ہفتہ، 15 اکتوبر، 2016

دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے

اولاد کا دکھ کسی نوعیت کا بھی ہو، نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے
وقت کی رفتار کو جدید زمانے کی سائنسی ترقی نے بہت بڑھا دیا ہے، جب سے دنیا انٹرنیٹ کی سہولت سے آشنا ہوئی ہے،دھیرے دھیرے سب کچھ بدلتا جارہا ہے،کہنے والے کہتے ہیں کہ ہم ایک گلوبل ویلج میں سمٹ کر رہ گئے ہیں،مشرق مغرب سے مل گیا ہے اور جنوب شمال سے،شاید یہی وجہ ہے کہ پرانے لوگوں کو موجودہ دور کے رنگ ڈھنگ ابھی تک کسی حد تک ناگوار محسوس ہورہے ہیں لیکن نئی نسل نئے رنگوں میں رنگتی چلی جارہی ہے،پرانی اور نئی نسل کے درمیان جو جنریشن گیپ پیدا ہورہا ہے،اس سے کچھ نئی نوعیت کے مسائل جنم لے رہے ہیں،والدین بچوں کو ہمیشہ بچہ ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوجائیں لیکن موجودہ دور کے بچے جدید زمانے کی ترقیاتی صورت حال سے آگاہ ہونے کے بعد اپنے والدین کو بچہ سمجھنے لگتے ہیں، انہیں اپنے پرانے زمانے کے والدین کم علم اور وقت کی ضرورتوں سے نا آشنا محسوس ہوتے ہیں،اس صورت حال میں بلاشبہ والدین کے لیے بھی خود کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے جہاں ایسا نہیں ہوتا، وہاں والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے زیادہ بڑھ جاتے ہیں،جنہیں کم کرنا آسان نہیں ہوتا۔
اکثر والدین ہمیں ایسے مسائل میں پریشان نطر آتے ہیں جو اولاد سے متعلق ہوتے ہیں،بعض موقعوں پر والدین کی غلطیاں سامنے آتی ہیں اور بعض موقعوں پر اولاد کی،جدید زمانے کے تقاضوں کو محسوس کرنا اور ان کی پیروی کرنا کوئی بری بات نہیں ہے،بعض والدین اسے برا سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں اولاد باغیانہ رویہ اختیار کرتی ہیں،البتہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی صورت میں بھی مناسب نہیں سمجھی جاسکتیں،اس حوالے سے نئے اور پرانے زمانے کی کوئی تفریق نہیں ہے، بچوں میں علمی ذوق کی کمی، تعلیمی سرگرمیوں سے عدم دلچسپی اور اس سے آگے بڑھ کر غیر ضروری یا غیر اخلاقی نوعیت کی سرگرمیاں، بے ہودگی،بدتمیزی، سرکشی، نافرمانی جیسے مسائل جب بچوں میں جنم لینے لگیں تو والدین کسی زمانے کے بھی ہوں، برداشت نہیں کرسکتے، ایسی صورتوں میں اکثر آخری حل کے طور پر روحانی علاج کا سہارا لیا جاتا ہے،بعض کیسوں میں اگر نفسیاتی مسائل موجود ہوں تو نفسیاتی علاج بھی ضروری ہوجاتا ہے۔
ہم اپنے کالموں میں اکثر مختلف نوعیت کی معاشرتی برائیوں ، بے ہودگیوں، بدتمیزیوں یا دیگر نوعیت کی ناجائز حرکتوں کی روک تھام کے لیے اعمال و وظائف دیتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں سب سے زیادہ حروف صوامت سے روک تھام کے طریقے دیے جاتے ہیں، بے شک اکثر مواقعوں پر یہ طریقے مو ¿ثر اور کارگر ثابت ہوتے ہیں،جب کہ بعض صورتوں میں ناکامی کا سامنا بھی ہوتا ہے،ہماری اکثر خواتین ان کاموں میں پیش پیش رہتی ہیں،ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ چھوٹے نابالغ بچوں کے سلسلے میں ان اعمال و وظائف سے جو حروف صوامت سے متعلق ہیں،کام نہ لیا کریں کیوں کہ بعض اوقات حروف صوامت سے لگائی گئی بندشیں، نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔
عام طور پر چھوٹے بچے فطری طور پر شریر اور نا سمجھ ہوتے ہیں،خصوصاً لڑکے ماں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں،ان کی شرارتوں اور ناسمجھیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر گز بندش کے عمل یا نقوش استعمال نہیں کرنے چاہئیں، خیال رہے کہ شریر بچہ ہی ذہین ہوتا ہے، آپ اس کی ذہانت کو عمل یا وظیفوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گی تو یہ اُس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ کا باعث ہوگا، بہترین طریقہ تو یہی ہوسکتا ہے کہ ایسے بچوں کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھا جائے،یہ مصروفیت تعلیمی بھی ہوسکتی ہے اور تفریحی بھی۔
بالغ اور سمجھ دار اولاد کی خرابیاں کچھ دوسری نوعیت کی ہوتی ہیں مگر ان خرابیوں کی جڑ عام طور سے کم عمری میں کسی خراب صحبت یا تعلق کا نتیجہ ہوتی ہے جس پر چھوٹی عمر میں ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے،اس وقت ہمارے سامنے ایسا ہی ایک کیس موجود ہے جو اپنی ماں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
وہ لکھتی ہیں ”میرا بیٹا کمپیوٹر سائنس میں انجینئر ہے، ایک اچھی پوسٹ پر کام کر رہا ہے،اچھا فرماں بردار رہا ہے،یونیورسٹی کے زمانے ہی سے اس کا اٹھنا بیٹھنا غلط لڑکوں کی صحبت میں ہوگیا تھا پھر آہستہ آہستہ ویک اینڈ پر راتوں کو غائب رہنے لگا، نشہ کرکے آتا تھا اور دن بھر سویا رہتا تھا، باپ نے کبھی بھی بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی، یہ ہمیشہ میری ذمے داری رہی،اچانک میں نے تبدیلی دیکھی تو بوکھلا گئی اور نظر رکھنی شروع کی، اس کی ایکٹیویٹیز پر پابندی لگانی شروع کی تو میرے خلاف ہوگیا، باپ میرا ساتھ دینے بجائے میرے خلاف بیٹے کے کان بھرنے لگے، آہستہ آہستہ اس کا حوصلہ بڑھتا گیا، گھر میں چوری کرنا شروع کردی،ماں بہن پر ہاتھ اٹھانے لگا، تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہوتا، شور شرابہ گھر میں کرتا، اس کی موجودگی میں ایک خوف کا سا عالم گھر میں رہتا ہے،یہ تمام باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ ماہ آپ نے جو غصہ ، اشتعال ، مارپیٹ، جھوٹ، چوری وغیرہ کو روکنے کے لیے طریقے تجویز کیے تھے، ان سے میں کس طرح فائدہ اٹھاسکتی ہوں؟شوہر کی مخالفت اور بدزبانی بھی ایک مسئلہ ہے،اس کے لیے کیا کیا جائے،آپ رہنمائی کریں“
جواب: عام طور پر اگر میاں بیوی کے درمیان محبت اور خلوص یا دوسرے الفاظ میں باہمی انڈراسٹینڈنگ نہ ہو تو بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑھتا ہے، جیسا کہ زیر نظر معاملے میں نظر آتا ہے کہ باپ کو اولاد کی غلط حرکات سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے ، البتہ بیوی کے خلاف کسی بھی کارروائی کا موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، اولاد کو بیوی کے خلاف شہ دینا ایک انتہائی نامناسب عمل ہے۔
آپ کے صاحب زادے کا زائچہ ہمارے پیش نظر ہے اور اسے دیکھتے ہوئے ہم یہی عرض کریں گے 
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
یہ مشہور شعر اب ایک ضرب المثل بن چکا ہے،بے شک آپ کے صاحب زادے نے خرابیوں کا راستہ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں اختیار کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے برتھ چارٹ میں ایسے آثار موجود ہیں کہ وہ اچھی صحبت کے بجائے ہمیشہ بری صحبت ہی اختیار کرے گا،یونیورسٹی میں برے لڑکوں کے علاوہ اچھے لڑکے بھی ہوتے ہیں،آخر وہ ان کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اپنی فطری کمزوریوں کے سبب اس نے اپنے ہی جیسے لڑکوںکی صحبت کیوں اختیار کی؟ یہ سوال نہایت اہم اور غور طلب ہے،آپ نے ان کے والد بزرگوار کا جو طرز عمل بیان کیا ہے ، وہ کسی معقول اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان کا نہیں ہوسکتا، جسے اولاد کی خرابیوں سے کوئی دلچسپی نہیں،بیوی سے نفرت خواہ کسی وجہ سے بھی ہو، اُس کے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتی ہے،صاحب زادے میں جو منفی رجحانات زائچے کے مطابق مشاہدے میں آرہے ہیں ، یقیناً ان کے والد ہی کی وراثت ہوسکتی ہے۔
یہاں ہم زائچے سے متعلق ٹیکنیکل تشریحات سے گریز کریں گے جو ظاہر ہے ہمارے عام پڑھنے والوں کے لیے بوریت کا باعث ہوسکتی ہےں،ایسے منفی برتھ چارٹس پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی کتاب ”پیش گوئی کا فن“ میں کی ہے،جو لوگ ایسٹرولوجی سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
اس صورت حال میں حروف صوامت کے ذریعے روک تھام مشکل کام ہے،یاد رکھیں بری عادتیں اور مزاجی کمزوریاں یا خرابیاں ، باہمی نفرتیں وغیرہ ختم کرنا آسان کام ہے لیکن فطرت کو تبدیل کرنا بڑا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن کام ہے،اس کے لیے تو اللہ رب العزت سے ہی اور اس کے کلام سے ہی رجوع کرنا پڑے گا، اس سلسلے میں ایک خصوصی عمل ہم لکھ رہے ہیں جو شاید ماضی میں بھی کبھی دیا جاچکا ہے،عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اس لیے تمام تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔
عمل برائے اصلاح و ہدایت
جب یہ محسوس کریں کہ بری عادتیں یا خصلتیں رفتہ رفتہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہیں اور ان خصلتوں کا شکار کوئی بھی مرد یا عورت جو بالغ ہے،سمجھ دار ہے، اچھے برے کی تمیز رکھتا ہے،کسی صورت بھی بعض نہیں آتا اور ہدایت نہیں پاتا تو اس کے نام مع والدہ کے اعداد ابجد قمری سے حاصل کریں،جس کا مثالی طریقہ یہ ہے، مثلاً نام احمد حسین ہے اور ماں کا نام زبیدہ ہے تو ابجد قمری سے دونوں کے اعداد حاصل کیے جائیں۔
1+8+40+4+8+60+10+50=181،یہ احمد حسین کے اعداد ہوئے۔
7+2+10+4+5=28، یہ زبیدہ کے اعداد ہوئے، اب دونوں ناموں کے اعداد باہم جمع کرلیں تو یہ کل مجموعہ 209 ہوگا۔
نیا چاند ہونے کے بعد جو پہلا اتوار ، پیر، جمعرات یا جمعہ آئے، اس دن سے اس عمل کو فجر کی نماز کے بعد شروع کیا جائے، پاک پانی کی ایک بوتل پاس رکھیں اور مندرجہ ذیل کلام الٰہی اور اسم الٰہی 209 مرتبہ، گیارہ بار اول آخر درود شریف کے ساتھ پڑھیں، پڑھنے کے دوران میں اپنے ذہن کو اس نکتے پر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی برکت سے آپ کے مطلوبہ شخص کو ہدایت دے اور راہ مستقیم پر لائے۔
اِھ ±دِنَا الصّراط ال ±مُستَقیم بِحقّ یا ھَادیُ 
مندرجہ بالا مثال کے مطابق 209 مرتبہ پڑھنا ہوگا لیکن ہم یہاں آپ کی سہولت کے لیے آپ کے بیٹے اور آپ کے نام کے اعداد لکھ رہے ہیں جو 725 ہیں لہٰذا آپ اسی تعداد میں پڑھیں گی، جو لوگ اپنے ایسے ہی کسی مقصد کے لیے یہ عمل کرنا چاہیں ، وہ مندرجہ بالا طریقے کے مطابق پہلے اعداد حاصل کریں اور پھر اسی تعداد کے مطابق پڑھیں۔
جب عمل مکمل ہوجائے تو آنکھیں بند کرکے مطلوبہ شخص کا چہرہ تصور میں لائیں اور پیشانی پر پھونک ماردیں،بعد ازاں پانی کی بوتل میں بھی دم کرلیں، یہ عمل 21 دن تک پابندی سے کیا جائے اور 21 دن کے بعد وہ پانی دن میں دو تین مرتبہ پلادیا کریں،اگر براہ راست نہ پلاسکیں تو اس کے پینے کے پانی میں تھوڑا سا پانی روزانہ ڈال دیا کریں،اب اس پانی کو ختم نہ ہونے دیں ، جب ختم ہونے لگے ،بوتل میں تھوڑا سا رہ جائے تو مزید پاک پانی بوتل میں بھرلیں، اس طرح لمبے عرصے تک یہ پانی استعمال کرائیں، انشاءاللہ فطرت کی کجی دور ہوگی اور بڑے سے بڑا شیطان بھی راہ راست پر آجائے گا، آخری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ دلوں کو اور فطرتوں کو بدلنے والا ہمارے حکم کا پابند نہیں ہے،ہم عمل کے ذریعے اس کے حضور جو درخواست پیش کر رہے ہیں، وہ یقیناً اُس پر توجہ دے گا اور جب مناسب سمجھے گا، ہماری درخواست قبول فرمائے گا لہٰذا مہینہ دو مہینہ یہ کام کرکے بددل نہ ہوں،مسلسل یہ عمل جاری رہے، خواہ کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے، انشاءاللہ ضرور بہ ضرور حاجت پوری ہوگی۔
اپنے شوہر کے لیے آپ حروف صوامت کے عملیات سے مدد لے سکتی ہیں مگر اُن کی زبان بندی کے ساتھ ہی آپ کو وہ عمل بھی کرنا چاہیے جو میاں بیوی کے درمیان محبت کے لیے ہم اکثر دیتے رہتے ہیں۔
عمل دیگر
بے شمار مرتبہ سورئہ کوثر کا ایک مشہور عمل کسی ایسی صورت حال کے لیے لکھا جاچکا ہے لیکن شاید لوگ ایسے عملیات کو بہت ہلکا یا معمولی سمجھتے ہیں یا یہ کہ زیادہ طویل عرصے تک اس پر عمل نہیں کرتے، خیال رہے کہ ایسے عملیات پابندی کے ساتھ مسلسل کیے جائیں تو یقیناً اثر ڈالتے ہیں۔
عمل بہت آسان اور سادہ ہے، اپنے شوہر کو یا کسی بھی ایسے شخص کو جو کسی بہت ہی بری عادت یا لعنت میں مبتلا ہو ، بے ہودگی، بدتمیزی، گالی گفتار، مار پیٹ، جھوٹ یا کوئی بھی غلط حرکت کرتا ہو، اسے جب بھی کھانے پینے کی کوئی چیز دیں، مثلاً پانی ، چائے، کھانا، پھل، مٹھائی وغیرہ تو ایک بار پوری سورئہ کوثر پڑھیں اور پھر زبان سے اس کا نام مع والدہ لے کر ایک جملہ یہ بھی کہیں، فلاں بن فلاں کی عادت بدتمیزی یا بدزبانی یا مارپیٹ وغیرہ ابتر ابتر ابتر اور پھر کھانے پینے کی چیز پر پھونک ماردیا کریں،مشکل سے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں یہ کام کیا جاسکتا ہے، جب آپ کھانے پینے کی کوئی چیز نکال رہی ہوں تو اُس وقت سورئہ کوثر پڑھ لیا کریں اور ضرورت کے مطابق یہ جملہ زبان سے کہہ کر اُس پر پھونک ماردیں، یہ عمل طویل عرصے تک جاری رکھیں، پڑھتے ہوئے اور پھونک مارتے ہوئے اپنے خیال کی قوت کو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کام میںلائیں، آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ جو کلام پڑھ رہی ہیں، اُس کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اگر پہاڑوں پر بھی نازل کیا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے لہٰذا آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ کے عمل سے وہ بندہ یقیناً متاثر ہوگا اور راہ راست پر آجائے گا، یاد رکھیں بے یقینی سے کیے گئے کاموں میں اثر نہیں ہوتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں