ہفتہ، 6 مئی، 2017

وزیراعظم ابتدا ہی سے حالات کی ناہمواری کا شکار کیوں؟

زائچہ ءحلف کی خرابیوں پر اور آنے والے مہینوں کی سختیوں پر ایک نظر
نئے سال 2017 ءکے آغاز پر ہی ہم نے موجودہ سال کے حوالے سے جو تجزیہ پیش کیا تھا ، اس میں اس سال کو انتخابات کا سال قرار دیا تھا کیوں کہ پاکستان کے زائچے میں سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،زہرہ الیکشن کے عملی انعقاد، فوج اور بیوروکریسی، عدالتی کارروائی، اختلافِ رائے اور تنازعات سے متعلق ہے،چوں کہ موجودہ سال کا عدد ایک ہے لہٰذا اس سال کو ایک نئے آغاز کا سال بھی قرار دیا ہے،چناں چہ سیاست میں اختلاف اور تنازعات کا جو بازار گرم ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،عدالتی کارروائی بھی نتیجہ خیز رہی ہے اور مزید جاری ہے یعنی جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ کی نگرانی میں کام کرے گی تاکہ باقی تین جج حضرات کو کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں مدد ملے ، اگر تین میں سے ایک جج بھی باقی دو جج حضرات سے متفق ہوگیا تو یہ فیصلہ نواز شریف صاحب کی وزارت اعظمی کے لیے زہر قاتل بن سکتا ہے۔
اپنے اسی مضمون میں ہم نے جو جنوری کی ابتدا میں میں شائع ہوا تھا اور زنجانی جنتری 2017 ءمیں بھی نومبر 2016 ءمیں شائع ہوا تھا، عرض کیا تھا کہ ”15 اپریل کے بعد نت نئے مسائل سر اٹھائیں گے، نئے تنازعات کا کوئی پنڈورا بکس کھل کر عوامی توجہ حاصل کرے گا،سیاسی اور فوجی حلقوں کے درمیان کوئی نئی کشمکش شروع ہوسکتی ہے،اس کے علاوہ حادثات و سانحات کے حوالے سے بھی نئے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں“۔
ہمارے اندازے کے مطابق15 اپریل سے جس نوعیت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ حکومت کے لیے مزید دردِسر بن چکے ہیں، سیاسی اور فوجی حلقوں کے درمیان بھی کسی حد تک کشیدگی آچکی ہے اور اس کی وجہ ڈان لیکس سے متعلق معاملات ہیں،اس کے علاوہ خارجہ پالیسی کے مسائل بھی فوج اور حکومت کے درمیان اطمینان بخش نہیں ہیں۔
آخر وزیراعظم نواز شریف صاحب کو ابتدا ہی سے ایک نہایت سخت اور صبرآزما صورت حال کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ 5 جون 2013 ءکو شام 05:44 pm اسلام آباد میں جب وزیراعظم نے حلف لیا تھا تو زائچہ ءحلف کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ ایک ناموافق وقت تھا، بہتر ہوگا کہ وزیراعظم دوبارہ کسی بہتر وقت پر حلف اٹھائیں کیوں کہ حلف کا زائچہ نہایت خراب اثرات کا حامل ہے اور ایسا ہی ہوا۔
حلف کے وقت اسلام آباد کے افق پر طالع عقرب تقریبا 3 درجہ طلوع تھا، شمس اور مریخ کے علاوہ تمام سیارگان منحوس گھروں میں تھے، ہم نے عرض کیا تھا کہ 13 اگست 2014 ءتک اس حکومت کا ہنی مون پیریڈ ہے، اس کے بعد جو مسائل و مشکلات شروع ہوں گے، وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے،چناں چہ ایسا ہی ہوا، 14 اگست 2014 ءسے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے خلاف میدان عمل میں آگئے تھے اور پھر اب تک کی صورت حال دہرانا ہم ضروری نہیں سمجھتے لیکن آئندہ مہینوں کے حوالے سے تھوڑے سے تجزیے کی اجازت دیجیے۔
زائچے میں سیارہ زہرہ کا دور اکبر جاری ہے،حلف کے اس زائچے میں زہرہ بارھویں گھر کا حاکم ہوکر آٹھویں گھر میں بیٹھا ہے،گویا منحوس گھر کا حاکم ایک منحوس گھر میں مزید منحوس ہوگیا ہے،فنکشنل پیریڈ راہو کا 13 اکتوبر 2015ءسے جاری ہے جو 13 اکتوبر 2018 ءتک جاری رہے گا، راہو زائچے کے بارھویں گھر میں ہے لہٰذا ایک فطری منحوس مزید منحوس ہوگیا ہے،اس طرح دور اکبر اور دور اصغر دونوں کے حاکم سیارے نہایت منحوس اثر ڈال رہے ہیں۔
طالع عقرب کے لیے سیارہ زہرہ اور مریخ فعلی منحوس سیارے ہیں کیوں کہ یہ چھٹے اور بارھویں گھر کے مالکان ہیں،اس کے علاوہ راہو کیتو بھی منحوس اثر رکھتے ہیں اور اس سال گھر تبدیل کرتے وقت ایسے درجات پر آئیں گے جو زائچے کے نہایت حساس درجات ہیں یعنی 3 درجہ ، یہ وقت نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ اس وقت داخلی ، خارجی صورت حال کے علاوہ صحت سے متعلق خرابیاں اور عزت و وقار، عہدہ و مرتبہ داو ¿ پر لگ سکتا ہے،رمضان تک کا وقت اس مقدس ماہ کی برکت سے کسی حد تک خیروعافیت کا ہوسکتا ہے لیکن رمضان کے بعد صورت حال کنٹرول سے باہر ہونے لگے گی،خصوصاً جولائی اور اگست خاصے تشویش ناک مہینے ہوسکتے ہیں جن میں لیلائے اقتدار کو خطرات ہوں گے اور صورت حال کسی نئے الیکشن کے لیے سازگار ہوگی،اگر پاناما لیکس کے حوالے سے کوئی منفی صورت حال سامنے آگئی تو وزیراعظم صاحب نااہل ہوسکتے ہیں،کیا اس صورت میں وہ اپنی جگہ کسی اور کو قائدِایوان دیکھنا پسند کریں گے؟ اس سوال کا جواب خاصا مشکل ہے،جہاں تک علم نجوم سے رہنمائی کا تعلق ہے تو وزیراعظم کا شمسی برج جدی ہے اور برج جدی کے بھی عشرئہ اول میں پیدائش ہوئی ہے، یہ ایک نہایت سخت عشرہ ہے، اس عشرے میں پیدا ہونے والے افراد بے لچک ہوتے ہیں، وہ ٹوٹ سکتے ہیں لیکن جھکنا نہیں جانتے، اپنی پسند و ناپسند اور اپنے مو ¿قف میں تبدیلی لانا پسند نہیں کرتے، ان کا برتھ سائن سنبلہ ہے، یہ بھی خاکی برج ہے اور سنبلہ افراد بھی اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں،ہمارا نہیں خیال کہ ایسی کسی صورت حال میں وہ اپنے علاوہ کسی اور کو قائدایوان بنانے پر آسانی سے راضی ہوسکےں گے،امید رکھنا چاہیے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے اور وہ اپنی مدت پوری کریں لیکن ستاروں کے اشارے کسی دوسرے ہی منظرنامے کی نشان دہی کر رہے ہیں۔
بے شک آسمانی کونسل کے اشارے مثبت نہیں ہیں لیکن دانش مندانہ فیصلے اور اقدام ، کار خیر اور عوام دوستی کا جذبہ وزیراعظم کو بدترین وقت سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے (واللہ اعلم بالصواب)
مسیحا (3) ، پیش گوئی کا فن(2)
عزیزان من! ویدک علم نجوم پر ہماری پہلی کتاب پیش گوئی کا فن جنوری 2015 ءمیں شائع ہوئی تھی اور ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اس کا دوسرا حصہ بہت جلد پیش کردیا جائے گا، الحمداللہ پیش گوئی کا فن حصہ دوم شائع ہوگئی ہے، اس کی نمایاں خصوصیات میں ڈویژنل چارٹس کو سمجھنے اور پڑھنے کے طریقے تعلیم کیے گئے ہیں، عام طور پر منجم حضرات صرف زائچہ ءپیدائش پر ہی دھیان دیتے ہیں جب کہ نوبہرہ (نوامسا)، سہ بہرہ ، چہار بہرہ وغیرہ پر توجہ نہیں دی جاتی، زائچہ ءپیدائش کے ساتھ ڈویژنل چارٹس کا مطالعہ بھی ضروری ہوتا ہے ، اس کے علاوہ اس کتاب میں راہو کیتو ، ہبوط یافتہ سیارگان، تحت الشاع سیارگان کے حوالے سے بھی اہم مضامین شامل ہیں، انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین معاملہ ہے لہٰذا ایک خصوصی مضمون شادی اور ازدواجی زندگی کے حوالے سے شامل ہے، امید ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پیش گوئی کا فن حصہ اول کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس کتاب سے مزید فیض حاصل کریں گے، پیش گوئی کا فن حصہ دوم کی قیمت 1000 روپے ہے،براہ راست ہم سے منگوانے پر خصوصی رعایت حاصل ہوگی۔
ہماری کتاب مسیحا حصہ اول 2004 ءمیں شائع ہوئی تھی، پھر 2006 ءمیں مسیحا حصہ دوم شائع ہوئی، اس کے بعد سے یہ سلسلہ رُک سا گیا تھا، کوشش کے باوجود بھی تیسرا حصہ شائع نہیں ہوسکا تھا، الحمد اللہ کہ مسیحا کا تیسرا حصہ پرنٹنگ کے لیے پریس جاچکا ہے اور اس ماہ کے آخر تک شائع ہوجائے گا۔
مسیحا حصہ سوم میں علم جفر کے بنیادی رموز و نکات پر روشنی ڈالی گئے ہے تاکہ عام لوگ جو علم جفر میں دلچسپی رکھتے ہیں ، اس کتاب سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں،اس کے ساتھ ہی نہایت اہم نقوش و عملیات بھی شامل کیے گئے ہیں جو ہمارے مجربات میں سے ہے،گزشتہ تقریباً 25 سال کے دوران میں لاکھوں کی تعداد میں خطوط ، ای میلز وغیرہ ہمیں موصول ہوتے رہے ہیں اور ذاتی طور پر بھی لوگوں کے مسائل ، مشکلات اور دکھ بیماریوں سے آگاہی حاصل ہوئی ہے لہٰذا کتاب کا ایک حصہ ایسے خطوط کے لیے مختص کیا گیا ہے ، ہمیں یقین ہے کہ مسیحا کا تیسرا حصہ اپنے سابقہ حصوں سے بڑھ کر عام لوگوں کے لیے فائدہ بخش ہوگا،مسیحا حصہ سوم کی قیمت 500 روپے ہے،وہ لوگ جو براہ راست ہم سے مندرجہ بالا کتابیں منگوائیں گے انہیں خصوصی رعایت دی جائے گی۔
آئیے رواں موضوع کی طرف جو روز بروز دلچسپ ہوتا جارہا ہے،اب ایک اور خط ملاحظہ کیجیے۔
فکرو خیال کے جنات
اے، اے خان رقم طراز ہیں ”جناب عالی! عرصہ ستائیس سال سے میرے ساتھ ایک عورت ہے، پہلے وہ مجھے نظر بھی آیا کرتی تھی، بعد میں نظر آنا بند ہوگئی، صرف خواب میں نظر آتی ہے، میری شادی میں بھی بہت زیادہ رکاوٹ رہی، آخر تقریباً ڈیڑھ سال قبل میری شادی ہوگئی، شادی ہوتے ہی میرے حالات خراب ہوگئے یعنی معاشی تنگ دستی میں مبتلا ہوگیا، جب بھی کسی صاحب سے اسے ہٹانے یا مٹانے کے لیے بات کرتا ہوں تو اور زیادہ پریشان کرتی ہے۔
اکثر اوقات بجلی کی وائرنگ میں بھی آگ لگ جاتی ہے، اسی طرح کی باتیں رونما ہوتی ہیں، میں مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتا ہوں، شادی کے تقریباً تین ماہ بعد مجھے خواب میں کہا کہ میں اپنی بیوی کو چھوڑ دوں تو میرے پاس کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں رہے گی، مجھے جیب میں پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ بھی بھرے ہوئے دکھائے اور ایک بالکل نئی موٹر سائیکل بھی دکھائی کہ یہ تمہاری ہے۔
میں قرض دار بھی ہوگیا ہوں اور یہ قرض بڑھتا ہی جارہا ہے، براہ کرم میرے کیس کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے کوئی مشورہ دیں،ا گر آپ اس سلسلے میں مدد فرماسکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ کسی اور عامل صاحب کا پتا دیں تاکہ میری مشکلات آسان ہوں، میں تا زندگی آپ کو دعا دوں گا“۔
مذکورہ خط پڑھ کر آپ یقینا کسی جنّی کے حسین تصور میں کھو گئے ہوں گے یا کوئی بدروح آپ کے خیال میں آگئی ہوگی اور ہمارے دیگر عاملین و کاملین اس سلسلے میں کیا رائے دیں گے، یہ ہمیں نہیں معلوم، ہماری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ یہ شیزوفرینیا کا کیس ہے، صاحب خط کے خیال کا جن مو ¿نث شکل اختیار کرکے ذہن پر قابض ہے اور ذہن کی بوالعجبیاں خدا کی پناہ، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے والی بات ہے۔
جنات کے موضوع پر لکھنے کے دوران میں ہمیں بعض ایسے حضرات کے خطوط بھی موصول ہوئے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ اس میدان کے پرانے شہ سوار ہیں اور اس حوالے سے ان کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے، ثبوت میں بعض نے اخبارات میں شائع شدہ اپنے اشتہارات کی فوٹو کاپیاں بھی روانہ کی ہیں جن میں ان کے مختلف دعوے موجود ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے حضرات اپنے مو ¿قف کو شعبدے بازی کے بجائے کسی علمی دلیل سے ثابت کریں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ پدرم سلطان بودیا اپنی شان میں قصیدہ لکھا کر اشتہار کی شکل میں شائع کرادینا یا محض سنی سنائی باتوں کو دہرانا جن کی کوئی معتبر سند بھی موجود نہ ہو۔
اندرون سندھ سے ایک صاحب نے ایسے ہی دعوو ¿ں کے ساتھ خود کو علم جفر کا ماہر بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اسم بدوح کے حوالے سے ہمارے مو ¿قف سے مطمئن نہیں ہےں، وہ لکھتے ہیں کہ اسم بدوح وہ اسم ہے جس کے ذریعے حضرت سلیمانؑ کے وزیر یا تدبیر حضرت آصف بن برقیا نے پلک جھپکتے میں ملکہ سبا کا تخت دربار میں حاضر کردیا تھا۔
عزیزم! پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے اس دعوے کا ثبوت کیا ہے؟ آپ نے کس مستند کتاب سے یہ حوالہ دیا ہے جب کہ ہماری نظر سے تو ایسی کوئی بات حضرت آصف بن برقیا کے حوالے سے نہیں گزری، یہاں ہمیں اپنی کم علمی کا اعتراف ہے، قرآن کریم میں اس واقعے کے حوالے سے آصف بن برقیا کا نام بھی موجود نہیں ہے،صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ انسانوں میں سے ایک تھا جسے ہم نے کتاب کا علم دیا تھا،اسم بدوح وغیرہ کا کوئی تذکرہ ملکہ سبا کا تخت منگانے کے حوالے سے قرآن کریم میں ہے نہ احادیث میں،آپ جیسے ماہرین علم جفر نے ہی یہ افواہ پھیلائی ہوگی۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ علم جفر سے اپنی واقفیت اور اس علم پر عبور کے دعوے دار ہیں مگر ابھی تک آپ نے اپنے ملک کے مشہور اور نامور جفار حضرات کی کتابوں کا مطالعہ بھی نہیں کیا، عرب، ایران و مصر وغیرہ کے اہل علم تو کجا! ہم نے کاش البرنی ؒ کا حوالہ دیا تھا جو علم جفر میں ایک نہایت معتبر اور مستند نام ہے، اس کے علاوہ لاہور کے شاہ زنجانی مرحومؒ اور ان کے صاحب زادے جو ابھی بقید حیات ہیں، ان کی کتابیں موجود ہیں، شور کوٹ کے علامہ شاہ گیلانی مرحوم اور بے شمار لوگوں نے اس موضوع پر لکھا ہے مگر یہ بات ہمیں کہیں سے معلوم نہیں ہوسکی جو آپ کہہ رہے ہیں، حضرت غوث گوالیاریؒ کی علم جفر سے متعلق کتاب بھی ایسی کوئی اطلاع نہیں دیتی۔
قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے تذکرے میں آپ کے وزیر کا تذکرہ سورہ النمل کی 39-40 آیت میں یوں کیا گیا ہے، ترجمہ ”جنوںمیں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا” میں اسے حاضر کردوں گا، قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں ، میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں“ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا ” میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں“ جوں ہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے اپس رکھا ہوا دیکھا ، وہ پکار اٹھا”یہ میرے رب کا فضل ہے“۔
مفسرین قرآن اس بات پر متفق ہیں کہ مذکورہ آیات میں کتاب کا علم رکھنے والے شخص سے مراد حضرات سلیمانؑ کے وزیر حضرت آصف بن برقیا ہیں، آپ نے جنات پر انسان کی برتری اپنے علم سے قائم رکھی اور حضرت سلیمانؑ کے دربار میں انہیں شکست سے دوچار کیا۔
علم جفر اور روحانیات کے علماءاس بات پر متفق ہیں کہ حضرت آصف بن برقیا علم الاعداد اور حروف کے باب میں امام کا درجہ رکھتے ہیں، آپ اس علم کے وارث تھے جو حضرت سلیمانؑ کو اللہ کی طرف سے ملا، عملیات و طلسمات کی اکثر کتب میں آپ کے حوالے ملتے ہیں مگر کہیں یہ بات نظر میں نہیں آتی کہ آپ نے ملکہ سبا کا تخت اسم بدوح کے استعمال سے منگوایا تھا، اس حوالے سے بعض اہل علم مختلف اسماءکا تذکرہ کرتے ہیں اور ماہرین جفر جس جفری عمل کی نشان دہی کرتے ہیں وہ تمام موازین کو اکٹھا کرکے طلسم کی صورت دینے کا عمل ہے، اگر آپ کو علم جفر سے پوری واقفیت ہے تو آپ ہمارا اشارہ یقینا سمجھ لیں گے،
 آئیے ایک اور خط کی طرف۔
ش،الف کا خط لانڈھی کراچی سے ”ہماری امی بتاتی ہیں کہ آج سے چوبیس سال پہلے ہمارے ابو کی شادی ہوئی تھی، اس وقت ہمارے گھر میں آم کا ایک درخت تھا، ہمارے ابو نے نیا کمرا بنانے کے لیے اسے کاٹ دیا، اس کو کاٹنے کے بعد سے وہ بہت ڈرنے لگے تھے اور جب ہماری امی نانی کے گھر رہنے کے لیے چلی جاتی تھیں تو ابو اکیلے سوتے ہوئے بہت ڈرتے تھے، سوتے میں چیخ مار کر بے ہوش ہوجاتے تھی ، جب پڑوس میں سے کوئی آتا تو وہ بے ہوش ہوتے اور پھر ہوش میں آکر بتاتے کہ میرے اوپر ایک چو ہے جتنی چیز آکر گرتی ہے جب میں اسے نیچے پھینکتا ہوں تو وہ بہت ہی زیادہ بری شکل اختیار کرلیتی ہے۔
اس کے بعد ہمارے ابو کی نوکری چھوٹ گئی اور بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ، پھر قرض لے کر رکشا خریدا جس میں بہت ہی زیادہ نقصان ہوا تو بیچ دیا پھر کرائے کا چلانے لگے، آئے دن خراب رہتا اور تین دفعہ ایکسیڈنٹ بھی ہوا، خدا کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مالی بہت ہوا، پھر وہ بھی چھوڑ دیا، اب ایک سال پہلے ہم نے گھر بنوایا تھا، اب ابو تو نہیں ڈرتے مگر گھریلو پریشانیاں اپنی جگہ ہیں، یہ سمجھ لیں کہ سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو مٹی ہوجاتا ہے“۔
آخر میں ایک اور مشہور عامل صاحب کا خط، انہوں نے ہمیں لکھا ہے کہ ہم یا تو روحانی علاج کی بات کریں یا دوا سے علاج کی، دونوں طریقوں کو نہ ملائیں، موصوف نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ آج کل جادو، سحر اور بندش وغیرہ کا زور ہے، جب تک اس کی کاٹ نہ کی جائے لوگوں کے مسائل حل ہی نہیں ہوسکتے، ان کے بقول قدم قدم پر شیطانی عمل ہورہے ہیں اور خلق خدا پریشان ہے۔
ہم نہایت ادب سے ان کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ سحر، جادو اور بندش بچوں کا کھیل نہیں کہ جو چاہے اور جس کے خلاف چاہے کرتا یا کراتا پھرے، رہا سوال شیطان کی مداخلت کا تو وہ بے چارہ تو خود پریشان ہے کہ آج کل اس کے کرنے کا کوئی کام ہی نہیں رہ گیا، سب کچھ تو حضرت انسان نے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
ہمارے خیال میں تو انسان اگر اپنے اندر کے شیطان کو قابو میں کرلے تو پھر باہر کا کوئی شیطان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کوئی بندش اس پر نہیں لگ سکتی، کوئی بھوت، آسیب اس کے قریب نہیں بھٹک سکتا، کوئی جادو ٹونا اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، یقینا آپ کو ہماری باتوں سے اتفاق نہیں ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں