ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

بھارت میں جنگی جنون کی لہر عروج پر

بھارتی زائچے کی روشنی میں جنگ کے امکانات کا جائزہ
کشمیر میں بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو انتہا درجے کشیدہ کرچکے ہیں، پاکستانی وزیراعظم جناب نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے بیان کرچکے، جواباً بھارتی رہنما جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے،دونوں جانب کا میڈیا اس ساری صورت حال سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے پروگراموں میں نت نئے رنگ بھر رہا ہے،خصوصاً انڈین میڈیا، صرف انڈین میڈیا ہی نہیں ، انڈین لیڈر شپ بھی پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے دھمکیاں دینے پر اُتر آئی ہے،اس حوالے سے سندھ طاس معاہدہ بھی زیر بحث آچکا ہے،دونوں جانب کی محاذ آرائی ایک جنگی جنون کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے تو کیا دونوں ملکوں کے درمیان کسی جنگ کا امکان موجود ہے؟
ہم اس سوال کا جواب انڈیا اور پاکستان کے پیدائشی زائچے میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے،ہمارے نزدیک دونوں ملکوں کا طالع پیدائش (Birth sign) ایک ہی ہے یعنی برج ثور (Taurus) ، انڈیا کے زائچے میں برج ثور کے تقریباً 8 درجے طلوع ہیں،اگرچہ پاکستان کے زائچے میں تقریباً 3 درجے۔
پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کا زائچہ گزشتہ تقریباً 2 ماہ سے سخت قسم کے نحس اثرات کا شکار ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ انڈیا میں صورت حال کو نہایت متشدد اور جارحانہ انداز میں پیش کیا جارہا ہے جب کہ پاکستان کے زائچے میں ایسی صورت حال جون جولائی میں موجود تھی لیکن اب ایسی کوئی بات نہیں ہے جو انتہا پسندانہ اور جارحانہ رویے کی عکاسی کرتی ہو، انڈین زائچے سے بھی یہ صورت حال آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے،امکان ہے کہ اکتوبر کے آخر تک کشیدگی میں کافی حد تک کمی آجائے گی لیکن انڈیا کے داخلی معاملات بہر حال اطمینان بخش نہیں ہوں گے اور خصوصاً کشمیر کی صورت حال انڈیا کے لیے ایک چیلنج بنی رہے گی۔
ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے گزشتہ سال جون میں بھارتی زائچے پر تھوڑی سی خیال آرائی کی تھی اور نشان دہی کی تھی کہ 11 ستمبر 2015 ء سے انڈیا کے زائچے میں سیارہ قمر کا دور اکبر شروع ہورہا ہے،قمر چوں کہ زائچے میں غضب ناک کیتو کی نظر کا شکار ہے لہٰذا بھارت میں انتہا پسندانہ اور جارحانہ رجحانات میں اضافہ ہوگا، چناں چہ گزشتہ سال اور اس سال بھی یہ مشاہدات ہورہے ہیں ، نریندر مودی صاحب جن کے زائچے کے حوالے سے ہم نے بہت پہلے عرض کیا تھا کہ وہ خود ایک جارحانہ سوچ رکھنے والے انتہا پسند جن سنگھی ہیں،پاکستان کے حوالے سے اپنی گھٹیا اور جارحانہ سوچ کا مظاہرہ انہوں نے بنگلا دیش کے دورے کے موقع پر کردیا تھا، اب بھی جب ان کے زائچے میں سیارگان کچھ مخصوص اینگلز اختیار کرتے ہیں تو وہ ایسے ہی عزائم کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے پانی کے مسئلے پر کیا ہے اور سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی ہے۔
قمر کے دور اکبر میں قمر ہی کا دور اصغر 11 جولائی 2016 ء تک جاری رہا، یہ بہر حال زیادہ جارحانہ اور ناموافق وقت نہیں تھا لیکن اب زائچے میں سیارہ مریخ کا دور اصغر جاری ہے جو 9 فروری 2017ء تک جاری رہے گا، مریخ زائچے کا منحوس اور بارھویں گھر کا حاکم سیارہ ہے جو مستقبل کے خوف، نقصانات اور حماقتوں کا باعث بنتا ہے،22 ستمبر سے سیارہ مریخ زائچے کے آٹھویں گھر میں رہتے ہوئے گیارھویں (فوائد) دوسرے(اسٹیٹس) تیسرے (کوشش اور اقدام) اور آٹھویں گھر کو متاثر کر رہا ہے، اس کی یہ منحوس پوزیشن تقریباً 6 اکتوبر تک رہے گی لہٰذا اس دوران میں اگر انڈیا کوئی عاقبت نا اندیشانہ قدم اٹھائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے،اس تمام عرصے میں مریخ کے نحس اثرات جنگی جنون کو اور بہت سے لاشعوری خطرات کو بڑھاوا دیتے رہیں گے۔
سیارہ مشتری جو اس زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے، ستمبر کی ابتدا ہی سے زائچے کے پہلے، پانچویں، نویں اور گیارھویں گھر کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت اور اس کے مفادات کو سخت نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے،مشتری کی نظر کا اثر تقریباً 10 اکتوبر تک قائم رہے گا، اس عرصے میں میڈیا اور دانش ور طبقے کے جذبات بھڑکتے رہیں گے،بعد ازاں موجودہ گرم بازاری میں کمی ہوگی مگر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بہر حال کم نہیں ہوگی،یہ آئندہ سال 9 فروری تک جاری رہے گی اور اس کے بعد سیاسی طور طریقے اختیار کیے جائیں گے یعنی دونوں مذاکرات کی ٹیبل پر آسکتے ہیں کیوں کہ راہو کا دور اصغر شروع ہوجائے گا جو سیاست کا نمائندہ ہے اور معاملات کو سیاسی طور پر نمٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا، راہو انڈیا کے زائچے میں ایک مکّار اور چال باز کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا پاکستان کو مذاکرات کی ٹیبل پر بھی خاصے پرپیچ ماحول کا سامنا ہوسکتا ہے،جنگ بہر حال کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور جنگ میں فاتح اور مفتوح دونوں ہی نقصان میں رہتے ہیں۔
ملکی سیاست میں اس وقت خاصی کشیدہ صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ پورا سال ہی سیاسی کشیدگی کے عروج کا سال ہے اور اس کشیدگی کا سہرا تحریک انصاف یعنی عمران خان کے سر ہے جو کرپشن کے خلاف میدان عمل میں سارا سال سرگرم رہے ہیں اور اب رائیونڈ کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں اور حکومتی مشینری کے تمام کل پرزوں کا کام ہی اب یہ رہ گیا ہے کہ وہ عمران خان کے زہر کا تریاق تلاش کرتے رہیں،دوسری طرف خود عمران خان کی اپنی پارٹی میں آنے والے بحران بھی کچھ کم نہیں ہیں،پاکستان تحریک انصاف کے زائچے پر نظر ڈالیں تو سیارہ عطارد کے دور اکبر میں سیارہ زہرہ کا دور اصغر جاری ہے،زہرہ پر سیاست کے ستارے راہو کی نظر ہے لہٰذا ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ پارٹی سیاست بھی عروج پر ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا، سیارہ زہرہ کا تعلق چوتھے گھر سے ہے جو داخلی معاملات کی نشان دہی کرتا ہے لہٰذا داخلی طور پر پارٹی میں اصلاحات کی ضرورت ہے مگر عمران خان کو اس کے لیے شاید فرصت نہیں ہے،راہو کی نظر کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ پارٹی کے اندر ابن الوقت قسم کے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،زائچے کی تازہ پوزیشن بہت اچھی نہیں ہے چناں چہ عمران خان کو حکومت کے خلاف جارحانہ مارچ یا دھرنے ٹائپ اقدام کے بجائے فی الحال قانونی جنگ پر اکتفا کرنا چاہیے اور پارٹی کی اصلاح پر توجہ دینا چاہیے،اس بات کو بھی اہمیت دینی چاہیے کہ تحریک انصاف ماضی کی دیگر ’’ون مین‘‘ پارٹیوں کی طرح ایک ون مین پارٹی ہے،اس میں آنے جانے والے دیگر سیاسی مہروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے،شاید عمران خان کے مشیروں نے ان کے ذہن پر ’’الیکٹیبل‘‘کا ہوّا بٹھا رکھا ہے لہٰذا وہ ہر خزاں رسیدہ ٹوٹے ہوئے پتّے کو اٹھا کر جیب میں رکھ لیتے ہیں کہ شاید آئندہ کام آئے گا۔
تحریک انصاف کے لیے نئے خوش گوار موسم کا آغاز نئے سال 2017 ء سے ہوگا (واللہ اعلم بالصواب)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں