پیر، 16 اکتوبر، 2017

جنرل قمر جاوید باجوہ، ایک منفرد شخصیت و کردار

وہ سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور سیاسی نظریات بھی
جنرل راحیل شریف کے زائچے کی روشنی میں ہم نے انہیں دانش ور جنرل کہا تھا، ممکن ہے بہت سے لوگ ہماری بات سے اتفاق نہ کریں، ہمارا مو ¿قف علم نجوم کے ایک کلیے کی بنیاد پر تھا جو یہ ہے کہ ویدک ایسٹرولوجی میں ”پنچم مہاپرش یوگ“ تسلیم کیے گئے ہیں، ان پانچ سیاروی امتزاجات کی اپنی اپنی علیحدہ ایک اہمیت ہے،کہا جاتا ہے کہ کسی بھی شعبے کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے زائچے میں ان میں سے کوئی ایک یوگ ہونا ضروری ہے، جنرل راحیل کے زائچے میں ”ہمسایوگ“ موجود تھا، ہمسا یوگ کے حامل افراد غیر معمولی عقل و دانش کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہمارے نزدیک جنرل راحیل نے اپنی مدت ملازمت کے دوران میں بہت سے دانش ورانہ فیصلے اور کام کیے مثلاً آپریشن ضرب عضب کا آغاز بھی ان کا ایک اہم فیصلہ ہے،اسی طرح کراچی میں جاری آپریشن بھی ان کے دور میں شروع ہوا، انہوں نے سیاسی قیادت کو قائل کیا کہ فوجی عدالتیں قائم کی جائیں تاکہ دہشت گرد کیفر کردار کو پہنچ سکیں،اس حوالے سے خصوصی اختیارات کا بل پارلیمنٹ سے پاس ہوا جسے بعض کٹّر جمہوریت پسند حلقوں نے پسند نہیں کیا ہے،بہر حال وہ باعزت طریقے سے اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوگئے،فوری طور پر ان کے لیے ایک اور خوش بختی کا دروازہ کھل گیا اور انہیں سعودی حکومت نے بلاکر ایک اعلیٰ عہدے سے نواز دیا، جب تک وہ پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ رہے، ان کی عوامی مقبولیت کا گراف بھی کسی بھی پاکستانی سیاست داں سے زیادہ ہی رہا، اب بھی لوگ انہیں یاد کرتے ہیں، ممکن ہے آئندہ بھی وہ ملک و قوم کے لیے کوئی اہم کردار ادا کرےں، یہی ہمسا یوگ کا اثر ہے۔
ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں، اصولی طور پر تو ہمیں فوراً ہی ان کا زائچہ پیش کرنا چاہیے تھا لیکن ابتدا ہی میں ان کی ایک سے زیادہ تاریخ پیدائش کا مسئلہ الجھن کا باعث بنا، عہدہ سنبھالتے ہی ان کے حوالے سے بعض افواہیں بھی پھیلیں لہٰذا تحقیق مزید کی ضرورت پیش آئی اور بالآخر ایک اطمینان بخش نتیجہ سامنے آگیا لیکن یہ دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی کہ ان کے برتھ چارٹ میں بھی ہمسا یوگ موجود ہے گویا وہ جنرل راحیل شریف کے حقیقی جانشین ہیں، اگرچہ مزاج اور دیگر عادت و اطوار میں جنرل راحیل سے بے حد مختلف ہےں لیکن ہمسا یوگ والی خصوصیات دونوں کے درمیان مشترک ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی تاریخ پیدائش 11 نومبر 1960 ءہے، وہ کراچی میں پیدا ہوئے، ہمارے اندازے کے مطابق ان کی پیدائش صبح 10:05 am معلوم ہوتی ہے،ویدک سسٹم کے مطابق ان کا طالع پیدائش 9 درجہ 34 دقیقہ برج قوس ہے جس کا حاکم سیارہ مشتری ہے جو اپنے ہی برج قوس میں نہایت باقوت انداز میں براجمان ہے،جب کہ سیارہ قمر برج سرطان میں جو اس کا اپنا ہی گھر ہے اور شمس برج میزان میں ہبوط یافتہ ہے۔
 قوسی افراد سچائی پسند، اسپورٹس مین، علم سے محبت کرنے والے ،فلسفیانہ سوچ کے مالک اور ایڈونچرر ہوتے ہیں لیکن شمس کی برج میزان میں موجودگی مہم جوئی کی خصوصیات کو کنٹرول کرتی ہے۔برج قوس کا تعلق آئین اور قانون سے بھی ہے لہٰذا جنرل صاحب ہر صورت میں آئین و قانون کی پاس داری کریں گے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج آئین و قانون کے ساتھ کھڑی ہے،بعض مبصرین کا خیال یہ ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کی پشت پناہی کر رہے ہیں،اس خیال پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، قوسی افراد اسپورٹس مین اور آو ¿ٹ ڈور کھیلوں میں دلچسپی لیتے ہیں، جنرل صاحب بھی کرکٹ کے زبردست شوقین ہیں اور خود بھی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں، یہ چوکس ذہن کے مالک ہوتے ہیں، ان میں تجربہ کرنے کی لگن ہوتی ہے اور سفر کے دلدادہ ہوتے ہیں، انہیں اپنی صلاحیتوں پر بہت زیادہ اعتماد ہوتا ہے لیکن اکثر وہ اتنی ذمے داریاں اپنے سر لے لیتے جن سے نمٹ نہیں سکتے،قوس کے منفی پہلوو ¿ں میں بے صبرا پن، جارح انداز، وقت کی پابندی نہ کرنا اور متلون مزاجی شامل ہیں۔
جنرل صاحب کا قمری برج (Moon sign) سرطان ہے، برج سرطان اپنی فیملی، اپنے گھر اور اپنے وطن سے گہری وابستگی اور محبت رکھتا ہے، اپنی فیملی میں اپنی والدہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا ہے لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ جنرل باجوہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے لیے خاصے جذباتی انداز میں سوچ سکتے ہیں اور جذباتی سوچ انسان سے کچھ بھی کراسکتی ہے، ان کی سچائی پسندی دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی کہے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ہماری سیاسی اشرافیہ اس ٹائپ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتی اور محض زبانی کلامی آئین و قانون کی باتیں کرتی ہے، میدان سیاست کے تمام کھلاڑیوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی پیدائش چاند کی منزل اشلیشا میں ہوئی ہے،اس منزل پر ذہانت کا ستارہ عطارد حکمران ہے،اشلیشا کے سنسکرت میں معنی ”لپٹنے والا“ کے ہیں ، اسے چمٹا ہوا ستارہ بھی کہتے ہیں،اس منزل کا نشان یا علامت ”کنڈلی مارنے والا سانپ“ ہے، اس منزل کا بنیادی محرک مذہب ہے، ایک عارفانہ قوت، روحانی آگہی اور برقیاتی صلاحیت کا یہاں اظہار ہوتا ہے مگر اس کی منفی فعالیت بھی نہایت تباہ کن ہوسکتی ہے،سیارہ عطارد اس منزل پر حکمران ہے جو ذہانت ، ہوشیاری اور چالاکی کا نمائندہ ہے۔اشلیشیا نچھتر کی فطرت غیر انسانی ہے،عطارد اور قمر کا امتزاج ذہنی اور دماغی ہے لہٰذا ایک گہرے فلسفیانہ ، مفکرانہ، سرائیت کرنے والے ذہین دماغ کی نمود دیکھنے میں آتی ہے جس کی تفسیر مرزا غالب کا یہ مشہور شعر ہے
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
دنیا کی مشہور شخصیات میں سے مہاتما گاندھی، بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو، ناول نگار آسکر وائلڈ، اداکار ونود کھنہ، اداکارہ کاجول وغیرہ اسی منزل میں پیدا ہوئے ہیں۔
یہ لوگ اپنے طرز عمل میں سادگی پسند اور جس کام کا بھی ذمہ لیں اس میں نہایت مخلص ہوتے ہیں،عموماً دوسروں کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کرتے، کسی کو دھوکا نہیں دیتے،یہاں تک کہ اپنے اچھے سلوک کی وجہ سے اکثر غیر متوقع پریشانیوں میں گِھر جاتے ہیں لیکن کسی کا ناجائز دباو ¿ برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں،عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اپنے بااعتماد ساتھیوں کے ساتھ باہمی مشورے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں، عام طور پر سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، چاہے کوئی تنازع یا بحث و تکرار ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو معذرت کرنے اور شرمندگی کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتے،اپنے کاموں کی تعریف چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، یہ لوگ قاعدانہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور سیاست میں بھی نمایاں کارکردگی دکھاسکتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ حرفوں کے بنے ہوئے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون سی چال چل کر اپنے دشمن یا مخالف کو زیر کیا جاسکتا ہے،ادھیڑ عمری میں ان کا وزن بڑھ سکتا ہے،دوسرے لوگوں کے لیے ان کی شخصیت میں چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کا پتا چلانا مشکل ہوتا ہے،ان کے ساتھ کافی عرصہ گزارنے اور معاملت کرنے کے بعد ہی کوئی ان کے رویے کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے یا کوئی رائے قائم کرسکتا ہے۔
اشلیشا ایک نہایت مشکل اور پیچیدہ قمری منزل ہے کیوں کہ اس کی فطرت غیر انسانی ہے اور یہی وہ وصف ہے جو انسان کو غیر معمولی کارکردگی یا کارناموں کی جانب لے جاتا ہے،یہاں اس کی مکمل تشریح ممکن نہیں، مختصراً اتنا سمجھ لیجیے کہ ہمارے نئے جنرل کوئی بہت سادہ اور بہت سیدھے انسان نہیں ہیں، یہ انہی سکّوں میں ادائیگی کریں گے جو انہیں وصول ہوں گے لہٰذا ہماری سیاسی اشرافیہ کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
زائچے کا پہلا گھر برج قوس ہے جس میں اس کے حاکم مشتری کے ساتھ زہرہ اور زحل بھی موجود ہےں، زہرہ یہاں کمزور ہے لیکن زحل نہ صرف یہ کہ طاقت ور ہے بلکہ راہو کی بھرپور نظر بھی وصول کر رہا ہے،زحل زائچے کے دوسرے تیسرے گھر کا حاکم ہوکر پہلے گھر میں بیٹھا ہے،تیسرا گھر کوشش اور پہل کاری کا ہے،راہو کی نظر ظاہر کرتی ہے کہ ایک فوجی جنرل سیاست پر بھی گہری نظر رکھتا ہے اور اس کے اپنے سیاسی نظریات بھی ہیں جو مشتری کے طاقت ور اثر کی وجہ سے آئین و قانون کے پابند ہیں، لاقانونیت اور غیر آئینی اقدام ناپسندیدہ ہیں۔
پانچویں گھر کی مول ترکون کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے ساتویں گھر میں طاقت ور انداز میں موجود ہے،گویا اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک قیام ظاہر ہوتا ہے،اعلیٰ تعلیم مریخی منسوبات کے تحت فوج اور دیگر فنونِ حرب و ضرب ، سیارہ مریخ بھی زحل سے ایک سعد نظر بنارہا ہے،اس زائچے کی رو سے مریخ و زحل دونوں صاحب زائچہ کے لیے سعد اور موافق اثر دینے والے سیارے ہیں۔
قمر آٹھویں گھر کا حاکم ہے اور اپنے ذاتی برج سرطان میں مقیم ہے،قمر اور زحل کی مضبوط پوزیشن طویل العمری کی نشان دہی کرتی ہے،نویں بھاگیا استھان کا مالک سیارہ شمس گیارھویں گھر میں اپنے برج ہبوط میں ہے جس کی وجہ سے زندگی میں ترقی اور عروج کا مقام خاصی تاخیر کے بعد ملتا ہے اور اگر دیگر سیارگان مضبوط نہ ہوں تو کبھی نہیں ملتا، جنرل صاحب کو عمدہ قسم کا روبی کا نگینہ پہننا چاہیے۔
دسویں گھر کا حاکم سیارہ عطارد گیارھویں گھر میں غروب ہے،اس پر تیسرے گھر سے کیتو کی نظر بھی ہے لہٰذا کرئر میں بعض ناگوار اور پریشان کرنے والے معاملات بہر حال رہے ہوں گے، بہت سے ناگوار اور ناخوش گوار واقعات کو برداشت کرنا پڑا ہوگا۔
زائچے کی آراستگی پر تفصیلی روشنی ڈال دی گئی ہے،دیگر اہل نظر مزید نتائج اخذ کرسکتے ہیں ، ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔
23 اگست 2004 ءسے زائچے میں قمر کا دور اکبر جاری ہوا، قمر زائچے کا واحد فعلی منحوس سیارہ ہے کیوں کہ آٹھویں گھر کا حاکم ہے،اس کے علاوہ راہو کیتو بھی فعلی منحوس ہیں، یہ دس سالہ دور اکبر یقیناً زندگی میں مشکلات اور سخت محنت اور جدوجہد کی نشان دہی کرتا ہے لیکن 24 اگست 2014 ءسے پانچویں گھر کے حاکم سیارہ مریخ کا دور اکبر شروع ہوا اسے ہم جنرل صاحب کی زندگی کا ایسا دور کہیں گے جس میں انہیں اپنے کرئر میں زیادہ مضبوط پوزیشن بنانے کا موقع ملا ہوگا، 7 فروری 2016 ءسے مریخ کے دور اکبر میں مشتری کا دور اصغر شروع ہوا جو 13 جنوری 2017 ءتک جاری رہا، اسی دوران میں سیارہ مشتری 2016 ءکے آخر میں برج سنبلہ اور زائچے کے دسویں گھر میں داخل ہوا، ستمبر اکتوبر میں مشتری نے دسویں (پیشہ ورانہ امور)، دوسرے (اسٹیٹس، فیملی اور ذرائع آمدن) ، چوتھے (سواری اور پراپرٹی) اور چھٹے (پیشہ ورانہ عمل) گھروں سے سعد نظر بنائی، نتیجے کے طور پر 3 نومبر 2016 ءکو جنرل صاحب نے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا۔
دوسرے،تیسرے گھر کا حاکم سیارہ زحل نومبر 2014 ءسے زائچے کے بارھویں گھر میں رہا اور تاحال اسی گھر میں ہے، 27 اکتوبر کو پہلے گھر برج قوس میں داخل ہوجائے گا، گویا گزشتہ ڈھائی سال ایسے نہیں ہیں جن میں جنرل صاحب کو کام کرنے کے لیے فری ہینڈ ملا ہو، ان کی فطری مہم جوئی یا پہل کاری کی صلاحیت دبی رہی ہے، زحل برج قوس میں داخل ہونے کے بعد نئے عزائم اور ارادوں کو تقویت دے گا اور آئندہ ڈھائی سال اسی پوزیشن میں گزارے گا لہٰذا جنرل صاحب کی کارکردگی شاندار انداز میں ظاہر ہوگی، سیارہ مشتری اب زائچے کے گیارھویں گھر میں آچکا ہے،اس گھر کا تعلق زندگی میں فوائد اور مفادات سے ہے،یقیناً مشتری ان کی زندگی میں مزید بہتری اور ترقی لائے گا۔
حاصلِ کلام
عزیزان من! زائچے کی خوبیوں اور خامیوں اور صاحب زائچہ کے طور طریقوں یا رجحانات کی نشان دہی کردی گئی ہے،یقیناً ہمیں ایک ایسے جنرل کی سربراہی حاصل ہے جو اپنی فطرت اور مزاج میں تیز و طرار، سچائی پسند، آئین و قانون کا متوالہ، جمہوریت پسند لیکن جرم اور ناانصافی کو ناپسند کرنے والا ہے،کوئی دباو ¿ اس کے نزدیک ناپسندیدہ ہے،حال ہی میں صدر امریکا کی جنوبی ایشیا پالیسی کے حوالے سے پاکستان پر جو دباو ¿ ڈالا گیا اس کا جواب اسی انداز میں دیا گیا، ایک محب وطن شخصیت کے طور پر یقیناً انہیں یہ بات ناپسند ہوگی کہ پاکستان میں دہشت گردی، وہ خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو، ختم کی جائے،ملک سے ہر سطح پر کرپشن اور کرائم کے خلاف کارروائی ہوتی رہے، ملکی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور جمہوریت کے فروغ کے لیے سیاست کے میدان میں بھی اعلیٰ روایات کو قائم کیا جائے،سب جانتے ہیں کہ ان حوالوں سے ملک کے ہر شعبے میں اور ہر ادارے میں اصلاحِ احوال کی کتنی شدید ضرورت ہے، شاید جنرل صاحب اسی لیے بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج آئین و قانون کے ساتھ کھڑی ہے،گویا وہ اصلاحات کے عمل کو آئینی و قانونی طور پر جاری رکھنا چاہتے ہیں، تازہ صورت حال میں یہ کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے کیوں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے لیے الگ قانون اور اصول چاہتی ہے اور عام افراد کے لیے الگ جس کا مظاہرہ اکثر دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔
جنرل صاحب اس وقت سیارہ زحل کے دور اصغر سے گزر رہے ہیں اور زحل پر نویں گھر میں قابض راہو کی نظر ہے،نواں گھر آئین و قانون سے متعلق ہے اور زحل ایکشن اور کوشش کے گھر کا حاکم ہے،چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عدلیہ پر جب تنقید کرتی ہے تو اشاروں کنایوں میں دائیں بائیں فقرہ بازی سے بھی نہیں چوکتی حالاں کہ بعض حکومتی وزرا اور بعض غیر جانبدار صحافی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں فوج سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر کاربند ہے لیکن بہر حال وہ یہ بھی گوارہ نہیں کرسکتی کہ ہماری سیاسی اشرافیہ عدالتوں پر چڑھائی کردے اور عدلیہ کا تحفظ غیر یقینی ہوجائے، ان کے فیصلے بے اثر ہوجائیں، پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 190 کے تحت فوج عدلیہ کی مدد کرنے کی پابند ہے، جے آئی ٹی کے معاملات میں اسی قانون کی وجہ سے فوج نے عدلیہ سے تعاون کیا تھا۔
22 فروری 2018ءسے زحل کا دور اصغر ختم ہوگا اور سیارہ عطارد کا دور اصغر شروع ہوگا، ہمارا خیال ہے کہ سیارہ عطارد کے دور میں جنرل صاحب کے رویے اور رجحانات میں نمایاں فرق آئے گا، انہیں ایسی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے سیدھے سادھے آئینی و قانونی ذرائع یا راستے کافی نہیں ہوں گے، معاملات بین الاقوامی ہوں یا داخلی، ہر سطح پر ایسے مسائل نمودار ہوں گے جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہت کچھ روایات کے خلاف کرنے کی ضرورت ہوگی، سیارہ عطارد کا دور اصغر 19 فروری 2019ءتک جاری رہے گا گویا ان کی مدت ملازمت پوری ہونے کا وقت بھی قریب آجائے گا۔
جنرل راحیل شریف کے بارے میں ہم نے لکھا تھا کہ وہ اگر محسوس کریں گے کہ ان کی مزید ضرورت ناگزیر ہے تو یقیناً ایکسٹینشن کے بارے میں سوچیں گے اور اگر ضرورت محسوس نہیں کریں گے تو انہیں ریٹائر ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ ایکسٹینشن چاہتے تھے جو انہیں نہیں دی گئی اور بہر حال وہ رخصت ہوگئے، جنرل باجوہ صاحب جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ وہ جنرل راحیل سے مختلف مزاج اور فطرت کے انسان ہیں، وہ اپنے کام کو پایہ ءتکمیل تک پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اکثر ایسا نہیں کرپاتے کیوں کہ بہت زیادہ کاموں میں خود کو الجھا لیتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اگر وہ ایکسٹینشن کے خواہش مند ہوں گے تو اتنی آسانی سے رخصت نہیں ہوں گے جتنی آسانی سے جنرل راحیل شریف رخصت ہوئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں