کو کبھی استعمال نہیں کیا گیا، اہل تصوف میں اس ولی کا درجہ کم تر مانا گیا ہے جس کی ذات سے کرامات کا اظہار (یعنی خوارق عادات کا ظہور) جاوبے جا وقتاً فوقتاً کثرت سے ہوتا رہے اور اس میں ولی کے ارادے کو بھی دخل ہو، ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب کوئی راہ سلوک کا مسافر ابتدائی منازل میں ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی زیادہ پی کر بہکنے لگے، کوئی پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگے، ایسے مرحلوں میں مرشد کامل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ورنہ اکثر غلط راہ پر پڑ کر ذہنی توازن بھی کھو بیٹھتے ہیں یا شیطان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
انبیاء اور اولیاء کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی اور ان کے عزیزو اقرباء کی ذاتی زندگیاں مادی مسائل اور پریشانیوں سے لبریز رہی ہیں اور ان کے حل کے لیے انہوں نے کبھی اپنی ان قوتوں کو استعمال نہیں کیا جو کائنات میں تصرف کے لیے انہیں حاصل ہوتی ہیں، اسی طرح حاجت مندوں کی حاجت روائی میں بھی ’’خوارق عادات‘‘ کا ظہور انتہائی خاص خاص مواقع پر ہی نظر آتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بالآخر کوئی بہت بڑی آفاقی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے، بات کہاں سے کہاں نکل گئی، یہی موضوع چلتا رہا تو ہم اپنے اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے لہٰذا واپس اصل موضوع کی طرف آئیے۔
ہوتا یوں ہے کہ جب ہم کسی بیماری کے علاج معلاجے میں مستقل ناکام ہوتے رہتے ہیں تو پھر ذہن فوراً کسی نادیدہ پراسرار قوت کی مداخلت کی طرف چلا جاتا ہے، میڈیکل سائنس اور دیگر جدید علوم سے ناواقفیت کے سبب ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم برسوں جن معالجین کے زیر علاج رہے انہوں نے ہمارا علاج درست کیا یا غلط؟ یا وہ ہمارے مرض کی صحیح تشخیص بھی کرسکے یا نہیں لہٰذا مہینوں برسوں کے مختلف علاج معالجوں کے بعد آخر انسان یہی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کی بیماری کسی ماورائی نوعیت کی ہے جو اتنے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے قابو میں نہیں آرہی۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عام علاج معالجے کی صورت حال بھی نہایت ناقص اور خراب ہوچکی ہے، اول تو اعلیٰ درجے کے مخلص معالجین کی شدید قلت ہے اور جو ہیں ان کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیات اور کمرشل تقاضے انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی پیچیدہ کیس پر اپنے مقررہ وقت سے زیادہ وقت صرف کرسکیں، ایسی صورت میں وہ خود معاشی پریشانیوں کا شکار ہوسکتے ہیں، یہ صورت حال عام مادی پریشانیوں کے حوالے سے ہے، نفسیاتی اور روحانی امراض کا ذکر تو چھوڑیے کیوں کہ یہ وہ شعبہ ہے جو ہمارے ملک میں انتہائی غریب اور ضعیف ہے، اس شعبے میں تحقیقاتی کام کسی بڑے ادارے کی نگرانی میں باضابطہ طور پر نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ انفرادی طور پر ضرور کچھ مخلص افراد کام کرتے رہے ہیں۔
نفسیاتی علاج معالجے کے حوالے سے ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ وہ لگے بندھے اصول پر جاری ہے جس کی وجہ سے نفسیاتی مریض عارضی طور پر پرسکون ضرور ہوجاتا ہے مگر مکمل طور پر شفایاب نہیں ہوتا اور ماہرین نفسیات اس سے صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کہ دوائیں تو آپ کو عمر بھر کھانا پڑیں گی پھر طویل عرصے تک ان دونوں کے استعمال سے جو دیگر عوارض جنم لیتے ہیں وہ مریض کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتے، سب سے پہلے تو اس کا دماغ ہی متاثر ہوتا ہے اور پھر دیگر اعضائے جسمانی کی کارکردگی بھی وہ نہیں رہتی جو ہونا چاہیے، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں نفسیاتی علاج معالجہ اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی خصوصاً غریب آدمی اس کے اخراجات زیادہ دن برداشت ہی نہیں کرسکتا پھر ڈاکٹر کا یہ کہنا بھی اسے اس علاج سے بے زار کردیتا ہے کہ ’’دوائیں تو آپ کو عمر بھر کھانا پڑیں گی‘‘۔
ہمارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال سے ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کر رہے ہیں اور اب ان دواؤں کے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ وہ دوائیں ان کی ایسی ضرورت بن چکی ہیں جیسے ایک ہیروئنچی کی ضرورت ہیروئن یعنی وہ دوا نہ لیں تو جسم اس کی طلب شدت سے کرتا ہے، ہسٹیریا، مرگی، شیزوفرینیا وغیرہ کے مریضوں کے نفسیاتی علاج میں بھی یہی صورت مشاہدے میں آرہی ہے اور کسی ایک مریض کو بھی ہم نے شفایاب ہوتے نہیں دیکھا بلکہ روز بروز اس کی حالت کو بد سے بدتر ہوتے ہی دیکھا۔
نفسیاتی علاج کی مہنگائی اور عارضی فوائد کی وجہ سے لوگ روحانی علاج کی طرف رجوع کرتے ہیں، روحانی علاج معالجے اور روحانی معالجین کا حال مزید خراب ہے، اس شعبے میں نہ باقاعدہ تعلیم و تربیت کا رواج ہے اور نہ ہی کوئی تحقیق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے، اس شعبے سے وابستہ اکثر معالجین کی اپنی علمی و روحانی حیثیت ہی مشکوک ہوتی ہے، روحانی کا ذکر تو چھوڑیے اکثر معالجین دنیاوی علوم ہی سے نابلد نظر آتے ہیں، مخصوص گیٹ اپ کے ساتھ کلام الٰہی سے علاج کا نعرہ ایسے معالجین کی شناخت بن گیا ہے، کلام الٰہی سے انہیں صرف اتنی ہی واقفیت ہوتی ہے جتنی ہر قرآن پڑھے ہوئے مسلمان کو یا بازار میں دستیاب قرآنی اعمال و نقوش کی کتابوں سے جو کچھ معلومات حاصل ہوگئیں وہی عمر بھر کے لیے کافی ہیں، ایسے لوگ عموماً اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمارا علم خاندانی ہے، سینہ گزٹ کی طرح سینہ بپہ سینہ چل رہا ہے لہٰذا اس پر کوئی علمی و تحقیقی گفتگو بھی نہیں ہوسکتی نہ ہی وہ عام لوگوں پر ظاہر کیا جاسکتا ہے، ایسے معالجین کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو مالی منفعت کے لیے یہ روپ بھرتے ہیں اور دوم وہ جن کا نعرہ ’’خدمت خلق فی سبیل اللہ‘‘ ہوتا ہے، دوسری قسم کے معالجین کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے، اس لیے زیادہ معتبر قرار دیے جاتے ہیں اور لوگ ان کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین بھی کرلیتے ہیں ، یہ قسم دوم معاشرے میں زیادہ پائی جاتی ہے بلکہ ہر گھر اور محلے میں موجود ہے اور اپنی ناقص معلومات کے سبب خلق خدا کو سب سے زیادہ نقصان انہیں کے ذریعے پہنچتا ہے، اس میں شک نہیں کہ ان کے دم درود میں واقعی اثر ہوتا ہے مگر یہ مرض کی درست تشخیص نہیں کرسکتے بلکہ ہر مریض پر بندش، سحر، آسیب اور جنات کا فتویٰ لگاکر اسے چھو چھا کے کام پر لگادیتے ہیں، مرض خواہ کوئی بھی ہو اگر کلام الٰہی پڑھ کر کوئی عابد و زاہد شخص دم کرے یا کوئی پانی پڑھ کر دے یا نقش لکھ کر باندھے تو مریض کو عارضی ہی سہی، افاقہ و آرام تو ضرور محسوس ہوگا، اب اسے یہ یقین آجائے گا کہ اس کا مرض نفسیاتی یا جسمانی نہیں ہے بلکہ آسیبی یا ماورائی ہے اور یہ نظریہ بھی عام ہے کہ ایسی صورت میں علاج بھی روحانی یا ماورائی ہی ہوگا، بس یہیں سے معاملہ غلط ہوجاتا ہے، ہونا یہ چاہیے کہ پیچیدہ امراض کے علاج میں روحانی امداد کے ساتھ معقول مادی علاج پر بھی توجہ دی جائے اور اسے ترک نہ کیاجائے تو مکمل شفا تک پہنچنا ممکن ہوسکے گا۔
ایک بار ہم نے اپنے ایک ناکام کیس کا تذکرہ کیا تھا جو درحقیقت صرف اس لیے ناکام رہا کہ لڑکی کی ماں کی جہالت اور گھر کا ماحول اسے صحت مند نہیں ہونے دیتا تھا، وہ اصل میں مرگی کی مریضہ تھی لیکن اس کی ماں بضد تھی کہ یہ کسی جن کے زیر اثر ہے لہٰذا پابندی سے اس کا معقول علاج کرانے کے بجائے مختلف پیروں، عاملوں، کاملوں کے دروازوں کے چکر لگاتی رہتی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً پندرہ سال سے اس کا مختلف طریقوں پر علاج ہورہا تھا اور وہ ایلو پیتھک دوائیں جو مرگی کے مریض کو دی جاتی ہیں پابندی سے استعمال کر رہی تھی کیوں کہ ان دواؤں کے سہارے کے بغیر گزارہ ہی نہیں تھا مگر اس کھلی حقیقت کے باوجود اس کے ماں باپ کی آنکھیں کبھی نہیں کھلیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے مریضوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو خود پر زبردستی کے جن بھوت اور آسیب چڑھائے پھر رہے ہیں یا اپنی دانست میں سحروجادو کا شکار ہیں، اس موضوع کی ابتدا ہی میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ ہمیں جنات، آسیب، ہمزاد یا سحروجادو کی حقیقت سے انکار نہیں مگر ہماری ذاتی تحقیق و مشاہدہ یہ ہے کہ حقیقی آسیب زدہ یا سحر زدہ مریضوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے، 99 فیصد مریض جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، اب یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ یہ بھیانک اور لاعلاج، ساتھ ہی حیرت انگیز بیماریاں کس طرح جنم لیتی ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں جنات وغیرہ کے کھاتے میں ڈال کر روحانی علاج کے نام پر نت نئے تماشوں سے گزارا جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ مریض موضوع بحث آنا ضروری ہیں جو ہر گز جنات، آسیب وغیرہ کے زیر اثر نہیں بلکہ اپنے فکروخیال کے جنات ہمزاد ہی پالے بیٹھے ہیں، ان مریضوں کا علاج زیادہ مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے، جنات وغیرہ تو انسان کی ذرا سی سختی اور کلام الٰہی کے سامنے ایک منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتے، وہ تو خود حضرت انسان سے خوف زدہ رہتے ہیں، یہ تو ہمارے اپنے پیدا کردہ جنات و شیاطین ہیں جن پر ہر کلام نرم و سخت بے اثر ہوجاتا ہے، انہیں ختم کرنے یا ان سے نجات پانے کے لیے اگر ہم خود تیار نہیں ہوں گے تو کبھی ان سے چھٹکارا نہیں مل سکے گا، آپ نے دیکھا ہوگا (ہم تو دیکھتے ہی رہتے ہیں) کہ ایسے مریض برسوں بیمار رہتے ہیں یعنی آسیب زدہ کہلاتے ہیں مگر ان کا جسمانی طور پر کچھ نہیں بگڑتا یعنی کوئی جن بھوت انہیں جان سے مارنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ جسمانی طور پر خاصے چست اور توانا رہتے ہیں، کھانا پینا اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی کے دیگر امور انجام دینا جاری رہتا ہے، اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں ہوتی، ایسی صورت میں فوراً دورہ پڑجاتا ہے جو کچھ دیر جاری رہ کر خود بخود ختم ہوجاتا ہے یا کچھ پڑھ کر دم وغیرہ کرنے سے بھی دور ہوجاتا ہے، اگر وہ بات جو دورے کا سبب بنی تھی دوبارہ نہ ہو تو پھر ٹھیک رہتے ہیں، اسی طرح عمر گزرتی رہتی ہے، یہاں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ ایسے مریضوں کو لاحق ہونے والی بعض جسمانی بیماریوں اور دیگر تکالیف کا حوالہ دیا جاسکتا ہے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، بیماریاں اور جسمانی تکالیف ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں، البتہ ایسے لوگوں میں ان کی زیادتی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سرفہرست توان کا غیر شادی شدہ ہونا ہی ہوتا ہے، انسان عورت ہو یا مرد اگر بلوغت کے بعد زندگی قدرتی تقاضوں سے دور رہے گی تو یہ فطرت سے جنگ ہوگی اور اس جنگ میں شکست در حقیقت انسان ہی کے حصے میں آئے گی، یوں سمجھ لیں کہ رات اللہ نے آرام کے لیے بنائی ہے، رات میں سونا، صبح جلدی اٹھنا، درست وقت پر کھانا پینا، دیگر حوائج ضروری سے فراغت پانا یعنی تمام جبلی تقاضوں کو پورا کرنا ہی ایک صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے ، اس کے برخلاف جو زندگی گزارتا ہے وہ فطری تقاضوں کو نظر انداز کرکے اپنے جسم و جاں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے اور اس زیادتی کے نتائج بد بالآخر ذہنی و جسمانی طور پر ضرور ہوتے ہیں۔
اب ایسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں جن میں شادی کے بعد بھی ایسے مریض ٹھیک نہیں ہوتے یا شادی شدہ افراد کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور وہ کسی آسیبی چکر کا شکار ہوتے ہیں تو پہلی صورت میں ایسا تب ہی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بھی مریض یا مریضہ کی مرضی کے خلاف کوئی صورت حال موجود ہو اور شادی شدہ کی اپنی ازدواجی زندگی کے دوران میں کوئی ذہنی و نفسیاتی بیج پڑگیا ہو، ایسے تمام آسیب زدہ شہرہ آفاق ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ کے نظریے کے مطابق تو اَنا گزیدہ ہیں یعنی ان کی انا شدید طور پر مجروح ہوئی ہے اور پھر انہیں احتجاج یا جوابی کارروائی کی توفیق بھی نہ ہوسکی، انہوں نے اپنے دل و دماغ میں اپنی روح میں برپا ہونے والے غم و غصے کے طوفان کو دبالیا، بس پھر یہی طوفان جن یا آسیب کی شکل میں نمودار ہوکر پورے گھر یا خاندان کے لیے عذاب بن گیا یا خود آسیب زدہ کے لیے مصیبت بن گیا کیوں کہ ہم نے ایسی دونوں صورتیں دیکھی ہیں۔
ہسٹیریا، شیزوفرینیا، ڈپریشن اور مرگی وغیرہ کے حوالے سے ہم پہلے لکھ چکے ہیں، یہ بیماریاں ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہیں، خصوصاً ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد روز بروز ترقی کر رہی ہے، اس کی وجہ ملک کے اقتصادی حالات ہیں جن کی وجہ سے ہر گھر مفلسی و تنگ دستی کا شکار ہوکر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے، اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خواتین ہیں کیوں کہ ایک خوش حال معاشرے میں لڑکیوں کی شادی اور شادی کے بعد ازدواجی زندگی کی خوشیوں کا دارومدار ہی معاشی کشادگی سے وابستہ ہوتا ہے، بصورت دیگر وہ خواب بکھرنے لگتے ہیں جو برسوں سے آنکھیں دیکھ رہی تھیں، اس معاملے میں ہمارے ملکی اور غیر ملکی ٹی وی چینلز بھی انتہائی منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور خواتین کے رسالے یا شو بزنس کے میگزین و اخبار کا کردار بھی ہر گز قابل تعریف نہیں، ذرائع ابلاغ کے یہ مراکز اپنے ڈراموں، کہانیوں وغیرہ میں عام زندگی کے جو رخ پیش کر رہے ہیں وہ ایک مخصوص طبقے کی عکاسی کرتے ہیں، یہ دولت مند طبقہ ملک کی پوری آبادی کے لیے آئیڈیل نہیں ہوسکتا لیکن ہر گھر میں ٹی وی موجود ہے، رسائل اور اخبار بھی پڑھے جاتے ہیں جن کے ذریعے معصوم اور کچے ذہن اپنی آنکھوں میں وہ ماحول بسا لیتے ہیں جو وہ ڈراموں، فلموں اور کہانیوں میں دیکھتے ہیں لیکن انہیں اپنی حقیقی زندگی میں وہ کہیں نظر نہیں آتا، ہاں اس کے خواب ضرور وہ دیکھنے لگتے ہیں، یہ خواب لاشعور کو آہستہ آہستہ پرورش کرتے رہتے ہیں اور اندر ہی اندر محرومیوں کا احساس پرورش پاتا رہتا ہے جو کسی بھی وقت کوئی بھی بہروپ دھار سکتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک ایسے مریض زیادہ توجہ طلب ہیں اور ان کا علاج صرف جھاڑ پھونک، دعا تعویذ سے ممکن نہیں، ایلو پیتھک طریقہ علاج والے ایسے مریضوں کو ماہرین نفسیات کے حوالے کرتے ہیں، ماہرین نفسیات کے حوالے سے ہم لکھ چکے ہیں کہ وہ جو مکھی پہ مکھی مار رہے ہیں اس کے نتیجے میں ہم نے کسی مریض کو مکمل طور پر شفایاب ہوتے نہیں دیکھا، روحانی علاج کے مروجہ اصولوں پر بھی بات ہوچکی تو پھر اب کیا کیا جائے؟
طویل مشاہدے اور مطالعے کے بعد اور تجربات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ صرف ہومیو پیتھی ہی وہ طریقہ علاج ہے جس کی مدد سے ایسے مریضوں کا شافی و کافی علاج ممکن ہے، ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم ہومیو پیتھی کو مادی طریقہ علاج سے زیادہ روحی طریقہ علاج سمجھتے ہیں لیکن اس سلسلے میں بھی مزید تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہے اور یہ کام سرکاری سرپرستی میں ہونا چاہیے، ہمارے ہاں موجود عام ہومیو پیتھ ناقص طریقہ تعلیم اور اعلیٰ درجے کی پریکٹس کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ہومیوپیتھی کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں اور جو اعلیٰ درجے کے ہومیو پیتھ موجود ہیں انہیں عام نوعیت کی مادی بیماریوں کے علاج ہی سے فرصت نہیں یا پھر ان کے پاس ایسے پیچیدہ کیسوں میں سر کھپانے کا حوصلہ ہی نہیں کہ آمدن کم اور کام زیادہ والا معاملہ ہوجاتا ہے، دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مریضوں اور ان کے سرپرستوں میں ہومیوپیتھی کے حوالے سے غلط تصورات پیدا ہوگئے ہیں وہ اس طریقہ علاج کو بھی ایلو پیتھک طریقہ علاج کے تناطر میں دیکھتے ہیں۔
شرفِ زہرہ
شرف زہرہ کے سلسلے میں شرف کے وقت کی پہلے ہی نشان دہی کی جاچکی ہے اور یونانی علم نجوم کے مطابق یہ وقت 3 جون کو تھا، اس موقع پر اسم الٰہی العلی کا خصوصی نقش دیا گیا تھا جو خاص طور پر لڑکیوں کی شادی اور ازدواجی زندگی کے مسائل ، لوگوں میں مقبولیت ، شوہر سے محبت جیسے معاملات میں معاون و مددگار ہوتا ہے،وہ لوگ جنہوں نے 3 جون کے وقت سے فائدہ اٹھایا ، مبارک باد کے مستحق ہیں، اس وقت طلسم زہرہ کی انگوٹھی بھی تیار کی جاتی ہے اور لوح زہرہ نورانی یا لوح تسخیر بھی تیار ہوتی ہے،ضرورت مند اس سلسلے میں براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں نشان دہی کی تھی کہ اگر ویدک سسٹم کے مطابق زہرہ کے باقوت اوقات میں یہ چیزیں تیار کی جائیں تو ہمارے تجربے کے مطابق زیادہ ذود اثر ثابت ہوتی ہیں، ممکن ہے ہماری بات سے روایتی طور طریقوں پر کاربند رہنے والے حضرات اتفاق نہ کریں لیکن ہم اپنا تجربہ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہو۔
علم نجوم ایک سائنس ہے اور اس سائنس کے دنیا میں دو اسکول آف تھاٹ ہیں، ایک کو نریانہ سسٹم کہا جاتا ہے اور دوسرے کو سیانہ ، دونوں سسٹم سے متعلق ماہرین اپنے اپنے سسٹم میں رہتے ہوئے علم نجوم کی پریکٹس کرتے ہیں اور مفید نتائج حاصل کرتے ہیں، ہمارے ملک میں اس سائنسی مسئلے کو ہندو مسلم مسئلہ بناکر بے جا اعتراضات کیے جاتے ہیں جو درست نہیں ہیں۔
اس بار ہم سیارہ زہرہ کے باقوت اور شرف یافتہ دیگر اوقات کی بھی نشان دہی کر رہے ہیں جو نریانہ سسٹم یعنی ویدک سسٹم کے مطابق ہیں، ہمیں امید ہے کہ جو لوگ ان اوقات سے کام لیں گے وہ ان کے بہترین نتائج خود ملاحظہ کریں گے۔
نریانہ سسٹم کے مطابق سیارہ زہرہ دو مارچ کو برج حوت میں داخل ہوا ہے اور تقریباً اس ماہ کے آخر تک اپنے شرف کے برج میں رہے گا، 6 مارچ کو یہ نہایت باقوت اثرات کا حامل ہوگا، اس روز کراچی لوکل ٹائم کے مطابق 12:25 pm سے 01:07 pm تک ایسا وقت ہوگا جس میں شرف زہرہ کا کوئی بھی کام کیا جائے تو نہایت مؤثر ثابت ہوگا، اس کے بعد 6 تاریخ ہی کو دوپہر 02:39 pm سے 03:24 pm تک مؤثر وقت ہوگا۔
اس ماہ میں ایسے اوقات مزید بھی نکالے جاسکتے ہیں، خیال رہے کہ نقش و طلسمات کی تیاری کا یہ طریقہ ہاؤس بیس سسٹم کہلاتا ہے اور دنیا بھر میں رائج ہے، پاکستان میں اس طریقے سے واقفیت رکھنے والے کم ہیں کیوں کہ زیادہ تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جو لکیر کے فقیر اور چند کتابوں اور رسالوں سے نقل در نقل کے ذریعے کام چلاتے ہیں اور اپنے عامل و کامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،اللہ بس باقی ہوس۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں