ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا


 اکتوبر سے سیاروی پوزیشن غیر معمولی واقعات کی نشان دہی کر رہی ہے
ملک ایک بڑے بحران کا شکار ہے،اندرونی اور بیرونی خطرات بہت بڑھ چکے ہیں،یقیناً ملک کے مقتدر حلقے تشویش میں مبتلا ہیں اور اہل علم و دانش بھی خوف زدہ ہیں، صورت حال جس طرح روز بہ روز ایک نئی کروٹ لے رہی ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس بحران کا انجام کیا ہوگا؟ 
پاکستان کی دشمن قوتیں کھل کر اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو چار ٹکڑوںمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، امریکی صدر اپنے مطالبات کے لیے پاکستان پر عرصہ ءحیات تنگ کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں، اس صورت حال میں ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہی ہے،پارلیمنٹ سے حسب منشا آئینی ترامیم کرائی جارہی ہیں، جس کے نتیجے میں اختلاف رائے اور تنازعات مزید بڑھ رہے ہیں، فوج اور عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے،ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے،عام آدمی حیران و پریشان ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور ہماری اگلی منزل کون سی ہے؟
گزشتہ کسی کالم میں ہم نے ایک قول ربانی نقل کیا تھا ”وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور ہم اپنی چالیں چل رہے تھے“
تازہ صورت حال بالکل ایسی ہی ہے ، ہمارے ملک کی بساط سیاست پر متحرک مہرے اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں لیکن قدرت کی چالیں انسانوں کی سمجھ میں نہیں آتیں لیکن جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو دنیاوی چالیں چلنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔
ہم پہلے بھی زائچہ ءپاکستان کی روشنی میں یہ اظہار خیال کرچکے ہیں کہ ملک میں تبدیلی کی لہر روز بہ روز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے،رواں نام نہاد جمہوریت کی بساط لپٹ چکی ہے،اب نمائشی جمہوری مہرے بساط پر بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں، مرکز اور صوبوں میں گویا کوئی حکومت ہی نہیں ہے، ایسا نظر آتا ہے کہ اس بھاگ دوڑ کا خاتمہ بھی بہت قریب ہے،نیا سال 2018 ءشروع ہونے سے قبل ہی شاید بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوگا اور اس تبدیلی میں اہم کردار ہماری سیاسی اشرافیہ کا ہی ہوگا کیوں کہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اہل سیاست ملک کے دو اہم اداروں عدلیہ اور فوج کو فارغ یا عضو معطل کردیں، اپنا ہی کچھ نقصان کرسکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس نقصان ہی میں کوئی فائدہ ڈھونڈ رہے ہوں؟
9 اکتوبر سے سیاروی پوزیشن آنے والے غیر معمولی واقعات کی نشان دہی کر رہی ہے اور یہ سلسلہ 15 نومبر تک جاری رہے گا، اگر ملک میں کوئی ایمرجنسی یا غیر آئینی صورت حال پیدا ہوگی تواس کے ذمے دار ہمارے اہل سیاست ہی ہوں گے جو اس بات پر سخت مشتعل ہیں کہ فوج آئین و قانون (عدلیہ) کی پشت پناہی کیوں کر رہی ہے 
وائے دیوانگی شوق کے ہر دم مجھ کو 
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
مسیحا حصہ سوم
حیدرآباد سے کامل علی لکھتے ہیں ”آپ نے اسی کالم میں بتایا تھا کہ مسیحا کا تیسرا حصہ شائع ہوگیا ہے، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے لیکن جب مارکیٹ میں جاکر معلومات کی تو کسی بھی بک اسٹال پر کتاب نہیں ملی، آخر اس کی کیا وجہ ہے اور اب اسے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟“
جواب: عزیزم! شاید آپ نے توجہ نہیں دی کہ ہم نے لکھا تھا کہ کتاب عام مارکیٹ میں نہیں دی جائے گی کیوں کہ اکثر ایجنٹ حضرات کتاب بیچنے کے بعد پیسے دینے میں پریشان کرتے ہیں لہٰذا آپ کو ہمارے آفس سے ہی منگوانا پڑے گی، فون پر رابطہ کرکے اپنا ایڈریس لکھوادیں تو آپ کو وی پی کے ذریعے کتاب بھیج دی جائے گی۔
عام بک اسٹالز والے اگر کتاب منگوانا چاہتے ہیں تو براہ راست رابطہ کریں۔
روحانیات کے حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ
ہم ایک خط زیر بحث لانا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ خط ہماری نظر میں صرف ایک شخص کا نہیں، ایسے بے شمار خط ہمیں مل چکے ہیں اور ملتے رہتے ہیں، ہمارے معاشرے کے بے شمار نوجوانوں کا مسئلہ ہے، خط لکھنے والے کا نام اور مقام ہم ظاہرنہیں کرنا چاہتے، آپ صرف ان کے خط کے ضروری حصے ملاحظہ کرلیجیے، وہ لکھتے ہیں۔
”میری عمر اس وقت اکیس سال ہے، مجھے روحانیت سیکھنے کا بہت شوق ہے اور اس سلسلے میں ، میں نے کئی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں، ان میں دیے گئے اعمال بھی کیے ہیں لیکن کسی میں کامیابی نہیں ہوئی، پچھلے چند ماہ میں مجھے ایک عامل کا پتا ملا، ہمارے ہی شہر کے ہیں، انہوں نے مجھے اپنا شاگرد بنالیا لیکن اب تک انہوں نے ایک عمل بھی نہیں کرایا، البتہ مختلف بہانوں سے مجھ سے پیسے لیتے رہتے ہیں، مثلاً آج فلاں کی نیاز دلوانی ہے، فلاں کی خیرات کرانی ہے، پھر کبھی کہتے ہیں تمہارے لیے استخارہ کروں گا، فاتحہ دلوانی پڑے گی، ہر دفعہ ہزار پانچ سو روپے لے لیتے ہیں، صرف ایک دفعہ انہوں نے ایک عمل کرایا، سورئہ مزمل کا لیکن میں وہ عمل صرف بارہ روز کرسکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک روز مجھے کام کے سلسلے میں کراچی جانا پڑ گیا تھا، چناں چہ میرے استاد نے کہا کہ وہ وظیفہ ختم کردو، اب میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ وہ مجھے ٹالنے لگے ہیں، میری تنخواہ بہت کم ہے، ابھی مجھے شادی بھی کرنی ہے، اس تنخواہ میں گزارا مشکل سے ہوتا ہے، کوئی بچت نہیں ہوتی تو شادی کہاں سے کروں گا لیکن بہر حال شادی تو مجھے کرنی ہے اور وہ بھی صحیح وقت پر، اگر پیسے جمع کرنے میں پانچ چھ سال لگ گئے تو پھر شادی کا فائدہ؟ میرا چھوٹا بھائی آفیسر ہے، اس کی تنخواہ بہت زیادہ ہے، گھر میں معقول رقم دے کر بھی آٹھ دس ہزار بچا لیتا ہے، آپ میری مدد کیجیے اور بتائیے میں جب بھی کوئی عمل کرتا ہوں، وہ ناکام کیوں ہوتا ہے؟ انکل ! آپ تو مجھے مایوس نہیں کریں گے نا؟ آسودہ اور خوش حال زندگی گزارنا ہر انسان کا حق ہے، اگر اس کے لیے روحانیت کا سہارا لیا جائے تو کیا یہ غلط ہوگا؟ اور انکل حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے کہ جو چیز چاہو پہنو اور کھاو ¿ لیکن حلال ہو اور اس میں دو چیزیں نہ ہوں، اول اسراف اور دوسرا تکبر، پلیز، میری مدد فرمائیے کیوں کہ میں ہر طرف سے مایوس ہوچکا ہوں، میرے کزنز میرے دوست جو مجھ سے چھوٹے ہیں، شادی شدہ اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، کیا میرا حق نہیں ہے، انکل ! ایک بات تو بتائیے، یہ عامل حضرات جن کے پاس روحانیت کا علم ہوتا ہے، یہ اتنے تنگ نظر کیوں ہوتے ہیں؟ میرے اس سوال سے آپ کوئی غلط مطلب مت لیجیے گا، یہ مت سمجھیے گا کہ میں آپ پر کوئی الزام لگا رہا ہوں، اب دیکھیے نا، کتابوں کی دکانوں پر ہزاروں قسم کی عملیات کی کتب ہیں لیکن ان میں درج کسی بھی عمل کو کرلیں، نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ مجھے کوئی اچھی عملیات کی کتاب کا نام بتائیے جس سے آپ مطمئن ہوں یا آپ کی کوئی تصنیف اس موضوع پر ہو تو پلیز اسے ڈاک کے ذریعے بھجوائیے، اب چند سوالات ہیں روحانیت کے موضوع پر، ان کا جواب ضرور دیجیے گا، عمل کرتے وقت، وقت کی کیا اہمیت ہے؟ پرہیز کی کیا اہمیت ہے؟ عمل کے دوران میں بعض جگہ روزے بھی رکھوائے جاتے ہیں، وہ کیوں ضروری ہوتے ہیں؟بس آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، میرے لیے وظیفہ مقرر کرکے بھجوادیے لیکن انکل، وہ وظیفہ ہر وقت پڑھنے والا نہ ہو، چالیس دنوں والا ہو تو بہتر ہے، پرہیز وغیرہ بھی ضرور لکھیے گا، اگر آپ برا اور غلط نہ سمجھیں تو ایک بات پوچھوں؟ کیا وظیفے سے بانڈ وغیرہ کھل سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پلیز لکھ دیں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی، میری ڈیوٹی ایسی ہے کہ مہینے میں ایک آدھ بار شہر سے باہر رہنا پڑتا ہے، میں نے سنا اور پڑھا ہے کہ وظیفے کی جگہ بدلنے سے وظیفے کا اثر ختم ہوجاتا ہے،پلیز وظیفہ لکھیے گا جس سے جگہ بدلنے سے فرق نہ پڑتا ہو۔
عزیزم! آپ سخت گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں، بازاری کتابیں پڑھ کر آپ کے ناپختہ ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ روحانی مدد سے آپ دولت حاصل کرلیں گے جب کہ ایسا اس صورت میں ہر گز نہیں ہوسکتا جس طرح آپ چاہتے ہیں، پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ پروردگار نے کائنات کو عالم اسباب بنایا ہے اور ہماری مادی زندگی کے لیے مادی اسباب و سائل پر زور دیا ہے، اسی لیے بچے کو ابتدا ہی سے تعلیم اور ضروری فنی تربیت کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور جوانی میں محنت و مشقت کے ذریعے اپنا رزق حاصل کرنے کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے، اس طرح ہر انسان اپنی صلاحیت کی بنیاد پر دنیا میں اپنا حصہ پاتا ہے، اگر اس نے معقول طور پر تعلیم حاصل کرکے معقول ذریعہءروزگار پالیا اور پھر اس ذریعہ ءروزگار میں اپنی محنت، لگن اور ذاتی استعداد میں مستقل اضافے کے سبب ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیں تو وہ رفتہ رفتہ اپنی آمدن میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے اور بالآخر ایک مضبوط و مستحکم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ نہ تو معقول تعلیم ہی حاصل کرے، نہ کوئی معقول ہنر سیکھے اور جو کچھ وقت نے حادثاتی طور پر سکھا پڑھا بھی دیا ہے، اس میں بھی کوئی اضافہ کرنے کی کوشش نہ کرے، پھر یہ بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے برابر آجائے یا ان سے آگے نکل جائے جو مندرجہ بالا تمام شرائط پر پورے اترتے ہیں خواہ وہ اس سلسلے میں کیسی ہی روحانی امداد کیوں نہ حاصل کرلے، اگر یہ ممکن ہو تا تو دنیا کے تمام نالائق و نکمے صرف عملیات و وظائف کے ذریعے ہی دولت مند اور کامیاب ترین انسان بنے بیٹھے ہوتے۔
ہم پہلے بھی یہ بات لکھ چکے ہیں کہ روحانیت کو کھیل نہیں سمجھنا چاہیے، پہلے مادی طور پر اپنے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا چاہیے اور ہر ممکن طور پر وہ مادی کوشش ضرور کرلینا چاہیے جو آپ کے مسئلے کے حل کے لیے دنیاوی طور پر موجود ہے، جب ہر مادی ذریعہ ناکام ہوجائے اور انسان مایوسی کے اندھیرے میں گھر جائے تو پھر ضرور روحانی امداد کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور تب وہ اپنے بندے کو کبھی مایوس نہیں کرتا یا یہ بھی ناجائز نہیں ہوگا کہ مادی کوششوں کے ساتھ ساتھ روحانی طور پر بھی اللہ سے مدد کی درخواست کی جائے لیکن یہ ہر گز ناجائز نہیں کہ مادی کوشش تو نہ ہونے کے برابر ہے، صرف وظائف و چلوں اور نقوش و طلسمات کے زور پر زندگی کا ہر معرکہ سر کرنے کی کوشش شروع کردی جائے، ایسے لوگ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔
بے شمار لوگ ہمیں تسخیر ہمزاد کے سلسلے میں لکھتے ہیں اور بعض یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں کتاب سے فلاں عمل ہمزاد کیا مگر ناکام رہے، آپ کوئی تجربہ شدہ عمل ہمزاد لکھ دیں، روحانیت و عملیات کی کتابوں میں اور رسائل میں ایسے بے شمار عمل شائع بھی کیے جاتے ہیں مگر ان کے نتائج صفر ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ معاملہ اُلٹ ہوجاتا ہے، لوگ ہمزاد کو تسخیر کرنے کے بجائے خود ہمزاد کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر خط لکھتے ہیں کہ اس مصیبت سے جان چھڑائیں۔
عزیزم! ایک بات یاد رکھیے،تسخیر روحانیت کے اعمال عام انسان کے بس کی بات نہیں ہےں، ان اعمال کی انجام دہی میں اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے ،قناعت اختیار کرنا پڑتی ہے اور صرف رضائے الٰہی میں زندگی بس کرنا پڑتی ہے، یہ مقام صرف اولیائے اللہ کا ہے، آپ دیکھیں، حضرت سید علی ہجویریؓ المعروف داتا گنج بخش اپنی مایہ ناز تصنیف ”کشف المعجوب“ میں فرماتے ہیں کہ راہ سلوک کے مسافر کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ شادی نہ کرے، آپ نے خود بھی تمام عمر شادی نہ کی اور اپنے نفس پر قابو پایا جب کہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ لوگ کتابوں میں عملیات و وظائف کے حوالے سے خوش کن تاثیرات پڑھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ کوئی ہمزاد یا جن قابو کرکے یا کوئی اور روحانی قوت حاصل کرکے باقی زندگی عیش و آرام اور ٹھاٹ باٹ سے بسر کریں گے، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، دنیاوی طور پر ہی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جو انسان اپنا کاروبار جتنا زیادہ پھیلاتا ہے، اتنا ہی زیادہ مسائل اور مصروفیات کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے، اگر کوئی کسی بڑی پوسٹ پر ملازمت کر رہا ہے اور بہت زیادہ کمارہا ہے تو اس پوسٹ سے وابستہ ذمے داریاں ہی اس کی نیند اڑائے رکھتی ہیں، درحقیقت ایک پرسکون زندگی صرف قناعت کے سائے میں ہی مل سکتی ہے، انسانی خواہشات کا طوفان جتنا بڑھتا جائے گا، انسانی زندگی مسائل کے بھنور میں اسی قدر گردش میں آتی جائے گی۔
آپ اور آپ جیسے بے شمار افراد سے ہم یہی گزارش کریں گے کہ اپنے مسائل کے حل اور دنیا میں ترقی کرنے کے لیے پہلے اپنی صلاحیتوں میں اضافے کی طرف دھیان دیں، اگر آپ ایک ٹیچر ہیں تو ہیڈ ماسٹر بننے کے لیے مزید جس تعلیم کی ضرورت ہے، وہ حاصل کریں، اسی طرح جس ملازمت میں بھی ہیں، اس سے متعلق ترقی کے مادی راستوں کو فراموش نہ رکیں اور اپنا فالتو وقت صحیح راستے پر چلتے ہوئے گزاریں، اگر آپ کوئی کاروبار کر رہے ہیں تو اس کاروبار سے متعلق اپنے علم اور تجربے میں اضافے کی طرف دھیان دیں، اس کے ساتھ ساتھ روحانی امداد کے طور پر نماز اور تلاوت قرآن جاری رکھیں اور صرف ان اعمال کی طرف متوجہ ہوں جو خیروبرکت، ترقی و خوش قسمتی کے لیے مروج ہیں۔
روحانیات کی تسخیر کے اعمال تو انسان کو فقیر گوشہ نشیں بننے پر مجبور کردیتے ہیں اور یہ کام انہی لوگوں کو زیب دیتا ہے جنہوں نے دنیا سے منہ موڑ کر صرف اللہ سے رشتہ جوڑ لیا ہے، یاد رکھیں کہ وہ شادی شدہ یا کنوارے نوجوان جو یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم صرف اللہ سے رشتے جوڑنا چاہتے ہیں اور تسخیر روحانیت خلق خدا کی بھلائی اور خدمت کے لیے کرنا چاہتے ہیں، وہ خود کو اور دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں ، اول تو ایسے لوگ اپنے ارادوں کا اعلان نہیں کرتے پھرتے، جو لوگ اعلان کرتے رہتے ہیں، ان کی نیتوں میں فتور ہوتا ہے یا وہ جہالت میں مبتلا ہوتے ہیں کیوں کہ اسلام رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا اور حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیتا ہے، اب ایک شخص کنوارا ہے تو وہ ماں ، باپ، بہن، بھائی سے منہ موڑ کر اپنی دنیاوی ذمے داریوں کو خیر باد کہہ کر اللہ سے رشتہ جوڑنے اور خلق خدا کی خدمت کرنے کا دعویٰ کس منہ سے کر رہا ہے؟ پہلے ماں باپ، بہن بھائی کی خدمت تو کرلے، یہی صورت شادی شدہ بال بچے دار کی ہے، وہ ان ذمے داریوں سے کیسے منہ موڑ سکتا ہے اور ہر دو صورتوں میں اللہ اس سے کیسے راضی ہوگا؟ ہاں شیطان راضی ہوسکتا ہے۔
رجال الغیب
مختلف عملیات میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ عمل کرتے ہوئے رجال الغیب کا خیال رکھیں، جس طرف رجال الغیب ہوں اُس طرف منہ نہ کریں، اس حوالے سے سانگھڑ سے ہمارے ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ آخر یہ رجال الغیب کون ہیں اور ان کی کیا حیثیت ہے؟
ایسے سوالات پہلے بھی لوگ کرتے رہے ہیں اور ہم نے حسب توفیق انہیں جواب بھی دیا ہے، رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا طریقہ بھی کئی بار شائع کیا ہے جو اکثر لوگ محفوظ نہیں رکھتے اور پھر عین وقت پر فون کرکے پوچھتے ہیں کہ آج رجال الغیب کس سمت ہوں گے۔
رجال الغیب وہ مردان غیب ہیں جو حضرت خضرؑ کی سربراہی میں کائنات کے انتظامی اور انصرامی امور پر مامور ہیں، منجانب اللہ۔رجال عربی میں رجل کی جمع ہے اور رجل کے معنی آدمی کے ہیں لہٰذا ایسے آدمی جو عالم غیب میں ہیں ، کسی کو نظر نہیں آتے، انہیں رجال الغیب کہا جاتا ہے۔
اہل تصوف یا باطنی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ اولیاءاللہ جب ایک خاص مقام تک پہنچ کر قرب الٰہی حاصل کرلیتے ہیں اور اللہ کی نظر میں قابل اعتماد ٹھہرتے ہیں تو انہیں کائناتی امور کے حوالے سے اہم ذمے داریاں تفویض کی جاتی ہیں اور وہ سب براہ راست حضرت خضرؑ کی سربراہی میں اپنی اپنی ڈیوٹیاں انجام دیتے ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے وصال کے بعد یہ خدمات انجام دیں، اکثر اپنی زندگی ہی میں اس ذمے داریاں کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں پھر انہیں دنیا کی کسی بات کا ہوش نہیں رہتا، ایسے بزرگ حضرات کا زیادہ وقت ایک عالم استغراق میں گزرتا ہے،ممکن ہے آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہو جن کے بارے میں مشہور ہو کہ وہ کسی سے نہیں ملتے، وہ کسی سے بات نہیں کرتے اور زیادہ تر سب سے الگ تھلگ گوشہ نشین رہتے ہیں، حضرت بابا قلندر اولیاؒ کے قریبی حلقے یہ بتاتے ہیں کہ عمر کے آخری حصے میں ان کا بھی یہی حال ہوگیا تھا، چند بزرگوں سے ہماری بھی واقفیت رہی ہے،انہیں ہم نے اسی حال میں دیکھا۔
حضرت خضرؑ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ صدیوں سے زندہ ہیں اور بہت سے انبیا کے ساتھ خصوصاً حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ ان کا تذکرہ آتا ہے، سکندر ذوالقرنین کے ساتھ بھی ان کا واقعہ مشہور ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ سکندر کے ساتھ آب حیات کی تلاش میں نکلے تھے اور انہیں آب حیات مل گیا، جسے انہوں نے پی لیا لیکن سکندر نہ پی سکا، ہمیں نہیں معلوم کہ اس واقعے میں کتنی حقیقت ہے،البتہ ایک اور ہستی بھی ایسی ہے جس کے قیامت تک زندہ رہنے کے ثبوت ملتے ہیں، ان کا نام عبداللہ بیابانی ہے اور وہ اس شرط کے ساتھ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے کہ انہیں لوگوں کی خدمت کے لیے قیامت تک کی زندگی دی جائے۔
عبداللہ بیابانی کا اصل نام جوگی اجپال ہے،اجمیر کے راجا پرتھوی راج نے انہیں حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے مقابلے کے لیے بھیجا تھا کیوں کہ وہ ایک بہت بڑے جادوگر تھے اور پرتھوی راج سمجھتا تھا کہ حضرت معین الدین چشتیؒ بھی کوئی جادوگر وغیرہ ہیں (استغفراللہ) لہٰذا اس نے اس دور کے سب سے بڑے جادوگر کو طلب کیا، جوگی اجپال نے خواجہ صاحبؒ کو مقابلے کی دعوت دی تو آپؒ نے فرمایا کہ تو جو کچھ جانتا ہے وہ ہمیں دکھا،جوگی نے ایک بہت بڑا دھاگے کا گولا نکالا اور اس کا ایک سرا کسی پتھر میں باندھ کر آسمان کی طرف پھینکا، وہ پتھر بادلوں میں جاکر غائب ہوگیا، جوگی دھاگے کو پکڑ کر تیزی سے اوپر چڑھتا چلا گیا اور آخر خود بھی غائب ہوگیا۔
خواجہ غریب نوازؒ نے اپنی نعلین مبارک (کھڑاو ¿ں) کو اشارہ کیا تو اچانک دونوں کھڑاو ¿ں ہوا میں پرواز کرتی ہوئی جوگی کے پیچھے گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں جوگی اس حال میں زمین پر واپس آگیا کہ کھڑاو ¿ں سے اس کی پٹائی ہوگئی تھی، زمین پر آکر وہ آپؒ کے قدموں میں گر گیا کہ یقیناً آپؒ اللہ کے اوتار ہیں اور بہت نیک ہستی ہیں ورنہ میرے جادو کا توڑ تو پورے ہندوستان میں کوئی نہیں کرسکتا، اس کے بعد اس نے اپنی شرط پیش کی اور مسلمان ہوگیا، آپؒ نے اس کے لیے اللہ سے دعا کی جو قبول ہوئی، وہ دن ہے اور آج کا دن جوگی اجپال جس کا اسلامی نام خواجہ صاحبؒ نے عبداللہ رکھا تھا ، اجمیر کے پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں راستہ بھولنے والوں کو راستہ دکھانے کی ڈیوٹی انجام دے رہے ہےں اور لوگ انہیں عبداللہ بیابانی کے نام سے جانتے ہیں، جب کوئی راستہ بھٹک جائے اور تین بار ان کا نام لے کر باآواز بلند مدد کے لیے پکارے تو وہ اچانک کسی موڑ پر اس کے سامنے نمودار ہوجاتے ہیں۔
یہ واقعہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے متعلق سوانح کی تمام کتب میں موجود ہے،جہاں تک عبداللہ بیابانی کے اب تک ڈیوٹی دینے کا تعلق ہے تو ہم ذاتی طور پر ایسے لوگوں سے مل چکے ہیں جو اجمیر کے صحرائی علاقوں میں راستہ بھٹک گئے اور انہیں کسی صاحب نے اچانک نمودار ہوکر صحیح راستہ بتایا، بعض کی خاطر تواضع بھی کی۔
عزیزان من! یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ رجال الغیب کی فہرست میں شامل ہیں۔
رجال الغیب کی سمت
آخر میں رجال الغیب کی سمت معلوم کرنے کا طریقہ بھی ایک بار پھر بیان کیا جارہا ہے،ا مید ہے کہ حسب معمول آپ لوگ اسے اپنے پاس محفوظ نہیں کریں گے اور کسی ضرورت کے وقت ہمیں فون کرکے پوچھ رہے ہوں گے کہ آج رجال الغیب کس طرف ہےں؟
رجال الغیب کی سمت کا تعین چاند کی تاریخوں سے کیا جاتا ہے،ہر ماہ کی پہلی، نو، سولا اور چوبیس تاریخ کو رجال الغیب مشرق کی سمت ہوتے ہیں، چاند کی دو، دس، سترہ اور پچیس کو یہ جنوب مغرب کی طرف ہوں گے جب کہ تین، اٹھارہ، گیارہ اور چبھیس تاریخوں میں جنوب کی سمت پھر چار، بارہ، انیس اور ستائیس تاریخ کو مغرب میں ہوں گے اور پانچ ، تیرہ اور بیس تاریخ کو شمال مغرب کی طرف، چھ، اکیس اور اٹھائیس تاریخ کو شمال مشرق میں ، سات، چودہ، بارہ اور انتیس کو مشرق میں، آٹھ، پندرہ ، تئیس اور تیس تاریخ کو شمال کی طرف، جب بھی رجال الغیب کی سمت معلوم کرنی ہو کہ آج وہ کس طرف ہیں، چاند کی تاریخ کو نوٹ کریں اور مندرجہ بالا ہدایت کے مطابق سمت معلوم کرلیں،یہ بھی خیال رکھیں کہ چاند کی تاریخیں ایک غروب آفتاب سے دوسرے غروب آفتاب تک ہوتی ہیں یعنی اگر چاند کی پہلی تاریخ پیر کی ہوگی تو ایک روز پہلے غروب آفتاب کے بعد سے شب پیر شروع ہوجائے گی اور اسی اعتبار سے تاریخ کو بھی اہمیت دی جائے گی جب کہ پیر کی شام سے غروب آفتاب کے بعد دو تاریخ اور منگل کی شب شمار ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں