پیر، 6 اپریل، 2015

یمن کی خانہ جنگی اور اسلامی ممالک کی محاذ آرائی

مشرق وسطیٰ کے بحران کی سنگین نوعیت علم فلکیات کی روشنی میں

سیارگان کی گردش سے جو فلکی زوایے بنتے ہیں ان کی تاثیرات اپنی جگہ اٹل سہی مگر انسان اتنا بے بس نہیں کہ ناقص اثرات کا مقابلہ نہ کر سکے اور سعد اوقات سے فائدہ نہ اٹھا سکے‘ ہم زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں ‘ در حقیقت معاملہ یہ ہے کہ نظام کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پروردگار کے مقرر کردہ اصول و قواعد کے مطابق ہو رہا ہے‘ انسان شاید دنیا کی واحد مخلوق ہے جو ان اصول و قواعد کو نظر انداز کرنے یا انہیں توڑنے کی جرأت کرتا ہے‘ بس اصل خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے ورنہ نظام کائنات میں کوئی خرابی نہیں ہے‘ کوئی سیارہ خراب نہیں ہے‘ کوئی برج خراب نہیں ہے‘ سب اپنے اپنے مقررہ اصولوں پر کار بند ہیں اور اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔



جس طرح ہمیں ایک معقول و محفوظ اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے دیگر علوم سے آگاہی کی ضرورت رہتی ہے مثلاً میڈیکل سائنس‘ پیشہ وارانہ صلاحیتیں‘ تاریخ‘ جغرافیہ وغیرہ وغیرہ اسی طرح فلکیاتی علوم کا مطالعہ بھی ہمارے لیے اعلیٰ درجے کی ذاتی اور کائناتی معلومات فراہم کرتا ہے‘ کچھ لوگ علم فلکیاتی و نجوم سے ناواقفیت کی بنیاد پر اسے قسمت کا حال یا غیب وغیرہ کا علم قرار دے کر ان علوم کی فہرست میں شامل کردیتے ہیں جن کے بارے میں مذہباً ممانعت کی گئی ہے‘ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ زمانہ حال میں ہندوؤں اور زمانہ ماضی میں دیگر اقوام عالم میں علم نجوم کوقسمت یا غیب کا حال جاننے کا علم کہا جاتا تھا اور اس کی کم ترقی یافتہ شکل رائج تھی‘ فلکیاتی سائنس میں انسان نے وہ ترقی نہیں کی تھی جو آج اسے نصیب ہے چنانچہ آج بھی اکثر مذہبی حلقے اس علم کی سائنسی حقیقت سے واقف ہوئے بغیر ہی اس کے خلاف فتوے دیتے نظر آتے ہیں‘ ہماری نظر میں یہ ایک غیر علمی رویہ ہے۔

 اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں غیر علمی رویہ بہت عام ہے‘ ہر شعبہ زندگی میں اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے‘ ہیومیوپیتھی جیسی عظیم سائنس کے ساتھ بھی اکثر ایلوپیتھک حلقے اسی غیر علمی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور روحانی سائنس کے شعبے کا حال تو سب سے زیادہ تباہ و برباد ہے‘ اس شعبے کے حوالے سے کسی سنجیدہ و علمی گفتگو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی اور غالباً اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس شعبے کے چیمپئن ہونے کے دعوے دار ایسی کسی گفتگو کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے‘ اس موضوع پر کھلا مکالمہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ گیا ہے اور بزعم خود اپنی ولایت کا دعوے دار ہے‘ اس صورت حال میں ان علوم کی ترقی اور درست انداز میں ترویج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘ نئی ریسرچ اور نئے تجربات کا تو ذکر ہی کیا۔

 آج عالم اسلام کو بین الاقوامی سطح پر جو چیلنج در پیش ہیں ان کا مقابہ اسلحہ بارود‘ توپ تفنگ یا کسی ایٹم بم سے نہیں کیا جا سکتا‘ صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ مسلمان گزشتہ پانچ سو سال میں علمی ا ور سائنسی طور پر باقی دنیا سے جتنا پیچھے رہ گئے ہیں ‘ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں ‘ قوم کو ایک بار پھر کسی سر سید جیسے رہنما کی ضرورت ہے جو اسے جہالت کے تاریک غاروں سے نکال کر ترقی یافتہ قوموں کے مقابل کھڑا کر سکے اور یہ کام تعلیمی میدان میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ پیش قدمی کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہو گا۔

عزیزان من! صورت حال اس کے برعکس ہے ، عالم اسلام علمی و سائنسی میدان میں ترقی کرنے کے بجائے باہم ایک دوسرے کے ساتھ معرکہ آرا ہونے کے لیے تیار ہے، یمن مختلف اسلامی ممالک کی محاذ آرائی کا مرکز بن چکا ہے، ایک طرف سعودی عربیہ، مصر اور دیگر اتحادی ہیں اور دوسری طرف ایران اور اس کے اتحادی موجود ہیں، سیاست ، مذہب، مسلک اور علاقائی مفادات کے رموز و نکات پر ہم کوئی بات نہیں کرنا چاہتے، ہمارے پیش نظر سعودیہ ، مصر، ایران اور یمن کے برتھ چارٹ ہیں جو ظاہر کر رہے ہیں کہ باہمی ٹکراؤ یقینی ہے، خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اس ساری صورت حال میں پاکستان کا کردار کیا ہونا چاہیے جو اس وقت عالم اسلام کا ایک سب سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ملک ہے ؟

اس حوالے سے بھی حسب معمول ہمارے ملک میں دو گروپ بن گئے ہیں ، ایک وہ جو اس سارے جھگڑے سے خود کو الگ تھلگ رکھنے پر زور دے رہا ہے اور دوسرا وہ جن کے نزدیک حرم شریف کی پاسبانی تمام عالم اسلام پر فرض ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیر دفاع سعودیہ کے دورے پر ہیں اور سعودی حکومت کو ہر طرح کے مدد و تعاون کا یقین دلا چکے ہیں، یمن میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ، بعض اطلاعات کے مطابق سیکڑوں افراد ہلاک اور املاک تباہ و برباد ہورہی ہیں۔

 زائچۂ یمن

یمن شمالی اور جنوبی حصوں پر مشتمل ہے، 22 مئی 1990 کو دونوں حصوں کا اتحاد وجود میں آیا، برتھ چارٹ         pm  12:27  بمقام عدن کے مطابق 13 درجہ 17 دقیقہ طالع اسد زائچے میں طلوع ہے اور اس اعتبار سے یہ ایک مضبوط زائچہ ہے کہ طالع کا حاکم سیارہ شمس زائچے کے دسویں گھر میں مضبوط پوزیشن رکھتا ہے لیکن خرابی یہ ہوئی ہے کہ راہو کیتو دوسرے اور آٹھویں گھر میں نہایت حساس مقام پر اسٹیشنری پوزیشن میں آگئے ہیں،جس کی وجہ سے زائچے کا دوسرا گھر(باہمی اتحاد و اتفاق) چھٹا گھر (اختلاف و تنازعات) ، آٹھواں گھر (حادثات و اموات) اور بارہواں گھر(نقصانات و بیرونی سازشیں) عروج پر پہنچ گئی ہیں،زائچے میں اگرچہ شمس کا مین پیریڈ جاری ہے جو طالع کا حاکم ہے لیکن سب پیریڈ راہو کا ہے، اس کا آغاز ستمبر 2014  سے ہوا ہے اور خاتمہ 28 جولائی 2015  کو ہوگا، اس سے پہلے مسائل مکمل طور پر حل ہوتے نظر نہیں آتے بلکہ خطرہ یہ ہے کہ یمن کی موجودہ صورت حال دیگر اسلامی ممالک کے درمیان بھی کسی نئی جنگ کی بنیاد رکھ سکتی ہے 
 زائچۂ  سعودیہ عربیہ

دوسری طرف اگر سعودیہ عربیہ کے زائچے پر نظر ڈالی جائے تو صورت حال یمن کے زائچے سے کچھ مختلف نہیں ہے‘ موجودہ سعودی حکومت کی تاریخ پیدائش 29ستمبر 1932 ہے pm 16:16:17 بمقام ریاض اور زائچے میں برج دلو کے 13 درجہ 9 دقیقہ طلوع ہیں ‘ قمر اور عطارد اس زائچے میں فعلی منحوس سیارے ہیں‘ راہو کیتو بھی منحوس اثر رکھتے ہیں اور دوسرے اور آٹھویں گھر میں زائچے کے حساس درجات سے قریبی قران کی حالت میں اسٹیشنری پوزیشن پر ہیں‘ نتیجے کے طور پر یمن کے زائچے کی طرح دوسرا ‘ چوتھا ‘ چھٹا‘ آٹھواں ‘ دسواں اور بارھواں گھر متاثرہ ہے‘ مزید یہ کہ دور اکبر فعلی منحوس عطارد کا جاری ہے اور25 دسمبر 2014 سے راہو کا دور اصغر رواں ہے‘ یہ صورت حال اختلافات ‘ تنازعات ‘ نقصانات اور اندرونی خلفشار کی نشان دہی کر رہی ہے‘ اگر سعودی عربیہ کسی نئی جنگ میں شامل ہوتا ہے تو یہ حیرت کی بات نہیں ہوگی‘ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ایک شاہ کا انتقال ہوا ہے اور نئے شاہ سلمان برسر اقتدار آئے ہیں زائچے کی موجودہ پوزیشن شاہ سلمان اور ان کی کابینہ پر بھی شدید دباؤ ظاہر کر رہی ہے۔

زائچۂ مصر


مصرکا طالع پیدائش ثور ہے‘ اپنے زائچے کی روشنی میںوہ بھی ایک خطرناک صورت حال کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مستقبل کے عزائم ممکن ہے سعودی عربیہ سے بھی پوشیدہ ہوں اور وہ یمن کی موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یمن میں اپنی مرضی کی حکومت لانا چاہتا ہو‘مصر کے بحری جہاز یمن کے سمندروں میں پہنچ چکے ہیں اور وہ یمن میں زمینی فوج اتارنے کے لیے بھی تیار ہیں‘ واضح رہے کہ یمن کے حوالے سے ماضی میں مصر کے اختلافات سعودی عرب سے رہے ہیں ، دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ زائچہ بھی طالع ثور کا زائچہ ہے اور اس طرح دونوں ملکوں کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں خاصی یکسانیت پائی جاتی ہے ، دونوں ملک ہمیشہ ہی حقیقی جمہوریت سے محروم رہے ہیں اور ڈکٹیٹر زیادہ عرصہ برسر اقتدار رہے،دونوں ملکوں میں مذہبی جماعتیں سیاست میں اپوزیشن کا کردار ابتدا ہی سے ادا کر رہی ہے، سیارہ مریخ کی پوزیشن دونوں ملکوں کے زائچوں میں خاصی طاقت ور ہے اور دونوں کو ہی ابتدا سے اپنے قریبی پڑوسی سے محاذ آرائی درپیش ہے، دونوں 2 بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اپنا خاصا نقصان کرچکے ہیں ۔

پاکستان کا طالع ثور تقریباً 3 درجہ ہے جب کہ مصر کا طالع ثور 15 درجہ 41 دقیقہ ہے، راہو، کیتو محور دونوں کے چھٹے اور گیارھویں گھر میں اسٹیشنری پوزیشن میں ہے اور پہلے ، تیسرے، پانچویں ، ساتویں، نویں اور گیارھویں گھروں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے لیکن فی الحال پاکستان اس نحوست سے محفوظ ہے لیکن مصر محفوظ نہیں ہے ، مزید خرابی یہ کہ پیدائشی مریخ بھی کیتو کی نظر میں ہے لہٰذا میدان جنگ کی جانب قدم بڑھانے میں مصر کو کسی ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں ہے، مصر میں اس وقت بھی فوجی حکومت برسر اقتدار ہے اور جمہوری قوتیں پابند سلاسل ہیں ، مصر کے زائچے میں چھٹے گھر کے مالک زہرہ کا دور اکبر جاری ہے اور دور اصغر آٹھویں گھر کے مالک مشتری کا چل رہا ہے ، دونوں منحوس گھروں کے مالکان کا دور کسی خیر کا امکان ظاہر نہیں کرتا، اختلافات ، تنازعات ، حادثات اور اموات سے بچنا آسان نہیں ہوگا اور کسی بڑی کامیابی کی امید رکھنا عبث ہوگا۔

زائچۂ ایران

ایران کا زائچہ ایرانی انقلاب کے بعد یکم اپریل 1979 بمقام تہران pm 15:00کے مطابق طالع میں برج سرطان کے 23درجہ 42دقیقہ طلوع ہیں اور فی الحال راہو کیتو زائچے کو متاثر نہیں کر رہے‘ طالع سرطان کے لیے راہو کیتو کے علاوہ مشتری اور زحل فعلی منحوس سیارے ہیں اور مشتری زائچے کے پہلے گھر میں طالع کے درجات سے فی الحال حالت قران میں نہیں ہے لیکن دور اکبر مشتری کا اور دور اصغر زحل کا جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران کو مسلسل بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے‘ اس پر وقتاً فوقتاً پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور اٹامک ریسرچ کے حوالے سے شک و شبے کا اظہار کیا جاتا ہے‘ اسرائیل سے کھلی دشمنی بھی مغربی ممالک کی نظر میں کھٹکتی رہتی ہے اور وہ ہر صورت میں ایران پر کوئی نہ کوئی دباؤ ڈالتے رہتے ہیں‘ بہر حال زائچے کی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ ایران موجودہ صورت حال میں کسی ایڈونچرکی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ یمن کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز کردے اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے‘ فی الحال وہ اپنے اتحادیوں کو سپورٹ کرنے کی حد تک محدود رہے گا‘ البتہ 25 اپریل کے بعد ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ ایران کو شدید نوعیت کے بیرونی دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے اور وہ موجودہ محاذ آرائی میں کُھل کر میدان میں آ سکتا ہے‘ مشتری استقامت کے بعد آگے بڑھ کر دوبارہ جب طالع کے درجات سے قران کرے گا تو پہلے گھر کے علاوہ پانچویں‘ ساتویں اور نویں گھر پر بھی دباؤ ڈالے گا ‘ اس وقت بیرونی دباؤ بڑھ جائے گا اور بعض ناخوشگوار حالات و واقعات کا سامنا ہو سکتا ہے ۔

 اس صورت حال میں عالم اسلام کو بہت زیادہ دانشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اسرائیل اور امریکہ اس موقع سے کوئی ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے‘ خاص طور پراسرائیل۔

 کچھ عرصہ پہلے اسرائیل نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ایران کے مقابلے میں وہ سعودی عرب کی مدد کرے گا‘ اس بیان پر تو علامہ اقبال کا مشہور مصرع یاد آ گیا پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے‘ اقبالؒ ہی نے یہ بھی فرمایا تھا ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے مگر تازہ صورت حال اس کے برعکس ہے‘ مسلم ممالک باہمی طور پر ایک دوسرے کے مقابل صف آرأ ہیں اور یہ صورت حال بہر حال اسرائیل اور مغربی ممالک کے لیے بڑی خوش کن ہے ۔

 یمن کی آبادی اگرچہ مسلمان ہے لیکن دو فرقوں سنی اور شیعہ کے درمیان تقسیم ہے‘ یہاں جو حوثی گروپ ہے یہ اپنے نظریات میں مکمل طور پر فقہ جعفریہ کا پابند بھی نہیں ہے اور شیعہ حلقے بھی ان کے عقائد سے پوری طرح متفق نہیں ہیں‘ اس گروپ کی نظر میں حرم شریف کی وہ اہمیت نہیں ہے جو عام مسلمانوں کی نظر میں ہے لہٰذا یہ خطرہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل اس گروپ کے ذریعے اپنے کسی ناپاک ارادے کی تکمیل چاہتا ہولہٰذا بہت ہوش مندی اور تدّبر کے ساتھ اس بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔

 یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یمن کی سرزمین تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے‘ شداد کی جنت یمن ہی میں تعمیر ہوئی تھی‘ قرآن کریم میں ملک سبا اور اس کی حسین ملکہ کا تذکرہ موجود ہے‘ وہ بھی اسی یمن کی باشندہ تھی ‘ ماضی میں بڑی بڑی عظیم بادشاہتیں اور سلطنتیں اس سر زمین پر قائم رہی ہیں اور حبشہ کے ایک بادشاہ ابرہہ نے یمن ہی میں ایک عظیم الشان کلیسا تعمیر کرایا تھا تاکہ لوگ خانہ کعبہ کا رخ کرنے کے بجائے اس کے تعمیر کردہ کلیسا کی طرف آئیں‘اس مقصد کے تحت اس نے اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ ایک بار مکّہ پر چڑھائی بھی کی لیکن تباہ و برباد ہوا‘ بہر حال اس سر زمین پر جنم لینے والا کوئی نیا فتنہ مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتا ہے؟ اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

 آئیے اپنے سوالات اور جوابات کی طرف

 تعلیم اور شادی؟

س ج کراچی: آپ کا شمسی برج سرطان اور پیدائشی برج عقرب ہے‘ اس کا حاکم سیارہ مریخ زائچے میں کمزور ہے جس کی وجہ سے آپ کو صحت سے متعلق بعض مسائل خاص طور پر خون کی کمی اور ماہانہ نظام میں بے قاعدگی وغیرہ کے مسائل ہو سکتے ہیں‘ آپ کا قمری برج سرطان ہے ا ور پیدائش کی منزل پشیا ہے جو بہت مبارک اورسعد منزل سمجھی جاتی ہے‘ اس منزل میں پیدا ہونے والے افراد اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور تمام عمر اپنے علم میں اضافے کے لیے مصروف رہتے ہیں ‘ یہ لوگ دوسروں کو مدد دینے والے لیکن خود ابتدائی عمر میں حالات کی سختی کا شکار ہوتے ہیں ‘ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں بہتری آتی ہے۔

 زائچے میں تعلیم کا ستارہ بھی کمزور ہے اور شادی کا بھی لہٰذا تعلیمی میدان میں بھی سخت دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہوگا مگر آ پ وقت کے ساتھ ساتھ دشواریوں پر قابو پانے کی اہلیت رکھتی ہیں اور امکان ہے کہ معقول تعلیم حاصل کر سکیں گی‘ میڈیکل کا شعبہ آپ کے لیے مناسب ہے لیکن فارمیسی زیادہ بہتر رہے گی‘شادی میں بھی تاخیرکا امکان ہے ۔

 آپ کو چاہیے کہ جمعہ کے روز سفید چیزوں کاصدقہ اور ہفتے کے روز بوڑھے یا معذورافراد کی مدد کیا کریں‘ پیلاپکھراج اور لوح قمر نورانی یا خاتم قمر مستقل پہنیں تاکہ تعلیم اور شادی کے مسائل میں موجود رکاوٹیں اوردشواریاں دور ہو سکیں۔

 پُراسرار بیماری

 رمضان‘ بدین سے لکھتے ہیں ” میں تقریباً 6,7 مہینے سے بیمار ہوں ‘ غربت کی حالت میں بھی ڈاکٹروں سے بہت علاج کرایا ‘ ڈاکٹر کہتے ہیں ہمیں بیماری کا پتہ نہیں چلتا ‘ کبھی ایک بیماری تو کبھی دوسری ہوجاتی ہے اور عاملوں مولویوں سے بھی حساب کرایا ‘ وہ کہتے ہیں تم پہ جادو کیا ہوا ہے اور کبھی کہتے ہیں آسیب ہے مگر فائدہ کوئی نہ ہوا ‘ گھر کے حالات غربت کی وجہ سے پہلے ہی خراب تھے ‘ بیماری کی وجہ سے زیادہ ہی خراب ہوگئے ہیں‘ گھر میں بیوی بچے بھی بیمار رہتے ہیں ‘ آپ بتائیے میں کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ خودکشی کرلوں؟

جواب : آپ کے تمام مسائل کی وجہ غربت ہے ‘ آج کے زمانے میں معقول علاج ومعالجہ اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی اپنا بہتر طور پر علاج نہیں کرا سکتا ‘ آپ جس علاقے میں ہیں ‘ وہاں معقول ڈاکٹر بھی دستیاب نہیں ہیں تو انہیں بیماری کا کیا پتا چلے گا ‘ ہمارے اندازے کے مطابق تو وہاں کوئی معیاری لیبارٹری بھی نہیں ہوگی‘ باقی رہے عامل مولوی اور ان کا حساب تو آپ جس کے پاس بھی جاؤ گے وہ یہی بتائے گا کیوں کہ اس کے سوا یہ لوگ کچھ جانتے ہی نہیں ‘ ہر شخص پر سحر جادو‘ آسیب کا فتویٰ لگادیتے ہیں اور یہ فتویٰ دینا بہت آسان کام ہے‘ بھلا آپ پر کوئی جادو کیوں کرے گا ‘ آپ کے پاس کون سا مال و دولت ہے جو کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے اور کسی آسیب کو بھی آپ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اس طرح کی باتیں کر کے یہ جعلی عامل اور جاہل مولوی خاندانوں میں فتنہ وفساد کا بیج بو رہے ہیں۔


 بہتر ہوگا کہ آپ کسی بڑے شہر حیدر آباد یا کراچی میں اپنا علاج کرائیں‘ کوئی بیماری ایسی نہیں ہے کہ جس کی تشخیص نہ ہو سکے یا علاج نہ ہوسکے‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ معقول علاج نہ ہونے کی صورت میں آپ کی بیماریاں کوئی ایسی شکل اختیار کرلیں جن کا بعد میں علاج نہ ہو سکے لہٰذا پہلی فرصت میں کسی اچھے ڈاکٹر یا اسپتال سے رابطہ کریں‘ اگر کراچی آ سکتے ہیں تو ہمارے پاس آجائیں ‘ آپ کا علاج بلا معاوضہ کیا جائے گا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں