ہفتہ، 29 اپریل، 2017

جنات کے ذریعے الٹرا ساونڈ رپورٹ اور صحابی جن


حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ شاہِ جنات کے دربار میں
جنات کے حوالے سے جو گفتگو چل رہی تھی، اس کے تناظر میں ضروری ہے کہ بعض خطوط بھی شامل اشاعت کیے جائیں جو ہمیں وقتاً فوقتاً موصول ہوتے رہے ہیں، آئیے پہلے ایک خط ملاحظہ کیجیے۔
اے، کیو، کے لکھتے ہیں ” یہ آج سے تقریباً پانچ سال پہلے کی بات ہے کہ میں شدید بیمار ہوا، اس دوران میں میں ایک ڈاکٹر کے پاس زیر علاج تھا، انہی دنوں والد صاحب کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ مجھے کسی عالم صاحب کو بھی دکھایا جائے، ہوسکتا ہے کسی جادو سحر یا جنات وغیرہ کے اثرات ہوں، اس لیے انہوں نے ہمارے محلے کی مسجد کے پیش امام صاحب سے مشورہ کیا، مولانا کے ایک واقف کار تھے جو اس وقت جیل روڈ پر واقع آنکھوں کے اسپتال کے عقب میں ایک مسجد میں پیش امام کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے تھے، انتہائی قابلیت کے حامل تھے اور بڑا نام رکھتے تھے، طے یہ پایا کہ مجھے ان کے پاس لے جایا جائے، پروگرام کے مطابق ہم سب ان کے پاس عصر کے وقت پہنچے، نماز کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے حجرے میں بلا لیا جو مسجد کے باہر برابر ہی میں تھا، تمام حال سن کر انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی سے بروہی زبان میں کچھ کہا اور وہ اٹھ کر حجرے سے باہر چلے گئے، کچھ دیر جب وہ واپس لوٹے تو ان کے ایک ہاتھ میں پانی کا جگ گلاس اور دوسرے میں ایک کپ تھا، یہ سب لاکر انہوں نے میرے سامنے رکھ دیا اور گلاس پانی سے بھر دیا، کپ میں چائے نہیں تھی، سرسوں کا تیل یا اس سے مشابہ کوئی چیز تھی، مولانا آگے آئے اور عین میرے سامنے بیٹھ گئے، ایک ہاتھ سے کپ اٹھایا اور دوسرے سے میرے بائیں ہاتھ کی چھنگلی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دل ہی دل میں کچھ پڑھنے لگے، وہ پڑھتے جاتے اور ایک پھونک کپ میں اور دوسری میرے سینے کی جانب مارتے جاتے، جوں جوں یہ عمل ہوتا رہا، مجھ پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوتی گئی، کچھ دیر بعد میرا ذہن ایسا ہوگیا کہ میں دیکھ تو سب کچھ رہا تھا مگر سمجھنے کی طاقت نہیں تھی، بدن میں قوت یا احساس نام کی کوئی شے نہیں تھی، اپنے بدن کے کسی حصے کو حرکت دینے کی طاقت ختم ہوچکی تھی یا یوں کہہ لیں کہ جسم کا اور ذہن کا تعلق ٹوٹ چکا تھا اور ذہن بھی بے اختیار ہوچکا تھا ، بس گم صم بیٹھا مسلسل مولانا صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا، پھر مولانا صاحب نے میرے سر سے دم کرنا شروع کیا، وہ کچھ پڑھ کر ایک پھونک میرے بدن کے کسی حصے پر مارتے اور دوسری کپ میں، اس کے بعد کپ میں بغور دیکھتے،آخری دم انہوں نے میرے پیروں کی جانب کیا پھر کچھ پڑھنے کے بعد دو تین دفعہ میرے سینے کی جانب دم کیا اور میری چھنگلی چھوڑدی۔
چھنگلی چھوڑتے ہی میرے ذہن میں ہلکی سی سنسناہٹ سی ہوئی اور مجھے ایسا لگا کہ میں کسی گہری نیند سے جاگا ہوں، پورے بدن میں گرمی کا احساس ہوا، حلق خشک ہوگیا اور اتنی شدت سے پیاس کا احساس ابھرا کہ بے اختیار میرے منہ سے لفظ”پانی “ نکلا، مولانا صاحب نے سامنے رکھا ہوا پانی سے بھرا گلاس فوراً میرے سامنے رکھ دیا اور میں نے ان حضرات کے سامنے انتہائی بے صبری اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ہی سانس میں سارا پانی پی لیا، پانی پینے کے بعد آہستہ آہستہ مجھے کچھ سکون محسوس ہونے لگا، بعد میں مولانا نے والد صاحب کو بتایا کہ انہیں کوئی جادو، سحر یا جنات وغیرہ کے اثرات تو نہیں ہےں، البتہ انہوں نے میری پسلیوں کے نچلے حصے سے ناف تک اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حصے میں کوئی تکلیف ہے جس کا میڈیکل علاج ممکن ہے، اب آپ چاہے اس کا الٹرا ساو ¿نڈ کرائیں یا اسے لندن لے جائیں، تکلیف انہیں بدن کے اسی حصے میں ہے (بعد میں ایسا ہی ہوا، میڈیکل رپورٹس کے مطابق میرے جگر میں خرابی تھی ) پھر انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسا جادو نہیں جس سے میں مرض کا علاج کروں، چند تعویذ شفا کے لیے دیتا ہوں،باقی شفا دینے والی اللہ کی ذات ہے۔
مختصر یہ کہ میڈیکل علاج کے ساتھ میرا بذریعہ تعویذ علاج بھی چلتا رہا اور میں چند ماہ میں شفایاب ہوگیا، اسی روز واپسی پر ہماری مسجد کے پیش امام صاحب نے بتایا کہ مذکورہ مولانا کے پاس کسی عالم صاحب کا بخشا ہوا جن ہے،علاج کے دوران میں وہ جن مریض کے جسم میں داخل کرتے ہیں اور جن مریض کے جسم میں رہ کر کپ کے اندر مولانا صاحب کو تمام اندرونی حالات سے آگاہ کرتا ہے، یہ ایک طرح کا الٹرا ساو ¿نڈ بھی ہوتا ہے جس سے ساری حقیقت کا بہ خوبی علم ہوجاتا ہے۔
یہ بات اگر مجھے پہلے معلوم ہوجاتی تو شاید میں اس تجربے کے لیے تیار نہ ہوتا کہ کوئی جن میرے جسم میں داخل ہو کیوں کہ میں اتنے مضبوط اعصاب کا مالک ہر گز نہ تھا، اگر یہ سارا واقعہ خود میرے ساتھ پیش نہ آیا ہو تا تو شاید میں بھی اسے من گھڑت یا ڈراما ہی سمجھتا مگر مجھے ان باتوں پر یقین ہوگیا ہے اور یقینا ایسی مخلوقات کا وجود برحق ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسی مخلوقات کا وجود ہے اور جب ہمارے عالم اتنی قابلیت رکھتے ہیں کہ یہ مخلوقات ان کے اشاروں پر کام کریں تو اس دنیا میں ہونے والے مسلمانوں پر مظالم سے کون آگاہ نہیں، ہمارے عامل و کامل حضرات ان کے مظالم کے خلاف ان اعمال کا عملی مظاہرہ کرنے سے گریز کیوں کرتے ہیں؟ مجھے آپ سے امید ہے کہ میرے سوال پر آپ ذرا باریک بینی سے غور فرماکر جواب ضرور تحریر کریں گے“۔
عزیزم! جو مولانا صاحب آپ کو اپنے واقف مولانا صاحب کے پاس لے گئے تھے، ہمیں ان کی نیکی اور شرافت پر کوئی شبہ نہیں، البتہ ان کی سادہ لوحی اور کم علمی میں کوئی کلام نہیں، خدا معلوم انہوں نے آپ کے والد سے یہ کیوں کہا کہ مذکورہ مولانا کے پاس کسی کا بخشا ہوا جن ہے جسے وہ مریض کے جسم میں داخل کرکے ”روحانی الٹراساو ¿نڈ“ کا کارنامہ انجام دیتے ہیں، اب جنات سے ایسے کام لیے جائیں گے؟ یہ تو جنات کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے، حضرت سلیمان ؑ نے تو اس مخلوق سے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا تھا، بہر حال آپ کا اور پیش امام صاحب کا خیال غلط ہے، مذکورہ مولانا صاحب نے یقینا اپنی روحانی صلاحیت سے کام لے کر آپ کے جسم میں موجود تکلیف اور متاثرہ حصے کا اندازہ کیا ہوگا اور آپ کی جو کیفیت بھی اس وقت ہوئی ، وہ ان کے روحانی عمل کی بدولت ہوئی ہوگی لیکن اس میں ہمیں کسی جن کی موجودگی نظر نہیں آتی۔
کپ میں موجود تیل میں دیکھنا حاضرات کی ایک قسم ہے، وہ اس عمل کے عامل رہے ہوں گے، بعض جفری طریقے اور نجوم کے کلیے جسم میں بیماری کی قسم یا متاثرہ حصے کی نشان دہی کردیتے ہیں، اس کے علاوہ ہیپناٹزم کے ذریعے بھی انسان کو ٹرانس میں لاکر ایسی کیفیت طاری کی جاسکتی ہے، جیسی آپ پر طاری ہوئی۔
آپ کا آخری سوال خاصا دلچسپ اور توجہ طلب ہے اور آپ کے اس سوال میں ہی آپ کے لیے ایک اور سوال موجود ہے، وہ لوگ جو جنات پر قابض ہونے اور انہیں اپنے اشاروں پر چلانے کے دعوے دار ہوں، آپ کے سوال کا جواب تو دراصل ان پر ہی قرض ہے، آپ یہ غور کریں کہ جو مخلوق آپ کے جسم میں داخل ہوسکتی ہے، کیا وہ صرف اندرونی اعضا کے بارے میں اطلاع ہی دے سکتی ہے؟ ان کی اصلاح و درستی نہیں کرسکتی؟ مولانا کو اس سلسلے میں کون سا امر مانع تھا کہ وہ اپنے غلام جن سے آپ کا علاج بھی کرادیتے؟ اس سوال پر آپ غور فرمائیے۔
ہمارے نزدیک تویہ مفروضہ ہی لغو ہے کہ کوئی کسی کو جن بخش دے، مو ¿کل عطا فرمائے، جنات و مو ¿کلات کی تسخیر آسان کام نہیں، لوگ اس راستے میں پوری زندگی تباہ کرلیتے ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر کسی کو کامیابی نصیب بھی ہوجائے تو اس کی اپنی زندگی بڑی محدود ہوکر رہ جاتی ہے، وہ خود سخت پابندیوں کا شکار رہتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسی قوتوں کو اپنا پابند بنانے کے لیے خود بھی کچھ پابندیوں کو قبول کرنا پڑتا ہے جو کم از کم ہماری معلومات کے مطابق کسی دنیا دار انسان کے بس کا کام نہیں، ایسے لوگ دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور اپنا راز کسی پر ظاہر نہیں کرتے۔
اب رہ گئی دوسری شکل، جس کا ہم ایک بار محمد یونس صاحب اور مولانا جان محمد صاحب کے حوالے سے تذکرہ کرچکے ہیں کہ محمد علی آتشی نامی جن ان کے پاس تھا، وہ صورت خود مختارانہ اور آزادانہ ہے، اس میں پابندی نہیں ہے، جان محمد صاحب کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہوا اور ان کے ساتھ رہنے لگا، ان کے انتقال کے بعد کبھی کبھی یونس صاحب سے بھی رابطہ کرلیتا تھا مگر اپنی مرضی سے، ایسے واقعات بہت ہیں کہ اپنی مرضی سے جنات انسانوں سے رابطہ کرلیتے ہیں، وہ ان کے اشاروں کے پابند نہیں ہوتے یعنی ان کے محکوم یا غلام نہیں ہوتے، بعض کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور بعض پر مہربان بھی ہوتے ہیں مگر ان کی مہربانیوں کے پیچھے پھر ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔
مشہور ہے اور ہم نے کئی معتبر افرادسے سنا کہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (مرحوم و مغفور بانی جامعہ دارالعلوم ،کورنگی کراچی) کے پاس جنات کے بچے قرآن شریف پڑھنے آیا کرتے تھے، بعض لوگ بتاتے ہیں کہ اکثر رات کو آپ کے حجرے سے قرآن پڑھنے اور کبھی کبھار بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی آوازیں آیا کرتی تھیں، آپ ؒ نے خود کبھی اس حوالے سے کوئی اظہار نہیں کیا، آپ کے لائق و فائق صاحب زادگان مفتی محمد رفیع عثمانی، محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد ولی رازی صاحب آج بھی بقید حیات ہیں اور وہ یقینا اس بات سے آگاہ ہوں گے ، دیگر علماءکے حوالے سے بھی جنات سے ربط و ضبط کی خبریں ملتی ہیں مگر یہ صورت ہمیشہ آزادانہ اور اختیارانہ رہی ہے۔
صحابی جن
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا وہ واقعہ تو بہت ہی مشہور ہے جس میں آپ نے ایک صحابیءرسول جن کو دیکھا، یہ واقعہ آپ نے اپنی کسی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے، کتاب کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک سانپ کا بچہ اندر آگیا، میں نے چاقو سے اس کے دو ٹکڑے کردیے اور باہر پھینک دیا، دوسری رات دروازے پر دستک ہوئی، دو افراد موجود تھے اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تھے تاکہ کسی شرعی مسئلہ پر بات کرسکیں، شاہ صاحب ان کے ساتھ چلے گئے، یہ واقعہ دہلی کا ہے، وہ دونوں شاہ صاحب کو دہلی میں کوٹلہ فیروز شاہ کے عقب میں لے گئے اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی، باقی راستہ اسی طرح طے ہوا۔
بقول شاہ صاحب، جب ہم کسی منزل پر پہنچ کر رکے اور میری آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی تو میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑے ہال میں کھڑا ہوں اور وہاں کسی بادشاہ کے دربار کا سا ماحول ہے، سامنے تخت شاہی موجود تھا جس پر ایک بادشاہ اور اس کے سامنے دونوں اطراف میں امراءوغیرہ با ادب بیٹھے تھے۔
شاہ صاحب کو دیکھ کر بادشاہ نے سلام کیا اور نہایت نرم لہجے میں کہا ”آپ کو اس طرح زحمت دینے کی وجہ ایک شرعی مسئلے میں آپ سے رہنمائی درکار ہے“ 
شاہ صاحب نے فرمایا” پوچھیے“ تو بادشاہ نے پوچھا کہ قتل عمد کی شریعت میں کیا سزا ہے؟ شاہ صاحب نے بلا تامل جواب دیا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی مسلمان کا خون بہاتا ہے، سزا کے طور پر اسے بھی ہلاک کیا جائے گا، بادشاہ نے پھر تنبیہ کے انداز میں پوچھا، ایک بار اور غور کرلیجیے، آپ نے پھر وہی دو ٹوک جواب دیا تو بادشاہ کے اشارے پر ایک سفید چادر اٹھا دی گئی جس کے نیچے ایک بچے کی دو ٹکڑے ہوئی لاش موجود تھی۔
شاہ صاحب نے لاش کی جانب دیکھا اور مسکرائے، پھر فرمایا” کل یہ ایک ایسی شکل میں میرے سامنے آیا کہ اس کا قتل مجھ پر واجب ہوگیا“ پھر سانپ کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کی حدیث سنائی۔
”قتل الموذی قبل الایذائ“ موذی کو ایذا دینے سے پہلے قتل کردو۔
شاہ صاحب کے اس ارشاد کے بعد پورے دربار میں سرگوشیاں شروع ہوگئیں، اچانک پچھلی صفوں سے ایک جن بزرگ کھڑے ہوئے، بقول شاہ صاحب ان کی پلکیں بھی سفید تھیں اور چہرا نورانی تھا، انہوں نے با آواز بلند فرمایا”شاہ صاحب درست فرمارہے ہیں، یہ حدیث میں نے خود رسالت مآب کی زبانی سنی ہے“۔
بقول شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ان بزرگ کی اس تصدیق پر میں حیران رہ گیا کہ اس دربار میں ایک صحابی بھی موجود ہیں اور میرے لیے تو یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ ان کی زیارت کر رہا ہوں، شاید اسی اعزاز و سعادت کی وجہ سے جو خود کو تابعی بھی کہتے تھے۔
بہر حال اس کے بعد دربار میں سناٹا چھاگیا اور بادشاہ نے شاہ صاحب سے زحمت کے لیے معذرت کی پھر نہایت عزت و احترام سے آپ کو واپس روانہ کردیا، یہ واقعہ بعض کتب میں دوسرے انداز میں بھی بیان ہوا ہے، برسبیل تذکرہ درمیان میں آگیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جنات کی عمر یں بہت زیادہ ہوتی ہیں، ظاہر ہے کہ شاہ عبدالعزیزؒ کے دور میں مذکورہ بالا بزرگ جن کی عمر یقینا ہزار سال سے تو اوپر ہی ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں