پیر، 23 اکتوبر، 2017

اک اور کہانی بھی کہانی سے الگ ہے

دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی احساس کمتری میں ضرور مبتلا ہے
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آج کل افواہوں کا بازار گرم ہے،کبھی ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہ سنائی دیتی ہے تو کبھی کسی ایمرجنسی کی باتیں سامنے آتی ہیں، گزشتہ دنوں معاشی امور کے حوالے سے فوجی اور سیاسی حلقوں میں بیانات کی خاصی گرم بازاری رہی لیکن اب یہ معاملہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوگیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ زائچہ ءپاکستان میں جاری سیاروی گردش مختلف پھلجڑیاں سامنے لاتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا، سب سے زیادہ اہم زائچہ ءپاکستان میں اس وقت ایک اہم نظر جو گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے قائم تھی اور 27 اکتوبر کو ختم ہوگی، وہ راہو اور زحل کے درمیان بننے والا زاویہ تھا، یہ نظر پیدائشی زائچے میں بھی موجود ہے،زحل چوں کہ دسویں یعنی حکومت اور کابینہ سے متعلق سیارہ ہے اور راہو سیاست اور فریب و فراڈ کا سیارہ ہے لہٰذا پاکستان میں سیاست کبھی قابل بھروسا نہیں رہی اور جب کہ یہ نظر قائم ہے تو موجودہ سیاسی نظام اور سیاست داں بری طرح اپنا اعتماد کھو رہے ہیں، حکومت اور کابینہ کا جو حال ہے وہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، ملکی حالات میں 3 نومبر تا 5 نومبر اہم تنازعات رونما ہوسکتے ہیں جن سے نئے مباحث جنم لیں گے۔
چوں کہ سیارگان کی کثرت زائچے کے چھٹے گھر کی جانب ہے لہٰذا آئندہ ماہ تک زیادہ فعالیت فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کی نظر آئے گی، البتہ یکم دسمبر سے سیارہ مریخ بھی زائچے کے چھٹے گھر میں داخل ہوگا تو اس کے بعد ایک زیادہ حساس وقت کا آغاز ہوسکتا ہے جس میں عدلیہ ، فوج اور بیوروکریسی کو خصوصی ہدف بنایا جاسکتا ہے،آئینی ترامیم یا نئی قانون سازی کے حوالے سے بھی کوئی نیا شوروغوغا سامنے آسکتا ہے،عدلیہ کے فیصلے اور ان کے حوالے سے رد عمل بھی دیکھنے میں آئے گا، وقت زیادہ حساس ہو تو کوئی ناخوش گوار صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے جو پوری بساط ہی پلٹ دے۔
پاکستان میں معیشت کی زبوں حالی کا چرچا گزشتہ دنوں رہا اور اب یہی صورت حال انڈیا میں نظر آتی ہے کیوں کہ دونوں ملکوں کے زائچوں میں طالع برج ثور ہے،انڈیا میں معیشت پر دباو ¿ کے علاوہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر بھی اس وقت شدید دباو ¿ ہے،تھوڑی سی دیر سویر کے ساتھ دونوں ملکوں میں اکثر صورت حال میں یکسانیت دیکھنے میں آتی ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت تاحال ایک تماشا ہے جب کہ انڈیا میں جمہوری عمل بہر حال جاری و ساری ہے، ہماری عدلیہ کو آزادانہ طور پر کام کرنے کے مواقع نہیں مل سکے،انڈیا میں عدلیہ زیادہ آزاد اور فعال ہے۔
حسب روایت ہمارے ایک محبوب شاعر عارف امام کا تازہ شعر نظر قارئین ہے
کردار ہے اک اور بھی کردار کے اندر
اک اور کہانی بھی کہانی سے الگ ہے
احساس کمتری
ہم جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں قدم قدم پر نت نئے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اور کبھی کبھی کوئی مسئلہ ایسی پیچیدہ نوعیت بھی اختیار کرلیتا ہے جو خود ہماری عقل و فہم سے بالاتر ہوتی ہے لیکن یاد رکھیے کہ مسئلہ خواہ کچھ بھی ہو اور کیسی ہی پیچیدہ نوعیت کیوں نہ اختیار کرگیا ہو اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور موجود ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ہماری عقل و فہم کی رسائی اس حل تک نہ ہو پارہی ہو،یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس مسئلے کو بالکل ہی غلط انداز میں دیکھ رہے ہوں اور غلط طریقے پر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ، اس سلسلے میں ایک خط ملاحظہ کیجیے جو ہمیں ”س ع“ صاحبہ نے تحریر کیا ہے، وہ لکھتی ہیں۔
”میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حالات و مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، ذہنی مریضہ بن چکی ہوں، اپنے آپ کو اس دھرتی پر، اپنے گھر والوں پر اور خود کو خود پر بوجھ سمجھتی ہوں، میں چاہتی ہوں مجھ میں جو برائیاں اور خامیاں ہیں اور جو کچھ بھی میرے دل میں ہے، میں اسے تحریر کردوں، میں اپنی وہ پریشانیاں آپ کو لکھنا چاہتی ہوں جنہوں نے میری زندگی بالکل بے سکون کردی ہے اور مجھے کسی گھڑی بھی سکون میسر نہیں ہے، میں اپنی شخصیت سے بہت پریشان ہوں، میری اپنی ذہنیت اپنے متعلق ٹھیک نہیں ہے، کوئی کام کرنے کی صلاحیت نہیں، میں بالکل بے کار چیز ہوں، میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں مگر سب کہتے ہیں کہ میں سب سے چھوٹی لگتی ہوں، معلوم نہیں کیوں ہر کوئی مجھے دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ تم سب سے چھوٹی ہو، اس وجہ سے میں شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوں، میری بہنیں مجھ سے بڑی لگتی ہیں اسی وجہ سے میں ان میں نہیں بیٹھتی، اگر گھر میں مہمان آجائیں تو میں پریشان ہوجاتی ہوں کہ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو وہ کہیں گے کہ یہ سب سے چھوٹی لگتی ہے یا یہ کمزور ہے، یہ سن کر میں مایوس ہوجاتی ہوں، ان کی بات سے مجھے غصہ آتا ہے، ہر وقت یہی الفاظ ذہن میں گھومتے رہتے ہیں کہ کیا میں واقعی کمزور ہوں؟ کیا کہنے والے نے سچ کہا ہے یا پھر مجھ میں ہی شاید کسی چیز کی کمی ہے؟
”میں شروع سے ہی بڑی تنہائی پسند لڑکی تھی جو کسی نے دیا، کھالیا جس کسی نے پہنایا، پہن لیا، اپنی کوئی پسند یا ناپسند نہیں تھی، پہلے میرے والدین میرا بہت خیال رکھتے تھے، مجھے بہت پیار کرتے، میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی مگر جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی تُوں تُوں میرے لیے ان کے پیار میں کمی آتی گئی، اب تو یہ حال ہے کہ مجھے کوئی پسند ہی نہیں کرتا، یہاں تک کہ میرے بہن بھائی، میری والدہ بھی ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں، میں سوچتی ہوں شاید مجھ میں بڑوں والی کوئی بات ہی نہیں ہے، اصل پریشانی کا سبب یہی ہے کہ میں بہت کمزور ہوں اور لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنے آپ کو اسمارٹ نہیں بناسکی، میری بھی یہ خواہش ہے اور یہ تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جائے، اس کی قدر کی جائے، اس کی تعریف کی جائے مگر میں نے تو بچپن سے آج تک اپنی تعریف میں ایک لفظ تک نہیں سنا، کوئی کام بھی کیا تو ڈانٹ پھٹکا رہی سننے کو ملی، پہلے میں ٹھیک تھی مگر جوں جوں بڑی ہوتی جارہی ہوں گھر والوں کی نظر میں بلکہ اپنی نظر میں بھی خود کو کمتر محسوس کرتی ہوں، ہر وقت ذہن میں یہی الفاظ گونجتے رہتے ہیں کہ میں کمزور ہوں، کیا میں واقعی کمزور ہوں؟ کبھی اس کا جواب ہاں میں کبھی کبھار نہیں میں آتا ہے۔
”اگر میں خوب صورت ہوتی تو میری بھی تعریف ہوتی، میری بھی قدروعزت ہوتی مگر افسوس کہ میں اپنے ذہن میں اچھے الفاظ نہیں سوچ سکتی اور نہ اپنے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کرسکتی ہوں جو میری زندگی کو دوسروں کے لیے باعزت بنادیں، میرا ذہن ہر وقت ذرا ذرا سی بات پر پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے، شاید میری شخصیت کے دو رخ بن گئے ہیں، کبھی میرا ذہن خاصا طاقت ور محسوس ہوتا ہے اور کبھی بہت کمزور محسوس ہوتا ہے ، پتا نہیں میرا ذہن ایسا کیوں ہوگیا ہے اور مجھے ہر وقت پریشانی کیوں گھیرے رہتی ہے ، آخر مجھے بھی خوش ہونے کا حق ہے مگر میرا دل بالکل نہیں لگتا، نہ ہی میرا کوئی دوست یا ہمدرد ہے، شاید اس کی وجہ بھی میری کمزوری ہے یا وہ رد عمل ہے جو ہر وقت میرے سر پر سوار رہتا ہے ، میرے ذہن میں ہر وقت یہی خیالات گھر کیے رہتے ہیں کہ کوئی مجھ سے اس لیے نہیں بولتا کیوں کہ میں کمزور ہوں یا میری شکل اچھی نہیں ہے، مخاطب سے بات کرتے وقت میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ میری باتوں سے خوش ہو مگر معلوم نہیں کیوں اس کے سامنے زبان بند ہوجاتی ہے اور ہر وقت یہی فقرہ سننے کے خیال میں رہتی ہوں کہ کہیں گفتگو کے درمیان سامنے والا میرے اندر کوئی نقص تلاش نہ کرلے یا یہ نہ کہے کہ بھئی بڑی کمزور لگ رہی ہو، کیا کچھ کھاتی پیتی نہیں ہو؟
”مجھ میں یہ بری عادت بھی ہے کہ ہر کسی کی باتوں کا اثر بہت لیتی ہوں اور دیر تک بات میرے ذہن کو پریشان کیے رہتی ہے کہ کہنے والے نے میرے بارے میں درست ہی کہا ہوگا، پھر میں اس کی بات کی روشنی میں اپنی شخصیت کا جائزہ لیتی ہوں اور یقین ہوتا ہے کہ کہنے والے نے میرے متعلق ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
”لوگوں کی باتوں نے میرے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا ہے اور مجھے دل برداشتہ کردیا ہے، اب میرے منگیتر ملتان سے آنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کریں گے، وہ تو بہت خوب صورت لمبے اور گورے رنگ کے مالک، پڑھے لکھے ہیں جب کہ میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں لہٰذا یہی فکر لگی رہتی ہے کہ وہ آئے تو کیا ہوگا؟آخر پریشانی کیوں میرے ذہن پر سوار رہتی ہے؟ کیا میری رائے اپنے بارے میں اچھی نہیں ہوسکتی، میں خوب صورت نہیں بن سکتی؟ میں ذہنی طور پر خوب صورت بننا چاہتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ اچھی سوچ انسان کو اچھی چیزوں اور اچھائی کی طرف مائل کرتی ہے، یہ جو میں نے اپنے اوپر سکوت طاری کر رکھا ہے، ختم نہیں ہوسکتا؟ ایسا کون سا طریقہ اختیار کروں کہ اپنے اوپر بھرپور اعتماد اور بھروسا ہو، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاو ¿ں، ذہن سے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں، غم، غصہ اور اسی طرح کے منفی احساسات میرے قریب بھی نہ آئیں۔ 
”میرے اندر ایک بری عادت یہ بھی ہے کہ دوسروں کی نقل کرتی ہوں، لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہمیشہ میرے اندر یہی خواہش رہتی ہے کہ میں اس جیسی بن جاو ¿ں، اگر ایسا کیا تو اس جیسی لگوں گی، کسی فلم اسٹار کو دیکھوں تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح میں بھی اس جیسی نظر آو ¿ں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جیسا سوچوں ویسا ہی کرلوں، اتنی طاقت تو کسی انسان میں نہیں ہوتی کہ جیسا سوچے، اسی روپ میں خود کو ڈھال لے، کیا میرے دل سے ان لوگوں کا خوف اور ان کی شخصیت کا بوجھ، ان کے طعنوں کی جلن نکل نہیں سکتی جنہوں نے مجھے آج تک پریشان رکھا؟ کیا میں انہیں پریشان نہیں کرسکتی۔
”مجھ میں ہر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر کبھی کبھار لوگوں کے منفی رویّے سے غمگین ہوجاتی ہوں، براہ کرم میری کچھ رہنمائی کریں، مجھے اپنے ظلم کے ذریعے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ میں خوش گوار زندگی گزار سکوں“۔
جواب: س،ع صاحبہ! آپ نے اچھا کیا کہ سب کچھ تحریر کردیا، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہوگا جب بھی آپ کا ذہن الجھنوں کا شکار ہو، اپنے احساسات کو تحریر کرلیا کریں، اس سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا،اس سے آپ سکون محسوس کریں گی لیکن ایک بات آپ اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ نہ آپ ذہنی مریضہ ہیں، نہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار، آپ میں صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں ہے، آپ نے شاید کبھی محسوس نہیں کیا کہ آپ کو قدرت نے لکھنے کی صلاحیت بھی دی ہے، آپ نے اپنی کیفیات کو بہت عمدہ اور مو ¿ثر انداز میں تحریر کیا ہے،ا گر آپ کوشش کریں تو اچھی قلم کار بن سکتی ہیں، دنیا میں کوئی بھی فرد بے کار نہیں پیدا ہوا، قدرت نے ہر ایک کو صلاحیتوں سے نوازا ہے، جو لوگ دشواریوں پر اشک بہانے کے بجائے ان پر قابو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے، حوادث سے الجھ کر ہی ان پر قابو پایا جاتا ہے، ہمت ہار کر یا خوف زدہ ہوکر نہیں، آپ تمام بہن بھائیوں سے بڑی ہیں، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اگر آپ جسمانی طور پر کمزور ہیں اور کم عمر لگتی ہیں تو یہ کوئی خامی تو نہیں جو آپ خود کو کمتر محسوس کریں، آپ خود بتلائیں کسی بھی خاندان میں آپ نے تمام افراد کو جسمانی طور پر یکساں دیکھا ہے،ایسا کم ہی ہوگا ، کم عمر نظر آنا تو ایک خوبی ہے، خرابی نہیں، آج کل تو لوگ اس خوبی کے لیے نہ جانے کیا کیا کوششیں کرتے ہیں، آپ نے لکھا ہے کہ آپ والدین کی لاڈلی بیٹی تھیں لیکن جوں جوں بہن بھائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی گئی ان کے پیار میں کمی آتی گئی، کیا یہ قدرتی بات نہیں ہے؟ بچے زیادہ ہوتے ہیں تو ماں باپ کا پیار بٹ جاتا ہے، وہ آپ کی طرح دوسرے بچوں کو بھی اس پیار میں حصہ دیتے ہیں، والدین کا سارا پیار اپنی ذات کے لیے مخصوص کرنے کی خواہش تو خود غرضی ہے، بڑی بہن کی حیثیت سے آپ کو بھی چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار کرنا چاہیے، اب ایسا کیجیے کہ اپنے طرز عمل میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کیجیے، محبت صرف ان کو ملتی ہے جو دوسروں سے محبت کرتے ہیں، آپ چاہتی ہیں کہ دوسرے آپ سے محبت کریں، آپ کی قدر کریں، تعریف کریں، یہ خواہش تو سب کو ہوتی ہے، ہر دل عزیزی کے لیے چند اصول ہیں آپ ان پر عمل کیجیے پھر دیکھیے کیا نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔
ہر دل عزیزی کے اصول
دوسروں کی تعریف اور ستائش کرنے میں کسی بخل سے کام نہ لیجیے، بھائی بہنوں اور سہیلیوں کی خوبیوں کو سراہنا سیکھیے اور خلوص کے ساتھ ان کی کوتاہیوں کو مسکراکر نظر انداز کردیجیے، جب بھی دوسروں کے درمیان بیٹھیں یا کہیں جائیں تو کسی کی خوبی کی تعریف کرنے میں دیر نہ کریں، آپ کا لباس بڑا خوب صورت ہے، آپ نے کھانا بہت لذیز پکایا ہے، آپ بہت سلیقہ مند ہیں یا ذہین ہیں، وغیرہ، یہ چند الفاظ ادا کرکے آپ لوگوں کو اپنا گرویدہ بناسکتی ہیں، ہر ایک کی بات دلچسپی اور توجہ سے سنیے، خود بولنے کے بجائے دوسرے کو بولنے کا موقع دیجیے، ان سے سوال کیجیے، ان کا دکھ معلوم کیجیے، اگر کوئی آپ کو تلخ بات کہہ دے تو غصے کا اظہار نہ کیجیے بلکہ غور کیجیے کہ آپ کی کس بات سے اسے تکلیف پہنچی، ممکن ہے اس معاملے میں آپ کا ہی قصور ہو، چھوٹے بھائی بہنوں کی دشواریوں میں ان کی مدد کیجیے، والدین کی ضروریات کا خیال رکھیے، آپ بڑی ہیں اس لیے یہ آپ پر فرض بھی ہے۔
انسان نہ جسمانی صحت سے بڑا ہوتا ہے، نہ ہی عمر سے، یہ اس کی خوبیاں اور صلاحیتیں ہیں، اس کا حسن اخلاق اور سلوک ہے جو اسے بڑا بناتا ہے، آپ موٹا ہونے کی فکر چھوڑ کر اپنی شخصیت کو دلکش بنائیے، اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیے، لباس کی سادگی میں بڑا حسن ہے، قیمت میں نہیں، مسکراتے چہرے اور خوش اخلاق افراد ہی لوگوں میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں، اپنے بارے میں سوچنے کے بجائے دوسروں کے بارے میں سوچیے، دوسروں کی پسند کا خیال کیجیے، منگیتر آرہے ہیں تو خوف زدہ ہونے کی کیا بات ہے! انہوں نے یقیناً پہلے بھی آپ کو دیکھا ہے، ان کا خیر مقدم پر خلوص مسکراہٹ سے کریں، ان سے ان کی مصروفیات اور دلچسپیوں کے بارے میں گفتگو کریں، ان کی پسند کا خیال رکھیں، یاد رکھیں کہ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی احساس کمتری میں ضرور مبتلا ہے، اس لیے اپنے احساس کمتری کی فکر نہ کریں، آئندہ جب بھی ذہن پر کوئی بوجھ محسوس ہو، فوراً قلم اور کاغذ سنبھال لیں اور اسے تحریر کر ڈالیں، خود نویسی بہت سی الجھنوں کا علاج ہے۔
امتحان میں کامیابی اور قوت حافظہ
محمد عرفان لکھتے ہیں ” میرا ذہن پڑھائی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا، میں کچھ بھی پڑھوں، خواہ وہ کوئی کتاب ہو یا اخبار یا رسالہ، ایک دو صفحے پڑھنے کے بعد ہی مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میرا ذہن بار بار کسی اور طرف جارہا ہے،اپنی نصابی کتابیں تو مجھ سے بالکل پڑھی نہیں جاتیں بلکہ جو کچھ بھی پڑھتا ہوں وہ بعد میں یاد ہی نہیں رہتا، حالاں کہ میں بڑی کوشش کرتا ہوں کہ توجہ سے پڑھوں لیکن پڑھتے ہوئے بہت زیادہ توجہ دوں تو سر چکرانے لگتا ہے اور سر میں درد بھی شروع ہوجاتا ہے، برائے مہربانی مجھے نقش عطارد بنانے کا طریقہ بتائیں کیوں کہ میں اسے بنا نہیں سکا تھا، مزید یہ بھی بتائیں کہ اب نقش عطارد کی تیاری کا وقت کب ہوگا؟“
دوسرا خط ن، و کا ہے، وہ لکھتی ہیں” میں فرسٹ ایئر میں پڑھتی ہوں، میری یاد داشت بہت خراب ہے، جو چیز بھی یاد کرتی ہوں بہت جلدی بھول جاتی ہوں، لکھنے کے دوران میں بھی بڑی پریشانی ہوتی ہے، کچھ نہیں لکھا جاتا، کلاس میں اگر مجھ سے کوئی سوال پوچھ لیا جائے اور مجھے جواب آتا بھی ہو تو نہیں بتا پاتی، آپ یقین کریں میں اپنے طور پر پڑھائی میں کافی محنت کرتی ہوں، پھر بھی پتا نہیں کون سی چیز مجھے روکتی ہے اور کچھ نہیں کرنے دیتی، اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی سے بات کرتی ہوں تو الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے پاتے، گڈمڈ ہوجاتے ہیں، کہنا کچھ ہوتا ہے، کہہ کچھ جاتی ہوں، حالاں کہ میں اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر بولتی ہوں، اس خرابی نے مجھ میں احساس کمتری بھی پیدا کردیا ہے، آپ کا نقش عطارد والا کالم میں نے اس وقت دیکھا جب وقت گزرچکا تھا، اب اسے کب بنایا جاسکتا ہے یا اگر آپ کے پاس وہ نقش موجود ہو تو مجھے بھیج دیں میں اس کا ہدیہ بھی دینے کے لیے تیار ہوں“۔
تیسرا خط س، ا نے تحریر کیا ہے، لکھتے ہیں ”میرا دل پڑھنے میں نہیں لگتا، اس سال میں میٹرک کے امتحان میں بڑی مشکل سے پاس ہوسکا ہوں، حالاں کہ میں نے بہت محنت کی تھی لیکن جب امتحان دینے گیا تو کمرے میں جاکر سب بھول گیا، جو کچھ بھی پڑھتا ہوں یاد نہیں رہتا، نہ کتابیں سمجھ میں آتی ہیں، نہ کوئی اور بات، حساب کے مضمون میں خاص طور سے کمزور ہوں، میری بہت خواہش ہے کہ میں کالج میں پڑھوں، سائنس گروپ سے تعلق رکھتا ہوں لیکن نمبر اتنے کم آئے ہیں کہ داخلہ بہت مشکل ہے، میرے والد صاحب مجھے انجینئر بنانا چاہتے ہیں، میں بھی یہی چاہتا ہوں لیکن اب میرا دل ٹوٹ گیا ہے،ا گر آپ اس سلسلے میں میری کوئی مدد کریں تو آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا، آپ کی کتاب”مظاہر نفس“ میرے پاس ہے، اس میں دی گئی سانس کی ”مشقِ تنفس و تصور“ بھی میں کرنا چاہتا ہوں، کیا اس سے میرا دماغ اتنا طاقت ور ہوجائے گا کہ جو کچھ بھی میں سنوں یا صرف ایک مرتبہ ہی پڑھوں اور وہ مجھے یاد ہوجائے اور بھولے بھی نہیں؟ اس کے علاوہ کوئی نقش وغیرہ ہو تو وہ بھی بتائیں، جیسا کہ پہلے آپ نے نقش عطارد کے بارے میں بتایا تھا، وہ میں بتا نہیں سکا“۔
جواب: پہلی بات تو آپ تینوں اور دیگر پڑھنے والے بھی یہ سمجھ لیں کہ نقش عطارد کی تیاری کا وقت فی الحال کم از کم اس سال نہیں ہے،آئندہ سال جب شرف عطارد یا اوج عطارد کا وقت ہوگا تو ضرور اطلاع دی جائے گی، البتہ اس وقت میں تیار کردہ نقش عطارد ہمارے آفس سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
دوسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ ہماری تجویز کردہ سانس کی مشقِ تنفس و تصور اس سلسلے میں نہایت مفید ہے جو ہماری کتاب ”مظاہر نفس“ میں موجود ہے، جو لوگ یہ مشقیں کر رہے ہیں، وہ ان کی افادیت سے آگاہ ہیں، سانس کی یہ مشقیں دماغی قوتوں میں اضافہ اور حافظے میں پختگی کے ساتھ ساتھ اعصابی طور پر بھی انسان کو توانا بناتی ہیں۔
قوتِ حافظہ
آپ تینوں ایک بات یہ بھی سمجھ لیں کہ حافظہ کیا ہے؟
 حافظے سے مراد زندگی کے تجربوں کو اسی انداز میں یاد کرنا ہے جس انداز میں وہ پیش آتے ہیں،زندگی کے ان گنت واقعات کو ہم بظاہر بھول جاتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ہمارے حافظے میں محفوظ رہتے ہیں اور کسی وقت اچانک یاد آجاتے ہیں، ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق حافظے کے عوامل مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ آموزش (Learning)
2۔ خازنیت (rertention)
3۔ بازیافت (Reproduction)
4 ۔ شناخت (Recognition)
اب اس کو آسان زبان میں سمجھ لیں، آموزش سے مراد کسی بات کو ذہن نشیں کرلینا ہے، خازنیت سے مراد کسی بات کو اپنے ذہن میں خزانہ کرلینا ہے یعنی اس طرح محفوظ کرلینا کہ نقش ہوجائے، بازیافت سے مراد یاد کی ہوئی بات کو دہرانا ہے اور شناخت کہتے ہیں ماضی کے کسی تجربے کو پہچان لینا، ان چار عناصر کا نام ہے حافظہ۔
حافظے کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ہم اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے کیوں کہ اس طرح ایک طولانی بحث چھڑ جائے گی لیکن عام طور پر ہم عمدہ اور کمزور حافظے کا ذکر کرتے ہیں، جس شخص کے ذہن کے مندرجہ بالا چاروں عناصر پوری صلاحیت سے کام کرتے ہوں، ہم اس کی یاد داشت کو اچھا قرار دیتے ہیں، بصورت دیگر اس کو کمزور حافظے کا مالک کہا جائے گا، ماہرین نفسیات کا اس بات پر اختلاف ہے کہ حافظے کو تیز اور بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن عام خیال یہ ہے کہ تربیت کے ذریعے حافظے کو تیز کیا جاسکتا ہے۔
آج ہمارے سامنے مطالعے یا مشاہدے کے بعد جو معلومات حاصل ہوتی ہیں یا جن کو ہم مطالعے کے دوران میں یاد کرلیتے ہیں، ان کو اسی طرح ذہن نشیں کرلینے کا مسئلہ درپیش ہے کہ امتحان کے وقت ان کی بازیافت ہوسکے، ہم آپ کو مختصراً یہ بتائیں گے کہ اس کی ذہنی تربیت کس طرح کی جائے گی۔
بہتر حافظے کے لیے اصول
مشہور ماہر تعلیم و ہپل نے مو ¿ثر آزموش کے لیے مطالعے کا درج ذیل طریقہ تجویز کیا ہے۔
 سب سے پہلے اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیے، جسمانی تکالیف مثلاً آنکھوں اور کانوں کی تکالیف، ہاضمے کی خرابی کا علاج کرائیے، یعنی مطالعے کے وقت جسمانی طور پر صحت مند ہونا لازمی ہے ورنہ دوران مطالعہ جسمانی تکالیف آپ کو ذہنی طور پر یکسو نہ ہونے دےں گی۔ اس کے بعد خارجی اسباب کو درست کیجیے، یعنی مطالعے کی جگہ ہوا دار ہو، روشنی کا مناسب انتظام ہو اور بیٹھنے کی جگہ بھی تکلیف دہ نہ ہو، کسی ایک جگہ پر جم کر مطالعہ کیجیے، بار بار جگہ بدلنے سے مطالعے میں خلل پڑتا ہے، مطالعے کا وقت مقرر کرلیں اور پھر اس کی پابندی کریں، پوری دلچسپی اور توجہ سے مطالعہ کریں، جس چیز سے ہمیں دلچسپی نہ ہوگی، اسے ہم پوری توجہ سے نہیں پڑھتے اور نہ یاد کرتے ہیں، مطالعے کے اوقات زیادہ طویل نہ ہوں، ہمیشہ وقفے کے ساتھ مطالعہ کیجیے، سب سے پہلے اس کام کو شروع کیجیے جسے آپ آسان خیال کرتے ہوں۔اس کے بعد اب یاد داشت کی بہتر تربیت کے چند اصولوں پر عمل کرنے کی عادت ڈالیے، وہ اصول یہ ہیں۔
مطالعہ کا روزانہ پروگرام ترتیب دیں جو کچھ پڑھیں، اس کے مختصر نوٹس تیار کریں اور مطالعے کے بعد اس کا آموختہ کریں، کلاس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، اس کے بھی نوٹس لیتے رہیں تاکہ گھر پر ان کو دہرا کر یادداشت تازہ کرلیں۔مطالعے کے دوران میں وقفہ کریں اور جتنا مطالعہ کرلیا ہے، اس کو یاد کریں، اگر کوئی نکتہ بھول جائیں تو اس کا دوبارہ مطالعہ کرنے کے بعد آگے بڑھیں، جو کچھ پڑھا ہے اس کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لیں اور اگر اس میں دشواری ہورہی ہو تو استاد یا کسی اور سے مدد حاصل کریں۔
اپنی یادداشت پر اعتماد رکھیے، جب تک ایسا نہیں کریں گے، یاد داشت برقرار نہیں رہے گی، امتحانات کے دوران میں پوری طرح آرام کرنے کے بعد اعتماد اور سکون کے ساتھ امتحان کے لیے جائیں، پرچے کے تمام سوالات کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد حل کرلیں، سب سے پہلے ان سوالات کو حل کریں جن کو آپ آسان محسوس کرتے ہوں اور اس یقین کے ساتھ جواب لکھیں کہ ان کا جواب آپ کو یاد ہے۔
آپ ان اصولوں پر عمل کریں گے تو مطالعے کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوگا، آپ کی یادداشت بہتر ہوگی، کسی بھی امتحان کے وقت گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوں گے، کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی، ایک بات اور ذہن نشیں رکھیے کہ امتحان میں ناکامی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ آپ کند ذہن ہیں، ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا اور پوری توجہ کے ساتھ امتحان کی تیاری نہیں کی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں