منگل، 21 جون، 2016

حنیف اسعدی کون ہیں؟

سید انور فراز

سید انور، حنیف اسعدی اور پروفیسر سحر انصاری ، ایک یادگار انداز
سال کا ہر مہینہ ماضی کے کسی نہ کسی اہم واقعے سے ضرور جڑا ہوا ہوتا ہے،کم از کم ہمارا تجربہ تو یہی ہے، ہر مہینے سے متعلق کسی نہ کسی واقعے یا شخصیت کی یاد ضرور بے چین کرتی ہے،گزشتہ سال محترم علی سفیان آفاقی ، عزیزی شاہد حسین آرٹسٹ اور منفرد قلم کار علیم الحق حقی بچھڑ گئے تھے، ان کی یادیں دل میں زندہ ہیں، یادوں کا خزانہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے،جب ذرا تنہائی میسر ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی تصویر ماضی کے جھرونکوں سے جھانکنے لگتی ہے،رمضان المبارک میں سب سے زیادہ ہمیں ایک ایسی نابغہ ءروزگار ہستی کی یاد بے چین کرتی ہے جسے دنیا نے بھلادیا ہے،شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ خود بھی ایک گوشہ نشین ، خوددار انسان تھے، اپنی زندگی میں بھی کبھی شہرت و خودنمائی کے طالب نہ رہے، ان کا حلقہ ءاحباب بھی محدود رہا، ساری زندگی اُردو ادب اوڑھنا بچھونا تھا، والد بھی مشہور اور نامور شعراءمیں سے تھے۔
 علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، پرانی وضع داریوں کا نمونہ ،ہر صنف شاعری پر قدرت رکھنے والے بے مثل نعت گو محترم حنیف اسعدی جنہیں مرحوم لکھنے کا حوصلہ نہیں ہے۔
چند روز پہلے اسعدی صاحب کی ایک مشہور نعت کا مطلع ہم نے فیس بک پر ڈالا تو بہت سے احباب نے اسے پسند کیا اور یہ پوچھا کہ حنیف اسعدی کون ہیں؟
اس سوال سے بڑی تکلیف ہوئی کیوں کہ ہمارے خیال میں حنیف اسعدی پاکستان کے چند ایک گنے چُنے ، معتبر اور مستند نعتیہ شعراءمیں سے ایک ہیں مگر افسوس کہ اپنی درویش صفتی کے سبب زیادہ مشہور نہ ہوسکے، ہر سال رمضان میں پی ٹی وی کا نعتیہ مشاعرہ ان کی شرکت کے بغیر نہیں ہوتا تھا، ان کی نعتوں کا مجموعہ ”ذکرِ خیر الانام“ کے نام سے شائع ہوا لیکن غزلوں اور نظموں کا ایک بڑا ذخیرہ تاحال شرمندئہ اشاعت ہے۔
اگرچہ غزل نظم ، قطعہ، رباعی، سلام، منقبت تقریباً ہر صنف سخن میں انہوں نے طبع آزمائی کی لیکن ایک نئی صنف سخن بھی ایجاد کی تھی جو جاپانی نظم ”ہائیکو“ کی طرح تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی تھی، ان کی بڑی خواہش تھی کہ ان نظموں کا مجموعہ شائع ہوجائے لیکن ان کا یہ خواب بھی پورا نہ ہوسکا، یقیناً یہ تمام ذخیرہ ان کے صاحب زادوں کے پاس محفوظ ہوگا لیکن شاید وہ بھی اس کی اشاعت کا حوصلہ نہیں رکھتے، اسعدی صاحب نے اس نئی صنف سخن کا نام ”سہ مصریاں“رکھا تھا اور یہ بھی اہتمام کیا تھا کہ ان تین مصرعوں میں کوئی لفظ فارسی و عربی کا استعمال نہ ہو۔
مناسب ہوگا کہ اس نئی صنف سخن کی ایک ہلکی سی جھلک بھی یہاں پیش کردی جائے، پہلی سہ مصری حمد ہے دوسری نعت اور تیسری منقبت۔
پالن ہار
جنگل، جھاڑی،پھل پھلواری
اکہوا، ڈنٹھل، پتا ڈاری
تو داتا، سنسار بھکاری
سرکارﷺ
دھیرج، ٹھنڈک، سکھ ، آرام
سارے نام انہی کے نام
اُن پہ درود اور اُن پہ سلام
چار یار ؓ
ایک نبی کا سچا یار
ایک کو ہر دُربل سے پیار
ایک میں لجّا اک جی دار
جوگ
کرخیؒ، شبلیؒ، شمسؒ، جنیدؒ
تن کے جوگی من کے وید
جی اور جیون دونوں قید
سنجوگ
دھوپ نہ ہو تو چھاو ¿ں کہاں
تجھ سے بچھڑ کر جاو ¿ں کہاں
چھاو ¿ں کے اپنے پاو ¿ں کہاں
من کا بھید
پوچھ رہا ہے سارا گاو ¿ں
تو ہی بتا میں کیا کہلاو ¿ں
تیری دھوپ کہ تیری چھاو ¿ں
الغرض بہت سے موضوعات ان تین مصرعوں میں بیان ہوئے ہیں، اس کے علاوہ اسعدی صاحب نے مشہور اور نامور شخصیات پر بھی تین مصرعے لکھ کر ان کی حیاتِ شخصیت کو گویا کوزے میں بند کردیا ہے، اس کی بھی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
عمر خیّام
مطرب، ساقی، مینا، جام
ایک بھگت پر چار الزام
پھر بھی اتنا اونچا نام
غالب
سوچ کے سوتے، حرف کے قالب
بات کا گھن، گمبھیر مطالب
یہ بھی غالب، وہ بھی غالب
جون ایلیا
فکر میں بے فکری کا کھانچا
ذہن توانا شعر کا سانچہ
اور خود اس سانچے کا ڈھانچہ
رسا چغتائی
پتلی ڈالی، نازک پھول
پھول بھی جن کا عرض نہ طول
اپنی مہک سے ہیں مقبول

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں