ہفتہ، 13 مئی، 2017

روحانیات، جنات، جادو کے نام پر گمراہ کن نظریات


ہر مشکل اور کٹھن صورت حال میں ایک نئی وہم و گمان کی دنیا
تواتر کے ساتھ کئی کالم جنات، ہمزاد وغیرہ کے موضوع پر لکھے گئے تاکہ لوگوں کو حقائق سے آگاہی ہو لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نام نہاد ماہرین روحانیات اور جعلی عامل و کامل ٹائپ فراڈیوں نے لوگوں کے اور خصوصاً خواتین کے ذہنوں کو اس قدر گمراہ کن نظریات اور عقائد میں مبتلا کیا ہے کہ وہ ہر مشکل مسئلے یا مرحلے میں یہی سمجھنے لگے ہیں کہ یہ کوئی جناتی یا جادوئی معاملہ ہے،اکثروبیشتر ہمارے لیے اس وقت بڑی مشکل پیش ہوتی ہے جب ایسے ذہنی گمراہ لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور انہیں یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ وہ درحقیقت کسی جادو یا جناتی اثر کا شکار نہیں ہیں، اس حوالے سے ہمیں اکثر کامیابی ہوتی ہے اور کبھی کبھی ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کیوں کہ لوگوں کے ذہن میں غلط نظریات اور تصورات اس طرح بیٹھ گئے ہیں کہ وہ اپنے مسئلے کی معقول تشریح و توجیہ قبول ہی نہیں کرتے۔
دراصل شک اوروہم ایسی بیماریاں ہیں جوانسان کوجسمانی اورروحانی طورپرہزارہاقسم کی دیگربیماریوں کے جال میں پھنسادیتی ہیں ۔ان کی موجودگی میں مریض یا مسائل زدہ افراد مثبت انداز میں سوچنے کے قابل ہی نہیں ہوتے ۔لہٰذا اکثرانہیں سمجھانا ناممکن ہوکررہ جاتا ہے۔کیونکہ اپنے شک یا وہم کی تائید کے لیے دلیل وجواز ان کے پاس بھی کم نہیں ہوتے،آئیے ہم آپ کو بعض ایسے کیسوں کی تھوڑی سی جھلکیاں دکھاتے ہیں۔
شوہر کی آوارگی
ایک خاتون جن کی عمرتقریباً45سال اوران کے شوہر کی عمربھی 55`50سے کم نہ تھی۔بچے بھی بڑے ہوچکے تھے، صاحب حیثیت ہیں ۔مالی طورپرکوئی پریشانی نہیں ۔پریشانی ہے تو شوہر کی طرف سے جو ریٹائرڈ لائف گزاررہے ہیں۔ صاحب دولت وجائیداد ہیں۔ دونوں میاں بیوی میں زندگی کے کسی حصے میں بھی معقول انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوسکی۔ گویا وہ حقیقی محبت اورخلوص جوکسی بھی ازدواجی زندگی میں خوشیوں اورآرام و سکون کا باعث ہوسکتاہے ہمیشہ مفقود رہا۔ نتیجتاً ساری زندگی ایک دوسرے سے توتو میں میں کرتے گزری ۔ خاتون کوبہت سی جسمانی بیماریاں لاحق ہیں جن میں سے کچھ توعمر کا تقاضا ہے اورکچھ ناکام اورنامناسب ازدواجی زندگی کے نفسیاتی پہلوﺅں کا شاخسانہ ہیں اورکچھ بیماریاں ایلوپیتھک طریقہ علاج کا شاخسانہ ہیں۔
شوہر کی صحت بھی کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں کہی جاسکتی کیوںکہ شوگر‘بلڈپریشر اورانجائنا جیسے امراض انہیں لاحق ہیں جومستقل علاج معالجے کے متقاضی ہوتے ہیں۔
اس ساری صورت حال میں خاتون کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کے شوہر نہایت آوارہ مزاج ہیں۔جوانی میں بھی ان کی رنگین مزاجی عروج پر رہی۔ ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پرفائز رہنے کے سبب انہوں نے اپنی رومان پرستی کے لیے بہت سے ناجائز راستے ڈھونڈ رکھے تھے اوراب بھی ان کی نظر اپنے سے آدھی سے بھی زیادہ کم عمر کی لڑکی پرہے۔ وہ اس سے شادی کرناچاہتے ہیں مگر خاتون کے مرنے کے بعد!اوربات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرناچاہتے ہیں بلکہ خاتون کے خیال میں اس لڑکی اورا س کی ماں کا منصوبہ بھی یہی ہے کہ وہ ان سے شادی کرکے ساری دولت اور جائیداد پر قبضہ کرلیں۔ نہایت دلچسپ پہلواس معاملے کا یہ ہے کہ وہ لڑکی اوراس کی ماں کوئی غیر نہیں ہیں، خاتون کی نہایت قریبی عزیزہ ہیں اوراس رشتے داری کی وجہ سے خاتون کے گھرمیں آزادانہ عمل دخل رکھتی ہیں اور خود خاتون سے اوران کے شوہر سے مددکی طلب گار ہیں کہ ان کی بیٹی کا رشتہ کسی معقول جگہ کرانے میں تعاون کریں۔ گویا بظاہر ایسی کوئی بات نہیں جووہ خاتون سمجھ رہی ہیں لیکن خاتو ن کا کہنا یہ ہے کہ میں اپنے شوہر کے مزاج اورفطرت کوسمجھتی ہوں اور اپنی رشتے دار خاتون سے بھی واقف ہوں ، ماضی میں بھی ان سے خاندانی طورپر چپقلش رہی تھی مگر ان کا کبھی زور نہیں چلا، اب چوں کہ انہیں نظرآرہا ہے کہ میری زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں لہٰذا وہ اپنی بیٹی کو چارا بنا کرمیرے بچوں کو ان کے حق سے محروم کرناچاہتی ہیں۔
خاتون کومختلف عاملوں اورباباﺅں نے یہ یقین دلایا ہے کہ ان کی مخالف ماں بیٹی نے ان پرکچھ ایسے تعویذ گنڈے کرائے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ ایک اﷲ والی خاتون نے تویہاں تک کہ دیا کہ تم پرخطرناک قسم کا سفلی علم کرایا گیا ہے اورمرگھٹ میں تمہارے نام کی چوکی بٹھائی گئی ہے جس کی وجہ سے تم 4 مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہوگی۔
اس صورت حال حال میں جب بڑے بڑے مشہور روحانیت کے چیمپئن ایسی باتیں کررہے ہوں تو مریضہ کا کیاحال ہوگا؟ ہمارے لیے توان کویہ سمجھانا مشکل ہوگیا کہ جیسا کچھ آپ خیال کررہی ہیں اورجیسا کچھ آپ کوبتایا جارہاہے یہ سب غلط ہے۔ اصل مسئلہ صرف اتنا ہی ہے کہ آپ کے شوہر سے توآپ کی پہلے بھی کبھی نہیں بنی جو اب وہ آپ سے حسن سلوک اورمحبت کا مظاہرہ کریں۔ باقی گھرآنے والے مہمانوں سے اگروہ اچھی طرح پیش آتے ہیں‘ان کی خاطر تواضع کرتے ہیں تویہ دنیا کا دستور ہے۔اپنی پرانی دشمنی کے باوجود آخر آپ بھی توان کی خاطرداری کرتی ہیں اوران سے کسی خراب رویے کااظہار نہیںکرتیں اور اگر وہ آپ سے یاآپ کے شوہرسے یہ کہتی ہیں کہ میری لڑکی کے لیے کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈ دیں توآپ ان کی اس بات کا یہ مطلب کیوں لے رہی ہیں کہ ان کی نظر آپ کے شوہر پر ہی ہے؟ سوائے دولت وجائیداد کے ‘آپ کے شوہر میں کیا رکھاہے جو لڑکی کو یا اس کی ماں کومتاثر کرے گا۔ آپ کے بچے ماشاءاﷲ جوان ہیں۔ ایک لڑکی کی آپ شادی کرچکی ہیں دونوں لڑکے اب شادی کی عمرکوپہنچ چکے ہیں۔ وہ اپنے باپ کی دولت وجائیداد کے شرعی طورپر وارث ہیں۔ ایک زیرتعلیم ہے۔ دوسرا تعلیم سے فارغ ہوکر ملازمت کررہاہے۔ہم نے عرض کیا کہ کہیں ایساتونہیں کہ وہ آپ کے بیٹے سے اپنی بیٹی کا رشتہ چاہتی ہوں توانہوں نے بتایاکہ وہ لڑکی ان کے بیٹے سے عمر میں 5 سال بڑی ہے۔ 
خاتون کی بیماریوں کی تفصیل یہ ہے کہ وہ آرتھرائیٹس کی مریضہ تو ہیں ہی، آپریشن کے ذریعے ان کا پتّا بھی نکالا جاچکاہے اوریوٹرس بھی، اس کے علاوہ ہائی بلڈپریشر ‘ایسیڈیٹی وغیرہ سے بھی مستقل واسطہ رہتاہے۔ ہم نے پوچھا کہ ڈاکٹرز آپ کی بیماریوں اورزندگی موت کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟اورآپ کوجویہ خیال ہے کہ تعویز گنڈوں کے ذریعے کوئی خطرناک بیماری آپ کی جان لینے کے درپے ہے تو اس کا سراغ ڈاکٹر کیوں نہیں لگا پارہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ بیماری ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہی اوریہی وجہ تھی کہ وہ اپنی بیماری کوپراسرار سمجھ رہی تھیں ۔
مندرجہ بالا کیس میں خاتون کو جو بیماریاں لاحق ہیں ان کا مکمل اورشافی علاج تو کسی بھی طریقہ علاج میں نہیں ہیں۔ایلو پیتھک ڈاکٹرزآرتھرائیٹس کی خطرناک صورت حال کنٹرول کرنے کے لیے کارٹی زون جیسی دوائیں استعمال کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں جوخود ایک سلوپوائزن ہے اس صورت حال میں اپنی پراسرار بیماری کے لیے یہ دلیل دینا کہ کسی علاج یا کسی دوا سے فائدہ ہی نہیں ہوتاکوئی معقول بات نہیں ہے۔ایسی بہت سی بیماریاں ہیں یابعض امراض اکثرایسے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی دواکام ہی نہیں کررہی ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب لیناکہ بیماری کی وجہ سحروجادو کے اثرات ہیں۔ مریض کی فطری قوت مدافعت کو بھی کمزورکردیتی ہے۔
سحری اثرات کا فتویٰ
ہمارے کالم کی ایک پرانی قاری شوگر کی مریضہ ہیں، ہم نے ایک بار شوگرکنٹرول کرنے کے لیے ایک ہومیوپیتھک نسخہ لکھاتھا۔ انہوں نے اسے استعمال کیا۔شوگرکے ساتھ کچھ دیگر تکالیف بھی اکثرہوتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ہمارے پاس آئیں اوران کا علاج شروع ہوگیا۔
شوگربذات خود سوبیماریوں کی ایک بیماری ہے جوانسان کواندرہی اندر کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔ کسی طریقہ علاج میں بھی اس کا شافی اور کافی علاج موجود نہیں ہے۔ معاملہ حد سے گزر جائے اور روک تھام کی تمام دوائیں ناکام ہوجائیں تو آخری حربے کے طور پر انسولین دی جاتی ہے۔ اگرشوگر کنٹرول میں نہ ہوتو عموماً دوسری تکالیف اورزیادہ پریشان کرتی ہیں اوران پرقابو پانا مشکل ہوجاتاہے۔ خدا نخواستہ شوگر کے ساتھ بلڈ پریشر بھی ہائی ہونے لگے تومزید خرابیوں کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔گزشتہ دنوں علاج معالجے کے دوران کچھ بے احتیاطیاں ہوئیں جس کے نتیجے میں پہلے شوگرانتہائی کم ہوگئی اوربعدازاں بہت بڑھ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض بیماریوں سے نمٹنا غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔ان میں سے شوگر بھی ایک ایسی ہی بیماری ہے ۔اس کے پرہیز بھی نرالے ہیں یعنی بعض اوقات سادہ سی خوراک مثلاً روٹی چاول ‘سبزیاں بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ایک عام آدمی کے لیے مستقل شوگرچیک کراتے رہنا بھی اکثرمسئلہ بن جاتاہے۔ لہٰذا جب دواﺅں کے مستقل استعمال سے شوگر بہت کم ہوجائے توبھی مریض کی حالت خراب ہونے لگتی ہے اوراس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیا ہورہاہے۔ اس وقت میں اگربلڈپریشر بھی لوہوجائے تومریض کاذہن کام کرنا چھوڑ دیتاہے اوروہ ہذیانی کیفیت کا شکار ہوکر عجیب عجیب باتیں کرنے لگتا ہے جس سے کسی ماورائی اثر کا گمان ہونے لگتاہے جب کہ شوگر کا حد سے زیادہ بڑھ جانا بعض دیگر تکالیف کو بڑھاوا دیتا ہے۔ چنانچہ ایسی ہی صورت حال جب پیش آئی تووہ گھبرا گئیں۔
ایسی صورت میں عزیز رشتے دار اپنا عیادت کا فریضہ پورا کرنے کے لیے آجاتے ہیں اوران میں طرح طرح کے ماہرین اوردانش مند بھی موجود ہوتے ہیں۔ سب کے پاس اپنے تجربات ومشاہدات کی بھاری بھرکم زنبیل ہوتی ہے، عیادت کے دوران میں جذبہ خیراندیشی اورہمدردی چونکہ عروج پرہوتاہے لہٰذا ہرآنے والا صورت حال کوکنٹرول کرنے اورمسئلے کا حل تجویز کرنے میں پیش پیش نظر آتاہے اور بعض افراد جوش وجذبات میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ اپنی بات اور مشورے پر عمل کرنے کے لیے پورا زورلگادیتے ہیں۔ حالانکہ ضروری نہیں ہے کہ وہ درست سمت میں سوچ رہے ہوں یا صورت حال کوصحیح طرح سمجھ رہے ہوں لہٰذا ان کی باتوں سے مریض اور اس کے گھر والے عجیب عجیب طرح کے کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
یہی کچھ شوگرکی مریضہ ہماری قاری خاتون کے ساتھ ہوا۔ ان کے کوئی قریبی رشتے دار کسی بابا صاحب کے نہایت عقیدت مند ہیں لہٰذا وہ یہ دیکھ کر کہ ان کی بیماری حد سے بڑھتی جارہی ہے جوش جذبات میں بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے جنہوں نے اپنے روحانی کشف وکرامات سے کام لیتے ہوئے مریضہ کے حق میں سحری اثرات کا فتویٰ جاری کردیا اور روحانی علاج معالجے کے لیے لمبے چوڑے طریقہ کار کی فہرست پیش کردی۔
خدا کا شکر ہے کہ خاتون اوران کا گھرانہ ہمارے کالم کا مستقل قاری ہے۔ خاتون بھی بہت سمجھ دار ہیں ۔انہوں نے تمام صورت حال ہمیں بتادی انہیں سمجھانے اوران کے شک ووہم کودور کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔
ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں جہاں میڈیکل کے علم سے ناواقفیت بعض اوقات چھوٹی موٹی تکلیفات کوبھی ایک نیا ہی پراسرار رنگ دے دیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل اخبارات ورسائل‘ٹی وی چینلز میڈیکل سے متعلق مضامین اورپروگراموں سے بھرے پڑے ہیں مگراس کے باوجود طب وصحت کے حوالے سے لوگوں کی معلومات نہایت ناقص ہیں۔آخراس کی وجہ کیاہے؟
جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں اس کی پہلی وجہ تویہی ہے کہ لوگ زیادہ مطالعے کے شوقین نہیں ہےں صرف ضرورت کے تحت یا اپنے شوق اور دلچسپی کے تحت جوکچھ آسانی سے مل جائے پڑھ لیتے ہیں یاکوئی ٹی وی پروگرام دیکھ لیتے ہیں لیکن طب وصحت سے متعلق مضامین یا پروگرام میں بھی اسی وقت دلچسپی لیتے ہیں جب وہ ان کے اپنے ہی کسی مسئلے سے متعلق ہو، یہ ذوق وشوق عام طورسے نظرنہیں آتا کہ اس شعبے سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کیا جائے اور صحیح یا غلط کا شعورحاصل کیا جائے۔
ہمارے ملک میں ذرائع ابلاغ ہمیشہ سے ہی کسمپری کا شکاررہے ہیں۔ انہیں اپنی بقاءکی خاطرجائز وناجائز کیا کچھ برداشت کرناپڑتا ہے، اس حقیقت سے واقفان حال خوب باخبرہیں ۔تمام ذرائع ابلاغ وہ اخبارات ورسائل ہوں یا آج کے دور کے پرائیویٹ ٹی وی چینل‘ اشتہارکی توانائی حاصل کیے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتے۔ ان کی اس کمزوری کی وجہ سے بھی لوگ غلط دواﺅں اور گمراہ کن معلومات کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ایسے اشتہارات کونہایت دلچسپی سے دیکھتے ہیں جن میں مہلک اورخطرناک بیماریوں سے فوری نجات کی نوید دی جاتی ہے۔ حالانکہ درست طبی معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات جانتاہے کہ پیچیدہ امراض سے مکمل طورپرفوری نجات کسی دوا سے ممکن نہیں۔مکمل صحت بخشی کے لیے ہرطریقہ علاج میں مرحلہ وار ہی بہتری ممکن ہے۔ جبکہ بعض امراض ایسے بھی ہیں جن کے علاج میں انسان کوناکامی کا منہ دیکھناپڑتاہے اورجدید میڈیکل سائنس ابھی تک ان کی تشخیص کے موثرطریقے بھی دریافت نہیں کرسکی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جب تک عام آدمی طب وصحت کے حوالے سے درست اورمعقول معلومات حاصل کرنے کا شوق اپنے اندرپیدانہیں کرے گا، وہ اپنے اوراپنے خاندان کے جسمانی اورنفسیاتی مسائل کے حل کے لیے صحیح سمت کا انتخاب کرنے کے قابل نہیں ہوسکے گا اورکمرشلزم کا شکار ہمارا طب وصحت کا شعبہ اسے لوٹتا اوربے وقوف بناتارہے گا جس کے نتیجے میں بیماریاں نت نئی پیچیدگیاں اختیار کرکے آسیبی اورماورائی روپ دھارتی رہیں گی۔
ڈرگ مافیا
ایک تازہ ترین خبریہ ہے کہ نیوکیسل یونیورسٹی آسٹریلیا کے ماہرین تحقیق نے ایک نیاانکشاف کیاہے اوروہ یہ ہے کہ دواساز کمپنیاں زیادہ سے زیادہ دوائیں فروخت کرنے کی غرض سے بیماریاں ایجاد کررہی ہیں۔ پبلک لائبریری آف سائنس میڈیسن کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ بیماریوں کے بارے میں غلط قسم کی اطلاعات اورافواہوں کے ذریعے غیر موجود بیماریوں کا خوف لوگوں کے دلوں میں ڈالا جارہاہے۔ چھوٹے چھوٹے طبی مسائل کوبھیانک شکل میں پیش کیاجارہاہے۔ اس کا مقصد منافع کماناہے۔ مثلاً ہرعورت کوسن یاس کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے۔ یہ زندگی کا ایک معمول ہے عمرکے تقریباً45سے اور50سال کی عمرتک یہ مرحلہ آتاہے اور اس دوران میں بعض اوقات کچھ تکالیف کا شکار ہوناپڑتاہے لیکن فارماسیوٹیکل کمپنیاں مینوپاز کوبیماری کے طورپرپیش کررہی ہیں۔ اسی طرح خون میں کولیسٹرول کی زیادتی اورہڈیوں کی خستگی جیسے عوامل جن سے اگرچہ صحت کوخطرہ لاحق ہوسکتاہے لیکن انہیں خطرناک بیماری کے طورپر اجاگر کیاجارہاہے اور پیٹ میں مروڑجیسے معمولی طبی مسائل کوبھی گھمبیر صورت دی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ پاﺅں میں جھنجھناہٹ کوبھی بیماری کا درجہ دیاگیاہے۔اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ”بیماریوں کی سوداگری “سے عوارض کی حدیں بڑھائی جارہی ہیں اوراس سے ان لوگوں کوفائدہ پہنچ رہاہے جودوائیں فروخت کرتے ہیںاورعلاج فراہم کرتے ہیں۔
دنیابھر کے ڈاکٹر صاحبان کے حوالے سے بھی ایسی رپورٹیں منظر عام پرآچکی ہیں جن میں بتایاگیاہے کہ وہ بڑی بڑی دواﺅں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آلہ کار کا کردارادا کررہے ہیں اورانہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ مرض اورمریض کاانجام کیا ہوگا۔ ان کی پریکٹس کا اندازایسا ہی ہے جیسے کسی کلرک کا روزانہ ڈیوٹی پرحاضررہنا اورفائلوں کاپیٹ بھرکے سمجھ لینا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی۔
بیماریاں پھیلانے کایہی کام ہمارے ملک میں خانہ ساز قسم کے بابا لوگ اوراﷲ والی باجیاں بھی کررہی ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی مسائل زدہ یا بیماران کے پاس جائے یاان سے رابطہ کرے اوروہ اس پراثرات ‘بندش یا آسیب وجنات کافتویٰ نہ لگائیں۔ہم نے تویہاں تک دیکھا کہ ٹیسٹ رپورٹس بتارہی ہیں کہ مریض کے دل کا کوئی والوبند ہے یا اس کا جگرخراب ہے ہیپاٹائٹس کی رپورٹ مثبت آگئی ہے۔ گردوں میں انفکیشن ہے یا پتھری ہے مگراسے بھی اثرات اورجادو کے کھاتے ہیں ڈالا جارہاہے اور دلیل یہ ہے کہ بہت علاج کروایا مگرفائدہ ہی نہیں ہوتا۔ ایسے کیسوں میں ایسے مریض بھی شامل ہیں جواپنی عمرطبعی پوری کرچکے ہیں یعنی65`60اور70برس کی عمروں کوپہنچ چکے ہیں مگراس وہم میں مبتلا ہیں کہ ان کی موجودہ بیماریوں کا سبب جادوئی اثرات وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ بعض جگہ یہ وہم اورشک طویل بیماری سے پیدا ہونے والی مایوسی کی وجہ سے جنم لیتاہے اوربعض جگہ ہمارے روحانی معالجین کی نظرکرم کانتیجہ ہوتاہے۔
ایک آخری تازہ ترین واقعہ یقیناً آپ کی دلچسپی کا باعث ہوسکتا ہے،کسی زمانے میں ہمیں مچھلی کے شکار کا شوق بھی رہا لہٰذا ہمارا ایک حلقہ ءاحباب مچھلی کے شکاریوں کا تھا جن میں سے اکثریت اب اس دنیا میں نہیں رہی یا بعض لوگ نقل مکانی کی وجہ سے رابطے میں نہیں رہے، ایسے ہی ایک صاحب کے بارے میں ہم نے اپنے ایک پرانے دوست سے پوچھا کہ فلاں صاحب کا انتقال کب ہوا؟ کیوں کہ ہمارے خیال سے انہیں اب دنیا میں نہیں ہونا چاہیے تھا تو ہمارے دوست نے حیرت سے ہمیں دیکھتے ہوئے اطلاع دی کہ وہ زندہ ہیں، ہم بہت حیران ہوئے کیوں کہ وہ عمر میں ہم سے تقریباً 20,25 سال بڑے تھے ، یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ زندہ ہیں ہم ان سے ملنے کے لیے بے چین ہوگئے، اور بالآخر ان کے گھر پہنچ گئے،ان کا نام بلال احمد ہے،ٹیلر ماسٹر ہونے کی وجہ سے ماسٹر بلال کے نام سے مشہور ہیں، وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے،اس وقت ان کی عمر تقریباً 90 برس ہے،ذہنی طور پر ہوش و حواس میں ہیں، اولاد کوئی نہیں ہے،بیوی بھی نہیں ہے،کسی بھانجی کے گھر میں رہتے ہیں لیکن اب چلنے پھرنے سے معذور ہیں اور اس کی وجہ آرتھرائٹس کا مرض ہے لیکن جب ہم نے پوچھا کہ چلنے پھرنے سے معذوری کب سے ہوئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب سے میری بھتیجی نے مجھ پر جادو کرایا ہے،ہم نے کہا ”ماسٹر جی! آپ کیا کہہ رہے ہیں، اس عمر میں کوئی کیوں آپ پر جادو کرائے گا؟ آپ کے پاس تو کوئی مال و دولت یا پراپرٹی بھی نہیں ہے؟“
جواباً ماسٹر جی نے کہا کہ یہ لوگ مجھے بوجھ سمجھتے ہیں اور مجھ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں“ہم ان سے بحث نہیں کرسکتے تھے اور نہ اس کی ضرورت تھی، اس مثال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں یہ وبا کس حد تک پھیل چکی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں