پیر، 15 دسمبر، 2014

سال کا آخری مہینہ اور میدانِ سیاست کی گرم بازاری

لوگوں کے مسائل و امراض اور کچھ ذاتی مشاہدات و تجربات کا اظہار

سال کا آخری مہینہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور رفتہ رفتہ ملک کے سیاسی اُفق پر نئی سرگرمیاں طلوع ہورہی ہیں،ہم نے دسمبر کی فلکیاتی صورت حال کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ 22 نومبر سے 22 دسمبر تک کا وقت موجودہ حکومت کے لیے خاصا مشکل اور تشویش ناک نظر آتا ہے۔


22  نومبر کے نیو مون چارٹ کے مطابق دسمبر کا مہینہ فتنہ و فساد کا مہینہ ہے، 30  نومبر اگرچہ خیروعافیت سے گزر گئی مگر اُس سے پہلے ہی جے یو آئی کے اہم رہنما ایک قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ایک نئی احتجاجی صورت حال پیدا ہو گئی‘ فیصل آباد میں جو کچھ ہوا اُس کی بازگشت ابھی تک جاری ہے، حکومت کو جس دانش مندانہ حکمت عملی سے کام لینے کی ضرورت تھی،وہ فیصل آباد میں نظر نہیں آئی اور نتیجے کے طور پر صورت حال خاصی سنگین ہوگئی،اس کے بعد بھی تحریک انصاف دیگر شہروں میں احتجاج کا پروگرام بنارہی ہے۔



ہم نے عرض کیا تھا کہ نیو مون چارٹ کی روشنی میں حکومت مزید دباؤ میں آئے گی اور اُسے عوامی مطالبات کے سامنے سرجھکانا پڑے گا، بہ صورت دیگر ”تیسری قوت“ کی مداخلت کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،  بہر حال اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، حکومت مذاکرات کے ذریعے صورت حال کو بہتر بناسکتی ہے اور عمران خان بھی مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں لیکن آسمانی کونسل کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں وہ انسانی غلطیوں اور کمزوریوں کو معاف نہیں کرتے ، انسان البتہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے اور اپنی امیدوخواہشات کے زیر اثر بروقت فیصلے اور اقدام نہیں کرپاتا، اس کا نتیجہ بالآخر خراب ہی نکلتا ہے، یہی کچھ موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے اور وقت اُس کے ہاتھ سے دھیرے دھیرے نکلتا جارہا ہے، جب دو فریق اپنی انا کے مسائل کو پس پشت ڈال کر گفتگو کا آغاز نہ کریں تو گفتگو کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔

موجودہ صورت حال کے تناظر میں اگر ہم ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو ایسے ہی مناظر ، ایسی ہی گفتگو اور ایسے ہی رنگ ڈھنگ ہم نے اُس وقت بھی دیکھے تھے جب جنرل پرویز مشرف کے مشیر و وزیر ٹاک شوز میں اپنا زورِ خطابت دکھارہے ہوتے تھے یا پیپلز پارٹی کے دور میں گیلانی صاحب کے وزیر و مشیر مناظر بازی میں سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے لیکن بعد ازاں کیا ہوا؟ جنرل صاحب کو بھی جانا پڑا اور گیلانی صاحب بھی وقت سے پہلے ہی ملتان پہنچ گئے، اب (ن) لیگ کے ترجمان بھی ایسی ہی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

 وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید صاحب بڑے نرم گفتار انسان ہیں، اُن کی باتیں سن کر تو ان کے بھول پن پر پیار آتا ہے، اتنے بھولے بھالے اور سادہ مزاج انسان کو وزیر اطلاعات کے بجائے وزارت بہبود اطفال کا قلم دان عطا کیا جانا چاہیے تھا، انہیں دیکھ کر جنرل پرویز مشرف کے آخری وزیر اطلاعات جناب محمد علی درانی یاد آجاتے ہیں‘ جب وہ انٹرویو دیتے ہوئے یا کسی ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی شیریں بیانی کے جوہر دکھا رہے ہوتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے غالب کی زبان میں کہہ رہے ہوں

بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

تازہ صورت حال میں حکومت اب مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہورہی ہے لیکن فلکیاتی صورت حال ہمیں مذاکرات کے لیے سازگار نظر نہیں آتی،تحریک انصاف کی طرف سے جو دباؤ  بڑھایا گیا ہے،وہ بھی کم ہوتا نظر نہیں آتا، قانونی محاذ پر جو کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں اور بعض حلقوں کی جانچ پڑتال کے لیے الیکشن ٹریبونل نے آمادگی کا اظہار کردیا ہے، یہ بھی ایک نیا پنڈورا باکس کھلنے کے مترادف ہے، بہر حال ایک بات طے ہے کہ 2013  کے انتخابات میں کیا کچھ ہوا، اس کی تحقیقات ضرور ہوگی،اس کے بغیر عمران خان ہی کیا ، دوسرے سیاست داں بھی شاید چین سے نہ بیٹھیں اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ الیکشن کی شفافیت کا یقین ہوسکے اور الیکٹرورل نظام پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔

نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر خدا خدا کرکے ہوچکا ہے لیکن تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی چاروںصوبائی الیکشن کمشنروں سے مطمئن نہیں ہے اور اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔

2013  کے الیکشن کے بعد سیدھے سادھے اور انتہائی شریف النفس جناب فخر الدین جی ابراہیم استعفیٰ دے کر رُخصت ہوگئے تھے، بعد ازاں الیکشن کمیشن کی کارکردگی زیر بحث آتی رہی اور عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ نے نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ بھی کیا جسے حکومت نے آئینی رکاوٹوں کا عذر کرکے مسترد کردیا اور آخر کار ایک جوڈیشنل کمیشن کے قیام پر بادلِ ناخواستہ آمادگی ظاہر کی   کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے بھی آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی لہٰذا اس بات کا امکان 22 دسمبر کے نیو مون چارٹ میں نظر آتا ہے کہ بعض ایسے اقدامات ہوسکتے ہیں جو کسی جوڈیشنل کمیشن کے قیام کے لیے کیے جاسکتے ہیں اور آئین میں کوئی ترمیم لائی جاسکتی ہے یا ممکن ہے یہ کام کسی نوٹیفکیشن کے ذریعے انجام دیا جائے تاکہ الیکٹرورل ریفارم کا کام آگے بڑھ سکے کیوں کہ اس کے بغیر کم از کم عمران خان کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

بہر حال اس سال کے خاتمے تک صورت حال میں کسی نمایاں بہتری کا امکان تو نظر نہیں آتا البتہ آنے والا سال 2015  کیسا ہوگا؟ اس پر ہم اپنے آئندہ ہفتے کے کالم میں بات کریں گے  فی الحال کچھ ذاتی مشاہدات و تجربات کا ذکر ہوجائے ۔

مسائل و امراض اور مشاہدات

ہمیشہ سے ہمارے پاس آنے والوں یا خط، ٹیلی فون اور ای میلز پررابطہ کرنے والوں میں مختلف قسم کے لوگ شامل رہے ہیں ، کوئی جسمانی امراض سے پریشان توکوئی روحانی یا نفسیاتی مسائل کا شکار یا پھر وقت اورحالات کی سختی کے مارے ہوئے  الغرض سب ہی طرح کے افراد سے رابطہ ہوتا ہے اور اس حوالے سے بہت سے دل چسپ مشاہدات و تجربات بھی ہوتے ہیں‘اکثر لوگوں سے مل کران کے مسائل پرغور کرنے کا موقع ملتا ہے اورانسانی نفسیات کی بوالعجبی کا حیرت ناک مشاہدہ ہوتاہے ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی شخصیت وکردار نہایت توجہ طلب ہوتے ہیں اور اکثر ا ن کے بنیادی مسائل ان کی اپنی شخصیت وکردار کی پیچیدگی کے باعث ہی پیدا ہوتے ہیں، وہ لوگ اپنی شخصیت وکردار کی خامیوں سے ناواقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے طرز عمل  اپنے رویّوں اور اپنی سوچ کودرست سمجھ رہے ہوتے ہیں، ایسے لوگ کسی ڈاکٹر حکیم یا روحانی معالج سے عجیب عجیب توقعات وابستہ کرکے ان کے پاس جاتے ہیں اورپھران کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ معالج ان تمام باتوں کو تسلیم کرلے جووہ کہہ رہے ہیں اوران کی بیماری یا مسئلے کوان ہی کے زاویہ نظر کے مطابق دیکھے پھر علاج بھی اسی طرح کرے جس طرح وہ چاہتے ہیں ۔

ظاہر ہے ایک مخلص اوردیانت دار معالج ایسانہیں کرسکتا ، وہ تووہی کچھ کرے گا جس کی ضرورت ہو اور جسے خود وہ مناسب سمجھے،بصورتِ دیگر معالج کوبڑی دشواری پیش آتی ہے  دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثرمریضوں کے ساتھ آنے والے ان کے لواحقین کا بھی یہی حال ہوتاہے کہ وہ اپنے طورپرجوکچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی معالج کوباور کرانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔

 چند ہی ماہ قبل ایک مریضہ کو ہمارے پاس لایا گیا جو گلے کے غدودوں کے بڑھ جانے سے دم گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا تھی  اس کے علاوہ بھی دیگر نسوانی مسائل کا شکار تھی  لڑکی کی عمر 18-19سال تھی اور اس کی شادی طے ہو چکی تھی  اس کیفیت کی وجہ سے اسے غشی کے دورے پڑ رہے تھے جنہیں آسیبی اثرات سمجھ لیا گیا حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا لیکن اس کی والدہ اور دیگر افراد مستقل اسی وہم میں مبتلا تھے اور ہر طرح کی جھاڑ پھونک کا سلسلہ جاری تھا ہمارے پاس آنے کا مقصد بھی کچھ ایسا ہی تھا لیکن جب ہم نے انہیں بتایا کہ اصل معاملہ کیا ہے تو وہ یقین کرنے پر تیار نہ ہوئے  اچھی بات یہ تھی کہ لڑکی کا ایک بھائی ہمارا مستقل قاری تھا اس کی وجہ سے لڑکی کا ہومیوپیتھک علاج شروع ہو سکا اور اللہ کے فضل و کرم سے پندرہ بیس دن میں لڑکی کی حالت بہتر ہونے لگی  اس کا علاج تاحال جاری ہے۔

ایک اورصورت مزید تکلیف دہ یہ ہوتی ہے کہ جب کسی غلط اورجاہلانہ سنی سنائی بات پر بعض لوگ اصرار شروع کردیتے ہیں اور سند کے طورپرکسی جعلی پیرفقیر ‘عامل کامل کی بات پیش کرتے ہیں کہ جناب فلاں صاحب نے تو یہ بتایا ہے اور فلاں صاحب عام طور پر ایک ہی بات بتاتے ہیں یعنی بداثرات  بندش، آسیبی اثر وغیرہ ۔

اسی طرح جسمانی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی بعض اقسام ایسی مشاہدے میں آئی ہیں جن کا علاج نا ممکن نہیں تومشکل ترین ضرور ہے ان میں سرفہرست وہ مریض ہیں جن کی بیماریاں مہینوں یا برسوں میں بے احتیاطی یا غلط علاج کے سبب نہایت پیچیدہ ہوچکی ہوتی ہیں لیکن وہ ان سے جلد ازجلد مکمل طورپرچھٹکارا پاناچاہتے ہیں اوراس سلسلے میں کسی جادوئی اثر رکھنے والی دوا یا تعویز یا عمل ووظیفے کی تلاش میں رہتے ہیں  اس تلاش میں وہ وقتاً فوقتاً لٹتے بھی رہتے ہیں اورغلط سلط دواؤں کے استعمال سے اپنے مرض کومزید بگاڑتے رہتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک خاتون تشریف لائیں،ان کے پاس کئی اسپتالوں اورڈاکٹروں کے نسخہ جات اورمختلف ٹیسٹوں کی رپورٹیں تھیں، عرصہ 10سال سے بہت سے علاج کرانے کے بعد تھک بھی گئی تھیں، تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعدہم نے انہیں بتایا کہ اب تک وہ کتنا نقصان اٹھاچکی ہیں اورآئندہ ان کی بیماریاں انہیں کس راستے پرلے جارہی ہیں، اب بھی اگرانہوں نے صبروسکون اور معقولیت کے ساتھ اپنا علاج نہیں کروایا توان کا ٹھیک ہونامشکل ہوگا۔

 جواباً انہوں نے اپنی بعض مجبوریوں کا ذکر کیا کہ جن کے سبب وہ علاج کے سلسلے میں پابندی سے ہمارے پاس نہیں آسکتی تھیں اور فرمائش کی کہ بس آپ کوئی ایسی دوا لکھ دیں جووہ بازار سے خریدلیا کریں تب ہی یہ ممکن ہے کہ وہ پابندی سے اپنا علاج کرسکیں۔ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں یہ ممکن نہیں ہے اورخصوصاً ایسی حالت میں جوآپ کی ہے۔

یہ صورت حال اکثرخواتین کے ساتھ پیش آتی ہے‘ بعض توکسی ڈاکٹرکے پاس جانے سے بھی معذورومجبور ہوتی ہیں،ان کے گھریلوحالات انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے، نتیجتاً بیماریاں اندرہی اندراپنی جڑیں گہری کرتی رہتی ہیں،یہاں تک کے مریضہ کسی خطرناک حالت میں پہنچ جاتی ہے  تب گھروالے کچھ ہوش میں آتے ہیں اوراسے لے کرکسی اسپتال کے ایمرجنسی سینٹر تک پہنچتے ہیں جہاں ظاہر ہے کہ صرف ایمرجنسی ہی کے تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں، شافی وکافی علاج نہیں ہوسکتا جب مریضہ کی حالت خطرے سے باہر ہوجاتی ہے توچنددوائیں تجویز کر کے اسے واپس گھربھیج دیا جاتا ہے اور پھر وہ دوائیں اکثر مہینوں چلتی رہتی ہیں اور مرض جوں کا توں ہی رہتا ہے۔

 قصہ مختصر یہ کہ ڈھنگ سے علاج نہیں ہوپاتا مگر مریض اوران کے لواحقین یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ علاج ہورہا ہے، ہم ذاتی طورپرایسے مریضوں سے مل چکے ہیں اورملتے رہتے ہیں جومہینوں کیا سالوں عارضی آرام دینے والی دواؤں پرگزارا کررہے ہوتے ہیں۔

مریضوں کی ایک قسم بڑی دلچسپ ہے یہ وہ قسم ہے جس میں مریض خودمعالج بن چکا ہوتا ہے اسے بہت سی ایلوپیتھک  یونانی اورہومیوپیتھک دواؤں کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات ہوتی ہیں اوروہ اپنی اکثرتکالیف میں ضرورت کے مطابق دوائیں خرید کر استعمال کرتارہتاہے  ایک صاحب کا مشغلہ یہ تھا کہ میڈیکل اسٹورز یا یونانی دوائیں بنانے والے مشہور اداروں کے پمفلٹ جمع کر رکھے تھے اور اُس میں دیکھ کر حسبِ ضرورت دوائیں استعمال کرتے رہتے تھے مثلاً نزلے نے شدت اختیار کی توکوئی تیربہ ہدف ٹیبلٹ خریدکرکھالی نزلہ رک گیا  سرمیں دردہوا توکوئی پین کلرکھالی ‘ہاتھ پاؤں  کمر پیٹ الغرض کہیں بھی درد ہوا توپین کلر کھانا شروع کردی جگر اور ہاضمے کی خرابیوں کے لیے بھی ایلوپیتھک اور یونانی پیٹنٹ دوائیں ضرورت کے تحت استعمال کرلیں ایسے ہی ایک صاحب سے جب ہم نے علامتیں لینے کی کوشش کی توبڑی دلچسپ صورت حال سامنے آئی وہ ہمارے پاس بھی اس لیے آگئے تھے کہ جومسئلہ انہیں درپیش تھا اسے حل کرنے میں انہیں سخت ناکامی کاسامنا کرناپڑاتھا یعنی اپنے طورپرانہوں نے جودوائیں بھی ممکن ہوسکی تھیں استعمال کرڈالی تھیں مگر مسئلہ حل نہ ہوا تھا اصل مسئلے کی تفصیل بیان کرنا نامناسب ہوگا ہم یہاں صرف وہ گفتگو بیان کریں گے جوان کے اورہمارے درمیان ہوئی۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ انہیں ماضی میں خصوصی طورپر کون کون سی بیماریاں پریشان کرتی رہی ہیں توانہوں نے جواباً کہاکہ کوئی خاص بیماری جوبہت پریشان کن ہوکبھی نہیں ہوئی۔

ہم نے پوچھا  آپ کے ہاضمے کا کیاحال ہے؟ بولے ٹھیک ہے! بس کبھی کبھی گیس کی شکایت ہوجاتی ہے توفلاں گولی کھالیتاہوں ۔ہم نے پوچھا کہ قبض کی شکایت تونہیں رہتی؟ بولے نہیں اگرکبھی کھانے میں زیادہ بدپرہیزی ہوجائے توقبض ہوجاتی ہے، میں فلاں دوااستعمال کرلیتا ہوں  ویسے بھی میں اسپغول کا مستقل استعمال رکھتا ہوں  ہم نے پوچھا کہ نزلہ توزیادہ نہیں رہتا؟ توجواباً فرمایا ہاں اکثر ہوجاتا ہے مگرمیں فلاں گولی کھالیتاہوں توٹھیک ہوجاتا ہے مگراس کے بعد میرے سرمیں درد ہوجاتاہے اس کے لیے پھرمجھے ڈسپرین کھانی پڑتی ہے الغرض ہرسوال کے جواب میں کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے آرہی تھی اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنا کیا حال بنارکھا ہوگا۔

عزیزان من! اگرمریضوں کی اقسام پربات جاری رکھی جائے توگفتگو کبھی ختم نہ ہوگی اورایسے ایسے روپ سامنے آئیں گے جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہو‘ہم نے ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جنہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی لیکن وہ مستقل بیمار رہتے ہیں اور بیماری کے مزے لوٹتے ہیں۔ ایسے مریض عموماً گھرمیں ماں باپ یا بہن بھائیوں کے بہت زیادہ لاڈلے اورچہیتے ہوتے ہیں یاپھرپڑھائی سے بیزاریاکام دھندے کی مشقت سے راہ فرار اختیارکرنے کے لیے خودکوعجیب عجیب پراسرارقسم کی بیماریوں میں مبتلا کرلیتے ہیں بظاہرجسمانی طورپر توانااورطاقتور کھانے پینے سونے جاگنے اوردیگرتمام اپنی مرضی کے کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں مگر جہاں انہیں ان کی مرضی کے خلاف کسی کام کے لیے کہاگیا اوران کی طبیعت خراب ہوئی اور یہ طبیعت عجیب وغریب طریقے سے خراب ہوتی ہے مثلاً ایک صاحب زادے خوف کی بیماری میں مبتلا تھے اوریہ خوف بھی عجیب وغریب قسم کا تھا۔کبھی ہوتاتھا کبھی نہیں ہوتاتھا کسی وقت توان کے لیے گھرسے باہرنکلنا بھی مشکل ہوجاتا اوروہ کئی کئی روز تک گھرسے باہرنہیں نکلتے پھرخود ہی ٹھیک ہوجاتے اورجہاں مرضی آئے چلے جاتے جس سے چاہے ملتے جلتے مگرجیسے ہی ان پرکوئی ذمہ داری ڈالی جاتی یاکوئی کام ایساان کے سپردکیاجاتاجوان کی پسنداورمرضی کے خلاف ہو تواچانک ان کی طبیعت بگڑجاتی اوران کا خوف دوبارہ بیدار ہوجاتا مثلاً بازار میں دکان دار سے بات کرتے ہوئے ڈرلگنے لگتا  بس میں سفر کرتے ہوئے برابر میں بیٹھے ہوئے آدمی سے خوف آنے لگتا وغیرہ وغیرہ ۔

درحقیقت یہ سارے خوف ان کی کاہلی آرام طلبی اور ایک خیالی دنیا میں رہنے کی وجہ سے تھے بہت اچھے اورکھاتے پیتے بھرے پرے گھرانے سے تعلق تھا اماں بہنیں ہروقت صدقے واری رہتی تھیں لیکن والد خاصے سخت مزاج تھے وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا محنتی جفاکش ہواوریہی کام وہ نہیں کرسکتے تھے لہٰذا ایسی بیماری ایجاد کرلی تھی جس کا کوئی توڑکسی کے پاس نہیں تھا دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی دوائیں کھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے تھے اور اگرزبردستی دوا کھانے پر مجبورکیا جائے تو اس دوا سے ان کی طبیعت مزید خراب ہونے لگتی تھی، تب گھر والے ڈرکی وجہ سے علاج بند کردیتے اور پھر اُس ڈاکٹر کو برا بھلا کہا جاتا جس نے وہ دوا دی تھی۔

گھروالے انہیں ماہر نفسیات کے پاس بھی لے گئے اوروہ چند روز ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں کھاتے رہے مگرپھران ہی دواؤں سے انہیں خوف آنے لگا اورطبیعت بہت زیادہ بگڑنے لگی بلکہ کچھ اورعجیب وغریب حرکتیں انہوں نے شروع کردیں  نتیجے کے طورپر کسی ”سیانے“ کے مشورے پرروحانی علاج کے لیے لے جایا گیا اس علاج سے وہ بہت مطمئن ہوئے کیونکہ اس میں دوائیں نہیں تھیں بلکہ پڑھا ہوا پانی اور نقش وتعویز وغیرہ سے کام لیاجارہاتھا اب صورت حال یہ تھی کہ جب وہ پانی پی لیتے توٹھیک رہتے مگرجب پانی یا تعویذ پلانا بند کردیے جاتے اوروہ بھلے چنگے نظرآنے لگتے توعلاج روک دیاجاتامگرپھر انہیں کام دھندے کی مصروفیات میں ڈالا جاتایا تعلیمی سلسلے کی طرف راغب کیاجاتا تو تھوڑے ہی عرصے کے بعد پھر طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی  الغرض یہ سلسلہ کئی سال تک دراز رہا۔

جب وہ ہمارے پاس لائے گئے توابتدا میں انہوںنے ہمیں بھی چکردینے کی کوشش کی اور ہم نے محسوس کیاکہ ان کی والدہ محترمہ اس حوالے سے ان کی بہت بڑی مددگار ہیں ان کاحال یہ تھاکہ اگر صاحبزادے کوچھینک بھی آجائے تو پریشان ہوجاتی تھیں اوربقول شخصے بھاگیو  دوڑیو پکڑیو کا گھرمیں شور مچ جاتا  فوراً ہی ہمیں ٹیلی فون کھڑکھڑایاجاتاکہ جناب ابھی صبح دوا کھانے کے بعد صاحبزادے اپنے کمرے میں آرام فرمارہے تھے کہ اچانک انہیں گھبراہٹ شروع ہوگئی  جی متلانے لگا اورپھرالٹیاں شروع ہوگئیں یا یہ کہ شام کومسجد سے عصرکی نماز پڑھ کرگھرواپس آئے توشدید طبیعت خراب ہوگئی کیونکہ مسجد میں ایک عجیب وغریب قسم کا نمازی صف میں ان کے برابر میں کھڑا تھا اوران کی طرف باربار گھورتی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہاتھا جس کی وجہ سے انہیں خوف محسوس ہونے لگا گھرپہنچے توسخت گھبرائے ہوئے تھے جسم پرلرزہ طاری تھا اوراب ہلکا پھلکا بخاربھی محسوس ہورہا ہے  بتائیے اب کیا کیاجائے؟

بالآخرہم نے موصوف کا زائچہ بنایاتوساری بات سمجھ میں آگئی اس کے بعدان کے والد صاحب کوبلایا اورانہیں بتادیاکہ آپ کے بیٹے کوآپ کی بیوی مکمل طورپرصحت یاب نہیں ہونے دیں گی  بہترہوگا کہ پہلے ان پرکنٹرول کریں اور بے جا لاڈ پیار بند کریں۔

آئیے اپنے سوالات اور جوابات کی طرف

سرطان میں مریخ
 ایم این آر  لکھتے ہیں” مجھے کسی نے بتایا تھا کہ میرے زائچے کے حساب سے میرے کریئر کے گھر یعنی سرطان میں مریخ بیٹھا ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت مشکلات پیش آتی ہیں  آپ سے درخواست ہے کہ اس کا حل تجویز فرمائیں

 جواب :

اکثر لوگ اسی نوعیت کے سوالات کرتے ہیں کہ کسی نے یا فلاں نے ہمیں یہ بتایا ہے اور اب آپ اس کا حل بتائیں حالانکہ حل بھی اسی سے پوچھنا چاہیے جس نے بتایا تھا دل چسپ بات یہ ہے کہ ”کسی“ کا نام صیغۂ  راز میں رکھا جاتا ہے۔

 پہلی بات تو یہ کہ بتانے والے پتا نہیں کیا کیا بتاتے رہتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ جوکچھ بھی بتا رہے ہوں وہ درست بھی ہو ہمارے معاشرے میں ہر پانچواں شخص ڈاکٹر حکیم  روحانی اسکالر یا معالج بنا بیٹھا ہے  بعض لوگ اپنی سطحی نوعیت کی معلومات کی بنیاد پر بھی دوسروں کو مشورے دیتے اور ان کے مسئلے کا حل بتاتے نظر آتے ہیں ایسی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جب تک کسی شعبے کے مستند ماہر سے رجوع نہ کیا جائے درست رہنمائی نہیں ملتی۔

یقیناًآپ کا زائچہ کسی ایسے صاحب نے بنایا ہوگا جو ابھی خود طفلِ مکتب ہوں گے اورشوقیہ یا تفریحاً یہ کام کرتے ہوں گے  انہیں درست زائچہ بنانا یا اسے پڑھنا بھی نہیں آتا۔

اگر آپ کا زائچہ یونانی یا ویدک سسٹم کے تحت بنایا جائے تو جو وقت پیدائش آپ نے لکھا ہے اس کے مطابق  ہر صورت میں طالع پیدائش یعنی آپ کا پیدائشی برج عقرب ہوگا اور کریئر کا گھر برج اسد ہوگا جس میں مشتری شمس عطارد زحل زہرہ اور راہو  سب اکٹھا ہیں  مریخ ہرگز کریئر کے خانے میں نہیں ہے۔

 اب آپ نے بتانے والی کی بات پر بھروسہ کر لیا اور ذہن میں یہ بات بٹھا لی کہ مجھے جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں  ان کی وجہ مریخ کا کریئر کے خانے میں ہونا ہے  اگر آپ کا وقت پیدائش درست نہ ہو یعنی تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ قبل آپ کی پیدائش ہوئی ہو تو یقیناً طالع پیدائش میزان ہوگا اور طالع پیدائش میزان ہو تو یقیناً کریئر کا گھر سرطان ہوگا اور یونانی سسٹم کے مطابق مریخ برج سرطان میں ہوگا جو اس کا ہبوط کا گھر ہے ایسی صورت میں مریخ زائچے کے دوسرے اور ساتویں گھر کا حاکم ہوگا  اس کی کمزوری سے شادی میں تاخیر ہوگی یا شادی نہیں ہوگی  بیوی اچھی نہیں ہوگی  وہ مستقل بیمار اور خراب فطرت کی مالک ہو گی لیکن کریئر میں خرابیاں اس کی وجہ سے نہیں ہوں گی، دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کا پیدائش کا وقت پندرہ منٹ آگے کا ہو تو آپ کا طالع پیدائش یونانی حساب سے برج قوس ہوگا اور اس صورت میں سیارہ مریخ زائچے کے آٹھویں گھر برج سرطان میں ہوگا جو ہر گز کریئر کا گھر نہیں ہے۔

 آپ نے جو سوال کیا ہے   اس کا جواب تو یقیناً مل گیا ہوگا  مزید آپ نے اپنی مشکلات کی کوئی نشان دہی نہیں کی جن کا حل تجویز کیا جاتا بہر حال سب سے پہلا مرحلہ درست زائچے کا ہے   عام طور پر پیدائش کے وقت میں معمولی سا بھی فرق پورے زائچے کو تبدیل کر دیتا ہے اور یہ ہمارے مشاہدے کے مطابق ایک عام بات ہے  والدین کو عام طور پر بالکل درست وقت یاد نہیں رہتا  اسپتال کے برتھ سرٹیفیکٹ میں بھی اکثر وقت پیدائش کی انتہائی درستی کا خیال نہیں رکھا جاتا لہٰذا کسی ایسٹرولوجر کو زائچہ بناتے ہوئے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے  اسی لیے ہم تاریخ پیدائش  وقت پیدائش کے ساتھ بعض دوسرے سوالات بھی کرتے ہیں تاکہ پیدائش کے وقت کو درست کیا جا سکے اس حوالے سے سب سے اہم سوال صاحب زائچہ کے قد و قامت اور صورت شکل کا ہوتا ہے  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیدائش کا وقت کس حد تک درست یا غلط ہے، اکثر لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ان کے بتائے گئے وقت پر جو زائچہ سامنے آتا ہے وہ اس کے مطابق قدوقامت کے مالک یا صورت شکل کے حامل نہیں ہوتے تو ہم انہیں بتادیتے ہیں کہ آپ کا وقتِ پیدائش درست نہیں ہے   اُن کا جواب یہی ہوتا ہے کہ جناب برتھ سرٹیفکیٹ میں تو یہی لکھا ہے یا والدہ تو یہی بتاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

 اگر آپ کا قد کم ہے یعنی 5فٹ چھ انچ تک ہے تو آپ کا پیدائشی برج عقرب ہوگا اور اگر قد اس سے زیادہ ہے یعنی  5 فٹ آٹھ انچ یا اس سے بھی زیادہ تو پیدائش برج میزان ہوگا  کیوں کہ یونانی یا ویدک سسٹم کے مطابق پیدائشی برج کے ابتدائی درجات یا انتہائی درجات ہمیشہ مشکوک ہوتے ہیں  ان کی درستگی کے لیے قد کے علاوہ زندگی کے اہم واقعات کی تاریخوں پر بھی غور کرنا چاہیے تب ہی ایک درست زائچہ سامنے آتا ہے اور پھر درست رہنمائی ممکن ہوتی ہے اکثر لوگ ان باتوں کی اہمیت نہیں سمجھتے اور عام طور پر اکثر ایسٹرولوجر بھی انہیں اہمیت نہیں دیتے   نتیجے کے طور پر درست رہنمائی بھی ممکن نہیں ہوتی  امید ہے کہ اس قدر وضاحت کے بعد آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی آخری بات یہ کہ جس طرح مختصر انداز میں آپ نے سوال پوچھا ہے   یہ طریقہ بھی نامناسب ہے  اپنے بنیادی مسئلہ کی وضاحت سے نشان دہی کرنی چاہیے کہ آپ کو کون سی مشکلات پیش آتی ہیں؟

شادی خانہ خرابی

یو، ای، ایچ، سرگودھا:
آپ کا دکھ اور غم بجا ہے، بے شک یہ صورت حال ایک وفادار بیوی کے لیے ناقابل برداشت ہے، البتہ آپ کو جو جادو کے اثرات کا شک ہے ، وہ غلط ہے، آپ کا شوہر خود غلط ہے، اُس پرکسی نے کچھ نہیں کرایا، آپ کو دوبارہ واپس جانے کی غلطی نہیں کرنا چاہیے تھی اور اب یہ غلطی ہوگئی ہے تو اسے برداشت کرنا پڑے گا، بہتر ہوگا کہ اس حوالے سے براہ راست فون پر رابطہ کریں،  یہاں کوئی مشورہ دینا ہم مناسب نہیں سمجھتے۔

1 تبصرہ: